اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: May 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 31 May 2019

معاشرے کی ایک اہم ضرورت "انفاق فی سبیل اللہ"

از قلم: محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد
ـــــــــــــــــــــــــــــ
ارکان اسلام میں ایک اہم رکن زکوة بھی ہے صرف یہی ایک بات اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں جگہ جگہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوہ کا بھی تذکرہ فرمایا ہے ایک جگہ ان دونوں فرائض پر عامل مسلما نوں کو سچا مومن قرار دیا اللہ تعالی فرماتا ہے، وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں وہی سچے مومن ہیں دوسری جگہ ان کی کامیابی کو اللہ تعالی یو ں فرمایا ہے جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں نماز قائم کریں اور زکوہ دیں ان کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے نہ اداسی اور غم زکوہ صاب نصاب مسلمان پر فرض ہے جسے ہر سال ادا کئے بغیر کوئی صاحب نصاب مسلمان مسلمان ہی نہیں رہ سکتا اللہ تعالی نے مال ودولت دے کر مسلمانوں کو آزمائش و امتحان میں ڈالا ہے آیا
وہ مال کی محبت میں گرفتار ہوکر مال کو جمع کرتا اور گن گن کر رکھتا ہے یا حکم الہی کی کرتے ہوئے ایک مخصوص حصہ شرعی اصولوں کے مطابق زکوہ کی شکل میں نکال کر اپنا مال پاک کرتاہے زکوہ در اصل ایک مشق و تربیت ہے تاکہ مسلمان اپنے نفس کو اپنا تابع و مطیع بنانے اس کے دل سے مال کی محبت نکل جائے اور ضرورت پرنے پر وہ بے دریغ اپنی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر سکے اور اس کو زاپنی سعادت مندی سمجھے کہ اللہ کی فراہم کردہ دولت کو اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کردیا یہی اسلام کا تقاضہ ہے اور مقصد زکوہ میں یہ شامل ہے کہ مال کی محبت اس کے اندر کم سےکم ہو جائے اور اس میں اخوت و محبت جو دو سخا ہمدردی و خیر خواہی اور ایثار وقربانی جیسی انسانی اقدار پیدا ہو جائیں جن سے ایک صالح اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے گویا فرضیت زکوہ میں اللہ تعالی نے بہت سے فوائد و ثمرات پوشیدہ رکھے ہیں ظاہر ہیں نگا ہیں جن کا ادراک نہیں کر سکتیں قرآن کے بیان کردہ آٹھ مصارف زکوہ میں ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے فی سبیل اللہ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے گویا زکوہ کا ایک مصرف جہاد ہے خوہ مجاہدین کو دیا جائے ان کے لئے ہتھیار وغیرہ خریدا جائے اور جہاد فی سبیل اللہ میں دین کی سر بلندی اسلامی علوم کی نشر و اشاعت دعوت و تبلیغ دینی مدارس اور اسلامی مراکز کی تعمیر و مرمت اور ان کی نگہداشت علم دین کا حصول وغیرہ بھی شامل ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک ملکی اور علاقائی حالات و ظروف کے تناظر میں علم و دین کا حصول جہاد سے بھی افضل ہے اسلام نےجہاں صاحب نصاب مسلمانوں کو ایک مخصوص حصہ زکوہ کی شکل میں ادا کرنے پر اکسایا اور ابھارا اور نہ ادا کرنے پر وعید وتہدید سنائی وہیں عام مسلمانوں کو محتاجوں مسکینوں یتیموں بیواو ں وغیرہ کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت زدہ بھائیوں کی اعانت و امداد پر بھی ابھارا ہے چنانچہ قرآن وحدیث نفلی صدقات و خیرات کی بڑی تاکید آئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نظام زکوہ کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خیر کثیر حاصل کرسکتا ہے وہیں ایک غریب کمزور اور افلاس زدہ مسلمان بھی اس خیر کثیر سے مرحوم نہیں رہتا بلکہ بسا اوقات وہ مالدار وں پر سبقت بھی حاصل کر لیتا ہے ہاں شرط ہے کہ دل جوہر اخلاص سے مالا مال ہو ایک صحیح حدیث میں وارد ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ایک درہم ایک لا کھ درہم پر سبقت لے گیا ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیسے آپ نے فرمایا ایک شخص کے پاس بہت مال تھا اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم صدقہ کردیا اور ایک آدمی کے پاس صرف دو درہم تھے اس نے ان میں سے ایک درہم صدقہ کردیا غریب اور کمزور مسلمانون کے لئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ ان کا معمولی صدقہ بڑے بڑے صدقات پر سبقت لے جا سکتا ہے اس لئے انہیں اپنی حیثیت کے مطابق انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خیر کثیر حاصل کرتے رہنا چاہئے اور اپنی آمدنی پر قناعت کرتے ہوئے رب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے اللہ تعالی انفاق فی سبیل اللہ کے سلسلے میں ایک جگہ فرماتا ہے جو لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انکی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہو اور اللہ تعالی جسے چاہے بڑا جڑھا کر دے اور اللہ تعالی کشادگی والااور علم والا ہے اور جو لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے دوسری جگہ ارشاد فرمایااگر تم اللہ کو اچھا قرض دوگے یعنی اس کی راہ میں خرچ کروگے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھاتاجائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف فر ما دے گا اللہ بڑا قدر دان بڑا بردبار ہے اس بات کو اللہ تعالی نے دوسری جگہ بیان فرمایا ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالی اسے بہت بڑھا چڑھا کر عطا فرمائے گا اللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اس کی جانب لوٹائے جاو گے یہ بات ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کی گئی کون ہے جو اللہ تعالی کو اچھی طرح قرض دے پھر اللہ تعالی اسے اس کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اسکے لئے پسندیدہ اجر ثابت ہو جائے یہ اور اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو صدقات و خیرات کی رغبت دلاتی ہیں اور اگر ایک مرد مومن انہیں سنجیدگی سے پڑھ لے اور عمل کرے تو  اس کی آخرت سنور جاتی ہے احادیث مبارکہ میں بھی صدقہ وخیرات کی بڑی تاکید و ترغیب موجود ہے چند حدیثیں ملاحظہ فر مائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی سخی ہے اور سخاوت کو پسند کرتا ہے اور اچھے اخلاق کو پسند اور گھٹیا عادات کو نا پسند کرتا ہے ایک جگہ فرمایا صرف دو آدمیوں کے ساتھ رشک کرنا جائز ہے ایک وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے صحیح جگہوں پر خچ کرتا ہےاور دوسرا وہ جسے اللہ تعالی نے علم وحکمت سے نوازا ہے اور وہ ا س کے مطابق فیصلہ کرتا اور تعلیم دیتا ہے نیز فرمایا تم میں سے کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پسند ہو لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی کو اپنا ہی مال پسند ہے آپ نے فرمایا اس کا اپنا مال تو وہ ہے جو اس نے آگے کے لئے بھیج دیا ہے اور جو پیچھے چھوڑے جارہا ہے وہ اسکے وارث کامال ہے مزید فرمایا آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ٹکڑا خیرات کرکے ہی بچو نیز فرمان نبوی ہے ہر صبح دو فرشتے اترتےہیں ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے کو اس کا عوض دے اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ کنجوسی کرنے والے کو بربار کردے حضرے عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تم نے جو بکری ذبح کی تھی اس کا گچھ حصہ باقی یے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ یہ نہ کہو بلکہ یہ کہو کندھے کے سوا سب باقی ہے یعنی جو صدقہ ہو چکا حقیقت میں وہی باقی ہے جس کا اجر قیامت کے دن ملے گا ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا جس نے حلال کمائی سے ایک کھجورکے برابر خیرات کی اور اللہ حلال ہی قبول کرتا ہے اسے اللہ اپنے دائیں ہاتھ سے قبول کرتا ہے اور پھر خیرات کرنے والے کے لئے بڑھاتا رہتا ہے جس طرح کے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ صدقہ یعنی اس کا اجر پہاڑ جتنا ہو جاتاہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و خیرات پر امت کو اکسایا اور ابھارا ہےاور عملی طور سے بھی نمونہ پیش فرمایا ہے ایک واقعہ سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ایک آدمی نے حا ضرہوکر سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہے البتہ میرے نام سے کوئی چیز خرید لو میں اسے ادا کردوں گا یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہایا رسول اللہ صلی علیہ وسلم جس کی آپ کو طاقت نہیں اللہ تعا لی نے آپ کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات نا گوار محسوس ہوئی ایک انصاری نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ خرچ کیجئے اور اللہ تعالی کی طرف سے فقر کا خدشہ نہ محسوس کیجئے یہ سن کر آپ مسکرا ئے اور فر ما یا مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے آغوش نبوت کے پروردہ صحابہ کرام نے انفاق فی سبیل اللہ کی ایسی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے غزوہ تبوک کے موقع پر جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کے لئے عام چندے کی اپیل کی تو تمام صحابہ کرام نے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لیا لیکن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا تمام اثاثہ لا کر خدمت نبوی میں ڈھیر کردیا اور کوئی دوسرا اس کار خیر میں ان سے سبقت نہ لے جا سکا سورہ بقرہ کی آیت من ذاالذی یقرض اللہ نازل ہوئی تو ایک صحابی ابو دحداح رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اللہ تعالی ہم سے قرض طلب فرماتا ہے آپ نے ارشاد فرمایا ہاں صحابی نے عرض کیا اپنا ہاتھ دیجئے پھر ہاتھ میں ہاتھ لے کر کہا یا رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنا باغ جس میں چھ سو کھجور کے درخت ہیں اللہ تعالی کو قرض دیا وہاں سے سیدھے باغ میں آئے اور بیوی کو باغ سے باہر ہی کھڑے ہو کر آواز دی بچوں کو باہر لے کر آجاو میں نے یہ باغ راہ خدا میں دے دیا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ کھجور کے باغ تھے اور ان باغوں میں بیرحاءکا باغ سب سے زیادہ پیارا تھا جوکہ مسجد کے سامنے ہی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جایا کرتے اور اس کا عمدہ پانی پیا کر تےتھے جب یہ آیت کریمہ لن تنا لو االبر حتی تنفقو ا مما تحبون نازل ہوئی تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالی فرماتاہے کہ جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہر گز بھلائی نہ پاو گے اور مجھے اپنے سب مالوں میں بیر حا ء سب سے پیارا ہے میں اسی کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اللہ سے امید کرتا ہوں کہ مجھ کو اس کا ثواب دے گا اور وہ میرا ذخیرہ رہے گا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ جس کام میں مناسب سمجھیں اس کی آمدنی خرچ کریں رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فر مایا واہ واہ وہ تو بہت نفع بخش مال ہے واہ واہ وہ وہ تو بہت نفع بخش مال ہے ایک مرتبہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک لاکھ درہم بھیجے جو انہوں نے اسی وقت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیئے اور وہ اس دن خود روزہ سے تھیں بعد میں خادمہ نے عرض کیا اگر افطار کے لئے کچھ بچا لیتیں تو اچھا تھا حضرت عائشہ نے جواب دیا اس وقت یاد دلاتیں تو رکھ لیتی جب رسول اللہ صلی علیہ وسلم رومیوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہے تھے اور مسلمانوں پر تنگی کا وقت تھااس فوج کے لئے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دس ہزار دینار تین سو اونٹ پورے سازو سامان سمیت اور پچاس گھوڑے دیئے تھے بعد میں مزیدصدقہ کیاتو کل مقدار نو سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تک جا پہنچی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک مرتبہ قحط پڑا لوگ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کل تمہاری مشکل دور ہو جائے گی دوسرے روز حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار اونٹ غلے سے لدے ہوئے مدینہ پہنچے مدینہ کے تاجر ان کے پاس آئے تاکہ غلہ خرید کر بیچیں اور لوگوں کی پریشانی دور ہو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم مجھے کتنا نفع دوگے تاجروں نے دس کے بارہ پیش کئے انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ ملتے ہیں تاجرون نے دس کے چودہ پیش کئے انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ ملتے ہیں تاجروں نے پوچھا ہم سے زیادہ دینے والا کون ہے مدینہ کے تاجر تو ہم ہی ہےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے ہر درہم کے عوض دس درہم ملتے ہیں کیا تم اس سے زیادہ دے سکتے ہو تاجروں نے کہا نہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا تاجرو گواہ رہنا میں یہ تمام غلہ مدینہ کے محتاجوں پر صدقہ کرتاہوں قرآن و حدیث کے دلائل اور صحابہ کرام کے حوال وواقعات سے انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت و فضیلت روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے انفاق فی سبیل اللہ کا یہی وہ معیار ہے جس پر اسلام اپنے پیروں کاروں کو عمل پیرا اور کاربند دیکھنا چاہتا ہے ظاہر ہے جس معاشرے یا سماج میں مذکورہ صفات انفاق سے متصف افراد ہونگے وہ معاشرہ احساس محرومیت کا شکار نہیں ہوگا وہاں کوئی بھوکا اور ننگا نہیں ہوگا مصیبت زدہ اور پریشان حال کو سہارا ملے گا ایسے ہی معاشرے کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھامسلمانوں کی مثال با ہمی محبت و مئودت اور شفقت کے لحاظ سے جسم واحد کی سی ہے کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی کا شکار ہوجاتاہے، کاش موجودہ دور کے مسلمان بھی معاشرے کی اس اہم ضرورت انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت وعظمت کو محسوس کریں اور اس پر عمل کرکے دنیا کو ایک مثالی معاشرہ کی جھلک دکھا سکیں.
ربنا تقبل مناانک انت السمیع العلیم

کبھی خدا اور رسول نہ بننا!

ازقلم: وقار احمد غالب پوری
mohdwaqarakhtar@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گذشتہ کل احقر اپنے دادا محترم (جناب مولانا شمیم احمد صاحب قاسمی اعظمی شیخ الحدیث جامعہ مفتاح العلوم ، مئو ، یوپی) کی ایک پرانی آلماری کی صفائی کر رہا تھا، جس میں قدیم کتابیں موجود تھیں، کچھ کتابیں بوسیدہ ہوچکی تھیں اور کچھ صحیح وسالم تھیں، بعض کتابیں ۱۳۰۱ھ کی ملیں ، ان کتابوں میں مجھے چند ایسی کتابیں ملیں ، جنہیں میری نگاہوں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا ، جن میں سے چند کے اسماء درج ذیل ہیں:
(1) مغني اللبیب۔
(2) مسائل السلوک۔
(3) کلام الملوک۔
(4) شوق وطن۔
(5) رفاہ المسلیمن۔
(6) کلید مثنوی۔
(7) مایغنیک في الصرف۔
(8) غنیة المستملى.
(9) ترجمان القرآن بلطائف البیان۔
(10) قرآن کریم مع ترجمہ (قلمی نسخہ) 2200 صفحات پر مشتمل دو جلدوں میں۔
ان کے علاوہ دیگر بیش قیمتی کتابیں دیکھنے کو ملیں ، ان کے بارے میں آج دادا محترم نے بتایا کہ یہ ساری کتابیں میرے نانا مولانا عبدالطیف قاسمی اعظمیؒ کی تھیں ، جو مجھے ان کی خانقاہ سکندرآباد سے بذریعہ ایک شخص ملی اور کچھ کتابیں میرے چچا مولانا جمال الدین قاسمی اعظمیؒ کی ہیں
بہر کیف ان کتابوں کی صفائی کے دوران میری نظر ایک کاغذ کے ٹکڑے پر پڑی ، جس پہ یہ لکھا تھا:
"حضرت کچھ نصیحت فرما دیجیے":
آگے لکھا تھا:
"نصیحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں ، بس ہمیشہ دو باتوں کا خیال رکھنا: ایک یہ کہ خدا نہ بننا اور دوسرے یہ کہ رسول نہ بننا"۔
آگے یہ تحریر تھا:
"استغفر اللہ ۔ اس کا کوئی مسلمان تصور بھی کیسے کرسکتا ہے؟ آپ کی بات کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا"۔
اس کے جواب میں یہ لکھا تھا:
"خدا بننے کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ خواہش کرو کہ زندگی میں میں جو چاہوں، وہ ہوجائے؛ یہ شان تو صرف اللہ کی ہے۔ رسول بننے کا مطلب یہ ہے کہ تم تمنا کرو ساری دنیا مجھ سے عقیدت رکھے، سو یہ مقام صرف رسول کا ہے"۔
مجھے یہ بات دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی اور دل نے کہا: یہ کسی بڑے استاذ کی ہی بات ہوسکتی ہے اور عبارت کے انداز سے بھی یہی محسوس ہوا کہ یہ کافی قدیم ہوگی۔
واقعة اس عبارت پر جب غور کرتا ہوں ، تو ایسا احساس ہوتا ہے کہ اس عبارت میں زندگی کے ہر گوشہ کی بات شامل ہے۔
اللہ تبارک وتعالی نے بزرگوں اور ولیوں کو کیسا عظیم ذہن دیا تھا کہ ایک ایک جملہ میں زندگی گزارنے کے پورے پورے اصول واضح کرکے پیش کردیے ۔
اگر محقیقین ان کی باتوں میں غوطہ لگاتے جائیں ، تو ہر ایک موڑ پر نئے نئے علوم ملتے جائیں گے، جو انسانی فلاح وبہبود میں معاون ومددگار ہوں گے۔
اللہ تبارک وتعالی ہم تمام لوگوں کو ہر قیمتی نصائح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

مدھوبنی: شہر بلاک و پنچایتوں کی مساجد میں الوداع جمعہ!

مدھوبنی(آئی این اے نیوز 31/مئی 2019) ضلع کے شہر بلاک اور پنچایتوں کی مساجد میں فرزندان توحید نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ جمعة الوداع کی نماز خشوع خضوع کے ساتھ ادا کی اور امن وامان اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کی دعائیں مانگی اور روزہ دار اذان سے قبل ہی مساجد میں پہونچ کر قرآن پاک کی تلاوت اور تسبیح میں مصروف ہوگئے، اذان سے قبل ہی شہری حلقہ میں واقع جامع مساجد نمازیوں سے پر ہوگئی، وہیں شہر کی کچھ
مساجد میں مصلیوں کے لئے جگہ کی قلت محسوس کی گئی، شہر کی عبدالغنی مسجد اہل حدیث، مسجد محمدی، مسجد صورت گنج، مسجد بڑا بازار، مسجد مومن، مسجد نوری، مسجد انصاری، مسجد غازی، مسجد اسلامیہ کے علاوہ دیہی علاقوں کی مساجد بھی روزہ داروں اور مصلیوں سے پر رہی.
شہر کے اسلامیہ جامع مسجد میں نماز سے قبل مولانا محمد عبدالسمیع سلفی نے زکوة کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے زکوة کو وقت پر ادا کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ زکوة اسلام کے بنیادی فرائض میں سے ایک ہے اس کا ادا کرنا واجب ہے اور اس کا انکار کرنا موجب کفر ہے، قرآن مجید میں بکثرت اس کی تاکید آئی ہے اور بیشتر مقامات پر نماز اور زکوة کا ایک ساتھ ذکر ہے زکوة مالی عبادت ہے زکوة کو قرب الہی کا وسیلہ پاکی و طہارت کا سر چشمہ سمجھ کر ادا کرنا چاہئے، زکوة ادا کرنے سے مال کی محبت کم ہوتی ہے اور اللہ کی محبت بڑھتی ہے اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اس کو ادا کرنے سے غریبوں کی امداد ہوتی ہے اور سماج میں بھائی چارہ ایثار اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں امیروں اور غریبوں کے درمیان واقع دوریاں کم ہوتی ہے اور باہمی تعاون بڑھتا ہے.
اس موقع پر علاقوں کی تمام مساجد میں فرزندان توحید نے جمعة الوداع ادا کی اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں قوم و ملت کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ملک کے لئے دعائیں کی گئیں.

عید الفطر کے حوالے سے ایک خصوصی پیشکش: "مذہبِ اسلام میں عیدالفطر کی فضیلت "

محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ ، پنجاب.
9855259650 رابطہ
 Abbasdhaliwal72@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن یا فرحت اور چہل پہل کے ہیں جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ دراصل عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اس روز اللہ تعالٰیٰ بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں لہذا اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔
یعنی عید الفطر کا تہوار  پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ کسی بھی قمری ہجری مہینے کا آغاز مقامی مذہبی رہنماؤں کے چاند نظر آجانے کے فیصلے سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں منایا کرتے تھے  اور اس دوران  وہ لوگ بے راہ روی کے مرتکب ہوتے یعنی سیٹیاں بجاتے اور طرح طرح کے لہو و لعب میں مشغول رہتے. لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائے  تو مدینہ منورہ میں خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن، معاشرت اور اِجتماعی زندگی کا آغاز ہونا شروع ہوا. چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس سے پہلے اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا  کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ ( یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟)انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں ،یوم (عید ) الاضحٰی اور یوم (عید) الفطر۔ غالباً وہ تہوار جو اہل مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالٰی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔

عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت چھ تکبیروں) کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں چھ زائد تکبیریں ہوتی ہیں (جن میں سے تین پہلی رکعت کے شروع میں ہوتے ہی اور بقیہ تین دوسری رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے ادا کی جاتی ہیں)۔ مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو"۔
اہل اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں  یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ عیدالفطر کا یہ تہوار جو پورے ایک دن پر محیط ہے اسے ”چھوٹی عید“  بھی کہا جاتا ہے جبکہ اس کی یہ نسبت  عید الاضحیٰ تین روز پر مشتمل ہے اور اسے ”بڑی عید“ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ (185 آیت) میں اللہ تعالٰی کے فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے لہذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔

عید الفطر کے دن خصوصی طور پر مسلمان صبح  سورج نکلنے سے قبل بیدار ہوجا تے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے  عید کی نماز سے پہلے کچھ میٹھا یا کھجوریں کھاتے ہیں جو سنت رسول ہے  اور اس دن یہ روزہ کے نہ ہونے کی بھی ایک طرح سے علامت ہے۔

صدقہ فطر ہر صاحب نصاب مسلمان مرد، عورت، آزاد، عاقل، بالغ پر واجب ہے۔ صدقہ فطر دو 2 کلوگرام گندم، ساڑھے تین کلو گرام جو، کھجور یا کشمش میں سے جو چیز زیر استعمال ہو، وہی دینی چاہیے یا ان کی جو قیمت بنتی ہے. صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے ، لیکن نماز عید سے پہلے تک ادا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس کی مقدار مندرجہ بالا اجناس کی نسبت سے ہے البتہ ان کے علاوہ اس کے برابر قیمت نقدی کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جس کا تعین مقامی طور کیا جاتا ہے صدقہ فطر کو مدارس یا پھر مقامی ضرورت مندوں غربا اور مساکین بیوگان میں تقسیم کیا جاتا ہے.

 مسلمان  عید اس موقع پر اچھے یا نئے لباس پہنتے ہیں اور اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد یا عید گاہ جاتے ہیں۔ نماز عید الفطر میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ آواز سے تکبیریں (اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا اله إلا الله، والله اكبر، الله اكبر، ولله الحمد) کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔
اس کے علاوہ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔
عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں  پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔ عیدالفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالٰی سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔

  نماز عید  کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں  دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔
اس سے قبل عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر یا فطرانہ ادا کرنا واجب ہے جو ماہ رمضان سے متعلق ہے۔ مندرجہ ذیل چند باتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے صدقہ فطر نمازِ عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے ورنہ عام صدقہ شمار ہو گا۔
رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے مطابق  جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالٰیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور ان سے پوچھتے ہیں کہ اے میرے فرشتو ! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اس کی جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالٰیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتو ! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کے لیے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاﺅ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔ نبی پاک صلی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: پھر وہ بندے (عید کی نماز سے ) لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں.

مسلمان متوجہ ہوں، فتنۂ گوہر شاہی عروج پر: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

مہدیت کا جھوٹا دعویدار گوہر شاہی اور اسکے ماننے والے سب اسلام سے خارج ہیں!
محمد فرقان
ــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 31/مئی 2019) مت مسلمہ میں فتنوں کا ظہور کوئی نئی بات نہیں ہے۔ہمارے آقاﷺاپنی حیات مبارکہ ہی میں امت کو فتنوں کے سلسلے میں آگاہ کرچکے ہیں۔ بالخصوص قرب قیامت کے تعلق سے آپؐ کی پیشین گوئی ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح تسلسل کے ساتھ فتنے رونما ہوں گے، آپؐ کی پیشین گوئیوں کے مطابق اس وقت نت نئے فتنے سراٹھارہے ہیں۔اور یہ بھی حقیقت ہیکہ بیشتر فتنے دعوائے مہدیت اور دعوائے نبوت کے راستہ سے اٹھ رہے ہیں۔
انہیں میں سے ایک حالیہ دنوں میں پاکستان کی سرزمین سے ایک فتنہ”فتنۂ گوہر شاہی“ کے نام سے سر اٹھایا ہے، جس کا بانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے۔ جس نے پہلے مہدیت پھر مسیحیت، اسکے بعد نبوت اور بالآخر خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔اُس وقت برصغیر کے اکابر علماء دیوبند اور دارالافتاء اور تمام مکاتبِ فکر والوں نے اسے اور اسکے ماننے والوں کو اسلام سے خارج قرار دیا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ جب ملعون گوہر شاہی پر کفر کا فتویٰ صارد ہوا تو وہ ملک چھوڑ کر لندن منتقل ہوگیا اور 2001ء میں وہ جہنم رسید ہوا۔ اسکے بعد اسکا بیٹا یونس گوہر شاہی فتنۂ گوہر شاہی کا پیشوا بن گیا ہے اور اسلام مسلمان دشمنوں کی طاقت سے ہر آئے دن سوشل میڈیا کے ذرائع ابلاغ کی مدد سے امت کو گمراہ کررہا ہے۔مولانا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ ماضی قریب میں فتنۂ گوہر شاہی ہندوستان آپہنچا ہے۔ ملک کے مختلف ریاستیں دہلی، مہاراشٹر، کرناٹک، بہار،پنجاب اور مشہور شہر دہلی، ممبئی، بنگلور، پونہ وغیرہ میں اس فتنہ کی گند محسوس کی گئی ہے۔اور امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد جو مساجد و مدارس، خانقاہ و مراکز، علماء و صلحاء سے دور ہے وہ اس فتنہ کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ مولانا قاسمی نے فرمایا کہ ہمارے ملک خصوصاً شہر گلستان بنگلور میں فتنۂ گوہر شاہی عروج پر ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں شہر بھر میں اس فتنہ اور اسکی تشریح کرنے والے چینل ”الرا ٹی وی“ سے جڑنے کیلئے اشتہارات لگائے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد گمراہی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ شاہ ملت نے دوٹوک فرمایا کہ گوہر شاہی اور اسکے ماننے والے سب اسلام سے خارج ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس فتنہ سے مسلمان خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے ائمہ و خطباء حضرات سے بھی اپیل کی کہ وہ منبر و محراب سے اس فتنے کی پُر زور مخالفت کریں، جو لوگ گمراہ ہوچکے ہیں انکی ہدایت اور امت مسلمہ کے سامنے فتنۂ گوہر شاہی کی حقیقت کو واضح طور پر بیان فرمائیں۔ یہ ہمارا دینی و ایمانی فریضہ ہے۔

25واں روزہ 25واں سبق: رمضان حفظِ اوقات کا بہترین ذریعہ ہے!

كتاب :ثلاثون درسا للصائمین
عربی تحریر: الدكتور الشیخ عائض القرنی زیدت معالیكم
اردو ترجمانی : وصی اللہ سدھارتھ نگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زندگی ختم ہوتے دیر نہیں لگتی، دن اور رات کے لمحات گزرتے رہتے ہیں، انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا، ایک عر بی شاعر کہتا ہے :کہ ’’انسا نی دل کی دھڑکن ،اس کو اس بات کی خبر دیتی ہے کہ زندگی چند منٹو ں او ر سیکنڈو ں کا نام ہے، لہذا مو ت سے پہلے زندگی کے کردار کو بلند کر لو،اللہ کا ذکر کر و !کیو ں کہ ذکر انسان کے لیے دوسر ی زندگی کا نا م ہے ، اس لیے انسا ن کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ، جو لو گ لہو ولعب میں اور یو ں ہی بلا مقصد زندگی ضا ئع کر دیتے ہیں ،
قیا مت کے د ن اللہ تعا لی ان سے بڑا سخت حساب کر یں گے‘‘ ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کے با رے میں پوچھ تا چھ ہو گی ، قرآن کہتا ہے،! ’’قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِیْنَ قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّیْنَ قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِیْلاً لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ فَتَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکَ الْحَقُّ لاَ اِلٰہ إِلاَّ ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ‘‘۔ (المؤمنون: ۱۱۲، ۱۱۶)
کسی اللہ والے نے بہت درست بات کہی ہے کہ :’’ زندگی بہت کم ہے، لہٰذا غفلت سے گزا ر کر اس میں مزید کمی پیدا نہ کرو ، کیو ں کہ غفلت ولا پرواہی اوقا ت میں کمی پیدا کر تی ہے اور راتو ں کو ضا ئع کر دیتی ہے ‘‘ایک حدیث میں رسو لؐنے فا رغ البا لی کو خسا رے کا سبب قرار دیا ہے، فر مایا !’’نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنُ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّۃُ والفَرَاغُ ‘‘یعنی دو نعمتیں ایسی ہیںکہ اکثر لو گ ان کے حوالے سے نقصان کاشکا ر ہیں ،ایک تو تندرستی ہے اوردوسرے فا رغ البالی اور واقعہ بھی یہی ہے کہ معا شرہ میں بہت سے صحت مند ، فا رغ لو گ ایسے ہیں کہ ان کے اوقات بلا کسی مقصد کے گزر جاتے ہیں؛ لیکن وہ فا ئدہ اٹھاناجا نتے بھی نہیں ، اسی لیے ایک دوسر ی حدیث میں اللہ کے رسو ل ؐنے اس حوالے سے اپنی امت کو متنبہ کیا ہے، فر ما یا! ’’لاَ تَزُوْلاَ قَدْمَا عَبْدٍ یَوْمٍ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ وَذَکَرَ عُمُرَہُ فِیْمَا أَبْلاَہُ ‘‘یعنی قیا مت کے دن پر وردگا ر کے سامنے سے بندے کے قدم اس وقت تک حرکت نہیں کر سکتے،جب تک کہ اس سے چا ر چیزوں کے متعلق سوال نہ کر لیا جا ئے ، ان چا روں میں ایک چیز ’’عمر‘‘ بھی ہے ، جس کے متعلق یہ سوال ہو گا کہ کہا ں اس کو خر چ کیا ہے،یہ ایک سچا ئی ہے کہ عمرکسی خزانہ سے کم نہیں ، جو اس کو اللہ کی اطا عت وفر ما ں بر دا ری میں گز ارے گا تو اس کو اس کا اجر اس دن ملے گا جس دن کہ ما ل اور اولاد کچھ کام نہ آئیں گے ، اور اگر عمر کوغفلت و معا صی اور لہو ولعب میںگزارے گا توایسی ندا مت کا سا منا کر ے گاکہ بجز کف افسوس ملنے کے کچھ اورحا صل نہ ہوسکے گا ، اس کی زبا ن سے ’’یا حسرتنا علی ما فر طنا فیہا ‘‘ کے کلما ت جاری ہو ں گے ۔
دن اور رات انسا ن کے لیے ایک سو اری کے مانند ہیں ، اب انسا ن کے اختیارمیں ہے کہ اس سو اری کو اپنا کر خواہ سعادت و نیک بختی کی منزل تلا ش کرے ، یاشقا وت و بد بختی اور خسا رے کی ۔
ایک نظر ہمیں اپنے اسلا ف کی زندگیو ں پر ڈالنے کی ضر ورت ہے،تا کہ ہمیں معلو م ہوسکے کہ وہ اپنے اوقا ت کی حفاظت کس طرح کرتے تھے ؟
چنا ں چہ اس با بت جب ہم تلا ش وجستجو کر تے ہیں تو عجیب وغریب اور قسم قسم کے واقعا ت ملتے ہیں ، حضرت جنیدبن محمدؒ کا واقعہ ہے، کہ مر ض الموت میں ہیں ، مو ت سے چند لمحہ پہلے کی بات ہے کہ قر آن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں ، اتنے میں آپ کے لڑکے سو ال کر تے ہیں کہ :آپ کیو ں اپنے آپ کو اتنی زیادہ مشقت میں ڈا ل رہے ہیں ، تو فرما یا!کہ ’’اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کا مجھ سے زیادہ کسی کو حق بھی نہیں‘‘اسودبن یزید ؒایک تابعی گزرے ہیں !آپ رات کے اکثر حصہ میں نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ کے شا گردوں نے کہا !حضرت تھو ڑا آرام کر لیا کریں !فرما یا !آخر ت میں راحت وآرام کے لیے ہی اس دنیامیں مشقتیں برداشت کر رہا ہوں !سفیا ن ثو ری ؒایک مر تبہ کچھ لو گوں کے سا تھ حرم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ، کہ اچانک ایک صا حب گھبراکر یہ کہتے ہوئے اٹھے! ہائے افسو س ہم بیٹھے رہ گئے اور دن تو اپناکام کررہاہے ۔
ہما رے اسلا ف میں کچھ لو گ ایسے گز رے ہیں جنہو ں نے اپنے ہر کا م کے لیے وقت مقر رکر رکھا تھا !چنا ں چہ نما ز ، تلاوت ،ذکر، تحصیل علو م ، طلب معا ش ، اور سو نے کے لیے ان کے یہا ں الگ الگ اوقا ت مقر ر تھے ، لیکن !قر با ن جا ئیے کہ کھیلنے کے لیے کوئی وقت نہیںمقر ر تھا۔
یہ تو ہما رے اسلا ف کی پا کیزہ زندگی تھی ، اس کے بر خلا ف آج کایہ عالم ہے کہ عام طور پر لو گ ضیا ع ِوقت کے شکا ر ہیں (الا ما شا ء اللہ) کثر ت نو م، بے روزگا ر ی، غفلت و لا پر واہی ، بیکا ری ، مبا ح او رلہو و لعب میں اسراف ایک عا م با ت ہو چکی ہے، بلا مقصد کی مجلسیں ، اِدھر اُدھر کی ملا قا تیںبھی کچھ کم نہیں ؛اگر کسی کا م میں حقیقتًا معصیت نہ ہو تو اس طرح وقت گز اری سے معصیت آہی جا تی ہے۔
اس لیے پنج وقتہ نما زوں کی پا بندی کرکے ہمیں اپنے اوقا ت اور اپنی زندگی کو منظم طو ر پر گزا رنے کی ضرورت ہے، فجرکے بعد حفظ وتلا وت اور ذکر کا وقت ہو ،زوا ل سے ظہر تک طلب معاش اور تحصیل علم کا وقت ہو ، ظہر کے بعد کا وقت  مطا لعے کے لیے خا ص ہو ،عصر کے بعد لا ئبریر ی اور تحقیق مسائل کا وقت ہو ، مغر ب کے بعد دوست و احبا ب اورمتعلقین سے ملا قا ت کا وقت ہو ،عشا ء کے بعد کا وقت گھر والو ں کے لیے، سونے کے لیے ، پھر تہجد کے لیے ہو ، جمعرا ت کا دن آرام وراحت اور تفر یح کے لیے ہو، جمعہ کے دن پہلے صبح سویرے اٹھنا، مسو ا ک کر نا، غسل کر نا ، خوش بو لگا نا ، الغرض جمعہ کی تیاری کر نا اور عبا دت ، تلاوت ذکرو اذکار وغیرہ میں مشغول ہو جا نا ، یہ ایک تخمینی نظام الاوقات ہے،ہر انسا ن اپنے مشاغل کو سامنے رکھ کر حسب ضرور ت بتدیلی کر سکتا ہے۔
رمضا ن کا مہینہ اوقا ت کو منظم کر نے کے لیے بہت بہتر ہے، ایک انسا ن چاہے تو اس ما ہ میں ایک نظام الاوقا ت طے کرلے اور پھر زندگی کی قیمتی سا عتو ں سے فا ئدہ اٹھاکر زندگی کو قیمتی بنائے ، اور اپنے پر وردگا ر کا قر ب حا صل کرے ؛نیز یہ کام اس ما ہ میں کچھ مشکل بھی نہیں ،
روزہ دار عبا دت کے لیے دن میں خا لی ہو تا ہے، کھا نا کھانے ، کھا نے کی تیاری وغیر ہ کا مو ں میں جو اوقا ت خر چ ہوتے ہیں ، انسا ن اس ما ہ میں اس سے محفو ظ ہوجا تا ہے، پس سا را وقت عبا دت اور اعما لِ صا لحہ ہی کے لیے تو ہے، آج کی اس دنیا میں کچھ لو گوں کا حا ل تو یہ ہے کہ انہیں روزہ کا معنی بھی نہیں معلو م ، ایسے لو گ بہت بڑی غفلت اور بہت بڑی تا ریکی میں ہیں، کہ دن تو سو کر گز ار دیا اور رات کو یوں ہی بے مقصد ضا ئع کر دیا ، ایسے لو گو ں کو عر بی کی یہ نصیحت یا د رکھنی چا ہیے !’’ اے وہ لو گو!جو عمر کے لمحات ضائع کردیتے ہو یاد رکھو !کہ ا س کا بدل نصیب نہ ہو سکے گااور زندگی کے معا ملے میں مافا ت کی تلافی بھی نہیں ہے، عمر کو خسا رے میں گز ا رنے والوںکو اس کی حقیقت اور قیمت کا علم تو بعد میں ہو گا ۔
خدا یا !ہما ری نظروں میں ہما ری زندگیوں کو قیمتی بنا!اپنی اطا عت و فر ما ں بر دا ری کی تو فیق مر حمت فر ما. آمین

افطار پارٹی کر ھندو مسلم ایکتا کی پیش کی مثال!

سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/مئی 2019) سگڑی تحصیل علاقہ کے بنکٹا بازار گوسائی میں اکھل بھارتیہ پردھان سمیت ضلع انچارج لوہر یادو کی طرف سے روزہ افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا، جس میں سبھی مذھب کے لوگ جمع ہوکر ھندو مسلم ایکتا کی مثال پیش کی، علاقے کے معزز لوگوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ساتھ ہی مسلم کمیونٹی لوگ بھی افطار پارٹی میں شریک ہوئے.
اس دوران لوہر یادو نے کہا کہ روزہ افطار پارٹی آپسی بھائی چارہ کو بڑھاتا ہے، اور نفرت کو ختم کرتا ہے، روزہ افطار پارٹی دیکر سبھی لوگوں کو ایک چھت کے نیچے بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، اور سبھی مذھب کے لوگ ایک دوسرے سے خوشی کے ساتھ ملتے ہیں، جس ہر ایک کو خوشی ہوتی ہے، اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے.
اس موقع پر ضلع صدر حولدار یادو، درگا پرساد یادو، ہریکیش وشوکرما، دوروجے یادو، رام پرتاپ یادو،امین بنجارا، وجے یادو، سرتاج، رضوان احمد، اختر، نعیم خان، نصیر احمد، ڈاکٹر امتیاز وغیرہ موجود رہے.

Thursday 30 May 2019

محمود پراچہ۔۔۔۔۔ ہم سے غلطی ہوگئی!

ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صحافی محمد احمد کاظمی کو دہلی اسپیشل سیل نے دہشت گردی کے الزام میں 6 مارچ 2012 کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد پورے ہندوستان میں 300 سے زائد احتجاجی مظاہرے ہوئے، کاظمی کے صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ ہونے کی وجہ سے سنی شیعہ اتحاد تو رہا ہی، ساتھ ہی عالمی سطح پر بھی صحافیوں نے ساتھ دیا، کیونکہ یہ اسرائیل اور ایران سے جڑا ایک جذباتی مسئلہ بھی تھا، بہر کیف 19 /اکتوبر 2012 کو چارج شیٹ وقت پر جمع نہ ہونے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا تھا۔
اس دوران ایک نام جو کافی نمایاں ہوکر سامنے آیا، وہ دہلی کے ایک وکیل محمود پراچہ کا تھا جو اس سے پہلے فی الواقع ایک گمنام وکیل تھے لیکن ایک بڑے کیس سے جڑنے کی وجہ سے انہیں شہرت حاصل ہوگئی۔ محمود پراچہ نے اس وقت دو بڑے دعوے کیے، پہلا یہ کہ اب وہ مسلمان ہوگئے ہیں نیز گزشتہ زندگی سے توبہ کرکے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں (یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے والد سراج پراچہ بی جے پی کے بڑے لیڈر اور واجپائی کے ہم نوا ہوا کرتے تھے)۔ دوسرا یہ کہ اب وہ ایسے مقدمات بغیر کسی معاوضے کے دیکھنا چاہتے ہیں۔
جیلوں میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہے بے گناہوں کو اس وقت امید کی ایک کرن نظر آئی اور راتوں رات وہ بہت سے مقدمات کے وکیل بن گئے، محمود پراچہ نے مقدمات کی فہرست کے ساتھ جمعیۃ العلماء، جماعت اسلامی ہند اور اے پی سی آر جیسی بہت سی تنظیموں سے مدد مانگی جس کے بعد ان تنظیموں نے ان کی ماہانہ مالی مدد شروع کی، جو ان کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوتی رہی جو بہت بڑی رقم ہے۔
کئی سال کی لگاتار مالی مدد کے بعد بھی نہ تو پراچہ صاحب نے حسب وعدہ کوئی ٹیم بنائی، نہ مقدمات میں کوئی سنجیدہ دلچسپی دکھائی، عدالت میں جج، سرکاری وکیل اور پولیس افسران کے ساتھ ساتھ دیگر دفاعی وکیلوں کے ساتھ بدتمیزی کرکرکے پورے ماحول کو دشمن بناتے گئے، ان تمام حالات کے پیش نظر نوجوانوں نے اپنے کیس ان سے واپس لے لیے اور جیل سے خطوط بھیج کر وکیل کی تبدیلی کی مانگ شروع کردی جس کے بعد جمعیۃ العلماء، جماعت اسلامی ہند، اے پی سی آر و دیگر ملی و سماجی تنظیموں نے محمود پراچہ کو دی جانے والی امداد روک دی اور دھیرے دھیرے ان سے تعلق ختم کرلیا، چنانچہ آج نہ تو ان کے پاس کوئی کیس باقی بچا ہے اور نہ بے گناہ نوجوانوں کے کیس لڑنے کے نام پر مذہبی جماعتوں کی امداد ان کو مل پارہی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنی آفس ڈیفنس کالونی سے نظام الدین منتقل کرنی پڑگئی، یہ واقعہ وکیل برادری کے درمیان ان کی پوزیشن کو بری طرح متأثر کردینے والا تھا۔ ملی اداروں اور تنظیموں کے خلاف ان کی موجودہ سرگرمیوں اور حرکتوں کی واقعی حقیقت جاننے کے لیے ان حالات کا سمجھنا ازحد ضروری ہے۔
 مختلف مسلم تنظیموں خصوصا جمعیۃ العلماء، جماعت اسلامی ہنداور اے پی سی آر وغیرہ پر الزامات کی بوچھار کرتے ہوئے ان کا حالیہ دنوں ایک ویڈیوبیان منظرعام پر آیا ہے جس کو بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کے تحت مخصوص انداز میں پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ چونکہ مجھے ان تمام ہی ملی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ ساتھ اس وکیل کے ساتھ بھی لمبے عرصے تک کام کرنے کا موقع ملا ہے، اس بنیاد پر مجھے ان الزامات کا جواب دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
ویڈیو کی شروعات ہوتی ہے اس دعوی کے ساتھ کہ مختلف کیسوں میں انہوں نے کئی لوگوں کو چھڑوایا، جرمن بیکری کیس پوری طرح حل کرکے چھڑوایا۔ جبکہ یہ تمام ہی دعوے جھوٹے ہیں، جرمن بیکری کیس کا ملزم حمایت بیگ آج بھی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹنے پر مجبورہے کیونکہ ممبئی ہائی کورٹ میں محمود پراچہ بحث کرنے میں ناکام رہے اور سپریم کورٹ میں اپیل آج بھی زیربحث ہے جس میں جمعیۃ العلماء وکیلوں کی پوری ٹیم کے مصارف برداشت کررہی ہے۔ محمودپراچہ نے آج تک کسی کو بری نہیں کرایا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے جس کیس کو انہوں نے دیکھا، اس میں آخرکارسزا ہی ہوئی۔
کاظمی صاحب کے کیس سے ان کو پہچان ملی، حالانکہ کاظمی صاحب کو چارج شیٹ داخل نہ ہونے کی وجہ سے ضمانت ملی تھی اور ان کا کیس تو آج تک شروع بھی نہیں ہوسکا ہے، یعنی ابھی کاظمی صاحب کو اگلے دس پندرہ سال اور عدالت کے چکر کاٹنے ہوں گے، جبکہ پراچہ صاحب اس کیس کو اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے ان کی کوششوں سے کاظمی صاحب بری ہوگئے ہوں۔
”کسی بھی طرح سے مقدمات میں پھنسانے میں تنظیموں کا ہاتھ ہے“، یہ الزام کسی بھی نوجوان یا اس کے اہل خانہ کی طرف سے آتا تو قابل غور ہوتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج تک جو بھی نوجوان بری ہوا یا جس کو سزا بھی ہوئی، اس نے ان جماعتوں کے تعاون اور ان کی مددکا کھل کر شکریہ ادا کیا۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ خود محمود پراچہ نے ان جماعتوں اور اداروں سے مقدمات کی پیروی کے نام پر بڑی رقومات حاصل کیں، جس میں سے ایک بڑی رقم ان کے بینک اکاونٹ”لیگل ایکسس“ میں سالوں تک ہر ماہ آتی رہی۔ جب کئی سال تک نہ تو کسی کا کیس آگے بڑھا، نہ کسی کی ضمانت کی سنجیدہ کوشش کی، نہ کوئی بری ہوا، اور دوسری طرف جیل سے وکیل کی تبدیلی کے لیے ان قیدیوں کی جانب سے مطالبات آنے لگے تو ان تمام جماعتوں نے اپنی اپنی امداد روک لی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امداد روک لیے جانے کے بعد بھی محمود پراچہ کئی سال تک جمعیت اور جماعت کے مرکز کا چکر لگاتے رہے، اوراب جبکہ کوئی امید نہیں باقی رہی، تو اب پلٹ کر انہی پرکیچڑ اچھالنی شروع کردی۔
محمود پراچہ کا یہ دعوی کہ وہ اپنے وسائل سے مقدمات دیکھتے تھے بالکل جھوٹ اور بے بنیاد ہے۔ یہ خود میرے ساتھ تنظیموں اور جماعتوں کے پاس مقدمات کی فہرست لے کر بارہا گئے اور وکیلوں کی الگ ٹیم اور آفس بنانے کے وعدے اور بڑی بڑی باتیں کرکے ان کو قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر کبھی بھی پورے نہیں اترے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس ویڈیو میں بھی تمام تر الزامات اور دھمکیوں کے بعد انہوں نے ایک بار پھر وکیلوں کی ٹیم کو لے کراپنی مانگ رکھ دی۔ محمود پراچہ اس وقت ناکامیوں ونامرادیوں کے اس دور سے گزررہے ہیں جہاں ان کے پاس گنتی کے چند کیس بچے ہیں اور آفس کا کرایہ ادا کرنے کے پیسے بھی موجود نہ ہوپانے کی وجہ سے ڈیفنس کالونی جیسی جگہ سے نظام الدین بستی میں انہیں اپنی آفس منتقل کرنا پڑگئی ہے، ہمارا ماننا ہے کہ اس سب میں ان کی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا سب سے بڑا رول ہے،انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے خود کی اصلاح پر توجہ دیں۔
ویڈیو میں ایک دعوی یہ بھی ہے کہ لیفٹ و ملی جماعتوں نے بڑی بڑی میٹنگ کراکے ان کے بارے میں یہ کہا کہ ”یہ لڑائی اب یہ لڑیں گے“۔ ہمارا دعوی ہے کہ ایسا کوئی ویڈیو پیش نہیں کیا جاسکتا ہے جس میں کسی ایک نے یہ کہا ہو۔ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری ملت کی بہت بڑی کمزوری ہے کہ جیسے ہی کوئی نام منظر عام پر آتا ہے، ہم اس کا ماضی اور اس کی ایمانداری دیکھے بغیر اُسے اسٹیج پر لاکر کھڑا کردیتے ہیں۔ محمود پراچہ کو بھی بہت اسٹیج دیے گئے جس کے لیے سب شرمندہ ہیں، یقینا اس تناظر میں سبھی جماعتوں اور تنظیموں سے غلطی ہوئی ہے۔
ویڈیو میں اگلا دعوی یہ ہے کہ ”کئی بار جان لیوا حملے ہوئے“، جو سراسر جھوٹ اور گمراہ کن ہے۔ یقینا جے پور کورٹ میں ایک معاملہ پیش آیا تھا،جس پر تمام ہی تنظیموں نے ان کے حق میں پریس کانفرنس و قانونی پیش قدمی بھی کی تھی۔ لیکن یہاں یہ قوم کو بتانا ضروری ہے کہ شاہد اعظمی مرحوم کو قتل کرنے کا الزام روی پجاری پر آتا ہے، گزشتہ دس سال میں وکیلوں کو جان سے مارنے کا مسیج روی پجاری کے نام پر ہی آتارہا ہے، محمود پراچہ کا بھی دعوی تھا کہ روی پجاری ان کو دھمکی دے رہا ہے، لیکن یہ بات سن کر آپ کے ہوش اڑجائیں گے کہ روی پجاری کا آقا چھوٹا راجن ہے اور چھوٹا راجن جب ہندوستان لایا گیا تو محمودپراچہ کو ہی اس کا کیس ملا، جس میں محمود پراچہ نے اپنے سینئرایسوسی ایٹ ایڈووکیٹ گجندر کمار کو آگے کیا، جن کے چھوٹا راجن کی بہنوں کے ساتھ اخبارات میں فوٹو بھی آچکے ہیں۔
 پراچہ صاحب نے سادھوی پرگیہ سنگھ وغیرہ کے کیس میں بھی بڑا رول ادا کرنے کا دعوی کیا ہے جبکہ اس کیس سے ان کا کبھی بھی کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رہا، گلزار اعظمی صاحب کی دوراندیشی کی قدر کرتا ہوں کہ انہوں نے پہلی میٹنگ بھی مکمل ہونے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ یہ آدمی نہ تو بھروسہ کے لائق ہے اور نہ ہی اس جیسے کیس دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اگلا الزام پراچہ صاحب کا یہ ہے کہ یہ جماعتیں دکھانے کے لیے کام کرتی ہیں، یہ بھی بالکل بے بنیاد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان جماعتوں کو اپنی قوم کے سامنے اپنی کامیابیوں اور حصولیابیوں کی رپورٹ پیش کرنا ہوتی ہے، تاکہ ملک و ملت کو پتہ چلے کہ ان کے کیا مسائل ہیں اور ان مسائل کا سامنا ان کے قائدین کس کس طرح کررہے ہیں۔
محمود پراچہ کا الزام کہ”یہ جماعتیں اور ان کے وکیل کیس کو کمزور کرتے ہیں، ان کے وکیل جاکر ملزمین کو ڈراتے ہیں، وعدہ معاف گواہ بناتے ہیں، کیس ہرواتے ہیں“۔سراسر جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ کوئی ایک بھی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے کہ جماعت یا جمعیت کے کسی بھی ممبر یا وکیل نے کیس کمزور کیا ہو یا سرکاری گواہ بنایا ہو۔ رائج طریقہ یہ ہے کہ جیل سے خط یا اہل خانہ کی عرضی پر کہ”وہ یا ان کا بچہ بے گناہ ہے، بے گناہی ثابت کرنے کے لیے وکیل کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہوں، براہ کرم میرے وکیل کی فیس جو کہ اتنی ہے وہ ادا کرنے میں مدد کی جائے“، بقدر ضرورت پوری یا جو مناسب ہو وہ مددکردی جاتی ہے، جمعیت، جماعت یا اے پی سی آر کبھی اپنا وکیل کسی پر نہیں تھوپتی ہیں۔

صدقۃ الفطر کا مقصد!

تحریر: مولوی محمد شاہد کبیر نگری
            متعلم دارالعلوم دیوبند
ـــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے انسانوں کو دنیا کے اندر بھیجا پھر اسے اپنی حیات عزیز کے گزران کے لیے جہاں پر بہت ساری چیزوں کے جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو وہیں پر مال ودولت کے کمانے کی طرف بھی خصوصی توجہ کرنے کا حکم فرمایا ہے-
 چنان چہ ارشاد ہے : فاذا قضيت الصلاه فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله .( سوره جمعه )
انفاق کی اہمیت
لیکن اللہ تعالی نے کمانے سے زیادہ قرآن کریم کے اندر انفاق فی سبیل اللہ کی طرف متوجہ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے -
 کہیں فرمایا :يا ايها الذين امنوا انفقوا مما رزقناكم من قبل ان ياتي يوم لا بيع فيه ولا خله ولا شفاعه ۔(سورہ بقرہ ) تو کہیں پر خرچ کرنے والوں کے اجر و ثواب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :الذين ينفقون اموالهم في سبيل الله ثم لا يتبعون ما انفقوا منا ولا اذى لهم اجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون ۔ (سورہ بقرہ )
 تو کہیں پر اپنے حلال و پاکیزہ مال سے خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : يا ايها الذين امنوا انفقوا من طيبات ما كسبتم ومما اخرجنا لكم من الارض.( سورہ بقرہ )
 تو کہیں پر خرچ کرنے والوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایاکہ  جو کچھ خرچ کر رہے ہو وہ سب کا سب تمہارے لئے ہی  ہے: وما تنفقوا من خير فلانفسكم (سورہ بقرہ ) ما عندكم ينفذ وما عند الله باق .(سورہ نحل آیت نمبر ۹۶ )  فرمایا
تو وہیں پر پورے کا پورا لوٹا دینے اور بالکل کم نہ کرنے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وما تنفقوا من خير يوف اليكم وانتم لا تظلمون. (سورہ بقرہ )
لیکن تمام انفاق کے اندر اللہ کی رضا جوئی بطور خاص ملحوظ رکھنے کی تاکید فرماتے ہوئے فرمایا : وما تنفقون الا ابتغاء وجه الله .(سورہ بقرہ ) اور آگے بڑھ کر یہاں تک بیان کیا ہے کہ: وما انفقتم من نفقه او نذرتم من نذر فان الله يعلمه وما للظالمين من انصار.( سورہ بقرہ )  ترجمہ:  جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو یا نظر مان  رہے ہو سب اللہ دیکھ رہے ہیں-
 خفیہ طور پر خرچ کرنے کو سب سے بہتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ان تبدوا الصدقات فنعما هي وان تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم .(سورہ بقرہ )
 اور آگے بڑھ کر صدصدقات کو کفارہ سییات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ويكفر عنكم سيئاتكم  والله بما تعملون خبير.( سورہ بقرہ )
الغرض: قرآن کریم کے اندر کسب معاش  سے زیادہ انفاق کی طرف توجہ فرمائی گی ہے  جو  شریعت مطہرہ کا عین مزاج اور ضرورت  ہے-
  اسی طرح سے بیشتر  احادیث اس بات کی طرف مشیر ہی کی کسب سے زیادہ خرچ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے -
دوستو ! اللہ تعالی نے جہاں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تو ہیں پر خرچ کے مصارف ومواقع کو بھی بیان کیا ہے - چناں چہ ؛جہاں زکوۃ دینے اور اس کے مقصد کو بیان کیا ہے تو ہیں پر صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
صدقۃ الفطر کا مقصد
 اللہ تعالی نے جانی عبادات کے ساتھ مالی عبادات کا خصوصی امتزاج رکھا ہے  جیسے نماز ہے تو اس کا  فد یہ مال کے ذریعہ سے ہے اسی طرح سے روزے کے اندر پائی جانے والی کمیوں کی تلافی کے لیے اللہ تعالی نے صدقہ الفطر رکھا ہے، لیکن صدقۃ الفطر کے دوہری خصوصیت ودیعت  فرمائی ہے -
ایک تو روزے کے حالت میں ہونے والے لغویات و خرافات سے صفائی  ؛ دوسرے غرباء ومساکین کی حاجت روائی ؛
 یہ دوسرا مقصد وقت اور حالات کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے -
 اس لئے کہ شریعت کے اندر خوشیوں کے منانے کا حکم صرف اور صرف امراء اور اثریاء  کو نہیں دیا گیا ہے-
  بلکہ ہر مومن و مسلم کو اپنی بساط کے مطابق خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے-
  تو کیوں نہ( ہمارے وہ بھائی جو اپنی کمائی اور  اپنے مال سے خوشیوں کی سوغات نہیں لے سکتے)
 ان کو بھی ہم اپنے مال سے عید  جیسے عظیم تہوار کی خوشیوں میں شریک کر لیں !  جیسا کہ نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے :
فرض رسول الله  صلى الله عليه وسلم : زكاه الفطر طهر الصيام من اللغو والرفث وطعمه للمساكين (رواہ ابو داود )
صدقۃ الفطر کن لوگوں پر واجب ہے ؟
ہر ایسے شخص پر صدقۃ الفطر واجب ے جو بروقت صاحب نصاب ہو یعنی : ان کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی خریدنے کا مال  یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی شکل میں مال کا  عید کے دن مالک  ہو  اس پر حولان حول کا ہونا ضروری نہیں ہے (عالمگیری )
باپ اپنی،و نابالغ اولاد  اور اپنے گھر کے نوکر خادم کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا(  عالمگیری )
بیوی اگر صاحب نصاب ہے تو اپنا صدقہ صدقۃالفطر خد ادا کرے گی جیسے کی وہ  زکات اپنی خد ادا کرتی ہے -
 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما انه قال :  فرض رسول  الله صلى الله عليه وسلم  زكاه الفطر صاعا من تمر  او صاعا من شعير  على العبد والحر والذكر والانثى والصغير من المسلمين. ( مشکاۃ باب فضائل صدقۃ الفطر )
صدقۃ الفطر کے مصارف
اس کے مصارف بھی وہی لوگ ہیں جو زکات کے مصارف ہیں -
 صدقۃ الفطر کب نکالا جائے؟
عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردینا چاہیے( تاکہ اس  کا جو حقیقی مقصد ہے غرباء و مساکین کی دل جوئی و حاجت روائی اور  عید کی خوشی میں شریک کرنا) وہ بھی حاصل ہو جائے-
  نبی : پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ان تؤدي قبل خروج الناس الى الصلاه. (مشکاۃ صفحہ 160)
صدقۃ الفطر خواہ پیسوں کی شکل میں  ادا کرے یا کسی اور شکل میں سب جائز ہے -
 البتہ کپڑا پہنانے کے سلسلے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فضیلت ارشاد فرمائی ہے :
 عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما انه قال:  سمعت  رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول  :ما من مسلم كسا مسلما ثوبا الا كان في حفظ من الله ما دام عليه منه خرقة. (رواہ ترمذی)۔
ترجمہ :جب کوئی مسلمان کسی مسلمان بندے کو کپڑا پہناتا  ہے  تو جب تک وہ کپڑا اس بندے کے جسم پر رہتا ہے  پہنانے والا شخص اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے-
اسی طرح سے جہاں پر دوسرے لوگوں کو دینے کا حکم ہے  تو وہیں پر مسکین اقرباء کو دینے میں دوگنا ثواب رکھا گیا ہے -
ایک تو صدقہ کا؛ دوسرا صلہ رحمی اور قرابت داری کا جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ لهما اجران: اجر الصدقه  واجر القرابه.(  رواہ مسلم )
دوستو!  آئے ہم سب مل کر عہد کرتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ضروربالضرور ادا کریں گے !
اور اس کا جو حقیقی مقصد ہے (غرباء مساکین کو  عید کی خوشی میں شریک کرنا )اس کو بھی حاصل کریں گے انشاءاللہ۔  .اللہ تعالی  ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے.آمین

رمضان المبارک کے موقع پر کوٸز کمپٹیشن پروگرام اختتام پذیر!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/مئی 2019) سراۓ میر اعظم گڈھ کے مشہور ٹیکنیکل ادارہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے رمضان المبارک کے موقع پر آن لائن کوئز کمپٹیشن پروگرام بحسن وخوبی اختتام پذیر ہوا.
ڈائریکٹر محمد انظر اعظمی نے بتایا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں طلبہ خصوصاً آج کا نوجوان جو تراویح وغیرہ سے فارغ ہوکر اپنا وقت فضول ہوٹلوں،لہوولعب یا موبائل کے فضول استعمال میں صرف کرتا ہے،اسی وجہ سے طلباء کے وقت کو قیمتی بنانے کیلئے رمضان المبارک کے مہینے میں انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے آن لائن کوئز کمپٹیشن پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے،امسال کا یہ پروگرام 9/رمضان المبارک سے 23/ رمضان المبارک تک ہر روز رات 10 بجے سے گیارہ بجے کے درمیان آفیشل واٹس ایپ گروپ میں پیش ہوتا رہا،اس مختصر مقابلے میں ہر روز طلباء کے درمیان تین عنوان کے تحت سوالات ارسال کئے جاتے تھے، پہلا سوال اسلامی ہوتا،دوسرا جنرل نالج سے متعلق جبکہ تیسرا سوال ذہنی آزمائش اور دماغ دوڑائیں کا ہوتا تھا،پروگرام میں سوال کے ہی فی الفور طلباء کے جوابات آنے شروع ہوجاتے صحیح اور غلط جوابات کو دیکھ کر ہر روز رزلٹ تیار کیا جاتا تھا،جس میں تیز اور درست جواب دینے والے طلباء اسٹار بن کر پوائنٹ حاصل کرتے تھے،اس پروگرام میں ہر روز کسی نہ کسی معروف ومشہور شخصیات کی آن لائن شرکت ہوتی تھی جو پروگرام کو دیکھ کر اپنا تاثر پیش کرتے اور طلباء کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے،پروگرام میں خاص طور پر مولانا عبدالملک بجنوری استاد شعبہ انگلش دارالعلوم دیوبند،مولانا یونس اعظمی مکہ مکرمہ،پروفیسر حکیم ارشاد احمد،مولانا محمد ارشد صاحب میسورکرناٹک،مولانا افضل قاسمی،مولانا امداد اللہ مئو،مفتی محمد اعظم اعظمی،جناب عبید الرحمٰن سابق چیئرمین سرائے میر،مینیجر محمدفیصل اعظمی،مولانا ازھد جونپوری ، مفتی احمد اعظمی ، مولانا عاصم کمال اعظمی ، مولانا عبد اللہ اعظمی ، مولاناشاکر اعظمی ،اور مولانا اظفر اعظمی نے شرکت کی،انہوں نے طلبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاکہ یہ دلچسپ اور رنگارنگ آن لاٸن پروگرام دیکھ کر دلی مسرت ہوئی،سوالات بہت عمدہ اور دلکش تھے،سوالات کے آتے ہی جوابات کی بارشیں اس قدر تیز ہوتیں کہ لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی،انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام بہت ہی منفرد،کارآمد،معلومات سے بھرپور اور مختصر وقت میں ہر روز پیش ہوتا رہا،یہ پروگرام اس دور انحطاط میں جہاں ایک طرف موبائل،سوشل میڈیا کے میدان میں ایک مفید پلیٹ فارم ہے وہیں دوسری جانب طلباء عزیز کو دینیات وتاریخ اسلامی کے مطالعہ کی فکر اور لگن پیدا کرنے میں بھی بے حد موثر ذریعہ ثابت ہوگا ۔
پروگرام کے اخیر میں ڈائریکٹر محمد انظر اعظمی نے طلباء کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

روزہ کامقصد تقوی پرہیزگاری پیداکرناہے: مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی

تکمیل قرآن کی مجلس سے خطاب کہا، تقوی وپرہیزگاری کی صفت پیداکرنے کی ضرورت.
مئوآئمہ/ الہ آباد(آئی این اے نیوز 30/مئی 2019) روزہ اسلام کااہم رکن ہے، روزہ کی فرضیت ۱۰ شعبان سن ۲ ھجری کو ہوئی، مذکورہ خیالات کااظہار مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی نے مئوآئمہ قصبہ سے متصل پکاتالاب والی مسجد میں تکمیل قرآن کی مجلس میں کہیں، انہوں نے کہا، اللہ تبارک وتعالی نے روزہ کواس لئے فرض کیا تاکہ ہم اپنے آپ کوصفت تقوی سے متصف کریں، انہوں نے کہا، تقوی نام ہے ان چیزوں کے کرنے کاجس کااللہ اور اس کے رسول حکم دیں، اور ان چیزوں سے باز رہنے کا جس سے اللہ اور اس کے رسول منع کردیں، مفتی فضل الرحمان نے رمضان کے مابقیہ ایام کی قدردانی کی تلقین کیا، انہوں نے کہا، انتہائی بابرکت ساعتیں گامزن ہیں، ان میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں، انہوں نے کہا، شب قدر کی راتوں میں عبادت کاخصوصی اہتمام کریں،انہوں نے کہا، قرآن کے ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں جبکہ نماز میں قرآن کاایک حرف پڑھنے پر علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں روایت نقل کیاہے کہ ۱۰۰ نیکیاں ملتی ہیں، رمضان میں اعمال کے ثواب کو70گنا بڑھا دیاجاتا ہے، اس لحاظ سے تراویح میں ایک حرف پر سات سو نیکیاں حاصل ہوئیں، مفتی الہ آبادی نے کہا،یقینا قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جنہوں  نے تراویح کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کیا، انہوں نے کہا، عیدالفطر کے دن جو شخص نصاب کامالک ہو اس شخص صدقہ الفطر واجب ہے، وہ خود اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے، انہوں نے کہا موجودہ زمانے میں چاندی کانصاب کی قیمت تقریبا ساڑھے 24ہزار ہے، لہاذا جوشخص عیدالفطر کے دن  ساڑھے 24ہزار روپیہ کامالک ہو اس پر صدقہ الفطر واجب ہے،انہوں نے کہا، عیدکی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر کی رقم غریبوں کودیدینا مسنون ہے، مفتی فضل الرحمان نے کہا، مئوآئمہ واطراف کے علاقوں میں صدقہ فطر کی رقم ۳۰ روپیہ ہے، حافظ محمد اخلاق کی تلاوت سے مجلس کا آغاز ہوا، جبکہ محمد افضل نے اپنے عمدہ لب ولہجہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، اس موقع پر حافظ شاداب الہ آبادی، حافظ شہباز، ماسٹر طارق محمود، فیصل انصاری، کلو بھائی، اور کثیر تعداد میں فرزندان توحید شریک رہے، ملک میں امن وشانتی ترقی وخوشحالی کے لئے خاص طور سے دعائیں کی گئیں.

آؤ سنوِدھان کی ہم شپتھ لیں!

نوٹ :یہ نظم خصوصی طور پر شری نریندر مودی کی بطور وزیراعظم حلفیہ تقریب کے ضمن میں لکھی گئی ہے، اس لیے آج کے ایڈیشن کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے.

محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ ،پنجاب
 9855259650
abbasdhaliwal72@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

آؤ سنوِدھان کی ہم  شپتھ لیں
ستہّ پہ براجمان ہونے سے قبل
اس ملک کو نہ جھکنے دیں گے
اور نہ ہی کبھی رکنے دیں گے

آؤ سنوِدھان کی ہم  شپتھ لیں

ُ نفرت کی فضا مدت سے یہاں
 جو پنپ رہی عوام کے درمیاں
 پیار کے چشمے بہا کر اسے
صاف و شفاف ہم کر دیں گے

آؤ سنوِدھان کی ہم  شپتھ لیں

نعرہ جو ہم نے دیا تھا کبھی
ہم سب کا ساتھ لیکر یہاں
وشواس سبھی کا جیت کے اب
وکاس سبھی کا کر دیں گے

آؤ سنوِدھان کی ہم  شپتھ لیں

دیکھ کتھنی اور کرنی کے بیچ
نہ تضاد ہو اپنے ہرگز اب کہ
دیش سے جو وعدے کیے ہم نے
ہر اک کو پورا کر اب دم لیں گے

آؤ سنوِدھان کی ہم  شپتھ لیں

دیکھ نفرت کا اب بازار ہرگز
عباس نہ ہو کبھی گرم  یہاں
اور فرقہ پرستی کی آگ میں
نہ جھلسے ہرگز کوئی انساں

آؤ سنوِدھان کی ہم  شپتھ لیں

چوبیسواں روزہ چوبیسواں سبق: رمضان عالم ِاسلام کے لیے چند قابل توجہ پہلو

.Ramzan Aalam-e Islam ke liye chand Qabil-e tawajjuh pahlu
كتاب  : ثلاثون درسا للصائمین
تحریر:    الدكتور الشیخ عائض القرنی
اردو ترجمانی: وصی اللہ سدھارتھ نگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ عزوجل نے امت ِمحمدیہ کی طا قت اعتراف ِوحدانیت اور اجتماعیت میں رکھی ہے اسی لیے قرآن نے اس امت کوجہاں  امت ِوحدت قرار دیا ہے، وہیں تما م مسلمانوں کو آپس میںایک دوسرے کا بھائی بھی، قرآن نے ایک مو قع پر بڑے نمایاں الفا ظ میں اس امت کی تعریف کی ہے، فر ما یا !’’إِنَّ ہٰذِہٖ أُمَّۃٌ وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنَ ‘‘۔ (المؤمنون: ۵۲)
دوسری جگہ جذبۂ اخو ت ومحبت کو اہل ایما ن کی طا قت بتلا یا ہے، فرمایا! ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ ‘‘ایک اور مقا م پر نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلما نو ں کو جسدِ واحد سے تعبیر کیا ہے: ’’مَثَلُ الْمُسْلِمِیْنَ فِي تَوَادُّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمّٰی وَالسَّہْرِ‘‘ یعنی کہ اگر ایک انسا ن بیماری کا شکا ر ہو جاتا ہے، تو بے خو ابی اور بخا ر کی وجہ سے جسم کے دیگر اعضا ء بھی بیما ر پڑجا تے ہیں ، یہی حا ل اہل اسلام کا ہو نا چا ہیے ، ان کی آپسی محبت اور رحمت کا یہی عا لم ہو نا چاہیے ، ایک مسلما ن اگر کسی تکلیف اور مشقت میں مبتلا ہو تو دوسروں کو بھی اس سے تڑپ اٹھنا چا ہیے ، اس کے ازا لہ کے لیے فکر مند بھی ہو نا چا ہیے.
یہیں رک کرہم سب کو رمضان کے ان مابقیہ چند دنوں میں ایک لا ئحہ عمل طے کر نے کی ضر ورت ہے! یا د رکھیں ! کہ رمضا ن کا یہ با بر کت مہینہ صر ف ایک انسا ن کی ذاتی زندگی میں تبدیلی نہیں پیدا کر تا ہے؛بلکہ ذوات سے آگے بڑھ کر افر اد ، معا شرہ ، بستی ، شہر ، اور ان سے دو قدم آگے بڑھ کر عا لمی معیا ر اور پیمانے پر بھی عا لمِ اسلا م کے مصائب ومشکلا ت کے حل کے لیے کسی نسخۂ کیمیا سے کم نہیں !بس شر ط یہ ہے کہ ہم سوچیں ، سمجھیں ،تدبر وتفکر سے کام لیں ، خدا اور رسول ؐکی ہدایات اور تعلیما ت کو مقتدا ء اور رہنما بنائیں ، سنجید گی ،عزم وارادہ ہما را ہتھیا ر ہو: اگر عمل ِپیہم اور جہد ِمسلسل ہما رے رفیق ہو ں، تو کا میا بی قدم چو منے کے لیے تیا رہو گی ،اس کے یہا ں تخلف نہیں ہو تا ، ذرا ایک لمحے کے لیے غو ر تو کر یں کہ !رمضان کا یہ مہینہ رخصت ہو نے کو ہے، چند محدو د اور گنی چنی سا عتیں رہ گئی ہیں اور ہم نے عا لم اسلا م کی مو جو دہ صو رت ِحا ل کو پیش ِنظر رکھ کر کون سی پیش رفت کی ؟یا کم از کم :سکو ن و اطمینا ن کے ان لمحا ت میں اس بابت ہم نے کو ن سا منصو بہ تیا ر کیا ہے اور کس حد تک اپنی دعا ئوں میں رب العا لمین سے حا لات کی درستگی کی التجا ء کی ہے؟ رمضا ن کے اس مہینہ میں بھی اہل اسلا م طرح طرح کی پریشانیوں،تنگیو ں اور مختلف طر ح کے بحر ان کے شکا رہیں ، ذیل میں کچھ چیزیں نقل کی جارہی ہیں ۔
(۱) کمیو نزم :(یہ ایک فکر ی مذہب ہے جو ملکیت کے عمو م اورفر دکو اس کی صلاحیت کے مطا بق کا م کر نے اور بقدر ضرو رت منفعت حا صل کر نے کی بنیا د پر قا ئم ہے) آج اس مذہب کا عَلم لہرا رہا ہے، جو طاقت ور اور مزدو ر ہر ایک کو نگلنے کے لیے بیتاب ہے اور آگ کے انگا رو ں میںمسلما نوں کو  جھلسانے اور تبا ہ وبر باد کرنے کے در پے ہے، نئی نسل کے دلو ں میں الحاد ولا دینیت کا بیج بو رہا ہے، معا شی واقتصا دی طور پر اپنے افکا ر دنیا پر تھوپ رہاہے ؛نیز علمی نظریا ت کو متا ٔثر کر نے میں بھی کسی سے کم نہیں۔
(۲)سر ما یہ دارانہ نظا م :(جس میں حقِ ملکیت ہر شخص کو بلا قید حا صل ہو تا ہے)جو خو اہشا ت ولذات کا سہا را لے کر ، عو رت ، جام وشراب ، لہو ولعب ، محر ما ت اور بے ہو دگیو ں کو مبا ح قر ار دے کر عا لمِ اسلا م کے خلا ف فکری جنگ کی تیا ر ی کر رہاہے ، بلکہ عملی طور پر میدان ِجنگ میںہے، اور ہمیں احسا س بھی نہیں !
(۳)سیکو لرازم:(مذہبی تقیدا ت سے آزاد رہنے کا نظریہ ، جس میں تعلیم اور نظام ِ حکو مت خا لص دنیو ی اورا خلا قی ہو ، اس میں مذہبی عقا ئد کو دخل نہ ہو) یہ نظام دین اور دنیا کے ما بین تفریق کا قا ئل ہے، اسلا م کو زندگی کے دا ئرہ ٔکا رسے دور رکھنا چاہتا ہے، اور دلیل یہ دیتا ہے کہ دین قو مو ں کے ما بین تفریق اور جد ائیگی کو پسند کر تا ہے، یا در کھیے! کہ علما نیت ( سیکو لرازم جس میں مذکو رہ شر طیں ملحو ظ ہوں) ایک ملحدا نہ نظریہ کا نا م ہے، اس میںمذا ہب وادیا ن کا کو ئی پاس نہیں اور اسلا م پر تو یہ کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہو تا ، نہ تو اجمالاً اسلا م قبو ل کر تا ہے اور نہ ہی تفصیلا ً۔
(۴) ما سو نیت :یہ ایک یہو دی پلیٹ فا رم ہے، جس کا مقصد جملہ ادیا ن ؛بطور خا ص اسلا م کا خا تمہ ہے، بظاہر تو یہ اتحاد کا داعی ہے، عا لمی پیمانہ پر اس کے اسبا ب ووسائل ،ذرائع ، مردان کا راور پارٹیا ں پھیلی ہو ئی ہیں ، جو خا لص یہو دی نظریے پر اپنے مقصد کی طرف رواں دواں ہیں ۔
ان مذکورہ امو ر کے پہلو بہ پہلو آج عا لم اسلام کے صاف وشفا ف جسم پر کچھ مہلک زخم لگ چکے ہیں ، جن کااس کے جسم سے ازالہ انتہا ئی ضروری ہے۔
آج فلسطین اہل اسلام کے ہاتھو ں سے نکل چکا ہے، مسجد اقصی نزاع کا شکا ر ہے، صبح وشا م ، بو ڑھے ، بچے اور عو رتیں سر عام قتل کیے جا رہے ہیں ، فلسطین کی بحالی کے لیے آج حضرت عمر بن الخطا بؓکی ہیبت ، صلا ح الدین ایو بیؒ کی جرأت ، اور ابن تیمیہؒ کی صدا قت در کا ر ہے، ابھی ما ضی کی با ت ہے کہ افغا نستا ن کو تبا ہ و بر با د کر نے کی ہرممکن کو شش کی گئی ہے، شہروں اور بستیوں کو اجا ڑا گیا ، مسا جد کو منہدم کر دیا گیا اور اس پوری کا روائی میں دشمن کے ٹینکو ں اور ہتھیا روں کا ہی دخل تھا کسی اور کا نہیں ، ہزاروں پناہ گزیں ایسے ہیں جنہیں رہنے کے لیے مکا ن ،کھا نے پینے کے لیے روٹی اور پا نی اور پہننے کے لیے کپڑے نہیں میسر ہو ئے ، اہل اسلا م اور دشمنا ن اسلا م کے مابین آج بھی اسلا میت اور کمیو نزم کی جنگ جا ری ہے، جا ری ہی نہیں میدا ن ِکا رزار کا فی گرم ہوچکاہے۔
ما ضی ہی کی با ت ہے کہ روس ، آذربا ئیجا ن ، ازبکستا ن اور تر کستا ن ظلم ونا انصا فی ، ہلا کت وبر با دی اور بھک مری کے خلا ف شکایت کر رہے تھے (اور آج شام میں خو ن اور آگ کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے )غربت وحمیت کی صدا ئیں ہو ا میں ٹکرا رہی ہیں،اگر کوئی اپنے کا ن کو استعما ل کر تا ہے، اور ان سے عملی زندگی میں تعا ون حا صل کر تا ہے، تو کر سکتا ہے۔
مسلما ن عو رتیں ، حجا ب و نقا ب ‘ عزت و آبر و ، دین اور پاکدا منی کے تئیں مخا لفین سے جنگ کر رہے ہیں ،مسلم نو جوان شیطا نی دھو کو ں ، لذا ت وخو اہشا ت اور دیگر انہدامانہ کا رروائیوں کے شکا ر ہیں ۔
نصرانیت : مشرق ومغر ب اور شما ل وجنو ب میں عالم اسلا م پرمسلسل حملہ کر رہی ہے، یہ اغیا ر تو ایک طرف ، اس کے علا وہ خو د مسلمان آج اتنے فر قو ں میں تقسیم ہو چکے ہیں کہ ان کی آپسی صفیں انتشا ر کا شکا رہو رہی ہیں ، اتحا د تقریبا ًنا پید ہو چکا ہے،ان حالات کو سامنے رکھ کر مسلما نوں کو اپنے مو قف پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہ اسی سے ہما رے مسلم بھائیوں کو مشرق ومغرب میں کچھ نصیحت ملے !ایک مسلما ن کوچاہیے کہ ان مسائل کو اپنا احسا س اور اپنی فکر بنا لے ،انہیں کے سا تھ اس کی زندگی بسر ہو ، اپنی دعا ئوں میں کبھی ان احوال سے اعر اض نہ کر ے ، خطرا ت اور واقعا ت کو بیان کر کے مسلم بھائیو ں کو بید ار کرتا رہے، انہیں اتحا د کی دعو ت ،اختلا ف سے بچنے کی تلقین کر ے ، عا لم اسلام کے ان مصا ئب سے لو گوں کو آگا ہ کرتا رہے ؛ اسی طرح ایک مسلما ن کے دل میں کبھی بھی کس کی تحقیر نہ پیدا ہونی چاہیے !ایک مسلمان کو چاہیے کہ جان و ما ل کو اللہ کے راستے میں لگا دے ، اعذار کو پس ِپشت ڈا ل دے ، دینا رو درہم ، روپیہ ،پیسہ ہر چیز سے مسلما نوں کا تعا ون کر تا رہے، نماز میںاور تہجد میں ،قبو لیت کے دیگر اوقا ت میں مسلمانوںکے لیے مدد اور روئے زمین میں استحکام اور قوت کی دعا ء کرے، تقوی کی دعوت دے اور خو د بھی عمل پیرا ہو ، کیوں کہ آج مسلمان جتنے بھی مصائب ومسائل کے شکار ہیں، ان میں محض ہمارے ہی گنا ہوں اور کو تاہیوںکادخل ہے۔-
امت ِمسلمہ پہلے فتح وکا مرا نی کے سا تھ رمضا ن کا مہینہ گزارتی تھی ، لیکن حا لیہ دنوں میں جب وہ قرآن وحدیث کے پیغام پر عمل اور اس کی تبلیغ میں کو تاہ ثا بت ہوگئی ، دنیا اس کا مقصد بن گئی تو آج رمضا ن کا یہ مہینہ بھی غم وآلا م اور ہلا کت و بر با دی کے ساتھ گزارنے پر مجبو ر ہے، لیکن اللہ کی سنت ہے کہ جب بندہ اس کی طرف لو ٹتا ہے تو وہ اس کی مدد کر تا ہے:  ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أقْدَامَکُمْ‘‘(محمد: ۷) ’’وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ‘‘ (آل عمران: ۱۲۶) ’’إِنْ یَّنْصُرُکُمُ اللّٰہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ ‘‘ (آل عمران: ۱۶۰)خدایا !ہماری مدد فر ما !دین پر ثا بت قدم فرما! ۔۔۔۔۔۔۔ آمین

نالی کا پانی روکے جانے سے سی سی روڈ پر جمع ہوا گندہ پانی، ایس ڈی ایم کو دیا گیا میمورنڈم!

 سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/مئی 2019) سگڑی تحصیل علاقے کے پاری پٹی گاؤں میں کچھ لوگوں کی طرف سے نالی کا پانی روک دیے جانے سے سی سی روڈ پر جمع ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے آنے جانے والوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے لیکر لوگ ناراض ہیں.
پاری پٹی گاؤں والوں نے ایس ڈی ایم سے نالہ کھولنے کا مطالبہ کیا ہے،  لوگوں کا کہنا ہے کہ نالی کا پانی روکے جانے سے سی سی روڈ پر گندہ پانی جمع ہو گیا ہے جس سے لوگ پریشان ہیں
اس بارے میں لوگوں نے ایس ڈی ایم کو بتایا کہ گاؤں میں پوکھری ہے جس پر کچھ لوگوں کی طرف سے قبضہ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے گاؤں کا پانی بہاؤ نہیں ہے، نالیوں کا گندہ پانی راستے میں جمع ہورہا ہے، جس کے چلتے آنے جانے والے لوگوں کو دشواریاں ہو رہی ہے.
 ایس ڈی ایم سگڑی دنیش مشرا نے کہا کہ تحقیقات کرنے کے بعد کارروائی کی جائے گی.

Wednesday 29 May 2019

لیلة القدر کی فضیلت اور اس کے مسائل!

محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں اور رمضان آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جو مہینہ تم پر آیا ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو قدرو منزلت کے اعتبار سے ہزار مہینوں  سے بہتر ہے جو شخص اس کی سعادت حا صل کرنے سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا نیز فرمایا لیلتہ القدر کی سعادت سے صرف بے نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے رمصان کے آخری عشرے دس دن ی طاق راتوں میں لیلتہ القدر کو تلاش کرو جب رمضان کے آخری دس دن شروع ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے
لئے کمر بستہ ہو جاتے راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے میں سخی تھے لیکن رمضان میں اور بھی زیادہ سخی ہو جاتے رمضان میں حضرت جبر ئیل علیہ السلام ہر رات تشریف لاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن پاک سناتے جب جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس لاتے تو آپ کی سخاوت تیز ہواوں سے بھی زیادہ بڑھ جاتی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں شب قدر پا لو تو کون سی دعاء پڑھوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہو اللہ تو معاف کرنے والا ہے معاف کرنا پسند کرتاہے لہذا مجھے معاف فرما  ہر سال رمضان میں ایک بار قرآن پرھا جاتا جس سال آپ نے وفات پائی اس سال آپ کے سامنے دوبار قرآن پاک ختم کیا گیا اسی طرح ہر سال آپ دس دن کا اعتکاف فرماتے لیکن سال وفات آپ نے بیس یوم کا اعتکاف فرمایا جب اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر معتکف میں داخل ہوتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بستر بچھا دیا جاتا ستون توبہ مسجد نبوی کے ایک ستون کا نام ہے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی رکھ دی جاتی اعتکاف کی حالت میں بیمار کے پاس سے گزرتے گزرتے اس کا حال پوچھ لیتے لیکن حال پوچھنے کے لئے ٹھہرتے نہیں تھے اعتکاف کرنے والےکے لئے سنت یہ ہے کہ وہ بیمار پرسی کو نہ جائے جنازے میں شریک نہ ہو بیوی کو نہ چھوئے اور نہ اس سے مجامعت کرے اعتکاف کی جگہ سے ایسے ضروری کام یعنی قضائے حاضت فرض غسل وعیرہ کے بغیر نہ نکلے جس کے بغیر چارہ ہی نہ ہو اعتکاف روزے کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور جامع مسجد میں ہوتا ہےاعتکاف کی حالت میں اگرچہ ان کاموں کو نہیں کرسکتا لیکن اللہ کی شان کریمی سے ان نیکیو ں کا ثواب بھی اس کے
نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے.

آؤ! شبِ قدرتلاش كرتے ہیں.

تحریر :مولوی محمد شاہد كبیرنگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
    رحمتوں وبركتوں سے لبریزہوكر مبارك ومسعودمہینہ ماہ رمضان ہمیں نصیب ہوا۔ اس میں جہاں بہت سارے انعامات ونوازشات كے اسباب وذرائع اللہ نے ركھے ہیں‏، وہیں خصوصی انعام اور كم وقت میں کثیر رحمتوں وبركتوں كوسمیٹنے كے لیے ایك شب ‏"شب قدر" كو اللہ تبارک وتعالی نے متعین كرركھا ہے‏؛ یہی شب قدر ہے، جس كی تلاش وجستجومیں دیوانگی كے ساتھ بزرگان دین‏، خاصان خدا‏، پیارےآقا ﷺكی بڑی سنت اعتكاف كو عملانےكی كوشش كرتے ہیں ۔
كتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ، جن كو اس رات میں تلاوت ونوافل اور ذكر واذكاركا موقع ہم دست ہوتا ہے ۔ اسی شب كی تلاش كے لیے آپ ﷺ تاریک غاروں میں روپوش ہوكر، مخلوق سے انقطاع كر كے، دین حنیف كی حقیقی مثال پیش كرتے ہوئے بارگاہ ایزدی میں سربسجود رہنے كے لیے جایاكرتے تھے ۔
سابقہ امتوں كے لوگوں كو لمبی عمریں ملی تھیں، توان كو زیادہ عبادت كا موقع ملا تھا؛ لیكن اس امت كے لوگوں كی عمریں كم ہوتی ہیں، تو ان كے برابر عبادت كا موقع كہاں ملے گا ؟ صحابہ ؓ اور اس امت مرحومہ پررحمت وشفقت كا معاملہ كرتے ہوئے اس خاص مہینے میں جہاں پر عبادتوں كا ثواب  70 گنا ہوجاتا ہے ۔ شب قدر كو مانگا، تو اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیارے نبیﷺ كی دعاء قبول كرتے ہوئے ایک شب "شب قدر" عنایت فرمائی؛ یہ شب قدر اتنی معزز اور بابركت ہے كہ اس رات میں خدا تعالی نے اپنا پاك كلام قرآن كریم لوح محفوظ سے ‏آسمان دنیا پر نازل فرمایا‏، اس شب قدرمیں روح الامین‏،سلطان الملائكہ حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں كی ایك بڑی جماعت كی قیادت كرتے ہوئے آسمان دنیا پر جلوہ گر ہو تے ہیں اور عبادتو ں میں مصروف لوگوں كے ساتھ مل كر ان كی عبادتوں كو چار چاند لگاتے ہیں‏،دعائیں كرنے والوں كی دعاؤں پر آمین كہتےہیں ‏اور باری تعالی خود بھی آسمان دنیا ءپرجلوہ افروز ہوكر اپنے محبوب بندوں كی گریہ وزاری سنتے ہیں‏،حاجت روائی فرماتے ہیں اور ان كی طرف سے صدا آتی ہے كہ ‏: ’’ہے كوئی مانگنے والاكہ اس كی حاجتوں كی تكمیل كی جائے‘‘ ‏، ’’ہے كوئی مغفرت چاہنے والا كہ اس كو معاف كیا جائے‘‘ ‏؛ یہ سلسلہ پوری رات طلوع فجر تك رہتا ہے ‏ اور اس سلامتی كی صداؤں سے پوری فضاء معطر ہو جاتی ہے ‏، نیزاس شب میں عبادت ‏، ہزار مہینوں كی راتوں میں عبادت كرنے كاثواب؛ بلكہ اس سے بھی بڑھ كر ملتاہے۔
دوستو! كتنے خوش نصیب ہیں، وہ لوگ جن كو ہر سال اس ماہ كی عبادت كے ساتھ ساتھ شب قدر كی عبادت كی بھی توفیق ملتی ہے اور خاص طور سے اخیر عشرے كا اعتكاف (جس كا حقیقی مقصد بھی شب قدر كی تلاش ہے ) كرتے ہیں ۔
تو آئیے ساتھیو! اگر ہم پورے عشرے كا اعتكاف نہیں كرسكتے، تو گھبرانے كی ضرورت نہیں‏، پورے اہتمام كے ساتھ تراویح اور پنج وقتہ نمازوں كو تكبیر اولی كے ساتھ پڑھیں اور راتوں رات خصوصاً  (طاق راتوں میں ) اگر ہو سكے تو پوری رات صلاۃ التسبیح ‏،تہجد ‏،قضاء عمری ‏،تلاوت اور ذكروتسبیح كے ساتھ گزاریں؛ ورنہ صرف رات كی نمازوں كو پورے اہتمام: تكبیر اولی اور صف اولی كے التزام كے ساتھ ادا كریں ‏اور ہر قسم كے گناہ اور لایعنی باتوں سے كلی طور پر احتراز واجتناب كریں‏۔ ان شاء اللہ آپ بھی قیام لیلۃ القدر كے ثواب سے مشرف ہوں گے .
پھر دیر كس بات كی؟ ابھي تیاری شروع كردیں ‏،طلب وجستجو میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں‏، اللہ ہم سب كو شب قدر كی تلاش وجستجو كی توفیق نصیب فرمائے‏، ‏آمین۔

شبِ قدر امت محمدیہ کے لئے عظیم تحفہ ہے!

تحریر: فیاض احمد صدیقی انعام وہار
____________
مکرمی!
             آج ہم آخرت سے بے نیاز ہو کر دنیا ئے فانی کی لذات و سلیئات. منکرات و مکروہات میں اس قدر ملوث ہو چکے ہیں کہ اچھائی و برائی کی تمیز ہمارے اندر سے ختم ہو تی جارہی ہے خواہشات نفسانی کی تکمیل ہماری زندگی کا واحد مقصد بن گیا ہے اسی لئے ہر اس چیز سے جس میں ہمیں دنیوی فائدے پہنچنے کی امید ہوتی ہے اس کے حسابات سے کبھی نہیں چوکتے بلکہ اس کے حصول کے لئے دوسروں کو یاد دہانی کی تلقین کرتے ہیں کہ ان فائدوں سے محروم نہ ہو جائیں اس لئے آلرم بھی لگا کر رکھتے ہیں مگر ابدی فوائد سے یکسر نابلد ہیں،
بازاروں میں جب کوئی کمپنی قیمت میں کمی کر کے بطور آفر کوئی چیز پیش کرتی ہے تو اس کے حصول کے لئے لگی بھیڑ کا اندازہ نہیں لگا سکتے. جبکہ یہاں بسا اوقات ادھر سے کان پکڑو یا اُدھر سے دونوں برابر کے مانند کا مصداق ثابت ہوتا ہے اور جس میں زیادہ تر کمپنی کے فوائد مضمر ہوتے ہیں اور خریداروں کو بھیڑ بھاڑ کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ برابر کا سودا کرنا پڑھ تا ہے. مگر رمضان المبارک کے مہینہ میں شبِ قدر جلیسی لازوال نعمت جس کی ایک رات کی عبادت ہزار راتوں کی عبادات سے بہتر بلکہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی مرضی کے مطابق جو چاہتا ہے دیتا ہے نیز فرشتے ان کے حق میں طلوعِ فجر تک دعا کرتے رہتے ہیں جیسے عظیم آفر نابد اور ناواقف ہوچکے ہیں. یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینہ اپنے اوپر سایہ فگن ہونے کے باوجود ہمارے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی. اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیوں ہم چارون پہلے مسجد میں پہلی صف میں ہوا کرتے تھے اور آج پچھلی صف سے بھی غائب ہوگئے احباب و متعلقین کے ساتھ بیٹھ کر دن گزار رہے اور راتوں کو لہو لعب میں مشغول ہوگئے رات بھر سڑکوں پر دوڑ کر بازاروں میں گھوم کر اور سحری تک دھوم مچا کر کھانا کھا کر افطاری میں نوع بنوع لذیذ پکوان سے دسترخوان سجا لینا نہ روزہ کی شان ہے اور نہ ہی روزے داروں کی پہچان بزرگ مردو خواتین کو عبادت و ریاضت میں مشغول دیکھ کر ہم نے کوئی سبق نہیں لیا اور نہ انہیں دیکھ کر ہمارے لاشعور میں ذرہ برابر ہلچل مچی کہ ہم بھی انہیں کی طرح قیام اللیل کے لطف سے محفوظ ہوں اور سیرت حقیقی سے سر فراز ہوں تاکہ اپنے دلوں کو سکون پہنچے لیکن ٹہریئے اگر آپ کا نفس لوامہ آپ کو ملامت کرتا ہے اور نیکو کا روں کے اعمال صالحہ آپ کو اپیل کرتے ہیں آپ کی چھوٹی اور ختم ہونے والی شان حقیقی اور ابدی و لازوال شان الہی سے مستفید ہوا چاہتی ہے تو آپ مایوس ہو کر دانتوں تلے انگلیاں نہ دبائیں اور ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ آپ کے لیے رحمت کا دروازہ بند ہو گیا کیونکہ اللہ رب العزت غفور رحیم ہے.

تیئیسواں روزہ تیئیسواں سبق: رمضان کاپیغام مو من عو رت کے نام!

تحریر: شیخ عائض القرنی
مترجم: مولانا وصی اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــاللہ تبا رک وتعا لی نے تقو ی وطہارت اور خو ف و خشیت کی حا مل مو من ، عورتوں کی تعریف کی ہے، انہیں مغیبا ت ِربا نی کا محا فظ قر ار دیا ہے، قر آن نے تذکرۂ صا لحین کے وقت مو من عو رتو ں کا بھی لحا ظ کیا ہے، اور انہیں بھی ان خوش نصیبو ں میں شا مل کیا ہے، فرما یا ! ’’فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ أَنِّی لاَ أُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْکُمْ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ‘‘۔ (آل عمران: ۱۹۵)
خو اتین ِاسلام : رمضان المبا رک کے اس با بر کت مہینہ کی خو ش خبر ی میری جانب سے قبو ل کریں :اللہ کی بندیاں !میر ی طرف سے اس مہینہ کی مبا رکبا د حا صل کریں !میں رب العالمین کی با رگا ہ میںاپنے لیے اور آپ کے لیے مغفر ت کا طا لب ہوں ، تو بہ نصوح کے لیے دعاء گو ہو ں !خواتین اسلام !میری طرف سے دس نصیحتو ن کا ایک گلد ستہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
(۱)کا مل ایمان والی عو رت کی پہچا ن یہ ہے کہ وہ اللہ رب العزت کو اپنا رب اور پا لنہا ر تسلیم کر ے ، اس پر یقین رکھے ، قو ل وعمل اور اعتقا د ہر اعتبا ر سے عو رت پر ایما ن کے آثا ر اور اس کی علا متیں ظاہر ہو ں ، اللہ کے غیظ وغضب سے وہ بچتی ہو ! اس کی دردنا ک سزا کا خو ف اس پر ہر وقت طاری رہتا ہو ، رب العز ت کے احکا م کی مخا لفت اور اس کے نقصا نا ت کا بھی اس کو احسا س رہتا ہو!
(۲)مو من عو رت کی شا ن یہ ہو نی چا ہیے کہ اوقا ت ِنماز کی رعا یت کر تے ہوئے خشو ع و خضوع کے ساتھ پنج وقتہ نماز کی پابندی کر تی ہو ، نما ز اور عبا دت سے کو ئی چیز اس کو غفلت میں نہ ڈال سکے ، نماز کے نشا نا ت اور علا ما ت اس پر ظا ہر ہو ں !ہر طرح کی برائیوںسے وہ رک جا ئے کیو ں کہ گناہوںسے رکنا انسا نیت کی سب سے بڑی کا میابی ہے۔
(۳)نیک مو من عو رت کو حجا ب کا خیا ل رکھناچاہیے !اسی میں اس کو لطف محسو س ہو تا ہو ؛بلکہ حجا ب کو وہ با عث شر افت سمجھتی ہو، جب بھی گھر سے نکلے تو اللہ تعا لی کی حفاظت ونگہبا نی کی طلبگا ر ہو! حجا ب ونقاب پر اللہ کا شکر یہ ادا کرے !اللہ ہی ہے جو اس کی حفا ظت کرتاہے، اسی پر دہ کامطا لبہ قرآن نے اہل بیت کی عو رتوں،سے بھی کیا ہے، !فرمایا! ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ، یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِہِنَّ ‘‘۔ (الاحزاب: ۵۹)
(۴)ایک مسلما ن عو رت کو چاہیے کہ اپنے شوہر کی اطا عت وفر ما ں بر دا ر بنے ، اس کے سا تھ نر می اور محبت سے پیش آئے ، اس سے خیر خو اہی کا معا ملہ کر ے ، اس کے آرام وراحت کا خیا ل رکھے !اس کی با ت پر با ت نہ بڑھائے ، آوا ز نہ بلند کرے ، سخت کلا می نہ کرے !شو ہر کی فر ما ں بر دار عو رت کے لیے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خو شخبر ی دی ہے، فر ما یا !’’إذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَہَا وَصَامَتْ شَہْرَہَا وَأَطَاعَتْ زَوْجَہَا دَخَلَتْ جَنَّۃَ رَبِّہَا ‘‘۔
(۵) اللہ تعا لی کے احکا م کوسا منے رکھ کر اس کی ہد ایا ت کا پا س ولحا ظ کر تے ہوئے اولا د کی تر بیت بھی کر ے !انہیں صحیح عقا ئد کی تعلیم دے ، ان کے دلوں کواللہ اور رسو ل ؐکی محبت سے سرشارکرے!معا صی اور رذائل سے ان کو محفو ظ و ما مون رکھے !قرآن نے بہت واضح الفاظ میںتر بیت اولا د کا حکم دیا ہے: ’’یَا أَیَّہُا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قَوْا أَنْفُسِکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا، وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ، عَلَیْہَا مَلاَئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ، لاَ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ، وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ ‘‘۔  (التحریم: ۶)
(۶)پا کیزہ مسلم عو رت کا ایک خو بصو رت زیو ر یہ بھی ہے، کہ کبھی بھی کسی اجنبی کے سا تھ خلو ت کا مو قع نہ آنے دے !یہ احتیاط اس کی شخصیت کو سنوارتا ہے، اسی لیے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر شنیع سے بچنے کا حکم دیا ہے: ’’الْمرْأَۃ المسلمۃ مَا خَلَتُ إِمْرَأۃٌ بِرَجُلٍ إِلاَّ کَانَ الشَّیْطَانُ ثَالِثَہُمَا ‘‘؛نیز بغیر محر م کے کبھی سفر نہ کرے ، بازاروں اور عمو می جگہو ں سے اجتنا ب کرے ، کبھی ضرورت پڑے تو حجا ب لگا کر نکلے ۔
(۷)مو من عو رت کو ہر وقت اس با ت کا لحا ظ رہنا ضروری ہے، کہ کبھی کسی بھی نقل وحر کت میں مر دوںکے خصو صی معا ملا ت سے مشا بہت نہ اختیا ر کرے ، اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے مر دوں اور عو رتوں دو نوں کو اس با ت سے منع فر ما یا ہے، ارشاد ہے: ’’لَعَنَ اللّٰہُ الْمُتَشَبِّہِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَائِ وَالْمُتَشَبِّہَاتِ مِنَ النِّسَائِ بِالرِّجَالِ ‘‘(الحدیث )اسی طرح ایک مومن عو رت کو یہ با ت بھی زیب نہیں دیتی کہ کا فر عو رتوں سے مشابہت کا خیال بھی دل میں لا ئے ، خو اہ یہ مشا بہت کپڑے اور لبا س میں ہو ،یا فیشن ، چا ل اور شکل وصو رت میں ، کیو ں کہ رسو لؐ کا ارشا د ہے! ’’من تشبہ بقو م فہو منہم ‘‘۔
(۸)مو من عو رت کو چا ہیے کہ عو رتوں میںتبلیغکا کا م جا ری رکھے ! بطور خا ص پڑو سی عو رتو ں کے یہا ں آمدو رفت کے ذریعہ توحید کی تعلیم بھی دیتی رہے !اور آج کے اس جدید سہو لیا تی دور میں مختلف ذرائع اپنا کر دیگر عو رتو ں اور بہنو ں سے رابطہ بھی بنا ئے رکھے او رانہیں دین اسلا م کی با تیں بتا تی رہے !رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لیے اجرو ثو اب کااعلا ن کیا ہے! ’’لَأَنْ یُہْدِيَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاً وَاحِدً خَیْرٌ لَکَ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ ‘‘۔
(۹)مو من عو رت کو اپنے دل پر بھی تو جہ دینے کی ضرورت ہے! شبہا ت اور شہوات سے دل کو محفو ظ رکھے ! آنکھ سے حرام نہ دیکھے !کا ن سے گا نا اور بری بے حیا ئی کی با تیں نہ سنے !دیگر اعضا ء کو بھی ضبط میں رکھے ! اسی کا دوسرا نا م تقو ی ہے، جس کا ایک عو رت کے اندر ہو نا بہت ضروری ہے، اسی لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے حیا ء کرنے کا حکم دیا ہے!اور جو شخص اللہ سے حیا ء کرتاہے، اللہ اس کو اپنے امن وامان میں رکھتے ہیں ، فر مایا ! ’’إِسْتَحْیُوْا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ وَمَنِ اسْتَحْیٰی مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ وَحَفِظَ الرَّأْسَ وَمَا وَعٰی وَالْبَطْنَ وَمَاحَوٰی وَمَنْ تَذَکَّرَ الْبِلٰی تَرَکَ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ‘‘۔
(۱۰)ان تما م چیزوں کے ساتھ سا تھ ایک مو من عو رت کے لیے اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچانابھی از حد ضروری ہے، دن اور را ت کے قیمتی اوقا ت کو ادھر ادھر کے بکو اس میں نہ لگا ئے ، کسی کی غیبت نہ کرے ، چغل خوری نہ کرے ، نہ تو غفلت میں ، نہ تو بھو ل کر ، اللہ نے اس سے منع فرما یا ہے! ’’وَذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَہُمْ لَعِبًا وَلَہْوًا وَغَرَّتْہُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا‘‘ (الانعام: ۷۰) کیوں کہ جولوگ اپنی زندگی کے بیش قیمت لمحات یو ں ہی بے سو د ضا ئع کر دیتے ہیں انہیں بہ جلد یا بدیر ہو ش آہی جاتا ہے اور پھر اخیر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’’یا حسرتنا علی مافر طنافیہا ‘‘کہتے کہتے ان کی زبان نہیں سو کھتی !
یہ دس چیزیں ایک مسلما ن عو رت کے لیے کسی ہیرے اور سو نے سے کم نہیں، اگر آج کی عو رتیں ان پر عمل کر لیتی ہیں تو ایک ایسا معا شرہ وجو د میں آسکتا ہے، جواپنی نظیر آپ ہے،رمضا ن المبا رک کے اس مہینہ میں ہم ان امو ر پر تو جہ دے کر دوگنا اجر و ثو اب حا صل کر سکتے ہیں !رمضا ن کی رحمت و بر کت اس پر مستزاد ہے۔
خدایا !  ہما ری ما ئو ں اور بہنو ں کو اپنے پسندیدہ طریقہ کا رکا متبع بنا ۔۔۔۔۔۔۔ آمین

بلرياگنج: چھاپہ ماری کے دوران گوشت کے ساتھ گئو اسمگلر گرفتار!

بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/مئی 2019) بلریاگنج تھانہ علاقہ کے ہینگائی پور گاؤں میں پولیس نے گزشتہ صبح میں چھاپہ ماری کے دوران گوشت کے ساتھ گئو اسمگلر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا.
گرفتار سفیان عرف پپو بلرياگنج تھانہ علاقہ کے نصیرپور گاؤں کا رہنے والا ہے، پولیس نے پچاس کلو کے قریب گوشت اور ترازو بھی برآمد کیا ہے.

Tuesday 28 May 2019

نیک کاموں کی طرف بلانے والے پیغمبر!

محمد سراج نئی دہلی
ــــــــــــــــــــــــــ
 مکرمی!
 عروہ ابن مسعود نے لکھا ہیکہ محمد ﷺ کے اپنے ماننے والوں کے ساتھ اول درجے کے تعلقات تھے، وہ لکھتے ہیں کہ "میں نے سیزر اور خسرو کو دیکھا ہے لیکن ایسا کوئی بھی دوسرا انسان نہیں دیکھا جس کا اس کے ماننے والے محمد ﷺ کی طرح عزت و احترام کرتے ہوں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ایک الگ قسم کے انسان تھے،جو الله اور اس کے ماننے والوں کے درمیان ایک کڑی کی طرح کام کرتے تھے، وہ دوسروں کو اپنے کاموں کا دکھاتے تھے کہ انہیں کیسے کام کرنا چاہئے،جس سے وہ الله کی نظروں میں اچھا بن سکیں اور الله انہیں اپنی رحمتوں سے نوازے۔صلوٰۃ (نماز) اور طواف پیغمبر اسلام کے ایسے ہی دو حکم تھے جو لوگوں کو یہ یاد دلاتے ہیں کہ ان کا آخری مقام الله کی رضا اور خوشنودی ہے.
محمد ﷺ کا سب سے بڑا مقام یہ تھا کہ وہ الله کے ماننے والوں کو الله کے راستے پر چلائیں جو امن و بھائ چارہ، ایمانداری اور انصاف کے راستے پر چلنے کا سبق سکھائے۔
مذکورہ خوبیوں سے لبریز شخص سماج کے لوگوں کو ایک ساتھ جوڑ کر متحد کرکے سب کو ترقی کی راہ پر لے جانے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔

مولانا محمد عرفان کی صحتیابی کے لئے دعا کی اپیل!

شاہدحسینی
ــــــــــــــــــــ
مظفرنگر(آئی این اے نیوز 28/مئی 2019) شہر مظفر نگر کی مایاناز علمی شخصیت حضرت مولانا محمد عرفان صاحب کی گزشتہ شب طبعیت زیادہ خراب ہو گئی
عارضہءقلب کی وجہ سے فوراً ڈاکٹر آر پی سنگھ کے یہاں icu میں داخل کرنا پڑا  جہاں سے ڈاکٹر آر پی سنگھ نےمولانا موصوف کوآج  صبح پنتھ ہاسپٹل دھلی کے لیے منتقل کر دیا جہاں وہ اس وقت زیر علاج ہیں واضح ہوکہ مولانا مظفرنگرکی وہ علمی شخصیت ہیں جن کودیکھ کراکابرکی یادتازہ ہوجاتی ہے مدتوں سے مظفرنگر کے کھالاپار کی مسجد عمرخاں میں مسند امامت پر فائز رہ کر گوشہ نشینی کے ساتھ زندگی گزاردی آج مولانا موصوف کی طبیعت زیادہ خراب ہے لھذا تمام حضرات سے حضرت مولانا کی صحتیابی کے لئے دعا کی درخواست ھے

الوداعی جمعہ کوئی تہوار نہیں!

تحریر: حمدانورداؤدی ایڈیٹر"روشنی"اعظم گڑھ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جمعة الوداع یعنی ماہ رمضان کاآخری جمعہ ہمارے یہاں دیہاتی زبان میں اسے البِدائی جُمَّه بولتے ہیں اس جمعےکوخاص طورسےعورتیں بڑی قدرکی نگاہ سےدیکھتی ہیں گھرکی صفائی، نفیس کھانے کااہتمام،بچوں کونہلاکر نئے کپڑےپہنانا، بعض عورتیں تو دن رات ایک کرکے اس جمعہ کےلئے خاص طورسے نیاکپڑاسلتی ہیں کہ بچہ پہنے گا .
واضح ہوکہ الوداعی جمعہ بحیثیت الوداعی جمعہ کوئی تہوارنہیں ہے، یہ محض ایک رسم ہے نہ اس دن کوئی مخصوص عبادت ہےاورنہ ہی شریعت نے اسکےلئے کسی اھتمام کاحکم دیاہے بس یہ ایک جمعہ ہے جس طرح اورجمعہ ہوتاہے .
جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے ایک استفتاء کاجواب دیتےہوئے اس طرح  لکھاہے "رمضان المبارک کے آخری جمعے کی تیاری اور بطور '' جمعۃ الوداع'' منانانبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور فقہاء کرام سے ثابت نہیں ہے، حضور ﷺ رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ  کر عبادت میں گزارتے تھے، پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا، تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
نیز  ’’الوداع والفراق والسلام یا شهر رمضان‘‘ وغیرہ  کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔  ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی رحمہ اللہ  نے ''مجموعۃ الفتاوی'' اور ''خلاصۃ الفتاوی '' (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ''فتاوی رشیدیہ'' (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ''امداد الفتاوی'' (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ''فتاوی دارالعلوم دیوبند'' (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ''فتاوی محمودیہ''  مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12)  میں، اور مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے ''امداد المفتیین'' (ص: 404) میں بد عت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ)
فقط واللہ اعلم"
ہاں یہ بات ضرورہے کہ اگرسوچنے کازاویہ بدل جائے اوریہ تصور پیداہوجائےکہ ماہ رمضان جورحمتوں اوربرکتوں کامہینہ ہے جسے سیدالشھور کالقب ملا ہے اور یوم جمعہ جسکی فضیلت بھی مسلم ہے جسے سیدالایام کاخطاب ملاہے، یہ دو فضیلتیں ایک ساتھ جمع ہورہی ہیں اور یہ کہ اب یہ دونوں فضیلتیں آئندہ سال اسی کونصیب ہوں گی جسکی عمر وفاکرے گی ماہ مبارک اور پھر یوم جمعہ اب رخصت ہونے والا ہے، عبادت میں مزیدتیزی آجائے، تلاوت بڑھ جائے ،صدقہ وخیرات میں  دست کشادہ ہوجائے، تو یہ سوچ اور اس دن ایسا عمل مقبول بلکہ محمود ہے، بہرحال جمعة الوداع کےحوالےسےلوگوں کی سوچ بدلنےکی ضرورت ہے.
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے آمیـن.

قرآن کریم کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت: مفتی فضل الرحمان الہ آبادی

مئوآئمہ قصبہ کے محلہ اعظم پور کی جامع مسجدنمہرا میں تکمیل قرآن کے موقع پر مجلس کا انعقاد.

عبداللہ انصاری
ـــــــــــــــــــــــــ
 مئوآئمہ/الہ آباد(آئی این اے نیوز 28/مئی 2019) قرآن سے ہمارا رشتہ کمزور ہونے کی وجہ سے  ہم پستی وزبوں کے شکار ہیں، وقت اس بات کامتقاضی ہے کہ ہم قرآن سے اپنے رشتہ کو مضبوط کریں، مذکورہ خیالات کا اظہار نوجوان عالم دین مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی نے محلہ اعظم پور نمہرا کی جامع مسجد میں تراویح میں قرآن کریم کی تکمیل کی مجلس میں کہیں، انہوں سے مسلمانوں سے قرآن کریم کومضبوطی سے تھامنے پر زور دیا، انہوں نے کہا یقینا وہ لوگ مبارکباد ہیں جنہوں نے پابندی کے ساتھ تراویح کی نماز اداکیا، انہوں نے اپنے نامہ اعمال میں بیشمار نیکیوں کااضافہ کیا، انہوں نے کہا کہ تراویح کی نماز پورے رمضان مہینہ پڑھنا سنت مؤکدہ ہے، بلاکسی عذر شرعی کے تراویح کی نماز کوترک کرنا سخت گناہ ہے، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عوام الناس میں یہ بات رائج ہے کہ جب تراویح میں قرآن مکمل ہوجاتا ہے، تو تراویح کی نماز اداکرنے میں غفلت برتنے ہیں، مفتی فضل الرحمان نے کہا یہ طریقہ غلط ہے، انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کیا، جب تک عیدالفطر کاچاند نظر نہ آجائے توتراویح کی نماز پابندی کے ساتھ اداکرتے رہیں،بخاری شریف کی روایت میں ہے، جس نے رمضان کی راتوں میں قیام یعنی تراویح کی نماز اداکیا تواس کے صغیرہ گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں.
مفتی فضل الرحمان نے رمضان کی طاق راتوں میں شب قدر کی عبادت کی تلقین کیا، انہوں نے شب قدر میں عبادت کرنا ہزار مہینہ جس میں شب قدر نہیں ہے اس سے بہتر ہے، مفتی قاسمی نے کہا رمضان کے اخیر عشرہ اللہ کی رحمت کاکثرت سے نزول ہوتا ہے، اور ہررات بیشمار گنہگاروں کی مغفرت کی جاتی ہے، اخیر عشرہ میں عبادت کے خصوصی اہتمام کی فکر کریں، اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرکے اپنی مغفرت کاراستہ ہموار کریں، انہوں نے اس بات سے متنبہ کیا کہ طبرانی شریف کی روایت میں ہے کہ جس نے رمضان کامہینہ پایا اور اپنی مغفرت نہ کراسکے ایسے شخص کے بارے میں حضرت جبریل علیہ السلام نے ہلاکت وبربادی کی بددعادیاہے اور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر آمین کہا ہے لہذا اس کی ہلاکت وبربادی میں کیا تردد ہوسکتا ہے،مفتی الہ آبادی نے کہا، اس بددعا سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور اخیرعشرہ میں اللہ کی طرف کثرت سے متوجہ ہوکر مغفرت کے سامان تلاش کریں.
مفتی فضل الرحمان نے کہا اپنے غریب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کی ہر ممکن مدد کریں، تاکہ وہ لوگ بھی عیدالفطر اچھے سے مناسکیں.
حافظ محمد اخلاق کی تلاوت سے مجلس کا آغاز ہوا، محمدافضال احمد نے عمدہ انداز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس نذرانہ اقدس پیش کرکے سامعین کرام کو متاثر کیا.
 اس موقع پر حافظ اختر علی، حافظ عبیداللہ، حافظ شاداب،عبدالقیوم انصاری، ڈاکٹرجاویداسلم،  عبدالرحمان، سیف انصاری، محمدکیف، محمد معاذ، حنظلہ قیوم، طلحہ انصاری اور کثیر تعداد میں فرزندان توحید نے شرکت کیا، اور ملک میں امن شانتی بھائی چارہ، ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے خصوصی طور پردعاکی گئی، مفتی فضل الرحمان کی رقت آمیز دعاپر مجلس کا اختتام ہوا.

۲۲واں روزہ ۲۲واں سبق: رمضان احیاء سنت کا بہترین موقع!

Ramzan Ehya -e sunnat ka behtareen mauqa
تحریر: شیخ عائض القرنی
ترجمہ: مولانا وصی اللہ سدھارتھ نگری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 امام العالمین ،قدوۃ الانام، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت آخری اور ابدی شریعت ہے، دنیا وآخر ت کی سعادت ونیک بختی کا راز آپ کی اتباع میں مضمر ہے، فوز و فلاح آپ ؐہی کے طریقہ ٔکار میں ہے ، ارشا د خداوندی ہے: ’’اَلَّذِیْنَ یَتِّبِعُوْنَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَ أَلَّذِيْ یَجِدُوْنَہُ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِيْ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ، یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَاہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ‘‘ (الأعراف: ۱۵۷) اگر کوئی انسا ن دنیا میں سکو ن واطمینا ن کی زندگی اور مرنے کے بعد جنت کا خواہش مند ہے، تو پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ ٔ کارکے بغیر چا رہ نہیں ، سنت نبو ی کی مثا ل سفینۂ   نوح کے مانند ہے، کہ حضرت نو ح علیہ السلام کی کشتی میں جو شخص بھی داخل ہوا اسے نجا ت ملی ، اور جو اس میں داخل ہو نے سے رہ گیا ،ہلا کت وبر با دی اس کا مقدر بن گئی: ’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا ‘‘ (الأحزاب: ۲۱)اسی لیے نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اپنی سنت پر عمل پیرا ہو نے اور بدعا ت سے بچنے کا حکم دیا ہے: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ مِنْ بَعْدِيْ، عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ‘‘ایک دوسری حدیث میں طریقۂ سنت سے عدو ل کرنے والوں سے برأت کا اظہا ر کیاگیا ہے، فر ما یا !’’مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ ‘‘ایک اور مقا م پر سنت سے ہٹ کر زندگی گزا رنے والو ں کے اعمال وافعا ل کو مر دود قر ار دیتے ہوئے فر مایا !’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ ‘‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تصریحا ت اور آپ کے فر مو دا ت مسلما ن کو دعوت فکر دے رہے ہیں ، سا تھ ہی قر آن کریم بھی اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے بتا ئے ہوئے راستو ں اور فیصلو ں سے اعر اض کو نا جا ئز قر ار دیتا ہے: ’’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ ‘‘ (الأحراب: ۳۶)اسی طرح قرآن نے ایک دوسرے مو قع پر اللہ اور رسو ل کے علا وہ کسی او ر کے طریقہ کو اپنا نے کو بہت وا ضح الفا ظ میں منع کیا ہے؛نیز تقو ی کا بھی حکم دیا ہے،
فر ما یا ! ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَاتَّقُوْا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ‘‘ (الحجرات: ۱)ما ہ رمضا ن سنت ِمطہر ہ پر عمل پیراہو نے کا بہتر ین مو سم ہے، انسا ن چاہے تو اس مبا رک ما ہ میںخود اپنی ذات پر بھی نبو ی طریقوں کو نا فذ کر سکتا ہے،اور اپنے گھر اورمعا شرہ میں بھی ، ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ ایسی ہی عا م سنتیں نقل کی جا رہی ہیں ؛جن سے ہما را معاشرہ اعراض کا شکا ر ہے،ایک روزہ دا ر؛بلکہ ہر مسلما ن کو ہر وقت اس پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے:ایک حدیث میں آپ ﷺارشا د فر ما تے ہیں ، دس چیزیں فطر ت سے متعلق ہیں ، مو نچھ کا ٹنا ، داڑھی بڑھا نا:ناک صا ف کر نا ، نا خو ن تر اشنا ، جو ڑو ں کو دھلنا، بغل کے با ل اکھاڑنا ، موئے زیر نا ف صا ف کر نا ، پا نی کم استعما ل کرناایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کو لٹکا نے سے منع فرمایا کہ اللہ اس شخص پر شفقت کی نظر نہیں ڈالیں گے جو تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑاگھسیٹتا ہے، (مسلم )
ایک دووسرے مقا م پر فر ما یا !
کہ جس شخص کا کپڑا ٹخنو ں سے نیچے ہو گا وہ دوزخ میں ہو گا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ہدا یا ت بہت وسیع ہیں ، یہ اپنے دامن میں اسرا رو حکم رکھتی ہیں، کہ ان کا لطف وہی شخص اٹھا سکتا ہے، جوان پر عمل پیرا ہو! آپ کی سنتیں اسی پر تما م نہیں ہو تیں ، آپ نے انسا نی فطرتو ں کا پاس و لحاظ کیا ہے، حضرت انس ؓکی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑ ے ہو کر پانی پینے سے منع فر مایا ہے، (مسلم، ابو دا ئود ،ترمذی)حضرت جا بر ؓکی روایت ہے ، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دا ئیں ہا تھ سے ذکر چھو نے سے منع کیا ہے، (نسائی)حضرت ابوسعید ؓفرما تے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چپل یاایک مو زے میں چلنے سے منع فرما یاہے (مسنداحمد )حضرت سہیل بن سعد ؓکی روایت ہے، کہ آپ ؐنے پا نی میں پھو نک مارنے سے منع فرما یاہے، (طبرا نی ) حضرت انس ؓ فر ما تے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے اور چا ند ی کے بر تن میں کھا نے پینے سے منع فر ما یا ہے، (نسائی )اسی طرح نسا ئی اور مسند احمد اور کئی ایک روا یت کے مطا بق نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے سو نے اور ریشم کے کپڑے مر دوں کے لیے ممنو ع قراردیے ہیں اور عو رتو ں کے لیے مباح قر ار دیے ہیں ، ایک مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو نے کی انگو ٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے، طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے نما ز عشا ء سے قبل سونے سے منع فرمایا ہے اور نما ز عشا ء کے بعد با ت کر نے سے منع فر ما یا ہے،اسی طرح مختلف روایتو ں میں آپؐ نے نوحہ کر نے سے ، سفید با ل اکھا ڑنے سے اور صر ف جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے ، گوندھنے اور گو دھوا نے سے بھی منع فر ما یا ہے۔
یہ تو وہ روایتیں تھیں جن میں آپؐ نے امت کو مختلف امو ر سے روکاہے، کتب احادیث میں اس طرح کی صحیح روایتیں بکھری پڑی ہیں، ہمیں ان روایتوں کو سا منے رکھ کر امات کا ، اپنے معا شرہ اور ما حو ل کا جا ئزہ لینے کی ضرورت ہے، ان کے پہلو بہ پہلو کچھ امور ایسے بھی ہیں جن کا آپ ؐنے حکم دیا ہے، جب کہ وہ چیزیں آپ کے معمولات میں دا خل تھیں ، چنا ں چہ مسواک آپؐ کی سنت ہے، ایک حدیث میںآپ ؐارشا د فرماتے ہیں ! ’’لَوْ أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمَّتِيْ لَأَمَرْتُہُمْ بِالسِّوَاکِ عِنْدَ کُلِّ صَلاَۃٍ‘‘ یعنی اگر مجھے اس بات کا احسا س نہ ہو تا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا ،تو ہر نما ز کے وقت لو گوں کو مسو اک کا حکم دے دیتا ،
ایک دوسری روایت میں مسو اک کے متعلق فر ما یا !
مسو ا ک سے منہ پا ک وصا ف رہتا ہے، اور رب العزت بھی راضی رہتا ہے ، اسی طرح مسجدمیں داخل ہو نے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دورکعت تحیۃ المسجد آپؐکی سنت ہے، مسجد میں دا خل ہو نے کے وقت سب سے پہلے دایا ں پا ئوں مسجد میں ڈالنااور نکلتے وقت سب سے پہلے بایا ں پا ئوں نکا لنا ، چپل پہنتے وقت دایاںچپل پہلے پہننا اور نکا لتے وقت پہلے با یا ں چپل نکا لنا بھی آپ ؐکی سنت ہے، آپ ؐکا ایک طر یقہ ٔ  کا ریہ بھی تھا کہ کسی کے گھر میں دا خل ہو نے سے پہلے تین مر تبہ اجا ز ت طلب کر تے ،اگر تین مر تبہ میں اجا زت مل گئی تو داخل ہو تے ، ورنہ واپس لو ٹ آتے، مندرجہ با لاسا ری سنتیں صحیح احا دیث سے ثا بت ہیں ، یہ وہ قا بل تو جہ امو ر ہیں جن سے ہر مسلما ن کا روزآنہ واسطہ پڑتا ہے، یا کسی نہ کسی پہلو سے وہ ان سے گز رتا ہے، رمضان المبا رک کے اس با بر کت مہینہ میں ہم ان امو ر کی طر ف تو جہ دے کر اپنی زندگی پا کیزہ بناسکتے ہیں ، کیو ں کہ اس مہینہ میں ، جہا ں اور بہت سے برے کا مو ں سے رُک جا تے ہیں ،وہیں اچھے کا موں کی عادت بھی ڈال لیتے ہیں ؛نیز کو ئی گرانی بھی نہیں ہو تی، اگر ہم ان مذکو رہ پہلوئوں پر بھی تو جہ دے لیں ، اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتنا ب کر لیں ،تویقینا رمضا ن کی بر کت سے بقیہ اور مہینے بھی سنت ِنبو ی کے سا ئے میں بآسا نی گزر سکتے ہیں ، اور اجروثواب اس پر مستزاد ہے۔
 خدا یا !ہمیں سنت مطہر ہ پر عمل کی تو فیق مر حمت فر ما !بدعا ت وخرا فا ت سے ہماری حفا ظت فرما آمین.