اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: March 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 31 March 2019

اپریل فول کی حقیقت!

تحریر: محمد سجاد سوپولوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالک لوح وارض سماء نے اسلام کوایک دائمی اور آفاقی مذہب بنایاہے۔ جس نے اپنے پیروکاروں کو بہترین اور عمدہ اصول و قوانین دییےہیں،کسی بھی موڑپر بے مہار نہیں چھوڑا ؛بلکہ زندگی کے تمام گوشوں کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی کی پیروی میں ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے ۔
 انسان جن لوگوں کے ساتھ رہتاہے ،ان کی کچھ عادتیں اورخصلتیں ضرورجگہ بناتی ہے۔آج کا انسان یورپ وامریکہ کی تقلید اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ہیں ۔یورپی تہذیب وتمدن  نے مسلمانوں کی زندگی کو اپنے رنگ میں رنگ دیا ہے ۔مسلمانوں کی زندگی میں مغربی تہذیب و تمدن کے بعض ایسے اثرات بھی داخل ہو گئے ہیں ،جن کی حقیقت پر مطلع ہونے کے بعد ان کو اختیار کرنا انسانیت کے خلاف ہے؛ مگر افسوس کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان اثرات پر مضبوطی سے کاربند ہے ،حالانکہ دلائل وشواہد اورتاریخ سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کے قوموں کا اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن کو کھودینا ہی ان کے زوال اور خاتمے کا سبب ہواکرتا ہے-مذہب اسلام کا تو اپنے پیروکاروں سے یہ مطالبہ ہے کہ:اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقشے قدم پر مت چلو ،یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے (بیان القرآن)
 یہودونصاری کی جو رسوم و رواج ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہیں، انہیں میں سے ایک "اپریل فول" منانے کی رسم بھی ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کی تاریخ میں جھوٹ بول کر کسی کو دھوکا دینا ،مذاق کے نام پر بے وقوف بنانا اور اذیت دینا نہ صرف اچھا سمجھا جاتا ہے؛ بلکہ اسے ایک دانشمندی قرار دیا جاتا ہے ۔جو شخص جتنی صفائی اور چابکدستی سے دوسروں کو جتنا بڑا دھوکا دے دے ۔اتنا ہی اس کو دانشمند، ذہین، باشعور، قابل تعریف اور یکم اپریل کی تاریخ سے صحیح فائدہ اٹھانے والا سمجھا جاتا ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس رسم بد کی ابتداء کب اورکیسے ہوئ؟یہ بات ہرایک کے ذہن میں جگہ بناتی ہے،اسی لیے ہر کوئی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے،تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس رسم بد نےاتنی تیزی کے ساتھ کیسے اور کس طرح معاشرے میں جڑ پکڑ لیا کہ ایک ایمان والے کاذہن اس طرف مبذول ہوگیا،جس کی بناپر انہیں شدت سے یکم اپریل کا انتظار ہوتاہے،اسی کو سمجھنے اور حقیقت سےپردہ اٹھانے کے لیے، یہاں صرف تین اقوال کا ذکر کافی وشافی معلوم ہوتاہے۔
(1 )بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا ،اس مہینے کو رومی لوگ اپنی بیوی"" وینس ""(Venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے  اوریہ سال کا پہلا دن ہواکرتا تھا، اس لئے خوشی میں اس دن کو تہوار کے طور پر منایا کرتے تھے اور اظہار خوشی کے لیے آپس میں ہنسی مذاق بھی کیا کرتے تھے، تو یہ چیز رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگئی۔
 (2 )انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے کہ اکیس مارچ سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ اس طرح مذاق کر کے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے، لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کردیا۔( انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا 1/694 )
(3)ایک تیسری وجہ انیسویں  صدی عیسوی کی معروف انسائیکلوپیڈیا "لاروس" نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار  دیا ہے،جس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو گرفتار کیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا تو رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسی علیہ سلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا، ان کو پہلے "یہودی سرداروں اور فقیہوں"کی عدالت میں پیش کیا گیا، پھر وہ انہیں "پیلا طس" کی عدالت میں فیصلہ کے لئے لے گئے، پھر پیلاطس نے ان کو" ہیرودیس" کی عدالت میں بھیج دیا اور بلاآخر ہیرودیس نے دوبارہ فیصلے کے لیے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیج دیا۔ لوقا کی انجیل میں اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا گیا ہے:
 "اور جو آدمی یسوع کو پکڑے ہوئے تھے ،اس کو ٹھٹھوں میں اڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس سے پوچھتے تھے کہ نبوت سے بتا تجھے کس نے مارا اور انھوں نے طعنہ سے اور بھی بہت سی باتیں اس کے خلاف کہیں"- (انجیل، لوقا، باب 22، آیت: 36 56 صفھہ722)
 اور انجیل لوقا ہی میں ہیرودیس کا پیلاطس کے پاس واپس بھیجنا ان الفاظ میں منقول ہے :
"پھرہیرودیس نے اپنے سپاہیوں سمیت اسے ذلیل کیا اور ٹھٹھوں میں اڑایا اور چمکدار پوشاک پہنا کر اس کو پیلاطس کے پاس واپس بھیجا (انجیل،لوقا، باب 32 ،آیت :11 صفحہ822)
 لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنےکامقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا ،چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لئے اپریل فول کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یادگار ہے( ذکروفکر صفحہ 76۔ 86 )
اگر یہ بات درست ہے تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اس کا منشاء عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی تسخیر ہوگی ،لیکن یہ بات انتہائی تعجب خیز ہے کہ جو رسم یہودیوں نے (معاذ اللہ )عیسی علیہ سلام کی ہنسی اڑانے کے لئے جاری کی  تھی اس کو عیسائیوں نے کس طرح قبول کرلیا ؛بلکہ خود اس کو رواج دینے میں شریک ہو گئے جب کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو نہ صرف رسول؛ بلکہ ابن اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔ قرین قیاس یہ ہے کہ یہ ان کی دینی بدذوقی کی یا بے ذوقی کی تصویر ہے۔ جس طرح صلیب ،کے ان کے عقیدے کے مطابق اس پر حضرت عیسی علیہ السلام کو سولی دی گئی ہے، تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی شکل سے بھی نفرت ہوتی ،لیکن ان پر خدا کی پھٹکار یہ ہوئی کہ اس پر انہوں نے اس طرح تقدس کو پروان چڑھایا کہ وہ ان کے نزدیک مقدس شے بن کران کے مقدس مقامات کی زینت بن گئی ۔بس اسی طرح اپریل فول کے سلسلے میں بھی انہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کے دشمنوں کی نقالی شروع کردی"اللهم احفظنا منه" اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیسائی اس رسم کی اصلیت سے ہی ناواقف اور نابلد ہو اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہو-والله اعلم باصواب
  تاریخی اعتبار سے جیساکہ اوپرذکر کیا گیا،یہ رسم بداس قابل نہیں ہےکہ اسےفروغ دیاجائے؛کیوں کہ یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس کا رشتہ یا تو کسی توہم پرستی سے جڑا ہوا ہے ،جیسا کہ پہلی صورت میں، یا کسی گستاخانہ نظریہ اور واقعے سے جڑا ہوا ہے ؛جیسا کہ دوسری اور تیسری صورت میں اس کے علاوہ یہ رسم اس لئے بھی قابل ترک ہے  کہ یہ مندرجہ ذیل کئی گناہوں کا مجموعہ ہے:
 1 -یہود و نصاریٰ اورکفار کے ساتھ مشابہت
2- جھوٹ،ناحق مذاق اور دوسروں کی ایذاء رسانی
 3- دھوکہ اور فریب کاری
 ان سب کاحاصل یہ ہے کہ" اپریل فول" بہت سے بدترین اوربے حس گناہوں کا مجموعہ ہے ؛لہذا یہ رسم اس لائق نہیں کہ اسے معاشرے میں فروغ دیاجائے؛بلکہ اس بات کی اشد ضرورت ہی کہ اس کا سد باب کیاجئے؛کیوں کہ اس کی تاریخ پر نظر کرنے سے جہاں اس بات کا علم ہواکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی ہے، اسی طرح اللہ عزوجل کی شان میں بھی بڑی گستاخی ہے ۔اللہ تعالی امت مسلمہ کو صحیح سمجھ اوراس طرح کی برائیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین

اپریل فول گناہ کا مجموعہ اور جھوٹ کا عالمی دن ہونے کیساتھ انتہائی نقصان دہ عمل ہے، اس فضول اور قبیح عمل کا بائیکاٹ کریں!

تحریر: قاری عطاءالرحمان بلہروی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مذہب اسلام ایک ایسا جامع اور ہمہ گیر مذہب حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کی ہمہ وقت رہنمائی کرتا ہے اور جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے کسی انسان کو بھی تکلیف پہونچانے کی اسلام میں کوئی اجازت نہی ہے محمد عربی نے ارشاد فرمایا کہ اصل مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں بعض لوگ  یکم اپریل کو اپریل فول منا کر دوسروں کو بیوقوف بناتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں   اپریل فول چاہے نئے سال یا مسلمانوں کو بیوقوف بنانے کے یادگار کے طور پر منایا جاتا ہو یہ بنیادی طور پر ایک  انتہائی قبیح اور نقصاندہ عمل ہے.
اپریل فول جھوٹ کا عالمی دن ہے اس دن لوگ ایک دوسرے کو بیوقوف بناتے ہیں بعض مرتبہ یہ بیوقوف بنانا انتہائی سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے کہب لوگوں کو جسمانی نقصان بھی پہونچتا ہے اور لوگ  جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کسی کو کسی عزیز کے انتقال کی خبر سنائی جاتی ہے کسی کو ایکسیڈنٹ کا کہہ دیا جاتا ہے کسی سے رقم لے لی جاتی ہے فائر بریگیڈ کے عملے کو فون کرکے آگ لگنے کی جھوٹی خبر سنائی جاتی ہے تو کہیں ایمبولینس کو فون کرکے غلط حادثے کی خبر دی جاتی ہے اگر بات کی جائے تو بیٹے اور کسی عزیز کے انتقال  کی اچانک خبر سنکر ہاٹ اٹیک میں مبتلا ہو کر جان جان آفریں کے سپرد کردیتا ہے بالخصوص فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کو غلط فون کرنے کے سبب سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ بار بار فون کرکے جھوٹ سے لوگ تنگ کر رہے ہیں تو پھر وہ واقعی کہیں کوئی حادثہ ہوجائے کہیں کوئی واردات ہوجائے آگ لگ جائے تو متعلقہ ادارے اسکو بھی جھوٹ سمجھ کر فوری کارروائی نہیں کرتے جسکے سبب کسی کے جھوٹے مذاق سے کئی خاندانوں کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے.
اسلئے میری ان تمام افراد سے گذارش ہیکہ جو اپریل فول مناتے ہیں وہ لوگ غیر ذمہ دارانہ حرکت نہ کریں اور اسکی  قباحت اور نقصان کو سمجھتے ہوئے اسکا مکمل بائیکاٹ کریں اور سنجیدہ رویہ اپنائیں اسلامی تعلیمات کو دل سے لگائیں اور یہ جان لیں کہ مومن سچائی کا دوسرا نام ہے.
اللہ ہم سب کی اس قبیح رسم سے حفاظت فرمائے دین اسلام کے مطابق عمل کی توفیق عنایت فرمائے آمین

قرآن کریم رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ ہے: مفتی محمد عباس

ہیوہ/باغپت(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) بڑوت علاقے کے موضع ہیوہ میں قائم مدرسہ تجوید القرآن کا سالانہ اجلاس عام منعقد کیا گیا، جس کی صدارت حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب صدر جمعیۃ علماء ضلع باغپت نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض قاری محمد صابر صاحب، صدر تحصیل جمعیۃ علماء بڑوت، نے انجام دیئے، اجلاس کا آغاز قاری عبد الواجد مہتمم مدرسہ دارالقرآن فریدیہ بڑوت کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، جب کہ ھدیہ صلوۃ سلام شاعر اسلام مفتی محمد اکرم فیاضی نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا
حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب صدر جمعیۃ علماء ضلع باغپت نے اپنے خطاب میں کہا کہ قرآن مجید پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر ترقی ممکن ہے، ورنہ آج امت مسلمہ جو تنزلی کا شکار ہے اس کی بے شمار وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو یکسر ترک کردیا ہے، اس لیے اگر حقیقی ترقی یافتہ بننا ہے تو اس قرآن مجید کو سینے سے لگانا ہوگا.
اس موقع پر ناظم مدرسہ ھذا مولانا محمد عابد صاحب نے سالانہ تعلیمی و اخراجی رپورٹ پیش کی، جس کو علماء کرام و عوام نے خوب سراہا.
اس موقع پر مولانا ریاست، قاری ارشاد، مولانا محمد خالد، قاری محمد سالم، قاری جاوید وغیرہ وغیرہ موجود رہے.

ممتاز استاذ حدیث مولانا جمیل سکروڑوی کا انتقال پرملال!

دارالعلوم دیوبند سمیت ارباب مدارس اور طلباءمیں غم کی لہر، کل صبح ہوگی تدفین.
سمیر چودھری
ــــــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) دارالعلوم دیوبند کے ممتاز استاذحدیث مولانا جمیل احمد سکروڑوی کاآج طویل علالت بعد انتقال ہوگیاہے، ان کے انتقال کی خبر سے متعلقین اوراعزو اقار ب کے علاوہ طلباءمدارس و اساتذہ بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور ارباب مداس میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔مولانا مرحوم گزشتہ کافی عرصہ سے انتہائی مہلک مرض میں مبتلا تھے اور ان کا مسلسل ملک کے بڑے ہسپتالوں میں علاج چل رہاتھا، مگر افاقہ نہیں ہوسکا ،جس کے باعث آج شام پانچ بجے دہلی کے جی ٹی بی ہسپتال میں تقریباً 70 سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ ان کے انتقال کی خبر کچھ دیر میں سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیل گئی اور طلباءو اساتذہ کا غم غفیر تعزیت کے لئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچنے لگا۔مرحوم کے انتقال پر دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا،
مرحوم نرم دل،خوش اخلا ق اور بے شمار خصوصیات کی حامل شخصیت کے مالک تھے،چھوٹوں پر شفقت اور طلبا کے ساتھ نہایت مشفقانہ رویہ کے لئے آپ مشہور تھے ،مرحوم کے درس کا خاص انداز طلباءمیں کافی مقبول تھا، نصف صدی سے درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جامعہ کاشف العلوم چھٹمل پور،گاگلہیڑی کے بعد دارالعلوم دیوبند اوردارالعلوم وقف دیوبند میں خدمت علم دین کا فریضہ انجام دیا۔فی الحال دارالعلوم دیوبند میں درس حدیث دیتے تھے۔ مرحوم کے ہزاروں شاگرد ملک و بیرون ملک میں خدمت دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مرحوم متعدد کتابوں کے مصنف اور شارح تھے،ان کی ہدایہ کی شرح کافی مقبول ہے۔پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ نماز جنازہ آج صبح (پیر ) آٹھ بجے دارالعلوم دیوبند کی احاطہ مولسری میں ادا کی جائیگی ،بعد ازیں قاسمی قبرستان میں تدفین عمل میں آئیگی۔ مولانا جمیل سکروڑوی کے انتقال پر مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابوالقاسم نعمانی، دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی، جمعیة علماءہند کے صدر مولان ارشد مدنی،سکریٹری مولانا محمود مدنی،دارالعلوم زکریا کے مہتمم مفتی شریف خان قاسمی، جامعہ مظاہرعلوم کے امین عام مولانا سید شاہد حسنی ،مولانا حکیم عبداللہ مغیثی،مولانا ندیم الواجدی، مولانا حسن الہاشمی ،مولانانسیم اختر شاہ قیصر، مولانا مزمل علی قاسمی آسامی، منیجر مسلم فنڈ سہیل صدیقی،حاجی شرافت روڑکی،قاری ممتاز احمد قاسمی وغیرہ نے گہرے رنج و غم کااظہارکرتے ہوئے مرحوم کی وفات کو ایک عہد کے خاتمہ سے تعبیر کیاہے۔

اپریل فول کی شرعی حیثیت!

از قلم: عبداللہ المھیمن متعلم دارالعلوم وقف دیوبند
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج ہمارے معاشرے میں بے شمارایسی اخلاقی وبائیں اورغلط رسم ورواج ہیں جومغربی تہذیب اوریہودیوں کی دین ہیں۔
اسی قسم کی خلافِ مروت اورخلافِ تہذیب جاہلیت کی ایک چیز’’اپریل فول‘‘ بھی ہے ۔
ہماری جدیدنسل خاص طورپرتعلیم یافتہ طبقہ اسے نہایت اہتمام اورگرم جوشی سے مناتاہے اوراپنے اس فعل کوعین روشن خیالی تصورکرتاہے ۔اس دن لوگ ایک دوسرے کوبیوقوف بناتے ہیں ،آپس میں مذاق واستہزا،جھوٹ ،دھوکہ ،فریب ،ہنسی ،وعدہ خلافی اورایک دوسرے کی تذلیل وتضحیک کرتے ہیں۔ سماجی ،مذہبی اوراخلاقی اعتبارسے اپریل فول مناناحرام ہے ۔اس موقع پرعوام کوبیوقوف بنانے کے لیے اخبارات میں سنسنی خیزسرخیوں کے ساتھ خبریں شائع ہوتی ہیں جسے پڑھ کرلوگ تھوڑی دیرکے لیے ورطۂ حیرت میں پڑجاتے ہیں۔بعدمیں پتہ چلتاہے کہ آج یکم اپریل ’’اپریل فول‘‘ہے ۔ا س کے حرام ہونے میں کسی مسلمان کوذرہ برابرتذبذب کاشکارنہیں ہوناچاہیے اس لیے کہ اس میں جن امورکاارتکاب کیاجاتاہے وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔
اپریل فول منانے کاآغازکب ہوااورکیسے ہوا۔ا س سلسلے میں مختلف توضیحات وروایات ہیں۔البتہ اس حوالے سے کوئی پختہ تاریخی شہادت سامنے نہیں آئی ۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اپریل فول مغربی تہذیب اوریہودونصاریٰ کی دین ہے ۔ا س سلسلے میں جوروایات کتب تواریخ اوراخبارات میں موجودہیں ان میں سے چندحاضرخدمت ہیں:
(۱)انسائیکلوپیڈیاآف برٹانکااورانسائیکلولاروس کامصنف اپریل فول کی وجہ ایجادیہ لکھتاہے کہ
’’جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکرلیااوررومیوں کی عدالت میں پیش کیاتورومیوں اور یہودیو ں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مذاق ،تمسخر، استہزا اور ٹھٹھاکیاگیا۔ان کوپہلے یہودی سرداراورعلماکی عدالت میں پیش کیاگیا پھر پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ فیصلہ وہاں ہوگا،پھروہاں سے ہیروڈیلس کی عدالت میں پیش کیاگیاپھرہیروڈیلس سے پیلاطس کی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجاگیا،ایسامحض معاذ اللہ تفریحاً کیاگیا‘‘۔
(۲)لوقاکی انجیل میں اس واقعے کویوں بیان کیاگیاہے
’’جب لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوگرفتارکیے ہوئے تھے تویہودان کی آنکھیں بند کرکے منھ پرطمانچہ مارکرٹھٹھاکرتے تھے ۔ ان سے یہ کہتے تھے کہ نبو ت یعنی الہام سے بتاکہ کس نے تجھے مارا۔ا س کے علاوہ اوربہت سی باتیں بطورطعنہ کہتے تھے‘‘۔ (معاذ اللہ)
(۳)فریدی وجدی نے اپنی انسائیکلوپیڈیامیں لکھاہے کہ
’’میرے نزدیک بھی اپریل فول کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری ،ان کی شان میں توہین ،ان کے ساتھ مذاق اورتکلیف پہنچا نے کی یادگارہے‘‘۔
(۴)اردوکی مشہورلغت ’’نوراللغات‘‘۱/۲۴۱میں اپریل فول کے تعلق سے مصنف مولوی نورالحسن نیرلکھتے ہیں :
’’اپریل فول انگلش کااسم ہے اس کامعنیٰ اپریل کااحمق ہے اورحقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں دستور ہے کہ اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط،خالی لفافے میں یااوردل لگی کی چیزیں لفافے میں رکھ کربھیجتے ہیں۔ اخبارو ں میں خلاف قیاس خبریں چھاپی جاتی ہیں۔جولوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یااس قسم کی خبرکومعتبرسمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول قرارپاتے ہیں۔ اب ہندوستان میں بھی اس کارواج ہوگیاہے اورانہیں باتوں کواپریل فول کہتے ہیں‘‘۔
نوراللغات کی اس توضیح سے یہ ثابت ہوگیاکہ اپریل فول انگریزوں کادستورہے اورانگریزوں کادستوراپنانامسلم قوم کے لیے حرام ہے ۔
اپریل فول کی حقیقت کے تعلق سے یہ زمانۂ قدیم کے تاریخی شواہدتھے۔ماضی قریب میں بھی اس طرح کے واقعات یہودیوں اورنصرانیوں نے مسلمانوں کے ساتھ انجام دیے جواپریل فول سے تعلق رکھتے ہیں۔اگرکوئی مغربی تہذیب کادلدادہ دریدہ دہن ان توضیحات او ر واقعات کی بنیادپراپریل فول کوغلط تصورنہیں کرتاتوفی نفسہ ا س دن جو امورانجام دیے جاتے ہیں ان کی وجہ سے یہ حرام ہے۔ تمسخر، استہزا، جھوٹ ،فریب اورایک دوسرے فردیاجماعت کی ہنسی بناناحرام ہے۔ایک دوسرے کی ہنسی مذاق بنانے والوں کوقرآن متنبہ کرتاہے ۔
ترجمہ:اے ایمان والو!مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا ہنسی مذاق نہ اڑائے ۔شایدوہ ان مذاق اڑانے والوں سے (اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے بارگاہ الٰہی میں)بہترہوںاورعورتیں دوسری عورتوں کامذاق نہ اڑایاکریں ،شایدوہ ان سے بہترہوں اورنہ ایک دوسرے پرعیب لگائو اورنہ کسی کوبرے القاب سے آوازدو۔
(سورۂ حجرات: آیت ۱۱)
اس دن جھوٹ بکثرت بولاجاتاہے۔جھوٹ بولناحرام ہے گناہ کبیرہ ہے
اپریل فول کے موقع پرہنسی مذاق ،تمسخر،استہزا،جھوٹ ،دھوکہ ، مکروفریب ،وعدہ خلافی ،بددیانتی اورامانت میں خیانت وغیرہ وغیرہ امورانجام دیے جاتے ہیں۔یہ سب مذکورہ فرمان الٰہی اورفرمان رسالت کی روشنی میں ناجائزوحرام ،خلاف مروت ،خلاف تہذیب اور ہندوستان کے سماج ومعاشرے کے خلاف ہیں لیکن افسوس صدافسوس مسلمانوں پرکہ جنہیں خیرامت کاسرٹی فیکٹ ملاہے جوقوم نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنے کے لیے مبعوث کی گئی ہووہ قوم خداورسول کے دشمن یہودونصاری کی تقلیدکرتی ہے ۔
آج قوم مسلم اپنے ازلی دشمن یہودو نصاری کے جملہ رسم ورواج ،طرزعمل اورہرقسم کے فیشن کونہایت ہی فراخ دلی سے قبول کررہی ہے۔مسلم نوجوان اسلامی تعلیمات سے اس قدربے بہرہ ہیں کہ وہ دنیاوی امورمیں جائزناجائزکاخط فاصل نہیں کھینچ سکتے۔اگرکسی مسلمان کے بائیں ہاتھ میں مکمل دنیاہوتو دائیں ہاتھ میں مکمل دین ہوجس سے دنیاوآخرت میں کامیابی و کامرا نی سے ہم کنارہوں۔اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوۂ مصطفوی کے مطابق زندگی گزارنے اوریہودونصاریٰ کی تقلید سے پرہیز کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

ووٹ کا صحیح استعمال وقت کا تقاضہ ہے!

ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
             9358163428
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوری ملک میں ووٹ ایک آئینی حق ہے اور یہ حق کسی مخصوص جماعت یاکسی قوم وقبیلہ یا کسی منفرد طبقہ ومذہب کا حق نہیں ہے بلکہ یہ حق ہر اس شہری کا ہے جو 18سال کی عمر کو عبور کرگیا ہے گویا جمہوری ملک ہندوستان میں بسنےوالےہر بالغ مرد وعورت کا ووٹ یکساں حق ہے.
جمہوری نظام میں ووٹ ہی سب سے بڑی طاقت ہے ، اور یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہےکہ جمہوری نظام میں چاہے امیر ہو یا غریب پڑھا لکھا ڈگری یافتہ ہو یا پھر جاہل ان پڑھ گوار سب کے ووٹ کی حیثیت و قیمت برابر ہے امبانی ایڈانی کے ووٹ کی جتنی قیمت ہے یامودی ومنموہن کے ووٹ جو ویلو ایک عام جھوپڑی میں رہنے والے شخص کے ووٹ کی بھی اتنی ہی قیمت وحیثیت ہے.
جمہوری نظام کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ الیکش ، ووٹ اورووٹر ہی کسی کسی نیتا،لیڈر یاپارٹی کو شکست سے دوچار کرکے لمحوں میں عرش سے فرش پر پہنچا سکتے ہیں
جمہوری نظام کسی پارٹی یا لیڈر کو سبق سکھانےکا،  اپنی طاقت کا احساس دلانے ، اورجامع انقلاب برپا کرنے کا بہترین طریقہ اور درست راستہ ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے اپنے ووٹ کی اہمیت سمجھتے ہوئے اس کا صحیح اور برمحل استعمال کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ اس کے لئےبیداری اور غفلت ولاپرواہی سے بچنے کی تحریک چلانا تاکہ، اور کسی بھی طرح اس کو ضائع ہونے سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ آپ کا قومی فریضہ بھی ہے
    اس وقت ملک عزیز جن حالات سے گزر رہاہے ہمارا جمہوری نظام جن خطرات سےدوچار ہے ہندوستان کا ہر باشعور انسان اس سے اچھی طرح واقف ہے
   اس لئے ملک کے ہر باشندے اور خصوصامسلمانوں سے اس بات کی اپیل والتماس ہے کہ اپنے ووٹ کا صحیح جگہ پر درست استعمال کریں پوری ہوشمندی اور دوراندیشی کا مظاہرہ کریں پارٹی یا لیڈر کے انتخاب میں معمولی چوک بھی آپ کے ملک، آپ کی تہذیب ،مذہب وکلچر سب کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتاہے.
    یادرکھیں کہ یہ موقع پھر آپ کو پانچ سال بعد ہی آپ کو میسر آسکتاہے تب حالات کیاہوں قبل از وقت کچھ نہیں کہاجاسکتا
 آپ کے پاس ووٹ ایک امانت ہے اسے پوری دیانت داری کے ساتھ اداکریں
تجربہ بتاتاہے کہ ووٹ کے حوالے سے ہندوستان کا مسلمان سب سے زیادہ غفلت ولاپرواہی کا شکار ہے ایک بڑا طبقہ تواسے  محض دنیاوی امور سے تعبیر کرکے اس سے ہمیشہ کنارہ کشی اختیار کرتاہے لیکن فقہاء کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کی ووٹ کی حیثیت کم از کم شہادت کی تو ہے ہی اور شہادت کا ادا نہ کرنا یا کتمانِ شہادت شرعی نقطہ نظر سے ایک جرم ہے.

لالگنج پارلیمانی حلقہ کے امیدوار کو لے کر شدید مخالفت!

عبد الرحیم صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــ
لالگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) لال گنج پارلیمانی حلقہ میں امیدوار کو لیکر کافی گھمسان مچا ہوا ہے، جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے، یہاں کی پارلیمانی سیٹ اتحاد میں بی ایس پی کے کھاتے میں گئی ہے تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ سے گھورا رام کو لالگنج کا پربھاری بنایا گیا تھا، گھورا رام سابق وزیر بلیا کے رہنے والے ہیں اسی بنیاد پر الیکشن کے نزدیک آتے ہی ان کی مخالفت شروع ہوگئی، حالانکہ گھورا رام حلقہ میں اپنی پکڑ اچھی بنا لئے تھے اور ہر طبقہ میں ان کی مضبوط پکڑ تھی اور اتحاد ہو جانے پر ان کی پوزیشن اور مضبوط ہوگئی تھی، مگر مخالفت کے چلتے ابھی چند دنوں قبل ان کا ٹکٹ کٹ گیا، جس کو لیکر ان کے حمایتی سڑکوں پر اترے اور جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔
اور اب موجودہ ایم ایل اے لالگنج ارمیندر آزاد کی بیوی سنگیتا آزاد کو پارٹی کا نیا امیدوار بنایا گیا، اب ان کے خلاف بھی  کارکنان کی مخالفت ہورہی ہے، روز کہیں نہ کہیں مظاہرے ہو رہے ہیں، اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں مارٹین گنج بازار، ۔ننداؤں بازار، گوسائی گنج بازار،اور لالگنج بازار میں مین گیٹ تحصیل کے سامنے بھی بی ایس پی کارکنان نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور سنگیتا آزاد کے خلاف نعرے بازی کی۔
اتحاد سے بیر نہیں۔
سنگیتا کی خیر نہیں۔
کارکنان اور عوام کا الزام ہے کہ قومی صدر مایاوتی کو صرف ایک ہی گھر ملا ہے، سنگیتا آزاد کے شوہر پہلے سے ہی حلقہ لالگنج اسمبلی سے ایم ایل اے ہیں، قومی صدر کا یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے، محترمہ مایاوتی اپنے اس فیصلے پر دوبارہ غور کریں۔
موجودہ ایم ایل اے مسلم مخالف ہیں، اعظم گڑھ منڈل سے کوئی کو آرڈینیٹر نہیں ہے، بی ایس پی کو صرف مسلمانوں کا ووٹ چاہئے، احتجاجیوں کا مطالبہ ہے کہ پارٹی کی قومی صدر اس پر غور کریں ہمیں سنگیتا آزاد نہیں چاہئے، پارٹی ہائی کمان کسی اور نام پر غور کرے۔
اس موقع پر محمد تابش، وسیم احمد، محمد عادل، پرویز احمد ، محمد راشد، محمد شاداب، اوما شنکر چمار، برجو چمار کے علاوہ بہت سارے کارکنان موجود تھے۔
واضح ہو کہ لالگنج پارلیمانی سیٹ اس وقت بی جے پی کے پاس ہے۔

جمعیۃ علماء ضلع مئو کی میٹنگ کا انعقاد!

مئوناتھ بھنجن(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) جمعیۃ علماء ضلع مئو کی ایک اہم میٹنگ ملت منزل شاہی کٹرہ میں زیر صدارت مولانا خورشید احمد مفتاحی منعقد ہوئی قاری اعجاز احمد اعظمی کی تلاوت سے میٹنگ کا آغاز ہوا نظامت مولانا فاروق مظہری اور مفتی عبداللّٰہ  نعمانی نے کیا میٹنگ میں گذشتہ کاروائی کی خواندگی اور توثیق کے بعد نیوزی لینڈ کی دو مسجدوں میں ہوۓ دہشتگردانہ حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی جس میں پچاس سے زائد نمازی شہید اور چالیس سے زائد نمازی زخمی ہوگئے تھے دعائیہ کلمات کے بعد وہاں کی وزیر اعظم کی قابل اطمینان کارگردگی کی ستائس کی گئی اور کہا گیا کہ انکے عمل نے جہاں مسلمانوں کی
دلجوئی کی ہے وہیں دنیا بھر کے حکمرانوں کو یہ پیغام بھی دیا ہیکہ کسی بھی دہشتگردانہ کاروائی کی صورت میں وہاں کی حکومت کو کیا کرنا چاہیئے صحیح بات یہی ہے کہ اگر اسکے بر عکس معاملہ ہوتا تو دنیا کا منظر نامہ ہی کچھ اور ہوتا نیز کہا گیا کہ ایک خاتون وزیر اعظم نے جہاں سیاہ لباس میں ملبوس متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار ہمدری اور تعزیت کررہی ہیں وہیں پارلیمنٹ کا آغاز تلاوت کلام اللّٰہ سے کرکے اپنی تقریر کا آغاز السلام علیکم اور حدیث سے کررہی ہیں اور کہتی ہیں کہ مسلمان ایک جسم کے مانند ہیں اور اس حملے کو دہشتگردانہ حملہ کہکر کہتی ہیں کہ مارنے والا دہشتگرد ہے اسکا ہمیں نام لیتے نہیں سنیں گے اسکے خلاف سخت قانونی کاروائی ہوگی یہاں سب لوگ ایک ہیں اور برابر کے غم میں شریک ہیں جس سے نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کی دلجائی ہوئی بلکہ وہاں کے مسلمانوں کو مزید عزت سے رہنے کا حوصلہ ملا ان خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء مئو کی مذکورہ ہونے والی میٹنگ میں کیا گیا اور مشہور عالم دین مفتی توتقی عثمانی پرجان لیوا حملے کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی میٹنگ میں عام لوگوں سے یہ اپیل کی گئی کہ آئندہ ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں بڑھ چڑھکر اپنی حق راۓ دہی کا استعمال کریں اور ضلع کی سبھی اکائیوں کے ذمہ داروں کو ہدایت جاری کی گئی کہ ایک ہفتہ کے اندر اپنی میٹنگیں طلب کرکے اپریل کے اواخرتک اصلاح معاشرہ پروگرام کرلیں اور اسکی ترتیب بناکر اور مجلس منتظمہ کی فہرست مرتب کرکے سکریٹری کے پاس جمع کردیں مولانا شمس الاسلام قاسمی کی دعا پر میٹنگ اختتام پزیر ہوئی میٹنگ میں مولانا قاری مسیح الرحمٰن، مولانا سراج احمد، قاری افضال احمد، مولانا فیاض فیصل، مفتی منصور احمد، مولانا شمیم احمد، مولانا سہیل احمد، حاجی عزیز الحسن، حذیفہ دانیال، حافظ عبدالغنی، مولانا سعید الرحمٰن، حافظ جاوید عالم، غفران احمد، مولانا وصی احمد، مولانا انیس الرحمٰن، مولانا فیاض احمد، مفتی الوالقاسم، مولانا وحیدالحسن، ڈاکٹر الطاف پردھان، حافظ محمد نعمان، مولانا بدرالدین اور حاجی اسعد کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔

اٹاوہ کےاس یتیم بچہ کے جذبہ کو سلام، اٹاوہ کے تھانیدار آلوک کمار بھی مبارکبادی کے مستحق!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اٹاوہ(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) لوگوں نے سچ کہاہے اگر انسان خود پر بھروسہ کرے اور محنت ومشقت کوجاری رکھے، اور اس کام کوکرنے کے لئے عزم مصمم کرلے توکوئی چیز نہیں بنتی، کچھ ایسا ہی واقعہ اٹاوہ میں ایک بچہ کے ساتھ پیش آیا، اس بچہ نے اس بات کوثابت کردکھایا کہ اگر ارادہ پکا ہوتوکامیابی بھی پکی ہے،ہمارے ملک میں ایک طرف یہ دعوی کیاجاتا ہے، ملک سے غریبی دور ہوگئی ہے، غریبوں کو تعلیم مفت دی جارہی ہے، لیکن جب ہم زمینی سطح پر جائزہ لیتے ہیں توپتہ چلتا ہے، ملک کی ایک بڑی آبادی غربت میں زندگی بسر کررہی ہے، بہت ایسے غریب بچہ ہیں جن کی تعلیم کی طرف دلچسپی بھی ہیں، ان کے اندر مستقبل میں کچھ بڑاکارنامہ انجام دینے کی صلاحیت ہے،
وہ اس لائق ہیں خدا نے وہ ملکہ سے نوازا ہے وہ ملک وقوم کانام روشن کرسکیں،لیکن بیچارے وہ بچہ گھر کی مالی حالت کی وجہ سے تعلیم کی طرف رغبت کے باوجود گھر والوں کے دباو کی وجہ سے تعلیم منقطع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور غریب ماں باپ بھی مجبور ہوتے ہیں جب ان کا پیٹ ہی بمشکل بھررہاہوتاہے، بڑی مصیبت اورپریشانی کے بعد ان کے گھر کاخرچہ ہی چلتاہے، موجودہ زمانے میں تعلیم کابوجھ اٹھانا ایک غریب باپ کے باہر ہے، ورنہ ہرماں باپ کی یہ تمنا اور آرزو ہوتی ہے کہ اس کابچہ عمدہ تعلیم حاصل کرے اور خوب ترقی کرے، والدین اور قوم کانام روشن کرے،جب والدین کے سامنے شدید مجبوری ہوتی ہے جب اپنی غربت کی وجہ سے تعلیم کابوجھ اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں، تو اپنی اولاد کی تعلیم منقطع کرانے پر اورکسی کام میں لگانے پر مجبور ہوتے ہیں، لیکن اگر ماں بیوہ ہو تواولاد کی پرورش کرنا انتہائی مشکل کام ہے، پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کاخرچ برداشت کرنا اس زمانہ میں انتہائی دشوار ہے، کچھ ایسا واقعہ اترپردیش کے اٹاوہ ضلع کے گورو کے ساتھ پیش آیا، گورو کے ایک ہونہار ذہین بچہ ہے،گھر کے حالات ٹھیک ٹھاک تھے، وہ انگلش میڈیم کاطالب علم تھا، لیکن اچانک  دو سال ہوئے اس کے والد کا انتقال ہوگیا،  باپ کی شفقت سے محروم ہوگیا، بیچاری ماں پر غم کے ماتم چھاگئے، اس کے والدین کی یہ تمناتھی کہ ہمارا گورو تعلیم کے میدان میں خوب ترقی کرے، لیکن اچانک والد صاحب کے انتقال سے اسے صدمہ ضرور پہنچا، گورو کی ماں مزدوری کرتی ہے، گورو اس سال ساتویں درجہ پاس کیا، گورو ایک ہونہار طالب علم ہے، تعلیم کی طرف راغب ہے، گورو عمدہ تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کوسنوارنے کے فکرمند ہے، لیکن گورو کی ماں جواکیلی ہے، گورو ہی سب سے بڑا لڑکا ہے، بمشکل ہی گھر کاخرچہ چلاپاتی ہے، اس کی ماں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب گورو بھی میرا ساتھ مزدوری کرے گا، کچھ دن گورو نے بھی مزدوری کیا، اینٹ وغیرہ ماں کے ساتھ مل کردھوئے، لیکن گورو کامن اس میں نہیں لگ رہاتھا تواس کی تمنا تویہ ہی تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرے، ماں سے بہت ضد کیا لیکن ماں بیچاری کرتی بھی کیا، جب بمشکل ماں مزدوری کرکے بچہ کاپیٹ پال رہی تھی، بھلا اپنے لال کے اس خواہش کوکیسے پورا کرتی،اللہ تبارک وتعالی نے ماں کے دل میں اولاد سے اس قدر محبت ڈال رکھا ہے، کہ اولاد کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ماں بھی مجبور تھی، کیونکہ اس کالال انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرتا تھا، تعلیم کا خرچ برداشت کرنا ایک مزدوری کرنے والی ماں کے لئے انتہائی دشوار ہے، چنانچہ گورو کا تعلیم حاصل کرنے ضد کرنا کام نہ آیا، ماں نے گورو کی تعلیم کرکے اپنے ساتھ مزدوری کرانے کافیصلہ کیا.
گورو نے جب دیکھا اس کی ماں  ضد کرنے پر بھی راضی نہیں، اسے افسوس توضرور ہوا لیکن گورو کے دل میں تعلیم کی محبت تھی، تعلیم حاصل کرکے ترقی کے منازل طے کرناچاہتاتھا، چنانچہ گورو نے ایک انوکھی شاندار تدبیر سوچی، دل میں سوچا کیا پتہ اس تدبیر سے میں اپنےمقصد میں کامیاب ہوجاوں،گورو اپنی فریاد لے کر مقامی تھانہ پہنچا اور تھانیدار سے کہا، "میں پڑھنا چاہتاہوں لیکن میری ماں پڑھا نہیں رہی ہے، وہ غریب ہے، مزدوری کرتی ہے، مجھ سے مزدوری کرانے کوکہہ رہی ہے، حالانکہ میں پڑھنا چاہتاہوں "
گورو کی اس بات کوسن کر تھانیدار آلوک ورما کادل پسیج گیا اور بہت ہی سنجیدگی سے گورو کی بات کوسنا، اور اس کی پریشانی کوحل کرنے کی کوشش کیا، بچہ انگلش  میڈیم اسکول سے ساتویں درجہ اس سال پاس کیاتھا، گورو کی یہی خواہش تھی کہ وہ انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کرے، تھانیدار آلوک ورما کے سامنے اس فریاد کورکھا،چنانچہ تھانیدار آلوک ورما نے مقامی ایک پرائیویٹ اسکول لارڈ مدر سینیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل سے رابطہ کیا،اسکول کے پرنسپل نے جب موجودہ صورت حال سنی توگورو کا داخلہ لے لیا، اور تعلیم کی ذمہ داری خود لی، اور یہ وعدہ کیا جب تک گورو تعلیم حاصل کرنا چاہے، تواس کی تعلیم کی ذمہ داری ہم لیں گے،بالآخر گورو اپنے مقصد میں کامیاب ہوا، تھانیدار آلوک ورما اور لارڈ مدر سینیئر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں، ان کی کاوش سے جوبچہ علم کی دولت سے محروم ہونے کے در پر تھا، پورے جذبہ اور حوصلہ اور نئی لگن سے تعلیم حاصل کرے گا،
اس واقعہ سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ ہم اپنے پاس پڑوس میں ایسے یتیم بچوں کی مدد کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا ایسے ہی ہونگے پھر انگلیوں سے اشارہ کیا جتنا ان انگلیوں کے درمیان فاصلہ ہے، یتیم کی مدد کرنا اسلام میں اعلی درجہ کی عبادت ہے، ایسے خیر کے چیزوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اس واقعہ سے ان طلباء کے لئے نصیحت ہے جن کے والدین مستطیع ہیں ان کے والدین تعلیم حاصل کرا رہے ہیں، ان کواس کی قدر کرنا چائیے اور محنت ولگن سے تعلیم حاصل کرکے والدین کانام روشن کرنا چاہیئے، انہیں اللہ کاشکر ادا کرنا چائیے کہ اللہ نے علم حاصل کرنے کاموقع فراہم کیا ورنہ بہت سے غریب بچہ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن گھر کے مالی حالات کی وجہ تعلیم منقطع کرنا پڑا، وہی انسان کامیاب ہوتاہے توایک منزل اور مقصد کے تحت تعلیم حاصل کرتا ہے، ورنہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے ایک لمبی بھیڑ ہے، ایک جم غفیر ہے، لیکن باہنر اور باصلاحیت لوگ بہت تھوڑے ہیں، اس لئے آج ضرورت  اس بات کی ہے کہ ایک منزل پیش نظر رکھ کر تعلیم حاصل کیاجائے،

محبت کی انتہا عشق ہے تو عشق کی انتہا؟؟؟

✍️شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ اس زمانے کی بات ہے جب انیس نے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے اورینٹل کالج میں داخلہ لیا، داخلے کے بعد وقتا فوقتا کالج آتا جاتا رہا اس دوران انیس کی بہت سارے لوگوں سے شناسائی ہوگئی، شناساؤں کی لمبی فہرست میں ایک ایسا چہرہ بھی تھا جو انیس کے لیے بے حد خاص کب بن گیا تھا، اس کی اسے خبر بھی نہ ہوئی ۔اس کی ادا،  حسن، سنجیدگی اور متانت کا جادو انیس کے دل پر چل چکا تھا لیکن انیس کو اس کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں تھا کہ وہ کسی جادوگر کی جادوگری کا شکار ہوچکا ہے.
گرمی کی لمبی رخصت اپنوں کے درمیان گزار کر کچھ دنوں بعد  ایک بار پھر انیس کالج کی طرف رواں دواں تھا ۔ سفر کی مشقت جھیلتا ہوا کالج پہنچنے کے بالکل قریب تھا کہ کہیں سے ایک آواز آئی : میرے ہمسفر، میرے یار، میرا پیار ایک بار پلٹ کر دیکھ لے  ۔ اپنی محبوبہ کو، آرزو اور تمناؤں میں الجھی کتنے دنوں سے تیرے انتظار میں بیٹھی ہوں کہ میرا یار اور پیار آئے گا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر تڑپتے دلوں کو سکون بخشے گا، بہتے ہوئے اشکوں کو پونچھے گا، لگی ہوئی پیاس کو بجھائے گا اور دکھتے دلوں کا مداوا بن جایے گا..... جب اس آواز نے  انیس کے کانوں پر دستک دی تو انیس بھونچکّا رہ گیا ۔ ادھر ادھر پلٹ کر دیکھنے لگا ۔ کچھ دیر بعد انیس کی نگاہ اس چھریرے بدن، پتلی کمر،  خوبصورت رخساروں والی اس معصوم پر پڑی جس کی محبت کا احساس انیس کو تڑپا رہا تھا اور  جذبات کو بر انگیختہ کر رہا تھا کہ تیرا بھی کوئی طلبگار ہے- آخر کار انیس اس کے قریب پہنچ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بہت غور سے دیکھا تب اسے احساس ہوا کہ یہی میرا پیار ہے اور یہی میرے ارمان اور چاہت کی انتہا ہے۔ فرطِ جذبات میں آکر اسے اپنے سینے سے لگا کر آئ لو یو کہہ کر اپنی محبت کے بندھن کو مضبوط کیا..... پھر آہستہ آہستہ انیس کی یہ محبت پروان چڑھتی گئی ۔بالآخر جب انیس نے گریجویشن کرکے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہا تو کچھ روڑے انیس کی راہ محبت میں آکھڑے ہوئے..... محبت کی اس خوبصورت فضا کے بیچ دولت حائل ہوگئی ۔بہت اصرار کیا پر لڑکی کے والدین شادی کے لیے رضا مند نہیں ہوئے..... بڑی منت اور سماجت کی، اشک بھری آنکھوں سے گزارش کی کہ میرے پیار کا بھرم رکھ لیں، محبت کے بیچ حائل دولت کی اس دیوار کو منہدم کر دیں لیکن انیس کی ساری کوششیں ناکام اور سارے حربے بے سود ثابت ہوئے..... طلعت کی سسکیاں اور آہیں بھی والدین کے پتھر دل کو موم کرنے میں نا کام رہی، طلعت کی آنکھیں سوج گئیں اور روتے روتے آنسو خشک ہوگئے لیکن محبت کے بازار میں دولت غالب آگئی اور طلعت کے پیار کا بھرم ٹوٹ گیا۔ آخر اسی غم واندوه کے پہاڑ تلے دبی طلعت کچھ دنوں بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملی.....طلعت کی جدائی کے بعد بھی انیس مسلسل ان کی گلیوں کا چکر لگاتا رہا، ان کی یادیں اور بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کرتا رہا، محبت کی انمول دولت کو نہ پانے کا صدمہ بھی انیس پر بجلی بن کر گرا اور انیس بھی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا-عقل کی دولت سے محروم ہونے بعد بھی انیس نے طلعت کی گلیوں کو اپنا مسکن بنا لیا ۔ گھر والے لاکھ چاہتے کہ انیس اپنے گھر  لوٹ آئے اور اپنی زندگی کے بچے ہوئے ایام گھر پر گزارے لیکن انیس کسی کی نہیں سنتا اور سنتا بھی تو کیوں کر.....وہ تو طلعت کی محبت میں گرفتار ان کی یادوں میں کھویا ہوا صرف یہی کہتاتھا"محبت کی انتہا عشق ہے تو عشق کی انتہا کیا ہے؟" 

اپریل فول کی حقیقت اور شریعت اسلامی میں اس کی حیثیت!

از قلم: وقار احمد غالب پوری
mohdwaqarakhtar@gmail.com
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج ہمارے معاشرے میں جتنی ایسی اخلاقی وبائیں اورغلط رسم ورواج پائے جا رہے ہیں، وہ سب مغربی تہذیب اوریہودیوں کی دین ہیں۔
اسی قسم کی خلافِ مروت اورخلافِ تہذیب جاہلیت کی ایک چیز’’اپریل فول‘‘ بھی ہے ۔
جدیدنسل خاص طورپرجدید تعلیم یافتہ طبقہ اسے نہایت اہتمام اورگرم جوشی سے اسے فالو کررہا ہے اوراپنے اس فعل کوعین روشن خیالی تصورکررہاہے ۔اس دن لوگ ایک دوسرے کوبیوقوف بناتے ہیں ،آپس میں مذاق ،استہزا،جھوٹ ، دھوکہ ،فریب ،وعدہ خلافی اورایک دوسرے کی تذلیل وتضحیک کرتے ہیں ۔
فول اپریل کے حرام ہونے میں کسی مسلمان کوذرہ برابرتذبذب کاشکارنہیں ہوناچاہیے؛ اس لیے کہ اس میں جن امورکا ارتکاب کیاجاتاہے، وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حرام ہیں۔
اپریل فول کی حقیقت :
اس سلسلے میں مختلف توضیحات وروایات ہیں۔البتہ اس حوالے سے کوئی پختہ تاریخی شہادت سامنے نہیں آئی ۔بہرحال حقیقت یہ ہے کہ اپریل فول مغربی تہذیب اوریہودونصاریٰ کی دین ہے ۔ اس سلسلے میں جوروایات کتب تواریخ اوراخبارات میں موجود ہیں، ان میں سے چند پیش خدمت ہیں:
(۱)انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا اور انسائیکلولاروس کامصنف اپریل فول کی وجہ ایجاد یہ لکھتا ہے :
’’جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ کوگرفتارکرلیا اور رومیوں کی عدالت میں پیش کیا، تورومیوں اور یہودیو ں کی طرف سے حضرت عیسی کے ساتھ مذاق ،تمسخر، استہزا اور ٹھٹھا لگایا گیا۔ان کوپہلے یہودی سرداراورعلماءکی عدالت میں پیش کیاگیا، پھر پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ فیصلہ وہاں ہوگا،پھروہاں سے ہیروڈیلس کی عدالت میں پیش کیاگیا، پھرہیروڈیلس سے پیلاطس کی عدالت میں فیصلے کے لیے بھیجاگیا‘‘۔
ایسامحض معاذ اللہ تفریحاً کیاگیا۔
(۲)لوقاکی انجیل میں اس واقعے کویوں بیان کیاگیاہے :
’’جب لوگ حضرت عیسیٰ کوگرفتارکیے ہوئے تھے، تویہود ان کی آنکھیں بند کرکے منہ پرطمانچہ مارکرٹھٹھا کرتے تھے ۔ ان سے یہ کہتے تھے کہ نبو ت، یعنی: الہام سے بتا کہ کس نے تجھے مارا۔ اس کے علاوہ اوربہت سی باتیں بطورطعنہ کہتے تھے‘‘۔
(۳)فریدی وجدی نے اپنی انسائیکلوپیڈیامیں لکھا ہے:
’’میرے نزدیک بھی اپریل فول کی حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ کی گرفتاری ،ان کی شان میں توہین ،ان کے ساتھ مذاق اورتکلیف پہنچا نے کی یادگار ہے‘‘۔
(٤)اردوکی مشہورلغت ’’نوراللغات‘‘۱/٢٤۱میں اپریل فول کے تعلق سے مصنف مولوی نورالحسن لکھتے ہیں :
’’اپریل فول انگلش کااسم ہے۔ اس کامعنیٰ اپریل کا احمق ہے اورحقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں یہ دستور ہے کہ اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط،خالی لفافہ یا دل لگی کی چیزیں لفافے میں رکھ کربھیجتے ہیں۔ اخبارو ں میں خلاف قیاس خبریں چھاپی جاتی ہیں۔ جولوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یااس قسم کی خبرکومعتبرسمجھ لیتے ہیں، وہ اپریل فول قرارپاتے ہیں۔ اب ہندوستان میں بھی اس کارواج بالکل عام ہوگیاہے اورانہیں باتوں کواپریل فول کہتے ہیں‘‘۔
نوراللغات کی اس توضیح سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپریل فول انگریزوں کادستورہے اورانگریزوں کادستوراپنانامسلم قوم کے لیے حرام ہے ۔
شریعت اسلامی میں اپریل فل کی حیثیت:
اپریل فول کی حقیقت کے تعلق سے یہ زمانۂ قدیم کے تاریخی شواہد تھے۔ ماضی قریب میں بھی اس طرح کے واقعات یہودیوں اورنصرانیوں نے مسلمانوں کے ساتھ انجام دیے، جواپریل فول سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرکوئی مغربی تہذیب کادلدادہ دریدہ دہن ان توضیحات اور واقعات کی بنیادپر اپریل فول کوغلط تصورنہیں کرتا، توفی نفسہ اس دن جو امورانجام دیے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے یہ حرام ہے۔ تمسخر، استہزا، جھوٹ ،فریب اورایک دوسرے فردیاجماعت کی ہنسی بناناحرام ہے۔ایک دوسرے کی ہنسی مذاق بنانے والوں کوقرآن متنبہ کرت اہے ۔
اے ایمان والو!مردوں کی ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے ۔شاید وہ ان مذاق اڑانے والوں سے (اپنے اعمال صالحہ کی وجہ سے بارگاہ الٰہی میں)بہترہوں اور عورتیں بھی دوسری عورتوں کامذاق نہ اڑایا کریں، شایدوہ ان سے بہترہوں اورنہ ایک دوسرے پرعیب لگاؤ اورنہ کسی کوبرے القاب سے آواز دو۔
(سورۂ حجرات: آیت ۱۱)
دیگر نظریات سے بھی اپریل فل منانا ایک قبیح عمل:
اس دن جھوٹ بکثرت بولاجاتاہے۔جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ اورحرام ہے۔
اپریل فول کے موقع پرہنسی مذاق ،تمسخر،استہزا،جھوٹ، دھوکہ، مکروفریب ،وعدہ خلافی ،بددیانتی، امانت میں خیانت اور ان جیسے دیگر امورانجام دیے جاتے ہیں۔
یہ مذکورہ امور فرمان الٰہی اورفرمان رسالت کے علاوہ دیگر اطراف واکناف سے بھی خلاف مروت ،خلاف تہذیب اور ہندوستان کے سماج ومعاشرے کے خلاف ہیں۔
اپریل فل اور مسلمانوں کے احوال:
لیکن افسوس صدافسوس! مسلمانوں پرکہ جنہیں خیرامت کاسرٹی فیکیٹ ملاہے۔ جوقوم نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنے کے لیے مبعوث کی گئی ہو،وہی قوم آج خدا اور اس کےسول کے دشمن یہودونصاری کی تقلیدکررہی ہے ۔
آج قوم مسلم اپنے ازلی دشمن یہودو نصاری کے جملہ رسم ورواج، طرزعمل اور ہر قسم کے فیشن کونہایت ہی فراخ دلی سے قبول کررہی ہے۔ مسلم نوجوان اسلامی تعلیمات سے اس قدر بے بہرہ ہیں کہ وہ دنیاوی امورمیں جائز وناجائز کا خط فاصل نہیں کھینچ سکتے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوۂ مصطفوی کے مطابق زندگی گزارنے اوریہودونصاریٰ کی تقلید سے پرہیز کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین۔

اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر!

تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مشرقی اقوام کو دیار مغرب سے ملنے والی غیر مہذب وناشائستہ روایات میں ایک بڑی روایت”اپریل فول“ کہلاتی ہے، ہر سال یکم اپریل کو مرد وزن آپس میں ایک دوسرے کو جھوٹ بک کر واہیات پھیلا کر بے وقوف بناتے ہیں ایک دوست دوسرے دوست کو مٹھائی کھلانے کے بہانے بدمزہ چیز کھلا کر احمق بناتا ہے کوئی اپنے دوست احباب اوررشتہ داروں کو اپنے ہی کسی عزیز کے مرنے کی جھوٹی خبر دے کر انہیں رنج وغم میں مبتلا کرجاتا ہے اور کوئی اسی طرح کی جٹ پٹی خبر پھیلاکر لوگوں کا تمسخر اڑاتا ہے-
انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہم دینِ حق اسلام کی روشن تعلیمات کو پسِ پشت ڈال کر مادر پدر آزاد اغیار کی بے ہودہ اور بد تہذیب عادات و اطوار کے گرویدہ بنتے چلے جارہے ہیں۔ دینِ اسلام ہمیں جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے، اس کے باوجود ہم یکم اپریل کے دن یہود و نصاریٰ کی نقالی کرتے ہوئے جھوٹ بول کر اپنے احباب واقرباءکو بے وقوف بناتے اور ان کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ،اور پھر اپنے اس گناہ کو فخریہ انداز میں لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں.
دنیا بھر میں یکم اپریل کے روز بولے جانے والے جھوٹ کی وجہ سے بے شما ر لوگوں کی زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اپریل فول کاشکار ہونے والے لوگ شدید صدمے میں مبتلا ہوکر جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور کئی معاشرے میں منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہتے، اور گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں ۔ کتنے ہی گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور کتنے خوش وخرم جوڑے مستقل طور پر ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی گناہ و نقصانات کا چاہتے ہوئے بھی ازالہ و کفارہ ادا نہیں کر سکتے، جبکہ یہود و نصاریٰ کی تہذیب کی تقلید میں اندھے اکثر لوگ اپریل فول کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں
*اس رسم کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی*
اس بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مختلف مؤرخین کی الگ الگ وجوہات لکھی ہیں:
(1) بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترھویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس کی طرف منسوب کرتے تھے،
(2) اور دوسرے بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا، اس لیے اس دن کو لوگ جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگیا،
(3) بریٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ بیان کی جاتی ہے کہ 21 مارچ  سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذاللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کرکے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے لہٰذا لوگوں نے بھی اس زمانے کو میں ایک دوسرے کو بے وقوف بنانا شروع کردیا،اس کے علاوہ اس کی کئی وجوہات مختلف اہل علم حضرات نے لکھی ہے لیکن کون درست ہے کون غلط یہ بہتر کسی کو نہیں معلوم،
*برِصغیر میں فول اپریل*
کہاجاتا ہے کہ برِصغیر میں پہلی بار فول اپریل انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے منایا، جب وہ رنگون جیل میں تھے انگریزوں نے صبح کے وقت بہادر شاہ ظفر سے کہا کہ یہ لو تمہارا ناشتہ آگیا ہے جب بہادر شاہ ظفر نے پلیٹ پر سے کپڑا ہٹایا تو پلیٹ میں ان کے بیٹے کا  کٹا ہوا سر تھا جس سے بہادر شاہ ظفر کو بہت صدمہ پہنچا، جس پر انگریزوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا، (بحوالہ اپریل فول از عبدالوارث ساجد ،ص/31)
نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں ، ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب اور شائستہ ناموں سے کریں گے، شراب نوشی کریں گے مگر نام بدل دیں گے، سود خوری کریں گے اور اس کو نام کچھ اور دے دیں گے، غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بد ترین صورت ہوتی ہے کیوں کہ اس میں بھلائی کے لبادے میں برائی کی جاتی ہے، تہذیب کے نام پر بد تہذیبی کو روا رکھا جاتا ہے، آزادی کے نام پر نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی کم و بیش یہی حالت تھی، اہل عرب اپنے کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے، لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرب قیامت کی جو جو علامات ارشاد فرمائی ہیں، کسی قدر معمولی غور و فکر سے دیکھا جائے تو وہ منظر قریب قریب اب ہمارے سامنے ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ ہم اس دور سے گذر رہے ہیں،
ٹھہریے، رکیے، سوچیے
کیا آپ بھی یکم اپریل کو غیر اسلامی تہوار اپریل فول مناتے ہیں تو یہ بات یاد رکھ لیں کہ یہ رسم مندرجہ ذیل بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔(١) جھوٹ بولنا۔(٢) دھوکہ دینا۔ (٣) دوسرے کو اذیت پہنچانا۔ (٤) ایک ایسے واقعے کی یادگار منانا،جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے، یا توہم پرستی ہے، یا پھرایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق۔اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کرلینا چاہئے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلم معاشروں میں اپنا کراسے فروغ دیا جائے؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ماحول میں اپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے،لیکن اب بھی ہر سال کچھ نہ کچھ خبریں سننے میں آہی جاتی ہیں کہ بعض لوگوں نے اپریل فول منایا،جولوگ بے سوچے سمجھے اس رسم میں شریک ہوتے ہیں،وہ اگر سنجیدگی سے اس رسم کی حقیقت،اصلیت، شرعی حیثیت اور اس کے نتائج پر غور کریں تو انشاء اللہ اس سے پرہیزکی اہمیت تک ضرور پہنچ کر رہیں گے،
غرض اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمیــــن

حافظ حبیب اللہ بن ثناءاللہ کے انتقال پر اظہار تعزیت!

 محمد سالم آزاد
ــــــــــــــــــــــــــ
مدھوبنی(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ خبر سنی جائے گی کے ملک و ملت کے درد مند اور بے لوث خادم اور بچوں بچیوں کو گاوں محلہ میں تعلیمی خدمت انجام دے رہے تھے طویل علالت کے بعد داعی اجل کو لبیک کر گئے اناللہ وانا الیہ راجعون ان کے انتقال کی خبر جیسے ہی عام ہوئی اپنے پرائے تمام لوگ آبدیدہ ہو گئے، مرحوم کی خاکساری، بردباری، خوش گفتاری، منکسر المزاجی، ملنساری کو یاد کر سبھی لوگ ان کے حق میں دعاء مغفرت کرنے لگے.
اطلاع کے مطابق حافظ حبیب اللہ ثناء اللہ تقریبا دو تین مہینہ سے علیل چل رہے تھے کئی ڈاکٹروں سے دکھانے کے باوجود انہیں کون سی بیماری ہے اس کی تخشیص نہیں ہو سکی، بالا آخر وہ دار فانی سے کوچ کر گئے، رب العزت ان کے گھر والوں کو صبر کی طاقت بخشے. آمیـن
 حافظ صاحب کی رحلت پر راگھو نگر بھوارہ کے تمام احباب نے تعزیت کا اظہار کیا ہے، جن میں عبدالرب، مولوی کفیل اثری، مولوی امین اللہ، محمد واجد آزاد، محمد سالم آزاد نمائندہ الحیات، مولوی عارف، محمد انیس، عبدالحامد، حافظ سیف اللہ، فاروق نظامی بیگ صاحب، پروفیسر جاوید، پروفیسر یونس، ماسٹر احمد، مولوی نسیم، پروفیسر نعیم کے نام قابل ذکر ہیں.

ڈاکٹر ایس ٹی حسن مرادآباد سے سپابسپا امیدوار منتخب!

لکھنؤ(آئی این اے نیوز 31/مارچ 2019) ڈاکٹر ایس ٹی حسن کو سپابسپا اتحاد کا امیدوار منتخب کیا گیا، یہ اطلاع سماجوادی پارٹی کے ٹویٹر اکاونٹ کے ذریعہ دی گئی، غور طلب ہو کہ اس سے پہلے ناصر قریشی کو امیدوار بنایا گیا تھا لیکن مقامی لیڈران کی شدید مخالفت کی وجہ سے ان کی جگہ ڈاکٹر ایس ٹی حسن کو امیدوار مقرر کیا گیا، ڈاکٹر حسن ایک مقبول رہنما ہیں،
عوام میں ان کی خاصی مقبولیت ہے، مودی لہر میں بھی 2014میں انہوں نے کافی اچھی کارکردگی کامظاہرہ کیا تھا، اور بہت کم ووٹوں سے ان کی شکست ہوئی تھی، ایس ٹی حسن کے میدان میں آنے سے کانگریسی امیدوار عمران پرتاپگڑھی کی مصیبت بڑھ سکتی ہے، جہاں ایک طرف مقامی کانگریسی کارکنان عمران پرتاپگڑھی کے امیدوار بنائے جانے سے شدید ناراض ہیں، اور اعلی کمان سے برابر یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ عمران پرتاپگڑھی کی جگہ کسی مقامی لیڈر کوٹکٹ دیا جائے، ڈاکٹر ایس ٹی حسن کے میدان میں اترنے سے عمران پرتاپگڑھی کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں، ڈاکٹر ایس ٹی حسن ایک ایماندار صاف ستھرے کردار کے ایک مقبول رہنما ہیں، عمران پرتاپگڑھی کے لئے ان سے مقابلہ آسان نہیں ہوگا.

Saturday 30 March 2019

بیگم کے اصول!

ازقلم : جاوید ارمان سماجی کارکن نئی دہلی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1857 آزادی کے لئے لڑائی لوگوں کے سر چڑھ اٹھا تھا. اودھ کے نواب واجد علی شاہ کے ہاتھ سے سلطنت جانے کے بعد انگریز حکومت کولگا کی اب اودھ اس کی مٹھی میں ہے مگر جلد ہی ان کا اس غلط فہمی میں رہنا ٹوٹ گیا. جب واجد علی شاہ کی بیگم نے خود ہی انقلاب کی کمان اپنے ہاتھ میں پکڑ لی پورے اودھ میں بیگم کی قیادت میں انگریزوں کو زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑا. بیگم حضرت محل نے ہندو مسلم سبھی راجاؤں کو ایک کرکے اور عوام کا ساتھ لے کر اودھ میں ہر طرف انگریزوں کو ہرا دیا. یہاں تک کی پوری دنیا میں پہلی بار انگریزوں کی شان یونین جیک کو لکھنؤ ریجیڈنسی میں زمین پر گرا دیا گیا. ہر طرف بہت سے انگریز اور ان کے وفاداروں کی گرفتاری ہوئی. کرانتی کے ایک نائک سردار دلپت سنگھ بیگم کے دربار میں پہنچ کرکہتا ہے
بیگم حضور آپ اپنے انگریز قیدی کو ہمیں  دے  دیجئے. ہم ان کے ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاونی پر بھیجیں گے تاکی انہیں پتا چلے کی ہمارے ساتھ جو بد سلوکی کی گئی ہے یہ اس کا جواب ہے. ہم چپ رہنے والوں میں سے نہیں ہیں. بیگم کا چہرا سرخ ہو گیا. انہوں نے کہا ہرگز نہیں!  ہم اپنے قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو ایسا کرنے کی چھوٹ دے سکتے ہیں قیدیوں پر ظلم ڈھانے کا رواج ہمارے ہندوستان کا نہیں ہے. ہمارے جیتے جی انگریز قیدیوں اور انکی عورتوں بچوں پر ظلم نہیں کیا جا سکتا. ہندوستانی تہذیب قیدیوں کی بھی عزت اور حفاظت کر رہی ہے. آپ ہمارے سردار ہیں ہم آپ کی ہمت و جذبہ کی عزت کرتے ہیں. مگر ہم آپ کی مانگ پوری نہیں کر سکتے. اتنے بڑے دل کی ملکہ اور ہندوستان کی پہچان بیگم حضرت محل نے خود انگریزوں کے ظلم سہے. مگر اپنے اصولوں سے سمجھوتے نہیں کئے.

مسلمانوں کی دشواریوں کا حل کوئی حکومت نہیں کر سکتی: دانش فلاحی

بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/مارچ 2019) بھارت میں مسلمانوں کے مسائل اور دشواریوں کو حل کوئی حکومت نہیں کر سکتی ، حافظ  دانش فلاحی نے بلرياگج خاص مارکیٹ کے قریب جامع مسجد میں جمعہ کی نماز سے پہلے خطبہ میں کہا، انہوں نے بتایا کہ آج مسلمان مکمل طور پر برباد اور تباہ ہو رہا ہے جس کا سبب مسلمان خود ہے نہ کہ کوئی اور، انہوں نے کہا اگر مسلمان یہ سوچتا ہے کہ ہمارے مسئلہ کو حل کوئی حکومت کرے گی تو یہ اس کی بھول ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کے مسائل کے حل حکومت سے ہوتی تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے پر ظلم نہیں ہوتا، انہوں نے ان ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جہاں اسلامی راج ہے کہ اگر مسلمانوں کا مسئلہ حل حکومت سے ہوتی تو جہاں مسلمانوں کے حکمران ہیں، جہاں مسلم ریاستیں ہیں آخر وہاں مسلمانوں کے ساتھ مسائل کیوں آ رہے ہیں اور تباہی کیوں آ رہی ہے، وہاں کا مسلم کیوں تباہ اور پریشان ہے، اس لیے مسلمانوں کا مسئلہ حل کوئی حکومت نہیں کرے گی، مسلمان خود اس کا ذمہ دار ہے کیونکہ مسلمان آج دین اور اسلام کے راستے سے بھٹک گیا ہے، اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے انکار کر رہا ہے، قرآن کا دامن چھوڑ دیا ہے، اللہ سے دوری بنا لیا ہے جس کی وجہ سے مسلمان تباہ اور برباد ہو رہا ہے.
حافظ فلاحی نے کہا کہ آج انتخابات کا دور چل رہا ہے اور مسلمان طرح طرح کی پارٹیوں کے تبلیغ میں لگ گئے ہیں جبکہ کہ کسی بھی پارٹی سے مسلمانوں کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے، چاہے وہ کوئی بھی پارٹی ہو، انہوں نے ہر جماعتوں کا نام لیتے ہوئے کہا کہ چاہے وہ مسلم کی پارٹیاں ہو یا غیر مسلم کی پارٹیاں ہوں، کسی بھی پارٹی کی کبھی بھی کوئی حکومت بنے گی تو مسلمانوں کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، اگر مسلمان اپنی مسئلہ حل چاہتا ہے تو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، غریبوں کی مدد کریں، دین کے راستے کو پہچانے، معاشرے کی بھلائی کرے، انسانی خدمات کرے، اپنی کمائی سے صدقہ نکالے، اگر مسلمانوں کے پاس صدقہ نکالنے کے لئے رقم نہیں ہے تو خون پسینہ بہاکر سخت محنت کرے اور اس پیسے سے اپنا گھر پریوار چلائے یہ بھی ایک نیکی ہے، انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں زندگی جینے کا طریقہ قرآن میں دیا گیا ہے اگر قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر آج بھی مسلم چلنے لگے تو پھر وہ اپنی حکومت کر سکتا ہے، سبھی کے دلوں پر راج کر سکتا ہے لیکن پہلے انسانوں کی خدمت کرے اور غریبوں کی مدد کرے، جھوٹ بولنا بند کرے اسی میں اس کی بھلائی اور کامیابی ہے.
انہوں نے کہا کہ جب جب مسلمانوں نے انسانوں کی خدمت کی ہے، دوسروں کی بھلائی کی ہے اس وقت تک مسلمانوں نے دنیا میں راج کیا ہے اور جب سے دوسروں کا حق حصہ ہڑپنا شروع کیا ہے انسان کو تنگ کرنا شروع کیا ہے تو وہ خود اپنے کام کیوجہ سے غلام بن گیا ہے.

فارغین جامعہ مظا ھر علوم کا الوداعی پیغام!

مادر علمی کے نام
ازقلم: احتشام الحق کبیر نگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وائے ناکامی:کہ اب وقت جدائی آگیا
اور اب ہونٹوں پہ یہ پیغام وداعی آگیا
خوں کے آنسو، رواں ھیں،دامنِ دل تارتار
الوداع کہتے ھوئے گونجی ھے بانگِ اضطرار
رئس محترم،صدرِمکرم، اساتذۂ کرام، قارئینِ ذوالاحترام، اور عزیز ساتھیوں!
آج کا دن ہمارے لئے خوشی اور غم کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ جلوہ گر ھے، اور ہم اپنے دلوں میں،وصال و فراق کے دو متضاد اثرات پا رھے ھیں ،
یعنی ابھی کل کی بات ھے کہ ہم دور دراز سے ،،اطلبو العلم ولو بالصین،،،،،،، کے جزبۂ مستانہ سے سر شار ہوکر جامعہ میں کشاں کشاں، چلے آئے تھے، اور اس وقت ہم اپنے جامعہ کہ آغوشِ تعلیم و تربیت میں جگہ پاکر بہت مسرور و شاداں تھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،
لیکن آج : جب نصابِ مقرر وحدیث مسلسل کی تکمیل ہوجانے کے بعد اپنے گھروں کی جانب کوچ کرنے والے ھیں ، تو ہم غم فراق سے بوجھل ھیں ، ہمارے سینے شدتِ غم سے پھٹے جارھے ھیں ، ہمارے کلیجے منھ کو آرھے ھیں ، ہمارے دلوں کی دھڑکنیں کم اور کبھی تیزہورھی ھیں ، ہماری انکھوں سے آنسوں کے دھارے رواں ھیں ،مہرِ کارواں کی جانب سے ہمیں اذنِ رحیل مل چکا ھے ، اور سمندِ عزم ، جست لگانے کے لئے دو پیروں پر بالکل تیار کھڑا ھے ،،
لیکن ہمارے قلوب، ہجرت کے لئے آمادہ نھیں ھیں ، ہمارے پاؤں جامعہ کے دامنِ محبت میں الجھے ہوئے ھیں ،، جو کہ از خود چھوڑنا نھیں چاہتے ھیں ، ہماری نگاہیں رئیسِ محترم۔ اور حضراتِ اساتذۂ کرام، کے چہروں پر ٹکی ہوئی ھے ، جو کہ ہٹنا نھیں چاہتی، اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ انسانی فطرت، جزبۂ وفاداری، اور شیوۂ حق شناسی کا عین تقاضہ ھے ،،
میرے محترم رفیقوں!! بھلا ہم اپنے اس مادرِ علمی کو کیسے بھلا سکتے ھیں ،، جس نے کل اپنی پیاری ، پیاری ، بانہوں کو لہرا لہرا کر ہمارا پر جوش استقبال کیا تھا ،،اور اپنے معنوی سینے سے لگا کر ایک حقیقی ماں جیسا ، خلوص و پیار بخشا تھا ، اور ایک متعینہ مدت تک اپنے علمی و تربیتی کوکھ میں رکھ کر ٹھیک اسی طرح ہماری پرورش کی ھے ، جس طرح ایک مرغی اپنے انڈوں کو اپنے پیروں اور پروں میں سمیٹ کر ایک خاص مدت تک سیتی ھے اور پھر اس سے ننھے ننھے چوزے نکال کر انھیں چلنے پھرنے اور دوڑنے کے لائق بنادیتی ھے ۔۔۔۔
کاروانِ طلبِ علم کے میرے ہم سفروں ۔۔۔۔بھلا ہم اپنی درسگاہوں کو کیسے بھلا سکتے ھیں جن میں ہمیں علمی دانے چگنے کے سنہرے مواقع نصیب ھوئے ، اور ہم اس دارالحدیث کو کیسے بھلا سکتے ھیں جو ہمارے قال اللہ قال الرسول کے زمزموں سے ایک مدت تک گونجتی رھی ، ہم اس مسجدِ جامعہ کو کس طرح فراموش کرسکتے ھیں ، جس کے فرشِ عنمبری پر ہم سجدہ گزاری کیا کرتے تھے ،،
ہم اس باب مظاھر کو کیسے نظر انداز کر سکتے ھیں جو ہر شام و سحر ہمیں اپنی دل فریب مسکراہٹوں کے ساتھ ویلکم، کہا کرتا تھا۔۔۔
کاروانِ علم کےمیرے ہم رکابوں!!! آ جب ہم اپنی حسرت بھری نگاہیں، حضرتِ رئیس محترم کے چہرۂ خوباں پر ڈالتے ھیں تو ہماری چیخ نکل جاتی ھے ، ہمارے حواس گم ھوجاتے ھیں ، ہم ہوشربادرمیں داخل ھوجاتے ھیں ، ہمارے دل ، فرطِ غم سے چھلنی ھونے لگتے ھیں ،، اور آنسوں کاسیلاب ہماری انکھوں کے چشمۂ سیال سے رواں ہو کر ہمارے رخسار کو تر بتر، کرتے ھوئے ، ہمارے دامنوں کو بھگو دیتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے عزیز ساتھیوں!!! یہ وہی مردم ساز شخصیت ھے ، جنھوں نے ہمیں بنانے اور سنوارنے میں پوری محنت صرف فرمائی،، یہ وہی افراد گر ہستی ھے ، جنھوں نے ہم جیسے مٹی کے ٹھیکروں کو دُررہائے اثمنہ، بنادیا ، یہ وہی ساقئِ فرزانہ ھیں، جنھوں نے ہمیں علم و ہنر بھرے جام لٹائے ھیں ، یہ وہی مشفق و مہربان اور ناظم ذیشان ھیں جنھوں نے ہمیں باپ جیسا پیار بخشا ،
اور جب ہم ان کی مخلصانہ دعوت پر لبیک کہتے ھوئے یہاں ائے تو انھوں نے ہمیں دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہا ،
ہمارے لئے در، در کی خاک چھانی، ہمارے لئے دور دراز کے اسفار کئے ، ہمارے لئے خورد و نوش کا بہترین انتظام فرمایا ، ہمارے لئے پرسکون ماحول میں رہ کر تعلیمی مراحل طے کرنے کا زریں موقع بہم پہوچایا ، ہماری خوابیدہ صلاحیتیوں کے ابھارنے اور ہمیں چاند، سورج کی طرح نکھارنے میں اہم رول ادا فرمایا ،،،، انھیں الوداع کہتے ھوئے ہماری زبانیں گنگ ھوجاتی ھیں ، ہمارے ذھن و دماغ ماؤف ہوجاتے ھیں ، ہمارے کلیجے منھ کو آتے ھیں ، مصافحہ کرتے وقت ہاتھ چھوڑنےکو جی نھیں چاہتا ،، اور رخِ تاباں سے نگاہیں ہٹنا نھیں چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح جب ہم اپنی معزز اور مؤقر اساتذہ کی جانب ، وداعی نظریں اٹھاتے ہیں ، تو ہمارے قلوب ، جزباتِ محبت سے لبریز ہوجاتے ھیں ، انھیں الوداع کہتے ھوئے ہماری ہچکیاں بند ھوجاتی ھیں ،، ہماری انکھوں سے آنسؤں کی دھاریں رواں ھیں ، اور ہم احساسِ غم کے بحرِ عمیق میں غوطہ زن ھیں۔۔۔۔۔۔
میرے ہم عصروں ۔۔۔۔۔۔۔ میخانۂ مظاھر کے یہ وہی قسّامانِ داناں ہیں جنھوں نے ہمیں اپنی شبانہ روز کی مجلسوں میں ، صحبت و ہمنشینی کا شرف بخشا ، ہم پیاسے تھے ہمیں علوم دین کے جامِ جم سے سیراب فرمایا ،،، ہم گونگے تھے ، ہمیں لبِ اظہار عطا کیا ، ہم تہی دامن تھے ہمیں علوم و فنون کے یواقیت و لألی سے بھر پور کیا ،، ہم بے خبر تھے ہمیں  اسرار زندگی سکھائے، ہم تہزیب و تمدن سے ناآشنا تھے، ہمیں تہزیب و تمدن کے گر   سکھلائے ، ہم آخلاق سے بے بہرہ تھے ہمیں زیورِ اخلاق سے آراستہ فرمایا ، ہمیں حوادث کی بھیانک موجوں سے کھیلنے کا حوصلہ بخشا ،،ہمیں مصائب و آلام میں الجھ کر مسکرانے کا ہنر دیا ،، ہمیں راہِ وفا میں رکاوٹوں کی ناقابلِ تسخیر چٹانوں کو ، عزم جواں سے چور چور کرنے کا سلیقہ عطا کیا ،،ہمیں بجلیوں کاجواب قہقہوں سے دینے کا جرأتِ رِندانہ دی ،، ہم جاہل تھے ، ہمیں مختلف علوم و فنون کی کتابوں کے تالے کھولنے کی کنجیاں عنایت فرمائی،، ہمیں اخلاصِ عمل کے سانچے میں ڈھال کر ایثار و۔و فا کے نمونے بناکر ، قوم کے سامنے پیش فرمایا،، ہم۔گھٹنوں کے بل چلنے والے تھے انھوں نے ہمیں سنبھلنا، چلنا، اور پھر میدانِ عمل میں دوڑنا سکھایا ،، ،،،،،،،، آج ہم ان کی شفقت و محبت کے گھنے سایوں سے محروم ہورھے ھیں، تو ہمیں اپنی یتیمی کا احساس ہورھا ھے اور ہمیں اپنی حرماں نصیبی پر رونا آتا ھے ۔۔
رئیس محترم کی مہر الفت یاد آتی ھے
ہمیں استاذوں کی نظر محبت یاد آتی ھے
جدائی کہ کھڑی ہم خون، کے آنسوں بہاتے ھیں
یقینا شدتِ غم سے کلیجے منھ کو آتے ھیں ،،،،
اور ہاں اے میرے ہم دموں۔۔ جب ہم اپنے ماضی پر نظرڈالتے ھیں تو باہمی میل جول، نشست و برخاست، قیام و طعام، لکھنا پڑھنا، چلنا پھرنا، اور کھیل کود یاد کرکے، فرطِ خوشی سے جھوم جاتے ھیں ،
لیکن اس کے ساتھ ھی جب ہم کو مستقبل کی طویل مفارقت کا تصور آتا ھے تو دل کانپ جاتے ھیں  روحیں لرز جاتی ھیں ، بدن پر کپکپی طاری ھوجاتی ھے ، اور فراق و جدائی کا احساس جان لیوا پیغام بن کر ہماری آنکھوں کے پردوں پر جلوہ گر ہوجاتا ھے۔۔
چمنِ مظاھر کے نوشگفتہ غنچوں۔۔۔۔۔ آج کا دن ہمارے لئے یوم احتساب بھی ھے ،،یعنی آج ہمیں یہ سوچنا ھے کہ۔۔۔۔ جامعہ کے قیام کے دوران جہاں ہمارے رئیسِ محترم نے تمام تر سہولیات و مراعات سے نواز کر ہمیں پُر سکون ماحول میں حصول تعلیم کا ہر امکانی پہلو مہیافرمایا اور ہمارے مشفق اساتذۂ کرام نے ہم پر علم و ہنر کے گراں قدر مینھ برسائے ، تو ہم نے ان سہولیات و مراعات سے کتنا فائدہ اٹھایا ، اور علم و ہنر کی ان بارشوں سے کس قدر سیراب ہوئے اور انکے جزبات و خواہشات کی کس درجہ قدردانی کی ،،،،
اگر ہم سے کچھ حقِ قدر دانی ادا ہو سکا تب  تو دل و جان سے شکرِ خداوندی بجالائیں اور اگر جانے انجانے میں خامیاں اور کوتاہیاں سرزد ھوئی ھوں تو آئندہ اپنے قول و وعمل سے ان کی تلافی اور تدارک کا عزم بالجزم کریں ۔۔
اے افق مظاھر کے درخشندہ ستاروں۔۔۔۔۔۔۔ہمارا یہ بھی اخلاقی فریضہ اور منصبی تقاضہ ھے کہ ہم اپنے محبوب جامعہ کے پیغام کو دنیابھر میں عام کریں ، اس کی خدمات کو خوب خوب متعارف کرائیں ، اس کے مشن کو روز افزوں اگے بڑھائیں، اور اس کی نیک نامی کے باعث بنیں۔
اور ہمارے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ، جب بھی ملک و ملت پر کوئی نازک وقت آئے تو مخلصانہ اور رضاکارانہ، اپنا ہر ممکن تعاون اور خدمت پیش کریں ۔۔
ہم دست بدعا ھیں کہ خدائے ذوالجلال ، ہمیں اخلاص و ایثار کی دولت سے نوازے اور پوری زندگی اشاعتِ اسلام کی توفیق بخشے،،، آمین
اے چمن زارِ مظاھر تیری عظمت کو سلام
تیری الفت، تیری عزت، تیری حرمت کو سلام
السلام اے باغِ دیں اے مرکزِ دیں السلام
السلام ائے فخرِ دوراں اے محمد کے غلام
تیری خدمت، تیری شہرت، زندہ باد، زندہ باد
تاقیامت نامِ نامی، تیرا ھو پائندہ باد
وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

بھاجپا کے بہانے مسلم قیادت والی پارٹیوں کا سیاسی قتل کرنا چاہتا ہے مہا گٹھبندھن و کانگریس گٹھبندھن: عامر رشادی

کیا پورے صوبہ میں ایک بھی مسلم قیادت والی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جس کو نام نہاد سیکولر پارٹیاں اپنے گٹھبندھن کا حصہ بنا سکیں؟ راشٹریہ علماء کونسل 
اشرف اصلاحی
ــــــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 30/مارچ 2019) سبھی سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیئے مگر کوئ بھی پارٹی مسلم سماج کو ان کے حقوق دینے کو تیار نہیں ہے۔ موجودہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم سماج کو سیاسی غلام ہی بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ مسلم سماج قلی بن سیکولرزم کی گٹھری کو ڈھوتا رہے اور ان پارٹیوں کو حکومت تک پہونچاتا رہے اور اپنی قیادت اور حصہ داری کی بات کرنا تو دور اس ضمن میں سوچے بھی نہیں۔ اسی سازش کے تحت صوبہ میں بھی جو مہاگٹھبندھن بنا ہے اس میں بھی کہیں مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیوں کو حصہ داری نہیں دی گئ ہے اور نہ ہی سیکولرزم کی مسیحا کہی جانے والی کانگریس نے اپنی قیادت میں بنے گٹھبندھن میں کسی مسلم قیادت والی پارٹی کو کوئ جگہ دی ہے۔ دونوں گٹھبندھن کا مسلم قیادت والی پارٹیوں سے دوری بنائے رکھنا یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ پارٹیاں مسلمانوں کو اپنا بندھوا سیاسی مزدور سمجھتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ بھاجپا کا خوف دکھا کر ہم مسلمانوں کا ووٹ تو ایسے ہی لے لیں گے تو ان کی قیادتوں کو حصہ داری دے کر کیوں انہیں خوددار بنائیں اور سیاسی طور پر متحد اور بیدار ہونے دیں۔ مذکورہ باتیں راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے مرکزی دفتر لکھنئو میں منعقد پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
       انہوں نے کہا کہ " بھاجپا کو حکومت سے باہر ہم بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ مہنگائ، غریبی، فرقہ واریت وغیرہ سے ملک کو بچایا جا سکے اور اس لئے ہم لگاتار کوشش کرتے رہے کہ فاسشٹ طاقتوں کے خلاف سبھی حزب اختلاف پارٹیاں متحد ہوکر انتخاب لڑیں اور بھاجپا کو حکومت سے باہر کا راستہ دکھائیں لیکن کانگریس ہو یا مہا گٹھبندھن یہ ہماری حمایت لینے کو تیار ہیں مگر ہمیں حصہ داری دینے اور ہماری قیادت کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ہم نے تو بڑا دل دکھاتے ہوئے 2017 کے ودھان سبھا انتخاب میں مایاوتی صاحبہ کی گزارش پر دلت قیادت کو ختم کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے پوری حمایت دے دی تھی اور بابا امبیڈکر کے لئے مسلم لیگ کی قربانی کو دہرایا تھا مگر اس کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کانگریس اپنا دل و مہان دل جیسی چھوٹی پارٹیوں سے گٹھبندھن کر چکی ہے یہاں تک کہ این آر ایچ ایم(NRHM) جیسے بڑے گھوٹالے کے ملزم بابولال کشواہا تک سے گٹھبندھن کر چکی ہے لیکن مسلم قیادت کو ایک گھوٹالے باز سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے اور انہیں ساتھ لینے کو تیار نہیں ہے۔ بسپا اور آر ایل ڈی سے گٹھبندھن کے بعد سپا نے جنوادی پارٹی اور سمانتا دل جیسی چھوٹی پارٹیوں سے بھی گٹھبندھن کیا ہے مگر اسے بھی مسلم قیادت کا وجود نہیں چاہیئے۔ ان میں سے کوئ بھی پارٹی کسی بھی مسلم قیادت والی پارٹی کے ساتھ گٹھبندھن کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلم قیادت والی پارٹیوں کو سیاسی اچھوت بنا دیا جائے تاکہ پورا سماج ہی سیاسی لیڈرشپ و حصہ داری اور اپنے حقوق کی بات کرنا ہی چھوڑ دے۔ مسلم قیادت والی کچھ پارٹیوں نے کانگریس اور مہاگٹھبندھن کے ساتھ گٹھبندھن کا حصہ بننے کی کوشش بھی کی تاکہ ووٹوں کا بکھراؤ نہ ہو مگر انہیں بھاجپا کو روکنے سے زیادہ مسلم سماج کی سیاسی حصہ داری کو روکنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ نہ تو کانگریس اور نہ ہی مہاگٹھبندھن کو پورے صوبہ میں 22 فیصد ووٹ والے کسی بھی مسلم قیادت والی پارٹی گٹھبندھن کا حصہ بنانے کے لائق نہیں ملی جبکہ 1.5 فیصد ووٹ والے جاٹ برادری کو اور ایسے ہی کشواہا، موریا، پٹیل وغیرہ برادری کی پارٹیوں کو بھی حصہ داری دے دی گئی ہے۔
مولانا نے مزید کہا کہ یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو صرف اپنا سیاسی غلام سمجھتے ہیں اور پورے سماج کے ووٹ کو اپنا مال سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ابھی پچھلے ہفتہ مسلم قیادت والی ایک 40 سالہ پرانی پارٹی کے اعلی لیڈران کو راہل گاندھی دو دن تک اپنے دلی دفتر پر بیٹھائے رکھے اور پھر بغیر ان سے ملے انہیں واپس لوٹا دیا اور وہیں اترپردیش میں سپا نے ایک مسلم قیادت والی پارٹی کو سال بھر سے زائد دھوکے میں رکھ کر اپنے پیچھے دوڑاتے رہے اور ضمنی انتخاب میں ان کا ووٹ تک لے لیا اور اب جب حصہ داری دینے کا وقت آیا تو انہیں بھی کنارے کر دیا جبکہ انکے ذریعہ ہی لائ گئ ایک دوسری پارٹی کو مہاگٹھبندھن کا اعلانیہ طور پر حصہ دار بنا دیا۔  ایسی حالت میں یہ صاف ہے کہ مسلم سیاسی قیادت کو یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں ابھرنے ہی نہیں دینا چاہتی۔ انہیں صرف مسلمان جی حضوری اور ان کا جھنڈا ڈنڈا ڈھونے کے لئے ہی چاہیئے۔ کیا یہ بھاجپا کے ہارڈ ہندتوا کی آڑ میں ان سیکولر پارٹیوں کا سافٹ ہندتوا کا چہرا ہے ؟
ان حالات میں ہم جیسی پارٹیوں کو اپنے وجود کو بچائے رکھنے کے لئے خود ہی جمہوری طور طریق کا حصہ بننا ہوگا اور اپنے سماج کے ساتھ ہی دوسرے پسماندہ و مظلوم سماج کی آواز بن سیاسی سنگھرش جاری رکھنا ہوگا اور ہم اس کے لئے تیار ہیں۔ ساتھ ہی ہمارا یہ بھی ماننا ہے کہ ملک سے بھاجپا کی غیر جمہوری، بدعنوان، فرقہ پرست سرکار کو کرسی سے باہر کرنا بھی ملک کے مفاد میں بہت ضروری ہے اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیئے۔ اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ راشٹریہ علماء کونسل صرف کچھ محدود لوک سبھا سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے گی۔ جہاں ہمارا مظبوط پارٹی ڈھانچہ ہو یا جہاں ہماری موجودگی بہت ضروری ہو۔ ہم صوبہ کی صرف 10 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتار رہے ہیں اور مظبوطی سے انہیں ہی لڑائیں گے۔ کیونکہ جمہوریت میں وہی سماج زندہ ہوتا ہے جس کی سیاسی قیادت و موجودگی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ دوسری جس سیٹوں پر مسلم اور دوسرے پچھڑے سماج کی قیادت والی پارٹیاں اپنے امیدوار لڑا رہی ہیں کونسل ان امیدواروں کو اپنی حمایت دے کر اپنے قیام کے روز اول سے مسلم و پچھڑی ذات کی پارٹیوں کے متحد کرنے کی کوشش کو سچ کر دکھائے گی۔

اپریل فول، آنکھوں میں دهول، کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟؟؟

ہوشیار!  یکم اپریل آنے والا ہے، پھر کیا ہونے والا ہے؟
محمد انور داؤدی ایڈیٹر روشنی اعظم گڑھ یوپی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اپریل کی پہلی تاریخ کویوروپ وامریکہ سےجاری ایک بری رسم نےتقریباتقریبا چاروں سمتوں کواپنی لپیٹ میں لےلیا ہے مزیدافسوس کی بات یہ ہےکہ یہ رسم ہمارےمسلم معاشره میں  بهی درآئ ہے
کیوں ایک اپریل کوفول کہتے ہیں؟اسی تاریخ کوہی  ہنسی مذاق کیوں جائز سمجهاجاتاہے؟اپریل فول کی تاریخی حقیقت کیاہے؟ اسلام کی کیاگائڈ لائینس ہیں؟ آئیے اسکی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں ،میں نےاپنےاس مضمون کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے،
پہلےحصےمیں اپریل فول کی تاریخی حیثیت اور دوسرےمیں اپریل فول کی شرعی حیثیت پهر آخر میں خلاصہ
 اپریل فول کی تاریخی حیثیت
   اگر انگریزی لغت میں جائیں تواپریل فول کامعنی ہے"اپریل کااحمق"
ویسے اپریل لاطینی زبان سےنکلاہے جسکامعنی آتاہے"پهولوں کاکهلنا،کونپلیں پھوٹنا "
اپریل فول کی متضاد تاریخی وجوہات ملتی ہیں لیکن کسی مستند حوالےسے ان قصص کی تصدیق نہیں ہوپارہی ہے
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق قدیم تہذیبوں میں(جیسے رومن تہذیب) نئےسال کاآغازسنہ جولین کیلنڈرکےحساب سے یکم اپریل سےہوتاتهاجسےپوپ جورج ہشتم نے1582/میں ختم کرکےایک نیاکیلنڈرجورجین کیلنڈرکےنام سےجاری کرنےکاحکم دیاجس میں نیاسال یکم اپریل کےبجائے یکم جنوری سے شروع ہوتاہے
اورفرانس نےنئےسال کاجشن جنوری سےمنانابهی شروع کردیامگرغیرترقی یافتہ ذرائع ابلاغ کیوجہ سےبہت سےلوگوں کواسکاعلم نہ ہوسکایاانهوں نے جنوری سےنئےسال کےآغازکوقبول نہ کیااورحسب دستوروه یکم اپریل کوخوشی   منانےلگےاورتحائف کاتبادلہ بهی کرنےلگےتوجدت پسندوں نےان قدامت پسندوں کاخوب مزاق اڑایااوربےوقوف بنایا کہ نیاسال توجنوری سےشروع ہوتاہے پهریہیں سےاپریل فول کی روایت چل پڑی
دوسری وجہ یہ لکهی ہےکہ اس مہینےکورومی اپنی دیوی وینس (Venus )کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجهاکرتےتهے اورمارے خوشی میں شراب پیتے،چڑهاتے اورہفوات بکتے جهوٹ بولتے پهراپریل فول کی روایت چل پڑی
ایک تیسری وجہ یہ لکهی ہےکہ21/مارچ سےموسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوجاتی ہیں یعنی کبھی گرمی کبھی سردی تواس تبدیلی کوبعض لوگوں نے(معاذاللہ )اس طرح تعبیرکیاکہ قدرت ہمارےساته مذاق کررہی ہے، بےوقوف بنارہی ہے،جب قدرت کومذاق پسند ہےتوچلوہم لوگ بهی ایک دوسرےسےمذاق کریں اس طرح اپریل فول کی روایت چل پڑی.
انسائیکلوپیڈیا لاروس نے ایک وجہ اورلکهی ہےاوراسی وجہ کوصحیح قراردیاہے کہ جب یہودیوں نےجب یسوع مسیح  (عیسی علیہ السلام) کوگرفتارکرلیا توان کوسب سےپہلے یہودی سرداروں کی عدالت میں پیش کیاتهاپهروہاں سےپیلاطس میں لےگئے پهروہاں سےکسی اورکےپاس،اوراس نےپهرپہلی عدالت میں  ایساکرنےکامقصد مذاق اورتمسخرتها
لیکن یہ وجہ میرے گلےسےنہیں اتررہی ہے آج اپریل فول عیسائ بهی جم کرمناتےہیں تووہ کیسےحضرت عیسی علیہ السلام کاتمسخربرداشت کریں گے؟ یاممکن ہوانهیں بهی حقیقت کی خبرنہ ہو
بہرحال یہ سب وجوہات ہیں لیکن ایک وجہ اورہے جوعام طور سےبتائ نہیں جاتی اور سیاق وسباق کوسامنے رکهکر جب ریزلٹ اورنتیجہ نکالاجاتاہے تواپریل فول منانے کی حقیقت بالکل بےغبارہوجاتی ہےاوردشمنان اسلام کااصلی چہره بےنقاب ہوجاتاہے  اوروہ ہےاندلس میں دهوکے سے مسلمانوں کو مارنا، اجمال کی تفصیل
  قارئین کرام
 مختصرااندلس کی تاریخ اپنےذہن میں تازہ کرلیں تاکہ اپریل فول کی حقیقت اظہرمن الشمس ہوجائے
       موجوده اسپین یاہسپانیہ کوہی اندلس کہاجاتاہے،  اندلس "یورپ کےجنوب  مغربی حصےمیں واقع ہے،اسکی سرحدیں شمال میں فرانس سےاورمغرب میں پرتگال سےملتی ہیں اوراسکےمشرق اورجنوب میں بحرمتوسط (بحرروم)بہتاہے
خلیفہ ولیدبن عبدالملک کادورحکومت تهاموسی بن نصیرنے خلیفہ سےاجازت ملنےکےبعدطارق بن زیادکی سرکردگی میں سات ہزارکالشکرلیکراندلس پرچڑهائ کرنےکوکہا، طارق کوخواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی سعادت حاصل  ہوئی انهوں نےدیکهاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ،خلفاء راشدین اوربعض دوسرےصحابہ تلواروں اورتیروں سےمسلح سمندرچلتےہوئےتشریف لائےہیں أورجب طارق بن زیادکےپاس سےگزرےتوآپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا"طارق بڑھتے چلےجاؤ"اسکےبعدطارق نےدیکهاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اورآپ کےمقدس رفقاء آگےنکل کراندلس میں داخل ہوگئے، یہ فتح کی خوشخبری تهی بالآخرپورااندلس مسلمانوں کےقبضے میں آگیا،بڑی شان وشوکت کےساته 800/سال تک مسلمانوں نےحکومت کی، امن وامان کی فضاقائم کی، عدل وانصاف کےتقاضےپورےکئے،تہذیب وتمدن کےچراغ جلائے،اورعلم وہنر کے دریا بہائے،
لیکن لیکن؛ وقت گزرنےکیساته مسلمانوں کی گرفت ڈھیلی پڑگئ،آپسی ناچاقیاں پیداہونےلگیں، عیش وعشرت نےگهرکرلیا،طوائف الملوکی کادورشروع ہوگیا تواللہ نےعزت وحکومت کاتاج چهین کرپهردشمنوں کودیدیا،896/ہجری میں عیسائ بادشاه فردی ننداپنی ملکہ ازبیلاکےساته ایک لشکرجرارلیکرغرناطہ پہنچ گیااورایک سال بعدمجبورہوکرشاه عبداللہ نےصلح کرلی ،صلح نامہ میں مسلمانوں کےجان ومال دین وایمان اوراسلامی شعائرکی حفاظت کی ہرممکن یقین دہانی کرائ گئ تهی
(قارئین کرام یہاں چوکنےہوکرپڑهیں )مسلمانوں اورعیسائیوں کےدرمیان صلح کی تاریخ 897/ہجری مطابق 3/جنوری 1492/عیسوی تهی،اس صلح میں یہ بهی طےہواتها کہ صلح کی تاریخ سے60/روزتک کےاندرمعاہده کی شرائط پرعمل درآمدہوجائے
       مگروه اقتدارمیں آتےہی مسلمانوں کوچن چن کرتہہ تیغ کرنےلگے، مساجدکوکلیسا میں تبدیل کردیا،پورےملک میں عیسائ عدالتیں قائم کردیں جہاں ہزاروں مسلمانوں کوبغیرمقدمہ چلائےمحض مسلمان ہونےکےجرم میں آگ میں زندہ جلادیاگیا،اعلان عام ہوگیا کہ عیسائی ہوجاؤ ورنہ قتل کردیئے جاؤ گےکچھ مسلمان چهپ گئے کچھ نام اوربهیس بدل کررہنےلگےمگرکسی نےاسلام نہیں چهوڑا بظاہرشہرمیں کوئ مسلمان نظرنہ آتاتهامگرعیسائیوں کویقین تهاکہ ابهی بهی مسلمان کہیں چهپےہیں توانهوں نےمنصوبہ کےتحت ایک اعلان کروایا اوریہ بظاہرمسلمانوں کےساته سب سےبڑی ہمدردی تهی کہ اب حالات ٹھیک ہوگئے ہیں لهذاجومسلمان واپس افریقہ جاناچاہیں وه خوشی خوشی چلےجایئں جہاز کاانتظام ہم کریں گے اوراپنےساته اپناقیمتی سامان بهی لےجاسکتےہیں اورجانےکی تاریخ بهی طےکردی، مسلمانوں نےاسی میں بهلائ سمجهی چنانچہ مسلمان جن میں بڑے،بوڑھے، بچے مردوعورت شامل تهے اپنےسامانوں اورقیمتی کتابوں کےذخائرکیساته متعینہ تاریخ میں جمع ہوگئے اور جہاز سےسفرکرنے لگے مگرمنصوبہ کےمطابق بیچ سمندرمیں جہاز کوغرق کردیاگیا، ڈوبنےوالے رحم وکرم کی بهیک مانگتےرہے اورکنارےکهڑےہوکروه تالیاں بجاتے رہےگلےمل مل کرجشن مناتے رہےکہ دیکھو کیسے ہم نےمسلمانوں کودهوکے اورفریب سے ختم کردیا
کہاجاتاہےکہ ڈوبنےکی تاریخ یکم اپریل تهی  (جنوری میں معاهدہ ہوااورساٹه دن ملےتهے خالی کرنے کوجواپریل کوپورےہوتے ہیں)
قارئین کرام:::::::عقل  اسے تسلیم کرتی ہے سیاق وسباق سے انکاجهوٹ بےنقاب ہوتاہے کہ اصل اس تاریخ کویاد کرناہے اپریل فول ایک بہانہ ہے اوراگر اسےتسلیم نہ بهی کیاجائے تب بهی غیروں کےجشن میں اپنےکوشامل کرنا درست نہیں ہے
اب آئیے شریعت کےآئینےمیں اپریل فول کودیکهتے ہیں
  اپریل فول کی شرعی حیثیت
     قارئین کرام :اسلام ایک آفاقی اورپاکیزه مذهب ہے، یہ پیدائش سےلیکرموت تک انسانی زندگی کےتمام پہلوؤں کی واضح اندازمیں رہنمائ کرتاہے بہت سارےپہلومیں سےایک پہلوہنسی مذاق کابهی ہے، اسلام خوش طبعی اورخوش مزاجی کوپسندکرتاہے لیکن ہنسی دل لگی کیلئے جهوٹے مذاق اورغلط بیانی کوناپسندکرتاہے  ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے
   سچ بولنانیکی ہےاورنیکی جنت لےجاتی ہے،اورجهوٹ بولناگناه ہےاورگناه آگ  (جهنم)کی طرف لےجاتا ہے.
مسلم 2607/
     اسی طرح جهوٹ بولنےکومنافق کی علامت قراردیاگیاہے
جنانچہ حضرت ابوهریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ
    تین خصلتیں ایسی ہیں جومنافق ہونےکی نشانی ہیں 1/جب وہ بات کرےتوجهوٹ بولے 2/أورجب وعده کرےتواسکی خلاف ورزی کرے 3/أورجب اسکےپاس کوئ امانت رکهوائ جائے تووه خیانت کرے
 بخاری 33/
اسلام کوجهوٹ سےسخت نفرت ہے حتی کہ بچوں سےبهی جهوٹ بولناجائزنہیں اورتواورمذاقا بهی اسکی اجازت نہیں
اپریل فول میں کیاہوتاہے جهوٹ، فراڈ، دهوکہ، غلط خبر،بسااوقات کمزور دل والے صدمہ سےدوچارہوجاتے ہیں، میاں بیوی کی اعتماد بهری زندگی اپریل فول کیوجہ سے جہنم بن جاتی ہے
   اپریل کی پہلی تاریخ کولوگ صاف صریح جهوٹ بولنانہ صرف جائزسمجهتے ہیں بلکہ دهڑلےسے کہتے ہوئے سنےجاتے ہیں "یارمذاق کیاتها آج اپریل فول ہے آج سب جائزہے "استغفراللہ
   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی مسلمانوں کیلئے اسوه اورنمونہ ہے،حضرت امامہ رضی اللہ عنه فرماتےہیں" آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں میں سب سےزیاده ہنس مکھ اورخوش طبع تهے"(لیکن کبھی بهی آپ نے مذاق میں بهی جهوٹ نہیں بولا کئ) واقعات آپ کےمشہورہیں جیسے وه بوڑھی عورت جس نےکہاتهامیرےلئے جنت کی دعاکریں آپ نےفرمایاکوئ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی یہ سن کروه روپڑی آپ نےفرمایا:لوگو اسےبتادو کوئ بڑهاپےکی حالت میں جنت میں نہ جائےگی، اسی طرح ایک صحابی کےاونٹ مانگنےپرفرمایا تجهےاونٹ کابچہ دونگا صحابی نےکہامیں بچہ لیکرکیاکرونگا مجهے توسواری کرنی ہے آپ نےفرمایابهائ اونٹ توکسی کابچہ ہی ہوگا؟
دیکھئے مذاق بهی اوردرست بهی ابوداؤد شریف کی روایت کےمطابق "ہلاکت ہےاس آدمی کےلئے جودوسروں کوہنسانےکےلئے جهوٹ بولتاہے"
اوریہ حدیث اپریل فول منانے والے دهیان سےپڑهیں کہ
   یہ بہت بڑی خیانت ہےکہ تم اپنے بهائی سے کوئی بات اس طرح کہوکہ وه سچاجان رہاہوحالانکہ تم جهوٹ بول رہے ہو.
خلاصہ
اب آپ خود فیصلہ کرلیں مسلمانوں کیلئے اپریل فول منانا غیروں کی تہذیب اپنانا تاریخی وشرعی دونوں اعتبار سے کہاں تک درست ہے؟

اپریل فول کے نام پر انسانیت سے انتہائی بھونڈے مذاق!

محمد امین الرشید سیتامڑھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عام طور پر ”اپریل فول“ کو ایک بے ضرر اور سادہ سا مذاق تصور کیا جاتا ہے ؛ لیکن یہ بے ضرر اور سادہ مذاق نہیں ہے، اگر اس کے تاریخی پس منظر کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تب بھی یہ جھوٹ، فریب اور استہزا جیسے بڑے گناہوں کا مجموعہ ہے اور الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہیں ہے کہ مسلمان ان گناہوں میں مبتلا ہوں ، ایک اور گناہ جوان تمام گناہوں کے نتیجے میں سرزد ہوتا ہے وہ ایذاء مسلم کا گناہ ہے ، آپ خواہ جھوٹ بولیں ، یا فریب دیں یا مذاق اڑائیں ،اس سے مسلمان کو تکلیف ضرور پہنچے گی اور ایذاءِ مسلم کتنا بڑا گناہ ہے اس کا اندازہ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے لگایا جاسکتاہے ، فرمایا:وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا ” اور جو لوگ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذاء پہنچاتے ہیں وہ لوگ بہتان اورصریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔“( الاحزاب:58)
’’اپریل فول انگلش کااسم ہے اس کامعنیٰ(اپریل کا) احمق ہے اورحقیقت یہ ہے کہ انگریزوں میں دستور ہے کہ اپریل میں خلاف قیاس دوستوں کے نام مذاقاً بیرنگ خط،خالی لفافے میں یااوردل لگی کی چیزیں لفافے میں رکھ کربھیجتے ہیں۔ اخبارو ں میں خلاف قیاس خبریں چھاپی جاتی ہیں۔جولوگ ایسے خطوط لے لیتے ہیں یااس قسم کی خبرکومعتبرسمجھ لیتے ہیں وہ اپریل فول قرارپاتے ہیں۔ اب ہندوستان میں بھی اس کارواج ہوگیاہے اورانہیں باتوں کواپریل فول کہتے ہیں‘‘۔
اپریل فول کا آغاز:
 مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں :اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی ؟اس بارے میں مؤرخین کے بیا نات مختلف ہیں ،بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا ،اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس(venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھاکرتے تھے ،وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں Aphro-diteکیا جاتا ہے اور شاید اسی یونانی نام سے مشتق کرکے مہینے کا نام اپریل رکھ دیا گیا…..لہذا بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ چو ں کہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی تھی ،اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا اس لئے اس دن کو لوگ جشن ِ مسرت منا یا کرتے تھے اور اس جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیا ر کر گیا ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرتے تھے ،ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیا جو بالآخر دوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑ گیا۔( ذکر وفکر :66)
اس کے علاوہ بھی مفتی تقی عثمانی صاحب نے انسائیکلو پیڈیا آف بر ٹانیکا کے حوالے سے اور بھی واقعات لکھیں ہیں جس میں ایک  رومی اور یہو دی کا حضرت عیسی ٰ ؑ کے ساتھ مذاق کرنا بھی شامل ہے کہ وہی روایا ت باقی رہ گئیں اور لوگ نا سمجھی میں اس رسم بد کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں ۔
جھوٹ نفاق کی نشانی ہے اور اللہ کے رسول صلى الله عليہ وسلم  نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ آپ صلى الله عليہ وسلم کے فرمان کے مطابق من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليقل خيرًا أو ليصمت جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے، مزید براں اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم  نے اس شخص پرخصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنساتا ہے۔ آج کل لوگ مزاح کے نام پر انتہائی جھوٹ گھڑتے ہیں اور لوگوں کو جھوٹے لطائف سنا کر ہنساتے ہیں ۔ آپ صلى الله عليہ وسلم  کے ان اقوال مبارکہ کی روشنی میں اپریل فول جیسی باطل رسوم وروایات کو اپنانے اور ان کا حصہ بن کر لمحاتی مسرت حاصل کرنے والے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کر کے وہ غیر مسلم مغربی معاشرے کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جس کی رو سے لوگوں کو ہنسانے،گدگدانے اور انکی تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے لیے جھوٹ بولناانکے نزدیک جائز ہے جبکہ آپ صلى الله عليه وسلم  کے فرمان کے مطابق جھوٹ کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینا اور انہیں تفریح فراہم کرنااور ہنسانا سخت موجبِ گناہ ہے۔
عقل اور شرافت بھی اس کو غلط قرار دے گی کہ مذاق کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا جائے اور کسی انسان کو پریشان کیا جائے۔اور مسلمان کو تو شرعی اعتبار سے بھی یہ اپریل فول منانا جائز نہیں ہوگا کیوں کہ یہ کئی ایک گناہوں کا مجموعہ بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے۔اسلام ایک آفاقی مذہب ہے۔ اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے اپنے ماننے والوں کو بہترین اور عمدہ اصول وقوانین پیش کیے ہیں۔ اخلاقی زندگی ہو یا سیاسی، معاشرتی ہو یا اجتماعی اور سماجی ہر قسم کی زندگی کے ہر گوشہ کے لیے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور اسی مذہب میں ہماری نجات مضمر ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوۂ مصطفوی کے مطابق زندگی گزارنے اوریہودونصاریٰ کی تقلید سے پرہیز کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

آہ------ بڑے دادا جان!

عاصم طاہر اعظمی
مقیم حال غازی آباد
7860601011
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
 موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے،
 بے شک موت برحق ہے موت انسانی زندگی کی ایک حقیقت ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ہے۔جب انسان کا وقتِ مقرر آجاتا ہے تو پھر ایک لمحہ کے لئے نہ آگے ہوسکتا ہے اور نہ پیچھے ہوسکتا ہے ،اور موت سے بچ کر انسان بھاگ بھی نہیں سکتا وہ جہاں بھی ہو موت اس کو آدبوچ لیتی ہے ۔یوں تو دنیا میں روز ان گنت پیدا ہوتے اور بے شمار مرتے ہیں ، مگر آج ہم نے اپنی خاندان کی سب سے عمر رسیدہ شخصیت بڑے دادا جان حاجی نصیر احمد صاحب کو کھو دیا ہے
انا للہ وانا الیہ راجعون دادا جان سے بہت سی یادیں وابستہ تھیں جب بھی گاؤں کے تعلق سے کوئی پرانی باتیں معلوم کرنی ہوتی تو پہلی نظر دادا جان ہی پر جاتی تھی ابھی تقریباً دو مہینہ قبل جب کہ ٹھنڈک کی چھٹی میں گھر پر تھا ظہر کی نماز پڑھ کر گھر کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک دادا جان نے آواز دی *اے غازی آباد والے مولوی تنی سنا تو فوراً گیا دیکھا کہ ٹھنڈک میں دھوپ کا مزہ لے رہے ہیں کہا کہ ٹھنڈ میں دھوپ ہی تو ایک سہارا ہوتی ہے صبح اعجاز جو کہ ان کے بڑے لڑکے اور میرے بڑے ابو ہیں وہاں رہتا ہوں ظہر کے وقت سے تقریباً عصر تک یہی رہتا ہوں غازی آباد کے تعلق سے معلومات لیں اور دیوبند کے تعلق سے بھی بہت کچھ دریافت کیے بعدہ میں نے بھی گاؤں کے متعلق کئی سوالات کیے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد گھر کی طرف رخصت ہوا، آج جب کہ دادا جان کے انتقال پر گھر نہ ہوں  دل بہت رنجیدہ ہے کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ دادا جان کا نہ آخری دیدار  اور نہ ہی کاندھا دے سکتا ہوں،
 حق تعالیٰ جل مجدہ دادا جان کی مغفرت فرمائے اعلیٰ علیین میں مقام خاص عطا فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمیــــن یا رب العالمین

تعلیم نسواں کے فروغ میں جامعہ امام ابن تیمیہ کا کردار!

ذیشان الہی منیر تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
        مادر علمی جامعہ امام ابن تیمیہ بہار کے مشرقی چمپارن ضلع کی سرزمین پر واقع ایک مشہور و معروف اور عظیم الشان اسلامک یونیورسیٹی ہے ۔اس کی بنیاد محدث عصر مفسر قرآں علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ و تولی نے رکھی تھی ۔اگر اس چیز کو موسس جامعہ کی علمی بصیرت اور خوبصورت ویزن نہ قرار دے تو شاید بہت بڑی نا انصافی ہوگی کیونکہ انہوں نے جہاں ایک طرف اس بچھڑے ہوئے علاقے میں کتاب و سنت کی صحیح تعلیم اور ترویج و اشاعت کے لئے "کلیہ سید نذیر حسین محدث دہلوی "کے تحت طلبہ کو سینچنے، سنوارنے اور نکھارنے کا کام کیئے تاکہ یہاں کے طلبہ اپنے اپنے علاقے میں عوام الناس تک کتاب و سنت کی خوشبوں کو پھیلا سکے ۔وہی دوسری طرف "کلیہ خدیجہ الکبریٰ لتعلیم البنات "  کے تحت خواتین اسلام کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام کیئے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایسے وقت میں آپ نے لوگوں کے سامنے" کلیہ خدیجہ الکبریٰ "کے تحت لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کی جب لوگ لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھتے تھے،
لڑکیوں کو معمولی لکھنا اور پڑھنا آگیا اسی کو وہ لوگ تعلیم نسواں کا نام دیتے تھے ایسے وقت میں لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنا اور انہیں اعلی تعلیم دینے کی بات کہنا اور اس متعلق سماج و معاشرے کی ناراضگی کا پرواہ نہ کرنا یقینا دل اور گردے کی بات ہے ۔کیونکہ ہمارے ہندوستانی سماج میں لڑکیوں کو اعلی تعلیم دینا اچھی بات نہیں سمجھی جاتی تھی ۔حالانکہ یہ نظریہ کتاب و سنت کے خلاف ہے کیونکہ مذہب اسلام نے جہاں ایک طرف مردوں کو تعلیم حاصل کرنے پر ابھارا وہی دوسری طرف اسلام نے لڑکیوں کی اچھی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت دی ۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری صحابیات نے اعلی سے اعلی تعلیم حاصل کرکے مذہب اسلام کی ترقی اور نشر و اشاعت میں بہترین کارنامہ انجام دیا ۔پھر اس کے بعد تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ کے ساتھ ساتھ سلف صالحین کے زمانہ میں بھی خواتین نے بڑھ چڑھ کر تعلیمی میدان میں حصہ لیا جس کی وجہ کر ان کی گود میں پل کر بڑے بڑے مفکرین، مفسرین، محدثین اور قائدین نے اسلام کی ترقی اور ترویج میں بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ۔لیکن رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو فرسودہ اور بے کار قرار دیا اور یہ دلیل دینے لگے کہ انہیں آگے چل کر جاب نہیں کرنی انہیں تو کھانا بنانا اور گھر سنبھالنا ہے اس لئے انہیں تعلیم کی چندا ضرورت نہیں اور یہ رائے تا ہنوز بھی کچھ کچھ لوگوں کے پاس پایا جاتا ہے ۔چنانچہ اس غلط افکار و نظریات کی وجہ کر مسلمانوں کا بہت بڑا نقصان ہوا ۔ان کا سماج و معاشرہ برائیوں اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بن گیا اور یہ سب لڑکیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی وجہ سے ہوا ۔
            لڑکیوں کی تعلیم کے بے شمار فوائد کی وجہ سے مؤسس جامعہ نے "کلیہ خدیجۃ الکبریٰ لتعلیم البنات "کے نام سے ڈھاکہ سے دس کلو میٹر کی دور پر چندنبارہ گاؤں میں آج سے 25 سال پہلے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک بہترین شعبہ کی بنیاد رکھی ۔اس شعبہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مکمل پردہ اور حفاظت کے ساتھ اسلامی ماحول میں خواتین کو فضیلت تک کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ایک وسیع و عریض چہاردیواری کے اندر لڑکیوں کی تعلیم، کھیل کود، کھانا پینا سے لیکر نماز وغیرہ جیسی تمام چیزیں بہترین اور باصلاحیت معلمات کی زیر نگرانی میں کرائی جاتی ہے ۔یہی وجی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کی فضا میں زندگی گزار کر فراغت حاصل کرنے والی خواتین دوسرےجامعات و مدارس کی فارغات سے علمی صلاحیت و قابلیت کے لحاظ سے چاہے وہ تحریری ہو یا تقریری یا پھر عبارت فہمی کے اعتبار سے ہو اعلی و بالا نظر آتی ہیں ۔اور یہ باتیں تیمیہ سے نکلنے والی ابتدائی تیمیات سے لے کر تا ہنوز جاری و ساری ہے اور اس کا سہرا جہاں ایک طرف مؤسسس جامعہ کو جاتا وہی دوسری طرف تیمیہ کے تمام اساتذہ و معلمات کو جاتا ہے جہنوں نے اپنی محنت، کوشش اور لگن کے ساتھ طالبات کو سینچنے، سنوارنے اور خوشبودار بنانے کا کارنامہ انجام دیا ۔اگر اس مناسبت سے نائب مشرف اعلی جناب عبد الرحمن عبید اللہ التیمی حفظہ اللہ کا نام نہ لو تو شاید بہت بڑی نا انصافی ہوگی کیونکہ انہوں نے طالبات کی عملی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے جہاں ایک طرف "کلیہ خدیجہ الکبری "کی چہاردیواری کے اندر ایک عظیم الشان مکتبہ کا قیام عمل میں لایا تاکہ طالبات زیادہ سے زیادہ کسب و اکتساب کر سکیں ۔یہ بھی واضح کردوں کہ اس مکتبہ میں لاکھوں کتابیں مختلف علوم و فنون میں موجود ہیں ۔جہاں طالبات جاکر اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہی ہیں ۔وہی دوسری طرف موصوف نے اس بنات کی چہاردیوری کے اندر ایک بہترین کھیل کا میدان بنانے کا کام کیئے جو یقینا طالبات کی صحت کے لئے بہت مفید ہے اور یہ حقیقت ہے کہ عملی زیور سے آراستہ و پیراستہ ہونے کے لئے ایک انسان کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے ۔یہ دو کارنامے خاص طور سے موصوف کا طالبات کے لئے ایسے ہیں جو یقینا آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔
    مؤسس جامعہ کے ویزن اور نائب مشرف اعلی کی کوشش، جذبہ، لگن ،محنت اور شوق کی وجہ کر آج ہند و نیپال کے اندر تیمیات کی ایک اچھی ٹیم تیار یو چکی ہے جو کتاب و سنت کی صحیح تعلیمات کو خواتین اسلام کے سامنے پیش کررہی ہیں اور یقینا یہ مؤسس جامعہ اور نائب مشرف اعلی کی نیک خواہشات اور تمناؤں کا ثمرہ ہے اللہ دونوں کی محنت کو قبول کرے اور ان چیزوں کو ان کے لئے جنت کا ذریعہ بنائے ۔

مولانا الیاس صاحب ندوی بھٹکلی کا جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ دیوبند میں دورہ!

دیوبند(آئی این اے نیوز 30/مارچ 2019) آج شہر دیوبند کے قدیم اور مشہور و معروف ادارہ جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ قاسم پورہ دیوبند میں بھٹکل سے تشریف  لائے ہوئے علماء کرام کے ایک وفد نے ادارے کا معائنہ کیا۔جب کہ اس وفد کی قیادت کرنے والے ملک کے مشہور عالم دین واسلامی اسکالر جناب مولانا محمد الیاس بھٹکلی ندوی صاحب دامت برکاتہم تھے جنہوں نے مدرسہ کی تعلیم وتربیت اور جدید تعمیر کا معائنہ کیا۔
اورجامعہ کے ناظم اعلی مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے جامعہ کی روداد اور کارگزاری مولانا الیاس ندوی بھٹکلی صاحب اور وفد کے سامنے پیش کی جس پر آئے ہوئے تمام علماء کرام نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا اور بہت ساری دعائیں بھی دیں خاص طور پر جامعہ کی جدید مسجد کی تعمیر و ترقی کے لیے جامعہ کے تمام اساتذہ، طلباء اور تشریف لائے ہوئے وفد کے ساتھ مولانا الیاس صاحب ندوی بھٹکلی نے بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھا کر دعا ئیں مانگی۔ اور اس وفد  کے ساتھ مولانا منور حسین صاحب قاسمی اور قاری سیف الاسلام اور جامعہ ہذا کے دوسرے اساتذہ کرام اور شہر کے معزز مہمان  بھی موجود رہے۔

شیر شاہ آبادی مسلمانوں کے مسائل کا حل ہماری اولین ترجیح: محمد فیروز عالم ندوی

پٹنہ(آئی این اے نیوز 30/مارچ 2019) شیر شاہ آبادی مسلمان ہندوستان کی ایک بڑی کمیونٹی ہیں جو بہار وبنگال میں اور خصوصا بہار کے سیمانچل علاقوں میں بڑی تعداد میں رہتے بستے ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد 34 سے 50 لاکھ کے درمیان ہے ۔لیکن اتنی بڑی کمیونٹی ہونے کے باوجود ان کے سیاسی وجود کے ساتھ ہمیشہ کھلواڑ ہوتا رہا، یہ کمیونٹی معاشی، تعلیمی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی، ہر اعتبار سے ہندستان کی نہایت پسماندہ اقوام میں سے ایک ہے ۔یہ کئی ایسے مسائل سے گھِری ہوئی ہے جن کا جلد از جلد حل تلاش کرنا از حد ضروری ہے ۔بہار کے وزیرِ اعلیٰ عزت مآب نتیش کمار سے آج کی ملاقات کا بڑا سبب یہی تھا کہ انہیں اس قوم کے حقیقی مسائل سے روشناس کیا جاے تاکہ حکومتِ بہار ان کو حل کرنے میں کوشاں ہو " ۔
یہ باتیں الفیصل ایجوکیشنل سوسائٹی کے چیئرمین جناب مولانا محمد فیروز عالم ندوی نے وزیرِ اعلیٰ بہار جناب نتیش کمار سے ملاقات کے بعد کہیں ۔
 ملاقات کے دوران انہوں نے اس بابت ایک میمورنڈم بھی وزیرِ اعلیٰ کی خدمت میں پیش کیا ۔ انہوں نے وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات کے دوران مدارس کے مسائل پر بھی بات کی اور وزیر اعلیٰ نے انہیں حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔
ملاقات کا سبب پوچھے جانے پر جناب فیروز عالم ندوی نے کہا کہ شیر شاہ آبادی مسلمانوں کے مسائل کا حل ہماری اولین ترجیح ہے اور اسی وجہ سے ہم نے شہری ترقیاتی وزیر جناب تنویر عالم صاحب اور مدرسہ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے جنرل سکریٹری جناب محب اللہ صاحب کی معیت میں وزیرِ اعلیٰ سے ملاقات کی ۔ اساتذہِ مدرسہ بورڈ جن مسائل سے دوچار ہیں، انہیں بھی ہم نے وزیر اعلیٰ کے رو برو رکھا اور وزیر اعلیٰ نے یقین دہانی کرائی کہ ہماری حکومت مسلسل مدارس کے ترقیاتی امور پر توجہ مبذول رکھتی آئی ہے اور آئندہ بھی رکھے گی ۔ ایسے بھی یہ ایک بڑی سچائی ہے کہ نتیش حکومت نے مدارس کی فلاح وبہبود کے لیے بڑے کام کیے ہیں اور اس کا ایک شاندار نمونہ کچھ ہی دنوں پہلے اس وقت سامنے آیا تھا جب حکومت بہار نے اساتذہ کی تنخواہ میں اضافہ کیا تھا ۔
جناب فیروز عالم ندوی نے مزید کہا کہ اس طرح کی ملاقاتیں آئندہ بھی ہوں گی اور میں مسلمانوں کی خدمت میں جو کچھ بن سکے گا، کرتا رہوں گا ۔

Friday 29 March 2019

اعظم گڑھ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے "عبداللہ خان" گوگل کی لندن آفس میں ایک کروڑ بیس لاکھ کی سالانہ تنخواہ پر جاب کیلیے منتخب!

ڈاکٹر ارشد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/مارچ 2019) اعظم گڑھ کی زرخیز مٹی سے جنم لینے والے عبداللہ خان کو  گوگل کی لندن  آفس  میں ایک کروڑ بیس لاکھ سالانہ سیلیری کے ساتھ پرکشش جاب کے لئے سیلیکٹ کرلیا گیا، عبداللہ کی عمر ابھی اکیس سال ہے وہ میراروڈ بمبئی میں B.E. (کمپیوٹر ساینس) کے فاینل ایئر اسٹوڈینٹ ہیں، ہم انھیں بیحد مبارکباد پیش کرتے ہیں، اللہ انھیں سلامت رکھے انھوں نے نہ صرف اعظم گڈھ  بلکہ ہندوستان کا نام روشن کیا ہے ۔
ان کی کامیابی سے ہماری نوجوان نسل کو ضرور حوصلہ ملے گا کہ اگر  عزایم پختہ ہوں جہدِ مسلسل ہو ڈایریکشن درست ہو تو فرنٹ سیٹ آج بھی خالی ہے ۔
ہماری قوم میں ٹیلینٹ کی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو حوصلے کی ۔ صبر اور محنت کی درست سمت کی ۔
واضح ہو کہ عبداللہ خان محمد اسلم کے بیٹے ہیں جن کا آبائی گاؤں اعظم گڑھ ضلع کے سگڑی تحصیل علاقہ کے انجانشہید ہے، عبداللہ خان ممبئی میں مقیم ہیں، عبداللہ خان کی اس کامیابی پر شوشل میڈیا پر لوگوں کے مبارکبادی کا تانتا لگا ہوا ہے.