اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: صدقۃ الفطر کا مقصد!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 30 May 2019

صدقۃ الفطر کا مقصد!

تحریر: مولوی محمد شاہد کبیر نگری
            متعلم دارالعلوم دیوبند
ـــــــــــــــــــــــ
اللہ تعالی نے انسانوں کو دنیا کے اندر بھیجا پھر اسے اپنی حیات عزیز کے گزران کے لیے جہاں پر بہت ساری چیزوں کے جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔ تو وہیں پر مال ودولت کے کمانے کی طرف بھی خصوصی توجہ کرنے کا حکم فرمایا ہے-
 چنان چہ ارشاد ہے : فاذا قضيت الصلاه فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله .( سوره جمعه )
انفاق کی اہمیت
لیکن اللہ تعالی نے کمانے سے زیادہ قرآن کریم کے اندر انفاق فی سبیل اللہ کی طرف متوجہ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے -
 کہیں فرمایا :يا ايها الذين امنوا انفقوا مما رزقناكم من قبل ان ياتي يوم لا بيع فيه ولا خله ولا شفاعه ۔(سورہ بقرہ ) تو کہیں پر خرچ کرنے والوں کے اجر و ثواب کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :الذين ينفقون اموالهم في سبيل الله ثم لا يتبعون ما انفقوا منا ولا اذى لهم اجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون ۔ (سورہ بقرہ )
 تو کہیں پر اپنے حلال و پاکیزہ مال سے خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : يا ايها الذين امنوا انفقوا من طيبات ما كسبتم ومما اخرجنا لكم من الارض.( سورہ بقرہ )
 تو کہیں پر خرچ کرنے والوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایاکہ  جو کچھ خرچ کر رہے ہو وہ سب کا سب تمہارے لئے ہی  ہے: وما تنفقوا من خير فلانفسكم (سورہ بقرہ ) ما عندكم ينفذ وما عند الله باق .(سورہ نحل آیت نمبر ۹۶ )  فرمایا
تو وہیں پر پورے کا پورا لوٹا دینے اور بالکل کم نہ کرنے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : وما تنفقوا من خير يوف اليكم وانتم لا تظلمون. (سورہ بقرہ )
لیکن تمام انفاق کے اندر اللہ کی رضا جوئی بطور خاص ملحوظ رکھنے کی تاکید فرماتے ہوئے فرمایا : وما تنفقون الا ابتغاء وجه الله .(سورہ بقرہ ) اور آگے بڑھ کر یہاں تک بیان کیا ہے کہ: وما انفقتم من نفقه او نذرتم من نذر فان الله يعلمه وما للظالمين من انصار.( سورہ بقرہ )  ترجمہ:  جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو یا نظر مان  رہے ہو سب اللہ دیکھ رہے ہیں-
 خفیہ طور پر خرچ کرنے کو سب سے بہتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ان تبدوا الصدقات فنعما هي وان تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم .(سورہ بقرہ )
 اور آگے بڑھ کر صدصدقات کو کفارہ سییات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ويكفر عنكم سيئاتكم  والله بما تعملون خبير.( سورہ بقرہ )
الغرض: قرآن کریم کے اندر کسب معاش  سے زیادہ انفاق کی طرف توجہ فرمائی گی ہے  جو  شریعت مطہرہ کا عین مزاج اور ضرورت  ہے-
  اسی طرح سے بیشتر  احادیث اس بات کی طرف مشیر ہی کی کسب سے زیادہ خرچ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے -
دوستو ! اللہ تعالی نے جہاں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تو ہیں پر خرچ کے مصارف ومواقع کو بھی بیان کیا ہے - چناں چہ ؛جہاں زکوۃ دینے اور اس کے مقصد کو بیان کیا ہے تو ہیں پر صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
صدقۃ الفطر کا مقصد
 اللہ تعالی نے جانی عبادات کے ساتھ مالی عبادات کا خصوصی امتزاج رکھا ہے  جیسے نماز ہے تو اس کا  فد یہ مال کے ذریعہ سے ہے اسی طرح سے روزے کے اندر پائی جانے والی کمیوں کی تلافی کے لیے اللہ تعالی نے صدقہ الفطر رکھا ہے، لیکن صدقۃ الفطر کے دوہری خصوصیت ودیعت  فرمائی ہے -
ایک تو روزے کے حالت میں ہونے والے لغویات و خرافات سے صفائی  ؛ دوسرے غرباء ومساکین کی حاجت روائی ؛
 یہ دوسرا مقصد وقت اور حالات کے اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے -
 اس لئے کہ شریعت کے اندر خوشیوں کے منانے کا حکم صرف اور صرف امراء اور اثریاء  کو نہیں دیا گیا ہے-
  بلکہ ہر مومن و مسلم کو اپنی بساط کے مطابق خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے-
  تو کیوں نہ( ہمارے وہ بھائی جو اپنی کمائی اور  اپنے مال سے خوشیوں کی سوغات نہیں لے سکتے)
 ان کو بھی ہم اپنے مال سے عید  جیسے عظیم تہوار کی خوشیوں میں شریک کر لیں !  جیسا کہ نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے :
فرض رسول الله  صلى الله عليه وسلم : زكاه الفطر طهر الصيام من اللغو والرفث وطعمه للمساكين (رواہ ابو داود )
صدقۃ الفطر کن لوگوں پر واجب ہے ؟
ہر ایسے شخص پر صدقۃ الفطر واجب ے جو بروقت صاحب نصاب ہو یعنی : ان کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی خریدنے کا مال  یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی شکل میں مال کا  عید کے دن مالک  ہو  اس پر حولان حول کا ہونا ضروری نہیں ہے (عالمگیری )
باپ اپنی،و نابالغ اولاد  اور اپنے گھر کے نوکر خادم کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا(  عالمگیری )
بیوی اگر صاحب نصاب ہے تو اپنا صدقہ صدقۃالفطر خد ادا کرے گی جیسے کی وہ  زکات اپنی خد ادا کرتی ہے -
 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما انه قال :  فرض رسول  الله صلى الله عليه وسلم  زكاه الفطر صاعا من تمر  او صاعا من شعير  على العبد والحر والذكر والانثى والصغير من المسلمين. ( مشکاۃ باب فضائل صدقۃ الفطر )
صدقۃ الفطر کے مصارف
اس کے مصارف بھی وہی لوگ ہیں جو زکات کے مصارف ہیں -
 صدقۃ الفطر کب نکالا جائے؟
عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردینا چاہیے( تاکہ اس  کا جو حقیقی مقصد ہے غرباء و مساکین کی دل جوئی و حاجت روائی اور  عید کی خوشی میں شریک کرنا) وہ بھی حاصل ہو جائے-
  نبی : پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ان تؤدي قبل خروج الناس الى الصلاه. (مشکاۃ صفحہ 160)
صدقۃ الفطر خواہ پیسوں کی شکل میں  ادا کرے یا کسی اور شکل میں سب جائز ہے -
 البتہ کپڑا پہنانے کے سلسلے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فضیلت ارشاد فرمائی ہے :
 عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما انه قال:  سمعت  رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول  :ما من مسلم كسا مسلما ثوبا الا كان في حفظ من الله ما دام عليه منه خرقة. (رواہ ترمذی)۔
ترجمہ :جب کوئی مسلمان کسی مسلمان بندے کو کپڑا پہناتا  ہے  تو جب تک وہ کپڑا اس بندے کے جسم پر رہتا ہے  پہنانے والا شخص اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے-
اسی طرح سے جہاں پر دوسرے لوگوں کو دینے کا حکم ہے  تو وہیں پر مسکین اقرباء کو دینے میں دوگنا ثواب رکھا گیا ہے -
ایک تو صدقہ کا؛ دوسرا صلہ رحمی اور قرابت داری کا جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔ لهما اجران: اجر الصدقه  واجر القرابه.(  رواہ مسلم )
دوستو!  آئے ہم سب مل کر عہد کرتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ضروربالضرور ادا کریں گے !
اور اس کا جو حقیقی مقصد ہے (غرباء مساکین کو  عید کی خوشی میں شریک کرنا )اس کو بھی حاصل کریں گے انشاءاللہ۔  .اللہ تعالی  ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے.آمین