اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: May 2018

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 31 May 2018

سینٹرل پبلک اسکول مبارکپور کی چھاترا کماری ممتا موریہ نے 91٪ فیصد حاصل کر اسکول کی ٹاپر بنی!

جاوید حسن انصاری
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/مئی 2018) ریشم نگری مبارکپور کے حسین آباد میں واقع علاقے کا مشہور اسکول سینٹرل پبلک اسکول میں CBSE بورڈ ہائی سکول کا رزلٹ کافی اچھا رہا جس میں اسکول کی چھاترا کماری ممتا موریہ نے 91٪ پوائنٹس حاصل کر ٹاپ کر اسکول اور ضلع کے نام روشن کیا،
انہوں نے 95٪ ہندی میں، 94 فیصد سوشل سائنس، 92٪ انگریزی میں، سائنس میں 90 فی صد، 84٪ سائنس میں حاصل کیا.
سینٹرل پبلک اسکول کے بانی اياز احمد خاں، پرنسپل ریکھا سنگھ نے بتایا کہ سینٹرل پبلک اسکول مبارکپور دسویں کلاس سیشن 2017 - 18 رزلٹ سو فیصد رہا اس طرح کل 455 پوائنٹس حاصل کیا ہے چھاترا ارم انجم نے 90.6٪ پوائنٹس حاصل کیا، اور منیش کمار یادو نے 85.2 فیصد لاکر تیسری پوزیشن حاصل کی.
اس موقع پر سینٹرل پبلک اسکول کے بانی اياز احمد خاں اور نواز احمد خاں، ریکھا سنگھ نے اسکول اور ضلع کے کامیاب طلبہ و طالبات کو مبارک باد دی ہے.

بلریاگنج تھانہ: رات میں معشوقہ سے ملنے عاشق پہنچا اس کے گاؤں، ہوگئی شادی!

حافظ ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/مئی 2018)  بلرياگج تھانہ علاقہ کے گرام پنچایت چھچھوری میں گزشتہ رات ایک عاشق اپنی گرل فرینڈ سے ملنے اس کے گھر پہنچا، رات میں گاؤں والوں کو اس کی بھنک لگ گئی، دیہاتیوں نے اسے پکڑ کر بند کر دیا اور اس کی اطلاع گرام پردھان کو دیا، گرام پردھان محمد حماد نے عاشق اور گرل فرینڈ سے چوری چھپے ملنے کا راز جانا،
اس کے بعد دونوں کی شادی کرنے کی بات پوچھی دونوں نے اپنی مرضی سے شادی کرنے فیصلہ گرام پردھان کو سنایا، گرام پردھان نے جب اس کی معلومات دیہاتیوں کو دی تو گاؤں کے کچھ لوگ گرام پردھان سے خفا ہوکر پولیس کو اطلاع دے دی موقع پر پہنچی 100 نمبر ڈائل کو جب پتہ چلا لڑکے اور لڑکی دونوں شادی کے لئے راضی ہیں تو پولیس بھی وہاں سے چلتی بنی صبح ہوتے ہی گرام پردھان نے لڑکے کے باپ کو اور اس ماما کو اور اس کے تمام رشتہ داروں کو اطلاع دے کر بلایا اور گاؤں میں بنی بھیم راؤ امبیڈکر کی مورتی کے سامنے دونوں کی شادی کرا دی، بودھ دھرم کے مطابق دونوں پریمی شادی کے بندھن میں بندھ گئے.
واضح ہو کہ لڑکی آشاپری بیٹی ستی رام(سورگی) گرام چھچھوری تھانہ بلرياگج لڑکا سومیت کمار بیٹے بہادر رام گرام پنچایت راگھوپور تھانہ مہراجگنج کے رہائشی ہیں، شادی کے موقع پر  جہاں گاؤں کی دیہی عورتیں گیت گایا، وہیں گاؤں کے پردھان محمد حماد نے زیور کپڑا اور مٹھائیاں دیکر کنیادان کیا، گاؤں کے اور لوگوں نے دولہا دلہن کو خوشی خوشی ان کے گھر وداع کیا.

میوات میں آگ زنی سے متاثرہ روہنگیائی مسلمانوں کی باز آبادکاری کی کوششیں جاری!

محمد ساجد کریمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
ہریانہ/ضلع نوح(آئی این اے نیوز 31/مئی 2018) میوات کے گاؤں فروز پور نمک میں رہائش پذیر روہنگیائی مہاجرین کی  مسجد سمیت تقریباً 57 جھونپڑیاں بجلی کے تاروں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے  نذر آتش  ہوگئی تھیں، ریسکیو ادارے کے جائے حادثہ پر پہنچ کر امدای کارروائی کا آغاز کرنے سے پہلے ہی تمام جھگیاں خاکستر ہوچکی تھیں، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
یہ ناگہانی حادثہ  27 مئی بروز اتوار تقریباً دن کے دو بجے فروز پور نمک میں رہائش پذیر مہاجرین کی جھونپڑیوں کے پاس سے گذر رہی بجلی لائن کے تاروں کے آپس میں ٹکرانے سے چنگاریوں کے گرنے سے رونما ہوا، جس سے  ایک ایکڑ  پنچایت کی اراضی پر بسے مہاجرین کی رہائشوں کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام جھگیاں خاکستر ہوگئی۔
روہنگیائی مہاجرین کے اس مشکل وقت میں جمعیة علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل پردیش و چنڈی گڑھ اپنا ممکنہ تعاون پیش کرنے کے لئے اول دن سے ہی کوشاں ہے اور مہاجرین کو اس ناقابل فراموش صدمہ سے نکالنے کے لئے دوروز قبل  کپڑے اور دیگر ضروری اشیاء تقسیم کی تھی اور  اسی مقصد سے  مولانا یحییٰ کریمی صدر جمعیتہ علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل و چندی گڈھ نے ایک مؤقر وفد کے ہمراہ آج بروز بدھ دوبارہ جائے حادثہ کا دورہ کیا اور 57 متاثرہ خاندانوں کو ایک ایک بیگ سپرد کیا جسمیں کھانے پکانے کے برتن اور چند ایام کی خوراک کے علاوہ دیگر ضروری اشیاء تھیں اور ساتھ میں نقدی کی شکل میں بھی تعاون کیا۔
 مولانا یحییٰ کریمی صاحب نے تمام اہل میوات سے دوبارہ  اپیل کی ہےکہ اپنے بے سہارا مہاجر بھائیوں کی  مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ  لیں۔
اس وفد میں شامل جمعیة علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل و چندی گڈھ کے عہدہ داران میں سے مولانا عبد المجید صاحب سنگار، مولانا عبد الرحمن صاحب لہرواڑی،قاری علی محمد رانوتہ قاری محمد اسلم صاحب  صدر جمعیتہ علماء گوڑگانواں، مولانا محمد صابر مظاہری اور قاری ناظر الحق کریمی حافظ محمد عاصم صاحب بڈیڈ حنیف سرپنچ چدینی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

Wednesday 30 May 2018

خدمت خلق دنیا کی سب سے اہم عبادت: شاہنواز بدر قاسمی

طیب ٹرسٹ دیوبند کی جانب سے سہرسہ کے کوسی علاقہ میں رمضان فوڈ پیک تقسیم.

سہرسہ(آئی این اے نیوز 30/مئی 2018) ملکی سطح پر مختلف سماجی وفلاحی کاموں میں سرگرم معتبر و مشہور ادارہ ”طیب ٹرسٹ دیوبند” کی جانب سے سہر سہ کے بوہروا مدرسہ میں کوسی علاقہ کے بھلاہی، بوہروا، للجہ، لچھمیناں، کمہرہ، مہیش پور، منسرہ سمیت کئی گاؤں کے۲۰۰؍مستحق خاندانوں کے مابین رمضان فوڈ پیک کی شکل میں ایک مہینہ کا راشن تقیسم کیا گیا، جن میں زیادہ تر ایسی بیوائیں اور ضرورت مند تھے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، ان تمام مستحقین کی نشاندہی مقامی تنظیم اصلاحی فاونڈیشن اور گاؤں کے ذمہ داران کے ذریعہ مشترکہ سروے رپورٹ کی بنیاد پر کی گئی تاکہ حقیقی ضرورت مندوں تک یہ راحتی اشیاء پہنچ سکے، تقسیم کاری تقریب میں کئی معززین، مقامی علماء اور سماجی کارکنان نے شرکت کی۔
اس موقع پر طیب ٹرسٹ کے ترجمان شاہنوازبدرقاسمی (ایڈیٹرتازہ ترین ریڈیو) کہا کہ خدمت خلق دنیا کی سب سے اہم عبادت ہے اور اللہ پاک کو یہ کام بیحد پسند ہے، مخلوق کی خدمت کرکے خالق کو راضی کرنا سب سے آسان نسخہ ہے، جسے ہم سب کو کرنا چاہیے، انہوں نے کہاکہ کوسی کمشنری کایہ علاقہ ہندوستان کاسب سے زیادہ پسماندہ اور بدحال ہے یہاں کی عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں فلاحی کاموں کے کرنے سے دلی سکون اور خوشی ملتی ہے، اس علاقہ میں آج بھی ایسی غربت اور تکلیف ہے جسے دیکھ کر یقین نہیں آتا، مسلم اکثریتی یہ علاقہ ایک طویل عرصہ تک آمد و رفت کے اعتبار سے دنیا سے کٹا رہا، لیکن کوسی ندی پر پل جانے کے بعد بھی خوشحالی اور روزگار کے جو مواقع ہونے چاہیے وہ نہیں مل پارہا ہے، شاہنواز بدر نےکہاکہ سہرسہ کا یہ علاقہ ہمیشہ حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے دن بدن پسماندگی کا شکار ہوتا چلا گیا، یہاں کے نوجوان اور نئی نسل بڑی تعداد میں اعلی تعلیم اور روزگار کیلئے بھٹک رہے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے، انہوں نے کہاکہ طیب ٹرسٹ اس سے قبل بھی کئی مواقع پر یہاں کے بے سہارا اور ضرورت مندوں کیلئے کام کرتارہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علاقہ کی پسماندگی کے خاتمہ کیلئے حکومت کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرے اور ساتھ ہی ملی تنظمیں اور تعلیمی ادارے تعلیم اور صحت کے میدان میں اہم کام کریں تاکہ نئی نسل کامستقل روشن اور تابناک ہوسکے، تنظیم اصلاحی فاونڈیشن کے صدر نعیم صدیقی نے طیب ٹرسٹ کے اس کارخیر اور کوششوں کو سراہتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس علاقہ میں اور زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے.
اس موقع پر مولانا آیت اللہ رحمانی مہتمم جامعہ اصلاح البنات نجم الہدی، ماسٹر عبدالحنان، محمد سہیل، مکھیاحیات اللہ، مولانا ہدایت اللہ، ماسٹر مختار عالم، ممتاز عالم، امتیاز عالم وغیرہ موجود رہے.

سینٹرل پبلک اسکول جعفر پور اعظم گڑھ میں فلک ایاز خان نے CBSE بورڈ ہائی اسکول میں 96.2٪ پوائنٹس حاصل کر پورے اسکول کی ٹاپر بنی!

جاوید حسن انصاری
ــــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/مئی 2018) اعظم گڑھ ضلع کے ہیڈکوارٹر پر واقع جعفر پور سینٹرل پبلک اسکول کا CBSE بورڈ دسویں کلاس کا رزلٹ 99.7٪ فیصد رہا اور اسکول کی دسویں کلاس کی طالبہ سینٹرل پبلک اسکول کے بانی اور چئرمین ایاز احمد خان کی بیٹی فلک ایاز خان نے 96.2 فیصد حاصل کرنے کے بعد اسکول کی ٹاپر بنی، جس نے پورے اسکول اور ضلع نام روشن کیا، انہوں نے سائنس میں 97٪ سماجی سائنس میں 99٪ انگلش میں 95٪ ہندی میں 95٪ گن میں 95٪ اس طرح کل 481  نمبر حاصل کیا.
 دسویں کلاس کی طالبہ فلک ایاز خان کے ٹاپر بننے سے پورے اسکول میں جشن کا ماحول رہا، خاص کر فلک کے والد اياز خان والدہ ترنم خانم اور بھائی ڈائریکٹر نواز احمد خاں بہت خوش نظر آئے اس کامیابی پر تمام ٹیچروں مبارک ملی.
اسی طرح جعفر پور سینٹرل پبلک اسکول میں دسویں کلاس میں پاس ہونے والے نیرج یادو 94.4٪ پوائنٹس، فاطمہ خان نے 92.2٪ پوائنٹس حاصل کر تیسرے نمبر پر نیہا گپتا نے 91.4٪ اور پارول سنگھ اور اشوانی پانڈے نے یکساں طور پر 90.8٪ پوائنٹس پایا.

Tuesday 29 May 2018

مولانا عبدالرشید صاحب دامت برکاتہم کے حجرہ میں تراویح، پہلے عشرے میں قرآن پاک کی تکمیل!


محمد امین الرشید سیتامڑھی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/مئی 2018) عارف باللہ حضرت اقدس مولانا عبدالرشید صاحب المظاہری دامت برکاتہم خلیفہ و مجاز بیعت فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمت اللہ علیہ  شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ کے حجرہ شریفہ میں تراویح میں قرآن پاک مکمل ہوا.
حضرت کے یہاں عشرہ اول میں تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا کئی سالوں سے اہتمام چل رہا ہے(جسکے قاری حضرت کے صاحبزادے مفتی عبدالماجد رشیدی ہوتے ہیں جو حافظ ہونے کے بعد مسلسل  ۱۱ سالوں سے تراویح سنانے کا اہتمام کررہے ہیں) چونکہ دوسرے عشرہ میں  حضرت ملک و بیرون ملک  کے کسی بھی اطراف میں اعتکاف فرما تے ہیں اور آخری عشرہ کا اعتکاف اپنے شہر اعظم گڈھ کی کسی جامع مسجد میں فرماتے ہیں اعتکاف کا یہ سلسلہ گذشتہ ۳۵ سالوں سے مسلسل  جاری ہے جسمیں حضرت کے متوسلین و مسترشیدین کا ہجوم ہوتا ہے، جو اصلاح نفس کی غرض سے حاضر ہوتے ہیں  اور الحمد للہ فائدہ بھی خوب نظر آرہا ہے، امسال ان شاءاللہ العزیز عشرہ اخیرہ کا اعتکاف جامع مسجد مدرسہ نجم العلوم پھول پور اعظم گڈھ میں فرمائیں گے.
 اللہ تعالی حضرت کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور حضرت کے سایہ عاطفت کو امت کے سر پر صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر قائم رکھے. آمیـــــن

پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے!

رمضان میں خطبہ جمعہ 2

محمد غالب فلاحی اعظم گڑھ یو پی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج ہر کوئی مسلمانوں کی پستی کا رونا رو رہا ہے ہر جگہ مسلمانوں کے انحطاط و زوال کے چرچے ہیں تہذیبی، ثقافتی، سماجی، سیاسی، اقتصادی، معاشی، اخلاقی روحانی ہر قسم کا انحطاط ہر قسم کی خرابیاں مسلمانوں میں موجود ہیں ہر جگہ مسلمان تنزلی کے شکار ہیں مسلمانوں کی پستی کا رونا رونے اور اس کا تذکرہ کرنے والے غلط نہیں کہتے بلکہ ان کی باتیں حق و صداقت پر مبنی ہیں یہ اک الگ مسئلہ ہے اس کو ہم دوسرے نظریہ سے دیکھتے ہیں اور اس میں مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت ہے.
مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں ہیں مسلمانوں کا پستی و انحطاط کا شکار ہونا اسلام کے انحطاط کی دلیل نہیں مسلمانوں کی تنزلی اسلام کی تنزلی نہیں مسلمانوں کا کمزور ہونا اسلام کی کمزوری نہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسلام کے عملی  مظاہر مسلمان ہیں مسلمانوں کی پستی و تنزلی کا ذمہ دار اسلام نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے مسلمانوں کا اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالنا ہے مسلمانوں کی طریقہ زندگی اسلامی طریقہ پر مبنی نہیں مسلمانوں کا اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہونا ہے اس لیے انحطاط کے شکار ہیں اس لیے پیچھے ہو گئے اس لئے کامیاب نہ ہو سکے.
جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں کہ ماضی میں مسلمان کامیاب کیوں ہوے؟ کامیابی و فتحمندی نے ان کے قدم کیوں چومے؟ اس کی صاف وجہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ نام نہاد مسلمان نہیں تھے بلکہ وہ سچے مسلمان تھے وہ اسلام کی چلتی پھرتی تصویر تھے دنیا ان کو دیکھ کر اسلام کو سمجھ لیتی تھی ان کے طور طریقوں سے اسلام کے طور طریقوں کا پتا چلتا تھا ان کی زندگی، ان کے اعمال، ان کے اخلاق و کردار اسلام کی تبلیغ کرتے تھے.
اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سرداران قریش کے حربے سے اور باطل طاقتوں سے مغلوب نہ ہو سکا اور نہ ہی تاتار کے فتنے اور اندلس کے سقوط سے مغلوب ہو سکا اور نہ ہی کسی ملک کی سامراجیت اور کسی نظام جبر سے مغلوب ہو سکا.
ولا تهنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون إن كنتم مؤمنين
ترجمہ: ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو اور تم ہی سر بلند رہو گے بشرطیکہ تم مومن ہو.
حوادث زمانہ اور مصائب و آلام کی یلغار کے باوجود اسلام ساری دنیا میں پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے دنیا کی کوئی بھی طاقت اسلام کے قدم کو نہیں روک سکتی اسلام کے مٹانے والے خود مٹ گئے دنیا کی تمام باطل طاقتیں، حوادث زمانہ، اسلام دشمن عناصر، بڑے سے بڑے مفکرین، سیاستدان، حاسدین خواہ کتنی کوششیں کر لیں اسلام کے غلبے کو نہیں روک سکتیں اسلام کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائے گی اتنا پھلے پھولے گا کیونکہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے مغلوب ہونے کے لئے نہیں.
اللہ کو اسلام کی بقا منظور ہے اسلام دنیا کے آخری دن تک باقی رہے گا بدکردار اور بے عمل نام نہاد مسلمان ختم ہو سکتے ہیں لیکن اسلام نہیں جب مسلمان اسلام کی اشاعت کرنا چھوڑ دیں گے اپنے عہد سے منھ موڑ لیں گے اسلامی احکام کی دھجیاں اڑائی جائیں اور مسلمانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگے اسلامی تعلیمات کو پیروں تلے روندا جائے اور مسلمانوں کے خون میں کھلبلی نہ مچے تب اللہ تعالٰی ایسی قوم کو نیست و نابود کر دیتا ہے اور ان کی جگہ دوسری قوم کو لاتا ہے
وان يتولوا يستبدل قوما غيركم ثم لا يكونوا أمثالكم (محمد)  اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ تعالٰی تمہاری جگہ دوسری قوم پیدا کر دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے.
بلکہ اللہ مسلمان دشمن قوموں کو ہی اسلام کی دولت سے مالا مال کر دے اور انھیں کو اسلام کی بقا و تحفظ کا ذریعہ بنا دے.
تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہوا ہے فتنہ تاتار میں اپنے وقت کی سب سے بڑی دشمن اسلام قوم تاتاریوں کا مسلمان ہو جانا یہ تاریخ کی ایک روشن مثال ہے وہی تاتاری جنہوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا جنہوں نے مسلمانوں کی کھوپڑیوں کے اونچے اونچے مینار بنائے خود کو سب سے بڑا دشمن اسلام ثابت کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا وہی اسلام کے متبع ہو گئے اسلام پھیلانے اور اس کی اشاعت کرنے والے ہو گئے اور اسلام کا محافظ بننے کے لیے مضطرب ہو گئے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
          ـــــــــــــعــــــــــ
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئےکعبہ کو صنم خانے سے

مسلمانو!
اپنے مقام کو پہچانو اللہ نے ہمیں ایک عظیم کام کے لیے چنا ہے ہم چنندہ لوگ ہیں ہمارا مقام بہت بلند و ارفع ہے یہ اللہ کا احسان ہے ہم اس کی احساس فراموشی نہ کریں ہم اپنا محاسبہ کریں اور جو خامیاں ہمارے اندر ہیں اس کو دور کریں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں اسی میں ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پوشیدہ ہے.

لالو یادو سے سید محمد اقبال نے ایشین ہارٹ اسپتال میں کی ملاقات!

محمد صدر عالم نعمانی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
ممبئی(آئی این اے نیوز 29/مئی 2018) راشٹریہ جنتادل کے قومی صدرسابق مرکزی وزیر ریل و سابق وزیر اعلی بہار لالو پرساد یادو جو ان دنو ں علیل ہیں، علاج کیلئے ممبئی کے ایشین ہارٹ اسپتال میں داخل ہیں، ان سے راشٹریہ جنتادل کے قومی سکریٹری، و ممبئی، مہاراشٹرا، اور گوا کے پارٹی امور کے انچارچ قد آور مسلم رھنما الحاج سید محمد اقبال پارٹی کارکنان کے ایک نمائندہ وفد کے ساتھ ایشین ہارٹ اسپتال میں جاکر لالو یادو سے ملاقات کی اور 25منٹ تک ان سے صحت سے متعلق جانکاریاں لی.
اس موقع پر راشٹریہ جنتادل کی راجیہ رکن میسا بھارتی، سابق وزیر صحت حکومت بہار تیج پرتاب یادو، ایم ایل سی بھولا یادو سے بھی لالو جی کے صحت کے بارے میں جانکاری لی اور ان کے جلد صحتیابی کی دعا کی.
اس نمائندہ وفد میں ممبئی راشٹریہ جنتادل کے صدر محمد ایوب امین، محمد انظار شیخ، اکبرعلی خان، اشوک سنگھ، محترمہ گیان دیوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہے.

حضرت مولانا مفتی منظور احمد صاحب کی والدہ کا انتقال!

عبدالماجد بھیروی
ـــــــــــــــــــــــــ
بھیرہ/مئو(آئی این اے نیوز 29/مئی 2018) حضرت مولانا مفتی منظور احمد صاحب بھیروی کی والدہ محترمہ کا گزشتہ کل تقریباً دوپہر 03:30 بجے انتقال ہوگیا ہے،انا للہ وانا الیہ راجعون
مرحومہ ایک نیک اور صالحہ خاتون تھیں پوری زندگی اللہ تعالی کی عبادت میں گزاردی، اللہ نے مرحومہ کو بڑی طویل عمر عطاء فرمائی تھی تقریباً 110 سال کی عمر تھی، مرحومہ زیادہ دنوں سے بیمار چل رہی تھیں دو تین دن سے طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تھی، گزشتہ 28/مئی کو دوپہرساڑھے تین بجے کے قریب دنیا فانی کو الوداع کہہ دیا.
مرحومہ کی نماز جنازہ بعد نماز تراویح ساڑھے دس بجے بھیرہ قبرستان میں ادا کی گئی، جنازے کی نماز حضرت مفتی منظور صاحب نے پڑھایا.
 دعاء کریں کہ اللہ تعالی مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوش میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمیـن

میوات میں رہائش پذیر روہنگیائی مسلمانوں کی رہائشیں جل کر خاک، مولانا یحییٰ کریمی جمعیة علماء کے وفد کے ہمراہ تعاون کے لئے پہنچے!

محمد ساجد کریمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
ہریانہ ضلع نوح/میوات(آئی این اے نیوز 29/مئی 2018) ضلع نوح کے گاؤں فروز پور نمک واقع دہلی الور شاہ راہ سے متصل چندینی روڈ پر روہنگیائی مہاجرین کی بانس بلیوں کی مسجد سمیت تقریباً 57 جھونپڑیاں بجلی کے تاروں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے اٹھنے والی چنگاریوں کے باعث نذر آتش ہوگئی ہیں.
واضح رہے کہ ریسکیو ادارے کے فوری طور پرجائے وقوعہ پر پہنچ کر امدای کارروائی کا آغاز کرنے سے پہلے ہی تمام جھگیاں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھی تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔
یہ ناگہانی حادثہ گزشتہ روز بروز اتوار تقریباً دن کے دو بجے فروز پور نمک میں رہائش پذیر برمی مہاجرین کی جھونپڑیوں کے پاس سے گذر رہی 33KV لائن کے تاروں کے آپس میں ٹکرانے سے انگارے جھونپڑیوں پر جاگرے جس سے پورے ایک ایکڑ  پنچایت کی اراضی پر بسے مہاجرین کی رہائشوں کو آگ نے لپیٹ میں لے لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام جھگیاں خاکستر ہوگئی۔
روہنگیائی مہاجرین کے اس مشکل وقت میں جمعیة علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل پردیش و چنڈی گڑھ اپنا ممکنہ تعاون پیش کرکے مہاجرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کررہی ہے، اسی مقصد سے مولانا یحییٰ کریمی صدر جمعیة علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل و چندی گڈھ ایک مؤقر وفد کے ہمراہ بروز پیر جائے حادثہ کا دورہ کرکے کپڑے اور دیگر ضروری اشیاء کی شکل میں روہنگیائی مہاجرین میں تقسیم کی، اور باقی ضروری چیزیں جلد ہی تقسیم کی جائیں گی۔
اور مولانا نے تمام اہل میوات سے اپیل کی ہےکہ بے سہارا مہاجرین کی لازما ممکنہ مدد کریں اور  ماہ رمضاں المبارک میں  اجر عظیم کا مستحق بنیں۔
اس وفد میں شامل جمعیة علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل و چندی گڈھ کے عہدہ داران میں سے مولانا عبد المجید صاحب سنگار، مولانا عبد الرحمن صاحب لہرواڑی، قاری علی محمد رانوتہ قاری محمد اسلم صاحب  صدر جمعیة علماء گوڑگانواں، مولانا محمد صابر مظاہری اور قاری ناظر الحق کریمی وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

اعظم گڑھ وکاس سنگھرش سمیتی کے بینر تلے گنگا ندی کے طرز پر تمسا ندی کی صفائی کا کیا گیا مطالبہ!

حافظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/مئی 2018) گنگا ندی کی طرز پر تمسا ندی کی صفائی کرنے و آٹھ نکاتی مطالبات کو لے کر اعظم گڑھ وکاس سنگھرش سمیتی کے بینر تلے هریکیش کمار یادو کی قیادت میں ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا گیا.
ہریکیش کمار یادو نے کہا کہ ضلع کے تمسا ندی حکومت اور انتظامیہ کی نظر انداز کی وجہ سے اس کا وجود ختم ہونے کو ہے، اس کے لئے نگر پالیکا انتظامیہ بھی کم ذمہ دار نہیں ہے، تمسا ندی کے پانی مکمل طور پر آلودہ ہورہا ہے، اس نے نالی کی صورت اختیار کر لی ہے، ضلع انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے ندی کے کنارے غیر قانونی گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہزاروں گھر ندی کے کنارے بنے ہوئے ہیں، کھیتوں کی سینچائی اسی ندی کے پانی سے ہوتی آرہی ہے، لیکن نگر پالیکا انتظامیہ اب لاپرواہی دکھا رہی ہے، جس سے پانی مکمل طور پر آلودہ ہوگیا ہے، ندی میں بڑھتی ہوئی آلودگی اور نظراندازی کی وجہ سے ندی خشک ہونے لگی ہے، ضلع انتظامیہ کی طرف سے ندی کے وجود کو بچانے کے لئے اب تک کوئی بھی ضروری قدم نہیں اٹھایا گیا ہے جبکہ حکومت ندیوں اور دریاؤں کے تئیں سنجیدہ ہے.
اعظم گڑھ وکاس سنگھرش سمیتی نے مطالبہ کیا کہ گنگا ندی کی مانند ہی تمسا ندی کی بھی صفائی کی جائے، ندی کے کنارے پر واقع درواسا، چدرما ترشی اور دتاتریہ دھام کو سیاحتی مقام کے طور پر جلد سے جلد تیار کیا جائے، ندی کے کنارے ہو رہے غیر قانونی تعمیر بند کیا جائے.
اس موقع پر جتیندر یادو، سنتوش، نوتیج، اوما شنکر، پپو، ترون، رامشكل وشوکرما، سنجے، وریندر كنوجيا، شاہ عالم، راجو، رنجن نشاد وغیرہ موجود تھے.

Monday 28 May 2018

ماہ رمضان المبارک انسانوں کی زندگیوں کو سنوارتا ہے!

رمضان میں خطبہ جمعہ!

خطبہ ١

ماہ رمضان المبارک انسانوں کی زندگیوں کو سنوارتا ہے
                       
تحریر: محمد غالب فلاحی اعظم گڑھ یوپی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ماہ رمضان المبارک اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کو اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کو دی گئی ہے نبی کریم اس نعمت کی آمد سے قبل ہی اس کی تیاری میں لگ جاتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی اہمیت و فضیلت بتایا کرتے تھے ماہ رمضان المبارک بڑی اہمیت کا حامل ہے اس ماہ کے آتے ہی تمام سرکش شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں اور جہنم کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں یہ ماہ رحمت، مغفرت اور تحریق جہنم سے آزادی کا ہے یہ ماہ ہمیں کئی چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہے.
الف:- ماہ رمضان المبارک ایک عظیم الشان مہینہ ہے اور  اللہ کا مہمان ہے ہمارا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ کے مہمان خصوصی کی بھرپور مہمان نوازی کریں اور اس کے آمد پر ہم غم میں مبتلا نہ ہوں بلکہ اس کا تہ دل سے استقبال کریں.
ب:- ماہ رمضان المبارک آتا ہے تا کہ وہ انسانوں کو متقی و پرہیزگار بنائے (يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون) اور یہی اس مہینے کی آمد کا مقصد ہے.
ج:- ماہ رمضان المبارک عبادت کے صحیح مفہوم کو واضح کرتا ہے کہ عبادت صرف چند اعمال (نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ) کا نام نہیں جیسا کہ مسلمانوں کے سامنے جب بھی عبادت کا لفظ آتا ہے یہی چند اعمال گردش کرنے لگتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ چند چیزیں عبادت کا جزء ہیں صرف اسی کا نام عبادت نہیں بھوکوں کو کھانا کھلانا، پیاسوں کو پانی پلانا، لوگوں سے اچھا سلوک کرنا، لوگوں کی مدد کرنا، امر با المعروف ونھی عن المنكر کا حکم دینا، لوگوں کے حقوق کو ادا کرنا وغیرہ وغیرہ یہ تمام چیزیں عبادت کا جزء ہیں اور یہ ہمیں ماہ رمضان المبارک یاد دلاتا ہے.
د:- اللہ سے قربت کے ایام ہیں اللہ کے حقوق کو جاننا اور اس کو بجا لانا اللہ کی نافرمانیوں سے بچنا اللہ کی کبریائی و عظمت کو بیان کرنا اللہ سے اپنے رشتے کو مضبوط کرنا.
ہ:- ماہ رمضان دراصل ماہ قرآن ہے اسی ماہ مبارک میں قرآن پاک کا نزول ہوا جس کی وجہ سے اللہ رب العزت نے ہم کو اس عظیم نعمت (یعنی رمضان المبارک) کو عطا کیا تو ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم قرآن سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں اور قرآن کے جو حقوق(قرآن پر ایمان، قرآن کی تلاوت، قرآن کی تفہیم، قرآن پر عمل، قرآن کی تبلیغ) ہم پر عائد ہوتے ہیں ہم ان کو ادا کریں اور قرآن ہمارا دستور ہے اور یہی دنیا کا واحد قانون ہے جس کی تنفیذ ہم پر فرض ہے اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے.
و:- ماہ رمضان المبارک ہمیں ہمارے مقصد وجود کی طرف توجہ دلاتا ہے بلکہ ہمیں ہمارے مقصد وجود سے واقف کراتا ہے کہ ہم مسلمانوں کا مقصد بہت بلند و ارفع ہے جو انبیاء کرام کا مقصد تھا وہی ہمارا مقصد ہے یعنی اقامت دین(هو الذي أرسل رسوله با الهدى و دين الحق ليظهره على الدين كله و لو كره المشركون) اور یہی نبی کریم کا  مقصد وجود تھا نبی کریم سے محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ان کے مقصد وجود کو اپنا مقصد وجود بنایا جائے.
ی:- ماہ رمضان المبارک غم گساری کا مہینہ ہے جو بے قصور نوجوان سلاکھوں کے پیچھے قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا ہیں (جیسے ہمارے آعظم گڑھ میں بینا پارا کے مفتی ابو البشر، خالص پور کے سیف، چاند پٹی کے سرور جیسے بے شمار نوجوان) ان کو یاد کرنے کی ضرورت ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جا رہے مظالم کو یاد کرنے کی ضرورت ہے اور جن کا کوئی پرسان حال نہیں ان کو یاد کرنے کی ضرورت ہے اور بے قصور نوجوانوں کی رہائی کے لیے لڑ رہیں تحریکات کو یاد کرنے کی ضرورت ہے.
ء:- ماہ رمضان دعاؤں کا مہینہ ہے اس ماہ میں ہم اللہ سے اپنی مغفرت اور تحریق جہنم سے آزادی کی بھیک مانگیں اور جو لوگ غلبہ دیں کے لیے کوشاں ہیں ان کے لیے دعا مانگیں اور بے قصور نوجوانوں کی رہائی کے لیے دعا مانگیں وغیرہ.

قرآن پاک کو سمجھنے کی کوشش کریں مسلمان: مفتی فضل الرحمٰن الہ آبادی

تکمیل قرآن کریم کی مجلس میں مفتی الہ آبادی نے قرآن پاک سمجھنے کی تلقین کی.

مئوآئمہ/الہ آباد(آئی این اے نیوز 28/مئی 2018) قرآن مکمل دستور حیات ہے، زندگی سے لے کر موت تک کے تمام شعبوں کے اندر رہنمائی قرآن کرتا ہے، مذکورہ خیالات کا اظہار نوجوان عالم دین مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی نے مئوآئمہ قصبہ سے متصل برتال پر تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کے بعد منعقدہ مجلس میں کیا، انہوں نے کہا یقینا قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے پابندی کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کی، ان کے نامہ اعمال میں بیشمار نیکیوں کا اضافہ ہوگا.
مفتی الہ آبادی نے کہا قرآن کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم قرآن کو صحیح انداز میں پڑھیں، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مسلمان قرآن سے کافی دور ہوگیا، مفتی فضل الرحمان نے مسلمانوں سے قرآن سمجھنے کی تلقین کی، انہوں نے کہا آج ہماری پستی اور ذلت کی اہم وجہ یہی ہے کہ ہم قرآن سے دور ہوگئے ہیں، قرآن سے ہمارا رشتہ کمزور ہوگیا ہے، ہم انگلش اور دوسرے علوم فنون سیکھنے میں خوب محنت اورروپیہ پیسہ خرچ کرتے ہیں، لیکن افسوس کبھی ہمیں یہ فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ ہم اس بات کے جاننے کی کوشش کریں کہ ہمارا رب قرآن میں ہم سے کیا خطاب فرمارہا ہے، مفتی قاسمی نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہمارے ایمان کے تازگی تبھی پیدا ہوگی جب ہم قرآن کو سمجھیں گے، مفتی الہ آبادی نے شب قدر میں عبادت کی تلقین کی، انہوں نے کہا رمضان کے مابقیہ عشرے کی مکمل قدردانی کریں، نماز کی پابندی کریں، قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کریں.
 غورطلب ہو کہ حافظ محمد شاداب نے تراویح میں قرآن کی تکمیل کیا، مجلس کا آغاز قاری محمد ولید صاحب کی تلاوت سے ہوا، حافظ محمد اخلاق، محمد فاتر، کیف حمزہ، حافظ محمد شاداب اور کثیر تعداد میں  لوگ موجود رہے، مفتی فضل الرحمان کی رقت آمیز دعا پر مجلس کا اختتام ہوا.

مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام روشن گڑھ میں کفن کاٹنے کا ٹریننگ کیمپ کا انعقاد!

محمد دلشاد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
روشن گڑھ/باغپت(آئی این اے نیوز28/مئی 2018) ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ کے مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام میں یک روزہ کفن کاٹنے کا ٹریننگ کیمپ لگایا گیا، جس میں مردوں اور عورتوں و طلبہ و طالبات مدرسہ ھذا کفن کاٹنے کا مکمل طریقہ و غسل دینے کا سکھلایا گیا، جس کی سرپرستی مفتی محمد دلشاد قاسمی ناظم مدرسہ ھذا نے فرمائی، انہوں نے کہا کہ آج ان چیزوں سے بہت ہی غفلت برتی جارہی ہے جس کی بنا پر طلبہ و طالبات مدارس فارغ بھی ہوجاتے ہیں، مگر عملی مشق نہ ہونے کی وجہ سے صحیح طریقہ نہیں آپاتا، جس میں بعض دفعہ شرمندگی بھی اٹھانی بھی پڑتی ہے، اس لیے انہوں نے کہا ایسی چیزوں کو ہمیشہ عملی مشق کے طور پر سیکھا جائے، اور انہوں نے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے یہاں طلباء کو ایسی چیزوں کو عملی مشق کراکے سکھلائیں، اور امت مسلمہ کے افراد میں دین کی صحیح ہیئت کو رائج کیا جائے.
انہوں نے بتایا کہ شوال المکرم کے دوسرے ہفتہ میں اس کا انٹرویو بھی کرایا جائے گا تاکہ مکمل طور سے پتا لگایا جاسکے کہ صحیح استعداد پیدا ہوئی ہے یا نہیں، جو فیل ہوں گے ان کو دوبارہ ٹریننگ دی جائے گی.
اس موقع پر ماسٹر محبوب ماسٹر شوقین، مہتاب ٹیلر، حاجی حسین الدین، حافظ عبد القیوم اور تقریبا سو سے زائد طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور بستی کے دیگر افراد موجود رہے.

Sunday 27 May 2018

مسئلہ مسجد اقصٰی کے تحفظ کا اور نشہ IPL کرکٹ کا!

از: محمد آصف قاسمی سیتامڑھی
استاذ: مدرسہ ابی بن کعب تحفیظ القرآن الكريم گھاسیڑہ میوات
ــــــــــــــــــــــــــــ
        سر زمین فلسطين کے مسلمان قوم ایک طویل عرصے سے اسرائیلی فوجیوں کے ظلم واستبداد کی چکی میں پس رہی ہے ان کے جسم زخموں سے چور ہیں اور بدن خون سے لہو لہان، لیکن اپنے ایمان اور بیت المقدس کی آزادی کے عزم میں الحمد للہ انہوں نے کوئی کمی نہیں آنے دی، اس وقت فلسطین میں جو معرکہ آرائی جاری ہے اس میں ایک طرف دہشت گرد اسرائیلی فوج اپنے تمام ہتھیاروں کے ساتھ فلسطینی عوام کو نشانہ بنا رہی ہے تو دوسری جانب فلسطینی مسلمانوں کے نہتے نوجوان، بوڑھے، بچے اور خواتین اپنی آزادی کے لیے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں ، اس امریکی اور اسرائیلی سفاکی میں اب تک 70 فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے اور سینکڑوں فلسطینی باشندے زخموں سے نڈھال اسپتالوں میں موت و زیست کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہر گھر ماتم کدہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے مگر خون اور آنسو بیت المقدس کی بازیابی کے لئے استقامت کا کا م دے رہے ہیں، اور اب فلسطین کا بچہ بچہ آزادی کا علم لے کر اٹھ کھڑا ہوا ہے، فلسطین کے مسلمانوں نے واپسی کی کشتیاں جلا دی ہیں، اس لیے اب اسرائیلی بھیڑیے ان کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر انہیں خاموش نہیں کرسکتے
       گزشتہ چند دنوں کا تازہ ترین اسرائیلی حملہ سفاکی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، معصوم، بچے بے گناہ مرد اور عورتیں، سفید ریش بوڑھے اور روزہ دار فلسطینی شہری روزے اور نماز کی حالت میں اسرائیلی فضائیہ حملوں، بموں اور گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں .
 ہائے دلخراش مناظر، اہل فلسطین پر کی گئی اسرائیلی و امریکی دہشت گردی کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں اور قلب و جگر رنج و غم سے بھر جاتا ہے، ان دلدوز ہولناکیوں کو دیکھ کر آسمان لزر جاتا ہے اور زمین کانپ جاتی ہے مگر ان کے ساتھ اللہ کی نصرت اور مدد کا وعدہ شامل حال ہے کیونکہ مسلمانوں کو بھی دین متین کی طرح ابدیت حاصل ہے، اس قوم کو دنیا کی کوئی سفاک قوم یکسر ختم نہیں کر سکتی، یہ ایسی قوم ہے جس کا مقصود و مطلوب شہادت ہے، یہ بزدل قوم کی طرح چھپ چھپا کر جینے والی قوم نہیں، یہ شیر کا دل اور حق کی خاطر شاہین کا تجسس رکھنے والی قوم ہے، اس کو تم کہاں کہاں اور کتنے دنوں تک کچلو گے اس لیے باز آجاؤ اپنی جارحیت سے، رک جاؤ امن کے نام پر دہشت گردی سے اور بچو ظلم و ستم سے.
مسلمانوں کا شیوہ مصائب و مشکلات کے آگے سپر ڈالنا نہیں بلکہ مخالف لہروں سے لڑنا اور حالات کے رخ کو موڑنا ہے.
     ایک طرف نہتے فلسطینی عوام پر اسرائیلی دہشت گردوں کے مظالم ہر انتہا کو پار کر گئے ہیں تو دوسری طرف دنیا کی بے حسی افسوسناک اور شرمناک ہے، اس سنگین حالات میں مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری قوت و ہمت اور جرات و بسالت کے ساتھ فلسطینی مسلمان اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے آگے آئیں اور کھل کر اسرائیلی جارحیت اور امریکی تشدد کی مذمت کریں اور ضرورت پڑنے پر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اینٹ کا جواب پتھر سے دیں.
   چونکہ قرآن مجید نے مسلمانوں کے لیے صحیح موقف کو بالکل واضح کر دیا ہے سورہ نساء، آیت نمبر ٧٠ میں اللہ کا ارشاد ہے آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا دیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کوئی حامی و مدد گار پیدا کر.
       اس نازک وقت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پوری امت مسلمہ جو تقریباً ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل ہے اور ٥٦ مسلم ممالک ہیں، سب کے سب فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوجاتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا، سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی طاقتیں کہاں کھو گئیں ہیں ، ان کی ایمانی غیرت کہاں چلی گئی ہے اور دینی حمیت کیوں پژمردہ ہو گئی ہے اے کاش ان میں غیرت ایمان جاگ اٹھے اور مسلم ممالک اپنے اس بنیادی فریضے کی ادائیگی کے لیے آگے آئیں، آخر آزاد ملکوں کے مسلم حکمراں کیا سوچ رہے ہیں وہ تو بے بس نہیں البتہ بے حس اور بے حمیت ضرور ہیں خدایا ان کے دلوں میں غیرت ملی پیدا کر تاکہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں .
      ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ہمارا ایمانی رشتہ ہے، یہ ہمارے دینی بھائی اپنی اور قبلہ اول کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی آواز میں آواز ملائیں، ان کے لیے ہم جو کچھ کر سکتے ہوں کریں اور ان کےصبر و استقامت سے سبق حاصل کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو معاشرے میں عام کریں، مسجد اقصٰی کی آزادی کا شعور امت مسلمہ کے ہر ہر گھر تک پہنچائیں، بیت المقدس کی بازیابی کا احساس مسلمانوں کے ہر بچہ کے ذہن و دماغ میں جگانے کی کوشش کریں.
       لیکن صد افسوس ہے ہماری اپنی بے حسی پر، ہمیں اپنے فلسطینی بھائیوں کی کوئی خبر نہیں، ان پر کی جانے والی اسرائیلی دہشت گردی سے ہم لاعلم ہیں، زخموں سے کراہ رہے فلسطینی عوام کا ہمیں پتہ نہیں، وہاں کی بیواؤں اور یتیموں کی آہ و فغاں سے ہمارے مردہ دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا، وہاں کے بچے اور بچیوں کی چیخیں ہمیں سنائی نہیں دیتی .
ہمیں تو بس اپنی فکر ہے، ہم تو اپنے مقاصد کے حصول میں مصروف ہیں، ہمیں کیا لینا دینا ہے فلسطینیوں سے،روتے بلکتے وہاں کے بچے اور بچیوں سے، چیختے چلاتے مردوں اور عورتوں سے، وہاں کے زخمیوں کی کراہ سے، اور قبلہ اول کی آزادی کی پکار سے.
      اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہو گا کہ اس وقت مسئلہ ہے بیت المقدس کی آزادی کا جبکہ بھوت سوار ہے مسلم نوجوانوں پر کرکٹ کا، ہمارا ذہن و دماغ آئی، پی، ایل، کرکٹ کے نشے میں اس قدر مد ہوش ہوچکا ہے کہ ہمیں گرد و پیش کی کوئی خبر نہیں، ہرجگہ اور ہر طرف لوگوں کی زبانوں پر لایعنی کھیل کرکٹ کا تذکرہ ہے، سب تو سب سفید ریش بوڑھے بھی ٹیلی ویژنوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور مسلم نوجوانوں کا کیا پوچھنا وہ تو اس نشے میں بالکل مست ہیں، سفر ہو یا حضر، پیدل ہو یا سوار ہر حال میں اسی منحوس کھیل کے تذکرے ہیں عموماً یہ نوجوان نماز کے بعد مسجد کے باہر کھڑے ہو کر کرکٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے نہیں شرماتے، انتہا تو اس وقت ہوجاتی ہے جب امت مسلمہ کا مخصوص طبقہ (اہل علم اور حفاظ کرام) اس لہو و لعب پر لب کشائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.
 ذہن نشیں کر لو! فلسطین کی یہ ہولناک حالات اور دلدوز واقعات جاننے کے باوجود یہ تبصرے زوال کی علامت ہے.
      لیکن معاشرے اور سماج میں الحمد للہ ایسے نوجوان بھی موجود ہیں جن کے ایمان زندہ ہے اگر چہ ان تعداد بہت تھوڑی ہے، وہ فلسطینی عوام پر تبصرے کرتے ہیں اور ان کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ان کی مدد کی کے لیے کوشاں ہیں ، سلام ہو ایسے نوجوانوں پر
        ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس ماہ رمضان کی ان مبارک ساعات میں فلسطینی مسلمانوں کے حق میں دعائیں کریں، اور بجائے کرکٹ کے ان کے عزم حوصلے کی داستانیں مسلمانوں میں عام کریں تا کہ ناساز گار حالات میں ہم ثابت قدم رہ سکیں، اللہ سبحانہ تعالٰی اہل غزہ اور بیت المقدس کی حفاظت فرمائے اور ہر چہار جانب سے ان کی مدد فرما کر دنیا اور آخرت میں سرخروئی عطا فرمائے.آمیـــن

غلط خبر چلانے اور اپیل کو فتوے کا نام دینے سے مولانا حسیب صدیقی سخت ناراض!

دیوبند(آئی این اے نیوز 27/مئی 2018) جمعیۃ علماء ہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی نے نیوز چینلوں پر ان کے نام سے منسوب کرکے غلط خبر چلائے جانے اور اور اسی خبر کو فتویٰ کا نام دیکر دارالعلوم دیوبند سے جوڑنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے، یہاں جاری پریس ریلیز میں مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ کیرانہ میں 28مئی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں متحدہ امیدوار تبسم حسن کی حمایت میں انہوں نے ایک اپیل جاری کی تھی، لیکن نیوز چینلوں نے اپیل کو فتوی کا نام دے دیا اور اسکو دارالعلوم کی جانب سے جاری فتوی بتاکر تقریبا آٹھ سے دس گھنٹوں تک بحث کا موضوع بنائے رکھا، انہوں نے نیوز چینلوں کے اینکرس کی عقلوں اور معلومات پر ماتم کرتے ہوئے کہا کہ جس شخص کو اپیل اور فتوی کا فرق معلوم نہیں ہے وہ اینکر جیسی اہم ذمہ داری نبھانے کے قابل نہیں ہے ۔
مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ ہندوستان میں اس وقت زیادہ تر چینلوں کا کاروبار جانب داری اور جھوٹ کے علاوہ فیک نیوز کے ذریعہ چل رہا ہے، سیدھی سادی خبروں کو غلط سیاسی رخ دینا انکا شعار بن چکا ہے، اس طرح کے نیوز چینلوں نے صحافتی وقار کا ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے، مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور الیکشن جمہوریت کا ایک عمل ہے، یہاں ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کی پارٹی یا امیدوار کے حق میں اپیل جاری کر سکتا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ ایک اپیل اور اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں حق رائے دہی کا استعمال کرنے پر اس قدر واویلا کرنے کا کیا جواز ہے، اس وقت ملک میں جو بدترین حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، پٹرول ڈیزل اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، تاجروں کے کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں کسان دن بدن قرض میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے، ملک کی اقتصادی صورت حال بدترین ہو چکی ہے ملک کا خزانہ خالی ہے نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہے ہیں، ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے، ایسے حالات میں اگر عوام اپنے حق جمہوریت کا استعمال کرکے تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس میں کون سے جرم کی بات ہے ۔لیکن نیوز چینل ان تمام حالات کی پردہ پوشی کرکے عوام میں تفریق پیدا کرنے کی چنگاریاں چھوڑ رہے ہیں، لیکن عوام اب بہت کچھ سمجھ چکی ہے، اسلئے اسکے فیصہ کا انتظار کرنا چاہیے اور فیصلہ کو قبول کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا چاہیے۔

سینٹرل پبلک اسکول مبارکپور: CBSE بورڈ انٹرميڈیٹ کا رزلٹ 93، اور 90 فیصد رہا!

چیئرمین ایاز احمد خان اور ڈائریکٹر نواز احمد خان اور پرنسپل ریکھا سنگھ نے تمام کامیاب طلباء کو مبارکباد دیا.

جاوید حسن انصاری
ــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/مئی 2018) ریشم نگری مبارکپور کے حسین آباد میں واقع علاقے کا سب سے ممتاز "سینٹرل پبلک اسکول" میں CBSE بورڈ کے انٹر کا رزلٹ کافی اچھا رہا تو وہیں شمع نے 90٪ پوائنٹس حاصل کر ٹاپ کیا جہاں اسکول کے ساتھ اپنے خاندان کا نام روشن کیا.
سینٹرل پبلک اسکول کے بانی اور چیئرمین اياز احمد خاں صاحب اور ڈائریکٹر نواز احمد خاں اور پرنسپل ریکھا سنگھ نے بتايا کہ اسکول کے سائنس کلاس میں 27 طالب علموں میں سے 25 طالب علم کے پاس ہوئے ہیں اسکول کا رزلٹ 93 فیصد رہا.
سینٹرل پبلک اسکول کے بانی چیئرمین اياز احمد خاں، ڈائریکٹر نواز احمد خاں اور پرنسپل ریکھا سنگھ نے اسکول اور ضلع کے تمام کامیاب طلبہ و طالبات کو مبارک باد دی ہے.

سیتامڑھی: چیئرمین مدرسہ بورڈ 30 مئی تک اساتذہ کے تنخواہ کی ادائیگی کرے!

محمد صدرعالم نعمانی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 27/مئی 2018) 205 اور 609 مدارس کے اساتذہ کو 30 مئی تک تنخواہ ادا کر دینے کا چیئرمین و سکریٹری کا وعدہ پورا ہوتا ہوا نہیں لگتا ہے، ذرائع سے ملی اطلاع کے  مطابق  چیئرمین پروفیسر شمشاد حسین  مدرسہ بورڈ  میں آہی نہیں رہے ہیں جسکی وجہ کر پیمنٹ کی کاروائی آگے نہیں بڑھ رہی ہے اگر 30مئی تک مدارس کے اساتذہ کا پیمینٹ نہیں ہوسکا تو اساتذہ کو بغیر پیسے کے ہی عید منانی پڑیگی، اس لئے کہ موجودہ چیئرمین شمشاد حسین کی مدت کار غالبا2جون کو ختم  ہورہی ہے ایسی صورت میں مدارس کے اساتذہ کو نئے چیئرمین کے آنےتک پیمینٹ کا انتظار کرنا پریگا.
 واضع ہو کہ کئی کئی مہینوں کی تنخواہ اساتذہ مدارس کی باقی ہے، سرکار الامنٹ 2017میں ہی دے چکی ہے، مدرسہ بورڈ اساتذہ کے تنخواہ کی ادائیگی میں اس لئے تساہلی برتتی ہے کہ بینک میں جب تک پیسہ جمع رہےگا تب تک  سود کی رقم مدرسہ بورڈ کو آتی رہےگی، مدرسہ بورڈ کے ذمہ داران کو شاید یہ حدیث یاد نہیں ہے کہ مزدور کی مزدوری مزدورکے پسینہ سو کھنے سے پہلے اداکر دی جائے، مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ کی ادائیگی بروقت نہ ہونے کی وجہ بہت سے ایسے اساتذہ ہیں جو فاقہ کشی کے شکار ہیں، واضع ہوکہ بروقت تنخواہ کی ادائیگی نہ  ہونے  سے ناراض اساتذہ نے مدرسہ ڈیلو مینٹ آرگنائزیشن کےزیراہتمام 7مئی 2018  کومدرسہ بورڈ کے خلاف  دھرنا مظاہرہ کیا تھا جس پر چیئرمین پروفیسر شمشاد حسین اور سکریٹری محمد زاہد حسین نے مظاہرین کے نمائندہ وفد سے وعدہ کیا تھا کہ ہرحال میں 30مئی تک مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ ادا ہو جائیگی اس وعدہ کی بنیاد پر اساتذہ مدارس نے اپنا دھرنا مظاہرہ ختم کیاتھا، کئی مدسہ کے اساتذہ نےچیرمین سکریٹری سے مطالبہ ہے کہ اپنے وعدہ کے مطابق 30مئ تک پیمینٹ کی ادائیگی کرادیں.

روزہ اور ہمارا طرز عمل!

از قلم: عبدالماجد بھیروی
متعلم جامعہ نورالاسلام ولیدپور مئو یوپی
9044200572
ــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ تبارک وتعالی نے انسانوں کو بےشمار نعمتیں عطاء کی ہے ان نعمتوں میں سے ایک نعمت روزہ ہے رمضان المبارک کا مبارک مہینہ ہے روزہ یہ اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رکن ہے .
قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں اے ایمان والوں تم پر روزہ کو فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلی والی امتوں فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاو۔
رمضان کا روزہ ہر عاقل بالغ مسلمان مردوعورت پر جس میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو فرض ہے جب تک کوئی عذر نہ ہو روزہ چھوڑنا درست نہیں ۔
روزہ سن ٢ ھجری میں فرض ہوا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے کے بعد تیرہ سال تک مکہ معظمہ میں ہی لوگوں کو  خدائے پاک کا حکم سناتے اور تبلیغ کرتے رہے بہت زمانے تک سوائے ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا حکم نہ تھا پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالی کے یہاں سے احکام آنا شروع ہوئے اسلام کے ارکان میں سے سب سے پہلے نماز فرض ہوئی پھر مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بہت سے احکامات آنا شروع ہوئے انہیں میں سے ایک حکم روزے کا بھی تھا روزے کی تکلیف چونکہ نفس پر شاق گزرتی ہے اسلئے اسکو فرضیت میں تیسرا درجہ دیاگیا اسلام نے احکام کی فرضیت میں یہ روش اختیار کی کہ پہلے نماز جو ذرا ہلکی عبادت تھی اسکو فرض کیا اسکے بعد زکات کو پھر اسکے بعد روزہ کو ۔
روزے کے اندر شروع میں اتنی سہولت اور رعایت تھی کہ جس کا جی چاہے روزہ رکھ لے اور جو چاہے ایک روزہ کے بدلے کسی غریب کو ایک دن کا کھانا کھلادے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نظر فرماتے ہوئے آہستہ آہستہ روزوں کی عادت ڈلوائی چنانچہ جب کچھ زمانہ گزر گیا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کی کچھ عادت ہوگئی تومعذور اور بیمار لوگوں کے سواء سب لوگوں کے حق میں یہ اختیار ختم کردیا گیا اور ھجرت سے ڈیڑھ سال بعد ١٠ شعبان سن ٢ ھجری میں مدینہ منورہ کے اندر رمضان کے روزے کی فرضیت کا حکم نازل ہوا اور انکے علاوہ کوئی روزہ فرض نہ رہا اور اسکا فرض ہونا کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت ہے .
رمضان المبارک کا روزہ جن مقاصد حسنہ کی تحصیل کےلئے فرض کیاگیا تھا ہمارے سلف و صالحین اس کے آداب و واجبات کی رعایت کرکے ان مقاصد کو پورے طور پر حاصل کیا وہ لوگ دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات میں اللہ کی عبادتوں میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک کے ایک ایک لمحے کو اللہ کی عبادت میں گزاردیتے تھے اور اپنی زبانوں کو بیہودہ گوئی سے بند رکھتے تھے اور کانوں کو لغو اور فحش باتوں کے سننے سے محفوظ رکھتے تھے اور انکی آنکھیں حرام چیزوں کی طرف قطعاً نہیں اٹھتی تھی اس طرح ان کے تمام اعضاء روزے سے رہتے تھے.
لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اس مبارک مہینہ کو بھی دیگر مہینوں کی طرح ضائع کردیتے ہیں اللہ نے روزے کو اسلئے فرض کیا تھا کہ اس کے ذریعہ روح و قلب کو فائدہ پہونچے مگر ہم نے روزہ کو پیٹ اور معدہ کو پر کرنے کا مہینہ بنالیا اللہ نے اسے حلم و صبر حاصل کرنے کا مہینہ بنایا تھا مگر ہم نے اسے غیظ و غضب اور غم و غصہ کا مہینہ بنالیا  اللہ نے اسے سکینت و وقار کا مہینہ بنایا تھا مگر ہم نے اسے گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے کا مہینہ بنالیا اللہ نے روزے کو اسلئے فرض کیا تھا کہ ہمادی عادتوں میں تبدیلی پیدا ہو مگر ہم نے سوائے کھانے کے اوقات میں تبدیلی پیدا کرنے کے کچھ نہیں کیا .
اللہ ہم سب کو قرآن و سنت کے مطابق روزہ رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے.آمین

قرآن مجید سمیت تمام آسمانی کتابیں رمضان المبارک میں ہی نازل ہوئی ہیں، قرآن مجید تمام کتابوں کا سردار اور تمام دینی و دنیاوی علوموں کا مرکز ہے: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ـــــــــــــــــــ
 بنگلور(آئی این اے نیوز 27/مئی 2018) رمضان المبارک کا مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید سمیت تمام آسمانی کتابیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں نازل کئے۔ کئی آسمانی کتابیں نازل ہوئی جس میں چار کتابیں تورات، زبور، انجیل اور قرآن مجید مشہور ہیں۔ قرآن مجید تمام کتابوں کا سردار ہے۔اللہ تبارک و تعالی نے دنیا وآخرت کی ہر چیز، ہرمسائل کا حل، تمام علوموں کو اس کے اندر رکھ دیا ہے۔
لیکن آج مسلمان اس سے ناواقف ہے، وہ قرآن مجید کی اہمیت، برکت، طاقت کو بھلا بیٹھا ہے۔ وہ قرآن کو چھوڑ کر دنیا کے طرف بھاگ رہا ہے لیکن اسے پتا نہیں کہ قرآن مجید تمام دینی و دنیاوی علوموں کا مرکز ہے۔ان خیالات کا اظہار مسجد شباب الاسلام، گروپن پالیہ ،بنگلور میں نماز جمعہ سے قبل رمضان المبارک اور قرآن مجید کے اپر روشنی ڈالتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ قرآن مجید کو سن کر لوگ ایمان قبول کرتے تھے، قرآن سے دشمنوں سے مقابلہ کیا جاتا، قرآن مجید سے تمام مسائل حل کئے جاتے۔ لیکن آج اگر یہ سب نہیں ہورہا ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کی طاقت کم ہوگئی بلکہ ہمارا ایمان کمزور ہوگیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کی آج ہمیں قرآن مجید پڑھنے میں لذت محسوس نہیں ہوتی، عبادتوں میں دل نہیں لگتا، ہماری زندگیوں میں تبدیلی نہیں آتی اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن سے دور ہوگئے، دین و شریعت سے دور ہوگئے۔ انہوں نے فرمایا کہ قرآن مجید تمام دینی و دنیاوی علوموں کا مرکز ہے یہ جدید سائینس و ٹیکنالوجی بھی قرآن مجید کی دین ہے۔ہماری کامیابی، ہماری سربلندی، ہماری عزت قرآن مجید سے ہی ہے۔ اگر ہم اسکو چھوڑ دینگے تو نہ صرف آخرت میں ناکام ہونگے بلکہ دنیا میں بھی ناکام ہوجائیں گے، مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ قرآن مجید اور رمضان المبارک کا گہرا تعلق ہے۔اسلئے رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھنے اور سنے کو کہا گیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو رمضان جیس مقدس مہینے میں بھی عبادت کرنے کیلئے وقت نہیں ملتا، مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے کی ترغیب دی۔قابل ذکر ہیکہ ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس سے خطبہ جمعہ سے استفادہ کیا اور نماز جمعہ ادا کی۔ بعد نماز ذکر کی مجلس منعقد ہوئی اور شاہ ملت کی رقت آمیز دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔

Saturday 26 May 2018

سرائے میر: بائک کی ٹکر میں سائیکل سوار کی موت، ایک زخمی!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/مئی 2018) سرائے میر تھانہ علاقہ کے چکیا ابراہیم پور کے قریب جمعرات کی رات ایک بائک اور سائیکل کی ٹکر ہوگئی، اس حادثے میں، 60 سالہ طفیل احمد رہائشی کمال پور تھانہ
سرائے میر اور موٹر سائیکل سوار 24 سالہ طلحہ بیٹے نثار رہائشی کورولی خرد شدید زخمی ہوگئے، دونوں کو علاج کے لئے ضلع ہسپتال بھیجا گیا، جہاں سائیکل سوار طفیل احمد کی حالت سنگین دیکھ ڈاکٹروں نے ریفر کر دیا، اس پر اہل خانہ نے نجی ہسپتال میں داخل کرایا، جہاں علاج کے دوران ان کی موت ہوگئی، اہل خانہ نے واقعہ کی اطلاع پولیس کو نہیں دی، میت کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھی، اہل خانہ کا رو رو کر برا حال ہے.

جین پور: بچوں کے تنازعہ میں دیور کو بھابھی نے مارا چاقو، دی گئی تھانے میں تحریر!

حافظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/مئی 2018) جین پور کوتوالی علاقے چاندپار گاؤں میں بچوں کے تنازعہ کو لیکر بڑے بھی آپس میں بھڑ گئے، اس دوران بابھی نے اپنے دیور پر چاقو سے حملہ کیا، چاقو دیور کے ہاتھ میں لگا،
پی ایچ سی عظمت گڑھ میں طبی معائنہ کے بعد دیور نے کوتوالی جین پور میں بھابھی کے خلاف تحریر دی ہے.
آپ کو بتا دیں کی چاند پار گاؤں رہائشی راشد کا بیٹا جمعہ کی صبح شرارت کر رہا تھا، اس دوران راشد کے بھائی للو بیٹے محمد انیس نے اپنے بھتیجے کو منع کیا، جب بھتیجے نے چاچا کی بات نہیں سنی تو چاچا نے اسے مار دیا، اس کے بارے میں شکایت لیکر بھتیجا اپنی ماں کے پاس گیا، ماں بدرالنساء بیوی راشد آگ بگولا ہوگئی، وہ گھر سے باہر آئی اور دیور کو گالیاں دینے لگی، جب دیور نے احتجاج کیا تو بابھی نے دیور پر چاقو سے حملہ کیا، چاقو دیور کے ہاتھ میں لگا، اور وہ سست ہو گیا، واقعہ کے بعد دیور پی ایچ سی عظمت گڑھ پہنچا اور طبی معائنہ کراکر جین پور کوتوالی میں بھابھی کے خلاف نامزد تحریر دی، خبر لکھے جانے تک مقدمہ درج نہیں ہوا، پولیس تحقیقات میں مشغول ہے.

Friday 25 May 2018

آج کے مسلمان مودی کے عروج کی وجہ!

تحریر: علی اشہد اعظمی (دوحہ قطر)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/مئی 2018) کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ مودی کا عروج کیسے ہوا؟ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ خوفناک خونی کھیل کھیلا گیا تو کٹّر ہندوؤں کو مودی کی شکل میں ایک امید کی کرن نظر آنے لگی اور وہ لوگ اسے اپنا مسیحا ماننے لگے اور بی جے پی کو ایسے ہی چہرے کی تلاش تھی کیونکہ کانگریس نے بی جے پی ختم ہی کر دیا تھا اس کی وجہ بھی تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی پی ایم چہرا نہیں تھا اڈوانی بابری مسجد معاملے میں ملوث تھے اور ان میں کوئی دم خم نہیں تھا اس لئے ان لوگوں کے پاس مودی جیسا مسلم مخالف چہرہ مل گیا کیونکہ اس نے گجرات فساد میں وزیر اعلی رہتے ہوئے یکطرفہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی اور بی جے پی سمیت تمام ہندو تنظیمیں اور کٹّر ہندوتوادی عوام نے مودی کو علاقائی سیاست سے نکال کر قومی سیاست میں لاکر کھڑا کر دیا
اور نتیجہ یہ ہوا کہ مودی کی ہندوتوادی کے تئیں لگاؤ کو دیکھ کر لوگ ان کے اندھ بھکت بنتے گئے جن کی دلی تمنا تھی کہ بھارت ہندو راشٹر بنے اور اگر عروج کی بنیاد یہ ہے تو پھر اس کا زوال اس طرح تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم مودی کو ہندو کٹّر پنتھی کردار دے رہے ہیں اور اگر ایسا ہی چلتا رہا تھا تو مودی کبھی نہیں ہارے گا اور اسے روک پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے آج سے دو چار سو سال پیچھے جاتے ہیں جب مغلوں اور مسمانوں کا راج تھا تب ہندو ان کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائے بلکہ اندر ہی اندر مظبوط ہوتے رہے اور نہ اپنے گھر میں اردو زبان کو آنے دیا اور نہ ہی اپنے برتن میں کبھی کوئی گوشت پکایا اور اپنی سنسکرت پر قائم رہے اور اپنے اچھے دن کا انتظار کرتے رہے لیکن اس دور میں مسلمانوں نے انہیں کبھی کوئی تکلیف نہیں تھی انہیں کھانے پینے بولنے پہننے اور اپنے مذہب پر پورا عمل کرنے کی آزادی دیے اگر مسلمانوں کے صدیوں حکومت کے دوران اگر ہندوؤں پر زیادتی ہوئی ہوتی تو مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ہندو بھارت میں بچا ہوتا یا تو ہو مذہب تبدیل کر لیتا یا بھارت چھوڑ دیتا لیکن وہ لوگ نہ کہ شان سے رہے بلکہ اپنے مذہب و سنسکرتی کو بھی زندہ رکھ پائے اور اس میں اس وقت کے مغل شاہنشاہوں کا پورا ساتھ رہا لیکن آج کچھ گندی سیاست کی سوچ رکھنے والوں نے تاریخ کو جھٹلا کر معصوم ہندوؤں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تم پر مغلوں(مسلمانوں) کے دورِ حکومت میں بہت ظلم ہوا بہت زیادتی ہوئی اور ملک میں ہندو مسلم کے بیچ نفرت کا بیج بو کر ایک دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو تار تار کر اپنی ہندوتوا کی روٹی سینکنا چاہتے ہیں اور حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں آج ہمیں اور آپ کو مغلوں کی صحیح تاریخ عام ہندوستانیوں تک پہچانی ہوگی اور خاص کر ہندو بھائیوں کو یہ بتانا ہوگا کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندوؤں کو ہر چیز کی بھر پور آزادی حاصل تھی.
اور میرا ماننا ہے کہ جب بھی مودی مسلمانوں کے حق کی بات کرے یا ان کے حق میں کچھ اچھا کام کرے تو اسے زیادہ سے زیادہ منظرعام پر لائیں تاکہ پروین توگڑیا جیسے اور جو بھی مودی کے آنے کہ وجہ سے بی جے پی میں نا کے برابر ہوگئے ہیں ان کو بولنے کا موقع مل کہ ہم جس کام کے لیئے مودی کو سیاست میں لائے وزیراعظم بنائے مودی اس کا الٹا کر رہا ہے اور مسلانوں کی طرفداری کر رہا ہے اور اس سے بی جے پی میں دو گروپ بنے گا اور ان کے بیچ درار پیدا ہوگی اور شاید یہی مودی کے زوال کا سبب بنے۔
                ــــــــــعـــــــــ
جو رَد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلّط ہیں اِس زمانے میں

کانگریس کے لئے ایک سبق!

ایم ودود ساجد
ــــــــــــــــــــ
یہ مہینہ ہم سیاہ کاروں کے لئے اپنی عاقبت کی فکر اور دنیا سے اظہار بیزاری کا ہے۔سیاست پر اب ویسے بھی لکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔لیکن کرناٹک کا موضوع کچھ عرض گزاری کا متقاضی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ کرناٹک کے حالیہ اختتام پزیرریاستی الیکشن میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طورپرسامنے آئی ہے۔لیکن اس کے پاس حکومت سازی کیلئے مطلوب پوری سیٹیں نہیں ہیں۔دوسرے نمبر پر کانگریس ہے۔اور تیسرے نمبر پر جنتادل(سیکولر)ہے۔بڑی پارٹی ہونے کے باوجودسب سے زیادہ خسارہ میں بی جے پی ہے۔وہ گورنرصاحب کی جانبدارانہ روش کے سبب2دن کی حکمراں رہ کراب ذلت سمیٹ رہی ہے۔کانگریس خسارہ کے باوجود سب سے زیادہ فائدہ میں ہے۔مگر سب سے کم نمبروالی جماعت جنتادل (ایس)اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کی دلچسپی کا محور بن گئی ہے۔سچ پوچھئے تو محض 38سیٹوں والی جماعت نے تمام اپوزیشن کوایک پلیٹ فارم پر آکر فرط وانبساط کے اظہار کا موقع دیدیا ہے۔گو کہ اس موقع کی فراہمی کانگریس کی بدولت ہے لیکن اپوزیشن کے بہت کم لیڈر ایسے ہیں جن کی توجہ کانگریس پر ہے۔
کانگریس کی حمایت سے جنتادل (ایس)کی حکومت سازی کے وقت بنگلور میں کم وبیش تمام اپوزیشن جماعتوں کے بڑے قائدین کا جوعلامتی اتحاد نظر آیااس میں کانگریس کیلئے ایک سبق پوشیدہ ہے۔کانگریس کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ حزب اختلاف کے قائدین کرناٹک میں اس کے دوراندیش اقدام کی ستائش میں وہاں جمع ہوئے تھے۔جنتادل (سیکولر) کی 38سیٹوں کے مقابلے میں کانگریس نے اپنی 78سیٹوں کی کوئی قربانی پیش نہیں کی ہے۔اگر وہ کماراسوامی کو حمایت نہ دیتی تو جنتادل (ایس)کے قائدین بی جے پی کے ساتھ جانے میں کوئی تکلف نہ کرتے۔اور اس طرح کرناٹک جیسا صوبہ عملاً بی جے پی کے کنٹرول میں آ جاتا۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی آتش زیرپا ہے۔اس کے ہاتھ سے اتنا اہم اور بڑا جنوبی صوبہ نکل گیا-
کانگریس نقصان میں نہیں ہے۔حکومت سازی میں اسے بڑا حصہ مل گیا ہے۔بندوق جنتادل کے کاندھے پر ہوگی اور نشانہ کانگریس لگائے گی۔لیکن بی جے پی کے خلاف اپوزیشن اتحادکی قیادت کانگریس کو میسر نہ ہوسکے گی۔
کماراسوامی کی تقریب حلف برداری ایک اعتبار سے اپوزیشن سیاست کی تاریخ میں ایک انوکھی تقریب کے طورپریاد رکھی جائے گی۔حلف برداری کے اسٹیج پرسونیا گاندھی‘راہل گاندھی‘مایاوتی‘اکھلیش یادو‘شرد یادو‘شرد پوار‘چندرابابو نائیڈو‘ممتا بنرجی‘سیتارام یچوری‘اجیت سنگھ‘اے راجا اورپنارائی وجین سمیت بہت سے قائدین ایک ساتھ کھڑے ہوکر بہت خوش اور جذباتی نظر آئے۔مذکورہ قائدین نے تقریباً تمام علاقائی بڑی پارٹیوں اور ریاستوں کا احاطہ کرلیا۔لیکن اپوزیشن اتحادکی سب سے بڑی علم بردارجماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی اس موقع پراعلانیہ غائب رہی۔تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ اس وقت غیر بی جے پی اور غیر کانگریس اتحاد کیلئے سب سے زیادہ پرجوش اور متحرک ہیں۔انہوں نے کرناٹک میں تقریب حلف برداری سے پہلے (وزیر اعلی )ایچ ڈی کماراسوامی سے فون پر بات ضرور کی لیکن وہ شریک نہیں ہوئے۔ان کی عدم شرکت یوں ہی نہیں ہے۔اس کا ایک واضح پیغام ہے۔چونکہ وہ بی جے پی کے خلاف اتحادمیں کانگریس کو شامل کرنے کے خواہاں نہیں ہیں اس لئے انہوں نے تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔آپ کو یاد ہوگا کہ تقریب حلف برداری سے ایک دن پہلے خود مایاوتی زور دے کر یہ بات کہہ چکی ہیں کہ کانگریس کو علاقائی پارٹیوں کا احترام کرنا ہوگا۔
میں تو اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کرناٹک میں اپوزیشن کے بڑے قائدین نے جو جوش وخروش اور اتحاد ظاہر کیا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ اتحاد کی مہم میں کانگریس کی پشت پر ہیں۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقائی پارٹیوں کے رعب ودبدبے کے احیاء پرنہ صرف حد درجہ خوش ہیں بلکہ پر امید بھی ہیں کہ علاقائی جماعتوں کے اتحاد کی شکل میں بی جے پی کے خلاف کوئی بڑا محاذ تشکیل پاجائے گا۔کانگریس کیلئے اس میں یہ سبق ہے کہ وہ اب خود کو سب سے بڑی مرکزی جماعت تصور نہ کرے اور اس بڑے شرارت پسند بھائی کا کردار ترک کردے جو شریف چھوٹے بھائی کا حق بھی غصب کرجاتا ہے۔کانگریس ملک بھر میں بیشتر ریاستوں سے سمٹ چکی ہے۔زیادہ تر ریاستوں میں یا تو بی جے پی ہے یا علاقائی جماعتیں ہیں۔مثال کے طورپرسب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سماجوادی اور بہوجن سماج مضبوط پارٹیاں ہیں۔بہار میں نتیش اور لالو کی پارٹیاں ہیں۔تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹر سمیتی ہے۔آندھرا پردیش میں چنداربابو نائڈو کی ٹی ڈی پی ہے۔کیرالہ میں بایاں محاذ مضبوط ہے۔تامل ناڈو میں ڈی ایم کے اور اے آئی ڈیم ایم کے ہیں۔اس کے علاوہ وہاں کچھ مقامی جماعتیں بھی ہیں جن میں ایک مسلم جماعت بھی ہے۔کرناٹک میں جنتادل (ایس)کا احیاء ہوہی چکا ہے۔مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس ہے۔مہاراشٹرمیں شردپوار کی این سی پی ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی ہے۔آسام میںآسو اوریو ڈی ایف ہیں۔ہاں کچھ ریاستیں ابھی ایسی ہیں کہ جہاں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس ہی کرسکتی ہے۔ان میں پنجاب‘راجستھان‘ہریانہ‘چھتیس گڑھ‘مدھیہ پردیش ‘گجرات وغیرہ شامل ہیں۔ایسے میں چھوٹی یا علاقائی جماعتوں کو نظر انداز کرنا کانگریس کے لئے ہی خسارہ کا سودا ہے۔اسے کہیں چھوٹا بن کرکم پر اکتفا کرنا ہوگااور کہیں بڑا بن کرفراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
کانگریس کو ایک اور نکتہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔وہ بھلے ہی خود کو مسلمانوں سے دور کوئی ’غیر مسلم‘پارٹی ثابت کرنے میں توانائی صرف کررہی ہو لیکن تقریباً تمام علاقائی جماعتیں مسلمانوں کو علانیہ طورپرساتھ لے کرچل رہی ہیں۔تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ‘آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرابابو نائڈو‘مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور کیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین کو مسلمانوں کو ساتھ رکھنے اور ان کا کام کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔اگر کانگریس ملک بھر میں واقعی بی جے پی سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے اور 2019میں اسے اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ کرناٹک میں اتنی بڑی تعداد میں اپوزیشن قائدین اس کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک غیر بی جے پی-غیر کانگریس اتحاد کی تلاش میں جمع ہوئے تھے۔

دیوگاؤں: پولیس کی پکڑ سے اب تک دور ہیں ملزم!

دیوگاؤں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/مئی 2018) دیوگاؤں کوتوالی علاقے کے لال گنج مارکیٹ میں پوجا گیس ایجنسی کے مالک بھوپندر یادو کی گزشتہ آٹھ اپریل کو ان کے آفس میں گھس بدمعاشوں نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا اور گودام سے 97 ہزار روپے لوٹ کر فرار ہوگئے تھے، اس کیس کے ملزم اب بھی پولیس کی گرفت سے دور ہیں، اس معاملے میں پولیس کی جانب سے جاری کئے گئے بدمعاشوں کے سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی کوئی فائدہ نہیں مل سکا، اس واقعہ کا اب تک خلاصہ نہ ہونے سے علاقے میں پولیس کے کردار پر طرح طرح کے سوال اٹھ رہے ہیں.
 بتا دیں کہ جونپور ضلع کے چندوک تھانہ علاقہ کے ستمیسرا گاؤں رہائشی بھوپندر یادو کی لال گنج مارکیٹ میں نہر کے پٹری پر پوجا گیس سروس کے نام کی آفس تھی، جبکہ نہر کی پٹری پر مغربی جانب تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر دور ریتوا چندربھان پور گاؤں میں گودام تھا، گزشتہ 8 اپریل کی شام تین موٹر سائیکل سوار بدمعاشوں نے گودام میں ملازمین سے 97 ہزار 200 روپے لوٹ لیا، اس کے بعد بدمعاش ایجنسی آفس پر بھی پہنچ گئے جہاں ایجنسی ماک بھوپندر یادو کو گولی مار کر قتل کر دیا، مارکیٹ میں اس طرح قتل کے بعد بازار کے دوکاندار اور ڈاکٹروں سمیت دیگر افراد سڑک پر آئے، پولیس نے دعوی کیا تھا کہ جلد ہی اس واقعے کا خلاصہ کر دیا جائے گا، اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی وائرل کر دیا گیا تھا، اس کے پیچھے پولیس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ بدمعاش کی شناخت کریں گے اور انہیں گرفتار کیا جائے گا، لیکن پولیس کے اس دعوی کو بھی مسترد کردیا گیا ہے، بھوپندر یادو کے قاتلوں کی گرفتاری اب تک نہ ہونے سے علاقے کے لوگ اب پولیس کے کردار پر مختلف سوالات اٹھا رہے ہیں.
سی او لال گنج سنتوش سنگھ نے بتایا کہ ایک پولیس ٹیم کو بدمعاشوں کی شناخت اور گرفتار کرنے کے لئے لگا دیا گیا ہے، جلد ہی وہ پولیس کی گرفت میں ہوں گے.

Thursday 24 May 2018

دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا ایک گھناؤنی سازش اور مذہب اسلام کی توہین ہے: مولانا محمود مدنی

نئی دہلی(آئی این اے نیوز 24/مئی 2018) جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ’اسلامی دہشت گردی‘ کے عنوان سے کورس شروع کیے جانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے،
مولانا مدنی نے اس سلسلے میں وزارت تعلیم، یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایم جے کمار اور چانسلرشری وجے کمار سراسوت کو خط لکھ کر آگاہ کیا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا ایک گھناؤنی سازش اور مذہب اسلام کی توہین ہے، جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔مولانا مدنی نے اسے اسلامو فوبیا کا ملعون پروپیگنڈا بتاتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اس سے اکیڈمک فرقہ پرستی کو فروغ ملے گا، انھوں نے اپنے خط میں جے این یو انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ اگر اس نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو جمعیۃ علماء ہند عدالتی چارہ جوئی پر مجبور ہوگی، یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ سیکولر کردار کی حامل یونیورسٹی اتنا نیچے اتر کر فرقہ پرست عناصر کے مقاصد کی تکمیل کررہی ہے جو ملک کے تانے بانے پر درہم برہم کرنے پر آمادہ ہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ کسی بھی مذہب کو دہشت گردی سے جوڑنا بنیادی طور سے غلط ہے۔ یہ انتہائی عصبیت کا مظہر ہے کہ اسلام جیسے پرامن مذہب جس کی نگاہ میں ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، کو دہشت گردی جیسے ناپاک عمل کے ساتھ نتھی کر کے پیش کیا جائے۔مولانا مدنی نے استدلال کیا کہ دہشت گردی کے نام پر پوری دنیا میں جنگ کرنے والی بڑی بڑی طاقتیں بھی اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح اختیا ر کرنے کی ہمت نہیں کرتی ہیں، یہاں تک کہ امریکہ کے سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور بارک اوبامہ اور روس کے صدر ولادیمر پوتن نے واضح طور سے اسلامی دہشت گردی جیسی اصطلاح کو غلط قرار دیا اوران کے دلائل تھے کہ یہ طرز کلام دہشت گردوں کے اس پروپیگنڈہ کو جائز ٹھہرانے کے مترادف ہے جو اپنے عمل کو مذہبی جنگ بتلارہے ہیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ان عالمی اور تاریخی حقائق کو نظر انداز کرکے اپنے اقدام سے جے این یو انتظامیہ نے دنیا بھر کے ان لاکھوں مسلمانوں کا دل دکھا یا ہے کہ جو پرامن ہیں اور جنھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، انھوں نے کہا کہ خود بھارت میں ہماری تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے دہشت گردی کے خلاف چھ ہزار علماء کرام کے دستخط سے فتوی جاری کیا اور گزشتہ پندرہ سالوں سے ہر محاذ پر مقابلہ کررہی ہے، ہم نے پورے ملک میں بڑی بڑی کانفرنسیں منعقد کرکے یہ پیغام دیا کہ اسلام، دہشت گردی کو ختم کرنے والا مذہب ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ یونیورسٹی نے نہ صرف مسلمانوں کا بلکہ ملک میں ان تمام امن پسند لوگوں کا دل دکھا یا ہے جو تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں، انھوں نے واضح کیا کہ جمعیۃ علماء ہند نینشنل سیکورٹی اسٹڈیز سینٹر اور اس سے متعلق کورس شروع کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ دہشت گردی کے خلاف کسی بھی حقیقی اور مخلصانہ اقدام میں تعاون دینے کو تیار ہے، مولانا مدنی نے انتظامیہ سے توقع ظاہر کی کہ وہ دو ہفتے کے اندر مثبت جواب دے گی ۔

اپنی عبادت میں تقویٰ اختیار کرنا بہت ضروری ہے: چودھری جاوید احمد خان

سلمان کبیرنگری
ــــــــــــــــــــــــ
بلواسینگر/سنت کبیرنگر (آئی این اے نیوز 24/مئی 2018) روزے کا مہینہ مومن کے لئے تیاری کا مہینہ ہے اس کے روحانی پہلو کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کیا جائے اپنی سوچ کے معیار کو بلند کرنا اپنی عبادت میں تقوی اختیار کرنا بہت ضروری ہے، اپنی روحانیت میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کی قربت حاصل کرنا،
بھوک اور سیری کا تجربہ کرکے اپنے اندر شکر کا احساس جگانا، مادی مشغولیت کو کم کرکے آخرت کی طرف زیادہ متوجہ ہونا نہایت ہی ضروری ہے، مزکوہ خیالات کا اظہار چودھری جاویداحمد خان نے کیا.
 رمضان المبارک میں قرآن مجید کی اہمیت پر روشنی ڈالی جائے اورقرآن کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور اس کو مکمل کرنے کی ترغیب دی جائے کیونکہ اسی مبارک مہینہ میں قرآن مجید کا نزول ہوا، قرآن مجید میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا، البتہ اس مبارک مہینہ کی تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مبارک مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، مزکوہ خیالات کا محمد حنیف گرلس انٹر کالج برگدوا کے منیجر مسیح الدین خان نے کیا.
 رمضان المبارک کو اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کے لئے رحمت مغفرت اور جہنم سے نجات کا مہینہ بتایا ہے روزے کا مقصد اور یہی روزے کی مقبولیت کا اصل معیار بھی ہے روزے سے براہ راست انسان کا بھی بہت گہرا تعلق ہے یہ باتیں ارسلان انٹر کالج کھمریا کے منیجر محمد الیاس خان نے کہا.
 رمضان المبارک میں لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہیں تاکہ آپ لوگوں کے دل ودماغ میں اللہ کی وحدانیت آجائے، آج کے اس پرفتن دور میں قرآن مجید کے پیغام کو عام کیا جائے اور عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے جس کے ذریعے سے اس امت کو دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی ملے گی مزکورہ خیالات کا اظہار سماجی کارکن طارق ارمان نے کیا.

Wednesday 23 May 2018

جین پور: دو فریق میں مار پیٹ اور فائرنگ، تین زخمی!

عادل خان
ـــــــــــــــ
جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 23/مئی 2018) جین پور کوتوالی علاقے اھرولی گاؤں میں دو فریق کے درمیان پرانی رنجش اچانک رات کو ایک بڑے واقعہ میں تبدیل ہوگئی، جب دونوں فریق آمنے سامنے ہوگئے، مار پیٹ کے ساتھ فائرنگ بھی ہوئی، جس میں تین افراد زخمی ہوگئے، زخمی نوجوانوں کو نجی ہسپتال میں علاج جاری ہے جبکہ دیگر دو زخمیوں کا ضلع ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے.
موصولہ خبر کے مطابق جین پور علاقے کے اہرولی گاؤں کے پردھان اسرار الرحمان سوموار کی رات 8 بجے نماز پڑھ کر گھر واپس آ رہے تھے کہ اچانک ان پر دوسرا فریق حملہ کر دیا، جب اس کی خبر پردھان کے حامیوں کو ملی تو فوراً موقع پر پہنچے، جہاں دونوں فریق آپس میں بھڑ گئے، اور پتھراؤ کے ساتھ فائرنگ شروع ہوگئی، جس میں تین افراد زخی ہوگئے، زخمی بدر الدین (30) بیٹے منان کو نجی ہسپتال میں داخل  کیا گیا ہے، جبکہ سید احمد 36 بیٹے اسرار احمد اور توفیق (26) بیٹے نذیر کا ضلع ہسپتال میں علاج چل رہا ہے.

Tuesday 22 May 2018

کیا اسکا نام روزہ ہے؟

از قلم: محمد سحران اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
    رمضان المبارک کا مہینہ آتے ہی سڑکوں اور بازاروں میں عورتوں کا جم غفیر دکھنا شروع ہو گیا، بازار میں جس طرف نگاہ اٹھاو صرف نقاب پوش مسلم عورتیں دکھائی دے رہی ہیں، ہر گلی میں، ہر دکان پر اور ہر جگہ صرف انہیں کا دبدبہ دکھ رہا ہے، عید کی تیاریاں انکی ایک ماہ پہلے ہی سے شروع ہو گئی ہیں اب تو صورتحال یہ ہے کہ بازار میں اندر وہی آدمی جانے کی ہمت کرتا ہے
جسے اپنے نفس پر پوری طرح سے قدرت ہو کیونکہ اس دلدل میں جا کر صحیح سلامت واپس آنا  سب کے بس کی بات نہیں، عورتوں کے دھکے تو وہ جیسے تیسے برداشت کر لے گا لیکن  طنزیہ الفاظ کی تلخی شاید ہی وہ برداشت کر پائے ۔ اسکا تجربہ ایک بار انجانے میں ہوا اور اس عورت کا جملہ بھی جس نے یہ کہا تھا " مردوں کو بازار کرنے میں شرم نہیں آتی " جب بھی یہ جملہ یاد آتا رونگٹے میرے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ میں سنتا تھا کہ زمانہ بدل گیا ہے مگر اتنا بدل گیا ہے پتا نہیں تھا کہ عورتیں مرد ہو گئی ہیں ۔
یہ تو حال ہے عورتوں کا اسکے برعکس مرد حضرات جن کو اللہ تعالٰی نے "قوامون" سے تعبیر کیا اور قوامون سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کسب معاش اور باہر کے کاموں کا انتظام انہیں کے ذمہ ہوتا ہے  لیکن مرد حضرات پورے رمضان صبح سے شام تک خواب خرگوش میں رہتے ہیں انہیں کیا خبر کی کیا ہو رہا ہے وہ تو بس افطار سے کچھ ہی  پہلے اٹھتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ افطار ہی کرنے کیلئے روزہ  رکھا تھا اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ آج میں اتنے گھنٹے سویا تو کوئی کہتا ہے کہ میں اتنے گھنٹے سویا اور جو سب سے زیادہ سویا ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو بڑا عقلمند اور کامیاب سمجھتا ہے، یہ تو حال ہے مسلمانوں کی ۔ کیا اللہ تعالٰی ہم سے ایسا ہی روزہ چاہتا ہے، اور یہ تو حال ہے روزہ رکھنے والوں کی بے روزادار کی بات تو بہت دور کی ہے اسکا قوم کا کیا ہوگا۔ آج جو ہم ہر طرف مارے کانٹے جا رہے ہیں وہ ہمارے کئے کا نتیجہ ہے ۔ جسکو شاعر نے اس الفاظ میں بیان کیا ہے
            ــــــــــــعـــــــــــ
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہو تی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

مظلوم فلسطینیوں کی شہادت کو سلام !

از قلم: عبدالماجد بھیؔروی
بھیرہ ضلع مئو یوپی الہند 9044200572
ـــــــــــــــــــــــــــــ
امریکہ نے اپنے اعلان کے مطابق اپنا سفارتخانہ بیت المقدس یروشلم میں منتقل کردیا ہے اس کی مذمت صرف فلسطین نہیں بلکہ پورے ملک میں پوری دنیا میں اس کی مذمت ہورہی ہے.
مسجد اقصی قبلہ اول کی ذمہ داری صرف فلسطینیوں کی نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے مسجد اقصی کی بازیابی کیلئے پوری امت مسلمہ کو پورے اتحاد و اتفاق کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت کرنی چاہیے .
مسجد اقصی سے کون ناواقف ہے کہ یہ ہمارا قبلہ اول ہے جس پر آج صہیونی زبردستی قبضہ کرنا چاہ رہے ہیں آخر ان میں اتنی ہمت آئی کہاں سے ؟ جبکہ کم و بیش 58 مسلم ممالک ہیں پھر انکی ہمت کیوں کر ہوگئی آئے دن عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کی لاشیں بچھائی جارہی ہیں کیا فائدہ ایسہ مسلم ممالک کا جو قبلہ اول کیلئے کھڑے نہیں ہوسکتے آج مسلم ممالک کو جنوبی افریقہ سے سبق لینا چاہئیے جس نے اپنے سفیر کو تل ابیت سے واپس آنے کا حکم جاری کردیا تمام مسلم ممالک کو ایک ساتھ کھڑے ہوکر اسرائیل اور امریکہ کی مخالفت کرنی چاہئیے اور انکا بائیکاٹ کرنا چاہیے .
اگر دیکھا جائے تو صرف ترکی ہی ہے جو فلسطینیوں کے ظلم کی بات کررہا ہے اور انکی مدد کررہا ہے کل ترکی نے استنبول میں اسلامی تعاون تنظیم OIC کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ترکی اس سال OIC کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے جس کی وجہ سے وہ ہر مسئلے پر فوری رد عمل کرتے ہوئی اسلامی دنیا کو بیدار کرتا ہے مسئلہ فلسطین پرہونے والا کل اجلاس اسی کا ایک عکس تھا ترکی اب اس معاملے پر ٹھوس اقدامات اٹھانے کا خواہاں ہے ترکی نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے احتجاجاًامریکہ اور اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا ہے اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے اور اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ مسلمان جب تک خود اپنا حق حاصل نہیں کریں گے کوئی ان کو یہ حقوق پلیٹ میں رکھ کر نہیں دےگا اب دنیا کے تمام مسلم حکمرانوں کو چاہئیے کہ اب کوئی ٹھوس قدم اٹھاہیں اور امریکہ اور اسرائیل سے قطع تعلق کریں اور اپنے سفارت کاروں کو واپس بلائیں تاکہ فلسطینیوں کو امن و امان میسر ہو کہ جس بے دردی اور بے رحمی سے ان کو قتل کیا جارہا ہے وہ ناقابل بیان ہے فلسطین کے نہتے مظلوم باشندوں کی ہمت کو داد دینی پڑےگی کہ وہ 70 ستر سال سے اپنے حقوق کی اپنے وجودکی لڑائی لڑرہے ہیں ستر سال کے اس طویل عرصے میں ان پر کیا کچھ گذری ہوگی ساری دنیا اس سے واقف ہے لاکھوں فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں اس سے کہیں زیادہ لوگ زخموں سے چور معذوری کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ان کی ایک بڑی تعداد پڑوسی ملکوں میں خانماں برباد کھلے آسمانوں کے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جو لوگ غزہ اور الخلیل جیسے شہروں میں رہ رہے ہیں نہ ان کے پاس روزگار ہے نہ کاروبار ہے نہ تعلیم ہے نہ صحت ہے نہ کوئی وسائل ہے غیر ملکوں سے آنےوالی مدد ہی ان کیلئے سد رمق کا ذریعہ ہے مگر ان مشکل حالات نے بھی ان کے حوصلے کو شکست نہیں دیا اسرائیل کی مسلح فوجوں سے وہ تنہاء لڑرہے ہیں نہ انکے پاس بندوقیں ہیں اور نہ بم و بارود ہے بس ایمان کی طاقت ہے وطن کی محبت ہے وطن سے محبت کا جذبہ ہے کہ وہ ستر سال سے اسی امید میں لڑرہے ہیں کہ کبھی تو ان کی سرزمین انہیں واپس ملے گی .
تازہ واقعہ امریکی سفارتخانہ کے باضابطہ افتتاح کے موقع پر پیش آیا تیس پینتیس ہزار فلسطینی مارچ کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہوئے غزہ کی سرحد پر اس جگہ پہنچ گئے جہاں کانٹوں کے انبار لگے ہوئے تھے یہ لوگ امریکی اقدام کی مخالفت کررہے تھے دنیا کا کوئی قانون اس کی مخالفت نہیں کرسکتا کیوں کہ یروشلم ان کا مادر وطن ہے فلسطین کے باشندے اپنےحق کی لڑائی لڑرہے تھے  امریکہ کی دوغلہ پالیسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور سفارت خانہ کھولے جانے پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کررہے تھے کہ اسرائیلی فوج نے ان نہتے لوگوں پر اندھادھند فائرنگ کردی پچاس سے زیادہ فلسطینی جس میں نوعمر بچے بھی تھے شہید ہوگئے دوہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے جن میں خواتین بوڑھے بچے سب شامل تھے ۔سلام ہے ان مظلوم فلسطینیوں پر
سلام ہے فلسطین کے ان غیور اور بہادر لوگوں کو کہ وہ آج بھی اس طرح پرعزم ہیں جس طرح کل تھے ستر سال کے مظالم نے انکے حوصلے کو پست نہیں کیا ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملے سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہونےوالے سلام ہے اے فلسطین کی غیور اور بہادر عوام سلام ہے تجھے.
لیکن لعنت ہے افسوس ہے ان مسلم ممالک پر جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں آخر انہیں کب شرم آئے گی.
دعاءگو ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد فرمائے اور ان کے حوصلے کو مزید ترقیات سے نوازے ۔ آمین ثم آمین

مسجد اقصٰی کی پکار!

از: محمد آصف قاسمی سیتامڑھی
استاذ مدرسہ ابی بن کعب تحفیظ القرآن الكريم گھاسیڑہ میوات
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    مسجد اقصٰی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے،خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، بایں وجہ مقامی مسلمان غایت درجہ محبت کی بناء پر اسے المسجد الأقصى یا حرم قدسی شریف (الحرم القدسي الشريف) کہتے ہیں.
  یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر فی الوقت صہیونیوں کا ناجائز اور غاصبانہ قبضہ ہے، حالانکہ صرف فلسطين کے مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے یہ مقام ایک خاص مذہبی حیثیت بھی رکھتا ہے کہ یہ سرزمین بے شمار انبیاء کرام کا مولد و مسکن رہا ہے اور معراج کے سفر کے دوران حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور جملہ انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کی تھی پھر براق کے ذریعہ ساتوں آسمان کے سفر پر روانہ ہو ئے، قرآن مجید نے اس سفر کا دلکش منظر کھینچا ہے اور ذخیرہ احادیث کو کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف تین مساجد کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جس میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں، ابتدا میں 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے پھر تحويل قبلہ کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا،نیز بہت سے صحابہ کرام تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی ہے.
        چنانچہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے کم و بیش تمام مقتدر اہل علم اور دینی و سیاسی ادارے مسجد اقصٰی کے حوالے سے جس موقف پر متفق ہیں، وہ یہ ہے کہ یہ مقام تاریخی اور شرعی لحاظ سے بلا شرکت غیر مسلمانوں کی ملکیت ہے، اس کی تولیت اور اس میں عبادت خالصۃ مسلمانوں کا استحقاق ہے اور یہودیوں کا اس مقام پر عبادت کرنے یا یہاں ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کا مطالبہ مسلمانوں کے ایک مقدس مقام کی توہین اور ان کے مذہبی جذبات کی پامالی کی ایک سازش ہے.
       امریکی صدر کا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنےاور وہاں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا عمل قابل مذمت ہے، امریکہ کی یہ کوشش پوری دنیا میں امن و امان اور قومی یکجہتی کے لیے خطرہ ہے، دنیا بھر کے مسلمان کبھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ بیت المقدس پناہ گزینوں کا دار الحکومت بنے.
       صدیوں سے یہاں کے مسلمان یہودی بربریت اور ظلم و ستم کا شکار ہیں لیکن آج اس مقدس سر زمین پر مسلمانوں کے خلاف امریکی و اسرائیلی جارحیت زوروں پر ہے، یہاں کے باشندے اپنے ہی ملک میں بے کسی و بے بسی کی زندگی گزار پر مجبور ہیں، انہیں اپنے ہی وطن سے بے دخل کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور اس مقدس مقام کی حرمت پامال کی جارہی ہے، جبکہ اس کی حفاظت کے لیے کتنے ہی نوجوان اپنی جانوں کی قربانی پیش کر چکے ہیں، کتنے ہی بچے اور بچیاں امریکی و اسرائیلی ظلم و تشدد کی تاب نہ لا کر ابدی نیند سو چکے ہیں، کتنے ہی خواتین اور بوڑھے امریکہ اور اسرائیل کی دہشت گرد فوجیوں کے نشانہ بن چکے ہیں، اس پاک سر زمین پر اس وقت ہر طرف بکھری ہو ئی لاشیں ہیں، زخمیوں سے اسپتال اٹے ہوئے ہیں، زخمیوں کی چیخ و پکار اور آہ و فغاں سے آسمان لرز رہا ہے اور زمین کراہ رہی ہے.
     ہائے یہ کیا ہو رہا ہے، اس مقدس سر زمین پر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کیوں کھیلا جا رہا ہے، کیوں بچوں پر تشدد کا بازار گرم ہے، کیوں وہاں کی عورتوں کی ناموس محفوظ نہیں ہے، کس جرم میں ان کے سہاگ کو ان سے چھینا جارہا ہے، کس گناہ کے عوض ان کی گودوں کو سونا کیا جارہا ہے، اہل فلسطین پر کی گئی اسرائیلی و امریکی دہشت گردی کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں.
       لیکن قربان جاؤں وہاں کی جانباز عوام اور جوشیلے نوجوانوں پر کہ آج بھی فلسطینی عوام اپنی ہمت اور ارادوں کو کمزور نہیں ہونے دیا، پوری جرأت و بصالت کے ساتھ صیہونی دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں، ان ظالم و جابر حکمرانوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں قابل ذکر بات یہ ہے کہ نہتے فلسطینی مسلمان گولیوں کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں اس کے باوجود کسی ملک میں اتنی ہمت نہیں کہ اس ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے اور امریکہ اور اسرائیل کو دہشت گرد کہے حالانکہ اس وقت عالمی دہشت گرد اگر کوئی ملک ہے تو وہ امریکہ اور اسرائیل کے سوا کوئی نہیں ہے، یہی کام اگر کوئی مسلم ملک یا کوئی فرد مسلمان کرتا ہے تو پوری دنیا اکٹھا ہوجاتی اور نہ جانے اقوام متحدہ کی کتنی ہی میٹنگ ہوچکی ہوتی مگر آج سب کو سانپ سونگھ گیا ہے.
        لیکن امریکی صدر جتنا بھی زور لگا لے وہ کبھی بھی اپنے ناپاک ارادوں اور پلید منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے، جس طرح وہ وقفہ وقفہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا مظاہرہ کررہا ہے، عالم میں کی جانے والی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کررہا ہے محض اپنی انا، اپنی قوم کی ترقی اور عالمی دہشت گرد نیتن یاہو کے لیے، لیکن امریکہ کے پاگل صدر کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ وہ اپنے ناپاک عزائم کو کبھی پائے تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا.
           عالمی برادری اقوام متحدہ کو چاہیے کہ امریکی دہشت گردی اور اسرائیلی مظالم کی کھل کر مذمت کرے اور انہیں ناپاک ارادوں اور غلط منصوبوں سے باز رکھے ورنہ امریکی صدر کی مسلم دشمنی دنیا کو تباہ و برباد کردے گی.
         اسی طرح 56 مسلم ممالک اور وہاں کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ردائے غفلت کو چاک کر کے ان عالمی دہشت گردوں کے خلاف صف آراء ہوں اور ان سے سفارتی تعلقات فی الفور ختم کریں اور یہ باور کرائیں کہ امریکہ کے اس اقدام کی وجہ سے خطے میں افراتفری اور خانہ جنگی کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے اور ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سفارت خانے کو منتقل کرنا یہ دراصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے.
           اس لیے تمام مسلم ممالک کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور اسلامی فوجی اتحاد کو تشکیل دے کر اسے امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد اور امریکی و اسرائیلی بربریت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے استعمال کر نا لازم ہے ورنہ امریکی اور اسرائیلی دہشت گردی مزید بڑھے گی.
        وہ مسلم حکمرانو! مسجد اقصٰی تمہیں آواز دے رہی ہے، بیت المقدس کی پاک سر زمین تمہیں پکار رہی ہے کہ مجھے من کے کالے جسم کے گورے، ظالم، جابر اور دہشت گرد قوم سے نجات دلاؤ.

روناپار: نابالغ لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر، مقدمہ درج!

روناپار/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 22/مئی 2018) روناپار تھانہ علاقہ کے گاؤں رہائشی نے تھانہ میں اپنی بیٹی کی عصمت دری کی تحریر دی ہے، کہ گاؤں کا ہی ایک لڑکا جو گزشتہ 17/ مئی کو رات تقریباً  9 بجے لڑکی کو بہلا پھسلا کر اپنے گھر لے گیا، جہاں اس نے اس کے ساتھ زنا کیا، لڑکی کی مخالفت کرنے پر جان سے مارنے کہ دھمکی بھی دی، مذکورہ باتیں لڑکی کے والد نے روناپار تھانے میں تحریر دی ہے.
آپ کو بتا دیں کہ گزشتہ 17 مئی کو لڑکی گھر میں نہیں تھی کافی تلاش کرنے کے بعد بھی نہیں ملی، دیر رات جب لڑکی گھر واپس آئی تو گھر والوں کے پوچھنے پر لڑکی نے پورا واقعہ بتایا جس کو لیکر لڑکی کے والد نے تھانہ میں تحریر دی ہے.
روناپار تھانہ انچارج نے بتایا کہ تحریر ملی جس کو لیکر دفعہ 147, 376,  اور 504 آئی پی ایس 3/4 ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے.

Monday 21 May 2018

افطار میں برادران وطن کو بھی کبھی شریک کیجیے!

تحریر: محمد قمرالزماں ندوی مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
ــــــــــــــــــــــ
        اللہ تبارک و تعالٰی نے پوری انسانیت کو ایک ہی ماں باپ آدم اور حوا علیھم السلام سے وجود بخشا، گویا ساری مخلوق ایک ہی کنبہ کے افراد اور ایک ہی خاندان کے ارکان ہیں ۔
     نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ الخلق کلھم عیال اللہ ساری کی ساری مخلوق اللہ ہی کا کنبہ ہے ۔
       اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ رشتہ ہمیں برادران وطن کے ساتھ حن سلوک، خیر خواہی اور بہتر رویہ کی راہ دکھاتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے ۔ آج کے ملکی اور غیر ملکی حالات میں ہم مسلمانوں کو اس پہلو سے بھی ضرور غور کرنا چاہئے کہ ہم کس طرح برادران وطن کو اپنی خوشیوں میں  شریک کریں اور عید الفطر اور افطار کا اسلامی اور روحانی منظر دکھا کر ان کا دل جیتیں اور  مذہب اسلام سے مانوس کریں ۔
          شریعت کی رو سے رمضان المبارک کا مہینہ ضبط نفس ایثار اور غم خواری کا مہینہ ہے یہ انسانیت کے دکھ درد اور پریشانی کو سمجھنے اور محسوس کرنے کا مہینہ ہے اس مہینہ میں جہاں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور نفلی نمازوں اور تلاوت و تسبیحات و اذکار کی زیاتی کی تلقین کی گئ ہے وہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خرچ خرچ کرو اور خلق خدا کو فائدہ پہنچاو ۔ خلق خدا میں ساری انسانیت شامل ہے ۔ صدقات واجبہ یعنی زکوة تو صرف مسلمان فقراء اور مستحقین پر خرچ کریں کیونکہ ہمیں اسی کا پابند شریعت نے بنایا ہے ،لیکن صدقات نافلہ جہاں ہم مسلمان غرباء اور مستحقین پر خرچ کریں وہیں برادران وطن پر بھی ہم اس مد میں سے کچھ خرچ کریں ،اور خصوصا آج کے حالات اور حساس دور میں اس کی سخت ضرورت ہے ،جہاں برادرن وطن کے ذہنوں میں ہمارے تئیں بہت ہی نفرت، غلط فہمیاں ہیں اور دوریاں ہیں ۔
           ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی اور نجات کے لئے ایمان اور عمل صالح شرط لازم ہے اس کے بغیر انسان خسارہ میں ہے سورہ عصر میں اللہ تعالی نے زمانے کی قسم کھا کر اس بات کو بیان کیا کہ زمانہ کی قسم سارے کے سارے انسان خسارے اور گھاٹے میں ہیں بجز ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کیا حق اور صبر پر جمے رہے اور اس کی تلقین کرتے رہے ۔
        اس سے معلوم ہوا کہ ایمان سے محرومی کی وجہ سے ایسے لوگ ہمیشہ دوزخ کا ایندھن بنے رہیں گے اور یہ دوزخ کس قدر ہولناک تکلیف دہ اور اذیت ناک ہوگا کہ دنیا میں اس کی ہولناکی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالٰی انسان کے سارے جرم اور گناہ کو معاف کر دیں گے لیکن شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے ۔
    تو ان ایمان سے محروم اور شرک میں مبتلا لوگوں کی نجات اور کامیابی کی فکر کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے اس امت (مسلمہ) کو خاص طور پر اس کی ہدایت کی ہے اور اس کا مکلف بنایا ہے ۔
     تو ہماری یہ دعوتی ذمہ داری تو پورے سال اور پوری زندگی پر محیط ہے لیکن رمضان المبارک کے مہینہ میں ہماری یہ ذمہ داری دوگنی اور دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ یہ مہینہ وہ مبارک مہینہ ہے جس انسانیت  کی ہدایت کے لئے اللہ تعالی نے آخری آسمانی الہامی کتاب نازل کیا ۔
         لہذا اس کتاب  ہدایت کو اور اس کے آفاقی پیغام کو برادران وطن تک اس ماہ مبارک  میں پہچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
رمضان المبارک کا یہ مہینہ ہمارے لئے اس کا بہتر موقع بھی فراہم کرتا ہے ۔
الحمد للہ ایک حلقہ اس عمل اور اس محنت کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے اور اس کے مفید نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔
دوسرا کام جو ہم مسلمانوں کو اس ماہ مبارک میں آج کے ملکی حالات کی روشنی خاص طور پر انجام دینا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم افطار کے موقع پر برادران وطن کو بھی مدعو کریں اور وہ ہمارے کھانے میں شریک ہوں اور خدا کی بندگی کے اس غیر معمولی نظارہ کو وہ اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھیں لیکن یہ افطار پارٹی کی طرح رسمی پارٹی نہ ہو جہاں شور و ہنگامہ اور افرا تفری اور تصویر کشی کا ماحول ہوتاہے اور روحانیت اور عبادت نام کی کوئ چیز نہیں ہوتی ۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ افطار کے نظم کو شور و ہنگامہ اور محض کھانے پینے کے انتطام اور تصویر کشی اور دیگر خرافات سے بچاتے ہوئے وہ ماحول پیدا کیا جائے جو افطار کے لئے مطلوب ہے اور غذائی دعوت سے زیادہ جس میں روحانی دعوت کا عنصر شامل اور  نمایاں ہو ۔ افطار سے پہلے روزہ کی حکمت و مصلحت اور اس کے روحانی و جسمانی فائدے پر گفتگو کی جائے ۔ اور اس وقت غیر مسلم بھائیوں کے سامنے انسان اور انسانیت کے مقام کو اجاگر کیا جائے اور حسب حال مختصر سے بیان میں توحید و رسالت اور آخرت کے تصور پر بھی روشنی ڈالی جائے ۔ نیز قرآن مجید کا تعارف کرایا جائے اور قرآن مجید کا ہندی اور انگریزی نسخہ ان لوگوں کی خدمت میں پیش کیا جائے ۔
اجتماعی نماز کا منظر وہ دیکھ سکیں اس کے لئے افطار کے بعد ان کے بیتھنے کا مناسب انتظام بھی کیا جائے ۔ اس دعوت کو صرف کھانے کا دسترخوان نہ بنایا جائے بلکہ ہدایت ربانی کا دستر خوان بھی بنانے کی کوشش کی جائے ۔
جب افطار کے وقت موجود  برادران وطن ہماری نماز کو دیکھیں گے تو ضرور اس کا اثر پڑے گا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ خود نماز کا منظر بھی بہت ہی پر کیف اور متاثر کن ہے ۔
آئیے رمضان المبارک میں ہم اس پہلو اور اس جہت سے بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کریں یقینا آج کے ماحول میں اس طرح کی  دعوتی حکمت عملی کی سخت ضرورت ہے ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق بخشے اور صرف تھیوری نہیں بلکہ پریکٹیکل ہم اس کام کو انجام دینے لگیں اس کی ہمت اور حوصلہ بخشے ۔  آمین