اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: July 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 31 July 2019

طلاق ثلاثہ کے خلاف بل قابل قبول نہیں!

مفتی  سید محمد عفان منصور پوری استاذ حدیث جامع مسجد امروہہ
_________________
   ھمارا پہلے سے یہ موقف رھا ھے کہ تین طلاق کے خلاف بل نہ صرف یہ کہ شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت ھے بلکہ ملکی قانون اور آئین کے بھی منافی ھے ، یقینا ایک مجلس میں تین طلاق ایک سماجی برائی ھے جس کے خاتمہ کی کوشش سماجی سطح پر  ھونی چاھئے لیکن اس کے لئے کوئی ایسا قانون وضع کرنا جس سے شریعت کے مسلمہ اصولوں پر زد پڑتی ھو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
   حکومت نے اس بل کو منظور کرانے میں جس غیر معمولی  دلچسپی اور عجلت کا اظھار کیا ھے اس سے صاف ظاھر ھوتا ھے کہ مرکزی حکومت کی نیت صاف نہیں ھے آج طلاق ثلاثہ کو نشانہ بنایا ھے کل یہ کسی اور اسلامی قانون میں ترمیم کا جھنڈا لیکر کھڑے ھو جائیں گے ، اگر ان کو واقعۃ مسلم خواتین سے ھمدردی ھوتی تو  علماء کرام اور دانشوران قوم سے بات چیت کرکے اصول اسلامی کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل تلاش کرتے لیکن ان تمام پہلوؤں کو مستقل نظر انداز کیا گیا ، لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے اس بل کے خلاف آواز بلند کی ان کی باتوں پرتو  توجہ دی نہ گئی اور جو مٹھی بھر نام نہاد مسلم خواتین ان کی ھمنوا ملیں ان کو ٹی وی ڈبیٹ کے ذریعہ خوب شھرت دی گئی ۔
   ھم یہ سمجھتے ھیں کہ یہ بل متاثرہ مسلم خواتین کے خلاف ھے اس بل سے ان  کے مسائل میں اضافہ تو ھوگا کمی نہیں ھوگی ، مختلف تضادات کی وجہ سے یہ بل مسلم سماج کے لئے قابل قبول نہیں ھوسکتا ۔
اس موقعہ پر ان نام نہاد سیکولر پارٹیز کا کردار بھی بڑا منافقانہ رھا جنہوں نے راجیہ سبھا سے واک آؤٹ کرکے بی جے پی کی راہ ہموار کی ۔
بہر حال قانون کوئی بھی بنایا جاتا رھے ایک مسلمان کے لئے سب سے اھم اسلامی قانون ھے ھمیں اسی کا پاسدار بننا ھے ھماری نگاہ میں اس سے بالا کوئی قانون نہیں ھوسکتا ۔

سلامی قانون پر طاقت کا تسلط!

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
_______________
اسلام کی پوری تاریخ قربانیوں اور آزمائشوں سے بھری پڑی ہے، ہر دور میں اسلام کا کارواں انہیں سنگلاخ راستوں سے گذرا ہے' جس میں آتش وآہن کی بارشیں مسلسل اور موسلادھار برستی رہی ہیں'، راہوں کے سنگ ریزوں نے انگاروں کی صورت میں اس قافلہ آبلہ پا کے سفر ہرزمانے میں کو روکا ہے،
مگر اس وفا شعار قافلوں کی ہمت و شجاعت اور استقلال واستقامت کے آگے آزمائشوں کی تمام چٹانیں گرد ہوکر رہ گئیں،فرزندان اسلام نے اپنے دین،اپنے مذہب اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے تمدن کے تحفظ کے لئے کبھی تلواروں کے سائے میں اپنے سفر کو جاری رکھا،کبھی دارورسن کو گلے لگایا،کبھی اقتدار کے ایوانوں میں کلمۂ حق کی پاداش میں زندگی کی متاع لٹائی،اور کبھی اپنے خون کی سرخیوں سے مقتل کی پیاسی زمینوں کو سیراب کیا۔۔۔مگر کبھی اسلامی مشن پر آنچ نہیں آنے دی، اسلامی نظام کا سودا نہیں کیا، اسلامی قوانین کے سلسلے میں مصالحت روا نہیں رکھی
وہ اسی طرح بے سروسامانی کے عالم میں،بے کسی کی حالت میں کبھی مال ومتاع کو تج کر،کبھی زندگی کی قربانی دے کر وقت کے سفاک ماحول میں اسلام کے چراغ کو جلائے رکھا، زمانے کی طوفانی ہواؤں میں ایمان کی قندیل روشن رکھی،


ملک عزیز ہندوستان میں ملت اسلامیہ ہند بھی اس وقت شدید امتحان و آزمائش کی راہوں سے گذر رہی ہے،آزادی کے بعد سے ہی ملت کا سفر خاردار راستوں سے گذر رہا ہے لیکن ادھر ایک دہائی سے عصبیت کا طوفان اس قوت سے اٹھا کہ محسوس ہوا کہ اسلامی تعلیمات مسخ ہوکر رہ جائے گی،اسلامی عمارتوں پر جدت طرازیوں اور ہمدردی کے نام پر شب خون مارنے کا سلسلہ چھ سال سے پوری قوت سے جاری ہے'،

آج اس کے قلعے کی دیواروں میں اس وقت شگاف پڑا جب پوری فسطائیت  ملکر شریعت کے عائلی قانون طلاق کے سلسلے میں خود ساختہ قانون مسلط کرنے میں کامیاب ہوئی،ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے'جب سیکولر نظام کے باوجود اسلامی قانون کو مسخ کرکے غیر انسانی لا کو مسلط کیا گیا ہے،باوجود اس کے ملکی قوانین میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر مکمل آزادی حاصل ہے'،

ایک ایسے ملک میں جہاں ہر سو نفرتوں کے شعلوں میں پوری اقلیت جھلس رہی ہو، جہاں معیشت دیوالیہ کا شکار ہو چکی ہو،جہاں بے قصور انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر مار دیا جاتا ہو، جہاں مسافروں کی جان مال محفوظ نہ ہو،جہاں آبادیوں کی آبادیاں سیلاب کا لقمہ بن جایا کرتی ہوں، جہاں عورتوں کی عصمتیں سرعام لٹ جاتی ہوں،وہاں تمام مسائل کو نظر انداز کرکے پوری طاقت ایک اسلامی قانون کی تبدیلی پر مرکوز کردینا،حکومت کی نیتوں پر سوالیہ نشان ہے'،جس کے جواب میں اسلام کے خلاف معاندانہ جذبات،ملت اسلامیہ کے متعلق نظریاتی عصبیت کی چنگاریوں کے علاوہ اور کچھ نہیں مل سکتا۔۔

وگرنہ یہ بات ایک متوسط ذہن کے لئے بھی ناقابل فہم ہے'کہ تین طلاق دینے والا شخص  کورٹ کی نگاہوں میں مجرم بھی ہے'اور تین طلاق کی پاداش میں قید خانے کا سزاوار بھی ہے اور بیوی پر طلاق کا اثر بھی نہیں ہے،
اور جیل کے دوران تین سال تک اس کے بیوی بچوں کی کفالت کی کوئی تدبیر بھی نہیں ہے،

لیکن جب ذہنوں پر عصبیت کے پردے پڑ جاتے ہیں،انتہا پسندی عروج پر ہوتی ہے، تو رواداری کے پرندے وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں'،انصاف ودیانت بے حیثیت اور اصول وضابطے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں، ملک کی دوسری بڑی اقلیت کے خلاف اور سیکولر روح کے خلاف وحشیانہ قانون کا نفاذ درحقیقت انہیں عناصر کا مظہر ہے'جس کا اوپر ذکر ہوا ہے'۔۔۔۔

 ملت اسلامیہ ہند پر اس سے زیادہ سخت آزمائشیں آئی ہیں'،اس سے زیادہ خوفناک موسم درد والم کا سامنا اس قوم نے کیا ہے'،یہ ابتلاء بھی ماضی کے امتحانات کی ایک کڑی ہے'،ایسی صورت میں مکمل بصیرت کیساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے،
 وہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اغیار کی سازشوں کو ناکام بنادے، مسلم قیادت کی اب ذمہ داری ہے'کہ وہ شہر در شہر،قریہ در قریہ قضا کا نظام قائم کرے، وقت کی ستم رانیاں آواز دے رہی ہیں'کہ ملت اسلامیہ اپنی آنکھیں کھولے،حالات کے تیور کو محسوس کرے، خصوصا عائلی نظام کے سلسلے میں،طلاق ونکاح کے مسئلے میں ارباب حل وعقد سے رجوع ہونے کی طرح ڈالے، سرکاری محکموں،حکومتی عدالتوں سے اس مسئلے میں مکمل طور پر کنارہ کش ہوجائے،اگر ملی مسائل کے لئے جگہ جگہ دار القضاء کا قیام عمل میں آجائے ،اور پوری تندہی وجاں فشانی سے مسائل کا تصفیہ ہو اور قوم میں اسلامی تعلیمات پر عمل کا جذبہ بیدار ہو جائے،اور اسی جذبے کے تحت  زندگی کے تمام انفرادی واجتماعی مرحلے میں شرعی مجالس سے خود کو وابستہ کرلے،تو خود بخود اصحاب اقتدار کی منصوبہ بندیاں خاک آلود اور سازشی عمارتیں زمیں بوس ہوجائیں گی۔

Tuesday 30 July 2019

راجیہ سبھا میں طلاق ثلاثہ بل پر کارواٸی شروع!

نئی دہلی(آئی این اے نیوز30/جولائی2019) آج راجیہ سبھا میں طلاق ثلاثہ بل پر بحث شروع ہوگٸ ہے اس بل پر سب سے پہلے مخالفت کرتے ہوۓ جنتا دل یو کے للن سنگھ نے راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوۓ کہا کہ سرکار کو قانون بناکر طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے بجاۓ مسلم عوام اس کے تعلق سے بیداری لاکر ختم کرنے کی ضرورت ہے انہوں ایک مثال بھی پیش کی کہ جس طرح سرکار سوچھ بھارت ابھیان کی تحریک چلارہی ہے اسی طرح اس کو بھی چلانے کی ضرورت ہے انہوں نے سوال کیا کہ سرکار کیوں قانون نہیں بناتی کی جو شخص گھر باہر کوڑا پھینکے گا اس پانج سال کی جیل یا جرمانہ لگے گا ؟ جس طرح آپ سوچھ بھارت ابھیان چلارہے ہیں اسی طرح آپ کو مسلم سماج میں چلاق ثلاثہ بیداری مہم بھی چلاکر اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے آخیر میں انہوں نے واضح کیا کہ ہماری پارٹی اس بل کی مخالفت کرتی ہے.

Monday 29 July 2019

مئوآئمہ میں درس قرآن کا آغاز، کثیر تعداد میں فرزندان توحید کی شرکت!

عبداللہ انصاری
_______________
مئوآئمہ/الہ آباد(آئی این اے نیوز 29/جولائی 2019) الہ آباد ضلع کے متحرک وفعال   نوجوان عالم دین مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی نے مئوآئمہ قصبہ کے محلہ اعظم پور جامع مسجد میں درس قرآن کا اہتمام کا آغاز کیا ہے، جس میں کثیر تعداد میں فرزندان توحید شریک ہوتے ہیں اور اس روحانی مجلس سے فیض یاب ہورہے ہیں، اس موقع پر مفتی فضل الرحمان نے کہا، قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن کاسمجھنا انتہائی ضروری ہے، قرآن ہی سے ہمارے ایمان کے اندر نکھار آئے گا، انہوں نے کہا، درس قرآن کامقصد عوام الناس کے عقائد کے تحفظ کے ساتھ انہیں دین کی اہم اور ضروری تعلیم قرآن کی آیات کے ضمن میں دینا، انہوں نے کہا، آج ہر طرف اہل باطل واہل ھواء سیدھے سادھے مسلمانوں کوراہ حق سے پھیرنے کی ہر ممکن کررہے ہیں، اس لئے موجودہ زمانے میں قرآن کے علوم وفنون سے واقفیت لازم ہے،ورنہ اگرقرآنی علوم سے ناواقف رہے توکسی بھی گمراہی کاشکار ہوسکتے ہیں، مفتی فضل الرحمان نے کہا، صحابہ کرام کے کتب خانہ میں قرآن کے علاوہ دوسری کوئی کتاب نہیں تھی اسی میں غوروفکر کرتے تھے، صحابہ کرام کاایمان قرآن سے بناتھا، انہوں نے کہا، افسوس کامقام ہے کہ آج ہم قرآن سے دور ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ذلت وپستی کا شکار ہے،انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کہ قرآن کے دامن کومضبوطی سے تھام لیں، قرآن کوسمجھنے کی فکرکریں تبھی ہم دنیا وآخرت میں سرخروئی حاصل کرینگے،

موبائل اور انٹرنیٹ کے آداب و اخلاقیات!

ذیشان الہی منیر تیمی
_______________

     لفظ موبائل اور انٹرنیٹ کسی تعارف کا محتاج  نہیں آج کل ہر انسان چاہے وہ جاہل ہو یا عالم وہ  موبائل اور انٹرنیٹ کو  صرف جانتے ہی نہیں بلکہ اس کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔عصر حاضر میں فیس بک ،ٹوئیٹر ،واٹس ایپ اور انسٹاگرام نے موبائل اور  انٹرنیٹ کی پہچان کو نکھارنے اور عروج بخشنے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ان چیزوں کی ایجاد نے جہاں ایک طرف موبائل اور  انٹرنیٹ کی شہرت میں اضافہ کیا ہے وہی دوسری طرف اس کے آداب اور اخلاقیات پر بحث و مباحثہ کو فروغ دیا کہ اسے کس طرح  استعمال کرنا چاہئے ؟ اس کے استعمال کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کے استعمال میں کن کن چیزوں کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے ؟ اس کے استعمال سے کتنا فائدہ ہے ؟
      یہ اور اس طرح کے سوالات ہیں جو آج کل ایک حساس ذہن و دماغ رکھنے والے انسان کے درمیان گونج رہا ہے ۔اس مضمون میں انہیں سوالات کو مندرجہ ذیل نکات کی شکل میں سمجھنے کی کوشش کی جائے گی جس سے واضح ہو جائے گا کہ کس طرح ہمیں اس کا استعمال کرنا چاہئے اور کس طرح نہیں ۔
(1) موبائل اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال نہ ہو ۔
   موبائل اور انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس کا غلط استعمال نہ کرے مثلا کسی لڑکی کو فون کرکے اسے پریشان کرنا یا کسی کو دھمکی دینا ۔بہت زیادہ بلا مقصد اس کو چھیڑ چھاڑ کرکے وقت ضائع کرنا  وغیرہ
(2) تحقیق شدہ ویب سائیٹ سے ہی کوئی ایپس لوڈ کرنا ۔
موبائل اور انٹرنیٹ جو انسان رکھتے ہیں اس کو چاہئے کہ جب وہ کوئی ایپس لوڈ کرے تو متحقق اور اعتماد سے پر ویب سائیٹ سے ہی کوئی ایپس لوڈ کرے ورنہ بہت سارے نقصاندہ سائیٹس ہیں  جو وائرس کو بڑھاوا دیتی  ہیں جو موبائل کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے ۔
(3)کاپی پیسٹ کی بھول ہرگز نہ کرے  ۔
   آج کل بہت سارے لوگ ہیں جو کاپی پیسٹ کرکے سستی شہرت حاصل کرتے ہیں دوسرے کی کتاب اور مضمون کو اپنے نام سے لکھ کر شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب اس کی چوری پکڑی جاتی ہے اور جگ ہنسائی ہونے لگتی ہے تو بہت طرح کا بہانہ تلاش کرتے ہیں اس لئے کاپی پیسٹ اور دوسرے کی محنت کو اپنے نام سے چسپاں کرنے کی بھول ہرگز نہ کرے ۔
(4)برائیوں کے فروغ سے بچے ۔
   آج کل بہت سارے لوگ ہیں جو اس کی مدد سے گندی فلمیں اور گانے کو سنتے ہیں جس کی وجہ کر ان کا اخلاق خراب ہوجاتا ہے اور وہ برائیوں میں بری طرح پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اس لئے اس سے بچنا بہت ضروری ہے ۔
(5)اس کی مدد سے انسانیت میں پھوٹ نہ ڈالا جائے ۔
   آج کل بہت سارے لوگ ہیں جو اپنی شہرت یا پھر سیاست میں قد بڑا کرنے کے لئے نفرت آمیز باتیں یا افواہ سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں جس سے دو دھرم والے آپس میں لڑ پڑتے ہیں اس طرح کا کام کرنے والے ایک تو کمائی کرتے ہیں اور معصوموں کو آپس میں لڑواتے ہیں جس کی وجہ کر سماج میں اختلاف و انتشار کی بو آنے لگتی ہے ۔ ہماری وحدت کو نقصان ہوتا ہے اور ہماری چین و سکون برباد  ہوجاتی ہے ۔
(6)اپنی پوری معلومات ای  میل یا جی میل پے نہ رکھے ۔
     جو شخص اپنی پوری معلومات ای میل یا جی میل پے ڈال دیتے ہیں یا اپنے پریوار کی تصاویر اس پے رکھتے ہیں تو اس کا غلط انجام بھی دیکھنے کو ملتا ہے بہت سارے ہائیکرجو آپ کی آئی ڈی کو ہیک کرکے پھر اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس کو دھیان میں رکھے ۔
(7)لڑکیوں کے موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال پر نگرانی کرے
    اگر آپ کے گھر کی لڑکیاں موبائل و انٹرنیٹ کا استعمال کر رہی ہیں تو اس پر کڑی نگاہ رکھے کہ وہ کس سے بات کرتی ہیں اور کہاں کرتی ہیں کیونکہ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکیاں اس کی وجہ کر اپنے خاندان اور دین و دھرم کا نام رسوا کرتی ہیں کیونکہ پیار اندھا ہوتا ہے جب وہ عشق میں کسی لڑکے کے گرفتار ہوگئیں تو پھر خاندان اور دین و دھرم کی عزت اس کے نزدیک زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اس لئے وقت سے پہلے احتیاط کرنا بہت ضروری ہے ۔
   مذکورہ بالا تمام افکار و نظریات دلائل و بیانات اور نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم موبائل اور انٹرنیٹ کے آداب و اخلاقیات کو سمجھ سکتے ہیں اس لئے اس پر عمل کرنے کی سخت  ضرورت ہے تب جاکر ہم اس محاورہ سے بچ سکتے ہیں ۔اب پچتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ۔

مدارس اسلامیہ ہی دین کے قلعے ہیں: مفتی محمد عباس

شاہ جہاں پور/ باغپت (آئی این اے نیوز29/جولائی2019) بنولی بلاک کے موضع شاہ جہاں پور کے مدرسہ دارالعلوم اشرفیہ میں آج صدر دروازہ کا سنگ بنیاد عمل میں آیا، اس موقع پر تشریف لائے حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب صدر جمعیۃ علماء ضلع باغپت نے اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا اور انہوں نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں انہیں کی وجہ سے آج امت مسلمہ میں شریعت اسلامیہ کا تشخص باقی ہے اور آج باطل پرست طاقتیں مدارس کو بدنام کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں اور ان پر طرح طرح کے آئے دن الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ ان مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان میں پڑھنے والے اور پڑھانے والے دہشت گرد ہیں تو ان کا یہ الزام بےجا ہے، انہوں نے تین طلاق بل پر بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت لاکھ مرتبہ بھی اس بل کو پاس کرالے گی مگر ہم لوگ پھر بھی قرآن کے مطابق ہی عمل کریں گے، اور یہ صرف اور صرف حکومت کا اپنی سیاست چمکانے کا حربہ ہے ورنہ ہمارے ملک کے قانون نے ہمیں شریعت کے مطابق جینے کا حق دیا ہے اور یہ قانون نافذ کرنے کی ناپاک کوشش شریعت میں مداخلت ھے جو حکومت کو بہت مہنگا پڑے گا. اس لیے ہم حکومت ھند کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایسی حرکت کرنے سے باز رہے
اس موقع پر قاری محمد صابر صاحب صدر جمعیۃ علماء تحصیل بڑوت، مفتی محمد یوسف پلڑہ، قاری محمد شاکر صاحب، مولانا محمد غیور، وغیرہ وغیرہ واہل بستی موجود رہے، حضرت مولانا محمد خالد صاحب نے اس گیٹ میں ہر طرح سے تعاون کی بھی اپیل کی، اور آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا

اسلام سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے!

عمران احمد نئی دہلی
_____________
مکرمی!
ہر مسلمان جو الله پر ایمان لاتا ہےاور قیامت کے دن پر ایمان لاتا ہے۔اسے قیامت کے دن بدلے کا خیال رکھتے ہوئے خود کو گناہوں سے بچانا چاہئے.(صحیح بخاری)
ایک نوجوان شخص ایک بار حضرت ابو ہریرەؓ ہفتہ واری حدیث کا بیان سننے گیا۔لیکن ابو ہریرەؓ نے اسے روک دیا۔اگر کوئی جو یہاں بیٹھا ہے جس نے اپنے خاص رشتہ دار سے رشتہ منقطع کر رکھا ہے۔اسے یہاں سے جانا چاہیے اور اپنے رشتے میں جو کشیدگی ہے اسے ختم کرے۔نوجوان نےاپنی چچی کو یاد کیا۔وہ اور اس کی چچی ایک ہی قصبہ میں رہتے تھےتھےلیکن دونوں میں بات چیت نہیں تھی۔نوجوان نے فوراً مجلس چھوڑکر سیدھا اپنی چچی کے گھر کا رخ کیا۔وہ اپنی چچی سے ملا اور اپنے ماضی کے برتاؤ کی معافی مانگی اور مفاہمت کیلئے کہا۔نوجوان کی چچی نے اس کے اس برتاؤ کی تبدیلی کی وجہ پوچھی۔نوجوان نے ابوہریرہؓ کے بیان کے بارے میں بتایا۔اس کی چچی نے اس کی معافی کو قبول کیالیکن اس نے ابو ہریرەؓ کے بیان کے بارے میں پوچھا۔اس سوال کے جواب میں ابو ہریرەؓ فرمایا کہ انہوں نے محمد ﷺ سے سنا تھا کہ ہماری نیکی ہفتے(سنیچر)کی رات کو الله کے حضور پیش ہوتی ہے۔وہ جو اپنی فیملی سے رشتہ منقطع رکھتا ہے تو اس کی نیکی قبول نہیں کی جاتی۔حضرت ابو ہریرەؓ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی مجلس کوئی ایسا شخص بیٹھے جو اپنی فیملی اور اپنوں سے کشیدگی رکھتا ہو۔کیونکہ ابو ہریرەؓ کو خدشہ رہتا تھا کہ اس ایک شخص کی وجہ سے مجلس کے سارے لوگ نیکی سے محروم رھ جائیں گے۔وہ جونفرت اور تشدد پھیلا تا ہے وہ کبھی بھی اس پر الله کی رحمت نہیں ہوگیہوگی اور کبھی بھی وہ ایک سچا مسلمان نہیں بن سکتا۔اسلام شدت سے دوسروں کے تئیں رحمدلی اور شرافت کے ساتھ رہنا سکھاتا ہے۔اور معاشرے میں سب کے ساتھ خوشگوار رشتے بنائے رک

احساس زیاں کافی نہیں احساس عمل بھی ضروری ہے!

 محمد شکیب قاسمی
______________
بر صغیر میں اسلامی روایات کے تحفظ میں مدارس اسلامیہ کا جو کردار رہا ہے اس کی تاریخ سے شاید ہی اہل علم میں کوئی ہو جو ناواقف ہو، نیز معاشرے کی دینی ضروریات کی تکمیل میں مدارس کا حصہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارے یہ مدارس مسلمانوں کے اس تاریخی اور روایتی نظام تعلیم کا تسلسل ہیں جس سے ہماری درخشندہ علمی روایات وابستہ ہیں، موجودہ دور میں جہاں بہت سے جدید چیلینجز سے ہمارا سامنا ہے، اور جہاں مسلمانوں کی مختلف اقدار وروایات اس وقت اپنے نازک ترین دور سے گزر رہی ہیں، ایسے میں مدارس کا مسئلہ بھی بڑا سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے، حیرت اس امر سے ہے کہ ہماری جانب سے ان موضوعات پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے یا کم از کم جیسی توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہے، یہ انفرادی سطح کا نہیں بلکہ ہمارےاجتماعی کاز کا مسئلہ ہے، مختلف جزوی مسائل پر تو ہماری توجہ بھر پور ہے لیکن جو مسئلہ نہایت حساسیت کا حامل ہے اس پر ہمارے حلقے میں کوئی خاص سگبگاہٹ نہیں ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ان امور کی جانب سنجیدگی ومتانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر مثبت ایپروچ کے ساتھ غور وخوض کیا جائے، اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کے ہم اپنا جائزہ لیں اور مسائل کی نشاندہی کریں، کیونکہ اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مسئلہ کو سمجھا جائے اس کے بعد ہی اس کے حل کی جانب کچھ گفتگو آگے بڑھ سکتی ہے، بلا ادراک  مسائل ان کے حل کی کاوش یہ ظاہر بات ہے ایک بچکانہ کوشش سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔

 مدارس کے حوالے سے ذیلی مسائل آئے دن ہمارے سامنے آرہے ہیں اور مختلف نوعیتوں سے گفتگو کا مرکز بنے رہتے ہیں، کہیں تعلیمی انحطاط پر گفتگو ہے، کہیں تربیتی نظام پر سوالات، کہی کثرت مدارس کا شکوہ ہے تو کبھی مدارس میں افتاء وقضاء کے شعبوں کی بہتات کا مسئلہ (جس کے نتیجہ میں مدارس کی شبیہ اور ان کے اعتماد کو انتہائی درجہ نقصان ہو رہا ہے)، کہیں نصاب پر گفتگو ہے تو کہیں دوسرے امور پر تبادلہ خیال جن میں بہت سے امور اخلاقیات اور معاشرت کے باب سے متعلق ہیں، ایک عرصے سے اہل خرد حضرات کی جانب سے اس پر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسباب ووجوہات ہیں کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی تعداد  فکری طور پر انحطاط کا شکار ہے؟ (یہ ظاہر ہے عمومی وضع کا بیان ہے، البتہ ایک تعداد کم ہی صحیح وہ پختہ فکر بھی نکل رہی ہے) ان تمام مسائل کے سنجیدہ حل کے لئے ہمیں ان کی تہہ تک پہنچنا ہوگا، ایک طبقہ اس بات پر بہت فکر مند ہے کہ مدارس کے طلبا میں عمومی سطح پر تعلیمی ذوق کا فقدان ہے، ایسے میں جو کھیپ سامنے آرہی ہے وہ اپنے علمی، تربیتی واخلاقی نقطہ نظر سے ماضی کی مناسبت سے کہیں کمتر ہے، اور اس کے تناسب میں عدم توازن تشویشناک حد تک پہنچ رہا ہے، ظاہر ہے مدارس کے بنیادی مقاصد میں تعلیم وتربیت اہم ترین مقاصد میں شامل ہیں، لہذا اس حد تک ان امور میں گراوٹ کا پایا جانا یہ اپنے میں بہت سے سوالات کھڑے کرتا ہے، اس پر تشویش کا ہونا ہر ذی ہوش کی جانب سے امر معقول ہے، ایسے میں مدارس کا تعلیمی اسٹرکچر خود سوالات کے گھیرے میں ہے کہ آیا ایسا پروڈکٹ جو اپنی افادیت کے تناظر میں اس درجہ زوال کا شکار ہے اتنی کثیر تعداد میں کیسے منظر عام پر آرہا ہے؟ اس کے کیا اسباب ہیں؟ اور اس کے تدارک کے لئے کیا ممکنہ صورتیں ہیں؟ اس تشویش میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب ان امور کی اصلاح کی جانب خاطر خواہ پیش رفت دکھائی دیتی محسوس نہیں ہوتی، جہاں تک ان مدارس کی افادیت کا تعلق ہے اس سے انکار کرنا یقینا ممکن نہیں ہے، یہ حقائق سے انحراف کئے جانے کے مترادف ہے، یہاں گفتگو مستقبل میں اس افادیت کو برقرار رکھنے کی ہورہی ہے، اور موجودہ زمانے میں جہاں نت نئے مسائل ہر آن وہر لمحہ وجود میں آرہے ہوں ایسے میں مدارس کے فضلا کا کیا کردار ہو اور مستقبل کا منشور کیا ہونا چاہئیے جس سمت پر چل کر اس کی افادیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔

نفسیات کا ایک مسلمہ اصول ہے، اس کی رو سے ہر پچاس وسو سال کے درمیان پر کم وبیش افراد انسانی کی نفسیات، مزاج، ذوق، انداز فکر ونظر اور رد وقبول کے معیارات میں واضح تبدیلی کا آنا ایک بدیہی امر ہے، ظاہر ہےیہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اور مسلمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا، ایسے میں ان اہم امور کو نظر انداز کرنا اور ان سے نظریں پھیر لینا بے جا معلوم ہوتا ہے، اس کا اثر ظاہر ہے کہ اس زمانے میں موجود طلبہ مدارس کی نفسیات پر پڑنا ایک معقول بات ہے، لہذا ضروری ہے کہ ان مسائل کا حل پیش کرتے وقت ان حقائق کو بھی سامنے رکھا جائے، آپ کتنی ہی رکاوٹیں لگائیں ایسےمیں جو چیزیں پہنچنی ہیں وہ اپنی تمام تر مضرات کے ساتھ ہمارے درمیان آکر رہینگی، ایسے میں اہم ترین امر ہے کہ طلبہ کی فکری پختگی اور تربیت پر بالخصوص توجہ دی جائے، یہ کام انفرادی سطح پر تمام ہی ادارے اپنی بساط کے مطابق انجام بھی دےہی رہے ہیں، البتہ ہمیں اگر معاصر دنیا سے ہم آہنگ ہونا ہے، اور اپنا علمی وجود اپنی حسین روایات کےساتھ دنیا کو تسلیم کرانا ہے تو ہمیں زمانے کی رفتار کو سمجھنا بھی ہوگا اور اس کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بھی بڑھنا ہوگا، واضح کرتا چلوں "آگے بڑھنے“ سے مراد اپنی اقدار وروایات سے سمجھوتہ ہرگز نہیں ہے، بلکہ ان روشن روایات کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس کی سبیل پر غور کیا جانا چاہئے، البتہ یہ جبھی ممکن ہوگا کہ آپ بھی اسی رفتار سے سوچیں جس رفتار کے ساتھ آپ کی معاصر دنیا سوچ رہی ہے ( یعنی وہ معاصر نظام تعلیم جو آج کی دنیا میں اپنا علمی تشخص رکھتا ہے، اصل آپ کا علمی مقابلہ انہی کہ ساتھ ہے، کیونکہ ان کے مکمل  نظام ہائے تعلیم کی اساس لبرل ازم، حریت پسندی اور فکری ارتداد پر ہے جبکہ آپ کا نظام تعلیم توحید کی مضبوط بنیادوں سے جڑا ہے) تبھی جاکر آپ اپنے مسائل کا حل اپنی منشا کے مطابق پیش کر پائینگے، ورنہ ہر چہار جانب سے مداخلت ہوگی اور اس کو ہم بہت زیادہ عرصے تک شاید نہ روک پائیں، ایک وقت آئے گا جب پانی سر سے اوپر جا چکا ہوگا، لہذا اس کے لئے ہمارے پاس بہترین منصوبہ بندی اور مئوثر ورک پلان موجود ہونا چائیے جن پر عمل کر کے ہم وقتا فوقتا اپنی خود احتسابی کرتے ہوئے اصلاح کا کام انجام دے سکیں۔

نصاب تعلیم کا مسئلہ ایک عرصہ ہوا بہت پرانا ہوا، اس وقت میرے حساب سے وہ اس معنی کر غیر مفید ہے کہ چند کتابوں کی تبدیلی سے ہمارے پیش آمدہ مسائل اور تحدیات کا حل نکلنا ممکن نہیں، ایک وقت تھا اس پر بہت بات ہوئی مختلف زاویہ فکر رکھے گئے، متعدد نظریات سامنے آئے، فریقین نے اپنی بات مدلل انداز سے پیش بھی کی، البتہ اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ نصاب سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے، جو مسائل اور کمی ہم اپنے حلقوں میں محسوس کر رہے ہیں اس کا تدارک نصاب کی تبدیلی سے قطعا ممکن معلوم نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے لئے آپ کو باضابطہ ایک مکمل منشور بنانا ہوگا، کیونکہ اب مسئلہ ہمارے پورے نظام تعلیم اور اس کے اسٹرکچر کا ہوگیا ہے، جب ہم نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں اس ضمن میں نصاب تعلیم زیر گفتگو آئے گا، منہج تدریس پر بھی بحث ہوگی، فکری واخلاقی تربیت وغیرہ کا بھی تذکرہ ہوگا، ظاہر بات ہے ان سب کے تانے بانے آپس میں بنیادی طور پر تعلیم ہی سے مربوط ہیں، اگر اس کے لئے مضبوط حل دیا جائے گا تو بہت سی خرابیاں جو مدارس میں در آئی ہیں ان کا ازالہ خود بخود ہو سکتا ہے، جس سطح پر اس وقت ہمارے یہاں مسائل ہیں اس کا حل اگر کوئی میری نظر میں ہے تو وہ ہے ”نظام تعلیم کا سینٹرلائزیشن“، یعنی ایک مرکزی تعلیمی (غیر سرکاری) بورڈ/وفاق/باڈی کا نظام، جو تمام مدارس کے تعلیمی امور کی نگہ داشت کے ساتھ اس کے لئے تعلیمی لائحہ عمل بھی تیار کرے، یہ بات ہورہی ہے تعلیمی وفاق کی، ہمارے درمیان ایک عرصے سےمادر علمی دارالعلوم دیوبند کا رابطہ مدارس موجود ہے، البتہ وہ سردست جس سطح پر کام کررہا ہے اس کو انتظامی سطح ہی تک محدود کہا جا سکتا ہے، جبکہ اس میں بھی مزید اصلاحات کی ضرورت ہے، مطلوبہ تقاضوں کو کاغذی پیراہن سے نکال کر ٹھوس اور قابل عمل صورت کا زمینی سطح پر لانا ناگزیر ہے، میری ناقص رائے میں رابطہ مدارس کی افادیت میں تبھی اضافہ ہوگا جب متحرک تعلیمی وفاق یا تعلیمی بورڈ بنے، یہ کام رابطہ مدارس بھی بہت اچھے پیمانے پر انجام دے سکتا ہے، بہرحال اس تعلیمی وفاق سے داخلی اور خارجی دونوں ہی طرح کے فوائد حاصل ہو سکتے  ہیں۔
داخلی سطح پر اس منتشر تعلیمی نظام کو سمیٹنے کے لئے یہ اقدام نہایت ضروری واہمیت کا حامل ہے، تاکہ مدارس کی ایک ایسی باڈی تشکیل پائے جس کے سامنے تمام مدارس مسئوول اور جواب دہ ہوں، اور مکمل نظام تعلیم کی باضابطہ مانیٹرنگ کمیٹی (Monitoring Committie) تشکیل دی جائے، جو اس کی مکمل نگہ داشت کرے، اس کے اپنے کچھ اصول وضوابط ہوں جن کا پاس و لحاظ ہر درسگاہ کے لئے ضروری قرار پائے، اور ان نارمس اور ضوابط کی بنیاد پر ان مدارس کے تعلیمی اسٹرکچر کو منظوری ملے، جس میں وقتا فوقتا ایک متعینہ دورانیہ کے بعد تجدید کا مرحلہ بھی رکھا جائے جو سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر منحصر ہو، یہ جز وقتی کام نہیں ہوسکتا اس کو مکمل انہماک کے ساتھ باضابطہ طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے، کوشش کی جائے سرکاری سطح پر اس تعلیمی باڈی کی اسناد کو کسی بھی حیثیت سے منظور کرایا جائے (یہ ناممکن نہیں ہے، حکومت گزشتہ دو دہائیوں سے ان جیسی مختلف تجاویز پر بات بھی کررہی ہے، اور ٹیبل پر آنے کی دعوت بھی دے رہی ہے، حکومت کی اس بابت نیت سے قطع نظر قبل اس کے کہ ان کی جانب سے کوئی یک طرفہ پیش رفت ہو، اور کوئی چیز نافذ العمل قرار دے دی جائے جو اپنے رطب ویابس کے ساتھ ہمارے اوپر لاگو ہو، ہمیں چاہئے کہ ہم اپنا متبادل نظام  پیشگی تیار کریں، ورنہ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اور انجام ہم سب کے سامنے ہے، بہتر ہوگا ہم اس کا متبادل ان سے پہلے لے کر پہنچیں اور اس کو پوری قوت کے ساتھ منظور کرانے کی جد وجہد کریں) پھر علیحدہ علیحدہ منظوری کی ایک تو ضرورت نہیں رہتی نیز اس کے ذریعہ تمام مدارس کی کسی نہ کسی سطح پر (کم از کم اخلاقی سطح پر ہی سہی) ذمہ داری بنے گی کہ وہ اس باڈی کا حصہ ہوں اور اس سے جڑیں، کیونکہ اگر اس باڈی کو عوامی سطح پر اعتماد حاصل ہوا (ظاہر ہے یہ جب ہی ممکن ہے کہ کسی نہ کسی درجہ میں مدارس ومراکز اس کی بالادستی کو قبول بھی کرلیں) تو کہیں نہ کہیں آگے جاکر مدارس کے لئے اس کا رخ کرنا ضروری ہوگا (یہ اخلاقی درجہ کی بات اسلئے کہی جا رہی ہے کہ اس ملک میں یہ بہت مشکل ہے کہ آپ اس کو غیر سرکاری رکھتے ہوئے قانونی طور پر اس کو یہ بالادستی دلانے میں کامیاب ہوں کہ اس سے منظوری لئے بغیر مدرسوں کا قیام ممکن نہ ہو سکے، ظاہر ہے حکومت کسی بھی غیر سرکاری ادارے کو اتنی بالادستی نہیں دے سکتی اور اس کو کبھی اس سطح پرقبول نہیں کرے گی البتہ اخلاقی سطح پر اس کو نافذ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ملک کی مرکزی درسگاہوں کا اعتبار اس کو حاصل ہو)، مسئلہ یہ بلکل نہیں ہے کہ اس کا انتظامی اسٹرکچر کیا ہونا چاہئیے کون اس کی قیادت کرے، ظاہر ہے یہ مشترکہ بورڈ ہو جس میں ملک کے تمام مرکزی اداروں کی نمائندگی رکھی جا سکتی ہے، (ویسے اس کے انتظامی اسٹرکچر پر بحث میرے موضوع کا حصہ نہیں ہے)، اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ غیر سرکاری باڈی ہونی چاہئے، تاکہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں شفافیت وانضباط تو لائینگے البتہ خارجی مداخلت سے بچے رہینگے، اس کا نظام اور عوام میں اس کا اعتبار قائم ہو جانے کے بعد رفتہ رفتہ مدارس کے لئے اس سے جڑنا ضروری ہو جائے گا، اس میں دو رائے نہیں ہے کہ یہ امر وقت طلب ہے لیکن یہ کام ہو سکتا ہے، وفاق المدارس پاکستان کا کامیاب ماڈل ہمارے سامنے ہے، کسی بھی ادارےکو قبل از منظوری قیام کی اجازت نہیں ہوگی (یہ پابندی اخلاقی سطح ہی کی سہی)، نیز جو ادارے اس سے مربوط ہوں ان کے تعلیمی مستوی کا فیصلہ یہاں کی منظوری کے بغیر ممکن نہ ہو (یعنی جہاں جیسی ضرورت ہے: ادارے کا انفراسٹکچر، طلبہ کی تعداد، اساتذہ کی تعداد اور دیگر بعض ناگزیر امور طے کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا جانا چاہئے کہ کس درجہ تک یہ ادارہ ہونا چائیے، تخصصات شامل کرنے ہیں یا نہیں)، اس سے آپ کے تمام مدارس آپس میں ایک تو مربوط ہونگے، اسی کے ساتھ کسی ایک مرحلے میں آکر سینٹرالائز امتحان کا نظم بھی ہو، جس میں بشمول چھوٹے بڑے تمام متعلقہ مدارس کے طلبہ شرکت کریں، جس سے علمی بنیادوں پر تنافس ان اداروں کے درمیان قائم ہوگا، جب تک ہم باہمی علمی تنافس قائم نہیں کرینگے تب تک علمی کارکردگی میں خاطر خواہ تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملینگی، یہ انسان کی فطرت ہے کہ تنافس کے وقت انسان اپنی تمام تر توانائی بروئے عمل لاتا ہے جس سے کہ بہتر سے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسے میں اس جانب خصوصی توجہ رہے گی وہ بھی اپنے تعلیمی اسٹرکچر کو ہر سال پیش آمدہ احوال ومسائل اور حاصل کردہ علمی نتائج کے تناظر میں داخلی سطح پر منظم ومنضبط کرنے کے لئے کوشاں رہے گی، اس کا مقصد صرف اور صرف تعلیمی معیار کی بلندی ہونا چائیے اس سے زیادہ اس کا مقصد نہیں ہے، یعنی کہ انتظامی امور جو کہ بعض ادارتی سطح کے ہیں ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا اور بعض وہ انتظامی امور جو سرکاری نوعیت کے مطالبات ہیں ان کو حکومت کے متعینہ ضابطوں پر چلانا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ملکی قوانین کا معاملہ ہے، یہاں بنیادی طور پر زیر بحث تعلیمی نظام ہونا چاہئیے جب تعلیمی وفاق ہوگا اور سب چیزیں پبلک پورٹل پر عوام کے سامنے ہونگی یعنی دن رات کی تعلیمی کارگزاریاں ایسے میں اس کے مثبت اثرات انتظام پر بھی یقینا مرتب ہونگے، ہر ادارہ چاہے گا اپنی کارکردگی کو بہتر سے بہتر طریقے پر انجام دے بالخصوص تعلیمی کارکردگی پر سنجیدہ ارتکاز میں اضافہ ہوگا تاکہ عوامی سطح پر بھی ادارہ نیک نامی حاصل کر سکے۔

اسی طریقے سے ضرورت ہے کہ ان مدارس کو باہمی طور پر تحقیقی ذوق سے بھی جوڑا جائے، اس کے لئے مختلف درجات ہونے چاہئیں یعنی درجہ بندی کی جانی چاہئیے جیسے جامعات میں ہوتا ہے، کہ یونیورسیٹی میں الگ الگ نوعیتیں ہوتی ہیں، کسی کو اگر ریسرچ یونیورسیٹی کا درجہ حاصل ہوتا ہے تو وہ اس کو برقرار رکھنے میں کوشاں رہتی ہے تو کوئی اس کو حاصل کرنے کے لئے فکر مند ہوتے ہیں، ایسے میں مجموعی اعتبار سے ادارے کی کارکردگی بہتر رہتی ہے، اگر مدارس میں بھی اس نوعیت کی کوئی درجہ بندی کی جائے تو یقینی طور پر اس کے مفید ثمرات ظاہر ہونگے، مثلا:  تخصصات کا فیصلہ ادارے کی مجموعی کارکردگی کو دیکھ کر کیا جائے، کارکردگی کی بنیاد پر مدرسہ کو اجازت دی جائے پھر اس کو  برقرار رکھنے کے لئے ان کو اس معیار کے تسلسل کو بھی باقی رکھنا ہوگا، تعلیمی ماحول میں اس مثبت تبدیلی سے خود بخود مزاجوں میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوجائے گی، پھر آپ کو مدارس کی کثرت اور معیار تعلیم کے انحطاط کے فکر کرنی کی ضرورت نہیں ہوگی، بلکہ یہ باڈی ان امور کو مسلسل انجام دے گی، اس طے شدہ مستوی کو برقرار رکھتے ہوئے مدرسہ جس کو چلانا ہے چلائے، بصورت دیگر ان کی منظوری متاثر ہو سکتی ہے علاوہ ازیں ارباب خیر بھی اس جانب یقینا متوجہ رہینگے، کیونکہ مدارس کا بنیادی مقصد تعلیم ہے تو اسی کسوٹی پر ان کو پرکھا جائے گا کہ کون کس درجہ اپنے مقصد میں کامیاب ہے، اور اس سے مالیات کی یافت میں بھی ایک توازن قائم ہوگا۔
اسی کو آگے بڑھا کر آپ افتاء وقضاء کے مسئلہ کو بھی حل کرسکتے ہیں، کہ جو آئے دن ہمارے سامنے سنگین مسئلہ کی صورت اختیار کرتا جا رہا  ہے، کہ ہر شخص بلا کسی رکاوٹ ان امور کو انجام دے رہا ہے اور آئے دن مارکٹ میں نئے نئے ادارے وجود میں آرہے ہیں، جس نے جیسے چاہا اس کو کھول لیا، جب ایک باڈی ہوگی جس کی کسی بھی درجہ نظام پر  بالادستی ہوگی تو مسئوولیت قائم ہوگی اور ہر کس وناکس اس کی جسارت نہیں کر سکے گا، اس کے لئے بھی بورڈ ان کی علمی کارکردگیوں کی بنیاد پر منظور کرے گا کہ کونسا ادارہ تخصصات کے کن شعبہ جات کے کھولنے اور چلانے کا مجاز ہے۔ اس سے مدارس میں ناپید ہوئے تحقیقی ذوق کا بھی احیاء ہوسکتاہے، کیونکہ میری نظر میں تمام تر خرابیوں کی جڑ تعلیمی ذوق کا کم ہونا یا ختم ہوجانا ہے (یہ بات عمومی صورتحال کو سامنے رکھ کر کیجا رہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ سب کا یہی حال ہے، لیکن تناسب ۱۰ فیصد بھی شاید نہ ہو، ایسے میں اس کو نا ہونے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے)، اگر ہم کسی بھی طریقے پر تعلیمی ذوق کو بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بہت سے مسائل کا حل از خود نکل سکتا ہے، جب  طلبہ علمی کارگزاریوں میں اپنا وقت صرف کرینگے تو فطری طور پر اس سے متعلقہ تمام تر اوصاف کا ظہور ان کی شخصیات میں ہونا شروع ہوجائے گا، نیز ہم دنیا میں موجود تعلیمی مراکز کے سامنے اپنا علمی تشخص بھی قائم رکھ سکینگے اور اپنے میدان میں علمی خدمات بھی نمایاں طریقے پر انجام پائینگی، اسی سے ہمارے درمیان ایسے افراد بھی نکلینگے جن کو آپ معاصر علمی درسگاہوں کا رخ کر واسکتے ہیں اور عالمی مقامات پر وہ نمایاں خدمات انجام دے سکیں گےاور دین اسلام کا صحیح پیغام جامع اور مستحکم انداز سے عالمی سطح پر پیش کر سکینگے، اس پر یہ سوال کرنا میرے حساب سے بے محل ہے کہ ماضی میں ہمارے بڑے تو بغیر اس قسم کے کسی نظام یا بندش کے وجود میں آئے، اور اس کی ضرورت پہلے کیوں نہیں محسوس کی گئی؟ کیونکہ اس جانب میں نے شروع ہی میں اشارہ کیا تھا کہ نفسیات، ذوق، دلچسبیاں، ترجیحات، ماحول سب کچھ بدل گیا ہے، اس کا اثر ہمارے مدارس پر بھی پڑا ہے اور پڑے گا آپ خواہ اپنی دیواریں کتنی بلند وبالا کیوں نہ کرلیں، اسلئے ایسے میں اگر ان پیچیدہ اور بنیادی مسائل کا حل ہے تو وہ صرف علمی ذوق کو بیدار کرنا ہے، اس کے لئے ایک سبیل کی حد تک یہ ایک رائے ذہن میں آتی ہے، کیونکہ معاصر درسگاہوں میں  یہ طریقہ کار مجرب ہے CBSE Board, ICSE Board ودیگر علاقائی بورڈ موجود ہیں جو تعلیمی نگہ داشت کا کام انجام دیتے ہیں یہ اگرچہ حکومتی سطح کے ادارے ہیں اور ہم یہاں پر بات کر رہے ہیں غیر سرکاری وفاق کی، ان کی تعلیمی کارکردگی تمام تر اخلاقی گراوٹ کے باوجود اپنے مقاصد کی روشنی میں اسی لئے بہتر ہے کہ ان اداروں کی ایک تو مانٹرنگ ہے اور دوسرے ان کے درمیان باہمی تنافس ہے، ہر ایک سبقت لے جانے کے اصول پر کاربند ہے کہ کیسے اپنے آپ کو نمایاں طور پر پیش کرے، اپنے ادارے کی کارکردگی کو کس طریقے سے منظر عام پر لائے، اس کے لئے وہ اپنے نظام کے مطابق علمی کارکردگی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں، ہمارے یہاں مذہب اسلام میں اخلاقیات کے مستحکم ومنضبط اصول موجود ہیں امید ہے اس علمی ماحول کے پیدا ہونے کے نتیجہ میں اس میں بھی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، جبکہ خود پڑوسی ملک پاکستان میں اس کی شاندار نظیر موجود ہے وہاں وفاق المدارس (جو کہ غیر سرکاری وفاق ہے) جس طریقے سے ان امور کو انجام دے رہا ہے، اس سے بھی راہنما اصول وضوابط اخذ کئے جا سکتے ہیں اور یہاں کے مقامی احوال و کوائف کے تناظر میں مثبت تبدیلیوں کے ساتھ ایسا قابل عمل منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے، یہ مربوط تعلیمی نظام وہاں سن ۱۹۵۹ سے قائم ہے، جس کی نظیر ابھی شاید ہی کسی اور ملک میں ملے۔
جہاں تک خارجی مسائل ہیں وہ بھی بڑے سنگین ہیں، جس کے لئے اس طرف پیش رفت ضروری ہے قبل اس کے کہ آپ پر کسی غیر مطلوب نظام کو بالجبر قانونی دوائر میں رکھ کر آپ کی داخلی وخارجی مصالح کے برخلاف مسلط کیا جائے اور تھوپا جائے، وقت رہتے آپ اس کا متبادل تلاش کریں ورنہ وہ وقت دور نہیں ہے کہ آپ پر حکومت کی جانب سے اس قسم کی پابندیان عائد ہوں اور یہ بعید از قیاس بھی نہیں ہے کہ اس طرح کے کسی نظام کے ساتھ مربوط کیا جائے، اس لئے بہتر ہے کہ از خود اس کے متبادل نظام کی ترتیب بنائی جائے، اور اس کو اپنے مدارس کے تعلیمی وتربیتی نظام کی افادیت واستحکام کے لئے استعمال کریں، یہ بات جو کہی جا رہی ہے اس کے پیش نظر میرے سامنے حکومت کی جانب سے مجوزہ تعلیمی پالیسی (National Education Policy Draft) ہے، تعلیمی پالیسی ملک میں وقتا فوقتا اپنی جزوی ترمیم کے ساتھ لاگو ہوتی رہی ہے، آج سے پہلے بھی کئی مرتبہ ملک کے تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے تعلیمی پالیسی میں مختلف سطح پر تبدیلیاں لائی گئی ہیں، اور ان تجاویز پر مختلف مراحل میں غور بھی ہوا ہے، سب سے پہلے سن 1968 میں تعلیمی پالیسی بنائی گئی، پھر اس میں سن 1986 میں مزید کچھ اصلاحات ہوئیں، سن 1992 میں اس موضوع پر مزید نظر ثانی کی گئی، اور پھر گزشتہ حکومت کی جانب سے سن 2005 میں اس موضوع پر کام ہوا، اب 2019 کی مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی زیر بحث ہے، جس کو ڈاکٹر کستوری رنگن صاحب کی زیر نگرانی مختلف ماہرین کی شمولیت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے، جس میں ملک کے تعلیمی نظام میں جہاں بہت سی اصلاحات کی بات کہی گئی ہے اور اس کے لئے مختلف ماہرین سے تجاویز بھی طلب کی گئیں ہیں، وہیں عمومی سطح پر تعلیم کو ایک سیاسی ادارے کے ما تحت کرنے کی بات بھی کہی جا رہی ہے، یعنی پی ایم او کے ما تحت کیا جا رہا ہے جس کے معنی ہیں کہ وہ ایک سرکاری آفس کے ما تحت کام کرے گا، آج سے پہلے اس کی نوعیت اس سے مختلف تھی، ظاہر ہے اس کے اثرات کا ان مدارس پر پڑنا بعید از امکان نہیں کیونکہ بہر حال ہم سب اس ملک کے باشندے ہیں ایسے میں جو اسٹرکچر نافذ ہوگا اس کا اثر اقلیتوں کے تعلیمی نظام پر بھی دیکھنے کو ملے گا، مدارس کے تعلق سے بھی بعض تجاویز کا اس میں تذکرہ ہے، جس میں مدارس کے لئے جو نکات زیر غور ہیں وہ بہت حد تک متنبہ کرنے کے لئے کافی ہیں، بالخصوص مدارس ودیگر مذہبی درس گاہوں کے تعلق سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اس کو قومی دھارا سے جوڑا جائے اور اس کو یقینی بنایا جائے، رپورٹ کے الفاظ کچھ یوں ہیں ”Existing traditional or religious schools, such as madrasas, maktabs, gurukuls, pathshalas and religious schools from other communities may be encouraged to preserve their tradations and pedagogical style, but at the same time must be supported to also integrate the subject and learning areas prescribed by the National Curricular Framework…“  اس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کس رخ پر سوچ رہی ہے، ان کا ایجنڈا صاف اور واضح ہے کہ تمام مذہبی درسگاہ بشمول مدارس ومکاتب کو ملکی تعلیمی اسٹرکچر National Curricular Framework سے جوڑا جائے، اس کے لئے وہ آپ کے نصاب میں بھی تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔
اس ضمن میں بہت سی چیزیں ہیں جو ان اداروں پر نافذ ہو سکتی ہیں، اگر وقت رہتے ہم نے اس سمت کوئی مثبت اقدام نہ کیا تو اس کا بڑا نقصان ہو سکتا ہے، اگر اس طرح کا کوئی وفاق ہوگا تو اپنا موقف مضبوطی کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے بنسبت اس کے کہ ہر ادارہ اپنے مسائل تن تنہا انفرادی سطح پر پیش کرے،منتشر علمی فکری اداروں اور نظام کو یکجا اور متحد کرنے کی صورت میں گفتگو کی نوعیت بدل سکتی ہے، یہ نظام جہاں مدارس کے ما بین توافق ورابطے کی شکلیں استوار کرنے میں معاون وممد ثابت ہوگا، وہیں دوسری جانب اس کے ذریعہ نظام تعلیم وامتحانات میں بھی یک جہتی آسکتی ہے، باہر بہت سے ممالک میں مختلف حکومتوں کی جانب سے اس ماڈل کا تجربہ بھی کیا گیا ہے جس کی جانب اوپر رپورٹ میں تذکرہ ہوا اور نافذ بھی ہو چکا ہے، اسلئے اس وقت یہ سوچنا کہ یہ بعید از امکان بات ہے حقائق سے منھ پھیرنے کے مترادف ہے، بیشتر یوروپین ممالک کےمدارس کے نظام کو اگر آپ سامنے رکھیں تو وہاں حکومت کی جانب سے وہ پابند ہیں کہ مذہبی تعلیم آپ کو دینی ہے دیجئے لیکن ان کے لئے قومی دھارا سے جڑنا ضروری ہے اور ہر طالب علم کے لئے O لیول کرنا لازم ہے، اس کو پورا نہ کرنی کی صورت میں ادارے پر بلکہ بچے کے گھر والوں تک پر بھی کارروائی ہوسکتی ہے، اور ان کو بہت سی حکومتی مراعات سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے، اسلئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان مدارس کے تعلیمی نظام کو مداخلت سے بچایا جائے تو ایسے میں اس جانب ہم سب کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے غور وخوض کرنا ہوگا، ایسے میں اب یہ صرف خدشات نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے کا معاملہ ہے، اور دور رسی کا تقاضہ ہے کہ ہم اس جانب سنجیدگی سے غور کریں، ضروری نہیں ہے کہ طریقہ کار وہی ہو جو یہاں ذکر کیا گیا ہے، بلکہ بنیادی طور پر مسئلہ کی حساسیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے  اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے، طریقہ کار کچھ بھی ہوسکتا ہے، اس تحریر سے مقصد صرف اسی جانب توجہ مبذول کرانا ہے، رہا طریقہ کار تو اس پر باضابطہ نئے سرے سے بھی غور کیا جاسکتا ہے۔
کوئی رائے یا کوئی فکرہ ظاہر ہے کہ اتفاق واختلاف اور نقد وتبصرے سے مبرا نہیں ہے، چنانچہ اس سلسلے میں جو بھی رائے، اصلاحات اور تجاویز آپ حضرات کے ذہن میں آئیں اس کو تحریر فرمائیں، تاکہ اس کے مزید قابل عمل اصلاحی پہلو نکھر کر ہمارے سامنے آئیں۔

ارحم عارف، سعد خان مئوآئمہ ایجوکیشنل سوسائٹی کے سکریٹری اور محمدافضل خزانچی منتخب!

فضل الرحمان قاسمی
___________________
مئوآئمہ/الہ آباد(آئی این اے نیوز29/جولائی 2019) نسل نو کو تعلیم کے میدان میں ترقی اور سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں سے نوجوانوں کودور رکھنے کے لئے مئوآئمہ ایجوکیشنل سوسائٹی کاقیام گزشتہ دنوں عمل میں آیا، اس تحریک سے کثیر تعداد میں لوگ شمولیت اختیار کررہے ہیں،ارحم عارف اور سعد خان کو سکریٹری جبکہ محمد افضل کو خزانچی منتخب کیاگیا، آج مئوآئمہ ایجوکشنل سوسائٹی کے صدر الطاف حسین نے بیان جاری کرتے ہوئے اس کی اطلاع دی۔
اس موقع پر نومنتخب سکریٹری سعدخان نے کہا میں سوسائٹی کے عہدیداران کاشکریہ ادا کرتاہوں کہ مجھے قوم کی خدمت کاموقع دیا، انہوں نے کہا، میری کوشش یہی رہے گی کہ قصبہ کے نوجوانوں کو تعلیم کی جانب رغبت دلاؤں، میں پوری ذمہ داری اوردیانت کے ساتھ اپنے فرض منصبی کوادا کروں گا،ارحم عارف نے کہا، سوسائٹی کاقیام ایک عمدہ پہل ہے، اس کے تمام تر عہدیداران مبارکبادی کے مستحق ہیں،انہوں نے کہا، عمدہ تعلیم کے لئے رہنمائی کا بہت بڑا دخل ہے، اور اس سوسائٹی کے ذریعہ تعلیم کے میدان میں بہتر رہنمائی کابھی نظم ہے تاکہ اس پر عمل پیرا ہوکر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکیں،  نومنتخب خزانچی محمد افضل نے کہا، تعلیم انسان کے لئے انتہائی ضروری ہے، تنظیم کامقصد ہی یہی ہے کہ نوجوان تعلیم کے میدان میں ترقی کریں۔

Sunday 28 July 2019

اسلام کی تعلیم اپنی ضرورت پردوسرے کوترجیح دیں :مفتی محفوظ الرحمن عثمانی

سپول/بہار(آئی این اے نیوز 28/جولائی 2019) اسلام کی تاریخ کاایک ایسا واقعہ بھی ہےکہ زخمی آدمی. زندگی کی آخری سانس؛ لیکن جب پانی لایاگیا تودوسرے پیاسے کی طرف بڑھا دیا اس نے تیسرے پریشان حال کودینے کااشارہ کیاجب وہاں پانی لے کر پہنچا توانتقال کرچکاجب پہلے کےپاس آیا تو وہ بھی اللّہ کےپیارے ہوچکےاس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی ضرورت پردوسرے کوترجیح دیں. یہی اسلامی تعلیم ہےجوایثار. قربانی. اپنے پردوسروں کےترجیح کوابھارتاہےیہ باتیں معروف عالم دین مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بانی ومہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ مدہوبنی پرتاپ گنج سپول نے ادراہ کی جانب سے ریلیف تقسیم کے موقع پر کہا. انہوں نے کہا کہ مصیبت زدہ انسانوں کی خدمت اور مددہمارادینی اوراخلاقی فریضہ ہے. واضح رہے کہ بہار میں آئے بھیانک اورتباہ کن سیلاب سے متاثرین  صحیح سے نکل نہیں پائے تھےکہ پھر پانی بڑھنےاورندی میں طوفان نےان کی نیند اڑادی ہے.جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ مدہوبنی پرتاپ گنج سپول کی جانب سے راحت رسانی کی ٹیم رات ودن متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر ان کادکھ بانٹ رہی ہے اور کھانے. پینے. پہننے. اور ضروری دوا پہنچارہی ہے. گذشتہ دن یہ ٹیم مفتی محمد انصار قاسمی کی قیادت میں  کوسی ندی کے بالکل قریب باندھ کےاندر پیرگنج پہنچی. متاثرین کےمطابق پہلی مرتبہ اس طرح کااچانک بھیانک سیلاب آیا. گھر کاکوئ سامان نہیں بچا.جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کی طرف راحت رسانی اور متاثرین کے ساتھ تعاون کو دیکھ کر اکبرعلی (پیرگنج) نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دعوت بھی کہ گاؤں میں رہ کر نہیں جاتے لیکن اتنی دور سے جامعہ القاسم کی ٹیم پریشانی و مشقت اٹھاکر گھرگھر جاکرانسانیت کے ناطے کام کررہی ہےاس موقع پر مفتی محمد انصار قاسمی نےکہاکہ جیسے ایک انسان دوسرے کی شرکت کے بغیر خوشی ومسرت کااظہار نہیں کرسکتی ایسی ہی مصیبت پریشانی اوردکھ میں ان کے پاس جائیں اور ان کاغم بانٹیں قرآنی تعلیم بھی یہی ہے پڑوسیوں کے ساتھ جہاں حسن سلوک کا تذکرہ ہےوہاں مذہب کی قید نہیں بلکہ جوبھی ہو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں. فرنٹ کے جنرل سیکرٹری شاہ جہاں شاد نےکہا اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اس کے پیش نظر ہم راحت رسانی. خدمت خلق. بے بس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ ہمدردی بلا تفریق مذہب وملت کے بحیثیت انسان کریں تا کہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوں واضح رہے کہ ٹیم میں ان کے علاوہ ناظم مظہر حسین عثمانی. مولانا علی احمد رازی سیکرٹری ریلیف جامعۃ القاسم. مولانا محمد فیاض قاسمی ناظم کتب خانہ. حافظ صدام حسین عثمانی . محمد الطاف حسین. عبدالجبار وغیرہ تھے

مسلمانوں کے جان، مال و آبرو کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے: نظرعالم قومی صدر آل انڈیا بیداری کارواں

محمد سالم آزاد
__________
مدھوبنی(آئی این اے نیوز28/جولائی2019) یہ کیسا ملک ہے جہاں سبھی اندھے ہیں اندھے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے کچھ رسموں کو چھوڑ دیں تو سبھی ایک جماعت ہیں، کیا ہندو، کیا مسلم، کیا عیسائی، کیا سکھ، کیا بودھ، کیا دیگر مذاہب۔ سبھوں میں ایک چیز عام ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کرسکتی اوروہ ہے ”بددماغی“ ہندو اور بودھ کے ماننے والے ’اہنسا‘ پر یقین رکھتے ہیں مگر ملک کی صورت حال کچھ اور بیاں کرتی ہے، عیسائی سبھوں کو آلِ خدا مانتے ہیں پر دنیا کی تاریخ کچھ الگ ہی کہتی ہے۔ مسلمان خاص طور پر مسلمانانِ ہندکہتے ہیں، ہم ملک کے آئین کو مانتے ہیں۔پھر بھی گائے، بیل، بھینس کھاتے ہیں، حد تو تب ہوتی ہے جب یہ لوگ قربانی بھی اِن جانوروں کی کرجاتے ہیں۔ علماء کی زبان ہند میں یہ ہے کہ ”مسلمان آئین ہند پر بھروسہ کرتے ہیں، انہیں مانتے ہیں اور ’حب الوطنی‘ چوں کہ ہمارا مذہب ہی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہم میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔“
ہم اپنے ناقص علم کے باوجود یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ علمائے ہند درست فرماتے ہیں، وہ عمل کے لحاظ سے جیسے بھی ہوں تقریر اور تحریر میں غلط بیانی کر ہی نہیں سکتے۔ تو پھر آخر ایسا کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کے ان علماء کی زبانیں بے اثر ہیں۔ انہوں نے اپنی اہمیت کھودی ہے۔ اس کی وجہ ہم بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے مصلحت پسندی سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ یہ بولتے تو ہیں مگر کھل کر نہیں بولتے، یہ لکھتے تو ہیں مگر جھول کے ساتھ۔ علماء یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہند کا آئین اگر ہمیں گائے، بیل، بھینس کھانے کی اجازت نہیں دیتا تو ہم انہیں نہ کھائیں۔ قربانی ان جانوروں کی نہ کریں، متبادل ہے اس کا، مسلمانان ہند متبادل کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ چھوڑ دیں ان جانوروں کو، اسے چھوڑنے سے کون سا ایمان پر حرف آجائے گا۔ پر علماء ایسا نہیں کہتے، نہیں لکھتے، فتویٰ بھی نہیں دیتے۔ انہیں ثانیہ مرزا اسکرٹ میں تو دکھ جاتی ہے مگر معصوم روز ان جانوروں کی وجہ سے چوک چوراہوں پر مار دئیے جارہے ہیں وہ نہیں دکھائی پڑتے۔ کیوں نہیں دکھائی پڑتے تو اس کا جواب شاید صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر علماء انہیں دیکھنے لگیں تو شاید ان کی دُکانداری بند ہوجائے گی۔کئی صدیوں پہلے شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ نے کہا تھا کہ اب علمائے حق ختم ہوچکے ہیں ان کی جگہ علمائے دنیا نے لے لی ہے۔ حیف صد حیف کہ ہم اب بھی نہیں بدلے۔
آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے منچ سے میں مسلمانانِ ہند کو احمدفرازؔ کی زبان میں یہ کہنا چاہوں گا:
وہ جو قاتل تھے وہ عیسیٰ نفسی بیچتے ہیں
وہ جو مجرم ہیں انہیں اہل عدالت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے
اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
گردنیں ٹوٹی ہوئیں، سر ہیں خمیدہ جن کے
ان کو سرگشتہ پندار امامت دیکھوں
جانے کب دشنہ کو پیوست رگِ جاں کردیں
ہر گھڑی میں جنہیں مصروفِ عبادت دیکھوں
آپ علماء پر بھروسہ کیجئے، یقین کیجئے، دعائیں لیجئے، مگر ایمان مت لائیے۔تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھول کر رکھئے۔ آپ نے کون سا ان جانوروں کو پال رکھا ہے جو مجبوری ہے، کھانے، بیچنے اور قربانی کرنے کی۔ آپ چھوڑ دیجئے ان جانوروں کو،خدا کے لئے، خوف کھائیے خدا سے، آپ کی وجہ سے بے قصور نوجوان، بوڑھے، بچے مسلمانوں کی جان جارہی ہے۔ آپ اپنے دماغ پر زور دیجئے اور سوچئے کہ کل خدا کے حضور آپ کو پیش ہونا ہے، کیا جواب دیں گے، جب یہ سوال ہوگا کہ آپ نے اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اور آبرو کی کتنی حفاظت کی؟ ہم علماء سے بھی کہنا چاہیں گے کچھ پل کے لئے خدا کے ہوجائیے اور ہر منبرومحراب سے یہ حکم فرمادیجئے کہ ان جانووروں کو کھانا، خریدنا، بیچنا، قربانی کرنا اس ملک میں قطعی درست نہیں ہے۔ شاید یہی ہمارے کردہ گناہوں کا معصوموں کو ماب لنچنگ میں قتل کروانے کا کفارہ ہوگا۔

Saturday 27 July 2019

ناراض خواتین نے ضلع مجسٹریٹ سے گاؤں پردھان اور سیکریٹری کی شکایت کی!

دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز27/جولائی 2019) دھن گھٹا تحصیل حلقہ واقع گاؤں پنچایت مڑہا راجہ کے سیکریٹری یوگیندر کمار گونڈ اور گاؤں پردھان ہمیشہ اپنے کالے کارناموں کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں۔
مذکورہ گاؤں باشندہ اور گاؤں پنچایت ممبر سنرا دیوی زوجہ ہرشچند نے ضلع مجسٹریٹ کو مکتوب ارسال کر گاؤں اور سیکریٹری پر الزام لگایا ہے کہ مذکورہ لوگ آپس میں ملجلکر گاؤں پنچایت کی کوئی کھلی میٹنگ آجتک نہیں کئے نہ ہی کسی گاؤں پنچایت ممبر کو ہی اسمیں شامل کئے ہیں۔
دونوں لوگ فرضی طریقے سے ایجنڈا تیار کر گاؤں کے ڈیولپمنٹ کے لئے آئی رقم کو ہڑپنے کا کام کر رہے ہیں ۔
سنرا دیوی نے الزام لگایا ہے کہ سیکریٹری اور گاؤں پردھان محکمہ کے لوگوں کو شامل کر ایک  ہی جگہ پر سال میں دو بار مٹی کا کام دکھا کر پیمنٹ کرا لئے ہیں۔
اسی طرح ہریجن بستی میں پکی سڑک سے کالی جی کے استھان تک کھڑنجے کی رقم گذشتہ سال ستمبر میں بغیر کام کراۓ ہی پیمنٹ کرا لی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے بدعنوانی پر روک لگانے کی کوشش کو گاؤں پردھان ساجدہ خاتون اور سیکریٹری یوگیندر کمار گونڈ کھلا چیلنج دے رہے ہیں۔
سنرا دیوی نے ضلع مجسٹریٹ سے ضلع سطحی کمیٹی کے ذریعہ گاؤں میں کراۓ گئے کاموں جانچ کرانے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔

سماج تنہا جینے کا نام نہیں ہے :شاہ جہاں شاد

جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کی جانب سے ریلیف تقسیم کاسلسلہ جاری۔
سپول/بہار(آئی این اے نیوز27/جولائی 2019) سماج اورسوسائٹی میں ہر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہے. تنہا جینے کا نام سماج نہیں ایسے لوگ جو بےگھر ہوگئے. فصل اور کھیتی تباہ ہوگئ. غلہ اورکھانےکاسامان برباد ہوگیا ایسے لوگوں کی مدد کرناوقت کی اہم ضرورت ہےیہ باتیں سماجی کارکن سیمانچل ڈیلوپمنٹ فرنٹ کےجنرل سیکرٹری شاہ جہاں شاد نےجامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ مدہوبنی سپول کی جانب سے ریلیف تقسیم کرتے ہوئے اس موقع پر مفتی محمد انصار قاسمی نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کےمطابق جانور کی مدداور اس کے ساتھ حسن سلوک پر جنت اور جہنم میں جائیگاتو انسان کے ساتھ ہمدردی. حسن سلوک اس کی تکلیف کودور کرنے کا مرتبہ اور بڑھےگااس کااندازہ لگانامشکل ہے. واضح رہے کہ جوگبنی کے قریب بگھوا نامی بستی جہاں بڑی تعداد میں مہادلت اونچی جگہ پر ٹھکانہ لئے ہوئے ہیں.  تقریباً پانچ کلومیٹر تک راستہ خراب ہونے کی وجہ سے وہاں جانابڑی مشکل تھالیکن پوری ٹیم ریلیف لے کر انتہائی مشقت کی حالت میں ٹریکٹر اور پیدل چل کر ریلیف کاکام کیا. اس موقع پرجن ادھیکار پارٹی کے لیڈر سیف علی خان نے کہا کہ یہ کتنی خوشی اور دوسروں کے لئے سبق کی بات ہے کہ مدرسہ اور مسجد میں پڑھنے پڑھانے والے اساتذہ اور طلباء خدمت انسانی انجام دے رہے ہیں اور سوئ قوم کو جگارہے ہیں کہ یہ ہربھائ کام ہے کہ وہ دوسرے کےمددگار بنیں انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ انسانیت کے ناطے بغیر کسی دھرم اور ذات کے راحت رسانی کررہی ہے یہ خاص بات ہے مظہر حسین عثمانی ناظم جامعہ نے کہا کہ ابھی ریلیف کاسلسلہ چلےگا اور ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں اور اس خدمت کواپنے لئے ایک نعمت سمجھ کر کام کریں. واضح رہے کہ کھانے پینے پہننے اوڑھنے بچھانے کاسامان دیا گیا ریلیف تقسیم کررہی ٹیم میں. مولانا عقیل قاسمی. حافظ محمد صدام عثمانی رونق روئ. پنکج کامیت. نندکمار پاسوان. مکیش کامیت. محمد الطاف.وغیرہ تھے.

تین طلاق کا خاتمہ/ یا ماب لنچنگ پر قانون ضروری؟

از : محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
     9358163428
______________
ملک عزیز اس وقت جن بھیانک حالات سے دوچار ہے یہ کسی بھی دردمند انسان سے مخفی نہیں ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کا شکار ہوکر نہ جانے کتنے نوجوان دنیا سے رخصت ہو چکے ،کتنی عورتیں بیوہ اور نہ جانے کتنی مائیں بے سہارا ہوچکیں ہیں ، کتنے بچے یتیم اور بے سہارا ہوگئے کسمرسی کے شکار ہیں                                اس کی فکر کون کرے گا؟
   ان کے حقوق کی آواز کب بلند ہوگی؟
   پارلیمنٹ وراجیہ سبھا،  ان کے ممبران ، اورحکمراں جماعت ان کی باز آبادکاری ،
ان کے حقوق کی ادائیگی اوراس جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کب قانون وضع کرے گی کچھ پتا نہیں، ابھی تو مودی جی اور حکمراں جماعت کو صرف ان طلاق شدہ مسلم خواتین کے حقوق اور ان کے آزادی کی فکر دامن گیر ہے جن کی تعداد مسلمانوں میں بہت قلیل ہے
   اسے کے مقابلے میں غیر مسلموں میں طلاق شدہ خواتین ،مودی جی کی طرح بے طلاق چھوڑی ہوئی،  اسی طرح زندہ جلانے وزدوکوب کئے جانے والی عورتوں کی تعداد بے شمار ہے معلوم نہیں مودی جی اور حکمراں جماعت کو ان کی فکر کیوں نہیں ہے؟
  ان کے حقوق کی ادائیگی اور انھیں ظلم سے نجات دلانے کے لئے پارلیمنٹ کب بیدار ہوگی ؟
   ان کو جہیز کی خاطر ودیگر طرح ظلم کاشکار بنانے والےمردوں کو تین سال جیل کی سزادلانے کے لئے کب قانون بنایا جائے گا ؟
   پتہ نہیں مودی جی کوان مسلم بیوہ عورتوں،  بے سہارا ماؤں اور بہنوں کی فکر کب ہوگی جن کے شوہر، بیٹے اوربھائی کو بھیڑنے مارڈالا ان کے حقوق اور ان کی آزادی کی فکر کیوں نہیں ہے؟
   آخر یہ بھی تو مسلم خواتین ہیں پتہ نہیں کیا وجہ ہے ان مسلم عورتوں کو طلاق دینے والے تو مجرم ہیں اور ایسے مجرم کہ ان کے لئے قانون بنانے کی سخت ضرورت ہے لیکن مسلم خواتین کے بے گناہ بیٹے کو قتل کرکے بے سہارا بنانے والے ،مسلم عورتوں کے شوہروں کو مار کر انھیں بیوہ بنانے والے ظالم درندے ،معصوم بچےبچیوں کے باپ کومارکرانھیں یتیم و بےسہارا کردینے والے حیوان نما انسان مجرم کیوں نہیں ہیں؟
  اور ان خواتین و بچوں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے قانون بنانے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟
   اور پھر ان بھگوا دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے والے، ان کو اکسانے والے، ان مجرموں کے مقدمات کی پیروی کرنے والے ان کو ہار پہناکر ان کا استقبال کرنے والے، ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے مجرم کیوں نہیں ہیں؟  اور ان کے لئے سخت قانون کیوں نہیں؟  ان سب کو دہشتگردی کے زمرے میں کیوں شمار نہیں کیاجاتا ؟
  کیا صرف اس لئے کہ وہ آریس یس اور اس کی ذیلی تنظیموں سے وابسطہ لوگ ہیں
  کیا یہ بھگوا دہشت گردی نہیں ہے
  ہجومی تشدد، ماب لنچگ  ہندستان کے لئے ایک ناسور بنتا جارہاہےاور صوبائی ومرکزی حکومتوں ابھی تک کوئی ٹھوس قدم اٹھانے اورسخت  کارئی کرنے میں ناکام ہیں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلتیوں کے جان ومال، عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ دارنہ ہی صوبائی حکومتیں ہیں اور نہ ہی مرکزی حکومت ،
 اس لئے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنے جان مال عزت آبرو کی تدابیروحفاظت کا بندوبست اب خود کرنا پڑے گا اگریہی مطلب ہے اور حکومت کی طرف سے اسی طرح سرد مہری جاری رہی اور ملک کی دیگر اقلیتں  بھی تنگ آکر مقابلے پر آمادہ ہوگئیں تو پھر ملک ایک بھیانک جوالہ مکھی بی جائے اور ملک کا امن وامان غارت ہوجائے گا ، ملک میں ایک ایسی نفرت کی آگ پھیلے گی کہ پھر اس کی بہالی دشوار ہوجائے گی اس لئے حکومت سے درخواست ہے کہ ملک کی سالمیت اسکی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کی خاطر کسی  رو رعایت کے بغیرقانون وضع کرکے اور اس طرح کے ہجومی تشدد میں درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں پر قدغن لگائے اور اقلیتوں کو خوب ہراس نکال کر اعتماد کی فضا ہموار کرے اور ملک میں نفرتوں اور فتنہ فساد کو فروغ دے کراپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے بجائے اتحاد ویکجہتی، امن وآشتی اور آپسی بھائی چارے کاماحول، قائم کرے جوہندوستان کی شناخت و پہچان ہے اسی یگانگت ویکجہتی اور گنگا جمنی تہذیب نے ملک کو سونے کی چڑیا بنایاتھا اور آج بھی اسی میں توقی کاراز مضمر ہے

ایمان اور سچائی!

محمد اسامہ
______________
مکرمی!زندگی کے راز جو اعتماد کیلئے سزایاب رہے ہوں۔سچائی کے پردے کو اٹھائو اور الله نے ایک پلاننگ کے تحت کائنات میں جو جوہر بکھیرے ہیں۔انہیں ظاہر ہونے دو۔ایمان ایک اندھی عقیدت کا نام نہیں ہے۔ہمارے اطراف میں جو بھی چیزیں ہیں سب ایک مقصد کیلئے ہیں۔ یہ ان کی ضرورت کیلئے ہیں جو پیار کے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ہم الله کے فضل کے حقدار اور انسانیت کیلئے مفید تب ہونگے جب صحیح راستے پر چلیں گے۔  عذاب کی اصل وجہ الله کی رحمت سے محرومی نہیں بلکہ یہ آپ کا لالچ ،ضروریات اور دنیاوی فریب ہے۔مطیع،تابع اور سزایاب ہونے کا مطلب کہ خدا نے ہر چیز کا نظام بنایا ہے۔ہر انسان کو یہ سوچنے اور محسوس کرنےکی ضرورت ہیکہ وہ الله کے فضل سے ہی پلتے ہیں۔کیونکہ جہالت انسان کو فریب، گھمنڈ،منافقت،خود غرضی اور اناپرستی میں مبتلا کر دیتی ہے۔الله کے فضل کی محرومی سے ہمارے دل بند ہیں۔اپنے دل کے دروازے ایمان سے کھولئے اور صرف الله کے فضل سے نہیں بلکہ خدا کے احکامات کی پیروی کریں۔کائنات کی تخلیق تین چیزوں سے ہوئ ہے۔خدائ اور شعور بھی الله کے اوتار ہیں۔یہاں تک کہ خدا کے احکامات پر عمل کرنے کی ہدایت پانے کی خدا سے دعا کریں اور اس پر ایمان لائیں۔نظم سچ،پیار اور ہمدردی سکھاتا ہے۔انسان کی زندگی خدا کی طرف سے تحفہ ہے۔اپنے دل کے دروازے کو ہمیشہ کھلا رکھیں اور اسے پیار،ایمان،بھروسہ اور خدمت سے کے تالے سے بند رکھیں۔یہ زندگی کا اصل جوہر ہے۔یہ تعظیم کا راز ہے اور یہی حقیقت ہے۔

امیر خسرو اور ہم آہنگی!

محمد حزیفہ
_________
مکرمی!
مذہبی رواداری کی پہچان، ہندو۔مسلم یکجہتی،سماجی ہم آہنگی اورفرقہ وارانہ یکجہتی کی مثال امیر خسرو حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے شاگرد تھے۔(جن کا عرس امسال21جون کو منایا گیا)امیر خسرو بھائ چارہ کی ایک مثال ہیں۔وہ ہندوی کے بانی ہیں جو بعد میں ہندی زبان کے طور پر پلی بڑھی۔جو ایک بڑے پیمانے پر پورے ہندوستان میں بولی جاتی ہے۔بسنت پنچمی تہوار جو بین العقائد کی پہچان ہے،اس کی شروعات بھی امیر خسرو نے اپنے استاد حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی ہدایت پر  کی تھی۔بسنت پنچمی تہوار اب بھی مختلف طبقے بالخصوص اولیاءؒ اور خسرو کے شاگردوں کیلئے یکجہتی کا پیغام لاتا ہے۔خسرو کی تعلیمات ہندوی اور اودھی نظم کی شکل میں ہیں ۔جو ہندوستان  کی تکثیری روایت کی پہچان ہے۔امیر خسرو اتر پردیش کے ایٹہ میں 653 میں پیدا ہوئے۔خسرو ایک مذہبی شاعر تھے۔انہوں نے مرشدی(مذہبی ہدایات ) میں اپنے عقیدے کا اظہار کیا۔خسرو اپنے دوہا اور مثنوی کے ذریعہ مقبول ہوئے،جو صوفیزم کے وجود(وحدت الوجود) کا ذریعہ بنی۔یہ ویدانتا فلسفہ کی بالکل ضد ہے۔مثال کے طور پر اس کائنات میں جو بھی ہے وہ سب مختلف چیزوں سے ختم ہو جائے گا.دونوں میں سے بس ایک بچے گا۔
خوبصورتی بستر پر لیٹی ہے اور اس کے بال اس کے چہرے پر ہیں۔
خسرو،گھر جائو ہر طرف شام ہو چکی ہے۔۔۔(خسرو)
خسرو نے(صلح.کل)کا بھی نفاذ کیا۔جس کا مطلب یہ کہ خدا اس کو عزیز رکھتا ہے جو خود سے پیار کرتے ہیں اور انسانیت کا خیال رکھتے ہیں۔اور وہ جو خدا کی خاطر انسانیت سے محبت کرتے ہیں۔
میں تو اپنی محبت کی عبادت میں کافر ہوں۔میری ایک ایک نبض ایک تار کی طرح میرے اوپر طعنے کس رہی ہیں۔مجھے کسی نسل یا ہندو مسلم سے جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خسرو کی شاعری آج کے دور میں مزید اہمیت کی حامل ہیں۔  ان کی شاعری ملک کی ہم آہنگی،بھائ چارہ ،رواداری اور آپسی پیارو محبت کیلئے بہت اہم ہے۔

تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں:مولانا وسیم مظاہری

فضل الرحمان
___________
مئوآئمہ/الہ آباد(آئی این اے نیوز27/جولائی2019) اللہ کے محبوب نبی پر پہلی وحی علم کے بارے میں نازل ہوئی،مذہب اسلام میں علم پر ابھارا گیا ہے،مذکورہ خیالات کااظہار مئوآئمہ ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے شاہی پیلیس میں منعقد میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے مولانا وسیم مظاہری بانی وناظم مدرسہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہیں، انہوں نے کہا، یہ افسوس کامقام ہے کہ ہمارے قصبہ کے نوجوان تعلیم کے میدان میں انتہائی پسماندہ ہوتاجارہے، اور نشہ کا شکار ہے،انہوں نے کہا، اس طرح کی تنظیم کی اشد ضرورت تھی جس پلیٹ فارم سے اپنے نوجوانوں کو ملک وقوم کی خدمت کے قابل بناسکیں تاکہ یہ بچہ ہماری قصبہ کے نیک نامی کاسبب بنیں، نوجوان عالم دین مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی نے اپنے خطاب میں کہا، مئوآئمہ یوں تو بہت بڑا قصبہ ہے لیکن تعلیم کے میدان میں  انتہائی پسماندہ ہے،الہ آباد یونیورسٹی میں میرٹ سے داخلہ میں یہاں کے طلباء کی اکثریت ناکام رہتی ہے، انہوں نے کہا، اس تنظیم کے ذریعہ قلم اورزبان کے ذریعہ نوجوانوں کومضبوط کرنا تاکہ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھار کر ملک وقوم کی خدمت کرسکیں، سوسائٹی کے نائب صدر عمارانصاری نے نوجوانوں کو نشہ اور دوسری غیر ضروری چیزوں سے دور رہنے کی تلقین کیا، اور تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے پر زور دیا،سوسائٹی کے صدر الطاف حسین نے علم کی اہمیت کواجاگر کیا عمارعارف نے بھی علم کی فضیلت پر لب کشائی کیا،  جبکہ قصبہ کے معروف سماجی کارکن عمیرجلال نے اپنی صدارتی خطبہ میں نوجوانوں کواہم اور قیمتی نصیحتیں کیں، اور روشن مستقبل کی طرف متوجہ کیا، انہوں نے کہا، قربانیوں کے بغیر انسان نہیں نکھر سکتا، اس لئے آپ لوگوں پر لازم ہے کہ تعلیم پر انتھک کوشش اور محنت کریں، انہوں نے کہا، جن طلباء کی دلچسپی کھیلوں سے ہے ایسے نوجوان کھیل کے میدان میں آگے آئیں،  ان کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی،قاری محمد  شاداب کی تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا، نظامت کے فرائض مفتی فضل الرحمان الہ آبادی نے انجام دئیے، حافظ محمد ثاقب، حافظ محمد دانش، محمد سیف انصاری، محمد زید، ارحم عارف، معتمد الہ آبادی، نازش قریشی اور کثیر تعداد میں نوجوان شریک رہے، مفتی فضل الرحمان کی رقت آمیز دعا پر جلسہ اختتام پذیر ہوا۔

Friday 26 July 2019

آزمائشوں میں گھرا ہمارا ہندوستان!

از قلم:مفتی محمد عاصم کمال قاسمی، الاعظمی، ایڈیٹر رسالہ پاسبان
__________________
   آج ہمارا ملک ہندوستان سخت آزمائش میں ہے،جو چند سرپھروں اور دعوئے وطن پرستی رکھنے والوں کی ایک قسم کی ہنگامہ آرائی ہے اور بس !ملک کی بقاء کے عنوان سے اس کے وجودکو پرخطر بنایا جارہا ہے، عجیب نادان لوگ ہیں، انہوں نے جانا ہی نہیں کہ ملک کی بقاء اور ترقی کیا ہے؟ ان کے پیشواؤں نے سکھایا ہی نہیں کی وطن کی محبت کا مصداق کیا ہے؟ وطن سے محبت کے یہ نادان دعویدار وطن کے ٹھیکے دار بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ انہیں خبر نہیں کہ ان کی شدت اور نفرت آمیز سیاست بہت بڑا خطرہ ہے ،خطرہ ہے ملک کی سالمیت اور اس کے امن کے لیے، اس کی ترقی اور اس کی مشترکہ تہذیب کے لیے، اس کی جمہوریت کے لیے، خود ہم وطنوں کے لیے ؛چنانچہ کچھ تعصب پرست  اورشدت پسند جماعتوں کی فطری خباثت سے ملک میں دہشت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور بالخصوص ملک کی دوسری بڑی اکثریت والے طبقہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کا مقصد اشتعال انگریزی اور اس کے نتیجے میں اٹھنے والا غیر قانونی قدم ہے،کیونکہ دنیا اس حقیقت سے خوب واقف ہےکہ مسلمان ایک جذباتی قوم ہے اور اس کے اسی جذبہ ایمانی اور حمیت دینی نے جہاں بڑے بڑے انقلابات رونما کئے (خود ہمارے ملکِ عزیز ہندوستان کی آزادی اور جمہوریت اسی غیرت و حمیت کی مرہون منت اورقرض دار ہے) وہیں اسلام دشمن طاقتوں نے اس جذبے کا ہمیشہ غلط استعمال کرنا چاہے اور اپنے مقصد کے لیے اس عظیم خوبی کو سدا مہرہ اور آلۂ کاربنانے کا خواب سجائے رکھا ہے؛ مگر مومن کی فراست نے ایک جہان آباد کیا ہے ،وہ کبھی جھکا نہیں، وہ کبھی رکا نہیں ،وہ کبھی بکا نہیں، اس نے حالات کا غلط رخ  کبھی  اپنی سمت بڑھنے نہیں دیا ،ملک و ملت کے لیے ہر دور میں وفادار وباکردار رہا ؛لیکن افسوس کہ موجودہ حالات اس کی مطابقت نہیں کر رہے ہیں؛اس لیے ضرورت ہے کہ خود کو بدلا جائے ،حالات کے ناموافق رخ کو اپنی جانب موڑا جائے، شکوے شکایات ،تبصروں و تذکروں کے بجائے عملی کوشش کی جائے ،اخلاقی اور ایمانی کیفیت کو مضبوط کیا جائے، اس کے بغیر کامیابی اور ترقی محض خیال ہے، قومِ مسلم جو ماضی قریب تک اپنی رفاہی خدمات ،جذبۂ ایثار، امداد و تعاون کے لیے مشہور تھی آج خود پرست ہوتی جارہی ہے، اس نے اپنی زندگی کا نصب العین محض ایک بالشت پیٹ اور دو گز زمین کو قرار دے دیا، خدمتِ خلق سے بالکل غافل اور یکسر بے توجہ ہوگی؛ نتیجہ یہ ہوا کہ جواقوامِ عالم عمدہ اخلاق اور فطری جذبات کے سبب دینِ  فطرت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں اسی اسلام کے نام لیوا اسلام کو چھوڑ ساری تہذیبوں کے مداح ہیں، اسلامی ثقافت سے غافل ہر تمدن کو اختیار کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، کل جو داعی تھے آج مدعو ہیں اور اس دعوت کا تأثر اس درجہ غالب ہو رہا ہے کہ ایمان خطرے میں ہے، تعلیم کے نام پر عقیدے کا سودا ہو رہا ہے، تجارت کے نام پر حلت وحلال کو فروخت کیا جارہا ہے، وسعت کے عنوان سے جواز کی ساری حدیں پار کی جا رہی ہیں ،اخلاق محض ایک دکھاوےکی چیز بن کے رہ گیا ، انسانیت و ہمدردی نام کو بھی نہ باقی رہی ،رشتوں کا پاس صرف ایک مجبوری اور بوجھ ہوگیا، امانت سرِعام نیلام ہو رہی ہے ،شرافت وکرامت کا معیار ختم ہوگیا یعنی کل کا مسلمان آج کا صرف تاجر ہے مطلب پرستی ،خود غرضی کے بھیس میں انسانی تصویر ہے، نہ عادات اچھی نہ اخلاق اچھے، نہ اطوار اچھے، نہ کردار اچھے، ہر برائی ہم میں موجود ،ہر بھلائی سے ہم کوسوں دور !!پھر منتظر ہیں آسمانی مدد کے، اپنی فتح اور غیروں کی شکست کے، کہ گھر میں سانپ مارنے کی لاٹھی نہ رکھنے والا باطل کی توپوں اور ٹینکروں کا سامنا کرنا چاہتا ہے، جس کی نئی نسل صبح دس بجے نیند سے بیدار ہو کر سورج کی پہلی کرن دیکھنے والوں کی حریف بننا چاہتی ہے، کیاایسے میں یہ خام خیالی نہ ہوگی ،یہ حماقت ونادانی نہ ہوگی، تاریخ کی سب سے بڑی دل لگی نہ ہوگی، کہ عجیب قوم ہے جو ہزاروں اورلاکھ روپے کا موبائل استعمال کرنے ،اونچی بلڈنگیں  تیار کرنے اور عمدہ گاڑیوں کا شوق رکھ سکتی ہے ؛مگر تحفظ کے لیے کسی دوسرے کاندھے کا سہارا لینا چاہتی ہے ،اور طرفہ وتماشہ،بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنا عمدہ مال (creem)کریم طبقہ سیاست کی نذر کر کے ہر ناکامی کا ٹھیکرا قائدین ملت اور  مخلص پاسبانوں کے سر پھوڑناچاہتی ہے، عجیب لوگ ہیں بڑے عجیب۔۔۔۔
اب خوابِ غفلت سے جاگنا ہوگا،میدان عمل میں اپنا مضبوط قدم جمانا ہوگا، اکبری اور بابری مزاج کو بھول کردفاعی کے ساتھ اقدامی لائحۂ عمل پر غور کرنا ہوگا۔
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش ِ گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

دیوانے کے خواب اور ہماری شامت اعمال!

اختر سلطان اصلاحی
_______________
جب سے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا ہے، ہم روزانہ اس پر کچھ نہ کچھ لکھتے پڑھتے رہتے ہیں. جو تحریریں پسند آتی ہیں اسے شئیر بھی کرتے ہیں. اس فورم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سیکنڈوں میں ہمارے خیالات سینکڑوں ہزاروں لوگوں کی نگاہوں میں آجاتےہیں، لائک اور کمنٹس نہ بھی آئیں تو بھی یک گونہ اطمئنان رہتا ہے کہ بہت سے لوگوں  نے ضرور پڑھا ہوگا جس طرح ہم خود  بہت سی تحریروں کو پڑھتے ہیں اور بغیر کسی تحریری رد عمل کےآگے بڑھ جاتے ہیں.
کل مصور الاسلام ندوی صاحب نے دیوانے کے خواب سے ایک اقتباس بھیجا، یہ اقتباس ہمیں بہت پسند آیا، دوسرے بہت سے مردوں کی طرح دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کے عنوان پر گفتگو کرنا اور کچھ لکھنا ہمیں بھی بہت پسند ہے.
ویسے ہم تو اس میدان کے مرد میدان بھی رہے ہیں اس لیے ہمیں اس موضوع سے کچھ زیادہ ہی دلچسپی ہے.
خیر ہم نے مصور صاحب کی اس تحریر کو نہ صرف شوق سے پڑھا بلکہ اپنے فیس بک پر شئیر بھی کردیا.
ہماری طرح اسے جس نے بھی پڑھا اسے مزہ آیا، تحریر ہے ہی بہت دلچسپ، ابتدا میں بالکل حقیقت بیانی کا گمان ہوتا ہے. پڑھنے والا جب آخری لائن پر پہنچتا ہے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ حقیقی کہانی نہیں ہے بلکہ کسی باولے کے خواب سے ایک اقتباس ہے.
خیر اس اقتباس کو  پڑھنے والوں نے دلچسپ تبصرے کیے، کچھ لوگوں نے لکھا کہ ہم نے اسے حقیقت سمجھا، کچھ ہمیں مبارکباد دیتے دیتے رہ گئے. ایک صاحب نے لکھا کہ آخری لائن نے سارا مزہ کرکرا کر دیا. زیادہ تر احباب کو ایسا لگا کہ یہ تیسری کی تمہید ہے.کچھ نے مبارکباد بھی دے دی.

لیکن اصل مزہ تو اس وقت آیا جب صبح صبح ہمارے دوست رضوان نعیمی نے شارجہ سے فون کیا اور ازراہ شکایت کہنے لگے
"اختر بھائی آپ سے ہر ہفتے بات ہوتی ہے افسوس کہ آپ نے ہوا بھی نہ لگنے دی، اب فیس بک کے ذریعہ یہ راز فاش ہوا کہ ماشاء اللہ تیسری بھابھی براجمان ہو چکی ہیں،،یہاں تو حلقہ احباب میں آپ موضوع گفتگو بنے ہوے ہیں.،،
بڑی محنت سے رضوان صاحب کو اصل صورت حال سے واقفیت بہم پہنچائی.

صبح واٹس آپ کھولا تو ہمارے بھتیجے عمر سلمہ کا ایک پیغام نظر سے گزرا.

"چچا خیریت ہے؟ گھر  میں تو کسی کو کوئی خبر نہیں ہے مگر سعودی میں بہت ہل چل ہے.،،
ہمارا یہ بھتیجہ کچھ زیادہ ہی  سادہ اور بھولا بھالا ہے. ہم نے باور کیا کہ شائد یہ سعودی کی سیاسی صورتحال کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہے.
ہم نے اسے جوابا ایک نصیحت آموز پیغام بھیجا کہ اپنے کام سے کام رکھو، سعودی کے سیاسی حالات کی فکر نہ کرو، وہاں کے حالات سے تمام لوگ واقف ہیں.تم کو اپنی ملازمت پر توجہ دینی چاہیے.،،
تھوڑی دیر بعد اس کا آڈیو پیغام آیا کہ چچا آپ سمجھ نہیں سکے، کل مولوی اصغر صاحب کے لڑکے کا فون آیا تھا، اس نے خبردی کہ تمہارے چچا نے تیسری شادی کر لی ہے اور اسے دلچسپ انداز سے فیس بک پر بھی لکھا ہے.،،
اب ہمیں مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوا، ڈر لگا کہ کہیں کسی نے بیگم کو اس موضوع پر کوئی فون کردیا تو ہماری خیر نہیں، ویسے بھی آج آکولہ کے لیے سفر کی تیاری تھی، کئی جوڑے اچھے کپڑے بیگ میں پریس کر کے  رکھے جا چکے تھے، خبر ہونے کی صورت میں بیگ بھی  ضبط ہونے کا امکان تھا. سفر بھی خطرے میں پڑ سکتا تھا، اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا جتن کرنے پڑ سکتے تھے. ہماری بیگم اس مسئلے میں ویسے بھی ہم پر کسی طرح کے اعتبار کی قائل نہیں ہیں.
دوپہر میں کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے تو ایک اور واقف کار کا فون آیا، ادھر ادھر کی بات کرتے رہے اور بار بار پوچھتے
"کوئی خاص بات تو نہیں.کوئی خاص بات تو نہیں ہے،،.
ہمیں اندازہ ہوا کہ ان صاحب کو بھی کہیں سے اڑتی پڑتی خبر ملی ہے اب کمال چترائی سے ہم سے تصدیق کی کوشش کر رہے ہیں.
گفتگو ختم کرتے کرتے کہنے لگے، "پتہ تو سب چل جاتا چاہے لاکھ کوشش کی جاے آج نہیں تو کل سہی.،،
ہم خاموش ہی رہے کہ سامنے بیگم اور بچے بیٹھے تھے.
دوپہر میں قیلولہ کے لیے جیسے ہی آنکھ بند ہوئی گاوں سے بڑے بھائی کا فون آگیا.عموما وہ صبح یا شام فون کرتے ہیں اس لیے فورا ذہن اس تحریر کی طرف گیا، سوچا کہ فون نہ اٹھاوں مگر پھر سوچا کہ نہ جانے کیا معاملہ ہو، دیکھ لینا چاہیے.
طلحہ بھائی نے سلام کے جواب کے ساتھ ہی سوال داغ دیا:
کیا معاملہ ہے، کہاں تیسری شادی کر لی ہے، یہاں تو کسی کو خبر ہی نہیں تھی، یہ تو عمران ماموں کا لڑکا ابھی موبائل لے کر آیا اور پڑھ کر سنا رہا ہے تب خبر ملی. ارے یہ اچانک کیسے؟ ادھر تو بہت دنوں سے شادی بیاہ کی کوئی بات نہ تھی، کب شادی ہوئی ہے؟،،
بھیا کی گفتگو میں حیرت اور استعجاب نمایاں تھا، وہ نہ جانے کیا کیا جاننا چاہتے تھے بہر حال ہم نے حقیقی صورتحال ان کو بتائی اور کہا خبر بالکل غلط ہے.اب تو ہم نے اپنی شادی کا خیال بھی  ذہن سے  نکال دیا ہے. ،،
چار بجے ہم گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے. بیگم کے فرشتوں کو بھی ابھی اس دلچسپ خبر کی خبر نہیں ہے. اگر خبر ہوجاتی تو ہماری دشواریوں میں تو ضرور اضافہ ہوتا مگر احباب کو کچھ اور مرچ مصالحے کی لذت مل جاتی کہ یہ موضوع ہی بہت دلچسپ ہے.

مسلمانوں نے مسجدوں کوبازار میں تبدیل کردیا، اللہ ہدایت دے!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
_______________
اللہ تعالی نماز میں خشوع وخضوع کاحکم دیتا ہے، خشوع نماز کی روح ہے، قرآن میں ایمان والوں کے صفات میں سے بیان کیاگیا ہے کہ وہ نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں، نماز اس بات کاتقاضہ کرتی ہے نماز میں سکون واطمینان حاصل کیاجائے ہر قسم کے شورشرابے سے ہماری نماز دور رہے، لیکن افسوس ہماری مسجدیں جہاں نماز پڑھی جاتی ہے، اب بمشکل ہی سکون واطمینان پایاجاتا ہے ورنہ آج کل مسجدوں میں بھی شوروشراباہونے لگاہے، کل میرا الہ آباد شہر کی ایک  بڑی مسجد میں جاناہوا، لیکن وہاں کی حالت دیکھ کر میں حیرت زدہ ہوں، میں جاکر میں سوچ میں پڑگیا کہ میں مسجد میں ہوں یابازار میں چلا آیاہوں، چوں کہ امام صاحب نے ولا الضالین کہا، ایک قسم کاشور برپا ہوگیا، اس وقت بازار کامنظر مسجد میں دیکھنے کوملا، اب یہ کون لوگ تھے،کن مولویوں نے ان کو یہ طریقہ بتایا ہے آمین کہنے کا، شریعت مطہرہ میں آمین کے وقت مسجد کوبازار بنانے کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے، دنیا میں اوردوسری جگہ بھی حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے ہیں لیکن اس طرح مسجدوں کو آمین کہتے وقت بازار میں تبدیل نہیں کرتے، اور رہی بات آمین کی جو شریعت مطہرہ میں آمین ایک دعاہے، اور دعا کے بارے میں قرآن میں ہے، ادعوا ربکم تضرعاوخفیہ، اپنے رب کو عاجزی اور پوشیدہ طور پر دعا مانگو، وہ اللہ جس سے ہم سورہ فاتحہ کی تکمیل کے بعد قبولیت کی دعا کررہے ہیں، کیونکہ سورہ فاتحہ ایک دعاہے اللہ کی حمد کے بعد ہدایت کی اللہ کی بارگاہ میں دعا کی گئ ہے، سورہ فاتحہ کی تکمیل کے بعد آمین کہنا مسنون ہے، آمین کے معنی اے اللہ قبول فرما، جس اللہ سے آپ دعا کی درخواست کررہے ہیں وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لہاذا اس طرح گنوار پن کے ثبوت دینے اور مسجدکوبازار میں تبدیل کرنے اور نماز کی جواصل روح خشوع وخضوع کوختم کرتے ہوئے شور مچاتے ہوتے آمین کہنا، اسلام اس کی قطعا اجازت نہیں دیتا، آمین باالجہر کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے جو صورت حال ہماری مسجدوں میں بن گئی ہے، کچھ ناواقف مولوی جو نہ شریعت کو سمجھتے نہ شریعت کے مزاج کو، عوام الناس صحیح دین سے پھیر کر گمراہی کی راہ پر ڈھکیل رہے ہیں، حدیث میں آمین کے بارے میں آیا ہے جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے اس کی مغفرت ہوگی اور فرشتوں کی ایمان توسری ہی ہوتی ہے، حدیث میں آمین بالجہر کا ثبوت ہے، البتہ آمین کو آہستہ کہنا ہی عقل ونقل کے اعتبار راجح ہے،اور رہی بات آمین بالجہر کی توجب اس کا ثبوت حدیث سے ہے تو اس کو بھی کہنے کی بالکل اجازت ہے، حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے یہاں آمین بالجہر اولی ہے، یہ اختلاف صرف اولی اور غیر اولی کا ہے، کہ ان میں سے کون بہتر ہے، دونوں چیز حدیث سے ثابت ہیں، لیکن ہمارے ہندوستان میں جس طرح آمین کہنے کا رواج چل پڑا ہے اس کا شریعت میں کہیں ثبوت نہیں، آمین بالشور والشرابا اس کا کسی بھی حدیث میں حکم نہیں دیا گیا، جس طرح سے آمین کہی جارہی ہے بازار کی منظر کشی مسجدوں میں دیکھنے کومل رہی ہے یہ ناجائز ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا،فقہاء نےجہر کی ادنی مقدار  بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے، جہر کی ادنی مقدار یہ ہے قریب کے لوگ سن سکیں، لہاذا اگر آمین اتنی آواز میں کہیں گے تو حدیث پر عمل ہوگیا ایسا ہی حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے ماننے والے کرتے ہیں، عرب ممالک میں جو شوافع ہیں ان کی مسجدوں میں آمین کے وقت اس طرح شورشرابا نہیں ہوتا، آمین بالجہر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اتنی زور سے آمین کہو کہ پوری مسجد والوں کوسنائی دے، اس سے دوسروں کوتکلیف بھی ہوتی ہے اور نماز کی جو اصل روح ہے اس کے بھی خلاف ہے، ہمارے فقہاء نے اتنی زیادہ زور سے قراءت کرنے کو بھی مکروہ لکھاہے، کہ خود پر زیادہ زور ڈال کر پڑھے،اللہ واسطہ دے کر میں مسلمانوں سے درخواست کرتاہوں شریعت مطہرہ کوسیکھو، قرآن وحدیث کامطالعہ کرو، مسجدوں کو بازار نہ بناؤ، آمین بالجہر کرو یا بالسر کرو دونوں حدیث سے ثابت ہے، صرف اختلاف اولی وغیراولی ہے  لیکن شریعت میں جو جہر کاطریقہ ہے اسی پر عمل کرو،اور میں علماء کرام سے بھی درخواست کررہاہوں کہ مسلمان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ مسخ وتبدیل کے درپہ پرہیں، جمعہ کے خطاب میں ان چیزوں کوبیان کریں ورنہ کل قیامت کے دن آپ بھی قصوروار ہونگے کہ کچھ لوگ مسجدوں کو بازار تبدیل کررکھاتھا اس وقت آپ کہاں تھے، اس وقت ہمیں افسوس ہوگا، اس لئے ہماری ذمہ داری ہے صحیح دین عوام الناس تک پہنچائیں، اور تبلیغ دین کا جمعہ کے خطاب سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں، اللہ تعالی مسلمان کو ہدایت دے....آمین.

حضرت امام مہدی اس امت کے آخری امیر ہوں گے: مولاناحافظ سرفرازاحمد قاسمی

حیدرآباد(آئی این اے نیوز 26/جولائی 2019) قرآن کریم میں جوعلامات قیامت ارشاد فرمائ گئی ہیں وہ زیادہ ترایسی علامتیں ہیں جو قرب قیامت میں ظاہر ہونگی اوررسول اکرم ﷺ نےاحادیث مبارکہ میں قریب اوردور کی چھوٹی بڑی ہرقسم کی نشانیاں بیان فرمائیں ہیں،علماء نے ان علامتوں کی تین قسمیں لکھی ہیں،ایک ہے علامات بعیدہ،دوسری علامات متوسطہ اور تیسری کوعلامات قریبہ کہاجاتاہے،علامات متوسطہ کو علامات صغریٰ اورعلامات قریبہ کو علامات کبری بھی کہتے ہیں، علامات بعیدہ وہ نشانیاں ہیں جسکاظہور کافی پہلے ہوچکاہے، جیسے سرکار دوعالم ﷺ کی بعثت، شق القمر کاواقعہ، آپ ﷺ کی وفات اورجنگ صفین وغیرہ،دوسری علامتیں جنکو علامات متوسطہ کہتے ہیں وہ ہیں جو ظاہر تو ہوگئ مگر اپنی انتہاء  کو ابھی نہیں پہونچی،ان میں  ہرروز اضافہ ہورہاہے اوریہ ہوتاہی جائے گا،یہاں تک کہ تیسری قسم کی علامتیں جنکوعلامات قریبہ کہاجاتا ہے وہ ظاہر ہونے لگیں گی،ایک لمبی حدیث میں دوسری قسم کی علامتوں کاتفصیلی تذکرہ کیاگیاہے،ان میں سے چند یہ ہیں لیڈروں کی کثرت ہوگی لیکن امانت دارلوگ کم ہونگے، قبیلوں اورقوموں کے لیڈران منافق،رذیل ترین اورفاسق لوگ ہونگے،پولس والوں کی بہتات اورکثرت ہوگی،بڑے بڑے عہدے نااہلوں اورنکمے لوگوں کے سپرد کیاجائےگا،تجارت میں عورت اپنے شوہرکاساتھ دےگی،یعنی ہاتھ بٹائے گی،ناپ تول میں کمی  عام ہوجائے گی،امانت دار کو خائن اورخائن کو امانت دار کہاجائے گا،جھوٹے کو سچااورسچے کو جھوٹاسمجھاجائے گا،بیویوں کی اطاعت اوروالدین کی نافرمانی عام ہوجائے گی،اپنے مقصد کےلئے جان پہچان کے لوگوں کوسلام کیاجائے گا، طلاق کی کثرت ہوگی،لوگ فخروغرورکے طورپر اونچی اونچی بلڈنگیں بنانے میں ایک دوسرے کامقابلہ کریں گے،عورتیں کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہونگی،ناگہانی اورموت کی کثرت ہوگی،کمینے لوگوں کادوردورہ ہوگا،بے حیا اورحرامی اولاد کی کثرت ہوگی، نیک لوگ چھپتے پھریں گے،انکے علاوہ اوربہت سی ایسی نشانیاں ہیں جنکی خبر رسول اکرمﷺ نے ایسے وقت دی تھی جب ان چیزوں کاتصوربھی مشکل تھا،لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے ان چیزوں کامشاہدہ کررہےہیں،ان خیالات کااظہار،شہرکے ممتازاورمعروف عالم دین، مولاناحافظ سرفراز احمد قاسمی جنرل سکریٹری  کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک نے یہاں اپنے ایک بیان میں کیا،انھوں نے کہاکہ علامت قیامت کی تیسری قسم جسکو علامات قریبہ کہتے ہیں یہ بالکل قرب قیامت میں یکے بعد دیگرے ظاہرہونگی،اوربڑے بڑے عالمگیر واقعات ہونگے جنکے ظہور کے بعد اچانک کسی بھی وقت قیامت آجائے گی،مثلاً ظہور امام مہدیؒ، خروج دجال،نزول عیسی مسیحؑ،خروج یاجوج ماجوج،سورج کامغرب سے طلوع ہونا وغیرہ ان علامتوں کے ظہور کے بعد اچانک قیامت قائم ہوجائے گی،لیکن قیامت آنے پہلے جب دنیا ظلم وناانصافی کی آماجگاہ بن جائے گی اورہرطرف بدامنی وبے چینی پھیل جائے گی،انسانیت مرچکی ہوگی،جب دنیاظلم وستم کے آخری اسٹیج پرہوگی،ایسے وقت میں انسانیت   کوعام اوراسکامداواکرنے کےلئے اللہ تعالی ایک ایسے شخص کومبعوث فرمائے جوخاندان نبوت کاچشم وچراغ اورحضرت فاطمہؓ کے خاندان کااہم فرد ہوگا،علماء نے لکھاہے کہ جب عیسائی طاقتیں مسلم ملکوں پرقبضہ کےلئے متحد ہوجائیں گی اورمسلمانوں کاعرصہ حیات تنگ کردیاجائےگالوگوں پراضطراب اوربے چینی کی کیفیت طاری ہوگی، بے پناہ فتنے برپاہونگے،ان حالات میں ایک بادشاہ کے انتقال کی وجہ سے نئے خلیفہ کے انتخاب پرمسلمانوں میں اختلاف پیداہوجائے گا،اقتدار کےحصول کےلئے اس بادشاہ کےتین بیٹے آپسی خانہ جنگی کےلئے آمادہ ہوجائیں گےایسے وقت پوری دنیاکے مسلمانوں کوکسی ایسی شخصیت کی ضرورت ہوگی جو اس پرفتن اورنازک حالات میں انکی رہبری ورہنمائ کافریضہ انجام دے سکے،ایسے وقت میں امام مہدیؒ کا ظہور ہوگا،اورحدیث کے مطابق وہ اس جماعت یعنی ملت اسلامیہ کے آخری امیر ہونگے،(مسلم)انکااصل نام محمد بن عبداللہ اورلقب مہدی ہوگا،ظہور  کے وقت انکی عمر 40 سال ہوگی، مولاناقاسمی نے ایک حدیث کے حوالے سے کہاکہ، میری امت  حاکموں کی طرف سے ایسی سخت بلاؤں اورمصیبتوں میں گرفتارہوگی کہ اس سے قبل اتنے سخت مصائب کے بارے میں کبھی نہیں سناگیاہوگا، یہاں تک کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی،اورتمام روئے زمین ظلم وزیادتی سے بھرجائے گی،مومنوں کوکوئی جائےپناہ نہ ملے گی ان حالات میں اللہ تعالی میری نسل سے ایک شخص کو مبعوث فرمائے گا، وہ دنیاسے ظلم وناانصافی کاخاتمہ کرکے زمین کوعدل وانصاف سے بھردے گا،بدامنی اورفساد کومٹاکرامن وسلامتی کاماحول قائم کرے گا،اورلوگوں میں میری سنتیں جاری کرے گا"(ابوداؤد)اہل سنت والجماعت  کایہ متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت امام مہدیؒ آخری زمانےمیں مبعوث ہونگے،اورانکا ظہور  بیت اللہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے دوران ہوگا،کچھ چنندہ لوگ انکوپہچان جائیں گے اورانکے ہاتھ پربیعت کرلیں گے،پھروہ کفارو منافقین سے جنگ کرکے روئے زمین پرخلافت اسلامیہ قائم کریں گے،حالانکہ خلافت کاتصورانکے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا،بڑی اصرار کے بعد وہ مجبوراً خلافت قبول کریں گے،اللہ تعالی ایک رات میں انکے اندر قیادت کی صلاحیت پیدافرمادےگا،مختلف احادیث میں ہے کہ امام مہدی پانچ، سات آٹھ یانو سال تک حکومت کریں گے،اس درمیان وہ زمین کوعدل وانصاف سے بھردیں گے،جس طرح پہلے وہ ظلم ستم سے بھری ہوئ تھی،لیکن وہ  خود سے امام مہدی ہونے کادعویٰ نہیں کریں گے جولوگ اسطرح کادعویٰ کرتے ہیں وہ جھوٹے، مکار اورکذاب ہیں انکی بات میں کوئ صداقت نہیں ایسے لوگوں سے ہوشیاراورچوکنارہنے کی ضرورت ہے اللہ تعالی ہم سبکی فتنوں سے حفاظت فرمائے اورسچے امام مہدی کازمانہ نصیب فرمائے۔آمین

Thursday 25 July 2019

فکری اختلافات اور ہمارا طرز عمل!

محمد شکیب قاسمی
_______________
گذشتہ چند دنوں سے مدرسہ ڈسکورس سے متعلق چند تحریرات گشت کر رہی ہیں، بہت سی مفید باتیں زیر گفتگو آئیں، اسی دوران بعض جگہ میرے نام کا بھی تذکرہ ہوا اور ضمنا اس سے جوڑ کر پیش کیا گیا، اس موقع پر بعض احباب ومخلصین کی جانب سے استفسار بھی ہوا، چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی وضاحت کردی جاۓ، مجھے اس ضمن میں جو چند باتیں کرنی ہیں ان میں بنیادی چیز ہمارے طرز عمل سے متعلق ہے، اس سے قبل اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میرے متعلق لکھا گیا کہ اگست میں ہونے والے کسی پروگرام میں شرکت ہوگی، ایسے کسی پروگرام کی تفصیلات نہ میرے علم میں ہے نہ ہی منتظمین کی جانب سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے، رہی  مدرسہ ڈسکورس سے وابستگی تو اس میں عرض کرتا چلوں کہ مولانا وارث مظہری صاحب ابھی دو ہفتے قبل دارالعلوم دیوبند کے بعض اساتذہ سے ملاقات کی غرض سے دیوبند تشریف لاۓ تھے، اس موقع پر مولانا سے دوران ملاقات گفتگو میں اس نظام کے متعلق معلوم ہوا نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ دارالعلوم دیوبند کے بعض اہم اساتذہ مثلا: مولانا اشتیاق قاسمی صاحب وغیرہ اس میں شریک  ہورہے ہیں، اور ۱۷ تاریخ کو ہونے والے انٹرویو میں شرکت کرینگے اور معلوم ہوا کہ شریک بھی ہوۓ، چنانچہ ایسے میں میری دلچسبی بھی ہوئی کہ اس کو دیکھا جاۓ، کیونکہ ایک عرصے سے اس کے متعلق احباب سے سنا تھا، تفصیلات کا کوئی بہت زیادہ علم نہ تھا، اس احساس کو مزید تقویت اس سے ملی کہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند کے بعض اساتذہ بھی اس میں شامل ہیں تو اس کو دیکھا جا سکتا ہے، کوئی مضائقہ نہیں ہے، میرے لئے اس ڈسکورس کی حیثیت ایک اوپن ڈائلاگ سے زیادہ نہیں تھی، جس میں بعض اہل علم جمع ہونگے اور مختلف فکری موضوعات پر حوار اور تبادلہ خیال کرینگے، میں نے مولانا وارث صاحب سے اپنا عندیہ ظاہر کیا تو انہونے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا، اس کے بعد سے  مسلسل جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ یقینا فکر مندی میں مبتلا کرنے والی ہیں، ایسے میں قبل اس کے کوئی بات کی جاۓ یہ وضاحت ضروری ہے کہ ان خدشات کے ہوتے ہوۓ ظاہر بات ہےاس میں بہت سے تحفظات ہمارے سامنے ہیں، ہمارے بڑوں کا منہج ہماری اساس ہے، قبل اس کے کہ پورے نظام کا گہرائی سے مطالعہ نہ کیا جاۓ اور اس کو نہ سمجھا جاۓ  توقف ہی مناسب معلوم ہوتا ہے، البتہ بعض باتیں ہیں جو ہمارے طرز عمل سے متعلق ہیں وہ یقینا قابل غور ہیں بالخصوص ہمارے فضلاء کے عمومی مزاج میں تحقیقی ذوق کا فقدان، بات کسی نظام کی تائید یا مخالفت کی نہیں البتہ اس طرز عمل کی ضرور ہے جو ہمارے درمیان پنپ رہا ہے، کسی بھی بات پر اس کی اساس اور جڑ تک پہنچے بغیر یقین اور دعوے کی حد تک فیصلہ کرنا خود اسلام کے تحقیق کے لۓ وضع کردہ اصولوں کے خلاف ہے، اس میں چند اہم امور ہیں جن کی طرف خصوصی توجہ مطلوب ہے:

1- ان جیسے کورسز/ڈائلاگ کے متعلق جن خدشات اور امکانات کا اظہار کیا گیا ہے تو یقینا وہ خدشات اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ باہر عصری جامعات میں پڑھنے کی صورت میں موجود ہیں جہاں آپ دن رات چوبیس گھنٹے اس ماحول کا حصہ ہیں، ایسے میں کیا ہمارے فضلاء کے لۓ ان جامعات سے براہ راست استفادہ کرنا درست ہے۔؟ اور ہے تو کس حد تک۔؟ کیونکہ ظاہر ہے وہاں بھی کوئی آپ کو بڑے راست فکر اسکالرس نہیں پڑھا رہے ہیں، بلکہ بعض مرتبہ بڑے منحرف الخیال حضرات سے بھی سابقہ پڑتا ہے، جس کے ہم خود بھی شاہد ہیں، لیکن اللہ کا بڑا فضل اور ہمارے اساتذہ اور اکابرین کی تربیت ہی کا نتیجہ ہے کہ کبھی اس جیسی کسی فکر سے متاثر نہ ہوۓ بلکہ ہمیشہ کوشش کی کہ اسلام کے صحیح معتدل پیغام کو اپنے سلف صالحین کے منہج کے عین مطابق ان حضرات کے سامنے رکھا جاۓ اور اپنے موقف کو مضبوطی کے ساتھ پیش کریں، ہدایت دینا نہ دینا اللہ کا کام ہے، اپنی سی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں، بحمد اللہ بسا اوقات بڑی مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں، اوپن ڈائلاگ کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ ہے کہ آپ اگر مدلل انداز سے اپنا موقف پیش کردیں تو لامحالہ ایک طبقہ آپ کا قائل ضرور ہوتا ہے، ہاں شرط ہے اپنے موقف کو مدلل ومستحکم اسلوب کے ساتھ پیش کریں، اور جدید ذہن کو سامنے رکھ کر گفتگو کی جاۓ، ظاہر ہے اس کے لۓ با صلاحیت نوجوان فضلاء درکار ہیں، جو اس کام کو باحسن وجوہ انجام دے سکتے ہیں، ایسے میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی بھی ایسے پلیٹ فارم پر عمومی نوعیت کی اجازت یقینا نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے، البتہ عمومی سطح پر حصار بندی بھی کوئی بہت مفید معلوم نہیں ہوتی۔
‪ ‬
2۔ آج کا دور جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں یہ تحقیق اور اختصاص کا دور ہے اور اسی کا غلبہ ہےایسے میں ایک عرصے سے ہماری جانب سے یہ طرز عمل دیکھنے میں آرہا ہے کہ جہاں کبھی کسی فکری موضوع پر گفتگو کی بات ہوگی تو وہاں فوری طور پر ہمارے سامنے تحفظات آڑے آنے لگتے ہیں، اگر یہ تحفظات واقعی اس نوعیت کے ہیں تو پھر ہمیں اپنے طلبہ کی فکری تربیت پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیۓ کہ آخر کیسے دسوں سال کی محنت کو کوئی چندماہ یا سال بھر میں ضائع کررہا ہے، ایسے میں ضرورت ہے کہ ہم اس مسئلہ پر اس ناحیہ سے بھی غور کریں، میں عرض کرتا چلوں بات ذی استعداد فضلاۓ مدارس کی ہو رہی ہے عمومی نوعیت کے طلباۓ مدارس کی نہیں کہ یقینا وہاں اس کا اندیشہ بہر حال کسی درجہ موجود ہے کیونکہ وہ ابھی تربیتی مرحلے سے گزر ہی رہے ہیں، بلکہ عام فضلاء کو بھی ہم اسی زمرے میں رکھ سکتے ہیں البتہ پختہ فکر واستعداد کے فضلاۓ مدارس بہرحال ان کے لۓ گنجائش ہونی چاہیۓ، ہم سبھی کےلۓ ایک قسم کا پیمانہ نہیں رکھ سکتے۔

3۔ آج ہمارے بے شمار فضلاء ملکی، وغیر ملکی جامعات سے استفادہ کر رہے ہیں، تو کیا وہاں پڑھانے والے سارے مشائخ ہیں۔؟ ظاہر ہے ایسا تو ہرگز نہیں، بلکہ یہ جامعات ملحدین، مستشرقین اور مختلف افکار و نظریات سے وابستہ شخصیات سے بھری پڑی ہیں، جب صورتحال ایسی ہے تو پھر اس کے لۓ بھی پابندیاں عائد کردی جائیں، نہ آکسفورڈ، کیمبرج، ہارورڈ، حتی کہ جامعہ ازہر کی بھی کوئی تخصیص نہ ہو (کیونکہ بعض نظریات وہاں کے مشائخ کے بھی ایسے ہیں جن کا آپ سے شدید اختلاف رہا ہے، خود ماضی قریب میں سابق شیخ الازہر شیخ طنطاوی رحمہ اللہ کے شذوذ سب کے سامنے ہیں)، بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ خدشات وہاں اس سے کہیں زیادہ ہیں بمقابلہ اپنے ماحول میں رہتے ہوۓ اپنے بڑوں کی زیر نگرانی کسی چیز کا مطالعہ یا اس سے استفادہ کرنے سے۔
‫ ‬
4۔ ہم لوگوں نے حصار بندی کرکے اپنے آپ کو انتہائی درجہ محدود کرلیا ہے کہ اب ہم نہ کسی کو اپنی سنانا چاہتے ہیں نہ کسی کی سننا چاہتے ہیں، محض چند شخصیات کی افکار ونظریات کی بنیاد پر کسی پروگرام کو مشکوک کرنا زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لۓ ہر ناحیہ سے غور وخوض کرکے مکمل تحقیق پیش کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا کہ آج کونسی عصری درسگاہ ایسی ہے جہاں کے پڑھانے والوں کے نظریات سے آپ سو فیصد متفق ہونگے، یہ نہ کل ممکن تھا اور نہ آج ہے۔ رہی بات نوٹرے ڈیم یونیورسیٹی کی کہ وہ ایک خاص فکرہ کی ترجمان رہی ہے، تو کیا ہارورڈ اور آکسفورڈ کی بنیاد اساسیات دین پر ہے۔؟ ظاہر ہے پوری مغربی دنیا ایک عرصے سے اسلام کے خلاف میدان میں کام کر رہی ہے، کسی خاص یونیورسیٹی کی تخصیص میرے خیال سے بے جا ہے، بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ یوروپ کی اکثروبیشتر جامعات کا آغاز ڈیوینیٹی کالج (‪Divinity College‬) کے طور پر ہوا ہے پھر مرور زمانہ کے ساتھ عمومی نوعیت کی جامعات کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں، اس ضمن میں یوریپین جامعات کی ایک طویل فہرست ہے،  تو کیا ہم اپنے ان نوجوان علماء کو جن کو مواقع فراہم ہوں وہاں جاکر اسلام کا راست پیغام عام کرنے سے روکیں، اور صحیح اور معتدل فکر کو ان تک نہ پہنچایا جاۓ۔؟
‫ ‬
5۔ اسی طرح ایک بات کہی گئی کہ فنڈنگ مشکوک ہے، میں باوثوق ذرائع سے تو ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ یہ موضوع ابھی مزید تحقیق کا متقاضی ہے، البتہ اتنا ہمیں معلوم ہے اور دیکھا بھی ہے کہ باہر بہت سی جامعات میں ریسرچ کے لۓ فنڈ ایلوکیٹ کیۓ جاتے ہیں، اساتذہ کو دعوت دی جاتی ہے کہ آپ پروپوزل بنائیں، مذکورہ فنڈز اویلیبل ہیں، اساتذہ اپنے ذوق اور فنڈ کو سامنے رکھ کر مختلف پروپوزل پیش کرتے ہیں، بسا اوقات منظوری ملتی ہے اور بسا اوقات نہیں، رہا یہ سوال کہ ان پروجیکٹ پر کام کرنے سےان کا کیا فائدہ ہوتا ہے، تو اس تعلق سے بھی یہ ذہن میں رہنا چاہیۓ کہ آج جامعات کا باہمی تنافس بہت زیادہ ہے ان کی رینکنگ اور درجہ بندی ان جیسی تحقیقات پرموقوف ہوتی ہے کہ کس جامعہ نے اس سال یا اس دورانیہ میں کتنے موضوعات پر کتنی ریسرچ کرائی ہیں، اس سے عالمی پیمانے پر ان جامعات کا بحث وتحقیق کے میدان میں مقام طے ہوتا ہے، عمومی طور پر ان درسگاہوں میں فنڈنگ کی صورتحال کچھ اسی طرح کی ہوتی ہے، یقینا بہت سے حضرات اس طریقہ کار سے واقف ہونگے، اساتذہ کے لۓ بھی یہ چیزیں ان کی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں، کہ کون کتنے یا کس پروجیکٹ میں شریک ہیں، اس سے وہ اپنی ترقیات کے مراحل طے کرتے ہیں، ظاہر ہے یہ اس کا مادی پہلو ہے، اس کی بنیاد پر بعض مرتبہ بڑی نئی واہم تحقیقات ہمارے سامنے آتی ہیں، بڑے بڑے انسائکلوپیڈیا ان جیسے پروجیکٹ کی شکل میں ظہور پذیر ہوۓ ہیں، اس میں جامعہ اور اساتذہ دونوں ہی کا کہیں نہ کہیں فائدہ جڑا ہوتا ہے، جامعات میں یہ عام روٹین کا حصہ ہے، اس طرح کے پروجیکٹس آۓ دن منظور ہوتے رہتے ہیں، اب سوال ہے کہ مدارس ہی موضوع کیون۔؟ تو اس میں باحثین کے ذوق کا بھی دخل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذوق کو سامنے رکھ کر پروجیکٹ منتخب کرتے ہیں، ہوسکتا ہے (جب تک کوئی بات یقین اور تحقیق سے معلوم نہ ہو تو کوئی حتمی راۓ کا قائم کرنا مناسب نہیں) یہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہو، ڈاکٹر ابراہیم موسی صاحب (ان کی شخصیت کے ساتھ اختلاف واتفاق کی بھر پورگنجائش کے باوجود) بہرحال انہی مدارس کے فیض یافتگان میں ہیں، ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں اس طرح کا کوئی خاکہ رہا ہو، جس کے لۓ انہونے پروپوزل پیش کیا ہو۔ جہاں تک فنڈنگ آرگنائزیشن کا تعلق ہے ان کے در پردہ کیا عزائم ہیں وہ تو بالضبط نہیں معلوم البتہ جو مواد ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ڈسکورس کے لۓ خاص مذہب اسلام ہی کو نہیں بلکہ تمام مذاہب عالم کو اس کی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ آئیں اور اس کا حصہ بنیں، چنانچہ ریلیجس ڈسکورس (‪Religious Discourse‬) ان کا ایک اہم موضوع ہے، اس کے لۓ وہ پروجیکٹ بھی ایپروو کر رہے ہیں، خاص بات یہ ہے کہ بعض پراجیکٹ عیسائی سیمینریوں (مذہبی درسگاہوں) سے متعلق ہیں جو اسی نوعیت کے ہیں، تو گویا کہ ان کے منجملہ اغراض ومقاصد میں چونکہ اسلام بھی زیر گفتگو ہے تو ممکن ہے کہ اس کے لۓ انہونے یہ پروجیکٹ اسپانسر کیا ہو، البتہ میں پھر یہ عرض کرونگا کہ یہ موضوع ابھی قابل تحقیق ہے، اس کی مزید معلومات فراہم کی جانی چاہیۓ، محض توہمات اور خدشات کی بنیاد پر یقینی راۓ تک پہنچنا مشکل ہے۔
6۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ یوروپی دنیا میں تحقیق کے نام پر بڑی بڑی رقومات خرچ کی جاتی ہیں، یہ مزاج تو ہمارے یہاں بڑی سے بڑی سرکاری جامعات میں بھی نہیں ہے، اصل میں اس کا تعلق بنیادی طور پر عوامی نفسیات سے ہوتا ہے، یہ بات ہر کس و ناکس کہ علم میں ہے کہ معاصر دنیا میں تحقیق کا جو ذوق مغربی خواص وعوام میں پایا جاتا ہے وہ کسی دوسرے خطے یا قوم میں نہیں (یہ الگ بات ہے کہ تحقیق کے زریں اصول خود مذہب اسلام میں موجود ہیں، بلکہ اس کی نیو اور اساس ہی اسلام کی دین ہے، لیکن افسوس کہ آج اس کا فقدان ہمارے یہاں بکثرت پایا جاتا ہے) یہی تحقیقی ذوق تو ہے کہ اس خطے میں بالخصوص مسلسل اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے باوجود بکثرت لوگ اسلام کی طرف مائل ہوتے چلے جارہے ہیں، اسلاموفوبیا جس کو مخالفین نے اسلام سے دور کرنے کے لۓ بطور آلہ استعمال کیا آج اسی کے وجہ سے ایک طبقہ جو کسی درجہ حق کا متلاشی ہے اور مزاج میں جستجو وتحقیق رکھتا ہے اسلام کا براہ راست مطالعہ کر رہا ہے، اور اس کے نتیجہ میں اس سے متاثر بھی ہو رہا ہے، بہرحال ان کے عمومی مزاج میں تحقیق کا عنصر غالب ہے، اسی بنیاد پر اس حلقے میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لہذا بغیر کسی پختہ ثبوت ہمارا اس پر سوالیہ نشان لگانا مناسب معلوم نہیں ہوتا، ہاں تحقیق ضرور کی جانی چاہیۓ۔!
‫ ‬
7۔ ہمارے عمومی مزاج میں تحقیق کا فقدان ہے، بغیر کسی مستحکم بنیاد کے تشکیک یہ ایک خاص ٹرینڈ چلا ہے، کم از کم وہ نوجوان فضلاء جو خود بھی عصری  درسگاہوں سے کسی درجہ کسب فیض کر چکے ہیں ان کو یہ طرز نہیں اختیار کرنا چاہیۓ، اگر کچھ چیزیں ہیں بھی تب بھی علی وجہ البصیرت اس کا مثبت پیراۓ میں رد ہونا چاہیۓ نہ کہ قبل از تحقیق عوامی فورم پر آکر اس طرح کی گفتگو کی جائے، کیا اس کورس/ڈائلاگ کے مشمولات کو دیکھا گیا ہے۔؟ ان کا علمی جائزہ لیا گیا ہے۔؟ اگر ہاں تو اس کو بھی پیش کیا جانا چاہیۓ تاکہ جانا جا سکے کہ کہاں کیا خرابی متوقع ہے، رہی بات پلورلزم کی، تو آج کونسی عصری درسگاہ ایسی ہے جہاں اس کی دعوت نہ دی جاتی ہو، بلکہ ریلیجس ہارمنی (بین المذاہب ہم آہنگی) میں اس کو اہم محرک کے طور پر پیش بھی کیا جارہا ہے، اس سے بلکل اختلاف ہے اور ہونا بھی چاہیۓ کہ یہ ہمارے نظریات سے بالکلیہ متصادم ہے، لیکن پھر کوئی خاص ڈائلاگ ہی کیوں، بلکہ وہ تمام حلقے جہاں اس قسم کی گفتگو ہو یا وہاں پڑھانے والوں کے نظریات سے ہم متفق نہ ہوں تو اس کے متعلق یہی رد عمل ہونا چاہیۓ، اور اس کا بالکلیہ بائکاٹ ہونا چاہیۓاس میں کسی کورس، جامعہ یا ادارہ کی کوئی تخصیص نہ ہونی چاہیۓ، چاہے وہ آکسفورڈ ہو، کیمبرج ہو یا جامعہ ازہر ہی کیوں نہ ہو بلکہ ہندوستانی جامعات ہی کیوں نہ ہوں، ایسے میں اس پہلو پر بھی غور کرنی کی شدید ضرورت ہے۔
‪ ‬
 یہ چند باتیں قابل غور ہیں، اس تحریر کا مقصد کسی کی تائید یا مخالفت نہیں، البتہ اس طرز عمل کی تردید ضرور ہے جو ہمارے یہاں پنپ رہا ہے۔ میں خود چاہونگا کہ اس کا تحقیقی دراسہ ہونا چاہیۓ، اس کے مشمولات پر گہری نظر ہو، منہج تدریس پر ناقدانہ گفتگو ہو، تب جاکر کوئی چیز نکھر کر سامنے آسکتی ہے، کیونکہ تحقیق نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان دلائل کی روشنی میں نتائج تک پہنچے، اور اگر ذہن میں نتیجہ پہلے سے متعین ہو اور پھر اس کے لئے دلائل فراہم کۓ جائیں تو وہ تحقیق کے نام پر تحریف ہے، یہ اس وقت کے فضلاء کی ذمہ داری ہے، کہ صرف بہاؤ کے ساتھ بہہ کر چند شخصیات کے نظریات کی بنیاد پر کوئی راۓ قائم نہ کی جاۓ بلکہ اس کا سنجیدگی کے ساتھ علمی محاسبہ کریں اور اگر واقعی کچھ چیزیں قابل گرفت ہیں تو اس کا علمی بنیادوں پر تعاقب کریں، اور یہی طریقہ کار علماء کو عوام سے جدا کرتا ہے۔
جب کبھی بھی علمی موضوعات پربات ہوگی اس میں بہت سے نازک مسائل آئینگے، اس کے لئے ہمارے مدارس میں اپنے فضلاء کی ایسی تدریب کا نظم اور اہتمام ہونا چاہیۓ کہ وہ اپنے موقف کو مستحکم ومدلل انداز سے پیش کر سکیں جس سے کہ باطل افکار ونظریات کا تعاقب ہو سکے۔
‫ ‬

پل بھر کی محبت اور زندگی بھر!

تحریر: عثمان غنی رھیکا مدھوبنی بہار
______________
زندگی میں کچھ رشتے ایسے بھی ہوتے ہیں ۔جس کا ہمیں صرف احساس باقی رہ جاتا ہے ۔صرف اس کی جدائی ہمیں ستاتی اور ترپاتی رہتی ہے، اور جب بات محبت کی ہو تو کیا کہنا ۔وہ محبت جس کے لئے لیلا مجنون نے جان دینے تک کی باجی لگا دی۔اور لیلا کو حاصل کرنے میں کوئی قصر نہیں چھوڑا۔ محبت توحید کے مانند ہوتی ہے ۔جس طرح خدا اپنی خدائی میں کسی کو شریک نہیں دیکھنا چاہتا ہے ۔اسی طرح محبت بھی کسی کو شریک نہیں دیکھنا چاہتی ہے ۔محبت تو مغیث نے کیا تھا کہ اپنی بریرہ کے لئے مدینہ کی گلیوں کو آنسوؤں سے تر کردیا۔اور جس کی محبت کی گزارش نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔نے کی۔لیکن آج کل کی محبت خواہشات نفس کی تسکین کا نام ۔محض ضروریات کی تکمیل کا نام ہے ۔یہ محبت نہیں فریب اور دھوکہ ہے ۔جو ایک لڑکی یا لڑکا ایک دوسرے کو دیتے ہیں، محبت میں لوگ جان تک دے دیتے ہیں ۔یا جان لے لیتے ہیں ۔ بنارس جنکشن سے ٹرین کھل چکی تھی کہ ایک حسین و جمیل مسکان بھری نگاہوں والی  میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی جانو ہاتھ بڑھاؤ مجھے بھی چلنا میں ۔میں اناََ فاناََ اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہ مجھ سے آکر ایسے لپٹ گئی جیسے برسوں بعد محبوبہ اپنی محبوب سے مل رہی ہو۔۔۔۔۔میں تو وقتی طور بھول ہی گیا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا فشانہ ۔کہنی لگی جانو اگر آپ نہ ہوتے دروازہ پہ تو آج میری ٹرین چھوٹ جاتی ۔شکرہے اس خدا کا جس نے مجھے وقت پر پہنچا دیا ۔جب وہ سیٹ پر سکون واطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی تو میں نے محبت بھری آواز میں پوچھا آپ کا نام کیا ہے ۔وہ شرماتے ہوئے بولی، لوگ مجھے محبوبی کہہ کر پکارتے ہیں آپ بھی مجھے محبوبی کہہ سکتے ہیں ۔جب تک وہ میرے ساتھ تھی مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ سفر کب حضر میں تبدیل ہوگیا، وہ اپنے منزل مقصود کو پہنچ چکی تھی ۔اب وہ مجھ سے جدا ہورہی تھی، تو ایسا لگ رہا تھا جیسے جسم سے روح جدا ہو رہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔آخر میں وہ شرماتے ہوئے بولی آپ کا اسم گرامی کیا ہے ۔۔میں نے بلا تاخیر کئے بولا اس ناچیز کو لوگ فرقان کہتے ہیں، اور سلام کہہ کر مجھے سے جدا ہوگئی ۔یہ کیسی محبت کے پل بھر میں زندگی بھر کا درد دے گئی ۔آج بھی آنکھیں اسی صورت کے لئے منتظر ہے.

شاہ گنج: چھتیس گڑھ میں ہوئے حادثہ کے بعد بیٹے اور بہو کی لاش گھر پہنچی، بڑی مسجد قبرستان میں ہوئی تدفین!

 شاہ گنج/جونپور(آئی این اے نیوز 25/جولائی2019) گزشتہ روز شاہ گنج محلہ اعراقیانہ کے رہاٸشی محمد طارق کے لڑکے اور بہو اور بیٹی و داماد  چھتیس گڑھ کے ایک جھرنے میں ڈوب گٸے اور چاروں کی موت واقع ہوگٸی، مورخہ ٢٣ جولاٸی کو بیٹے اور بہو کی لاش چھتیس گڑھ سے شاہگنج پہنچی اور بعد نماز عشإ بڑی مسجد قبرستان میں دونوں کی تدفین عمل میں آٸی جبکہ بیٹی اور داماد کی تدفین چھتیس گڑھ میں ہوئی۔
اس دل دہلا ینے والے واقعہ سے پورا قصبہ سوگ کی لہر میں ڈوبا ہوا ہے۔ہزاروں کا مجمع نماز جنازہ میں شریک رہا۔۔طارق کے گھر پر کل سے ہی بھاری بھیڑ رہی اور تعزیت کرنے کے لٸے عوام برابر آتے رہے، دونوں کا جسد خاکی پہنچنے کے بعد پورے محلے میں کہرام مچ گیا۔
محلے کے لوگوں نے اس سانحہ کے متعلق بتایا کہ چھتیس گڑھ کے منیندر گڑھ ضلع میں یہاں کے لوگوں کی کٸی رشتے داریاں ہیں۔اسی میں ابھی ٦ ماہ قبل محمد طارق کے بیٹے محمد طاہر عمر ٢٢ سال کی شادی چھتیس گڑھ میں شاہانہ ٢٠ سال کیساتھ ہوٸی تھی اور طارق کی لڑکی ثنإ ٢٠ سال کی شادی چھتیس گڑھ میں نیاز احمد عمر ٢٨ سال سے ہوٸی تھی یا یوں کہٸیے کہ بدلے پر شادی ہوٸی تھی۔
گزشتہ سنیچر کو طاہر اپنی زوجہ کے ساتھ چھتٕس گڑھ گٸے۔وہاں پر ثنإ اور نیاز کے ساتھ سیر وتفریح کے لٸیے ضلع میں واقع نارہ بہرا جھرنے پر گٸے۔اسی درمیان طاہر جھرنے میں نہانے اتر گٸے ان کو پانی اور جھرنے کی تیزی کا اندازہ نہیں تھا جس سے وہ ڈوبنے لگے ان کو ڈوبتا دیکھ نیاز احمد پانی میں کود گٸے مگر وہ بھی پانی کی تاب نا لاسکےاور وہ بھی ڈوبنے لگے ۔دونوں لڑکیاں بھی موقع پر موجود یہ سب دیکھ رہی تھیں اسی دوران ایک لڑکی نے اپنے ڈوپٹے کو رسی بناکر پانی میں ڈالا مگر وہ بھی پانی میں کھینچ گٸی۔دوسری لڑکی نے اپنا ہاتھ پانی کیطرف بڑھایا اور بدقسمتی سے وہ بھی پانی میں کھینچ گٸی۔اس طرح سے چاروں پانی میں ڈوب گٸیے پولیس اور غوطہ خوروں کی مدد سے چاروں کی لاشیں مل گٸیں۔۔محمد طارق نے بیکوقت اپنےبیٹے بہو بیٹی و داماد کو کھو دیا اور یہی بات چھتیس گڑھ میں بھی لاگو ہے۔دونوں خاندانوں ہر صدمے کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مرحومین کو شہادت کا درجہ عطا کرے ان کی مغفرت کرے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے۔آمین۔

سفر حج ایک عاشقانہ سفر ہے اور حج ایک عاشقانہ عبادت ہے! حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے، انکی دعا اور سفارش قبول کی جاتی ہے: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
__________
بنگلور(آئی این اے نیوز25/جولائی2019) حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج قرآن و حدیث سے ایسے ہی ثابت ہے جیسے نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے۔ اسلئے حج کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ لہٰذا حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ اور ہر صاحب استطاعت پر حج فرض ہے۔ اگر کوئی صاحب استطاعت ہونے کے باوجود حج نہ کرے اس کیلئے احادیث میں سخت وعیدیں بیان کی گئیں ہیں۔ اسلئے فرمایا گیا کہ فرض حج میں جلدی کرو کیونکہ ہمیں یہ نہیں معلوم کے ہمارے ساتھ کیا عذر پیش آنے والے ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر ہے۔ حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ حاجی اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر، اپنے گھر پریوار کو چھوڑ کر، اپنے کام کاج کو چھوڑ کر، اپنے صرف خاص سے فقط اللہ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اللہ کے دربار عالی میں حاضر ہوتا ہے۔ مولانا نے کہا کہ حج فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کیلئے ہو نہ کے جھوٹی شہرت کیلئے۔ تبھی ہمارا حج اللہ کے یہاں مقبول ہوگا اور حج مبرور کا ثواب ملے گا۔ مولانا نے فرمایا کہ حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے۔انہوں نے احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے حج کیا اور اس دوران کوئی گناہ نہیں کیا اور اسکا مقصد فقط اللہ کی رضا ہو تو اسکے سارے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور وہ اپنے گھر اس طرح پاک و صاف ہوکر لوٹتا ہے جیسا کہ اسکی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔ مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح ہے، جسکا ثواب ستر گنا تک ملتا ہے۔ نیز فرمایا کہ حج افضل الجہاد ہے یعنی بہترین جہاد حج مبرور ہے۔ اسلئے احادیث میں فرمایا گیا کہ بوڑھے، کمزور اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ اللہ کے راستے کا مجاہد اور حج و عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ لہٰذا انکی ہر جائز تمنا پوری ہوتی ہے، انکی دعا اور سفارش قبول کی جاتی ہے، انکو بے شمار نعمتوں سے نوازا جاتا ہے۔ شاہ ملت نے فرمایا کہ جن مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے انہیں چاہئے کہ وہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ کریں۔ کیونکہ ہم تمام نیکیوں کے حصول اور گناہوں وسیئات سے مغفرت کے سخت محتاج ہیں اور ہمیں بخوبی معلوم ہیکہ ہماری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں، کبھی بھی بلاوا آسکتا ہے۔مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے حجاج کرام سے گزارش کی کہ وہ دوران حج عموماً امت مسلمہ کیلئے اور خصوصاً مسلمانانِ ہند کیلئے دعا کریں، نیز دوران حج اپنے آپ کو گناہوں سے بلکل اجتناب کرنے کی تلقین کی۔

Wednesday 24 July 2019

مدارس کے قابل اصلاح پہلو /طریقہ کار وتدابیر!

 از : محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
      9358163428
_____________
تقریبا دوصدیوں پر محیط ہندوستان کی تاریخ پر نظر دوڑانے والا شخص کبھی بھی  ہندوستان میں  مدارس اسلامیہ کی ہمہ جہت خدمات سے چشم پوشی نہیں کرسکتا جنگ آزادی میں ہراو دستے کے فرائض کی ادائیگی سے لے کر ملکی نظام کی درستگی تک اس کی خدمات پھیلی ہوئی ہیں انگریزوں کی آنکھ  میں آنکھ ڈال کر بات کرنے اور ان کے ظلم واستبداد کے ذریعہ قائم کی جانے والی ہرتدبیر کوناکام بنانے کا جذبہ بھی اسی مدارس نے دیاتھا
 دینی اعتبار سے عقائد واصلاح اخلاق وکردار کے سانچے میں ڈھالنےاور منبر ومحراب کو زینت بخش کر پوری ملتا اسامیہ ء ہند کے دین وایمان کی حفاظت کرکے پوری دنیا میں دین کی سر بلندی بھی انھیں مدارس کی مرہون منت ہیں
"شہاب نامہ "کے ایک اقتباس سے مدارس اسلامیہ کی خدمات کی ایک جھلک محسوس کی جاسکتی ہے کی کن کن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے مدارس نےملک وملت کی خدمات انجام دیں
   " لوسے جھلسی ہوئی گرم دوپہرں میں خس کی ٹٹیاں لگاکر پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کی محلے میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟
  کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم وگرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتاہے؟
   دن ہو یارات ،آندھی ہویا طوفان، امن ہویافساد، دور ہو یانزدیک،  ہرزمانے میں شہر شہر، گلی گلی ، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملاکے دم سے آباد تھیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑھاتھا، اور دربدر کی ٹھوکریں کھاکر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپاکر بیٹھ رہاتھا اس کی پست پر نہ کوئی تنظیم تھی نہ کوئی فنڈ تھا ، نہ ہی کوئی تحریک تھی اپنوں کی بے اعتنائی،  بے گانوں کی مخاصمت ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کوچھوڑا اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کا شعلہ،  کہیں دین کی شمع، کہیں دین کی چنگاری  روشن رکھی یہ ملا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان کہیں نام کے مسلمان، ثابت وسالم رہے بر صغیر کے مسلمان ملا کے اس احسان عظیم سے کسی بھی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور وہر زمانے میں قائم رکھا
  آج ہندستان کے مدارس جن حالات سے دوچار ہیں اور پوری طرح حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے جس طرح نشانے پر ہیں  ہر مسلمان اس واقف ہے
 حکومت مدارس اسلامیہ کی ساری سرگرمیوں پر گہری نظر رکھ رہی ہے خصوصاً دیوبند کےمدارس تو حکومت کے رڈار پر ہیں ابھی دارالعوم دیوبند کی جدید لائبریری کی جانچ کے احکامات سے ملت اسلامیہ مضطرب ہے
  یہ کوئی اتفاقی امر نہیں بلکہ یہ بھی اسی سازش کا حصہ ہے اس وقت حکومت مدارس کے اندر تک کے نظام تک رسائی حاصل کرچکی ہے ا س لئے اس حوالے سے مدارس اور اس کے ذمہ داران کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
      مدارس اسلامیہ کا نظام تو  الحمد  للّٰہ بہت صاف شفاف ہیں لیکن جب حکومت کی نیت ہی بگڑ جائے تو پھرکیا کہہ سکتے ہیں
    ان حالات میں تمام مکاتب فکر کے علماء ومفکرین اورمدارس اسلامیہ کے ذمہ داران نیز تنظیموں کے صدور ونظماء کو مسلکی اختلافات بھلاکر اتحاد اتفاق کا مظاہرہ کرنےاور "واعتصموابحبل اللہ جمیعا کی عملی تفسیر بن جانے کی شدیدضرورت ہے
اور آپس میں مل بیٹھ کراس طرح کے حکومتی ،اقدامات، سازشوں، حملوں سے بچنے ،اسکا مقابلہ کرنے کی تدابیر ولائحہ عمل پر غور کرنا چاہئے
   پھرایسے حالات میں خاص طور پرہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہماری کوئی تحریر یا ہماراکوئی بیان مدارس کے لئے جنجال نہ بن جائے بالخصوص شوشل میڈیا پر بھی اس طرح کے مضامین وتنقیدات اور مدارس ومکاتب کو نشانہ بنانے والی تحریرات  سے بہت  متنبہ رہنے کی ضرورت ہے
    اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مدارس میں اصلاح کی ضرورت نہیں یا مدارس میں خامیاں نہیں ہیں بلکہ مدارس اور اس کے نظام میں بے شمار قابل اصلاح خامیاں ہیں جو خود مدارس کے لئے سوہان روح ہیں جس کی درستگی ازحد ضروری ہے
     لیکن اس کے لئے وہ راستہ نہ اختیارکیاجائے جو دشمن کے لئے ایک طرح کا ہتھیار ہوجائے بلکہ اس کے لئے ایسا طریقہ کار اختیارکیاجائے کہ سانپ بھی مر جائے لاٹھی بھی پچ جائے :
 مثلااس کے لئے ایک جماعت یا ایسی کوئی کمیٹی تشکیل دےکر پہلے ایسے مدارس کی اور پھر ان میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی جائے پھر اجتماعی طور پر ان کے ذمہ داران سے ملاقات کرکے خداواسطے اس کی طرف متوجہ کراکر ان کےخاتمے کی درخواست کی جائے
    نیز زکات اور اس کے نظام میں شفافیت لائی جائے اور اس کے لئے بھی لائحہ عمل طے کیا جائے،
   طلباء کے حوالے سے للہیت اور ان کے حقوق کی پوری نگداشت اور رعایت کی جائے، حتی الامکان ان کے خردونوش کے  صحیح نظم کی فکرکی جائے ،
    مدرسین کی تنخواہوں کا معیار بلند کیا جائے تو ان شاءاللّٰہ مدرسین میں بھی اخلاص ولگن کے ساتھ کام کرنے کا جزبہ بیدار ہوگا ، مدارس اسلامیہ کا گراف اوپر اجائے گا اور تعلیمی معیار بلندہوجائے گا ۔
   الغرض مخلصانہ مشورہ اورآپسی گفت وشنید سے ان شاء اللہ مدارس کے نظام میں تبدیلی آئےگی اور اس طرح مدارس کے اصلاح ودرستگی کا ایک باب کھل جائے گا لیکن تنقید وتنقیص یا کسی مخصوص ادارے یا شخصی طور پر کسی کو نشانہ بناکر کسی طرح کی دل آزار تحریروں سے کسی اصلاح ودرستگی کی امید تو کم ہی کی جاسکتی ہے البتہ اس طرح حکومت اور اس کےخفیہ اداروں کو مواد ضرور فراہم ہوجائے گا۔
 اللہ تعالیٰ تمام مدارس اسلامیہ ،مکاتب دینیہ ، مساجد کے ذمہ داران، اور دینی تنظیموں کو اخلاص کے ساتھ صحیح نہج پرکام کرنے کی توفیق بخشے اور ان سب کو حاسدین کے حسد اور دشمنان دین کی ریشہ دوانیوں سازشوں سے محفوظ فرمائےآمین۔

بچوں کو دینی تعلیم دلانا والدین کی اہم ذمہ داری ہے: محمد حسان ندوی

دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی ین اے نیوز24/جولائی2019) جولائی اولاد اللہ پاک کی عظیم دولت ہے اولاد جہاں والدین کے لئے نعمت ہے وہی آزمائش کا ذریعہ بھی ہے اگر والدین بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کریں اور دین کی بنیادی تعلیمات سے روشناس کرائیں تو یہی اولاد ان کے لئے رحمت اور نعمت ہے لیکن اگر اولاد کی صحیح تربیت نہیں کی گئی تو یہی اولاد ہمارے حق زحمت اور آزمائش ہوگی اس لئے ہر والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کی بنیادی تعلیمات سے ضرور روشناس کرائیں، مذکورہ بالا خیالات کا اظہار مولانا محمد حسان ندوی ناظم مدرسہ عربیہ مصباح العلوم مہولی نے تقسیم انعامات کے عنوان سے منعقد پروگرام میں کیا ، مولانا نے کہا کہ مذہب اسلام میں تعلیم کی اہمیت وافادیت اور حصول پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت سب سے پہلی آیت علم ہی کے سلسلے میں اتری ہے حالانکہ اس وقت علم اور قلم بہت مشکل سے کہیں ملتا ہے چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ جس وقت پہلی وحی اتری ہے اس وقت پورے عرب میں صرف تین یا چار قلم پائے جاتے تھے اور انہیں کا شمار اہل علم میں ہوتا تھا ، لیکن ایسے حالات میں بھی قرآنی آیات جو اتری ہے وہ علم پر ہے
مولانا نے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ محنت سے علم حاصل کریں اور اپنے والدین اور اساتذہ کا کہنا مانتے ہوئے نماز تلاوت بھی کرتے رہیں،
سعید احمد  مظہر حسین نوشین فاطمہ منیبہ خاتون مانپور ریان احمد چھتہی مہ جبیں ثناپروین محمد تابش صدیقی ساجدہ خاتون تبسم ناظرین مہولیا ریحان احمد ابو عبیدہ محمد شاداب ثناء اسرار بشری ہدی دلشاد عالم خان وغیرہ کو انعامات دے کر حوصلہ افزائی کی گئی
اس موقعہ پر قاری محمد عیسی ماسٹر انعام اللہ حافظ عبد اللہ ماسٹر ابو العاص مشتاق احمد ماسٹر مجیب اللہ طاہر حسین فضل الدین مشتاق احمد ایاز خلیل آبادی اچھو خان وغیرہ بطور خاص موجود رہے_

مسلمانوں کے جان، مال و آبرو کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے: نظرعالم قومی صدر آل انڈیا بیداری کارواں

محمد سالم آزاد
_____________
مدھوبنی(آئی این اے نیوز24/جولائی2019) یہ کیسا ملک ہے جہاں سبھی اندھے ہی اندھے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے کچھ رسموں کو چھوڑ دیں تو سبھی ایک جماعت ہیں، کیا ہندو، کیا مسلم، کیا عیسائی، کیا سکھ، کیا بودھ، کیا دیگر مذاہب۔ سبھوں میں ایک چیز عام ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی قوم نہیں کرسکتی اوروہ ہے ”بددماغی“ ہندو اور بودھ کے ماننے والے ’اہنسا‘ پر یقین رکھتے ہیں مگر ملک کی صورت حال کچھ اور بیاں کرتی ہے، عیسائی سبھوں کو آلِ خدا مانتے ہیں پر دنیا کی تاریخ کچھ الگ ہی کہتی ہے۔ مسلمان خاص طور پر مسلمانانِ ہندکہتے ہیں، ہم ملک کے آئین کو مانتے ہیں۔پھر بھی گائے، بیل، بھینس کھاتے ہیں، حد تو تب ہوتی ہے جب یہ لوگ قربانی بھی اِن جانوروں کی کرجاتے ہیں۔ علماء کی زبان ہند میں یہ ہے کہ ”مسلمان آئین ہند پر بھروسہ کرتے ہیں، انہیں مانتے ہیں اور ’حب الوطنی‘ چوں کہ ہمارا مذہب ہی تعلیم دیتا ہے اس لئے ہم میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔“
ہم اپنے ناقص علم کے باوجود یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ علمائے ہند درست فرماتے ہیں، وہ عمل کے لحاظ سے جیسے بھی ہوں تقریر اور تحریر میں غلط بیانی کر ہی نہیں سکتے۔ تو پھر آخر ایسا کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کے ان علماء کی زبانیں بے اثر ہیں۔ انہوں نے اپنی اہمیت کھودی ہے۔ اس کی وجہ ہم بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے مصلحت پسندی سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ یہ بولتے تو ہیں مگر کھل کر نہیں بولتے، یہ لکھتے تو ہیں مگر جھول کے ساتھ۔ علماء یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہند کا آئین اگر ہمیں گائے، بیل، بھینس کھانے کی اجازت نہیں دیتا تو ہم انہیں نہ کھائیں۔ قربانی ان جانوروں کی نہ کریں، متبادل ہے اس کا، مسلمانان ہند متبادل کی طرف توجہ مرکوز کریں۔ چھوڑ دیں ان جانوروں کو، اسے چھوڑنے سے کون سا ایمان پر حرف آجائے گا۔ پر علماء ایسا نہیں کہتے، نہیں لکھتے، فتویٰ بھی نہیں دیتے۔ انہیں ثانیہ مرزا اسکرٹ میں تو دکھ جاتی ہے مگر معصوم روز ان جانوروں کی وجہ سے چوک چوراہوں پر مار دئیے جارہے ہیں وہ نہیں دکھائی پڑتے۔ کیوں نہیں دکھائی پڑتے تو اس کا جواب شاید صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر علماء انہیں دیکھنے لگیں تو شاید ان کی دُکانداری بند ہوجائے گی۔کئی صدیوں پہلے شیخ شرف الدین یحییٰ منیریؒ نے کہا تھا کہ اب علمائے حق ختم ہوچکے ہیں ان کی جگہ علمائے دنیا نے لے لی ہے۔ حیف صد حیف کہ ہم اب بھی نہیں بدلے۔
آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے منچ سے میں مسلمانانِ ہند کو احمدفرازؔ کی زبان میں یہ کہنا چاہوں گا:
وہ جو قاتل تھے وہ عیسیٰ نفسی بیچتے ہیں
وہ جو مجرم ہیں انہیں اہل عدالت دیکھوں
وہ جو بے ظرف تھے اب صاحب میخانہ ہوئے
اب بمشکل کوئی دستار سلامت دیکھوں
گردنیں ٹوٹی ہوئیں، سر ہیں خمیدہ جن کے
ان کو سرگشتہ پندار امامت دیکھوں
جانے کب دشنہ کو پیوست رگِ جاں کردیں
ہر گھڑی میں جنہیں مصروفِ عبادت دیکھوں
آپ علماء پر بھروسہ کیجئے، یقین کیجئے، دعائیں لیجئے، مگر ایمان مت لائیے۔تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھول کر رکھئے۔ آپ نے کون سا ان جانوروں کو پال رکھا ہے جو مجبوری ہے، کھانے، بیچنے اور قربانی کرنے کی۔ آپ چھوڑ دیجئے ان جانوروں کو،خدا کے لئے، خوف کھائیے خدا سے، آپ کی وجہ سے بے قصور نوجوان، بوڑھے، بچے مسلمانوں کی جان جارہی ہے، آپ اپنے دماغ پر زور دیجئے اور سوچئے کہ کل خدا کے حضور آپ کو پیش ہونا ہے، کیا جواب دیں گے، جب یہ سوال ہوگا کہ آپ نے اپنے مسلمان بھائیوں کے جان و مال اور آبرو کی کتنی حفاظت کی؟ ہم علماء سے بھی کہنا چاہیں گے کچھ پل کے لئے خدا کے ہوجائیے اور ہر منبرومحراب سے یہ حکم فرمادیجئے کہ ان جانووروں کو کھانا، خریدنا، بیچنا، قربانی کرنا اس ملک میں قطعی درست نہیں ہے۔ شاید یہی ہمارے کردہ گناہوں کا معصوموں کو ماب لنچنگ میں قتل کروانے کا کفارہ ہوگا۔