اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: کانگریس کے لئے ایک سبق!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 25 May 2018

کانگریس کے لئے ایک سبق!

ایم ودود ساجد
ــــــــــــــــــــ
یہ مہینہ ہم سیاہ کاروں کے لئے اپنی عاقبت کی فکر اور دنیا سے اظہار بیزاری کا ہے۔سیاست پر اب ویسے بھی لکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔لیکن کرناٹک کا موضوع کچھ عرض گزاری کا متقاضی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ کرناٹک کے حالیہ اختتام پزیرریاستی الیکشن میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی کے طورپرسامنے آئی ہے۔لیکن اس کے پاس حکومت سازی کیلئے مطلوب پوری سیٹیں نہیں ہیں۔دوسرے نمبر پر کانگریس ہے۔اور تیسرے نمبر پر جنتادل(سیکولر)ہے۔بڑی پارٹی ہونے کے باوجودسب سے زیادہ خسارہ میں بی جے پی ہے۔وہ گورنرصاحب کی جانبدارانہ روش کے سبب2دن کی حکمراں رہ کراب ذلت سمیٹ رہی ہے۔کانگریس خسارہ کے باوجود سب سے زیادہ فائدہ میں ہے۔مگر سب سے کم نمبروالی جماعت جنتادل (ایس)اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کی دلچسپی کا محور بن گئی ہے۔سچ پوچھئے تو محض 38سیٹوں والی جماعت نے تمام اپوزیشن کوایک پلیٹ فارم پر آکر فرط وانبساط کے اظہار کا موقع دیدیا ہے۔گو کہ اس موقع کی فراہمی کانگریس کی بدولت ہے لیکن اپوزیشن کے بہت کم لیڈر ایسے ہیں جن کی توجہ کانگریس پر ہے۔
کانگریس کی حمایت سے جنتادل (ایس)کی حکومت سازی کے وقت بنگلور میں کم وبیش تمام اپوزیشن جماعتوں کے بڑے قائدین کا جوعلامتی اتحاد نظر آیااس میں کانگریس کیلئے ایک سبق پوشیدہ ہے۔کانگریس کو یہ گمان نہیں ہونا چاہئے کہ حزب اختلاف کے قائدین کرناٹک میں اس کے دوراندیش اقدام کی ستائش میں وہاں جمع ہوئے تھے۔جنتادل (سیکولر) کی 38سیٹوں کے مقابلے میں کانگریس نے اپنی 78سیٹوں کی کوئی قربانی پیش نہیں کی ہے۔اگر وہ کماراسوامی کو حمایت نہ دیتی تو جنتادل (ایس)کے قائدین بی جے پی کے ساتھ جانے میں کوئی تکلف نہ کرتے۔اور اس طرح کرناٹک جیسا صوبہ عملاً بی جے پی کے کنٹرول میں آ جاتا۔یہی وجہ ہے کہ بی جے پی آتش زیرپا ہے۔اس کے ہاتھ سے اتنا اہم اور بڑا جنوبی صوبہ نکل گیا-
کانگریس نقصان میں نہیں ہے۔حکومت سازی میں اسے بڑا حصہ مل گیا ہے۔بندوق جنتادل کے کاندھے پر ہوگی اور نشانہ کانگریس لگائے گی۔لیکن بی جے پی کے خلاف اپوزیشن اتحادکی قیادت کانگریس کو میسر نہ ہوسکے گی۔
کماراسوامی کی تقریب حلف برداری ایک اعتبار سے اپوزیشن سیاست کی تاریخ میں ایک انوکھی تقریب کے طورپریاد رکھی جائے گی۔حلف برداری کے اسٹیج پرسونیا گاندھی‘راہل گاندھی‘مایاوتی‘اکھلیش یادو‘شرد یادو‘شرد پوار‘چندرابابو نائیڈو‘ممتا بنرجی‘سیتارام یچوری‘اجیت سنگھ‘اے راجا اورپنارائی وجین سمیت بہت سے قائدین ایک ساتھ کھڑے ہوکر بہت خوش اور جذباتی نظر آئے۔مذکورہ قائدین نے تقریباً تمام علاقائی بڑی پارٹیوں اور ریاستوں کا احاطہ کرلیا۔لیکن اپوزیشن اتحادکی سب سے بڑی علم بردارجماعت تلنگانہ راشٹر سمیتی اس موقع پراعلانیہ غائب رہی۔تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ اس وقت غیر بی جے پی اور غیر کانگریس اتحاد کیلئے سب سے زیادہ پرجوش اور متحرک ہیں۔انہوں نے کرناٹک میں تقریب حلف برداری سے پہلے (وزیر اعلی )ایچ ڈی کماراسوامی سے فون پر بات ضرور کی لیکن وہ شریک نہیں ہوئے۔ان کی عدم شرکت یوں ہی نہیں ہے۔اس کا ایک واضح پیغام ہے۔چونکہ وہ بی جے پی کے خلاف اتحادمیں کانگریس کو شامل کرنے کے خواہاں نہیں ہیں اس لئے انہوں نے تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔آپ کو یاد ہوگا کہ تقریب حلف برداری سے ایک دن پہلے خود مایاوتی زور دے کر یہ بات کہہ چکی ہیں کہ کانگریس کو علاقائی پارٹیوں کا احترام کرنا ہوگا۔
میں تو اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کرناٹک میں اپوزیشن کے بڑے قائدین نے جو جوش وخروش اور اتحاد ظاہر کیا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ اتحاد کی مہم میں کانگریس کی پشت پر ہیں۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقائی پارٹیوں کے رعب ودبدبے کے احیاء پرنہ صرف حد درجہ خوش ہیں بلکہ پر امید بھی ہیں کہ علاقائی جماعتوں کے اتحاد کی شکل میں بی جے پی کے خلاف کوئی بڑا محاذ تشکیل پاجائے گا۔کانگریس کیلئے اس میں یہ سبق ہے کہ وہ اب خود کو سب سے بڑی مرکزی جماعت تصور نہ کرے اور اس بڑے شرارت پسند بھائی کا کردار ترک کردے جو شریف چھوٹے بھائی کا حق بھی غصب کرجاتا ہے۔کانگریس ملک بھر میں بیشتر ریاستوں سے سمٹ چکی ہے۔زیادہ تر ریاستوں میں یا تو بی جے پی ہے یا علاقائی جماعتیں ہیں۔مثال کے طورپرسب سے بڑی ریاست اترپردیش میں سماجوادی اور بہوجن سماج مضبوط پارٹیاں ہیں۔بہار میں نتیش اور لالو کی پارٹیاں ہیں۔تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹر سمیتی ہے۔آندھرا پردیش میں چنداربابو نائڈو کی ٹی ڈی پی ہے۔کیرالہ میں بایاں محاذ مضبوط ہے۔تامل ناڈو میں ڈی ایم کے اور اے آئی ڈیم ایم کے ہیں۔اس کے علاوہ وہاں کچھ مقامی جماعتیں بھی ہیں جن میں ایک مسلم جماعت بھی ہے۔کرناٹک میں جنتادل (ایس)کا احیاء ہوہی چکا ہے۔مغربی بنگال میں ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس ہے۔مہاراشٹرمیں شردپوار کی این سی پی ہے۔دہلی میں عام آدمی پارٹی ہے۔آسام میںآسو اوریو ڈی ایف ہیں۔ہاں کچھ ریاستیں ابھی ایسی ہیں کہ جہاں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس ہی کرسکتی ہے۔ان میں پنجاب‘راجستھان‘ہریانہ‘چھتیس گڑھ‘مدھیہ پردیش ‘گجرات وغیرہ شامل ہیں۔ایسے میں چھوٹی یا علاقائی جماعتوں کو نظر انداز کرنا کانگریس کے لئے ہی خسارہ کا سودا ہے۔اسے کہیں چھوٹا بن کرکم پر اکتفا کرنا ہوگااور کہیں بڑا بن کرفراخ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
کانگریس کو ایک اور نکتہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔وہ بھلے ہی خود کو مسلمانوں سے دور کوئی ’غیر مسلم‘پارٹی ثابت کرنے میں توانائی صرف کررہی ہو لیکن تقریباً تمام علاقائی جماعتیں مسلمانوں کو علانیہ طورپرساتھ لے کرچل رہی ہیں۔تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ‘آندھرا پردیش کے وزیر اعلی چندرابابو نائڈو‘مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی اور کیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین کو مسلمانوں کو ساتھ رکھنے اور ان کا کام کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔اگر کانگریس ملک بھر میں واقعی بی جے پی سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے اور 2019میں اسے اقتدار سے دور رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔اسے یہ سمجھنا ہوگا کہ کرناٹک میں اتنی بڑی تعداد میں اپوزیشن قائدین اس کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک غیر بی جے پی-غیر کانگریس اتحاد کی تلاش میں جمع ہوئے تھے۔