اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: July 2018

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 31 July 2018

تعلیم روزگار و تحفظ کے میدان میں ملت کو مستحکم کرنے کے لئے تحریک عوام ہند کے زیر اہتمام مدرسہ حیات الاسلام میں میٹنگ کا انعقاد، ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل عام ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان!

عارف سراج نعمانی
ــــــــــــــــــــــــــــ
لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز 31/جولائی 2018) کسی بھی قوم کو ناکامی و تنزلی کے گڈھے میں دھکیلنے کے لئے اس قوم کو تعلیمی میدان سے دور کردیا جائے باالخصوص اسلامی تعلیمات جس کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنی تہذیب و تمدن سے دور کرنے کے لئے ایڈی چوٹی کے زور لگادئے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنے دین اور شریعت سے دور ہوکر دنیوی رسم و رواج پر عمل پیرا ہوجائیں.
مسلمانوں کی سب سے بڑی ناکامی کی وجہ یہی ہے کہ انکو تعلیم روزگار و تحفظ کے میدان میں ناکامی و مایوسی ہاتھ لگی ہے ملک میں تقریباً سبھی نے مسلمانوں کو استعمال کیا اور انکا بھر پور استحصال کیا ہے مذکورباتیں مدرسہ حیات الاسلام میں منعقدہ آل انڈیا تحریک عوام کی میٹنگ کے دوران مقامی علماء و ائمہ نے کہی اکرام نگر بڑی مسجد کے امام و خطیب مولانا دلشاد مظاہری نے کہا کہ آج ملک کے اندر جس طرح کے حالات پیدا کئے جارہے ہیں وہ تشویش ناک ہے انہوں نے کہا ایسی سنگین صورتحال میں تحریک عوام ہند کا اقدام قابل تحسین ہے ہمیں اس تحریک کو ہر سطح پر مضبوط کرنا چاہئے تاکہ یہ تنظیم ملکی سطح پر قوم و ملت کی مضبوطی کے لئے عملی اقدامات کرے مولانا نوشاد قاسمی نے میٹنگ کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر میدان میں آج مسلمانوں کے ساتھ سماجی و اقتصادی زندگی میں جو امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے اسکو دیکھ کر تو محسوس یہی ہورہا ہے کہ قوم بجائے ترقی کے تنزلی کی طرف جارہی ہے اور کوئی لائحہ عمل ہمارے پاس نہیں ہے انہوں نے کہا کہ تحریک عوام ہند قوم و ملت کے لئے بہترین پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعہ ملک گیر سطح پر تعلیمی بیداری مہم کا آغاز کیا جا چکا ہے ہمیں چاہئے کہ آل انڈیا تحریک عوام کا بھر پور تعاون کریں میٹنگ کے دوران ملک میں ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام اور مسلمانو کے خلاف ظلم و بربریت کو ملک کے سیکولرزم اور ملکی آئین کی بقا کے لئے خطرقراردیا مفتی تقی القاسمی مفتی تحسین قاسمی قاری عبد القیوم نے مولانا عبد الجبار امام و خطیب حمزہ مسجد نے کہا مسلمانوں کو قتل کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ظلم و بربریت کا سلسلہ اب عام ہوگیا ہے جوکہ ملک کی سالمیت کے لئے خطرناک ثابت ہوگا جسکی تحریک عوام ہند بھر پور مذمت کرنے کے ساتھ حکومت ہند سے مسلمانو کے تحفظ کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتی ہے تحریک عوام کی جانب سے مدرسہ حیات الاسلام میں منعقدہ جائزہ میٹنگ میں جملہ علماء و ائمہ اس بات پر اتفاق کیا کہ تحریک عوام ہند کی جانب سے مسلمانوں کے تحفظ و تعلیمی میدان میں بیداری تحریک کا مکمل طور سے تعاون کرنا اور مقامی سطح سے لیکر اسکے لئے افراد سازی کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اس کے لئے تحریک عوام ہند ہر مسجد و مدرسہ کے علاوہ گلی محلوں میں بھی رابطہ مہم کر بیداری تحریک چلاکر مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے اور اپنے حقوق کی حصولیابی کے لئے اٹھ کھڑا ہونے کی تحریک چلائیگی ماشاء اللہ چہار جانب تحریک عوام ہند کو علماء کرام ائمہ عظام و عام مسلمانوں کی جانب سے جو تعاون مل رہا ہے جلد ہی یہ ایک بڑی کامیابی میں تبدیل ہوگا میٹنگ میں قاری اکبر فاطمہ مسجد حافظ سلیم ستارہ مسجد قاری انتظار مولانا مختار قاری ذیشان مدرس حیات الاسلام قاری مرشد الحمدللہ مسجد مولانا عباس رحمت مسجد کے علاوہ کثیر تعداد میں علماء و ائمہ نے حصلہ لیا مولانا نوشاد قاسمی خطیب چاند مسجد کی دعاء پر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی.

آسام کے چالیس لاکھ سے زائد شہریوں کا نام شامل نہ ہونا ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ!

جمعیۃ علماء آسام کے تمام یونٹوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کریں تاکہ وہ ہمت کے ساتھ اپنی شہریت دوبارہ ثابت کر سکیں: مولانا محمو مدنی

دہلی(آئی این اے نیوز 31/جولائی 2018) جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے کہا ہے کہ این آر سی کی حتمی ڈرافٹ فہرست میں آسام کے چالیس لاکھ سے زائد شہریوں کا نام شامل نہ ہونا ایک اہم اور سنجیدہ مسئلہ ہے ، اس کی وجہ سے ملک کے سماجی، معاشرتی اور جغرافیائی حالات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔اس لیے ملک کی مرکزی وریاستی سرکاریں کسی بھی طرح کا قدم اٹھانے سے پہلے اس کے انسانی پہلو کو ہر گز نظر انداز نہ کریں ۔
مولانا محمود مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند اس مسئلہ پر کافی فکر مند ہے اور وہ آسام کے لوگوں کے حق کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہے اور رہے گی ، ساتھ ہی اس سے متعلق سپریم کورٹ میں قانونی جدوجہد جاری رکھے گی ۔
مولانا مدنی نے آسام کے لوگوں سے خصوصی اپیل کی ہے کہ وہ اپنی ہمت نہ ہاریں، جو صورت حال بھی پیدا ہوئی ہے، اس کوقانونی طور سے درست کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔جن لوگوں کا نام نہیں آیا ہے وہ سنجیدگی کے ساتھ تمام ضروری اقدامات کریں اوربنیادی معلومات و دستاویزات مہیاکرائیں ، اس کے لیے جہاں بھی عذ داری کی ضرورت ہو، اس میں ہرگز تساہلی نہ برتیں ۔انھوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی تمام یونٹوں کو آسام میں ہدایت دی گئی ہے کہ متاثرین کے لیے کاغذات کی تیاری اور عذرداری میں تعاون پیش کریں ۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء صوبہ آسام نے تقریبا ۱۵ سو لوگوں کا انتخاب کیا ہے جن میں وکلاء اور دانشواران شامل ہیں جو ہر ضلع کے سینٹر پر فارم پرُ کرنے میں مدد کریں گے۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا ہے کہ جہاں کہیں افسران کی طرف سے غیر قانونی طور پر سختی کی جائے ، تو اس کی اطلاع جمعیۃ علماء کی مقامی اکائی کو دی جائے ، وہاں کی قیادت اس مسئلہ کو سلجھانے کی حتی الوسع کوشش کرے گی ۔واضح ہو کہ آج صبح دس بجے این آرسی کی دوسری فہرست جیسے ہی سامنے آئی ، مولانامحمود مدنی نے جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل ، ناظم اعلی حافظ بشیراحمد وغیرہم سے گفتگو کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور لائحہ عمل پر تفصیل سے گفتگو کی ۔

شبلی کالج اعظم گڑھ: الٰہ آباد میں طلبہ پر پولیس کی زیادتی سے ناراض طلبہ نے انتظامیہ کا پتلا پھونکا!

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/جولائی 2018) شبلی نیشنل پی جی کالج اعظم گڑھ کے طالب علم لیڈروں اور طلبہ کی طرف سے الہ آباد یونیورسٹی کی طالبہ نیہا یادو، رما موریا پر پولیس نے لاٹھی ڈنڈو سے حملہ کیا، اسی کی مخالفت میں الہ آباد انتظامیہ کا پتلا پھونکا گیا.
اس دوران طالبہ وملا یادو نے کہا کہ حکومت خواتین، کے ساتھ آئے دن استحصال کر رہی ہے اور خواتین کے ساتھ ریاست میں عصمت دری کے واقعات بھی بڑھتی جا رہی ہے.
 شارق خان اعظمی نے کہا کہ پردیش میں خواتین کی عصمت دری اور ناانصافی کے خلاف سرکار سخت کارروائی کرے.
اس موقع پر ہریکیش یادو، لالجيت یادو، كاشف شاہد، افضل اعظمی، یاسر اعظمی، ابنیش یادو، آکاش سنہا، راگھویندر یادو، اکشے یادو، جتیندر چوہان وغیرہ موجود رہے.

Monday 30 July 2018

دیوگاؤں: مہناج پور روڈ پر واقع جامع مسجد عمر بن خطاب کے ارد گرد بارش کا پانی جمع ہونے نمازیوں اور راہگیروں کو دقت!

عبدالرحیم
ـــــــــــــــــ
دیوگاؤں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/جولائی 2018) دیوگاؤں بازار میں مہناج پور روڈ پر واقع مسجد عمر بن خطاب جو جامع مسجد بھی ہے، حلقہ کے قصبہ دیوگاؤں بسہی اقبالپور، سلہرا، بنارپور، دونہ سمیت اطراف کے اکثریت گاؤں کے لوگ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں، ایسی وسیع و عریض مسجد کے سامنے روڈ پر کافی دور تک بارش کا پانی بھرا رہتا ہے، جس سے نمازیوں سمیت راہگیروں کو بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ اس روڈ پر کافی آمد و رفت ہوتی ہے، یہ روڈ دیوگاؤں سے غازیپور کو جوڑتا ہے، آئے دن راہگیر گر کر زخمی ہوجاتے ہیں، لیکن اس طرف نہ تو عوامی نمائندوں کی نگاہیں جاتی ہیں اور نہ ہی متعلقہ محکمہ کو اس کی فکر ہے، اور تو اور دیوگاؤں بازار میں جہاں جہاں پانی بھر جاتا تھا وہاں گزشتہ دنوں PWD کے ٹھیکے داروں اور جے ای کے لوگوں کو منع کرنے کے باوجود جے سی بی لگاکر گڈھا کھود دیا جو کہ اور خطرناک شکل اختیار کر لیا ہے، عوام کو یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ کہاں تک سڑک ہے اور کہاں تک نالہ، صورتحال یہ ہوگئی کہ کئی بار اس میں گاڑیاں چلی گئی جس کو نکالنے میں کافی دقتیں ہوتی ہیں.
دیوگاؤں کی عوام نے متعلقہ محکمہ سے مطالبہ کیا ہے کہ دیوگاؤں بازار میں تھوڑی سی بھی بارش ہوجانے سے پورے بازار میں پانی بھر جاتا ہے اس لئے یہاں دونوں جانب نالہ بنایا جائے، تاکہ بارش کے پانی سے عوام کو چھٹکارا مل سکے.

موت ایک ناقابل انکار حقیقت!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیاوی زندگی دارالعمل ہے، نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ اور برے اعمال کی پوری سزا اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالی نہیں دیتا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا، وانماتوفون اجورکم یوم القیامة، یعنی اعمال کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا، دنیا میں تھوڑی بہت سزا تو کسی برائی کی کبھی اللہ دیدیتا ہے، لیکن پورا پورا بدلہ قیامت کے دن ہی ملے گا، جب دنیا دارالعمل ہے، وقتی زندگی ہے،
اصل زندگی آخرت کی ہیے، اس دنیا سے ہر انسان کو کوچ کرجانا ہے، اسی لئے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بارے میں فرمایا "کن فی الدنیاکانك غریب" اے عبداللہ بن عمر دنیا میں آپ ایسے ہی رہو جیسے ایک مسافر رہتا ہے، مطلب یہ کہ دنیا کی طرف  مت مائل ہو دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز مت ہو، لوگوں سے زیادہ مل جل کر مت رہو کیونکہ ایک دن لوگوں کو چھوڑ کرجانا ہے، آگے آقا نے فرمایا "اوعابرسبیل" یعنی دنیا میں تم مسافر کی طرح ہو بلکہ ایک راہ گیر کی طرح ہو کیونکہ مسافر تو کسی شہر میں قیام بھی کرلیتا، لیکن راہ گیر اپنی منزل مقصود کی طرف نظر رکھتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں میں مست ومگن ہوکر آخرت کومت بھول جاؤ بلکہ جس طرح ایک مسافر کہیں سفر کرنے سے پہلے تیاری کرتا ہے ایسے ہی تم بھی اپنے آخرت کے سفر کے لئے تیاری کرو.
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اکثروا ھاذم اللذات الموت" لذتوں کو ختم کرنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو، موت کو یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موت کو بھول نہ جاو کہ تم قیامت کے دن سے غافل ہوجاؤ بلکہ موت کو کثرت سے یاد کرو، موت کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی تیاری کرو، اعمال خیر میں سبقت کرو، برائیوں سے اجتناب کرو، کیونکہ جب موت کو یاد کرو گے توآخرت سے غافل نہیں رہو گے.
 موت ایک ایسی چیز ہے جس کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں، ان پانچ چیزوں میں جس کا علم صرف اللہ کو ہے ان میں موت بھی ہے، جب موت کا وقت متعین نہیں، نہ ہی انسان کو موت سے چھٹکارا ہے کہ موت سے بچ نکلے اور حساب وکتاب اس کا نہ ہو.
اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا "اے انسانوں اور جنات کی جماعت تم آسمان و زمین کے کناروں سے پار ہونے پر قادر ہو تو پار ہوجاؤ، پار وہی ہوسکتا ہے جو طاقت ور ہو، مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی قضاء سے بچ کر نہیں نکل سکتے بلکہ ایک دن تمہیں موت آئے گی اور حساب و کتاب کے مراحل سے گزرنا ہوگا، حساب وکتاب سے کوئی مفر نہیں، اللہ کو تم دھوکہ دے سکو اے انسانوں اور جناتوں کی جماعت تم اس پر ہرگز قادر نہیں، لہٰذا موت کا ہمیشہ استحضار رکھو اور ہر آن اور ہرلمحہ اس کی تیاری میں ہمہ تن گوش رہو.
قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے "این ماتکونوا یدرکم الموت" (آل عمران) یعنی تم جہاں کہیں بھی رہوگے موت تمہیں دبوچ لے گی اگرچہ تم مضبوط قلعہ میں ہی کیوں نہ ہوں، مطلب یہ ہے کہ موت سے کوئی چھٹکارا نہیں، ہر نفس کو موت کامزہ چھکنا ہے، اور دار دنیا سے دار آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے.
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں، ہر شخص موت کا قائل ہے، اور موت کے سلسلہ میں کیوں کر کوئی اختلاف کرسکتا ہے جب کہ ہر شخص اس کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے، کہ انسان کا جسم جس پر انسان کو ناز ہوتا ہے، حضرت عزرائیل علیہ السلام جب روح قبض کر لیتے ہیں، وہ جسم کسی کام کا نہیں رہتا، روح قبض ہونے کے بعد ساری دنیا کے انسان مل کر روح کو دوبارہ واپس نہیں لاسکتے.
خدا کے منکرین اگر اس بات پر بھی غور کریں تو دنیا کا کوئی خالق انہیں ضرور نظر آئے گا، کیونکہ جو جسم تھوڑی دیر پہلے بالکل ٹھیک تھا، ایکبارگی کیا ہوگیا کہ بولنے پر بھی قادر نہیں.
موت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کا تحفہ قرار دیا ہے، کیونکہ مرنے کے بعد اخروی زندگی کی جانب رسائی ہوگی، اور نیک اعمال کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا.
ایک عقل مند انسان وہی ہے جو اپنی اصلی اور لابدی زندگی کے لئے تیاری کرے، کیونکہ جب دنیاوی سفر کے لئے پہلے سے تیاری کرتے رہتے ہیں کہ سفر کے اندر کوئی پریشانی اور مصیبت کا سامنانہ کرنا پڑے، تو آخرت کاسفر تو ہمیشگی کا سفر ہے، ایسی جگہ کوچ کرنے کی جگہ ہے جہاں سے دوبارہ لوٹ کر نہیں آنا ہے، لہٰذا ہماری توجہ دنیا کے مال و متاع پر ہو اور اپنی اخروی زندگی کو سجانے سنوارنے سے بالکل غافل ہوجائیں تو ایسا شخص بیوقوف ہے، عقل مند تو وہ ہے جو اپنی لابدی اور اخروی زندگی کے لئے محنت کرے اور ہر آن اور ہرلمحہ آخرت کو سجانے میں مصروف ہو، اور اپنے ہر عمل میں قرآن وحدیث کی پیروی کرے.
دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے سے اسلام میں منع نہیں کیا گیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے اس دعا کو پڑھا کرتے تھے  "ربنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الاخرہ حسنة" یعنی دنیا اور آخرت کی بھلائی سے نواز دے، اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فن تفسیر کے امام امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ نے دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بھلائی میں کئی قول نقل کئے ہیں، دنیا کے اندر بھلائی مراد نیک بیوی، کشادہ گھر، مال کثیر، یہ تمام چیزیں مراد ہیں، لہٰذا دنیا کوبہتر بنانے کی نفی کرنا اور یہ کہنا کہ دنیا کو بہتر بنانے سے اسلام میں منع کیا گیا ہے، ایسا کہنے والا پلہ درجہ کا جاہل ہے، قرآن کے خلاف اس کا قول ہے، دنیا کو بہتر بناؤ اس سے منع نہیں کیا گیا ہے، ہاں آخرت سے غافل ہونا اس سے منع کیا گیا ہے.
آج کل مسلمانوں میں بہت ہی خرابی یہ پیدا ہوگئی ہے کہ مسلمان صرف نماز پڑھ لینے کو آخرت کی تیاری سمجھتا ہے، اور دوسرے احکام میں شریعت کی پاسبانی کو ضروری نہیں سمجھتا، نماز تو فرض ہے ضروری ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے صرف نماز ہی ضروری ہے اور دوسرے شرعی احکام سے ہم غافل رہیں، شریعت کی خلاف ورزی کریں، خاص کر آج کل ساری توجہ عبادات پر ہے، معاملات کی درستگی کو ہم سرے سے دین سمجھتے ہی نہیں، حالانکہ حقوق العباد اسلام میں بہت اہم ہے، حقوق العباد کی اہمیت کا اندازہ آپ مسلم شریف کی اس روایت سے لگا سکتے ہیں، قیامت کے دن ایک عبادت گزار کو حاضر کیا جائے گا، جس نے دنیا میں بہت زیادہ عبادات کیا، خوب نمازیں پڑھیں، روزہ رکھے، لیکن اس کے اندر کمی یہ تھی کہ لوگوں سے معاملات درست نہیں تھے، کسی کو گالی دیتا تھا، کسی کی حق تلفی کرتا تھا، کسی سے لڑائی جھگڑا کرتا تھا، قیامت کے دن پائی پائی کا حساب ہوگا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جن لوگوں کے ظلم وزیادتی دنیا میں کیا تھا ان کو اس کے بدلہ نیکیاں دلائی جائیں گے، جبکہ اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گے تو دنیا میں جتنا ظلم وستم ان پر کیا تھا اس کے بقدر گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے، اور وہ شخص جو دنیا میں خوب عبادت کیا اس کو جھنم میں ڈال دیا جائے گا، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد پر پوری توجہ دی جائے، معاملات کی درستگی کا خاص خیال رکھا جائے، ہر آن ہر لمحہ موت کا استحضار ہو، اخروی سفر کی تیاری کے لئے ہمہ تن گوش ہو، اللہ تعالی ہم سب کو جنت الفردوس میں اعلی ٹھکانہ نصیب فرمائے...آمین...

ھِندِی مُسَلمَان آزادِی سِے پَہلے اَور آزادِی کِے بَعد!

از قلم: عَبدُالمَاجِد بھِیروِی
9044200572

اللہ تبارک وتعالٰی نے انسان کو فطرةً آزاد پیدا فرمایا ہے جب اس کی آزادی میں کوٸی رکاوٹ حاٸل ہوجاتی ہے تو غیرت خداوندی کو جوش آجاتا ہے اور اس سے نجات کےلٸے کوٸی راستہ پیدا فرماتا ہے جیسا کہ بنی اسراٸیل کو فرعون کے ظلم و ستم اور اس کی غلامی سے آزادی کےلٸے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اسی طرح نبی کریم ﷺ کو پوری نوع انسانی کا نجات دہندہ بنایا اور آپ جو دین لاٸے وہ دین دینِ فطرت ہےاس کی فطرت اور مزاج میں حرّیت اور آزادپسندی شامل ہے انسان کی غلامی کو وہ سب سے بڑی لعنت قراردیتے ہیں ۔
ملک ہندوستان برصغیر کے اہم ملکوں میں شمار ہوتا ہے مسلمانوں نے یہاں تقریباً آٹھ سو سال تک شاندار طریقے سے حکومت کی زمانہ قدیم سے اس کی دھاک ساری دنیا پر بیٹھی ہوٸی تھی عوام و خواص کی زبان میں وہ ”سونے کی چڑیاں“تھا یہاں مسلمانوں کو عروج و زوال کے لحاظ سے سب سے زیادہ سنگین صورت حال برطانوی سامراجیت کے زمانے میں پیش آٸی اور وہ سونے کی چڑیا ہندوستان کو اپنی گرفت میں لینے کا خواب دیکھنے لگےظلم و بربریت اور سفاکی کی شکلیں اختیار کرنے لگے تو سب سے پہلے مسلم قوم نے ہی اپنے علماء کی قیادت میں آزادی کی جدوجہد شروع کی جس کے اول علمبردار حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلویؒ تھے
15 اگست کی تاریخ ہندوستان کی ایک یادگار اور اہم ترین تاریخ ہے اسی تاریخ کو ہمارا یہ پیارا وطن ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور طوق سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا تقریباً دو سو سال تک مسلسل قربانیوں اور جانفسانیوں کے بعد یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانےکے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا
آج ہم جو اطمینان اور سکون کی زندگی گزاررہے ہیں اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب ہمارے مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے اگر مسلمان میدان جنگ میں نہ کودتے اور علماء مسلمانوں کے اندر جذبہ آزادی کو پروان نہ چڑھاتے تو پھر شاید کبھی یہ ہندوستان آزاد نہ ہوتا یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل فراموش سچاٸی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب لٸے جان و تن نچھاور کیا سخت ترین اذیتوں کو جھیلا خطرناک سزاوں کو برداشت کیا اور طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہوٸے
آج پورے ملک میں جشن یوم آزادی منایا جارہا ہے ہندوستان کی آزادی کو ستر سال ہوچکے ہیں لیکن غور تو کیجٸے تحریک آزادی کی بنیاد 1857 میں کس نے ڈالی تھی ؟ دیش کی آزادی کےلٸے قدم آگے بڑھانےوالے اور سینوں پر گولیا کھانے والے کون تھے ؟ ہمارے علماء کرام ہی تو تھے کیا تاریخ شاملی کا میدان بھول سکتی ہے ؟ کیا تاریخ ریشمی رومال کی تحریک کو فراموش کر سکتی ہے تحریک آزادی کے میر کارواں حضرت شیخ الہند ؒ نے اپنے شاگردوں کی پوری فوج لگادی جمیعت علماء نے علماء و مفکرین کو قاٸدین کا ایک جتھا بناکر میدان میں اتاردیا ایک طرف مہاتماگاندھی نہرو شاشتری بھگت سنگھ سبھاس چندر بوس پٹیل جی جیسے تحریک کے نیتا تھے تو دوسری طرف مسلم لیڈران میں شیخ الہند ؒ امام الہند ؒ شیخ الاسلام ؒ مولانا محمد علی جوہر ؒ حکیم اجمل خان مفتی کفایت اللہ ؒ جیسے عظیم لیڈران انگریزوں سے ٹکر لےرہے تھے
ان بزرگوں نے ان لیڈروں نے وطن کی آزادی کےلٸے مصائب و آلام کی وادیاں طے کیں ہیں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں سینوں پر گولیاں کھاٸیں انگریزوں نے تحریک آزادی کو کچلنے کےلٸے طاقت استعمال کی منافرت کا زہر گھولا دھمکیاں دیں مظالم کے پہاڑ توڑے جلاوطنی کی سزاٸیں سناٸیں جاٸداد ضبط کی اخبارات و رساٸل پر پابندیاں لگاٸیں مگر جو تحریک چل پڑی تھی جو قافلہ نکل پڑا تھا جو کارواں چل پڑا تھا وہ تادم حیات لڑنےکا عزم رکھتا تھا وہ ببانگ دُہل کہتا تھا
       ــــــــــــعـــــــــــ
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوٸے قاتل میں ہے

میں تحریک آزادی کی گہراٸیوں میں نہیں جانا چاہتا میں جلیا نوالہ باغ کی خونیں داستاں نہیں سنانا چاہتا تحریک آزادی کی تاریخ بہت خوفناک اور بہت ہولناک ہے بس کہنا یہ ہے کہ 15 اگست 1947 بڑی قربانیوں اور جانفسانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا آزادی کا سورج طویل تاریکی کے بعد طلوع ہوا تھا گلشن ہند لہو کا نذرانہ لےکر لہلہایا تھا چمن وطن خون سے سیراب ہوکر مہکا تھا اور لہو کا نذرانہ پیش کرنے والے ہمارے علماء تھے آزادی کا نعرہ بلند کرنےوالے ہمارے علماء تھے آزادی کا چراغ روشن کرنے والے ہمارے علماء تھے یہ سچ ہے کہ مہاتما گاندھی نے تحریک آزادی کو نیا رخ دیا جزبہ آزادی کو تیز کیا مگر ان کا مشیر کون تھا انکا ہمراز کون تھا انکا بازو کون تھا ؟ وہ نہرو نہیں تھے پٹیل نہیں تھے بھگت سنگھ نہیں تھے بلکہ امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ؒ تھے مولانا محمد علی جوہر تھے اگر مسلمان تحریک آزادی کا صور نہ پھونکتے تو گاندھی جی کےلٸے تحریک آزادی کی قیادت دشوار ہوتی اگر ہمارے علماء 1857 کا انقلاب برپا نہ کرتے تو ہندوستان کی پثمردہ قوم میں آزادی کا شعور پیدا نہ ہوتا
مگر آہ ۔۔۔ آج آزادی کو ستر سال ہوگٸے ہمارے علماء کی قربانیوں کو ماننے والا کوٸی نہیں  کہتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کا کیا بچا ہی ہے جو تھا وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی شکل میں خود موجود ہے مسلمانوں کا یہاں کچھ نہیں ہے چلے جاو پاکستان چلے جاو بنگلہ دیش ۔۔۔
       ــــــعــــ
معلوم اگر ہوتا انجام محبت کا
نہ دل ہی دیا ہوتا نہ پیار کیا ہوتا

آج ہندوستان یوم آزادی منارہا ہے خوشیاں منارہا ہے مگر کیا یہی جشن آزادی ہے کہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جاٸے ؟ کیا اسی کےلٸے ہندوستان کو آزاد کرایا گیا تھا کہ ہماری مسجدوں کو مندروں میں تبدیل کیا جاٸے ؟ ہمارے مدارس و مکاتب کو دہشت گردی کا اڈا کہا جاٸے ؟ کیا اسی کےلٸے ہندوستان کو آزاد کرایا گیا تھا کہ ہمارے گھروں کو کھیتوں کو اور ہماری بستیوں کو جلایا جاٸے اجاڑا جاٸے ؟ کیا اسی کےلٸے ہندوستان کو آزاد کرایاگیاتھا کہ ہماری عورتوں کی عصمت دری کی جاٸے ہمارے بچوں کو قتل کیا جاٸے ہمارے نوجوانوں کو ہلاک کیا جاٸے ؟ کبھی دہشت گردی کے نام پر کبھی گٸورکھچا (رکشا)کے نام پر کیا اسی کےلٸے ہندوستان کو آزاد کرایا گیا تھا کہ دہشت گردی کے نام پر بےقصور مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر بند کیاجاٸے کبھی مفتی عبدالقیوم کو تو کبھی مولانا انظر شاہ قاسمی کو ؟ کیا اسی کےلٸے ہندوستان کو آزاد کرایاگیا تھا کہ گٸوماتا کے نام پر گٸورکشا کے نام پر ہجومی تشددکے ذریعہ  کبھی جنید کو تو کبھی اخلاق کو تو کبھی اکبر کو مارا جاٸے ؟ کیا اسی کو یوم آزادی کہا جاٸے کہ انگریز یہاں سے چلے گٸے اور سامراجیت ختم ہوگٸی اور بربریت آگٸی منافرت آگٸی تعصب کی ہواٸیں چلنےلگیں ؟ ذرا ان شہدا کی روح سے تو پوچھو کہ ان پر کیا گزرتی ہے جنھوں نے اس کی آزادی کےلٸے مادروطن کو اپنا لہو دیا تھا تاکہ آزادی کے بعد ہندوستان کے ہندومسلم اتحاد کا چمن لہلہاٸےگا محبت کی فضا قاٸم ہوگی متحدہ سماج وجود میں آٸےگاایمانداری کا دور دورہ ہوگا رواداری کا زمانہ ہوگا
ہم آزاد ہندوستان کے آزاد شہری ہیں یوم آزادی ہمارے لٸے نعمت ہے اسلٸے کہ یہ ہمارے بزرگوں کا تحفہ ہے یہ ہمارے علماءکرام کی قربانیوں کا نتیجہ ہے
آٸیے آج سے ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے بزرگوں کی میراث کو بربادی سے بچاٸینگے شرپسندوں کے شر سے وطن کی حفاظت کرینگے آیٸے ہم اپنے عمل و کردار سے آزادی کا صحیح مفہوم واضح کریں اور نفرت عداوت منافرت لاقانونیت اور بربریت اور فرقہ پرستی کا جم کر مقابلہ کریں اور یوم آزادی کو ایک تحریک کا دن بنادیں نیا ماحول پیدا کریں نیا ہندوستان تعمیر کریں
خوشحال اور پُرامن ہندوستان گنگا جمنی تہذیب کا ہندوستان
ہندو مسلم اتحاد کی علامت ہندوستان
شیخ الہند امام الہند شیخ الاسلام کا ہندوستان مہاتماگاندھی نہرو پٹیل کا ہندوستان
علامہ اقبال اور ٹیگور کا ہندوستان سبھاش چندر بوس اور جنرل شہنواز کا ہندوستان
اور اشفاق اللہ خان اور سردار بھگت سنگھ کا ہندوستان تعمیر کریں اور اخوت و بھاٸی چارگی اور پیارومحبت پیدا کریں ار شانہ بشانہ ہوکر کہیں ۔۔۔۔
           ــــــــــعــــــــ
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بَیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستاں  ہمارا

مفتی بلال احمد قاسمی کے سانحہ ارتحال پر بیت العلوم سرائے میر میں قرآن خوانی کا اہتمام!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/جولائی 2018) مفتی بلال احمد صاحب قاسمی کانٹھ مرادآباد کا کل 29جولائی 2018 بروز یکشنبہ انتقال ہوگیا ہے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ اس سانحہ ارتحال پر مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ میں رنج وغم کا اظہار کیا گیا، آج بعد نماز فجر دعاء مغفرت اور قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا۔
 مولانا موصوف کی پیدائش 16 مئی 1960 تھی حضرت کل 57سال کی عمر پائے، پسماندگان میں صرف ایک بیٹی ہے اور ابھی اہلیہ بھی باحیات ہیں، حضرت کا آبائی وطن شیر کوٹ ضلع بجنور ہے، مدرسہ ناصرالعلوم کانٹھ ضلع مرادآباد کے مہتمم اور جمعیة علما ٕ ھند (مولانا محمود مدنی صاحب ) ضلع مرادآباد کے صدر اور فعال رکن تھے ۔ حضرت مفتی صاحب کا مدرسہ ہذا سے والہانہ تعلق تھا اور محسن الامت حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نوراللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق بھی تھا، حضرت نوراللہ مرقدہ مفتی بلال احمد صاحب رحمہ اللہ کو ہر سال مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر کے سالانہ جلسہ میں بطور مقرر خصوصی مدعو کرتے تھے، اور مفتی صاحب کا بیان ہر عام و خاص میں بہت مقبول تھا، اللہ تعالی مفتی صاحب کی مغفرت فرمائے اور پسمانگان کو صبر جمیل عطا فرماٸے۔ آمین

کانگریس نے چھینا مسلم و عیسائی دلتوں کا ریزرویشن: پرویز احمد اعظمی راشٹریہ علماء کونسل

راشٹریہ علماء کونسل 10 اگست 2018 کو منائے گی ناانصافی دن.

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30 جولائی 2018) مسلمانوں اور عیسائی دلتوں سے کانگریس نے ریزرویشن چھینا، سیکشن 341 سے مذہبی پابندی ہٹانے کی مانگ کو لے کر راشٹریہ علماء کونسل دہلی کے جنتر منتر سمیت ملک کے کئی صوبے اور اضلاع میں مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، تمل ناڈو، دہلی اور اتر پردیش کے اعظم گڑھ، جونپور، علی گڑھ، ہاتھرس، كاسگنج، بلیا، مئو، الہ آباد، پرتاپ گڑھ، کانپور، گورکھپور، کشی نگر، دیوریا، مہراج گنج، ہمیر پور، مہوبہ، جھانسی، جالون، بہرائچ، بلرام پور، مرادآباد، بجنور، لکھنؤ، بریلی، وارانسی، چندولی، غازیپور، وارانسی، فیض آباد، امبیڈکرنگر،پیلی بھیت، شاہجہاں پور، بستی، بھدوہی وغیرہ میں دھرنا پردرشن کر میمورنڈم سونپی گی.
واضح رہے کہ 10 اگست 1950 میں کانگریس نے دفعہ 341 میں مذہبی پابندی لگا کر دلت مسلم کو ریزرویشن سے محروم کر دیا تھا، جس کے لئے جس کیلیے راشٹریہ علماء کونسل ہر سال 10 اگست کو ناانصافی دن کے طور پر مناتی ہے، اور یہ احتجاج (آندولن) اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سیکشن 341 پر سے مذہبی پابندی ہٹا نہیں لی جاتی.

فیض آباد: بھیلسر پولیس نے علاقے میں پیدل مارچ کر سیکورٹی کا دلایا بھروسہ!

ماحول خراب کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا:رنجیت سنگھ

بھیلسر/ فیض آباد(آئی این اے نیوز 30/جولائی 2018) رودولی کوتوالی کے بھیلسر میں پولیس نے امن برقرار رکھنے اور افراتفری سے نمٹنے کے لئے پیدل مارچ نکالا، پولیس نے لوگوں کو بھیلسر چوراہے سے گاؤں کی گلیوں میں پیدل مارچ نکال کر حفاظت کا یقین دلایا، اس دوران پولیس نے گلیوں کے ارد گرد ہوٹلوں، ٹھیکے، بازاروں اور گاؤں اور دکانوں پر بھیڑ لگانے والوں کو بھی دوڑایا، پولیس فورس کی وجہ سے ماحول پرسکون اور سڑکیں خالی نظر آئی، پولیس کی گشت نے مجرموں  اور شرپسندوں میں خوف پیدا کر دیا.
بھیلسر چوکی کے ذیلی انسپکٹر رنجیت سنگھ نے کہا کہ امن کے انتظام پر کسی کو شک نہیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، غیر معمولی عناصر پر انتظامیہ کی پہلے سے ہی نظر ہے، اس طرح کے عناصر کو نشاندہی کی جارہی ہے، امن پسند لوگوں کو پریشان کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، اسی وقت انہوں نے لوگوں کو حفاظت کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ افواہوں پر توجہ نہ دیا جائے، بدعنوانی کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا، ایسی ذہنیت کے لوگ پولیس کی نظر میں ہیں، اس پیدل مارچ میں بنیادی طور پر ہمراہی سپاہی گورکھ سنگھ اور Q R T کی ٹیم موجود رہی.

بٹ کوئن محض ایک فرضی کرنسی ہے، اسکا کاروبار ناجائز اور حرام ہے: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 30/جولائی 2018) معروف عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے لال مسجد، شیواجی نگر، بنگلور میں ہزاروں مسلمانوں کو بٹ کوئن کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بٹ کوئن کا کاروبار دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے اور لوگ اسکا شکار ہورہے ہیں۔ بٹ کوئن محض ایک فرضی چیز ہے، دھوکہ دھڑی کا نام ہے۔ شاہ ملت نے فرمایا کہ پہلے زمانے میں لوگوں کو کوئی چیز لینی ہوتی تو آپس میں چیزوں کو تبادلہ کرتے۔ اسکے بعد دھیرے دھیرے جب انسانوں نے ترقی کی تو انہوں نے اپنے اپنے ملک کے اعتبار سے کرنسیوں کو بنایا۔ یہ کرنسی بھی محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ ان میں جو مالیت یاعرفی ثمنیت پائی جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ان کے پیچھے ملک کی اقتصادی چیزیں ہوتی ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ ملک کی اقتصادی ترقی کا کرنسی کی قیمت اور ویلیو پر اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتصاد ہی کی وجہ سے کرنسی کی ویلیو گھٹتی اور بڑھتی ہے۔
مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ ان کرنسی کی ویلیو کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہے لیکن بٹ کوئن کی ویلیو کے پیچھے کوئی وجہ نہیں۔ نیز یہ بھی معلوم نہیں کہ کس نے بنایا؟ کہاں سے آیا؟ اسکی ویلیو کے پیچھے کونسی چیز متعین ہے؟ شاہ ملت نے فرمایا کہ بٹ کوئن محض ایک فرضی کرنسی ہے نیز یہ سٹہ بازی اور سودی کاروبار کا پہلو ہے۔انہوں نے فرمایا کہ آج لاکھوں لوگ اسکا شکار ہیں۔ مولانا نے بتایا کہ یہ جو ادارے ایک لاکھ لیکر پندرہ ہزار اور بیس ہزار منافع دیتی ہے یہ سب بٹ کوئن کا ہی کاروبار کرتی ہے۔ اور جب بٹ کوئن کی ویلیو گھٹ جاتی ہے تو یہ ادارے ختم ہوجاتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے فرمایا کہ بٹ کوئن کا کاروبار ناجائز اور حرام ہے۔ اس پر کئی دارالافتاءکے فتوے موجود ہیں اور دارالعلوم دیوبند نے بھی اسکو ناجائز قرار دیا ہے۔مولانا نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ ان جیسے کاروبار کرنے والے اداروں میں اپنا پیسہ برباد نہ کریں اور ان سے پرہیز کریں۔ مولانا سید انظرشاہ قاسمی نے فرمایا کہ مسلمان نہ دھوکہ دیتا ہے نہ دھوکہ کھاتا ہے۔

اعظم گڑھ: چھوٹی دوبئی کہا جانے والا قصبہ سرائے میر کا تھانہ احاطہ بنا تالاب، پانی نکاسی کیلئے لگایا گیا انجن!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/جولائی 2018) اعظم گڑھ ضلع کا سرائے میر تھانہ احاطہ بارش ہونے سے تالاب بن گیا، تھانہ میں پولیس اور متأثر افراد کو آنے جانے کے لئے کافی مشقت کرنی پڑتی ہے.
معلوم ہو کہ قصبہ سرائے مير میں اونچی اونچی عمارت اور حسین دکانیں دیکھ کر دوسرے ریاست اور شہر کے لوگ نے ​​اس قصبے کو چھوٹی دبئی کہتے ہیں لیکن ہلکے بارش میں بھی نالے کا گندہ پانی سڑکوں پر بہنے لگتا ہے، پانی کے نکالنے کے لئے کوئی مناسب انتظام نہیں ہے، ماضی میں قصبہ کے مكانوں، دکانوں اور برسات کا پانی جس تالاب،  پوکھرے میں جاتا تھا کچھ پٹ گئی، کچھ پر دبنگوں نے قبضہ کر لیا، سابق اور موجوہ چیئرمیں کے ذریعہ پانی نکاسی کیلیے روڈویز سے رلوے اسٹیشن کے کنارے سے کئی بار نالے کی کھدائی کی گئی لیکن ریلوے محکمہ کی طرف سے تھانہ کے نالے کو پاٹ دیا گیا، جس کی وجہ سے اتوار کو تیز بارش ہونے سے قصبہ کا پانی تھانہ میں گھس گیا جس سے تھانہ احاطہ تالاب کی شکل میں دکھائی دینے لگا، جس کی وجہ سے پولیس اور عوام کو تھانہ میں آنے جانے کے لئے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے، پولیس انجن لگا کر تھانہ احاطے سے پانی کو باہر نکال رہی ہے.

Sunday 29 July 2018

کِشتِ دل سے انتخاب

شاعر بسمل اعظمی


عزم و حوصلہ ہمت جب جواں ہوں سینوں میں 
آگ تب لگاتے ہیں اپنے ہی سفینوں میں 

کوششیں ہوئیں اکثر میرے ہم جلیسوں کی 
میں نظر سے گر جاؤں اپنے ہم نشینوں میں 

ذکر جب بھی چھڑتا ہے میری کج کلاہی کا 
آگ سی دہکتی ہے حاسدوں کے سینوں میں 

محفلِ طرب ان کی آج سج گئی ہوگی 
راس آ نہ پائے گی ہر خوشی حسینوں میں 

کام کر گئیں ساری سازشیں زمانے کی 
بال آگئے آخر دل کے آب گینوں میں 

راز کُھل ہی جاتے ایسے نابکاروں کے 
بت چھپائے رکھتے ہیں جو بھی آستینوں میں 

کہہ سکیں وہ لوگوں سے راز ہائے دل بسمل 
حوصلہ کہاں اتنا میرے نکتہ چینوں میں

مبارکپور: طالبہ کے ساتھ فحش حرکت کرنے پر ٹیچر کی ہوئی پٹائی، پولیس نے لیا ٹیچر کو حراست میں!

جاوید حسن انصاری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جولائی 2018) مبارکپور تھانہ علاقہ کے جموڑی میں واقع آزاد میموریل چلڈرن کالج میں کلاس 7 کی ایک 12 سالہ طالبہ کے ساتھ فحش حرکت کئے جانے کا معاملہ ہفتہ کو تھانہ مبارکپور پہنچا، ڈائل 100 کی اطلاع پر پولیس نے پہنچ کر ملزم ٹیچر کو حراست میں لے لیا، اسی اسکول میں مقامی قصبہ کے محلہ پورہ رانی رہائشی برجیش پرجاپتی بیٹے پھیکو پرجاپتی ٹیچر ہیں.
طالبہ کے بھائی اکبر بیٹے حسام الدین کی تحریر کے مطابق کئی دنوں سے میری بہن کے ساتھ کلاس روم میں ٹیچر فحش حرکت کرتا رہا، جمعہ کو بھی ٹیچر نے میری بہن کے ساتھ فحش حرکت کرنے لگا تنگ  آکر اسکول سے نکل کر اپنے گھر پہنچ گئی اور ساری بات بتائی تو بھائی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسکول پہنچ کر مذکورہ ٹیچر کیساتھ مار پیٹ کی، اور ڈائل100 پر خبر کی،
موقع پر پہنچی پولیس نے مزم ٹیچر کو حراست میں لے لیا اور طالبہ کو طبی جانچ کیلیے بھیج دیا، وہیں ٹیچر نے اپنے اوپر لگائے گئے الزام کو فرضی قرار دیتے ہوئے تحریر دیا کہ کلاس میں ہوم ورک نہ کرنے پر مذکورہ طالبہ کو ڈانٹا تھا جس کی وجہ سے ہفتہ کو طالبہ کے گھر والوں نے اسکول کے احاطے میں پہنچ کر مجھے بری طرح مار پیٹ کر زخمی کر دیا جس سے میری آنکھ میں بہت چوٹ ائی ہے.
مبارکپور تھانہ انچارج انسپکٹر منجے سنگھ جی نے بتایا کہ معاملہ سنگین ہے طالبہ کی جانب سے پہلے تحریر مل چکی ہے کارروائی ہوگی.

عظیم اتحاد کو کامیاب کریں!

حافظ محمد سیف الاسلام مدنی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس میں شک نہیں کہ اسوقت ملک ہندوستان تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہی ہے، جب اس ملک کو آزاد کرانے کی تحریک پورے ملک میں جاری تھی ،اس وقت نہ مذہب کی سیاست تھی اور نہ ہندو مسلمان کے درمیان کوئی اختلاف تھا، بلکہ بھارت کی آزادی کو لے کر ایک اتحادی جنون تھا ،جس نے اس ملک سے انگریزوں کی صفیں اکھاڑ کر پھینک دی تھی، مگر آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس جنون کو لے کر ہم نے ہندوستان کو آزاد کرایا تھا اور مذہب کی دیواریں درمیان سے گرا دی تھی ۔آج اسی مذہب کے نام پر ملک کے ٹکڑے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چونکہ بھارت میں لوک سبھا کا الیکشن قریب ہے اور ہندوستان میں ہر طرف اس بات کی کشمکش جاری ہے ،کہ ہندوستان کی ترقی کے لئے کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے ،۲۰۱۴ میں جب لوک سبھا کے الیکشن ہوئے تھے تو لوگوں کے درمیان کافی مسائل تھے جس میں سر فہرست اس بات پر زیادہ فوکس تھا کہ کانگریس
کے دور میں پورے ملک میں مہنگائی بڑھی ہوئی ہے، اور اسی کے نتیجہ میں کانگریس کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن جب وزیر اعظم نریندر مودی نے انتخابی ریلیاں کی تھی، تو ایجوکیشن، روزگار، غریبی کا خاتمہ، اور سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نعرے لگائے تھے، چونکہ ملک ایک پرانے دور سے ہٹ کر ایک نیا پردھان منتری چاہ رہا تھا، اس لئے ملک کے اکثریت طبقہ نے بی جے پی کو ووٹ دیا، اور انکی سرکار بنائی، مگر مودی جی کے پردھان منتری بننے کے بعد ملک کی ترقی کے جو نعرے تھے وہ بالکل فیل ہوگئے اور ملک نفرت کی طرف بڑھنے لگا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوار تیزی سے اٹھنے لگی، ایجوکیشن ،روزگار کے بجائے رام مندر کا قضیہ اٹھایا گیا، گائے کے نام پر بہت سے بے قصوروں کو مار دیا گیا اور انکے قاتلوں کو کھلے عام چھوڑ دیا گیا ،مودی جی نے غریب عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے تمام لوگوں کو ۱۵؍۱۵؍لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ کیا جو بھی بالکل جھوٹا نکلا.
چونکہ اس ملک میں ہندؤوں کی اکثریت ہے اور ایک طبقہ ایسا ہے جو کھلے عام مسلمانوں کے خلاف عناد رکھتا ہے اور یہاں کہ اکثر لوگ پیار محبت سے رہنا چاہتے ہیں اب چونکہ یہ ہندو اکثریت کا ملک ہے اس لئے الیکشن میں انکے ووٹ کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور بھاجپا کے بعض نیتا تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہی نہیں،
لیکن ملک کا وہ شہری جو امن چاہتا ہے انصاف چاہتا ہے ایک سیکولر اور منصفانہ ماحول چاہتا ہے اسکے سامنے بڑا چیلینج ہے کہ اگلے لوک سبھا کہ الیکشن میں کس کو ووٹ دیا جائے، اس سلسلہ میں ہندوستان کی عوام کے سامنے تین وکلپ ہیں، ایک بی جے پی دوسرا کانگریس اور تیسرا عظیم اتحاد اور ملک کے اکثر لوگ جانتے بھی ہیں کہ اگر کانگریس اپنے دم پر بغیر اتحاد کے الیکشن میں آتی ہے تو اسکی راہیں بہت مشکل ہیں کیونکہ کانگریس اپنے آپکو سیکولر پارٹی کہتی ہے اور مسلمانوں کے تئیں نرم رویہ رکھتی ہے، حالانکہ اسکا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں اور میں تو سمجھتا ہوں کہ کانگریس اور بی جے پی ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں، لیکن گزشتہ چار سالوں میں ملک کے اندر جو حالات آئے ملک کی ترقی رک گئی اور بہت سے کرپٹ لوگ بینکوں سے اربوں روپیہ لے کر بھاگ گئے، اس لئے اب تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ موجودہ لوگوں میں سرکار چلانے کی اہلیت بالکل بھی نہیں ہے اس لئے اب سرکار کس کی بنے؟، اس لئے میری نظر میں عظیم اتحاد ہے کہ کانگریس کی قیادت میں ایک اتحاد ہو اور ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے اور اس ملک کے اندر پھیلے ہوئے کرپشن کا خاتمہ ہو اور بی جے پی کا راستہ روکا جائے ،تاکہ ملک کا جو ماحول ہو وہ صاف ستھرا ہو انصاف کے تقاضوں پر عمل کیا جائے ،اور ایک ترقی کی راہ پر ملک کو گامزن کیا جائے ،اس لئے مسلمان اور برادران وطن کو چاہئے کہ اگر اتحاد ہو تو اس کو ووٹ دیا جائے اور اتحاد کو مضبوط کیا جائے.

اعظم گڑھ:سکچھا مترو کی حمایت میں طلبہ نے یوپی سرکار کے خلاف سیاہ پٹی باندھ کر کیا احتجاج!

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جولائی 2018) شبلی نیشنل پی جی کالج اعظم گڑھ و iSA کے طلبہ کے ذریعہ سکچھا مترو کی حمایت میں سیاہ پٹی باندھ کر یوپی سرکار کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاج کیا، یہ احتجاج کنور سنگھ ادھان پارک سے کلیکٹریٹ چوراہا ہوتے ہوئے ضلع افسر کے دفتر پر ختم ہوا.
طلبہ رہنما لال جیت یادو نے کہا کہ سکچھا مترو کے اوپر سےتاناشاہی رویہ اپنانا غلط ہے، ان کو بحال کیا جائے، اگر کوئی سرکار نوکری دی ہے تو ان کا کوئی حق نہیں ہے کہ نوکری سے نکال دیا جائے، روزگاروں کو موجودہ سرکار بے روزگار بنا رہی ہے.
سراج احمد نے کہا کہ یوپی سرکار کی جانب سے جس طرح سکچھا مترو پر ناانصافی کی جارہی ہے، مرد و خواتین جس کی وجہ سے منڈن (بال چھلوانا) کرا رہے ہیں، آپ بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ کی بات کرتے ہیں اور انہیں کے اوپر ظالموں جیسا برتاؤ کیا جارہا ہے.
آکاش شنھا نے کہا سکچھا مترو کی بے عزتی برداشت نہیں کی جائے گی، وہیں شارق خان نے کہا موجودہ سرکار سکچھا مترو سے لیکر غریب، کسان، مزدور سبھی پریشان ہیں.
اس موقع پر ہریکیش کمار یادو، دیوندر یادو، ابوھاشم، افضل اعظمی، یاسر اعظمی،  اونیس، رگھوویندر یادو، جیتندر یادو، اکچھے چوہان، اکھلیش یادو، شیوپال یادو، دھیرج یادو، برجیش یادو سمیت درجنوں چھاتر نیتا موجود رہے.

Saturday 28 July 2018

چاند گرہن کے موقع سے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

مفتی احمد اللہ پھولپوری
ــــــــــــــــــــــــــــ
نقص وکمی کو عربی زبان میں “خسف” کہتے ہیں (الصحاح للجوہری ج4ص 1350 )
سورج اور چاند کی روشنی میں بشکل گرہن جو کمی ہوجاتی ہے اسے “خسوف “ اور “کسوف “ کہتے ہیں ۔
بخاری شریف کی روایت (عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّهُ قَالَ : ” إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاتِهِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا “صحيح البخاري .رقم 3202
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسوف و خسوف اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں ،اس سے مقصود بندوں کو خوف دلانا ہے ، پس جب تم اسے دیکھو تو نماز پڑھو) میں خسوف کا اطلاق سورج اور چاند دونوں کے گہن پر ہوا ہے ، لیکن ائمہ لغت نے عموماً سورج گہن کے لئے “کسوف “ اور چاند گہن کے لئے”خسوف “ کے استعمال کو ترجیح دی ہے ، (الصحاح للجوہری ج4ص 1350)
قرآن کریم کی ایک آیت میں چاند گہن کے لئے خسوف کا استعمال ہوا ہے
ارشاد باری ہے :
فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ * وَخَسَفَ الْقَمَرُ * وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ * يَقُولُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ * كَلَّا لَا وَزَرَ * إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ * يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (سورة القيامة 7-13.)
کسوف و خسوف کی حکمت
علامہ سیوطی کے بقول دنیا میں بہت سے لوگ کواکب و نجوم کی پرستش کرتے ہیں ، اس لئے حق تعالی شانہ نے سورج و چاند جیسے دو بڑے نورانی اجسام پہ کسوف و خسوف طاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ اپنی قدرت کاملہ دکھلا کر ان کی پوجا کرنے والی اقوام کی غلطی ظاہر کرے (اوجز المسالک 274/2 ۔انعام الباری شرح بخاری )
نیز تاکہ اللہ تعالی صاحب ایمان بندوں کو اپنی بے پناہ قدرت و طاقت دکھائیں اور مخلوقات کے عجز ودرماندگی کو عالم آشکار کریں تاکہ مومنین قیامت کے اس ہولناک مناظر کو یاد کرکے قادر مطلق کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں جن کی منظر کشی قرآن نے کچھ یوں کی ہے :
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْO
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر
دیا جائے گا۔
التکوير، 81: 1
سنُريهم آيَاتِنَا في الافاق وفِي أنفسهم حتى
يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ.
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔
حٰم السَّجْدَة، 41: 53
آیت کریمہ میں جن نشانیوں کے دکھلانے کی بات کی گئی ہے ان ہی میں سورج گرہن اور چاند گرہن بھی ہے ۔
تو ہم پرستی سے حقیقت پسندی کی طرف
عربوں میں مشہور تھا کہ سوچ گرہن اور چاند گرہن تب لگتا ہے جب زمین پر کوئی بہت بڑا ظلم ہو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو وہم قرار دیا۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہَا فَصَلُّوا.
سورج اور چاند کو کسی کی موت اور زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب تم انہیں دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔
بخاري، 1: 353، رقم: 995، بیروت، لبنان: دار ابن کثیر الیمامة
مسلم، 2: 630، رقم: 914، بیروت، لبنان: دار احیاء التراث العربي
اور حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا یَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنَّهُمَا آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا.
سورج اور چاند کو کسی کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جب ایسا دیکھو تو نماز پڑھا کرو۔
بخاري، 1: 359، رقم: 1008
سورج وچاندگہن کی عقلی وجہ اور اس موقع سے شرعی تعلیمات
ماہرین فلکیات کے مطابق اگر سورج وچاند دونوں کے درمیان میں  زمین آ جائے تو چاند گرہن ہوتا ہے اور اگر سورج اور زمین کے درمیان میں چاند آ جائے تو سورج گرہن ہوتا ہے، جو کہ انسان کیلیے  قیامت کے دن کا معمولی سا منظر پیش کرتا ہے کہ کس طرح سورج کی بے پناہ روشنی کو اللہ تعالی یک لخت میں ہی گل فرما سکتا ہے۔
مذہب اسلام میں ایسے موقع سے توہمات وخرافات کے شکار ہونے یا تماشہ بینی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے بلکہ اس عظیم نشانی کو غفلت سے آنکھیں کھولنے اور بارگاہ رب العالمین میں عجز ونیاز اور توبہ واستغفار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ایک بار سورج گرہن ہوا تو اتفاق سے اسی دن آپ ﷺ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی  جس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ آج ابراہیم کی موت پر سورج گرہن ہوا ہے ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
{إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنَ النَّاسِ ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا }
ترجمہ: سورج اور چاند کسی کے فوت ہونے پر گرہن نہیں ہوتے۔ یہ تو اللہ تعالی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب انہیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ صحیح  بخاری: 1041
حَدَّثَنَا مُوسَى أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ قَالَ سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ خُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ قَالَ جَابِرٌ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ إِذَا خُسِفَا أَوْ أَحَدُهُمَا فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ خُسُوفُ أَيِّهِمَا خُسِفَ
مسند أحمد برقم : 14348
ترجمہ:
ابوزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سورج گرہن کے متعلق پوچھا انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ چاند اور سورج گرہن کو گہن لگ جاتا ہے جب تم ایسی چیز دیکھا کرو تو اس وقت تک نماز پڑھتے رہا کرو جب تک گہن ختم نہ ہوجائے۔
مسند احمد :14348
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گرہن کے وقت خود بھی نماز ادا فرمائی اور کائنات میں اس تبدیلی کے وقت امت کو یہ تعلیم بھی دی :
عَنْ أَبِي مُوسَی قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَزِعًا یَخْشَی أَنْ تَکُونَ السَّاعَةُ فَأَتَی الْمَسْجِدَ فَصَلَّی بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَیْتُهُ قَطُّ یَفْعَلُہُ وَقَالَ هَذِہِ الْآیَاتُ الَّتِي یُرْسِلُ اﷲُ لَا تَکُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِهِ وَلَکِنْ {یُخَوِّفُ اﷲُ بِهِ عِبَادَهُ} فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذَلِکَ فَافْزَعُوا إِلَی ذِکْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ.
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سورج کو گرہن لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کیفیت طاری ہوئی جیسے قیامت آ گئی ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور نماز پڑھی، بہت ہی لمبے قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ۔ میں نے آپ کو ایسا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ جب تم ایسی کوئی بات دیکھو تو اللہ کے ذکر، دعا اور استغفار کی طرف دوڑا کرو۔
بخاري، الصحیح، 1: 360، رقم: 1010مسلم، الصحیح، 2: 628، رقم: 912
سورج اور چاند گرہن کی نماز کی شرعی حیثیت
سورج گہن کی نماز تقریبا تمام ہی ائمہ مجتہدین کے نزدیک سنت موکدہ ہے (بعض مشائخ حنفیہ کے مرجوح قول کے مطابق واجب ہے )
چاند گہن کے بارے میں احناف وموالک استحباب کے قائل ہیں ۔ان کے ہاں کسوف کی طرح یہ نماز مسنون نہیں! جبکہ شوافع وحنابلہ اسے بھی مسنون کہتے ہیں ۔(الموسوعہ الفقھیہ 252/27 )
خسوف میں طریقہ نماز و تعداد رکعات
حنفیہ کے نزدیک سورج گرہن کی نماز دو رکعت باجماعت بغیر خطبہ کے ہے۔
البتہ چاند گرہن کی نماز میں دو رکعت ہے مگر اس میں جماعت نہیں ہے بلکہ ہر آدمی الگ الگ یہ نماز پڑھے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں جماعت اور خطبہ ہے۔
احناف کے نزدیک کم از کم دو رکعت ہے اور چار پڑھنا بھی درست ہے، چاند گہن کی نماز عام نماز کے طریقہ کار کے مطابق ایک رکعت میں ایک ہی رکوع کے ساتھ اداء کی جائے گی لیکن اِنفرادی طور پر گھروں میں پڑھیں گے، جماعت سے پڑھنا ہمارے یہاں مشروع نہیں ،
(بدائع 1/282)
البتہ اِمام ابوحنیفہ سراً تلاوت کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں ، جبکہ صاحبین جہراً قراءت کو مسنون قرار دیتے ہیں۔
اِمام مالک کے نزدیک نماز خسوف کی دو رکعتیں مسنون ہیں، اور یہ عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی ،یعنی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع اور دو سجدے کیے جائیں گے، اور اس میں جہرا قراءت کی جائے گی۔
جبکہ شوافع کے نزدیک ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے کئے جائیں گے ۔
خسوف کی دو گانہ جو عام نوافل کی طرح بغیر جماعت کے ایک رکوع اور ہر رکعت میں دو سجدے کے ساتھ جو پڑھی جائے گی تو اس کی دلیل ذیل کی احادیث ہیں :
عن أبي بكرة أنه قال : كسفت الشمس على عهد رسول الله – صلي الله علية وسلم – ، فخرج رسول الله – صلي الله علية وسلم – يجر ردائه حتى دخل المسجد ، فدخلنا فصلى بنا ركعتين حتى انجلت الشمس ، وذلك حين مات ولده إبراهيم ثم قال : “إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله – تعالى – وإنهما لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته فإذا رأيتموها فصلوا وادعوا حتى يكشف ما بكم “( الحديث عن أبي بكرة – رضي الله عنه – في البخاري 2/42 ، 43 (كتاب الصلاة باب الصلاة في كسوف القمر النبي – r – يخوف الله عباده بالكسوف) وانظر : سنن النسائي 1/214 (كتاب الكسوف ، باب الأمر بالصلاة عند الكسوف حتى تنجلي )
اس حدیث میں نماز کسوف کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں بتایا گیا بلکہ عام طریقہ کے مطابق ہی یہ نماز ادا کی گئی تھی جو دلیل ہے کہ اس کا کوئی مخصوص طریقہ متعین ولازم نہیں ۔بعض مخصوص پس منظر میں حضور نے دو رکوع کئے تھے ۔اس میں تعمیم نہیں ہے ۔
اس کیفیت نماز کو ایک دوسری روایت میں “نحو صلوة أحدكم ” اور “كهيئة صلاتنا ” کے ذریعہ مزید واضح کردیا گیا :
وفي رواية : عن أبي بكر ، أن رسول الله – صلي الله علية وسلم – صلى ركعتين نحو صلاة أحدكم .
وروى الجصاص عن علي والنعمان بن بشير وعبد الله بن عمرو وسمرة بن جندب والمغيرة بن شعبة رضي الله عنهم ، أن النبي – صلي الله علية وسلم – صلى في الكسوف ركعتين كهيئة صلاتنا [سنن النسائي ، حديث رقم 1489 ، 3/145 ، وحديث رقم 1492 ، 3/146 ، وذكره الجصاص في مختصر اختلاف الفقهاء 1/381 .)
تیز آندھی آئے یا دن میں اند ھیرا چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگاتار بہت زیادہ بارش ہو یا آسمان لال ہو جائے یا بجلیاں گریں یا کثرت سے تارے ٹوٹیں یا کوئی وبا وغیرہ پھیل جائے یا زلزلہ آئے یا دشمن کا خوف ہو یا اور کوئی  دہشت ناک بات پائی جائے تو اِن سب صورتوں میں دو رکعت نماز پڑ ھنا بھی مستحب ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
الصَّلَاةُ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ]
(وَمِمَّا يَتَّصِلُ بِذَلِكَ الصَّلَاةُ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ) يُصَلُّونَ رَكْعَتَيْنِ فِي خُسُوفِ الْقَمَرِ وُحْدَانًا، هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ، وَكَذَلِكَ إذَا اشْتَدَّتْ الْأَهْوَالُ وَالْأَفْزَاعُ كَالرِّيحِ إذَا اشْتَدَّتْ وَالسَّمَاءُ إذَا دَامَتْ مَطَرًا أَوْ ثَلْجًا أَوْ احْمَرَّتْ وَالنَّهَارُ إذَا أَظْلَمَ وَكَذَا إذَا عَمَّ الْمَرَضُ، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.
وَكَذَا فِي الزَّلَازِلِ وَالصَّوَاعِقِ وَانْتِثَارِ (1) الْكَوَاكِبِ وَالضَّوْءِ الْهَائِلِ بِاللَّيْلِ وَالْخَوْفِ الْغَالِبِ مِنْ الْعَدُوِّ وَنَحْوِ ذَلِكَ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَذَكَرَ فِي الْبَدَائِعِ أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ فِي مَنَازِلِهِمْ، كَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ.
(ج1 ص 153 )
گہن کی نماز میں اذان واقامت نہیں ہے ۔البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے مناسب حال آواز لگائی جاسکتی ہے ۔
گہن کی نماز اُسی وقت پڑ ھے جب گہن لگا ہوا ہو۔اور اگر ایسے وقت گہن لگا جس وقت میں نماز پڑ ھنا مکروہ ہے تو نماز نہیں پڑ ھے بلکہ ذکر اور دعا میں مشغول رہے۔
اس صدی کا سب سے بڑا چاند گہن
نئی دہلی 14 جولائی (ایجنسیز) اس مہینہ کی27 اور28 تاریخ کوایک گھنٹہ 43 منٹ طویل مکمل چاند گہن ہوگا۔ ایک گھنٹہ 43 منٹ تک قائم رہنے والا یہ مکمل چاند گرہن موجودہ صدی (2001 سے لے کر 2100) کا سب سے طویل مکمل چاند گرہن ہوگا۔ ہندستان کے تمام علاقوں سے اس مکمل چاند گہن کا نظارہ کیاجاسکے گا۔(روزنامہ منصف)
اوہام و خرافات
جیساکہ اوپر کی سطروں میں واضح کردیا گیا کہ چاند گرہن خدا کی نشانی ہے ۔مومنوں کو اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرنا چاہئے ۔اس کے لئے باضابطہ نماز مشروع و مستحب ہوئی ہے
خدا ئے مالک وخالق کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہئے
ایسے موقع سے حاملہ خواتین کو گھروں میں بند کردینا یا چاقو وچھری وغیرہ کے استعمال سے انہیں نقصان پہونچنے کا عقیدہ رکھنا شرکیہ وباطل عقیدہ ہے، چاند گرہن کو کسی کے حمل میں تاثیر ڈالنے یا نقصان پہنچانے کی کوئی قدرت نہیں ۔ واللہ اعلم
از نشریات : مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ یوپی انڈیا

’’چاند گرہن‘‘ میزانِ شریعت پر!

محمد سالم قاسمی سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
 ماہرین فلکیات کے مطابق آج رات قریب بارہ بجے سے اس صدی کا سب سے طویل چاند گرہن لگنے والا ہے، اس موقع سے عوام میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں، جو در حقیقت ہندو معاشرت سے اختلاط کا نتیجہ ہیں، ہمارے اطراف میں مطلع مکمل طریقہ سے ابر آلود ہے؛ اس لیے اس کا نظارہ بظاہر مشکل ہے، حالاں کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کے تعلق سے واضح ارشادات موجود ہیں جن کو عملی طور پر اختیار کرنا ضروری ہے، بے جا خیالات اور وہم پرستی یہ شریعت اسلامیہ سے متصادم ہے، یہ چاند اور سورج گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، اس لیے اس موقع پر اس کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
 یہ دنیا اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی موجود سب خالق کائنات اللہ رب العزت کا بنایا ہوا ہے، سب میں اسی کی طاقت وقوت کارفرماہے، اس کی مرضی ومنشا کے بغیر ایک ذرہ کا بننا، اس کا حرکت کرنا اور منتقل ہونا ناممکن ہے، اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چاند اور سورج گرہن میںاس کی مرضی کا دخل نہ ہو؟؟اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ظاہری طور پر سورج اور چاند گرہن کے اسباب جو ماہرین فلکیات بیان کرتے ہیں ان کو نکار دیا جائے اور حرف غلط کی طرح ان کو بے کار اور لغو قرار دیا جائے، ان کا بیان صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے، اس موقع پر ہمیں ان کے بیانات سے کوئی بحث نہیں ہے۔
  در حقیقت یہ گرہن اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں، جس طرح ان کا روشن وجود خدا کی قدرت کے عظیم کرشمے ہیں، اسی طرح ان کا بے نور اور تاریک ہوجانا بھی اسی کی قدرت کی دین ہے، اس میں وہ راز پوشیدہ ہے جو بوقت قیامت اللہ کی جانب سے بپا کیا جائے گا، جس کو قرآن کریم کی آیات میں بے نور ہونے وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے، گویا اس میں اللہ کی یہ مصلحت وحکمت پوشیدہ ہے کہ ایسے مواقع پر بندگان خدا اُس ہولناک منظر کو پیش نظر رکھیں جو اس کی جانب سے انتہائی خطرناک صورت یعنی قیامت کی صورت میں رونما ہوگا، اور تمام مخلوقات کو اس کی جانب سے فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، جس میں دنیا کے ظاہری اسباب کا کوئی دخل نہیں ہوگا؛ بل کہ براہ راست اللہ کی قدرت کارفرما ہوگی، اسی کا ایک آدھ نمونہ اللہ تعالی سورج اور چاند ی صورت میں دکھاتے ہیں ، تاکہ بندگان خدا اس کی جانب متوجہ ہوں، سورج اور چاند گرہن کو بخاری شریف کی روایت میں صاف لفظوں میں اللہ کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا، یہ وہی دن تھا جس میں آپ ﷺکے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی، تو لوگوں میں بات پھیل گئی کہ سورج گرہن آپ ﷺ کے صاحب زادے کی وجہ سے ہوا ہے، اس موقع پر جناب نبی کریم ﷺ نے اس کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے اور لوگوں کے کمزور عقیدے کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :’’إن الشمس والقمر لاینکسفان لموت أحد من الناس، ولکنہما آیتان من آیات اﷲ؛ فإذا رأیتموہ فقوموا وصلوا‘‘ (بخاری شریف) کہ سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے، یہ تو قدرت الہی کی دو نشانیاں ہیں، جب تم انھیں گرہن ہوتے ہوئے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔
 بخاری شریف کی ایک روایت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ’’ چاند اور سورج کا گرہن لگنا قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، کسی کے مرنے جینے سے ظاہر نہیں ہوتے، بل کہ اللہ اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لیے ظاہر فرماتا ہے، اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفاراور یاد الہی کی طرف رجوع کرو‘‘۔
 اس حدیث میں صاف ہے کہ ایسا اللہ رب العزت اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لیے کرتا ہے، تاکہ وہ حضرات جو سورج اور چاند کو اپنا رب اور خدا مانتے ہیں عبرت حاصل کریں اور تجزیہ کریں کہ اگر یہ خدا اور معبود ہوتے تو ان کی روشنی ختم کیسے ہوتی اور یہ دونوں بے نور کیسے ہوجاتے؟؟؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خدا اور معبود نہیں ہوسکتے؛ بل کہ یہ کسی اور کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے عبرت ونصیحت حاصل کرکے اس اللہ کے بارگاہ میں حاضری دی جائے اور اسی سے راز ونیاز کیا جائے جس نے ان کو بنایا اور ان کو نور بخشا ہے، اور جب چاہا ان کی روشنی ختم کردی اور بے نور بناکر لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔
 چاند گرہن کے موقع پر ہمارے فقہائے حنفیہ کے نزدیک باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز مشروع نہیں ہے؛ بل کہ انفرادی طور پر لوگ گھروں میں دو رکعت نماز ادا کریں، جب کہ سورج گرہن میں جماعت کے ساتھ دو رکعت نماز مشروع ہے، ساتھ ہی حدیث میں ایسے مواقع پر تلقین کی گئی ہے دعاء، استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس لیے اگر آج گرہن ہوتا ہے تو دو رکعت نفل نماز انفرادی طور پر اپنے گھروں میں پڑھی جائے، اللہ کے حضور رونے اور استغفار کا اہتمام کیا جائے، نیز نفلی صدقہ کا بھی اہتمام کیا جائے، اس سے اللہ کی ناراضگی دور ہوتی ہے۔
 گرہن کے موقع پر جو مختلف توہمات پائے جاتے ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، بعض تو ایسے ہیں جو بالکل فضول ہیں، جب کہ بعض کا تعلق طب سے ہوسکتا ہے، حاملہ عورتوں کو کمروں میں بند کردینا، چھری اور چاقو کا استعمال ممنوع قرار دینا اوراس موقع پر کھانے پینے سے رکنا وغیرہ، ان کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے، بل کہ یہ غیروں سے لی گئی توہمات ہیں، جو اختلاط کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہیں، اس لیے ان توہمات سے اپنے کو نکالا جائے اور شریعت نے جو صاف شفاف اصول دیے ہیں ان کو اختیار کیا جائے۔
 واللہ الموفق وہو یہدي السبیل
محمد سالم قاسمی
(استاذ تفسیر وفقہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور)
(تحریر13 /ذی قعدہ1439 ھ مطابق27/جولائی 2018ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء)
salimmiubarakpuri@gmail.com

سگڑی کی عوام کو برسات میں پانی کے ٹھراؤ سے ملے چھٹکارا : سنتوش سنگھ ٹیپو

سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/جولائی 2018) سگڑی تحصیل علاقہ کے باغ خالص سے پكوا اینار راستے میں سگڑی کے پاس 50 میٹر تک  برسات ہونے سے راہگیروں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، خاص طور سے عورتوں اور اسکول کے بچوں وہاں بہت سی دشواری تھی، اس مسئلے سے آگاہ ہونے کے بعد بی ایس پی لیڈر سنتوش سنگھ "ٹیپو" نے اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقع پر جاکر معائنہ کیا اور فوری طور پر راستے کو ٹھیک کرایا.
 اس دوران سنتوش سنگھ "ٹیپو" نے کہا کہ برسات میں پانی ٹھیراؤ سے سگڑی کے عوام کو ایک بڑا مسئلہ تھا، میری کوشش تھی کہ اس مسئلے سے عوام کو نجات ملے.
آپ کو بتا دیں کہ باغ خلص سے پکوا اینار راستے کی مرمت کے لئے سگڑی کی ممبر اسمبلی بندنا سنگھ نے اسمبلی میں سوال بھی اٹھائے اور جلد سے جلد راستے کو ٹھیک کرنے کی مانگ بھی کی ہے، آنے والے وقت میں اس راستے کی حالت بہتر ہونے کی امید ہے.
اس موقع پر ممبر اسمبلی کے نمائندے ناگیندر یادو، ڈاکٹر ظہیرالدين، مطلوب عالم، رامبرکش گوتم، رمیش کمار، سونو سابق پردھان، سعید خان وغیرہ موجود رہے.

Friday 27 July 2018

ڈپٹی ضلع افسر نے صفائی پر خصوصی توجہ دینے کی ھدایت دی!

سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/جولائی 2018) کستوربا اواسی ودھیالے عظمت گڑھ کا اچانک معائنہ پنکج کمار شریواستو ڈپٹی ضلع افسر سگڑی نے جمعرات کو کیا، جسمیں 100 بچوں میں سے 84 بچے موجود پائے گئے،
اور ٹیچر بھی غیر حاضر ملے، دو ٹیچر سروج موریہ، سنگیتا کماری دیر سے پہنچے، دونوں کو صحیح وقت سے نہ آنے پر پھٹکار لگائی، كہا کہ دوبارہ غلطی معاف نہیں کی جائے گی، بچو کے کلاس روم میں ڈیسک اور بینچ کا بندوبست کرنے کی ہدایت دی، ساتھ ہی ھال میں بچوں کے سامان رکھنے کے لئے الماری کا بندوبست نہ ہونے کی شکایت بھی ملی، بچوں سے پوچھا گیا کہ صابون، شیمپو، منجن وغرہ ملتا ہے کہ نہیں، بچوں نے ایک آواز میں ہاں کہا، کوئی بچہ اس کے بارے میں شکایت نہیں کیا، بچوں کو مینیو کے حساب سے کھانا، ناشتا دیا جاتا ہے، میس کا بھی معائنہ کیا، صفائی اور بہتر کرنے کیلئے ہدایت دی، میس کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا، اس میں کسی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی.
انہوں نے ٹیچر کے رجسٹر، طلبہ کے رجسٹر کا بھی معائنہ کیا، میس، کیمپس، کلاس روم وغیرہ کا صاف ستھرا رکھنے کی ھدایت دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی قسم کی لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی.

Thursday 26 July 2018

عصرِ حاضر میں میڈیا کا کردار اور ہماری ذمہ داریاں!

تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلم ہے، مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ نے ٹیکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرہ ارض کو ایک گلوبل ویلیج میں بدل کے رکھ دیا ہے، میڈیا نے انسان کو ہر ہر لمحے سے باخبر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے، آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلت نہیں بلکہ بے پناہ معلومات کے سمندر نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے، آج کے میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصو ص مقاصد کے لئے کیا جانیوالاپروپیگنڈا ہے، میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے، مباحثوں ، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر ، سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جاتا ہے، ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھرپور یلغارکی بدولت آج ہمیں  اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی ، رقص و سروراور سب سے بڑھ کر لادینی جیسی لعنتوں کا سامنا ہے، مغربی تہذیب عام ہو رہی ہیں جبکہ ہماری ثقافتی روایات روبہ زوال ہیں، میڈیا کے منفی کردار نے ہی آج نوجوانوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنایا ہے، بوڑھوں کے نصیب سے مساجد اور عبادات کی لگن چھینی ہے، بچوں کو مغربی تہذیب سے آشنا کرایا ہے جبکہ حکمرانوں کو روشن خیالی کا درس دیا ہے، آج کے دور میں میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے، میڈیا سے آگاہی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے، اگر ہم معاشرتی ترقی کی منزل پانا چاہتے ہیں تو میڈیا سے ہمقدم ہوتے ہوئے اس بے قابو جن سے دوستی کرنا ہوگا میڈیا کو اپنی معاشرت و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے، ذرائع ابلاغ کے کردار و عمل سے آگاہی کے لئے نصاب تعلیم میں ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے، کس طرح میڈیا معاشروں کو بدلتا ہے ، پروپیگنڈا کے رائج طریقیوں اور دوسرے اصول و ضوابط کا علم ہی لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے،
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمیں دنیا داری سے کیا مطلب ہم مسلمان تو اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز کا بدلہ دینے والا ہے ، اب میڈیا مسلمانوں کو بدنام کرے تو اسکا جواب بھی اللہ ہی دیگا، یقیناًہر چیز کا خالق اللہ ہے اور ہر چیز پر جزاء و سزااللہ ہی دینے والاہے، لیکن قرآن میں اللہ نے اس بات کی بھی تذکرہ ہے کیا ہے کہ ’’ اللہ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت بدلے ‘‘ اب یہاں میڈیا کے تعلق سے بھی وہی بات آتی ہے کہ اگر مسلمان خود اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کے لئے وسائل نہیں بناتے ہیں تو اللہ کی جانب سے تو کوئی وسیلہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اسکے لئے الگ مخلوق کی آمد ہوگی ۔ اصل میں مسلمانوں نے اسلام کے چند محدود تعلیمات کو ہی اپنا کر اسلام کو محدود کردیا ہے  نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کی چند احادیث پر عمل کرنا ہی مسلمانوں نے اپنا فریضہ سمجھ لیا ہے ، جب ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آئیگی کہ جرنلزم یعنی صحافت اسلام کا ہی ایک جز ہے ، نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اسلام کی تبلیغ کے لئے جو خطوط لکھے جاتے تھے وہ ایک طرح سے اخبارات ہی ہیں،جو عوام کے درمیا ن پڑھ کر سنائے جاتے تھے ، اسکے بعد خلفائے راشدین نے اس طریقے کو اپنا یا اور دین کی اشاعت کی، اسلام کے حریفوں کو خطوط کے ذریعے جواب دیا لیکن آج اس طرز کو ہم نے یہودی و سنگھیوں کا رواج سمجھ رکھا ہے، اسلام میں کسی حق بیانی کو ظاہر کرنے سے کبھی منع نہیں کیا ہے حالانکہ اس وقت وسائل و طریقے الگ تھے اور اب کے وسائل و طریقے الگ ہیں لیکن ہم ان باتوں کوسمجھنے سے قاصر ہورہے ہیں اور دین کو آڑ بنا کر ہمت نہیں کرپا رہے ہیں، دنیا کے 98؍ فی صد میڈیا پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا ہے ، ہندوستان کے 98فی صد حصہ پر سنگھیوں کا قبضہ ہے اور 90؍ فی صد مسلمان میڈیا سے دور ہیں، اس ملک کے 17؍ کروڑ مسلمان اگر چاہتے تو ہر ایک کروڑ مسلمانوں کے لئے ایک میڈیا ہاؤس کا قیام کرسکتے تھے لیکن افسوس صد افسوس کہ کوئی ایک بھی ایسا میڈیا نہیں ہے جو حق کی ترجمانی کرے الا ماشاءاللہ،
اس وقت اسلام پر جو منظم طریقہ پر یورش ہورہی ہے، اس میں سب سے اہم کردار پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا کا ہے، تمام ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے، وہ جس خبر کو جس طرح چاہتے ہیں پیش کرتے ہیں اور دل و دماغ پر بٹھا دیتے ہیں، یہ ذرائع ابلاغ ہی کا کمال ہے کہ جس کے ذریعہ آج اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب کی شکل میں پیش کیا جارہا ہے، جس سے اور تو اور مسلمان کا ایک طبقہ متأثر ہورہا ہے، ہمیں یہ کہنے سے دنیاوی مشکلات سے نجات نہیں مل سکتی ہے نہ صحافتی مہم اور حملہ کو روکا جاسکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں اس باز پرس سے بچا جاسکتا ہے، کہ “ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا، اور صحافت پر گندگی کا پردہ پڑا ہوا ہے،اخبارات، جرائد و رسائل اور سوشل میڈیا میں حوا کی بیٹیوں کی عریاں اور نیم عریاں تصویریں ہوتی ہیں، آج کی صحافت بے حیائی کو فروغ دے رہی ہے اس لئے یہ ناجائز وحرام ہے” محض نفرت اور کنارہ کشی اس کاعلاج نہیں ہے، بلکہ حکمت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس میدان کو صاف کرنے کی ضروت ہے، اس کے ذریعہ جہاں اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کی جاسکتی ہے، وہیں اسلام پر ہونے والے حملوں کا دفاع بھی کیا جاسکتا ہے، اپنی نجی مجلسوں اور کمروں میں بیٹھ کر اظہارِ افسوس اور تبصروں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا جواب نہیں دیا جاسکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھیں، اپنے فنی و مادی وسائل کو بروئے کار لاکر ذرائع ابلاغ پر اپنا تسلط جمائیں، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک، سوشل میڈیا کی طاقت اپنے حق میں استعمال کرنے کی جد وجہد کریں، اس میدان میں اہم پیش رفت کے بغیر مدارس اسلامیہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے سبک دوش نہیں ہوسکتے ہیں، کم ازکم سوشل میڈیا میں تو ہم سرم گرم رول ادا کرہی سکتے ہیں،
اگرملک کے ایسے بڑے دینی مدارس کہ جہاں سے ہر سال ہزاروں طلبہ فارغ ہوتے ہیں، ان میں سے ہر مدرسہ کے ذمہ داران بیس سے پچیس ایسے ذی استعداد فارغین کو سامنے لا سکیں کہ جو میڈیا کا کافی حد تک علم رکھتے ہوں، انہیں اپنی بات کہنے کا ہنر آتا ہو، وہ میڈیا پر آکر اپنا موقف بے دھڑک بیان کر سکیں تو یقیناً ہمارے معاشرے میں میڈیا کی تباہ کاریوں میں کمی لائی جا سکتی ہے اور ضرور مدارس اسلامیہ کو اس میں آگے آنا چاہیے،
اللہ جل مجدہ مسلمانوں کے اندر خاص طور پر مدارس اسلامیہ کے فارغین میں میڈیا کے تئیں بیداری اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمیـــن

لال گنج سی ایچ سی میں انٹی ریبیج انجکشن نہیں، محکمہ صحت کو کیا گیا آگاہ، ہورہی ہے لاپرواہی!

عبدالرحیم
ــــــــــــــــ
دیوگاؤں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/جولائی 2018) اگر حلقہ میں کسی بھی انسان کو انٹی ریبیج انجکشن کی ضرورت ہو تو لال گنج سی ایچ سی اس کی مدد نہیں کرسکتا، کیوں کہ سی ایچ سی لال گنج میں تقریباً دو ماہ سے انٹی ریبیج انجکشن مہیا نہیں ہے، یہ انجکشن نہ ہونے کی صورت میں حلقہ کے سیکڑوں گاؤں کے لوگ پرائیویٹ اسپتال یا دواخانہ کے انجکشن لینے پر مجبور ہیں، جہاں من مانی طریقے سے قیمت وصول کی جاتی ہے، امیر تو خرید لے گا پر غریب بیچارہ مارا جاتا ہے.
اس متعلق اسپتال کے ملازمین صدر اسپتال کو تحریری طور پ آگاہ ک چکے ہیں، پر محکمہ صحت کے کان میں جوں تک نہیں رینگ رہی ہے.
سی ایچ سی لال گنج کے صدر ڈاکٹر منوج کمار نے بتایا کہ اسپتال میں انجکشن نہ ہونے کی اطلاع تحریری طور پر کئی دفعہ میں دے چکا ہوں، پھر بھی یہ انجکشن مہیا نہ ہوسکا ہے.
محکمہ صحت سرکار سے گاؤں کے سلیم پردھان، محم صالح، ابوزید، سنجے سنگھ، محمد عارف خان، معظم وغیرہ نے انٹی ریبیج انجکشن جلد از جلد مہیا کرانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ علاقہ کے غریبوں کا اچھی طرح علاج ہو سکے، اور بھلا ہو.

Wednesday 25 July 2018

یک روزہ تبلیغی اجتماع اختتام پزیر، دو درجن سے زائد کی گئی جماعت روانہ!

پانی پت/ھریانہ (آئی این اے نیوز 25/جولائی 2018) شہر پانی پت کی مسجد بو علی شاہ قلندر میں چل رہا یک روزہ تبلیغی اجتماع کا کل اختتام ہوگیا، جس میں ملک اور بیرون ملک کے لیے دو درجن سے زائد جماعت اللہ کے راستہ میں روانہ کی گئی.
اجتماع کو مخاطب کرتے ہوئے صوبہ ھریانہ کے امیر محمد ایوب نے کہا کہ اللہ نے ہمیں جو مذہب عطاء کیا وہ تمام مذاہب سے افضل ہے، اس لیے ہمیں احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے دین پر مضبوطی کے ساتھ عمل پیرا رہے، اور اخلاق کو اپنائے کیوں کہ یہ دین بغیر اخلاق کے فروغ نہیں پاسکتا،
آپ علیہ الصلوۃ و التسلیم کے ایسے اعلی اخلاق تھے بڑے سے بڑے دوشمنان اسلام نے آقا کے قدموں میں لاکر اپنے آپ کو ڈال دیا، اس لیے ہر چیز میں سچائی امانتداری دیانتداری کو اپنائیں تاکہ اسلام کا پیغام پیغام اخوت و بھائی چارگی معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ پھیل سکے، آخر میں ان ہی کی رقت آمیز دعا پر اجتماع اختتام پزیر ہوا.
اس موقع پر حافظ ارشاد، بھائی نسیم، حافظ محمد اسماعیل، مفتی محمد ارشاد الحق مفتاحی امام و خطیب مسجد فخرالدین پانی پت سمیت ہزاروں کی تعداد میں فرزندان اسلام موجود رہے، اگلا اجتماع ضلع جیند میں ہوگا 4 اور 5 اگست 2018  میں اس کا اعلان کیا گیا.

دیوبند میں جمعیۃ یوتھ کلب کی تاریخی نمائش!

ہمارے نوجوان بھی کھل کر اپنی صلاحیتیوں کا مظاہرہ کریں گے: قاری محمد عثمان

امت کے داخلی بحران کو ختم کرنے کے لیے نوجوانوں کی جسمانی و ذہنی تربیت کا لیا گیا فیصلہ : مولانا محمود مدنی

دیوبند(آئی این اے نیوز 25/جولائی 2018) دیوبند کے فردوس گارڈن میں جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام’جمعیۃ یوتھ کلب تعارفی پروگرام و مظاہرہ منعقد ہوا ‘جس کی سرپرستی امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علما ہند اور صدارت مولاناحسیب صدیقی خازن جمعیۃ علماء ہند نے فرمائی۔اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے نوجوانوں کو جوڑنے کے لیے اپنے پائیلیٹ پروجیکٹ ’جمعیۃ یوتھ کلب‘ کا تعارف اور خاکہ پیش کیا۔ دریں اثنا تین ریاستوں گجرات، میوات اور مغربی اترپردیش سے منتخب ۹۶؍ طلبا نے اپنے فن کا بھی مظاہرہ کیا ۔مولانا محمود مدنی نے اعلان کیا کہ موجودہ پلان کے مطابق اگلے چھ ماہ میں دس ہزار نوجوانوں کو تربیت دے کر تیار کیا جائے گا جوفروری ۲۰۱۹ء میں عوامی طور پر اپنی نمائش پیش کریں گے ۔
مولانا مدنی نے اس موقع پر یوتھ کلب کے مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ، انھوں نے کہا کہ یہ منفی نہیں بلکہ تعمیری قدم ہے،ہمار ا مقصد ایسے لوگوں کو تیار کرنا ہے جو قوم کے سچے خادم بنیں اور ضرورت پڑنے پر خود کی حفاظت کے اہل ثابت ہوں۔مولانا مدنی نے کہا کہ آج امت سب سے زیادہ داخلی بحران کی شکار ہے، ملک کے موجودہ حالات میں جس طرح مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، اس سے نوجوانوں میں مایوسی ، مرعوبیت اور اپنی شناخت گم ہونے کااحساس پنپ رہا ہے۔ اس لیے یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو اس سنگین بحران سے نکا لا جائے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ امت کا ہر فرد ایک دوسرے کا معاون بن جائے اورمکان کی اینٹ کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہوجائے ،وہ اتنا مضبوط ہوجائے کہ کوئی بھی خارجی بحران اس کا بال بیکانہ کرسکے۔انھوں نے کہا کہ عزت حاصل کرنے کا ایک کامیاب نسخہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کا دل جیتیں، اپنے اندر سچائی ، ایمانداری ، غم گساری اور دوسروں کی مدد کاداعیہ پیدا کریں ۔ اگر کسی قوم میں یہ پیدا ہو جائے تو یہ اس کی بقا و سربلندی کی ضمانت ہے ۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہم پچھلے پانچ سالوں سے نوجوانوں کی ذہنی وجسمانی تربیت پر کام کررہے ہیں، ہم نے پانچ ہزار طلباء کی تربیت کرائی ہے ۔اس کے لیے ملک کا تسلیم شدہ ادارہ بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ کو منتخب کیا ہے ، یہ ایساسسٹم ہے جو انسانی بنیاد پر کام کرتا ہے ، یہ کوآرڈی نیشن کا طریقہ سکھلاتا ہے ، تاکہ جسمانی اور ذہنی طور سے بہتر طریقے سے خدمت انجام دینے کا ہنر پیدا کیا جائے ۔
مولانا مدنی نے جمعیۃ علماء ہند کے ذمہ داروں سے کہا کہ بلا تردد اس کام میں لگ جائیں اور ہمارے پروجیکٹ کو کامیاب بنائیں ۔انھوں نے جمعےۃ یوتھ کلب کے بارے میں بتایا کہ اسکول اور مدرسے کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شامل ہو سکیں گے، تاہم اسکول اور مدرسے کے بچے ڈائریکٹ بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ سے وابستہ ہوں گے اوراٹھارہ مہینہ میں تین درجوں کی تربیت کے بعد ’خادم ملت‘ میں شامل ہونے کا حق دا رہو ں گے او ر جو لوگ اسکول اور مدرسے میں نہیں ہیں ان کو ہم ڈائریکٹ جمعیۃ یوتھ کلب میں شامل کریں گے ۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر امیر الہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری نے کہا کہ نوجوانوں کی جسمانی تربیت بہت ضروری ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالے نے جہاں حضرت طالوت علیہ السلام کے بادشاہ بنانے کا ذکر کیا ہے ، وہیں جسم اور علم کو فضیلت اور بادشاہت کا سبب قراردیا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ہمارے اکابر بالخصوص حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ آخر عمر تک مگدر چلاتے تھے ، ہمارے زمانہ طالب علمی میں دارالعلوم دیوبند میں ایک پہلوان رکھا جاتا تھا جو لڑکوں کو جسمانی ورزش کرواتا تھا ۔انھوں نے کہا کہ آج کے حالات میں کچھ جماعتیں کھلے عام آتشیں اسلحوں کی نمائش کرتی ہیں ، جن کا مقصد دوسروں کو مرعوب کرنا ہوتاہے ۔ہم بھی ملک کے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے نوجوانوں کی لیاقت کا کھلے عام مظاہرہ کریں گے ؟
ازیں قبل اپنے افتتاحی خطاب میں مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے جمعیۃ علماء ہند کے دستور و تاریخ کی روشنی میں اس مشن کا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ حضرت ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کا پائیلٹ پروجیکٹ ہے۔حضرت کی شب و روز محنت وتوجہ کی بدولت یہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔
ہدایت اللہ صدیقی سابق افسر بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ مدھیہ پردیش نے اسکاؤٹ اور جمعیۃ یوتھ کلب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارٹ اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ ، جمعےۃ یوتھ کلب اور جمعیۃ علماء ہند مل کر ملک اور قوم کی خدمت کریں گے ۔ماسٹر نوشاد علی نے اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ کے تین بنیادی کام(۱) ڈیوٹی ٹو گوڈ (۲) ڈیوٹی ٹوادرس ( ۳) ڈیوٹی ٹو سیلف پر روشنی ڈالی ۔ بچوں کا فن دیکھنے کے بعد مولانا مدنی نے اپنے ہاتھوں سے ان کو شیلڈ اور سرٹیفیکٹ سے نوازا ۔
اس موقع پر مولانا عبدالقدوس پالن پوری گجرات، مولانا محمد یحی کریمی میوات اور مولانا محمد عاقل کیرانہ نے بھی اپنی کارگزاری پیش کی ۔ان کے علاوہ جو شخصیات اسٹیج پر جلوہ افروز تھیں ان میں مولانا معزالدین احمد، مولانا کلیم اللہ فیض آبادی ،مولانا مفتی بنیامین، مولانا عاقل گڑھی دولت، حافظ عبیداللہ بنارس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ مولانا حسیب صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا ۔ انھوں نے بالخصوص پروگرام کے کامیاب انتظام کے لیے مولانا سید محمد مدنی ، مولانا ظہور احمد قاسمی ، سید ذہین احمد مدنی اور مولانا ابراہیم قاسمی ودیگر حضرات کو مبارک باد پیش کی۔اس موقع پر گجرات، میوات اور مغربی اترپردیش سے جمعیۃ یوتھ کلب اور جمعیۃ علماء کے مقامی و ریاستی ذمہ داران بھی موجود تھے۔ آج کے پروگرام میں قاری احمد عبداللہ نے ترانہ پیش کیا ،نظامت کے فرائض مولانا حکیم الدین قاسمی اور نوشاد علی صدیقی نے مشترکہ طور سے انجام دیے، مجلس کا آغاز کا قاری محمد ایوب کی تلاوت سے ہوا۔مولانا قاری محمد عثمان منصورپوری کی دعاء پر پروگرا م اختتام پذیر ہوا ۔

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے!

امیر سندھی
ـــــــــــــــــــــــ
اخلاق، پہلوخان، جنید، نجیب، افراز، سراج، عمر، احمد، حافظ شیخ، ظفر، نعمان، زاہد، قاسم، علیم الدین، اکبرخان اور شعیب: ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں پر گہرے اور گھاتک زخم، نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ، اس کے علاوہ سینکڑوں گم نام شہدا، لٹی ہوئی عصمتیں، تار تار ردائیں۔ جلتے گھر اور دکانیں، ملبے کے ڈھیر میں دبی مساجد اور مدرسے!
؎ اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعاہے
ہزاروں اشک بار آنکھیں، لاکھوں پاش پاش دل، ٹکڑوں میں بٹے جگر، آہ و بکا کی تانیں بکھیرتے قلم، فریاد کن زبانیں، زخم سے چور چور روحیں، لہو لہان تھکے ہارے اجسام۔کسی مسیحا، ہم درد، مخلص اور غم گسار کی تلاش میں سرگرداں بھٹکتے پھر رہے ہیں؛ مگر ناکامی اور نامرادی ہے کہ پیچھا نہیں چھوڑتی۔ کوئی تو ہو جو برستے آنسوؤں کو پونچھے، بیٹھتے دلوں کو تھامے، رِستے زخموں پر مرحم رکھے، بھیانک ظلمت، گھٹا ٹوپ اندھیرے اور تاریک شب میں آفتاب صبح ثابت ہو۔ عجب وقت آن پڑا ہے، جنھیں اڑے وقت میں کام آنا تھا، وہ غیروں کی جھولی میں پڑے ہیں۔ وہ میرِ کارواں، جن سے امیدیں وابستہ ہیں، وہ بے مروتی، مصلحت پسندی اور کھوکھلی بیان بازی سے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔
       ـــــــــــــــعـــــــــــــ
وہی راہزن جنھوں نے میرے کارواں کو لوٹا
بہ خدا انھی میں شامل تھا امیر کارواں تک
زخم خوردہ ہندی مسلمان کسی جائے پناہ کی تلاش میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان کے دشمنوں کے عزائم بلند اور حوصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ دشمنوں کو معلوم ہوگیا، انھوں نے اچھی طرح سے جان لیا کہ یہ لاوارث ہیں، ان کا کوئی سہارا و آسرا نہیں۔ ان کے بڑے، جنھیں انتقام لینا تھا، وہ ہم سے اخوت کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ انھوں نےپہلے پہل اخلاق کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار کر دیکھا کہ کیا رد عمل ہوتاہے؟ دشمنوں نے دیکھا کچھ مسلمان صبر کی تلقین کر رہےہیں۔ چند گمراہ صوفی صافی لوگ مسلمانوں کے اعمال کی سزا بتا رہے ہیں۔ (ظالمو! یہ تمہاری بد اعمالی کی نحوست ہے اور مسلمان تمہاری اقتدا کی قیمت چکا رہے ہیں) بھگوا آتنکی پہلے بیانات، مذمت، جلسے جلوس اور قرادادوں سے خائف ہوئے، جلد ہی جان گئے کہ یہ گیدڑ بھبکیوں کے علاوہ کچھ نہیں، یوں ان کا حوصلہ بڑھتا گیا، پولیس اور سرکار کی اعانت نے انھیں اور جری کردیا، وہ یکے بعد دیگرے محمدِ عربیؑ کے غلاموں کے خون سے ہولی کھیلنے لگے۔
           ـــــــــــعــــــــــ
نبی اکرم، شفیع اعظم
دکھے دلوں کا پیام لے لو
اے میرِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کی رحمت، محبت، امت سے اپنائیت، ہمدردی اور پیار دیکھ کر بے اختیار مضطرب دلوں سے پکار اٹھتی ہے۔ اے مسیحائے عالمین! آپ کی امت بے سہارا ہوچکی ہے، ہمارے بڑے ان سے انصاف کی آس پر جی رہے ہیں، جن کے بھیانک جبڑوں سے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کا خون رس رہا ہے۔ اے آقا! گر آپ ہوتے تو ہم یوں لاوارث کتوں کی طرح نہ مارے جاتے، سید الرسل! آپ نے ایک مسلمان کے خون کی خاطر، پورے لشکر کو موت کے منہ میں ڈال کر حضرت عثمانؓ اور پورے لشکر کو محفوظ کر لیا تھا۔ ایک بیٹی کی چادر کے تقدس پر کُشتوں کے پشتے لگائے۔ آہ ہماری جھولی میں چادر اور چہار دیواری کے تقدس سے آگے آصفہ جیسی لٹی پٹی لاشیں اور تار تار ردائیں ہیں۔
ایسے وقت میں امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما، حجاج ابن یوسف اور منصور بہت یاد آتے ہیں، انھوں نے ایک ایک مسلمان کی جان، عزت، عزمت، غیرت، آن بان اور شان کے لیے بڑے بڑے معرکے سر کیے، لشکروں کو حرکت دی، مسلمانوں کے دشمنوں کو بتا دیا کہ مسلمان راکھ کا ڈھیر نہیں۔ سب مسلمان ایک مسلمان کے لہو کے لیے جان سے گزر سکتے ہیں۔
اے مسلمانو! کیا آصفہ ہماری بیٹی نہیں تھی؟ اسے صرف اس لیے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسلمان تھی! افراز اس لیے زندہ جلائے گئے کہ وہ محمد کا کلمہ پڑتے تھے۔ نجیب کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ وحدانیت کے قائل تھا۔ اکبر کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان ماں کا بیٹا تھا، اس لیے پولیس نے بھی ان کے مقدس خوں سے ہاتھ رنگے۔ میرے بھائیو! کبھی اپنے اختلافات سے فرصت ملے، کبھی سوشل دانشوری ست کچھ وقت ہاتھ لگ جائے، جب فرقہ فرقہ کھیلتے کھیلتے تھک جائیں، اپنے مسلک کو جنتی، باقی کو کافر بنانے کے کام سے جب فارغ ہوجائیں تو سوچنا:۔"کیا ہم ذلیل ہونے کے لیے پیدا ہوئے ہیں؟ اسی طرح پستے رہیں گے؟ ایک ایک کرکے نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ سب میدان میں آ جائیں۔ بے بسی کے بجائے سینہ تان کر، بزدلی کے بجائے بہادروں والی موت کو گلے لگائیں۔ مسلمانوں کیا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ قاتل بھیڑ کی لاشیں گرنے کی خبر آئے؟
جنازے ڈھوکر کندے ہلکان ہوچکے، لاشیں اٹھا اٹھا کر ہم تھک گئے۔ خون کے آنسوں بہا کر آنکھیں خشک ہوچکیں، ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے، صبر کا پیمانہ چھلک پڑا، اب آہوں اور سسکیوں کی بجائے غیض و غضب سے برا حال ہے۔ اب ہمیں انداز، روش اور طریقۂ کار بدل کر یہ اعلان کرنا ہوگا۔
        ــــــــــعــــــــ
وہ دن گئے، جب ہر اک ستم کو ادائے محبوب کہ کے خوش تھے
اب آئے گی ہم پے اینٹ کوئی، تو پتھر اس کا جواب ہوگا
گر ہم نے یہ نہیں کیا، تو ہم خود اپنی تباہی کے ذمہ دار ہوں گے، اللہ بزدلوں کی نصرت نہیں فرماتا، فطرت اور قدرت سے انحراف کرنے والوں کو تقدیر بھی نہیں بخشتی، ظلم پر خاموشی ظلم ہے، ستم کو سہ کر چپی سادھ لینا ناقابل معافی جرم ہے۔ قتل، فساد، فتنے اور غارت گری کے خلاف جتنی دیر سے اٹھیں گے، اتنی ہی زیادہ جانیں گم کریں گے۔ مسلمانو! بہت ہو چکی صفائیاں اور جمہوریت کی ٹھیکے داری۔ خدا را، خدا را، خدا را! ہوش میں آؤ! دیکھو تو سہی، مودی سامراجیت، انگریز سامراجیت کا دوسرا رخ ہے، بھگوا آتنک،  انگریزی دہشت گردی سے بھی بھیانک ہے، انگریز تو صرف اپنے باغیوں کو قتل کرتے تھے؛ مگر یہ پر امن شہریوں کو مارتے، مزدورں کا خون بہاتے اور نہتے لوگوں کی جان لیتے ہیں، بے قصور نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساکر ان کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔ مسلمانو! آپ محمد عربی کے غلام، فاروق اعظمؓ کے عقیدت مند، ابن ولید کے بیٹے ،محمد بن قاسم کے نام لیوا ہو، پھر ڈرتے کیوں ہو؟ قرآن سے روشنی لیکر کچھ کر دکھاؤ، پرکھوں کے کارنامے سنانے کے بجائے خود اپنے وطن کے لیے کارنامے سر انجام دو۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پر آشوب حالات میں خونِ مسلم کی ارزانی کا یہ عالم ہے کہ جانوروں کے لیے مسلمانوں کو تڑپا دیا جاتا ہے۔ آدھی امت عید ملن، ایکتا بازی میں مصروف ہے، باقی مصلحت پسندی کے آہنی خول میں قید وبند۔ کچھ نے قومیت کا بت گلے لگایا ہوا ہے، باقی وطنیت کی نظر ہوگئے۔ ایسے میں اس پاک ہستی کی یاد سے دل و دماغ معطر ہونے لگتے ہیں، جو رحمۃ للعالمین ہیں۔ جن و انس، کافر و مشرک، جمادات و نباتات، بحرو بر، اپنے، پرائے: سب کے لیے سراپا رحمت، صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایسا کوئی رہبر نہیں جو ملت کو پرخطر حالات سے باعزت نکال سکے، ایسا کوئی قائد نہیں جو امت مرحومہ کی کشتی بھنور سے کنارے لگا سکے۔ ایسے وقت اس نبی رحمت، ضحوک قتال کی بارگاہ میں دعا کی درخواست سب سے بڑا سہارا اور دکھی دلوں کا آسراہے۔
             ــــــــــــعـــــــــ
اے خاصۂ خاصان رسل، وقت دعا ہے
امت پے تیری آکے عجب وقت پڑا ہے

رد عمل کا رد عمل ہوگیا تو.....؟

از قلم: اجوداللہ پھولپوری
ـــــــــــــــــــــــــ
پہلو خان کے بعد ایک اور خان راجستھان کا الور ایک بار پھر گئو رکشکو کی وجہ سے سرخیوں میں آیا، ابھی تک الور کی پولیس پہلو خان کے قاتلوں کو ڈھونڈھ بھی نہ پائی تھی کہ قاتلوں کی ایک اور ٹولی انسانیت کو شرمسار کرگئی اور اس مرتبہ قاتلوں میں مبینہ طور پر خاکی وردی کا نام بھی شامل ہورہا ہے، حالات کا جائزہ لیں تو الور معاملے میں پولیس مکمل طور پر ملوث معلوم ہوتی ہے پر.......
          ــــــــــــــــعـــــــــــــ
نکلوگے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس ملک میں قاتل نہ ملے گا

چشم دیدوں کی بات کو سامنے رکھا جائے تو گائے کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں نے اس معاملہ میں تھوڑا رحم دکھایا پر پولیس نے معاملہ کو سابقہ واقعوں کے ساتھ ملانے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑی، دو بجے صحیح سالم پولیس کسٹڈی میں پہونچ جانے والا اکبرخان چار بجے اس حالت میں اسپتال پہونچایا گیا کہ اسکی روح اسکے جسم کو الوداع کہ چکی تھی اور کمال تو یہ ہیکہ
انسان سے پہلے جانور کو اسکی جگہ پر بھیجنے میں پولیس لگی رہی، گائے کو اپنی جگہ پہونچانے کے بعد خاکی وردی کو خیال آیا کہ یہ خان بھی انسان ہے، دیکھا جائے تو پولیس کا کردار مکمل طور پر سوالوں کے گھیرے میں ہے، کچھ میڈیا چینلوں نے تفصیلی طور پر اس خبر کو مکمل باریکیوں کے ساتھ نشر کیا، اس بات پر انکا شکریہ
پر سوال اب بھی یہی ہے کہ کیا قاتل کیفر کردار تک پہونچائے جائیں گے....؟
پہلو خان کے واقعہ پر نظر ڈالیں تو ناامیدی ہاتھ لگتی ہے ....... اعلی حکام کی طرف سے وہی گھسا پٹا بیان نشر ہوا کہ خاطیوں کو سخت سزا دی جائیگی .... پر کب .....؟ یہ معلوم نہیں ...!
اگر پہلو خان کے قاتلوں پر سخت کاروائی ہوئی ہوتی اور مردہ ضمیر نیتاؤں کی طرف سے انکی گلپوشی نہ ہوئی ہوتی تو .... آج ایک بار پھر الور کو شرمسار نہ ہونا پڑتا........!
جب محافظ خود قاتل بن جائیں تو کچھ نہیں ہونے والا .... حقیقت یہ ہیکہ اس ملک کو ہمارا سیاستدان طبقہ اور نام نہاد محافظین دھیرے دھیرے خانہ جنگی کی طرف لے جارہے ہیں.....قاتلوں کی یہ بھیڑ دھیرے دھیرے اپنا دائرہ کار بڑھانا چاہتی ہے اور اس عمل میں نیتاؤں کی پشت پناہی آگ میں گھی کا کام کررہی ہے، نفرت پر سیاست زیادہ دن چلنے والی نہیں بھیڑ کا بڑھتا ظلم .... مظلوموں کو رد عمل پہ ابھارے گا ...... نتیجہ یہ نکلے گا کہ بھیڑ کا جواب بھیڑ .... پھر مظلوم بھی ظالم بن جائیگا .... اور سوچی سمجھی پلاننگ بھیڑ کو پیشہ ور قاتل بنادیگی ..... ہندو مسلمان کو..... مسلمان ہندو کو ماریگا اور بھیڑ میں گم قاتل کھوجے سے بھی نہ ملے گا.... اور یہ سلسلہ یوں ہی دیہاتوں سے قصبوں اور قصبوں سے شھروں کو اپنے تسلط میں لے آئیگا پھر پورا ملک خانہ جنگی کے دہانے پر ہوگا جسکے ذمہ دار قانون کے محافظ اور سیاست دان ہونگے، ابھی وقت ہے ہوش کے ناخن ملک کو بھاری نقصان سے بچا سکتے ھیں ایمانداری کے ساتھ قاتلوں کو سزا دینا ہی ملک کی جمہوریت و سالمیت کے لئے بہتر ہے.
رد عمل کہتے ہو قتل عام کو...!
رد عمل کا رد عمل ہوگیا تو ....؟

حاجیوں فی امان اللہ.

از قلم: اجوداللہ پھولپوری
ajwadullahph@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــ
خوش قسمت ھیں وہ افراد جنکا نام زائرین حرمین کی فہرست میں شامل ھوچکا مبارک ھو آپ ایسے گھر کی جانب بلائے گئے اور ایسے مالک کی میزبانی میں جارھے جو خالق کائنات اور مالک ارض و سماء ھے جو رازق انس و جن ھے ایسی جگہ سے آپ کا بلاوا ھے جو قدسیوں کی آماجگاہ اور ملکوتیوں کی سجدہ گاہ ھے جسکی زیارت اور طواف بہت سےفرشتوں کیلئے روز قیامت تک صرف ایک بار ھی ممکن ھے آپ کمر کس لیں اور زاد راہ تیار کرلیں اور اس سفر میں بہترین زاد سفر تقوی ھے فان خیر الزاد التقوی جو کہ باسانی مل سکتا ھے اسکے لئے آپکو روپیہ پیسہ خرچ نہیں کرنا اور نہ ھی دوڑ بھاگ کرنی بس گزشتہ گناھوں سے توبہ اور آئندہ نہ کرنے کاعزم آپ کیلئے زاد سفر تیار ھے سفر بظاھر آسان لیکن بباطن مشکل اسلئے کہ ظاھری احرام جو کہ تیل خوشبو سلے ھوئے کپڑے اور دنیاوی بناؤ سنگھار اور جماع سے بچنا ھے کا احترام جسقدر مشکل ھے اس سے تو آپ واقف ھی ھیں پھر باطنی احرام کا احترام کس قدر دشوار ھوگا اسکو لکھنے سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت ھے گناھوں سے توبہ برے .... خیالات سے خود کو بچانا .... دنیاوی چمک و دمک اور حسین چہروں سے آنکھیں محفوظ کرلے جانا..... حسد، جلن، کینہ، کبر، غصہ ان سب پہ قابو ھی باطنی احرام کہلائیگا..... آج کی دنیا میں شاید ھی کچھ لوگ ھوں جو ان سب بیماریوں سے پاک و صاف ھوں ...... پھر بھی امید باقی رکھیں آپ جنکے مہمان ھونے والے ھیں وہ بڑا ھی رحیم وکریم اور غفور ستار ھے ..... یقینا ھمارے گناھوں کی ستر پوشی کریگا ..... اور اپنے رحم و کرم کے آغوش میں جگہ دیکر سرفراز و کامران کریگا ..... فی الجملہ آپ ایسے شھر کی طرف روانہ ھورھے ھیں جسکی فضیلت احادیث و آثار میں کثرت سے موجود ھے
جس شھر کیلئے اللہ تعالی کی محبت کا اعلان نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا انتَ احَبُّ بِلَادِ اللہِ تَعالیٰ اِلَی اللہِ تَعالیٰ اور اسکے بارے میں خود کی محبت کا اعلان یوں فرمایا کہ اَنتَ اَحَبَّ بِلادِ اللہِ اِلَیَّ ولَولَا اَن اھلَکَ اَخرَجُونی لَم اخرُج مِنکَ (ترمذی شریف) ترمذی کی دوسری روایت میں احب البلاد کا تزکرہ کچھ یوں ھے واللہ انک لخیر ارض اللہ واحب ارض اللہ الی اللہ ( ترمذی )  قسم اللہ کی! اے شہر مکہ تو اللہ کے نزدیک بہترین شہر ہے، تیری زمین اللہ کو تمام روئے زمین سے پیاری ہے۔
آپ خود اندازہ لگایئے جس شھر سے احکم الحاکمین اور شہنشاہ دوجہاں کی محبت کا یہ عالم ھے اس شھر کے محبوب ھونے میں کیا چیز مانع ھوسکتی ھے قران کریم میں بھی صاف لفظوں میں واضح اعلان ھے انَّما اُمِرتُ اَن اَعبُدَ رَبَّ ھٰذِہِ البَلدَۃِ الَّذی حَرَّمَھَا وَلَہ کُلُّ شَیئٍ اللہ اکبر ! اللہ کے مہمانوں شھر مکہ کی بڑائی دیکھیں خالق کائنات اپنا تعارف بھی مکہ کے زریعہ کرارھا ھے جو کہ خود مالک کائنات ھے جس شھر کی عزت افزائی بلد امین سے کی گئی جسے بلَدًا آمنا بھی کہا گیا جسکی گلی گلی پیارے محبوب کے بچپن کو اپنے اندر سمیٹے ھوئے ھو اور جو شھر یاد خلیل کا امین ھو جسکی آبادی دعاء خلیلی کا ثمرہ ھو جسکے زرہ زرہ میں اسماعیل و ھاجرہ کے یادیں پوشیدہ ھوں آپ اسمیں مقیم ھونے والے ھیں مبارک ھو بہت بہت مبارک ھو
اسی پہ بس نہیں آپ ایسے رکن کی ادائیگی کیلئے جارھے جسکا شمار دین کے اساسی ارکان میں ہوتا ہے.
و للہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (آل عمران) جسکی فضیلت لا متناھی اور جسکا بدلہ جنت ہے.
فضیلت حج پر محبوب کائنات یوں گویا ھیں من حج ہذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کما ولدتہ امہ ( ابن ماجہ ) یعنی جس نے پورے آداب وشرائط کے ساتھ بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ نہ جماع کے قریب گیا اور نہ کوئی بے ہودہ حرکت کی وہ شخص گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوکر لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے دن پاک صاف تھا۔
اس رکن کی فضیلت کا کیا کہنا جو توسط و زریعہ بنے احکم الحاکمین کے مہمان بننے کا ، رب کی میزبانی وہ بھی بندۂ عاجز وناتواں کی بس یہ اسکی کرم فرمائیاں ھیں ورنہ یہ جبین عاصی ابن عاصی اور دیار احکم الحاکمین کا کیا جوڑ؟
الحاج والعمار وفد اللہ ان دعوہ أجابھم وان استغفروہ غفر لھم : (ابن ماجہ) حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔
میزبان کی کرم فرمائیوں اور زرہ نوازیوں کی یہ برسات اسی پر ختم نہیں ھوتی بلکہ طبرانی کی روایت کے مطابق : اللہ جل شانہ کی ایک سو بیس (۱۲۰) رحمتیں روزانہ اِس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں پر، چالیس وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور بیس خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں پر ۔
جب تک آپ اس دیار کے باسی رہیں طواف کو غنیمت جانیں جس قدر ممکن ہو طواف کی کثرت کریں.
دیار احکم الحاکمین اور احسن الخالقین کا تزکرہ ھو اور رحمت اللعالمین و اجمل العالمین کے دیار کا ذکر نہ ھو تو بات کئی صفحوں کے باوجود ادھوری اور ناقص معلوم ھوتی ھے آپکی حاضری دیار حبیب میں بھی ھونی ھے کسی کی پہلے کسی کی بعد میں اسلئے کہ بغیر وھاں کی حاضری کے سفر ناتمام رھیگا خیال رھے یہ ایسا دیار ھے جسکے زرہ و پہاڑ اور برگ بار نبی کی مبارک زندگی کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل کو اپنے اندر سموئے ھوئے ھیں یہ ایسی زمین ھے جہاں ذوق و شوق سے دمکتی چمکتی جبین نیاز بارھا سجدہ ریز ھوئی امت کے سیہ کاروں اور گنہگاروں کی مغفرت کے واسطے بارھا ھاتھ مبارک دعاؤں میں اٹھے اس مبارک سرزمین پر اس آقائے دوجہاں کا جسد اطہر آرام فرما ھے جسکے صدقہ و طفیل زمین و آسمان چاند سورج ستارے سیارے وجود میں آئے اسی سرزمین سے اسلام نے دنیا میں اپنی سلامتی کو وسعت دی یہاں کے زرہ زرہ کو محبت کی نگاہ سے دیکھئے خدا معلوم کس زرہ نے نبی کی زیارت کی ھو اسکا احترام کریئے اسکو محبوب سمجھئے اسلئے کہ پیارے کی ھر چیز پیاری ھوتی ھے یاد رھے جس چیز کی قدر و منزلت بڑھی ھوتی ھے اسکی ناقدری قابل معافی نہیں ھوا کرتی حرمین کی سرزمین کا احترام کریں فضول اور لغو کاموں سے خود کو بچائیں ظاہری چمک دمک سے پرہیز کرتے ہوئے باطنی نورانیت کو اپنے اندر سمیٹیں موبائل کا استعمال کم سے کم کریں نیک اعمال کی کثرت کریں سنن و نوافل کو کس کے پکڑیں عالموں سے پوچھ پوچھ کر عمل کریں یہاں کا ایک ایک لمحہ قیمتی ھے اسکو خوب وصولیں اور ھوسکے تو ایک احسان فرمادیں بندۂ ناچیز اور عمال مدرسہ کو بھی دعاء خیر میں یاد رکھیں اخلاص و للٰہیت سے کام کرنے کی ہم سب کے لئے توفیق مانگ لیں والد محترم کیلئے ترقی درجات اور والدۂ محترمہ کیلئے صحت و سلامتی کی دعاء بھی فرمادیں واللہ یحب المحسنین .

اعظم گڑھ: لال گنج پاور ہاؤس سے منسلک مواضعات میں بجلی سپلائی خراب ہونے سے کسان پریشان!

عبدالرحیم
ـــــــــــــــــ
لال گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/جولائی 2018) لال گنج پاور ہاؤس سے منسلک مواضعات کی بجلی سپلائی کافی خراب چل رہی ہے، جس سے دھان کی کھیتیوں میں پانی نہیں مل پارہا ہے، اس شدید گرمی اور سوکھے ہونے کیساتھ ساتھ بجلی بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے، تو ایسی صورت حال میں کسان کافی پریشان ہیں.
لال گنج پاور ہاؤس سے منسلک گاؤں میں سب سے گھنی آبادی دیوگاؤں میں ہے جہاں ایک دن بجلی پوری ملتی ہے تو دوسرے دن آدھی (ھاف) اس طرح دوگاؤں کی عوام خاص طور پر کسان کھیتی کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں، وہاں پر بجلی سپلائی کا یہ حال ہے کہ کسانوں کی کھیتیاں سوکھ رہی ہے، اور لال گنج بلاک کی سب سے بڑی گرام پنچایت بیریڈیہہ ہے جہاں پورے دن بجلی سپلائج ہوتی ہے لیکن ہر پانچ منٹ میں بجلی غائب ہوجاتی ہے، اور گھنٹوں بعد آگی ہے، یہ سلسلہ رات آٹھ بجے تک چلتا ہے، اس کے بعد رات میں گیارہ بجے بجلی آتی ہے تو پھر دو بجے غائب ہوجاتی ہے، حال یہ ہے کہ بجلی کے آنے جانے ک کوئی مستقل نظام نہیں ہے، یہی حال کٹولی، سلہرہ، بنارپور سمیت دیگر گاؤں کا ہے، بس وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے اعظم گڑھ دورے کے وقت دو دن تک 24 گھنٹے بجلی ملی اس کے بعد سے روزانہ بجلی کا انتظام خراب ہی چل رہا ہے، حالانکہ اس سے اچھا بجلی کا نظام پچھلی سرکار میں تھا، دن و رات ملاکر 20 گھنٹے بجلی ملتی تھی اور وہ بھی وقت مقررہ پر، موجودہ وقت کی بجلی سپلائی سے کسان، مزدور، دکاندار، آفس میں کام کرنے والے سبھی پریشان ہیں جو لیکر گاؤں کے حافظ وزیر احمد، سنتوش کمار، حامد ایڈوکیٹ، محمد صالح، محمد شاہد، راجکمار، ڈاکٹر گلزار احمد اعظمی، اخلاق احمد وغیرہ نے محکمہ توانائی اور یوپی سرکار سے حلقہ لال گنج کی بجلی سپلائی کو درست کرانے کی طرف دھیان دلایا ہے، تاکہ اس سوکھے کی حالت میں کسانوں کو کھیتی کرنے میں کوئی دقت و پریشانی محسوس نہ ہو.