اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: October 2018

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 31 October 2018

تمہار ی داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!

طٰہٰ جون پوری
ــــــــــــــــــــــــ
      اس وقت وطن عزیز بھارت میں مسلم ناموں کو بدلا جارہا ہے، اور یہ کام پہلے بھی دنیا کے مختلف گوشوں میں ہوا ہے، مثال کے طور پر ’’حجاز مقدس ‘‘ کو  (المملکۃ العربیۃ السعودیۃ) ’’مصر‘‘ کو ایجپٹ (Egypt)، قاہرہ کو (Ciro)، قسطنطنیہ کو (Consatantinpole)، حبشہ کو (Abyssinia  اور اب  Ethiopia)، اردن کو ( Jordon)، شام کو (Syria)، حلب کو (aleppo)، مراکش کو  (Morocco)،  ارسطو کو  (Aristotle)،  عثمانی سلطنت کو (Ottomam Empire)، (سلطنت کا انگریزی ترجمہ  Empire ہے، یعنی صرف لفظ ِعثمانی کو بدلا ہے)، اس کے علاوہ سینکڑوں اور مثالیں ہیں، لیکن یہ مشتے از خروارے کے طور پر پیش ہیں۔
   وطن عزیز میں ناموں کی تبدیلی پہلے بھی ہوئی ہے،  لیکن جب سے  BJP  آئی ہے، تو اس نے اپنے خفیہ مشن  (ہر وہ چیز، جس سے اسلام کی بو آتی ہے، اس کو ختم کر کے، ہندتوا کے تحت ہندوئیت کا چولا پہنانا ہے) کو جاری رکھا ہے،  چناں چہ کچھ دنوں قبل  ’’یوگی حکومت ‘‘ نے  ’’مغل سرائے اسٹیشن‘‘  کا نام  بدل  کر   ’’ دین دیال اپادھیائے‘‘  رکھ دیا، اور ابھی حال ہی میں ’’اِلٰہ آباد اسٹیشن ‘‘  کا نام  بدل  کر ’’پریاگ راج" رکھ دیا ہے، ناموں کی یہ تبدیلی محض تبدیلی نہیں ہے،  بلکہ اس کے پیچھے جو ’’ناپاک ارادے‘‘  ہیں ان سے واقف ہونا ضروری ہے۔
   ان ’’تَن و مَن کے کالوں‘‘ کی یہ ناپاک سازش ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کو بدل دیا جائے اور مسلمانوں کارشتہ اپنی تایخ سے توڑ دیا جائے،  اور ساتھ ہی ساتھ یہ پیغام دیا جائے کہ یہ نام تو  ’’بابر اور اس کی اولاد‘‘ نے بدل کر رکھا تھا،  اب ہمیں موقع مل رہا ہے،  اس لیے ہم اپنی پرانی چیزوں کو حاصل کرلیں گے، حالانکہ اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ جتنے بھی نام ہیں، کسی کو بدلا نہیں گیا ہے، بلکہ یہ سب آباد کردہ علاقے اور شہر ہیں۔
جہاں تک مسلمانوں کی تاریخ بدلنے کی بات ہے، اِن شاءاللہ اس مقصد میں تو وہ ناکام و نامراد ہوں گے، کیوں کہ یہ اُمت مسلمہ کی خاصیت ہے  جس نے اپنی تاریخ کی حفاظت کی ہے، ورنہ تو ہر قوم کی تاریخ بس اساطیر الاولین ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مسلمانوں کا رشتہ تاریخ سے توڑنے میں ایک حد تک کامیاب ہو رہے ہیں، چناں چہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے، جو اپنی تاریخ کو بھول چکا ہے، اور اپنے اَسلاف کے کرشمائی کارناموں سے ناواقف ہے، وہ جانتا ہی نہیں کہ ’’معرکہ بدر  و  اُحُد ‘‘کیا چیز ہے؟  اسے خبر ہی نہیں کہ  ’’غزوہ خندق و بنوقریظہ‘‘  کب پیش آئے؟ اسے پتہ نہیں کہ ’’قیصر و روم‘‘ کا وجود کس نے مٹایا، وہ  ’’ محمد الفاتح، سلطان صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، سید احمد شہید، شیخ الھند مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمھم اللہ اور ان کے علاوہ سینکڑوں جیالوں سے ناواقف ہے، وہ  اس سے بے خبر ہے کہ اس کے آباء و اَجداد نے وطن عزیز  ’’بھارت‘‘  کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ہے اور اس کے لیے اپنا جتنا لہو بہایا ہے، اُتنا کسی قوم نے پانی بھی نہیں بہایا ہے۔
        ـــــــــــعــــــــــ
جب گلستاں کو خوں کی، ضرورت پڑی
سب سے پہلے،  ہماری ہی گردن کٹی

        تاریخ کو بھلانا اور اس سے رشتہ توڑنا کسی بھی قوم کے لیے تباہی کا پیغام ہوتا ہے، قوموں کو زندہ رہنے کے لیے اپنی تاریخ کو یاد رکھنا ضروری ہے، تاریخ کی خصوصیت ہے کہ اس سے قوموں کے عروج و زوال کا پتہ لگتا ہے، تاریخ کے ذریعہ قوموں کی ترقی و تنزلی اور اس کےاسباب و علل پرروشنی ڈالی جاتی ہے۔ 
       آج پوری دنیا میں عموماً اور وطن  عزیز میں خصوصاً اس کی بات کی سخت ضرورت ہے کہ تاریخ سے ہمارا رشتہ مضبوط ہو، ہم جس جگہ ہوں اپنی تاریخ کو باقی رکھیں، جن جن علاقوں میں ہمارے تاریخی مقامات ہیں، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائیں، بہت سی تاریخی عمارتیں ’’محکمہ آثارِقدیمہ‘‘کے ہاتھوں میں ہیں، ان سے اپنی نسلوں کو واقف کرائیں، مقننہ سے ایسے قوانین بنوائےجائیں، جس سے یہ  مسلمانوں کے ہاتھوں میں دوبارہ واپس آئیں، مدارس کے اندر تاریخ کو نصاب کے ایک مضبوط حصہ کے طور پر پڑھایا جائے، جو اسکول اور کالج  ہمارے اپنے ہیں، ان میں معتبر تاریخ کو لازمی کیا جائے، مساجد کے ائمہ اور مقررین حضرات تاریخ سے مسلم قوم کو باخبر کریں، غلط تاریخ کو جس انداز سے پیش کیا جارہا ہے، اس کا بھر پور رد کریں.
             ـــــــــــعــــــــ
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

قادیانی اور انگریز کے ٹوڈی اپنے ذہن سے خام غیالی نکال دیں، اسلام کے خلاف ہونے والی ہر اک سازش کا منھ توڑ جواب دیں گے.

تاج ختم نبوت ؐ کی حفاظت مسلمانو ں پر فرض عین ،اس میں ذرہ برابر بھی نرمی حرام، اسلام کے خلاف ہونیوالی ہر اک سازش کا جواب دیا جائیگا۔شاہی امام مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کا بیان.

مستقیم
ـــــــــــــــ
لدھیانہ(آئی این اے نیوز 31/اکتوبر 2018) مجلس احرار اسلام کے قومی صدر دفتر جامع مسجد لدھیانہ میں رضاکاروں کو خطاب کرتے ہوئے شیر اسلام مولانا حبیب الرحمن ثانی لدھیانوی شاہی امام پنجاب نے کہا کہ تاج ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت مسلمانوں پر فرض عین ہے اس میں ذرہ برابر بھی نرمی حرام ہے، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں جس تیزی کے ساتھ اقوام عالم نے اسلام کو پسند کیا گیا اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں نے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو قبول کیا اسکی مثال نہیں ملتی ،
انہوں نے کہا کہ دین محمد ؐ کی ہر سو مقبولیت سے خائف دشمن نے تمام حربے ناکام ہوتے دیکھ فتنہ قادیانیت کے ذریعہ تاج ختم نبوت ؐ پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی ہے، شیر اسلام مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے کہا کہ یہ ڈاکو خواہ کچھ کر لیں ناموس رسالت ؐ کے دیوانے اور پروانے ان کی ناپاک سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، انہوں نے رضاکاروں سے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت ؐ کی حفاظت جہاں اہل ایمان کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے وہیں تمام غیر مسلم اقوام کو منکرین ختم نبوت ؐ کی سازشوں سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ سازشیں تمام انسانیت کے لئے نقصان دہ ہیں، قائد احرار نے کہا کہ ملک کی جنگ آزادی کے غدار قادیانی اور انگریزکے ٹوڈی اپنے ذہن سے خام غیالی نکال دیں ہم آزاد ملک کے باسی ہیں یہ ہمارا وطن ہے اور اپنے وطن میں بقار سے رہتے ہوئے اسلام کے خلاف ہونیوالی ہر اک سازش کا منھ توڑ جواب دیں گے، انہوں نے کہا کہ حکومت اور اہل وطن بھی تاریخ کے آئینہ میں اس بات کو سمجھیں کہ جو قادیانی سفید لبادہ اوڑھ کر انسانیت کو جھوٹا درس دے رہے ہیں ان لوگوں نے انگریز کے دور میں بھی ملک سے غداری کی تھی اور آج بھی وطن عزیز کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں.
قابل ذکر ہیکہ 29دسمبر کو مجلس احرار اسلام کا یوم تاسیس ہے اس سلسلہ میں احرار کی میٹنگوں اور جلسوں کے سلسلہ کا آغاز ہو گیا ہے آج کی میٹنگ میں غلام حسن قیصر صدر بزم حبیب، قاری محمد محترم کھجناوری، محمد آزاد احراری، مفتی جمال دین احرار، مولانا حفظ الرحمٰن، مولانا محمد سلیمان لطیفی و دیگر علماء موجود تھے.

مدھوبنی: مدرسہ اصلاح المسلمین راگونگر بھوارہ کے زیر اہتمام پروگرام منعقد!

سالم آزاد
ــــــــــــــــ
مدھوبنی(آئی این اے نیوز 31/اکتوبر 2018)  مدرسہ اصلاح المومنین راگونگر بھوارہ کے زیر اہتمام ایک دعوتی واراکین اور باشندگان اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مہمان خصوصی اور راشٹریہ جنتا دل  مدھوبنی ضلع کے ایم۔ ایل۔ اے جناب سمیر کمار مہاسیٹھ کو اراکین و باشندگان نے گرم جوشی سے استقبال کیا.
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سمیر مہا سیٹھ نے کہا کہ آزادی کے بعد آج تک ملکی و ریاستی سطح پر تمام پارٹیاں اور رہنماؤں نے اقلیتی طبقہ کو محض ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا، اس طبقہ کے فلاح وترقی کے لئے تمام پارٹیوں نے نظر انداز کیا، خاص کر مسلمانوں سے میرا کہنا ہے کہ اب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، بدلتے دور کا اندازہ کرنا ہے، انہوں نے ریاست کی حال پر کہاکہ موجودہ حکومت عوام کے سامنے اپنی حصولیابی پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ایک طرف نظم ونسق کو لے کر لوگوں میں ناراضگی ہے تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے چلائے جا رہے منصوبوں کا خاطر خواہ فائدہ عوام کو نہیں مل پا رہا ہے، انہوں نے دعوی کیا کہ سیکولر امن پسند اور سماج کے دبے کچلے لوگوں کا مکمل تعاون آر جے ڈی کو حاصل ہے، مسلم طبقہ کے نوجوانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ اپنی پسماندگی تعلیمی زبوں حالی کو سمجھیں اور کسی کے بہکاوے میں آئے بغیر تیجسوی یادو کے مقاصد میں ساتھ دیں.
 پروگرام میں سنیل نائک، سکریٹری عبدالحنان انصاری، ماسٹر سنو، ماسٹر عبداللہ انصاری، مولوی جلال الدین، حافظ ممتاز، حافظ سلیم، مولوی سیف اللہ، محمد مقبول سمیت کثیر تعداد میں مدارس کے طلبہ و اساتذہ موجود تھے.

دارالعلوم دیوبند مولانا سعد کاندھلوی کو کلین چٹ نہیں دیگا، تبلیغی جماعت کے اختلاف کے متعلق دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی کی آڈیو وائرل!

سمیر چودھری
ـــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 31/اکتوبر 2018) دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مداراسی نے تبلیغی جماعت کے ایک گروپ کے سربراہ مولانا سعد کاندھلوی کے متعلق کہاکہ دارالعلوم دیوبند اپنے سابق موقف پر قائم ہیں، نائب مہتمم نے ایک گفتگو کے دوران صاف کہاکہ دارالعلوم دیوبند اپنے فتویٰ پر قائم ہے، دارالعلوم دیوبند تو مولانا سعد کاندھلوی کو کوئی کلین چٹ نہیں دیگا، سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی دارالعلوم دیوبند کی نائب مہتمم مولانا عبدالخالق مدراسی کی ایک آڈیو میں مولانا مدراسی نے صاف کہاکہ وہ مولانا سعد کاندھلوی کو کسی طرح کی کلین چٹ نہیں دیں گے، کچھ لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ (مولانا سعد) اپنے بیانات کے اندر پیغمبر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرتے ہیں جس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ،اسی کو لیکر دارالعلوم دیوبند کا اختلاف ہے،
مولانا سعد اور شوریٰ کے درمیان بھی اسی طرح کے بیانات کو لیکر اختلافات ہیں، اس کے علاوہ بھی اندورنی طور پر بہت سی خرابیاں ہیں، جس کی وجہ سے شوریٰ (تبلیغی جماعت کی شوریٰ) ان تمام مسائل کو لیکر سخت نالاں ہے اور جماعت کا ندورنی اختلاف باہر آیا ہے، انہوں نے کا کہ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے مولانا سعد سے صرف یہ یہی کہا گیا تھا کہ وہ اپنے بیانات میں صحیح دلائل پیش کریں اور انبیاء علیہ السلام کے واقعات کو درست طور پر پیش کریں، رجوع کئے جانے کے سوال کے جواب میں مولانا مدراسی نے کہاکہ رجوع کے بعد بھی مولانا سعد اسی نوعیت کے بیانات مسلسل کر رہے ہیں، اسلئے انہیں کلین چٹ نہیں دی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کو دارالعلوم دیوبند کی طرف سے کوئی سرٹیفکٹ دیا جائے گا، دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ پوری طرح درست ہے ،جس پر وہ آج بھی قائم ہے، انہوں نے کہاکہ رجوع کے بعد بھی وہ اپنے ان ہی بیانات پر قائم ہے، جس کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند اپنے موقف پر مکمل طور پر قائم و دائم ہے۔
مولانا عبدالخالق مدراسی نے کہاکہ مولانا سعد کے غلط بیانات اور شورائی نظام سے ان کے اختلاف کے سبب دارالعلوم دیوبند کو اختلاف ہے، انہوں نے کہاکہ ہم نے کسی سے یہ بھی نہیں کہاکہ آپ لوگ ان کے پاس جاؤ اور نہ ہی کسی کو منع کیا، انہوں نے کہاکہ جاہلوں کے ٹولیوں نے کتنے ہی فرقہ تشکیل کرلئے ہیں یہ سب ہمارے سامنے ہے، دوران گفتگو حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے اعظم گڑھ کے اجتماع کو لیکر بھی بات چیت ہوئی، بتایا جاتاہے کہ یہ آڈیو گزشتہ چار روز قبل کا ہے ،جب اتراکھنڈ سے کچھ لوگ جماعت اور دارالعلوم سے متعلق کچھ اختلافی مسائل کو لیکر مہتمم دارالعلوم دیوبند سے ملاقات کرنے آئے تھے، مہتمم دارالعلوم دیوبند کی عدم موجودگی میں مولانا عبدالخالق مدراسی نے وفد سے ملاقات کی ہے، یہ آڈیو 29؍ اکتوبر کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے۔
واضح رہے دارالعلوم دیوبند کی جانب سے مولانا سعد کاندھلوی سے متعلق تمام بڑے اساتذہ کے دستخط سے کئی صفحات پر مشتمل فتویٰ  دارالعلوم دیوبند کی جاری کیا گیا تھا، جس پر اس وقت کافی ہنگامہ بھی ہوا تھا، اس کے بعد مولانا سعد کی جانب سے رجوع کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔

دارالعلوم وقف دیوبند میں ترکی کے اسلامی اسکالر نے طلبہ کے سامنے پرمغر محاضرہ پیش کیا!

مولانا سراج ہاشمی
ــــــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 31/اکتوبر 2018) ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم وقف دیوبند میں شعبہ بحث و تحقیق حجۃ الاسلام اکیڈمی کے زیر اہتمام ’’تحدیات العصر الحاضر و مواجھتھا فی ضوء رسائل النور‘‘ کے عنوان سے ایک اہم محاضرے کا انعقاد کیا گیا ۔
جس میں ترکی سے تشریف لائے مرکز بحوث رسائل النور، ترکی کے مدیر احسان قاسم مصطفی الصالحی نے پرمغز محاضرہ پیش فرمایا، جس میں انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ فکری ارتداد کے دور میں جب کہ ایک طرف علوم و فنون کی راہیں کھل رہی ہیں جدید انکشافات، تحقیقات اور جدید سائنس کے باب میں نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں ایسے میں بڑا المیہ یہ ہے کہ عمل کی راہیں مسدود ہورہی ہیں، انسان اپنی مشکلات کا حل کتاب اللہ میں تلاش کرنے کے بجائے ہچکولے کھارہا ہے۔ قرآن کریم جہاں اللہ کی کتاب ہے وہیں انسانوں کے لئے کتاب ہدایت بھی ہے، جس میں قیامت تک پیش آنے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اسی کتاب ہدایت کی جانب رجوع کریں، اس لئے یہ کتاب العمل بھی ہے، انہوں نے کہا کہ موجودہ دور فکری زوال کا بھی دور ہے، اس انحاط سے نکلنے کے لئے جہاں ہمیں ایک جانب اسلامی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے وہیں دوسری جانب ہمیں اپنے مفکرین کی اسلامی افکار اور ان حضرات مفکرین کے علوم و معارف کا بھی بہ غائر مطالعہ کرنا ہے جنہوں نے اپنے افکار کی روشنی میں اسلام کی قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اسلامی مفکرین خصوصاً شیخ بدیع الزماں النورسی و دیگر نامور اسلامی مفکرین نے جو اپنی افکار پیش کی ہیں ان کا مرجع اصلی قرآن اور قرآنی تعلیمات ہی ہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ انہوںنے قرآن کو یا تعلیمات اسلام کو کس نہج اور کس انداز میں سمجھا ہے۔
ان کے ان افکار کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کو سمجھ کر ہمیں میدانِ عمل میں آنا ہوگا، انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے علوم میں گہرائی و گیرائی اور تعمق و اختصاص پیدا کریں، موجودہ دور اختصاص کا دور ہے، اگر آپ نے اپنے اندر اختصاص پیدا کیا تو دنیا آپ کو قبول کرے گی، آپ کوتسلیم کرے گی ورنہ اگر آپ اپنے اندر اختصاص پیدا نہیں کرپائے تو میدان عمل آپ کے لئے دشوار کن ثابت ہوگا۔
اگر آپ میں اختصاص ہوگا تو راستوں کی رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل نہیں ہوں گی، انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلق امت دعوت سے ہے اور اس مذہب سے ہے جو تا قیام قیامت رہنے والا ہے، قرآن کریم ایک کتاب دعوت بھی ہے، جس میں لوگوں کو موعظہ حسنہ اور حکمت کے ذریعہ اپنے رب کی جانب بلانے کا حکم دیا گیا ہے۔
آپ کو یہاں دعوت الی اللہ کے مقتضیات اور اس کے طریقۂ کار کو سمجھنا ہوگا، موعظۂ حسنہ اور حکمت کے ذریعہ داعی سے جہاں ایک طرف قول لین کی متقاضی ہے وہیں دوسری جانب مخاطب کے احوال کی رعایت کرتے ہوئے حکمت اورمصلحت کے ساتھ دعوت دینے کا طریقہ بھی بتلاتی ہے، آپ کی دعوت وحدت امت کا پیام لئے ہوئے پوری ملت کو ایک لڑی میں پرونے کا کام کرے۔
اس موقع پر حجۃ الاسلام اکیڈمی کے ڈائریکٹر مولانا محمد شکیب قاسمی نے محاضر محترم کی تشریف آوری پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے طلبہ کے سامنے ان کا تعارف پیش کیا، نیز متعلقہ عنوان سے بھی طلبہ کو روشناس کرایا، محاضرے کا اختتام مولانا فریدالدین صاحب کی دعاء پر ہوا، اس موقع پر جامعہ کے بعض اساتذہ شامل رہے۔

Tuesday 30 October 2018

اسلام نے عورتوں کو پردے کا ہتھیار دیکر انکی عزت و آبرو محفوظ رکھی ہے، می ٹو مہم کا رخ بدلتے ہوئے مسلم عورتیں اسلام کی تشریح کریں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ــــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 30/اکتوبر 2018) امریکہ کے ایک خاتون نے کچھ سال قبل ٹیوٹر پر ”می ٹو“ نامی ایک تحریک شروع کی تھی، جس میں اس نے اپنے ساتھ ہوئی جنسی ہراسانی کو پوری دنیا کے سامنے بتایا اور مجرم کا پردہ فاش کیا، دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی کھنٹوں میں لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر کے عورتیں جو جنس ہراسانی کا شکار ہوئی تھیں، انہوں نے اس تحریک کا سہارا لیتے ہوئے انکے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم کا پردہ فاش کیا، اب ہمارے ملک میں کچھ دنوں سے یہ تحریک می ٹو چل رہا ہے جس سے کئی مشہور سیاست دان اور اداکاروں اور عوام کا پردہ فاش ہوا ہے، لیکن یہ تحریک کس وجہ سے چلانی پڑی؟ وہ عورتیں جنسی ہراساں کا کیوں شکار ہوئیں ؟ کیا کسی نے سوچا کہ مسلم عورتیں کیوں محفوظ ہیں؟ مذکورہ خیالات کا اظہار مسجد الکریم، بگنہلی، پینیا، بنگلور میں خطاب کرتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا جو دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دیا، اسلام نے عورتوں کو پردے کا ہتھیار دیکر انکی عزت و آبرو محفوظ کردی، آج دشمنانِ اسلام یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو قید کردیا ہے۔مولانا نے دوٹوک الفاظوں میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام آنے سے پہلے اگر کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی تو اسے زندہ دفنا دیا جاتا، اگر کوئی بیوہ ہوجاتی تواسے گھروں میں بند کردیا جاتا، اسلام نے اسے روکا۔ مولانا نے کہا کہ آج کوئی شخص حلال طریقے سے ایک زائد شادی کرنا چاہے تو حکومت اس پر روک لگاتی ہے اور وہی حکومت ہم جنس پرستی اور ناجائز تعلقات و اڈلٹری کی اجازت دیتی ہے۔ کیا اس حکومت کو یہ معلوم نہیں کہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی عورتیں اکثر غیر مسلم ہیں، مولانا نے جنسی ہراسانی ہوئی عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم نے خود اپنے جسم سے اپنے گندے کپڑوں سے زنا کی دعوت دی ہے، وہیں اگر کوئی عورت اسلامی لباس، پردہ کے ساتھ ہوتی ہے تو وہ محفوظ رہتی ہے۔
 مولانا نے دنیا کے تمام غیر مسلموں خصوصاً عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آؤ دین و اسلام کی طرف!ہمارے اسلام میں عورتوں کی عزت محفوظ ہے، اسلام نے خاوند اور بیوی، دونوں کے حقوق سکھائے ہیں، اسلام نے عورت کو گھر سے باہر نہیں کیا بلکہ گھر کی ذمہ داری سونپ کر اسے وہاں کی مہارانی بنایا۔ شاہ ملت نے مسلم عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ می ٹو مہم کا رخ بدلتے ہوئے مسلم عورتیں اس کے ذریعہ اسلام کی تشریح کریں اور لوگوں کو بتائیں کی اسلام میں انکا کیا مقام و مرتبہ ہے، اسلام نے انہوں پردہ دیکر کتنا بڑا احسان کیا، انہوں نے اپیل کی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں حصہ لیں اور مہم کے ذریعہ اسلام کی تشریح کریں۔

سیتامڑھی: ضلع کے فساد زدہ علاقے کا بیداری کارواں کا وفد 3 نومبر کو کرے گا دورہ!

محمد سالم آزاد
ـــــــــــــــــــــــــ
سیتامڑھی (آئی این اے نیوز 30/اکتوبر 2018) لگاتار سیتامڑھی کے کئی گاؤں جس میں مورلیاچک، مدھوبن، بھیرہا سمیت گوشالا چوک فسادیوں کی چپیٹ میں ہے اور کئی لوگوں کی جانیں بھی جاچکی ہیں، ساتھ ہی درجن بھر سے زیادہ لوگوں کے غائب ہونے کی خبر بھی ہے، لیکن پورے معاملے پر میڈیا سے لیکر انتظامیہ اور حکومت تک خاموشی بنائے ہوئے ہے جو پریشانی کا سبب ہے، درگا پوجا کے موقع پر مورتی بھسان کو لیکر شرپسند عناصر فرقہ وارانہ فساد کرانے میں کامیاب رہے،
شرپسند عناصر کو انتظامیہ اور حکومت کی جانب سے ملنے والی حمایت اور یک طرفہ کارروائی کے خلاف، ساتھ ہی پورے معاملے کی جانکاری لینے کے لئے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کا وفد 3 نومبر کو سیتامڑھی کے متاثرہ علاقے کا دورہ کرے گا اور لوگوں سے پورے معاملے کی صحیح جانکاری لیکر حکومت سے اس معاملے پر جواب طلب کرے گا، جن لوگوں کو مارا گیا ہے انہیں لوگوں کے خلاف پولیس کی کارروائی بھی حکومت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے کہ کہیں حکومت بہار بھی تو اُترپردیش کے یوگی حکومت کی تاناشاہی والا ناپاک کھیل بہار میں بھی تو نہیں شروع کردیا ہے، اگر ایسا ہے تو یہ بہار کے لئے یہ بہت کی افسوس ناک ہے۔
مذکورہ پروگرام کی اطلاع کارواں کے نائب صدر مقصود عالم عرف پپو خان نے پریس بیان جاری کر کے دی ہے، مسٹرخان نے بتایا کہ ہم لوگوں کا دورہ شروع میں ہی ہونا تھا لیکن 31/اکتوبر تک انتظامیہ کی جانب سے144نافذ کردیا گیا ہے اس لئے ہم لوگ اس کے خلاف نہیں جاسکتے لیکن جس طرح سے یکطرفہ حملہ اور لوگوں کو جان سے ماردیا گیا ہے، دُکانیں نذر آتش کردی گئی ہیں، درجنوں لوگوں کو غائب کردیا گیا ہے، پولیس کے ذریعہ مظلوموں کو ہی گرفتار کیا جارہا ہے اس پر ہماری تنظیم چپ بیٹھنے والی نہیں ہے، جس کے ووٹ سے اپوزیشن پارٹیاں سیاست کرتی ہیں آج اُسی کو ملک اور ریاست میں جہاں تہاں مارا جارہا ہے اور اپوزیشن پارٹیاں خاموشی اختیار کر کرسی کی سیاست میں مصروف ہے، آنے والے وقت میں اپوزیشن پارٹیوں کو پتہ چلے گا کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔

سیتامڑھی کے فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث کسی کو بخشا نہیں جائیگا: نیرج کمار

محمد صدرعالم نعمانی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 30/اکتوبر 2018) جنتا دل یو کے چیف ترجمان و ایم ایل سی نیرج کمار نے سیتامڑھی آئی بی میں میڈیا اہلکاروں سے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ دنوں سیتامڑھی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں شامل سماج دشمن عناصر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے گی اور قصور وار کو کسی بھی قیمت پر بخشا نہیں جائےگا، چاہے وہ کتنی پیروی والا شخص ہی کیوں نہ ہو، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا اس بارے میں
واضح حکم ہے کہ قانون کی بالادستی قائم رہے گی اور اس میں کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ضلع پولیس پوری مستعدی کے ساتھ فساد میں شامل لوگوں کو جیل کے سلاخوں میں ڈال رہی ہے، زین الحق انصاری کے قاتل بخشے نہیں جائیں گے قاتلوں کی شناخت کر لی گئی ہے جلد ہی سبھی قید میں ہوں گے ۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی مسلمانوں کے فلاح بہبود کے لئے لگاتار کام کر رہی ہے، اس میں قبرستانوں کی  گھیرا بندی سے لیکر اسکالرشپ سمیت سیکڑوں منصوبے چلا رہی ہے، جسکا خاطر خواہ فائدہ مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے اور ان کی  زندگی بھی بہتر ہو رہی ہے اور وہ مین اسٹریم میں داخل ہو رہے ہیں، جبکہ دوسری پارٹی کے لوگ صرف ووٹ کے طور ان کا استعمال کر رہے ہیں، آرجے ڈی نے مسلمانوں کے حوالے سے کوئی نمایاں کام نہیں کیا۔
جے ڈی یو کے ترجمان نے کہاکہ اب کوئی پارٹی مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال نہیں کر سکتی ہے جو پارٹی مسلمانوں کے فلاح  بہبود کے لئے کام کرے گی مسلمان اسی کو اپنا ووٹ دیں گے ۔
موقع پر ضلع صدر رانا رندھیر سنگھ چوہان، نول کیشور رائے، شاداب احمد خان, کیرن گپتا، رام اقبال کرانتی، ضیاءالدین خان، شنکر بیٹھا، سجیت جھا، نسیم انصاری، اجے منڈل، افتخار انصاری، اجیت پٹیل، رضی خان، محمد نوشاد سمیت سینکڑوں لوگ موجود تھے ۔

جونپور: 25 روپے کے تنازعہ میں من بڑھ نے غریب کی پھونک دی گومٹی!

جونپور(آئی این اے نیوز 30/اکتوبر 2018) شہر کوتوالی تھانہ علاقہ کے مرزا پور روڈ پر ایک نوجوان نے گومٹی رکھ اپنے خاندان کی روزی روٹی چلانے کے لئے چھوٹی سی دکان سجا رکھی تھی، کل رات محلے کے ایک من بڑھ نوجوان شیرو نے محض 25 روپیے کے تنازعہ میں یہ دھمکی دی کی ہم تمہاری گومٹی کو رات میں پھونک دیں گے، دکاندار نے اس کی دھمکی کو نظر انداز کر دیا لیکن اس نے اس دھمکی کو سچ کر دکھایا اور رات کے اندھیرے میں اس کی گومٹی پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ کے حوالے کر دیا.
دکاندار ہمت علی نے بتایا کہ گومٹی میں اس نے ابھی جلد ہی بیس ہزار کا سامان اور پانچ ہزار نقد رکھے تھے وہ سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا ہے، اور میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کو کھانے کے لالے پڑ گئے اس کے پاس ابھی روزی روزگار کا کوئی اور ذریعہ نہیں رہ گیا ہے.
صبح میں انہوں نے 100 نمبر ڈائل کرکے پولیس کو بلایا لیکن کوتوالی تھانہ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی.

Monday 29 October 2018

معصوم عظیم کی شہادت، ہمارے بے بسی کی اور بزدلی کی واضح مثال ہے!

 محمد سیف الاسلام مدنی
ـــــــــــــــــــــــــــ
کیا اب طلباء مدارس کے احاطہ میں بھی اضطراب کی زندگی گزاریں گے، اس ملک میں آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کے ساتھ کیا حالات پیش آئے ہیں اسکو قلمبند کرنے کا بھی جی نہیں چاہتا ہے، کتنے تبصرے کئے جائے، کتنے تجزیے کئے جائیں، بے شمار تجزیات ملک کے دانشور علماء، ادباء، صحافی اور مضمون نگار حضرات کے موجود ہیں، جن سے نہ تو کوئی امید نظر آتی ہے اور نہ کوئی لائحہ عمل ملتا ہے.
مقتول محمد عظیم
میں قائدین ملت اسلامیہ سے شکوہ نہیں کرتا، بلا شبہ ملت کے قائدین نے ماضی میں قوم کی بے مثال رہنمائی کی ہے، اور آج بھی نامساعد حالات میں وہ ہماری رہنمائی کررہے ہیں، بلاشبہ وہ قائدین ہی تھے جنہوں نے ایسے حالات میں ہماری مخلصانہ رہنمائی کی تھی جب ہماری متحدہ طاقتوں کو ہمیشہ کے لئے توڑ دیا تھا، ہماری بڑی طاقتیں اس ملک سے جاچکی تھی، یہ قائدین کی دور اندیشی اور لائحہ عمل کا ہی نتیجہ تھا کہ ہماری تعداد تین کروڑ سے پچیس کروڑ تک پہنچی، ہم اپنے مستقبل سے آج بھی ناامید نہیں ہیں، لیکن اس کے لئے ہمیں ایک طریقہ کار کی ضرورت ہے ایک لائحہ عمل کی ضرورت ہے.
ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں بین المذاہب امن وامان اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے، اغیار میں بیٹھی ہوئی ہمارے خلاف نفرتوں کا خاتمہ ہوں، اور جو لوگ مجرم ہیں، اور بے گناہوں کے قتل میں ملوث ہیں، ان کو سزا دی جائے، ہم قائدین سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے حالات کا تجزیہ کریں اور اسکو بہتر بنانے کی کوشش کریں، مجرموں کے خلاف اقدامات کئے جائیں انکو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اور ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ کا ہر فرد متحرک اور حساس ہوجائے نفرتوں اور مصیبتوں کو کسی خاص مقام کے لئے محدود نہ سمجھیں بلکہ ہمہ وقت حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہیں.

مبارکپور: سڑک حادثے میں شوہر بیوی بری طرح زخمی، جيپ نے ماری ٹکر!

جاوید حسن انصاری
ـــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/اکتوبر 2018) مقامی تھانہ علاقہ کے ٹن ٹن موڑ پر اتوار کی دوپہر موٹر سائیکل سوار شوہر کیساتھ بیوی اور سالی کو سامنے سے آنے والے جیپ نے ٹکر مار دی جس میں شوہر بیوی شدید زخمی ہو گئے جنہیں مقامی لوگوں کی مدد سے کمیونٹی ہیلتھ سینٹر مبارکپور لایا گیا، جہاں صورت حال سنگین دیکھ ڈاکٹروں نے ضلع ہسپتال بھیج دیا ہے.
معلومات کے مطابق بلند شہر ضلع کے کرشنا راج بھر کی شادی مبارکپور تھانہ علاقہ کے نیٹھی گاؤں رہائشی ہری راج بھر کی بیٹی سجنا سے ہوئی ہے، كرشا راج بھر اس وقت سسرال آیا ہوا تھا اور اتوار کو اپنی بیوی سجنا اور سالی ریکھا کو موٹر سائیکل سے لے کر مبارکپور آ رہا تھا کہ ٹن ٹن موڑ کے پاس سامنے سے آنے والے جیپ نے ٹکر مار دی جس میں کرشنا 32 اور سجنا 29 شدید زخمی ہو گئے جبکہ ریکھا بال بال بچ گئی.

یہ پھول کھلا تو مگر کِھل کے مسکرا نہ سکا!

شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گذشتہ چار سالوں سے لگتا ہے کہ اب وہ 65 سال پہلے والا ہندوستان نہیں رہا، تہذیب وثقافت کے وہ علمبردار نہیں رہے، گنگا جمنی تہذیب کے متوالے بھی ناپید ہوگئے، محبت کی فضا نفرت میں تبدیل ہوگئ، آپسی بھائی چارے کا جنازہ نکل گیا، محبت والفت کے بول بھی کم سنائی دینے لگے، زہریلی فضا، نفرت کی دیوار، سیاست کی کالا بازاری اور حکومت کی گندی پالیسیوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا- یہی وہ ہندوستان تھا جس کی تہذیب وثقافت کی مثال دیگر ممالک کے باشندے دیتے نہیں تھکتے تھے، گنگا جمنی تہذیب یہاں کی ایک شناخت تھی، امن وسکون اور پیار ومحبت اس کی ایک انوکھی پہچان تھی، مل جل کر گلے لگ کر ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا یہاں کے باشندوں کا طرہ امتیاز تھا، نفرتوں سے نفرت کرنا اور محبت کے میٹھے بول بولنا اس کا شیوہ تھا، آپسی اتحاد اور بھائی چارہ کا ماحول یہاں کا خاصہ تھا لیکن اب تو یہ سارے امتیازات وخصوصیات ناپید ہوتے نظر آرہے ہیں فضا زہر آلود اور آپسی اتحاد واتفاق پارہ پارہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے- آئے دن ظلم وبربریت کے شکار اقلیت طبقہ کے افراد ہی ہو رہے ہیں کبھی گائے کے نام پر تو کبھی لوجہاد، آتنک واد اور دہشت گردی کے نام پر ہماری نسل کشی کا سلسلہ جاری وساری ہے -
کبھی اخلاق کی دررناک موت کا منظر سامنے دکھائی دیتا ہے تو کبھی جنید کی چڑھتی جوانی درندوں اور نام نہاد محب وطن  کے بھینٹ چڑھ جاتی ہے تو کبھی افرازول تو کبھی منہاج تو کبھی نجیب جیسا ہونہار طالب تعصب کی آگ میں جھلسا دیا جاتا ہے - یہ سلسلہ رک جاتا تو تھوڑا اشک بہا لیتے اپنے آپ کو کوس لیتے، آہے بھر لیتے لیکن یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے یہاں تک آپہونچا کہ محمد عظیم کی عظمت بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکی، پھول جیسا مسکراتا چہرہ بھی حیوانیت کی بھینٹ چڑھ گیا- مسکراتا چہرہ، دنیا کے پیچ وتاب سے بے خبر، گندی سیاست اور سیاست دانوں کی چال بازی سے نا آشنا بے دردی کے ساتھ پٹخ پٹخ کر شہید کردیا جاتا ہے- درندوں کی اولاد اس معصوم کی معصومیت پر ترس کھائے بغیر ایک ماں کے خواب کو چکنا چور کر دیتا ہے، باپ کی تمناؤں پر پانی پھیر دیتا ہے-
وہی آسمان جس پر کچھ دیر پہلے اس کی نظریں تھی وہ بے بسی کے ساتھ اس معصوم نوخیز غنچہ کو مسلا ہوا دیکھ رہاتھا -خیر ۔ کفنانے دفنانے کا انتطام شروع کیا جائے! یہ سب تو مسلم کمیونٹی کے لئے اب ہندوستان میں روزمرہ کا معمول ہے، ہمیں اس ملک کو بچانا ہے، اس کے سیکولرزم کو بچانا ہے، اس کے امن و امان کی ٹھیکیداری بھی ادا کرنی ہے، اور پھر ۲۰۱۹ کے الیکشن پر بھی خون کا نذرانہ ہم ہی کو تو پیش کرناہے لہٰذا ان سب کے پیش نظر کوئی کچھ نہ کہے، سب مون برت رکھ لو، قلم بند کردو، موبائل آف کردو، دو چار لاکھ روپیے لواحقین کے منہ پر مار کر ان کا بھی منہ بند کردو، اور زیادہ شورشرابہ ہو تو مزید دو چار رسمی بیانات، مقدمات کے اعلانات اور دور دورے کر لیے جائیں گے، مل گیا انصاف، ختم کہانی، یہی ہے ہندوستانی مسلمانوں کی مسلمانی! یقین نہ ہو تو حافظ جنید اور اخلاق دادری کی شہادت کو دیکھ لیجیے، شمبھولال دیگر اور سِنہا کے ٹولے پر نظر دوڑا لیجیے، اور اگر کسی ایک " ہجومی دہشتگردی " میں آپکی جھولی میں انصاف نظر آئے اور مجرمین کیفرکردار پر نظر آئیں تو بتائیے:
 ہندوستانی مسلمانوں کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ اسوقت وی بارود کے ڈھیر پر ہیں، ان کے لیے جہاں لازمی طورپر دعوتی فریضے کی انجام دہی ضروری ہے، وہیں انہیں مین اسٹریم میں اتر کر اپنی اس ذلت آمیز شبیہ کو بزور طاقت کچلنا ہوگا، اس کا طریقہ یہ نہیں ہوتاکہ آپ نے چند لوگوں کے جھانسے میں آکر ان کی بھیڑ بن کر ان کو اسٹیج دے دیا، ان کے بھوشن ہوئے، تصویریں شائع ہوئیں بن گئے سلیبریٹی، ہوگئے لیڈر، اور ختم ہوگئی ہمدردی- بلکہ اس کا لائحہ عمل یہی ہے کہ آپ ہجومی دہشتگردی کے خلاف سڑکوں پر اتریں اور تب تک ڈٹے رہیں جب تک کہ فاسٹ ٹریک کارروائی شروع نہ ہوجائے-
بگڑے ہوئے سنگھی زہر زدہ دہشتگردوں کا علاج اس کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے، آپ جب تک ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہاتھ جوڑ کر سیکولرزم کی بھیک مانگتے رہیں گے اتنے وقت میں مزید سینکڑوں جانیں اس جنون کا شکار ہوں گی-
 اگر آپ اپنا لوہا خود نہیں منواتے تو اس ملک میں آپ اسی طرح سیاسی قتل و غارت کے شکار رہیں گے، کم از کم اب تو آنکھیں کھولیں، ڈھکوسلوں سے باہر آئیے، حقیقت کا سامنا کیجیے، اور حقیقت یہی ہیکہ آزادی میں آپ کے باپ داداؤں نے اپنا خون پسینہ بہایا لیکن آزادی کے ستر سال بعد اسی ملک میں آپکی اوقات یہ ہیکہ، آپکی قومی شناخت پر آپکو راہ چلتے قتل کردیا جاتاہے،اور اب تو راجدھانی دہلی میں یہ ہورہاہے جہاں سیاسی، اور ملی لیڈرشپ کے مراکز بھی ہیں اور یہ راجدھانی کبھی ہماری شوکت و سطوت کا نشان ہوا کرتی تھی ۔یہ حال تاریخ میں کبھی شودروں کا ہوا کرتاتھا جسے پوری دنیا ذلّت کے نشان سے تعبیر کرتی ہے! اگر ان منتشر اور بکھرے بکھرے واقعات پر آپ کی آنکھیں نہیں کھلیں تو اجتماعی یلغار آپکو چٹ کرجائے گی، اگر آپ اپنی اسٹریٹیجی نئے سرے سے مرتب نہیں کرتے تو کوئی ابابیل، کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا، تاریخ بھی ذلّت پذیروں کے ساتھ نہیں ہوتی-(ماخوذ)
انتظار کیجیے محمد عظیم کے بعد اگلی باری کا ۔ آپ یا میں؟ 

اعظم گڑھ: صدرپور برولی میں منعقد سہ روزہ تبلیغی اجتماع اختتام پزیر!

حافظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
پھولپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/اکتوبر 2018) اعظم گڑھ ضلع پھولپور علاقہ کے صدرپور برولی گاؤں میں 26/اکتوبر بروز جمعہ سے شروع ہوئے سہ روزہ آل انڈیا تبليغی اجتماع میں ضلع سمیت دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے مسلمانوں سے اجتماع گاه مکمل بھر گیا تھا، جبکہ تیسرے دن تک اجتماع میں لوگوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا.
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گودھرا سے آئے حضرت مولانا اسماعیل صاحب نے کہا کہ ہمیں سنی سنائی بات آگے نقل نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کی تفتیش کی جائے، پھر آگے نقل کی جائے، مولانا نے کہا ہم سب ایک بن کر رہیں،
دین و اسلام اس چیز کا نام ہے کہ ہم اپنی سمجھ سے کوئی نئی بات نہ بنائیں، اللہ اور اس کے رسول صلعم کی احکام کو عام کریں، گھر گھر جاؤ اور سچائی کے چراغ کو روشن کرو، کوئی کہیں بھی کسی شکل میں بھی ہو دوسروں کی خدمت کریں.
 مولانا فراہیم صاحب نے کہا کہ یہ اجتمام لوگوں کے اخلاقی اصلاحات اور خود کو صاف کرنے کے لئے ہے، مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بننا چاہئے اور انہیں اسلام کے بنیادی اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ذاتی زندگی میں مکمل اسلام کو شامل کر سکیں، یہ لوگوں کی اصلاح کی الگ تحریک ہے، اس تین روزہ تبلیغی اجتماع میں پورے ملک  اور ریاست سے لاکھوں لوگوں نے شرکت کی ہے، انہوں نے کہا کہ اجتماع صرف جماعت کے سرگرم کارکنوں میں مقبول نہیں بلکہ ان کے ساتھ بھی ہے جو فعال طور پر منسلک نہیں ہیں.
مولانا زہیرالحسن صاحب نے اپنے دفاع میں کہا کہ حج اسلام میں فرض ہے جو مالداروں پر لازمی ہے، اجتماع میں شرکت مذہبی حقوق اور حیثیت کو بہتر بناتا ہے، جس میں معاشرے کے اندر مذہبی طاقت کا ذریعہ ہوتا ہے.
 گجرات سے تشریف لائے مولانا احمد لاٹ صاحب نے کہا کہ تنظیم کے کام کا طریقہ اور کسوٹی قرآن شریف اور نبی پاک صلعم کی زندگی ہے، اس کے برعکس چلنا اور اکیلے اپنی رائے کو اہمیت دینے والے اسلام کے کام کرنے والے طریقے سے تعلق نہیں ركھتے، اللہ اوراس کے رسول صلعم کے حکم کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے، صحیح اصولوں پر چلیں اور اچھے کام کریں، نماز، زکات اور روزہ کی پابندی کریں، اس سے ہی ترقی کا راستہ کھلتا ہے، لاكھو کی تعداد میں مسلمانوں کی آمد سے منتظمین نے اپیل کی تھی کہ سبھی لوگ صبر رکھیں اور اتوار کو آخری دن صبح دعا کے بعد گھر روانہ ہوتے ہوئے نظم و ضبط کا پورا خیال رکھیں.

Sunday 28 October 2018

ایک مثالی استاذ و مربی!

بقلم: محمد فہیم قاسمی
استاذ جامعہ شیخ الہند انجان شہید اعظم گڈھ

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی تم نے.
دنیائے فانی سے دنیائے باقی کی طرف کوچ تو سبھی کو کرنا ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، ہاں! کچھ لوگوں کا جانا بے شمار افراد کو غم زدہ کر دیتا ہے، ١٥صفرالمظفرکو جس ذات گراں مایہ نے اس فانی دنیا کو الوداع کہا، وہ علم حدیث کے استاذ، عربی ادب کے ماہر، تصنیف و تالیف کے شہسوار، تقریر و خطابت میں اسٹیج کی رونق، ترجمانی میں لاثانی، ایک باکمال استاذ اور باصلاحیت منتظم کی ہے، وہ ہستی استاذ المکرم حضرت مولانا عبدالرشید بستوی علیہ الرحمہ کی ہے، جن کی علمی لیاقت و صلاحیت کا تعارف عاجز کیا کرائے، حضرت الاستاد اپنی علمی و عملی صلاحیتوں کی بنیاد پر، استاذ المکرم حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے چہیتے اور معتمد تھے۔
احقر ٢٠٠٥ء  میں جامعہ امام انور کی جامع مسجد کے  اندرونی حصے میں امتحان داخلہ کی کاپی لکھ رہا تھا کہ لمبے قد، مناسب صحت، درمیانی آنکھوں، کشادہ پیشانی، سانولے سرخی مائل رنگ، سفید کرتے پائجامہ میں ملبوس، سر پر پنج کلی ٹوپی لگائے ہوئے، ایک پروقار، بارعب شخصیت مسجد میں داخل ہوئی، یہ شخصیت حضرت الاستاد مولانا عبدالرشید بستوی علیہ الرحمہ کی تھی، جو اس وقت بھی صدرالمدرسین تھے، یہ حضرت الاستاذ کا پہلا دیدار تھا۔
بحمداللہ احقر کا داخلہ عربی ششم (جو اسی سال قائم ہوا تھا) میں ہوگیا, ظہر بعد کے دو گھنٹے  حضرت الاستاد ہی سے متعلق تھے، جن میں مشکوۃ شریف کے آخر کا ایک جز اور موطا امام محمد کے اسباق تھے، حضرت پابندی سے درس میں حاضر ہوتے، اکثر اپنی دو یا تین سال کی بچی کی انگلیاں پکڑے اور کبھی اسکے برادر اکبر کو ساتھ لیے ہوئے درس میں جلوہ افروز ہوتے، اکثر خود ہی عبارت پڑھتے، مختصر الفاظ میں متعلقہ عبارت کے مناسب، تسلی بخش تشریح فرماتے اور یہی طرز تشریح اختلافی مسائل میں بھی اختیار فرماتے اور طلبہ اس تشریح سے بالکل مطمئن ہوتےجاتے۔
 حدیث پاک کا جز ہے " نصرت بالرعب" کہ رعب کے ذریعے میری مدد فرمائے گی، حدیث رسول کے درس دینے والے کی اس کے ذریعے سے مدد کیوں نہ فرمائی جاتی، یقینا حضرت الاستاد کی شخصیت بہت ہی بارعب تھی؛ لیکن طبیعت نہایت ہی نرم، چال انتہائی سبک،نگاہیں نیچی، زیارت و ملاقات کے وقت خوش دل، بات کرتے وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ رقصاں، طلبہ پر نہایت شفیق اور مہربان باپ کی طرح تھے۔
دوران تعلیم احقر نے  عربی انشاء کے مشق کی درخواست کی، تو حضرت الاستاذ نے اس درخواست کو نہ صرف یہ کہ شرف قبولیت سے نوازا؛ بلکہ حوصلہ افزائی بھی  فرمائی، اور مسلسل پورے سال بعد نماز عصر جامعہ کی مسجد میں  پڑھاتے رہے، پھر احقر دارالعلوم وقف میں دیوبند میں علمی تشنگی بجھانے کا موقع حسین موقع ملا، تو ملاقات میں گرچہ کمی واقع ہوگئی، لیکن جب بھی حاضری کا موقع ملتا دل باغ باغ ہو جاتا.
فراغت کے بعد وقفہ وقفہ سے  حضرت الاستاذ سے ضرور بات ہوتی تھی، جب بھی رابطہ ہوتا، آپ نہایت خوش ہوتے اور ڈھیر ساری  دعاؤں سے نوازتے۔
ابھی گزشتہ سے پیوستہ مہینے ایک ضرورت سے حضرت الاستاذ سے گفتگو ہوئی، ضرورت کیا بیان کرتا، حضرت الاستاذ نے سلام کے بعد فرمایا: بیٹے! میں بہت بیمار ہوں، یہ سن کر جو ہستی ہمیشہ دعاؤں سے نوازتی رہی، یہ بندہ عاصی  اس کی صحت و عافیت کی دعائیں کرنے لگا اور حضرت الاستاذ کی مقبول دعائیں لے کر فون رکھ دیا اور دنیاکےشب وروز میں کھو گیا، بدقسمتی سے دنیا کی مصروفیات میں اتنا منہمک ہوا کہ دوبارہ رابطہ کرنے کی سعادت نہ مل سکی، معمول کے مطابق بعد نماز مغرب اپنے کاموں میں لگا ہوا تھا کہ اچانک بذریعہ میسج یہ خبر موصول ہوئی کی مولانا عبدالرشید بستوی کا انتقال ہو گیا، یہ خبر کیا تھی ایک آسمانی صائقہ تھی، جس سے پورا وجود ششدر رہ گیا اور حیرت و استعجاب میں دل یہ صدائیں لگانے لگا کی کاش یہ خبر سچ نہ ہوتی؛ مگر رفیق محترم مولانا بدر الاسلام صاحب قاسمی (استاد جامعہ امام انور شاہ دیوبند) کی تصدیق نے اس خبر کو سچ ہی ثابت کردیا، ان کے انتقال کی خبر اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ مسلسل تصدیقات، نماز جنازہ، لحد میں دفن ہو جانے کے بعد بھی حضرت الاستاذ کی موت کا یقین نہیں ہوتا لیکن میرے یقین نہ کرنے سے کیا ہو سکتا ہے، جبکہ حضرت الاستاذ اپنی تمام خوبیوں اور نیرنگیوں کو سمیٹ کر ١٥ صفر المظفر ١٤٤٠ بمطابق٢٥ اکتوبر ٢٠١٨ کو ہمارے درمیان سے رخصت ہوچکے؛ البتہ اپنی علمی کاوشوں اور کارناموں سے حضرت الاستاذ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے دین اسلام کی خدمت کا بہترین بدلہ عطا فرمائے، نیز پسماندگان و متوسلین اور جامعہ کے منتظمین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
         ــــــــعـــــــ
علم والے علم کا دریا بہا کر چل دیئے
 واعظان قوم سوتوں کو جگا کر چل دیئے
کچھ سخن ور تھے کہ سحر اپنا دکھا کر چل دیئے
کچھ مسیحا تھے کہ مردوں کو جلا کر چل دیئے

سرزمین اعظم گڑھ میں تبلیغ کا کام کب اور کیسے شروع ہوا؟

از نشریات: مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ یوپی
ـــــــــــــــــــــــــــ
مشرقی یوپی کے ضلع اعظم گڑھ میں تبلیغ کا کام سن 1958 کے بعد شروع ہوا جب مولانا ابراہیم دیولہ صاحب پہلی مرتبہ جماعت لیکر اعظم گڑھ تشریف لائے تھے، تو بقول مولانا ہم کو کوئی پوچھتا نہیں تھا، اور نہ ہی کوئی ہمارے کام میں تعاون کرتا تھا، علاقہ بھی نیا اور ہم بھی نئے  تھے، تو ایک روز میں حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری نوراللہ مرقدہ خلیفہ شیخ المشائخ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر خدمت ہوا، تو اس وقت حضرت بالکل نحیف ولاغر ہوچکے تھے، انتہائی کمزوری کے حالت میں بھی دینی واصلاحی کام جاری تھا مولانا عصر کے بعد اصلاحی مجلس منعقد کرتے تھے اتفاق کہ میں اسی وقت حاضر ہوا، اور مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی نظر جب مجھ پرپڑی تو اپنے لوگوں سے کہا کہ
دیکھو یہ لوگ آئے ہوئے ہیں  ان کا خیال رکھنا، اس وقت ہم بہت مشکلات کا سامنا کررہے تھے ۔جس کام میں جتنی تکلیف اور صعوبت برداشت کرنا پڑے وہ کام اتنا ہی پختہ ہوتا ہے۔ تو ہم دعوت وتبلیغ میں بے کسی اور بے بسی کی حالت میں ایام بسر کرتے تھے۔جب ہم لوگ عصر کے بعد گشت کے لئے نکلتے تھے تو لوگ ہم لوگوں کو دیکھ کر کسی مدرسے  کا سفیر اور چندہ والا سمجھتے تھے اور چندہ دینے کے لئے نکلتے تھے، تو اس وقت لوگوں کو دعوت وتبلیغ سے اتنی ناواقفیت تھی کہ لوگ اس کاکام میں حصہ لیتےاور ساتھ دیتے لیکن ایک عالم دین کی تائید نے وہ کارنامہ انجام دیا جو موجودہ دور میں ہم کو پھلتا پھولتا نظر آرہا ہے۔
ہمارے پیارے تاریخی شہر اعظم گڑھ میں تبلیغ کا مبارک کام حضرت مولانا ابراہیم دیولہ صاحب دامت برکاتہم اور پھولپور علاقے کی بزرگ شخصیت حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الغني صاحب پھولپوری رحمتہ اللہ علیہ بانئی مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کی توجھات سے امید برآئی اور کام رنگ لایا، اور بانی جماعت حضرت اقدس مولانا محمد الیاس صاحب کے اخلاص نے نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جس کو دنیا کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔اس کام  کی محنت سے دنیا کے ہر گوشے اور ہرخطے میں دین پہنچا ہے اور دین واسلام سے دوری اختیار کرنے والے لوگوں کو کلمہ کی دولت نصیب ہوئی اور نماز کا طریقہ سیکھنے کا موقع ملا، خواہ وہ جس عمر کے بھی ہوں اپنا جان مال اللہ کے راستے میں قربان کرکے دین حاصل کرنے کا کام کیا ہے۔
اسی کام کی ایک کڑی 26 تا 28اکتوبر 2018بروز جمعہ تا اتوار شروع ہونے والے اعظم گڑھ کی سرزمین پھولپور سے متصل برولی میں ہونے والا اجتماع  ہے جس کا آغاز ہوچکا ہے.
اس اجتماع کے ذمہ دار ڈاکٹر وپروفیسر عبدالمنان صاحب علیگڈھی اجتماع کے تعلق سے مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر تشریف لائے ۔چنانچہ ناظم اعلیٰ مدرسہ ہٰذا مفتی احمد اللہ پھولپوری دامت برکاتہم العالیہ خلیفہ وجانشین محسن الامت حضرت اقدس مولانا شاہ مفتی عبد اللہ صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہ و نبیرہ حضرت مولانا عبد الغنی پھولپوری رحمتہ اللہ علیہ نے دادا جان کے نہج پر اس کام کی پرزور تائید کی ۔اور وقت کی ضروت بتاتے ہوئے علاقے کے لوگوں سےاجتماع میں  شرکت اور زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی اپیل کی ۔اور مزید مہمان خصوصی کی رہائش کے لئے  سہ منزلہ مرکزی خانقاہ شاہ ابرار جو تقریباً ساٹھ کمروں پر مشتمل ہے اس میں اور اس خانقاہ سے متصل چار منزلہ  مسجد (مسجد عبداللہ) میں بھی نظم کیا گیا ہے۔جس میں حضرت پھولپوری رحمتہ اللہ علیہ کے  وطن کی خوشبو شامل ہے.
ماشاءاللہ علاقے کے لوگوں نے کافی محبت نچھاور کیا اور اجتماع کی کامیابی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔وہ لوگ قابل مبارکباد ہیں۔
اللہ پاک حضرت پھولپوری کی قبر کو نور سے بھر دے اور حضرت مولانا ابراہیم دیولہ صاحب کی عمر میں برکت نصیب فرمائے. آمین

بنت حوا تباہی کے دہانے پر!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
مذہب اسلام دین فطرت ہے، مذہب اسلام کے تمام تر احکام اسی کے مطابق ہیں، ایک فطرت سلیمہ جس کا تقاضہ کرے،اسلامی شریعت معاشرتی زندگی کے خوشگوار بنانے پر زور دیتی ہے، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کو مذہب اسلام میں خاص اہمیت حاصل ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پورے نوع انسانیت کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے، مظلوموں کو انصاف بے سہاروں کے لئے معین ومددگار بن کر آپ اس دنیا میں تشریف لائے، بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عورتوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے، زندہ درگور کردیا جاتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمت بنا کر بھیجیے گئے، چنانچہ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا جس کا وہ حق دار تھی،عورت اگر ماں ہے تو آقا نے فرمایا اس پیروں تلے جنت ہے،عورت اگر بیوی ہے تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی کے منہ میں کھانے کا لقمہ رضائے الہی کے لئے ڈالنے پر اللہ تبارک وتعالی ثواب سے نوازتا ہے، اسلام نے عورت کو عزت بخشا، بعثت نبوی سے پہلے صنف نازک پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے، اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب نبی کو رحمة للعالمین بنا کر بھیجا، آپ ساری انسانیت کے لئے رحمت ہیں، آپ پر نازل کردہ شریعت نے بھی عورتوں کو وہ مقام دیا جواس سے پہلے نہی ملا تھا، وراثت میں اللہ نے ان کا حصہ مقرر کیا، اور پوری تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیان کیا.
مذہب اسلام انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، اسلام کی عمدہ تعلیمات سے متاثر ہوکر پوری دنیا میں مذہب اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، خصوصا مغربی ممالک میں اسلام کے حلقہ میں داخل ہونے والوں کی بڑھتی تعداد دیکھ کر اسلام سے بیر رکھنے والے حیران پریشان ہیں، یہی وجہ ہے مذہب اسلام کے بارے میں طرح طرح شکوک شبہات پیدا کرنے کی عالمی کوشش جاری ہے، شرعی احکام کی غلط تشریحات کرکے سادہ لو اور دین سے ناواقف مسلمانوں کے دلوں سے اسلامی شریعت کی عظمت و وقار کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، خصوصا کالج کا طبقہ جن کا عام طور سے علماء سے تعلق نہیں ہوتا دین سے یا تو ناواقف ہوتے ہیں یا دین کے سلسلہ میں اتنی معلومات نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعہ حق وباطل کو ممتاز کرسکیں، یہی وجہ ہے کہ کالج کا ایک مخصوص طبقہ احکام شرعیہ پر اعتراض کے درپہ ہے، العیاذباللہ کچھ لوگ اسلام کو ہی خیرآباد کہہ چکے، اس  میں زیادہ تعداد مسلم خواتین کی ہے، ہندوستان میں منظم طریقہ سے خواتین کے ایمان پر ڈاکہ زنی کی جارہی ہے.
قصور ان کا نہیں قصور اپنا ہے:
ہندوستان میں کچھ خواتین کے ارتداد کی خبریں سن کو مل رہی ہیں، ہندوستان میں بڑھتے ارتداد کی لہر کے جہاں بہت سے اسباب بیان کئے جارہے ہیں وہیں سب سے بنیادی اور اہم وجہ یہی ہے کہ ان خواتین نے اسلام کو صحیح طور پر سمجھا نہیں، اسلام کی قدر و منزلت ان کے دلوں میں رچی بسی نہیں تھی، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ فرمان سے ناآشنا تھیں،قصوران کے والدین کا بھی ہے جو اپنی اولاد کو دین سے دور رکھا، ایمان کی قدر و منزلت ان کے دلوں نہیں بیٹھایا.
ارتداد کے اسباب:
موجودہ وقت میں ہندوستان میں فتنہ ارتداد زور پکڑتا جارہا ہے، اور نہایت ہی سنگین مسئلہ بن گیا ہے، جہاں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے اس ایشو کو عام کرنے میں، سچ اور جھوٹ کی آمیزش پر مبنی خبروں نے اس فتنہ کو حد سے زیادہ سنگین بنا دیا ہے.
جہیز کا بھی اہم کردار:
فتنہ ارتداد کی ہوادینے میں جہاں بہت سے اسباب ہیں وہیں جہیز کا بھی اہم کردار ہے، آج مسلم معاشرہ شریعت مطہرہ سے انتہائی دور ہوچکا ہے، ہماری شادیوں میں اور غیر مسلموں کی شادیوں میں اب کوئی فرق نہی رہ گیا سوائے مذہبی چیزوں کو چھوڑ دیا جائے، مسلم معاشرہ فضول رسموں میں پڑ گیا، جہیز جو ایک غیر اسلامی رسم ہے، اس کا رواج عام ہوتا جارہا ہے، اب جہیز کی فرمائش کی جانے لگی ہے، یہی وجہ ہے ایک غریب باپ اپنی بیٹی کی شادی کرنے سے عاجز وقاصر ہے، جہاں پہلے یہ خبریں سننے کو ملتی تھیں فاطمہ عابدہ نے خودکشی کرلیا، ان کے والدین نے ٹھیک عمر میں شادی کرنے سے بیچارے قاصر رہے، معاشرہ میں اس بچی کو بےپناہ طعنہ ملتے تھے، بیچاری فاطمہ، عابدہ خودکشی پر مجبور ہوجاتی تھیں،اگر وہ مسلم دوشیزہ خودکشی کررہی ہے، تواس کے ذمہ دار تمام لوگ ہیں، کیونکہ ہم نے مل کر اس گھٹیا معاشرہ کو تشکیل دیا، جس کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہوئی لہٰذا گناہ میں پورے معاشرہ کے لوگ شریک ہوں گے، اور سب کے سب گنہگار ہوں گے.
بددینی بھی اثر انداز:
کل تک بنت حواء کے بارے میں یہ خبر ملتی تھیں فاطمہ رقیہ مناسب جوڑا نہ ملنے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر گئیں، آج کل ہم ماڈرن اسلام کے نام لیوا ہیں، اپنی بچہ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی جب وہ چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں تو ان کو انگلش میڈیم اسکولوں میں داخلہ دلواتے ہیں، بچپن ہی سے وہ بچہ غیر کی تعلیم پاتا ہے، وہ نام توعبدالرحمان رکھا ہوا ہے لیکن صرف نام کا مسلمان ہے، نہ اسے اسلام کے بارے میں کچھ معلومات ہے، کن چیزوں سے اسلام کی سرحد سے انسان خارج ہوتا ہے اسے نہیں معلوم، وہ تو وراثت میں بس اسلام کو پاگیا، قرآن بھی اسے پڑھنا نہیں آتا.
جب جوانی کی عمر میں قدم رکھتا ہے، مخلوط تعلیم حاصل کرتا ہے، اس کے ذہن میں یہ بیٹھا ہوا ہے وہ ایک ماڈرن مسلمان ہے، اجنبی لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ان سے بات کرنا ہنسی مذاق کرنا ان کے نزدیک کوئی بری چیز نہیں، حالانکہ مذہب اسلام وہ پاکیزہ مذہب ہے جو زنا ہی سے نہیں بلکہ ان تمام چیزوں پر روک لگا دیتا ہے جو زنا تک پہنچانے والے ہیں، اسلام تو کہتا ہے اجنبی لڑکی سے گفتگو کرنا حرام ہے، لیکن ہمارا وہ بچہ جس کو ہم نے اسلام سے دور رکھا، اللہ کے فرمان "و لاتقربوا الزنا" سے دور رکھا، اس کے نزدیک اجنبیہ لڑکی سے خلوت اور اس سے دوستی کوئی بری چیز نہیں، بربادی کی راہ تو ہم نے تیار کی ہے، قصور آر ایس ایس یا بجرنگ دل کو دینے سے کوئی فائدہ نہیں، ہم نے ہی اپنی اولاد کو تباہی کی راہ پر ڈھکیل دیا، دین سے دور رکھ کر خود بھی اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کئے، اور اولاد کی زندگی کو بھی برباد کیا، انسان کا دل ہے، اب کس پر فدا ہوجائے اسے نہیں معلوم، محبت ایسی چیز ہے نہ ذات دیکھتی ہے، نہ مذہب، محبت نام ہی ہے دل کسی کی طرف مائل ہونا، قصور تو اپنا ہے کہ ہم نے اسے بربادی کی طرف دھکیلا، اسلام تو پردہ کا حکم دیتا ہے، پردہ کی وجہ بہت سے گناہ سے انسان بچ جاتا ہے، اور غلط لوگوں کی نگاہوں سے بھی  حفاظت ہوتی ہے، اسلام کاہر حکم حکمت سے خالی نہیں، لیکن ہم نے اپنی بچی کو یہ سکھایا ہے پردہ تو اصل دل کا ہے، دل صاف ہونا چاہیے، چہرہ کا پردہ ضروری نہیں، اسے معلوم بھی کیسے ہوتا کہ چہرہ کا پردہ ضروری ہے، اللہ نے قرآن میں پردہ کا حکم دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ کے سلسلہ میں سخت ہدایات ارشاد فرمائے ہیں، ہم نے تو اسے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرایا، اگر آج ہماری لڑکی بے پردگی کی وجہ سے کسی رام کیلاش یا رام پرساد سے عشق کر بیٹھی تو قصور اسلام کا یا اسلامی تعلیمات کا نہیں، ایمان کی قدر و منزلت تو کبھی ہم نے اسے بتایا نہیں، قصور ہمارا ہے کہ ہم نے اپنی اولاد کے لئے یہ راہ فراہم کیا،
بڑھتے ارتداد کی خبروں میں جہاں میڈیا کا اہم رول ہے، میڈیا کو وہ فن حاصل ہے کہ چوہے کو ہاتھی بنا کر پیش کردے، معمولی بات بڑھا چڑھا کر پیش کردے، وہیں ہم نے دوسری طرف ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے کہ اب ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، شادی بیاہ میں اس طرح غیراسلامی رسم و رواج کو فروغ دے دیا ہے کہ اس زمانے میں شادی انتہائی مشکل ہوگئی ہے،  یہی وجہ زنا اور دوسرے گناہ کے راستہ روز بروز بڑھ رہے ہیں، نکاح کو اسلام نے انتہائی آسان بنایا ہے، مدینہ طیبہ ہی میں حضرات صحابہ کرام کا نکاح ہوجاتا تھا، اللہ کے رسول تک کو بھی خبر نہ ہوتی تھی، آج ہم صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کا دعوی کرنے والے نکاح کا اس قدر اہتمام ہو رہا ہے، کہ شادی کے بعد مقروض ہونا پڑجاتا ہے، قصور اغیار کا نہیں قصور اپنا ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات سے منہ موڑلیا ہے، یہ فتنہ ارتداد کاسلسلہ تبھی رکے گا، جب ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دین کی تعلیم دیں گے، ایمان کی قدرومنزلت ان کے دلوں میں بیٹھائیں گے، اور شادی بیاہ اسلامی طرز پرکریں گے، جب شادیاں سادگی سے ہوں گی تو بہت سارے فتنہ اور گناہ خود بخود بند ہوجائیں گے.
موجودہ زمانے کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا، موجودہ حالات کامشاہدہ کرنے کے بعد دل یہی کہتاہے کہ آزادی سے پہلے جوحالات تھے جن کی منظرکشی مفکراسلام سیدابوالحسن ندوی رحمہ اللہ نے القراءہ الراشدہ جلد تین میں کیا ہے، بعینہ وہ حالات نظر آرہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ اس وقت پادری اپنے مذہب کی تبلیغ پورے زور شور سے کررہے تھے، اللہ جزائے خیر دے اکابر علماء دیوبند کو جب امت مسلمہ غریبی سے لڑرہی تھی، پیشہ کی لالچ میں کچھ لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے تھے، اورارتداد کی راہ کی طرف لے جارہے تھے، ایسے نازک ترین حالات جب ہندوستان میں ارتداد کی لہر چل پڑی تھی، علماء دیوبند نے ارتداد کی لہر ہی کو نہیں روکا بلکہ ہندوستان میں اسلام کا ایک روشن چراغ دارالعلوم دیوبند کی شکل جلایا، جس کے فیض سے آج پوری دنیا منور ہو رہی ہے، اللہ تعالی ان اکابرین علماء دیوبند کی قبروں کو منورکرے جنہوں نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرے، آخر میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعاہے پھر امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی اور حجة الاسلام مولانا قاسم نانوتوی رحمھما اللہ کی شکل میں کوئی نیک بندہ کھڑا کردے جو اس فتنہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور اللہ کی زمین میں اللہ کے دین کو عام کرے.آمین.

مبارکپور: نگرپالیکا کی لاپرواہی سے روڈویز سمیت قصبہ کے کئی چوراہوں پر ای رکشہ، ٹیمپو، ٹھیلہ بے ترتیب کھڑا کرنے سے لوگوں کو ہورہی ہے پریشانی!

جاوید حسن انصاری
ــــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/اکتوبر 2018) مسلم اکثریتی ریشم نگری مبارکپور مین چوراہا سمیت پورے قصبہ میں نگرپالیکا کے ذمہ داروں کی لاپرواہی سے بےترتیب  آٹو رکشہ کھڑا کرنے سے آئے دنوں راہگیروں اور مقامی لوگوں کو بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب وہ اسی مقامی لوگوں کے خلاف بولتے ہیں، تو وہ حملہ آور ہوتے ہیں، جس کی شکایت مقامی پولیس اور نگر کے ذمہ داروں تک پہنچ جاتی ہے، اس کے باوجود بھی مقامی نگرپالیکا چیئرمین برابر نظر انداز کر رہے ہیں.
معلوم ہو کہ مبارکپور قصبے کی دھڑکن مانے جانے والا چوراہا جہاں درجن بھر گاؤں کے لوگوں کا مین مارکیٹ میں جانے والا اہم چوراہا ہے، جہاں بغیر روک ٹوک کے من مانی سے آٹوركشہ اور ٹھیلہ کھڑا کر دیتے ہیں، راستہ بند ہونے سے آئے دن جام کی صورتحال رہتی ہے، اسکول طلبہ و راہگیروں سمیت اغل بغل دکان اسے لے کر سب پریشان ہیں، چوراہے پر پولیس بوتھ بھی ہے، لیکن ان لوگوں کے اوپر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، آئے دن جام لگ جاتا ہے.
گاندھی اسمارک انٹر کالج کا مین مارکیٹ میں جانے والے راستوں پر بے ترتیب آئے دن آٹو رکشہ و ٹھیلہ لگا کر راستہ بند کرنے سے لوگوں کے سامنے مصیبت کھڑا کرتے ہیں، اتنا ہی نہیں جن کی دکان ہے اس کے سامنے بھی ٹھیلہ لگا کر اپنا سامان بیچنے لگتے ہیں، جسكی مخالفت پر اس خریداروں سے بھی مار پیٹ کرنے کو کھڑے ہو جاتے ہیں، ادھر آٹو ڈرائیور بھی من مانے طور پر آٹو رکشہ کھڑا کر رہے ہیں، جس سے ہمیشہ  راستہ جام ہوجاتا ہے، کبھی کبھار تو اسے لے کر راہگیروں اور آٹو ڈرائیور میں تو تو میں میں بھی ہونے لگتا ہے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ لوگ  بائک اور سائیکل لے کر کے راستے سے نکلنے سے عاجز ہوجاتے ہیں.
لوگو کا الزام ہےکہ نگرپالیکا کے ذمہ داروں کی بڑی لاپرواہی سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے جو کبھی بھی بڑا واقعہ بن سکتا ہے، لیکن ووٹ بینک کے چکر میں نگر پالیکا چیئرمین اس پر توجہ نہیں دے رہے ہیں جس سے لوگو میں ناراضگی ہے.

Saturday 27 October 2018

مولانا عبدالرشید بستوی کے انتقال پر ایک تعزیتی پروگرام کا انعقاد!

رپورٹ ایم اے خان
ــــــــــــــــــــــــــ
مہراجگنج(آئی این اے نیوز 27/اکتوبر 2018) گزشتہ 26/اکتوبر بروز جمعہ کو موضع بیجناتھ پور عرف چرکا کی جامع مسجد میں ایک تعزیتی پروگرام کا انعقاد بنام مولانا عبدالرشید بستوی مدرس جامعہ امام انور شاہ کشمیری منعقد ہوا، جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور مولانا کیلئے ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا گیا اور انکے خدمات کو سراہا گیا.
پروگرام میں بطورِ مہمان خصوصی قاری محمد عالم محمود الفرقانی الاصلاحی مدرس سعودی عرب نے بھی شرکت فرمائی اور مولانا مرحوم کے حالات زندگی پر مفصل روشنی ڈالی، اخیر میں مناظر اسلام عارف باللہ مولانا مرتضیٰ قاسمی بانی و مہتمم مدرسہ حفظ العلوم کے دعاء پر پروگرام کا اختتام ہوا.
اس موقع پر حاجی محمود عالم، حاجی محمد شمشاد، مولانا سعید القاسمی، حافظ ابوالکلام، پرویز خان، زبیر خان، ماسٹر صادق وغیرہ نے بھی شرکت فرمائی.

ایک باکمال شخصیت کا وصال!

از: محمد عفان منصورپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
     استاذ محترم حضرت مولانا عبدالرشید صاحب بستوی علیہ الرحمہ اچانک داغ مفارقت دے گئے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ باری تعالی مرحوم کو غریق رحمت فرمائیں ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں اور پسماندگان ومتعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائیں ۔
    حضرت الاستاذ کی ناگہانی خبر رحلت نے دل و دماغ کو غیر معمولی طور پر متاثر کردیا، واٹس اپ پر یہ افسوسناک خبر پڑھنے کے بعد کچھ دیر تک تو یقین ھی نہ آیا پھر جب ہرطرف سے تسلسل کے ساتھ خبر آنے لگی تو یقین کرنا ھی پڑا ۔
   حضرت الاستاذ سے مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں ادب عربی کے سال اگرچہ چند مہینے ہی اسالیب الانشاء پڑھنے اور عربی زبان وادب کی تمرین کا موقع ملا لیکن سب ساتھیوں کا یہ تاثر رہا کہ اس دوران جو سیکھ لیا گیا وہ ایسا قیمتی سرمایہ تھا جو تا عمر کام آتا رہیگا۔
   سچی بات یہ ہے کہ آج تک آپ کا اچھوتا انداز درس، ٹکسالی ترجمہ ، ہر ہر لفظ کی دلنشیں تحقیق وتشریح کا طریقہ اور اسالیب الانشاء کی لغات لکھانے کا طرز ( عربی الفاظ وکلمات کا ترجمہ اردو کے ساتھ ساتھ مرادف وسھل عربی الفاظ میں ) ذھن ودماغ پر ایسا نقش ہے کہ مٹائے نہیں مٹ سکتا ۔
ایک ایک اردو جملے کو مختلف اسلوب میں عربی کا جامہ پہنانا ، تمرین کی کاپی چیک کرتے وقت یا جملے سنتے وقت مخصوص انداز میں حوصلہ افزائی کے کلمات کہنا ، بلا ناغہ اور پابندی وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے بھرپور تیاری کے ساتھ درس گاہ میں تشریف لانا اور پھر زبان و بیان ، ادب و انشاء کے جواہر پارے، عربی اردو محاورات اور  فصیح وبلیغ تعبیرات کو ذکر کرنا وہ یادیں ہیں جو کبھی بھلائی نہیں جا سکتیں۔
    کاپیوں میں حضرت الاستاذ نے اس وقت جو لکھوا دیا تھا آج بھی درس کے وقت اس پر ایک نگاہ ڈال لینا انتہائی مفید معلوم ہوتا ہے  ۔
   آپ انتہائی جید الاستعداد ، وسیع العلم ، کثیر المطالعہ اور علمی اعتبار سے نہایت اعلی ذوق کے حامل تھے۔
عربی زبان میں ادیبانہ شان رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو فارسی اور اردو ادب میں بھی عبور حاصل تھا خاص طور پر ترجمہ نگاری میں آپ کا ثانی بآسانی دستیاب نہیں ہوسکتا۔
 آپ کے درس کا کمال یہ تھا کہ اسمیں شمولیت کے بعد عربی اور اردو دونوں زبانوں کے ادب سے یکساں طور پر واقفیت ہوتی تھی ، جملوں کی صحیح ساخت وبناوٹ، تعبیرات و محاورات، اور امثلہ و حکم کو استعمال کرنے کے مواقع معلوم ہوتے تھے، وہ عربی عبارات کے اردو ترجمے کو بھی بہت اہمیت کے ساتھ سمجھاتے تھے اور پھر اسے توجہ سے سنتے بھی تھے معمولی سی غلطی بھی ھوتی تو اسکو ٹھیک کرواتے یا کاپی میں اصلاح فرماتے ان کا یہ انداز طلبہ میں خود اعتمادی پیدا کردیا کرتا تھا اور کچھ ہی دنوں میں عبارات کو از خود حل کرنے کی اور کسی بھی عنوان پر مضمون لکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جایا کرتی تھی۔
       خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں جانے والے میں

سیکولرزم کے نام پر اپوزیشن پارٹیاں مودی اینڈ کمپنی کو کررہی ہے مضبوط: نظرعالم

دہلی میں 8سالہ معصوم اور سیتامڑھی فسادمیں درجنوں لوگوں کا قتل جمہوری ملک کیلئے شرمناک: نیازاحمد

مسلمانوں پرہورہے لگاتارتشدد پرجمعیۃ علماء ہند بہار اور امارت شرعیہ، پٹنہ خاموش کیوں؟: مہدی رضا

سالم آزاد
ـــــــــــــــــ
مدھوبنی(آئی این اے نیوز 27/اکتوبر 2018) لگاتار ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، لنچنگ کے نام پر پہلے ہی سیکڑوں بے قصور مسلمانوں کو بیچ سڑکوں پر مار دیا جاچکا ہے لیکن کسی بھی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی زبان تک نہیں کھلی، ایک طرف ملک کی راجدھانی دہلی جیسی جگہوں پر بے قصور 8 سالہ معصوم کو لنچنگ کا شکار بناکر مارا جارہا ہے اور دوسری طرف نام نہاد اپوزیشن پارٹیاں مودی اینڈ کمپنی کو مضبوط کرنے کی سیاست میں مصروف ہے، ملک میں اِن دنوں جمہوریت کا کھل عام قتل کیا جارہا ہے، نام نہاد سیکولر لوگ تماشائی بنے بیٹھے ہیں
اور مودی کے ہٹنے کا انتظار کررہے ہیں، کیا مودی کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد نام نہاد سیکولر پارٹیاں ملک کے سبھی مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے ساتھ انصاف کر پائے گی اس کی جواب دہی کون لے گا؟ کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ ملک کی جتنی بھی سیکولرزم کے نام پر اپوزیشن پارٹیاں سیاست کررہی ہیں وہ اپنی کرسی کی سیاست میں مصروف ہیں اور مودی کمپنی کو یک طرفہ مضبوطی پہنچانے کا کام کررہی ہے؟جس مودی اینڈ کمپنی کو جیل کی سلاخوں میں ہونا چاہیے تھا آج ملک کا وزیراعظم بنا بیٹھا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اُترپردیش جیسی ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ جس کو ملک اور بیرون ملک کے بہت سارے اخباروں نے دہشت گرد بتایا اُسے وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھادیا جاتا ہے ملک کے لوگ تماش بین بن کر کھل عام غنڈہ گردی اور معصوم مسلمانوں کے قتل عام کا تماشہ دیکھ رہے ہیں جو جمہوری ملک کے لئے شرمناک ہے، اگر جمہوری ملک کو بچانا ہے تو سبھی اپوزیشن پارٹیاں ہوش کے ناخن لے اور کرسی کی سیاست چھوڑ عوام کے حق میں کام کرے اور اس کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے امن اور خوشگوار ماحول میں نفرت کی سیاست کرنے والوں کے خاتمہ کے لئے ایمانداری کے ساتھ سڑکوں پر اُترے، ملک تبھی مضبوط ہوگا جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ برابری اور انصاف کا معاملہ بنے گا، اگر کسی ایک ذات یا مذہب کے ماننے والوں کو سازش کے تحت نشانہ بنایا جاتارہا تو ملک مضبوط ہونے کی جگہ کمزور ہوگا؟ مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے صدر نظرعالم نے پریس بیان میں کہی۔ وہیں دوسری جانب انصاف منچ کے ریاستی نائب صدر نیاز احمد نے دہلی میں 8 سالہ معصوم اور سیتامڑھی میں درجنوں لوگوں کے قتل پر بولتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے ملک کی راجدھانی میں ایک 8 سالہ معصوم کو لنچنگ کے نام پر مار دیا جارہا ہے یقیناً سوچنے کو مجبور کرتا ہے کہ ملک کدھر جارہا ہے، نیازاحمد نے صاف لفظوں میں کہا کہ یہ بات ملک کی عوام سمجھنے لگی ہے کہ مسلمانوں کو بھاجپا حکومت جان بوجھ کر نشانہ بنارہی ہے اور جہاں تہاں لنچنگ کے نام پر مار رہی ہے۔
 مسٹر نیاز نے آگے کہا کہ اپوزیشن پارٹیاں 8 سالہ معصوم کے قتل پر تو خاموش ہے ہی سیتامڑھی میں مورتی وسرجن معاملے کو لیکر جس طرح سے درجنوں مسلمانوں کو جان سے مار دیاگیا ہے اس پر بھی خاموشی اختیار کئے ہوئی ہے جو شرمناک اور جمہوری ملک کے لئے خطرہ ہے، اگر اسی طرح ملک کے مسلمانوں کو مارا جاتا رہا اور نام نہاد سیکولر پارٹیاں خاموش تماشائی بنی رہی تو ملک کو برباد ہونے سے کوئی بچانہیں سکتا، ملک کو بچانا ہے تو فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے والی پارٹیوں کے خلاف نام نہاد سیکولرزم کے نام پر سیاست کرنے والی اپوزیشن پارٹیوں کوکھل کر سامنے آنا ہوگا اور ملک کی عوام کے حق میں کھڑا ہونا ہوگا، اپوزیشن پارٹیاں صرف ووٹ بینک کے لئے مسلمانوں کے استعمال سے باز آئے نہیں تو 2019-20 کے انتخاب کے نتائج کچھ اور ہی ہوں گے، کیوں کہ جس طرح سے بھاجپا کو مضبوط کرنے کی سیاست اپوزیشن پارٹیاں کررہی ہے اس سے کہیں نہ کہیں مسلم اقلیتی طبقہ واقف ہوچکی ہے اور سبھی پارٹیوں کی سیاست کو اچھے سے سمجھ بھی رہی ہے اب مزید ووٹ بینک کے نام پر استعمال ہونے سے مسلمان بچیں گے۔
مسٹر نیاز احمد نے حکومت بہار سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جتنی جلد ہو سیتامڑھی فرقہ وارانہ فساد میں مرنے والوں کی باڈی کو پولیس انتظامیہ سے بول کر مرنے والوں کے اہل خانہ کے سپرد کرے اور فساد کی جانچ کسی بڑی ایجنسی سے کرائے وہ بھی عدالت کی دیکھ ریکھ میں ہونی چاہیے، فساد میں جو بھی بے قصور لوگوں کو جان سے مار دیا گیا ہے اس کے اہل خانہ کو روزگار اور معاوضہ کے طور پر 25-25 لاکھ روپیہ دیا جائے، وہیں دہلی میں8 سالہ معصوم کے قتل کی بھی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ معصوم کے اہل خانہ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ساتھ ہی ایک کروڑ روپیہ معاوضہ کے طور پر دہلی اور مرکز کی حکومت فوراً ادا کرے اگر ریاست اور مرکز کی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگا تو دونوں حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔
وہیں بیداری کارواں کے رکن مہدی رضا روشن القادری نے سیتامڑھی فساد پر امارت شرعیہ اور جمعیۃ علماء ہندبہار کی خاموشی پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے لگاتار کچھ سالوں سے بہار میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس پر ریاست کی یہ دونوں بڑی تنظیمیں خاموشی اختیار کئے ہوئی ہے جو ریاست کے مسلمانوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے، مہدی رضا نے آگے کہا کہ ایک ہفتہ سے سیتامڑھی میں مسلمانوں کو لگاتار نشانہ بنایا جارہا ہے اور یہ دونوں تنظیمیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے کیا یہ دونوں تنظیمیں اور ان کے سربراہ کے آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے یا پھر اس انتظار میں ہے کہ کوئی اور بڑا فساد رونما ہو اور مسلمانوں کا مزید نقصان ہو تو راحت رسانی پہنچائیں گے، درجنوں بے قصور مسلمانوں کو مار دیا گیا ہے جس کی باڈی کو پولیس انتظامیہ نے چھپانے کا کام کیا ہے اور مرحوم کے اہل خانہ کو باڈی دینے سے پولیس انتظامیہ انکار بھی کررہی ہے جس سے مزید ریاست کے مسلمانوں میں غم و غصہ کا ماحول بنتا جارہا ہے۔ وقت رہتے اس پر دونوں تنظیموں کو آگے آنا چاہیے اور حکومت وقت سے اس معاملے پر جواب طلب کرنی چاہیے؟ ورنہ ریاست کی عوام کا اعتبار دھیرے دھیرے تنظیموں اور ان کے سربراہوں سے اُٹھتا چلا جائے گا۔

جونپور: جمدہاں میں یکم نومبر بروز جمعرات ایک عظیم الشان اجلاس عام!

فیضی نعمانی
ـــــــــــــــــــــــــ
جونپور(آئی این اے نیوز 27/اکتوبر 2018) جمدہاں جونپور میں یکم نومبر بروز جمعرات بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان اجلاس عام (تعلیم و تربیت و اتحاد ملت) جمعیة الشباب جمدہاں جونپور کے زیر اہتمام منعقد ہونے جارہا ہے، جس میں مقرر خصوصی کے طور پر ہندوستان کے معروف عالم دین حضرت مولانا محمد بلال عبدالحئی صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ وصدر کل ہند تحریک پیام انسانیت شرکت کر رہے ہیں ۔
وہیں پر ملک کے حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے مقرر حضرت مولانا عبدالرب صاحب قاسمی دامت برکاتہم ناظم مدرسہ دعوۃ الحق دوست پور سلطان پور کا بهی خطاب عام ہوگا اور شیراز ہند جونپور کے فعال عالم دین مفسر قرآن حضرت مولانا محمد ابوذر مدنی صاحب دامت برکاتہم استاذ جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ کا قیمتی بیان ہوگا اور اسکے علاوہ ضلع کے تقریبا چهوٹے بڑے تمام مدارس کے ناظم اعلی اور اساتذہ بهی تشریف فرما ہوں گے۔
 اس عظیم الشان اجلاس عام کی صدارت شیراز ہند جونپور کے بزرگ عالم دین اور فعال ناظم اعلی جامعہ حسینہ لال دروازہ جون پور کے مونالا توفیق احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم فرمائیں گے، جلسہ کی نظامت حضرت مولانا محمد شمشاد احمد ندوی صاحب دامت برکاتہم کریں گے اور نعت رسول کے لیے بلبل ہندوستان خوش آواز اسید احمد اسید مئوی ہوں گے.
لہٰذا تمام قارئین حضرات سے گزارش ہیکہ اس عظیم الشان اجلاس عام میں شرکت کرکے جلسہ کو کامیاب بنائیں.
واضح رہے اس پروگرام کی تمام تیاریاں تنظیم کے سرپرست مولانا مفتی حدیث صاحب استاذ المدرسۃ المحمودیہ جمدہاں کی نگرانی میں ہورہی ہیں.

Friday 26 October 2018

ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا عبدالرشید بستوی قبرستان انوری میں سپرد خاک!

مولانا ارشد مدنی، مہتمم دارالعلوم، مہتمم دارالعلوم وقف، شیخ الحدیث دارالعلوم وقف سمیت دیگر اکابر علماء کا اظہار تعزیت.

رضوان سلمانی
ـــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 26/اکتوبر 2018) کل بتاریخ 25 اکتوبر بوقت سات بجے شام اچانک معروف عالم دین اور مشہور ساحب قلم مولانا عبدالرشید صاحب بستوی کے انتقال کی خبر سے علمی حلقہ سوگوار ہوگیا، صبح خبر عام ہوتے ہی جامعہ امام انور شاہ دیوبند سمیت دیوبند کے علمی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی، مرحوم شوگر کے مریض اور جگر کے عارضہ میں مبتلا تھے صبح 4 بجے اچانک سانس لینے میں دقت ہوئی، مقامی ڈاکٹر سے رجوع کے بعد حالت قدرے بحال ہوگئی، لیکن دوپہر میں طبیعت پھر سے بگڑی اور بگڑتی چلی گئی. شام چار بجے حالت نازک ہوگئی  اور میرٹھ جاتے ہوئے انہوں نے راستے میں آخری سانس لی، حادثہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور مرحوم کے گھر زائرین کا تانتا لگ گیا .
دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند، اور اطراف و جوانب کے علماء و طلبہ امڈ پڑے، صدر جمعیۃ علماء ھند مولانا سید ارشد مدنی کی جانب ان کے صاحبزادے مفتی امجد مدنی اور مولانا ازھر مدنی نے مرحوم کے مکان پر پہونچ کر تعزیت مسنونہ پیش کی ۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ہوئے کہا مولانا عبدالرشید صاحب کی ناگہانی موت سے پورا علمی حلقہ سوگوار ہے مجھے بہت سخت صدمہ پہونچا ہے وہ ایک قابل اور فائق ادیب اور بہترین استاذ تھے، بحر العلوم علامہ نعمت اللہ اعظمی نے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ان کی ناگہانی وفات سے مجھے سخت صدمہ پہونچا ہے، بوڑھے موجود ہیں،اور بچے جارہے ہیں ہمارے درمیان سے ایک لائق و فائق عالم دین اٹھ گیا. دارالعلوم دیوبند کے استاذ اور معروف عربی ادیب مولانا نور عالم خلیل امینی نے رئیس الجامعہ مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری سے تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا حادثہ وفات بڑا اندوہناک ہے ان کی وفات سے آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا  وہ لکھنے پڑھنے کے خوں گر تھے مجھے ان کے علم و ادب پر کامل اعتماد تھا. دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا سفیان قاسمی نے کہا کہ مرحوم ایک مخلص اور وفا شعار آدمی تھے، علمی و ادبی میدان کے بہترین شہسوار تھے انہوں نے وقف کے لئے بھی کافی خدمات انجام دی ہیں۔
جامعہ امام محمد انور شاہ کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا سید احمد خضر شاہ کشمیری نے کہا اس رحلت کو عظیم سانحہ قرار دیتے ہوئے کہ ہم نے جامعہ کا ایک اہم ستون کھودیا، والد گرامی مولانا انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمۃ ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے اور ان سے بہت سارے علمی کام لیتے تھے خانوادہ انوری پر ان کے علمی کارنامے ان کے لئے بہترین صدقہ جاریہ ہوں گے.
 معروف ادیب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحوم سے میرا گہرا رشتہ تھا، ان کا علمی مقام اپنی جگہ وہ بہت دوست مزاج وفا شعار اور بذلہ سنج آدمی تھے ۔ ان کے ساتھ بتایا ہوا ہر پل ہمیشہ یاد رہے گا ۔ اس کے علاوہ مولانا کے ہم درس مفتی عبداللہ معروفی نے بھی اظہار تعزیت کی ۔ نیز مولانا عارف جمیل مبارکپوری، مولانا افضل حسین سدھارتھ نگری، مولانا مصلح الدین سدھارتھ نگری، مولانا فہیم الدین بجنوری، مولانا مزمل بدایونی، مولانا اشرف عباس قاسمی، مولانا عمران اللہ قاسمی  سمیت دیگر اساتذہ دارالعلوم دیوبند اور مفتی عفان منصورپوری، مولانا انوار خان بستوی،مولانا فضیل ناصری سمیت دارالعلوم وقف اور  جامعۃ الامام محمد انور شاہ وغیرہ نے مرحوم کے انتقال کو ایک عظیم خلاء قرار دیا۔ مولانا عبدالرشید صاحب کا تعلق بستی ضلع سے تھا، انہوں نے مدرسہ شاہی مرآداباد کے بعد 1986 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت پائی، وہ مولانا وحید الزماں کیرانوی کے خاص شاگردوں میں تھے، مولانا نے فراغت کے بعد دارالعلوم اسلامیہ بستی، مدرسہ تجوید القرآن بجنور میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد دارالعلوم دیوبند کے شیخ الہند اکیڈمی اپنی خدمات دیں  1997 میں دارالعلوم کے مستقل مدرس ہوگئے  2001 میں معہد انور شاہ دیوبند سے وابستہ ہوگئے اور متواتر 18 سالوں تک اپنی تدریسی، تصنیفی، تالیفی اور ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں، انہوں نے علامہ انور شاہ کشمیری کی کتاب خاتم النبیین کا عربی ترجمہ کیا، نیز نوادرات کشمیری کی بھی تعریب کی، نیز قاضی اطہر مبارکپوری کا کامیاب اردو ترجمہ کیا، انہوں نے ملک و بیرون کے علمی و ادبی سیمیناروں میں سینکڑوں کی تعداد میں مقالات پیش کئے  وہ بہت سارے اداروں کے سرپرست اور محرک تھے  جامعہ کے ترجمان محدث عصر کو ایک زمانے تک نکالتے رہے، بخاری شریف جلد ثانی کے اسباق انہیں متعلق تھے. مولانا کے پسماندگان میں تین لڑکے اور تین لڑکیوں سمیت والد شامل ہیں، نماز جنازہ بعد نماز جمعہ پونے دو بجے احاطہ مولسری میں ادا کی گئی نماز جنازہ مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے پڑھائی.
نماز جنازہ میں صدر جمعیۃ علماء ھند کے صدر قاری سید محمد عثمان منصور پوری، مولانا قمر الدین گورکھپوری، محدث دالعلوم دیوبند، مولانا نعمت اللہ اعظمی، مولانا عبدالخالق مدراسی نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مفتی احسان قاسمی، مولانا سکندر قاسمی، مفتی عارف قاسمی، قاری شفیق الرحمان میرٹھی، مولانا حامد باغوں والی، مولانا ندیم الواجدی، مولانا اسجد قاسمی مرآداباد، مولانا صغیر پرتاپگڑھی، مولانا شیث قاسمی، مولانا وصی بستوی،مولانا طلحہ اعظمی، مولانا مہدی حسن عینی قاسمی،  اطہر عثمانی، عمر الہی، ماسٹر عارف، سید حارث کے علاوہ دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند، جامعۃ الامام انور شاہ، مدرسہ شاہی مرادآباد سمیت دیوبند شہر کے سرکردہ افراد اور سماجی کارکنان کے علاوہ  دیوبند سے مرآداباد تک کے سینکڑوں علماء سمیت ہزاروں کی تعداد میں جنازے میں لوگ شریک ہوئے اور قبرستان انوری میں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔

ایک اُداس سفــــر!

عزیز اعظمی اصلاحی اسرولی سرائے میر
ــــــــــــــــــــــــــــــ
دومہینے کی چھٹی کا آج آخری دن تھا اور بچوں کے ساتھ آخری ناشتہ بھی ، گھر کی دہلیز پار کی تو پھر دوسال بعد ہی لوٹوں گا یہ سوچ کر آج آلو کے پراٹھے کا ذائقہ بھی سعودی عرب کے سوکھے خبز کی طرح لگ رہا تھا ،  روز کی طرح آج سب کے چہرے کِھلے ہوئے نہیں مُرجھائے ہوئے تھے ، آج گھر میں چہل پہل نہیں سب اداس تھے سوائے چھوٹے بیٹے کے جو ہاتھ میں غبارہ لئے کھیل رہا تھا جس کو ابھی یہ نہیں معلوم کہ ہجر کیا ہے ، پردیس کیا ہوتا ہے ، اپنوں سے بچھڑنے کا غم کیا ہوتا ہے وہ ان تمام باتوں سے ناآشنا ہاتھ میں غبارہ  لئے مجھ سے اس بات کی ضد کئے جا رہا تھا کہ میں بھی جہاز پر بیٹھونگا ، میں بھی آپ کے ساتھ چلونگا میں اس کے معصوم سوالوں پر نادم ، اپنی مجبوریوں پر ماتم کناں دسترخوان پر بیٹھا اسے روٹی کے ٹکڑوں سے بہلا رہا تھا ،
کھلونوں میں الجھا رہا تھا ، جیب میں پڑے چند سکے دیکر خوش کر رہا تھا لیکن آج وہ بھی اپنی ضد پر اسی طرح اڑا تھا جیسے میری مجبوری مجھے سعودی لے جانے پر اڑی تھی ، دل میں سوچ رہا تھا کاش میں اسکو اپنے ساتھ لے جا سکتا ، کاش میں جاتا ہی نہیں بچوں کے ساتھ ہی رہتا لیکن ہرخواہش کی تکمیل اور ہر خواب کی تعبیر کہاں ....  میرے ساتھ جڑے نصیب اور ذمہ داریوں کے بیچ جذبات کی گنجائش کہاں ...  اللہ کے فیصلے پر سر تسلیم خم اپنے جذبات کو ناشتے کے ہر نوالے کے ساتھ اتار رہا تھا اور ابھی ناشتے کی پلیٹ میں آخری لقمہ بچا ہی تھا کہ باہر ببلو کی کار ہارن بجاتے ہوئے مجھے لے جانے کے لئے آ پہونچی کار کی آواز میں اس قدر سوز اور ہارن میں ہجرت کی ایسی وحشت تھی کی آخری لقمہ حلق سے نا اتر سکا ، بیگ اٹھانے کے لئے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا کونے میں کھڑی بیٹی کے اس سوال نے کی " ابو پھر کب آئینگے" دل کو چھلنی کر گیا ، میرا ضبط ٹوٹتا تو پاس میں کھڑی ماں ، بہن ، بیوی کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ پڑتا ، اپنے آنسووں کو پی کر ، غموں کو چھپا کر بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے زبان سے صرف اتنا کہہ کر باہر نکل گیا کہ جلد ہی بیٹی کو خوش رکھنے کے لئے میری زبان سے نکلا ہوا یہ ایک ایسا سفید جھوٹ تھا جس کو صرف میرا دل جانتا تھا ۔
اماں میرے سامنے تو نہیں روتیں لیکن میرے جانے کے بعد یہ کہہ کر رو پڑتیں کہ میرا بیٹا ہربار یہ کہہ کر سعودی واپس چلا جاتا ہے کہ یہ آخری سفر ہے لیکن ہر سفر پر ضرورت اپنا منھ کھولے ، ہاتھ پھیلائے ، سینہ تانے ایسے کھڑی ہوتی ہے کہ مجبور ہوکر پھر وہ اسی اداس سفر پر لوٹ جاتا ہے ، سعودی عرب کی کمائی سے گھر کی تنگی مٹی تو چھت کا سلیب باقی تھا ، سر پر چھت ہوئی تو جوان بہن کا نکاح باقی تھا ، بہن کا گھر بسا تو بھائی کی تعلیم باقی تھی بھائی پیروں پر ہوا تو باپ کا علاج باقی تھا  پرانی ذمہ داریوں کی تکمیل کے بعد تھوڑی سی مہلت ملی تو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھایا کہ اماں اب یہ آخری سفر ہوگا ، دوسال بعد جب لوٹا تو ایک نئی ذمہ داری کو بالغ ہوتے دیکھ کر قَسم توڑ دی کی اماں بیٹی بڑی ہورہی ہے اسکے نکاح کے لئے پھر جانا ہوگا اس کی اس بے بسی اور قربانی پر کلیجہ پھٹ گیا کہ اس بار وہ حلوے کی جگہ صرف اپنی دوا لے گیا ، اچار کی جگہ صرف سیرپ لے گیا یہ کہتے ہوئے کہ اماں شوگر ، بلڈ پریشر اتنا زیادہ ہے کہ اب حلوے کی نہیں دوا کی ضرورت ہے میرے بیٹے کی اس تیس سالہ جدو جہد کے باوجود بھی نہ اس گھر کی ضرورت پوری ہو سکی اور نہ ہی میرے بیٹے کی آخری سفر کی حسرت .
سعودی عرب جانے کے بعد گھر کی پوری کیفیت بیگم ہمیشہ مجھے لکھ بھیجتیں ، اس لئے مجھے پتا تھا کہ اماں اس بار بھی ہمیشہ کی طرح روئی ہونگیں ، بچے اداس ہونگے  ، میرے چھوڑے ہوئے سامان کو سمیٹتے ہوئے بیوی تڑپی ہوگی ، گاؤں ، گھر ، بیوی ، بچے ، اماں ، ابا کی انھیں تمام  باتوں کو یاد کرتے ہوئے کب بنارس پہونچ گیا پتہ ہی نہیں چلا  ایئرپورٹ پہونچ کر سامان کو لگیج میں ڈالنے کے بعد کسٹم آفیسر کے سامنے پاسپورٹ لیکر کھڑا ہوا اور وہ اپنے چشمے کے اُوپر سے مجھ پر ایک تحقیقی نظر ڈالتے ہوئے  پاسپورٹ پر اس شدت سے مہر لگائی جیسے کسی جج نے ایک لبمی سنوائی کے بعد سزا سناتے ہوئے اپنی قلم توڑ دی ہو اور اس آخری مرحلے اور فیصلے کے بعد واپسی کے سارے راستے بند ہو گئے ہوں ایک سزا یافتہ مجرم کی طرح ہاتھوں میں پاسپورٹ اُٹھائے بوجھل قدموں سے فلائٹ میں جا بیٹھا ، ملک چھوڑنے سے پہلے جیو سم سے آخری فون کرتے ہوئے بیگم اور اماں کو خدا حافظ کہتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھ لیا لیکن بیگم کا آنسووں میں بھیگا ہوا لہجہ اور اماں کی بیٹھی ہوئی آواز یہ ثابت کر گئی کہ ہجرت ۔۔۔  وقت کا دیا ہوا ایسا  زخم ہے جو بھر بھی جائے تو اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے ۔ کیونکہ ہجرت ہمیشہ وجود کی ہی ہوا کرتی ہے دل اور رشتے کبھی ہجرت نہیں کرتے یہ اپنی زمین ہی میں پیوست رہتے ہیں بلکہ ہجرت کے بعد ماں ، باپ ، بیوی ، بچے گھر بار ، گاؤں ، ملک سے محبت کا رشتہ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے ، اور اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ گلی کا وہ پتھر بھی عزیز لگتا ہے جس سے انگلیوں کو ٹیس لگی ہوتی ہے۔
سعودی عرب پہونچتے ہی آنکھوں کی ساری رنگت سارے نظارے ساری ہریالی صحرا میں بدل گئی ، پھر سے وہی زندگی شروع ہوئی جسے چھوڑ کر گیا تھا عربیوں کی وہی تعال و سرعۃ ، وہی دال و کبشہ دو سال کا مقدر بن گیا پورا ہفتہ تو کام میں گزر جاتا لیکن جمعۃ کو روم کی تنہائی ڈسنے لگتی ، آج شام کو بچوں کی اس قدر یاد آئی دل ایسا گھبرایا کہ روم سے باہر نکلا اور سمندر کے کنارے جا بیٹھا کہ شاید سمندر کی لہروں میں کھو کر کچھ غم کو ہلکا کر سکوں .
شام ڈھل چکی تھی، اس اداس شام میں سمندر کے کنارے ریت پر بیٹھا سمندر کی لہروں کو ساحل پر سر پٹکتا دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بھی میری طرح غم تنہائی کا ماتم  اور ہجر کا شکوہ کر رہی ہیں ۔۔۔ یہ بھی پردیسی مسافر کی طرح سمندر میں میلوں کا سفر طے کرکے موجوں سے لڑتے ہوئے ساحل سے ٹکراکر اپنا وجود اسی طرح خاک میں ملا رہی ہیں جس طرح ایک پردیسی سات سمندر پار آکر مجبوریوں اور ضرورتوں سے لڑتے ہوئے اپنا وجود مٹی میں ملا دیتا ہے ، ساحل پر سر ٹکراتی ان لہروں اور ہواؤں سے اٹھنے والی آواز میں ایسا سوز و غم تھا جیسے کوئی ماں اس درد سے کراہ ہی ہو جسکے بے گناہ بیٹے کو زعفرانی بھیڑ نے پِیٹ پِیٹ کر مار دیا ہو ۔
سوچا تھا ساحل سمندر جاکر اسکی ٹھنڈی ہواؤں اور اسکی بل کھاتی لہروں سے لطف اندوز ہوکر غمِ تنہائی کو کچھ کم کر سکونگا  لیکن یہاں کی اداس شام اور سرپٹکتی لہروں نے میرے غم کو اور بڑھا دیا گھبرا کر وہاں سے اٹھا روم پر واپس آیا بیوی کو فون لگایا تو چھوٹا بیٹا ابو ۔۔۔ ابو کہہ رو رہا تھا گھر سے نکلتے وقت ایک جھوٹ بیٹی سے بولا تھا کہ جلد ہی آونگا اور اب دوسرا جھوٹ بول کر بیٹے کو بہلا رہا ہوں کہ بازار سے آپ کے لئے کھلونا لینے آیا ہوں اس معصوم نے میرے اس جھوٹ کو سچ سمجھ کر اپنا آنسو پوچھ لیا اور آج  وہ ایک سال سے میری راہ تکتے ہوئے اپنے کھلونے کے انتظار میں بیٹھا ہے باہر رکنے والی ہر گاڑی کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور پھر مایوس واپس لوٹ جاتا ہے اور وہ باپ ہے کہ لوٹنے کو تیار نہیں ، معصوم بیٹے کی مایوس آنکھوں کو سوچ کر دل خون کے آنسو روپڑتا ہے ، ہائے رے مجبوری کہ بیٹا جھوٹ کو سچ مان کر کھولنے کے انتظار میں دوسال گزار دیتا ہے اور باپ اپنی مجبوری ۔۔۔۔   اس بار جب گھر گیا تو سعودی عرب کی تپتی ریت اور بیماریوں نے اس قدر نچوڑ لیا تھا کہ آنے کی ہمت نہ کر سکا ۔
 جو کسی سے نہیں ہارتا وہ دُکھ سے ہار جاتا ہے ، مہنگی دوائی ،  بڑھتی مہنگائی  کے مد نظر لوگوں نے علاقائی روایت کے مطابق مجھے بھی یہی مشورہ دیا کہ بیٹے کو ڈرائیونگ سکھاو اور سعودی عرب بھیج دو لیکن سعودی سے نکلتے وقت میں اس روایتی کشتی کو اس خوف سےجلا کر آیا تھا کہ میرے بعد کہیں یہ کشتی میرے بچوں کے ہاتھ نہ لگ جائے اس لئے اب  پردیس لوٹنے کا تو کوئی سوال نہیں تھا لیکن مجبوری اور ضرورت  پھرکہیں میرا ایمان نہ توڑ دے اس خوف سے پھرمیں نے اپنے عزم کو چٹانوں سی مضبوطی دی سعودی جانے والے مشورے اور خیال کو اپنے دل و دماغ سے کُھرچ کر نکال دیا ، بیماریوں اور پریشانیوں سے سمجھوتا کیا ، ضروریات کو کم کیا ، بیٹے کی تعلیم کو فوقیت دی اسکو ہر چیز پر مقدم رکھا اور جب وہ میڈیکل کے بعد دہرادون سے میڈیکل آفیسر بن کر گھر لوٹا تو سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا میری ساری قربانیاں، پریشانیاں بیٹے کی کامیابی کے آگے چھوٹی ہوگئیں، اس وقت  اگر میں اپنی وقتی پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے بیٹے کو تعلیم کے بجائے ڈرائیور بنا کر سعودی عرب بھیج دیا ہوتا آج وہ بھی میری طرح کسی سمندر کے کنارے بیٹھ کر اپنی مجبوری اور تنہائی کا شکوۃ کرتا ، بیوی ، بچوں کی محبت و قربت سے دور شب تنہائی کاٹتا اور پھر آخیر عمر میں گھر بیٹھ کر اپنی قسمت کا رونا روتا، یہ با عزت تعلیم یافہ اور پرسکون زندگی اس کا مقدر نہ بن پاتی ۔

فیضانِ شُجاعت ایک مطالعہ ایک تبصرہ!

عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
فیضانِ شُجاعت نامی کتاب در اصل استاذ الاساتذہ نمونہ اسلاف حافظ شُجاعت علی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح حیات پر لکھی گئی ایک کتاب ہے جس کو بڑی عرق ریزی کے ساتھ حضرت مولانا نور قاسمی صاحب نے مرتب کیا ہے حافظ شجاعت علی صاحب نور اللہ مرقدہ کی شہرہ آفاق و ہمہ گیر شخصیت سے کون واقف نہیں، جو تدریسی، تبلیغی، اصلاحی و اخلاقی صفات و کمالات سے مجلی تھی، مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم افراد ان کے صفات و کمالات کے بہت عقیدت مند تھے، بہر حال ان کی حیات و خدمات پر مشتمل کتاب کا یہ عمل انتہائی داد و تحسین کا حامل ہے ناچیز مولانا نور قاسمی صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہے جنہوں نے ترتیب کتاب کے اس اہم تقاضہ کی تکمیل کی، ساتھ میں حافظ شجاعت علی نور اللہ مرقدہ کے دونوں صاحبزادوں مولانا شمش الہدی قاسمی اور ان کے بڑے بھائی شمس الضحٰی خان صاحب کو بھی کہ دونوں صاحبان نے اس سنہرے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں متّفقہ طور پر پہل کی اور اس کتاب کو منصہء شہود پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، بڑی ناسپاسی ہوگی اگر ایسوں میں عزیزم حافظ عبدالرحمٰن صاحب کو نہ یاد کروں کہ جن کے توسط سے کتاب مجھ تک پہنچی،

مت سہل ہمیں جانو! پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

ایسے مقبول زمانے میں کہاں ہوتے ہیں
آج تک جن کے لیے اہل جہاں روتے ہیں

استاذ الاساتذہ حافظ شجاعت علی نور اللہ مرقدہ کی پیدائش 1941ء کو *کرتھیا* مہراج گنج میں ہوئی، آپ نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولیں جو انتہائی دیندار و شریف مانا جاتا تھا، صوم صلوٰۃ کی پابندی، خوش اخلاقی، سخاوت و مہمان نوازی ایثار و خلوص، تواضع و انکساری، لباس میں سادگی خاندانی وراثت تھی،
آپ نے اپنی زندگی کی تقریباً ستاون بہاریں دیکھ کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے،
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے، ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے، عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے، ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے، عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا،
لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان دنیا ہی کو مقصودِ کل اور مطلوبِ کامل سمجھتے ہوئے، عشرتوں کا دلدادہ ہوجائے اور حدیثِ پاک کے مطابق درہم ودینار کا بندہ بن جائے، اسلام دنیا کو عارضی قیام گاہ سے تعبیر کرتا ہے۔ پس دنیا اور متاعِ دنیا کی تمام تر رنگینیوں، رعنائیوں اورچمک دمک کے باوجود اِس سے بقائے حیات اور فرط وانبساط کے لیے استفادہ تو ضرور کرناچاہیے، لیکن اسے اپنی دائمی اور ابدی منزل ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے، مومن کی دائمی منزل کہیں اور ہے ، یہی قرآن کا پیغام ہے اور یہی صاحبِ قرآن کاشِعار ہے۔
اسی لیے اللہ عزّوجلّ نے فرمایا: ''جس مرد وزن نے ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کیے ، تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی کے ساتھ ضرور زندہ رکھیں گے اور ہم ان کو ان کے نیک کاموں کی ضرور جزا دیں گے‘‘(النحل:97)
  نظیر اکبر آباد ی نے کہا ہے:
جب چلتے چلتے رستے میں، یہ جَون تیری ڈھل جائے گی
اک بدھیا تیری مٹی پر، پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے، سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھن پُوت،جمائی بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی،
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا، جب لاد چلے گا بنجارہ
حق تعالیٰ جل مجدہ استاذ الاساتذہ حافظ شجاعت علی نور اللہ مرقدہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ان کے نام سے قائم کیے گئے حافظ شجاعت فیضِ عام چیری ٹیبل ٹرسٹ کو ہر عام و خاص کے نزدیک قبول فرمائے، حق تعالیٰ جل مجدہ اس ٹرسٹ میں کام کرنے والے اراکین کا حامی و ناصر ہو آمین ثم آمین.

مولانا محمو مدنی ایک بار پھر دنیا کی پانچ سو بااثر شخصیات میں ۳۲؍ویں مقام پر فائز!

اردن کا نامور ریسرچ ادارہ آرآئی ایس ایس سی کی تازہ فہرست برائے ۲۰۱۹ء میں بھارت کے سب سے بااثر عالم دین بنے.

نئی دہلی(آئی این اے نیوز 26/اکتوبر 2018) اردن کی نامور ریسرچ تنظیم آر آئی ایس ایس سی نے تازہ فہرست برائے ۲۰۱۹ء جاری کی ہے، جس میں  جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب کو لگاتار دسویں بار دنیا کی پچاس بااثر مسلم شخصیات میں شامل کیا ہے، وہ اس فہرست میں بھارت کے سب سے بااثر عالم اور مذہبی وسماجی رہنماء منتخب ہوئے ہیں، پانچ سو افراد پر مشتمل اس فہرست میں دنیا بھر سے مختلف شعبہ ہائے حیات ( سیاست ، سماجیات، تعلیم، اسکالرشپ، سائنس، وغیرہ) سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات شامل ہیں، مگر ٹاپ50 میں مولانا محمود مدنی اکیلے ہندستانی ہیں، گزشتہ سال مشہور بریلوی عالم دین مفتی اختر رضا خاں قادری ازہری اس فہرست میں شامل تھے، مگر وہ وفات پاچکے ہیں، حالاں کہ پڑوسی ملک پاکستان سے مولانا تقی عثمانی (پوزیشن ۶) مولانا عبدالوہاب تبلیغی جماعت ( پوزیشن۱۴)، عمران خاں ( پوزیشن۲۹ ) اور مولانا طارق جمیل ( پوزیشن ۴۰ ) ٹاپ 50 کی فہرست میں شامل ہیں.
ریسرچ تنظیم آرآئی ایس ایس نے مولانا محمود مدنی کی عظیم ملی و سماجی خدما ت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے دہشت گردی اور اس کو اسلام سے نتھی کرنے کی بڑی دلیری سے مقابلہ کیا اور دارالعلوم دیوبند سے اس سلسلے میں فتوی حاصل کرکے ملک بھر میں دہشت گردی مخالف کانفرنسیں کیں جس کا بھارت کے مسلمانوں پر گہرا اثر پڑا،نیز انہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستانی نمایندہ کے ذریعہ دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا مرکز کہنے کے بعد پاکستان کو کھلا خط لکھ کر مذمت کی اور اس بے ہودہ بیان کا عالمی سطح پر مقابلہ کیا ۔اس کے علاوہ وہ مسلم ماثر، معابد اور دینی تشخص کے تحفظ کے لیے ہمہ تن کوشاں رہتے ہیں، وہ مدارس میں سرکاری مداخلت کے سب سے بڑے ناقد ہیں ۔

مشہور عالم دین و محدث حضرت مولانا عبدالرشید بستوی صاحب کا انتقال، علمی حلقہ سوگوار!

دیوبند(آئی این اے نیوز 26/اکتوبر 2018) مولانا فضیل احمد ناصری استاذ جامعہ امام انور شاہ دیوبند کی اطلاع کے مطابق جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے استاذِ حدیث و صدر المدرسین معروف عالم دین وبزرگ ہستی حضرت مولانا عبدالرشید بستوی صاحب جمعرات کی شب رات آٹھ بجے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں مقام عطا کرے۔آمین

مولانا فضیل ناصری نے کہا کہ یہ ہمارے جامعہ کے ساتھ ان کے تلامذہ اور وابستگان کے لیے بھی بہت بڑا صدمہ ہے، پورا جامعہ ماتم کدے میں تبدیل ہو چکا ہے، انہوں نے مولانا مرحوم کے محبین متوسلین اور شاگردوں سے درخواست کی ہے کہ ان کے لیے دعائے مغفرت کریں.
مولانا کے انتقال کی خبر جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی دیوبند کے دینی و علمی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے، دور دراز رہنے والے ان کے طلبا غمگین ہوگئے ہیں اور اپنے استاد محترم کے اعلیٰ درجات کے لیے دعا گو ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مولانا شوگر کے مرض میں مبتلا تھے اور میرٹھ میں ان کا علاج جاری تھا، آج بعد نماز جمعہ دیوبند میں نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور مزار انوری میں تدفین ہوگی۔ ان شاء اللہ

Thursday 25 October 2018

بلریاگنج میں پھل ویاپاری کو نامعلوم شخص نے ماری گولی!

بلریاگنج/اعظم گڑھ (آئی این اے نیوز 25/اکتوبر 2018) بلریاگنج کے رہائشی پھل ویاپاری سوریہ بھان یادو پر کسی انجان شخص نے گولی سے جان لیوا حملہ کیا ہے، بتایا جارہا ہے کہ بھیم بھر اور رسول پور کے بیچ یہ واردات ہوئی، زخمی سوریہ بھان یادو کو فوری طور پر صدر اسپتال اعظم گڑھ لے جایا گیا.
اطلاع پاکر موقع پر مقامی ایم ایل اے نفیس احمد صاحب صدر اسپتال اعظم گڑھ پہنچ کر جائزہ لیا اور مریض کے علاج میں ڈاکٹروں لاپرواہی نہ برتنے کو کہا، بعد میں مریض کی  حالت سنگین دیکھ کر انہیں بنارس کے لئے بھیج دیا گیا.

حاجی پور: محلہ مداریپور داؤد نگر میں مکتب اسلامیہ کا افتتاح!

ندیم اشرف
ــــــــــــــــــــ
حاجی پور(آئی این اے نیوز 25/اکتوبر 2018) دینی تعلیم کے بغیر زندگی ادھوری ہے اسلیے مسلمان اپنے اپنے بچوں کو مکتب میں داخل کرائیں، علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے اور دینی تعلیم ہمارا اصل فریضہ ہے، مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا آصف جمیل قاسمی نے مکتب اسلامیہ کے افتتاح کے دوران کیا.
واضح ہو کہ پروگرام سے چند دن پہلے دینی تعلیم کے سلسلے میں ایک اہم میٹنگ ہوئی کی گئی تھی، جس میں دانشور لوگ شریک تھے، میٹنگ جامع مسجد مائل میں ہوئی جس میں غور کیا گیا کہ بچے دینی تعلیم سے دور ہورہے ہیں، میٹنگ میں یہ بھی بات آئی جہاں جہاں دینی مکتب نہیں ہے  وہاں جاکر مکتب قائم کیا جائے، دوران میٹنگ کچھ غریب طبقہ کے لوگ موجود تھے سبھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں بچے بالکل دینی تعلیم سے دور ہیں لہذا اسی دوران ایک مکتب کا افتتاح 23/10/18 کو مداریپور میں ہوا.
پروگرام میںخطاب کرتے ہوئے مولانا جمیل قاسمی نے کہا کہ امت مسلمہ کے اوپر فرض ہے کہ اپنے بچے کو مکتب میں داخلہ ضرور کرائیں قرآن کی تعلیم دیں تاکہ ہمارے بچے قرآن پڑھنا جان جائیں اور آنے والی نسل کا بھی دینی تعلیم کی رجحان برقرار رہے.
 اس پروگرام میں ولی احمد، محمد شمیم، محمد احتشام، مزمل، محمد عارف، محمد قیصر، محمد وسیم، محمد روشن جمال، مبشر جمال، سجاد، محمد پرویز، محمد انعام، محمد عقیل، محمد عفان، محمد عرفان  وغیرہ خاص طور سے موجود تھے.

سگڑی: مسائل کو لیکر کسانوں نے مالٹاری میں کیا احتجاجی بیٹھک!

سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/اکتوبر 2018) حکومت ہمارے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے آج بی جے پی حکومت میں کسان نظرانداز ہیں، ستمبر ماہ میں جب پانی کی ضرورت تھی تب لنک نہر میں پانی نہیں آیا اور کسانوں کی تمام فصل خراب ہو گئی تو ہمارے مسائل پر حکومت توجہ نہیں دیتی ہے، 30 نومبر کو انہی مسائل کو لے کر 124 کسان تنظیم دہلی چلیں گے اور دھرنا مظاہرہ کیا جائے گا، مذکورہ باتیں کسان سبھا ریاستی صدر شاہنواز بیگ صدیقی تحصیل سگڑی کے عظمت گڑھ بلاک کے سرائے ساگر مالٹاری گاؤں سوسائٹی پر ایک روزہ  احتجاجی بیٹھک میں کہا.
ضلع صدر کمال رائے نے کہا کہ حکومت ہمارے مطالبوں پر اگر غور نہیں کرے گی تو ملک گیر تحریک چلایا جائے گا، ہماری اہم مانگ یہ ہے کہ کسانوں کو 10000 پنشن دیا جائے، سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ نافذ کیا جائے، کسانوں کا قرض معاف کیا جائے.
بلاک وزیر یوگیندر سنگھ پٹیل نے کہا کہ آج کسان قرض کے بوجھ میں دبا ہوا ہے اور حکومت کسانوں کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تب نہر میں پانی نہیں آتا اور جب ہماری ضرورت نہیں ہوتی ہے تب نہر میں پانی چھوڑا جاتا ہے اور حکومت ہم کو دھوکہ دے رہی ہے، اگر حکومت ہمارے مطالبات پر توجہ نہ دے گی تو ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا.
اس موقع پر خاص طور سے سریندر رائے، انیل پٹیل، اميرچند پٹیل، راج نارائن سنگھ، کپل سنگھ، وجے سنگھ، رام درشن رائے، ارون رائے، رامجيت سنگھ، شرون سنگھ، منا سنگھ وغیرہ موجود رہے.