اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: December 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 31 December 2019

اسلامی و انگریزی نیا سال اور ہم مسلمان ذیشان الہی منیر تیمی چکنگری، ڈھاکہ مشرقی چمپارن بہار

اسلامی و انگریزی نیا سال اور ہم مسلمان



            ذیشان الہی منیر تیمی         
                       چکنگری، ڈھاکہ مشرقی چمپارن  بہار

       جب بھی اسلامی سال کا نیا سال شروع ہوتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم مسلمانوں کو اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ شروع ہوچکا ہے جب ہمارے فیس بک، واٹ سپ اور ٹوئیٹر پر اسلامی نئے سال کی مبارکبادی کے پوسٹ آنے شروع ہوگئے ہونگے اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی پہچان کو قائم رکھنے اسے  دنیا میں متعارف کرانے میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں ۔جب کہ وہی دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہی مسلمان انگریزی نئے سال کو صرف یاد ہی نہیں کرتے بلکہ اس کا رشتہ مسلمانوں سے ایسا جڑ چکا ہے کیسا کہ جسم کا رشتہ سانس سے ہوتا ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب انگریزی سال کی آمد ہونے کو ہوتی ہے اس سے بہت پہلے ہی یہ لوگ اس کی ایسے ہی تیاری کرتے ہیں جیسے کہ عید اور بقرعید کے موقع سے کی جاتی ہے ۔بہت سارے  لوگ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دو تین مہینہ پہلے سے ہی بڑی بے چینی سے انگریزی نئے سال کی آمد کا منتظر ہوتے ہیں اور اس کے پرجوش استقبال کے لئے نئے لباس اور دیہاتی مرغیں، بینڈبازہ اور شراب و شباب کا بھی مکمل انتظام کئے ہوئے ہوتے ہیں ۔گرچہ یہ افکار و نظریات غلط ہے لیکن اس کی وجہ سے اس شخص کی دلچسپی انگریزی سال سے جو ہوتی ہے اس کو بخوبی واضح کیا جاسکتا ہے یہاں ایک طرف وہ انگریزی سال سے متاثر ہوکر اس کا انتظار ایسے کرتے ہیں جیساکہ ایک عاشق اپنی معشوقہ کا شدت سے انتظار کرتا ہے وہی دوسری طرف اسلامی سال کب آتا ہے اور کب چلا جاتا ہے کسی کو معلوم ہی نہیں پڑتا اس سے مسلمانوں کی بے توجہی اپنی تہذیب و ثقافت سے جو ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے
          اس دنیا کے اندر مختلف قسم کے سن رائج ہے  مثلا بکرمی سال، عیسوی سال اور نیپالی سال وغیرہ لیکن ہم پوری دنیا میں جو سالوں کی پروعات ہوئی اس کو اور اسلامی سال کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام سالوں پر   ہجری سال کو ٹھیک ایسے ہی اہمیت و فضیلت حاصل ہے جیساکہ گلاب کو تمام پھولوں میں ۔ کیونکہ اس دنیا کے اندر جتنے سارے سالوں کی شروعات ہوئی اس کے پیچھے کسی بڑی شخصیت یا راجا کی پیدائش، وفات یا تخت نشینی کے دن کار فرما ہوتے ہیں جس سے اس شخص کی شخصیت تو متعارف ہوتی ہے لیکن اس سے عام لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا لیکن جب ہم اسلامی سال کی ابتداء کو دیکھتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس کے پچھے کیا اسباب کارفرما ہے جس کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی سال کی شروعات ہجری سے کی اور کیوں کی ؟چنانچہ جب ہم اس تعلق سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں دو شخص میں اختلاف کچھ لین دین کو لے کر ہوگیا اب یہ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچا تو مدعی نے کہاں کہ ہم نے اس کو کچھ پیسے دیئے تھے لیکن اس نے نہیں لوٹا یا لیکن مدعی الیہ کا یہ کہنا تھا کہ ہم نے اس کا پیسہ واپس کردیا ہے چنانچہ ان دونوں کے درمیان عقد و بیع کے جو رقعہ تھے اس کو لایا گیا لیکن اس میں تاریخ وغیرہ درج نہ تھا کہ کب پیسہ لیا اور کب دیا چنانچہ اس واقعہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دماغ میں یہ بات ڈالا کہ کیوں نہ اسلامی سال کی شروعات کی جائے جس سے لین دین کی تاریخ بھی متعین ہوگی اور اسلامی سال کی بھی شروعات ہوجائے گی اسی وجہ سے آپ نے صحابہ کرام کی ایک ٹیم بلائی اور ان تمام سے اس متعلق مشورہ کئے سب نے مختلف قسم کی رائے دی جیسے نبوت ملنے ،پہلی وحی، غار حرا اور غار ثور کی تاریخ سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے لیکن صحابہ کرام ا کی اکثریت اس  بات پر  متفق ہوئی کہ ہجرت مدینہ سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے اور حضرت عمرؓ کی بھی یہی رائے تھی کیونکہ اس کے پیچھے ایسے اسباب کارفرما  ہیں جو مسلمانوں کے لئے راہ ہدایت ہے اور جب جب یہ مہینہ آئے گا اس سے مسلمان نصیحت حاصل کرینگے ذیل میں ہم کچھ نکات کو ذکرکر رہے ہیں جس کو جان کر ہمیں ہجرت مدینہ کو اسلامی سال کی ابتداء قرار دینے کی وجوہات معلوم ہونگے
(1)اس سال کی ابتداء سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی ہجرت کی یاد تازہ ہوتی ہے جو انہوں نے اسلام کی خاطر کی تھی
(2)اس ساک کا پہلا مہینہ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ اگر کسی جگہ اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ ہو تو وہ دوسری جگہ ہجرت کر سکتے ہیں
(3)یہ سال پیغام دیتا ہے کہ ایمان اور اسلام کو بچانا بہت ضروری ہے چاہے وہ ہجرت کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو
(4)یہ سال کا ابتدائی مہینہ یہ پہغام لے کر آتا ہے کہ اس زمانے میں بھی
 مسلم ہجرت کر سکتے ہیں
(5)اس سال کا ابتدائی مہینہ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ مسلمانوں تمہارے زندگی کے ایک سال اور کم ہوگئے اب بھی سنور جاؤ اور اپنی آخرت کی تیاری کر لو
(6)اس سال کا ابتدائی مہینہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ حق و باطل، عدل و انصاف اور صحیح و غلط میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا
(7)اس سال کا ابتدائی مہینہ ہمیں یہ  پاٹھ پڑھاتا ہے کہ اپنی زندگی کو کتاب و سنت اور وحدت الہی کی خوشبوں سے معطر کر لو کیونکہ اسی میں تمہاری بھلائی کا راز مضمر ہے
(8)اس سال کا ابتدائی مہینہ ہمیں نبی اور صحابہ کرام کے جیسے اسلام و ایمان کی خاطر اپنی تن، من اور دھن کی بازی لگانے کا بھی علم سکھاتا ہے
(9)اس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے بیوی، بچے کی محبت اور اپنی مال و دولت کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا بہت بڑا ثواب ہے
(10)اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے جس طرح یہ سال ختم ہوگیا اسی طرح تمہاری ز ندگی بھی ایک دن ختم ہوجائے گی اس لئے ہوشیار رہنا
      مذکورہ بالا نکات کے علاوہ بہت ساری  نکات ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلامی سال کی شروعات ایک  ہدایت بھری نام سے کی گئی ہے جس کو سمجھ کر اور جان کر ہم اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اس  نئے اسلامی سال کی مناسبت سے ہم تمام مسلمانوں کو اس کی پرخلوص مبارکبادی پیش کرتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس  نئے سال میں مسلمانوں کی عزت و آبرو، جان و مال اور ایمان و اسلام کو سلامت رکھنا۔آمین یا رب العالمین

            ذیشان الہی منیر تیمی                                 چکنگری، ڈھاکہ مشرقی چمپارن
                       بہار

سیکولر عوام، فرقہ پرست عناصر سے آزادی کیلے تیار رہے ذوالقرنین احمد

سیکولر عوام، فرقہ پرست عناصر سے آزادی کیلے تیار رہے

ذوالقرنین احمد

ہندوستان اس وقت احتجاجی مظاہرے کے دور سے گزر رہا ہے۔ جو بیج آزادی کے قبل فرقہ پرست عناصر نے بویا تھا۔ آج وہ کھار دار درخت بن کر کھڑا ہوچکا ہے۔ جسکی فصلیں ملک کے کونے میں بوئی گئی تھی۔ اور اس زہریلے بیج سے پیدا ہونے والے درخت اب پھل دار ہوچکے ہیں اور ان پھلوں سے دوبارہ بیج تیار ہوکر مزید زہریلے کھاردار درختوں کے پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ جو شدت پسندی مسلمانوں کے خلاف سنگھی حکمران اقتدار جماعت اور انکے گنڈوں میں دیکھنے مل رہی ہے۔ یہ کوئی یکدم سے پیدا نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ ایک منظم لائحہ عمل کے زریعے فرقہ پرست عناصر نے اپنے طبقے کے افراد کے ہر شخص کے ذہن میں بھر دی ہے۔ یہ سنگھی اصل‌ امن و انصاف کے دشمن ہے۔ یہ ملک کے دستور کے بھی دشمن ہے۔ جمہوریت کے خلاف ہے۔ یہ سنگھی فرقہ پرست اپنی آئیڈیالوجی کو جبراً ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا مشین ہندو راشٹر کا قیام عمل میں لانا ہے۔ جس میں برہمن واد کو بڑھاوا دینا اور ملک کے الگ الگ طبقات میں اونچ نیچ اور ذات پات برادری کے نام پر برہمن اور انکے حواریوں کے علاوہ تمام کو دوسرے درجے کا شہری بنانا اور انہیں اپنے مطابق غلامی میں رکھنا چاہتے ہیں۔
پہلے ہندوستان انگریزوں کی غلامی میں تھا ہمارے آبا و اجداد نے اپنی جان مال عزت و آبرو کی قربانیوں سے اس‌ دیش کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروایا۔ لیکن آج ہندوستان میں فرقہ پرست حکومت اپنے اقتدار کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی ہٹ دھرمی دیکھاتے ہوئے آزاد ہندوستان میں پھر سے ذات پات کے نام پر ملک کی عوام کو آپس میں لڑانے کا اور حکومت کرنے کا کام کر رہی ہے۔ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی جیسے غیر انسانی ، غیر جمہوری، کالے قانون کو نافذ کر کے اقلیتی برادری کو حراساں کرنے کا اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کیلے ناپاک عزائم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ جبکہ یہ ملک کثرت میں وحدت کی مثال رہا ہے۔ آج بھی ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ جو سیکولر ہے وہ اقلیتی برادری کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوا ہے۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ اب برہمنوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کو روکنے اور کمزور کرنے کیلے اسے ہندو، مسلمانوں کی جنگ میں تبدیل کر‌نے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن اس ہندوستان میں ابھی گنگا جمنی تہذیب اور‌ انصاف پسند عوام زندہ ہے۔
ملک بھر میں جہاں جہاں پرامن احتجاج شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کیے گئے یا کیے جارہے ہیں۔ صرف انہیں علاقوں میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کیا گیا اور مظلوم بے قصور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ بی جے پی حکومت والی ریاستیں ہے۔ ورنہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہیں۔ وہاں پر کوئی ماحول کشیدہ نہیں ہوا۔ نا کسی پر لاٹھی چارج کی گئی نا کسی کی جان لی گئی نا آنسوں گیس کے گولے داغے گئے۔ نا فائرنگ کی گئی۔ سب سے زیادہ تشدد جہاں دیکھنے ملا‌ہے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور یوگی کے گنڈہ راج میں دیکھنے مل رہا ہے۔ خاموش احتجاج کر رہی عوام کو جان بوجھ کر اکسایا جاتا ہے۔ پولس کی بھینس میں آر ایس ایس کے گنڈے صنف نازک پر لاٹھیاں برساتے ہیں انہیں گندی گالیا بکتے ہیں۔ معزور افراد کو بھی نہیں بخشتے ہیں۔ میرٹھ و بجنور میں ہوئے فساد کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پولیس اسکے بعد عوام میں خوف پیدا کرتی ہیں حکومت کے اشارے پر بے قصور نوجوانوں کو ہراست میں لیا جاتا ہے۔ انہیں پاکستان جانے کیلئے بولا جاتا ہے۔ گھروں میں گھس کر درازوے توڑے جاتے ہیں یہ کیسی سیاست کیسی جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے نام پر گنڈا راج چلایا جارہا ہے۔
یوگی حکومت یو پی کو گجرات بنانا کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جس طرح بے قصوروں پر ظلم و تشدد کیا جارہا ہے یہ بلکل غیر انسانی فعل ہے۔ معصوم بچوں کو ماؤں سے جدا کیا جارہا ہے۔ ددوھ لانے کیلے گئے باپ کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی گھروں کے سہاگ اجاڑ دیے جاتے ہیں کئی بچوں کو یتیم بنایا جاتا ہے۔ اور حکومت عوام کو ہی غلط ثابت کرتی ہے۔ بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتی ہے۔ عام خواتین کا حال تو دور کانگریس کی لیڈر پریانکا گاندھی کے گریبان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے۔

اگر یہی حال ملک میں چلتا رہا تو ایک بڑی تباہی سے ملک دوچار ہوگا عوام میں ڈر و خوف پیدا کرکے حکومتیں نہیں چلائیں جاسکتی ہیں۔ حکومت عدل و انصاف مساوت کے ساتھ چلا کرتی ہے۔ جب ظلم حد سے تجاوز کرتا ہے ظالم عوام کو اپنے جبر و تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ تو ایسے حکمرانوں کا خاتمہ بھی دنیا کیلے عبرت کا نشان بن جاتا ہے‌۔ عوام کوئی تمہارے اقتدار سے نہیں ڈرتی ہے بلکہ وہ قانون کی پاسداری کرتے ہوئے انسانیت اور جمہوریت کا کا ثبوت پیش کرتی ہے۔ موجودہ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ اپنا ڈر و خوف عوام پر مسلط کرکے حکومت کریں گے اور من چاہے قانون کو نافذ کریں گی۔ تو یہ بات سمجھ لے کہ عوام قانون کا پاس رکھتی ہے ورنہ جس دن آئین اور قانون کے دائرے کے باہر جائے گی تب‌ تمہیں سر چھپانے کیلے جگہ نہیں ملیں گی تم سمجھتے ہوگے مذہب کے نام پر عوام کو لڑاؤ گے لیکن اب ملک کی عوام جاگ چکی ہیں وہ تمہاری مکاری سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہیں۔ اب 80 فیصد طبقہ جمہوریت اور آئین کی حفاظت کیلے سڑکوں پر متحد ہوکر کھڑا ہے۔ تمہاری گندی سیاست کا خاتمہ ہوکر رہ گا اور اگر تم اقتدار پر رہے تو ملک کو نقصان ہوگا کیونکہ ملک کو تم خانہ جنگی کی طرف لے جارہے ہو۔ اور جب حالت خراب ہوگے تو اس میں سبھی کے گھر جلے گے کسی ایک خاص مذہب کے لوگ متاثر نہیں ہوگے۔ اس لے اگر ملک میں امن و امان قائم رکھنا ہے تو یہ کالے قانون کو واپس لینا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ ورنہ پھر عوام کو ایک اور جنگ آزادی کیلے تیار رہنا چاہیے جو فرقہ پرستوں سے آزادی کیلے لڑی جائے گی امن کے دشمنوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کیلے لڑی جائے گی۔ جس میں تمام سیکولر طبقات کو ساتھ کھڑا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ جو سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی میں شامل ہوجائے گے تو محفوظ ہوجائے گے یہ انکی خام خیالی ہے۔

خاندانی اختلافات کے اسباب اور ان کا حل۔۔۔۔ از قلم - توفیق الرحمن چمپارنی متعلم عربی ھفتم دارالعلوم وقف دیوبند

خاندانی اختلافات کے اسباب اور ان کا حل۔۔۔۔


از قلم - توفیق الرحمن چمپارنی متعلم عربی ھفتم دارالعلوم وقف دیوبند
ابتداۓ افرینش ہی سے خاندانوں میں اختلاف، انتشار، لڑاںٔیاں ، جھگڑے، نااتفاقی اور ناچاقی رہی ہیں۔ اور عاںٔلی اختلافات کے
 من جملہ اسباب  میں سے ایک یہ ہے کہ خالق کائنات نے جب سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا،  اس وقت سے لے کر آج تک اربوں، کھربوں انسانوں کو پیدا فرمایا، اور آگے قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے ، اور ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے چہرے ، انگلی کی لکیریں، انگلی کے پورے، رنگ، اور زبانوں میں۔ لہذا جب دو انسانوں کے چہرے ایک جیسے نہیں ہوسکتے،  تو پھر دو انسانوں کی طبیعتیں کیسے ایک جیسی ہوسکتی ہیں، جب ظاہر ایک جیسا نہیں، تو پھر ان کی طبیعتوں میں بھی فرق ہوگا، کسی کی طبیعت کیسی ہے، کسی کی طبیعت کچھ اور ہے، کسی کا مزاج کیسا ہے، کسی کا مزاج کچھ اور ہے، لہذا طبیعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے کبھی یہ نہیں ہوسکتا کہ دو آدمی ایک ساتھ زندگی گزار رہے ہوں،  اور ایک کو دوسرے سے تکلیف نہ پہونچے۔  جس سے ان کے درمیان نااتفاقی پیدا ہوتی ہے۔
اور خاندان میں پیدا ہونے والے اختلاف کی بہت بڑی وجہ شریعت کے ایک حکم کا لحاظ نہ رکھنا ہے وہ حکم یہ ہے کہ ،، تعاشرروا کلاخوان۔ تعاملوا کلاجانب،، تم آپس میں تو بھائیوں کی طرح رہو، اور ایک دوسرے کے ساتھ  بھائیوں جیسا برتاؤ کرو، اخوت و محبت کا برتاؤ کرو۔ لیکن جب لین دین کا معاملات پیش آئیں تو اس وقت اجنبیوں کی ترح معاملہ کرو، اور معاملہ بالکل صاف ہونا چاہئے، اس میں کوئی پوشیدگی نہ ہو جو ہو صاف ہو ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ لیکن آج اس کے برخلاف ہو رہا ہے۔ جس سے خاندانوں میں اختلاف پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
یہ ایک جگ آشکارا حقیقت ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد اگر کوئی جماعت مقدس اور مبارک ہے، تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا گروہ ہے، لیکن ان کے درمیان میں بھی اختلاف رہا ہے، اسی طرح ازواج مطہرات، امہات المؤمنین جو کہ عورتوں میں سب سے پاکیزہ اور مقدس ہیں، تمام عورتوں کی سردار ہیں، ان کے لئے آئیڈیل اور نمونہ ہیں۔ اس کے باوجود ان میں بھی نا اتفاقی رہتی تھی۔ اور اختلاف ہونا بھی چاہیے کیونکہ ان کے درمیان اختلاف کا ہونا باعثِ رحمت تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے۔ع
چمن میں اختلاف رنگ وبو سے بات بنتی ہے۔
ہمیں ہم ہیں تو کیا ہے تمہیں تم ہو تو کیا ہے۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ آپس میں پیدا ہونے والے اختلافات کا حل کیا ہے، تو اس کا حل یہ ہے کہ جو اسباب بیان کیۓ گئے ہیں جن سے نااتفاقی اور ناچاقی پیدا ہوتی ہے، اگر آج سےان اسباب سے پرہیز کرنے کا ارادہ کرلیں اور محنت کرکے اس کا پابند بنالیں، تو انشاءاللہ آیندہ کی زندگی درست ہوجائے گی، اور ہمارے درمیان کا اختلاف بھی باعثِ رحمت ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

حکومت چاہے تو میرا عہدہ چھین سکتی ہے: عرفان حبیب

حکومت چاہے تو میرا عہدہ چھین سکتی ہے: عرفان حبیب

کانپور۔۳۱؍دسمبر:  فی الحال کیرل کے گورنر عارف محمد خان کے ساتھ ہوئے تنازعہ کو لے کر گھرے ہوئے مؤرخ عرفان حبیب نے کہا کہ اگر حکومت چاہے تو ان کا عہدہ چھین سکتی ہے۔حبیب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ وہ چاہے تو اے ایم یو کی تاریخ کے محکمہ کے پروفیسر کے عہدے سے مجھے ہٹا سکتے ہیں،ساتھ ہی نوکری سے علیحدہ کرنے کے علاوہ بھی دوسرے عہدوں سے چاہے تو ہٹا دیں۔گزشتہ ہفتے کانپور یونیورسٹی میں 80 ویں ہندوستانی تاریخ کانگریس کی افتتاحی تقریب میں گورنر عارف محمد خان نے الزام لگایا کہ حبیب نے پروٹوکول توڑتے ہوئے ان کی تقریر کے دوران ان کے سیکورٹی ساتھیوں کو ایک طرف دھکیلا اور ان کی طرف آنے کی کوشش کی۔مؤرخ نے کہاکہ میں 88 سال کا ہوں اور ان کا اے ڈی سی 35 سال کے قریب رہا ہوگا، میں ایسا کس طرح کر سکتا ہوں،سب دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہوا اور یہ سب نے دیکھا بھی ہے۔اس پورے واقعہ کے حکم کے بعد کیرالہ کے گورنر کے سرکاری ٹوئٹر ہینڈل سے تقریب کے دوران کی ایک تصویر پوسٹ کی گئی۔اس کے ساتھ لکھا گیاکہ جناب عرفان حبیب نے معزز گورنر کی افتتاحی تقریر میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ مولانا عبدالکلام آزاد کے حوالے سے کہنے کے ان کے حقوق کو چیلنج کرتے ہوئے انہیں گوڈسے کی مثال دینے کو کہا۔اس غیر مناسب حالات میں معزز گورنر کو بچانے والے ان کے اے ڈی سی اور سیکورٹی افسر کو انہوں نے دھکا دیا۔گورنر نے پروٹوکول توڑے جانے کے اس واقعہ کو سنجیدگی سے لیا اور کیرالہ کے چیف سکریٹری ٹام جوس کو بلا کر اپنی ناراضگی ظاہر کی۔خبروں کے مطابق، وہ مرکزی حکومت کے سامنے اس مسئلے کو اٹھانے پر غور کر رہے ہیں۔

ایک ہندو دوست کا اپنی قوم سے خطاب تحریر: شیام میرا سنگھ ہندی سے ترجمہ: اشعرنجمی

ایک ہندو دوست کا اپنی قوم سے خطاب
تحریر: شیام میرا سنگھ
ہندی سے ترجمہ: اشعرنجمی
.............................

این آر سی کی حمایت میں بولنے سے پہلے ایک بار اپنا مطالعہ درست کر لیجیے۔ خود مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں:

(1) 30 کروڑ لوگ بے زمین ہیں یعنی ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے ۔(یہ اعداد و شمار ارون جیٹلی نے پارلیامنٹ میں بتایا تھا جب وہ 'PMMY ،پردھان منتری مُدرا یوجنا' لاگو کررہے تھے) سوال اٹھتا ہے کہ جب 30 کروڑ لوگوں کے پاس زمین نہیں ہے تو وہ کس زمین کے کاغذات NRC میں پیش کریں گے؟

(2) 170 لاکھ لوگ بے گھر ہیں، یعنی ان کے پاس رہنے کے لیے گھر ہی نہیں ہے؛ کوئی فٹ پاتھ پر سوتا ہے، کوئی جھگی جھونپڑی بنا کر، کوئی فلائی اوور کے نیچے اور کوئی 'رین بسیرا' میں۔ ایسا میں نہیں کہہ رہا ، مرکزی سرکار کی جانب سے سروے کرنے والا ادارہ NSSO  کہہ رہا ہے۔ اب اگر ان لوگوں کے پاس مکان ہی نہیں ہے تو کیا وہ  ان فٹ پاتھ یا فلائی اوور کے کاغذات NRCمیں دکھائیں گے کہ وہ کون سے فٹ پاتھ پر یا کس فلائی اوور کے نیچے سوتے ہیں؟

(3) اس دیش میں 15 کروڑ خانہ بدوشوں کی آبادی ہے۔آپ نے شاید بنجارے، گاڑیا لوہار، باوریا، نٹ، کال بیلیا، بھوپا، قلندر، بھوٹیال وغیرہ کے نام سنے ہی ہوں گے۔ ان کے رہنے ٹھہرنے کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا؛ آج اِس شہر میں تو کل اُس شہر میں۔ جب ٹھکانہ ہی نہیں تو کون سے کاغذات؟ ایک دو بکریاں اور اوڑھنے بچھانے کے کپڑوں کے سوائے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ تو  کیا امیت شاہ ان کی بکریوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے بتائیں گے کہ ہارمونیم کی طرح ان کے باپ ،بکری بھی وراثت میں چھوڑ کر مرے تھے؟

(4) اس دیش میں 8 کروڑ 43 لوگ آدیباسی ہیں جن کے بارے میں خود سرکار کے پاس ناکافی اعداد و شمار ہوتے ہیں (مردم شماری :2011)۔

(5) آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1970 میں ملک کی شرح خواندگی  34 فیصد تھی یعنی 66 فیصد لوگ ان پڑھ تھے، بالفاظ دیگر اس ملک کے 66 فیصد اجداد اور بزرگوں کے پاس لکھائی پڑھائی کا کوئی دستاویز ہی نہیں ہے۔ آج بھی تقریباً 26 فیصد یعنی 31 کروڑ لوگ ان پڑھ ہیں، جب اسکول ہی نہیں گئے تو انھوں نے مارک شیٹ کس بات کی رکھی ہوگی؟

تو بات یہ ہے میرے دوستو! اپنے اندر کے کٹرپن کو تھوڑا ڈھیلا کیجیے اور اپنے گاؤں، شہر کے سب سے کمزور پچھڑے لوگوں کے گھر وں پر نظر دوڑائیے اور سوچیے کہ ان کے پاس ان کے دادا ، پردادا کے کون کون سے کاغذات رکھے ہوں گے؟ کیا شہریت ثابت نہ کرپانے کی صورت میں ان کے پاس اتنی دولت ہوگی کہ یہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپنا مقدمہ لڑسکیں؟

چنانچہ این آر سی جیسا غیر ضروری، فضول اور توہین آمیز قانون صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، اس بات کو آپ جتنی جلدی سمجھ پائیں،اچھا ہوگا۔ آسام میں بھی جو ہندو شروعات میں بہت پھدک رہے تھے، وہی این آر سی لاگو ہونے کے بعد اپنے ہی دیش میں 'گھس پیٹھیے' ہوگئے ہیں۔ وہ بھی شروعات میں کہہ رہے تھے کہ آسام میں ایک کروڑ گھس پیٹھیے ہیں، جب کہ 19 لاکھ لوگ ایسے نکلے جو دستاویز کی بنیاد پر اپنی شہریت ثابت نہ کر پائے، اس میں بھی 15 لاکھ تو ہندو ہی ہیں، اب وہی ہندو این آر سی کے نام سے بھی کانپتے ہیں اور اسے رد کرنے کی آواز اٹھا رہے ہیں۔

ہمارے ٹیکس کے پیسے جو غارت ہوئے سو ہوئے لیکن ہاتھ کیا آیا؟ غریب سے غریب آدمی کو اپنا سارا کام دھندا چھوڑ کر وکیلوں کے چکر لگانے پڑے، سر درد جھیلا، بے عزتی برداشت کی اور آخر میں ایک بھی آدمی آسام سے باہر نہیں گیا۔

آپ کے دماغ میں یہ چھوٹی سی بات آخر کیوں نہیں گھستی کہ سرکار آپ ہی کے ٹیکس کے پیسوں سے ملک میں سرکس کرانے جا رہی ہے جہاں جانوروں کی طرح آپ کو بھی لائن میں لگ کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ ہندوستانی ہیں۔ لائن میں لگنے کے سوا کیا آپ کے پاس کوئی دوسرا کام باقی نہیں بچا؟ کبھی آدھار کارڈ کے لیے لائن، کبھی نوٹ بدلنے کے لیے لائن، کبھی جی ایس ٹی نمبر کے لیے لائن اور اب خود کو اس ملک کا شہری ثابت کرنے کے لیے لائن۔سرکار کس کے لیے بنائی تھی؟ لائن میں لگنے کے لیے ؟ کیا کالا دھن، اسکول، یونیورسٹی، روزگار، اسپتال ؛ سب کام نمٹ گئے؟

اک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات کی نادان کہ رہا ہے کہ نیا سال مبارک ہو طالب دعا۔۔ ابو عباد اعظمی مدرسہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ ننداؤں اعظم گڈھ یوپی

اک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات کی
 نادان کہ رہا ہے کہ نیا سال مبارک ہو


طالب دعا۔۔ ابو عباد اعظمی
مدرسہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ ننداؤں اعظم گڈھ یوپی

                     Happy New Year
کے نام سے جگہ جگہ پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔اوران میں بےتحاشہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔حالانکہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح و بہبود کے بڑے بڑے کام کیے جاسکتے ہیں۔انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بننے والی دنیاوی تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سے کام لیتی ہیں۔مگر ظاہر ہے کہ وہ اس وقت ہمارے مخاطب نہیں۔
لیکن ہم مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمار ی رہنمائی فرمائی ہے کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے اور جب کسی ناحق اور نا جائز کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔شامل نہیں ہوتے۔
چنانچہ پور ی امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ یہ عمل صرف اور صرف غیروں کا ہے۔لہذا ہمیں ان تقریبات سے احتراز کرنا چاہیے۔اور ہم خود Happ New year کہہ کر پہل نہ کریں بلکہ اس موقع پر حاصل شدہ پیغام پر دعاءیہ کلمات جواب میں پیش کردیں۔
نئے سال کے موقع پر اکثر وبیشتر علاقوں میں سردی کی لہر ہوتی ہے۔اس لیے دوستوں ہم سب کو چاہیے کہ سردی کے سامان تقسیم کرکے ضرورت مندوں کی مدد کردیں جیسا کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات احادیث میں موجود ہیں کہ:
(١) میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اسطرح ہونگے جیسے کہ دوانگلیا ں آپس میں ملی ہوئی ہیں
(٢) بیوہ عورت کی امداد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنےوالے کے برابر ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔
تو دوستو!!آ ئیں ہم یہ عہد کریں کہ ہم اس طرح کے فضول   لایعنی کاموں سے مکمل پرہیز کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس رات کو نیک کام کرنے کی اور برے کاموں سے پرہیز کرنے کی مکمل ہدایت دے ( آمین یارب العالمین) 

"نغمے الفت کے گائیں نیا سال ہے" محمد عباس دھالیوال، مالیر کوٹلہ ،پنجاب. رابطہ 9855259650

"نغمے الفت کے گائیں نیا سال ہے" 

محمد عباس دھالیوال، 
مالیر کوٹلہ ،پنجاب.
رابطہ 9855259650 


کدورت دل سے مٹائیں نیا سال ہے
نغمے الفت کے گائیں نیا سا ہے
نفرت بھلا کر زمانے کی آؤ کہ ہم 
سب سے محبت نبھائیں نیا سال ہے
خدمت ماں باپ کی کرکے یہاں 
اپنی جنت بنائیں نیا سال ہے
خندہ پیشانی سے ملیں سب کو ہم 
 اچھے اخلاق اپنائیں نیا سال ہے 
جفائیں بھلا کر زمانے کی آؤ کہ ہم 
مل کے بانٹیں وفائیں نیا سال ہے

کانپور میں ۱۰۰سے زائد اہم مقامات پر این آر سی اور سی اے اے کے خلاف بینر آویزاں پوسٹر پر مظاہرین سے پرامن احتجاج کی اپیل، ہندو مسلم سکھ عیسائی بھائی بھائی کا نعرہ بھی درج

کانپور میں ۱۰۰سے زائد اہم مقامات پر این آر سی اور سی اے اے کے خلاف بینر آویزاں
پوسٹر پر مظاہرین سے پرامن احتجاج کی اپیل، ہندو مسلم سکھ عیسائی بھائی بھائی کا نعرہ بھی درج
کانپور۔۳۱؍دسمبر:  ہم سب بھارت کے امن پسند شہری ہیں اور رہیں گے اور ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی ، سب ہیں آپس میں بھائی بھائی،ہم سی اے اے کو ملک کے سیکولرزم اور آئین کی روح کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس کو فوراً واپس لینے کامطالبہ کرتے ہیں۔ یہ لائنیں لکھی ہیں کانپورشہر کے مختلف مقامات خصوصاً مساجد کے باہر اور اندر لگے ہوئے بینر وں اور کٹ آؤٹس میں ۔ واضح ہو کہ ملک کے تمام حصوں میں نئے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی مخالفت میں مختلف انداز میں عوام اپنا احتجاج درج کر ا رہے ہیں۔ شہر کانپور میں چند روز قبل ہوئے مظاہروں میں ہوئے تشدد کے  بعداب یہاں کے حالات پر امن ہیں ،لیکن یہاں کے عوام کے ذریعہ کئے جانے والا احتجاج کا سلسلہ بند نہیں ہوا ہے۔ کانپور کے عوام نے احتجاج کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے ۔ شہر کے 100سے زیادہ اہم مقامات پر این آر سی اور سی اے اے کے خلاف بینر ٹانگے گئے ہیں۔ اخبار نویسوں نے اس سلسلے میں جب کانپور کے قاضی شہر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش سے بات کی تو انہوں نے ملک کے تمام امن پسند شہریوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ حال ہی میں پارلیمنٹ میں پاس کیا گیاشہریت قانون ملک کے سیکولرزم اور آئین ودستورکے خلاف ہے ۔ ہمارے ملک کے آئین نے کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب، علاقہ،زبان، ذات ، طبقہ ، برادری ، رنگ ونسل اور عورت و مرد یعنی جنس کی بنیاد پر نہ تفریق کی ہے نہ تفریق کی اجازت کسی کودی ہے ، لیکن موجودہ شہریت قانون میں مذہب اور علاقہ کی بنیاد پر انسانوں میں بھید بھاؤ کیا گیاہے ، لہٰذا اب یہ قانون ہمارے ملک کے آئین کیساتھ ساتھ انسانیت کے خلاف بھی ہے اور مذہب خاص کے ساتھ تفریق کا آئینہ دار ہے۔ مولانا اسامہ نے کہا کہ ہماری تاریخ رہی ہے کہ اس ملک کیلئے بنا کسی اقتدار کی لالچ کے ہمارے اکابرین اور بزرگوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، تقسیم وطن کے وقت جن کو جانا تھا چلے گئے لیکن ایسے سخت ترین حالات میں بھی سچے ہندوستانیوں نے اپنے ملک کی مٹی کیلئے جانیں قربان کرنا تو پسند کیا لیکن اپنے ملک کو نہیں چھوڑا۔اس لئے اب یہ سوال ہی نہیں اٹھتا کہ کوئی اس ملک کے مسلمانوں سے کوئی اُن کی شہریت چھین سکتا ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے مولانا نے پھر ایک مرتبہ یہ بات دہرائی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی شہریت موجودہ حکومت تو کیا مستقبل میں آنے والی حکومتیں بھی نہیں چھین سکتیں۔ شہر کے علماء کرام اور مختلف مذاہب کے لوگوں سے سی اے اے اور آین آرسی کی حمایت میں حکومت کی صفائی اوراس کے نام پر افواہ اور جھوٹ پھیلانے کے بارے میں جب سوال کیا گیا توجواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج کی موجودہ حکومت خود ہی جھوٹ نہیں بو ل رہی ہے، بلکہ باقاعدہ پروپگنڈہ اور ذہن سازی کرکے بڑے پیمانے پر لوگوں سے جھوٹ کہلوارہی ہے۔ جب آئین کوسامنے رکھ ان سے سوال کیا جاتا ہے تو بجائے تسلی بخش جواب دینے کے یہ خود اپنے جھوٹ میں پھنستے ہوئے نظرآتے ہیں اورایک ہی جملہ بولنے لگ جاتے ہیں کہ ’یہ جھوٹ ہے، جھوٹ ہے، جھوٹ ہے؟‘ اب ایسے میں سوا ل یہ اٹھتا ہے کہ جھوٹ بول کر افواہ کون پھیلا رہا ہے ؟ یہ ملک کے لوگ سمجھ رہے ہیں ۔ ائمہ مساجد اور مختلف مذاہب کے لوگوں نے میڈیا کے سامنے اپنی بات رکھتے کہا کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بات لکھی گئی ہے وہ اتنی اہم نہیں ہوتی جتنی کہ وہ بات جو نہیں لکھی گئی ہے، سی اے اے میںبھی ایسا ہی ہوا ہے۔ چونکہ موجودہ حکومت کے نمائندگا ن خصوصاً وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں بار بار سی اے اے نافذ کرنے بعد این آرسی کرانے کی بات کہہ کر اس ملک کی ایکتا اور بھائی چارہ کے خلاف ماحول خراب کرنے اور پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اس کی اہمیت کو گھٹانے اور ایک بڑی آبادی کا اس پر سے اعتبار ختم کرانے کی کوشش کی ہے جو ملک کے آئین کو ماننے والے سچے ہندوستانیوں کی نظر میںانتہائی نامناسب ناقدم ہے۔ تفریق پر مبنی سی اے اے جیسے کالے قانون سے دنیا میں ہمارے ملک کی بدنامی ہوئی ہے، ملک مخالف طاقتوںکو کہنے کا موقع کاملا ہے،جسے ملک سے محبت کرنے والا کوئی بھی شہری برداشت نہیں کرے گا۔ ملک کا مسلمان اورسیکولر و انصاف پسند شہری تو اسے بالکل بھی برداشت نہیں کرے گا۔ اپنے دین وقرآن کے ساتھ ساتھ ملک کا مسلمان ہندوستانی آئین اور دستور کے ساتھ کل بھی کھڑاتھا اور مرتے دم تک اس کی حفاظت کیلئے کھڑارہے گا۔ جو لوگ بھی آج تفریق پر مبنی سی اے اے قانون کیخلاف مختلف انداز سے احتجاج درج کرا رہے ہیں ، انصاف پر مبنی تاریخ میں انہیں ہی ملک اور ملک کے آئین ود ستور کا سچا محافظ لکھا اورکہا جائے گا۔ معلوم ہو کہ کانپور کے ائمہ مساجد اور مسجدوں میں نماز پڑھنے والے مصلیان اور شہریوں کے ذریعہ شہر کے مختلف مقامت پر جو بینر لگائے گئے ہیں اس میں یہ بات صاف طور پر لکھی گئی ہے کہ کوئی بھی احتجاج پرامن ہو، تشدد ، توڑ پھوڑ، ملک کے قانون کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی شریعت کے خلاف بھی ہے۔ جب سی اے اے اور این آر سی کے تعلق سے شہر کے لوگوں سے بات کی گئی تو ان کاکہنا تھاموجودہ حکومت پروپگنڈہ کرکے جھوٹ بولنے کے ساتھ ہی پولیس کی طاقت کے دم پر اُس کے جھوٹ کا پردہ فاش کرکے سچائی کو اجاگر کرکے آئین کا ساتھ دینے والوں کی آواز کو دبا نے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ملک کے عوام انصاف پسند ہیںاور آئین پر بھروسہ کرکے اپنے اپنے مذہب پر چلتے ہوئے امن و محبت کے ساتھ رہتے آئے ہیں،آگے بھی رہیں گے جو بھی طاقتیں بھیدبھاؤ کرکے ہمارے ملک کی ایکتا کو توڑنے کی کوشش کریں گی اُس کو یہاں کے عوام نے انگریزوں کے دور میں بھی منھ توڑ جواب دیا تھا، آج بھی دے رہے ہیں اور آگے بھی دیتے رہیں گے،ہم اس ملک کی یکجہتی ، سالمیت سے کسی قیمت پر بھی سمجھوتہ نہیں کرنے والے ہیں۔ تشدد چاہے کسی بھی طرف سے ہو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔حکومت یاد رکھے کہ جھوٹ اورطاقت کے زور پر کسی کے دباؤمیں نہ ہم کل آئے تھے ، نہ آج ہیں اور نہ کبھی مستقبل میں آنے والے ہیں، تفریق پر مبنی سی اے اے قانون کی ہم مخالفت کر رہے ہیں اور واپس لینے تک اس کی مخالفت میں پر امن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

سخت سردی کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں احتجاج جاری تشدد کے خلاف قومی انسانی حقوق کمیشن کو ایک؍لاکھ ۸۰؍ہزار سے زائد دستخطی میمورنڈم دیا گیا ، جہدمسلسل کاعزم،اسٹوڈنٹ نے مظاہرہ کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی

سخت سردی کے باوجود جامعہ ملیہ اسلامیہ اور شاہین باغ میں احتجاج جاری
تشدد کے خلاف قومی انسانی حقوق کمیشن کو ایک؍لاکھ ۸۰؍ہزار سے زائد دستخطی میمورنڈم دیا گیا ، جہدمسلسل کاعزم،اسٹوڈنٹ نے مظاہرہ کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی
نئی دہلی۔۳۱؍دسمبر: دہلی میں سخت سردی کے درمیان سورج بھلے ہی نہ نکلا ہو لیکن متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)این پی آر اور این آرسی کی مخالفت کررہے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ اوراوکھلاکی عوام روز کی طرح سڑکوں پر دھرنا دے رہے ہیں۔جس میں سیاسی لیڈران کی بھی شرکت ہورہی ہے۔ملک بھرمیں احتجاج جاری ہے ،پولیس کی لاٹھی،انتظامیہ کی سختی اوپیروپیگنڈوں کے باوجودمنزل مقصودکی تلاش میںعزم سفرمستحکم ہے۔ مظاہرین ایک طرف شاہین باغ کے مین روڈپرچوبیس گھنٹے بیٹھے ہیں جن میں زیادہ تعدادخواتین کی ہے،دوسری طرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہرپرعزم مظاہرین ڈٹے ہیں کہ جب تک اس متنازعہ قانون کوسرکارواپس نہیں لیتی ،ہم ہٹ نہیں سکتے،اتنی سخت سردی میں بھی ان کے پائے استقامت میں کمی نہیں آئی اورآئین وملک کی پاسداری کے عزم ونعرے کے ساتھ برادران وطن کے ساتھ مل کرڈٹے ہوئے ہیں۔نکڑناٹک اورکارٹونوں کے ذریعے انوکھے احتجاج جاری ہیں،وہیں سیاسی لیڈران ،طلبہ وعوام پورے خلوص کے ساتھ ملک کے آئین کے تحفظ میں لگے ہیں۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت مخالف قانون کے خلاف احتجاج کا ۱۹؍واں دن تھا۔ آج بھی بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات اور مقامی عوام نے زبردست مظاہرہ کیا او رحکومت مخالف نعرے لگائے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں ہم لے کر رہیں گے آزادی۔ ہم لڑکر لیں گے آزادی کے نعرے لگائیں۔ آج جامعہ ملیہ کے سینکڑوں طالب علموں نےیونیورسٹی کے باہر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ بتا دیں کہ ملک کے کئی حصوں میں ہوئے پرتشدد مظاہرے میں قریب 22 لوگوں کی موت ہوئی ہے، ان میں سے 19 اموات اترپردیش میںہی ہوئی جبکہ دو اموات کرناٹک میں ہوئی تھی۔منگل کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینکڑوں طلباء نے یونیورسٹی کے باہر دوپہرکو نماز پڑھی۔بتا دیں کہ سی اے اے۔این آرسی کے خلاف مسلسل اس علاقے میں احتجاج ہو رہا ہے۔دہلی کے شاہین باغ علاقے میں گزشتہ پندرہ دن سے مظاہرین پرامن مظاہرہ کر رہے ہیں، یہاں خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہو رہی ہیں۔بتا دیں کہ سی اے اے۔این آرسی کے خلاف احتجاج کا آغاز دہلی کی جامعہ یونیورسٹی سے ہی ہواتھا،ہزاروں کی تعداد میں طلبہ نے جامعہ کے باہر مظاہرہ کیا تھا، جس نے بعد میں پر تشدد شکل لے لی تھی۔جامعہ کے طالب علموں کی جانب سے پولیس پر طالب علموں کے ساتھ زیادتی کا الزام لگا تھا اور لائبریری میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے کی بات کہی تھی۔اس سے قبل پیر کو گزشتہ ۱۵؍دسمبر کو کیمپس میں دہلی پولس کی بربریت اور ظلم وستم کی تحقیقات کو لے کر ایک لاکھ ۸۰؍ہزار دستخطوں کے ساتھ قومی انسانی حقوق کمیشن کو میمورنڈم دیاگیا، یہ دستخظی مہم چینج ڈاٹ او آر جی نامی ویب سائٹ کے ذریعے شروع کی گئی تھی جس میں تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار طلبہ وطالبات اور شہریوں نے جامعہ تشدد کی مخالفت میں دستخط کیے تھے۔

شہریت ترمیمی قانون: دیوبند میں جمعیۃ علماء کے ۴۵۹؍ کارکنان نے آج پھر دی گرفتاریاں جب تک سیاہ قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک تحریک جاری رہے گی:مولانا ظہور احمد قاسمی

شہریت ترمیمی قانون: دیوبند میں جمعیۃ علماء کے ۴۵۹؍ کارکنان نے آج پھر دی گرفتاریاں
جب تک سیاہ قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک تحریک جاری رہے گی:مولانا ظہور احمد قاسمی
دیوبند۔۳۱؍دسمبر(ایس۔ چودھری)جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سی اے اے اور این آرسی کے خلاف جاری تحریک تحت آج پھر جمعیۃ علما ء ضلع سہارنپور کے 459 ؍ کارکنان نے اپنی گرفتاری دے کر اس قانون کے خلاف اپنا احتجاج کرایا اور حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فوری طورپر اس قانون کو واپس لیں جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک جمعیۃ علماء ہند کی یہ تحریک جاری رہے گی۔ اس دوران مقررین نے سی اے اے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران ہوئے تشدد کی غیر جانبدارانہ جانچ کامطالبہ کیاہے ،ساتھ ہی متوفین کے لئے قرآن خوانی کرکے دعاء مغفرت کی ۔ عیدگاہ میدان میں منعقدہ احتجاجی مظاہرے کے پروگرام میں جمعیۃ علماء ہند کے ضلع صدر مولانا ظہور احمد قاسمی نے کہا کہ ایک خاص طبقہ کو ہراساں کرنے کے لئے سی اے اے اور این آر سی کو نافذ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ایک دستوری ملک ہے ،جس کا دستور تمام مذاہب کو مساوی حقوق دیتاہے لیکن موجودہ حکومت ایک خاص فرقہ کو ٹارگیٹ کرکے آئین ہند کونقصان پہنچارہی ہے،مگر جمعیۃ علماء ہند آئین کے خلاف اس قانون کی ہر محاذ پر مخالفت کریگی۔ مولاناظہور احمد قاسمی نے کہاک میرٹھ،لکھنؤ،کانپور،بجنور،بنارس اور مظفرنگر سمیت دیگر شہروں میںہوئے پر امن احتجاج میں شامل لوگوں کو صوبہ کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر پولیس انتظامیہ نے اپنے ظلم و بربریت کانشانہ بنایا جو نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ کھلی دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک میں اپنا حق مانگنے والوں کو فسادی کہاجارہاہے، جو ہمیں لوٹ رہے ہیںوہیںہمیں کارروائی کئے جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، جسکو کبھی برداشت نہیںکیاجائیگا۔جمعیۃ علماء کے ضلع جنرل سکریٹری ذہین احمدنے کہا کہ ہم کبھی بھی سی اے اے اور این آرسی کو قبول نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت اس قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک جمعیۃ کی اس تحریک کے تحت احتجاجی مظاہرے اور گرفتاری کا عمل جاری رہے گا۔ جمعیۃ یوتھ کلب دیوبند کے صدر اسماعیل قریشی نے کہا کہ ملک کے آئین میں سب کو مساوات کا حق حاصل ہے، لیکن کچھ لوگ پارلیمنٹ میں تعداد کی بنیاد پر ملک میں اپنا ایجنڈا تھوپنا چاہتے ہیں جو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ یہ نیا قانون ملک کے دستور کے خلاف ہے جس کے لئے آئین ہند میں کوئی گنجائش نہیں ہے ،انہوں نے کہاکہ جب تک یہ کالاقانون واپس نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔اس دوران عیدگاہ گراؤنڈ میں قرآن خوانی کر کے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں پولیس کارروائی کاشکار بنے لوگوںکے لئے دعاء کی گئی اور حکومت سے اس تشدد کی غیر جانبدارانہ جانچ کامطالبہ کیاگیا۔ دریں اثناء جمعیۃ کے459؍ ضلع کارکنان نے اس قانون کے خلاف گرفتاری دی، ایس ڈی ایم دیوبند نے گرفتار کئے گئے افراد کو موقع پر ہی رہا کردیا ۔ پروگرام کی صدارت مولانا ظہور احمد قاسمی نے کی اور نظامت مولانا محمود صدیقی نے کی۔اس دوران مولانا ابراہیم قاسمی، شہر سکریٹری عمیر احمد عثمانی، چودھری صادق سمیت سیکڑوں کارکنان موجودرہے۔ احتجاج کے دوران ایس پی دیہات ودھیا ساگر مشر،ایس ڈی ایم راکیش کمار سنگھ،سی او چوب سنگھ،کوتولای انچارج یگ دت شرما سمیت بڑی تعداد میں پولیس اور فورس کی تعیناتی کے علاوہ خفیہ محکمہ بھی چوکناّ رہا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے طلبہ سے فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی گفت و شنید کے عزم کا اظہار، ناانصافی کا شکار ہوئے طلبہ کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی، باہمی تال میل پر زور، پرامن و جمہوری احتجاج کی تائید

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے طلبہ سے فہم و فراست کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی
گفت و شنید کے عزم کا اظہار، ناانصافی کا شکار ہوئے طلبہ کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی، باہمی تال میل پر زور، پرامن و جمہوری احتجاج کی تائید
علی گڑھ۔۳۱؍دسمبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے طلبہ کے نام جاری ایک مکتوب میں کہا ہے کہ وہ کیمپس میں تعطیلات کے بعد ان کی واپسی کے منتظر ہیں اور طلبہ کے مفادکے امور پر ان سے گفت و شنید کے لئے تیار ہیں۔ وائس چانسلر نے طلبہ سے اپیل کی ہے کہ وہ طویل مدتی مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کو پرامن طریقہ سے چلانے میں ان کی مدد کریں اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی باتوں پر یقین نہ کریں جو چند ایسے لوگ پھیلارہے ہیں جنھیں گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعات کے حقائق کا صحیح علم نہیں ہے۔ وائس چانسلر نے اپنے مکتوب میںعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی عظیم تاریخی وراثت کی یاد دلاتے ہوئے طلبہ سے کہاکہ انھیں کسی بھی ایسے قانون کے خلاف جمہوری انداز میں پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے جسے وہ قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ پروفیسر منصور نے کہا ’’یونیورسٹی انتظامیہ اور میں خودطلبہ کے حقوق پر قدغن لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کیونکہ ایک مضبوط جمہوریت اپنے شہریوں کی متحرک حصہ داری پر منحصر ہوتی ہے ، خاص طور سے ایسے نوجوانوں پر جو ملک کا مستقبل ہیں‘‘۔ پروفیسر طارق منصور نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ’’ جب آپ چھٹیوں سے واپس لوٹیں گے تو میں بطور وائس چانسلر کیمپس میں آپ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہوں اور محبت و احترام کے ساتھ تعلیمی سال کو پرسکون انداز میں مکمل کرنے میں آپ کا تعاون چاہتا ہوں‘‘۔ انھوں نے کہا ’’انارکی کا ماحول پیدا کرنے سے بطور پرامن شہری ہمارا اعتبار مجروح ہوگا اور ہماری یونیورسٹی کے بارے میں پھیلائی جانے والی جھوٹی باتوں کو ان سے تقویت ملے گی‘‘۔ وائس چانسلر نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی عظیم تاریخی وراثتوں کی حامل ہے۔ سرسید احمد خاں کی ہمت اور ان کی دور اندیشی ہو، 1947میں اس ملک کو آزاد کرانے کی تحریک میں اے ایم یو کی حصہ داری ہو یا پھر اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات کی ملک کی تعمیر و ترقی میں عظیم خدمات ہوں ، ان سب سے اے ایم یو برادری کو تحریک ملتی ہے۔ پروفیسر منصور نے کہا ’’بطور وائس چانسلر میں نے گزشتہ ڈھائی برسوں میں جو بھی فیصلے کئے وہ طلبہ اور ادارے کے مفاد میں تھے ، تاہم اگر آپ کو کچھ خدشات ہوں تو ان کے بارے میں کھل کر بات کریں تاکہ ان کا ازالہ کیا جاسکے‘‘۔گزشتہ 15؍دسمبر کو پیش آئے واقعات پر رنج و افسوس کااظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ پولیس کارروائی میں لوگوں کو چوٹیں آئی ہیں اور وہ ذہنی اذیت سے دوچار ہوئے ہیں اس پر انھیں سخت تکلیف پہنچی ہے۔ ایسے طلبہ اور ان کے اہل خانہ سے وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ وائس چانسلر نے کہا ’’15؍دسمبر کی شب میں کیا گیا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی تھا۔ بنیادی طور سے اس کا مقصد ناراض طلبہ کو منتشر کرنا تھا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دو طلبہ کی موت کی جھوٹی خبر پر مشتعل ہوگئے تھے۔ جب ہم نے دیکھا کہ حالات قابو سے باہر ہوگئے ہیں تو وہ فیصلہ کرنا لازمی تھا‘‘۔ پروفیسر منصور نے کہاکہ اس سلسلہ میں کئی طلبہ نے اے ایم یو انتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھائے حالانکہ انتظامیہ کی نیت صاف تھی ۔ انھوں نے کہا ’’کئی دفعہ ناگہانی حالات ہمارے فیصلوں کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بعض دفعہ تنقید درست ہوتی ہے۔ ہم انکساری کے ساتھ ایسے فیصلوں سے سبق لیتے ہیں اور مستقبل میں بہتر ردّ عمل کا عزم کرتے ہیں‘‘۔ وائس چانسلر نے کہاکہ ہاسٹل خالی کرانے کا فیصلہ ملک میں اُس وقت کے حالات کے پیش نظر کافی غور و خوض کے بعد کیا گیا تھا اور یہ کوشش کی گئی تھی کہ طلبہ کو کم از کم زحمت ہو۔ حالانکہ کچھ طلبہ کو زحمت ہوئی جس پر انھیں سخت افسو س ہے۔ پروفیسر طارق منصور نے کہاکہ یونیورسٹی انتظامیہ، بے قصور طلبہ کے ساتھ ہوئی ناانصافی پر انھیں انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن اقدام کر ے گی اور طلبہ کو ایسے لوگوں کی باتوں میں نہیں آنا چاہئے جنھیں صحیح حالات و واقعات کا علم نہیں ہے۔ وائس چانسلر نے طلبہ کی فہم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں آگاہ کیا کہ ان کے درست اندیشوں کو مفاد پرست عناصر یرغمال نہ بنانے پائیں اور ایسے عناصر کی شناخت کرنے میں یونیورسٹی انتظامیہ کی مدد کریں جو طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان خلیج پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پروفیسر طارق منصور نے مزید کہا’’ ہمارے بہت سے طلبہ عام پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور اس عظیم یونیورسٹی میں ملنے والی تعلیم ان کے مستقبل کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ ہمیں اس بحران کے وقت میں مل کر کام کرنا چاہئے تاکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہمارے موجودہ طلبہ اور مستقبل کی نسلوں کی خوابوں اور امنگوں کو پورا کرتی رہے‘‘۔ وائس چانسلر نے طلبہ کو یاد دلاتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنی انا، وقتی ردّ عمل اور قلیل مدتی فائدے کے خیال کو طویل مدتی مقاصد و اہداف پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہئے جن کے لئے یونیورسٹی قائم ہے۔ وائس چانسلر نے طلبہ کے مفاد کے امور پر ان سے گفت و شنید کے اپنے عزم کو بھی دوہرایا۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر یوپی سرکار پابندی عاٸد کرنے کی تیاری میں !!!

پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر یوپی سرکار پابندی عاٸد کرنے کی تیاری میں !!!

اتر پردیش حکومت ریاست میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آٸی ).پر پابندی عاٸد کرنے کی تیاری میں ہے۔اس بابت ڈی جی پی نے مرکزی حکومت کو اپنی سفارش بھیجی ہے اور شاید مرکزی حکومت جلد ہی اس پر فیصلہ لے ۔
ریاست کے ناٸب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا کہنا ہے کی پی ایف آٸی سیمی کی دوسری شکل ہے ۔اور ابھی حال میں شہری ترمیم قانون کے خلاف ہوٸے تشدد کے واقعات میں پوری طرح ملوث رہی ہے۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ ہم ریاست میں کسی بھی ملک مخالف طاقت کو کچل دیں گے۔
[واضح ہو کہ پی ایف آٸی ایک سماجی تنظیم ہے جو حقوق انسانی اور سماج میں پھیلی براٸیوں سے لڑنے کا دعویٰ کرتی ہے ۔۔مسلمانوں کے ریزرویشن کو لیکر اس تنظیم نے تحریک بھی چلایا ہے

نئے سال پر بنکروں کو ملی بڑی راحت، پاورلوم حکم نامہ پر لگی روک: حاجی افتخار

نئے سال پر بنکروں کو ملی بڑی راحت، پاورلوم حکم نامہ پر لگی روک: حاجی افتخار

ٹانڈه/امبيڈکرنگر :31دسمبر 2019 آئی این اے نیوز
 حکومت نے نئے سال پر پاورلوم بنکروں کو بڑی راحت دیدیا ہے۔ بنکروں کے ساتھ ایم ایل سی اشوک دھون کی کوششوں سے پاورلوم کے تعلق سے جاری نئے حکمنامہ پر روک لگادی گئی ہے۔ یہ جانکاری دیتے ہوئے اترپردیش بنکرسبھا کے صدر حاجی افتخار احمد انصاری نے بتایا کہ گزشتہ روز لکھنؤ میں پورے ریاست سے آئے ہوئے پاورلوم بنکر نمائندوں کا ایک وفد ریاستی وزیر ہینڈلوم اور کپڑا صنعت سدھارتھ ناتھ سنگھ سے ملا اور انہیں پاورلوم بنکروں کے بجلی فلیٹ ریٹ اور سبسڈی رقم سمیت کئی نکات پر مشتمل مطالباتی میمورنڈم پیش کیا گیا۔ حاجی افتخار نے بتایا کہ اس دوران وزیر ہینڈلوم نے بنکر نمائندوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ پاورلوم بنکروں کو سستی اور بلا رخنہ آور بجلی فراہم کرانے کی کارروائی کی جارہی ہے اور جلد ہی اسکا فائدہ بنکروں کو ملنے لگےگا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت بنکروں کی بہتری کے لئے پوری طرح سے سنجیدہ ہے اور پاورلوم بنکروں کے سبھی ضروری سہولیات فراہم کرانے میں ہرممکن مدد کریگی۔

Monday 30 December 2019

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی


جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

گذشتہ 20دسمبر کو میرٹھ کے ایس پی سٹی اکھلیش نارائن سنگھ نے جمہوریت کی سالمیت کے لئے پروٹسٹ کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ،،تم لوگ یہاں سے پاکستان چلے جاؤ ورنہ میں تمہیں برباد کر دوں گا،،
قوم مسلم کو برباد کرنے کی طرح اسی وقت پڑ چکی تھی جب اسلام ایک ننھے سے چراغ کی صورت میں تھا اس وقت سے کسی عہد کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گذرا جس میں اسے صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی کوششیں نہ کی گئی ہوں،کوئی دور ایسا نہیں گذرا ہے جس میں اس امت کو نیست و نابود کر نے کی اعلانیہ اور زمیں دوز کارروائیوں کا سلسلہ جاری نہ ہوا ہو،مگر امت مسلمہ اس شجر سایہ دار کی مانند آج بھی اپنے پیروں پر اپنے مکمل وجود کے ساتھ کھڑی ہے، دشمنان اسلام کی یہ خواہش ماضی میں بھی ناکام تھی آج بھی نامراد ہے'آئیندہ بھی حسرتوں کے مزاروں کا طواف ان کا مقدر ہوگا۔۔۔۔۔۔

تاہم اس بات سے قطع نظر انسانیت اخلاقیات اور جمہوریت کے حوالے سے ایک ایسا فرد جس نے عوام کے تحفظ کا لبادہ اپنے جسم پر ڈال رکھا ہے جس نے بدامنی انارکی کو دور کرنے کا عہد لیا ہے'اس کی طرف سے اس طرح کے غیر انسانی،اور شرمناک بیان کے تناظر میں اصحاب اقتدار کے مزاج،ملک میں فرقہ وارانہ ماحول اور مسلم دشمنی اور عناد وتعصب کے نتیجے میں شیطانی کرداروں کو سمجھا جا سکتا ہے،کہ ملک کس ذہنیت کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اپنی سالمیت کھو رہا ہے،یا کھو چکا ہے،
اس ملک کی بنیادوں کو استحکام عطا کرنے والی ایک کمیونٹی کے خلاف زہر میں ڈوبا ہوا یہ بیان جہاں انسانیت کے خلاف ہے وہیں اس ملک کے آئین اور جمہوریت کے دامن پر بھی بدنما داغ ہے ،جس پر سیکولر طبقہ چیخ اٹھا ہے'یہاں تک کہ بی جے پی کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنے والے اس کے تمام شرمناک افعال پر تائید کرنے والے،نام و نہادمسلمان وزیر مختار عباس نقوی  بھی اس کی مذمت پر مجبور ہوئے اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔لیکن باوجود اس کے ہمیں اس حیوانیت پر ذرا بھی حیرت نہیں ہے'اس لیے کہ نفرت وتعصب کی یہ آنچ، مسلم دشمنی کا یہ اثاثہ،  فرقہ پرستی کا یہ مزاج اور بدزبانی کی یہ جرات درحقیقت اس طبقے اور گروہ کے کرداروں کا شاخسانہ ہے جس کی شناخت فسطائیت اور مسلم دشمنی جس کی علامت ہے ،جس کے سیاسی ایوانوں کی عمارتیں مسلمانوں کے لہو اور ان کی لاشوں پر تعمیر ہوئی ہیں، انسانیت سے ناآشنا،اخوت وبھائی چارگی کی صفات سے محروم اس ذہنیت کو اقتدار کی ہوس تھی تاکہ اس کے ذریعے ملک کی فضا کو مخصوص رنگ میں رنگ دیا جائے اور یہ انصاف ودیانت کے ساتھ ممکن نہیں تھا کہ اس ملک کی روح سیکولر تھی اس لیے ایک قوم کے خلاف فکری عملی محاذ جنگ کھول کر فرقہ وارانہ کرداروں کے ذریعے اقتدار کی کرسیوں پر قابض ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ جب ملک کا حکمراں اور فرمانروا جو تمام اقوام ملک کے تحفظ کا عہد لینے کے باوجود  ظلم وجبر کی علامت بن چکا ہو،طاقت کے نشے میں انسانوں کے خون سے کھیل رہا ہو، اوراس ظالمانہ روش پر ملک کے آئین کی بھی  اسے پروا  نہ  ہو،ایک قوم کی دشمنی کے شعلوں  میں  اس کا وجود جل رہا ہو،تو اس کے ماتحتوں  کے ذریعے اگر اس طرح کی زہر افشانیاں ظاہر ہوں تو کیا تعجب ہے'۔۔۔۔کہ عملی لحاظ سے ظلم وسفاکیت کی جو گھٹا چھائی ہوئی ہے'،بربریت کے شعلوں میں جس طرح سماج سسک رہا ہے'اس منظم جارحیت اور حکومتی سفاکیت کے آگے اس کی کیا حیثیت ہے۔

انسان آزاد پیدا ہوا ہے'،آزادی اس کا انسانی حق ہے'،انسانیت کے دائرے میں وہ اپنی فکر میں آزاد ہے'اپنے عمل میں آزاد ہے'،اپنے نظریات وتصورات میں آزاد ہے'،اپنے مذہب وعقائد میں آزاد ہے'جس ملک میں اس کی مذکورہ آزادیاں مسلوب ہوتی ہیں وہاں انسانی قوانین نہیں ہوتے بلکہ وہ جنگل راج اور شیطانی قوتوں کی آمریت ہوتی ہے'،
بھارت کا نظام سیکولر ہے'جمہوریت اس کی شناخت رہی ہے'مگر ادھر چند برسوں سے اس کا لباس داغدار ہونا شروع ہوا تو ہوتا ہی چلا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا پورا وجود فسطائیت کے شعلوں میں جل اٹھا،
ملک کے نام نہاد نگہبانوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے ذریعے مسلم دشمنی،تعصب وعناد،فرقہ پرستی،و شدت پسندی کا وہ بدترین ثبوت پیش کیا جس کی مثال سے دور جدید نہیں بلکہ قدیم زمانے کی تانا شاہی فرماں روائیاں بھی خالی نظر آتی ہیں،
ایک جمہوری نظام کے علمبردار ملک میں یہی ستم کیا کم تھا کہ مذہب کی بنیاد پر سیٹیزن شپ کا قانون بنا کر اس کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا جائے، مگر قیامت یہ ہے'کہ جب اس انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھی تو اسے دبانے کے لیے پوری طاقت کو جھونک دیا گیا،اور نہتے بے قصور عوام پر فورس کے ذریعے حملے کرکے کھوکھلی بہادری کا مظاہرہ کیا گیا،اقتدار کی آنکھیں ظالموں کی بہادری اور نہتے بے قصور مظاہرین کی بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی،مخالفت کی چنگاریاں چشم زدن میں شعلہ جوالہ بن کر ملک کے طول و عرض پر چھا گئیں تب آمر وقت کے لب کھلے اور لال قلعہ دہلی میں حسب معمول
این آر سی جیسے سیاہ قانون کے تذکرے کا ہی انکار کر دیا اور اس سفید جھوٹ کے ذریعے انہوں نے دنیا کو باور کرایا کہ بھارت کی عوام شعور وبصیرت سے محروم ہے'اسے سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں ہے تخیلات اور خوش فہمیوں کی دنیا میں رہنے والے ،انسانوں اور عوام کے احساسات سے عاری اس حکمراں کواب کون سمجھائے کہ ملک کی عوام اندھیرے اور اجالے میں فرق وتمیز کا ہنر جانتی ہے'اور یہ بھی جانتی ہےکہ نیشنل میڈیا
نے موجودہ قوتوں کو اپنا ضمیر بیچ کر ایمان وصداقت فروخت کرکے سکوں سے اپنی تجوریاں بھر لی ہیں۔اب وہ صداقت کی نہیں بلکہ ایک مخصوص فکر کی ترجمان ہیں'۔


جمہوری نظام کو اپنی انا پر قربان کرنے والےاس کھیل میں مرکزی حکومت تو تھی ہی مگر یوپی کی ریاستی حکومت نے ظلم وستم کی ساری سرحدیں پار کردیں،اور مسلمانوں کے خلاف حکومتی طاقت کے ذریعے سفاکیت کا وہ کھیل کھیلا کہ انگریزی استبداد کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا،وزیر اعلیٰ نے مسلمانوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرکے بدترین انتہا پسندی اور تعصب کا مظاہرہ کیا ہے،
ایک ایسا قانون جس میں تمام اقوام کو شامل کیا گیا ہو،اور ملت اسلامیہ کو محض اس وجہ سے محروم کردیا گیا ہو کہ وہ مسلمان ہے'یہ جمہوریت کے بھی خلاف ہے'،انسانیت اور انصاف وعدالت سے بھی متصادم ہے'،ملک کے آئین کے بھی متوازی ہے'،سیکولر ازم کے لئے بھی بدنما داغ ہے'،اس کے خلاف آوازوں کا اٹھنا،احتجاج کا رونما ہونا اور پر امن جلوس کا مظاہرہ کرنا عوام کا بنیادی حق اور آئینی اختیارات میں شامل ہے طاقتوں کے ذریعے ان پر پابندیوں کی کوشش دراصل نازی ازم اور تانا شاہی کا اعلان ہے'،اور اب یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ  بی جے پی کی مرکزی حکومت سے لیکر ریاستی حکومتوں خصوصاً یوپی کی حکومت نے اپنے ظالمانہ کردار اور جابرانہ بربریت سے خود کومسولینی اور ہٹلر کی صف میں کھڑا کردیا ہے'،

اترپردیش کے ان تمام علاقوں اور خطوں میں جہاں جہاں بھی احتجاج ہوئے عموماً پرامن رہے مگر پولیس اور بدقماش ، فسطائی ذہنیت اورانسانیت سے ناآشناقسم کے پولیس آفیسروں کی ناحق جارحیت نے سازگار ماحول کو افراتفری اور لہو رنگ کر ڈالا،انھوں نے پوری طاقت سے بے قصور مظاہرین پر لاٹھیاں چلائیں ،ان کے اجسام کو زخم زخم کرڈالا بے شمار افراد لہو لہان ہوئے،ان درندہ صفت انسان نما بھیڑیوں نے عوام پر گولیاں چلائیں،بے دردی سے فائرنگ کی اور بیسیوں نوجوانوں اور بچوں کو خاک وخون میں تڑپنے پر مجبور کر ڈالا،
حکومت بجائے اس کے کہ اس پر ایکشن لیتی اس نے مسلمانوں سے اس کے انتقام کا اعلان کرکے اپنی کمظرفی ،فکر وسوچ کی پستی،اور انتہا پسندی کا بدترین ثبوت فراہم کیا،
کیا قیامت ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آوازیں بلند کرنے والوں پر ایک جمہوری ملک اور سیکولرازم کے دعوے دار ملک میں ظلم وسفاکیت کے پہاڑ بھی توڑے گئے اور ان کی آڑ میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر انھیں کو مجرم بھی قرار دے دیا گیا،اس نقصان کے نام پر سیکڑوں افراد کو گرفتار کرلیا گیا،بے شمار بچوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا گیا، مصدقہ خبروں کے مطابق سو بچوں کو صرف لکھنؤ شہر سے اٹھایا گیا ان پر تشدد کی راہیں پولیس پر کھول دی گئیں،میرٹھ کے مسلمانوں سے چھ لاکھ کی رقم کا تاوان محض اس لیے اصولا گیا کہ انھوں نے احتجاجی مظاہرے میں کیوں شرکت کی تھی،وزیر اعلیٰ کی انتقامی کارروائی کے اعلان پر مسلمانوں کی املاک پر ہاتھ صاف کرنے کی وہ ہوڑ شروع ہوئی کہ ایک ہی روز میں مظفر نگر کے علاقہ میں ستر دکانوں کو سیل کردیا گیا اب تک جانے کتنے کاروباری لوگوں کو بے روزگار کتنے افراد کو اس کے سرمائے سے محروم کیا گیا اس کا اندازہ نہیں ہے۔واضح رہے کہ یہ سارے جرائم اور مظالم اس شخص کے اعلان پر ہوئے اور ہورہے ہیں جو اس ریاست کا کاغذی نگہبان ہے جس نے اپنی جارحیت،اپنی انتہا پسندی،مسلم دشمنی،میں سیکولر ازم کے ساتھ ساتھ انسانیت اور انصاف دیانت کا خون کرڈالا ہے، یہ بات صد فی صد حقیقت ہے کہ کم ظرف کے ہاتھوں میں جب اقتدار آجاتا ہے تو پورے معاشرہ اور ملک کا توازن بگڑ جاتا ہے،اس وقت یوپی کی ریاست تعصب وانتہا پسندی اور ظلم  و بربریت  کا ایسا ہی خونچکاں منظر پیش کررہی ہے۔کہ طاقت کے زور پر قتل کرنے والوں کے ہاتھوں میں جو خراش آئی ہے'،مظلوموں کے اجسام پر چلنے والی گولیوں کا جو نقصان ہوا ہے'،شہیدوں کی گردنوں پر پھرنے والی جن سنگینوں میں ہلکا سا خم آیا ہے'ان سارے نقصانات کا مقتولوں سے تاوان لیا جائے گا۔

مسلمانوں نے اس سرزمین پر ہزار سال تک حکمرانی کی ہے لیکن اس طرح کہ انصاف و  رواداری اور اخوت ومساوات کے ساتھ اس ملک کو ہر لحاظ سےارتقاء کی منزلیں عطا کر دیں ،یہاں ستر سالوں میں طاقت کا ایسا نشہ چھایا کہ انسانیت ورواداری کے علاوہ یہ بھی یاد نہیں رہ سکا کہ  اس ملک کی روح جمہوریت ،اس کا حسن، سیکولر ازم ۔اور اس کی ترقی واس کا اقبال۔ مساوات اور عدل میں مضمر  ہے'انہیں بنیادوں پر اس کا قیام ہوا اور انہیں اصولوں پر اس کی سلامتی موقوف ہے'۔۔۔
ان اوصاف کے بغیر کسی بھی ملک کی سلامتی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا، جارحیت وسفاکیت،کسی ایک قوم کے خلاف طاقت کا غلط استعمال ،انصاف ودیانت سے عاری فرقہ وارانہ قانون سازی اور اس کے نفاذ سے ملک میں انارکی ،بدامنی اور بد عنوانی تو پھیل سکتی ہے'امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ظلم وبربریت سے اور اقتدار کی طاقت سے چند ایک ضمیر وظرف کی سوداگری ہوسکتی ہے اصحاب عزیمت اور ملک ووطن کی سالمیت پر احتجاج کرنے والوں کی آواز کودبایا نہیں جاسکتا۔شہیدوں کے لہو کی سرخیوں نے ہمیشہ انقلاب کی تاریخ رقم کی ہے'،مظلوموں کی فریادوں نے ہر دور میں ستمگروں کے قصرہائے استبداد میں زلزلہ پیدا کیا ہے'،بے قصوروں کی آہوں میں چھپے ہوئے طوفان جب اٹھتے ہیں تو تمام قوتوں کے سرمائے کو بہا لے جاتے ہیں'۔ انگریزی استبداد  کی پوری تاریخ اس کا روشن ثبوت ہے' اگر یہ ممکن ہوتا تو
آج ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں بدستور جکڑا ہوا ہوتا۔
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا


شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار شواجی نگر گوونڈی

پانچ کشمیری رہنمائوں کی رہائی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی لیڈران دفعہ ۳۷۰ کے خاتمے کے بعد پانچ ماہ سے حراست میں تھے

پانچ کشمیری رہنمائوں کی رہائی
نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی لیڈران دفعہ ۳۷۰ کے  خاتمے کے بعد پانچ ماہ سے حراست میں تھے
نئی دہلی۔ ٣١؍دسمبر:  جموں کشمیر کےپانچ پہلے ممبران اسمبلی کو رہا کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ۵؍ اگست سے آرٹیکل370کی منسوخی کے بعد یہ لیڈر حراست میں تھے۔واضح ہوکہ سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ اب بھی حراست میں ہیں۔ رہا شدہ رہنماؤں میں دو لیڈر پی ڈی پی کے، دو نیشنل کانفرنس کے اور ایک آزاد امیدوار ہیں۔ان کے اسماء یوں ہیں ۔ اشفاق جبار،غلام نبی بھٹ ، بشیر میر ، ظہور میر اور یاسر ریشی۔ اس سے قبل ۲۵؍نومبر کو پی ڈی پی کے دلاور میر اور ڈیموکریٹک پارٹی نیشنلسٹ کے غلام حسن میر کو رہا کیاجاچکا ہے۔خیال رہے کہ اس سے پہلے اتوار کو پی ڈی پی نے جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی رہائی کی اپنی درخواست دہرائی تھی۔ ساتھ میں پارٹی نے کہا تھا کہ اس علاقہ میں موجودہ صورتحال جمہوری فکر کو زک پہنچارہی ہے یہ سراسر آمریت پر مبنی عمل ہے ۔ پارٹی نے کہا کہ موجودہ صورتحال ایمرجنسی کے دنوں کی یادوں کو تازہ کر تی ہے۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے جنرل سکریٹری اور ایم ایل سی کے سابق رکن سریندر چودھری نے کہا کہ امن قائم کرنے کے لئے، حکومت کو موجودہ صورتحال پر غور کرنا چاہئے جو بہت سنگین اور تشویشناک ہیں۔ یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جموں کشمیر کے حراست میں رکھے گئے سیاسی رہنماؤں کو رہا کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔اجلاس میں جموں و کشمیر کی موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعلی مفتی محمد سعید کی چوتھی برسی منانے کے لئے کئے جا رہے انتظامات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ چودھری نے حکومت سے جموں کے ساتھ ساتھ کشمیر کے بھی کسانوں کو فوری امداد فراہم کرنے کی گزارش کی، جنہیں اس موسم سرما کے آغاز میں شدید برف باری اورکثیر بارش کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانے پڑے ہیں ۔  جموں کشمیر میں حالات سازگار ہورہے ہیں، انتظامیہ نرمی برت رہی ہے جن لیڈران پر شبہ تھا کہ وہ موقع کا فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو بھڑکا سکتے ہیں انہیں اب ریاست  میں امن وامان دیکھ کر رہاکیاجارہا ہے۔ اس کے علاوہ جموں کشمیر میں حالات پرامن ہونے پرنظم ونسق کےلیے تعینات فوجیوں کی ۵۲ اور کمپنیاں اتوار کو کشمیر گھاٹی سے واپس بھیج دی گئی ہیں جس سے پہلے ۲۴؍دسمبر کو نئی دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کی صدارت میں ہوئی میٹنگ میں پانچ اگست کے بعد کی حالت پر غور وفکر کیاگیا تھا، میٹنگ میں ایمرجنسی فورسز کی ۵۲ کمپنیوں کو وادی سے ہٹانے کا فیصلہ لیا گیا تھا اس میں سی آر پی ای کی ۲۴، بی ایس ایف کی ۱۲ ، آئی ٹی بی پی کی ۱۲ ،سی آئی ایس ایف کی ۱۲ اور ایس ایس بی کی ۱۲ کمپنیاں شامل تھیں۔

مہاراشٹر اکابینہ میں 4 مسلمانوں کو ادھو ٹھاکرے نے شامل کیا


مہاراشٹر اکابینہ میں 4 مسلمانوں کو ادھو ٹھاکرے نے شامل کیا 


 ممبئی: 2014 کے بعد آج پہلی مرتبہ مہاراشٹر کی ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی حکومت میں 4 مسلم وزراء کو شامل کیا گیا ہے۔ ان مسلم وزراء میں کانگریس سے اسلم شیخ، این سی پی سے نواب ملک اور حسن مشرف کے علاوہ شیوسینا سے عبدالستار شیخ شامل ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ریاست میں کانگریس حکومت جب برسراقتدار تھی تب ایک مرتبہ 4 مسلم وزراء وزارت میں شامل ہوئے تھے جن میں محمد اسماعیل اسیر، محمد عظیم الدین، اظہر خان اور جاوید خان کے نام قابل ذکر ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دو مرتبہ جب بی جے پی حکومت مہاراشٹر میں برسراقتدار تھی تب بی جے پی اور شیوسینا کے خیموں میں ایک بھی مسلم رکن اسمبلی نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ کسی بھی مسلم نمائندے کو وزارت میں جگہ نہیں دی گئی تھی۔

غزل یونس آتش متعلم خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ یوپی

غزل

یونس آتش
متعلم خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ یوپی


پیرہن آپ اکیلے میں اتارا نہ کریں
درو دیوار ہیں ان کو تو ابھارا نہ کریں

جانے کیا لوگ سمجھ جائیں ہمارے بارے
اس طرح آپ سرے راہ پکارا نہ کریں

ان کی عادت ہے مصیبت میں ہمیں سے ملنا
جو کسی اور کو اپنا کے ہمارا نہ کریں

تری محفل کا بھرم رکھتے ہیں اٹھ جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو زحمت بھی گوارا نہ کریں

عکس بھی آپ کا دیوانہ ہوا جاتا ہے
زلف درپن میں مری جان سنوارا نہ کریں

میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
ڈوب جائیں وہ اگر مجھ سے کنارہ نہ کریں

ہم سمندر ہیں یہ معلوم ہے جانا ہے کہاں
جاکے دریاؤں سے کہدو کہ سہارا نہ کریں

چاند تاروں پہ تو ہر شخص کا حق ہے آتش
میں انہیں کیسے کہوں سب کو اشارہ نہ کریں

یونس آتش
متعلم خواجہ معین الدین چشتی اردو عربی فارسی یونیورسٹی لکھنؤ یوپی

شہریت ترمیمی قانو ن احتجاج پر پولیس کی بربریت کا اثر، تاج محل سیاحوں میں کمی واقع، کروڑہا روپیوں کا نقصان

شہریت ترمیمی قانو ن احتجاج پر پولیس کی بربریت کا اثر، تاج محل سیاحوں میں کمی واقع، کروڑہا روپیوں کا نقصان

آگرہ: ملک میں نئے سیاہ قانون ”شہریت ترمیمی قانون“ کے بننے کے بعد سے ملک کی سیاحت بری طرح مثاثر ہوگئی ہے۔ بعض ممالک نے اپنے شہریوں کو ہندوستان کا رخ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اترپردیش میں احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے گولیاں مارکر ہلاک کردیا ہے۔ اترپردیش میں ایسے حالات کی وجہ سے سیاحوں کی آمد میں کمی واقع ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں مشہور محبت کی یادگار عمارت تاج محل کو دیکھنے آنے والے بیرونی سیاحوں نے بھی اپنا ارادہ ترک کردیا ہے۔ عہدیداروں کے مطابق تقریبا دولاکھ ملک و بیرون ملک سے تاج محل کا نظارہ کرنے کے لئے آگرہ آنے والوں نے اپنا سفر منسوخ کردیا ہے۔۔
پولیس انسپکٹر اسپیشل ٹورسٹ دنیش کمار نے بتایا کہ دسمبر کے مہینہ میں تقریبا 60فیصد افراد نے تاج محل دیکھنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی اور بیرون ملک سیاحوں نے یہاں کے حالات سے باخبر رہنے کیلئے ہمارے پولیس کنٹرول روم کو فون کالس کررہے ہیں۔
ہم ان کا تحفظ کرنے کا تیقن دلا رہے ہیں لیکن اس باوجود بھی کئی سیاح دور رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ کئی بیرون ملک سیاح اپنے طے شدہ وقت سے قبل ہی ہندوستان سے چلے جار ہے ہیں۔ تاج محل کے اطراف لگژری ہوٹلس اور گیسٹ ہاؤزس کے مالکین نے کہا ہے کہ سیاح رومس وغیرہ بک کرنے کے بعد اسے کینسل کررہے ہیں۔ تاج محل دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں سالانہ ملین تعداد میں سیاح آتے ہیں جس سے یہاں کی حکومت کو زبردست آمدنی ہوتی ہے۔