اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: August 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 31 August 2019

آسام کے 19 لاکھ ہندوستانیوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہمارا قومی فریضہ ہے، مہدی حسن عینی قاسمی

آسام کے19لاکھ ہندوستانیوں کےساتھ کھڑے ہونا ہمارا قومی فریضہ ہے

آج صبح 10 بجے آسام میں این آر سی کی فائنل لسٹ آچکی ہے,19 لاکھ 6 ہزار 657 لوگوں کا نام این آرسی کی فائنل لسٹ
سے نکال دیا گیا ہے.
آسام NRC کیس میں جمعیۃ علماء ہند, آل آسام مایناریٹی اسٹوڈینٹس(آمسو) اور سیٹیزن رائٹ پریزرویشن کمیٹی (سی آر پی سی) نامی تنظیموں کا بڑا رول رہا ہے.ان جماعتوں کی دن رات محنت کے نتیجہ میں 41 لاکھ کا فگر کم سے کم ہوگیا ہے.
اب جبکہ فائنل لسٹ آچکی ہے جس میں 19 لاکھ سے زائد لوگ چھوٹ گئے ہیں,
تنظیم ابنائے مدارس اس موقعہ پر آسام کی عوام سے امن و شانتی کی اپیل کرتی ہے اور آسام حکومت و وزارت داخلہ سے اپیل کرتی ہے کہ ان چھوٹے ہوئے لوگوں کو فارن ٹربیونل تک پہنچانے اور کے کاغذات کو درست کروانے میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کریں.
چونکہ فارن ٹربیونل میں اپیل کرنے کی مدت 120 دن طے ہے.
اس لئے سبھی جماعتوں و سماجی کارکنوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ان آسامی شہریوں کے لئے فوری طور پر رضاکارانہ انداز میں لگ جائیں اور ایکسپرٹ کی ٹیمیں آسام جا کر جن لوگوں کے نام چھوٹ گئے ہیں انہیں "فارن ٹربیونل"کے مقامی آفس تک پہنچائیں اور ان کے کاغذات میں جو خامیاں رہ گئی ہیں انہیں درست کرائیں,
نیز سماجی و قانونی تنظیمیں اس مسئلہ پر پھر سے ہائی کورٹ و سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں.
خوف و دہشت میں مبتلا ہونے کے بجائے یہ وقت آسام کے ان سبھی انسانوں کے لئے کھڑے ہونے کا ہے جنہوں نے ایک صدی تک اس ملک کا باشندہ بن کر گزارا ہے اور اب انہیں غیر ملکی قرار دے کر اپنے ہی گھر سے بے گھر کیا جارہا ہے.

مہدی حسن عینی
تنظیم ابنائے مدارس

جن تقریبات میں نبی کی سنت و شریعت کا جنازہ نکالا جاتا ہو اس میں شریک ہونا جائز نہیں، مولانا سید انظر شاہ قاسمی

بنگلور، 31؍ اگست (محمد فرقان): آج کل ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔جس شریعت نے شادی کو بہت آسان کیا تھا آج اسی شریعت کے ماننے والوں نے شادی کی تقریبات میں ایسے رسومات کو داخل کردیا ہے کہ جسکا اندازہ بھی کوئی نہیں لگا سکتا۔اور ان مغربی رسومات نے وہ شدت اختیار کرلی ہے کہ ایک عام غریب مسلمان شادی بیاہ کا نام سنتے ہی بڑی سوچ و فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔جس مذہب میں نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بنایا گیا تھا آج اسی مذہب کے ماننے والوں نے شادی میں ایسے رسومات و خرافات کا ایجاد کیا کہ نکاح مشکل سے مشکل بنتا جارہا ہے اور زنا آسان ہوتا جارہا ہے۔جو قابل افسوس کے ساتھ قابل مذمت بھی ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی شادیوں میں فقط خطبۂ نکاح کے علاوہ کوئی کاروائی دین و شریعت کے مطابق نہیں ہوتی۔انہوں نے فرمایا کہ آج ہمارے مسلمان مغربی تہذیب سے ایسے متاثر ہوتے جارہے ہیں کہ اگر نکاح کی تصدیق کیلئے مسجد کا رجسٹر اور قاضی کی ضرورت نہ ہوتی تو یہ لوگ غیروں کی طرح سات پھیرے بھی لے لیتے۔مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ آج پوری دنیا میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو دانے دانے کیلئے ترس رہے ہیں۔لیکن آج مسلمانوں کی شادیوں میں فضول خرچی، جہیز، بے پردگی عام ہوتی جارہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا کہ یہ کسی مسلمان کی شادی نہیں بلکہ زنا کا اڈہ ہو۔جو اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہاہے۔مولانا نے فرمایا کہ جن تقریبات میں نبی ؐکی سنت و شریعت کا جنازہ نکالا جاتا ہو ایسی تقریبات میں شریک ہونا بھی جائز نہیں۔شاہ ملت نے دعوے کے ساتھ فرمایا کہ فقط محفل نکاح خوانی کے علاوہ آج کل کی شادیوں کی تقریبات میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں۔کیونکہ ان تقریبات میں شرکت کرنا انکی حمایت اور تائید کرنے کے مانند ہے۔مولانا قاسمی نے دوٹوک کہا کہ جس شادی میں دین و شریعت کا مزاق اڑایا جاتا ہو انکی ازواجی زندگی کبھی عافیت کے ساتھ نہیں گزرا کرتی۔مولانا نے فرمایا کہ علماء کرام اور دینی حلقوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو چاہئے کہ ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کریں۔کیونکہ جب نام نہاد مسلمانوں نے نکاح کو مشکل بنایا تو معاشرے میں زنا عام ہوگیا۔لہٰذانکاح کو آسان بنائیں۔جب نکاح آسان ہوجائے گا تو زنا خود بہ خود مشکل ہو جائے گا۔مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے اپیل کی کہ نکاح ایک سنت ہے اور شریعت میں کسی بھی سنت میں کچھ اضافہ یا حذف کرنے کی کسی کو قطعاً اجازت نہیں۔

سربراہ جمعیت کی سربراہ آر ایس ایس سے ملاقات

سربراہ جمعیت کی سربراہ آر ایس ایس سے ملاقات
یاسر ندیم الواجدی

سوشل میڈیا پر آج یہ خوش کن خبر پڑھنے کو ملی کہ جمعیت علمائے ہند کے صدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات ہوئی ہے۔ یقینا کچھ لوگ اس ملاقات کو بھی اسی طرح متنازع بناکر پیش کریں گے، جیسے چند ہفتوں پہلے اندریش کمار کی دارالعلوم دیوبند آمد کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا اور آج بھی اسی موقف کو دہراتے ہیں کہ آر ایس ایس کے نظریات اسلام ومسلم مخالف ہیں، لیکن مذاکرات مخالفین سے ہی کیے جاتے ہیں، ہم خیال لوگوں سے مذاکرات یا مفاہمت کی ضرورت نہیں پڑتی۔

اندریش کمار کی دیوبند آمد کے وقت جب ہم نے ایک تحریر لکھی، تو کینیڈا میں مقیم میرے ایک کرم فرما جناب ایوب خان صاحب نے ہی غالبا اس کا تذکرہ مشہور قانون داں پروفیسر فیضان مصطفی سے کیا جو اس وقت کینیڈا کے سفر پر تھے۔ لہذا پروفیسر صاحب نے مجھ سے بذریعہ فون دیر تک اس موضوع پر گفتگو کی۔ میں نے چونکہ فاشسٹ تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی تھی، اس لیے  انھوں نے میرے سامنے تین سوالات رکھے:
1- یہ مذاکرات کون کرے گا۔
2- کن موضوعات پر مذاکرات ہوں گے
3- وہ کون سے مسائل ہیں جن پر ہرگز گفتگو یا مصالحت نہیں ہوگی۔

پروفیسر فیضان مصطفی صاحب سے پہلے سوال کے جواب میں، میں نے عرض کیا کہ مسلم قیادت متحد ہوکر ہی یہ مذاکرات کرے تو کچھ نتیجہ نکل سکتا ہے، اس کے لیے فوری طور پر مولانا محمود مدنی کا نام ذہن میں آتا ہے، ہوسکتا ہے کہ مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم بھی اس کے لیے تیار ہوجائیں، تیسری شخصیت خود آپ ہیں۔( فیضان صاحب نے اس پر قہقہہ لگایا) دوسرے سوال کے جواب میں، میں عرض کیا کہ ابتدائی گفت وشنید کی بعد جب اعتماد کی فضا قائم ہو، تو آر ایس ایس سے "بھارتی کون ہے" کے عنوان پر گفتگو ہونی چاہیے، کیوں کہ آر ایس ایس کے نزدیک بھارتی  ہر وہ شخص ہے، جو ایسی ثقافت کا ماننے والا ہو جو انڈس ویلی اور ہمالیہ کے درمیان پروان چڑھی ہو۔ اسلامی تہذیب کے پروردہ اس تعریف کی رو سے بھارتی نہیں رہتے۔

پروفیسر فیضان صاحب سے اس وعدے پر گفتگو ختم ہوئی کہ چند دن کے اندر اندر ان موضوعات کی ایک فہرست تیار کرکے ان کو دی جائے، جن پر گفتگو کی جانی چاہیے اور جن پر ہرگز کوئی مصالحت نہیں کی جاسکتی۔ یہ وعدہ میں ایفا نہیں کرپایا۔ اسی اثنا میں، این آر سی کے موضوع پر اپنے خدشات کو دور کرنے کے لیے، چند روز پہلے میں نے ان کو فون کیا تو انھوں نے سلام دعا کے بعد فورا وہ وعدہ یاد دلایا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر میں اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ بھارت کے سفر کے دوران کچھ اکابر امت سے ملاقات کرکے، اس موضوع پر تبادلہ خیال ضرور کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے کہا کہ حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ اب اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ ایسی کوئی گفتگو ہونی بھی چاہیے یا نہیں۔

آج جب یہ خبر پڑھی کہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی ہے، تو مولانا کی ملک وملت کے لیے اس جرات مندانہ کوشش کا کھل کر اعتراف کرنا ضروری ہوگیا۔ حالانکہ یہ ملاقات نتیجہ خیز ہوگی یا نہیں، اس تعلق سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، لیکن اگر ملی قیادت جس میں پروفیسر فیضان مصطفی جیسے ماہرین قانون بھی شامل ہوں حضرت مولانا ارشد مدنی کی زیر امامت نظریاتی مسائل پر آر ایس ایس سے باقاعدہ مذاکرات کرے، تو خواہ نتیجہ نکلے یا نہ نکلے لیکن حجت تمام ہو جائے گی اور تاریخ میں یہ درج ہوجائے گا کہ امن پسند مسلمان فسطائی طاقتوں کے ساتھ ملک وملت کی خاطر مذاکرات کرنے بھی پیچھے نہیں ہٹے، انھوں نے اس ملک میں امن وامان کو پھیلانے میں آخری درجے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود اگر ملک میں نفرتوں کا بازار گرم رہتا ہے، انسانوں کی جان کی قیمت ختم ہوتی ہے، خوف وہراس ہر جگہ پھیلتا ہے، لاشیں گرتی رہتی ہیں اور لوگ بے حسی کا شکار رہتے ہیں، شہریوں سے ان کے حقوق سلب کرلیے جاتے ہیں، پوری آبادی کو ترقی کی راہ سے ہٹاکر مذہبی جنون کی آگ میں پھینک دیا جاتا ہے اور انسان کی قابلیت کے بجائے اس کی ذات یہ طے کرتی ہے کہ وہ ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا، تو وقت کے ظالم اور غیر منصف مورخ کو بھی یہ لکھنے دیجیے کہ بھارت کے تیس کروڑ لوگوں نے ملک کی سالمیت کے لیے بہت کوشش کی، مگر وہ پانچ فیصد لوگ جن کا ہیڈ کوارٹر ناگپور میں تھا، اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ملک کو قربان کرگئے۔

آسام این آر سی کی حتمی فہرست جاری، 19 لاکھ سے زائد لوگوں کے نام فہرست سے غائب!

نئی دہلی: 31؍اگسٹ (پریس ریلیز) آسام میں قومی شہریت رجسٹر ( NRC) کی حتمی فہرست آج صبح 10 بجے جاری کر دی گئی ہے۔ اس فہرست میں جہاں 3،11،21،004 افرادجگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو وہیں 19؍ لاکھ سے زائد لوگ اپنی جگہ نہیں بنا پائے ہیں۔ این آر سی کے ریاستی کوآرڈنیٹر پرتیک ہزاریکا نے بتایا کہ این آر سی کی حتمی فہرست سے 19،06،657 لوگ باہر ہو گئے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان کو اپنے دستاویزات پیش کرنے کے لیے مزید 120؍دنوں کی مہلت دی گئی ہے۔

ان لوگوں کے لئے یہ بھلے ہی تشویش کی بات ہو لیکن یہ آخری فیصلہ نہیں ہے۔ فہرست میں جگہ نہ پانے والے لوگوں کے پاس اس کے خلاف اپیل کرنے کے متبادل ہوں گے۔ فارن ٹریبونل سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک وہ این آر سی میں جگہ نہ ملنے پر اپیل کر سکیں گے۔ یہی نہیں، سبھی قانونی متبادل طریقوں کو آزمانے تک حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکے گی۔
سپریم کورٹ نے 31 اگست تک این آر سی کی حتمی فہرست جاری کرنے کی آخری مدت طئے کی تھی۔ این آر سی فہرست کو تیار کرنے کا عمل چار سال پہلے شروع ہوا تھا اور حکومت نے مقررہ مدت کے اندر یہ فہرست جاری کر دی ہے۔ فہرست میں اپنا نام

nrcassam.nic.in

پر کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ

assam.mygov.in

اور

assam.gov.in

پر لوگ اپنا نام دیکھ سکتے ہیں۔

فہرست جاری ہونے سے پہلے ہی آسام کے لوگوں میں بے چینی کا ماحول بنا ہوا ہے۔ حالانکہ، آسام کے وزیر اعلیٰ سربانند سونووال نے لوگوں سے کہا ہے کہ این آر سی سے باہر ہونے پر انہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ امن وامان کا ماحول بنائے رکھیں۔ اس فہرست میں آسام کے 41 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ ہو گا کہ وہ ملک کے شہری ہیں یا نہیں۔

قبل ازیں، وزارت داخلہ کے ایک سینئر آفیسر نے بتایا تھا کہ این آر سی کی فہرست ہفتہ کو صبح 10 بجے تک آن لائن دستیاب ہو جائے گی۔ جن کے پاس انٹرنیٹ نہیں ہے وہ ریاستی حکومت کے قائم کردہ خدمات مراکز میں جا کر اپنا اسٹیٹس چیک کر سکتے ہیں۔ وہیں، کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لئے ریاست میں سیکورٹی کے سخت انتظامات کر دئیے گئے ہیں۔ بڑی تعداد میں سلامتی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ حکومت کی اپیل پر 51 کمپنیوں کو تعینات کیا گیا ہے۔

اکتیس جولائی کو جاری ہونی تھی فہرست

این آر سی کی یہ حتمی فہرست 31 جولائی کو جاری ہونی تھی لیکن ریاست میں سیلاب کی وجہ سے این آر سی اتھارٹی نے اسے 31 اگست تک کے لئے بڑھا دیا تھا۔ اس سے پہلے 2018 میں 30 جولائی کو این آر سی کا حمتی مسودہ آیا تھا۔ فہرست میں جو لوگ شامل نہیں تھے، ان کے دوبارہ تصدیقی عمل کے لئے ایک سال کا وقت دیا گیا تھا۔

آسام میں 1951 کے بعد پہلی بار شہریت کی شناخت کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہاں بڑی تعداد میں غیر قانونی طریقے سے رہ رہے لوگ ہیں۔ این آر سی کا فائنل اپڈیشن سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔ دراصل، 2018 میں آئی این آر سی کی فہرست میں 3.29 کروڑ لوگوں میں سے 40.37 لاکھ لوگوں کے نام شامل نہیں تھے۔ اب حتمی فہرست میں ان لوگوں کے نام شامل کئے جائیں گے جو 24 مارچ 1971 سے پہلے آسام کے شہری ہیں یا ان کے آبا واجداد ریاست میں رہتے آئے ہیں۔ اس کا تصدیقی عمل سرکاری کاغذات کے ذریعہ کیا گیا ہے۔

بشکریہ اردو نیوز

ہماری زندگیاں اسلام کی چلتی پھرتی تصویر ہونا چاہیے: مولانا ظفر الدین ندوی

ائمہ مساجد ممبروں سے امن و اتحاد اور انسانیت کا پیغام دیں: مولانا آفتاب عالم ندوی خیرآبادی
رحیم ہوٹل اکبری گیٹ میں علماء و ائمہ مساجد سے خصوصی خطاب۔
لکھنؤ(آئی این اے نیوز31/اگست 2019) ائمہ مساجد کا عمل صرف امامت اور اذان تک ہی  محدود نہیں بلکہ ائمہ مساجد دراصل اس پورے علاقے کے دینی ذمہ دار ہیں انکی ذمہ داری یہ ہیکہ وہ اس پورے معاشرے کی دینی و اصلاحی فکر کریں اور دین کی صحیح ترجمانی کا فریضہ انجام دیں اور مساجد کے ممبر سے مثبت۔امن و محبت اور اتحاد کا پیغام دیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا ظفر الدین ندوی استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ و سابق امام تبوک سعودی عرب نے کیا وہ  رحیم ہوٹل واقع اکبری گیٹ میں علماء و ائمہ مساجد سے خطاب کررہے تھے
انھوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں مساجد کو صرف چند اعمال تک محدود کرلیا گیا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں امام پورے علاقے کا ذمہ دار ہوتا تھا اور لوگ اپنے تمام مسائل مسجد سے حل کرتے تھے آج اسکو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے مولانا ظفر الدین ندوی نے کہا کہ بہت ہی بہتر بات ہوگی  کہ ائمہ مساجد کی میٹنگ ہوا کرے جسمیں وہ اپنے معاشرے کے احوال دیکھ کر آئندہ کیلئے لائحہ عمل تیار کریں۔
مقرر خصوصی  مولانا آفتاب عالم ندوی خیرآبادی مبلغ شعبہ دعوت و ارشاد ندوۃ العلماء لکھنؤ نے ائمہ مساجد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  مذہب اسلام عالمگیر اور آفاقی مذہب حیات ہے  جس میں تمام مشکلات کا حل موجود ہے مذہب اسلام کی تعلیمات توازن کی ہیں  اس لئے کہ توازن ہی کامیابی کی ضمانت ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کو  ان‌صفات سے آراستہ کریں اور توحید خالص کیساتھ زندگی گزاریں اور اسکی دعوت کو عام کریں
انھوں نے کہا کہ   دور حاضر میں اس بات کی شدید ضرورت ہے  کہ ہم  اسلام کا صحیح تعارف کرائیں تاکہ  شکوک و شبہات دور ہوں اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے اس سے لوگ اسلام سے قریب ہوں گے
مولانا آفتاب عالم ندوی خیرآبادی نے ائمہ  مساجد سے اپیل کی مساجد کے ممبروں  سے سے اختلافی بات نہ چھیڑیں  بلکہ اس سے سے گریز کرتے ہوئے یے امن و اتحاد  اور انسانیت  کا پیغام دیں‌ یہی وقت کا پیغام ہے
 انہوں نے کہا کہ کی ہماری زندگی  اسلام کی چلتی پھرتی تصویر ہونا چاہیے جب ایسا ہوگا تو لوگ  ہم سے قریب ہوں گے اور معاشرے کی اصلاح ہوگی۔
مولانا سراج احمد ندوی ناظم مدرسہ حفصہ للبنات قصبہ بلہرہ نے کہا کہ جہاں امام کا مرتبہ بلند ہے وہیں اسکی عظیم ذمہ داریاں بھی ہیں اسلئے ہر لمحہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں اور لوگوں کا تعلق مساجد سے جوڑیں اور اس بات کا اعلان کریں کہ ہماری کامیابی صرف قرآن و حدیث سے وابستہ ہے اسلئے مسلمان اسپر عمل پیرا ہوں۔
اس موقع پر  مہمان خصوصی مولانا ظفر الدین ندوی مقرر خصوصی مولانا آفتاب عالم ندوی خیرآبادی مولانا سراج احمد ندوی کو گلدستہ پیش کر  استقبالیہ دیا گیا۔
رحیم ہوٹل کے ذمہ دار حاجی محمد زبیر نے  خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کہ ہمارے لئے بڑی سعادت کی بات ہے  کہ آپ حضرات یہاں تشریف لائے  ماشااللہ اللہ تعالی آپ حضرات سے دین کی عظیم خدمت لے رہا ہے ہے آپ دعا فرمائیں اور اور مبارکباد قبول فرمائیں۔
اس موقع پر مولانا محمد طاہر ندوی۔ مولانا عبد الباعث ندوی۔ مولانا ذو الفقار ندوی قاری عطاالرحمن امام جمعہ مسجد عثمانیہ اکبری گیٹ  ۔مولانا انظر ندوی۔قاری ظہیر الاسلام عرفانی امام مسجد نور باغ قاضی۔ مولانا محمد صابر ندوی۔ قاری مجیب اللہ سعید۔ قاری فردوسِ عالم ندوی۔حافظ محمد سراج۔ صدیق الرحمن۔  حافظ محمد اسد ۔ حافظ محمد ثانی۔  حافظ محمد اسید حافظ محمد اسامہ وغیرہ موجود تھے۔
آخر میں قاری عطاالرحمن بلہروی امام جمعہ مسجد عثمانیہ اکبری گیٹ قاری ظہیر الاسلام  اور رحیم ہوٹل کے مالک حاجی زبیر احمد نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کا بڑا اعلان، دس بینکوں کا انضمام کرکے بنایا جائے گا چار بینک

نئی دہلی،30اگست (یو این آئی) سرکاری بینکوں کو مضبوط بنانے کی سمت میں بڑا قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے دس بینکوں کا انضمام کرکے چار بڑے بینک بنانے کا آج اعلان کیا جس کے بعد ملک میں سرکاری بینکوں کی تعداد گھٹ کر بارہ رہ جائے گی۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے یہاں پریس کانفرنس میں بتایا کہ اورینٹل بینک آف کامرس اور یونائیٹیڈ بینک کا پنجاب نیشنل بینک میں انضمام کیا جائے گا۔ اسی طرح کینرا بینک میں سینڈیکیٹ بینک کا انضمام اور الہ آباد بینک کا انڈین بینک میں انضمام کیا جائے گا۔ یونین بینک کے ساتھ آندھرا بینک اور کارپوریشن بینک کا انضمام ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ انضمام کے اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد ملک میں سرکاری بینکوں کی تعداد گھٹ کر بارہ رہ جائے گی۔ سال 2017 میں ملک میں 27سرکاری بینک تھے۔ وزیر خزانہ نے یقین دہانی کرائی کہ انضمام کے باوجود بینک ملازمین کو فارغ نہیں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سال 2017 میں مودی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں اس کے پانچ ملحقہ بینکوں کا انضمام کیا تھا۔ اس کے بعد وجیہ بینک اور دینا بینک کا بینک آف بڑودا میں انضمام کیا گیا تھا۔
انضمام کا یہ عمل مکمل ہوجانے کے بعد سرکاری سیکٹر میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا’بینک آف بڑودا، پنجاب نیشنل بینک، کینرا بینک‘یونین بینک، انڈین بینک، بینک آف انڈیا، سنٹرل بینک آف انڈیا، انڈین اورسیز بینک، پنجاب اینڈ سندھ بینک، بینک آف مہاراشٹر اور یوکو بینک رہ جائیں گے۔

بابری مسجد ملکیت مقدمہ : جمیعت علماء ہند کے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کو دھمکی

بابری مسجد ملکیت مقدمہ : جمعیۃ علماء ہند کے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیو دھون کو دھمکی !
ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی طرف سے توہین عدالت کی پٹیشن داخل
راجیودھون کو دھمکی ایک بڑی سازش کاحصہ معلوم ہوتی ہے : مولانا ارشد مدنی
 نئی دہلی ۔31؍اگست 2019
بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج 16‘واں دن تھا، آج تمام ہندو فریقوں کی بحث مکمل ہوئی جس کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی نمائندگی کرنے والے سینئرایڈوکیٹ راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ وہ پیر کے دن سے اپنی بحث کا آغاز کریں گے۔آج صبح رام جنم بھومی سمیتی کی نمائندگی کرنے والے وکیل پی این مشرا نے اپنی نا مکمل بحث کا آغاز کرتے ہو ئے مسجد کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ امام ابو حنیفہ ؒکے مطابق اگر دن میں دو مرتبہ نماز ادا نہیں کی گئی تو وہ جگہ مسجد کا درجہ نہیں رکھتی اور قبروں سے گھری ہوئی جگہ پر بھی مسجد نہیں بنائی جاسکتی ہے جس کا ذکر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں بھی کیا گیا ہے۔پی این مشرا  نے مزید بتایا کہ مندروں میں گھنٹہ (بیل) کی اہمیت ہوتی ہے اور بغیر بیل کے مندر نہیں ہوسکتا ہے جس پر جسٹس بوبڑے نے دریافت کیا آیا کسی بھی گواہ کی گواہی میں بیل یعنی کے گھنٹے  کا ذکر ہے جس پر پی این مشرا نے بتایا کہ 1949میں قبضہ کے وقت بیل ملی تھی جس پر جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ بیل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔پی این مشرا نے عدالت کو بتایا متنازعہ جگہ پر وضو کرنے کی کوئی سہولت نہیں تھی اور بغیر وضو کیے نماز ادا نہیں کی جاسکتی ہے جس  پر جسٹس اشوک بھوشن نے کہا کہ آپ نے ہی اس سے پہلے کہا تھا کہ دھول سے بھی وضو یعنی کے تیمم کیا جاسکتا ہے۔اسی درمیان پی این مشرا کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد آل انڈیا ہندو مہا سبھا کی جانب سے ایڈوکیٹ ہری شنکر جین نے بحث شروع کی انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 1855سے قبل اس جگہ نماز ادا نہیں کی جاتی تھی نیز یہ ایک ہندو مندرتھا جس پر غیر قانونی طریقہ سے قبضہ کیا گیا تھا، ائیر پورٹ پر بھی نماز پڑھنے کی سہولت ہوتی ہے تو کیا مسلمان اس کا قبضہ حاصل کرسکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں ہندو قانون کا سہارا لینا چاہے کیونکہ بابر نے ہندوستان پر قبضہ کیا تھا۔ اسی درمیان جسٹس بوبڑے نے دریافت کیاکہ ہندو مہا سبھا کی نمائندگی کون کررہا ہے جس پر ایڈوکیٹ جین نے کہا کہ ہندو مہاسبھا میں اندورنی اختلاف ہے جس کی وجہ سے دو اپیلیں داخل کی گئیں ہیں۔گذشتہ کئی دنوں سے جاری ایڈوکیٹ پی این مشر ا کی بحث کا نچوڑ یہ تھا کہ مسجد غیر شرعی طریقہ سے بنائی گئی تھی،انہوں نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ مسجد مندر منہدم کرکے بنائی گئی جو اس بات کا خلاصہ کرتا ہے کہ ہندو فریقوں میں ہی تضاد ہے کہ آیا مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی یا مسجد غیر شرعی طریقہ سے بنائی گئی۔قابل ذکر ہے کہ بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول،کے علاوہ  ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو دیگرآج بھی موجود تھے۔ آج جیسے ہی لنچ کے بعد عدالتی کاروائی شروع ہوئی شیعہ وقف بورڈ کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ ایم سی دھنگر انے عدالت سے کہا کہ وہ ہندو فریق کا سپورٹ کرنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے انہیں بیٹھ جانے کو کہا اور کہا کہ ان کے دلائل کی سماعت بعد میں کی جائے گی۔ایڈوکیٹ جین کے دلائل کی سماعت کے بعد شیعہ وقف بورڈ کے وکیل دھنگرا نے عدالت کو بتایا کہ اس مسجد میں شیعہ اور سنی دونوں نماز ادا کرتے تھے لیکن شیعہ فرقہ میں تراویح نماز کا تصور نہیں ہے لہذاسنی امام کا انتخاب کیا گیا تھا۔ عدالت نے جب دریافت کیا کہ تراویح نماز کیا ہوتی ہے تو جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ تروایح وہ نماز ہے جو دن کی آخری نماز یعنی کے عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعت رمضان المبارک میں ادا کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ آج 70 سال بعد نچلی عدالت کے فیصلہ کے خلاف اپیل داخل کررہے ہو جس پر اب سماعت نہیں ہوسکتی کیوں کہ اپیل داخل کرنے میں دیری ہوچکی ہے، شیعہ وقف بورڈ نے 1946 کے فیصلہ کے خلاف اپیل داخل کی ہے جس پر سماعت ہونا باقی ہے لیکن آج چیف جسٹس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس معاملہ میں شیعہ وقف بورڈ کے دلائل کی سماعت نہیں کریں گے،جو ہندو فریق کی کو مدد کرنا چاہتے ہیں۔اسی درمیان آج جمعیۃ علماء ہند کے آن ریکارڈ ایڈوکیٹ  اعجازمقبول نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک عرضداشت داخل کرتے ہوئے عدالت کی توجہ سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کو پروفیسر شنموگم کی جانب سے ملنے والی دھمکی کی جانب مبذول کراتے ہوئے اس کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی درخواست کی۔پروفیسراین شنموگم Shanmugamکا تعلق چنئی سے ہے اوروہ ریٹائرڈ ایجوکیشن آفیسر(حکومت ہند) بھی رہ چکے ہیں۔ پروفیسر شنموگم نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر راجیو دھون کو بابری مسجد مقدمہ سے دستبردار ہوجانا چاہئے ورنہ انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا اس خصوصی پٹیشن پر جلدسماعت ممکن ہے۔جمعیۃعلماء ہندکے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل کو دی جانے والی دھمکی پر نہ صرف سخت تشویش کا اظہارکیا بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ بہت اہم اور غیر معمولی واقعہ ہے اور معززعدالت کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے، انہوں نے کہا کہ درحقیقت یہ دھمکی عدالت کے توہین کے مترادف ہے کیونکہ ایک سینئر اور بزرگ ایڈوکیٹ کو اپنا قانونی فرض پوراکرنے سے روکنے کی سازش ہورہی ہے مولانا مدنی نے کہا کہ ڈاکٹر راجیودھون سپریم کورٹ میں بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء کے پینل کی سربراہی کررہے ہیں، اور اگر اس طرح کی دھمکی دی جاسکتی ہے تو پھر نچلی عدالتوں کے وکلاء کے ساتھ امن وقانون کے مخالف کیا کچھ کرسکتے ہیں اس کا صرف اندازہ لگایا جاسکتاہے، ہمیں یقین ہے کہ دھمکی دینے والوں کے خلاف معزز عدالت سخت تادیبی کارروائی کرے گی، جمعیۃعلماء ہند اور دوسرے مسلم فریقین کے وکلاء 2/ستمبر بروز پیر سے اپنی بحث کا آغاز کرنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ ایسے موقع پر یہ دھمکی ایک بڑی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔

Friday 30 August 2019

ارے! کس دیوانےنے کہا تھا کہ یہ دل والوں کی دلّی ہے!

احتشام الحق ، مظاھری ، کبیر نگری
_______________
ہندوستان کی پوری تاریخ ہندوستانی مسلمانوں کی قربانیوں انکی خدمات و احسانات سے  بھری پڑی ھے ہندوستان کا خواہ وہ دور ھو جب مسلمان اس سر زمین کے حکمران تھے ،یا وہ دور ہو جب یہ ملک انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ھوا تھا ،تاریخ گواہ ھے کہ ہر دور میں مسلمانوں نے ہندوستان کے بجھتے چراغ کو روشن کیا ھے، ڈوبتی کشتی کو ساحل تک پہنچایا، لیکن آج جب ہم تصویر کے دوسرے رخ پر نظر ڈالتے ھیں تو ہمیں اپنی آنکھوں پر خواب دیکھنے کا گماں ہوتا ھے، اپنے آنسوں پر ضبط کا یارا نھیں رہتا ، اپنی ہچکیوں سے ہنگامہ برپا ہوجا تا ھے، اپنی آہیں حدِّ ضبط سے باہر ھوجاتی ہیں، اور اپنے ذہن و فکر کا توازن باقی رکھنا دشوار ہوتا ھے ،
 کیونکہ ،،جس ملک کو ہمارے اکابرین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزاد کرایاتھا۔ اس ملک میں ہر آئے دن مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے ذریعہ تو کبھی شریعت میں مداخلت کے ذریعہ، کبھی فرضی مقدمات کے ذریعہ تو کبھی ماب لنچنگ کے ذریعہ۔ ان تمام ظلم و تشدد سے مسلمانوں کے عزم و حوصلہ کو مسمار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ لیکن یاد رکھو مسلمان ظلم سہنا بھی جانتا ہے اور ظلم کا جواب دینا بھی ،

ماب لنچنگ ہجومی دہشت گردی ہے۔کسی نہتے پر ظلم و ستم کرتے ہوئے اسے مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دینا یہ نامرددانگی کی دلیل ہے۔
جیساکہ  ، آج  دلی کے پرانی دلی اشٹیشن  کی ایک بھیڑ نے بوڑھی ہاجرہ کے اکلوتے بیٹے  قاری  اویس  کو ماب لنچک میں موت کی ابدی آغوش میں سلادیا ھے ،  بچوں کے ہاتھوں میں کاسۂ گدائی تھمادیا ھے، انھیں آسمان کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ھے ، اور بیوی کو بیوگی کا لبادہ اڑھا کر سوگوار بنا دیا ھے ،
ادھر بوڑھی ہاجرہ اکلوتے بیٹے کے فون کے انتظار میں غم کی تصویر بنی بیٹھی ھے ،، اس غم کی شعاوں سے کسی سب سے بڑے المیہ کا سراغ مل رھا تھا ،، کہ اچانک گلی ، کے باہر افرا تفری کا عالم بپا ہوگیا ، کہ قاری اویس کو پرانی دلی کے ہجومی دہشت گردوں نے قتل کردیا ھے ،، بوڑھی ماں ، حواس باختہ ،سسکتی، بلکتی، چیختی، چلاتی، گلی کے باہر نکلی ، ارے،، کون سے اویس کو لوگوں نے پیٹ پیٹ کر مارڈالا ، ،، میرے بیٹے کو ،،،، اسکا تو ابھی فونبھی نھیں ایا ھے ، ابھی تو میری دوا بھی نھیں لیا ھوگا ،،،بوڑھی ماں کےلئے اس اکلوتے بیٹے  میں نہ جانے کتنے الگ الگ رنگ وبو کے لالہ وگلاب سجے تھے!
نہ جانے خوابوں کے کتنے محل اس میں تعمیر تھے!
امیدوں اور ارمانوں کی کتنی وسیع دنیا آبادتھی!
نہ جانے عشق ومحبت کے کتنے چشمے پھوٹنے تھے!
نہ جانے کتنی چٹکتی کلیوں کا ٹھکانہ بننا اور کتنے چہچہاتے پرندوں کے آشیانے بسنے تھے!
اور نہ جانے کیا کیا؟اور کیسے کیسے ؟!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
بوڑھی ہاجرہ کو  اپنی اس جنت کو دیکھ کر جو تسکین ملتی تھی سچ ہے کہ ہم اسے لفظوں کے پیرایہ بیان میں ادا نہیں کرسکتے،
 کہا گیا کہ دلی کے  چاندنی چوک میں  اس جنت کو آگ لگ گئی،نہیں غلط سمجھا گیا !!  آگ لگائی گئی،اور دم زدن میں بوڑھی ہاجرہ کی جنت اجڑ گئی،ہزار خوابوں اور ارمانوں کے سارے محل چکنا چور ہوگئے،امیدوں کی  پوری دنیا ویران ہوگئی_____________________
آج ایک بڑا ہجوم بوڑھی ہاجرہ کے گھر ہے،اس کےپاس اعزہ ,واقارب, اور رشتہ دار، جمع ہیں،محلہ بھر کی خواتین ان کےلئے سامان تسلی فراہم کرنے کی ناکام کوشش کررہی ہیں،ان سب کے باوجودوہ تنہا ھے،

ماضی کے دریچوں میں بہت دور تک نہ چاہ کر بھی اور بےساختہ اڑی جارہی ھے،جہاں بوڑھی ماں ہاجرہ کے سامنے ایک کھلی کتاب ہے_______________ وہ کہ رھی ھے !چلو اے دنیا والو چھوڑ دو مجھے!اب مجھے اسی کتاب میں ڈوب جانے دو
_______دنیا والو اب بس مجھے وہیں رہنے دو!
اور پھر تمہاری اس دنیا میں میرے حصہ کا بچا ہی کیا ہے؟
سوائے رنج والم کے اور سوائے ڈستی ہوئی قید تنہائی کے!!!!!
ارے کس ظالم نے ابھی دلی کانام لیا؟
یہ نام ہی میرے زخم کریدنے کو کافی ہے،یہ نام سن کر ہی میرے جوش جنوں کو پر لگ جاتے ہیں، اور میں ایک آواز دیتی ہوں کہ:
جانے کس دیوانے نے "دل والوں کی دلی"کہا تھا،میراتودل کرتاہے اس جملے کی ایک تختی بناکر اسی کی قبر میں لے جاکر دفن کردوں،، اور اسے خبر کردوں کہ اب دل والوں کی دلّی نہیں ہے،گھروں کے چراغ غل کرنے والوں کی دلی ہے،ماؤں سے ان کے لخت جگر چھیننے والوں کی دلی ہے،دوشیزاؤں کی عزت تار تار کرنے والوں کی دلی ہے،محلوں اور بنگلوں میں رہنے والے جانوروں کی دلی ہے،لگزری گاڑیوں میں دندناتے پھرتے ڈیجیٹل بھیڑیوں کی دلی ہے،اس دلی نے نہ جانے کتنی نربھیاؤں کی عزتوں کے بٹے لگائے؟ نہ جانے کتنے نجیبوں کو ہضم کرکے ایسا پانی پیا کہ ڈکار تک نہ لی؟یہ تو صرف وہ بَس والی "نربھیا"،وہ جے این یو کا "نجیب" اور اس طرح کے دوچار اور واقعات تو کسی غلطی سے چرچے میں آگئے ورنہ آج کی دلی میں ہر روز ایک بڑی تعداد اپنی زندگی سے ہاتھ دھورہی ہے۔
اسی دلی نے مجھ سے میرا لخت جگر بھی چھینا ہے،ظالموں نے میرے اس لخت جگر کو جب مسلنا چاہا ہوگا،اس پر ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کئے ہوں گے،اس نے کیا کیا سوچا ہوگا؟لاچاری میں اس نے میرا نام بھی لیا ہوگا،کس دردوکرب اور بے چارگی سے مجھے اماں اماں کرکے پکارا ہوگا؟گھر بار سے دور رہنے کے غم نے اسے کس کس طرح ڈسا ہوگا؟مگر بھیڑیوں نے کچھ بھی رحم نہ کھایا____________________
بس یہی سوچ کر آنسؤوں کا ایک نہ تھمنے والا وہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جن کو اگر صحیح سمت اور رخ دے دیاجائے تو روئے زمین پر ایک نیا دریائے غم رواں ہوسکتا ہے،اور ان آنسؤوں کی اگر سچ میں لاج رکھ لی جائے اور ان کو کسی اور چشمے سے نہ دیکھے بغیر، صرف ایک بلکتی ماں کا،انسانیت کا آنسو سمجھا جائے تو مجھے یقین ہے کہ میرے ملک میں جو جمنا الگ اور گنگا الگ بہنے لگی ہے ان کے ملاپ کا کام بھی ان آنسؤوں سے لیاجاسکتاہے،لیکن رونا تو اسی بات کا ہے کہ میرے ان اشکوں کے سیلاب کو انصاف کی عدالت اور اس کی چوکھٹ تک پہونچنے سے پہلے ہی گندی سیاست کی بھٹیوں میں جھونک جھونک کر انہیں سلگا سلگا کر یوں خشک کردیا جائے گا کہ ان کے نشانات تک بھی باقی نہ رہیں گے،آخر اسی کا تو حصہ ہے کہ ہماری قومی میڈیا کو "راہل گاندھی"نے کیا اوڑھا کیا پہنا؟ کہاں اٹھے اور کہاں بیٹھے؟ وزیر اعظم نے کب مسکرایا اور کب ہنسا؟ کب وہ سوئے کب جاگے کب خراٹے لیا اور کیوں؟ ان سب بے بنیاد اور فرضی مدوں پر تو بحث کرنے کے لئے کئی کئی گھنٹے بھی کم پڑجاتے ہیں،لیکن میرے،اور مجھ جیسی بےشمار ملک کی ماؤں کے لئے کہ جنہوں نے اپنے لال کھوئے ہیں،انصاف کی گہار لگانے اور ان کی آواز اٹھانے کے لئے پانچ منٹ کا وقت بھی ان کے پاس نہیں ہے،خیر میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہوچکا،لیکن کیا اب انصاف مجھے مل پائےگا یہ ایک الگ اور مستقل سوال ہے جس کا جواب کچھ آسان نہیں۔
لیکن پھر بھی ابھی بہت سی ایسی مائیں ہیں جن کے معصوم پرندوں کی تاک میں دلی اور ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلے درندے ہوں گے جن کے لئے میں اپنے خون کے آنسؤوں سے یہ بات لکھ کر جملہ ختم کروں گی کہ: "میری جنت کو جس نے اجاڑا وہ کوئی ہندو یا خاص مذہب نہیں بلکہ میرے ملک کی صرف اور صرف گندی سیاست ہے"۔
اس لئے ملک کی سیدھی عوام اورمفکرین وسیاسی مبصرین سے میری بس اتنی اپیل ہے کہ ہمارے اس ملک میں سیاست جس رخ پر چل پڑی ہے وہاں سے اس کو ہٹانے کی کوئی راہ نکالی جائے ورنہ وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں اس سے بھی بڑے پیمانے پر جنگل راج ہوگا،انسان انسان کو ویسے ہی کھائے گا جس طرح شیر اور بھیڑئے دیگر چھوٹے جانوروں کو کھاتے ہیں۔

ماہ محرم اور امت مسلمہ کا طرز عمل


ماہ محرم اور امت مسلمہ کا طرز عمل   !

از قلم: عبداللہ المھیمن آسام
متعلم: دارالعلوم وقف دیوبند
موبائل:09476713264

  ماہ محرم الحرام برکات وفضائل میں بے مثال ہے اور اسلامی سال کا آغاز بھی محرم الحرام سے ہی ہوتا ہے، پہلے لوگ تاریخ کا حساب سن نبوت یا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری حج سے کیا کرتے تھے، لیکن باقاعدہ تاریخ کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہوا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی دور خلافت میں سن مقرر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کی مشاورت سے سن ہجری مقرر فرمائی، اور صحابہ کرام لا اس بات پر اتفاق تھا کہ سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سئ کیا جائے تب سے اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہونے لگا۔
       ماہ محرم الحرام کی بہت ساری فضیلتیں ہیں جیساکہ قرآن و احادیث میں مذکور ہے، اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ۔(التوبہ۳۶)
ترجمہ:اللہ تعالی کے پاس مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ان میں سے چار مہینے ادب واحترام کئ لائق ہیں، یہی درست دیں ہے لہذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوروں پر ظلم نہ کروں۔
        اس آیت کی تفسیر حدیث پاک میں ملتا ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں(۱)ذوالقعدہ (۲) ذو الحجہ(۳) محرم الحرام (۴) رجب المرجب۔
        ماہ محرم بھی حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے اس کی فضیلت و حرمت کا تو زمانہ جاہلیت میں بھی خیال رکھا جاتا تھا، اور جنگ،قتل، چوری وغیرہ سے بھی گریز کرتے تھے، اگر ان مہینوں میں جنگ کا موقع آجاتا تو اسکو بعد والے مہینہ میں کر دیتے تھے اور لوگ ان چار مہینوں میں آسانی سے سفر کرتے تھے ان کو کوئی ڈاکو کا خطرہ بھی نہیں ہوتا تھا اس طرح سے اس کی فضیلت ثابت ہوگئی۔
         حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفضل الصّيام بعد رمضان شهرُ الله المحرم(ترمذی ۱۵۷/ ۱)
ترجمہ: ماہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم کا ہے۔
         ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من صام يوما من المحرم فله بكل يوم ثلاثون يوما  (اترہیب والترتیب  ۱۱۴/ ۲)
ترجمہ: جو شخص محرم الحرام کی ایک دن روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس روزہ کا ثواب ملے گا۔
       ماہ محرم الحرام کے بارے میں مؤرخین حضرات نے لکھا ہے کہ  یوم عاشورہ کے دن(ماہ محرم الحرام کے دسویں دن) آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا، اسی دن حضرت آدم وعلیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ گلِ گلزار ہوئی،اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی،اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ملاقات ہوئی،اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات ملی،اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی، اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی، اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی، اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے، اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا، اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے،اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا، اسی دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیااور اسی دن قیامت آئے گی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)
        انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے بدعات،رسومات وخرافات پیدا ہوگئے ہیں،اس ماہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی نے ہم اتنی ساری فضائل عطا کیے ہیں جسکا تقاضہ تھا کہ ہم ان تمام انعامات پر اللہ تبارک و تعالی کا شکر بجالاتے، لیکن ہم اس کے بجائے بہت ساری رسومات و خرافات کو اس دن اپنے اوپر لازم کرلیا، مثال کے طور پر دسویں محرم کے دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر رنج و غم کا اظہار کرنا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا(بخاری۔۵۳۳۵)
ترجمہ: کسی مومنہ عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں سے زیادہ کسی میت پر سوگ منائے، مگر یہ کہ جس عورت کا شوہر انتقال ہوجائے چاہئے کہ وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے۔
      اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگ منانا جائز نہیں ہیں اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت تو آج ہی نہیں بلکہ اس واقعے کو چودہ سو برس گزر چکے ہیں،لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں حضور حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر سوگ مناتے ہیں ۔
         ایک دوسری بات یہاں یہ واضح کردوں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت نصیب ہوئی اور شہید کبھی مرتا نہیں ہے، شہید زندہ ہوتا ہے جیساکہ قرآن مجید میں ہے:وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرہ آیت ۱۵۴)
ترجمہ: تم مت کہو اس شخص کو جو اللہ کے راستے میں قتل کردیا گیا مردہ بلکہ وہ زندہ ہے لیکن تم جانتے نہیں ہو۔
        اسی طرح دسویں محرم کے دن کھچڑی پکانا بھی غلط ہے کیونکہ دسویں محرم کے دن کھچڑی پکانا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے بغض رکھنے والوں کا طریقہ کار ہے کیونکہ خوارج دسویں محرم کے دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خوشی میں کھچڑی(کھچڑا ایک خاص قسم کا کھانا جو گھی چاول وغیرہ ڈال کر بنایا جاتا ہے) پکاتے ہیں ۔
          ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا چاہئے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے پوچھا تم روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی، اس لیے موسی علیہ السلام نے اللہ کے شکریہ کے طور پر روزہ رکھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت موسی علیہ السلام کی اتباع میں روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو روزہ رکھنے کو حکم دیا ۔(بخاری و مسلم)
         یوم عاشورہ کے روزہ رکھنے طریقہ یہ ہے کہ دو روزہ رکھا جائے، ایک نویں محرم اور دوسرا دسویں محرم یا دسویں محرم اور گیارہویں محرم کی کیونکہ یہودی و نصاری ایک روزہ رکھتے تھے، اس لئے کہ حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔
(أبو داؤد ، ح : ۴۰۳۱)
ترجمہ: جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انہی میں سے ہے۔
         اس حدیث کی بناء پر علمائے حضرات دو روزہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ دوسری قوم کی مشابہت نہ ہو جائے۔
          اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے، اور اپنے کرم سے سنت نبوی پر چلنے کا راستہ آسان فرمائے، اور ہر قسم کی غلط رسومات وبدعات سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔
       آمین ثم آمین

دارالعلوم لائبریری منہدم کرنے یا تین کروڑ جرمانہ کی خبر غلط، انتظامیہ کی افواہوں پر دھیان نہ دینے کی اپیل

دارالعلوم لائبریری منہدم کرنے یا تین کروڑ جرمانہ کی خبر غلط۔۔!
انتظامیہ کی افواہوں پر دھیان نہ دینے کی اپیل

کل ضلع انتظامیہ ڈی ایم آلوک کمار پانڈے نے دارالعلوم دیوبند کو ایک نوٹس بھیجا ہے، نوٹس میں کچھ سوالوں کے جوابات مانگے گئے ہیں جن کا جواب ملنے پر آگے کی کاروائی عمل میں لائی جائے گی، جواب دینے کے لئے ایک ہفتہ کا وقت دیا دیا گیا ہے - ایک ہفتہ قبل رپورٹ پی ڈبلو ڈی کے انجینئر نے دارالعلوم دیوبند میں زیر تعمیر لائبریری سے متعلق ضلع انتظامیہ کو رپورٹ سونپی ہے۔ٹیکنیکل رپورٹ ملنے کے بعد ڈی ایم آلوک کمار پانڈے نے دارالعلوم کو نوٹس بھیج کر ایک ہفتہ میں جواب دینے کو کہا ہے -

چار اگست کو ڈی ایم آلوک کمار پانڈے اور ایس ایس پی دنیش کمار پربھو دیوبند میں دارالعلوم کی زیر تعمیر لائبریری کی جانچ لئے پہنچے تھے اس دوران انکے ساتھ پی ڈبلو ڈی محکمہ کے انجینئر ،ٹیکنیکل ٹیم ،ایس ڈی ایم دیوبند راکیش کمار کے علاوہ دیگر افسران بھی موجود تھے، جانچ کے بعد ڈی ایم نے کہاکہ تھا پی ڈبلیو ڈی کے انجینئر کو پورے معاملہ کی جانچ دی گئی ہے، جانچ رپورٹ آنے کے بعد آگے کی کارروائی کی جائیگی۔ گزشتہ ہفتے پی ڈبلیو ڈی انجینئر نے اپنی رپورٹ ڈی ایم کوسونپ دی ہے، جس میں بتایاگیاہے کہ
بغیر انتظامیہ کی اجازت کے لائبریری کی تعمیر کی جا رہی تھی ساتھ ہی ضابتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لائبریری میں کئی ہال بھی بنا دئے گئے ہیں،اتنا ہی نہیں لائبریری کی چھت کی تعمیر اس طرح کے مضبوط مٹیریل سے کی گئی ہے کہ اس پر ہیلی کاپٹر اتارا جاسکتا ہے ،ساتھ ہی لائبریری کے رقبہ ،اسکے آس پاس کی آبادی اور اسکی بناوٹ کا بھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اسکے علاوہ بھی لائبریری کی تعمیر پر کئی سوالیہ نشان رپورٹ میں لگائے گئے ہیں ۔ٹیکنیکل رپورٹ ملنے کے بعد گزشتہ روز دارالعلوم دیوبند کو ضلع انتظامیہ کی جانب سے نوٹس بھیج دیاگیاہے - دارالعلوم کی طرف سے جواب ملنے کے بعد جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، لیکن ابھی فی الحال کسی طرح کا جرمانہ عائد نہیں کیا گیا ہے، ایسا کہا جارہا ہے کہ تین لاکھ کا جرمانہ لگ سکتا ہے -
تین کڑوڑ کا جرمانہ اور لائبریری منہدم ہونے سے متعلق جو تحریر واٹسپ گروپس میں گردش کر رہی ہے اس تحریر میں غلط بیانی کی گئی ہے، حقیقت حال سے ناواقفیت کی بناء پر کسی نے وہ تحریر لکھی ہے، اسے آگے شئیر نہ کریں -

جمعیت علماء مبارک پور کی مجلس منتظمہ کا اجلاس

جمعیت علماء مبارک پور کی مجلسِ منتظمہ کا اجلاس!

🖊: مولانا انعام الرحمن اعظمی احیائی، استاذ مدرسہ دار العلوم تحفیظ القرآن سکٹھی مبارک ہور
 جمعیت علماء مبارک پور کی مجلسِ منتظمہ ایک اہم اجلاس ٢٧/ذی الحجہ ١٤٤٠ھ مطابق ٢٩/اگست ٢٠١٩ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب متصلا بمقام دارالاہتمام جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور قدیم عمارت میں حضرت مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور و صدر جمعیت علماء اعظم گڑھ کی صدارت میں منعقد ہوا،
اجلاس کا باقاعدہ آغاز قاری محمد قاسم صاحب اسلام پورہ کی قرات سے ہوا، اس کے بعد درجہ ذیل ایجنڈے کے تحت آگے کی کاروائی شروع ہوئی:
(1) سابقہ کاروائی کی خواندگی وتوثیق
(2)آئینی دقت کی وجہ سے صدر جمعیت علماء مبارک پور کے استفعاء پر غور---
(3) بصورت منظورئ استفعاء نئے صدر کے انتخاب پر غور---
(4) جمعیت علماء مبارک پور کی جانب سے ایک بڑے اجلاس عام کے انعقاد اور اس کے لوازمات پر غور---
(5) ماہانہ اصلاح معاشرہ پروگرام جاری کرنے پر غور---
(6) حلقہ مبارک پور کی اہم مساجد میں ہفتہ واری درس قرآن جاری کرنے پر غور---
(7) جمعیت علماء مبارک پور کے لئے ایک مستقل دفتر کے حصول پر غور---
(8) جمعیت علماء مبارک پور کی مجلسِ عاملہ کے ارکان کی نامزدگی اور اس کی توثیق پر غور---
(9) دیگر امور باجازت صدرِ محترم---

چناں چہ ایجنڈا نمبر ایک کے تحت سابقہ کاروائی کو حضرت مولانا مفتی احمد الراشد صاحب سکریڑی جمعیت علماء مبارک پور نے پڑھ کر سنایا جس پر موجود تمام اراکین مجلس منتظمہ نے اطمینان کا اظہار کیا۔
ایجنڈا (٢) کے تحت آئینی دقت کی وجہ سے صدر جمعیت علماء مبارک پور کا استفعاء پیش ہوا، جس میں آئینی دقت کی وضاحت کی گئی، اس کے بعد استعفاء کو منظور کرلیا گیا---
ایجنڈا (٣) کے تحت مولانا صدیق احمد صاحب قاسمی امام و خطیب مرکزی جامع مسجد مبارک پور کو کثرت رائے سے صدر بنایا گیا---
ایجنڈا (٤) کے تحت ایک بڑے اجلاس کا فیصلہ ٢٠/اکتوبر سے ١٥/نومبر تک کے درمیان کی کسی تاریخ میں ہوا، محلہ پورہ دلہن والوں کے مطالبہ پر اجلاس عام کی جگہ بھی محلہ پورہ دلہن ہی میں باتفاق راۓ طے ہوئی، ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ پروگرام بعد نماز مغرب ہوگا۔--- 
ایجنڈا (٥) کے تحت حلقہ کی بڑی مساجد اور جامع مساجد میں ماہانہ اصلاحی پروگرام کا فیصلہ ہوا---  ماہانہ پروگرام کے کنوینر حضرت مولانا مفتی محمد سالم صاحب کو بنایا گیا،
معاون کنوینر کی حیثیت سے درجہ ذیل نام عمل میں آۓ:
(١) مولانا عبدالعظیم صاحب،
(٢) مولانا عبداللہ صاحب، 
(3)حافظ عبید الرحمن صاحب، ماہانہ پروگرام انھی حضرات کے طے کردہ نظام سے منعقد ہوں گے اور ان پروگراموں کی تحریری رپورٹیں سکریڑی کے یہاں پیش ہوں گی، اس تعلق سے پہلے پروگرام کے طور پر جلد ہی محلہ سریاں میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا
ایجنڈا (٦) کے تحت ہفتہ واری پروگرام بعنوان درس قرآن ہونا طے پایا، نیز اسی ضمن میں قصبہ کی مساجد و ائمہ اور متولی حضرات کی تفصیلات کو اکٹھا کرنے کا بھی فیصلہ ہوا۔
ایجنڈا (٧) کے تحت جمعیت علماء مبارک پور کے لئے مستقل ایک دفتر کے قیام کا فیصلہ ہوا، اور طے ہوا کہ جلد ہی جگہ کی حصول یابی ہوجائے اور سارے امور دفتر ہی میں شروع ہوں۔
جگہ کی حصول یابی کے ذمہ دار :(١) مولانا عبداللہ صاحب
(٢) مولانا عبدالعظیم صاحب
(٣) مولانا محمد طیب صاحب
(٤) حافظ عبید الرحمن صاحب
(٥) حاجی جمال الدین صاحب (٦) ڈاکٹر عبدالحنان صاحب وغیرہ کو بنایا گیا اور ان سے درخواست کی گئی کہ اگلی میٹنگ تک کسی مناسب جگہ کو تلاش کرلیں۔
ایجنڈا (٨) کے تحت ارکان مجلسِ عاملہ کا انتخاب اور ناموں  کی توثیق ہوئی---- 11/ عہد داران کے علاوہ آٹھ مزید ناموں پر غور ہوا اور ان کا اعلان کیا گیا، جو کہ درج ذیل ہیں.
(١) مولانا مفتی محمد یاسر صاحب
(٢) مولانا عبداللہ صاحب
(٣) ماسٹر ابو ہاشم صاحب
(٤) حافظ گلزار احمد صاحب
(٥) حاجی جمال الدین صاحب
(٦) مولانا عبدالوافی صاحب
(٧) مولانا محمد صالح صاحب
(٨) مولانا انعام الرحمن
ایجنڈا (٩) کے تحت دیگر امور میں مختلف کاموں کے لئے فنڈنگ پر غور ہوا اور طے پایا کہ اس کے لئے رسید اور ٹوکن کی اشاعت ہو۔
ساتھ ہی حضرت صدر محترم صاحب نے ملکی حالات کے تحت اپیل کی ہم انفرادی واجتماعی دعاؤں کا اہتمام کریں۔
مذکورہ مجلسِ منتظمہ کے اجلاس میں صدر محترم کے علاوہ مفتی احمد الراشد صاحب، مولانا عبدالوافی صاحب، مولانا صدیق احمد صاحب، مولانا عبدالعظیم صاحب، مولانا محمد طیب صاحب، مولانا مفتی محمد سالم صاحب، مولانا محمد شاہد صاحب، مولانا عبداللہ صاحب، مولانا محمد یوسف صاحب، مولانا محمد صالح صاحب، قاری شمیم انظر صاحب، قاری شکیل احمد صاحب، حافظ گلزار احمد صاحب، حافظ عبید الرحمن صاحب، قاری خالد متین صاحب، حاجی عرفان احمد صاحب، حاجی عالمگیر صاحب، حاجی شمس الحق صاحب، حاجی ایوب فیضی صاحب، و دیگر اراکینِ جمعیت علماء مبارک پور نے شرکت فرما کر جمعیت علماء مبارک پور کو تقویت پہونچائی، اور حضرت صدرِ محترم کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا،
اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جملہ امور کو بحسن خوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
تحریر: ٢٧/ذی الحجہ ١٤٤٠ھ مطابق ٢٩/اگست ٢٠١٩ء بروز جمعرات بوقت ١٢/بجے شب

ہندوستان بنا لنچستان، جلد سخت قانون نہیں بنا تو ملکی سطح پر ہوگا احتجاج

*ہندوستان بنا لنچستان، جلد سخت قانون نہیں بنا تو ملکی سطح پر ہوگا احتجاج: نظرعالم*

*تاریخ اسلام کا ہر گھروں میں مطالعہ عام کیا جائے: بیداری کارواں*
مدھوبنی محمد سالم آزاد
ہندوستان لنچستان بن گیا ہے، آئے دن لنچنگ کے واردات بڑھتے ہی جارہے ہیں، مسلم نوجوانوں کو بھیڑ کے ذریعے ماردیا جاتا ہے، ملک کے حالات اس قدر سنگین ہوگئے ہیں کہ ہندو اکثریت اسے مرتا دیکھ بچانے کے بجائے اس کا ویڈیو بناتی ہے، پولیس اسے لنچنگ چھوڑ کچھ اور نام دے دیتا ہے، ملک میں قانون کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور ہو بھی کیوں نہیں، جب ملک ہی غنڈہ موالیوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا جائے، فرقہ وارانہ طاقتیں اپنے عروج پر ہو، تو ایسے میں کن حالات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں قاری اویس اور محمدعمر کی لنچنگ میں ہوئے موت کی جانکاہ خبر ملی، دل بہت مغموم ہے اورمتفکر ہوں کہ ملک کے حالات، ملک کی سالمیت، ملک کی یکجہتی سب ٹوٹتی جارہی ہے۔ ملک کو عالمی سیاست نے مار دیا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی کہانیوں پر جب نظرپڑتی ہے تو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ ہندو قوم بے چینی کی حالت میں ہے، ”چرچِل“ نے کہا تھا کہ کسی ملک کی عدلیہ اور اس کا قانون مجبور ہوجائے تو انتظار کرو وہ ملک ملک نہیں رہے گا۔ مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدرنظرعالم نے پریس بیان میں کہی۔ مسٹرعالم نے آگے کہا کہ ہم مرکزی حکومت اور تمام ریاستی حکومتوں سے مطابہ کرتے ہیں کہ لنچنگ کے خلاف سخت سے سخت قانون بنائیں اور ملزموں کو پھانسی دیں۔ مسٹرنظرعالم نے مسلم بھائیوں سے بھی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ڈر ہے وہاں اسلام نہیں ہے، آپ خود اپنے محافظ ہیں، اپنی حفاظت خود کریں اور یہ کیسے ہوگا یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تاریخ اسلام کا ہر گھروں میں مطالعہ عام کیا جائے۔ یہی میری آخری گزارش ہے! اخیر میں نظرعالم نے کہا کہ تمام مسلمان بھائیوں کو منظربھوپالی کی یہ غزل نذر کرتا ہوں:

اب آسمانوں سے آنے والا کوئی نہیں ہے
اٹھو کے تم کو جگانے والا کوئی نہیں ہے

محافظ اپنے ہو آپ ہی تم یہ یاد رکھو
پڑوس میں بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے

فضا میں بارود اُڑ رہی ہے جدھر بھی دیکھو
جہاں میں اب گُل کھلانے والا کوئی نہیں ہے

یہاں پہ بستی جلانے والے بہت ہیں لیکن
چراغ دل کا جلانے والا کوئی نہیں ہے

تمہارا ہادی ہے صرف قرآں، وہی ہے رہبر
کہ اور راستہ دِکھانے والا کوئی نہیں ہے

خدا نے وعدہ کیا ہے تم سے اے حق پرستو
تمہیں زمیں پر مٹانے والا کوئی نہیں ہے

تمہارے سر پر ہے جب تلک سایہ نبوت
سروں کی قیمت لگانے والاکوئی نہیں ہے

Thursday 29 August 2019

ڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ کے اعزاز میں نشست، مولانا کو خدمت اسلام ایوارڈ سے نوازا جائے گا!

لکھنؤ(آئی این اے نیوز30/اگست2019)اسلامک اسکالر ڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ ڈین کیمبرج یونیورسٹی انگلینڈ کی خدمات کو سراہتے ہوئے مدرسہ حفصہ للبنات قصبہ بلھرہ بارہ بنکی کے ناظم مولانا سراج احمد ندوی اور ائمہ مساجد  نے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی آکسفورڈ کو خدمتِ اسلام ایوارڈ سے نوازانے کا فیصلہ کیا ہے
 یہ اعزازی تقریب صبح 9/بجے بروز جمعہ  اکبری گیٹ  پر واقع رحیم ہوٹل میں منعقد ہوگی.
اس موقع پر علماء قراء ائمہ مساجد  طلباء مدارس سمیت معززین موجود رہیں گے۔

پی ڈبلیو ڈی انجینئر کی رپورٹ آنے کے بعد ڈی ایم نے لائبریری کے متعلق پھر بھیجا دارالعلوم دیوبند کو نوٹس

پی ڈبلیوڈی انجینئر کی رپورٹ آنے کے ڈی ایم نے
لائبریری کے متعلق پھر بھیجا دارالعلوم دیوبند کونوٹس
دیوبند،29؍ اگست(ایس۔چودھری)دارالعلوم دیوبند کی لائبریری کی تعمیر سے متعلق پی ڈبلیو ڈی کے انجینئر کی ٹیکنیکل رپورٹ آنے کے بعد اب ایک مرتبہ پھر ضلع کلکٹرنے دارالعلوم دیوبند کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیاہے اور کہاکہ دارالعلوم دیوبند سے جواب آنے کے بعد آگے کی کارروائی کی جائے گی۔ گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند میں زیر تعمیر لائبری کی چھت پر ہیلی پیڈ بنائے جانے کی شکایت پر انتظامیہ حرکت میں آئی تھی،جس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہے، اس کے بعد ہیلی پیڈ اور لائبری کی تعمیر کے لئے اجازت نامہ ، این او سی و نقشہ و غیرہ طلب کئے گئے ۔ اس کے بعد اس پورے کے معاملہ کی شکایت بجرنگ دل کے لیڈر نے وزیر اعلیٰ کے یہاں تحریری طورپر کی تھی،جس پر کمشنر کو جانچ کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، جسکے بعد ڈی ایم آلو ک کمار پانڈے اور ایس ایس پی دنیش کمار پی اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ دارالعلوم دیوبند پہنچے تھے،جانچ کے بعد ڈی ایم نے کہاکہ تھا پی ڈبلیو ڈی کے انجینئر کو پورے معاملہ کی جانچ دی گئی ہے، جانچ رپورٹ آنے کے بعد آگے کی کارروائی کی جائیگی۔ گزشتہ ہفتے پی ڈبلیو ڈی انجینئر نے اپنی رپورٹ ڈی ایم کوسونپ دی ہے، جس میں بتایاگیاہے کہ بلڈنگ تعمیر کرنے میں تعمیرات کے کئی ضوابط کو نظر انداز کیاگیا ہے ،ساتھ ہی لائبریری کی چھت ، اس کانقش، آس پاس کی آبادی،نقشہ، این اوسی اور دوسرے کئی نکات کے متعلق سوالات کھڑے کئے گئے ہیں۔ گزشتہ روز دارالعلوم دیوبند کو ضلع انتظامیہ کی جانب سے نوٹس بھیج دیاگیاہے ۔ڈی ایم آلو ک کمار پانڈے کاکہناہے کہ دارالعلوم دیوبند کو نوٹس بھیج دیاگیاہے ،نوٹس کا جواب آنے کے بعد آگے کی کارروائی پر فیصلہ لیا جائیگا۔

این آر سی میں نام نہیں ہونے پر 'غیر ملکی' ہونے کا اعلان نہیں کیا جائے گا. وزارت داخلہ

این آر سی میں نام نہیں ہونے پر ’غیرملکی‘ اعلان نہیں کیا جائے گا: وزارت داخلہ
نئی دہلی۔۲۹؍اگست (یو این آئی) مرکزی وزارت داخلہ نے آسام کے لوگوں سے افواہوں پر توجہ نہیں دینے کی اپیل کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاست کے قومی شہریت رجسٹر(این آر سی) میں نام نہیں ہونے پر کسی شخص کو سیدھے’غیرملکی‘ اعلان نہیں کیا جائے گا اور وہ ’فارن ٹریبونل‘ میں اپیل کرسکے گا۔وزارت داخلہ کی ترجمان نے کہاکہ ریاست کے لوگ افواہوں سے بچیں کیونکہ 31اگست کو حتمی شکل دیئے جانے پر این آر سی میں اگر کسی شخص کا نام نہیں ہے تو اسے سیدھے ’غیرملکی‘ قرار نہیں دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کے پاس ’فارن ٹریبونل‘ میں اپیل دائرکرنے کا متبادل ہوگا۔انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہاکہ حکومت نے ٹریبونل میں اپیل دائر کرنے کی مدت 60سے بڑھا کر 120دن کردی ہے۔ اس کیلئے ریاست کے اہم مقامات پر کافی تعداد میں ٹریبونل بنائے گئے ہیں۔ حکومت ضرورت مندوں کو ڈسٹرکٹ لیگل سروس اتھارٹی سے مفت قانونی مدد بھی دستیاب کرائے گی جس سے وہ اپیل دائر کرسکیں گے۔ایک افسر نے بتایا کہ وزیر داخلہ امت شاہ اور ریاست کے وزیراعلی سروانند سونووال کے مابین گزشتہ  20 اگست کو یہاں ہوئی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی شخص کو فوراََ ’حراستی مراکز‘ میں نہیں بھیجا جائے گا۔ فارن ٹریبونل، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جیسے تمام قانونی متبادل ختم ہونے کے بعد ہی کسی کو ان مراکز میں بھیجے جانے کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔

ماہ محرم الحرام کے رسومات و بدعات پر ایک نظر



 .           محمد عبد الرحمان چمپارنی متعلم عربی ھفتم دار العلوم وقف دیوبند
                   
  ماہ محرم الحرام کے رسومات وبدعات پر ایک نظر

           حق وباطل اور صحیح وغلط کا تقابل وتعارض,لیل ونہار,  نور وظلمت کی طرح ہمیشہ ہوتا رہا ہے, بعض دفعہ ایمان کے ٹھوس اور مستحکم عقیدے کے ساتھ خود اسی کی جڑوں میں غلط عقائد بہی نشو ونما پاے جاتے ہیں, اس کا سبب کہیں لاعلمی, تو کھیں کم فہمی, غلط رہبری ہے, جیساکہ بعض ھمارے مسلم بھائیوں نے محرم الحرام کے مہینے سے کچھ غلط بدعات وخرافات ورسومات مچا رکہی ہیں ,جن کا    نہ ثبوت ہے اور نہ وجود بلکہ وہ بے سود , غلط اور رائیگاں. چیزیں ہیں,
      راقم الحروف نے مناسب سمجھا ہیکہ انھیں,ان مروجہ غلط رسو مات وبدعات وخرافات سے آگاہ کیا جاے, حقیقت کاآشکارا ھو, اور وہ خود بخود صحیح ودرستگی کے راہ عمل پر گامزن ہو, لہذا یہاں پر حکیم الامت, مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف کردہ کتاب اغلاط العوام سے کچھ عقائد فاسدہ ماہ محرم الحرام کے متعلق  بیان کیے جارہے ہیں, ملاحظہ ہو! 
    مسئلہ :بعضے عوام محرم میں قبروں پہ تازہ مٹی ڈالنے کو ضروری سمجہتے ہیں, سو اسکی کچھ اصل نہیں. ( اغلاط العوام ص/148)

       مسئلہ:  بعض لوگ اس بچے کو جو محرم میں پیدا ہوا تو اسے منحوس سمجھتے ہیں , یہ محض غلط ہیں ( اغلاط العوام /148)

مسئلہ:  بعض اس ماہ میں نکاح وغیرہ کو بھی  ناجائز سمجھتے ہیں سویہ محض غلط ہے. (اغلاط العوام/148)
مسئلہ:  بعضے جاھل محرم میں تعزیہ کا سامان کرتے  ہیں, تعزیہ کی برائ اس سے زیادہ کیا ہوگی, کہ اسکے لیے ایسے برتاؤ کرتے ہیں کہ جو شرع میں با لکل شرک اور گناہ ہے. ( بھشتی زیور ج/6 ص/61)
   مسئلہ:  بعضے آدمی اور بکہیڑے نھیں کرتے مگر شہادت نامہ پڑھتے ہیں ،
تو یاد رکہو!
 اگر اس میں غلط روایتں ہین ،تب تو ظاہر ہے منع ہےاور اگر صحیح روایتیں ہو, جب بھی سب کی نیت یہی ہوتی ہے کہ سن کر رویں گے اور شرع میں معصیت کےاندر ارادہ کرکے رونا درست نہیں, اس واسطے اس طرح کا شھادت نامہ پڑھنا ہی درست نہیں. 
                 (اغلاط العوام ص /150)
.    نیز مریثوں اور شہادت نامہ کی اکثر روایات بالکل موضوع (گھڑی ہوی ) اور غلط ہوتی ہے, اسکے علاوہ خود التزام اس کا نا جائز ہے  بلکہ شہادت نامہ محرم پڑہنا بدعت ہے  (زوال السنۃ ص/3)
      مسئلہ : بعضے لوگ سوگ مناتے ہیں ,یہ بہی غلط ہے, محرم کے دنوں میں ارادہ کرکے رنگ پڑیا چہوڑدینا اور سوگ اور ماتم کی وضع بنانا اپنے بچوں کو خاص طور کے کپڑے پہنانا ,یہ سب بدعت اور  گناہ کی باتیں ہیں , (بھشتی زیور ج/6ص/61-62  )

       مسئلہ:  پورے ماہ اور خاص طور پر محرم کے  دس دنوں میں  حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مریثہ کو گا گا کر پڑھا  جاتا ہے, اور اس کو پڑھنا اور سننا ثواب سمجہا جاتا ہے,  حدیث میں منع فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو/2 آوازیں دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں 1-خوشی کے وقت گانا بجانا
اور 2-  معصیت کے وقت نوحہ کرنا ,(ایضا /ص 150 )

                       مسئلہ : حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ بعض دشمنان اسلام اس انداز  میں پیش کرتے ھیں ,جس کی وجہ سے ایک عام آدمی نہ صرف دس محرم بلکہ پورے ماہ محرم کو رنج وغم کا مہینہ سمجہنے لگتا ہے ,حالانکہ  شھادت کا وہ مرتبہ ہے, جسکے حصول کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمنا فرمایا ,اور بزبان خود کھ پڑتے  میرا دل چاہتا ہے کہ میں  اللہ کے راستہ میں شہید کیا جاؤں ,پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں  الخ   اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فر مایا 
     پتہ چلا کہ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس ماہ میں ان کے حق میں بڑا ھی مبارک رہا نہ کہ رنج وغم  کا ماہ "ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله اموات بل احيا ء ولكن لا تشعرون " دعا ہے کہ اللہ ہمیں فہم مستقیم عطافرماے اور مروجہ خرافات سے بچاے
   آمین ثم آمین

بد اعمالیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان مصائب، و مشکلات کا شکار

*بداعمالیوں کی وجہ سے پوری دنیامیں مسلمان،مصائب ومشکلات کاشکار*
---------------------------------------------------------------
*مسجد ابوبکر صدیقؓ ٹولی چوکی میں اجتماع سے مولانا حافظ سرفراز احمد قاسمی کاخطاب*
---------------------------------------------------------------
حیدرآباد(پریس ریلیز)ملت اسلامیہ آج جن حالات اورمصائب و مشکلات کاشکار ہے اورآئےدن جن پریشانیوں کاہمیں سامناکرناپڑرہاہے، یہ انتہائی افسوس کی بات ہے، تاریخ کے ایک عجیب دورسے ہم گذررہےہیں،باوجودیکہ اسکے حل کےلئے مختلف طرح کی کوششیں،اسباب اورطرح طرح کی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں، خانقاہوں اورمساجد کےاکابرین وصالحین کی دعائیں بھی برابرہورہی ہیں ممگرپھربھی یہ کارگرثابت نہیں ہورہی ہیں، آخراسکی وجہ کیاہے؟کیاہم نے کبھی اس پرغوروفکر کرنے کی زحمت کی؟کیاہم نے کبھی یہ سوچاکہ پوری دنیامیں صرف مسلمان ہی کیوں حالات کاشکارہے؟دشمنوں کےنشانے پرآخرمسلمان ہی کیوں ہے؟ظلم وبربریت کاننگاناچ مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں ہورہاہے؟جب ہم اس پر غور وفکرکریں گے تومعلوم ہوگاکہ ہماری بداعمالیاں اوربدکرداریاں اسکی سب سےبڑی وجہ ہے،آئے دن مسلمانوں پر فسادات کےذریعے وحشت ناک ظلم ڈھایاجاتاہے،انکے ساتھ درندگی اوربربریت کامعاملہ کیاجاتاہے،انکی عزتوں سے کھیلاجاتاہے،انکی معیشت کوتباہ وبرباد کیاجاتا ہے،گھروں کولوٹااوردکانوں کوجلایاجاتاہے،کبھی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جاتی ہے،کبھی مسجدوں کومندراورچرچ میں تبدیل کیاجاتا ہے،لیکن ہم لوگ ان چیزوں کو محض اتفاق سمجھتےہیں اورانکے اسباب وعلاج کی طرف دھیان بھی نہیں دیتے،ضرورت ہے کہ ہم قرآن وحدیث میں اسکاحل اورعلاج تلاش کریں،ہمیں بتایاگیاہےکہ اس عالم کائنات میں کوئی بھی چیزازخود اوراتفاق سےنہیں ہوتی،بلکہ وہ منجانب اللہ ہوتی ہے اورظاہرمیں اسکے کچھ اسباب بھی ہوتےہیں،جنکواللہ تعالیٰ نے قرآن پاک اور رسول اکرم ﷺنے حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے،ان خیالات کااظہار،شہرکے ممتاز اورمعروف عالم ددین مولاناحافظ سرفراز احمد قاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک وناظم معہد ملت ایجوکیشنل ٹرسٹ حیدرآباد نے مسجد ابوبکر صدیقؓ، گلشن کالونی، ٹولی چوکی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انھوں نے کہا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ"خشکی اورتری میں لوگوں کے اعمال کےسبب بگاڑاورفساد پھیل رہاہے،تاکہ اللہ تعالیٰ انکے بعض اعمال کامزہ انکوچکھائیں، شایدوہ باز آجائیں"(روم)تجربہ شاہد ہےکہ فاسد معاشرے میں انسان کوکبھی چین وسکون نصیب نہیں ہوتا،نہ راحت وآرام ملتاہے،معاشرے میں جب فساداوربگاڑپیدا ہوتاہے توزندگی اجیرن بن جاتی ہے،جرائم اورمظالم جب عام ہوتےہیں تولوگوں کی عزت وآبرو اورمال ودولت محفوظ نہیں رہتے،قتل وغارت گری کابازار جب گرم ہوتاہے تولوگوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں،اورجان خطرے میں پڑجاتی ہے،جب اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کئے جاتے ہیں اوربندوں کے حقوق پامال ہونے لگتےہیں اورکوئی روک ٹوک کرنے والانہیں رہتا توپوری قوم رحمت خداوندی سے محروم اورغضب الہی کی مستحق ہوجاتی ہے،پھر معاشرے کاچین وسکون برباد ہوجاتاہے،ایک دوسری جگہ قرآن میں ہے کہ"جوکچھ مصیبت تمکو پہونچتی ہے وہ تمہارے اعمال ہی کی بدولت پہونچتی ہے اوربہت سے گناہ تواللہ تعالیٰ معاف ہی فرمادیتے ہیں،تم سرزمین میں اللہ تعال کوعاجز نہیں کرسکتے اوراللہ کے سواکوئی حامی ومددگاربھی نہیں"(شوری)ان آیات سے معلوم ہواکہ یہ سب مصائب ہماری بداعمالیوں کی بناءپر ہیں اورقرآن کامنشاء یہ ہے کہ ہم ان پریشانیوں کی وجہ سے متنبہ اوربیدار ہوں،حالات سے پریشان ہونےکے بجائے اسکامقابلہ کریں اورمسائل ومشکلات کےحل کاراستہ تلاش کریں،اوراعمال بد سےخودبھی بچیں،اپنی اولاد،رشتہ داروں اورسماج کوبھی بچائیں،ایک جگہ قرآن میں ہےکہ'اللہ تعالی کسی قوم کی حالت میں تبدیلی نہیں کرتاجب تک کہ وہ لوگ خوداپنی حالت کو نہیں بدل دیتے'اسلئے ہم اپنےاندر تبدیلی کاعزم مصمم کریں انشاءاللہ حالات سازگارہوں اورپھرمسلمانوں سے اللہ تعالی نے جووعدہ کیاہے وہ پوراہوگا،ترمذی شریف کی ایک روایت میں مسلمانوں کوپانچ چیزوں کی تلقین کی گئی ہے ایسے حالات میں کم ازکم ہم سبکواس عمل آوری کی کوشش کرنی چاہیے،حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے میراہاتھ پکڑکر پانچ چیزیں ارشادفرمائی،فرمایا"تم حرام چیزوں سےبچتے رہوتو لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جاؤگے،اللہ کی تقسیم پرخوش اورراضی رہو تولوگوں میں سب سے زیادہ غنی ہوجاؤگے،اپنے پڑوسیوں کےساتھ حسن سلوک اورنرمی کامعاملہ کروتوپکے مومن بن جاؤگے،لوگوں کے لئے وہی چیزپسند کروجواپنےلئے پسند کرتےہو توپکے مسلمان بن جاؤگےاورزیادہ مت ہنساکرو کیونکہ زیادہ ہنسنادلوں کومردہ کردیتاہے"یہ پانچ چیزیں ہیں جس پرہم سبو کوعمل کرناچاہئے،تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان قرآن پاک کی پاکیزہ تعلیمات اورارشادات نبوی پرزندگی کےتمام شعبوں میں عمل کرتے رہے اللہ تعالی نے مسلمانوں کوایسی ترقی اورایساعروج عطافرمایاجسکی نظیر پیش کرنے سے تمام اقوام عالم عاجز ہیں،اورآج مسلمان کتاب وسنت کو چھوڑکر ایسے ذلیل خوار ہوگئےہیں کہ ہم سے پہلے لوگ اس کاتصوربھی  نہیں کرسکتے تھے،اللہ تعالی ہم سبکو اس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے،حافظ محمد اخترنائب امام ودیگرنے انتظامات میں حصہ لیا،معتمد کمیٹی نے اجلاس کی نگرانی کی،مولاناقاسمی کی رقت انگیزدعاء پراجتماع اختتام پہونچا۔۔۔۔۔۔۔۔

برائےرابطہ 8801929100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com

دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن مفتی اسماعیل قاسمی نے مجلس اتحادالمسملین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا،

نئی دہلی:
مالیگاوں کے سابق ایم ایل اے اور معروف عالم دین مفتی اسماعیل قاسمی نے مجلس اتحاد المسلمین میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے.

 سے فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج 29 اگست کی رات میں اورنگ آباد سے مجلس کے ایم پی امتیاز جلیل کا استقبالیہ جلسہ ہے. اسی جلسہ میں ہماری رکنیت کا پروگرام بھی شامل ہے.

مفتی اسماعیل قاسمی دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن اور مشہور عالم دین ہیں. گذشتہ دنوں سے این سی پی کے ٹکٹ پر وہ مالیگاوں کے ایم ایل اے بھی رہ چکے ہیں اور اب تک اسی پارٹی سے وابستہ تھے لیکن جولائی میں جب راجیہ سبھا میں طلاق بل پیش ہوا تو این سی پی ممبران پارلیمنٹ نے ہاوس سے غیر حاضر رہ کر پس پردہ بی جے پی کی حمایت کی جس سے ناراض ہوکر انہوں نے این سی پی سے استعفیٰ دے دیا .

مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور مجلس وہاں بڑے پیمانے پر الیکشن لرنا چاہتی ہے. مفتی اسماعیل قاسمی کے آنے کے بعد مجلس کو وہاں تقویت ملے گی.

Wednesday 28 August 2019

ترقی اور کامیابی کے لیے مثبت نظریاتی تعلیم ضروری

ترقی اور کامیابی کیلئےمثبت نظریاتی تعلیم ضروری
محمد ذیشان نئی دہلی

مکرمی: نظریاتی تعلیم کے پس منظر میں آج کے نوجوانوں کا ذہن بیکار کی چیزوں میں جیسے تشدد،محاذ آرائی کی جانب راغب ہوا۔جو گلوبل پیس کیلئے راہ میں رخنہ ڈالتا ہے۔آج اس بات کی ضرورت ہیکہ ہم اس ذہن کو تبدیل کریں۔خدا ہمیشہ مختلف طریقے سے امن کے قیام کو ذریعہ بناتا ہے۔ اس کے علاوہ نظریاتی تعلیم ہی الله کی تعلیم سے واقف کرواتی ہے۔روایت،تہذیب،ماحول،تعلیم اور عادت انسان ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ایک طرح کا پرانا عقیدہ،رواج،عبادت اور ذہن انسانی ذہن کو خراب طریقے سے متاثر کرتا ہے۔ایک طرح حالات انسان کو ایک محدود دائرے سے نکلنے سے روکتے ہیں۔زندگی کا حصہ ایک کمپارٹمنٹ میں ہےہے جو بابار آنے والی سوچ اور جذبات کو روکتے ہیں۔ترقی کو سمجھنے کیلئے کنفیوزن کو ختم کرتی ہے۔زندگی کی وضاحت کرتی ہے۔ زندگی جینے کیلئے فہم و فراست،ذمہ داری اور چیلنج کی ضرورت ہوتی ہے۔بغیر آزادی کے زندگی بیکار ہے۔عام طور سے برے حالات میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ایسی حالت میں مذہبی تجربہ ،مثبت سوچ ہماری زندگی آسان کرتی ہے اور آنے والی دشواریوں کے حل کا راستہ کھولتی ہے۔زندگی کی پہلیاں صحیح الحواس آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔ایک دانا شخص ہمیشہ خوش رہتا ہے۔ اپنی زندگی میں کبھی منفی نظریاتی تعلیم کو نہ آنے دیں۔اس طرح سے ہم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ صرف وہی ندی میں تیر سکتا ہے اور الله کےہدایت حاصل کر سکتا ہے۔

محمد ذیشان
نئ دہلی

شجر کاری مہم کے تحت بڑوت و ٹانڈہ میں شجر کاری

شجر کاری مہم کے تحت بڑوت و ٹانڈہ میں کی شجر کاری
رپورٹ:محمد دلشاد قاسمی
ٹانڈہ/بڑوت/باغپت(٢٨اگست ٢٠١٩آئی این اے نیوز)
جمعیت یوتھ کلب بھارت اسکاوٹ اینڈ گائڈ کے بینر تلے جاری شجر کاری مہم کے تحت گزشتہ روز اور اج باغپت ضلع کے قصبہ بڑوت و ٹانڈہ میں شجر کاری مہم کے تحت درخت لگائے گئے،
گزشتہ روز ٹانڈہ کے مدرسہ اسلامیہ میں شجر کاری کی گئی اور اس موقع پر بھارت اسکاوٹ اینڈ گائڈ جمعیت یوتھ کلب کے اسکاوٹ اور روورس نے مختلف عنوان پر پروگرام پیش کیئے،اور پھر مدرسہ کے صحن میں پیڑ لگائے گئے،اس موقع پر مولانا محمد یامین نائب صدر جمعیت علماء باغپت مولانا محمد الیاس ناظم تعلیمات مدرسہ اسلامیہ ٹانڈہ قاری محمد صابر صدر جمعیت علماء تحصیل بڑوت،قاری محمد طارق فلاحی نمائندہ اخبار مشرق،عبد القیوم،حافظ لیاقت وغیرہ وغیرہ موجود رہے
ایسے ہی اِج قصبہ بڑوت کے اندر نگر پالیکا کے گاندھی پارک میں شجر کاری مہم کے تحت تحصیل بڑوت کے اسکاوٹ اینڈ گائڈ کے ذمہ داران و اسکاوٹ و روورس نے پودھے لگائے اور ایسے ہی ہیروج انٹر کالج میں بھی پیڑ لگائے گئے،اس موقع پر قاری محمد صابر صدر جمعیت علماء تحصیل بڑوت نے کہا کہ شجر کاری مہم یہ جمعیت یوتھ کلب کی بہت ہی اہم مہم ہے جس کے تحت سبھی ضلعوں میں اس ماہ شجر کاری مہم کا پروگرام چلایا جارہاھے،انہوں نے کہا کہ جب ماحول ٹھیک ہوگا تو ہوا بھی صاف ستھری ہوگی،ایسے ہی ہمیں اس مہم سے یہ بھی پیغام دینے کا مقصد ھے کہ ہم اپنے ذہنوں سے بھی گندگی کو صاف کریں جب ہی اس ملک میں آپسی بھائی چارہ قائم ہوسکتا ھے،
ایسے ڈاکٹر دشینت تومر عرف امت رانا چیئرمین نگر پالیکا پریشد بڑوت نے کہا کہ جمعیت یوتھ کلب کا شجر کاری کا پروگرام قابل تعریف ھے اس کو اور آگے بڑھایا جائے اس ماحول بھی سازگار اور جینے کے لائق بن سکے گا اور گندگی سے جو فضاء زہرآلود ہورہی ھے اس سے بھی نمپٹا جاسکے گا
اس موقع پر حافظ لیاقت ماسٹر عبد القیوم بھائی فرمان اور اسکاوٹ و روورس موجود رہے

لبرل.مسلمان. اور توہین رسالت

لبرل "مسلمان" اور توہین رسالت
یاسر ندیم الواجدی

چند روز پہلے امینہ ودود کا نام مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے، آپ میں سے بہت سے لوگ سن چکے ہیں۔ یہی وہ خاتون ہے جس نے چند سال پہلے مردوں اور عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت کی تھی۔ مدرسہ ڈسکورسز والے جب اسلام میں عورت کے مقام پر گفتگو کرتے ہیں تو امینہ ودود کی "تحقیقات وتخلیقات" سر فہرست رہتی ہیں۔

امینہ ودود نے ایک موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے ہوے ان کو سنگدل باپ قرار دیا تھا۔ ٹویٹر پر ایک صارف نے امینہ سے سوال کیا کہ "کیا تم وہی ہو جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سنگدل باپ قرار دیا تھا؟ امینہ جواب میں کہتی ہے کہ بیوی اور دودہ پیتے بچے کو ریگستان میں چھوڑ دینا سنگدلی اور لاپرواہی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔ "ڈیڈ بیٹ" غیر رسمی انگریزی کی اصطلاح ہے جو ایسے مردوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو بیوی کو کچھ نہ سمجھتے ہوں اور اپنے اہل خانہ کے لیے بہت برے ہوں۔

ٹویٹر پر ایک دوسرے صارف نے جب امینہ کی نسوانیت پرستی پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اس منطق سے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بھی سنگدل اور لاپرواہ ہونی چاہییں، جنھوں نے اپنے شیر خوار بیٹے کو دریا میں بہا دیا تھا؟ اسکرین شاٹ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ امینہ ودود سب وشتم پر اتر آئی۔

وقتا فوقتاً ان لوگوں کو اس لیے ایکسپوز کیا جارہا ہے، تاکہ ڈسکورسز کے حامی یہ جان لیں کہ ہمارا ردعمل کوئی وقتی یا مسلکی بنیادوں پر نہیں تھا، بلکہ خالص اسلامی بنیادوں پر تھا۔ لبرلزم کفر والحاد کی سیڑھی ہے، جس کا ثبوت سب کے سامنے ہے۔ امینہ کی یہ ٹویٹ اگر توہین رسالت میں نہیں آتی، تو پھر توہین رسالت کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے۔

محرم الحرام...... حقیقت فسانہ بن گئی

محرم الحرام........ حقیقت فسانہ بن گئی
                                 ظفر امام
                                               
--------------------------------------------------------
             ماہِ محرم کی آمد آمد ہے ، ذو الحجہ کا مبارک و مسعود مہینہ رختِ سفر باندھے اپنے الوداعی " خدا حافظ " کہنے کو ١۴۴۰ھ کی دہلیز پر کھڑا ہے ، جونہی ذو الحجہ کا چاند شفقِ غیاب میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگا تونہی اسلامی ہجری تاریخ جست لگا کر اپنے عروج و ارتقاء کی منزل میں ایک اور کمند ڈال دے گی ؛
      سال کے بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کے سروں پر خالقِ ارض و سماء و کون و مکاں نے حرمت و تقدس اور ادب و احترام کا تاج رکھا ہے ان میں سے ایک محرم کا مہینہ بھی ہے ، ان چار مہینوں کی تخصیص کے بغیر اللہ تبارک و تعالی نے اپنے قرآنِ مقدس کے اندر ارشاد فرمایا " إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَ الْأَرْضَ ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ " { پ ١۰ _ سورۂ توبہ } ( بے شک اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کا حساب بارہ ہے اسی دن سے جس دن اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو وجود بخشا تھا ، ان میں سے چار محترم و معظم ہیں ، یعنی ان میں قتل و قتال اور جنگ و جدل ممنوع ہے)
           اس آیتِ کریمہ میں ان چار مہینوں کو لاعلی التعیین مطلق رکھا گیا ہے ، البتہ تاجدارِ بطحا محمدِ عربی ﷺ نے اپنے مبارک قول کے ذریعے ان کی تعیین کردی ہے کہ ان چار مہینوں کے مصداق کون کون سے مہینے ہیں ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنابِ نبئ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا " أَلسَّنَةُ إِثْناَ عَشَرَ شَهْرًا ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ، ثَلَاثٌ ‌‌‌مُتَوَالِیَاتٌ ، ذُوْالْقَعْدَةِ وَ ذُوْالحِجَّةِ وَ الْمُحَرَّمُ ، وَ رَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَيْنَ جَمّادِي وَ شَعْبَانَ "{ بخاری _ کتاب التفسیر ، مسلم _ کتاب القسامۃ } ( سال بارہ مہینے کے ہوتے ہیں ، ان میں سے چار محترم و معظم ہیں ، تین تو لگاتار ہیں ، یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور مضر قبیلہ کا وہ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے بیچ میں ہے )
           یہی نہیں بلکہ نزولِ قرآن سے پہلے بھی دورِ جاہلیت میں اہلِ عرب محرم کے مہینے کو محترم و مکرم سمجھتے تھے ، محرم کا مہینہ آتے ہی عرب کے جنگجو قبائل کی تلواریں نیام میں چلی جاتی تھیں ، لوگ اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی اس مہینے میں قابلِ معافی سمجھتے تھے اور ان سے کسی طرح کا کوئی تعرض نہ کرتے تھے ؛
         اس آیتِ کریمہ ، حدیثِ رسول اور دستورِ اہلِ عرب کی روشنی میں یہ بات آفتابِ نیم روز و مہتابِ شب تاب کی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ محرم کے مہینے کی حرمت و تقدس اسی دن سے ہے جس دن سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق فرمائی ہے ، اس لئے وہ لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں جو نری جہالت ، تعصبیت اور عدمِ آگہی کی بنا پر اس کی حرمت کی کڑیوں کو " سانحۂ حسین " کے ساتھ جوڑنے کی سعئ مذموم اور جرأتِ بےجا کرتے ہیں ، کہ محرم کے مہینے کی حرمت اس لئے ہے کہ اس میں نواسۂ رسولﷺ کی شہادت کا دلدوز و جگر سوز واقعہ پیش آیا تھا ؛
                         ماہِ محرم کی فضیلت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اسے باری تعالی نے حرمت و تقدس کا خلعتِ فاخرہ عطا کیا ہے ، علاوہ ازیں اس کی فضیلت میں نبئ رحمتﷺ نے متعدد احادیث بھی ارشاد فرمایا ہے جس سے اس کی فضیلت میں مزید تاکید اور حسن پیدا ہوجاتا ہے ،
             چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے نبیﷺ نے اس کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا جس کے راوی سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ " { مسلم شریف ، کتاب الصیام } ( رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینہ " محرم " کا ہے )
                   ایک دوسری روایت میں فاتحِ خیبر حضرت علی کرم اللہ و جہہ سے مروی ہے کہ ایک شخص جنابِ نبئ کریم ﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہو کر آپ سے استفسار کیا ، " یا رسول اللہ! اگر میں رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کا روزہ رکھنا چاہوں تو آپ میرے لئے کون سا مہینہ تجویز فرمائینگے"؟ تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " اگر تو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں روزہ رکھنے کا خواہش مند ہے تو محرم کے روزے رکھا کرنا ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے ، اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی تھی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ قبول فرمائینگے ؛ [ ترمذی ، کتاب الصیام ]
          یہ تو ماہِ محرم کے عمومی دنوں میں روزہ رکھنے کی فضیلت کا ذکر تھا ، لیکن اللہ کے نبیﷺ نے اس مہینے کے ایک خاص دن ( یومِ عاشوراء ) میں روزہ رکھنے کا بطورِ خاص حکم فرمایا ، اور آپ خود بھی زندگی کی آخری رمق تک اس پر کار بند رہے ، چنانچہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس کو محدثِ کبیر امامِ جلیل ، امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف " مسلم شریف " میں نقل فرمائی ہے ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ أَنَّه قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ " صِيَامُ عَاشُوْرَاءَ إِنِّيْ أَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ اللَّتِيْ قَبْلَه " ( عاشوراء کے روزے سے متعلق میرا گمان اللہ تعالی کے بارے میں یہ ہیکہ وہ ان کے بدلے میں پچھلے ایک سال کے گناہ معاف فرمادینگے )
             اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی ایک متفقہ روایت ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا ، پھر جب رمضان کے روزے نازل ہوئے تو آپ ﷺ نے یہ کہہ کر " إِنَّ عَاشُوْرَاءَ يَومٌ مِنْ أَيَّامِ اللّٰهِ ، فَمَنْ شَاءَ صَامَه وَ مَنْ شَاءَ تَرَكَه " ( بےشک عاشوراء اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے ، پس جو شخص اس کا روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے اور جو نہ چاہے وہ نہ رکھے ) اس کی ( عاشوراء کے روزوں کی ) تنسیخ فرمادی ؛
       ان کے علاوہ اور بھی متعدد روایات متعدد طرق سے مختلف صحابۂ کرام سے عاشوراء کے روزے کی فضیلت کے باب میں وارد ہوئی ہیں ، جن کا احاطہ کرنا یہاں دشوار ہے ، البتہ عاشوراء کے دن کی تعیین سے متعلق کہ آیا وہ دسویں محرم کا دن ہے یا نویں محرم کا ، اہلِ علم و ہنر اور فکر و نظر کا اولِ دن سے ہی اختلاف رہا ہے ، جس کی تفصیل مطولات میں موجود ہے ، برسبیلِ تذکرہ یہاں اتنا بتادینا مناسب سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کی بنیاد ، جو حدیث ہے اور جس کی وجہ سے اہلِ علم کا مناقشہ اس باب میں در آیا ہے وہ وہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ، جس کو امام مسلم نے مسلم شریف میں " کتاب الصیام " کے تحت نقل کیا ہے ، جس میں مروی ہے کہ جب اللہ کے نبی ﷺ نے دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابۂ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا ، " اے اللہ کے رسول! اس دن کو یہود و نصاری بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں " ( ان کے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ حضور والا تبار تو یہود و نصاری کی مخالفت کا حکم فرماتے ہیں ، جبکہ دسویں محرم کو روزہ رکھنا ان کی عین موافقت کرنا ہے ) تو اس کے جواب میں شارع علیہ السلام نے ارشاد فرمایا " فَإِذَا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ " ( کہ ان شاء اللہ آئندہ سال سے ہم لوگ نویں محرم کو روزہ رکھینگے ) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں " لَئِنْ بَقِيْتُ إِليٰ قَابِلٍ لَأَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ " ( اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ رکھونگا ) لیکن اتفاق سے آپ علیہ السلام آئندہ سال آنے سے پہلے ہی دنیا کو الوداع کہہ گئے ؛
                    آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد مذکورہ بالا حدیث میں مندرج " یوم التاسع " ( نویں دن ) کے لفظ نے علماءِ امت ، فقہاءِ ملت اور نکتہ دایانِ شریعت کے مابین کئی نظریاتی اختلاف کو جنم دے دیا ، اور ہر ایک نے اپنے نکتۂ اختلاف کا مدار اسی لفظ " یوم التاسع " کو قرار دیا ، چنانچہ بعض حضرات اس بات کی طرف گئے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا یہ قول کہ " اب آئندہ سال زندہ رہنے پر نویں محرم کو روزہ رکھونگا " یہ ناسخ ہے دسویں محرم کے لئے ، گویا کہ آپ نے اپنے اس قول کے ذریعے پہلے والے حکم کو منسوخ کردیا ، لہذا اب صرف نویں محرم کو روزہ رکھا جائے کیونکہ فرمانِ نبی کے بموجب یہی " یومِ عاشوراء " ٹھرا ، جب کہ بعض حضرات نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اصل یومِ عاشوراء تو وہی دسویں دن ہے ، آپ کے اس فرمان کی وجہ سے دسویں دن کے یومِ عاشوراء کا حکم مرتفع نہیں ہوگا ، بلکہ آپ کے پیشِ نظر صرف یہود و نصاری کی مخالفت کرنا تھی ، اس لئے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نویں کو بھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ دونوں پر ( یومِ عاشوراء کے روزے اور مخالفتِ یہود ) عمل ہوجائے ، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو سننِ کبری للبیہقی نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی سند سے نقل کیا ہے جس میں انہوں نے آپ ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی نقل فرمایا ہے " صُوْمُوْا التَّاسِعَ وَ الْعَاشِرَ و خَالِفُوا الْیَہُوْدَ " ( نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ) { سنن کبری للبیہقی _ ص/ ۲۷۸ ج/ ۴ )
      ان کے علاوہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پے بہ پے تینوں دن یعنی نویں ، دسویں اور گیارہویں تاریخوں کو روزے رکھ لئے جائیں کہ اس صورت میں یہود کی مخالفت بھی ہوجاتی ہے اور بالاتفاق یومِ عاشوراء پر عمل بھی ہوجاتا ہے ، ان کا مستدل وہ روایت ہے جو ابنِ عباس سے مروی ہے ، جس میں انہوں نے نبی علیہ السلام کا قول ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے " صُوْمُوْا عَاشُوْرَاءَ وَ خَالِفُوْا فِیْه الیَہُودَ ، صُوْمُوْا قَبْلَه يَوْمًا وَ بَعْدَه يَوْمًا " { مسندِ احمد ج / ١ ص / ۲۴١ ، سننِ کبری للبیہقی ج_ ١ ص_ ۲۸۷ } ( تم عاشوراء کا روزہ رکھو ، اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ، روزہ رکھو اس کے ایک دن پہلے اور اس کے ایک دن بعد ) اس کے علاوہ اور بھی کئی کتابوں میں یہ حدیث مندرج ہے ، لیکن اس کی سند میں ابنِ علی لیلی اور داود بن علی نامی دو راوی ہیں جن کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، لہذا یہ قول درخورِ اعتناء نہیں ؛
        ماقبل کے ہردو قول میں سے کسی ایک قول میں عمل کرکے یومِ عاشوراء کے روزے سے عہدہ بر آ ہونے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، تاہم احوط یہی ہیکہ نویں اور دسویں محرم کے روزے رکھ لئے جائیں ، تاکہ نظریاتی اختلاف کی پرپیچ راہوں اور پرخار وادیوں میں اپنے دامن کو الجھائے بغیر بآسانی منزلِ مقصود تک رسائی ہوسکے ، واللہ أعلم بالصواب ...
              چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس پُر ازفضیلت و رحمت والے مہینے کے لئے سراپا شوقِ انتظار بنے اپنے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے ہوتے ، اس کے گُل کدۂ رحمت میں گُل گشت کرکے اپنے دامنِ مراد کو بھرتے اور اس کی بھینی بھینی برکت کی پُھواروں میں بھیگ کر اپنی قسمت کی لکیروں کو درخشانی و تابانی عطا کرتے؛
         لیکن! صد حیف کہ آج ہم ان فضیلتوں اور برکتوں کو یکسر پس انداز کرکے صرف اس خونچکاں داستان کی یادیں تازہ کرتے ہیں ( اور تازہ کرنے کا وہ طریقہ اپناتے ہیں جس سے شیطان بھی لجا جائے )جو آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے صحراءِ عرب میں پیش آیا تھا ، جس میں نواسۂ رسول ، ابنِ فاتحِ خیبر اور جگر گوشۂ آمنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بڑی بےدردی سے شہید کردیا گیا تھا ، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خون کی چھینٹوں سے اس دن پوری نیلگوں فضا لالہ زار ہوگئی تھی ؛
           آج مسلمانوں کا المیہ یہ ہیکہ جب مغرب کی اوٹ سے محرم کا چاند جھانکتا ہوا اپنی آمد کا اشتہار دیتا ہے ، تو بےساختہ مسلمانوں کے ذہنوں میں محرم منانے کے بیہودہ طریقے انگڑائیاں لینے لگتے ہیں ، اور پھر جوں جوں محرم کا چاند ایام کی چلمن کو سرکاتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے توں توں لوگوں کے ذہنوں میں بھی بتدریج ان خرافات کا اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اکھاڑا کھیلنے کے لئے لاٹھیاں تراشتے ہیں ، ان کو تیل پلاتے ہیں ، ( اور پھر نہ جانے وہ لاٹھیاں جوشِ جنوں میں آکر کتنے مظلوموں کی آہیں اپنے دامن میں سمیٹتی ہیں ) حسین کے نام پر سبیلیں لگاتے ہیں ( اور العیاذ باللہ تصور یہ قائم کیا جاتا ہے کہ اس سے حسین کی پیاسی روح کو ٹھنڈک پہونچےگی ) دیگیں چڑھاتے ہیں ، مالیدہ اور پکوان تیار کرتے ہیں اور حسین کے نام پر ان کو بٹورہ کرتے ہیں ، کربلا کے شہید کے نام پر محفلِ مرثیہ خوانی منعقد کرتے ہیں ، اور پھر اس میں عزادارنِ حسین ایسی ایسی بے سر و پا من گھڑت کہانیاں اور طلسم آمیز افسانے بیان کرتے ہیں کہ سننے والوں پر رقت طاری ہوجاتی ہے ، اور  وجد میں آکر بےساختہ وہ گریبان چاک کرنے لگتے ہیں ، سینہ کوبی کرتے ہیں ، بال نوچتے ہیں ، دھار دار آلات سے اپنے جسم کو چھلنی چھلنی کر خون کی ندیاں بہاتے ہیں ، جسموں پر آگ کی چنگاریاں چھوڑتے ہیں اور پھر سماں میں نالہ و شیون ، نوحہ و ماتم اور آہ و بکا کا وہ و حشیانہ اور مہیب طریقہ پرواز کرنے لگتا ہے کہ ألأمان والحفیظ ؛
             اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل خراش و جگر تراش واقعہ اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جو ناسور بن کر صبحِ قیامت تک رستا رہے گا ، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ واقعہ اس پیشانی کو لہولہان کر کے سر انجام دیا گیا تھا ، جس میں بطحائی پیغمبر کے لعابِ دہن کے تابندہ نقوش ثبت تھے ، یہ ان انگلیوں پر نشتر لگا کر انجام دیا گیا تھا ، جن انگلیوں نے فاتحِ خیبر کے ہاتھوں کو پکڑ کر چلنا سیکھا تھا اور یہ اس جسمِ اطہر پر نیزہ مار کر انجام دیا گیا تھا جس میں سیدہ فاطمہ بتول کے خون کے دھارے بہہ رہے تھے ؛
               لیکن اس کے باوجود کسی کی شہادت یا وفات پر اس طرح کے جاہلانہ طرز پر نوحہ و ماتم کرنا ملتِ بیضاء کی روح اور شریعتِ مطہرہ کے مزاج کے سراسر خلاف ہے ،
                 چنانچہ نبئ کریم ﷺ نے کسی کی وفات پر نوحہ اور ماتم کرنے کو جاہلانہ رسم و رواج قرار دیتے ہوئے تہدید آمیز انداز میں ارشاد فرمایا " لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَ شَقَّ الْجُيُوْبَ وَ دَعَا بِدَعْوَي الْجَاهِلِيَّةِ " { بخاری ، کتاب الجنائز } ( جو گالوں پر تھپڑ مارے ، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں کرے ، وہ ہم میں سے نہیں ) اس حدیث شریف سے نوحہ و ماتم کرنے کی ممانعت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے ؛
      یہ ہے آج کی مسلم قوم کا طریقِ کار جو حقیقت کو چھوڑ افسانوں میں کھوکر یہود و نصاری کے شانہ بشانہ ہو کر اپنے ذہنی مرض ، اخلاقی انارکی اور فکری پراگندگی کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں اور پھر امید کرتے ہیں ایک ایسی فضلِ باراں کی جس کا آبِ زلال حالات کا رُخ موڑ دے ، انتظار کرتے ہیں ایک ایسی روشن صبح کا جس کی وسعتوں میں تاریکی کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو اور راہ تکتے ہیں ایسے حکمران کی جس کے میزانِ عدل میں انصاف اور رواداری کا عنصر غالب ہو ؛
             لیکن یاد رکھیں! اگر مسلمانوں نے اپنی خو نہیں بدلی اور حقیقت کے پردہ کو چاک کرکے افسانوں کے طلسم کو نہ توڑا تو پھر ان کا یہ خواب صرف خواب ہی بن کر رہ جائےگا جو کبھی بھی اپنی تعبیر کے شرمندۂ ساحل تک نہیں پہونچ سکتا ؛
        اللہ تعالی مسلمانوں کو صحیح سمجھ نصیب کرے اور سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے ، آمین یا رب العالمین ......

                                  ظفر امام ، کشن گنجی 
                                   دارالعلوم " المعارف"
                                  کارکلا ، اڈپی کرناٹک

بنگال حکومت نے اینٹی لینچنگ بل تیار کیا،

بنگال حکومت نے اینٹی لینچنگ بل تیار کیا: زیادہ سے زیادہ عمر قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ۔

مغربی بنگال. ۲۸ اگست

حکومت نے ریاستی اسمبلی میں ایک نیا اینٹی لینچنگ بل پیش کیا ہے ، جس میں مجرموں کو عمر قید سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانے اور متاثرین کے لئے مفت قانونی اور طبی امداد فراہم کی گئی ہے۔ ویسٹ بنگال پریچینشن آف لینچنگ بل ، 2019 میں ، لینچنگ کے واقعات کو روکنے کے لئے ریاستی کوآرڈینیٹرز کے ساتھ آئی جی رینک اور نوڈل آفیسر نہ رکھنے کے لئے ایک ریاستی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اس قانون کا مقصد ، جسے جمعہ کے دن پیش کیا جاسکتا ہے ، "کمزور افراد کے آئینی حقوق کے موثر تحفظ کی فراہمی اور لیچنگ کو روکنے اور ریاست میں لینچنگ کے مجرموں کو سزا دینا" ہے۔ مذہب ، ذات ، ذات ، یا تشدد کی کسی بھی شکل ، یا کسی بھی طرح کے واقعے کی بنیاد پر ہجوم کے ذریعہ کسی بھی عمل یا تشدد کے سلسلے کی شکل میں ، چاہے وہ دو یا زیادہ افراد کا گروپ ہو۔ وضاحت کرتا ہے۔ جنس ، پیدائش کی جگہ ، زبان ، غذائی سلوک ، جنسی رجحان ، سیاسی وابستگی ، نسلی یا کسی اور بنیاد "۔

اس میں تین اقسام کی سزا کی تجویز کی گئی ہے: اگر اس فعل سے متاثرہ شخص کو "تکلیف" کا باعث بنتا ہے تو زیادہ سے زیادہ تین سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ۔ "المناک چوٹ" کی صورت میں 10 سال اور 3 لاکھ روپے تک؛ اور "عمر قید اور ایک لاکھ روپے سے کم کی سزائے قید اور 5 لاکھ روپے تک کی موت" کی صورت میں۔

مزید برآں ، بل کے مطابق ، جو لوگ گستاخیاں کرنے یا سازشوں کے ارتکاب کرنے کی سازش کا حصہ قرار پائے گئے ہیں ، ان کو "اسی طرح سزا دی جائے گی جیسے انہوں نے خود ہی وہ جرم کا ارتکاب کیا ہو"۔ اس بل میں "جارحانہ مواد" پھیلانے یا شائع کرنے یا منتقل کرنے والوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک سال کی جیل اور 50،000 روپے تک جرمانے کی بھی تجویز کی گئی ہے۔ اور زیادہ سے زیادہ تین سال تک "ایک شخص یا ایک شخص کے گروپ" کے لئے معاندانہ ماحول بنانے والے افراد کو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ۔

نئے بل کے مطابق ، ریاست متاثرین کو تحفظ فراہم کرے گی ، جو لیگل سروسز اتھارٹیز ایکٹ 1987 کے تحت لیگل ایڈ پینل میں سے کسی بھی وکیل کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ریاست مفت علاج معالجہ بھی فراہم کرے گی اور معاوضے کے منصوبے کے مطابق معاوضہ فراہم کرے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ لینچنگ کے معاملات کی تفتیش انسپکٹر کے عہدے سے بالا پولیس افسران ہی کریں گے ، سوائے "خصوصی حالات" کے۔

اس میں نوڈل افسران کو سوشل میڈیا پوسٹوں پر نظر رکھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے ، اور وہ نگرانی ، ہجوم پر تشدد یا بدنامی کی نشاندہی کرنے کے لئے ایک ماہ میں کم از کم ایک بار اضلاع اور پولیس کمشنریٹوں کے مقامی انٹلیجنس یونٹوں سے ملاقات کریں گے۔ "پچھلے کچھ مہینوں میں ، مغربی بنگال میں بہت سے واقعات ہوئے ہیں ، جن میں سے" بچوں کے چور "مختلف علاقوں خصوصا North شمالی بنگال میں پھیل گئے۔ افواہیں۔

Tuesday 27 August 2019

بے رحمی سے مار مار کر قاری اویس کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا

قاری اویس کو پیٹ پیٹ کر مارڈالا گیا
پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے باہر سانحہ پیش آیا، دکانداروں سے ہیڈ فون کو لے کر جھگڑا ہواتھا
نئی دہلی؍شاملی۔۲۷؍ اگست (رضوان سلمانی اور ایجنسی) پرانی دلی ریلوے اسٹیشن کے باہر دکانداروں نے ایک نوجوان کو بے رحمی سے صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ ان کی ہیڈ فونس کو لے کر ان سے بحث ہوگئی تھی۔ اطلاع کے مطابق ۲۶؍اگست کی رات پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن کے ایگزٹ گیٹ پر یوپی کے شاملی کے رہنے والے قاری اویس کو بری طرح سے مارا پیٹا گیا اس کے بعد انہیں دہلی کے ارونا آصف علی اسپتال میں داخل کیاگیا جہاں ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دیا۔ حالانکہ دہلی پولس نے ابتدائی تحقیقات کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس میں کوئی کمیونل اینگل نہیں ہے، پولس کا کہنا ہے کہ ہاتھا پائی ضرور ہوئی تھی لیکن اس سے قاری اویس کی موت نہیں ہوئی۔ چشم دید گواہوں کے مطابق متاثرہ دکان پر ہیڈ فون یا کچھ اور خریدنے آیا تھا اسے سامان پسند نہیں آیا اور وہ نکل گیا لیکن دکانداروں نے اس سے بدتمیزی کی اس کے بعد دکاندار اور لڑکے میں لڑائی شروع ہوگئی باقی دکاندار بھی اس لڑائی میں کود پڑے اور لڑکے کے ساتھ مارپیٹ کرنے لگے۔ ڈی سی پی سنگھ نے کہاکہ ہمیں جو اطلاعات ملی ہیں وہ یہ ہے کہ متاثرہ کے جسم پر کوئی ایسی چوٹ نہیں ملی ہے جس سے اس کی موت ہوسکے اس لیے ہمیں قتل کا معاملہ درج کرنے کے بجائے آئی پی سی کی دفعہ 304 کے تحت مقدمہ درج کررہے ہیں۔ پولس کے مطابق مہلوک کے پاس ایک بیگ ملا تھا جس میں ان کا آدھار کارڈ تھا اسی بنیاد پر ان کی شناخت ممکن ہوسکی تھی۔ قاری اویسی کے اہل خانہ نے اسے قتل کا معاملہ بتایا ہے ۔یہ واقعہ چاندی چوک ماڈل ٹاؤن کوتوالی کا ہے. پوسٹ مارٹم کے بعد لاش تدفین کیلئے کیرانہ بھیج دی گئی تھی جہاں  آج غمزدہ ماحول میں نمازعصر کے نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کردیاگیا ہے۔نماز جنازہ جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت کے مہتمم مولانا محمد عاقل قاسمی نے پڑھائی۔ تدفین میں جمعیۃ علماء کے عہدیداران اور ارباب مدارس نیز ائمّہ مساجد سمیت خلق کثیر نے شرکت کی ۔آل انڈیاامام فاؤنڈیشن کے چیرمین مولانا محمد عارف نے اس نامہ نگار کو بتایا کہ گزشتہ روز قاری اویس کو پُرانی دہلی میں ریلوے اسیٹشن پر شرپسندوں نے بری طرح مارا پیٹا جس سے اسی وقت وہ لقمہ اجل ہوگئےتھے۔قاری عارف کے بیان کے مطابق پولیس نے اس معاملہ میں ۲لوگوں کو گرفتارکر لیا ہے۔ جس کی شناخت للن اور ایوب الیاس سرفراز کے طور پر ہوئی ہے۔ قاری مرحوم کا پوسٹ مارٹم دہلی میں ہی ہوا ہے اور میت آج ضلع شاملی کے گاؤں گڑھی دولت میں پہنچی ہے،جہاں تدفین عمل میں آئی۔اس قبیح ہرکت پر پورے گاؤں میں غم کا ماحول ہے اور عام آدمی شہری خود کی حفاظت کو لے کر بے چین ہے۔

میرٹھ میں چھیڑ خانی کا الزام لگا کر مدرسے کے طالبعلم کی لنچنگ
شرپسندوں کی بھیڑ نوجوان کو پیٹتی رہی ، لوگ ویڈیو بناتے رہے
 میرٹھ۔ ۲۷؍اکتوبر: ریاست اترپردیش کے ضلع میرٹھ میں ماب لنچنگ ک واردات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ایک ہفتے میں دو ماب لنچنگ کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔گذشتہ روز میرٹھ کے قصبہ شاہ جہاں پور میں ایک مسلم نوجوان کو ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا جبکہ آج ایک اور مسلم نوجوان شرپسند عناصر کے تشدد کا شکار بنا۔میرٹھ کے دہلی روڈ پر ایک مسلم نوجوان کو ہجوم نے طالبہ سے چھیڑ خانی کے الزام میں بری طرح پیٹا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ شرپسند ہجوم مسلم نوجوان کو پیٹ رہا تھا جبکہ وہاں موجود عوام خاموش تماشائی بن کر ویڈیو بنانے میں مصروف تھی ، کسی نے بھی شر پسند عناصر کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔تفصیلات کے مطابق دیوبند میں واقع قدیم مدرسہ دارالعلوم اصغریہ میں عربی دوم کا طالب علم  محمد عمر بجنور سے دہلی اپنے گھر بس سے جارہا تھا ، جب بس میرٹھ میں باغپت اڈے کے پاس پہنچی تو بس میں سوار ایک لڑکی نے اپنے والد کو فون کرکے کہا کہ بس میں میرے ساتھ ایک لڑکا چھیڑ خانی کررہا ہے۔ اس کے باپ نے کچھ لوگوں کو وہاں بھیجا اور اسے بس سے اتار کر بری طرح سے پیٹا۔اس معاملے میں میرٹھ کے ایس پی اکھلیش نارائن نے کہا کہ ‘فی الحال معاملے کی تفتیش جاری ہے ‘۔ماب لنچنگ کے خلاف پولیس مسلسل کارروائی کر رہی ہے اور اس میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا۔ واضح رہے کہ لڑکی کی شکایت پر برہم پوری تھانہ میں محمد عمر کے خلاف تحریر درج کرائی گئی تھی جس کی وجہ سے اسے حراست میں لے لیاگیا تھا جہاں آج عدالت سے اسے ضمانت مل گئی ہے ۔ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ بس اسٹاپ پر ہی شرپسند افراد محمد عمر کو لات گھونسوں سے مار رہے ہیں۔

شاہ ملت کے ہمراہ لاتور میں دو دن قسط 3

”شاہ ملت کے ہمراہ لاتور میں دو دن!“
(سفر نامہ || قسط #03)

از قلم: خادم شاہ ملت بندہ محمّد فرقان عفی عنہ
(ڈائریکٹر مرکز تحفظ اسلام ہند)

نکاح خوانی کی روداد:
تقریباً دوپہر 12:30 بجے ہم تمام نیند سے بیدار ہوکر وضو وغیرہ سے فارغ ہوئے۔ جس مسجد میں نکاح خوانی تھی وہ مسجد محبوبیہ قیام گاہ سے تھوڑی دور، لاتور کی امباجوگائی روڈ کے کھوری گلی میں ایس پی آفس کے روبرو واقع تھی۔ جہاں نماز ظہر کا وقت 01:40 پر تھا، ہم تقریباً 01:30 کے قریب مسجد پہنچ گئے۔ حضرت شاہ ملت مدظلہ کے استقبال کیلئے مسجد کے باہر ایک بڑا مجمع پہلے ہی سے منتظر تھا۔ حضرت کے پہنچنے کے بعد نماز ظہر ادا کی گئی اور سنن و نوافل کے بعد محفل نکاح سجی۔ چونکہ حضرت شاہ ملت مدظلہ کا بیان ہونا طے تھا، لہٰذا آپکو سننے اور آپکی زیارت کیلئے کافی مجمع اکھٹا ہوچکا تھا۔ جس کا اندازہ فقط اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ناظم محفل نے دوران نظامت یہ ارشاد فرمایا کہ اس جم غفیر میں عوام الناس کے علاوہ فقط علماء کرام کی تعداد تقریباً دو سو کے قریب ہے! الغرض ناظم محفل نے حضرت مولانا اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ کو استقبالیہ پیش کرنے کی دعوت دی۔

مولانا اسماعیل صاحب کا استقبالیہ:
شیخ طریقت حضرت مولانا اسماعیل صاحب قاسمی نقشبندی مدظلہ نے حمد و ثناء کے ساتھ اپنا استقبالیہ شروع کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ہمارے لئے بڑی خوشی و مسرت کا موقع ہے کہ ہمارے درمیان ہندوستان کی ایک مایہ ناز شخصیت شاہ ملت اور شیر کرناٹک حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم تشریف فرما ہیں، حضرت والا کوئی تعارف کے محتاج نہیں۔ میں فقط حضرت والا کو اس عقد نکاح کے لئے مدعو کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات ختم کردوں گا۔ حضرت والا  ایک حق گو عالم دین ہیں، ہمارے بزرگوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ نہ صرف حق کو بیان کرتے ہیں بلکہ اسے عملی جامہ پہنا کر امت کے سامنے ایک نمونہ، مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میں اور حافظ عبد الرحیم صاحب حضرت والا کے فرزند ارجمند کے محفل نکاح  میں شریک تھے، حضرت والا نے اپنے فرزند کا نکاح بہت ہی سادگی کے ساتھ سنت نبوی کے مطابق کیا اور اسی نکاح کی سادگی کو دیکھتے ہوئے ہمارے محترم جناب حافظ عبد الرحیم صاحب نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ حضرت والا کو ہمارے شہر میں کسی محفل نکاح میں ضرور بالضرور مدعو کرنا ہے۔ الحمدللہ آج انہیں کی صاحبزادی کے نکاح میں حضرت کو مدعو کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت کی آمد کو قبول کرتے ہوئے اس پورے علاقے کیلئے خیر کا ذریعہ بنائے۔ اب میں بلا کسی تاخیر حضرت والا سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ نکاح پڑھائیں۔“

حضرت شاہ ملت کا خطبۂ نکاح:
چونکہ قانونی مسئلہ کی وجہ سے حضرت والا کا بیان منسوخ کردیا گیا تھا لہٰذا مولانا اسماعیل صاحب کے پیش کردہ استقبالیہ کے بعد حضرت والا نے خطبۂ نکاح پڑھا۔ ایجاب و قبول حضرت مولانا اسماعیل صاحب نے کروایا اور حضرت شاہ ملت کی دعا پر نکاح خوانی کی پرنور محفل اختتام پذیر ہوئی۔ مجلس کے اختتام پر شرکاء مجلس نے حضرت شاہ ملت سے ملاقات کی اور نوشاہ مولانا احتشام الحق صاحب اور حافظ عبد الرحیم صاحب کو مبارکبادیاں پیش کی۔ کھجوروں کو بطور شیرنی تقسیم کیا گیا۔ اس کے بعد مسجد کے ذمہ داران اور عمائدین شہر نے حضرت شاہ ملت سے ملاقات کی جنکا تعارف مولانا اسماعیل صاحب فرما رہے تھے۔ مختصر گفتگو کے بعد حضرت شاہ ملت سمیت تمام رفقاء سفر بھائی اسلام الحق کی رہبری میں مسجد محبوبیہ سے دوبارہ قیام گاہ روانہ ہوئے۔ نکاح کی اس پرنور محفل میں مقامی حضرات کے علاوہ دور دراز و دیگر اضلاع سے ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی تھی۔ جن میں سے خصوصاً دیگر اضلاع کے مہمانوں نے حضرت شاہ ملت سے خصوصی ملاقات بھی کی۔ جنکی تفصیلات بھی آگے درج کئے گئے ہیں۔

سنت نبوی کے مطابق شادی:
آج کل ہمارے معاشرے میں شادی ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ جبکہ اسلام میں شادی کو بہت آسان کیا گیا ہے۔ شادی بیاہ میں شامل کئے گئے رسم و رواج نے وہ شدت اختیار کرلی ہے کہ ایک عام انسان شادی کا نام سنتے ہی بڑی سوچ و فکر میں پڑجاتا ہے، جسکی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں زنا آسان ہوگیا ہے اور نکاح مشکل بن گیا ہے۔ اور دن بہ دن یہ مشکلات کی سیڑھیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس مذہبِ اسلام نے زنا کو حرام قرار دیا اسی مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کی شادیاں زنا کے اڈوں کا ایک ٹریلر بنی ہوئی ہیں۔ حضرت شاہ ملت تو یہاں تک فرمایا کرتے ہیں کہ ”مسلمانوں کی شادیوں میں فقط خطبۂ نکاح کے علاوہ کہیں دین و شریعت کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ اگرچہ خطبۂ نکاح کی ضرورت نہ ہوتی تو آج کل کے یہ نام نہاد مسلمان شادی کے دیگر مغربی رسومات کی طرح آگ کے بھی ساتھ پھیرے لینے کیلئے تیار رہتے۔ جس نکاح خوانی میں سنت نبوی کا مزاق ہو اس نکاح میں شریک ہونا بھی جائز نہیں! کیونکہ فقط شرکت ہی انکے کارہائے انجام کو تائید کرنے کے مانند ہے!“ الغرض حافظ عبد الرحیم صاحب نے بڑی سادگی کے ساتھ اپنی لختِ جگر کی شادی کروائی۔ جس پر حضرت شاہ ملت جو محفل نکاح میں مجبوری کی وجہ سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرپائے تھے انفرادی طور پر بڑی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے حافظ صاحب کو مبارکبادی پیش کی اور دیگر مقامی حضرات سے گزارش کی کہ ایسی تقریبات جہاں سنتوں کو زندہ کیا جاتا ہو اسکی خوب تشریح کرنی چاہئے اور ایسی تقریبات جہاں سنتوں کا گلا گھونٹا جارہا ہو وہاں شریک ہونے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ حضرت شاہ ملت مدظلہ کے فرزند ارجمند حافظ سید فوزان شاہ کی شادی بہت ہی سادگی اور سنت نبوی کے طریقے کے مطابق ہوئی تھی۔ جو ان لوگوں کیلئے ایک مثال تھی جو یہ کہتے تھے کہ شادی سادگی سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس تقریب کو دیکھتے ہوئے ہر عام و خاص کی زبان سے ہر بار کی طرح یہ سنہرے الفاظ نکلے تھے کہ ”حضرت شاہ ملت نہ صرف حق بات بولتے ہیں بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنا کر امت کے سامنے ایک مثال قائم کرتے ہیں۔“ یہاں ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگر کوئی بندہ سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ کرلے تو حالات کیسے بھی ہوں اللہ تبارک و تعالیٰ خود اسکو راستہ نکال کر دیتے ہیں۔ اسی کے ایک مثال حافظ عبد الرحیم صاحب کی دختر کی شادی تھی۔ یقیناً وہ تقریب سنت نبوی کو زندہ کر رہی تھی۔ اور مشکوٰۃ شریف کی روایت کے مطابق ایسے پر فتن دور میں سنت نبوی کو زندہ کرنا سو شہیدوں کا ثواب ہے! اللہ اکبر!!! لہٰذا امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ سنت نبوی پر عمل پیرا ہوں، سنت نبوی پر عمل پیرا ہوجانا ہماری دونوں جہاں میں کامیابی کی دلیل ہے۔ الغرض قیام گاہ پہنچنے کے بعد حضرت شاہ ملت اور مولانا اسماعیل صاحب کے ہمراہ تمام رفقاء سفر نے قیام گاہ ہی پر دوپہر کے کھانے اور قیلولہ سے فارغ ہوئے۔ اور اگلے دن کے دیگر پروگرامات کا مشورہ ہوا۔

(اگلی قسط میں پڑھیں :: دیگر اضلاع کے مہمانان اور لاتور کے علماء کرام کی حضرت شاہ ملت سے ملاقات اور گفتگو کی روداد)