اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ’’چاند گرہن‘‘ میزانِ شریعت پر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 28 July 2018

’’چاند گرہن‘‘ میزانِ شریعت پر!

محمد سالم قاسمی سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
 ماہرین فلکیات کے مطابق آج رات قریب بارہ بجے سے اس صدی کا سب سے طویل چاند گرہن لگنے والا ہے، اس موقع سے عوام میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں، جو در حقیقت ہندو معاشرت سے اختلاط کا نتیجہ ہیں، ہمارے اطراف میں مطلع مکمل طریقہ سے ابر آلود ہے؛ اس لیے اس کا نظارہ بظاہر مشکل ہے، حالاں کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کے تعلق سے واضح ارشادات موجود ہیں جن کو عملی طور پر اختیار کرنا ضروری ہے، بے جا خیالات اور وہم پرستی یہ شریعت اسلامیہ سے متصادم ہے، یہ چاند اور سورج گرہن اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، اس لیے اس موقع پر اس کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
 یہ دنیا اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی موجود سب خالق کائنات اللہ رب العزت کا بنایا ہوا ہے، سب میں اسی کی طاقت وقوت کارفرماہے، اس کی مرضی ومنشا کے بغیر ایک ذرہ کا بننا، اس کا حرکت کرنا اور منتقل ہونا ناممکن ہے، اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چاند اور سورج گرہن میںاس کی مرضی کا دخل نہ ہو؟؟اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ظاہری طور پر سورج اور چاند گرہن کے اسباب جو ماہرین فلکیات بیان کرتے ہیں ان کو نکار دیا جائے اور حرف غلط کی طرح ان کو بے کار اور لغو قرار دیا جائے، ان کا بیان صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہوسکتا ہے، اس موقع پر ہمیں ان کے بیانات سے کوئی بحث نہیں ہے۔
  در حقیقت یہ گرہن اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں، جس طرح ان کا روشن وجود خدا کی قدرت کے عظیم کرشمے ہیں، اسی طرح ان کا بے نور اور تاریک ہوجانا بھی اسی کی قدرت کی دین ہے، اس میں وہ راز پوشیدہ ہے جو بوقت قیامت اللہ کی جانب سے بپا کیا جائے گا، جس کو قرآن کریم کی آیات میں بے نور ہونے وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے، گویا اس میں اللہ کی یہ مصلحت وحکمت پوشیدہ ہے کہ ایسے مواقع پر بندگان خدا اُس ہولناک منظر کو پیش نظر رکھیں جو اس کی جانب سے انتہائی خطرناک صورت یعنی قیامت کی صورت میں رونما ہوگا، اور تمام مخلوقات کو اس کی جانب سے فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا، جس میں دنیا کے ظاہری اسباب کا کوئی دخل نہیں ہوگا؛ بل کہ براہ راست اللہ کی قدرت کارفرما ہوگی، اسی کا ایک آدھ نمونہ اللہ تعالی سورج اور چاند ی صورت میں دکھاتے ہیں ، تاکہ بندگان خدا اس کی جانب متوجہ ہوں، سورج اور چاند گرہن کو بخاری شریف کی روایت میں صاف لفظوں میں اللہ کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا، یہ وہی دن تھا جس میں آپ ﷺکے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تھی، تو لوگوں میں بات پھیل گئی کہ سورج گرہن آپ ﷺ کے صاحب زادے کی وجہ سے ہوا ہے، اس موقع پر جناب نبی کریم ﷺ نے اس کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے اور لوگوں کے کمزور عقیدے کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :’’إن الشمس والقمر لاینکسفان لموت أحد من الناس، ولکنہما آیتان من آیات اﷲ؛ فإذا رأیتموہ فقوموا وصلوا‘‘ (بخاری شریف) کہ سورج اور چاند کسی کے مرنے سے گرہن نہیں ہوتے، یہ تو قدرت الہی کی دو نشانیاں ہیں، جب تم انھیں گرہن ہوتے ہوئے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔
 بخاری شریف کی ایک روایت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ’’ چاند اور سورج کا گرہن لگنا قدرت کی نشانیوں میں سے ہے، کسی کے مرنے جینے سے ظاہر نہیں ہوتے، بل کہ اللہ اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لیے ظاہر فرماتا ہے، اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد دعا، استغفاراور یاد الہی کی طرف رجوع کرو‘‘۔
 اس حدیث میں صاف ہے کہ ایسا اللہ رب العزت اپنے بندوں کو عبرت دلانے کے لیے کرتا ہے، تاکہ وہ حضرات جو سورج اور چاند کو اپنا رب اور خدا مانتے ہیں عبرت حاصل کریں اور تجزیہ کریں کہ اگر یہ خدا اور معبود ہوتے تو ان کی روشنی ختم کیسے ہوتی اور یہ دونوں بے نور کیسے ہوجاتے؟؟؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خدا اور معبود نہیں ہوسکتے؛ بل کہ یہ کسی اور کے بنائے ہوئے ہیں، اس لیے عبرت ونصیحت حاصل کرکے اس اللہ کے بارگاہ میں حاضری دی جائے اور اسی سے راز ونیاز کیا جائے جس نے ان کو بنایا اور ان کو نور بخشا ہے، اور جب چاہا ان کی روشنی ختم کردی اور بے نور بناکر لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔
 چاند گرہن کے موقع پر ہمارے فقہائے حنفیہ کے نزدیک باقاعدہ جماعت کے ساتھ نماز مشروع نہیں ہے؛ بل کہ انفرادی طور پر لوگ گھروں میں دو رکعت نماز ادا کریں، جب کہ سورج گرہن میں جماعت کے ساتھ دو رکعت نماز مشروع ہے، ساتھ ہی حدیث میں ایسے مواقع پر تلقین کی گئی ہے دعاء، استغفار اور اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس لیے اگر آج گرہن ہوتا ہے تو دو رکعت نفل نماز انفرادی طور پر اپنے گھروں میں پڑھی جائے، اللہ کے حضور رونے اور استغفار کا اہتمام کیا جائے، نیز نفلی صدقہ کا بھی اہتمام کیا جائے، اس سے اللہ کی ناراضگی دور ہوتی ہے۔
 گرہن کے موقع پر جو مختلف توہمات پائے جاتے ہیں ان کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، بعض تو ایسے ہیں جو بالکل فضول ہیں، جب کہ بعض کا تعلق طب سے ہوسکتا ہے، حاملہ عورتوں کو کمروں میں بند کردینا، چھری اور چاقو کا استعمال ممنوع قرار دینا اوراس موقع پر کھانے پینے سے رکنا وغیرہ، ان کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے، بل کہ یہ غیروں سے لی گئی توہمات ہیں، جو اختلاط کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئی ہیں، اس لیے ان توہمات سے اپنے کو نکالا جائے اور شریعت نے جو صاف شفاف اصول دیے ہیں ان کو اختیار کیا جائے۔
 واللہ الموفق وہو یہدي السبیل
محمد سالم قاسمی
(استاذ تفسیر وفقہ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور)
(تحریر13 /ذی قعدہ1439 ھ مطابق27/جولائی 2018ء بروز جمعہ بعد نماز عشاء)
salimmiubarakpuri@gmail.com