اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: June 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 30 June 2020

پردھان منتری غریب کلیان اناج یوجنا نومبر تک جاری رکھنے کا فیصلہ


پردھان منتری غریب کلیان اناج یوجنا نومبر تک جاری رکھنے کا فیصلہ
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے آج پردھان منتری غریب کلیان اناج یوجنا کو نومبر تک بڑھانے کا اعلان کیا جس کے تحت غریب خاندانوں کے ہر فرد کو ہر ماہ پانچ کلو گندم یا چاول اور ایک کلو چنا مفت دیا جائے گا۔مسٹر مودی نے کورونا کی وبا کی وجہ سے ملک بھر میں مکمل تالا بندی کے کئی مرحلے کے بعد معاشی سرگرمیوں اور زندگی کو معمول پر لانے کے لیے انلاک-2 شروع ہونے سے ایک روز قبل آج قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تہوار کا موسم شروع ہونے جارہا ہے۔ اور اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے ان کی حکومت نے غریب طبقے کے لئے ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پردھان منتری غریب کلیان اناج یوجنا کو نومبر تک بڑھایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ “اس اسکیم کو بڑھانے پر 90 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ لاگت آئے گی۔ اگر آپ پچھلے تین مہینوں کے اخراجات اس میں شامل کردیں تو یہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ کروڑ بن جاتے ہیں”۔مسٹر مودی نے کہا کہ” برسات موسم میں زیادہ تر کام بنیادی طور پر زراعت کے شعبے میں ہوتا ہے اور جولائی کے بعد تہواروں کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ تہواروں کا یہ وقت ضرورتوں کو بھی بڑھاتا ہے میں اخراجات میں بھی اضافہ کرتا ہے”۔وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے پورے ہندوستان کے لئے ایک خواب دیکھاہے۔ اب ایک قوم، ایک راشن کارڈ یعنی پورے ہندوستان کے لئے ایک راشن کارڈ کا انتظام بھی ہو رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں کو ہوگا، جو اپنا گاؤں چھوڑ کر ملازمت یا دوسری ضروریات کے لئے کہیں اور چلے جاتے ہیں اور کسی دوسری ریاست میں جاکر رہتے ہیں۔غریب کلیان اسکیم کے لئے کسانوں اور ٹیکس دہندگان کی تعریف کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ” آج اگر حکومت غریبوں، مسکینوں کو مفت اناج فراہم کرنے کے قابل ہے ، تو اس کا سہرا دو طبقوں کو جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے محنتی کسان اور ہمارے ملک کے ایماندار ٹیکس دہندگان۔ آج میں ہر کسان، ہر ٹیکس دہندہ کو دل سے سلام پیش کرتا ہوں۔انہوں نے ملک کو خود کفیل بنانے کے لیے وطن کے باشندوں سے دن رات محنت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “آنے والے وقت میں ہم اپنی کوششیں مزید تیز کریں گے۔ ہم غریب، مظلوم اور محروم ہر اس فرد کو بااختیار بنانے کے لئے مستعدی سے کام کریں گے۔ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ہم معاشی سرگرمیوں کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ ہم خود انحصار ہندوستان کے لئے دن رات ایک کریں گے۔ ہم سب مقامی لوگوں کے لئے آواز بلند کریں گے۔ اس عزم کے ساتھ ہمیں 130 کروڑ لوگوں کو عزم کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے”۔اس سے قبل انہوں نے کہا کہ کورونا کی وبا مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن بروقت اقدامات کی وجہ سے ہندوستان کی صورتحال بہت سارے ممالک کے مقابلے میں بہتر ہوئي ہے۔ انہوں نے کہا کہ “اب ہم کورونا عالمی وبائی مرض کے خلاف لڑ تے ہوئے انلاک -2 کے ساتھ ہی ایسے موسم میں داخل ہورہے ہیں جس میں سردی ، کھانسی، بخار کے معاملات بڑھتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں میں اپنے تمام ہم وطنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنا خیال رکھیں”۔مسٹر مودی نے کہا کہ مکمل تالا بندی کے دوران پورے ملک کے باشندوں نے قوانین پر عمل کیا، لیکن اب حکومتوں اور لوگوں کی سطح پر انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ، “خاص طور پر کنٹنمنٹ زون پر بہت زیادہ دھیان دینا ہوگا۔ جو بھی لوگ قوانین پر عمل نہیں کررہے ہیں، ہمیں انہیں ٹوکنا ہوگا ، روکنا ہوگا اور سمجھانا بھی ہوگا۔ اب آپ نے بھی خبروں میں دیکھا ہوگا کہ ایک ملک کے وزیر اعظم پر 13 ہزار روپے کا جرمانہ اس لیے عائد کیا گیا کیونکہ انہوں نے عوامی مقام پر ماسک نہيں پہنا ہوا تھا۔ ہندوستان میں بھی مقامی ل تالا بندی کے دوران حکومت غریبوں کی مستقل مدد کرتی رہی ہے۔ پچھلے تین مہینوں میں 31 ہزار کروڑ روپئے 20 کروڑ غریب کنبوں کے جن دھن کھاتوں میں براہ راست جمع ہوچکے ہیں۔ اس وقت کے دوران 9 کروڑ سے زائد کسانوں کے بینک کھاتوں میں 18 ہزار کروڑ روپے جمع کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دیہات میں مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے وزیر اعظم غریب کلیان روزگار یوجنا تیز رفتاری سے شروع کی گئی ہے۔ حکومت اس پر 50 ہزار کروڑ خرچ کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ “میں بھی سب سے گزارش کرتا ہوں، دو گز دوری کی پیروی کرتے رہیں، گمچھی، اور ماسک کا ہمیشہ استعمال کرتے رہیں، لاپرواہ نہ برتيں”۔نتظامیہ کو اسی طرح چستی کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ یہ 130 کروڑ شہریوں کی جانوں کی حفاظت کا ابھیان ہے۔

اسلامو فوبیا اور ہندوستان!

تحریر: محمد جاوید نئی دہلی
______________
مکرمی:عبوری زندگی, کچھ قائل نظریات اور برسوں سے پیچیدہ نظریات کے تحت چلی آرہی ہے۔ ایک شخص اپنی فہم اور اندرونی عقیدے کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے ماضی کا درجہ رکھتا ہے ,جو گذشتہ زندگی میں بڑھتا گیا ہے۔ بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں حالیہ پچھلے سالوں میں اسلامو فوبیا کا احساس وسیع ہوا ہے،حالانکہ اس دعوے کی خوبی قرآن،حدیث اور آئین ہند کی روشنی میں قابل اعتراض ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے۔کچھ اسلام مخالف پروپیگنڈہ کرنے والوں نے اپنے مفاد خود اور سیاسی تسلط کے لئے اسلامو فوبیا کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم ،کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اسلام کا مطلب امن اور ہم آہنگی ہے جو اخوت اور محبت کو واضح کرنے کے لئے انتہائی حقیقت پسندانہ اور عقلی اصولوں کا تقاضا کرتا ہے۔اس میں مستقل اور پر امید رہنا ، مقدس طریقے سے پیسہ کمانا،ضرورت مند لوگوں کی سب سے عمدہ جنت کے حصول کے لئے خدمت کرنا,غریبوں کو پیسہ دینا،حکومت کو ٹیکس دینا، اپنے آپ کو گناہ،تعصب اور لالچ سے پاک کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ایک دوسرے سے نفرت نہ کرو ، ایک دوسرے سے حسد نہ کروبلکہ بھائیوں کی حیثیت سے اللہ کے بندے بنو۔ مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ بات چیت بند رکھے (صحیح البخاری 5718)۔ تمام مسلمانوں کے لئے یہ واضح پیغام ہے کہ وہ ملک میں پیار اور بھائی چارے کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ تمام مسلمان اپنے ہی ملک ہندوستان کے لئے پوری طرح سے وفادار رہیں۔وہ ہندوستانی ثقافت اور روایات کو پسند کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ہندوستانی آئین کی پاسداری کرتے ہیں بلکہ اپنی جان و مال سے ہندوستان کا دفاع کرنے کے لئے بے حد بے چین ہیں۔ تاریخ عبدالحمید وغیرہ جیسوں کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔جس نے مسلمانوں پر مشتمل فوج کے خلاف اپنی مادر وطن کی حفاظت کی۔ کچھ لوگ (جو مفاد پرست مفادات رکھتے ہیں یا پاکستان جیسے دشمن ملک سے وابستہ ہیں) ہمیشہ شدید بحران کے وقت ہندوستانی مسلمان کی پریشانی اور اذیت کو بڑھانے کے لئے ہندوستان میں اسلامو فوبیا کی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں (جیسے دہلی کے فسادات یا ہند کی تناؤ کی صورتحال) چین بارڈر)۔ تاہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو لازمی طور پر اس کی مثال کو ذہن میں رکھنا چاہئے ,جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  طائف شہر گئے تھے جہاں مشرکین نے آپ پرپر پتھراؤ کیا تھا اور آپ کوزخمی کردیا تھ,آپ نے سب کو معاف کر دیا تھا۔ جائے۔مسلمانوں کے لئے ایک لازمی طریقہ یہ ہے کہ وہ اصل رنگ عام عقیدے کے برخلاف تمام ہندوستانی مسلمان بغیر کسی روک تھام کے اللہ سے دعا کرتے ہیں  پانچ بار اذان پڑھتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ہندوستان واحد ملک ہے جہاں ٹریفک کو دوسری سڑکوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تاکہ مسلمان نماز جمعہ کے دوران سڑک پر نماز پڑھ سکیں۔ مغربی دنیا کے مقابلے میں بھارت میں داڑھی رکھنے یا برقع پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔یہاں مسلمان مختلف طریقے سے پیسہ کما سکتے ہیں۔

سفرنامہ: گورکھپور تا خاک دربھنگہ

⁦✍️⁩ قسیم اظھر
_____________
سفر ایک مشکل ترین گھاٹی ہے،  ایک ایسی گھاٹی، جہاں مسافر کانٹوں بھری وادی کو طے کرتا، خار دار جھاڑیوں سے اپنے دامن سمیٹے خود کو صحیح سالم گزارنے کا خواہاں ہوتاہے، ایک ایسا راستہ، جہاں اپنوں کے ساتھ بیتے لمحات کی یادیں دل پر زور آور حملہ کر رہی ہوتی ہیں، 
 ایک ایسی راہ، جہاں مصائب و آلام کے پرندے سر پر منڈلا رہے ہوتےہیں، ایک ایسی جہان، جہاں یادوں کے بادل جذبات کی بارش کر رہے ہوتے ہیں،
 ایک ایسی منزل، جہاں کبھی شاہراہ ہوتے ہیں تو کبھی اونچے اونچے، بلند وبالا،پہاڑ، ایک ایسا بے آب و گیاہ جزیرہ، جہاں کبھی خونخوار جانوروں کی بھیانک آواز ہو تی ہے، تو کبھی غیر آباد ویران علاقے کی وحشت، ایک ایسی دنیا، جہاں کبھی آنکھیں، تاریخی عمارت، آثار قدیمہ اور پرانی یادوں کو مشاہدات کے ترازو میں تولی جاتی ہیں۔
گورکھپور
یہ شہر ہندوستانی ایجادات واکتشافات کی دلفریبیوں کامرکز اور "اردو ادب" کا گہوارہ رہا ہے، علمی و ادبی اعتبار سے اس علاقے کی مٹی بڑی زرخیز ہے، اسی لئے تو یہ شہر، مہدی افادی، مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، ریاض خیرآبادی،ساقی فاروقی ، گورکھپرشادعبرت ،پریم چند، فطرت واسطی،اصغر گونڈوی، احمدگورکھپوری، عمر قریشی اور شبنم گورکھپوری کےنام سے پہچاناجاتا ہے۔

شہر گورکھپور کی رنگینیوں اور رعنائیوں سے دور گھنےجنگلات میں ایک دینی ادارے کا قیام، جو امت مسلمہ کے مرض کہن کی چارہ سازی،اور رہنمائی میں "اصحاب صفہ"کے اوصاف کی نقش پردازی کرتا، اپنی ترقی کے عروج کو چھو رہا ہے________________
میں بھی اپنی زندگی سے نبرد آزما ہونے اور زندگانی کو حقیقی معرفت عطا کرنے کے لیے اس نسخۂ کیمیا کا متلاشی وسرگرداں تھاجس کی بشارت چودہ سو سال قبل ہی اصحاب محمد کے سینے میں پیوست ہو گئے تھے۔

 ٢٠/ مئی ٢٠٢٠ء
صبح کا وقت سہانا، نسیم سحر  کی دھیرے دھیرے ، سائیں سائیں، کی سرسراہٹ بے جان پتوں میں روح پھونک رہی تھی____    قدرتی روشن چراغ کی کرنیں، پوری کائنات کو منور کر رہی تھی______درختوں کے پتوں کی زردی پر شبنم کے قطروں کی خوبصورتی ، منظر کو نکھار رہی تھی______ ضلع مہراجگنج سے نظر آنے والی ہمالیہ کی چوٹی ، قدرت کے نظاروں کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔

*ہمالیہ*

 یاد رہے کہ "ہمالے" سنسکرتی لفظ ہے جس کے معنی "برف کا گھر " کے آتے ہیں۔

ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو موجود ہیں۔ 8,0000 میٹر  سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔ اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7,200 میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلد ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکاگوا ہے جس کی بلندی صرف  6,962 میٹر ہے۔

"دنیا کے بہت سے بڑے دریا جیسے سندھ، گنگا، برہم پتر، یانگزی، میکانگ، جیحوں، سیر دریا اور دریائے زرد ہمالیہ  کی برف بوش بلندیوں سے نکلتے ہیں۔ ان دریاؤں کی وادیوں میں واقع ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، پاکستان، چین، نیپال، برما، کمبوڈیا، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغیزستان، تھائی لینڈ، لاؤس، ویتنام اور ملائیشیا میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی، یعنی 3 ارب لوگ، بستے ہیں۔"

"ہمالیہ کا جنوبی ایشیا کی تہذیب پر بھی گہرا اثر ہے؛ اس کی اکثر چوٹیاں ہندو مت، بدھ مت اور سکھ مت میں  مقدس مانی جاتی ہیں۔ ہمالیہ کا بنیادی پہاڑی سلسلہ مغرب میں دریائے سندھ کی وادی سے لیکر مشرق میں دریائے برہمپترا کی وادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ برصغیر کے شمال میں 2,400 کلومیٹر لمبی ایک مہراب یا کمان کی سی شکل بناتا ہے جو مغربی کشمیر کے حصے میں  400 کلومیٹر اور مشرقی اروناچل پردیش کے خطے میں  150  کلومیٹر چوڑی ہے۔ یہ سلسلہ تہ در تہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن کی اونچائی جنوب سے شمال کی طرف بڑھتی جاتی ہے۔ تبت سے قریب واقع انتہائی شمالی سلسلے کو، جس کی اونچائی سب سے زیادہ ہے، عظیم ہمالیہ یا اندرونی ہمالیہ کہا جاتا ہے.

********************************************

ہر ایک مسکراتا، ہنستا، خوشی سے اچھلتا، کودتانظر آرہا تھا؛ اور کیوں نہیں؟
 ہمیں تو صرف اور صرف اپنے وطن پہنچنا مقصود تھا،گھر کی روانگی ہمارے زخموں سے بھرے سینے کی مرہم پٹی کررہی تھی__ ملک کےناگفتہ بہ حالات،
مزدوروں کی بے بسی___
ملک بھر میں مسلمانوں کی رسوائی_____
لوگوں کی ہلاکت میں روز بروز اضافہ اور انسانیت کی خونریزی______
ان سب چیزوں سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، آخر نوجوان تھے؟
اور چچا غالب کی تائید کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل تھا۔

رنج سےخوگر ہوانساں، تو مٹ جاتا ہے غم
مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

آخرکار!
ہم بس پہ سوار ہو گئے، بس کے تمام پہیے تیزی سے گھوم رہے تھے ______  اس کے سیٹی کی آواز خاموش فضاؤں ، نظر آرہی سنسان سڑکوں ، بند دکانوں ، سناٹے میں خاموش اور گم سم کھڑی  فلک بوس عمارتوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلارہی تھی۔

قبل اسکے کہ بس کشی نگر پہنچ پاتی سورج کو بادلوں نے اپنےدامن میں چھپا لیا تھا______ آسمان اپنے تقاطر امطار سے زمین کو سیراب کر رہاتھا__ ہوائیں  درختوں کی ڈالیوں کو جھو منے پر مجبور کر رہی تھیں___  سڑکیں دور دور تک سنسان پڑی تھیں____ گویا کہ ہم ایسے جزیرے میں آگئے ہوں جہاں نہ کوئی بندہ تھا نہ بندہ نواز ، کہ یکایک  ایک بائیک پر بیٹھا شخص، چہرہ روشن اور نور سے منور، ٹوپی گول جسکے ارد گردنیچے سے پھولوں کے نقش ونگار، پیشانی پر سجدے کا نشان______ دیکھتے ہی دل انگڑائیاں لینے لگی، آنکھیں پرنم اور اشکبار ہو گئی، حضرت استاذ_____کی یادیں ستانے لگی، کبھی ہائیوے پر لگے اشتہارات کو دیکھتا تو کبھی اپنے شیخ سے ملتی جلتی شکل کو جو میری طرف ٹکٹکی باندھے دیکھے جارہاتھا اور مسکرائے جارہاتھا۔
پھر کیا ہوا؟ 
وہ انکے ساتھ بیتےسارے لمحے___ ان کا مجھ حقیر پر طنز کرنا____میری کامیابی کے لئے ان کا ہمیشہ کوشاں رہنا_____ میری مسکراہٹ پر مسکرانا____شرارت پر ڈانٹ ڈپٹ کے نشتر چبھوتے کف افسوس ملنا_____اشکالات واعتراضات کا کھل کر جواب دینا_____انزلوا الناس علی منازلھم کے مطابق ہرایک سے گفتگو کرنا_______اور انکا پند و نصائح سے ہر ایک کو فیضیاب کرنے نے اپنے دربار کا قیدی بنا لیا تھا ۔

دل کی نگاہ اس بائیک سوار شخص پر بارہا پڑتی ،جزبات کی آرزوئیں مچلنے لگتی____کیوں جدا ہو نے سے پہلے گلے نہیں لگا؟
ان کے پیر کیوں نہیں پڑا ؟
ان سے بچے کی طرح رو رو کر معافی کیوں نہیں مانگا؟ 
پھر عقل نے دل کو سنبھالتےکہا۔

"پیارے!
یہ دنیا جزبات اور آرزوؤں کے سہارے نہیں چلتی_____ اچھا کیا تو نے پیارے___  ورنہ لوگوں کی تضحیک کی آماجگاہ بن گئے ہوتے______

کسی سے جدا ہونا اگر اتنا آسان ہوتا فراز
تو جسم سے روح کو لینے فرشتے نہیں آتے

********************************************

*دربھنگہ*

 یہ وہی شہر ہے جہاں حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ نے اپنے پیر و مرشد کے ایما پر مدرسہ امدادیہ دربھنگہ قائم کیا، جو بعد میں بہار کا دارالعلوم ثابت ہواتھا،
اس ادارے نے بہار کو اس وقت  دینی تعلیم اور احیائے اسلام کا گہوارہ بنا دیاتھا۔
 اس ادارے میں مناظرِ اسلام مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری اور حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ سابق محدث دارالعلوم دیوبند بھی تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں، اس مدرسے کے فیض یافتگان میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمہم اللہ سمیت لاتعداد اربابِ علم و فن ہیں۔

********************************************

٢٢/مئی/٢٠٢٠ء
رات تاریک تھی اور آسماں میں سیاہ بادلوں کے مرغولے اب بھی چکرارہے تھے،  گاڑی اندھیرے کو چیرتی ہوئی چکنی سڑک پر پھسلتی ٤/ بجے صبح "دربھنگہ" پہنچ چکی تھی،  نیند کی خمار میں ڈوبی آنکھیں، ویرانیوں کا معائنہ کر رہی تھی؛ قفل بندی کے آثار چہار سو پھیلی ہوئی تھیں، بڑی تگ ودو کے بعد ایک رکشہ ملا، مخصوص کرایے سے چار گنا زیادہ نقد دینے کی شرط پروہ راضی ہوگیا، میں نے اسے  قدرت کی رحم دلی، لطف خاص اور موقعے کو غنیمت جانا، اور اپنے منزل مقصود سے جاملا۔

اس سفر میں مجھے کافی جدوجہد اور آبلہ پائی کا سامنا کرناپڑا، مگر بقول شیخ سعدی "وہ خوشیوں کے بہاریں اچھی ہوتی ہیں جن کا موسم غم کے بعد آتاہے"
مجھے بھی یہ جملہ، میری تکلیف، میری تھکن، میری مصیبت اور میری دل آزاری کے رفو چکر کرنے کے لئے ناکافی نہیں تھا۔

آج بھی وہ گھڑیاں یادآتی ہیں تو دل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں کہ اللہ دوبارہ مجھے ایسے حادثے کاشکار نہ بنائے۔
اللہم اذھب عنی الھم والحزن

ہم اِن سے روٹھ سکتے ہیں اُن پر ٹوٹ نہیں سکتے!

تحریر: شاداب راہی
__________
کہتے ہیں "گھر کی قیمت بڑھانی ہو" تو اچھے پڑوسی بنالو.
کہاوت ہے اور کہاوت جیسی ہی شان رہ گئ ہے۔
ورنہ آپ خود دیکھ لیں پاکستان تو خیر پاکستان ہے چین۔بنگلہ دیش۔شری لنکا اور نیپال کا رویہ ہمارے ساتھ قابل دید ہے۔

دل بیٹھ گیا،حزن وملال کا سیلاب بپا ہے،ہر چار سو اب چین اور چین ہی ہے،کوئ چینی ساز وسامان کو پیل رہا ہے،تسلی دل ہے جس سے قلب کو سمجھالیں کافی ہیں پر بیوہ کی آس اب صرف ایک بنا روح والا جسم ہے،کرب وحرب کی بات سے جسم اور قلوب واذہان ایک بڑی کشمکش کا شکار ہے،زبان کی لمبائ اور جھوٹ بولنے کی صفائ کا کوئ ثانی نہیں ہے،جھوٹ بھی اتنی بار بولو کہ وہ سچ ہی لگے اس میں ارباب حکومت کے پاس اعلی ڈگری ہے،ایک صاحب نکلے انہوں کہا چین نے قبضہ کیا ہے،بادشاہ نکلے اور کہا کوئ قبضہ نہیں کیا ہے۔
بےچاری عوام مانے تو کس کی مانے؟؟

حکومتی تلوے چاٹنے والی اور خصیہ بردار میڈیا کا کیا آقا جو کہ دے وہی سچ ہے،انہیں کیا ہے؟؟ اس بیس جوان وطن کا لہو ابھی ٹھنڈا بھی نہ ہوا کہ اپنے دامن میں جھانکنے کے بجائے اپوزیشن جو بغیر پوزیشن کی ہے اس کو شراب والی گلاس ہو جیسے برف میں گھول کر پینے کی کگار پر کھڑی ہوگئ۔

کوئ چین کی تعاون پر بکھیڑا کھڑا کیا،کوئ لداخ کے لئے راجیو گاندھی پر بوال کاٹا تو کوئ اس کے لئے بھی راہل گاندھی سے ہی جواب کے موڈ میں ہے۔

ذرا سوچیں ابھی کیا عرصہ گزرا،ان ہی کے بقول ارباب حکومت اور ارکان حکومت پاکستان گھس کے آئ ہے؟ایک ایئر اسٹرائک کے لئے گودی میڈیا اسٹرائک سے قبل لاہور پار کر چکی تھی؟جلوہ در جلوہ کا نظارہ دیکھ آنکھیں کیا دل بھی ان کے لئے رب سے مرہون منت کر رہا تھا۔

 بات کیا تھی آئیے بتاتے ہیں؟
چناو۔۔۔۔یہ ایک ایسی رکھیل ہے جو بڑے سے بڑے کو اپنے پالے میں اتار سکتی ہے،کسی کی قربانی لے سکتی ہے،ہزاروں ابھینندن کو یوں چٹکی میں ہجوم میڈیا کے روبرو پاکستان سے ریسیو کر سکتی ہے اور پھر اپنی اس کامیابی پر کپتان ہزاروں تالی بٹور سکتے ہیں۔۔۔۔

کیا اب وطن کی محبت خاک چھاننے گئ ہے؟کیا اب دس قیدیوں کی رہائ کو اہل میڈیا سے روبرو نہیں کرایا جا سکتا تھا؟کیا اب بیس جوانوں کی شہادت کو دلی لاکر من موہنی شردھانجلی نہیں دی جا سکتی تھی؟کیا ان شہیدان وطن کی حوصلہ افزائ ویسی نہیں کی جاسکتی تھی جیسا کہ بادشاہ نے پہلے کیا تھا؟تالی کپتان کو تو گالی۔۔۔۔۔۔کسے؟؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اب چناو نہیں۔اب کی بار مودی سرکار والے نعرے کی ضرورت نہیں۔
ارباب حکومت ہر محاذ پر فیل ہے،اشیاء کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں،پٹرول ڈیزل والے بابا اب اس پر چپی سادھ کر کرونل بنانے میں مصروف ہیں،بالی وڈ کی بڑی ہستیاں بادشاہ کے خلاف لب کو جنبش دینے کی مجال نہیں کر سکتا،بےچاری عوام ہے کہ نہ گھر کی اور نہ ہی گھاٹ کی ہے۔

ایک بات تو ہے بادشاہ میں کب لاش کی تجارت کرنی ہے یہ کام انہیں خوب آتا ہے،کب آنسو بہانے ہیں یہ بھی کمال درجے کا انکے پاس ہے،کب اور کس کے گھر میں گھسیں۔۔۔۔۔ کہ اینگل مذہب ودین کا بنے یہ تو اعلی درجے کی ہے۔

یہی تھے جو کہتے تھے چین کو لال آنکھ دکھائینگے اور بدلہ لیا "ڈیجیٹل اسٹرائک" سے واہ مودی جی واہ۔

خاصیت دیکھیں پوری ہمت والی سرکار کی چلانا کسی کو نہیں آتا پر ڈرائیونگ پر سب بیٹھے ہیں،وطنینت کا جامہ پہنے اور مذہبیت کا لبادہ اوڑھے بھوکی اور ننگی عوام کو نوچتی سرکار کو کوئ کچھ نہیں کہ سکتا "ان سے کشمیر مانگو تو یہ چیر دینگے،اور لداخ مانگو تو ٹک ٹاک انسٹال کرینگے۔چین سے بدلے کی طور پر بادشاہ نے چینی ایپس بند کئے۔۔۔۔۔

جنہوں نے اپنی تماشہ بین عوام کو چناو کے وقت پاکستان کے خلاف سب دکھایا وہ آج یہ کہ کر کہ کوئ قبضہ نہیں چین کی۔۔۔۔۔۔ خوش ہوئ جا رہی ہے۔

لوہیا نے کہا تھا "کہ جب سڑکیں ویران ہوجائیں (یعنی کوئ سرکار کے خلاف نہ بولیں،نعرہ بازی نہ ہو،وطنیت کا پاس ولحاظ نہ رکھی جائے)تو سنسد آوارہ ہوجاتی ہے" ہو بہو مکمل ہے۔
میں کیا پوچھوں اور نا پوچھوں۔۔۔جواب دے حکومت کہ اگر کوئ قبضہ نہ کیا تو بیس جوان کیونکر شہید ہوئے؟دلال میڈیا بتائے کہ یہ کہنا "جوانوں نے لداخ کا دیکھ بھال صحیح سے نہ کیا اس میں مودی جی کا کوئ دخل نہیں" یہ نوجوانان وطن کی کم ہمتی اور بےعزتی نہیں تو کیا ہے؟جب آپ نے کہا کہ کوئ قبضہ نہیں ہوا تو کیا جبرا ہمارے بیس جوان شہید ہوئے؟ اگر آپ آج جواب نہیں دیتے تو نہ دیں! آپ کو بیواوں کی آہ ضرور لگے گی_یتیم بچوں کی آہ وفغاں سے آپ بچ نہ پائینگے؟

اس زمیں نے ہزاروں فرعون دیکھیں ہیں اور وہ تمام کے تمام زیر زمیں دفن ہوئے ہیں آپ انتظار کریں۔ورنہ حقیقت ہم ہندوستانیوں کے سامنے رکھیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ آپ چھپن انچ والا سینہ اب کتنا باقی ہے،یقینا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔"ہم ان سے روٹھ سکتے ہیں ان پر ٹوٹ نہیں سکتے۔۔۔"
سب یاد رکھا جائے گا۔
بتا تو کہ قافلہ کیوں لٹا؟؟

Monday 29 June 2020

بابا رام دیو کا ’کورونا وائرس‘ کی دوا بنانے سے متعلق دعویٰ نکلا جھوٹ! بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے کورونا انفیکشن کی دوا ‘کورونیل’ تیار کرنے کا دعویٰ کر کے ہلچل پیدا کر دی تھی۔ لیکن اب پتنجلی اپنے اس دعویٰ سے پلٹ گئی ہے۔

بابا رام دیو کا ’کورونا وائرس‘ کی دوا بنانے سے متعلق دعویٰ نکلا جھوٹ!
بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے کورونا انفیکشن کی دوا ‘کورونیل’ تیار کرنے کا دعویٰ کر کے ہلچل پیدا کر دی تھی۔ لیکن اب پتنجلی اپنے اس دعویٰ سے پلٹ گئی ہے۔

بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی اکثر کسی نہ کسی وجہ سے موضوعِ بحث بنی رہتی ہے۔ حال ہی میں پتنجلی نے کورونا کی دوا 'کورونیل' تیار کرنے کا دعویٰ کر کے مارکیٹ میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ لیکن اب بابا رام دیو کی کمپنی اپنے اس دعویٰ سے پلٹی مارتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس دوا کو پتنجلی آیوروید گروپ کی کمپنی دِویہ فارمیسی نے تیار کیا ہے۔ میڈیا میں آ رہی رپورٹس کے مطابق پتنجلی نے اتراکھنڈ کے آیوش محکمہ کی جانب سے جاری نوٹس کے جواب میں کہا ہے کہ اس کی جانب سے کورونا ختم کرنے کی کوئی دوا نہیں بنائی گئی ہے۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ منگل یعنی 23 جون کو بابا رام دیو اور پتنجلی آیوروید کے سی ای او آچاریہ بالاکرشن نے میڈیا کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی کمپنی نے کورونا کو شکست دینے والی دوا تیار کر لی ہے۔ ان کے اس دعوے کو درکنار کرتے ہوئے مرکزی آیوش وزارت نے دوا کی تشہیر اور فروخت پر روک لگانے کا حکم دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کمپنی سے تفصیل مانگی تھی کہ انھوں نے دوا کا ٹرائل کب کیا اور دوا بنانے میں کون کون سی اشیاء کا استعمال کیا گیا ہے۔
اتنا ہی نہیں، اس کے اگلے دن یعنی 24 جون کو اتراکھنڈ آیوش محکمہ نے پتنجلی کو نوٹس جاری کیا تھا اور اس سلسلے میں 7 دنوں کے اندر جواب طلب کیا تھا۔ اتراکھنڈ کے محکمہ آیوش کے لائسنس افسر نے خود سامنے آتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جانب سے پتنجلی کو قوت مدافعت بڑھانے کی دوا بنانے کا لائسنس دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پتنجلی نے اپنے لائسنس میں دوا تیار کرنے کی بات ہی نہیں کہی تھی۔

ہندوستان میں سالانہ ایک لاکھ 35 ہزار لوگ خودکشی کرتے ہیں

سری نگر: ہندوستان میں سالانہ ایک لاکھ 35 ہزار لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر خودکشی کرتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 15 سے 29 سال کے درمیان کی عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان کے معاملے میں ہندوستان اول مقام پر ہے۔یہ اعداد و شمار خودکشی کی روک تھام کے لئے سرگرم کارکن ڈاکٹر رمیندر جیت سنگھ نے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ جموں و کشمیر کے خصوصی پروگرام ‘سکون’ کے دوران ظاہر کئے۔انہوں نے کہا: ‘دنیا میں ہر سال آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ ہندوستان کی بات کریں تو یہاں سالانہ تقریباً ایک لاکھ 35 ہزار افراد خودکشی کرتے ہیں۔ دنیا کی آبادی کا 17.5 فیصد لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہر سال ہونے والی خود کشیوں میں ہمارا حصہ 17 فیصد ہوتا ہے’۔
ان کا مزید کہنا تھا: ‘نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان کے معاملے میں ہمارا ملک پہلے نمبر پر ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کی عمر 15 سے 29 برس کے درمیان ہوتی ہے’۔ڈاکٹر رمیندر جیت سنگھ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں سالانہ 400 افراد خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ‘جموں وکشمیر میں ہر سال زائد از ایک ہزار افراد خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قریب 400 اموات ہوجاتی ہیں’۔خودکشی کی وجوہات کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف ڈاکٹر نے کہا: ‘بھارت اور جموں وکشمیر میں خودکشی کی وجوہات ایک جیسی ہیں۔ 52 فیصدی لوگ گھریلو تنازعات کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں۔ گھریلو تنازعات میں میاں بیوی میں جھگڑا، بہو سانس میں جھگڑا اور دیگر جھگڑے شامل ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘نوجوانوں کی جانب سے خودکشی کرنے کی وجوہات میں امتحانات کا دبائو اور امتحانات میں ناکامی سرفہرست ہے۔ خودکشی کی وجوہات میں منشیات کا عادی ہونا اور ذہنی دبائو میں مبتلا ہونا بھی شامل ہیں’۔ڈاکٹر رمیندر جیت سنگھ نے کہا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ممالک میں پیدا ہونے والی صورتحال بھی خودکشی کی وجہ بن رہی ہے۔ان کا اس حوالے سے کہنا تھا: ‘کورونا کی وجہ سے عالمی سطح پر مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ لوگ اپنی نوکریاں کھو رہے ہیں اور انہیں مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے۔ یہ مسائل بھی خودکشی کی وجہ بن رہے ہیں’۔موصوف ڈاکٹر نے کہا کہ وہ لوگ جن کا رویہ تھوڑا عجیب غریب ہوتا ہے اور مایوسی کی باتیں کرتے ہیں ان میں خودکشی کا رجحان ہوتا ہے۔وہ مزید کہتے ہیں: ‘ان کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ ان کو کبھی کبھی آپ یہ کہتے ہوئے سن سکتے ہیں کہ “بہتر ہے کہ میں مر ہی جائوں”، “میں تنگ آچکا ہوں”۔ ایسے افراد کی ان باتوں کو نظر انداز نہیں کرنا ہے۔ ان سے بات کرنے کی ضرورت ہے’۔

*قصہ کرسی کا* ⁦✍️⁩: *ابن مالک ایوبی*

*قصہ کرسی کا*



⁦✍️⁩: *ابن مالک ایوبی*

کسی جمہوری ملک میں جب امتیازی حیثیت سے انتخاب جیتنے والا کوئی لیڈر خود کو ملک کا بادشاہ سمجھنے لگے، وہاں کے بھولی عوام ایسے لیڈروں کی بھکتی میں اس کی ہر بات کو سچ، اور اس کے خلاف بولے گئے ہر لفظ کو جھوٹ باور کرنے لگے، وہاں کی میڈیا صحافت کو صداقت کی پٹری سے اتار کر ابن الوقتی کی ڈگر پر لے آۓ، وہاں کی عدلیہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے، حکومت کی کاسہ لیسی کو نصب العین بنا لے، اور حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ملک کے لیے خطرہ بتا کر ان کو پسِ زندان ڈالنے کی حمایت کرنے لگے...تو بس یقین مانیں کہ وہاں ڈیموکریسی اور سیکولرزم نامی کسی شے کا وجود ناممکن ہے۔

اور اتفاق سے سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والے ہمارے ملک بھارت میں یہ تمام چیزیں کئی بار ہو چکی ہیں، مطلب.... ڈیموکریسی کو کئی بار بے موت دفن کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
ایسے ہی حالات و واقعات پر مشتمل، ایک انتہائی شرمناک اور افسوس ناک واقعے کی یاد دلاتا ہے آج کا دن... یعنی 25 جون۔

ملک میں کانگریس کا اقتدار عروج پر تھا، آج کے زعفرانی نشے کی طرح کانگریسی خمار سر چڑھ کر بول رہا تھا، 1971 کے انتخابات میں اندرا گاندھی کو تازہ تازہ جیت ملی تھی، سقوطِ ڈھاکہ میں اہم کردار ادا کرنے اور انتخابات میں زبردست جیت حاصل کرنے کی وجہ سے اندرا گاندھی کا دماغ آسمان چھو رہا تھا، بالکل ویسے ہی، جیسے موجودہ وزیراعظم کا حال ہے۔

اسی دوران اندرا حکومت کے ذریعے لاۓ گئے کچھ آرڈیننس کی بنا پر بہت سے لوگوں کی جائیدادیں ضبط ہونے لگیں، کیرلا کے کیساوانندا (kesavananda) نے اس معاملے کے لیے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس کے بعد اس معاملے کو لے کر تیرہ سینیئر ججوں نے مل کر ایک میٹنگ کی، اس وقت یعنی 1973 تک آئینِ ہند میں "حقوقِ املاک" ( rights to property) کے نام سے ایک بنیادی حق ہوا کرتا تھا، اسی کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ ہوا، کہ حکومت آئینِ ہند میں ترمیم تو کر سکتی ہے، لیکن ایسی کوئی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے کو زیر نہیں کرسکتی، لیکن اس بنیادی ڈھانچے کی وضاحت نہیں کی گئی تھی، جس کے بعد اس بنیادی ڈھانچے (basic structure) میں اختلاف ہو گیا، اس اختلاف کے نتیجے میں عدالتِ عالیہ کو آئین کا سرپرست بنا دیا گیا، اور بنیادی ڈھانچے کی توضیح کی ذمّہ داری اس کے سپرد کر دی گئی۔

اب اندرا گاندھی کو یہ کیسے برداشت ہو سکتا تھا، کہ اس جیسی سپریم لیڈر کو عدالت روک ٹوک کرے، اس لیے انہوں نے تین اہم اور سینیئر ترین ججوں کو نظر انداز کر کے اپنے قریبی اور خصیہ بردار جج اے این رے (a.n.rey) کو چیف جسٹس بنا دیا، آسان لفظوں میں کہیں، تو آئین کی نگراں عدالتِ عالیہ تھی، اور عدالتِ عالیہ کی نگراں وہ خود بن گئیں، جیسے بی جے پی حکومت نے جسٹس گوگوئی (justice Gogoi) کو استعمال کر کے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔

دوسری جانب رائے بریلی سے اندرا کے خلاف انتخاب ہارنے والے راج نارائن (raj Narayan) نے "نمائندگئ عوام ایکٹ" (representation of the people act) کے تحت یہ الزام لگایا، کہ اندرا نے پی ایم آفس میں کام کرنے والے آفیسر یشپال کپور سے اپنی انتخابی مہم میں مدد چاہی تھی، اور یہ غیر قانونی تھا۔

اس وقت ججوں میں انصاف پسندی کی کچھ رمق باقی تھی، چنانچہ 12 جون 1975 کو جسٹس سنہا ( jagmohan lal sinha ) نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مجرم قرار دے کر ان کا الیکشن رد کر دیا، اور ان کو آئندہ چھ برسوں تک کے لیے انتخابات میں شرکت سے محروم (debarred) کر دیا۔

چند روز بعد یہ معاملہ عدالتِ عالیہ پہنچا، جہاں ویکیشن جج کرشنا ایئر (vacation judge krishna iyer) نے یہ فیصلہ کیا کہ اندرا گاندھی وزیراعظم تو رہ سکتی ہیں، لیکن ایوانِ حکومت میں کسی بھی فیصلے پر نہ ووٹ دے سکتی ہیں، اور نہ نمائندگی کی سیلری لے سکتی ہیں۔

بس کیا تھا....
25 جون کی اسی شب کو، اندرا گاندھی نے صدر فخرالدین علی احمد کو ملک گیر ایمر جنسی نافذ کرنے کا تانا شاہی حکم دے دیا، صدر صاحب نے قومی سلامتی (national security) کا حوالہ دیتے ہوئے، دفعہ 3521 کے تحت ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی، یہ ایمرجنسی مسلسل اکیس ماہ جاری رہی، جو کانگریس کے ستر سالہ دورِ حکومت کا سب سے شرمناک اور آمرانہ اقدام، اور ہندوستانی جمہوریت کے ماتھے کا کلنک ہے، بالکل ایسے ہی، جیسے بی جے پی دورِ اقتدار کا بابری مسجد فیصلہ اور سی اے اے قانون.....

اسی ایمرجنسی کے دوران کانگریس نے اپنی بے لگام طاقت، عدلیہ کی نیم خوابی اور اپوزیشن جماعتوں کے بے آواز ہو جانے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے حق میں کئی قوانین پاس کیے، جن میں سے نسبندی اور 39-40 ii کی دفعات قابلِ ذکر ہیں۔
دفعہ 39-40 کے تحت یہ قانون تھا، کہ صدر، نائب صدر اور وزیراعظم کے عہدے کے خلاف کوئی فرد یا ادارہ آواز نہیں اٹھا سکتا، اور نہ ہی کوئی ادارہ ان کا الیکشن رد کر سکتا تھا۔

اور اس ترمیم کا نتیجہ یہ ہوا، کہ 7 نومبر 1975 کو عدالتِ عالیہ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو خارج کر دیا، جو جسٹس سنہا(jagmohan lal sinha) نے اندرا کے خلاف صادر کیا تھا، بعد میں جسٹس سنہا(jagmohan lal sinha) کو منظرِ عام سے ہٹنے پر مجبور کیا گیا، جیسے بی جے پی نے جسٹس لویہ (justice loya) کو ختم کرا دیا۔

اس ایمر جنسی کے دوران احتجاجات بھی ہوۓ، سرکار کے خلاف ریلیاں بھی نکالی گئیں، کئی یونیورسٹیوں کے طلباء نے سرکار کے خلاف آواز بھی اٹھائی، لیکن مودی بھکتوں کی طرح اس وقت کانگریس کے بھکت کثیر تعداد میں تھے، اور ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں میں بھی تھے، اس لیے جس طرح جامعہ اور جے این یو کے طلبہ کو اینٹی نیشنل کہہ کر، اور بغیر کسی جرم کے گرفتار کر کے زد و کوب کیا گیا، اور یوپی اور دہلی میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں، اسی طرح اُن پروٹسٹروں کو بھی غدار اور دیش دروہی قرار دے کر ان کو گرفتار کر لیا گیا، ان میں سے بعض پر بے انتہا مظالم ڈھاۓ گئے۔

اور سب سے الم ناک بات یہ کہ اُس وقت کے مظاہرین کو شہری ہونے کا کوئی حق نہیں دیا گیا، حتی کہ ان کا حقِ زیست (right to life) تک چھین لیا گیا، چنانچہ اس وقت کے ایک سینئر جج نے ایک میٹنگ میں یہ عندیہ دیا، کہ ایسے مواقع پر غیر قانونی طریقے سے کسی احتجاجی شہری کی جان بھی چلی جائے، تو کوئی حرج نہیں، سرکار کے اقدام کو درست ٹھہرایا جائے گا۔
یعنی.... میڈیا سے لے کر فوج، اور عوام سے لے کر عدلیہ تک، سب سرکار کے قدموں پر جھکے ہوئے تھے۔

بالکل بعینہ وہی منظر آج ہم دیکھتے ہیں، گزشتہ احتجاجوں میں اپنا حق مانگنے والوں کو حق تو کیا دیا جاتا، ان کے اوپر سخت ترین دفعات لگا کر ان کو اور دبایا جا رہا ہے، حکومت اور پولیس علانیہ طور پر ان پر مظالم ڈھا رہی ہیں، اور عدالت سرکار کی کاسہ لیسی میں نادانستہ طور پر بھی ان مظلوموں کے حق میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کر رہی ہے، نتیجہ یہ کہ پورے ملک میں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

اور اس ایمرجنسی والے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے، تو کانگریس، بی جے پی سے زیادہ اس ملک کی قصور وار ہے، کیوں کہ اسی نے اپنی مقصد براری کے لیے، آئین میں دست برد کا آغاز کیا، اور من چاہے قوانین پاس کیے، آج بی جے پی بالکل اسی کی رَوِش پر چل رہی ہے۔

ان جیسے ناعاقبت اندیش اور نَک چڑھے حکمرانوں کا بس وہی علاج ہے، جو اس وقت کی عوام نے اندرا گاندھی کا کیا تھا۔

ویسے تو اندرا گاندھی کا اس ایمرجنسی کے پسِ پردہ ارادہ یہ تھا، کہ آئندہ تیس چالیس برسوں تک کوئی انتخاب ہی نہ ہو، لیکن اچانک انہیں کیا سوجھی، 1977 میں انتخابات کا اعلان کردیا، اور اس انتخاب میں عوام نے اندرا کا وہ علاج کیا، کہ بس..... دماغ درست ہو گیا۔

موجودہ حکومت بھی لامحدود مدت تک حکمرانی اور ہندو راشٹر جیسے ناپاک عزائم کی تکمیل کا خواب دیکھ رہی ہے، اس کے لیے بھی ہندوستانی عوام کو بیدار ہونا ہوگا۔

لازمی اشیاء (ترمیمی) آرڈیننس 2020: ایک محتاط مطالعے کی ضرورت سراج حسین (مترجم: محمد صغیر حسین)

لازمی اشیاء (ترمیمی) آرڈیننس 2020:
ایک محتاط مطالعے کی ضرورت

سراج حسین
(مترجم: محمد صغیر حسین)

مرکز نے 5جون 2020 کو تین سرکاری فرن (Ordinances) جاری کیے جو میان زراعت میں تبدلیوں کے نقیب کہے جاسکتے ہیں۔ ان میں سب سے مختصر اور زراعت میں سرمایہ سرکاری کے مستقبل کے لیے سب سے زیادہ اہم ’’لازمی اشاء (ترمیمی) آرڈیننس‘‘ (Essential Commodities (Amendmen) Ordinance, 2020 ہے۔ یہ آرڈیننس ان شرائط کی صراحت کے ساتھ ساتھ انہیں پابند بھی کرنا چاہتا ہے جن کے تحت مرکز کو لازمی اشیاء ایکٹ کے تحت اجرا ضوابط کا اختیار حاصل ہوگا۔
سال رواں کے اکنامکس سروے نے ہندوستان کی زرعی معیشت میں تحریف اور تمسیخ پر ایک پورا باب (Chapter) وقف کیا ہے۔ اس نے، خاص طور پر، لکھا کہ ’’ای سی اے (Essential Carmodities (Act) کے تحت اشیاء کے ذکیروں پر جامع حد بندی نہ تو قیمتیں کم کرتی ہے اور نہ ہی گرانی کی رفتار پرواز میں تخفیف کرتی ہے۔‘‘ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ حکومت نے سروے کے مشوروں پر کان دھر اور ان کوتسلیم کرنے کے لیے کچھ مناسب قدامات کیے۔
ای سی اے، 1955 کے تحت اشیاء کو اسے اٹھ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن پر مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں کے ذریعے کنٹرول کر سکتی ہے۔ (1) دوائیں، (2) فرٹیلائزرس، (3) غذائی اشیاء جن میں کھانے کے لائق تلہن اور تیل شامل ہیں، (4) سوت سے بنا ہوا دھاگا لچھا، (5) پٹرولیم اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات، (6) خام جوٹ اور جوٹ ٹیکسٹائل، (7) اجناس کی فصل کے لیے بیج، پھل، سبزیاں، مویشیوں کے چارے کے بیج، کپاس کے بیج اور جوٹ کے بیج اور (8) چہروں کے ماسک اور سینی ٹائزرس۔
اس ایکٹ کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو بروئے کار لاکر مرکز، رریاستی حکومتوں کو ’’کنٹرول آرڈرز‘‘ جاری کرنے کا اختیار سونپتی ہے جس کے ذریعے وہ درونِ ریاست اور بین ریاست اشیاء کے نقل و حمل کو منضبط کرتی ہیں اور ذخیروں کی حدیں مقرر کرتی ہیں۔ یہ لائسنسنگ کو لازمی قرار دے سکتی ہیں، یہاں تک کہ یہ چیزوں کی پیداوار پر کوئی محصول بھی عائد کرسکتی ہیں۔ ریاستوں نے ان اختیارات کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں ’’کنٹرول آرڈرز‘‘ کی مبینہ خلاف ورزیوں کی پاداش میں ہر سال ہزاروں پولس کیسیز درج کیے جاتے ہیں۔
ایسا پیلی بار نہیں ہورہا ہے جب مرکز نے اپنے قاعدوں اور ضابطوں پر ڈھیل دی ہو۔ مثال کے طو پر 2002 میں واجپئی حکومت نے گیہوں، دھان، چاول، معمولی اجناس اور خوردنی تیل پر لائسنسنگ اور ذخیروں کی حد ختم کردی تھی۔
2006-07 کے عالمی غذائی بحران نے بہت سے ضابطوں کو پھر سے نافذالعمل بنادیا کیوں کہ اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا اور حکومت کے پاس گیہوں کا ذخیرہ جو عام طور پر چار ملین ٹن ہوتا ہے، گھٹ کر یکم اپریل 2006 کو دو ملین رہ گیا تھا۔ ریاستوں نے اپنے اختیارات کا خوب استعمال کیا، مثلاً آندھراپردیش کی حکومت نے دھان اور چاول کی عمدہ اقسام کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی۔
موجودہ آرڈنینس صرف غیرمعمولی حالات، مثلاً جنگ، قحط، غیرمعمولی مہنگائی اور شدید قدرتی آفات میں ہی ضابطہ سازی کی اجازت دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومتیں ذخیروں کی حدیں متعین کرسکتی ہیں۔ اس ضمن میں ایکٹ کی دفعہ 2(1A)  میں چند مخصوص صراحتیں دی گئی ہیں۔
بگمان غالب، مہنگائی (گزشتہ 12 مہینوں میں یا گزشتہ پانچ برس کے اوسط، جو بھی کمتر ہو، کے اعتبار سے، سڑنے گلنے والی اشیاء کی خردہ قیمتوں میں 100 فیصد، نہ سڑنے گلنے والی اشیاء میں 50 فیصد کا اضافہ) کے اسباب وعلل پر گاہے گاہے غوروخوض کیا جائے گا۔ یہ اسباب مختلف ہوسکتے ہیں مثلاً مانسون کی ناکای (مثلاً 15-2014یا 2015-1616) یا حد سے زیادہ بارش (مثلاً 2019-20میں سویابین کے لیے) یا کیڑے مکوڑوں کا حملہ (مثلاً 2019-20 میں مکئی پر آری ورم کا نزول)۔ اس مسئلے پر کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے حکومت ایگ مارکیٹ نیٹ (Agmarketnet) قیمتوں پر انحصار جاری رکھے گی۔
فوری ضرورت ہے کہ اسے مزید تقویت دی جائے کیوں کہ پیداوار کی قیمتیں اور منڈیوں میں ہونے والی پیداوار کی مقدار پر ہی ایک ایکٹ کے تحت حکومت کی پالیسی منحصر ہوگی۔ چنانچہ جب تک ایک متبادل نظام باقی ہے، اسے یقینی بنانا ہوگا کہ Farmer's Produce Trade & Commerce (Promotion and Facilitation) Ordinandas, 2020 اے سی کمیٹیوں سے حاصل شدہ خریداری ڈاٹا کا نظام تباہ و برباد نہ کردے۔
 ایک OECD_ICRIER 2018 رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2015 کے درمیان، گیہوں، مکئی، چاول، کابلی، چنا، آلو، پیاز، شکر، کپاس اور دودھ پر ان گنت بار پابندیاں لگیں۔ اسی لیے، یہ کوئی امرتعجب خیز نہیں کہ ہندوستان کو زرعی پیداوار کا قابل اعتماد ایکسپورٹر نہیں سمجھا جاتا ہے۔
مستقبل میں، ایسے کسی بھی فیصلے کے استعمال سے مستثنیٰ ہونے سے متعلق چند ایسی شقِ استثنائی (caveats) موجود ہیں جن کا فائدہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اٹھا سکتی ہیں۔ آرڈنینس کہتا ہے کہ ذخیرہ کی حدیں طے کرنے کے ضابطوں کا اطلاق پروسیسر (Processor) یا کسی زرعی پیداوار کے شریک سلسلۂ معاوضہ  (Value Chain Paticipant) پر نہ ہوگا لیکن ایسے پروسیسر وغیرہ پروسیسنگ کی گنجائش سے زیادہ ذخیرہ رکھنے کے اہل نہ ہوں گے۔ ایکسپورٹر کے تعلق سے آرڈیننس کہتا ہے کہ ایکسپورٹ کے لیے مطلوبہ ذخیرہ، اسٹاک لمٹ کے ضابطوں کے تابع نہ ہوگا۔
عام طور پر، پروسیسرز خام اشیاء کو کئی مہینوں تک اپنے پاس رکھتے ہیں یا تاجروں کے پاس رکھتے ہیں جو اپنا ذخیرہ گوداموں میں رکھتے ہیں۔ آڈریننس بابت خاموش ہے کہ مستقبل میں ذخیروں کی حدبندی سے استعفیٰ کے لیے سالانہ یا ماہانہ یا یومیہ گنجائش پر غورو خوض ہوگا۔ ماضی میں، ایسے کئی معالات سامنے آئے جب خوردنی تیل کوریفائن کرنے والوں نے ذخیروں کی اچانک حد بندی کی وجہ سے اپنے ذخیرے ختم کردیے۔ اسی طرح ایکسپورٹروں کے معاملے میں، کیا توثیق شدہ ایکسپورٹ آرڈروں کولائق اعتنا سمجھا جائے گا یا ان ایکسپورٹ آرڈروں پر بھی غور کیاجائے گا جن کا ابھی صرف ایل سی (Letters of Credit) ہی کھولا گیاہو؟
گیہموں کے کئی بے ایمان ایکسپورٹروں نے کھلے بازاروں میں فروخت کرنے کی اسکیم کے تحت برآمد کو جاری رکھنے کے لیے یکساں چور راستوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں مرکزی ذخائر میں گیہوں کا اسٹاک یکم اپریل 2006 کو گھٹ کر آدھا رہ گیا۔ آخر کار حکومت کو 2006-08 کے درمیان 5.5ملین ٹن گیہوں درآمد کرنا پڑا۔ چنانچہ اس ضمن میں مزید صراحت کی ضرورت ہے کہ پیداوار میں کمی کے سبب قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اگر ذخیرہ بندی نافذ ہوتی تو ایکسپورٹ آرڈر کا کیا مفہوم گا۔ یہ حدبندی سیلابوں یا مانسون کی ناکامی یا کیڑوں کے حملے یا دیگر قدرتی آفات کے سبب بھی ہوسکتی ہے۔
ہمارے غذائی ذخیروں کے انتظام و انصرام کی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ ہے کہ حکومت کو پرائیویٹ سیکٹر کے ذخیروں کا علم نہیں ہوتا ہے۔ گیہوں اور چاول کے مرکزی ذخیروں کا جہاں تک تعلق ہے، حکومت نہ صرف ذخیروں کی مقدار کے بارے میں جانتی ہے بلکہ ذخیروں کے مقام کے بارے میں بھی فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے کمپیوٹرائزڈ اسٹاک مینجمنٹ سسٹم کے ذریعہ جانتی ہے۔ نجی ہاتھوں کے زیرِانتظام ذخیروں میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں ہوتا۔
تجارت کے ایک آزاد ماحول میں جہاں اے پی ایم سی کے دائرۂ اثر سے  باہر کوئی بھی شخص کسانوں کی پیداوار محض اپنے PAN کارڈ کے بل پر خرید سکتا ہے، حکومت پر لازم ہے کہ وہ نجی ذخیروں پر نظر رکھے۔ یہ ہدف WDRA سے گوداموں کے رجسٹریشن کولازمی قرار دے کر آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کو پہلے سے ہی گواہوں کی قابل منتقلی الیکٹرانک رسید جاری کرنے کے اختیارات حاصل ہیں جسے خریدا بیچا جاسکتا ہے۔
زرعی پیداواروں کی تجارت پر Farmars Produce Trade & Commerce (Promotion and Facilitation) Ordinances, 2020  کے تحت بندشوں کو ہٹانا ایک خوش آئند قدم ہے لیکن حکومت پر لازم ہے کہ وہ نجی تجارت، اشیاء کی طلب، نجی سیکٹر کے ذخیروں اور فصلوں کی پیداوار اور دستیابی کے تخمینے کے بارے میں مزید معلومات رکھے۔ تب ہی حکومت، کسانوں کو معقول قیمت دینے اور بے ایمان عناصر کے ذریعہ ذخیرہ اندوزی اور غیر واجبی مہنگائی پر قدغن لگانے کے لیے بامعنی پالیسیاں وضع کرسکتی ہے۔
بیشتر زرعی اشیاء سے متعلق ہندوستان کا زائد از ضرورت ذخیرہ برائے نام ہے۔ چنانچہ، حکومت کو کسی شئے کے ابھرتے ہوئے پیش منظر کے بارے میں پرائیویٹ تاجروں سے کہیں زیادہ باخبر ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سال میں کم از کم ایک بار حکومت کو حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ (بشکریہ: دی وائر)

(سراج حسین ICRIER میں وز پینگ سینئر فیلو ہیں۔وہ مرکزی سکریٹری برائے زراعت کی حیثیت سے سکبدوش ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک صاحب فکر، اہل نظر اور مشاق قلمکار ہیں

*والدین کی آغوش اور اساتذہ کی درسگاہ * تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین) javedbharti508@gmail.com

*والدین کی آغوش اور اساتذہ کی درسگاہ *

تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)
javedbharti508@gmail.com
یوں تو استاد استاد ہی ہوتا ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے کا استاد ہو اور ایک شاگرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد کا احترام کرے جب کئی استاد ایک جگہ ہوتے ہیں تو انہیں اساتذۂ کہا جاتا ہے لیکن ایسا اتفاق مدارس اور درسگاہوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے یقیناً جہاں اساتذۂ کرام قابل احترام ہوتے ہیں وہیں مدارس اسلامیہ کے اساتذہ سب سے زیادہ قابل احترام ہوتے ہیں اور ہر حال میں انکا احترام ضروری ہے بلکہ والدین کے بعد اساتذہ کرام کا ہی درجہ بلند ہے اور ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذۂ کرام کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے والدین بچہ پیدا کرتے ہیں تو اساتذۂ کرام والدین کا مقام و مرتبہ بتاتے ہیں، والدین بچوں کی انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں تو اساتذہ راہ حق پر چلنے کا طریقہ بتاتے ہیں، والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو والدین کا احترام سکھاتے ہیں، والدین بچوں کو راہ چلتے گرنے سے بچاتے ہیں تو اساتذہ راہ صداقت میں ثابت قدم رہنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اس لئے ایک انسان کی زندگی میں والدین اور اساتذہ دونوں کا رہنمائی کے میدان میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور جس انسان و مسلمان نے اپنے والدین اور اپنے اساتذہ کرام کا احترام کیا وہ کامیاب رہا اور ایک انسان و بالخصوص مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب رہے والدین،، پڑوسیوں سے بچے کی پہچان کراتے ہیں تو اساتذہ بچوں کو پڑوسیوں کے حقوق بتلاتے ہیں، والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا لڑکا ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو تو اساتذہ کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ میرا شاگرد جس شعبے میں قدم رکھے تو کامیابیاں بڑھ بڑھ کر اس کا استقبال کریں اور ایک ہوشمند لڑکا والدین کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور اساتذہ کرام کی بھی نافرمانی نہیں کرسکتا اور دونوں کا احترام لازم ہے آئیے قارئین کرام ذرا والدین کی آغوش سے لیکر اساتذہ کرام کی درسگاہ تک کا نقشہ کھینچا جائے ایک گھر میں بچہ پیدا ہوتا ہے خوشیوں کا ازدہام ہوتا ہے ساتویں دن عقیقہ ہوتا ہے اب بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہونے لگا اور ہر باپ کا کچھ ارمان ہوتا ہے، کچھ خواب ہوتا ہے جسے وہ پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اب بچہ بڑا ہوگیا اب بچے کو تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہے ایک دن باپ اپنے بیٹے کو لیکر اسلامی مدرسے میں پہنچتا ہے، اپنا تعارف کراتا ہے اور بچے کا بھی تعارف کراتا ہے باپ اپنے بیٹے کو درس دینے کی سفارش کرتا ہے اساتذہ کرام باپ کی سفارش کو منظور کرتے ہیں اساتذہ کرام اب لڑکے کو پڑھانا شروع کرتے ہیں سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھاتے ہیں (اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے) اس کے بعد(الف) پڑھا کر اساتذہ کرام بتلاتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ساتھ ہی ساتھ،، اطیعواللہ و اطیعوالرسول کی بھی تعلیم دیتے ہیں (ب) پڑھا کر اسی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، بزرگانِ دین کی تعظیم کا درس دیتے ہیں،، (ت) پڑھا کر اسی اللہ َکی بارگاہ میں توبہ،، کرتے رہنے کا درس دیتے ہیں، (ث) پڑھا کر اسی اللہ کی ثناء،، و حمد بیان کرنے کا درس دیتے ہیں، (ج) پڑھا کر جنت میں جانے والے اعمال کرتے رہنے کا درس دیتے ہیں،(ح) اور( خ) پڑھا کر حق بولنا، حج بیت اللہ کی خواہش رکھنا اور خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا اور خاتمہ بالخیر کی دعا کرنا سکھاتے ہیں، (د) اور( ذ) پڑھا کردرود پاک کی کثرت کرنے اور دنیا داری سے و  ذلت آمیز کاموں سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، (ر) ، (ز) ، (س) ،(ش) پڑھا کر رب کی اطاعت کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور زمین پر فساد برپا نہ کرنے اور سلامتی کی دعا کرنے اور شکر گزار بندہ بننے کا سبق پڑھاتے ہیں،، اساتذۂ کرام آگے مزید بتاتے ہیں کہ( ص) سے صرف اللہ کی عبادت کرنا، صلہ رحمی سے کام لینا اور صبر کا دامن ہاتھ سے تھامے رہنا، (ض) سے ضابطہ اسلام پر عمل کرنا، (ط) یعنی طاقت پر گھمنڈ نہ کرنا، ظ یعنی ظاہری طور پر دیکھانیوالی عبادت نہ کرنا( ع) اور(غ) یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے، علم سرمایہ ہے اور علم دین عظیم سرمایہ ہے ،علم شعور ہے، علم نور ہے، اجالا ہے، روشنی ہے، اور علم کی روشنی میں منزل دیکھائی دیتی ہے اور علم کے ذریعے عقائد درست رکھتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے یعنی فاقہ بھی کرنا پڑے تو کرنا لیکن علم ضرور حاصل کرنا اور عبادت سے غافل نہ ہونا اور کبھی بھی غفلت میں نہ رہنا،، غیبت کبھی بھی کسی کی نہ کرنا، غرور کسی بھی بات کا کسی بھی چیز کا حتیٰ کہ علم اور اور عبادت پر بھی غرور ہرگز نہ کرنا،، (ف) ،(ق) اور (ک) یعنی فاقہ کشی کے عالم میں بھی،، کبھی ناشکری نہ کرنا،، بلکہ قرب،، الٰہی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، کفریہ باتیں، کفریہ کام کبھی نہ کرنا،، (ل /م) یعنی لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا ورد کرتے رہنا،، (ن) یعنی ، نماز کی پابندی کرنا( و) یعنی یہ سارے کام وضو،، بناکر کرنا،، (ہ) یعنی ہمدردی کا اظہار سب کے ساتھ کرنا ،،( ی) یعنی یا اللہ یا اللہ کرتے رہنا،، اتنا سکھایا اساتذۂ کرام نے اور اتنا سکھانے کے بعد انشاءاللہ زندگی میں انقلاب تو آنا ہی آنا ہے لیکن اب یہیں سے پھر امتحان شروع ہوتا ہے کہ تم اپنے اساتذہ کرام کا کتنا احترام کرتے ہو اور کتنی عزت کرتے ہو آج تو دیکھا جارہا ہے کہ اساتذۂ کرام نے طالب علمی کے زمانے میں رہنمائی کی ذہنی کیفیت کو روشن کیا اور تم بعد میں جاکر کسی پیر سے مرید ہوگئے تو پیر کا احترام کرتے ہو اساتذہ کا نہیں، ہر مہینے پیر کی خدمت میں حاضری دیتے ہو لیکن اساتذہ کی خدمت میں نہیں یاد رکھو صحیح پیر کی پہچان کا طریقہ بھی اساتذۂ کرام کی بارگاہ سے ہی ملیگا کہیں اور سے نہیں،، اور پیر کے احترام کا طریقہ بھی اساتذہ سے ہی ملیگا کہیں اور سے نہیں،، آپ چاہے فراغت کے بعد کتنی ہی شہرت حاصل کیوں نہ کرلیں لیکن جس طرح بیٹا باپ سے بلند نہیں ہوسکتا اسی طرح شاگرد بھی استاد سے بلند نہیں ہوسکتا آج اس بات کی بیحد خوشی ہے کہ کچھ باشعور اور با صلاحیت افراد جو زمانہ طالب علمی سے گذر کر فراغت حاصل کرنے بعد جہاں درس و تدریس کی دنیا میں قدم رکھ کر دین کی ترویج و اشاعت کر رہے ہیں وہیں انکے سینوں میں والدین اور اساتذہ کا درد اٹھا اور ان لوگوں نے محسوس کیا کہ کچھ پل اساتذہ کرام،، کے نام بھی ہونا چاہیے دنیا کو بتانا چاہیئے کہ والدین کا مقام کیا ہے اور اساتذۂ کرام کا مقام کیا ہے،، اور یہی ان کے لیے سچا خراج عقیدت بھی ہوگا تاکہ ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں ہماری راہیں آسان ہوسکیں اور ہمارے دلوں میں اساتذۂ کرام کی محبت برقرار رہے اور محبت کی یہ دلیل بتائی گئی ہے کہ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ اس کا ذکر خوب کرتا ہے،، اور آج ہم جو کچھ بھی ہیں اس میں سب سے اہم کردار اساتذۂ کرام کا ہی ہے ہم دعا گو ہیں کہ وہ اساتذہ کرام جن کی روحیں قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہیں رب تبارک و تعالیٰ انکی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور وہ اساتذۂ کرام جو باحیات ہیں اللہ رب العالمین انکی عمروں میں برکتیں عطا فرمائے ہمارے سروں پر تادیر ان کا سایہ قائم رکھے آمین یارب العالمین -
javedbharti508@gmail.com
برائے رابطہ 8299579972
        - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - 

احکام وراثت و وصیت قرآن کی روشنی میں (4) ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی 9839538225

احکام وراثت و وصیت
قرآن کی روشنی میں (4)


ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی 9839538225

27 ۔ تقسیم وراثت , اداۓ قرض و ایفاۓ وصیت میں کسی کو نقصان نہ پہنچے ۔
28 ۔ وراثت کے احکام اللہ تعالی کی قاٸم کردہ حدود ہیں ۔ جن کی پابندی عظیم فوزوفلاح اور جن کی خلاف ورزی ابدی جہنم اور رسواکن عذاب کا باعث ہوگی ۔
29 ۔ قرآن مجید کے مطابق غیر رشتہ دار مومنوں اور مہاجروں کی بہ نسبت رشتہ دار باہم زیادہ قریبی اور حق دار ہیں ۔
30 ۔ البتہ اپنے دوستوں کے ساتھ نیکی کرنا چاہے تو مناسب ہے ۔ اس میں کوٸی حرج نہیں ہے ۔ یہ قرآن کا حکم ہے یا درج ہے ۔
31 ۔ وراثت کے مال کو بے دریغ کھانا  قیامت کے دن نقصان کا سبب ہوگا ۔
  ( یہ قرآن کی مختلف آیتوں کے ترجمے ہیں ۔تفصیلات تفہیم القران اور تدبر قرآن میں موجود ہیں ۔ وراثت اور وصیت کے بارے جو احکام ہیں ان پر عمل کیا جاۓ تو بہت سارے خاندانی و معاشرتی جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں اور باہم محبت پیدا ہوتی ہے ۔ نامعلوم کتنے سگے بھائی اور رشتہ دار میراث کی تقسیم کے سلسلے میں عدالتوں کے چکر لگا کر برباد ہوچکے ہیں ۔ آسان طریقہ ہے کہ انا کو چھوڑ کر علماء یا سمجھدار لوگوں کے ذریعہ تصفیہ کرالیں اور موافق و نا موافق فیصلے کو تسلیم کرلیں تو بڑی مصیبتوں سے نجات مل سکتی ہے  )  باقی آئندہ
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی 9839538225

Sunday 28 June 2020

دینی مدارس کا مقام، اور ہماری ذمہ داریاں!

تحریر: محمد شمیم دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
_________
مسلمان وہ زندہ قوم ہے جو حالات کی سنگینی سے خوف زدہ نہیں ہوتی اور نہ ہی مشکل وقت میں حواس باختہ ہوتی ہے ،غور کیا جائے تو اس گردش گیتی کی لیل و نہار میں مسلمانوں پر بڑے ظلم و استبداد کی کوششیں کی گئیں،متعدد مرتبہ دل سوز خونی فسادات کے ذریعہ  نسل کشی کی گئی ، کبھی شریعت کی پامالی اور کسی وقت تاریخ کو مسخ کرکے دل آزاری کی گئی ، تو کبھی ان کی مذہبی شناخت کو مٹانے کی منصوبہ بند سازشیں رچی گئیں ، لیکن جب ہم تاریخ کے سنہرے اوراق کو الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی انسیت پر رشک آتا ہے،جس طرح  یہ بود و باش کے لیے متفکر، اور خورد و نوش کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ دین کی بقا و تحفظ کے لئے سر گرداں رہتے ہیں، ان کی مذہبی محبت تو دیکھو!!
جنہوں نے اقلیت میں رہتے ہوئے اسلام کی سربلندی کا اس طرح سے اظہار کیا کہ شہر شہر قریہ قریہ خوبصورت مسجد کے مینار اور مدارس و مکاتب کی درسگاہوں سے اس خطے کے حسن کو دوبالا کر دیا،وہ زمین علم کی روشنی سے منور ہو گئی جہاں مسلمان قدم رنجہ فرما گئے ، اس سر زمین کا کیا کہنا اس کی خوش قسمتی تو دیکھو!!
کہ جہاں پر مسلمان آباد ہو گئے وہاں سے علم کی خوشبو پھیل گئی، وہاں کے چمن میں بہار آگئی،وہاں کی فضاء معطر ہوگئی، جس سے وہاں کے بسنے والے انسانوں میں اخوت و محبت، انسانیت و ہمدردی، تہذیب و شائستگی کی راہیں ہموار ہو گئیں، ، ان کے افکار و خیالات میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھری رہتی ہے کہ یہ جس مقام پر سکونت پذیر ہو گئے ، وہیں پر انہوں نے اپنی نسلوں کی فلاح و بہبود کیلئے صرف عصری تعلیم پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسلامی تعلیمات کے لئے مدارس و مکاتب کی فکر میں کوشاں ہو گئے،ان کے بلند عزائم کو دیکھو!!
کہ رقوم کی حصول یابی کیلئے یہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے کو گوارا کر لیں گے لیکن اس وقت تک اطمنان قلب نصیب نہیں ہوگا، جب تک ان کے آنکھوں کی ٹھنڈک مسجد و مدرسہ تعمیر ہوکر اس میں امام و مدرس دینی خدمات انجام نہ دینے لگیں،لیکن وقت کی ستم ظریفی تو دیکھئے  کہ لاک ڈاؤن نے سب کو معاشی طور پر خستہ حال کر دیا ہے کہ لوگ اسی کے بارگراں تلے دب کر رہ گئے، اسی آزمائشی دور سے مسلمان بھی گزر رہے ہیں،لیکن مسلمان زندہ قوم ہے جو ہزار پریشانیوں میں گھرے ہونے کے باوجود اسلامی شمع روشن کرنے انتھک کوشش کرتا ہے،
غیور مسلمانوں اسلام کے جانثاروں!!
آؤ دیکھو تو سہی یہ آپ کے خون پسینے کی کمائی سے چلنے والے مدارس زبانِ حال سے فریاد کر رہے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں کہاں چلے گئے ہمارے مسیحا وہ ہمارے نگہبان جنہوں نے بدسے بدترین حالات میں ہماری نشوونما اور آبیاری کے لیے اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر ہمیں پروان چڑھایا، ہماری محافظت میں ہمیشہ سینہ سپر رہے،یہاں تک کہ دشمنانِ مدارس کی تمام تر سازشوں کا قلع قمع کرکے ان کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہو گئے،
یہ آپ کے مدارس جو یقیناً اسلام کے قلعے ہیں آج مصیبت کے ایام میں آپ کو پکار رہے ہیں ، آپ بھی معاشی بحران سے پریشان ہیں لیکن یہ مدارس اسلامیہ آپ ہی کا قیمتی اثاثہ ہے، ایک صدی آپ نے جان توڑ کوشش کی ہے تب یہ اس مقام تک پہنچے ہیں، مزید آپ کے اس قیمتی سرمایہ کے ہزاروں دشمن بھی ہیں، جن کی خونخوار نگاہوں میں ہمیشہ آپ کا یہ قیمتی سرمایہ کھٹکتا رہتا ہے، انہیں یہ غم ستائے جا رہا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے مدارس ختم ہو جائیں، کیونکہ یہیں سے اسلام کی حفاظت و اشاعت کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، جو قرآن و حدیث کی حفاظت میں اپنی پوری توانائی کو صرف کرتے ہوئے  زندگی کھپا دیتے ہیں اگر یہ مدارس کے کارخانے علماءکرام کو پیدا کرنا بند کردیں تو یہودیوں نصرانیوں کی اسلام بیزاری رنگ لائے گی اور ان کے کھوٹے جاسوسی علماء جو قرآن و حدیث کا علم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی شریعت کو داغ دار کرتے ہوئے اس میں اس طرح سے غلط باتوں کو خلط ملط کر دیں کہ مسلم عوام اسی کو حقیقت سمجھتے ہوئے اپنی اصلی شریعت کو بھول جائے ، حاسدینِ مدارس کواس بات کا بھی احساس ہے کہ یہی مدارس ہیں جہاں سے انہیں مسجدوں کے لیے ائمہ کرام دستیاب ہوتے ہیں جو منبر و محراب کی زینت بن کر عوام کے سامنے قرآنی احکامات اور سیرت النبی کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، مزید یہیں سے مدارس کے لیے اساتذہ ملتے ہیں جو قال اللہ و قال الرسول کا درس دیتے ہیں ، انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہی اسلام کے قلعے ہیں جہاں سے علم دین کی روشنی لیکر بے شمار حضرات تبلیغی جماعت کی شکل میں گروہ در گروہ اپنے قیمتی اموال و اوقات کی قربانی دیکر دین سے دور خدا کی یاد سے غافل صرف نام کے مسلمانوں پر اس قدر محنت کرتے ہیں کہ وہ سنت و شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے والے بن جاتے ہیں،
اے مسلمانوں دین وحدت کے پاسبانوں، موجودہ دور میں مدارس کی زبوں حالی کو دیکھو، لاک ڈاؤن سے یہ کیسے ویران دکھائی دے رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے موسمِ خزاں میں درخت سے پتے جھڑ گئے ہوں، ایسے تکلیف دہ ایام میں ہر کوئی اپنوں کی طرف حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہ مدارس اسلامیہ بھی زبان حال سے مخاطب ہو کر آپ کی نظر کرم کے متمنی ہیں، یہ اپنی نظریں جمائے ہوئے آپ کی تشریف آوری کے منتظر ہیں، امید ہے کہ آپ انہیں بے سہارا نہیں چھوڑیں گے بلکہ ان کی مالی پریشانیوں کا مداوا کرتے ہوئے پہلے سے بہتر پوزیشن پر لانے کی کوشش کریں گے،
اخیر میں مدارس و مساجد کے ذمہ داران سے بہت ہی ادب و احترام کے ساتھ درخواست کروں گا کہ خدا واسطے کسی امام یا استاذ کو مالی بحران کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے رخصت نہ کریں، جہاں پر اللہ تعالیٰ نے ذمہ داران کو صاحب حیثیت رکھا ہے آمدنی کے ذرائع بھی ہیں وہاں پوری تنخواہ دینے کی کوشش کریں، جہاں آمدنی کے ذرائع کم ہیں وہاں رائے مشورہ سے جو ممکن ہو سکتا ہے اسی سے خدمت کرتے رہیں، اور جہاں پر بلکل پیسہ نہیں ہے وہاں اک احسان کریں کہ آپ کسی کو برخاست نہ کریں بلکہ مخیرین حضرات کو متوجہ کرتے رہیں، اتنی بات تو ائمہ و اساتذہ بھی سمجھتے ہیں کہ جب رقم ہے ہی نہیں، تو دیں گے کہاں سے، پورے بھارت کے لوگوں کو مالی مشکلات کا سامنا ہے ایسے نازک وقت میں آپ آئمہ و اساتذہ کے ہمدرد غمخوار کہلانے کے حق دار ہوں گے، جب آپ ان کے ساتھ خیر خواہی صلہ رحمی سے پیش آئیں گے، اگر مالی خسارے سے خوفزدہ ہوکر آپ انہیں مدارس و مساجد سے خارج کردیتے ہیں تو یہ بہت بڑی ناانصافی ہے،
یاد رکھیں جہاں ایک طرف مخیرین حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا مالی تعاون پیش کرکے مدارس کی رونق کو بحال کریں ، وہیں پر انتظامیہ کی ذمہ داری بھی ہے کہ کسی استاذ کو نکالنے سے گریز کریں.

فیضانِ شُجاعت ایک مطالعہ از :حفظ الرحمن ندوی رابطہ نمبر: 8081566776


فیضانِ شُجاعت ایک مطالعہ

از :حفظ الرحمن ندوی
رابطہ نمبر: 8081566776

"فیضانِ شُجاعت " نامی یہ کتاب  تقریبا ڈیڑھ سو (١٥٠) صفحات پر مشتمل ایک  بہترین سوانحی گُلدستہ ہے جو نمونہ اسلاف، استاد الاساتذہ حافظ شُجاعت علی صاحب (نوراللہ مرقدہ وبرداللہ مجضعہ) کی داستانِ حیات بابرکات ہے، جس کو مشہور ومقبول شاعر وقلمار، میدان خطابت کے شہسوار، بہترین ناظم و نقیب جناب مولانا نوراللہ نور قاسمی صاحب نے عرق ریزی اور سوانح نگاری کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے پوری ایمانداری کے ساتھ تیار کیا ہے۔
اس سوانحی گُلدستہ کا یادگار اسلاف حافظ شُجاعت علی صاحب جیسی عظیم و جامع الکمالات  شخصیت اور پاکیزہ روح کی سوانح عمری پر تیار کیاجانا ہی بڑی مقبولیت کی دلیل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چہ جائیکہ مولانا نوراللہ نور قاسمی صاحب (دام اللہ علينا ظل حياته وعام علمه وفضله وفيوضه) جیسے کہنہ مشق قلم کار، بے مثال ادیب اور استاد شاعرکے قلم سے نکل کر منظرِ عام پر آنا اس گُلدستے کی مقبولیت کی اک اور دلیل ہے ۔۔۔۔۔ جس کے سبب اسے عوام کی محفلوں اور خواص کے حلقوں میں وقعت کی نگاہوں سے دیکھا اور شوق وقدردانی کے ہاتھوں سے لیا گیا۔
کیونکہ مصنف کتاب (مولانا نوراللہ نور قاسمی صاحب ) کی شخصیت علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔۔۔۔۔موضوع جیسا بھی ہو آپ اپنے قلم کی جولانی، خیال کی رعنائی، اور طرز  ادا کی دلآویزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔بلکہ آپ اپنے اسلوب کو رقت سامانی، حزن آفرینی اور عبرت زائی کے عناصر سے لبریز کرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ایک چشم کشا، حقیقت شناس اور آفاق بیں عالم کیطرح  اپنے گردوپیش سے پوری طرح باخبر رہتے ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاف گوئی، بے باکی اور حق شناسی کے ساتھ آنکھوں کی کہانی، قلم کی زبانی بیان کردیتے ہیں۔۔۔۔جن کا نمونہ ہمیں  آپ کے اشعار اور تحریروں میں کثرت سے دیکھنے کو ملتا ہے اور بلاشبہ ان تمام۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خصوصیات کا عرق قارئین کو اس کتاب سے چھلکتا دکھائی دے گا۔
اس کتاب کا از اول تا آخر مطالعہ کرنے کے بعد ایک ادنی سے طالب علم کی حیثیت سے میں یہ بات کہتا ہوں کہ مصنف مدظلہ العالی نے اس کتاب کو مجرد وقائع نگار اور ضابطے کے ایک سوانح نگار کی حیثیت سے صرف حافظ جی رحمة الله  کی زندگی سے متعلق واقعات ومعلومات کی بے جان وخشک سی فہرست مرتب کردینے پر اکتفا نہیں کیا اور نہ ہی اپنے قلم کو بے جا تعریفات اور گڑھے ہوئے واقعات کی سمت بہکنے دیا ہے۔
  جیسا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی رح ایک کتاب کے مقدمہ میں تصنیف و تالیف سے متعلق لکھتے ہیں ۔۔۔۔کہ "اکثر ایساہوتا ہے کہ مصنف پر کسی خاص رجحان یا ذوق کے غالب ہونے کے سبب وہ اپنے ممدوح یا جس شخصیت کی سوانح لکھ رہا ہوتا ہے اسکواپنے ذوق و رجحان کا تابع کردیتا ہے جس کے سبب وہ تصنیف و تحریر صرف مصنف کے اس ذوق ورجحان کی نمائیدگی کرتی ہے جو اس وقت اس پر حاوی تھا اس لئے اس تصنیف و تحریر سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
  لیکن مصنف نے اس کتاب میں حافظ جی رح کی زندگی کی سچائیوں،اچھائیوں، انسانیت نوازیوں، اعلی اخلاقیوں اور دین اسلام کے فروغ، واعلاء کلمة اللہ کیلئے کی گئی انکی کاوشوں، محنتوں اور ان کی صحرانوردیوں کو بڑی دیانت داری اور سلیقے کے ساتھ بیان کیا ہے۔ 
اور مزید یہ کہ حسب حال آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ اور برمحل اردو وفارسی اشعار وقطعات استعمال کرنے کے ساتھ، شروع میں ایک طویل علمی وادبی، فکری وفنی مقدمہ تحریر فرماکر اس کتاب کو مخزن فکر وفن وگنجینہ علم وادب کا اک معلوماتی ذخیرہ بنادیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے یہ کتاب جہاں ایک طرف حافظ جی رح کی ذات وصفات پر محیط معنوی سیرابی وآسودگی کا اثاثہ حیات و روحانی غذا کا ذریعہ ہے تو وہیں دوسری طرف علمی وادبی، فکری وفنی رنگینیوں کا بحر بیکراں بھی ہے ۔
مجھے حافظ جی رح جیسی عظیم شخصیت، علم دوست، پیکرِ علم و عمل، اخلاقِ حسنہ کی خوگراور انسانیت کا دردو تڑپ رکھنے والی انمول وبے مثال ہستی کے دیدار کا شرف تو حاصل نہ ہوسکا لیکن۔۔۔۔آپ کے متعلق والد محترم اور دیگر دوست واحباب سے  کچھ نہ کچھ وقتاً فوقتاً سُن کر اور اس کتاب کو ابتداء سے انتہاء تک پڑھ کر آپ کا علمی و فکری، عملی وروحانی جودیدار ہوا ۔۔۔۔۔ اور اس سے جو حقیقت  سامنے آئی وہ یہ کہ ۔۔۔۔حافظ جی رح جہاں ایک طرف تقوی وپرہیزگاری، تواضع وانکساری، فیاضی وشکرگزاری، خوش خلقی  ومہمان نوازی جیسی بہترین انسانی خوبیوں کے حامل تھے تو وہیں دوسری طرف ریاکاری وخودنمائی جیسے اجر وثواب کے قاتل و مہلک مرض سے ناگواری اور خودبینی و خودشتائی جیسے سخت ضرر رساں اور روحانی بیماریوں سے بیزاری کو اپنی خوش بختی تصور کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اورسنت وشریعت کے سہل روحانی اندازواطوار اور لباسِ سادگی کو زیب تن کرکے زبان حال سے کچھ یوں گویا تھے ۔۔۔

ہزاروں  غم  کے  پردے  میں،  دلِ  بیتاب  رکھتے  ہیں
سجا کر دھڑکنوں میں ، ہم سُنہرے خواب رکھتے ہیں

یہ  ظاہر   کی   چَمک  والے،  ہماری  قدر   کیا  جانیں
ہم   اپنی   سادگی   میں،  گوہرِ   نایاب   رکھتے  ہیں

  حافظ جی رح جس جگہ بھی تشریف لے گئے وہاں پر تعلیم کے ساتھ ساتھ دعوت وتبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے ۔اسی لئے جہاں ایک جہت سے آپ کی دعوتی وتبلیغی محنت و کوشش کے ذریعے بہت سے دین وشریعت سے بیزار افراد جو دین اسلام کے نہ صرف عامل بنے۔۔۔۔۔ بلکہ عمل کے ساتھ  خود داعی حق بھی بن گئی ایسے اللہ والوں کہ ایک تعداد آج بھی نظروں کے سامنے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہیں دوسری جہت سے علاقے میں بہت سی جگہوں پر درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے کے علاوہ ۔۔۔۔۔۔۔  تعلیم وتربیت کو عام کرکے  ظلمت وجہالت کی تاریکی کو ختم اور قرآن وحدیث کی روشنی سے علاقے کو منور کرنے کیلئے اپنے دست مبارک سے 1975میں مدرسہ دارالفلاح (سنچری بازار، آنند نگر) اور چند سالوں کے بعد مدرسہ جامع العلوم (گوپلا پور شاہ) کی بنیاد ڈالی اور زندگی کی آخری سانس تک اسی مدرسہ میں رہ کر علاقے کو علم کی روشنی سے منور اور تبلیغ کی خوشبو سے معطر کرتے رہے اور اسی قابلِ رشک حال میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
حافظ جی رح  کی انہیں خوبیوں اور خدمات کی وجہ سے  اللہ تعالی نے آپ کو مخلوق کی نگاہوں میں محبوب بنادیا تھا، جس کے سبب آپ کو اپنوں کے علاوہ غیر مُسلموں میں بھی جو قدر ومنزلت ملی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے، اور یہ سچ ہے کہ عزت، ذلت ، نفع ونقصان ہر چیز کا مالک اللہ ہے وہ جس بندے سے راضی ہوتا ہے اسے مخلوق کی نگاہوں میں محبوب بنادیتا ہے اور اس کا مشاہدہ ہم اور آپ بار بار کرتے ہیں کہ اللہ والوں کے دیدارکی خواہش اور ان سے ملاقات کی تڑپ میں لوگ کس طرح بےچین وبےبیتاب ہوتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ حافظ جی رح بے شمار اوصاف و محاسن کےحامل تھے جن کا احاطہ اس چھوٹی سی تحریر میں نا ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اتنا کہنا کافی سمجھتا ہوں کہ آپ اس علاقے کے لئے ایک عظیم نعمت تھے جس نعمت سے اللہ پاک کسی ملک اور صوبہ وشہر کو صدیوں میں نوازتا ہے جس کو نباض وقت ، ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم نے اشعار کی زبانی کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔

ہزاروں  سال نرگِس  اپنی  بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

  عزیز قارئین

آج جب کہ ہم سب اپنے ان بڑوں، بزرگوں اور اسلاف کے عادات واطوار اور طرز زندگی سے بالکل دور۔۔۔۔۔ ہوتے جارہے ہیں  جن کی زندگیاں قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ کا عکس جمیل تھیں ۔۔۔اور ہم مغربی طرز زندگی کی پر فریب جلوہ آرائیوں، رنگینیوں اور اس کی ظاہری چمک دمک سے دھوکہ کھاکر اپنی کامیابی اسی میں تصور کررہے ہیں، اور قرآن وحدیث کی پیروی اوراس کے مطابق زندگی گزارنے کو دشواری اور ناکامی کا راستہ سمجھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور مزید برآں مادیت، خود غرضی، مطلب براری اور چڑھتے سورج کی پوجا ہمارا شیوہ بنتا جا رہا ہے ۔

ایسے وقت میں اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا اور اسے لوگوں میں عام کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ 
اس لئے حافظ جی رح جیسی عظیم شخصیت کی سوانح عمری لکھنے کے اس مستحسن عمل پر ایک طالب علم کی حیثیت سے میں جناب مولانا نوراللہ نور قاسمی صاحب کے لئے دعا گو ہوں کہ رب کریم آپ کے سائے کوتادیر ہم پر سلامت رکھے، آپ کے قلم میں مزید نکھار پیدا کرے اور آپ کو علم وعمل کا پیکر وصلاح وتقوی کا خوگر بنا کر مزید دینی ودنیوی ترقیات سے نوازے۔ 
ساتھ ہی حافظ جی رح ہی کے نام سے موسوم ، اور آپ کے روحانی زیر سایہ قوم ومعاشرے کی خدمت میں مصروف "حافظ شُجاعت فیضِ عام چیریٹیبل ٹرسٹ" جس کے زیر اہتمام یہ کتاب شائع کی گئی اس کے تمام ذمہ داران وکارکنان ۔۔۔۔خصوصاً حافظ جی رح کے صاحب زادگان جناب مولانا شمس الہدی قاسمی صاحب اور آپ کے برادر اکبر جناب شمس الضحی خان صاحب اور اپنے ہم درس ورفیق محترم حافظ عبیدالرحمن صاحب کو بصمیم قلب مبارک باد دیتے ہوئے دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان تمام کو اجر عظیم عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔اور حافظ جی رح کو غریق رحمت فرماکر، آپ کے اس سوانحی گلدستہ (فیضانِ شُجاعت) کو تشنگان علوم وفنون کی سیرابی کا سرچشمہ اور متاخرین کیلئے مشعل راہ  بنائے ۔ اور آپ کے نام سے منسوب ٹرسٹ جو آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہے ۔۔۔اسے نظر بد سے محفوظ رکھ کر قبولیت عام وبقائے دوام عطا فرمائے ۔آمین

لاک ڈاؤن میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟* ✍🏻از قلم : عبد الرحمن چمپارنی

لاک ڈاؤن میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟*

✍🏻از قلم : عبد الرحمن چمپارنی
یہ دنیا دار الاسباب ہے ،  اس دنیائے فانی میں انسان کے حیات مستعارگذارنے کے لیے ہر ساعات و   لحظات حضرت انسان کےلیے اسباب دنیوی ضروی ہوتی ہے ، اس لیے اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ اے لوگوں ! اپنی زندگی گذارنے کے لیے اشیائے ضروریہ کا بندو بست کر کے رکھا کرو ، اور بہ وقت ضروت اسے اپنے استعمال میں لاؤ،یہ توکل کے منافی نہیں ،  بلکہ یہ عین توکل ہے کہ اسباب اختیار کی جائیں اور  نتائج کا انتظارکیا جائے ، دعائے کی جائیں ۔
               سال رواں بہ مشیت ا یزدی ایک مہلک ، جان لیوا اور تمام انسانوں کے لئے باعث آزمائش جسے قہر خداوندی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ،کرونا وائرس نامی وباء چین سے جنم لیتے ہوئے ، اکثر بڑے و چھوٹے ممالک کو اپنے چپیٹ میں لے لیا ، چین ، امریکہ ، اٹلی ، اور ہندوستان سمیت کئی ایک ممالک  میں پناہ گزیں ہو اور و ہاں کے باشندوں ک اپنا غذا بنایا ۔ جس کے سبب بہت سارے لوگ لقمہ ٔ اجل بن گئے ۔ ہمارے ملک میں بھی جنوری کے مہینے میں یہ وباء جنم لی ، مگر افسوس ! حکومت ہند اپنی حکومتیں بنانے ، جشن   منانے اور دوستانہ تعلقات نباہنے میں اس قدر مصرو ف رہی  ، کے اس  کے طرف بضہ حضرات کی طرف توجہ مبذول کرانے کے باوجود انہیں احتیاطی تدابیر نہ ہی اختیار کیا اور نہ اعوام کو اس بارے میں کوئی  میسیج یا پیغام دیا۔                             جب یہ بیماری ملک ہندوستان میں تیزی سے پھیلنی شروع ہوئی اور پھیلی لیکن کچھ حد تک اور ممالک کے مقابلہ میں صحیح رہی یعنی کم لوگ اس بیماری کے زد میں آئے  ، تو دو ڈھائی مہینہ گذرنے کے بعد حکومت ہند اپنی مصروفیات سے فارغ ہو کرلوگوں کی خدمت کے لیے میدان عمل میں اتری چناچہ   ۲۱؍ مارچ کو جتنا کرفیو ( عوامی بندش ) ایک دن کے لیے لگا  دیا گیا ، اس کے بعد وزیر اعظم ہندوستانی عوام کے سامنے جلوہ نماہوئے اور اپنی سابقہ عادت کے مطابق نا گہانی اور پوری انسانیت کے لیے پریشان کنندہ  اعلان سنا گئے ، اکیس ۲۱؍ دن تک جو جہاں ہے وہی رہے ٹس سے مس نہ ہو ورنہ حکومت  ان کے سا تھ کاروائی کرے گی ، دھاڑی مزدوروں ، غریبوں و مفلسوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جائے گا کا اعلان کردیا گیا ، مگر یہ صرف برائے اعلان ہی رہا نہ کہ کام کا
*لاک ڈاؤن کے نا قابل تلافی نقصانات*
 چناچہ عوا م الناس حکومت ہند کی بات مانتے ہوئے جو جہاں تھے وہی رہے ، مگر جب مدت متعینہ گذرنے کے بعد مزید توسیع کی گئی ، جس کی وجہ سے غریب اور پریاہن حال مزدور جنہیں ا پنے کمپنیو ں ، کرایہ دارمکانوں میں رہنے کا آدیش جاری کیا گیا تھا ، صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ، کھانے پینے کے اشیاء اور پیسے ختم ہوگئے ، وہ بھوک سے بے تاب و بے قرار ہوکر پیدل ہی اپنے وطن کے لیے سفر شروع کر دئییے ، چناچہ ان گنت لوگ بھوک مری سے مرے شاید اتنا اس وباء سے نہ مرتے ، مگر اس بے ترتیبی اور بے ڈھنگ کے لاک ڈاؤن سے پوری انسانیت ہچکچا کر بلبلاکر  رہ گئی ، چناچہ
۱۔ اورنگ آباد میں   ۱۵؍ ہارے ، تھکے پریشان حال مزدور ٹرین کے پٹریوں پر ا پنی جان گنوا دی 
۲۔ اوریا میں ٹرک سے جارہے ۲۴؍مزدوروں کا ٹرک حادثہ میں انتقال ہوا اور اس کے علاوہ ان گنت حادثات رونماء ہوئے ۔
 ۳۔  حاملہ عورتیں پیدل گھر جانے پر مجبور ہوئیں اور دوران راستہ حمل بھی جنا ، بے پناہ تکلیفیں سہی ۔
۴۔ لوگوں بالخصوص ہر روز محنت کرکے کھاے والے دھاڑی مزدورں کا حال بے حال تھا ، اس بے حالی کی وجہ سے اور کھانا نہ لہونے کی وجہ سے کئی لوگ اپنی جانیں گنوادی ۔
۵۔ تمام لوگوں کی معیشت چوپٹ پڑ گئی ۔
۶۔ اور جس چیز سے بچنے اور جس سے احتیاط کے لیے لاک ڈاؤن لگایا گیا وہی مفقود رہا سوشل ڈسٹینگ کی گھر واپسی کے چکر میں دھجیاں اڑادی گئیں اور آپسی اختلا ط کے سبب بیماری روکنے کے بجائے مزید پھیل گئی ، 
۷۔ اس لاک ڈاؤن  کی آڑ میں دہلی فسادکے الزام میں سیاہ اور کالے قانون سی اے اے کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والوں کو پس دیوارزنداں کیا گیا۔
اس کے علاوہ بھی بہت طرح کے نقصانات ملک  ہندوستان کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے مول لینا پڑا جو جگ ظاہر ہے ، ہر انسان اسے باخبر ہے ۔
*لاک ڈاؤن : حیرت انگیز اور تعجب خیز فوائد*
 یہ کہاوت مشہور ہے کہ وقت سونے سے بھی قیمتی ہے ، جو سو فیصد سچ اور حق ہے ، جس نے بھی وقت کی قدر ، وقت نے اس کی قدر کی ،  چناچہ رفعتیں ، منزلیں اور بلندیاں ان   کے مقدر رہی ، لاک ڈاون کے ایام نہایت  ہی قیمتی اور سہانا وقت رہا ،پڑھنے ، مطالعے کرنے ،تصنیف و تالیف کے ذریعے ، بیان و خطبات کے ذریعے اسلامی تعلیم کو عام کرنے کا بہترین موقع رہا ، چناچہ بہت سارے علمائے کرام نے اور عوام الناس نے وقت کی قدردانی کی اورجو وہ کرنا چاہتے تھے کئے   اور کر رہے ہیں۔
۱۔ بہت سارے علمائے کرام  مختلف موضوعات پر تصننفی کام  کیں اور کتابیں لکھ کر امت مسلمہ کی دیرینہ تشنگی بجھائی ۔   
۲۔بہت سارے علمائے کرام نے آن لائن خطبات و مواعظ کے ذریعہ امت مسلمہ کو درس عبر ت  اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق زندگی گذارنے کا ڈھنگ سکھایا ۔
۳۔علم ووست طبقہ نے علمی و معلوماتی کام کیا ، چناچہ آن لائن درس کا افتتاح انگزیزی و عربی سیکھانے کے لیے کیا  ، جو بحمد اللہ کامیاب بھی رہا ،
۴۔بہت سارے لوگوں نے بالخصوص نوجوان اور بچوں نے اس قیمتی وقت کو ضائع نے ہونے دیا ، حفظ قرآن کریم کیا ، چناچہ یہ مسرت انگیز خبر سنتے ہی حیرت انگیزی بھی ہوگی اور قرآن کریم کے خدائی معجزہ ہونے کا یقین بھی کہ ۱۲؍ سال کی بچی صرف ڈھائی مہینے کے قلیل مدت میں حافظہ ہوگئی
۵۔سب سے زیادہ فائد ہ یہ ہوا کہ گھریلو زندگی  تعلم وتربیت سے مزین ہوئیں  ،
خلاصہ یہ ہے لاک ڈاؤن نے زیادہ کھویا اور کم پایا ، اس کے نقصانات زیادہ ہوئے ، اور فوائد بہت ہی کم  ، اور یہ ا ور  فوائد ان ہی لوگوں کو ہوئے جو وقت کی قدر دانی جانتے اور اس قدر کاورل ہیں ، تقریباً ۱۰۰؍ دن کا لاک ڈاؤن سراسر خسارہ رہا ، صر ف اور صرف صحیح ڈھنگ ، دل و دماغ اور  عقل و بصیرت ، دانش مندی و ہوش مندی سے کام نہ لینے کی وجہ سے ، حماقت و جہالت ، نادانی  ،اپنی ضد ، ہٹ دھرمی ، تکبر کی وجہ سے ،بس االلہ ہی رحم وکرم کا معاملہ فرمائے اور ہدایت نصیب فرمائے آمین

آن لائن گیم کے ذریعہ معصوم کو بہکا کر اڑایا تھا والد کا آٹھ لاکھ ، پروفیسر نے آگرہ سے پکڑا!

بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/جون 2020)  تھانہ بلریا گنج کے گاؤں اسماعیل پور کے رہائشی شخص کے اکاؤنٹ سے آن لائن آٹھ لاکھ روپے کی دھوکہ دہی کرنے والے ملزم کو پولیس نے سنیچر کو آگرا سے گرفتار کرلیا۔  گرفتار ملزم آن لائن گیم کا بہترین کھلاڑی بتایا جاتا ہے۔  گیم کے ذریعہ ہی متاثرہ فیملی کے بچے سے پہلی رابطہ بنایا اور اکاؤنٹ کی جانکاری حاصل کرنے کے بعد اس نے بینک اکاؤنٹ سے آٹھ لاکھ روپے اڑا دیئے۔
 تھانہ بلریا گنج کے گاؤں اسماعیل پور کے رہائشی ہریونش لال سریواستو نے شادی کے پروگرام میں خرچ کرنے کے لئے 8 لاکھ روپے اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائےتھے،  10 اپریل سے 12 مئی کے درمیان ، سائبر مجرموں نے اکاؤنٹ سے آٹھ لاکھ روپے کا غائب کر دیا ۔  19 مئی کو پولیس نے متاثرہ  کی شکایت پر رپورٹ درج کرکے کیس کی تفتیش شروع کردی۔تفتیش کے دوران آگرا ضلع کے نیو آگرا تھانے کے لوہیا نگر بلکیوشور کا رہائشی ملزم ساگر سنگھ ولد راجیش سنگھ ، کا نام سامنے آیا۔  شواہد کی بنیاد پر ، یہ پتہ چلا کہ ملزم ساگر سنگھ آن لائن گیمز کا اچھا کھلاڑی ہے۔  اس طرح کے آن لائن گیمز کے ذریعہ ، متاثرہ خاندان کے ایک بچے سے رابطہ میں آیا۔  کھیل کے دوران ، بڑے بڑے لیول  دکھا کر ، اس نے بچے کو اپنے جھانسے میں لیا اور متاثرہ کے بینک اکاؤنٹ کی جانکاری مثلاً  ڈیبٹ کارڈ نمبر ، سی وی وی نمبر وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اکاؤنٹ سے وابستہ مسیجنگ سسٹم کو ہیک لیا ، تاکہ متاثرہ شخص کو ڈیبٹ / کریڈٹ کی معلومات دستیاب نہ ہو۔  خریداری اور ٹرانسفر کے ذریعے آہستہ آہستہ اکاونٹ سے رقم اڑا دیا۔
 پولیس سپرنٹنڈنٹ تریوینی سنگھ نے بتایا کہ اس معاملے سے متعلق سائبر مجرم کی گرفتاری کے لئے مسلسل ہدایات دی جارہی تھی۔  جس کی نگرانی کرائم سپرنٹنڈنٹ پولیس سدھیر جیسوال بھی کررہے تھے۔  اسی تسلسل میں ، متاثرہ اور سائبر سیل کی مشترکہ ٹیم نے سنیچر کے روز ملزم ساگر سنگھ ولد راجیش سنگھ کو گرفتار کیا۔  اس کے پاس سے   ویوو لمپنی کا ایک  موبائل برآمد کیا گیا  ہے۔

جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس نے کیا سینیٹائزر رپورٹ:- محمد دلشاد قاسمی روشن گڑھ / باغپت(٢٨/جون ٢٠٢٠ آئی این اے نیوز)

جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس نے کیا سینیٹائزر
رپورٹ:- محمد دلشاد قاسمی
روشن گڑھ / باغپت(٢٨/جون ٢٠٢٠ آئی  این اے نیوز)
کروناوائرس مہاماری کے چلتے اٰج ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ میں جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ و روورس نے پورے گاوں میں گلی در گلی مساجد مدارس مندر اور تمام کلینک و میڈکل اسٹور کو سینیٹائزر کیا، جس کی خوب سراہانا کی گئی
وبائی بیماری کرونا وائرس کی مہاماری کی وجہ سے اٰج گاوں روشن گڑھ میں جمعیة یوتھ کلب کے اسکاوٹ و روورس نے پورے گاوں میں سینیٹائزر کیا، جہاں گلی در گلی سینیٹائزر کیا گیا، وہیں جامع مسجد، مسجد النور، مسجد حمزہ، مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام، مدرسہ تعلیم القراٰن، شیو مندر، ڈاکٹر وید پال،ڈاکٹر منوج کمار، ڈاکٹر ارجن، ڈاکٹر عابد، ڈاکٹر عارف انصاری، ودیگر کلینک و اسٹور کو بھی سینیٹائزر کیا ، اور لوگوں سے باہر نکلتے وقت ماسک پہننے، اور شوشل ڈسٹینشنگ کی اپیل بھی کی، اور بلا ضرورت بازار میں اٰنے جانے سے پرہیز کیا جائے،
حاجی محمد ناظم پردھان جی نے کہا کہ جمعیة یوتھ کلب کا یہ سینیٹائزر مہمم بڑی ہی قابل تعریف ہے، اور ہمیں خود بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے، ماسٹر ستبیر تیاگی نے کہا کہ جمعیة یوتھ کلب کا یہ قدم قابل تعریف جو بغیر مذہب کے بھید بھاو کے پورے گاوں میں سینیٹائزر کیا گیا، اس سے سماج میں پھیلی دوری کو بھی کم کیا جاسکتا ہے،اس موقع پر مفتی محمد دلشاد قاسمی، حاجی محمد جمیل، قاری محمود صاحب، محمد شکیل، محمد تنصیر، محمد شاہنواز ، مولوی محمد دلشاد، منوج ملک، ٹولی لیڈر محمد عثمان، نائب لیڈر محمد صالحین، عاقل، طالب، فاروق،فرحان وغیرہ وغیرہ موجود رہے

Saturday 27 June 2020

اخلاقیات کے موضوع پر اردو زبان میں اپنی نوعیت کا پہلا سیمینار: ڈاکٹر وارث مظہری نئی دہلی :27/جون 2020 آئی این اے نیوز

اخلاقیات کے موضوع پر اردو زبان میں اپنی نوعیت کا پہلا سیمینار: ڈاکٹر وارث مظہری
نئی دہلی :27/جون 2020 آئی این اے نیوز
ابواللیث ہال ابوالفضل انکلیو، نئی دہلی میں اسوسی ایشن فار سوشل انٹگریشن اینڈ ڈیولپمنٹ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (این سی پی یو ایل) کے اشتراک سے ایک قومی سیمینار کا انعقاد ہوا۔ کورونا کے پیش نظر تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے محدود شرکاء اور متعین مقالہ نگاران کی موجودگی میں یہ سیمینار صبح دس بجے شروع ہوا۔ سیمینار کا تعارف جناب عبدالماجد صاحب نے کراتے ہوئے مرکزی تھیم پر قدرے تفصیلی روشنی ڈالی اور اس موضوع پر مزید کام کی ضرورت اور اہمیت کی جانب توجہ دلائی۔ سیمینار میں کلیدی خطاب جناب ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی صاحب کا ہوا۔ موصوف نے اخلاق اور فلسفہ اخلاق پر تاریخی تناظر میں روشنی ڈالتے ہوئے اس موضوع پر اردو اور عربی زبان میں موجود لٹریچر کا ریویو پیش کیا۔ سیمینار کے اہم مقالات میں جناب کاشف حسن صاحب کا مقالہ “فلسفہ اخلاق”، جناب فواز جاوید خان صاحب کا مقالہ”شخصیت کا ڈیولپمنٹ اور اخلاقیات”، جناب محمد معاذ  صاحب کا مقالہ”سماجی خدمت کی اخلاقیات”، جناب محمد انس صاحب کا مقالہ “ماحولیاتی تبدیلیاں اور اخلاقیات”، اور جناب اسامہ اکرم صاحب کا مقالہ “تفریحات اور اخلاقیات”، قابل ذکر ہیں۔ جناب ڈاکٹر وارث مظہری صاحب اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامیات جامعہ ہمدرد نئی دہلی بھی اس سیمینار میں شریک رہے۔ موصوف نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے علم کی حد تک اخلاقیات کے موضوع پر اردو زبان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا سیمینار ہے۔  موصوف نے مزید فرمایا کہ اخلاقیات کا موضوع بدلتے وقت اور زمانے کے ساتھ بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے، اس موضوع پر مختلف زبانوں میں کافی کچھ کام کیا جاچکا ہے لیکن اردو زبان میں ابھی بھی اس موضوع پر کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوسکا ہے۔ ریسرچ اسکالرس کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسوسی ایشن کے چیئرمین جناب ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی نے سیمینار کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیمینار اخلاقیات کے موضوع ہماری جانب سے ہونے والی کوششوں میں پہلی کڑی یا تمہید کی حیثیت رکھتا ہے، اسوسی ایشن جلد ہی اس موضوع پر مزید اہتمام اور تیاری کے ساتھ سیمینار کے انعقاد اور لٹریچر کی تیاری کی کوشش کرے گی۔ اس سیمینار کے انعقاد پر ایس آئی او آف انڈیا کے جنرل سکریٹری جناب اظہرالدین، اصلاحی ہیلتھ کیئر فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری جناب حکیم نازش احتشام اعظمی، ہیومن رائٹس لا نیٹ ورک سے وابستہ ایڈووکیٹ نبیلہ حسن، سینٹر فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کے ڈائرکٹر سید احمد مذکر اور دیگر حضرات نے خوشی کا اظہار کیا۔ حکیم نازش احتشام اعظمی نے کہا کہ اخلاقیات کا مسئلہ اس وقت جس قدر سنگین ہوتا جا رہا ہے اس کے پیش نظر اس وقت کی اولین ضرورتوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اخلاقیات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے، خاص طور سے سماجی زندگی سے متعلق اخلاقیات کے سلسلہ میں بڑے پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی پروازوں کی پابندی میں 15 جولائی تک توسیع



بین الاقوامی پروازوں کی پابندی میں 15 جولائی تک توسیع
نئی دہلی: ڈائرکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (ڈی جی سی اے) نے باقاعدہ بین الاقوامی پروازوں پر پابندی میں 15جولائی تک توسیع کردی ہے۔ڈائرکٹوریٹ کے ذریعہ جاری سرکلر میں کہا گیا ہے کہ باقاعدہ بین الاقوامی مسافر پروازوں پر پابندی 15جولائی کی رات 11:59تک جاری رہے گی۔اس میں بین الاقوامی پروازوں کے ملک میں اترنے اور یہاں سے پرواز کرنے دونوں پر پابندی رہے گی۔ یہ پابندی بین الاقوامی کارگو طیاروں اور خصوصی اجازت رکھنے والی مسافر پروازوں پر نافذ نہیں ہوگی۔
ملک میں بین الاقوامی مسافر پروازوں پر 22مارچ سے پابندی عائد ہے۔ گھریلو مسافر پروازوں پر بھی 25مارچ سے پابندی لگائی گئی تھی لیکن 25مئی سے گھریلو پروازیں شروع ہوگئی ہیں۔
شہری ہوا بازی کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے واضح کیا ہے کہ بین الاقوامی پرواز شروع کرنے کے لئے اس ملک کا اتفاق کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ہی گھریلو سطح پروازوں کی تعداد کووڈ 19 کے مقابلے میں 50-55 فیصد تک پہنچنے کے بعد ہی اس پر غور کیا جائے گا تاکہ بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو کسی بڑے ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد مزید سفر کرنے میں دشواری پیش نہ ہو۔
مسٹر پوری نے اشارہ کیا ہے کہ امریکہ ، فرانس ، جرمنی اور برطانیہ جیسے منتخب ممالک کے ساتھ محدود تعداد میں بین الاقوامی پروازیں شروع کی جاسکتی ہیں۔ یہ پروازیں وندے بھارت کی طرز پر ہوں گی اور باقاعدہ پروازیں شروع کرنے میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔

*لاک ڈاؤن: گھریلو زندگی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کا سنہرا موقع رہا* ✍🏻از قلم : توفیق عالم چمپارنی

*لاک ڈاؤن: گھریلو زندگی کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کا سنہرا موقع رہا*
✍🏻از قلم :  توفیق عالم چمپارنی

خالق کائنات کا اپنے بندوں پر بے انتہاء، بے شمار، بے حد، بے حساب  لازوال اور غیر مستقل انعامات ہیں۔ اور اللہ کی ہر نعمت بنی آدم کے لئے نفع بخش ہے، یہاں تک کہ بیماری بھی کیونکہ وہ گناہوں کے ازالے کا سبب بن جاتا ہے ۔ دونوں طرح کی نعمتوں (نفع بخش اور ضرر رساں) سے سرفراز ہونا انسان کے اعمال کا نتیجہ ہے ۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کسی کا بیمار ہونا اس کے اعمالِ بد کا ثمرہ ہے۔ اور مصلحت خداوندی سے خالی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی ادراک کے مطابق وہ اس چیز کا احساس نہیں کرپاتی ہے۔
آج پوری دنیا  کرونا وائرس کے چپیٹ میں ہے اور اس وبائی مرض کی وجہ سے کتنے لوگ  موت کے آغوش میں جاچکے ہیں۔ اپنے آپ کو شپر پاور کہنے والی ملکیں اس مرض کا علاج تلاش نہ کرسکیں، سب نے گھٹنے ٹیک دیئے اس پروردگار کے سامنے۔ سب کی یہی پکار ہے کہ اب خدا، بھاگوان، ایشور، رام، اور اوپر والا ہی کچھ کرسکتا ہے ۔ ایسے حالات میں خدا کی عبادت، رام کی بھگتی، ایشور کی پوجا، عیسی مسیح کی اطاعت، موسیٰ علیہ السلام کی فرمانبرداری اور گرونانک کی پرستش کرنا سب چاہتے تھے لیکن اس سنکٹ کی گھڑی میں خدا کی بندگی کیلیۓ مسجد، رام کی بھگتی کیلیۓ مندر، عیسی مسیح کی اطاعت کیلیۓ کنیسۃ النصاری، یہودیوں کلیۓ بیعۃ الیہود اور سکھوں کلیۓ گردوارہ بند پڑے تھے۔ ایسے میں لوگوں نے اپنے گھروں کو اطاعت، عبادت، بندگی، پوجا اور  پرستش کے لئے عبادت گاہ بنا کر پھر سے اس کو آباد کردیا۔
چنانچہ قرآن کریم کی تلاوت، نماز تراویح، صلاۃ لیل،صلاۃ التسبیح، روزہ اور ذکرِ الٰہی سے اپنے آشیانے کو پھر سے آباد کیا۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے،، اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ،،  آج سے چودہ سو سال پہلے یہی ماحول تھا جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین، حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کی مجلس سے آتے تو اپنے گھروالوں کو احکام شرعیہ سے روشناس کراکر ،، بلغو عنی ولو آیۃ،، کے صحیح مصداق ثابت ہوۓ۔ آج ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچے کو شریعت مطہرہ کے احکام سے واقف، سیرتِ نبوی سے ہم کنار، بڑوں کی عزت چھوٹوں پر شفقت سلیقے سے مطلع، گفتار و کردار کے آداب سے بہرور اور آسمان چھوتے اس ترقی یافتہ دور کے اتار چڑھاؤ سے باخبر کراۓ۔ اور کرونا وائرس کے زمانے میں گھر پر بیٹھے ماں باپ کےلیۓ ان پر عمل کرنا آسان ہے۔ تاکہ گھر کے چراغ کے ساتھ بچوں کا مستقبل بھی روشن ہوجائے۔ مگر اس حالت میں اگر کسی نے اپنےگھر کو دین کی چراغ سے روشن نہیں کیا تو یہ انتہائی درجہ محرومی کی بات ہے۔
 اس لاک ڈاؤن میں لوگوں نے احکام خداوندی کو گھروں میں رہ کر سیکھا اور سکھایا بھی۔ گویا کہ تعلیم وتعلم کا ایک بہترین موقع ملا۔ اور بیٹے نے باپ کو قرآن سکھایا، ماں نے بیٹی کو دین کے متعلق بتایا، بیوی نے شوہر کو احکام خداوندی کا درس دیا۔ اور سب نے ایک دوسرے سے سیکھا اور سکھایا۔ 
 لاک ڈاؤن ابدی طور پر نہیں ہوسکتا اس سے نظام معیشت چوپٹ ہوجائے گی اور لوگ بیماری سے کم بھوک سے زیادہ مریں گے۔ آخرکار کچھ دنوں کے بعد دھارمک استھل کھل گۓ۔ تو لوگوں نے راحت کا سانس لے کر پروردگار سے ملنے کی خوشی میں فرحت ومسرت کا اظہار کیا۔ مگر مسجدیں کھیلیں صرف فراءض کے انجام دہی کے لیےحکم شرعی کے موافق ۔ اور حکم شرع  ہے کہ ،،مسجد میں فرض نماز ادا کرو سنن نوافل گھر پر ادا کرو،،
دوبارہ اسی بات کی تلقین کی گئی کہ اپنے گھروں کو آباد رکھا کرو۔
 یہ من جانب اللہ ایک انمول تحفہ ہے ۔
آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس وبائی مرض سے ہم سب کو نجات ۔ کار خیر کی توفیق اور گردش زمانہ سے محفوظ رکھ کر ایمان پر استقامت کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق بخشے
آمین ثم آمین۔

شرم تم کو مگر نہیں آتی تجزیہ: مولانا ارشد مدنی

شرم تم کو مگر نہیں آتی
تجزیہ: مولانا ارشد مدنی
ابھی ابھی چند روز کی بات ہے کہ نیوز 18ی وی چینل کے اینکر امیش دیوگن نے اللہ کے ولی دنیا کے مال ودولت سے بے نیاز درویش اپنی روحانی کمالات کی وجہ سے سینکڑوں سال سے لاکھوں ہندو اور مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن سلطان الہند خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں انتہائی احمقانہ اور جاہلانہ جملہ کہا تھا، جس سے پورے ہندوستان میں کہرام مچ گیا، راقم الحروف اگرچہ کبھی سلطان الہند خواجہ اجمیریؒ کے عرس میں شریک نہیں ہوا؛ لیکن خود میں اور میرے بزرگ جو اپنے آپ کو خواجہ اجمیریؒ کے در کا غلام مانتے ہیں ان کے آستانہ تک حاضری اور فاتحہ خوانی کو باعث سعادت گردانتے ہیں۔
سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیریؒ علماء دیوبند کے اکابر کے سلسلہ قدوسیہ چشتیہ صابریہ کے نہایت اہمیت کے حامل اعلیٰ مرتبت ایک شیخ طریقت ہیں؛ چنانچہ بانی دار العلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ نے اپنے شجرہئہ منظومہ میں ان لفظوں میں ان کو یاد فرمایا ہے:
بحق آنکہ شاہ اولیا شد ٭  در او بوسہ گاہ اولیا شد
معین الدین حسن سجزی کہ برخاک ٭ندیدہ چرخ چوں او مرد چالاک
”اے اللہ ان کے طفیل اور صدقہ میں جو اولیا کے بادشاہ ہوئے ہیں، جن کی چوکھٹ اولیاء اللہ کی بوسہ گاہ ہے، یعنی خواجہ معین الدینؒ کہ ان جیسا باکمال ولی آسمان نے زمین پر دیکھا نہیں ہے“۔(میرے دل کو ہر باطل کی محبت سے پاک فرما)۔
اسی طرح مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے  ۱۵۹۱؁ء یا  ۲۵۹۱؁ء میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف تشریف لے گئے تھے وہاں کے سجاد گان نے حضرت مدنی رحمہ اللہ کا بڑا احترام کیا تھا سر پر پگڑی باندھی تھی اور کچھ تبرکات بھی پیش کئے تھے رات کے پروگرام میں حضرت مدنیؒ نے تقریر فرمائی: ”کہ جس طرح آج سے کم وبیش 13سو سال پہلے انوار نبوت وہدایت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات سے ظاہر ہوئے اور تمام عالم کے لئے آپ کی ذات والا صفات سر چشمہ ہدایت بنی اور رہتی دنیا تک بنی رہے گی اسی طرح ہندوستان کے لئے غلام مصطفی حضرت خواجہؒ کی ذات کو اللہ نے راہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی اپنی مخلوق کے لئے سر چشمہ ہدایت بنایا ہے صرف ان کی مبارک صورت کو دیکھ کر دہلی سے اجمیر تک بے شمار لوگ ان کے قدموں پر گرے اور شرک وکفر سے تائب ہو کر اپنے اللہ کے سچے فرماں بردار بنے ہیں“  اسی لئے باوجودیکہ خواجہ رحمہ اللہ ایک فقیر اور درویش تھے لیکن لوگوں کے دلوں پر ان کی حکومت تھی ان کو سلطان الہند آج تک کہا جاتا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور مسلمان خواجہ کی بارگاہ پہنچتے رہتے ہیں ایسی ذات والا صفات جو اپنے مشائخ کے حکم سے اجمیر پہنچے اور اللہ کے دین کو لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے کام کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے اور اجمیر شریف ہی کو قیامت تک اپنا مسکن بنا ڈالا ان کو ”لٹیرا“ کہنا، کہنے والے کی بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟۔
باہر سے آنے والے مسلم بادشاہوں کو ہندوستان میں کچھ لوگوں نے یہ لقب دیا ہے کہ وہ ہندوستان کی دولت کو سمیٹ کر باہر لے گئے، یہ بات ان بادشاہوں کے لئے کہی جا سکتی ہے جو حملہ آور ہوئے اور لوٹ گئے اگرچہ وہاں بھی تاریخی اعتبار سے دلائل کو بنیاد بنانا پڑے گا، لیکن وہ بادشاہ جو آئے اور ہندوستان ہی کو انھوں نے اپنا وطن بنا لیا وہ اور ان کی اولاد اور خاندان سینکڑوں سال حکومت کرتے رہے اور مرتے رہے ان کی قبریں ہندوستان ہی میں موجود ہیں تو ان کو لٹیرا کیسے کہا جا سکتا ہے؟ لیکن اس سے آگے بڑھکر اللہ کے ولی فقیروں اور ولیوں کو لٹیرا کہنا یہ تو کہنے والے کی اپنی نادانی اور تاریخ سے بے خبر ہونے کی دلیل ہے۔
لٹیرا اگر کہا جاسکتا ہے تو انگریز اور خاص طور پر (ایسٹ انڈیا کمپنی) کو کہا جاسکتا ہے کیونکہ وہ لوگ ہندوستان کو لوٹنے کھسوٹنے کے لئے ہی آئے تھے اور انھوں نے اپنے دور اقتدار میں ہمارے ملک کی دولت کو لوٹ کھسوٹ کر اپنے خزانے کو آباد کیا ہے، ”معیشت الہند“ کے مصنف لکھتے ہیں کہ:  ۱۰۶۱ ؁ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سرمایہ کل 30/ ہزار پونڈ تھا لیکن ۶۰/ سال کی مدت میں ”چارلس دوم“ ”کرام ول“ کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۳/ سے لیکر ۴/ لاکھ پاونڈ تک نذرانہ پیش کیا ہے، یہ غور کرنے کی بات ہے کہ کمپنی جب نذرانہ ۴/لاکھ پاونڈ دے رہی ہے تو اس کا اپنا سرمایہ کتنے کروڑ پاونڈ ہو گیا ہوگا؟ جو صرف ۰۶/سال میں سونے کی چڑیا ہندوستان کی دولت کو لوٹ کر بنا ہے۔ یہ بات سوچنی چاہئے کہ جب ساٹھ سال میں یہ لوٹ ہوئی ہے تو تین سوسال میں کتنی لوٹ ہوئی ہوگی۔
۷۵۷۱؁ء میں ”کتاب قانون تمدن وتنزل“ ”بروکس ایڈسن“ لکھتا ہے کہ بنگال کے خزانے یعنی کروڑوں آدمیوں کی کمائی ”نواب سراج الدولہ کی حکومت کو گرانے کے بعد انگریزوں نے ہتھیا کر لندن اسی طرح بھیج دی جس طرح رومن نے ”یونان اور پونٹس“ کے خزانے ”اٹلی“ بھیج دئے تھے، ہندوستان کے خزانے کتنے قیمتی تھے کوئی انسان بھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا، لیکن وہ کروڑوں اشرفیاں ہوں گی، اتنی دولت اور ثروت کہ مجموعی یورپین دولت سے بہت زیادہ تھی۔
”بروکس ایڈسن“ نے اپنی مذکورہ کتاب میں سرولیم دگبی کا یہ قول بھی لکھا ہے کہ بنگال میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ اسی جنگ پلاسی  ۷۵۷۱؁ء کے بعد بنگال کی دولت لُٹ لُٹ کر لندن پہنچنے لگی اور اس کا اثر فوراً ہی ظاہر ہوگیا۔
”میجروینکٹ“ کہتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں کے ساتھ سَرسَری اندازہ کے ساتھ بڑی آسانی کے ساتھ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ جنگ پلاسی ۷۵۷۱؁ء اور جنگ واٹر لو ۵۱۸۱  ؁ء کے درمیانی زمانہ میں ہندوستان سے انگلستان کو پندرہ ارب روپیہ جا چکا تھا۔  (ماخوذ از نقش حیات)
اسی مدت کے اندر ۹۹۷۱  ؁ء میں ریاست میسور کے نواب سلطان ٹیپو رحمہ اللہ کو سرنگا پٹنم میں شہید کیا گیااور ان کی شہادت کے بعد انگریز فوجی لٹیروں نے ان کے خزانے اور وہاں کے رہنے والے ہندو اور مسلمانوں کی دولت وثروت بلکہ ان کی عورتوں کی عزت وآبرو کو جس طرح لوٹا ہے اس کو جاننے کے لئے ”سلطنت خداداد“ کتاب کے صفحات کو ۳۲۳/ سے ۷۳۳/ تک دیکھا جائے، ہم نے جو بھی باتیں نقل کی ہیں وہ خود انگریز مصنفین ہی کی لکھی ہوئی باتوں کو نقل کیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس اینکر کو ایک خدارسیدہ درویش دنیا کی دولت کو ٹھوکر مارنے والا ہندو اور مسلمانوں کے دلوں پر حکومت کرنے والا خدا کا ولی تو ”لٹیرا“ نظر آتا ہے لیکن سونے کی چڑیا ہندوستان کی دولت کے خزانوں کو لوٹ کر انگلستان پہنچانے والا اور ہندوستان کوتنگ دست اور فقیر بنا کر پوری ہندوستانی قوم کو غلام در غلام بنانے والا ”لٹیرا“ نظر نہیں آتا، یہ اینکر اسی غلام بنانے والی قوم کی زبان، اس کی تہذیب اور اس کے تمدن کو ۷۰/ سال کے بعد بھی اپنے لئے باعث صد افتخار سمجھتا ہے جس کا مطلب ہے کہ آج بھی اسی ”لٹیری“ قوم کا غلام ہے اور غلامی کا احساس بھی اس کو نہیں ہوتا، بلکہ ملک کا ایک طبقہ انگریز جیسی لٹیری قوم کی محبت میں خود لٹیرا بنکر ہندوستان کے غریب عوام کی ہزاروں ہزار کروڑ کی دولت لوٹ کر بھاگتا ہے تو اپنے لئے پناہ گاہ یورپ اور خاص طور پر انگلینڈ ہی کو بناتا ہے۔ ان لٹیروں اور بھگوڑوں کی فہرست پارلیمنٹ میں پچھلے دنوں پیش کی گئی تھی لیکن میں نہایت خوش ہوں اور آپ لوگوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ سلطان الہند خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ کی اپنی زندگی تو نہایت پاکیزہ اور بلند ترین ہے ان کی غلامی کا دم بھرنے والے کسی ایک کا نام بھی ہندوستان کے لٹیروں اور بھگوڑوں کی اس فہرست میں آپ کو نہیں ملے گا۔
میں آخر میں اس دریدہ دہن اینکر کو نصیحت کرتا ہوں کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تمہاری طرف سے خواجہ کی شان میں یہ گستاخی تم کو بربادی کی اوڑ تک نہ پہنچا دے،اس لئے خواجہ کی چوکھٹ پر پہلی فرصت میں جاؤ نذرانہ پیش کرو اور دونوں ہاتھ باندھ کراپنی گستاخی کی معافی مانگو تاکہ تم اس گستاخی کے بھیانک اور برے انجام سے محفوظ رہ سکو اور آئندہ کے لئے اس طرح کی توہین آمیز باتوں سے توبہ کر کے آؤ اور حلال روزی کما کرکے اپنے اور اپنی اولاد کے پیٹ کو پالو اور عزت کی زندگی گزارو۔
(مضمون نگار جمعیۃ علماء ہند کے صدر ہیں)

* - 26؍جون 1976* *نوجوان شعراء میں مقبول، قطر میں مقیم اور مشہور و معروف شاعر” عزیز نبیلؔ صاحب “ کا یومِ ولادت...*

* - 26؍جون 1976*

*نوجوان شعراء میں مقبول، قطر میں مقیم اور مشہور و معروف شاعر” عزیز نبیلؔ صاحب “ کا یومِ ولادت...*

نام *عزیز الرحمن* اور تخلص *نبیلؔ* ہے وہ *٢٦؍جون ١٩٧٦ء* کو *ممبئی* میں پیدا ہوئے۔ فی الحال وہ قطر میں ملازمت کر رہے ہیں۔ *"خواب سمندر"* اور *"آواز کے پر کھلتے ہیں"* اب تک دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ مجلہ *"دستاویز"* کے ایڈیٹر ہیں۔

   🦋 *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

※☆▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔▔☆※

💐 *معروف شاعر عزیز نبیلؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین...* 💐

ﺯﻣﯿﮟ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎ ﻧﻘﺸﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺮ ﻓﻀﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ
---
*ﯾﮧ ﮐﺲ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﮧ ﻻﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺧﺪﺍﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ*
*ﮐﮧ ﺁﺝ ﺭﻭﻧﺪ ﮐﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﯾﮧ ﻣﺠﮭﮯ*
---
ﻣﺮﺍ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﮯ ﺍﮮ ﻗﺎﺗﻼﻥِ ﺷﺐ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮐﮧ ﯾﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﻨﻮﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ ﮐﺐ ﺗﻢ ﺳﮯ
---
*ﯾﮧ ﮐﺲ ﻭﺣﺸﺖ ﺯﺩﮦ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ*
*ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺪ ﻣﻘﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ*
---
ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺑﯿﺪﺍﺩ ﮔﺮﯼ ﮐﯽ
ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺷﻮﺭﯾﺪﮦ ﺳﺮﯼ ﮐﯽ
---
ﺷﺎﻋﺮﯼ، ﻋﺸﻖ، ﻏﻢ ﺭﺯﻕ، ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ، ﮔﮭﺮ ﺑﺎﺭ
ﮐﺌﯽ ﺳﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮧ ﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ
---
*ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻧﻈﺮ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﺁﺛﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ*
*ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﭘﺮﺩۂ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ*
---
ﺧﺎﮎ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮧ ﻣﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
---
ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ
---
*وقت ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ*
*ﺩﮬﻮﻝ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺪﻥ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ*
---
ﻭﮦ ﺩﮐﮫ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻔﯿﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﻋﻤﺮ ﮐﭧ ﮔﺌﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﯽ ﺩﻟﯿﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ
---
ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ ﻟﯿﮯ ﺟﮭﻮﻡ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﭨﻮﭨﺘﮯ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺳﻤﺖ ﺟﮭﮍﯼ ﺗﮭﯽ
---
سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا
تم کسی روز مرے رنگ رنگ میں آؤ تو سہی
---
بہکا تو بہت بہکا، سنبھلا تو ولی ٹھہرا
اُس چاک گریباں کا، ہر رنگ نرالا تھا
---
عادتاً میں کسی احساس کے پیچھے لپکا
دفعتاً ایک غ دشےِ سخن سے نکل
---
جب جال مچھیرے نے سمیٹا ہے، علی الصّبح
ٹوٹا ہوا اک چاند بھی تالاب سے نکلا
---
نہ جانے کس کے قدم چومنے کی حسرت میں
تمام راستے دل کی طرح دھڑک رہے تھے
---
عادتاً سلجھا رہا تھا گتھّیاں کل رات مَیں
دل پریشاں تھا بہت اور مسئلہ کوئی نہ تھا
---
میں اپنی ذات کا سفر تمام کرکے رک گیا
پھر اس کے بعد راستوں سے میری گفتگو ہوئی
---
اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ
کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں
---
یہ دریا کچھ زیادہ ہنس رہا ہے
اِسے صحرا کی جانب موڑدوں کیا
---
اعتبارِ دوستی کا رنگ ہوں
بے یقینی میں اتر جاوں گا مَیں
---
تم نے آواز کو زنجیر سے کسنا چاہا
دیکھ لو ہوگئے اب ہاتھ تمہارے زخمی
---
اک تعارف تو ضروری ہے ، سر ِ راہ ِ جنوں
دشت والے نئے برباد کو کب جانتے ہیں
---
مجھ کو اغوا کرلیا ہے میرے خوابوں نے نبیل
اور مری آنکھیں انہیں مطلوب ہیں تاوان میں
---
سوال تھا کہ جستجو عظیم ہے کہ آرزو
سو یوں ہوا کہ عمر بھر جواب لکھ رہے تھے ہم
---
ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیل
اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں
---
قلم ہے ہاتھ میں کردار بھی مرے بس میں
اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں
---
تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے
---
قید کرکے گھر کے اندر اپنی تنہائی کو مَیں
مسکراتا گنگناتا گھر سے باہر آگیا
---
روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے پہ نبیلؔ
رعز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں
---
ﻏﺰﻝ ﮐﮩﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺍﮎ ﮐﺎﺭ ﺑﮯ ﻣﺼﺮﻑ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻧﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﺲ ﺍﮎ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
---
*ﻧﺒﯿﻞؔ ﺍﺱ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺟﯿﺖ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺅ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﺎ*
*ﯾﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﯿﺖ ﮨﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﮯ ﮨﺎﺭ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ*
---
*ﺍﮎ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﻣﯿﮟ ﯾﻮﮞ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﻧﺒﯿﻞؔ*
*ﮨﻮﺍ ﻧﮯ ﺭﯾﺖ ﮐﯽ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﭘﮧ ﻻ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﻣﺠﮭﮯ*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

                          🍁 *عزیز نبیلؔ*🍁

                            *انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*