اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: December 2018

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 31 December 2018

نئے سال منانا کیسا ہے!

تحریر: محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد استاد اردو اسکول بسفی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
کیا نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے نئے سال کا جشن منایا، کیا صحابہ اکرام رضی نے آپس میں ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دی ، کیا تابعین کے زمانے میں اس رسم کو منایا گیا، کیا دیگر مسلمان حکمرانوں نے اس کی جشن کی محفلوں میں شرکت کی حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران، عراق، مصر، شام، اور مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھل چکا تھا یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب پر عقل مند شخص نفی میں دے گا.
پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں ؟
آخر یہ کس نے ایجاد کیا؟ کون سی قوم نئے سال کا جشن منائی ہے، کیوں منائی ہے، اور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاھئے ان چند سطور کے اندر اسی کو وضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے
    دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں ہر ایک کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور ہر برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایس بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی انسانوں نے کلجر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تہوار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے.
   دراصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے عیسائیوں میں قوم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کے روایت چلتی آرہی ہے اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام  کی پیدائش ہوئی اس کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت نئی سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے.
    نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں سے سجایا جاتا ہے ارو 31 دسمبر کی رات میں 12/ بجئے کا انتظار کیا جاتا ہے اور 12 بجئے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہیں کیک کاٹا جاتا ہے ہر طرف ٹیوی ٹیواٹر کی صداگونجتی ہے آتش بازیاں کی جاتی ہیں  اور مختلف نائٹ کلبوں میں تقریحی پروگرام رکھاجاتا ہے جشن میں شراب وشباب اور ڈائس کا بھر پور انتظام رہتا ہے اس لئے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اول شراب اور دوسرے عورت.
 آج عیسائیوں  کی طرح بہت سے مسلمانوں بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں  اور 31دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے ان مسلمانوں نے اپنی اقرارو روایات  کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کردیا ہے.
  جب کہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے اسلامی کیلینڈر ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا.
      آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے زندگی اللہ تعالیٰ  کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بلکہ افسوس کیا جاتا ہے.
آخر  میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہے کی اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس نئے سال کے جشن جیسے برُے اعمال سے بجائے آمین

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی، گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی.

بقلم: نبراس امین اعظمی
متعلم: دارالعلوم ندوہ العلماء
ـــــــــــــــــــــــــــ
سال رواں ختم ہونے اور سال نو کی آمد پر جب ایک دانا فرزانہ اور سنجیدہ شخص غور وفکر کرتا ہے تو وہ رقص وسرور کی محفلوں کا ارادہ نہیں کرتا شراب وکباب اور لزت سے آشنائی کے بارے میں سوچتا رنگینیوں میں نہانے کا خیال اپنے ذہن کے پردے پر ابھرنے نہیں دیتا اسلئے کہ بیتے ہوئے دنوں کے سیاہ کارنامے اسکے ذہن کے اطراف میں گردش کرتے ہیں اسے اپنی ذات سے سرزد ہونے والے گناہ یاد آتے ہیں، جشن نو سال کی آمد پر جن آتش بازیوں سے انسانیت لطف اندوز ہوتی ہے اب وہی اسکے اضطراب کا سبب بن رہی ہے قمقمہ غبارے اور دسمبر کا آخری دن جھیلوں اور سمندر پر جاکر گزرنے والے  سال کو رخصت کرنا اور نئے سال کو لبیک کہنا مبارکبادیوں کا سلسلہ اور ساری فضولیات جس سے وہ خوش ہوتا ہے، اب انھیں سے وہ نفرت کرتا ہے چونکہ رب کی ناراضگیوں کا تصور اسکے دل میں پیدا ہونے لگا ہے اسکی پیشانی پر شکنیں پڑتی جا رہی ہے جب وہ اس حیات کے بارے میں سوچتا ہے جسنے اسے موت وبرزخ سے ایک سال اور قریب کر دیا ہے وہ کف افسوس ملنے پر مجبور ہوتا ہے سال بھر کے لایعنی وقتوں کے ضیاع  پر اسے حسرت ہوتی ہے پھر وہ بجائے نئے سال منانے کے اولا بارگاہ الہی میں توبہ کرتا ہے اور جبین نیاز خم کرتا ہے اور اسے راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے  اور مستقبل میں ان لغزشوں سے بچنے کا پختہ عزم کرتا ہے پھر بندہ اپنی غیرت کو آواز دیتا ہے اور غیروں کی عیدوں اور تہذیبوں کو چھوڑ کر اپنی عید پر فاخر بن جاتا ہے اور اسلامی تہذیب وثقافت کا امین بن جاتا ہے اور یہیں سے اسکی نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اللہ ہم سب کیلئے آنے والے ہر دن کو خیر وبرکے سے معمور کردے۔آمین ۔
http

نئے سال کی مبارکباد دینا غیروں کا فعل ہے!

حافظ عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱،دسمبر کی رات میں ۱۲،بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور ۱۲ بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے کیک کاٹا جاتا ہے ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے، اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت اور ہماری نوجوان نسل کسی اور راستے پر چل کر ہمارے سامنے دشمن کے طورپر کھڑی ہوجائے ہمیں ان خرافاتوں سے نکلنا ہوگاہمیں ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا.
  نئے سال کی مبارکباد دینا کافروں کا فعل ہے اور ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ کافروں کی نقل کا تعلق عبادات سے ہے یعنی عبادات میں ان کی نقل نہ کی جائے. اب اگر ہر معاملات میں کافروں سے الگ روش اختیار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ہمارا کھانا، پینا، پہننا، اوڑھنا، ٹکنالوجی کا استعمال سب کچھ ناجائز ثابت ہوگا جو خرافات کا تعلق ہے جن کو ہر سلیم الفطرت اور باوقار خاندانی انسان غلط سمجھتا ہے تو اسلام انہیں بدرجہ اولیٰ لغو قرار دیتا ہےنئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور ۳۱،دسمبر کی رات میں ۱۲،بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور ۱۲،بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے کیک کاٹا جاتا ہے ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتاہے، جس میں شراب و شباب اور ڈانس کا بھر پور انتظام رہتا ہے، اس لیے کہ ان کے تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت اور ہماری نوجوان نسل کسی اور راستے پر چل کر ہمارے سامنے دشمن کے طورپر کھڑی ہوجائے ہمیں ان خرافاتوں سے نکلنا ہوگاہمیں ان سازشوں کو سمجھنا ہوگا.
  نئے سال کی مبارکباد دینا کافروں کا فعل ہے اور ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ کافروں کی نقل کا تعلق عبادات سے ہے یعنی عبادات میں ان کی نقل نہ کی جائے. اب اگر ہر معاملات میں کافروں سے الگ روش اختیار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ہمارا کھانا، پینا، پہننا، اوڑھنا، ٹکنالوجی کا استعمال سب کچھ ناجائز ثابت ہوگا جو خرافات کا تعلق ہے جن کو ہر سلیم الفطرت اور باوقار خاندانی انسان غلط سمجھتا ہے تو اسلام انہیں بدرجہ اولیٰ لغو قرار دیتا ہے.
کیا نبی اخر الزماں  صلی اللہ علیہ وسلم نے نئے سال کا جشن منایا کیا صحابہ اکرام نے آپس میں ایک دوسرے کونئے سال کی مبارک باد دی
کیا تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں اس رسم کو منایاگیاکیا دیگر مسلمان حکمرانوں نے اس کے جشن کی محفلوں میں شرکت کی حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران عراق، مصر، شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر عقل مند شخص نفی میں دے گا۔ پھر آج کیوں مسلمان اس کام کو انجام دے رہے ہیں.
آخر یہ کس نے ایجاد کیا کو ن سی قوم نئے سال کا جشن مناتی ہے کیوں مناتی ہےاور اس وقت مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ان چند سطور کے اندر اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تیوہار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تیوہار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تیوہار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہےجن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہےلیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تیوہار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے ۔
در اصل یہ نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق ۲۵دسمبر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی  اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے  جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے.
آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور ۳۱دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کیلینڈر ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا، آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے ، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔
         فاعتبرو یا أولی الابصار

سال تو بدلتا رہے گا خود کو بدلنا سیکھیے!

تحریر: عاصم طاہر اعظمی
786 060 1011
930 786 1011
ـــــــــــــــــــــــــــــ
 دُنیا بھر میں نئے سال کے جشن بہت سے مختلف طریقوں سے منائے جاتے ہیں ان جشنوں کی شروعات کے بارے میں دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا میں یوں بیان کِیا گیا ہے:
 ”سن ۴۶ قبلِ مسیح میں رومی قیصر جولیس نے یکم جنوری کو سال کا پہلا دن ٹھہرایا،اس لیے جنوری کے مہینے کا نام جانس دیوتا کے نام پر رکھا گیا اس دیوتا کے دو چہرے تھے، ایک چہرے کا رُخ آگے کی طرف اور دوسرے کا پیچھے کی طرف تھا۔“ اس بیان سے پتا چلتا ہے کہ
نئے سال کے جشن اصل میں بُت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں،
اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بہت سے دیگر ممالک کی طرح وطن عزیز میں بھی 31 دسمبر کی رات کو آتش بازی اور جشن مناتے ہیں، عیش و نشاط کی محفلوں اور رنگ برنگے سے نئے سال کا آغاز کرتے وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ

غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور بیتادی

ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیاوی زندگی تو فانی ہے جو گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑتے ہیں کہ وقت مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

اے فانی بشر!
کبھی دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے برس کا احتساب بھی کیا ہے کہ خالقِ جہاں نے ہمیں اس سال میں  کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور پھر بھی کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کا مرتکب ہوئے؟ ہمارا ہر آنے والا سال ہمیں ابدی منزل کے قریب لے جارہا ہے جہاں ہم سے ہر چیز کا حساب لیا جائے گا، اس جہانِ انتظار میں قدم قدم پر دفاتر ماہ و سال یوم و ہفت کھل جائیں گے، کتاب عمر کے ہر برس کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشن سال نو کی محفلوں کے تذکرے ہمیں بچا پائیں گے، نہیں ہرگز نہیں بچا پائیں گے .

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں

         (فیض لدھیانوی)

ہمارا گزشتہ سال تو گزر گیا جب کہ امت محمدیہ مصائب و مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے طرح طرح کے فتنوں میں مبتلا ہے اسے بہکانے کی چیزیں عام ہیں وہ طرح طرح کے امتحانات سے دو چار ہے اور یہ سب اشیاء افراد امت سے اور ابناء اسلام سے فوری حل چاہتی ہے کہ وہ عزم صادق اور پختہ ارادہ کریں کہ انفرادی طور پر بھی ، معاشروں کی سطح پر بھی اور حکام و امراء کیا اور عوام و محکوم کیا ہر سطح پر اور ہر شخص اپنی اپنی اصلاح کرے گا اور یہ اس یقین کےساتھ کہ ہم میں سے کسی کواس بات میں کوئی شک نہیں کہ امت کی ناک میں دم کر دینے والوں ان بحرانوں اور تباہ کن حالات سے نجات کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم صاف ستھرے اور حقیقی اسلام کو لیں، وہ خالص اسلام جو قرآن کی شکل میں نازل ہوا ہے جسے پوری کائنات کے سردار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے  اور جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا،
جی ہاں ! صاف ستھرا اور حقیقی اسلام وہی ہے جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو ہر شعبے کے لئے تعلیمات مہیا کرتا ہے، وہ شعبۂ سیاسیات ہو یا اقتصادیات ، اس کا تعلق کلچر و ثقافت سے ہو یا اجتماعیات و معاشروں سے ، اسے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنایا جائے صرف علمی طور پر ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی ، حکمرانی و جہانبانی میں بھی اور اپنے متنازعہ امور میں ثالثی و فیصلے کروانے میں بھی اور یہ مقاصد اسلام کی معرفت کی بنیاد پر ہو کہ اسلام مفید و صالح، عالی تہذیب یافتہ، و مھذب زندگی قائم کرنا چاہتا ہے جو دنیا و آخرت میں اعلی ثمرات مہیا کرے، اور اسلام اپنے ماننے والے کو وہ اعلی زندگی مہیا کرنا چاہتا ہے جس کے بارے میں حق تعالیٰ جل مجدہ کا ارشاد صادق آتا ہے جس میں اس نے فرمایا ہے : "تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں زمین کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنا دیا تھا اور خوف کے بعد انھیں امن بخشے گا وہ میری عبادت کرینگے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے" ( النور : 55)
آج جبکہ امت محمدیہ مختلف راستوں کے دوراہے بلکہ کئی راستوں کے جنکشن پر کھڑی ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کا یقین کامل اور علم یقین حاصل کر لے کہ اس کی عزت و قوت اس کے اپنے دین کے ساتھ گہرے ربط و تعلق اور اپنی شریعت پر مکمل عمل اور اپنے نبی کی اتباع سنت میں پنہاں ہے  یہی وہ کار آمد و فعال اسلحہ ہے جو امت سے تمام خطرات کو دور کر سکتا ہے اور یہی وہ زبردست آہنی لباس ہے جس کے ذریعے اس سخت آویزش اور ان تباہ کن حملوں سے بچا جا سکتا ہے
حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین.

حقیقت نظام سرمایہ داری!

ریان احمد اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسلام نے جو معاشی نظام قاٸم کیا تھا اس نظام کے پارہ پارہ ہونے اور اس پر عمل در آمد نہ ہونے کی وجہ سے وہ نظام آج درہم برہم ہو چکا ہے۔ عصر حاضر میں اس کی جگہ ایک ایسا نظام معیشت راٸج ہے جس کی بنیاد اور جس کے اصول و ضوابط اسلامی نظام معیشت سے یکسر مختلف ہیں آج وہی نظام معیشت پوری دنیا پر حاوی ہے ۔ دین و مذہب کی تفریق کیے بغیر ہر شخص اس نظام کا
گرویدہ نظر آرہا ہے اور اس کے ذہن و دماغ پر وہی نظام معیشت چھایا ہوا ہے جسے مستشرقین اور کچھ نام نہاد مذہب پرست لوگوں نے تراش تراش کر عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے اس نظام معیشت سے میری مراد "سرمایہ دارانہ نظام معیشت " {Capitalism} ہے اس نظام کے اصول و ضوابط میں جو سب سے بنیادی اصول ہے وہ یہ ہے کہ اس نظام کے تحت ہر شخص کو حق ملکیت حاصل ہے یعنی ہر شخص اپنی معیشت کو پروان چڑھانے میں پوری طرح آزاد ہے مال کے تصرف میں اسے پوری طرح آزادی دی گٸ ہے طرح طرح کے وساٸل اپنانے میں اسے پوری طرح آزاد چھوڑا گیاہے حکومت کو کہیں سے یہ حق حاصل ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے وساٸل یا اس کی معیشت میں دخل اندازی کرے یا اسے اس بات پر مجبور کرے کہ وہ حکومت کی ماتحتی میں کوٸ پیشہ اختیار کرے بلکہ اس نظام کے اصول کے مطابق حکومت اسے اس کے پیشہ کے مطابق وساٸل فراہم کرے گی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرسکے نظام سرمایہ داری کے اسی اصول کی بنا پر سماج میں اخلاقی بگاڑ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ مادی بگاڑ بھی پیدا ہوتے ہیں۔
دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کا یہ کہنا ہے کہ خریدو فروخت میں رسد [supply] اور طلب [demand] کا اہم رول ہے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ Economic کی اصطلاح میں رسد و طلب کسے کہا جاتا ہے ۔ رسد کسی بھی سامان تجارت کی اس مجموعی مقدار کو کہا جاتا ہے جو بازار میں فروخت کرنے کیلۓ لاٸ گٸ ہو طلب وہ سامان تجارت ہے جو بازار میں فروخت کرنے کیلۓ لایا گیا ہو جسکی طرف لوگوں کا میلان ہو معیشت کی اصطلاح مذکورہ دونوں کو رسد و طلب کہا جاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام معیشت فطرت انسانی سے انحراف کرتے ہوۓ ہر اس چیز کو منظر عام پر لانے کی تلقین کرتا ہے جس کی طلب معاشرے یا بازار میں زیادہ پاٸ جاتی ہو خواہ وہ انسانیت کیلۓ سم قاتل ہو تاکہ اسے فروخت کرکے اور معاشرے کو انفرادی یا اجتماعی طور پر مہیا کرکے وہ زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرسکے اسی نفع کے حصول کیلۓ لوگوں نے انسانیت کے درجے سے نکل کر حیوانیت کے درجے میں زندگی گزارنے کو ترجیح دی چنانچہ مغربی ممالک میں عریانیت فحاشیت سٹہ بازی قمار بازی جیسا سیل رواں سب سے پہلے پہنچا اور وہ ان کی تہذیب میں شامل ہونے کے ساتھ کے ساتھ اسلامی تہذیب و ثقافت کو پوری طرح متاثر کرتا ہوا نظر آرہا ہے جس کے نتیجے میں مسلم خواتین و مرد غیر مہذب لباس سے لیکر زندگی تمام امور و معاملات میں مغربیت کو ترجیح دے رہے ہیں ۔١
سرمایہ دارانہ اصول کے مطابق صنعت و حرفت میں جو کچھ آمدنی حاصل ہو وہ انہیں عوامل کے درمیان تقسیم ہونی چاہیے جنہوں نے پیداٸش کے عمل میں حصہ لیا ہو اس نظام کے مطابق وہ عوامل کل چار ہیں ١ زمین ٢ محنت ٣ سرمایہ٤ آجر یا تنظیم ۔
آجر یا تنظیم اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اصل محرک ہے یعنی جس نےمذکورہ تینوں عوامل کو جمع کرنے اور انہیں بروۓکار لانے میں پوری جد و جہد کی ہو اور عوامل ثلاثہ کے نتیجہ میں جو نفع یا نقصان ہو اسے اپنے ذمہ لے لیا ہو ایسے شخص کو آجر یا تنظیم کہا جاتا ہے ۔اگر کوٸ شخص اس طرح کوٸ پیشہ اختیار کرتا ہے تو زمین دینے والے کو کرایہ سرمایہ مہیا کرنے والےکو سود محنت کرنے والے کو اس کی اجرت دے کر بقیہ حصہ آجر یا تنظیم کے حصے میں ہوگا ۔مذکورہ عوامل ثلاثہ کے درمیان تقسیم دولت کا رسد اور طلب ہے اس نظام کا کہنا ہے وقت اور حالات کے مطابق زمین کی جیسی طلب ہوگی اسی لحاظ سے زمین مہیا کرنے والے کو اس کا کرایہ دیا جاۓ گا اسی طرح سرمایہ فراہم کرنے والے کو سود اور محنت کرنے والے کو اس کی اجرت دی جاۓ گی ۔٢
اگر اخلاقی نقطہ نظر کو چھوڑ کر معاشی نقطٸہ نظر سے بھی دیکھا جاۓ تو اس نظریہ کا جو لازمی نتیجہ نکل کر آرہا ہے وہ یہی ہے کہ اس نظام کی وجہ سے تقسیم دولت کا توازن بگڑ جاۓ گا اور وساٸل ثروت اور مال و دولت کی پونجی ایک مخصوص ٹولی کے پاس چلی جاۓ گی جسکی وجہ سے معاشرے میں دو گروہوں کا وجود میں آنا ضروری ہے جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں ۔
نظام سرمایہ داری کی اسی اصول کی وجہ سے معاشرہ دو گروہوں میں تقسیم ہے ایک صاحب ثروت لوگوں کا مخصوص گروہ جسے حکومت کی تاٸید حاصل ہے دوسرا وہ گروہ جو صاحب ثروت لوگوں کے ماتحت ہوکر کام کرنے والا ہے  جس کی اکثریت اپنی محنت و مشقت سے کم سرمایہ پر اکتفا کرنے والی ہے ۔
چونکہ اس طرح تقسیم دولت میں جو شخص عوامل ثلاثہ کا محرک اول ہوتا ہے سارا نفع اسی کا ہوتا ہے جسے آجر یا تنظیم کہا جاتا ہے جستہ جستہ یہ عوامل ثلاثہ پر فوقیت حاصل کرکے اونچے اونچے محلات کوٹھیاں بلڈینگیں قاٸم کرتا ہے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کیلۓ کوٹھوں اور عیاشی کے اڈوں کا رخ کرتا ہے اور یہ بات بالکل جاٸز سمجھ لیتا ہے کہ خستہ حال لوگوں کا گروہ صرف اسی کی خدمت کیلۓ پیدا کیا گیا ہے وہ جس طرح چاہے ان سے بے گاری لے اور جتنی اجرت چاہے ادا کرے اس معاملے میں اس کی جوابی کارواٸ کرنے والا کوٸ نہیں ہوتا ۔اس آجر یا تنظیم کے اس گھناٶنے عمل سے معاشرے میں جہالت کا چلن عام ہے ظلم و بربریت اپنی حد  پار کر گٸ ہے فاقہ کشی اور تنگ دستی کا رونا ہر جگہ سنا جارہا ہے بے راہ روی کی وبا عام ہے خود کشی جیسا گھناٶنا عمل آۓ دن پیش آتا ہے ٣
حق بات یہ ہے کہ روۓ زمین پر جب تک یہ نظام معیشت راٸج رہے گا دولت کی غیر عادلانہ تقسیم ہوتی رہے گی معاشرے میں کمزور طبقہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاۓ گا اور صاحب ثروت لوگوں کا طبقہ عیش و تنعم میں زندگی گزارتا رہے گا جس کی وجہ سے عالمی سطح پر سیاست سے لیکر معیشت تک ایک اضطرابی کیفیت پاٸ جاۓ گی انسانیت کی بقا و تحفظ کیلۓ ایسا نظام معیشت نافذ کیا جاۓ جس میں تمام ذی نفس کو ان کے حقوق دے گۓ ہوں ۔ روۓ زمین پر اس طرح کا نظام معیشت پیش کرنے والا اگر کوٸ مذہب ہے تو بلاشبہ وہ دین اسلام ہے جس نے زندگی کے تمام گوشے میں ذو روح کیلۓ عادلانہ باتیں کہی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہونے کیلۓ انسانوں کوحکم دیا ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ۔
                  حواشی
١اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص ٣٥
٢ اسلام اور جدید معیشت و تجارت ص ٢٤
٣ معاشیات اسلام ص ٤٥

طلاق ثلاثہ بل شریعت میں مداخلت، طلاق ثلاثہ بل کی حاجی پور کے علماء نے سخت الفاظ میں کی مذمت!

ندیم اشرف
ِــــــــــــــــــــــــ
ِحاجی پور(آئی این اے نیوز 31/دسمبر 2018) لوک سبھا میں پیش کئے گئے تین طلاق بل سے علماء اور مسلم طبقہ میں ناراضگی ہے، حکومت نے طلاق ثلاثہ بل کو لوک سبھا میں پاس کیا حکومت کے اس بل پر علماء اور مسلم طبقہ نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھلم کھلا شریعت میں مداخلت قرار دیا ہے، اس بل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ٹاؤن تھانہ مسجد کے امام خطیب مولانا مقصود عالم قاسمی نے کہا کہ  پیش کردہ بل سے مسلم خواتین کی پریشانیوں میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا حکومت تین طلاق کی کشتی پر سوار ہوکر 2019 کا الیکشن جیتنا چاہتی ہے اگر حکومت کو مسلم خواتین کی اتنی ہی فکر ہے تو انہیں مسلم تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن دینا چاہیے.
آصف جمیل قاسمی نے کہا کہ طلاق ثلاثہ بل شریعت میں سراسر مداخلت ہے طلاق ثلاثہ بل مرکزی حکومت کے ذریعہ لوک سبھا میں  پاس کئے جانے والے بل پر سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کی جانب سے ایوان میں جو جو بل پاس کیا گیا ہے وہ مسلسل شریعت میں مداخلت اور آئین ہند کے خلاف ورزی ہے پیش کردہ بل مسلم خواتین کی پریشانیوں کمی نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہے سرکار حکومت مسلم عورتوں کی  ہمدردی کے نام پر مسلمان کے حقوق کی پامال کی ہے ہم اس بل سختی سے مذمت کرتے ہیں ہم جمیع مسلمانان ہند اپنے شریعت کے پابند ہیں اور رہیں گے اللہ کے قانون کے  آگے سب ہیچ ہے.
قومی تنظیم کے بیرو چیف کلیم اشرف نے کہا کہ ہم اس بل کی سختی سے مذمت کرتے ہیں افسوس کی بات ہے مرکزی سرکار لوک سبھا اپنی طاقت سہارے طلاق ثلاثہ کا بل پاس کراکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی جس کا منشاء صرف شریعت میں دخل اندازی کا راستہ کھولنا معلوم ہوتا ہے.
مولانا نظرالہدی قاسمی نے اس بل کی  سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان کبھی بھی شریعت کے خلاف نافز ہونے والے قانون کو کبھی نہیں مانتے تھے آج بھی اسے نہیں مانے گی، مولانا نیاز عالم قاسمی نے اس بل کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ بل شریعت میں مداخلت ہے مرکزی حکومت نے مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردی کے بنا پر ان کے حقوق کے تحفظ سے متعلق جو بل لوک سبھا میں پاس کیا گیا ہے وہ نہ صرف شریعت اسلامیہ میں کھلی مداخلت بلکہ دستور ہند کی روح کے منافی ہے، مولانا مبارک قاسمی نے اس بل کی سختی سے مذمت کرتے ہیں اور کہا کہ طلاق ثلاثہ خالص مذہبی معاملہ ہے حکومت کی مداخلت ناقابل قبول ہم مسلمان قرآنی قانون پر قائم ہیں اور رہیں گے.
مولانا قمر عالم ندوی نے کہا کہ ہم اس بل کو سختی سے مذمت کرتے ہوئے  کہا کہ مرکزی حکومت اس بل کو واپس کرے، اظہار الحق قاسمی اس بل کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلاق ثلاثہ بل شریعت میں مداخلت ہے آئین ہند میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ تمام لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کے بنیادی حق ہے یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اس میں مرکزی حکومت کو مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے.

مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام روشن گڑھ میں جمعیۃ یوتھ کلب کی تشکیلی میٹنگ!

محمد دلشاد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
روشن گڑھ/باغپت(آئی این اے نیوز 31/دسمبر 2018) ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ کے مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام میں جمعیۃ یوتھ کلب کی تشکیلی میٹنگ منعقد کی گئی، جس کی صدارت حضرت قاری عبد الواجد صاحب مہتمم مدرسہ دارالعلوم فریدیہ بڑوت نے فرمائی، اور نظامت کے فرائض مفتی محمد دلشاد قاسمی ناظم مدرسہ ھذا نے انجام دیا، مجلس کا آغاز مدرسہ کے طالب علم محمد عاقل کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، اور درجہ حفظ کے طالب علم محمد ثمیر نے ھدیہ نعت پیش کیا.
مجلس کو خطاب کرتے ہوئے قاری محمد صابر صاحب صدر جمعیۃ علماء ھند تحصیل بڑوت نے کہا کہ جمعیۃ علماء ھند ہی ملک کی وہ واحد جماعت ہے جو کہ بے داغ ہے، اور روز اول ہی سے ملک و ملت کے لیے اپنی خدمات اعلی پیمانے پر انجام دے رہی ہے، اور اسی طرح آج اکابرین جمعیۃ کی فکر پر جمعیۃ یوتھ کلب کا پلیٹ فارم مسلم نوجوانوں کے لئے تیار کیا ہے تاکہ مسلم نوجوان صحیح طریقے سے تمام انسانوں کی انسانیت کی بنیاد پر خدمت کرسکے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو مگر ہر انسان کی خدمت انسانیت کی بنا پر کی جائے تاکہ اسلام کو پھلنے اور پھولنے کا مل سکے، آج ہمارے پاس اخلاق نہ ہونے کی وجہ سے غیر ہم سے متنفر ہے مگر ایسے ہی جب اخلاقی اور سماجی اعتبار سے کمزور ہے تو یہ کمزوری ہمیں ہر میدان میں پیچھے چھوڑ گئے
ہے اس لیے ہم اپنے آپ کو صحیح طور سے تیار کریں.
قاری عبد الواجد صاحب نے جمعیۃ علماء ھند کی قربانیوں پر روشنی ڈالی اور جمعیۃ یوتھ کلب سے جوڑنے کا ارادہ کرائے گئے، قاری صاحب کی رقت آمیز دعا پر مجلس کا اختتام ہوا.
اس موقع پر مدرسہ ھذا کے اساتذہ اس بستی کے معزز افراد موجود رہے، اخیر میں مفتی محمد دلشاد قاسمی نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.

Sunday 30 December 2018

موجودہ سرکار کا مسلمانوں پر دوہرا رویہ نہیں چلے گا: کاشف شاہد

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/دسمبر 2018) جب ہندوستان آزاد ہوا تھا تو مسلمانوں کو اس چیز کا بھروسہ دلایا گیا تھا کہ ہندوستان میں قانون بنے گا جو ہندوستان میں بسنے والے سب ہی باشندوں کے اوپر یہ قانون لاگو ہوگا،
تاکہ ہندوستان میں صرف ایک قانون چلے، اس کو ہر انسان کو اور ہر ہندوستانی کو دل سے تسلیم کرنا ہوگا، میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں جب ہندوستان آزاد ہوا تو ہم نے پاکستان کو نکار دیا تھا، ہم نے امبیڈکر کے  قانون پر بھروسہ کیا، ہم نے نہرو اور گاندھی کے فلسفے  پر بھروسہ کیا، ہم نے گنگا جمنی تہذیب پر بھروسہ کیا اور اس دیش کی مٹی کو الوداع نہیں کہا، مذکورہ خیالات کا اظہار کاشف شاہد سابق جنرل سکریٹری شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ نے کیا.
انہوں نے کہا آج ہمارے ساتھ کتنی ناانصافی کی جارہی ہے، آج آپ کو اس چینل کے ذریعے پوری دنیا کو بتانا چاہتا ہوں، اور اسدالدین اویسی کو مبارک باد دینا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے پارلیمنٹ کے اندر اس طریقے سے مسلمان کو تین طلاق بل پر مذہب اسلام کیا کہتا ہے اور اللہ نے قرآن میں تین طلاق کس طریقے سے دیا جائے اس کا طریقہ بھی بتلایا ہے اور ہمیں اس چیز کو غور سے سننا چاہیے اور پڑھنا چاہیے اس پر عمل کرنا چاہیے، انہوں نے کہا کہ مسلمان شریعت میں کوئی بھی دخل اندازی برداشت کبھی نہیں کرے گا.

پارلیمانی انتخاب آتے ہی سیاسی تاپمان آسمان پر!

محمد آبشارالدین بہار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
٢٠١٩ کے پارلیمانی انتخاب کے قریب ہوتے ہی انتخابی درجہ حرارت  میں جنوری کی سردی گرمی میں تبدیل ہوتے نظر آرہی ہے، ہر طرف سے مختلف شعلہ بیان مقرر خطاب اور محرر تحریر کے  ذریعے سیاست کی درجہ حرارت کو اوپر پہنچانے میں کلیدی رول ادا کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف اتحاد کی حکمت عملی نے تاپ مان کو بڑھانے میں کوئ کسر نہیں چھوڑ اہے ، روزانہ سیاسی جماعتیں اپنے سیٹوں کے بٹوارے کو لے کر اپنے اتحاد و الائنس کوبغاوتی  آنکھ دکھاتی نظر آرہی ہےکہ اگر اس کی بات نہیں مانی جائیگی تو وہ سیکولر ہوجائیگی.
 اسی درمیان ایک اہم مسئلہ پس پشت جاتا نظر آ رہا ہے، گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل سڑکوں پرجس چیز کے لئے احتجاج ہوتارہا، جن لوگوں نے ملک کی گنگاجمنی تہزیبی اقتدار کے حصول کے لیئے مسلسل فسطائ حکومت کے سامنے نبرد آزمارہے اور مختلف طرح کی اذیتیں جھیلتے رہے ان کو ٢٠١٩کا پارلیمانی انتخاب سے نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ان کو سیاسی صفہحئہ ہستی سے ہٹانے کی سازش اور تانا بانا بنا جا رہا تاکہ  تیسرا محاذ نہ بن جائے.
 جولوگ فسطائ طاقتوں کے ساتھ ملکر گنگا جمنی تہزیب  کو ختم کرنے کے لیئے کمر بستہ ہیں اور  مظلوم و بے سہارا سماج، دبے کچلے لوگ، دلت اور اقلیت  کوکبھی  ان کے گھروں میں تو کبھی سڑکوں پر مارتے رہے یا کسی کو موچ رکھنے یا مری ہوئ گائے کو نہ پھیکنے پر موت کے گھات اتارتے رہے وہ بھی فسطائ طاقت کے گود میں بیٹھ کر سیاست کا مزہ لوٹ رہے تھے اور جب  فسطائ طاقت نے انہیں استعمال کرکے چھوڑ دیا تو اب انہیں کمزور اور دبے کچلے لوگو مظلوم نظر آ رہے ہیں،کیونکہ انہیں سیاسی تاپمان کا اندازہ ہوگیا کے فسطائ حکومت کا خاتمہ   عنقریب ممکن ہے، لہذا یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کے فراق میں لگے ہیں  اور سیاسی  مہاگھٹ بندھن میں شامل ہونے کی بھر پور کوشس کررہے ہیں.
 یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سیکولر عظیم اتحاد  میں اس کو شامل کیا جائے یا نہیں، اس معاملے میں تمام سیکولر جماعت کو اس پر سوچنا چاہیئے  کیونکہ یہ وہی لوگ ہے جن کا ہاتھ کمزور اور استحصال زدہ طبقہ کے خون میں سوناہواہے،  اگر انہیں اس عظیم اتحاد میں شامل کیا گیا تو نہ صرف حکومت کا نام بدل جائے گا اور استحصال زدہ طبقہ کا مسلسل استحصال ہوتا رہے گا بلکہ اسی وجہ سے ہندوستان آزادی سے لیکر جس حالت میں  میں تھا آج بھی اسی حالت میں رینگ رہاہے، ذات، پات، مندر، مسجد سے آگے نہیں نکل سکا اور مستقل قریب میں نہ کوئ تبدیلی متوقع ہے، اس کی وجہ صرف یہی توڑ جوڑ کی حکمت عملی رہی ہے اس لیئے اس پر ذمہ دار شہری  کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تاکہ مفاد پرست جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھا جا سکے.

نیا سال منانے والوں کے نام ایک پیغام!

از: عبدالرّحمٰن الخبیرقاسمی بستوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

    فنا نہ  کر اپنی  زندگی  کو راہِ  جنوں  میں  ائے  نوجوان
    کب کرے گا عبادت جب گناہ کرنے کی طاقت نہیں ہوگی

۳۱/دسمبر کی یہ رات ایک ایسی رات ہے جو کسی ویلنٹائن ڈے سے کم نہیں، اس رات میں شاید ہی کوئی ایسا گناہ بچتا ہو، جو اس رات میں نہ ہوتا ہو، بلکہ کچھ لوگ  گناہوں کی شروعات آج ہی سے مبارک رات سمجھ کر کرتے ہیں، اس رات میں کچھ لوگ پہلی بار شراب کو منھ سے لگاتے ہیں، جسم فروشی و زنا کے دربار سجا کر بےحیائی، آوارگی و فحاشی کو فروغ دیتے ہیں، بھولی بھالی لڑکیوں کو Happy New Year بتاکر ان کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، پٹاخہ،
سنیما بینی، جوّا بازی، ناچ گانے کا بازار گرم رہتا ہے، یہ وہ رات ہے جس میں ہر وہ برے کام کئے جاتے ہیں جسے اسلام نے حرام قرار دیا کے Happy new year  کےنام پر بڑی بڑی پارٹیاں اور جگہ جگہ پروگرام منعقد کر کے فضول خرچی کی جاتی ہے، حلانکہ یہی مال یہی پیسہ لوگوں کی فلاح و بہبودی کے لئے کر سکتے ہیں، انسانی حقوق کے ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سےکام لیتی ہے، مگر ظاہر ہے کہ وہ اس وقت ہمارے مخاطب نہیں ہیں، لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے، ایسے مواقع کے لئے قرآن کریم میں سورہ "الفرقان" میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے اللہ کے بندے وہ ہیں جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے، یعنی جہاں ناحق و ناجائز کام ہو رہےہوں اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس میں شامل نہیں ہوتے، اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں یعنی لغو بےہودہ کاموں میں شریک نہیں ہوتے، بلکہ برا کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں.
چنانچہ امت مسلمہ کا اتفاق ہےکہ یہ سارا عمل صرف اور صرف غیروں کا طریقہ ہے، ایسی جگہوں پرخود بھی اور دوست واحباب رشتہ داروں کو بھی حتی الامکان جانے سے منع فرمائیں، ایسی تقریب کا انعقاد نہ کریں اور نہ ہی ایسی تقریبات میں جائیں، بلکہ جو لوگ ایسی تقریب کا انعقاد کرتے ہیں ان سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ یہی پیسہ، یہی مال غریب، مسکین، بیواؤں، و نادر طلبۃ پر خرچ کرنے کی کوشش کریں، ابھی سردی کا موسم ہے ٹھنڈی سے بچنے کے لئے سوئٹر، کمبل، رومال وغیرہ تقسیم کریں، حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ "مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کےراستےمیں جہاد کرنے والے کی طرح ہے (بخاری،مسلم)" اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ "جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائےگا، اللہ تعالیٰ اس کوجنت کےسبز لباس پہنائے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا،اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا پھل کھلائے گا، جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا،جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی (ابوداؤد، وترمذی).

نیا سال، نیو ایئر کا جشن منانے کی مروجہ تمام صورتیں خلاف شرع ہیں، مسلمان اس سے اجتناب کریں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ـــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 30/دسمبر 2018) جیسے جیسے قیامت قریب آرہی ہے مسلمان اپنی تاریخ بھلاتا جارہا ہے۔ دین واسلام میں اسکی دلچسپی کم ہوتی نظر آرہی ہے۔ اسے اغیار کی تاریخ کی جانکاری ہے اور وہ اسی میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اسے یہاں تک معلوم نہیں کہ اسلامی سال کا آغاز کب ہوتا ہے،
وہ غیروں کی طرح نیو ائیر منا رہا ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ سورج بھی ہمارا اور چاند بھی ہمارا ہے۔ لیکن اسلامی ہجری سال کو مسلمانوں نے مرتب کیا۔ جبکہ نیو ائیر انگریزی سال کو اغیار نے۔ اسلام کسی بھی کام میں اغیار کی مشابہت نہیں چاہتا۔ لہٰذا نیو ائیر کا جشن منانے کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں، مذکورہ خیالات کا اظہار مسجد رضوان، اسلام پور، بنگلور میں ہزاروں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ اغیار نئے سال کی رات کو دنیا بھر میں مناتے ہیں۔ اس میں عیاشی، فحاشی، شراب نوشی، فضول خرچی، ناچ و گانا کیا جاتا ہے۔ اور آج کل کے تعلیم یافتہ مسلمان بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔ اس رات ناچ گانے کی محفلیں ، زنا کے اڈے کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ مسلم مرد تو مرد، مسلم خواتین بھی تنگ و چست لباس پہن کر ان تقریبات میں برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ جو قابل مذمت کے ساتھ افسوسناک بھی ہے۔مولانا نے بتایا کہ اس نیو ائیر کی رات میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کرائم ہوتے ہیں ، سب سے زیادہ شراب فروخت ہوتی ہے، سب سے زیادہ عصمت دری کے واقعات اسی شب پیش آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ان جیسے غیر شرعی تقریبات میں شریک ہوکر ان سب کی تائید کررہا ہے۔ مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ یوم عاشورہ کے روزے کیساتھ ایک روزہ کا اضافہ کرنے کیلئے اسلئے حکم دیا گیا کیونکہ اس دن یہود و نصارا بھی روزہ رکھا کرتے تھے ۔ شریعت کواس میں بھی مشابہت قبول نہیں۔ پھر کیا نیو ائیر کا جشن منانا شریعت کو قبول ہوگا؟ کیا فضول خرچی قبول ہوگی؟ کیا عورتوں کا بے پردہ ہوکر زنا کی دعوت دینا قبول ہوگا؟ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے دوٹوک فرمایا کہ نیا سال کا جشن، اس کے مانند کسی طرح کی بھی تقریب کو منعقد کرنا، اس سے تعلق رکھنا، اس میں شریک ہونا سب خلاف شرع ہے۔ اسلام میں اسکی قطعاً اجازت نہیں، شاہ ملت نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ان سب غیر شرعی تقریبات میں ہرگز ہرگز شریک نہ ہوں۔

کاہے کا نیا سال!

ابو حذیفہ اعظمی
متعلم: دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ(یوپی)
ـــــــــــــــــــــــــــ
ہر طرف نئے سال کے جشن کی تیاریاں چل رہی ہیں اور ایڈوانس Happy New year کے پیغامات إرسال کئے جا رہے ہیں کہیں کوئی واٹس ایپ پر تو کہیں کوئی ٹیوٹر پر بدھائیاں دے رہا ہے، غرضیکہ سارے لوگ اس میں منہمک ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سارے مسلمان حضرات بھی یہودیوں کی اس ناپاک اور گھناؤنی سازش کا حصہ بن رہے ہیں خصوصاً ہندوستانی مسلمان
جن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور انکی شریعت پر حملہ کیا جا رہا ہے اس کے باوجود وہ اس سے غافل اور لہو و لعب میں بد مست ہیں ،کیا آپ حضرات نے اصحاب رسول کے اس تیور کو نہیں سنا جو انکے زبانِ حال سے بیاں ہوئےتھے کہ "ہم مسلمان ہیں، ذلت کے ساتھ گرفتار نہیں ہو سکتے تم بہت سے بہت یہی کر سکتے ہو کہ ہمیں قتل کر دو - مگر ہماری جرأتوں اور ایمانی قوتوں کو مغلوب نہیں کر سکتے- جان بھلے سے چلی جائے یہ تو ایک دن جانے کے لئے ہی آئی ہے مگر ایمان پر آنچ نہ آئے - ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے شریعت پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور اسکا کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور ہم اس سے غافل ہیں اور Happy New year کے جشن کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں، ہمیں ہمارے ملک میں ہی ستایا جا رہا ہے جسکی خاطر ہمارے اسلاف نے بےبہا قربانیاں دیں کہیں کشمیر میں تو کہیں یوپی میں غرضیکہ پورے ملک میں ہمیں ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ذرا سوچیں کیا اس پُر فتن دور میں ہمیں جشن منانا چاہیئے اور غفلت کی نیند لینی چاہیئے ایسے حالات میں تو نیندیں حرام ہو جانی چاہیئے جبکہ ہماری شریعت پر آوازیں اٹھنے لگے کیونکہ وہ مسلمان مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جو اپنی شریعت سے غافل ہو اور مزید برآں Happy New Year کے جشن منائے اور طرح طرح کی خرافات میں ملوث ہو کیونکہ آقائے نامدار نے ارشاد فرمایا  "کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے" ابھی بھی موقع ہے بیدار ہونے کا اور انسانیت کی خاطر اپنے ملک بلکہ پوری دنیا کے لوگ اور خصوصاً کشمیری مسلمانوں  کی آواز بننے کا اور انکا سپورٹ کرنے کا اور خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا، اس لئے کہ غافل انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا.
 اخیر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جہاں جہاں مسلمان پریشان حال ہیں انکی پریشانی کو دور فرمائے آمین.

مدرسہ دارالعلوم محمودیہ، عظیم آباد، مالیر کوٹلہ میں ششماہی امتحان اختتام پذیر!

مالیر کوٹلہ/پنجاب(آئی این اے نیوز 30/دسمبر 2018) مدرسہ دارالعلوم محمودیہ موضع عظیم آباد، سنگھین، مالیرکوٹلہ کا ایک دینی ادارہ ہے جو کہ گذشتہ بیس سال سے اپنے تعلیم وتربیت کے میدان میں سر گرم ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء حفظ وناظرہ کے علاوہ عصری علوم بھی حاصل کررہے ہیں،
آج سے بیس سال قبل حافظ محمد سالم صاحب نے انتہائی پس ماندہ علاقہ میں مدرسہ قائم کرکے قوم کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں، یہ قوم کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے، 26 دسمبر کو مدرسہ ہذا میں دیوبند سے تشریف لانے والے دارالعلوم دیوبند کے استاذ قاری محمد فاروق اور قاری محمد طیب نے حفظ وناظرہ کے طلباء کا ششماہی امتحان لیا، وہیں مدرسہ عربیہ حفظ القرآن مالیر کوٹلہ کے استاذ حدیث وفقہ مفتی محمد ثاقب قاسمی نے بھی حفظ کے کچھ طلباء کا امتحان لیا، تمام طلباء نے کامیابی حاصل کی.
 مدرسہ ہذا کے ناظم مفتی محمد مرغوب الرحمن قاسمی نے اخبار نمائندہ سے بات چیت کے دوران علم کی اہمیت وفضیلت، دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے حاصل کرنے کی ضرورت کے متعلق بڑی مفید باتیں بیان کیں.

Saturday 29 December 2018

تین طلاق دیکر عورت کو چھوڑنے پر قانون تو بنا رہے ہیں، طلاق دیے بغیر چھوڑنے پر کب بن رہا ہے قانون: نورالہدیٰ

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/دسمبر 2018) لوک سبھا میں تین طلاق پر بل پاس ہونے پر دیش بھر میں نیتا کے بیان آنا شروع ہوگئے ہیں، اسی کڑی میں صحافیوں  کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے راشٹریہ علماء کونسل  کے یوتھ ونگ کے صوبائی صدر نورالہدیٰ نے کہا کہ مودی جی مسلم بہن بیٹیوں کو انصاف دلانے کی بات کر رہے ہیں تو گجرات میں آج بھی ایک جسودہ بین ہے، جو انصاف کیلئے بھٹک رہی ہے، ان کو انصاف کب ملے گا؟ جن کے شوہر  نے بنا طلاق دئے چھوڑ دیا ہے، اسکے لئے بھی مودی جی پارلمینٹ میں بل پاس کروا دیں وہ بھی کئی سالوں سے انصاف کی مانگ کر رہی ہیں، وہ بھی کسی کی بیٹی اور بہن ہو گی، ان کو بھی انصاف مل جاتا.
مزید انہوں نے کہا کہ سپریم  کورٹ نے صبری مالا مندر میں عورتوں کے داخلے  کی اجازت دی تھی، تو یہی تین طلاق کا قانون بل اور چیتھ  بنانے والا کورٹ کی بغیر اجازت کورٹ کو حد میں ره کر فیصلہ سنانے کی نصیحت  تک دے ڈالا، اگر صبری مالا میں قانون نہیں بن سکتا تو شریعت  میں بھی دخل اندازی برداشت نہیں، قانون کا غلط استمعال کر مسلم مرد اور عورت دونوں کے مستقبل کو برباد کرنے کی منصوبہ بند سازش ہے، ہم مسلمانوں کیلئے قرآن کریم سب سے بڑا قانون ہے، اس جملے باز سرکار کو یہی عورتیں سبق سکھائیں گی.

اعظم گڑھ: سعودی عرب میں کار ایکسیڈینٹ، اشرف پور کے لڈن بھائی کی بیوی کا انتقال!

بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/دسمبر 2018) اعظم گڑھ کے تھانہ بلریاگنج علاقہ کے اشرفپور گاؤں رہائشی لڈن بھائی بیٹے الیاس احمد کی کار سعودی عرب میں سڑک حادثہ کا شکار ہوگئی، جس میں ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون،
سعودی عرب میں موجود لڈن بھائی کے چھوٹے بھائی محترم اشہد سے نمائندہ سے گفتگو کے دوران بتایا کہ بھائی اور بھائی دونوں عمرہ کرنے کیلیے جا رہے تھے کہ القصیم کے قریب کار سڑک حادثہ کا شکار ہوگئی جس میں بھابھی کا انتقال ہوگیا، بھائی کو ہلکی چوٹ آئی جس کو ڈاکٹر نے علاج کر کچھ گھنٹے میں چھٹی دے دیا، انہوں نے بتایا کہ ابھی جنازے کی خبر نہیں ہے کاغذی کارروائی جاری ہے.
واضح ہو کہ لڈن بھائی سالوں سے سعودی عرب کے ریاض شہر میں مقیم ہیں، چند مہینے سے انہوں نے اپنی بیوی کو سعودی عرب لیکر رہ رہے تھے، جمعہ کو عمرہ کیلیے نکلے تھےکہ القصیم کے قریب یہ حادثہ پیش آیا ہے.
ادارہ آئی این اے نیوز اس حادثے سے سوگوار ہے، اور دعا گو ہے کہ اللہ پاک مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے. آمین

نیا سال امیدوں کا سامان مسرت!

محمد خالد صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
لیل و نہار کی بہت سی کروٹیں بدلتے ہوئے بالآخر ہم ایک اور نئے سال، ۲۰۱۹  میں قدم رکھ رہے ہیں، گردش ایام نے اس سے قبل نئے سال کی کتنی ہی جھلکیاں دکھائی ہیں، جو وقت کے پیرہن میں سمو کر میلے ہوگئے، کتنے ہی نئے سال نے کتنی مرتبہ رنگ برنگ کے خواب دکھائے، طلسماتی دنیا جو اپنے اندر بے مثال وافر مقدار میں مقناطیسیت رکھتی ہے 'کتنے ہی خواب دکھائے،
جو شر مندہ تعبیر ہوگئے، ایک بار پھر نیا سال آنے کو ہے، ہعر طرف سے نئے سال کی نوید پردہ سماعت سے ٹکرارہی ہے، اور یہ احساس دلا رہی ہے کہ ایام گذشتہ کے خول سے باہر نکل یہ نیا سال ہمارے لئے بےانتہاء مسرت و شادمانی لےکر آئےگا گویا کہ مدتوں سے اپنی منزل کے واسطے منتظر پیادہ پا کو کوئی جادہ میسر آجائے، منزل اور خواہشوں کی تلاش میں مفقود ہونے والی بینائی کو دوبارہ چشم بینا نصیب ہوجائے، روٹھے ہوئےیار اور معشوق پھر اس دل کے قریب ہوجائیں، محفل رقیباں میں پھر ہمارا ذکر جلوہ گر ہوجائے 'یہ وہ خیالات اور تصورات ہیں جو اس دل کے احساسات کو زبان پر لانے کے لئے مہمیز کا کام کررہی ہے، یہ بات بھی عیاں ہے کہ خیالات اور تصورات کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، تصورات می عارضی رنگینوں میں جاکر کوئی حقیقی متاع مسرت حاصل نہیں کرسکتا '
لیکن یہ خیالات ہی تو ہیں، جو انسان کو احساس کمتری سے باہر نکالتے ہیں، یہ احساس ہی تو ہے جو اپنے آپ میں ایک بڑا اور کامیاب انسان بننے کے خواب دیھکتا ہے "
یوں تو کوئی دن اور کوئی سال نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایام کی گردش ہے جو گزرتا ہے اور آتا ہے، سال گذشتہ بھی دسمبر آیا تھا، اور ہم نے نئے سال میں قدم رکھا تھا، گویا کہ ایک عرصئہ دراز سے ایام گردش کررہے ہیں اور ہر بار پلٹ کر ہمارا سامنا کرتے ہیں،
اگر واقعی یہ نیا سال اور نئے ایام ہیں تو کیا یہ سال ہمارے گزرے ہوئے سال کا مداوا کرےگا، میری شمولیت کے ساتھ نہ جانے کتنے لوگ پریشان حال زندگی سے گزرتے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں کتنے ہی خانہ بدوش، اپنا مسکن ومتاع، اپنے سروں پر اٹھائے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں، کتنے ہی معصوم بچے یتیمی اور بے کسی کے عالم میں نئے سال میں قدم رکھ رہے ہیں، کتنی ہی بن بیاہی مفلس لڑکیاں شادی کے ارمان سجاتے ہوئے نئے سال میں قدم رکھ رہی ہیں، کیا یہ نیا سال ان زخموں اور فکروں کا مداوا کر پائے گا "
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی،
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی،
یہ بات عیاں ہے اور مشاہدہ کے پیمانے پر ثابت ہے، کہ محض ایام اور سال کے گزرنے سے حالات اور کردار نہیں بدلتے، پھر اس نئے سال کی اتنی خوشی کس بات کی، عنقریب کچھ ہی دنوں میں پوری دنیا میں happy newyear کی صدائیں سنائی دینگی، ایک دوسرے کو مبارک باد دی جائےگی، انٹرنیٹ اور معاشرتی ویپ سائیٹس، نئے سال کے مراسلاتسے لبریز ہوجائیں گے، اور پھر ایک دن کے بعد ہر شخص اسی طرح کام اور مشغولیات میں مصروف ہوجائےگا، جیسا کہ پرانے سال میں تھا پھر یہ نیا سال کیسا 'خیر میں اس نئے سال میں، پوری انسانیت کی ہدایت، اقوام عالم میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کی فلاح و بہبود، بین المذاہب اور بین المسالک، نفرتوں کے خاتمے کا خواہاں ہوں 'کاش کہ یہ نیاسال ملک میں امن و امان لے کر آئے، مسلمانوں کی فلاح ساتھ لےکر آئے ظلم و سفاکی کا خاتمہ ہو، امن امان پیارو محبت کی ہوئیں چلیں، نفرتوں کی مسموم ہوائیں، بند ہو، اور معاشرہ کے افراد ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئیں.
مضمون نگار محمد خالدصدیقی

مئو: ودھایک مختار انصاری کی ماں کا انتقال!

مئو(آئی این اے نیوز 29/دسمبر 2018) باہوبلی کہے جانے والے، غریبوں کے مسیحا، ایم ایل اے مختار انصاری کی ماں رابعہ انصاری کا 93 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون. کئی دنوں سے شمع حسینی ہسپتال میں علاج چل رہا تھا، ڈاکٹروں نے رابعہ انصاری کو آئی سی یو میں وینٹیلیٹر پر رکھا تھا.
 موصولہ خبر کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں سے ان کی صحت خراب تھی، لیکن حالت نازک تھی جب انہیں ہسپتال پہنچایا گیا، رابعہ انصاری کے انتقال کی خبر سنتے ہی انصاری بھائیوں سمیت پورے مئو میں غم کی لہر پھیل گئی، رابعہ انصاری کے تین بیٹے صبغت اللہ انصاری، افضال انصاری اور مختار انصاری ہیں، ان کی تین بیٹیاں بھی ہیں.
واضح ہو کہ آزادی کے جنگجو اور رابعہ انصاری شوہر نگرپالیکا محمد آباد کے سابق چیئرمین سبحان اللہ انصاری کی وفات چند برس قبل ہوئی تھی.

تین طلاق بل اور ڈکٹیٹر شپی کی انتہاء!

محمد سالم سریانوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس وقت ہندوستانی مسلمان جن حالات ومسائل سے دوچار ہیں ان میں ایک بڑا مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا ہے، موجودہ حکومت نے جس انداز سے اس میں رخنہ اندازی کی کوشش کی ہے وہ بالکل عیاں ہے، حکومت نے اس سلسلہ میں جس طرح سے پہل اور ڈکٹیٹر شپی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی نظیر میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں پہلے کبھی نہیں رہی ہے،
اس حوالے سے ’’تین طلاق‘‘ کو ایسے انداز سے ہوا دی گئی ہے کہ لگتا ہے ہندوستانی مسلم خواتین کے تمام مسائل صرف اسی سے جڑے ہوئے ہیں اور اسی کے حل کرنے سے حل ہوجائیں گے، اسی بنیاد پر ’’تین طلاق بل‘‘ کو ’’مسلم خواتین تحفظ بل2017ء‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جب کہ اہل بصیرت جانتے ہیںیہ سب اپنے مفادات کی خاطر کیا جارہا ہے، عنوان صرف ایک بہانہ ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 کل گزشتہ ایوان زیریں کے اندر جس انداز سے اس پر بحث ہوئی، مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے کھلم کھلا مخالفت جتائی اور اپوزیشن نے بھی ہنگامہ کیا اور اس کے لیے واک آؤٹ بھی کیا، لیکن ان سب کے باوجود ’’کثرت رائے‘‘ کی بنیاد پر اس بل کو ایوان زیریں میں پاس کرلیا گیا، یہ ’’ڈکٹیٹر شپی‘‘ کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے؟ مختلف ممبروں کی طرف سے ’’ترمیمی تجاویز‘‘بھی پیش کی گئیں، لیکن حکومت نے سب کو یکسر مسترد کردیا اور سیشن کے ختم تک بل کو منظوری دی، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کو آئین وقوانین سے کوئی مطلب نہیں ہے، اسے صرف اپنی بات منوانی ہے، چاہے اس کے لیے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔
 قارئین کو یاد ہوگا کہ سال گزشتہ حکومت نے ایوان زیریں میں بل کو پیش کیا تھا، جس پر اکثریت نے اتفاق رائے ظاہر کیا تھا، اسی کی بنیاد پر آئندہ کے لیے بل کی تیاری کی گئی اور ایسا لگتا تھا کہ بہت جلد حکومت اس کو ایوان بالا سے بھی منظور کرالے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا؛ کیوں کہ اس میں حکومت اکثریت میں نہیں تھی، راجیہ سبھا میں اپوزیشن نے بل کی مخالفت کی اور اسے سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کی مانگ کی، جس کے سامنے حکومت مجبور ہوگئی، اور حکومت کو لگا کہ شاید اب اس بل کو پاس کرانے کے راستے محدود ہوگئے ہیں، اس لیے جتنی جلدی ہوسکے اس کو پاس کرایا جائے، اسی لیے اس بل کو قانونی شکل دینے کے لیے ’’آرڈیننس‘‘ لانے کا فیصلہ کیا اور اس کو منظور بھی کرالیا، حالاں کہ ماہرین جانتے ہیں کہ اگر کوئی بل ایوان میں زیر بحث ہو تو اس کا آرڈنینس لانے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ہے، لیکن حکومت کو تو جلدی تھی، بہر حال اس سے بھی پوری بات نہیں بنی تو اب حالیہ سرمائی اجلاس میں اس بل کو پیش کیا گیا اور تمام مخالفتوں اور ترمیمی تجاویز کی پیشی کے بعد بھی کثرت رائے کی بنیاد پر پاس کرلیا گیا، اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کی نیت واضح نہیں ہے، بل کہ اس میں کھوٹ ہے۔
 اہل نظر جانتے ہیں کہ ’’طلاق ثلاثہ بل‘‘ میں خامیاں ہی خامیاں ہیں، اس میں کوئی ایسی صورت نہیں ہے، جس کی بنیاد پر اسے اچھا کہا جا سکے، جب کہ وہ آئین ہند کی مختلف دفعات کے مخالف بھی ہے، اس بل میں جس تحفظ خواتین کی بات کی گئی ہے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، جہاں ایک طرف یہ کہا گیا ہے کہ طلاق ثلاثہ جرم ہے، وہیں پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی تین طلاق دیتا ہے تو وہ کالعدم ہوگی، اور ایسا شخص قانون کی نگاہ میں فوجداری قانون کے اعتبار سے مجرم ہوگا، سوا ل یہ ہے کہ جب طلاق ثلاثہ کا وقوع ہی نہیں ہوگا اور وہ کالعدم ہوگی تو جرم کس بات کا؟ اسی طرح اگر اس کو جرم مان بھی لیا جائے تو تین سال کی سزا کیوں؟ اس لیے کہ طلاق ’’سول کوڈ‘‘ ہے، جب کہ سزا کریمنل کوڈ کی دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں کسی بھی مذہب میں طلاق جرم نہیں ہے، تو مسلم کمیونٹی کے لیے جرم کیوں؟ ایسے ہی جب شوہر جیل کی سلاخوں میں ہوگا تو بیوی اور بچوں کا نان نفقہ وغیرہ کون اٹھائے گا؟ ایسے ہی جیل سے واپسی کے بعد وہ شوہر جس کو بیوی کی وجہ سے تین سال جیل کی سزا ہوئی وہ اس کو بیوی کے طور رکھے گا؟ ہر گز نہیں، بل کہ اس کی وجہ سے سوائے نفرت وعداوت میں اضافہ کے محبت والفت میں اضافہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، اس کے علاوہ کئی ایسے سوال ہیں جو صرف خامیوں ہی شمار کرتے ہیں۔
 تفصیلی طور پر بل میں غور کریں تو اس میں تحفظ نہیں بل کہ تشدد ہے، یہ مسلم خاندانوں کو جوڑنے کا نہیں بل کہ ان کو توڑنے کا راستہ ہے، اسی طرح یہ مسلم کمیونٹی کے افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کا آسان ذریعہ بھی ہے، اس لیے اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اس بل کو مسلم خواتین کے حق میں تشدد سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ مسلم پرسنل لاء میں کھلی مداخلت بھی مانتے ہیں، اس لیے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اس پر نظرثانی کرے، ماہرین سے مشورہ کرے اور ضروری ترمیم کے بعد بل کو پاس کرائے، جس سے واقعی طور پر مسلم خواتین کا تحفظ ہو، یقینا ہم بھی طلاق ثلاثہ کے وقوع کے خلاف ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا قانون بنایا جس سے سارا نظام ہی ادھم کا شکار ہوجائے اور مسلم خاندانوں میں دراڑ پڑ جائے، اس موقع سے خود اپنے بھائیوں سے درخواست ہے کہ وہ طلاق کے معاملے میں سنجیدگی برتیں، اسلامی شریعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو اختیار کریں، ایسے مواقع پر علماء اور دانشوروں سے مشورہ کرنے کے بعد ہی کوئی اقدام کریں اور یہ طے کریں کہ ہم بہر صورت شریعت اسلامیہ کے مطابق ہی زندگی بسر کریں گے اور ہمیں شریعت میں ادنی مداخلت بھی برداشت نہیں ہے۔ اللہ ہمارا حامی اور مددگار ہو۔ (آمین)

چوروں کے گروہ سے دو گرفتار، چار فرار!

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/دسمبر 2018) پوروانچل کے کئی اضلاع میں بولیرو سے گھوم کر لوٹ، ڈکیتی، چوری اور قتل جیسے مجرمانہ واقعات کو انجام دینے والے گروہ کے دو افراد کو گزشتہ رات دیہاتیوں کے تعاون سے سرائے مير تھانے کی پولیس نے گرفتار کر لیا، جبکہ چار دوسرے ساتھی فرار ہوگئے، پولیس نے گرفتار دونوں شخص کا چالان کردیا، ایس پی سٹی کملیش بہادر کے مطابق گرفتار بدمعاشوں میں برده تھانہ علاقہ کے اسری خرم پور گاؤں رہائشی عالم بیٹے ارشاد اور جونپور ضلع کے سرپتہاں تھانے کے سلیم پور سرائےمحی الدین پور گاؤں رہائشی آصف بیٹے اسلم ہیں، جبکہ فرار ہونے والوں میں برده تھانے کے بكسپور گاؤں رہائشی گلو عرف فیضان، کریا عرف عامر، اسی تھانے کے اسری خرم پور گاؤں رہائشی گڈو اور سرائے مير تھانے کے نرئی پور گاؤں رہائشی شبھم عرف پنڈت کا نام شامل ہے.
ایس پی سٹی نے بتایا کہ مخبر کی اطلاع پر ایس او سرائے مير منوج سنگھ، داروغہ راجیو کمار کے ساتھ ڈیمری موڑ پر کھڑے ہو کر مشتبہ افراد کا انتظار کر رہے تھے، یہ لوگ دو بجے دوبولیرو میں آ رہے تھے تو پولیس نے ان کو رکنے کا اشارہ کیا، اس پر انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی اور سکرور گاؤں کی طرف بھاگنے لگے، پولیس ان کے پیچھے لگی اور ساتھ ساتھ بکھراں گاؤں کے لوگوں کو فون کے ذریعے گھیرابندی کرنے سے آگاہ کیا، دیہی علاقوں اور پولیس کو پیچھے دیکھنے کے بعد انہوں نے بولرو کو چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا، پولیس نے دو شخص کو گاؤں والوں کے تعاون سے گرفتار کیا، جبکہ وہ چار فرار ہونے میں کامیاب رہے، گرفتار بدمعاشوں کے پاس سے ایک طمنچہ، کارتوس، چوری کی دو بولیرو، لوہے کی راڈ، 30 موبائل، ایک جیو نیٹ سیٹر، 27 برانڈیڈ جینس، تین جوڑے جوتا، ایک اسٹیپنی، ایک لیپ ٹاپ اور ایک بوپھر برآمد ہوا.
پوچھ گچھ کے دوران بدمعاشوں نے بتایا کہ یہ لوگ بولیرو سے گھوم کر اعظم گڑھ، امبیڈکر نگر، جونپور، وارانسی وغیرہ اضلاع میں رات کو واقعات کو انجام دیتے تھے، اب تک بہت سے ایسے واقعات جیسے چوری، لوٹ اور قتل ان اضلاع میں انجام دیا جا چکا ہے، ایس پی سٹی نے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے ضلع میں گروہ سے دہشت پھیل رہی تھی.

Friday 28 December 2018

امیر محترم مولانا شمشیر عالم فیضی کی صدارت میں ضلعی جمعیت اہل حدیث گڈا کی ایک تاریخی میٹنگ اختتام پذیر!

جھارکھنڈ(آئی این اے نیوز 28/دسمبر 2018) گزشتہ 26 دسمبر بروز بدھ بوقت صبح 10 بجے بمقام انڈین پبلک اسکول للمٹیہ ضلعی جمعیت اہل حدیث گڈا، جھارکھنڈ کی ایک تاریخی میٹنگ عزت مآب جناب مولانا شمشیر عالم فیضی حفظہ اللہ امیر ضلعی جمعیت اہل حدیث گڈا کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس میں ضلع بھر سے مقامی جمعیات اور اہم مدارس و جامعات کے ذمہ داران ، اراکین عاملہ اور اعیان و علماء پورے جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوئے.
 اس میٹنگ کا آغاز جناب مولانا توحید عالم سلفی /حفظہ اللہ امیر مقامی جمعیت اہل حدیث پیپل جوڑیا کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا. اس کے بعد جناب مولانا ممتاز عالم عارفی حفظہ اللہ سرپرست ضلعی جمعیت اہل حدیث گڈا نے حمد و صلاۃ کے بعد میٹنگ میں موجود تمام لوگوں کے حق میں ترحیبی کلمات کہے،آپ نے ضلعی جمعیت کی گوناگوں تربیتی و دعوتی خدمات کا تعارف کرایا اور کہا کہ جمعیت کا واحد مقصد یہ ہے کہ تمام اہالیان حدیث گڈا دونوں جہاں کی سعادت مندی حاصل کر لیں، اس کے لئے یہ انہیں بیدار اور رہنمائی کرتی ہے.قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج کی یہ تاریخی میٹنگ پر سکون ماحول میں تقریبا مسلسل دو گھنٹے تک جاری رہی ہے، میٹنگ کے دوران ملک و ملت اور جماعت و جمعیت کو درپیش مسائل پر غور و خوض ہوا، کئے ایک امور پر گفت و شنید ہوئی، اور کئے ایک ایجنڈے بھی بنائے گئے، جن میں ضلع بھر کے ہر گاؤں میں اصلاحی و دعوتی پروگرام کا انعقاد  قابل ذکر ہے.
واضح رہے کہ دعوت کے تئیں لوگوں کے قلوب و اذہان میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ضلع کے ناظم محترم عزت مآب جناب مولانا معین الحق فیضی حفظہ اللہ نے دین کے تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں جیسے حساس موضوع پر ولولہ انگیز خطاب کیا.
موصوف کے پرمغز خطاب کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ حاضرین نے دین کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایک پل بھی ضائع کرنا گوارا نہ کیا اور دین کی نشر و اشاعت کے لئے روپے کی شکل میں اپنا اپنا تعاون پیش کیا اور مستقبل میں بھی دامے درمے قدمے سخنے مدد کرنے کی قسمیں کھائی.
اخیر میں میٹنگ کے صدر جناب مولانا شمشیر عالم فیضی حفظہ اللہ امیر ضلعی جمعیت اہل حدیث گڈا کا نصیحت آمیز و پر مغز خطاب ہوا، جس میں انہوں نے کتاب و سنت اور تجربات و مشاہدات کی روشنی میں حاضرین کو خطاب کیا اور اس بات کی نصیحت کی وحدت و اجتماعیت کو تھامے رکھیں، کبھی بھی افتراق و انتشار کے شکار نہ بنیں، اسی میں ہماری کامیابی کا راز مضمر ہے، منجملہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ضلعی جمعیت اہل حدیث گڈا کی آج کی یہ میٹنگ ہر ناحئے سے کامیاب رہی، رب العالمین سے دعا ہے کہ وہ افراد جمعیت کے تعاون کا بہترین بدلہ دے اور ذمہ داران جمعیت و جماعت کو اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دینے کی توفیق دے. آمیـــن

جمعیۃ علمائے مبارک پور کا اہم انتخابی اجلاس!


(رپورٹ: انعام الرحمن اعظمی/ حک واضافہ: محمد سالم سریانوی)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز28/دسمبر 2018) بتاریخ ١٩/ربیع الثانی ١٤٤٠ھ مطابق ٢٧/دسمبر ٢٠١٨ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب جمعیۃ علماء مبارک پور کے نئے ٹرم کا اہم انتخابی اجلاس بمقام دفتر دارالاہتمام جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور زیر صدارت قائد ملت حضرت مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور منعقد ہوا، اجلاس کا آغاز مولانا محمد صالح صاحب قاسمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، اس کے بعد درج ذیل ایجنڈوں:
(1) سابقہ کاروائی کی خواندگی وتوثیق
(2) عہدیداران جمعیۃ علماء مبارک پور کا انتخاب
(3) ارکان جمعیۃ علماء مبارک پور کا انتخاب
کے تحت گفتگو ہوئی۔
سب سے پہلے سابقہ کاروائی کی خواندگی سکریٹری محترم صاحب نے کی، جس کی توثیق باتفاق رائے کرلی گئی، اس کے دوسرے ایجنڈے کے تحت عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا، جس کی وضاحت درج ذیل ہے:
سرپرست:  زعیم قوم و ملت حضرت مولانا عبد المعید قاسمی مدنی۔
صدر: قائد قوم و ملت حضرت مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور۔
نائبین صدور:
(1)  حضرت مولانا صدیق احمد صاحب قاسمی امام و خطیب مرکزی جامع مسجد مبارک پور
(2) حاجی عالمگیر صاحب بمہور
(3) حافظ رضوان الحق صاحب استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور
سکریڑی: حضرت مولانا مفتی احمد الراشد صاحب قاسمی استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور
نائبین سکریٹری:
(1) حضرت مولانا عبد العظیم صاحب قاسمی بانی و ناظم دارالعلوم تحفیظ القرآن سکٹھی
(2) حضرت مولانا محمد طیب صاحب امام و خطیب جامع مسجد طہ
(3) (مفتی) محمد سالم سریانوی صاحب استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور
(4) حافظ عبید الرحمن اعظمی استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور
خازن: حضرت مولانا محمد اجمل صاحب انصاری رسول پوری۔
اس کے علاوہ پورے علاقے سے جمعیۃ  کے اراکین منتظمہ کا انتخاب ہوا، یہ اجلاس قریب نماز عشاء تک جاری رہا، اجلاس میں بحمد اللہ عہدیداران وارکان منتظمہ کے علاوہ دیگر ابتدائی ممبران کی بڑی تعداد شریک ہوئی، الحمد للّہ آراء کی قدر کرتے ہوئے جملہ انتخاب پایہ تکمیل تک پہنچا، جس میں باتفاق رائے اور کثرت رائے سے صاف شفاف انتخاب ہوا۔
اللہ تعالیٰ اس انتخاب کو بے انتہا قبول فرمائے اور جمعیۃ علماء مبارکپور کے تمام عزائم کو پائہ تکمیل تک پہنچاۓ، رکاوٹوں کو دور فرمائے اور حسن عمل واخلاص کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Thursday 27 December 2018

طلاق خالص مذہبی معاملہ ہے حکومت کی مداخلت ناقابل قبول، مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں منظور کئے گئے طلاق ثلاثہ بل کی علماء دیوبند نے سخت الفاظ میں مذمت کی!

رضوان سلمانی
ــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 27/دسمبر 2018) آج ایک مرتبہ پھر مرکز کی مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ بل کوپارلیمنٹ میں کچھ ترمیم کرکے پیش  کر کے منظور کرائے جانے کو۔ حکومت کے اس بل پر علماء اور مسلم طبقے نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھلم کھلا شریعت میں مداخلت قرار دیا ہے
اور کہا ہے کہ حکومت نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیاہے۔ اس بل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے مرکزی حکومت کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کے متعلق پیش کئے گئے بل پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بل کو مذہبی معاملات میں مداخلت مانتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے کہا کہ دستور ہند ہمیں دستور آزادی دیتا ہے اور طلاق ونکاح خالص مذہبی امور ہے ، ان میں کسی بھی حکومت کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔ ہم حکومت کے اس اقدام کو دستور کے روح کے منافی مانتے ہیں۔
 تنظیم علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید احمد خضر شاہ مسعودی نے طلاق ثلاثہ کے خلاف لائے گئے بل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل مسلم خواتین کے خلاف ہے ۔ اس بل سے مسلم خواتین کو انصاف نہیں ملے گا ، اسلام میں شادی ایک سماجی تعلق ہے اور اس میں سزا کو جوڑنا غلط ہے۔ مولانا نے کہا کہ یہ بل غیرقانونی ہے اور یہ قانون میں دیئے گئے برابری کے حقوق کے بھی خلاف ہے کیوں کہ یہ صرف مسلمانوں کے لئے بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ وہ اس بل کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے ۔
 ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر مولانا ندیم الواجدی نے اس بل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہند نے یہ بل لاکر قانون بنانا جمہوری ملکوں میں غیر جمہوری طریقہ ہے ، اس میں کہیں نہ کہیں ڈکٹیٹر شپ کی جھلک ملتی ہے اور یہ فیصلہ مودی حکومت کی مایوسی کی عکاس بھی ہے۔  ندیم الواجدی نے کہا کہ جہاں تک مسلمانوںکی بات ہے وہ تین طلاق کے معاملے میں بالکل واضح موقف رکھتے ہیں کہ تین طلاق تین ہی ہیں اور اس میں تا قیامت کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ،بہرحال ہمارے سامنے جمہوری راستے کھلے ہوئے ہیں ، اس بل کی سخت مخالفت کی جائے گی ۔ دوسری پارٹیوں کو ساتھ لے کر کوشش کی جائے گی کہ حکومت اس بل کو واپس لے لے۔ اس بابت جمعیۃ علماء ہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی نے اس بل پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلم خواتین کے خلاف بتایا ہے اور کہاکہ مودی سرکار تین طلاق کی کشتی پر سوار ہوکر 2019ء کا الیکشن جیتنا چاہتی ہے، اگر مودی حکومت کو مسلم خواتین کی اتنی ہی فکر ہے تو انہیں مسلم خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں میں ریزریشن د ینا چاہئے اور ملک کی لاکھوں ایسی خواتین کے لئے قانون بناناچاہئے جنہیں بغیر طلاق دیئے ہی چھوڑ دیا گیاہے۔ انہوںنے کہاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس بل کے خلاف کورٹ جانا چاہئے اور مضبوطی سے قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بل کی مخالفت میں اپنی رائے رکھیں۔
واضح ہو کہ طلاق ثلاثہ کو لے کر کافی وقت سے بحث ومباحثہ کا دور جاری ہے، آج پارلیمنٹ کے اجلاس میں مودی حکومت کے ذریعہ اس بل کو پیش کیا گیا ہے ،جس پر کوئی بڑا فیصلہ نکل کر سامنے آسکتاہے ، حالانکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس بل کے خلاف پہلے بھی بڑپیمانے پر مظاہرہ کرتا آرہا ہے اور علماء دیوبند بھی اس کی مخالفت کرتے آرہے ہیں، اتنا ہی نہیں مسلم خواتین نے بھی طلاق ثلاثہ بل کے خلاف دستخطی مہم بھی چلائی اور وقتاً فوقتاً اس بل کی مخالفت کی گئی، ایک مرتبہ پھر حکومت نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرکے ایک بحث شروع کردی ہے ۔

وکاس کے نام پر آئی سرکار، نماز، طلاق اور ہنومان کی ذات بتانے تک ہی محدود: طاہر مدنی

راشٹریہ علماء کونسل نے پھولپور اسمبلی حلقہ کے ماہل بازار میں کیا کارکنان اجلاس کا انعقاد.

اشرف اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــــــ
ماہل/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/دسمبر 2018) راشٹریہ علماء کونسل نے ضلع میں 2019 لوک سبھا انتخاب کو لیکر اپنی سرگرمیوں میں تیزی لا دی ہے۔ اسی کڑی میں کونسل نے پھولپور اسمبلی حلقہ کے ماہل بازار میں کارکنان سمیلن کا انعقاد کیا۔ سمیلن میں مہمان خصوصی کے طور پر موجود کونسل کے قومی جنرل سکریٹری مولانا طاہر مدنی نے کہا کہ آج پورا ملک مرکز کی بھاجپا سرکار کی عوام مخالف نیتیوں سے دکھی ہے۔ مہنگائی،کسانوں کی موت،نوٹ بندی،جی ایس ٹی و دوسرے عوام مخالف پالیسیوں سے سماج کا ہر طبقہ پریشان ہے۔
ایسے میں بھاجپا لیڈران بوکھلا گئے ہیں اور اناپ شناپ بیان دے رہے ہیں اور غلط قدم اٹھا رہے ہیں۔ نوئیڈا میں نماز روکنے کا فرمان جاری کرنا اسی بوکھلاہٹ کا اثر ہے۔ یہ فرمان مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ آئین کے بھی خلاف ہے اور ملک کی عوام اس کا جواب جلد دیگی۔ اصل مسئلوں سے لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے لیئے ایک طرف تو بھاجپا لیڈران آئے دن ہنومان جی کی ذات اور دھرم بدل رہے ہیں اور ملک کے کروڑوں ہندؤں کی آستھا کو چوٹ پہونچا رہے ہیں تو وہیں نوئیڈا میں نماز روکنے کا فرمان جاری کر مسلمانوں کی آستھا سے کھیل رہے ہیں۔ عوام اب سب سمجھ رہی ہے کہ بھاجپا سرکار صوبہ سے لیکر دلی تک ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے تو ایسے میں بیہودہ بیان اور مذہبی نعروں میں عوام کو الجھائے رکھو تاکہ ذات مذہب سے پھر کرسی کا مزہ چکھا جا سکے۔ وہیں اترپردیش میں قانون کے نام پر آئی یوگی سرکار عام آدمی کو نا تو تحفظ دے پا رہی ہے نہ ہی سرکار چلا پارہی ہے۔
           مولانا نے مزید کہا کہ آج صوبہ میں جرم،ظلم و زیادتی کا بول بالا ہے یہاں تک کہ پولس بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان حالات میں بھی صوبہ کے موجودہ حزب اختلاف پارٹیوں نے نہ صرف اپنے منھ سلے ہوئے ہیں بلکہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور سڑک پر اتر کر مخالفت کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں کیونکہ انہیں عوام سے کوئی سروکار نہیں بلکہ یہ چاہتے اور جانتے بھی ہیں کہ عوام کے پاس متبادل نہیں ہے تو عوام خود ہی اگلی دفعہ ہمیں ہی چنے گی۔ یہاں اترپردیش میں تو دونوں سپا بسپا حزب اختلاف پارٹیاں خاموش ہیں۔ ان حالات میں عوام متبادل کی تلاش میں ہے اور ایسے میں چھوٹے سیاسی پارٹیوں کا رول اہم ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء کونسل کے کارکنان و عہدیداران سڑک پرعوام کے حقوق کی لڑائی لڑیں اور عوامی پیمانے پر آندولن کریں۔ ٹویٹ کرنے اور ٹی وی، اخبار میں بیان دینے سے بدلاو نہیں آتا بلکہ بدلاو یا تبدیلی زمین پر سنگھرش کرنے سے آتی ہے اور کونسل کی 10 سالہ تاریخ سنگھرشوں سے بھری پڑی ہے۔ آج جب سب خاموش ہیں تو آپ کا فرض ہے کہ آپ عام آدمی کی آواز بنیئے اور ظلم کے خلاف مظلووں اور غریبوں کی آواز بنیں۔
صوبائ صدر انل سنگھ نے کہا کہ آج ملک بھر میں ذات مذہب کی سیاست کی جا رہی ہے جس سے عوام پریشان ہو چکی ہے۔ عوام وکاس اور سوراج چاہتی ہے۔ ذات اور مذہب کے نام پر لوگوں کو 2014 میں تو بہکا کیا گیا پر اب عوام دوبارہ انکے بہکاوے میں نہیں آنے والی۔ 70 سال سے مسلمانوں کا ووٹ بھاجپا کا ڈر دکھا ان نام نہاد سیکولر جماعتوں نے لیئے لیکن کبھی بھی مسلم سماج کو اس کا حق نہیں دیا۔ آج آپ کے پاس موقع ہے کہ اپنی قیادت راشٹریہ علماء کونسل کو مظبوط کریں۔
قومی ترجمان طلحہ رشادی نے کارکنان اور عہدیداران کو عوام کے بیچ جا کر بیداری پھیلانے اور پارٹی کو مظبوط کرنے پر زور دیا اور کہا کہ جمہوریت میں اسی سماج کی آواز سنی جاتی ہے جس کی اپنی لیڈر شپ ہوتی ہے۔ اسی کے حقوق ملتے ہیں جو سماج سڑک پر جمہوری طریقوں سے اپنے حقوق کو مانگتا ہے۔ آج کونسل ایک متبادل کی شکل میں آپ کے پاس موجود ہے، اپنے اتحاد سے اس کو مظبوطی فراہم کریں۔ اجلاس کو مفتی غفران قاسمی، نورالہدی انصاری نے بھی خطاب کیا۔
پروگرام کی صدارت ضلع صدر شکیل احمد و نظامت کے فرائض افضل چمن نے انجام دیا۔
اس موقع پر اسمبلی حلقہ پھولپور صدر محمد عامر، نگرپنچایت صدر دلشاد، سفیان، شیرو، اعظم، حافظ نسیم، مجیب اللہ، کلیم، سالم، عرفات، عبدالرحیم، بیربل گوتم، منیرام، احتشام وغیرہ کے علاوہ سیکڑوں کارکنان موجود تھے۔

اعظم گڑھ: جامعہ شیخ الھند انجانشہید میں ششماہی امتحان اختتام پذیر!

سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/دسمبر 2018) اعظم گڑھ ضلع کے سگڑی تحصیل علاقہ کے انجانشہید گاؤں میں واقع جامعہ شیخ الہند قاسم آباد میں ششماہی امتحان گزشتہ 22/ دسمبر بروز سنیچر کو شروع ہوا اور کل 26/دسمبر بروز بدھ کو مکمل ہوگیا ہے، الحمد للہ تمام طلبہ بہت ہی انہماک کے ساتھ امتحان کی تیاری کی اور اسی انہماک اور جدوجہد کے ساتھ امتحان بھی دیا،
ایک طرف جہاں امتحان کی تیاری ہورہی تھی تو وہیں دوسری طرف گھر جانے کی خوشی بھی تھی، بدھ کو فجر کی نماز کے بعد حضرت مفتی صاحب(مفتی مامون رشید صاحب قاسمی) کا جامعہ کے مدنی ھال میں بیان ہوا، انہوں نے سارے طلبہ کو بہت ساری نصیحتیں کیں، گھر جاکر والدین کی خدمت کرنا، سلام کو عام کرنا، نماز کی پابندی کیساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نماز کی دعوت دینا، اخیر میں حضرت مفتی صاحب نے طلبہ کے سفر کی آسانی اور ان کی کامیابی کی دعا کی، بعدہ سارے طلبہ نے حضرت مفتی صاحب سے مصافحہ کیا اور گھر جانے ک تیاریاں شروع کردی.
واضح ہو کہ کل آخری پرچہ تھا، طلبہ آخری امتحان دینے کیلیے امتحان ہال میں پہنچے اور امتحان دیا اور اس کے بعد ایک دوسرے سے خوشی سے مل کر طلبہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے.

سنگھرش کے بعد ملی ٹرائی سائیکل، 65سالہ معزور کا کھل اٹھا چہرہ!

حافظ عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 27/دسمبر2018) تحصیل  دھن گھٹا حلقہ گاؤں پنچایت جھنگراپار (روضہ) کے محمد ادریس عرف  پنڈت عمر 65سال ہے، جو سن 2000 میں ایک سڑک حادثے کا شکار ہونے کے بعد اپنے پاؤں سے معزور ہو گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں چلنے پھرنے میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا، غریب معزور کو اپنے بچوں کی پرورش کے واسطے اپنی پان کی گمٹی جو گاؤں سے تقریبا 500میٹر کے فاصلے پر دوکان  واقع ہے ہر ہال میں جانا ہی پڑتا تھا، جس سے دوکان تک پہنچنے میں کافی وقت لگ جایا کرتا تھا،
جیسے ہی اس کی خبر گزشتہ دنوں روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو گورکھپور اور اتحاد نیوز اعظم گڑھ (INA NEWS) نے دھن گھٹا سنت کبیرنگر سے (چیف میڈکل افسر کے حکم کے باوجود مہینوں سے معزور ٹرائی سائیکل سے محروم، ومحکمہ اقلیتی بہبود کی بے حسی ) کو اپنے  شمارہ میں شائع کیا تھا، خبر کے اثر سے ایک طرف جہاں محکمہ کے اعلیٰ افسران کی نیند ٹوٹی، وہیں گزشتہ دنوں محکمہ کی جانب سے معزور ادریس کو ایک عدد ٹرائی سائیکل مہیا کرائی گئی.
معزور ادریس نے اپنے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے روز نامہ راشٹریہ سہارا اردو گورکھپور کے ایڈیٹر عالی جناب مظفر اللہ خان وگورکھپور دفتری اسٹاف کے ساتھ و نمائندہ راشٹریہ سہارا اور INA NEWS کے چیف ایڈیٹر حافظ ثاقب اعظمی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعاؤں سے نوازا، انھوں نے کہاکہ اپنے قلم کے ذریعے اعلی افسران تک معزور کی پریشانی کو اجاگر کیا، ہم تہ دل سے مباکباد پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ  مدرسہ مصباح العلوم روضہ  کے پرنسپل مولانا عزیز اللہ، مولانا حبیب اللہ، حافظ عبدالرشید، مولانا نظام الدین، مولانا محمد وسیم، حافظ محمد سلیم درانی، ماسٹر محمد ارشد خان  ودیگر اساتذہ نے ٹرائی سائیکل کے لئے رہنمائی کی ان کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اب مجھے کافی حد تک اپنی روز مرہ معمولات کی زندگی میں ٹرائی سائیکل سے مدد ملتی رہے گی.

Wednesday 26 December 2018

جامعہ سراج العلوم بھیونڈی میں جمعیت علماء ھند کی میٹنگ!

بھیونڈی(آئی این اے نیوز 26/دسمبر 2018) بتاریخ ٢٥دسمبر٢٠١٨ ٕبروز منگل بعد نماز عشاء جامعہ سراج العلوم بھیونڈی میں جمیت العلماء ضلع تھانہ کی فعال اور متحرک یونٹ بھیونڈی شہر ضلع کے ارکان منتظمہ کے نئے ٹرم کی انتخابی میٹنگ مفتی لٸیق احمد قاسمی کی صدارت میں منعقد ہوئی،
تلاوت کلام اللہ سے میٹنگ کا آغاز ہوا.
 مولانا حلیم اللہ صاحب قاسمی جنرل سکریٹری جمعیة العلماء نے جمیعت کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہ تنظیم بزرگوں کی امانت ہے، جس کو فعال اور متحرک بنانے کی ذمہ داری ہم پر ہے تاکہ جمیعت کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی خدمت کی جاسکے، جو اس کا شان امتیاز ہے، جمیعت نے قیام سے لیکر اب تک ہر حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، مولانا کے بیان کے بعد مشاہدین کی موجودگی میں عہدیدارن کا انتخاب ہوا، حضرت مولانا مفتی لٸیق احمد صاحب صدر، حافظ محمد عمران خان اعظمی صاحب ناٸب صدر، مولانا کفیل احمد قاسمی اعظمی صاحب ناٸب صدر، مفتی خالد ناٸب صدر، مفتی یسین ناٸب صدر، مفتی حفیظ اللہ قاسمی صاحب جنرل سکریٹری، ناٸبین سکریٹری مولانا غفران قاسمی اعظمی، ظفر جابر قاسمی اعظمی، قاری ظہیر قاسمی، اکبر صدیقی، معظم انصاری خزانچی، حاجی مکرم الدین منتخب ہوٸے.
 نظامت کے فراٸض مفتی فیاض احمدقاسمی نے انجام دیا، اور صدر جمعیت بھیونڈی کی دعاء پر میٹنگ کا اختتام ہوا.
 میٹنگ میں مولانا فرقان بدر قاسمی اعظمی، مولانا محمد اعظمی، اصغر مجیدی، جاوید بھاٸی، اعجاز بھاٸی، مولانا امتیاز، مولانا ساجد، مولانا کلیم اللہ، مولانا فیصل اعظمی، مولانا نیاز قاسمی، حافظ عبد السبحان مولانا لقمان قاسمی اعظمی، مولانا عبدالرشید اعظمی وغیرھم نے شرکت کی.

نوئیڈا انتظامیہ کا سنگھی فرمان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی: عامر رشادی

کانوڑیوں پر پھول کی بارش اور مسلمانوں کی نماز پر پابندی، ملک میں دو قانون نہیں چلے گا : راشٹریہ علماء کونسل

لکھنؤ(آئی این اے نیوز 26/دسمبر 2018) کاونڑیوں پر پھول کی بارش اور مسلمانوں کی نماز پر پابندی، ملک میں دوھرا قانون نہیں چلے گا، بھاجپا سرکار کے اشارے پر نویڈا پولیس کا پارک یا عوامی مقام پر نماز نہ پڑھنے کے تعلق سے جاری کیا گیا نوٹس نہ صرف مسلمانوں کے خلاف ہے بلکہ ملک کے آئجن کے خلاف ہے، ہندوستان کے آئین کی آرٹکل  15.25.26.27.28.کے ذریعہ دیے گئے بنیادی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی ہے، مذکورہ خیالات کا اظہار راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر  مولانا عامر رشادی صاحب نے کیا، انہوں نے  اس نوٹس کی سخت مذمت کرتے ہوئے نوٹس کو واپس لینے کی مانگ کی ہے، اور انہوں نے کہا کہ راشٹریہ علماء کونسل ضرورت پڑنے پر قانونی چارہ گوئی بھی کریے گی.
مولانا رشادی نے مزید کہا کہ یہ فرمان حکومت کا مسلمانوں کو دوہرا نقصان پہچانے کی سازش ہے، جہاں ایک طرف نماز پڑھنے سے روکنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے تو وہیں دوسری طرف نماز پڑھنے والے ملازمین کی کمپنی آفس یا مالک کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کر کے مسلمانوں کو بیروزگار بنانے اور معاشی نقصان پہچانے کی بھی سازش رچی  گئی ہے، ورنہ کسی کے مذہبی فریضے اور انفرادی عمل کا ذمے دار اسے ملازمت  دینے والا کیسے ہو سکتا ہے، یو پی سرکار ایک طرف تو کانوڑیوں  پر پھول کی بارش کرتی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کو نماز سے روکنے کی سازش کر رہی ہے، جمہوریت میں دو طرح کا قانون نہیں چلےگا، ساتھ ہی انہوں نے تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور تنظیموں کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا، انہوں نے کہا کہ چاہے کانگریس  ہو یا سپا، بسپا سب کے سب خاموش ہیں کیونکہ یہ معاملہ  مسلمانوں کا ہے، ان کو سمجھنا ہوگا کی یہ نوٹس مسلمانوں سے زیادہ ملک کے آئین اور اس کے سیکولر ڈھانچے پر حملہ ہے.

مہا کمبھ میں سرکاری خزانے کو بیجا خرچ کرنے والی یوگی سرکار کو نماز سے خوف کیوں: نورالہدیٰ انصاری

پھولپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/دسمبر 2018) راشٹریہ علماء کونسل کے یوتھ کے صوبائی صدر نورالہدیٰ انصاری نے کہا کہ یوپی کی یوگی سرکار کیوں مسلمانوں کے چکر میں پڑی ہے؟ جو بھی سرکاریں مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہیں ان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے، آپ کو نماز سے کیوں حیرانی ہے، آپ کاوریوں پر پھول برساتے ہیں، اور آپ کے لوگ سڑکوں پر درگا پوجا کرتے ہیں،
جس سے عام انسان پریشان ہوتا ہے،ہسپتالوں میں مریض پریشان ہوتا ہے، اور جگہ جگہ کھلے میں آپ کے لوگ ہری کیرتن کرتے ہیں تو آپ اس پر پابندی نہیں کرتے ہیں، ایودھیا میں سڑکوں پر دھرم سبھا ہوتی ہے وہ آپ کو نہیں دکھائی دیتا یوگی جی، مسلمان امن و شانتی سے اپنا جلسہ کرتا ہے، اپنا اجتماع کرتا ہے وہ بھی سرکار سے اجازت لے کر، تو اس پر بھی آپ کی سرکار ٹیکس لگانے کی بات کرتی ہے، یہ دوہری پالیسی نہیں چلنے دی جائے گی، نفرت اور دشمنی کا ماحول نہیں چلنے دیا جائیگا، ابھی کچھ ریاستوں میں ہوئے حالیہ چناؤ نے یہ ثابت کر دیا کی نفرت، دھوکہ، جھوٹ، فریب، ماب لچنگ والی سرکار نہیں چاہیے، اور رہی بات نماز پر پابندی کی تو ہمارے آئین نے ہمیں یہ حق دیا ہے، جس کو آپ نہیں چھین سکتے.
اس موقع پر قومی ترجمان آر یو سی طلحہ رشادی، ضلع صدر حاجی شکیل احمد، نسیم احمد، شہباز رشادی، عمار بھائی، رحیم احم، محمّد عارف سمیت سیکڑوں کارکنان موجود تھے.

ہمارے ملک ہندوستان میں طلبہ یونین کی افادیت و اہمیت!

از قلم : وقار احمد قاسمی غالب پوری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
● طلبہ یونین کا آغاز یورپ میں طلبہ کی مجالس مباحثہ Debating Societies کے طور پر ہواتھا ۔ مقصد یہ تھا کہ طلبہ دور طالب علمی ہی سے ملک، سماج اور انسانیت کے اہم مسائل پرغور وفکر کے عادی بن جائیں ، ان میں صحت مند مباحثوں کی عادت پیدا ہو اور جمہوری مزاج پروان چڑھے۔ بیسویں صدی عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد اور سیاسی نظریات کی صدی تھی ۔ چنانچہ اکثر ملکوں میں طلبہ یونینیں اپنے اپنے معاشروں کے سیاسی رجحانات سے بھی متاثر ہوئی اورہمارے ملک سمیت کئی ملکوں میں طلبہ یونینوں نے آزادی کی جدوجہد میں قومی قائدین کے شانہ بشانہ سرگرم حصہ لیا۔
● طلبہ یونین کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ مستقبل کی عملی ذمہ داریوں کے لئے طلبہ کو تیار کرتی ہے ۔ طلبہ، کلاس روم میں اپنے مخصوص شعبہ علم کی معلومات اور مہارت حاصل کرتے ہیں اور یونین کے پلیٹ فارم پر وہ اپنی صلاحیتوں کو معاشرہ کے لئے عملاً استعمال کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ یونین کا پلیٹ فارم طلباء کو سوسائٹی اور اس کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ یہاں ان کی قائدانہ صلاحتیں پروان چڑھتی ہیں۔ کمیونکیشن، پیش قدمی، مشاورت ، بحث و مباحثہ، فیصلہ سازی، نفاذ ، مسائل و مشکلات کے حل، مزاحمت ، وغیرہ کے آداب اور سلیقہ بھی ان میں پیدا ہوتا ہے ۔ یونین طلبہ کا کیرکٹر بھی بناتی ہے اور ان میں حوصلہ مندی، جرأت، حق گوئی و بے باکی، ظلم کے مقابلہ، مشکلات کا سامنا اور اس جیسے دیگر مسائل میں اخلاقی اوصاف کی نشوونما بھی کرتی ہے ، جو ایک تعلیم یافتہ میں ضروری ہے اور ہر سطح کے قائدین کے لئے ناگزیر ہے ۔
● اس وقت ہمارے ملک کی فضا کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ تعمیری مباحث ، تنقید اور سوالات کھڑے کرنے ، نیز افکار و خیالات کے تنوع کی ہمت شکنی ہورہی ہے ۔ سرمایہ داروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا گٹھ جوڑ، کسی بھی ایسے خیال کی اشاعت کا روادار نہیں ہے، جو اس گٹھ جوڑ کے مفاد کے خلاف ہے ۔ میڈیا خیالات کی چند مخصوص دھاراؤں تک پورے ملک کو محدود کرنے کے درپے ہے ۔ یہ صورت حال ہمارے ملک کی جمہوریت کے لئے سخت مہلک ہے ۔ طلبہ یونینیں اس صورت حال کو ختم کرسکتی ہیں ۔ ملک کے مسائل پر گفتگو ، مختلف خیالات کو سننے اور ان پرغور کرنے کی آزاد فضا خود طلبہ کی شخصیتوں کے آزاد ماحول میں ارتقا کے لئے ضروری ہے ، اس فضا سے وہ ملک کی مجموعی فضا کو بھی متأثر کرسکتے ہیں ۔
● ہر تعلیمی ادارہ کا اپنا کلچر ہوتا ہے، اسے تشکیل دینے اور محفوظ رکھنے میں بھی طلبہ یونینوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک میں بعض تعلیمی ادارے اپنے اعلی تعلیمی معیار، علمی و تحقیقی سرگرمیوں اور تخلیقیت کے لئے معروف ہیں ۔ بعض تعلیمی اداروں کا ماحول جہد کاری و فعال سماجی سرگرمی سے عبارت ہے ،اس کے بالمقابل کئی تعلیمی ادارے ریگنگ کے لئے بدنام ہیں ۔ بعض تعلیمی اداروں میں مستقل طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان کشمکش کا ماحول رہتا ہے اور اس کشکمش میں وہ سال کا بیشتر حصہ ایسے ہی صرف گزار دیتے ہیں ۔ بعض اداروں کی فضا ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہاں لوگوں کو سیکھنے سکھانے سے دلچسپی کم ہوتی ہے اور لوگ وقت گزاری ، تفریح یا عیاشی کے لئے داخلہ لیتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کی ان ساری شناختوں میں طلبہ کی اجتماعی سرگرمیوں اور یونینوں کا انتہائی اہم رول ہوتا ہے ، اگر طلبہ یونین چاہے تو ، تبدیلی کرسکتی ہے۔
● طلبہ یونین کی ایک اہم حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کا ادارہ بھی ہے ۔ مغربی ملکوں میں طلبہ یونینیں یہ کردار بہت ہی سرگرمی کے ساتھ ادا کررہی ہیں، جس کے نتیجہ میں دور دراز کے ممالک سے آنے والے طلبہ بھی آسانی سے ایڈجسٹ ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً طلبہ کی مشاورتی سروس اکثر مغربی ملکوں کے یونینوں کا مستقل فیچر ہے ۔ یہ سروس مقامی اور بیرونی طلبہ کو ہر قسم کی رہنمائی اور مدد فراہم کرتی ہے ۔ بعض طلبہ یونینیں بعض گروپوں (مثلاً معذور یا اپاہج طلبہ وغیرہ) کے لئے مخصوص خدمات بھی فراہم کرتی ہیں ۔ بعض یونینیں داخلہ کے بعد طالب علم کے آنے سے پہلے اس کی رہائش کا انتظام کردیتی ہیں ۔طلبہ یونینیں تمام طلبہ کے مابین مناسب تال میل اور ربط پیدا کرکے ان کے بہت سے مسائل حل کرتی ہیں ۔ طلبہ کا ایک بہت ہی اہم اور پیچیدہ مسئلہ معاشی ضروریات کا ہوتا ہے۔ ملک میں بعض طلبہ یونینیں اسکالرشپ کی رہنمائی اور مدد کو آپریٹیو اسٹورز کے قیام وانتظام وغیرہ کے علاوہ اہل خیر تنظیموں اور افراد اور طلبہ کے درمیان ربط کا کام بھی بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہیں۔
● ان کاموں کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ ان سے طلبہ کے مسائل حل ہوتے ہیں اور طلبہ یونین صحیح معنوں میں دیگر تمام طلبہ کے قائد بن جاتے ہیں، وہیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتاہے کہ طلبہ اور ان کی قیادتوں میں انسان دوستی، غریب پروری اور خدمت خلق کا مزاج بھی پروان چڑھتا ہے۔ آج ہمارے ملک کے تعلیمی ادارے زیادہ تر ایسے خود غرض اور مفاد پرست تعلیم یافتہ افراد تیار کررہے ہیں ، جن کی واحد دلچسپی اپنی ذاتی آسودگی اور مالی منفعت ہوتی ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاست سے لے کر تعلیم تک اور بیوروکریسی سے لے کر میڈیا تک ، ہر جگہ صرف مادی مفاد کی دوڑ ہے اور معاشرہ کی فلاح و بہبود سے کسی کو بھی دلچسپی نہیں ۔ طلبہ یونینیں یہ صورت حال ضرور بدل سکتی ہیں ۔
● طلبہ کی نمائندگی اور احتجاجی سیاست اب ہمارے ملک میں ایک بہت ہی حساس موضوع بن چکا ہے ۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے افراد اپنے سیاسی مفادات کے لیے احتجاج کے نام پر طلبہ کا استحصال کررہی ہیں ۔ اس کے بالمقابل دوسری طرف بعض مقامات بالخصوص مدارس اسلامیہ میں وہ مزاج ابھی بھی موجود ہیں ، جو طلبہ کوخاموش تماشائی بنائے رکھنا چاہتے ہیں ، وہ سوسائٹی سے اختلاف و احتجاج کی تمام صورتیں ختم کردینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ طلبا صرف اپنی ضرورتوں اور تعیشات سے غرض رکھیں ، اجتماعی معاملات میں ان کی معلومات، بیداری، اور دلچسپی کم سے کم ہو۔ غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان کی واحد دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند میں بھی طلبہ یونین نہیں ہے ، حالاں کہ یہاں تو ضرور ہونی چاہیے۔
● ہماری یونینوں کو دیگر معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی متوازن رویہ اختیار کرنا چاہیے : نہ طلبہ کا ہر مطالبہ لازماً جائز و منصفانہ ہوتا ہے ، نہ ہر جائز و منصفانہ مطالبہ پر احتجاج اور مہماتی کام ضروری ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بات ملک و سماج کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ طلبہ اپنے حقوق اور جائز مطالبات و امنگوں سے دستبردار ہوکر انتظامیہ کے بے زبان خادمین بن کر رہیں ۔ طلبہ یونینوں کو دانشمندی کے ساتھ اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے ۔ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں الجھ کر بے شک طلبہ کے وقت اور تعلیم کے ضیاع کا سبب نہیں بننا چاہیے ؛ لیکن جن مسائل کا تعلق ان کی تعلیم، ان کے مستقبل اور ان کی بنیادی جائز ضرورتوں سے ہے، ان سے غافل بھی نہیں رہنا چاہیے۔
● یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ہر مسئلہ احتجاج سے ہی حل نہیں ہوتا ۔ بے شک نعرے، جلسے، جلوس اور ہنگامے نوجوان قائدین کو اپنی قیادتیں چمکانے کا موقع فراہم کرتی ہیں ؛ لیکن اگر یونین اور اس کے قائدین کو اپنی قیادت چمکانے سے زیادہ طلبہ کے مسائل کے حل میں دلچسپی ہے ، تو انہیں قیادتوں کو چمکانے کے لیے کوئی متبادل طریقہ ڈھونڈنے کی فکر کرنی چاہیے اور طلبہ کے مسائل کو بغیر شور شرابہ کے، ذمہ داروں سے بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنا چاہیئے ۔ بعض مسائل سماج کے بزرگ رہنماؤں کی مداخلت سے آسانی سے حل ہوسکتے ہیں اور بعض مسائل عدالتوں کے ذریعہ حل کرائے جاسکتے ہیں۔
● قیادت کا اہم ترین کام یہ ہے کہ وہ کردار بناتی ہے۔ مدرسہ اور کالج ویونیورسیٹی کے ماحول میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا وہ قیمتی دور گزارتا ہے ، جو اس کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کی شخصیت کی تعمیر میں جہاں تعلیمی نظام کے دیگر اجزاء یعنی تعلیم، اساتذہ اور کتابوں کا رول ہوتا ہے ، وہیں بڑا اہم کردار اس کے ہم جولیوں کا ہوتا ہے اوراس کی نمائندگی یونین کرتی ہے ۔ایک مؤثر یونین طلبہ کی محفلوں پر، اس میں ہونے والی گفتگو اور مباحث پر، طلبہ کے باہمی تعلقات پرہر جگہ اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہماری یونینوں کو اپنے اس اثر ورسوخ کا طلبہ کی کردار سازی کے لئے استعمال کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔
● کردار سازی سے ہماری مراد یہ ہے کہ یونین کے عہدہ دار اپنے ذاتی کردار کے ذریعہ ، یونین کی سرگرمیوں کے ذریعہ اور اس کے مباحث کے ذریعہ ایسا ماحول بنائیں کہ اس ماحول میں خوف خدا ، ایمانداری ،سچائی، انسانیت، قانون کا احترام، انصاف پسندی، سچائی کے لئے جدوجہد کا داعیہ ، ایثار و قربانی، کمزوروں اور محروموں کے تئیں سچی ہمدردی، عورتوں کا احترام، بزرگوں اور اساتذہ کا احترام اور اس جیسی اعلی قدریں اور بلند فکریں پروان چڑھ سکیں ۔ یونین کے ذمہ داران کی تقریریں، ان کے پروگرامز اور ان کے عنوانات، مسائل حل کرنے کا ان کا انداز، ان کی تہذیب اور رکھ رکھاؤ ؛ یہ سب امور طلبہ کے کردار پر اثر ڈال سکتے ہیں ۔ ان تمام معاملات میں اگر طلبہ قائدین رول ماڈل بننے کی فکر کریں ، تو وہ اپنی قیادت کو اور یونین کو ایک کردارساز ادارہ میں بھی بدل سکتے ہیں ۔
● طلبہ یونینوں کو اپنے ادارہ میں صالح روایات کو فروغ دینے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔ ریگنگ، اساتذہ سے بدتمیزی، ہنگامے اور تشدد وغیرہ جیسی روایتوں کو ختم کرنا چاہیے ۔ بالخصوص ایسی روایتوں کو فروغ دینا چاہیے، جن سے طلبہ کی تعلیمی میدان میں دلچسپی بڑھے ، مطالعہ اور تحقیق و جستجو کا شوق پروان چڑھے ، تخلیقی سرگرمیاں فروغ پائیں ، تفریقات اور تعصبات باقی نہ رہیں ۔ اساتذہ ، انتظامیہ اور طلبہ میں تال میل اور ہم آہنگی پیدا ہو ۔ بالآخر ایسا کلچر پروان چڑھے، جو مثبت رخ پر طلبہ کے ہمہ جہت ڈیولپمنٹ میں معاون ہو، اگر مدرسوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں صالح کلچر پروان چڑھے گا، تو یہ کلچر إن شاء الله پورے معاشرہ کا بہترین اور قابل تعریف کلچر بنے گا ۔

سرائے میر: مدرسة الاصلاح میں تکمیل حفظ قرآن پاک کی تقریب منعقد!

مبشر اسد اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز26/دسمبر 2018) آج مدرسة الإصلاح سرائے میر کے شعبہ حفظ میں تین طلبہ بالترتیب سمیع اسد ابن اسدالرب طوی، سیف اللہ ابن عبد اللہ اسرولی، محمد مہتاب ابن قیام الدین بیناپارہ کے تکمیل حفظ قرآن مجید کے موقع پر ایک پر رونق دعائیہ مجلس کا انعقاد کیا گیا، جس میں سابق صدر مدرس جناب مولانا سرفراز احمد ندوی مدنی نے اپنے مختصر خطاب میں اساتذہ،
طلبہ اور سرپرست حضرات کی حوصلہ افزائی کی اور آج کے مادہ پرستی کے دور میں حفظ قرآن مجید کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی، نیز طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح آج الحمد سے لیکر الناس تک سینوں میں محفوظ ہے اسی طرح اس کو آگے بھی محفوظ رکھنا۔
اخیر میں بچوں کے استاذ جناب قاری جنید صاحب کی  شبانہ روز محنت کو سراہا اور اس کے بعد انہیں کی دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا.
اس دعائیہ مجلس  میں سرپرست و مہمانوں کے علاوہ مدرسے کے اساتذہ نے شرکت کی، جس میں صدر مدرس جناب مفتی سیف الاسلام صاحب، قاری سالم صاحب، قاری عتیق الرحمان صاحب، جناب ابو فہد اصلاحی ندوی صاحب اور رشاد احمد اصلاحی کے نام قابل ذکر ہیں.

موٹر سائیکل کے دھکے سے بزرگ شخص زخمی، ہسپتال میں ہوئی موت!

جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/دسمبر 2018) تیز رفتار موٹر سائیکل نے کوتوالی جین پور علاقے کے کوٹھروا گاؤں کے قریب دیر شام پیدل اپنے گھر جارہے بزرگ شخص کو ٹکر مار دیا، اس حادثے میں بزرگ زخمی ہوگئے، انہیں علاج کے لئے ضلع ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں علاج کے دوران موت ہوگئی.
اطلاع کے مطابق جین پور تھانہ علاقہ کے کوٹھروا گاؤں کے رہائشی 70 سالہ بلرام یادو ایک کسان ہیں، گزشتہ شام کو بازار سے وہ گھر لوٹ رہے تھے کہ تیز رفتار بائک سوار نے انہیں زوردار ٹکر مارا، اس حادثے میں بلرام یادو زخمی ہوگئے، حادثہ کے بعد موٹر سائیکل سوار جگہ سے فرار ہوگیا، آس پاس کے لوگوں کی مدد سے اہل خانہ کو اطلاع ملی، گھر والے فوراً موقع پر پہنچے اور زخمی بزرگ کو علاج کے لئے ضلع ہسپتال میں داخل کیا، جہاں علاج کے دوران ہی موت ہوگئی، میت بلرام یادو کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے، گھر والوں کا رو روکر برا حال ہے.

Tuesday 25 December 2018

حضرت مولانا محمد اسرارالحق صاحب قاسمیؒ، زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر!

 از مفتی عبد المنان قاسمی دیناج پوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بین الاقوامی شہرت یافتہ بے مثال عالم دین، مشہور قلم کار، معروف مصنف، میدانِ صحافت کے شناور، میدانِ خطابت کے نبض شناس، بے بدیل اسلامی مفکر، ماہر تعلیم، بے نظیر ملی رہنما، ہر دل عزیز سیاسی قائد، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن، جمعیۃ علمائے ہند کے سابق فعال ومتحرک جنرل سکریٹری، آل انڈیا ملی کونسل کے بانی ونائب صدر، آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن کے بانی اور متعدد مدارس ومکاتب اور اسکولوں کے بانی وسرپرست حضرت اقدس مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ کی عظیم دینی، علمی، عملی، فکری، سیاسی، سماجی، عبقری شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ متعدد اوصافِ حمیدہ، بلند ترین اخلاق وشمائل، بلند ترین خصائل، نمایاں ترین امتیازات وخصوصیات کی حامل تھی۔
ولادت، وطن، خاندان اور تعلیم وتربیت: 
آپ کی ولادت باسعادت ضلع کشن گنج (بہار)کی ایک جھوٹی بستی ‘ٹپوتاراباری’ میں ۱۵؍فروری ۱۹۴۲ء؍ میں جناب منشی امید علی بن لیاقت اللہ صاحبؒ کے گھر ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وتربیت علاقہ کے ایک ادارے مدرسہ بدر العلوم پھول گاچھی، ضلع کشن گنج میں ہوئی اور بالآخر دارالعلوم دیوبند سے ۱۹۶۴ء؍ کو سند فضیلت سے سرفرازی نصیب ہوئی۔ دورانِ تعلیم آپ ایک مشہور طالب علم کی حیثیت سے رہے اور نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل فرمائی۔
آپ ایک متوسط گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے، علاقائی اعتبار سے آپ کا خاندان کافی معروف تھا، آپ کے والد ماجد جناب امید علی صاحبؒ ایک کسان تھے، کاشت کاری اور کھیتی باڑی اُن کا پیشہ تھا؛ لیکن اپنی اولاد کی صحیح پرورش وپرداخت کی فکر تھی، زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کی چاہت تھی، دل میں اُمنگیں کروٹیں لے رہی تھیں کہ میرا بیٹا بھی عالم بن جائے اور اچھے اخلاق وکردار کا حامل ہو، دین کا داعی اور شیدائی بن جائے۔ چناں چہ اس خواہش کی تکمیل کی خشتِ اساس کے طور آپ نے اپنے بیٹے کا مدرسہ میں داخلہ کرایا اور دینی تعلیم سے مزین کرنے کا ادارہ موجزن رہا؛ حتی کہ آپ کا جگر گوشہ اور فرزند ارجمند ایک دن اسرارالحق سے ’’حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی‘‘ بن گیا۔
اوصاف وخصائل، اخلاق وشمائل اور خصوصیات وامتیازات کا اجمالی خاکہ:
 آپ کی شخصیت ہمہ جہت تھی، آپ کی ذات نہایت ہی پرکشش اور جاذب تھی، آپ کا برتاؤ انتہائی ظریفانہ اور خوش اخلاقانہ ہواکرتا تھا، آپ کی خدمات ہشت پہل اور شش جہت تھیں، آپ کی زندگی اپنے اخلاف کے لیے اسوہ ونمونہ اور مثالی تھی، آپ کی حیات مستعار اسلافِ کرام واکابرِ عظام کی بہترین یادگار تھی، آپ کا کردار وعمل نہایت ہی پاکیزہ تھا، آپ بہت ہی خوش گفتار، خوش کردار، خوش اطوار، خوش اخلاق اور موہنی طبیعت کے مالک تھے، آپ کا مزاج سادہ اور سادگی پسند تھا۔ آپ مرنجاں مرنج طبیعت اور قوس قزاحی مزاج رکھتے تھے۔ آپ کا رہن وسہن انتہائی سادہ ہوتا؛ لیکن اس کے باوجود آپ کا عالمانہ وقار اور حرارتِ پوستی کا اثر اتنا عظیم تھا کہ ‘‘بادشاہ جارہا ہے گدائی لباس میں’’ کا مظاہرہ ہوتا تھا۔ زندگی مختلف نشیب وفراز سے گزرتی گئی، کتنی کروٹیں لی اور آپ نے صبر واستقامت، عزم وحوصلہ، جواں اور کوہِ ہمالہ کی وسعتوں اور بلندیوں کو بھی سر کرجانے والی فکری بالیدگی کا مظاہرہ فرماتے رہے۔ آپ ان قلندرانہ صفات اور خوبیوں کے مالک اُن درویشوں اور بزرگوں میں تھے، جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل ہوتے ہیں۔ آپ نے اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کردکھایا کہ زندگی سدا جواں، ہردم رواں، پیہم دواں رہتی ہے۔
رشتۂ ازدواج اور اولاد:
 آپ نے فراغت کے ایک سال بعد ۱۶؍مئی ۱۹۶۵ء میں سلمی خاتون بنت ولایت حسین بن ریاضت اللہ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔مولاناؒ کے دادا، اور ریاضت اللہ دونوں حقیقی بھائی تھے۔ ۹؍جولائی ۲۰۱۲؍ کو دارِ فانی سے عالمِ بقا کی طرف کوچ فرما گئیں۔ اولاد میں تین لڑکے:سہیل اختر (ایم اے)، مولانا سعود صاحب ندوی ازہری، فہد اسرار ، اور دو لڑکیاں ہیں۔
میدانِ عمل میں قدم رنجائی اور دائرۂ کار: دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز مدرسہ رحیمیہ گاڑھا، موجودہ ضلع مدھے پورہ، بہار میں تدریس سے کیا، اس کے بعد مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے میں ناظم تعلیمات کی حیثیت سے خدمت انجام دینے لگے۔( جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی اور دیگر تنظیموں کے تعلق سے آپ کی خدمات کے لیے تھوڑا انتظار کریں، اخیر میں وہ ساری چیزیں بالتفصیل بیان کی جائیں گی، ان شاء اللہ!
خطابت: 
خطابت ایک ایسا فن ہے، جس میں سحر آفرینی اور جادو بیانی ہے، یہی وہ فن ہے جس کے ذریعہ دلوں کو موہ لیا جاتا ہے، جذبات واحساسات میں تلاطم وتموج کی لہریں ابھاری جاتی ہیں، سویا ضمیر جاگ اٹھتا ہے، پژمردہ قلوب میں تازگی پیدا ہوجاتی ہے، فکر ونظر میں بالیدگی آجاتی ہے، اکتسابی صلاحیت اور تخلیقی جوہر کا پتہ چلتا ہے، سوچنے اور سمجھنے کا انداز بدل جاتا ہے،کھوئی ہوئی شان وشوکت دوبارہ حاصل کرنے کی چاہ پیدا ہوجاتی ہے، عظمت رفتہ کی تحصیل کا جذبہ نمودار ہوجاتا ہے، قومی زندگی کے تنزل وانحطاط کا شعور اور اعلی ومثالی زندگی کے حصول کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زمانۂ قدیم وجدید میں اس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات میں مرقوم ہیں؛ حتی کہ انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کو بھی خدائی پیغامات پہونچانے کے لیے تقریر وخطابت میں مہارت کی ضرورت پڑی ہے، یہی وجہ تھی کہ تمام انبیا ومرسلین اپنے وقت کے سب سے بڑے خطیب بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا کہ ان کو ’’فصل خطاب‘‘ عطا کیاگیا، اور حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے ’’جوامع الکلم‘‘ عطا ہوا ہے، تقریر وخطابت اور زبان وبیان میں شان جامعیت عطا کی گئی ہے، یعنی کم الفاظ میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کردینے کا سلیقہ عطا ہوا ہے۔ اور پھر صحابۂ کرامؓ نے مختلف مواقع پر فرمایا کہ: جب بھی کوئی معاملہ پیش آیا، تو ’’قام رسول اللہ ﷺ فینا خطیبا‘‘، آپ ﷺ ہمارے درمیان بہ حیثیت خطیب کھڑے ہوے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ جناب سرور کونین ﷺ نے بازار عکاظ میں دو عجمیوں کی تقریر سن کر ’’ان من البیان لسحرا‘‘، ’’واقعی بعض بیان جادو ہوتے ہیں‘‘ فرمایا تھا۔ گویا کہ تقریر وخطابت کے ذریعہ اپنا پیغام اور اپنی بات عوام وخواص تک پہونچانے کا قدیمی زمانے سے رواج چلا آرہا ہے اور ہر دور میں اس کی مقبولیت اور ضرورت وحاجت کا اقرار رہا ہے۔
اندازِ خطابت:
نہایت ہی پر کیف، پرسکون وپروقار لب ولہجہ، جذبات واحساسات کو اپیل کرنے والا انداز، قلب وجگر کو چھو جانے والا اسلوب، ہر ایک کو اپنا گرویدہ اور ہر ایک کا دل جیت لینے والا رفتارِ تکلم۔ آپ کی خطابت ایک ایسا سماں باندھ دیتی تھی کہ چوطرف سناٹا چھا جاتا تھا، نگاہیں آپ کی طرف اٹھی رہتی تھیں، کان متوجہ اور دل ودماغ حاضر باش رہتے، کہ جیسے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، ذرا سی حرکت پر اڑجائیں۔ آپ نے اپنی جادوئی خطابت سے صرف وطن عزیز کو ہی مسحور نہیں کیا؛ بل کہ ایک عالم کو اپنی سحر انگیز خطابت سے محظوظ ومستفید فرمایا، اور جہاں گئے، اپنا نقش جمیل اور چھاپ چھوڑ آئے۔ سننے والے کہتے کہ حضرت والا خاموش ہی نہ ہوں تو اچھا ہے۔ کئی کئی گھنٹے بولتے رہتے تھے۔ نہ آواز میں کوئی خفت آتی اور نہ لب ولہجہ میں کوئی گراوٹ۔ ایک ایسا آبشاری تسلسل تھا، جس میں نہ کہیں انقطاع ہے اور نہ کہیں بے ارتباطی۔
آپؒ کی خطابت سے عشق رسالت مآب ﷺ، عقیدۂ توحید، عقیدۂ ختم نبوت، ناموس صحابۂ کرام، اہل بیت سے محبت، شرک وبدعت سے نفرت، توحید وسنت کی اہمیت وضرورت کا درس ملتا۔ اتحاد بین المسلمین کا فروغ، ملی یکجہتی اور فرقہ واریت کے خاتمے میں بھی آپ کی خطابت اہم رول ادا کرتی۔ تعلیم وتربیت، دعوت وسلوک، فکر دیوبند کی ترویج اور تقابل ادیان اور ان جیسے بہت سے اہم اور نمایاں گوشوں پر آپ کی خطابت کی جلوہ سامانیاں اور سحر آفرینیاں مشتمل ہوتیں اور پورے مجمع کو مبہوت کردیتیں۔
زبان وبیان کی مہارت:
 اللہ تبارک وتعالی نے حضرت مولاناؒ کو زبان وبیان میں بے پناہ مہارت عطا فرمائی تھی، انشا پردازی و نثر نگای، تصنیف و تالیف، تحقیق وتنقیح، تنقید و تبصرہ، ملک بھر کے بیش تر اردو اخبارات ورسائل میں مضامین وکالم نویسی، سیاسی، سماجی اور علمی و دینی مکتوبات اور مواعظ و خطبات کے بے شمار لعل وگوہر آپ کی یاد دلاتے رہیں گے۔
اسلوبِ نگارش اور منہاجِ کتابت: 
یہ بات بھی اظہر من الشمس اور اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمیؒ عالمی شہرت یافتہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کے نہایت ہی سنجیدہ و متین مصنف اور بہترین نثر نگار تھے۔ آپ کو قدرتِ فیاض کی طرف سے میدانِ قلم وقرطاس کا زریں تاج عطا ہوا تھا۔ آپ اپنی ادبی اور ٹکسالی زبان میں اپنے پاکیزہ خیالات واحساسات کی ترجمانی انتہائی صاف ستھرے لب ولہجہ اور سلیس انداز میں بیان فرماتے تھے۔ آپ چوں کہ ماہر اساتذۂ کرام اور وقت کے جبال العلم شخصیات کے فیض یافتہ تھے؛ اسی لیے آپ کی تحریروں میں ادبی لطافت بھی ہوتی اور ظرافت طبع اور چاشنی ومتانت کے ساتھ سنجیدگی اور علمی تبحر ونکتہ آفرینی بھی۔ نہایت سلیس، آسان اور پروقار لب ولہجہ میں انسانی جذبات کو اپیل کرنے والے انداز اور دلوں کو موہ لینے والے اسلوب میں سادگی وشائستگی کے ساتھ اپنی بات کہہ جاتے ہیں، جو اپنے مطالعہ کنندگان کو تسلی وتشفی اور فکر ونظر کو بالیدگی عطا کرتی ہے۔ اور آپ کے بہار آفریں قلم کے جواہر پارے اور منتخب نقوش، گلستانِ علم وادب میں آپ کی سنہری یادوں کی شکل میں مرقوم ہیں، جو آپ کی وسعتِ علم، فکری آفاقیت كی غماز، اور آپ کی تحریروں کی سحر آفرینیاں اہل حق کے لیے سامان تسکین اور باطل پرستوں کے لیے مسکت دلیل اور شمس نصف النہار کی مانند ہیں۔
آپ کی کتابیں:
(1)انسانی اقدار (2)اسلام اور سوسائٹی (انگریزی) (3)مسلم پرسنل اور ہندوستان (4)سلگتے مسائل (5)اسلام اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں (6)معاشرہ اور اسلام (7)دین فطرت (8)ہندوستانی مسلمان اور ان کی ذمہ داریاں (9)عورت اور مسلم معاشرہ(10)خطبات لسسٹر (11)حقیقت نماز (12)دعا: عبادت بھی، حل مشکلات بھی۔
مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ تقریباً دس ہزار مضامین ومقالات اخبارات میں منتشر اور بکھرے ہوے ہیں، اُن کو جمع کرکے شائع کرنا اُن کی خدمات کا صحیح اعتراف بھی ہوگا اور بہترین خراج عقیدت بھی۔ ہندوستان کے تمام اردو روزناموں میں ان کے مضامین شائع ہوتے، سیکڑوں ماہ ناموں اور رسائل وجرائد کی زینت بنتے تھے اور ان کے بعض مقالات بیرون ملک کے مجلات میں بھی شائع ہوتے۔ اللہ تعالی اُن کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور اُن اعلی علیین میں مقام کریم عطا فرمائے۔ میر تقی میرؔ کی زبانی کہیے، تو ؂
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
تنظیمی وتحریکی زندگی:
 حضرت مولاناؒ نے اپنی زندگی کا آغاز اگر چہ تعلیم وتدریس سے کیا تھا؛ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی مقصود تھا، آپ نے بڑے بڑے کارنامے انجام پانے تھے؛ اس لیے ابھی چند ہی گزرے تھے کہ جمعیۃ علمائے ہند نے آپ کی دل چسپی اور دینی جذبہ کو دیکھ کر، آپ کو حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ جیسے جوہر شناس شخصیت نے جمعیۃ کی خدمت کے لیے بلالیا۔ آپ نے نہایت ہی چابک دستی کے ساتھ جمعیۃ کے مشن کو آگے بڑھانے میں اہم رول وکردار ادا کیا اور جمعیۃ کی ترجمانی کا مکمل حق ادا فرمایا۔
تقریباً بیس سال تک آپ جمعیۃ سے منسلک رہے اور اس دوران آپ پہلے نو سال تک ’’آفس سکریٹری‘‘ رہے اور گیارہ سال ’’جنرل سکریٹری‘‘ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے۔ اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور چند وجوہات کی بنیاد پر آپ نے جمعےۃ سے استعفیٰ دے کر اس سے برطرف ہوگئے۔
جمعیۃ علمائے ہند سے علاحدگی کے بعد قاضی مجاہد الاسلام نور اللہ مرقدہ جیسی نباض اور جنس نایاب ہستی نے آپ کو اپنی رفاقت اور آگوش میں لے لیا اور ملک وملت کے لیے آپ کی خدمات حاصل کیں۔ آل انڈیا ملی کونسل کی بنا وتاسیس میں آپ کو شریک رکھا اور آپ کو اس کا نائب صدر بھی منتخب فرمایا، جس عہدۂ فائقہ پر آپ تادم حیات برقرار رہے۔
مختلف پلیٹ فارموں سے آپ نے ملک وملت کی خدمات انجام دیں اور بالآخر آپ نے اپنی خدمات کا دائرہ مزید وسیع کرنے اور سیمانچل جیسے پس علاقہ کو تعلیمی زیور سے آراستہ ومزین کرنے کے لیے ایک تنظیم بہ نام ’’آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت ملک کے مختلف خطوں میں مدارس ومکاتب اور اسکولس قائم کیے گئے۔ اگرچہ آپ کی خدمات صرف سیمانچل، یا صرف بہار تک ہی محدود نہیں تھیں؛ بل کہ اس کا دائرہ نہایت ہی وسیع اور پھیلا ہوا ہے، پورا ہندوستان ہی آپ کی نگاہ تھا، جہاں کہیں روشنی کی کمی محسوس ہوتی، وہاں ایک چراغ جلانا اپنا فریضہ تصور فرماتے تھے۔
کوئی بزم ہو، کوئی انجمن، یہ شعار اپنا قدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی، وہاں اک چراغ جلا دیا
میدانِ سیاست کی قابلِ رشک غواضی:  
میدانِ سیاست میں بھی آپ نے طبع آزمائی فرمائی اور خوب نمایاں کارکردگی دکھائی۔ جمعیۃ علمائے ہند سے وابستگی کے زمانہ سے ہی آپ نے سیاست میں بھی قدم رکھا؛ کیوں کہ آپ اس راز سے واقف تھے کہ جو بہترین دین دار اور پابند شرع ہوگا، وہی انسان ایک بہترین سیاسی قائد اور ملک وملت کے نفع بخش رہنما بھی ہوگا، آپ دین اور سیاست کو ایک دوسرے کے لیے جڑوے بھائی کی طرح سمجھتے تھے، ایک دوسرے کو جدا جدا اور الگ تسلیم کرنے سے آپ کو انکار تھا؛ اسی لیے آپ نے یہ ثابت کردکھایا کہ دین اور سیاست کس طرح باہم ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہوے ہیں۔ ۱۹۸۵ء؍ سے انتخابات میں آپ نے حصہ لینا شروع کیا، چار مرتبہ شکست سے دو چار ہوے اور بالآخر پانچویں مرتبہ ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی الیکشن میں آپ نے کشن گنج حلقہ سے کانگریس کے بینر تلے اپنی فتح وکامرانی کا جھنڈا لہرا دیا اور ۲۰۱۴ء میں جہاں بی جے پی لہر ملک بھر عام تھی اور کانگریس بالکل حاشیہ پر آچکی تھی، ایسے میں آپ نے یہ ثابت کردکھایا کہ بی جے پی لہر میں بھی کشن گنج حلقہ میں ’’قاسمی لہر‘‘ کی دھوم ہے۔
دو بار ممبر آف پارلیمنٹ رہے؛ لیکن آپ کی شان اور عالمانہ وقار میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ کی شناخت ایک بزرگ عالم دین کی حیثیت سے پہلے بھی تھی اور سیاست میں رہتے ہوے بھی رہی۔ آپ نے اتنے عظیم عہدہ پر رہتے ہوے بھی کبھی اپنے لیے کچھ نہیں کیا، جو کچھ بھی کیا، ملک وملت کی بھلائی کے لیے کیا۔ کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کی شاخ آپ کے سیاسی دور کی بہترین یاد گار ہے۔ اس کے علاوہ فلاحی ورفاہی کاموں میں آپ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ آپ نے کبھی اپنے دامن کو داغ دار نہیں ہونے دیا۔ شکیل بدایونی کی زبانی کہا جائے، تو حضرت مولاناؒ نے زبانِ حال سے یہ فرمایا کہ ؂
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
تصوف وسلوک: 
انسانی فوز وفلاح کے لیے جہاں تعلیم ضروری اور ناگزیر ہے، وہیں تزکےۂ نفس اور اصلاح باطن بھی ضروری اور لابدی ہے۔ آغاز اسلام میں جناب سرور کونین ﷺ نے اپنے صحابہ کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ پر ایسی توجہ عنایت فرمائی، کہ ظاہر وباطن ہر دو اعتبار سے مرجع خلائق بن گئے اور ایسا نمایاں مقام حاصل کرلیا، کہ رہتی دنیا تک کی آنے والی انسانیت کو وہ شرف وفضیلت حاصل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس مقام تک رسائی ہی ممکن ہے۔
آپ ﷺ کے بعد صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کو اختیار کیا اور اپنے بعد والوں کی ہر طریق پر رہنمائی فرمائیں، اور اب تک یہ سلسلہ چلا آرہا ہے اور تاقیام قیامت جاری رہے گا، ان شاء اللہ! ہر دور میں علمی وعملی میدانوں میں اپنی کامیابی کا مہر ثبت کرنے والے افراد نے دوسروں کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ کا مکمل خیال رکھا ہے، اور مقررین وخطبا نے اس کی اہمیت وافادیت اور اس کی ضرورت وناگزیریت کو اجاگر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حضرت مولاناؒ نے بھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ ؂
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

اسی ليے آپ نے پہلے حضرت مفتی مظفر حسین صاحب مظاہری نور اللہ مرقدہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی اور آپ کو اجازت وخلاف بھی ملی۔ ان کی وفات کے بعد آپ نے حضرت مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم سے اصلاحی تعلقات قائم فرمایا اوراُن سے بھی بیعت وارشاد کی اجازت مرحمت ہوئی۔
سفر آخرت:
آپ کی حیات مستعار اتنی مصروف ترین تھی کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کے لمحاتِ عزیزہ اور لحظاتِ قیمہ کی تکمیل ہوگئی اور داعئ اجل نے ناقورۂ موت بجادیا؛ لیکن وہ موت بھی کیسی عظیم کہ آپ نے اس آخری رات میں بھی کئی جلسوں کو خطاب فرمایا اور اپنی علمی ضیاباریاں نچھاور فرمائی۔ ایسے موقع پر رحمان فارس کا یہ شعر یاد آتا ہے ؂
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوے

07؍دسمبر 2018ء/ مطابق 28؍ربیع الاول 1440ھ؍ بہ روز جمعہ، شب کے آخری پہر ساڑھے تین بجے اس دارِ فانی سے کوچ فرماگئے۔ رات ایک بجے تک حلیمیہ چوک کشن گنج میں جلسہ کو خطاب کیا،اسی رات دو اور جلسے کو جس میں ایک آپ کے قائم کردہ ادارہ دارالعلوم صفہ میں منعقد ہوا تھا، خطاب فرمایا۔ دو گھنٹہ آرام فرمائے اور تین بجے شب اپنے معمول کے مطابق تہجد کے لیے اٹھے اور وضو فرمایا، جائے نماز پر جانا چاہ رہے تھے کہ دل کا دورہ پڑا، رفقا کو بلایا، گاڑی کا دروازہ خود سے کھولا، سیٹ پر بیٹھے، پوچھا: کہاں لے جارہے ہو؟ بتایا گیا کہ: ڈاکٹر کے یہاں، آپ نے فرمایا کہ: میں تو اللہ کے یہاں جارہا ہوں، تم سب مجھے معاف کردینا۔ گویا مولاناؒ اپنے الفاظ میں حکیم محمد اجمل خاں شیداکی زبانی یوں کہنا چاہا ؂
درد کو رہنے بھی دے دل میں، دوا ہوجائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم! شفا ہوجائے گی

آپ کی وفات حسرت آیات واقعی علمی دنیا کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے۔ آپ کا جانا کیا ہوا، سلفِ صالحین اور علمائے صادقین کی بزم کی آخری شمع گل ہوگئی۔ علمی کائنات سونی ہوگئی۔ آپ کی رحلت پر ملک وملت حزین ہے، افسردہ ہے، غم زدہ ہے، اور سبھی بہ زبان حال مخمور دہلوی کی زبانی یہ ہی کہہ رہے ہیں ؂
جنھیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی
کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں

لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اپ کے جنازہ میں شرکت فرمائی( ایک محتاط اندازہ کا مطابق دولاکھ سے زائدعقیدت مندوں اور چاہنے والوں نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی) حضرت مولانا انوار عالم صاحب مدظلہ، ناظم اعلی دارالعلوم بہادر گنج نے اسی دن شام تین بجے جنازہ پڑھایا اورتاراباری ٹپو میں آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ محمد علوی کی زبانی کہا جائے، تو ؂

دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کر آئے تھے
سورج بھی تھا ملول زمین پر جھکا ہوا

شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کی زبانی ان دعائیہ اشعار پر اپنی بات ختم کرتاہوں ؂

زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر       
 خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر

مثل ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا                           
 نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے