اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: توحید کا پیغام پوری انسانیت کے نام !

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 30 October 2019

توحید کا پیغام پوری انسانیت کے نام !

ذیشان الہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
______________________
 ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ توحید وہ قیمتی شئی ہے جس کو جان کر اور سمجھ کر ایک انسان اپنے مالک حقیقی کو جان اور سمجھ سکتا ہے وہ دنیا میں اپنا رشتہ اپنے رب سے مضبوط کرکے ان کی عبادت کرتا ہے اور ان کے نیک اور صالح بندوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرا لیتا ہے ۔اس امید میں کہ اللہ تعالی آخرت میں ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے اور انہیں جنت میں جگہ عنایت کرے ۔کیونکہ یہی وہ بہترین دولت ہے جس کی وجہ کر اللہ تعالی نے جن و انس کی تخلیق کی اور انبیائے کرام کی بعثت کا واحد مقصد اسی توحید کو قرار دیا گیا تاکہ لوگ اپنی حقیقت کو سمجھے اپنے مالک، خالق اور رازق کو پہچانے اور ان کی عبادت اور بندگی سے اپنی زندگی کو مالا مال کرلے ۔حتی کہ اسی توحید کی دعوت کو قبول نہ کرنے کی وجہ کر کبھی نوح علیہ السلام کی قوم کو پانی میں غرق کردیا گیا، تو کبھی ابراہیم علیہ السلام کو اسی دعوت کی وجہ کر آگ کا سامنا کرنا پڑا ۔ کبھی موسی علیہ السلام کو فرعون کی ظلم و بربریت کو سہنا پڑا، تو کبھی آپ صلعم کو اس کی وجہ کر طائف میں پتھر کھانے پڑے ۔تاریخ گواہ ہے کہ بدر و احد جیسی لاکھوں جنگیں موحدین اور مشرکین کے درمیان اسی توحید کو لے کر ہوئیں جس میں بے شمار جانی و مالی خسارہ ہوا ۔
توحید کا معنی و مفہوم :
   توحید یہ باب تفعیل کا مصدر ہے جس کا معنی ہے ایک، اکیلا ،تنہا، منفرد ۔جس کو ہندی میں ایکم کہا جاتا ہے ۔
توحید کی اصطلاحی تعریف :
اصطلاح میں توحید دراصل اللہ رب العالمین کے لئے توحید کے تینوں اقسام کو خاص کرنا ہے اور اس میں کسی طرح کی ملاوٹ اور شراکت سے بچنا ہے ۔
توحید کے اقسام :
  توحید کے تین اقسام ہیں جس کو مندرجہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے
(1)توحید الوہیت : اس کی دلیل سورۃ فاتحہ کے اند موجود ہے "ایاک نعبد و ایاک نستعین "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں "توحید الوہیت کا صاف مطلب ہے کہ ہر طرح کی عبادت صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے اس میں کوئی شخص چاہے وہ کتنا بڑا متقی، پرہیزگار، نمازی، حاجی اور پیر و فقیر ہی کیوں نہ ہو اس کو شامل نہیں کیا جا سکتا ۔قرآن و حدیث کے دلائل اس بات پر دال ہے کہ صرف اللہ رب العالمین کی ہی عبادت کی جائے، اسی سے سوال کیا جائے، اسی سے اولاد، رزق، روزی، برکت، صحت، دولت اور اس جیسی دیگر چیزیں مانگی جائے اسی سے بارش  کے لئے دعا کی جائے غرض یہ کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز صرف اللہ سے مانگی جائے اسے سے ملنے کی امید رکھی جائے یہ اور اس طرح کی دیگر چیزیں توحید الوہیت کے حدود میں آتے ہیں ۔
(2)توحید ربوبیت :توحید کے اقسام میں سے دوسری قسم توحید ربوبیت ہے ۔اس کی دلیل بھی سورہ فاتحہ کے اندر موجود ہے "الحمد للہ رب العالمين "دونوں جہاں کا پالنہار اللہ تعالی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر جتنی ساری مخلوقات ہیں اس کو وجود بخشنے  والا اس کو پیدا کرنے والا اور اس کو ایک متعینہ مدت تک غذا فراہم کرنے والا اللہ تعالی ہے اس لئے چاند، سورج، آسمان، زمین، جن و انس، شجر و حجر ان تمام چیزوں کا خالق ،مالک صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی ذات ہے اس میں کسی کا تصرف نہیں صرف اللہ تعالی ان چیزوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے اس لئے تمام انسانوں کو چاہئے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ ساری مخلوقات اللہ کی دیکھ ریکھ میں زندگی کی سفر طے کررہی ہیں ۔کوئی دوسرا نہ تو اس کا مالک ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کو چند منٹ کے لئے زندہ رکھ سکتا ہے جب اس چیز کا وقت مقررہ آجائے ۔
(3)توحید اسماء و صفات : توحید کی تیسری قسم توحید اسماء وصفات ہے اس کی دلیل بھی سورہ فاتحہ کے اندر موجود ہے "الرحمن الرحیم "کہ رحمن و رحیم یہ اللہ کے صفات ہیں اور یہ انہیں کے ساتھ خاص ہیں ۔اللہ تعالی کے جو اسماء و صفات کتاب و سنت میں بیان کئے گئے ہیں اس کو اللہ کی ذات کے ساتھ لازم و ملزوم سمجھا جائے کسی دوسرے انسان کے ساتھ اس کو چسپاں نہ کیا جائے الا یہ کہ اس کے ساتھ عبد کا اضافہ کردیا جائے جیسے رحمن یہ اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے تو اگر انسان کو اس سے پکارنا ہو تو رحمن سے پہلے عبد لگادیا جائے اور عبد الرحمن اور عبدالرحیم کہا جائے بغیر اضافت کے صرف رحمن اور رحیم کہنا یہ جائز نہیں کیونکہ یہ اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک ہے اور یہ صفت اللہ کے لئے خاص ہے ۔

     توحید کی اہمیت و افادیت اور اس کی حقیقت کے متعلق قرآن و سنت میں دلائل بھرے پڑے ہیں اگر یہ کہا جائے تو کچھ بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ مذہب اسلام کی بنیاد اور جڑ یہی توحید ہے اسی لئے تو اسلام کے ارکان خمسہ میں پہلا رکن توحید کو ہی قرار دیا گیا ہے ۔اسلام کی تعلیمات میں شرک کی کہیں بھی جگہ نہیں بلکہ ایسے شخص کے لئے اسلام جہنم کی آگ کا اعلان کرتا ہے اس لئے قرآن مجید میں ہر آیت اور ہر سورہ میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں توحید کی تشریح ہمیں ملتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر انسانوں نے توحید کے حق کو ادا کردیا تو پھر وہ شخص صلاح و فلاح سے ہمکنار ہوجائے گا ذیل میں چند دلائل درج کئے جارہے ہیں جس کی وجہ کر توحید کا جو پیغام انسانیت کے نام ہے اس کو ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں
(1)سورہ الشوری آیت نمبر 11 میں قرآن نے توحید کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ "لیس کمثلہ شیئ و ھو السمیع البصیر "کہ اس کے مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے ۔اس آیت کریمہ کے مد نظر تمام انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز کو اللہ کے مماثل نہ قرار دے کیونکہ اس دنیا کی کوئی چیز اللہ کے مثل ہوہی نہیں سکتی اور وہ اللہ ہر انسان کی باتوں کو سننے اور ان کے کرتوت کو دیکھنے والا ہے چاہے وہ شخص کسی کام کو دن کے اجالے یا رات کے اندھیرے میں انجام دیا ہو اسے بھی اللہ دیکھ لیتا ہے کوئی کام اللہ کی بصارت سے اوجھل نہیں ۔
(2)سورہ "الطور "آیت نمبر 35 میں قرآن نے لوگوں کو دعوت فکر دیتے ہوئے سوال کیا کہ "ام خلقوا من غیر شیئ ام ھم الخالقون "کہ کیا یہ بغیر کسی(پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے انسانوں سے سوال کیا کہ جو چیزیں تمہارے سامنے دیکھ رہی ہیں کیا یہ خود بخود پیدا ہوگئیں یا اس کا کوئی خالق ہے ۔یقینا ایک حساس ذہن و دماغ رکھنے والا شخص یہ جواب دے گا کہ ان چیزوں کا خالق کوئی نہ کوئی ضرور ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے ۔
(3)سورۃ اخلاص آیت نمبر 3 اور 4 میں قرآن نے اللہ تعالی کی حقیقت کو بتاتے ہوئے اعلان کیا کہ "لم یلد و لم یولد ۔و لم یکن لہ کفوا احد "کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ ہی وہ جنا گیا اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے ۔اس آیت کریمہ کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نہ تو بیٹا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی والد ہے اور اللہ کے برابر کوئی نہیں اس لئے جو شخص یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے یہ باطل عقیدہ ہے جس کی بنیاد اور حقیقت کے متعلق کوئی دلیل موجود نہیں ۔اس لئے اللہ کو ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرہ سمجھا جائے ۔
(4)سورۃ الفرقان آیت نمبر 61 میں قرآن نے اللہ کے بہترین کارنامے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ " تبارک الذی جعل فی السماء بروجا و جعل فیھا سراجا و قمرا "بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج (بڑے بڑے ستارے )بنائے اور اس میں آفتاب اور منور ماہتاب بنایا ۔اس آیت کریمہ میں قرآن نے اللہ کی ذات کو ستارے کا خالق سورج کو روشنی دینے والا قرار دیا جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ ان چیزوں پر تصرف صرف اللہ کا ہے کوئی دوسرا اس میں تصرف کا ذرہ برابر حق نہیں رکھتا ۔
(5)سورۃ الانبیاء آیت نمبر 22 میں قرآن کی یہ آیت موجود ہے کہ "لوکان فیھما آلھۃ الا اللہ لفسدتا "اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور کوئی معبود ہوتا تو آسمان و زمین تباہ و برباد ہوچکے ہوتے "کیونکہ ہر ایک معبود اپنی بات کو بہتر سمجھتا کوئی کہتا کہ آج بارش ہوگی تو دوسرا کہتا کہ نہیں آج دھوپ رہے گی غرض یہ کہ ان میں ہر ایک اپنی من مانی اور اپنی حکومت اور بات چلانے کو لے کر جنگ پر آمادہ ہوجاتے جس کے نتیجہ میں آسمان و زمین تباہ و برباد ہوجاتے ۔
(6)سورۃ الشوری آیت نمبر 13 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا و الذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسی و عیسی ان اقیموا الدین و لا تتفرقوا فیہ "اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تمہاری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم، موسی اور عیسی علیہم السلام کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا ۔اس آیت کریمہ کی روشنی میں تمام انسانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انبیائے کرام کے راستے اور ان کے بتائے ہوئے توحید کی راہ پر گامزن ہو تاکہ ان کا شمار اللہ کے نیک بندوں میں ہوسکے ۔
(7)سورۃ حج آیت نمبر 62 میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ "ذلک بان اللہ ھو الحق و ان ما یدعون من دونہ ھو الباطل و ان اللہ ھو العلی الکبیر "یہ اس لئے کہ حق اللہ ہی کہ ہستی ہے اور جنہیں اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں اور بے شک اللہ ہی بلند مرتبہ بڑائی والا ہے ۔اس آیت میں اللہ کی ہستی کو برحق قرار دیا گیا ہے اس لئے اسی کی عبادت و بندگی کی جائے گی جب کہ اس کے علاوہ جتنے سارے معبودان باطلہ ہیں اس کی عبادت درست نہیں کیونکہ وہ انسان کو کچھ بھی نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
(8)سورۃ نساء آیت نمبر 36 کی دلیل "واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا "اور سورۃ نحل آیت نمبر 36 کی دلیل "و لقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت "اس بات پر دال ہے کہ اللہ کی عبادت میں کسی غیر اللہ کو شریک کرنا بہت بڑا گناہ ہے جب کہ اسی کو واضح کرنے کے لئے ہر امت میں اللہ نے رسول کو بھیجا تاکہ لوگ ان کی بات کو سن اور سمجھ کر حقیقی معبود کے سامنے اپنے سر کو جھکائے اور غیر اللہ کی عبادت سے اپنے آپ کو بچائے ۔
   توحید کے دلائل قرآن و سنت اور اقوال علمائے امت میں بھرےپڑے ہیں جس کا صاف صاف پیغام پوری انسانیت سے یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت و بندگی کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرے، اس کے صفات اور اسماء سے کسی دوسروں کو تشبیہ نہ دے کیونکہ اللہ کے لئے جو چیز ہے اگر اس کا حق کسی دوسرے کو دے دیا جائے یا ایسا عقیدہ رکھا جائے کہ فلاں شخص ،فلاں صاحب ،فلاں پیر ،فلاں فقیر اللہ کے ولی ہیں اور بہت پہنچے ہوئے ہیں وہ یہ یہ کام کرسکتے ہیں جو کام اللہ نے اپنے لئے خاص کئے ہوا ہے تو ایسا عقیدہ یہ شرک ہے اور شرک کرنے والا بغیر توبہ کئے دنیا سے رخصت ہوگیا تو وہ سیدھا ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں جائے گا ۔اللہ ہم سب کو شرک سے بچائے اور توحید کو سمجھنے کی توفیق دے آمین ۔