اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: January 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 31 January 2019

بابائے قوم مہاتما گاندھی کی بے عزتی نہیں برداشت کریگا ہندوستان، مہاتما گاندھی کے آداب میں راشٹریی علماء کونسل میدان میں: نورالھدیٰ

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/جنوری 2019) راشٹریہ علماء کونسل کا ایک وفد یوتھ ونگ کے صوبائی صدر نورالھدیٰ کی قیادت میں آج دوپہر ڈی ایم اعظم گڑھ کے توسط  سے صدر جمہوریہ ہند کو ایک عرض داشت پیش کیا، جس میں 30جنوری کو علیگڑھ میں ہندو مہا سبھا کی قومی سکریٹری پوجا شگون اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے مہاتما گاندھی کا کارٹون بنا کر اسکو گولی مارنے پر ملک سے غداری کا مقدمہ  درج کر ان کو گرفتار کرنے کی مانگ کی ہے.
اس موقع پر نورالھدیٰ صاحب نے کہا کہ ہندو مہا سبھا نے صرف مہاتما گاندھی کی بے عزتی نہیں کی بلکہ پورے ملک کو اپنے گندے عمل سے بے عزت کیا، انہوں نے کہا کہ اگر ان لوگوں پر مقدمہ نہیں ہوا اور گرفتاری نہیں ہوئی تو آر یو سی میدان میں اترے گی، انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس ستر سال بعد ملک کے سامنے اپنا اصلی چہرہ سامنے کیا، جہاں پورا ملک بابائے قوم کو ان کی یوم شہادت پر انہیں خراج عقیدت  پیش کر رہا ہے وہیں دہشت گرد تنظیم گوڑسے امر رہیں مہاتما گوڑسے کا نعرہ لگا کر بابائے قوم کے کارٹون پر گولی مار کر ان سے خون بھی نکالا گیا، کتنی گندی حرکت  کی گئی، پورا عالم جہاں گاندھی کے کردار کو یاد کر رہا ہے، وہیں ان کے ملک میں ان کی بے حرمتی  کرنا کتنا بڑا جرم ہے.
عرض داشت پیش کرنے میں محمّد اعظم، محمّد فہد، شہباز رشادی، محمّد عارف، محمّد جابر، محمّد فیصل وغیرہ موجود تھے.

مئوآئمہ کے نوجوان نے سی اے کے امتحان میں اعلی نمبرات سے کامیاب ہوکر ضلع کا نام کیا روشن!

فضل الرحمان قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مئوآئمہ/پریاگ راج(آئی این اے نیوز 31/جنوری 2019) الہ آباد کے مشہور قصبہ مئوآئمہ کے محلہ پورہ میانجی کے ایک ہونہار طالب علم سعود شمیم اختر انصاری نے الہ آباد ضلع کانام روشن کیا، سعود شمیم نے سی اے کے امتحان میں اعلی نمبرات سے کامیابی حاصل کیا.
غور طلب ہوکہ مئوآئمہ مسلم اکثریتی قصبہ ہے، جہاں تقریبا ۲۰ ہزار کی آبادی ہے، یہ پہلا موقع ہے جب اس قصبہ کا کوئی طالب علم سی اے امتحان میں کامیابی حاصل کی ہو، یہ خبر سنتے ہی مئوآئمہ قصبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، مبارکبادی کا سلسلہ جاری ہے.
مئوآئمہ کے معروف عالم دین مولانا وکیل مظاہری جنرل سکریٹری جمعیت علماء کرلا نے کہا یہ ہم باشندگان مئوآئمہ کے لئے فخر کی بات ہے کہ قصبہ کا ایک نوجوان نے اپنی علمی لیاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بڑی کامیابی حاصل کیا، انہوں نے سعود شمیم اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کیا اورروشن مستقبل کی دعائیں دیں.
مئوآئمہ کے معروف سماجی کارکن عمیر جلال نے خوشی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا بڑی خوشی کی بات ہے ہمارے قصبہ کے نوجوان تعلیم کے میدان میں ترقی کررہے ہیں، انہوں نے کہا ہمارے دوسرے نوجوانوں کو ان سے سبق لیتے ہوئے تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنا چاہیے.
 اس موقع پر نوجوان عالم دین مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی نے کہا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی، انہوں نے کہا نوجوانوں کو تعلیم کے میدان میں ہمہ تن گوش ہوکر محنت کی ضرورت ہے، مفتی قاسمی  نے کہا کہ یہ ہماری لئے بڑی مسرت کی بات ہے کہ ہمارے مئوآئمہ قصبہ کا پہلا طالب علم سی اے امتحان میں کامیابی حاصل کیا.

مولانا محمد قاسم صاحب با کمال و بے مثال شخصیت کے مالک تھے: مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی

جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ دیوبند میں تعزیتی اجلاس.

دیوبند(آئی این اے نیوز 31/جنوری 2019) معروف و مشہور عالم دین حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے انتقال کی خبر سے پورا ملک خاص طور پر دینی و علمی حلقوں میں ایک غم لی لہر دوڑ گئی۔ ان کے چلے جانے سے ہر کوئی غم و اندوہ میں ڈوبا ہوا ہے اسی کے پیش نظر جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ دیوبند میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں لوگوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا۔
جامعہ قاسمیہ دارالتعلیم والصنعہ کے مہتتم مولانا محمد ابراہیم صاحب قاسمی نے کہا کہ" مولانا کے سانحہ ارتحال سےقوم و ملت کا بہت بڑا خسارہ ہوا ہے مولانا بیک وقت کئی قومی خدمات انجام دے رہے تھے وہ جامعہ مدنیہ سبل پور پٹنہ (جس کے تحت صوبہ بہار میں بہت سے مکاتب ومدارس چل رہے ہیں )کے بانی، جمعیت علماء صوبہ بہار کے صدر، دارالعلوام دیوبند کے رابطہ مدارس صوبہ بہار کے صدر اور رابطہ کے ایک موقر رکن تھے، مرحوم مولانا قاسم صاحب نے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں گذار دی اور دینی ملی کاموں میں پیش پیش رہا کرتے تھے، وہ ایک صاف گو اور صاف دل ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار بھی تھے۔ ان ہی خدمات جلیلہ کی وجہ سے مرحوم عوام و خواص  میں بے انتہا پسند کئے جاتے تھے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین" ۔
اخیر میں ایصال ثواب اور دعا کا اہتمام کیا گیا جب کہ اس تعزیتی جلسے میں مشہور معروف خطیب مولانا مفتی محمد ساجد صاحب قاسمی  مہتمم جامعہ فیض ھدایت رامپور، قاری معراج الحق صاحب بستوی (مقیم بھیونڈی ممبئ)، مفتی منور حسین صاحب قاسمی،قاری محمد عارف ،مولانا عبد الحنان، قاری دلشاد مدنی، ڈاکٹر نبیل سراجی، قاری سیف الاسلام اور مدرسہ کے اساتذہ وطلباء موجود رہے۔

Wednesday 30 January 2019

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا "مسلم" لفظ اب سیاست کی زد میں!

تحریر: حافِظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گزشتہ چند سالوں سے یعنی کہ جب سے بی جے پی سرکار آئی ہے خاص طور سے اترپردیش کی بی جے پی سرکار، شہروں اور یونیورسٹیوں کے ناموں کو بدلنے کی منفی سوچ بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے، کہیں الٰہ آباد کو پریاگ راج بنایا جارہا ہے، کہیں فیض آباد کو ایودھیا، تو کہیں اردو بازار کو ھندی بازار، وغیرہ وغیرہ
اب ایک اور نام بدلنے کا بی جی پی کے رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم نے مطالبہ کیا ہے وہ یہ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  سے "مسلم" لفظ کو ہٹاکر صرف "علی گڑھ یونیورسٹی" رکھا جائے، انہوں نے "مسلم" لفظ کو سخت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلم کے بنسبت "ھندو" لفظ نرم ہے،  اور اس سے ایک عقیدت جڑی ہوئی ہے.
گوتم جی!
جیسے آپ کو "ھندو" لفظ سے عقیدت و محبت ہے ویسے ہی مسلمانوں کو "مسلم" لفظ سے عقیدت و محبت ہے، مسلمانوں نے ملک ھندوستان میں چھ سو سال تک حکومت کی، لیکن ان کا اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے نفرت و عداوت کرو، اسلام تو پیار و محبت اور امن و شانتی کا پیغام دیتا ہے.
گوتم جی!
کیا لفظ مسلم اور ھندو کیساتھ عقیدت و محبت اور نفرت و عداوت سے دیش ترقی کرے گا؟، کیا شہروں اور یونیورسٹیز کے نام بدلنے سے دیش مضبوط ہوگا؟، کیا اردو بازار کا نام ھندی بازار رکھ دینے سے فرقہ پرستی کا بازار گرم نہیں ہوگا؟ نام بدلنے کے بعد کروڑوں اربوں روپیے اس کی درستگی میں لگ رہے ہیں کیا اس سے مہنگائی میں اور اضافہ نہیں ہوگا؟
گوتم جی آپ کہہ رہے ہیں کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ بھارت سرکار کے خلاف نعرہ لگا رہے ہیں، تو آپ بتائیں! ان کی مخالفت میں نعرہ نہیں لگائیں گے تو کیا پھولوں کی مالا پہنائیں گے، جبکہ دیش کے نوجوان گریجویٹ، ڈاکٹر، اور انجینئر وغیرہ وغیرہ بن کر در بدر بھٹک رہے ہیں، ان کو نوکری نہیں مل رہی ہے، ان کو پکوڑے تلنے کا مشورہ دیا جارہا ہے، ان کیساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، جب ملک میں کسی بھی یونیورسٹیز یا کالجز کے اسٹوڈینٹس کے ساتھ سرکار ناانصافی کرے گی تو وہ کوئی بھی سرکار ہو اس کیخلاف نعرہ بازی یقیناً ہوگی.
گوتم جی! بتائیے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں راجہ مہندر پرتاپ کا جنم دیوس کیوں منایا جائے؟ کیا راجہ مہندر پرتاپ جی نے اس کو تعمیر کیا تھا؟. علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ھندوستان کی ایک تاریخ ہے جسے سر سید احمد خان رحمہ اللہ نے تعمیر کیا تھا، تو اس میں جنم دیوس نہ آپ کا منایا جائے گا اور نہ آپ کے کہنے پر کسی اور کا ، بلکہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سر سید احمد خان کا ہی منایا جائے گا.
مسلمانوں یادرکھو!
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی ثقافت اور شناخت کی ایک اہم علامت ہے، اپنے وجود کے سو برس میں یہ اکثر سیاست کی زد میں رہی ہے، ماضی کی حکومتیں اسے ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ تسلیم کرتی آئی ہیں، لیکن آزادی کے بعد مودی حکومت پہلی مرکزی حکومت ہے جس نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو مسلمانوں کا اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسلم شناخت بھی اس کے بانی کی طرح تاریخ کے صفحات میں کہیں گم نہ ہو جائے۔

جب تک اپنا جھنڈا ڈنڈا نہیں بنائیں گے تب تک نہ جانے کتنی سپا بسپا آپ کا ووٹ لے کر حکومت کرے گی اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر ان پر ظلم کرتی رہے گی: نورالھدیٰ

سگڑی/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/جنوری 2019) سگڑی تحصیل علاقے کے باغ خالص بازار میں منگل کو راشٹریہ علماء کونسل کا کارکنانی پروگرام منعقد ہوا، جس میں پارٹی کو مضبوط کرنے کے لئے زور دیا گیا اور آنے والے لوک سبھا انتخابات میں چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر تیسرا مورچہ بنا کر مضبوط دعویداری پیش کرنے پر زور دیا.
پروگرام میں یوا پردیش صدر نور الھدیٰ صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راشٹریہ علماء کونسل ایسی پارٹی ہے، جو غریب لوگوں کی لڑائی لڑتی ہے،
ہم چھوٹی پارٹیوں کا تیسرا مورچہ تیار کر رہے ہیں، جو سپا بسپا اتحاد کا جواب دے گا، ملک میں ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس مسلمانوں کو گمراہ کر رہی ہے اور اب ہمیں کوئی پارٹی گمراہ کر کے حکومت نہیں بنا سکتی، جب تک کہ آپ اپنا جھنڈا ڈنڈا نہیں بنائیں گے تب تک ایسے نہ جانے کتنے ایس پی، بی ایس پی آپ پر آپ سے ووٹ لے کر حکومت کرے گی اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کر ان پر زور، زبردستی کر ظلم کرتی رہے گی، لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم صرف اپنی قوم کے لئے ایک صحیح اور مضبوط تنظیم کو مضبوطی دیں، تبھی قوم کیساتھ آپ بھی آگے بڑھ سکتے ہیں، ہم مسلمانوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ  ادھر ادھر نہ جائیں ورنہ بی جے پی آجائے گی، آزادی کے بعد سے ہمیں گمراہ کیا جارہا ہے، کیا بی جے پی کو روکنے کا ذمہ ملک کے مسلمانوں کا ہی ہے، ہم ایم پی اور ودھایک نہیں بناتے لیکن ہم نیتا بناتے ہیں، جب تک آپ کا کوئی نیتا نہیں ہوگا آپ کی آواز نہیں سنی جائے گی، جس قوم کے معاشرے میں تعلیم کا فقدان ہوگا اور وہ قوم اپنے معاشرے کے بارے میں نہیں سوچے گی وہ ایک دن میں ختم ہو جائے گی، گجرات فسادات میں آپ نے جب مودی کو معاف نہیں کیا تو مظفر نگر فسادات میں ایس پی کو کیسے معاف کر دو گے، جہاں سپا نے کھل کر قتل عام کرایا اور خود سیفئی میں بیٹھ کر موج و مستی کر رہے تھے، بی ایس پی نے تمام گنڈوں، مافیاؤں کو رکن اسمبلی بنا دیا جو وہ لوگ خود کی نہیں بلکہ بہن جی کو چاہتی ہے وہ وہی بولتا ہے، اعظم خان ہوں یا دیگر مسلم رہنما سب مسلمانوں کے بارے میں بات نہیں کرتے، اعظم خان تو ایک سماجوادی طوطا ہے، جو پنجرے میں بند رہتا ہے، اور انتخابات میں پنجرے سے باہر آکر مسلمانوں کا ووٹ لینے کیلیے سماج وادی طوطا چارہ ڈالتا ہے، ہمیں غور کرنا ہوگا، مسلمانوں کو ذہنی طور پر کمزور اور غلام بنایا جا رہا ہے، ہمیں اپنے حق کے لئے لڑنا ہوگا، مودی کو مسلمان خواتین سے زیادہ ہمدردی ہو گئی ہے، تو تین طلاق ہی کیوں انہیں نوکری، تعلیم وغیرہ میں ریزرویشن کیوں نہیں دیتے، ہمیں جو مسلمانوں کو او بی سی کا 09 فیصد کوٹہ ہے، کیوں بی ایس پی کانگریس نے اسے ابھی تک نہیں دیا، صرف ووٹ کے لئے ہمیں گمراہ کر رہے ہیں.
پروگرام کی صدارت شکیل احمد نے کیا جبکہ نظامت شمیم ​​احمد نے کیا، دیگر مقررین میں مفتی غفران قاسمی، اکرام اللہ، حافظ ارشاد، وہاب خان، نعمان انصاری، رزاق احمد وغیرہ رہے.

جو قوم اپنا ماضی فراموش کردیتی ہے اسکا مستقبل بھی محفوظ نہیں رہتا!

شریعت میں مداخلت، آئین کی مخالفت اور جمہوریت کا مذاق ہے: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ـــــــــــــــــــ
پرنامبٹ(آئی این اے نیوز 30/جنوری 2019) معروف عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ پچھلے دنوں پرنامبٹ، تمل ناڈ کے ایک روزہ دورے پر تھے ۔’’آزادی سے جمہوریت تک‘ ‘کے عنوان پر مسجد علیؓ، ترائی کاڈ،پرنامبٹ میں ہزاروں فرزندان توحید کو خطاب کرتے ہوئے شاہ ملت نے فرمایا کہ ہندوستان کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کیلئے مسلمان روز اول سے جد و جہد کررہے تھے اور آزادی کی پوری تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں سے لبریز ہے۔1757ء سے لیکر 1857ء تک فقط مسلمان ہی تن تنہا انگریزوں سے لڑتے رہے۔برادران وطن کے دل و دماغ میں آزادی کا خواب و خیال بھی نہ تھا۔یہ تو ہمارے اکابرین تھے
جنہوں نے انکو آزادی کا سبق پڑھایا۔ کیونکہ اسلام ہی ایک واحد مذہب ہے جس میں آزادی کیلئے جدوجہد نیز جہاد و شہادت کا تصور ملتا ہے۔مولانا نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج غیر تو غیر اپنے مسلمانوں کو بھی اپنی تاریخ یاد نہیں۔انہیں گاندھی جی، جواہر لال نہرو، وغیرہ تو یاد ہیں لیکن قاسم نانوتویؒ ، شیخ الہندؒ ، شیخ الاسلامؒ ، ریشمی رومال کی تحریک، جمعیۃ علماء، اکابرین دیوبند کی قربانیاں یاد نہیں، شاہ ملت نے فرمایا کہ مسلمان کی اس لاپرواہی کی وجہ سے اغیار نے تو ہمارے اسلاف کی قربانیوں کو تاریخ سے ہی مٹادیا۔آج بڑے بڑے یونیورسٹی، کالجوں اور اسکولوں کی کتابوں میں کہیں مسلمانوں کا نام و نشان نہیں ملتا۔مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک فرمایا کہ جو قوم اپنا ماضی فراموش کردیتی ہے اسکا مستقبل بھی محفوظ نہیں رہتا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ آزادی کے بعد ہمارا کوئی اپنا آئین نہ تھا لہٰذا آئین کو مرتب کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔جنہوں نے فیصلہ لیا کہ ملک کا دستور جمہوری بنیاد پر ہو۔انہوں نے بتایا کہ آئین مرتب ہونے کے بعد 26؍ جنوری 1950ء میں اسے نافذ کردیا گیا۔ اسکے بعد سے ہمارے ملک جمہوری ملک بن گیا۔مولانا نے فرمایا کہ انگریز تو اس ملک سے چلا گیا اور ملک بھی جمہوری ملک بن گیا لیکن کچھ فرقہ پرست لوگ یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں امن و شانتی برقرار رہے، ہر آئے دن مسلمانوں اور اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھایا جارہا ہے، ملک کو ہندو راشٹ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمان نہ ہوتے تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں سے ہی انکی وفاداری کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔شاہ ملت نے فرمایا کہ جمہوری آئین کے مطابق ہر شخص کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حق ہے لیکن آج ہمارے دین و شریعت میں مداخلت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔مولانا نے فرمایا کہ شریعت میں مداخلت کی کوشش آئین کی مخالفت اور جمہوریت کا مذاق ہے۔مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک فرمایا کہ اغیار مسلمان کو کمزور نہ سمجھیں، جس انگریز کی حکومت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، ہم نے اس سے اس ملک کو آزاد کروادیا، تو آج کی یہ نام نہاد اور فرقہ پرست حکومت کیا چیز ہے۔قابل ذکر ہیکہ پرنامبٹ، تمل ناڈ کے مختلف مقامات پر شاہ ملت کا پرجوش استقبال کیا گیا۔شیر کرناٹک زندہ باد، شاہ ملت زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے پورا علاقہ گونج اٹھا اور اللہ اکبر کی صدائیں بھی بلند ہوئیں، مدرسہ حسان بن ثابتؓ میں بھی خصوصی دعائیہ نششت منعقد ہوئی۔

Tuesday 29 January 2019

فکری بحران!

از قلم -: اجوداللہ پھولپوری
مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڈھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کوئی بھی باشعور انسان مدارس دینیہ کی عظمت و اھمیت کا انکاری نہیں ھوسکتا اور ھر صاحب دانا و فھم جنکو اللہ تعالی نے عقل سلیم سے نوازا ھے وہ زندگی کے ھر لمحہ میں مدارس کی اھمیت کو اولیت دیتے ھیں اور مدارس کی عزت و قدر اور انکے وجود کو نعمت عظیمہ تصور کرتے ھیں تاریخ کے صفحات پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ مسلمہ حقیقت کھل کر واضح ھوگی کہ ان مدارس نے پوری دنیا اور خصوصا بر صغیر میں اسلام کی صیانت و حفاظت میں کلیدی کردار اداء کیا ھے اور اشاعت دین میں وہ کارھائے نمایا انجام دئے ھیں جسکی مثال نادر ھے اور زمانئہ موجودہ میں بھی دنیاوی ھنگاموں سے صرف نظر خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ امت کی خدمت اور صالح معاشرہ کیلئے جس انداز سے خود کو خدمت کیلئے وقف کررکھا ھے وہ قابل تحسین ھی نہیں لائق تقلید بھی ھے
سرد و گرم ماہ و سال اور تلخ و شیریں ایام و لیالی سے لڑتے جھگڑتے اور موجودہ زمانے کے نامساعد حالات سے گزرتے ھوئے انسانیت کی تعمیر اور دین شریعت کی تبلیغ اور انسان سازی کی انتھک کوششوں سے جوجھتے ھوئے مدارس نے امت کے واسطے جس طریقہ سے خود کو مصروف عمل کررکھا ھے وہ بیان سے پرے ھے
حقیقت یہ ھیکہ یہ دینی قلعے وہ فیکٹریاں ھیں جن میں انسانیت ڈھالی جاتی ھے مردم سازی کو وجود بخشا جاتا ھے انسانیت کی تعمیر کی جاتی ھے باطل سے ٹکرانے والے افراد تیار کئے جاتے ھیں مغربی تہذیب کو ٹھوکر مارنے والے رجال پیدا کئے جاتے ھیں امت کو فاسقانہ اور جاھلانہ طرز ذندگی اپنانے سے روکنے کیلئے خطباء و صلحا پیدا کئے جاتے ھیں اور انکے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے فقھاء و علماء تیار کئے جاتے ھیں پھر بھی چند روشن خیال اور کم عقل اسکے وجود کو امت کیلئے زحمت سمجھتے ھیں اسکی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ھیں فارغین مدرسہ کو دقیانوسی تصور کرتے ھیں جبکہ روشن خیالوں کو یہ ذھن نشین ھوناچاھئے کہ یہ مدارس کے فضلاء اپنی روشن ضمیری سے نہ یہ کہ شعائر اسلامی کی نگہبانی کرتے ھیں بلکہ امت محمدیہ کی خیرخواھی میں آسمان و زمین کو ایک کرتے ھوئے رب کی ناراض گی دور کرنے میں خون کے آنسو بہاتے ھیں آہ سحر گاھی سے صبح روشن کی تلاش میں سرگرداں ھوتے ھیں

امت میں پنپ رھی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے تگ و دو کرتے ھیں اور ساتھ ھی وسائل کی تنگ دامانی کی جنگ بھی تنہا انکے ذمہ آتی ھے کاموں کو صحیح طور سے انجام دینے کا چیلنج یوں ھی کچھ کم نہیں مزید برآں مالی انتظام اور پیش آمدہ بحران ارباب انتظام کی جان سکتہ میں ڈال جاتا ھے
جیسے ھر انسان کی ایک انفرادی زندگی اور انفرادی ضرورت ھے اسی طرح اسکی ایک اجتماعی زندگی اور اجتماعی ضرورت بھی ھے یہ بھی ظاھر ھیکہ انفرادی زندگی کا قلیل مصارف سے کام چل سکتا ھے بلکہ جو لوگ اپنی نجی زندگیوں پر کم خرچ کرتے ھیں وہ بہت آزاد اور بہت سی پریشانیوں سے محفوظ رھتے ھیں لیکن اجتماعی زندگی کثیر مصارف رکھتی ھے اور ھم سے پچھلے لوگوں کی اس جانب کثیر توجہ اور اسکے انتظام میں بڑی محنتیں رھی ھیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیا اسکی زندہ مثال ھیں فاقہ کے عادی، کم کھانا ،لباس فاخرہ سے بیزاری، انہیں وجوھات کے بناء پر انکا ذاتی خرچ بھی کم سے کمتر تھا وہ اپنی نجی زندگیوں سے کافی مطمئن تھے ھر فرد قومی ترقی پر زیادہ توجہ دیتا تھا اور اسکے لئے ھمہ وقت کوشاں رھتا تھا اپنی مصارف ضروریہ میں بھی کاٹ کپٹ کر ملک و ملت کی طرقی پر متوجہ تھا حتی کہ صرف صدقہ کرنے اور انفاق فی سبیل اللہ کیلئے وہ مزدوری کرتے اور بوجھ لادتے اتارتے تھے آج ھماری سوچ اسکے برعکس ھے ھم اپنی ذاتی زندگیوں پر خرچ کو حد سے تجاوز کرچکے ھیں شادیوں پر بے انتہا خرچ اور نام نمود کیلئے پیسوں کو پانی کی طرح بہانا ھمارا طرۂ امتیاز بن چکا ھے اسی وجہ سے ھمارا ھر قومی و ملی کام معطل ھوکے رہ گیا ھے ھزاروں مالداروں کے بیچ کی مسجد کا امام وقت پر تنخواہ پانے کا منتظر رہ جاتا ھے ھمارے مکاتب بے یار و مددگار خراب سے خراب تر ھورھے ھیں اساتذہ کی تنخواہ بوجھ بنکر رھگئی ھے بچیوں کی تعلیم کیلئے کسی معقول مدرسہ اور اسکول کا انتظام نہیں جبکہ اسکے بر عکس یہود نصاری اپنی اجتماعی زندگی میں ترقی کے بام عروج تک پہونچتے جارھے ھیں مشینریوں کا جال بچھتا نظر آرھا ھے کلیساؤں کے رنگ و روغن انکے اپنوں کے متوجہ ھونے کی داستانیں بیان کررھے ھیں پادریوں کا احترام و وقار انکی قوم کی مذھب پرستی کو اجاگر کررھا ھے یہود و نصاری اپنے مذھبی پیشواؤں اور مذھبی مقامات کو ترقی دینے کیلئے اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار بیٹھے ھیں حاکمین زمانہ انکے سامنے جھکے جارھے ھیں خود ھمارے ملک ھندوستان میں بھی آرایس ایس جیسی مذھبی تنظیم سیاسی وجود کو مذھبی ڈھانچے میں ڈھالتی نظر آرھی ھے ملک عزیز کا وزیر اعظم بھی انکی منشاء کو چیلنج کرنے کی تاب نہیں رکھتا آج ھم سبکو آنکھیں کھولکر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ھے مکاتب کے احیاء اور مدارس کو کمک پہونچانے کی فکر اوڑھنے کی ضرورت ھے آگے بڑھکر اسلامی قلعوں کو بچانے اور انکے وقار میں اضافہ کیلئے سر جوڑ کر سوچنے کی ضرورت ھے یاد رکھیں! اگر یہ ھمارے دینی شعائر اپنے خرچوں کے بوجھ تلے دب گئے تو ھم بھی سر اٹھاکر جینے کا حق کھو دینگے

ساتھ ھی ارباب مدارس کو بھی پیش آمدہ حالات اور اسکے وجوھات پر غور کرنے نیز خود کو امانت کے تقاضوں پر کھرا ثابت کرنے اور خیانت سے دور رکھنے کی ضرورت ھے خیانت صرف مالی خرد برد کا نام نہیں بلکہ کارکنین مدرسہ کو انکے مقررہ کاموں کا پابند نہ بنا پانا نیز اساتذہ کا طلباء کے مکمل حقوق خاص طور پر تعلیم و تربیت میں کمی کرنا بھی خیانت کے زمرہ میں آتا ھے اسپر خاص توجہ کی ضرورت ھے والد ماجد حضرت محسن الامت نوراللہ مرقدہ نے بارھا فرمایا کہ یہ کام اللہ کا ھے اور وہ اپنے خزانہ سے اسکی کفالت فرماتا رھیگا بس امانت و دیانت کا دامن نہ چھوڑنا خیانت پر خصوصی نگاہ رکھنا کسی بھی شعبہ میں امانت کا فقدن ساری ھریالی کو نگل جائیگا اللہ تعالی ھم سبکو اپنی پناہ میں رکھے اور تمام دینی شعائر کی حفاظت فرمائے ایک بات اور جو اھل مدارس کے لئے خاص توجہ کا مرکز ھونی چاھئے وہ یہ کہ ھمیں بھی قوم کو کچھ دینے کی فکر اوڑھنی چاھئے ھم انسے انکا مال (روپیہ) تو لے لیتے ھیں پر انہیں اپنا مال( دین) دینے کی فکر نہیں کرتے سال کے کچھ خاص دنوں میں اپنی غرض سے ملاقات تو کرتے ھیں پر اور دنوں میں انہیں سنبھالنے کی فکر نہیں کرتے ھمیں بھی امت کو دینے فکر کرنی چاھئے اگر ھم نے انکو دین سے جوڑدیا تو یقینا دینی ضرورتوں کو وہ خود آگے بڑھکر پوری کرنے کی فکر کرینگے اور ھر موقعہ پر ازخود بڑھ چڑھکر حصہ لینگے اللہ تعالی ھم سبکو امت کی فلاح و بہبود کی فکر اوڑھنے والا بنائے اور امت کے مخیر حضرات کے دلوں میں دینی شعائر کی اھمیت و محبت کو اجاگر فرمائے ........آمین

جین پور: سڑک حادثے میں مینی بس بال بال بچی، گھنٹوں لگا رہا مارکیٹ میں جام!

جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جنوری 2019) جين پور کوتوالی علاقے میں وارانسی شیوپور سے گورکھپور نوتنواں کے لئے شادی میں جا رہی ایک مینی بس موٹر سائیکل سوار کو بچانے کے چکر میں صبح تقریبا ساڑھے چار بجے مچھلی مارکیٹ کے قریب پلیا پر بنے نالے پر چڑھ گئی، جس سے مسافروں کی جان آفت میں پڑ گئی یہ تو اتفاق تھا کہ بس کھائی میں نہیں گری اور تمام مسافر بال بال بچ گئے، جس سے پورے دن اعظم گڑھ دوہری گھاٹ روڈ جام سے جھجھتا رہا،
جس سے مسافرین اور سواری گاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، كافی مشقت کے بعد دیر شام پولیس نے جے سی بی لگوا کر بس کو نکلوا کر پلیا سے ہٹوایا، تب جاکر جام سے نجات ملی.
وہیں شیوپور وارانسی سے نوتنوا نیپال بارڈر پر شادی میں جا رہی بس جو پوری بھری ہوئی تھی، جیسے ہی جین پور مچھلی مارکیٹ کے پاس پہنچی کہ سامنے سے آرہے ٹرک کو اورٹیک کرتے وقت ایک موٹر سائیکل سوار آ گیا جسے بچانے کے لئے پلیا کو توڑتی ہوئی پلیا میں پھنس گئی، جس میں دو درجن سے زیادہ خواتین سمیت مرد بال بال بچ گئے، صبح پانچ بجے سے لے کر دن بھر جام لگا رہا، موقع پر پہنچی پولیس جام کو ہٹوانے کے لئے جے سی بی بلا کر دیر شام جام سے نجات دلایا.

لال گنج میں سحر ہیلتھ سینٹر میں مفت طبی جانچ!

لال گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جنوری 2019) لال گنج تحصیل کے صدر گیٹ کے سامنے سحر ہیلتھ سینٹر  میں مفت طبی جانچ کا اہتمام کیا گیا، جس میں دوا کی مشہور کمپنی سپلا سے انجنی  سنگھ اور ٹی بی چیسٹ کے مشہور معالج ڈاکٹر گلزار احمد اعظمی نے تقریباً  95 مریضوں کا مفت چیک اپ کیا اور صلاح کے ساتھ دوا بھی تقسیم کیا.
ڈاکٹر گلزار احمد اعظمی نے وہاں موجود مریضوں سے کہا کہ دمہ کے مریض سردی کے اس موسم میں ٹھنڈی اشیاء بالکل ہی نہ استعمال کریں اور ساتھ ساتھ گرم اور اونی کپڑوں کو پہنیں، پان و سیگریٹ نوشی سے بچیں.
اس موقع پر محمّد عاطف، کامران، پرمود، سنجنی گپتا، برکت علی، اجیت کمار موجود تھے.

پھولپور: سدنی پور کے قریب آر کے آٹو موبائلس کا افتتاح!

پھولپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جنوری 2019) ضلع اعظم گڑھ کا مشہور قصبہ جسے دیار کیفی  کہا جاتا ہے پھولپور لکھنؤ روڈ پر واقع سدنی پور کے قریب آر کے آٹو موبائلس کا افتتاح معروف سماجی کارکن و تاجر محمّد شاہد خان کے والد الحاج سفیان خان منڈیار نے فیتہ کاٹ کر کیا، اس دوران انہوں نے کہا
کہ آج حلقہ پھول پور میں جس انڈو فارم ٹریکٹر کی ایجنسی کا ہم نے افتتاح کیا ہے یہ ہمارے حلقہ کیلئے انوکھی دین ہے، انہوں نے کہا کہ تجارت ہمارے نبی کی سنت ہے، لیکن باحیثیت مسلمان ہونے کے ہمیں اپنی تجارت میں شفافیت لانی چاہیے، اگر ہم نے نبی کے طرز عمل پر تجارت کی تو اللّه اس میں دن دونی رات چوگنی ترقی دے گا، اور اس میں برکت بھی ہوگی.
اس موقع پر مرزا ابوعبیدہ  بیگ، حکیم خان، رحیم خان، کریم خان، رحمان خان، ابو رویفہ شیخ، محمّد ارحم  خان، محمّد اشعار خان سمیت کافی تعداد میں لوگ موجود تھے.
آخر میں آر کے موبایلس کے پروپرائٹر محمّد خالد خان نے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.

Monday 28 January 2019

ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے مدنظر ملی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت: طلحہ رشادی

مولانا عامر رشادی مدنی نے ملک کی مسلم سیاسی جماعتوں کے صدور کو متحد ہونے کے لئے لکھا خط.

اشرف اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2019) راشٹریہ علماء کونسل اپنے قیام کے روز اول سے ہی اس بات کیلئے کوشاں رہی ہے کہ ملک کی تمام با اثر مسلم قیادت والی سیاسی پارٹیاں آپس میں متحد ہوں،کونسل ہمیشہ اتحاد کی کوششوں کا حصہ رہی ہے اور آئندہ بھی اتحاد کے لئے کوشش کرتی رہے گی، مذکورہ باتیں راشٹریہ علماء کونسل کے قومی ترجمان طلحہ رشادی نے اخباری نمائندوں سے ایک گفتگو میں کہا۔
طلحہ رشادی نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات کے مدنظر یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ملک کی تمام بااثر اور خاص طور سے صوبہ اتر پردیش کی سبھی مسلم قیادت والی پارٹیاں آپس میں متحد ہو کرآنے والے پارلیمانی انتخاب کا سامنا کریں اور اپنی طاقت و اتحاد کا پیغام ملکی پیمانے پر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو دیں۔یوپی کے سپا بسپا گٹھبندھن نے مسلم سیاسی جماعتوں کو حصہ داری نہ دے کر اسے ختم کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کی جو سازش کی ہے اس کا منھ توڑ جواب دیا جا سکے۔اسی بات کو لیکر ہمارے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی نے پچھلے دنوں پریس کانفرنس کر گٹھبندھن کو ٹھگ بندھن اور مسلم قیادت کو ختم کرنے کی سازش قرار دیا تھا اور سخت لفظوں میں کہا تھا کہ یوپی میں نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم آبادی کے تناسب سے مسلم پارٹیوں سے اتحاد کریں اور ان کوبھی سیٹوں میں حصہ داری دیں ورنہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔سیکولرجماعتوں کی طرف سے کچھ حرکت نہ کرنے ،حالات کے تناظر اور ملت کی ایک عرصے سے رہی اتحاد کی تمنا کو سامنے رکھتے ہوئے قومی صدر مولا نا عامر رشادی مدنی نے ملک اور ملت کے مفاد میں پہل کرتے ہوئے ایم آئی ایم ،پیس پارٹی،اے آئی یو ڈی ایف،ایس ڈی پی آئی ،انڈین نیشنل لیگ، ویلفیئر پارٹی، مسلم مجلس سمیت درجنوں مسلم قیادت والی بااثر پارٹیوں کے صدور کو ایک خط لکھا ہے جس میں ملک کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے باہمی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے اور سبھی سے مل بیٹھ کراس پر چرچا کرنے اورکوئی مثبت راستہ نکال کرایک نئے متبادل کے طور پر مضبوط متحدہ محاذ بناکر انتخاب میں حصہ لینے اور ۷۰ سالوں سے مسلمانوں کے ووٹ سے راج کرنے اور انہیں غلام بنائے رکھنے والوں کو سبق سکھانے اور قوم کوباوقار بنانے کی گزارش کی ہے۔
طلحہ رشادی نے مزید بتایا کہ زیادہ تر صدور کو خط ارسال کر دی گئی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ مثبت رویہ اور قوم و ملت کے بہتر مستقبل اور مسلم قیادت کو مضبوط اور اپنے وجود کو مستحکم بنانے کے لئے ان شاء اللہ سبھی پارٹیوں کے صدور مولانا کی اس کوشش کو سراہیں گے اور ایک بہتر لائحہ عمل تیار کرنے پر آمادہ ہونے کے ساتھ ہی ملت کے انتشار کو باہمی اتحاد میں بدلنے پر غور ضرور کریں گے۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء کا ایک علمی ستارہ روپوش!

تحریر: مولانا محمد یوسف صاحب قاسمی ندوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ دنیا ایک فانی جگہ ہے، جہاں سے روزانہ انسانوں کے آنے کی طرح جانا بھی لگا رہتا ہے، اور ہر ایک کو اپنے متعلقین کے جانے سے غمی اور تکلیف ہوتی ہے، لیکن بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے سے چند گنے چنے افراد کو تکلیف نہیں ہوتی ہے، بل کہ ایک عالم سوگوار ہوجاتا ہے، انھیں عظیم تر شخصیات میں ایک نام حضرت مولانا سید واضح رشید صاحب ندویؒ معتمد تعلیمات دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا بھی ہے، جو ابھی حال ہی میں 16/ جنوری 2019ء کو یہ دار فانی چھوڑ کر دار ابدی کی طرف منتقل ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا سید واضح رشید ندوی صاحب نور اللہ مرقدہ کے سانحہ ارتحال سے صرف قریبی اعزہ واقرباء ہی نہیں پورا عالم اسلام گریہ وزاری کی زد میں آگیا،اور ہر ایک نے اپنے تحت تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر زبان حال اور زبان قال سے رنج و غم کا اظہارکیا اور مختلف مقامات پر تعزیتی پروگرام منعقد کئے گئے اور حضرت والا مرحوم کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرکے قلب وجگر کو تسلی دی گئی، ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور وہ سب کچھ کیا گیا جو سید الکونین ﷺ نے کرنے کا حکم دیا تھا، کیونکہ عالم اسلام کے علمی حلقوں کو جو نقصان اور خسارہ ہوا ہے اس کی تلافی ناممکن معلوم ہو رہی ہے ۔
حضرت مولانا سیدواضح رشید ندوی صاحب سادہ مزاج اور کم گو انسان تھے، اپنے بلند اخلاق وکردار،تواضع وانکساری اور عاجزی ومتانت کی وجہ سے ہر کسی کے محبوب اور منظور نظر تھے، ہندوستان اور ہندوستا ن کے علاوہ مختلف ممالک میں اس ناگہانی حادثہ پر تعزیتی پروگرام اورایصال ثواب کی نشستوں کا انعقاد آپ کی ذات گرامی کی مقبولیت کی بین دلیل ہے، حدیث میں فرمایا گیا:  ’’من تواضع للہ رفعہ اللہ‘‘ (مشکوۃ شریف) کہ جس نے اللہ کے لئے تواضع اختیار کیا اللہ نے اس کو بلند کیا ۔
حضرت مولانا سیدواضح رشیدصاحب کی ولادت ۱۰؍اکتوبر ۱۹۳۵ء؁ کو ہوئی، آپ نے اپنے آبائی گاؤں کے خاندانی مکتب سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا، اس کے بعد عربی تعلیم کے لئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا اور یکسوئی وتندہی کے ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہے اور۱۹۵۱ء؁میں ندوہ ہی سے فضیلت تک کی تعلیم مکمل کی، پھر اس کے بعد ۱۹۵۳ء؁ میں انٹر پاس کیا اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے انگریزی لیٹریچر میں ایم۔ اے۔ کیا، ۱۹۵۳ء؁ سے ۱۹۷۳ء؁ تک آپ نے ریڈیو کے شعبہ عربی میں اناؤنسری کی حیثیت سے ملازمت کی اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے ایماء پر ندوۃ العلماء تشریف لائے اور اس وقت سے تادم حیات اپنے مادر علمی کے چشم وچراغ بن کر علمی ،ادبی، فکری اور صحافتی کارناموں کے ذریعہ روشن وتابناک نقوش ثبت کیے۔
آپ کو ۲۰۰۶ء؁ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم کے عہدے کے لئے منتخب کیا گیا، آپ ندوہ کے عربی جریدہ ’’الرائد‘‘کے چیف ایڈیٹر اوراور ماہنامہ ’’البعث الاسلامی‘‘ کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے، اس کے علاوہ متعدد شعبوں کے ذمہ دار بھی تھے اور ساتھ ہی ’’رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے جنرل سکریٹری بھی تھے، مولانا مرحوم تاریخ ادب عربی کے انسائیکلو پیڈیا تھے، انہیں اردو ،انگریزی اور عربی میںمکمل مہارت حاصل تھی، عالمی احوال پرگہری نظر رکھتے تھے، اس میں دو رائے نہیں کہ مولانا دین کے مخلص خادم اور صحافت کے سچے علمبردار تھے، یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے تمام طبقات میں ہر دل عزیز ومقتدر اور اپنے علم وعمل، بلند اخلاق وکردار کی بناء پر نہایت قد آور اور نیک شہرتوں کے حامل انسان تھے۔
حضرت مولانا صف اول کے صحافی اورمفکرو ادیب تھے، آپ نے مغربی تہذیب کو قریب سے دیکھا تھا، اس کی عیاریوں اور مکاریوں سے بخوبی واقف تھے، اسی لیے  عالم اسلام کے اندوہ ناک حالات، اس کے احوال وکوائف اور مغرب کی سازشوں کے خلاف قلم اٹھاتے رہے،آپ متعدد عربی واردو کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ معروف اسکالر بھی تھے،حضرت والا کی ذاتی زندگی عبادت وریاضت ،متانت وسنجیدگی،زہدورع کی پیکر تھی، آپ ہر قسم کے لہو لعب اور خرافات سے گریز کرتے اور بقدر ضرورت بولتے تھے، اور یہی تمام چیزوں کے مجموعے نے مولاناکو علمی درجات کی بلندیوں تک پہنچایا، اسی لئے تو مولانا نے سترہ سالہ ابتدائی زندگی میں سندفراغت حاصل کرلیا ۔
مولانا مرحو م مولانا ابو الحسن علی حسنی ندویؒ کے بھانجے تھے اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم اعلیٰ اور مسلم پرسنل لاء کے صدر حضرت مولانامحمدرابع حسنی ندوی زید مجدہم کے چھوٹے بھائی تھے، سفر وحضر کے ساتھی صبح وشام کے رفیق ومشیر تھے، حضرت مرحوم کے قرآنی ذوق کایہ حال تھا کہ اخیر دور میں اپنی آنکھوں کی بینائی کمزور ہوجانے کے باوجودروزانہ پانچ پارے تلاوت فرماتے تھے یا پھر دوسروں سے سنتے تھے ۔
حضرت مولانا مرحوم کے سانحۂ ارتحال کا واقعہ گزشتہ ۱۶؍جنوری کی صبح ۲۰۱۹ء؁کو بوقت تہجد پیش آیا اور ۸۴؍سال کی عمر میں صدائے رب ذوالجلال پر لبیک کہا اور دار الفنا ء سے دارالبقاء کے لئے رخت سفر باندھااور ہزاروں لوگوں کی چشم کو آبدیدہ کرکے مالک حقیقی سے جاملے اور یہ پیغام دیا کہ:
 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے ٭یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
حضرت مولانا مرحوم کی نماز جنازہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے گراؤنڈ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ادا کی گئی اور پھرحضرت کو آبائی گاؤں رائے بریلی میں منتقل کیا گیا اور وہاں پر بھی نماز جنازہ پڑھی گئی اور ان کے آبائی قبرستان دائرہ شاہ علم اللہ تکیہ کلاں میں تدفین کی گئی۔
اللہ سے دعا ہے کہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت میں بلند واعلی درجات سے ہمکنار کرے، اور اپنی رضا نصیب فرمائے۔ آمین
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

مدرسہ معین الاسلام اسارہ میں جاری بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ جمعیۃ یوتھ کلب کا سہ روزہ کیمپ اختتام پزیر!

رپورٹ :محمد دلشاد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسارہ بڑوت/باغپت (آئی این اے نیوز 28/ جنوری 2019) ضلع باغپت کے موضع اسارہ کے مدرسہ معین الاسلام میں گزشتہ تین روز جاری بھارت اسکاؤٹ اینڈ گائڈ جمعیۃ یوتھ کلب کا کیمپ آج اختتام کو پہونچا، جس کی صدارت حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب صدر جمعیۃ علماء ھند ضلع باغپت نے فرمائی، مہمان خصوصی کی حیثیت سے حافظ محمد قاسم صاحب جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ھند ضلع باغپت نے شرکت فرمائی.
پروگرام کا آغاز تلاوت کلام اللہ اور نعت نبی سے ہوا ،کیمپ میں شریک "اسکاؤٹ" اور روورس سے طرح طرح کے پروگرام پیش کیے ،ٹریفک نیم ،اور ووٹنگ کی اہمیت ،اور ماں باپ کی فرماں برداری ،سے متعلق ڈرامائی شکل میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں پروگرام پیش کیے ،
اس کے بعد مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے حافظ محمد قاسم صاحب نے اسکاؤٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ،اور نوجوان جوکہ ہر قوم کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں ان کو چاک چوبند رکھنے کے لیے اور ان کی تندرستی کو برقرار رکھتے ہوئے ،ملک و ملت کی خدمت کے جذبہ کو اجاگر کرنے کے لیے اہم کوشش ہے ،اس لیے ہم سب اپنے نوجوانوں کو اس منسلک کرائیں اور اپنی نوجوان نسل کو برباد ہونے سے بچالیں.
پروگرام کی صدارت فرمارہے حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب نے کہا کہ جمعیۃ علماء ھند ملک کی وہ واحد تنظیم ہے جو ملک کے لیے اور ملت اسلامیہ کے لیے ہر مشکل میں شانہ بہ شانہ کھڑی رہتی ہے، مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے لیے ہر میدان میں ہر ممکنہ راحت رسانی کی کوشش کرتی ھے اس لیے ہم جمعیۃ علماء ھند سے مل جل کر آگے بڑھے ،اور ملک میں بھائی چارگی کو رواج دیں اخلاق حسنہ کو اپنائے تاکہ اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے.
کیمپ حضرت مولانا محمد واصف صاحب ٹرینر اسکاؤٹ اینڈ گائڈ ،اور شبلی احمد کی نگرانی میں جاری رہا ،نظامت کے فرائض بھی مولانا محمد واصف صاحب نے ہی انجام دیئے.
اس موقع پر مفتی محمد خلیل صاحب امام و خطیب شاہی جامع مسجد اسارہ ،مولانا محمد جابر صاحب ،قاری محمد صابر صاحب صدر تحصیل بڑوت جمعیۃ علماء ھند ،حافظ محمد لیاقت صاحب ،ماسٹر عبد القیوم صاحب ،مولانا محمد الیاس صاحب ،قاری عبد الواجد صاحب مہتمم مدرسہ دارالقرآن فریدیہ بڑوت ،وکیل چودھری محمد طارق فلاحی نمائندہ اخبار مشرق، مفتی محمد دلشاد قاسمی ناظم مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام روشن گڑھ ،اور گاؤں کے معزز افراد بڑی تعداد میں موجود ریے ،جنہوں نے بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کی.
آخر میں صدر محترم کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا ،مولانا محمد فاروق صاحب مہتمم مدرسہ معین الاسلام اسارہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.

اپنے ایمان کیساتھ اپنوں کے ایمان بچانے کی فکر کیجیے: مولانا سید انظر حسین میاں صاحب

محمد ابراہیم قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2019) خدارا، بچوں اور بچیوں کی تعلیم وتربیت کی فکر کیجیے، شیطان مردود کے اس عہد کو ضرور یاد رکھئے جب روز اول اس نے  گڑ گڑا کر اللہ میاں کے سامنے یوں کہا تھا کہ اے اللہ میں تو برباد ہو چکا ہوں مجھے آپ صرف قیامت تک کیلئے مہلت دے دیجئے،
میں ابن آدم کو جس طرح سے چاہوں بہکاؤں، آج ساری دنیا میں شیطان پوری قوت کے ساتھ ہم پر یلغار کیلئے تیار ہے اسلئے خود سنبھلئے اور دوسروں کو سنبھالئے اپنا اور آنے والی نسلوں کا ایمان بچانے کی فکر کیجئے، ان خیالات کا اظہار مشہور عالم دین پیر طریقت مصلح الامت مولانا سید انظر حسین میاں صاحب رکن شوری دارالعلوم دیوبند نے محمد مثال ابن محمد شہزاد  متعلم جامعہ قاسمیعہ دارالتعلیم والصنعہ قاسم پورہ دیوبند کے تکمیل حفظ قرآن کی تقریب میں کہا.
 شعبہ تنظیم وترقی کے ناظم اعلی مولانا محمد راشد صاحب نے قرآن کریم اور تعلیم کی اہمیت وضرورت پہ مفصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کی گھر گھر جائیے اور محلہ کے پانچ تا بارہ سال کے بچوں اور بچیوں کا ۱۰۰ فیصد ایمان بچانے کی پوری توجہ کیساتھ کوشش کیجئے، بچوں کے والدین سے ملاقات کیجئے، شہر کے باشعور دیندار فکرمند احباب، علماء کرام، مساجد کے امام و موذنین حضرات کو متوجہ کیجئے کہ آنے والی اندھیری رات اپنی آمد کو بتا رہی ہے.
قاری محمد ایوب صاحب مہتمم جامعہ سبیل السلام تلہیڑی کی تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا، نظامت کے فرائض مولانا محمد ابرہیم قاسمی ناظم جامعہ نے انجام دیا، مہمان خصوصی کی حیثیت سے مولانا محمد امین صاحب رکن تنظیم وترقی دارالعلوم دیوبند، مولانا سید مفتی محمد طاھر قاسمی مدیر ماہنامہ پیام اختر دیوبند، مولانا عبدالحنان صاحب مہتمم مدنی دارالعلوم دیوبند، مولانا قاری تجمل حسین سابق استاد مدرسہ اصغریہ، قاری زبیر احمد واصفی، نوید عثمانی، قاری سیف الاسلام محمد شہزاد، محمد احمد، محمد کاشف، محمد عارف، محمد عفان اور جامعہ کے تمام اساتذہ وطلباء موجود رہے.
 حضر ت میاں صاحب کی دعاء پہ مجلس کا اختتام ہوا، ادراہ کے ناظم امور تعلیم وتربیت مفتی منور حسین قاسمی نے تمام شرکاء بزم کا شکریہ ادا کیا.

Sunday 27 January 2019

یوم جمہوریہ کی تقریب عظیم تاریخ کی یادگار ہے: مفتی ارشد رحمانی

دربھنگہ(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019)یوم جمہوریہ کے موقع پر مکتبہ احمد بازیدپور قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں ایک اہم پروگرام منعقد ہوا، پروگرام کا آغاز پرچم کشائی سے ہوا، مفتی ارشد رحمانی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ دربھنگہ نے ہندوستان کا پرچم لہرایا، پھر مکتبہ احمد کے طلبہ وطالبات نے قومی ترانہ پیش کیا، قومی ترانہ کے بعد مفتی ارشد رحمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یوم جمہوریہ ایک عظیم تاریخ کی یادگار ہے،
14/اگست 1947ء کویہ ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا اور 26/جنوری 1950ء کو بابا بھیم راؤ امبیڈکر کے ذریعہ تیار کیا گیا دستور اس ملک میں نافذ ہوا اور وہ دستور جمہوری تھا،سیکولر تھا، جس میں ہندوستان کے ہر شہری کو اس کے مذہب، تہذیب و ثقافت، اور رسم و رواج کے ساتھ زندگی گزارنے کی مکمل ضمانت دی گئی تھی اسی لیے آج کے دن پورے ہندوستان میں تقریب منائی جاتی ہے اور اس کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ اس ملک کا ہر شہری اس ملک کے دستور کے مطابق امن کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتا ہے، موصوف نے کہا کہ یہ ملک جمہوری ہے یہاں کا دستور جمہوری ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر مذہب کے ماننے والے خوشی ومسرت کے ساتھ مل جل کر اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ہندوستان مختلف تہذیبوں کا گہوارہ اور گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار کہلاتا ہے، موصوف نے کہا کہ وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اس لیے ہمیں اپنا وطن اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، ہم نے ملک کی آ زادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور ضرورت پڑی تو آ ج بھی ہم اپنے وطن کے لیے جان دے سکتے ہیں، موصوف نے کہاکہ گزشتہ چند برسوں میں اس ملک کی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے اور کچھ ناپاک طاقتوں نے اس ملک کی جمہوریت پر حملے کئے ہیں ہم سبھوں کو مل جل کر ایسے لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے وطن کی تعمیر وترقی میں حصہ لینا ہے.
 مولانا نوشاد عالم اشاعتی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، قاری عمران اصلاحی ناظم مکتبہ احمد نے اولا آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر سامعین کو یوم جمہوریہ سے متعلق اہم باتیں بتائیں، اس کے بعد مکتبہ احمد کے بچوں نے دیر تک مختلف طرح کے پروگرام پیش کئے، بچوں کے درمیان انعامات بھی تقسیم کئے گئے مفتی ارشد رحمانی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ کے ہاتھوں بچوں کو انعام سے نوازا گیا.
پروگرام میں محلہ اور شہر کے ذمے داروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور مکتب کی ترقی کے لئے دعائیں کی، قاری عمران اصلاحی کے کلمات تشکر کے ساتھ پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

جشن یوم جمہوریہ کے موقع پر مدرسہ صفہ میں شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے لہرایا ترنگا.

مسلمان نہ ہوتے تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوتا: شاہ ملت

محمد فرقان
ــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) 26؍جنوری، یوم جمہوریہ کے موقعہ پر مدرسہ صفہ، بیٹاداس پورامین روڈ، بنگلور میں پرچم کشائی کی تقریب منعقد کی گئی۔ جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت مدرسہ ہذا کے سرپرست اعلیٰ معروف عالم دین، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی دامت برکاتہم نے شرکت کی۔ تقریباً صبح نو بجے حضرت شاہ ملت کے دست مبارک سے ترنگا لہرایا گیا
اور طلباء مدرسہ نے قومی ترانہ پڑھا۔ اس حسین موقع پر مدرسہ ہذا کے طلبہ نے جید انداز میں حمد، نعت و تقاریر کا مظاہرہ بھی کیا۔ جس کے بعد مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہندوستان کی جنگ آزادی کے اولین مجاہدین مسلمان ہیں۔1757ء سے لیکر 1857ء تک فقط مسلمان انگریزوں سے لڑتے رہے۔اس سو سال کے طویل عرصے میں کسی اور قوم کا نام و نشان نہیں ملتا۔انہوں نے تو انگریزی حکومت سے مصالحت کرلی تھی۔کیونکہ آزادی کے لئے جد و جہد نیز جہاد و شہادت کا تصور فقط اسلام میں ہی ملتا ہے، دیگر ادیان و مذاہب درس جہاد و شہادت سے خالی ہیں اور اسلام قید و غلامی کی سخت مذمت کرتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ مسلمانوں نے برادران وطن کو آزادی کا سبق پڑھایا تھا۔اگر مسلمان نہ ہوتے تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوتا۔لیکن آج مسلمان سے ہی انکی شہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہیکہ آج خود مسلمان اپنی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے۔مولانا نے فرمایا کہ آج ضرورت ہیکہ ہم اپنے مجاہدین آزادی کی تاریخ کو یاد کریں، اپنی نسلوں کو بتائیں، جس تاریخ کو اغیار نے مٹادیا ہے اسے زندہ کریں۔قابل ذکر ہیکہ مذکورہ نشست میں اہلیان محلہ و محبین شاہ ملت بھی شریک تھے۔

آزادی لاکھوں علماء کی قربانیوں کا نتیجہ: مولانا محمد علی نعیم رازی

دارالعلوم نظامیہ میں یوم جمہوریہ کا پروگرام منعقد.

اکوہرہ/سیتاپور(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) ضلع سیتاپور قصبہ اکوہرہ کے مدرسہ دارالعلوم نظامیہ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر طلباء نے پروگرام پیش کیا، جس میں مولانا محمد علی نعیم رازی اور مولانا جاوید قاسمی نے پرچم کشائی کی، جب کہ نظامت کے فرائض حافظ محمد شفقت نائب مہتمم مدرسہ ھذا نے انجام دیئے، مجلس کا آغاز تلاوت کلام اللہ اور ھدیہ نعت پیش کرکے کیا گیا،
طلباء اور طالبات نے بڑا ہی خوبصورت انداز میں پروگرام پیش کیا جس میں مکالمہ تقریر اور نعت پیش فرمائی، بعدہ علماء کرام نے ھندوستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی.
 مولانا محمد جاوید قاسمی کارگزار مھتمم نے کہا کہ اس ملک کی بقاء و وجود میں مسلمان اور علماء کی بے شمار قربانیاں ہیں،  مھمان خصوصی مولانا محمد علی نعیم رازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس اسلامیہ اس ملک میں خدا کی دین ہے اور ان مدارس کا اس ملک پر بے پناہ احسانات ہیں جن کا بدلہ یہ وطن تاقیامت نہیں چکا سکتا.
مولانا محمد علی نعیم رازی نے جہیز وغیرہ معاشرتی بیماریوں کو بھی ختم کرنے یی درخواست کی اور حاضرین سے عھد بھی کرایا.
مجلس کا اختتام مولانا محمد علی نعیم رازی صاحب کی رقت آمیز دعاء پر ہوا.
 اس موقع پر پرنسپل عزیزالرحمان پردھان، قاری محمد اسلم، قاری عظیم احمد، قاری ابرار، حافظ شفقت، مجیب الرحمان  و دیگر اساتذہ و اہل بستی کثیر تعداد میں موجود رہے.

جشن جمہوریہ میں ڈوبا ہوا ملک ھندوستان!

سلیمان سعود رشیدی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
آج جنوری کی 26؍تاریخ ہے جسے ہمارے ملک ہندوستان میں یوم جمہوریہ کے طور پرمنایا جاتا ہے،آج پورا ملک اسی کے جشن میں ڈوباہوا تھا، اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہر سال یہ دن ہمیں ان عظیم رہنماوں کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے ڈاکٹربھیم راو امبیڈکر کی سرکردگی میں مساوات کا علمبردار اور ملک کی ترقی کا ضامن ایک مثالی دستوروطن عزیز کے لیے تیار کیا تھا، جسکی بنیاد پر ہی ہندوستان کا شماردنیا کی عظیم ترین ملکوں میں جمہوری ملک کے طور پرہوتا ہے، اسی مناسبت سے کچھ باتیں پیش خدمت ہے۔
  اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ 15/اگست1947 کو ہمارا یہ ملک آزاد ہوا،آزادی کے بعد آزاد ہندوستان کےلیےدستور وضع کرنے اور اس کو نئی شناخت دینےکا مسئلہ درپیش تھا، ورنہ ہم سیاسی آزادی کے بعد بھی فکری آزادی سے محروم رہ جاتے، اسی مسئلہ سے نبرد آزمائی کے لیےمنتخب افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی،389 افراد کی اس کمیٹی میں ہر طبقہ سے ایک نمائندہ تھا، اسی کو دستور سازاسمبلی کا نام دیا جاتا ہے، ان فعال افراد کی شب وروزمحنت نے 3 /سال کی محنت کےبعد ایک منظم جامع ومانع دستور تیار کیا، اس مرحلہ تک پہنچتے پہنچتے وہ کئی بار تہذیب وتمدن کے گلیوں سے گذراتھا، اس لیے وہ اس قدر منظم ہوگیا  تھا کہ اسکی ہرسطر پاکیزہ قانون اور ہردفعہ سنہرا اصول ماناجاتا تھا، بلاآخر 26 جنوری 1950 کو ملک کے چونتیسویں اور آخری گورنرجنرل سی راجہ گوپالا چاری نے نئے دستور کے وجود میں آنے کا اعلان کیا اس کے بعد ملک کے نئے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا  انہی تقریبات کے ساتھ ہی ہند سے برطانیہ کا رشتہ کلی طور پر ختم ہوگیا، پورے ملک میں ایک انتہائی جامع ومتوازن منصفانہ دستورکی چھاپ تھی جس کی بنیاد پر ہندوستان شوشلسٹ،ڈموکریٹٹ اشٹیٹ شمار کیا گیا جو تمام طبقات کی بلندی کے لیے پابندی عہد تھا۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت، گزشتہ چند برسوں سے بری طرح پامال ہو رہی ہے۔ ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں برباد کرنے کے در پئے ہیں۔ جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگوں کی تشویش دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار آئی ہے، اسی وقت سے بہت ساری تشویشوں کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت جس منصوبہ بند اور منظم طور پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے۔ وہ ضرور اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ملک کے آئین میں تبدیلی لائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے لوگ دبی دبی زبان سے اس خدشے کا اظہار کیا کررہے تھے، لیکن آر ایس ایس نے اپنے کیڈرکے رگ وپئے میں اس طرح آئین کے خلاف زہر بھر ا ہے کہ کچھ لوگ ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بننے یا بنانے میں با با صاحب بھیم راؤ امبیدکرکی رہنمائی میں تیار کیا جانے والا اور نافذ کیا جانے والا آئین ہی رکاوٹ بن رہاہے، اس لئے جتنا جلد ہوسکے، اسے تبدیل کر کے اپنے موافق بنایا جائے۔ آئین بدلنےکی بات، سنگھ کے چھُٹ بھین نیتاؤں کی زبان سے اکثر سنی  اور دیکھی جارہی ہیں۔
ہمیں یہ بات معلوم ہونا چایئےکہ دستورکی 42 ویں ترمیم کی روسے اسے سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے، جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیاجائے گا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے متمتع ہونے اور فائدہ اٹھانے کا پور اموقع مل سکتا ہے۔ آئین کی رو سے ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب حاصل ہے۔ اقلیتوں کو بھی دستور میں ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب، تمدن، زبان کو قائم رکھیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں۔ اس غرض کے لیے اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں، جسپر عمل کے ذریعہ ہر ایک کو ہر طرح کی  آزادی ہوگی، اسی دستور کے بدولت ملک میں امن وامان بھائ چارہ قائم ہوگا”یہ تھا ان اصول کا خلاصہ جسکے حصول کے لیے دنیا کا یہ طویل ترین دستور وضع کیا گیا تھا،آج اسکے مدون ہوئے68 سال سے زائد عرصہ گذراچکا ہےکیا ہم اسکے اصولوں پر کھرے اترے ہیں ؟اگر نہیں تو آج کا دن جشن منانے کے قابل نہیں تھا۔
مذکورہ بالااصول ایسے نمونے پیش کرتے ہیں، جن پرعمل کرکے، ایک زبردست قوت نافذہ کی بھی فراوانی ہو، ایک منظم سماج کی بنیادپڑسکتی ہے۔ دستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے یہ اصول کافی ہیں، لیکن زمینی حقیقت اس سلسلہ میں ہمیں کچھ اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ ان قوانین کا کتنا احترام کیا جا رہا ہے؟ قانون کی بالادستی ہے یادستورکی پامالی؟ قانون کی حکمرانی ہے یاقانون بے چارہ؟ چنانچہ آزادہندوستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت کو داغدار کرنا، پامال کرنا اور اقلیتوں کا استحصال ایک مشغلہ سا بن گیا ہے۔ زبردست قوت نافذہ کے باوجود کتنے قانون کاغذ کے صفحات سے اب تک سرزمین تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ قوانین کی دھجیاں اڑانے والے، دستور کی پامالی کرنے والے اگر اب تک قانون کی زد میں نہیں آسکے، تو یہ جمہوریت کی شکست ہے۔
اس جمہوری ملک میں قانون سازی کا اختیار عوام کے منتخب کردہ لیڈروں کو اس لیے دیا گیا تھا، تاکہ قانون سازی، پالیسی سازی سے عوام کے لیے آسانیاں پیدا ہوں، لوگ آسانی کے ساتھ جی سکیں، نہ کہ جان بوجھ کر منفی سوچ کے ساتھ ایسے قانون لائے جائیں، جو عوام کے لیے اور بالخصوص اقلیتوں کے لیے مشکلات کھڑی کریں اور قانون سازی کے اختیارات کاغلط استعمال کیا جائے۔ جمہوریت کے مندر میں حالیہ واقعات اورگزشتہ چند سالوں میں منفی ذہنیت کے ساتھ بنائے گئے قانون اور پالیمنٹ میں لائے گئے بل شاید یہی بتانا چاہتے ہیں کہ اقلیتوں کے سلسلہ میں دستور میں دی گئی سہولیات کی اب گنجائش نہیں ہے اور اب قانون سازی کے اختیار کو ایک مخصوص ذہنیت کے ساتھ اقلیتوں کے لیے در پردہ مشکلات کھڑی کرنے کے لیے استعمال کیاجائے گا۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہی
افسوس آزادی ملنے کے 68 سال بعد بھی ہمارے اسلاف اور قوم کے رہنماوں کے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے، کیا آج ہم ہندوستان کو ایک ایسا ملک بنانے میں میں کامیاب ہوگئےجہاں سونچھنے اور بولنے کی آزادی  حاصل ہے، کیا ہمارے سماج میں ہر ایک کو انصاف مل گیا، کیا اس ملک سے چھوت چھات  کی لعنت ختم ہوگئی، کیا پسماندہ طبقات کے زخم پر ریزویشن کا مرحم رکھا گیا، کیا مذہبی حقوق ہر ایک کو مل گے،ان سوالوں کا اگر جواب تلاش کریں تو سر شرمندگی سے چھک جاتا ہے۔
آج جب صبح مختلف ریاستوں بشمول راجدھانی کے پرچھم کشائ کا منظر دیکھنے کا اتفاق ہوئے تو ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا، کیا ہم آزاد ہیں ؟ کیا ہمیں جمہوری حقوق حاصل ہیں ؟اس آزادی سے بہتر تو وہ غلامی تھی  کیونکہ میرے ملک کے ترنگے سے  اخلاق کا خون، نجیب کے ماں کے آنسو ٹپک رہے تھے تو کہیں "سارے جہاں سے اچھا "کے نغمہ میں  گورکھپور کے وہ بچوں کی  چیخیں سنائی دےرہی تھی تو برما اور کشمیر کے معصوم بچوں کے آہیں تھی، تو پھر ہم کس منھ سے کہیں کہ ہمارا ملک جمہوری ہے کیا ہمارے اسلاف اور قوم کے رہنما اسی لیے کہا تھا، ” کہ اب وطن تمہارے حوالے ساتھیوں "ان سب کو دیکھتے ہوئے دل صر ف یہی کہتا ہے کہ” دل کو بہلانے کے لئے یہ گمان اچھا”انکے دیکھے ہوئے خواب کچھ اور تھے یقینا کچھ اور ہی تھے، تو انھین شرمندہ تعبیر کرنا ہوگا، آج ہمارے ملک میں چاروں طرف بے ایمانی رشوت خوری اونچ نیچ عدم مساوات تشدد وفرقہ واریت جمہوریت کا فقدان ہی نہیں بلکہ قحط ہے، غریب و دلت پر ظلم کیے جانے والے قانون آئے دن منظور ہورہے ہیں، جن میں اقلیت اور دلت کے جان مال غیر محفوظ ہیں، مذہب کے نام پر سیاست اور سیاست کے نام پر مذہب اور مذہبی عمارتوں کومخدوش کیا جارہا ہے، آج ہم عہد کریں کہ اخلاقیات اور مذہب اور سیاست کے حدود میں رہتے ہوئے  اسلاف کے دیکھے ہوئے خواب کو شرمندہ تعبیرکرینگے۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بس اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے سیکولر لوگ پوری طاقت سے سامنے آئیں اور ملک کو، ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ملک اس وقت ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں سے اسے صحیح راہ کی طرف موڑنے کی بہت سخت ضرورت ہے۔ اگر فرقہ واریت اور منافرت کی راہ پر مُڑ گیا تو ہم کف افسوس ملتے رہ جائینگے اور اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے جتنی قربانیاں دے کر ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا ہے اور جمہوریت قائم کی ہے، یہ سب ختم ہو جائیگا۔ اس لئے آج کے یوم جمہوریہ پر ہم یہی ارادہکریں کہ ملک کی بقا اور اس کی سا لمیت کے لئے ہر قیمت پر ہم یہاں کی جمہوریت کی حفاظت کریں گے۔

کیا اس لیے خوشی مناتے کہ چھبیس جنوری ہے؟

وصی اللہ قاسمی سدھارتھ نگری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے طور پر متعارف وطن عزیز "ہندوستان" کا 70/واں جشن یوم جمہوریہ منائے جانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں، کہیں حفاظتی بند وبست تھا تو کہیں پریڈ کی تیاری. دینی وعصری تعلیم گاہوں کی بات کیجیے یا جماعتی، سرکاری وغیر سرکاری مقامات کی، غرضیکہ ایک منظم شکل میں، آزاد بھارت کی پہچان کے طور پر معروف " ترنگا جھنڈا " ایک بار پھر سہ رنگی انگڑائیاں لینے کے لیے بیتاب تھا اور اپنے دامن میں لپٹے پھولوں کو زمین پر بھیج کر خوشبؤوں اور خوشیوں کو بکھیرنے ہی والا تھا کہ اسی دوران ایک پست آواز سنائی دیتی ہے جو ساری سرگرمیوں کو موقوف کردیتی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بوڑھی عورت اپنے ظالم  بیٹوں سے کچھ فریاد کرنا چاہتی ہے؛ لیکن آواز ہے کہ صاف سنائی نہیں دیتی، گلے کی خراش بدمزگی پیدا کرنا چاہتی ہے؛ لیکن جدوجہد اور عزم و استقلال سے جوان یہ پست آواز کچھ اس انداز سے اپنی دکھ بھری آپ بیتی کا آغاز کرتی ہے :
"میں نے اپنی عمر کی کئی بہاریں دیکھی ہیں، چہرے پر جھُرّیاں پڑچکی ہیں اور پیشانی پر باریک لکیریں بھی....... رُکیے..... رُکیے...... ذرا رُکیے! بلکہ میں نے اپنی عمر کی کئی خزائیں دیکھی ہیں، بہاروں کا تو میری زندگی سے کوئی خاصا واسطہ نہیں، کیونکہ :

فطرت آرائے جنوں ہے تنِ عریاں میرا
میری بیچارگیاں ہیں سروساماں میرا

عمر کا اتنا لمبا عرصہ گزرجانے کے باوجود، لوگ مجھے حق وانصاف کی شناخت قرار دیتے ہیں؛ حالانکہ میں نے اپنی آنکھوں سے ظلم وستم، درود وکرب،. غم وآلام اور اضطراب وبے چینی کی ایسی ایسی اَن گنت اور ان َ کہی داستانیں دیکھی اور سُنی ہیں، جنہیں سوچ کر آج بھی میرا سر احساسِ ندامت سے جھک جاتا ہے، میں نے بہتوں کو انصاف دلانے میں کامیابی حاصل کی ہے؛ لیکن آج بھی عوام میں ایک کثیر تعداد ایسے مظلوموں کی ہے جو میری درازئ عمر کے باوجود، میرے لرزتے ہاتھوں میں اپنا نصیبہ تلاش کرتی ہے، نتیجتاً کبھی نامرادی تو ہاتھ لگتی ہے پَر مایوسی نہیں. نامرادی اس لیے کہ کچھ ناعاقبت اندیش مسلسل میرے اور ان مظلوموں کے تعاقب میں رہتے ہیں؛ پھر بھی مایوس اس لیے نہیں ہونے دیتی کہ پورے معاشرے کو قانونی طور پر حاکمانہ اختیارات سے بہرہ مند کرنا، میرا دوسرا نام ہے...... میں حکومتی پالیسیوں کو طے کرنے کے لیے کسی نہ کسی شکل میں عوامی رائے کو بنیاد بنانا ضروری قرار دیتی ہوں......... میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتی ہوں..... میری ساری توانائیاں اسی کے لیے صَرف ہوتی ہیں..... میں ایک ایسے طرزِ حکومت کے لیے کام کرتی ہوں جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو....... اسی لیے میرے خمیر میں آمریت کی دور سے بھی کوئی آمیزش نہیں...... میری ساری جدوجہد عوام پر.......... عوام کے ذریعہ............. عوام ہی کی حاکمیت کی خاطر کار فرما ہوتی ہے.
اب میں آپ کو اپنی ماضی سے گزار کر حال میں لانا چاہتی ہوں
تو سنو !.... ذرا توجہ کے کانوں سے سنو !...... میرے گیسوؤں کو سنوارنے کا کام اس وقت شروع ہوا تھا، جب اس ملک کو 1947ء/ میں ظالمانہ برطانوی ایکٹ سے نجات ملی تھی، پھر ڈاکٹر امبیڈکر کی صدارت میں 13/ کمیٹیوں کے ذریعہ دوسال سے زائد پر محیط ایک طویل عرصہ میں میری ایک ایک نوک پلک پر کافی ردوقدح، بحث ومباحثہ، ترمیم وتنسیخ اور حذف واضافہ کے بعد مجھے آخری اور تکمیلی شکل دینے کے لیے 26/ نومبر 1950ء/ کو اسمبلی میں پیش کیا گیا، بعد ازاں ہمیشہ کے لیے ہندوستانی عوام کی خدمت کی خاطر میدان میں اتار دیا گیا.
وہ دن ہے اور آج کا دن ! میرے پاؤں میں لغزش نہیں آئی، میرا سابقہ محبت اور نفرت دونوں میدان کے کھلاڑیوں سے رہا، محبت کرنے والوں کو میں نے انعام سے نوازا اور نوازتی بھی رہوں گی  ! اور اپنی ذات سے نفرت کرنے والی ایک تعداد کو سبق سکھانے میں کامیابی تو حاصل کی ہے؛ لیکن اس حقیقت کے اعتراف میں مجھے کوئی  تامل نہ ہونا چاہیے کہ میری عمر جوں جوں دراز ہوتی گئی اتنا ہی مجھے فنا کے گھاٹ اتارنے کی خاطر کام کرنے والے عناصر عروج حاصل کرتے گئے اور آج وہ میری پیٹھ میں چھرا گھونپ کر مجھے اس ملک سے بھگاوا دینے کی آخری کوششیں کررہے ہیں، جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں اور پروپیگنڈوں کا تو معلّم اول بننے کے لیے ساری توانائیاں جھونکے ہوئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی دوسرا متبادل تلاش کرلیا ہے، لیکن میں تمام باشندگان وطن کو اس بات سے باخبر کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ مجھے ختم کرکے کسی متبادل کو اپنا کر خوش نہیں رہ پاؤگے!
اور سنو !  چلو ایک سچی مگر انتہائی کڑوی بات بھی بتاتی چلوں.... اس پوری کارروائی اور بد عنوانی میں ملوث حلقے کا تانا بانا جس سے ملتا ہے اور تاریخ میں جس نے اپنا نام انتہائی بدبودار روشنائی سے درج کرایا ہے اس کو میں  اپنی ہمہ گیر طاقت کے بل بوتے پر عدلیہ کے پلیٹ فارم سے دو مرتبہ غیر قانونی قرار دے چکی ہوں، اور آج اس ملک کا ہر طبقہ اس کا تعلق کسی بھی دھرم اور مذہب سے ہو، انہیں کی وجہ سے مصائب ومسائل کے گھیرے میں ہے، جبکہ میں نے ہر ایک کو سماجی، معاشی، اور سیاسی انصاف کے حقوق فراہم کیے تھے، اظہار خیال، یقین، اعتماد، اعتقاد اور مذہب کی آزادی عطا کی تھی، ہر شخص کو مساوی حقوق سے بھی نوازا تھا، قوم کے اتحاد اور ہر فرد کی عزت و توقیر کا سامان بھی مہیا کیا تھا اور آج یہ  اعلی اقدار تباہی وبربادی کے آخری دہانے پر ہیں، چنانچہ کبھی گھر واپسی کے نام پر کسی کو ٹارچر کیا گیا تو کبھی مختلف معاملوں میں مسلم نوجوانوں کا قتل کیا گیا، آزادی مذہب کو ختم کرنے کے لیے یوگا اور سوریہ نمسکار کو ہر ایک کے لیے لازم کرنے کی غیر منصفانہ کوشش کی گئی، ملک میں شرافت کے جامے سے باہر نکل جانے والوں نے پاکستان جاؤ کے نعرے لگائے، طلاق ثلاثہ بل کے نفاذ کی انتھک کوشش کی، ملعون زمانہ بدزبان  طارق فتح کا سہارا لے کر " دوسرے کے کندھے پر بندوق چلانے" کی عملی مشق کی گئی، بابری مسجد قضیے کو لاینحل بنانے کی ہر ممکن کوشش کی،  مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ایک سازش کا حصہ قرار دے کر اپنے ذہنی دیوالیہ پن کی دلیل لوگوں کے ہاتھوں میں تھمائی، سادہ لوح عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے کی غرض سے لوجہاد، گئو تحفظ جیسی غیر قانونی مہم چھیڑی، مسلم مکت بھارت کا نعرہ لگایا، میرے لیے مایہ فخر جنت نشاں کشمیر میں طویل ترین کرفیو نافذ کیا، (جس کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے،) مسلم پرسنل لاء میں دراندازی کی تدبیریں کی گئیں، قومی خزانے سے کئی لاکھ کروڑ کے گھوٹالے ہوئے، میرے ماتھے پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا کلنک لگایا گیا،...... ان تمام چیزوں سے بڑھ کر میرے جگر کو چھلنی کرنے والا ایک درد انگیز سانحہ اس وقت پیش آیا جب مجھے سنوارنے والوں نے حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا  کہ : سپریم میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے

الغرض!

یہ نہ سمجھو ! گرا ہے ایک مکاں
ایکتا کے گلے کا ہار گرا

اُف عروسِ وطن کے جھومر سے
ٹوٹ کر دُرّ شاہوار گرا

عدلیہ ، انتظامیہ ، قانون
تن سے ہر ایک کے ازار گرا

معتبر، غیر معتبر نکلے
پایہ اہلِ اقتدار گرا
اس لیے جشن منانے کی خاطر موجود تمام لوگوں سے میرا ایک سوال ہے، وہ یہ کہ ملک جب یہ اور ان کے علاوہ نہ جانے کتنے مسائل سے جوجھ رہا ہے پھر آج یہاں کس بات کی خوشی میں جشن منارہے ہو؟، کیا صرف اس لیے کہ آج 26/ جنوری ہے؟
اگر تمہارا جواب ہاں میں ہے تو یاد رکھو ! کہ کوئی دن اور تاریخ اپنی ذات میں کسی خصوصیت کے حامل نہیں ہوتے، ہاں ! ان سے جڑی نسبتیں ضرور خصوصیت پیدا کردیتی ہیں؛ لیکن جب وہ نسبتیں ختم ہوجائیں تو ظاہر ہے وہ ایام اور تاریخیں بھی اپنی اہمیت اور خصوصیت کھو بیٹھتی ہیں.
تم اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہو تو بتاؤ! آزادی سے کیا مراد لیتے ہو؟ کسی بیرونی قوم کو اپنے ملک سے نکالنا یا اس سے زیادہ کچھ اور؟..... شاید آزادی انسان کی فطرت میں ایک ایسی خواہش کا نام ہے جسے خواہشِ بینا کہتے ہیں، یہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا خواب ہے جس میں مساوات ہو، عدل ہو، انصاف ہو، استحصال نہ ہو، نیز جس معاشرے یا ملک میں مذہبی آزادی ہو اور جہاں حکمراں بدیسی نہ ہوں؛ بلکہ دیسی ہوں، جہاں ترقی کے مواقع سب کو یکساں طور پر مہیا کرائے جائیں، لیکن یاد رہے کبھی کبھی دیسی حکمراں بھی بدیسی حکمرانوں سے زیادہ ظالم اور جابر ہوسکتا ہے، اس طرح کی تاریخی صورت حال اکثر پیدا ہوجاتی ہے، اس لیے آزادی کی جدوجہد ایک مسلسل عمل کے طور پر معاشرے کے افراد میں موجود ہونا چاہیے، آزادی محض سیاسی مفہوم نہیں رکھتی؛ بلکہ آزادی ایک ہمہ گیر اصطلاح ہے، جس کا مقصد انسانی معاشرے کی جملہ ساختوں مثلاً : سیاسی، سماجی، اقتصادی، مذہبی اور لسانی امور کی تہذیب میں ایک توازن ہو. (اقتباس)

لہذا آج خوشی میں سرشار تمام ہندوستانیوں سے میں ایک درخواست کرنا چاہوں گی کہ وطن عزیز کو تباہ کرنے والے فاسد عناصر سے بیک آواز ان الفاظ میں خطاب کرو! کہ :

نئی صبح چاہتے ہیں، نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے، وہ نظام چاہتے ہیں

وہی شاہ چاہتے ہیں، جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے؟ جو عوام چاہتے ہیں

اور آپسی رویہ کچھ ایسا بناؤ کہ یک جان دو قالب کا نقشہ پیش کرتے ہوئے ایک دوسرے سے یوں کہو کہ :

ہردم آپس کا یہ جھگڑا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کل کیا ہوگا شہر کا نقشہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

ایک خدا کے سب بندے ہیں، ایک آدم کی سب اولاد
تیرا میرا خون کا رشتہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ

سرکاری ہائی اسکول مبارکپور میں یومِ جمہوریہ کا جشن نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا!

مالیر کوٹلہ/پنجاب(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) آج یہاں سے قریب دس کلو میٹر دوری پر واقع گاؤں مبارک پور کے سرکاری ہائی اسکول میں 70 ویں یومِ جمہوریہ کا جشن نہایت جوش و جذبہ و عقیدت کے ساتھ منایا گیا. اس موقع پر گاؤں کے نو منتخب سرپنچ سردار بارو سنگھ، اشوک اندر جیت سنگھ اور ہوشیار کور صاحبہ نے خصوصی طور پر شرکت کی جبکہ پروگرام کی صدارت اسکول کے ہیڈ ماسٹر شری لابھ سنگھ نے فرمائی اور ترنگا لہرانے کی رسم  شری لابھ سنگھ نے مہمان کے ہمراہ خود اپنے دست مبارک سے ادا کی.
اس دوران اپنے خطاب میں شری لابھ سنگھ نے یومِ جمہوریہ کی اہمیت و فضیلت کے تعلق سے بچوں کو بھرپور طریقے سے سے معلومات فراہم کروائی، انھوں نے کہا جہاں ہمیں ہمارے ملک کے آئین نے ادھیکار دییے ہیں وہیں ہمارے کچھ فرائض بھی ہیں اگر ہم اپنے فرائض کو انجام دیں گے تبھی ہم اپنے حقوق سے لطف اندوز و استفادہ حاصل کر سکتے ہیں.
اس موقع پر اسکول کے بچوں نے رنگا رنگ پروگرام بھی پیش کیا جسے حاضرین نے خوب پسند کیا. پروگرام کے دوران ایس. اے. ون میں اول دوئم اور سوئم پوزیشن حاصل کرنے والے بچوں میں انعامات تقسیم کئے گئے. اس پورے پروگرام کے دوران اسٹیج کی کارروائی محمد عباس دھالیوال اردو ماسٹر نے بحسن خوبی انجام دی.  پروگرام کو کامیاب بنانے میں چرنجیت سنگھ، ہرپریت کور، گور امرت پریت سنگھ، امریک سنگھ، امرتپال سنگھ، جسوندر سنگھ، بشیر محمد، کلدیپ سنگھ اشوک گرگ، کرمجیت کور، سکھوندر کور اور پرمجیت کور نے اپنا خصوصی تعاون پیش کیا.

مدرسہ عربیہ کاشف العلوم جانتے ڈیہا میں پرچم کشائی کی تقریب!

عبیدالرحمن مظاہری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
دودھارا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 27جنوری 2017) ملک بھر میں آج یوم جمہوریہ کا پروگرام تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا، اس سلسلے میں مدرسہ عربیہ کاشف العلوم جانتے ڈیہا میں پرچم کشائی کی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں مدرسہ کے طلبہ واساتذہ کے علاوہ علاقہ کے لوگوں نے شرکت کی،
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مہتمم مدرسہ مولانا محمودالحسن قاسمی نے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا اور انہیں خراج عقیدت پیش کی مولانا نے اپنے خطاب میں ملک کے آئین اور جنگ آزادی پر تفصیل سے روشنی ڈالی، مولانا عبیدالرحمن مظاہری نے کہا کہ جمہوریت کی بنیاد یہ ہے کہ اس ملک میں تمام مذہب کے ماننے والوں کو پورا حق ہے کہ وہ آزادی سے زندگی گزاریں مولانا نے مزید کہا کہ تاریخ کے صفحات اور ہندوستان کی سرزمین گواہ ہے کہ ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں مجاہدین آزادی علماءکرام نے اپنی جانوں کانزرانہ پیش کیا تھا، تب کہیں جاکر ہندوستان اوراس میں بسنے والوں کو آزادی نصیب ہوئی، پروگرام میں نظامت کے فرائض مولانا محمودالحسن قاسمی نے انجام دئیے، طلبہ نے یوم جمہوریہ پر مختلف نظمیں تقریریں پیش کیں.
اس موقع پر پردھان نسیم الدین عرف گڈو، مقصود احمد، زبیر احمد، محمد عارف، ماسٹر شمشیر احمد، قاری محمد ندیم، حافظ ہدایت اللہ، مولانا عبیدالرحمن مظاہری سمیت کثیر تعداد میں لوگ موجود رہے.

سوئے ہوئے لوگو، کبھی جاگوگے نہیں کیا؟

ازقلم: اجوداللہ پھولپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
جشن یوم جمہوریہ آج مسلمان بڑی شدت سے مناتا ہے خصوصا نوجوان طبقے کا رجحان گزشتہ چند سالوں سے اس جانب اور بھی بڑھا ہے بلاشبہ اس میں حصہ داری ہماری اولین ذمہ داری ہے یہ ملک ہمارا ہے بلکہ اوروں کے مقابلہ کچھ زیادہ ہی ہمارا ہے اسلئے کہ ہمارے اپنوں کی قربانیاں اوروں کے مقابلہ زیادہ رہی ہیں آج ہماری نوجوان نسل جس شدت سے شوشل میڈیا پر بیداری کا ثبوت دے رہی ہے وہ قابل دید ہے اے کاش یہ بیداری حقیقی معنوں میں ہوتی تو نہ یہ کہ قابل تحسین ہوتی بلکہ آج ہماری ملت عزت و احترام کے بلندیوں پر پرواز کررہی ہوتی یہ حقیقت ہیکہ ہمارا ملک جمہوری نظام کا حامل ہے اور جمہوریت سب کو ایکوالٹی کا حق دیتی ہے پر افسوس آج جمہوریت اپنی روح کھو چکی ہے آج نہیں بلکہ اسی دن جمہوریت کی روح زخمی ہوگئی تھی جب اسکی پیدائش کے آٹھویں ماہ ہی ریزرویشن کو کچھ خاص طبقوں اور خاص مذہب والوں کیلئے خاص کردیا گیا تھا جبکہ بابا بھیم راؤ امبیڈکر کے تیار کردہ قانون کے مطابق سب کو ملک ہندوستان میں برابری کا درجہ حاصل تھا،
اوروں کی عیاریوں سے زیادہ ہمارے اپنوں کی غلطیاں ہماری بربادی کا زیادہ سبب بنیں وہ اس معنی کر کہ جمہوریت میں قانون ساز اسمبلیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں اور ابتداء آزادی سے آج تک ہماری نمائندگی دوسروں کی مرہون منت رہی ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو جس قانون کے تحت مسلمان ہندوستان میں آزادانہ گھومتا پھرتا ہے وہی قانون تبدیلیوں کے چند مرحلوں سے گزرنے کے بعد ہمارے لئے بیڑیاں بن کر سامنے آئیگا اور ہم آواز اٹھانے کا بھی حق کھو دیں گے.
جمہوریت اور اسکے پاسداروں کیلئے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ چند لوگوں نے جمھہوریت کو اپنا غلام بنا لیا ہے جمہوری قدروں کو ڈسنے والے ناگپورئے ہی آج جمہوریت کے چوکیدار بن بیٹھے ہیں، ملک عزیز سے وفاداری میں دور دور تک جن کے آباء و اجداد کے ناموں کا وجود نہیں ملتا وہی لوگ آج ملک وفاداری کا سرٹییفکٹ بانٹتے پھر رہے ہیں اور اپنی احمقانہ سوچ سے ملک کو پھر اسی خزاں کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جس سے نکل کر بہار کی دنیا میں قدم رکھنے کیلئے ملک نے لاکھوں وطن پرستوں کی قربانیاں لی ہیں.
          ــــــــــــعـــــــــ
جواں ہے عزم تو پھر ظلم کی بربادی باقی ہے
اندھیری رات ہے اب تک ،ابھی آزادی باقی ہے

درندے دندناتے پھر رہے ہیں شہر آدم میں
ہے قید نفسِ میں انسان، ابھی آزادی باقی ہے

حوا کی بیٹیوں کو اب سکوں ملتا ہے مرگھٹ پر
یہ دنیا ہوگئی زندان ، ابھی، آزادی باقی ہے

لہو بہتا ہے اب تک شہر کے آباد رستوں پر
بہت گھر ہوگئے سنسان ، ابھی آزادی باقی ہے

مسلمانوں کو اگر اپنا وجود بچانا ہے تو وقتی بیداریوں سے نکل خود کو بیدار مسلسل رکھنا ہوگا اور اپنی بقاء کی جنگ خود لڑنی ہوگی وہ بھی دوسروں کے بھروسے نہیں بلکہ از خود اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرتے ہوئے اپنی قیادت کو جمع کرنا ہوگا وگرنہ دوسروں کے جھنڈے تلے سایہ حاصل کرنے والے لوگ اعداد و شمار کا خانہ تو پر کرلیں پر ملت کی نمائندگی کرنے کی جسارت نہیں کرسکتے تاریخ گواہ ہے جس نے کرنے کی کوشش کی آج انکا وجود نظر نہیں آتا، ذاتی اور وقتی فائدوں سے ہٹ کر ملی اور طولی فائدوں کا میپ تیار کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی شعور کو آواز دینے اور اسے جگانے کی ضرورت ہے خصوصا نوجوانوں کو اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر اوڑھنے کی ضرورت ہے تعلیمی میدان میں پنجہ آزمائی کی ضرورت ہے یقین جانئے اگر آپنے بیدار ہونے کی ٹھان لی اور قیادت کو یکجا کرنے کی سوچ لی تو فتح آپ کا مقدر ہوگی آنے والے ایام روشنی کے ساتھ آپکا استقبال کریں گے ورنہ یہی جمہوریت آپ کے لئے کال کوٹھری ثابت ہوگی فیصلہ آپنے کرنا ہے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کا.
              ـــــــــــعـــــــ
مجھے اے قوم مسلم تجھکو پھر ہشیار کرنا
دل خفتہ کو سوز قلب سے بیدار کرنا ہے

تمہیں اسلاف کے زریں فسانے بھی سنانے ہیں
تمہیں عزت دلانی ہے تمہیں خود دار کرنا ہے

یہ ویرانی یہ بربادی کہاں تک اب کوئی دیکھے
زمیں کے گوشے گوشے کو ہمیں گلزار کرنا ہے

سکھانا ہے مجھے درس اخوت پھر مسلماں کو
ہر اک کو دوسرے کے واسطے غم خوار کرنا ہے

دکھانا ہے مسلمانوں کی عزت پھر زمانے کو
عدوئے دین ملت کو ذلیل خوار کرنا ہے

معزز ہوکے رہنا ہے ہمیں اقصائے عالم میں
غلامی اور ذلت کو فنا فی النار کرنا ہے (ان شاءاللہ)

جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور ترانہ ہند اور ہندوستان زندہ آباد کے نعروں سے گونجا!

کلیان پور/سمستی پور (آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ان میں سے ایک یومِ جمہوریہ ہے، اس دن کی اہمیت یہ ہیکہ اس دن دستور ہند کا نفاذ عمل میں آیا، اور دستور ہند کی عمل آوری ہوئی، دستور ساز اسمبلیوں نے دستور ہند کو 26 نومبر(1949) کو اخذ کیا، اور 26 جنوری (1950) کو تنفیذ کی اجازت دے دی، دستور ہند کی تنفیذ سے بھارت میں جمہوری طور پر حکومت کا آغاز ہوا، جس کی تقریب کا جشن تقریباً ہندوستان کے سبھی مدارس و مکاتب، اسکول و کالج اور یونیورسٹی میں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ اظہارِ آزادئ رائے کے طور پر منایا جاتا ہے، ان تعلیم گاہوں اور سنستھاؤں کے ساتھ جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور، کرہوا برہیتا، کلیان پور ضلع سمستی پور کی در و دیوار بھی ترانہ ہند اور ہندوستان زندہ آباد کے نعروں سے گونج اٹھی.
آغازِ تقریب پرچم کشائی سے ہوا، جس کی عمل آوری جناب حضرت مولانا احسان قاسمی صاحب کے ہاتھوں ہوئی، متصلا جامعہ کی طالبات زہرہ پروین، چاندنی بیگم ، نے سنہرے انداز میں ترانہ ھند پیش کیا، اس کے معاً بعد خطیبانہ انداز میں آفتاب عالم، چاندنی بیگم اور جویریہ پروین نے یکے بعد دیگرے مجاھد آزادی کے کارناموں پر مختصر لب کشائی کی.
اس موقع پر مہمان خصوصی جناب ابوبکر عرف صوفی صاحب، محمد مشتاق عرف گلاب، شمس الدین نداف،شمس عالم، محمد مستقیم  اور موجود اساتذہ میں مولانا جسیم الدین قاسمی، قاری اخلاق صاحب، قاری خلیق الرحمان، ماسٹر دیپک کمار کی شرکت باعثِ سعادت رہی ۔آخر میں جامعہ کے بانی وناظم قاری ممتاز احمد جامعی جنرل سکریٹری الامدادایجوکیشنل اینڈ ویلفئر نے تاثرات پیش کئے اور آبدید ہوتے ہوئے کہا کہ اس وقت میرے استعجاب کی انتہاء ہوجاتی ہے جب کوئی کہتا ہے کہ اربابِ مدارس اور طالبان علومِ نبوت کو دیش سے کوئی سروکار نہیں، جبکہ حقیقت یہ ھیکہ ان ہی مدارس مکاتب کے جیالوں کی قربانی سے یہ ملک آزاد ہوا ورنہ لفظ آزادی نام تک سے واقف نہیں تھے برادران وطن، ہاں بقول شاعر:
        ـــــــــعـــــــ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
آج میں خود اور بچوں میں یومِ جمہوریہ کو سیلیبریٹ کرنے کا اشتیاق اسی وقت سے شروع ہوا، جب لوگوں کی زباں پر پہلی جنوری کی آمد کا تذکرہ سننے کو ملا، خود کا مشاھدہ ہیکہ اسی وقت سے مشہور ترانہ ہند "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا" کی گنگناہٹ بچوں کی زباں سے گاہے بگاہے سننے کو ملتی رہی، بہرحال ہم سب کے لیے یہ موقع ہے خوشی منانے کے ساتھ اپنا اپنا احتساب کریں کہ ہم نے آزادیِ ھند اور ایک عہد و پیمان کے بعد کیا پایا اور کیا کھویا۔

دارالعلوم اشرفیہ دیوبند میں تاریخ ساز جشن یوم جمہوریہ کے موقع پر مولانا احتشام الحق سلمہ اعزاز سے سرفراز!

 عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز27/جنوری 2019) مدرسہ عربیہ دارالعلوم اشرفیہ دیوبند میں جشن یوم جمہوریہ کے مبارک و مسعود پروگرام میں مخدوم گرامی مفسر قرآن خطیب العصر جناب حضرت مولانا سالم اشرف صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کی دعوت پر مولانا احتشام الحق
متعلم مدرسہ جامعہ مظاہر العلوم جدید سہارنپور کو حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، میں حضرت والا کا  انتہائی شکر گزار ہوں کہ حضرت والا نے سرزمین دیوبند میں اکابر علماء کی صف میں بیٹھنے کی سعادت بخشی اور کچھ دیر مولانا موصوف نے لب کشائی کا موقع عنایت فرمایا، اور ساتھ ساتھ اساتذۂ دارالعلوم اشرفیہ دیوبند اور تمام مفتیانِ کرام کا بھی شکر گزار ہوں اور ان حضرات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ایک طفل طالب علم ناچیز کے سر پر دستِ شفقت پھیر کر حوصلہ افزائی کی، الحمد للہ دوپہر 12 بجے دوسری مرتبہ مولانا احتشام الحق سلمہ کو شال اڑھا کر اعزاز سے نوازا گیا یہ خبر جب سلمہ کے آبائی وطن موضع چھتہی سنت کبیر نگر پہونچی تو جملہ عزیز اقارب مبارک باد پیش کرنے کے لئے ان کے گھر پر حاضری دے کر  دعاؤں سے نوازا.
بقول حضرت مولانا صادق علی صاحب صادق قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ ورحمۃ واسعہ کے کہ:
         ـــــــــــعــــــــ
قدرت کی کار سازی ہے جسے بھی وہ نواز دے
جسے وہ چاہے زندگی کا کیفِ سازو ساز دے
جیسے وہ چاہے زلتوں کے غار سے نکال دے
جسے وہ چاہے علم و فن کا حسن باکمال دے
جسے وہ چاہے زور دے زبان کا؛ بیان کا ؛
کسے وہ چاہے فہم دے حدیث کا قرآن کا
وہ جو بھی دے جسے بھی عطا اسی کا کام ہے
کرم اسی کا سب پہ ہے ؛کریم اسی کا نام ہے

مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام روشن گڑھ میں منایا گیا جشن جمہوریہ!

روشن گڑھ/باغپت (آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ کے معروف دینی درسگاہ مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام میں یوم جمہوریہ کے موقع ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس کی صدارت حضرت مولانا محمد حبیب شاہ صاحب مہتمم مدرسہ کنز العلوم نے فرمائی، جب کہ نظامت کے فرائض مفتی محمد دلشاد قاسمی ناظم اعلی مدرسہ ھذا نے انجام دیئے، سب سے پہلے پرچم کشائی کی گئی، بعدہ مدرسہ ھذا کے طالب علم حافظ محمد ثمیر سلمہ کی تلاوت کلام اللہ سے پروگرام کا آغاز ہوا،
جبکہ نعت نبی کا ھدیہ صالحہ خاتون نے پیش کیا، اس کے بعد طلبا و طالبات نے بڑے ہی انداز میں تقریر و نعت اور ملک ھندوستان پر بے حد خوبصورت ترانے پیش کیے، پروگرام میں تین مکالمہ بعنوان "ان پڑھ" جہیز" اور تین طلاق بل "سے متعلق پیش کیے گئے، جس کو حاضرین نے خوب سراہا اور بچوں کی حوصلہ افزائی بھی خوب دل کھول کر کی.
پروگرام میں تین طلاق اور اس کا پس منظر کے عنوان سے درجہ فارسی کی طالبہ شمع رحمان نے مقالہ بھی پیش کی.
اس موقع پر بھارت اسکاؤٹ اینڈ جمعیۃ یوتھ کلب کی ٹریننگ یافتہ کو پھول کا مالا پہنا کر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی، پروگرام میں مدرسہ ھذا میں درجہ حفظ میں قرآن کریم حفظ مکمل کرنے والے تین طالب علموں کی اختتامی دعا بھی کرائی گئی، بعدہ علماء کے بیانات ہوئے.
مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے حضرت مولانا مفتی محمد ارشاد الحق مفتاحی رکن عاملہ جمعیۃ علماء ھند صوبہ ہماچل پردیش، چندی گڑھ، پنجاب، ھریانہ نے اپنے خطاب میں طلباء کے پروگرام کو خوب سراہا اور خوب دعائیں دی، انہوں نے کہا کہ جس انداز سے مدرسہ ھذا میں تعلیم جاری ہے آگے چل کر اس مدرسہ سے علماء فضلاء فارغ نکلنے لگے گیں، انہوں نے تاریخ کے حوالہ سے کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام ہمارے علماء نے دراصل اس ملک میں ہم سب کے ایمانی تشخص باقی رکھنے کے لیے عمل میں لائے تھے تاکہ ہم اس ملک میں مکمل شریعت مطہرہ کے مطابق زندگی گزارنے والے باقی رہ سکے ورنہ اگر یہ مدارس اسلامیہ کا قیام عمل میں نہ آتا تو ہمارا ایمان و اسلام پر باقی رہنا بہت ہی مشکل تھا، ہمارے اندر جو اسلامی رمق باقی ہے وہ انہی مدارس کی دین ہے، اس لیے ہم سب اپنے آپ کو مدارس سے جوڑ کر چلیں.
مولانا محمد حبیب شاہ صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم آپسی اختلافات کو ختم کرکے زندگی گزاریں، اسی وقت ہی ہم تمام تر ترقیات کو حاصل کرسکتے ہیں ورنہ تو ہم جیسے آج رسوا و ذلیل ہو رہے ہیں، ہمیشہ ہوتے رہیں گے اور تاریخ سے ہی ہمارا نام و نشان ختم کردیا جائے گا، پروگرام میں طلباء و طالبات کو انعامات سے بھی نوازا گیا.
اس موقع پر حافظ عبد القیوم، مولوی محمد دلشاد، قاری انوار الحسن، عبد الرحمان، کلو چوکیدار، محمد سرفراز، حافظ محمد ابراہیم صاحب سمیت گاؤں کے افراد کی بڑی تعداد میں موجود رہی.
آخر میں حضرت صدر محترم کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا اور شیرینی بھی تقسیم کی گئی، مفتی محمد دلشاد قاسمی ناظم مدرسہ اسلامیہ انوارالاسلام روشن گڑھ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.

مدرسہ دارالعلوم اشرفیہ شاہ جہاں پور میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پروگرام منعقد!

شاہ جہاں پور/برناوہ باغپت(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) ضلع باغپت کے موضع شاہ جہاں پور میں واقع مدرسہ دارالعلوم اشرفیہ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر ایک اہم پروگرام منعقد ہوا، جس کی صدارت حضرت مولانا عبد الوحید صاحب نے فرمائی، جب کہ نظامت کے فرائض انجام دیئے، اس موقع پر پہلے طلبا نے بڑا ہی اچھا پروگرام پیش کیا
اس کے بعد مفتی محمد تقی صاحب پلڑوی نے ترانہ ھند پیش کیا، اسی طرح پردھان جمشید صاحب نے بھی ملک ھندوستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ ملک ہمیشہ سے ہی بھائی چارگی کا گہوارہ رہا ہے، اس لیے اس کو باطل طاقتوں سے بچاتے ہوئے برقرار رکھنا ہے، اسی طرح مدرسہ ھذا کے مہتمم مولانا محمد خالد بھی کہا کہ مدارس اسلامیہ اس ملک کے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی بہت انمول دولت ہے، جس کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، اور ان کو ترقی کے زینہ پر چڑھانا اور ان کی ضرورتوں کی خبر گیری یہ ہم سب کی عین ذمہ داری ہے، اسی طرح مولانا عبد الوحید صاحب نے کہا کہ اگر اس ملک کی آزادی مسلمان اور علماء حصہ نہ لیتے تو یہ ملک آزاد نہ ہوتا اس لیے ہم آپسی جھگڑوں کو ختم کرکے ایک پلیٹ فارم یکجا ہو کر ملک کی ترقی کے لیے ہمہ تن کوشش کریں.
 پروگرام کا اختتام قاری محمد ساجد صاحب کی دعا پر ہوا، اس موقع پر مدرسہ ھذا کے اساتذہ و گاؤں کے معزز حضرات بڑی تعداد میں موجود رہے.

ادارہ ناصر الامت میں یوم جمہوریہ کا پروگرام منعقد!

رپورٹ: محمد دلشاد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کھیکڑہ/باغپت(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) قصبہ کھیکڑہ کے مدرسہ ادارہ ناصر الامت میں یوم جمہوریہ کے موقع پر طلبا نے پروگرام پیش کیا، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حافظ عبد المؤمن صاحب امام و خطیب بلال مسجد نے شرکت فرمائی، جب کہ نظامت کے فرائض مفتی محمد رضوان صاحب قاسمی نائب مہتمم مدرسہ ھذا نے انجام دیئے، مجلس کا آغاز تلاوت کلام اللہ اور ھدیہ نعت پیش کرکے کیا گیا، طلبا نے بڑا ہی خوبصورت انداز میں پروگرام پیش کیا جس میں مکالمہ تقریر اور نعت پیش فرمائی، بعدہ علماء کرام نے ھندوستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی.
 مولانا محمد نوشاد صاحب نے کہا کہ اس ملک کی بقاء و وجود میں مسلمان اور علماء کی بے شمار قربانیاں ہیں،  مولانا محمد راحیل مفتاحی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مدارس اسلامیہ اس ملک میں خدا کی دین ہے اور ان مدارس کا اس ملک پر بے پناہ احسانات ہیں جن کا بدلہ یہ وطن تاقیامت نہیں چکا سکتا، اسی طرح دیگر علماء کرام نے بھی خطاب کیا.
مجلس کا اختتام حافظ عبد المؤمن صاحب کی رقت آمیز دعاء پر ہوا، اس موقع پر مولانا نوشاد صاحب ماسٹر ابرار صاحب و دیگر اساتذہ و اہل بستی موجود رہے.

مدرسہ دارالقرآن فریدیہ میں یوم جمہوریہ دھوم دھام سے منایا گیا!

محمد دلشاد قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
بڑوت/باغپت (آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) قصبہ بڑوت کی مشہور و معروف دینی درسگاہ مدرسہ دارالقرآن فریدیہ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر طلبا نے پروگرام پیش کیا، جس کی صدارت حضرت مولانا مفتی محمد فرقان صاحب نے فرمائی، جب کہ نظامت کے فرائض قاری عبد الواجد صاحب مہتمم مدرسہ ھذا نے انجام دیئے.
 پروگرام کا آغاز جھنڈا پھہرا کر کیا گیا، اس کے بعد طلبا و طالبات نے مختلف عنوان پر مکالمہ تقریر و نعت کی شکل میں پروگرام پیش کیے.
اس موقع پر راشٹریہ لوک دل کے لیڈر ویرپال راٹھی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور کہا کہ مدارس میں اس طرح کے پروگرام کا ہونا بہت ہی خوشی کی بات ہے اس سے آپسی بھائی چارگی کو فروغ ملتا ہے، اسی طرح موجودہ ایم ایل اے جناب کرشن پال ملک نے بھی شرکت فرمائی اور اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ یہ ہم سب کا ہندو مسلم سکھ عیسائی کا ہے، اس کو بٹنے نہیں دینا ہے، مل جل کر ملک کو آگے بڑھانا ہے، پروگرام میں دیگر علماء کرام نے بھی خطاب فرمایا.
اس موقع پر مولانا محمد یوسف صاحب، چودھری یونس صاحب سمیت مدرسہ کے تمام اساتذہ موجود رہے.

خراج عقیدت!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یوم جمہوریہ کے اس عظیم دن پر ہم خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ان تمام مجاہدین آزادی کے  جنہوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے انتھک کوشش کی اور اپنے خون کے قطروں کو مادروطن کو سرخ کیا، خصوصا علماء کرام کو جنکی
ایک کثیر تعداد وطن عزیز کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لئے تقریبا ۸۰ ہزار علماء کرام کوجام شہادت نوش فرمانا پڑا، ان تمام ہی علماء کرام اور مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، خصوصا علماء دیوبند کے سرخیل فکردیوبند کے بانی علماء حق کے امام، فقیہ النفس امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی قربانیوں کویاد کرتے ہیں، اللہ کے اس ولی کو بھی ملک کی آزادی کے لئے چھ مہینہ مظفرنگر جیل کی صعوبت برداشت کرنی پڑی، حالانکہ حضرت گنگوہی اپنے زمانے کے علماء کے امام وپیشوا تھے، ہندوستان کے بڑے علماء جیسے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا عبدالرحیم رائپوری، مولانا حسین احمد مدنی رحمہم اللہ آستان گنگوہی سے ہی فیض یاب ہورہے تھے، لیکن جب بات آئی ملک کی آزادی کی تو یہ اللہ کاولی جس کا ایک فتوی آگ کی طرح پورے ہندوستان میں پھیل جاتاتھا، جس سے ایک جمع غفیر فیض یاب ہورہاتھا، میدان میں اتر پڑا، اور وطن عزیز کے لئے چھ مہینہ جیل بھی رہناپڑا، لبوں پہ یہ کلمات جاری تھے ہم مسلمان ہیں وطن سے محبت سے محبت ہمارا ایمان ہے.
 یوم جمہوریہ کے موقع ہم تمام اکابرین ومجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اور عہد کرتے ہیں کہ اے وطن عزیز اگر تجھے قربانی کی ضرورت پڑی توہم ہمہ وقت تیار ہیں کیونکہ ہم بھی امام ربانی کے ماننے والے ہیں، وطن سے محبت رکھنا ہمارا ایمان ہے.

مدھوبنی: پرائمری اردو اسکول ککوڑوا بسفی میں ہیڈ ماسٹر کے ہاتھوں پرچم کشائی!

محمد سالم آزاد
ــــــــــــــــــــــ
بسفی/مدھوبنی(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) بسفی بلاک حلقہ کے ککوڑوا گاؤں میں واقع پرائمری اردو اسکول کے میدان میں یوم جمہوریہ کے موقع پر اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد جمیل انوار  نے پرچم کشائی کی،
منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محمد جمیل انوار نے کہا کہ اسکول کی بہتر تعلیم کے لئے اسکول انتظامیہ ہمیشہ کوشا رہتی ہے  اور سماج میں حاشیے پر کھڑے لوگوں کو جب تک مکمل طور پر تعلیمی زیور سے آراستہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہم ایک ترقی یافتہ سماج کا تصور نہیں کر سکتے، محمد جمیل نے مزید کہا کہ اسکول میں تعلیمی ماحول ساز گار ہوا ہے اور اسے مزید سازگار بنانے کے لئے میں کوشا ہوں لیکن اس میں ہمیں اپنے تمام اساتذہ ملازمین کے ساتھ طلبا و طالبات کا تعاون درکار ہے، تبھی ہم اسکولوں کو تعلیمی شعبوں میں مزید آگے لے جا سکیں گے.
اس موقع  پر اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد جمیل، ماسٹر محمد اویس انصاری، ماسٹر ادئے چندر یادو،محمد سالم ایمانی، فردوس انجم، عشرت پیامی، شہزادی خاتون، وارڈ ممبر رام دیو منڈل کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے.

قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جشن یوم جمہوریہ کا انعقاد!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2019) قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ سرائےمیر اعظم گڑھ کی جانب سے صبح ساڑھے سات بجے جشن جمہوریہ کا انعقاد ہوا، پروگرام کا آغاز محمد مذکر اصلاحی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا، نذرانہ عقیدت امان اللہ اصفہانی نے پیش کیا، ترانہ ہندی عبدالرزاق نے اپنے رفقاء کے ساتھ پیش کیا،
پرچم کشائی 8 بجے مفتی سیف الاسلام صاحب کے ہاتھوں ہوئی، پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور جناب مفتی سیف الاسلام صاحب، جناب مولانا انیس احمداصلاحی صاحب، جناب عبید الرحمن صاحب سابق چیئرمین سراۓ میر، جناب لٸیق احمد صاحب شیروانی، مولانا شاھد القاسمی صاحب، مولانا افضل قاسمی صاحب، جناب شاہ عالم صاحب نے شرکت کی.
 پروگرام میں محمد افضل اعظمی نے تقریر کی، جس میں انہوں نے کہا کہ 26 جنوری یہ ہمارا قومی دن ہے اس دن ہمارے آئین کا نفاذ ہوا تھا اور جو دستور بنا تھا، اس دستور کو سیکولر دستور کا نام دیا گیا تھا، لیکن آج برسراقتدار پارٹیاں اور فرقہ پرست افراد آئین کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں، آج اقلیت کے ساتھ ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، تین طلاق کے نام پر مذہبی معاملات میں دخل اندازی کی گئی، مزید کہا کہ آج ہمیں بلا تفریق مذہب و ملت جمہوریت کی حفاظت کے لئے آگے آنا چاہیے، ہمیں آئین کو پڑھنا چاہیے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ آئین ہمیں کیا حقوق دیتا ہے، ہم آپس میں مل کر جمہوریت کو فروغ دیں اور فرقہ پرست افراد کو بتائیں کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں ہر مذہب کے ماننے والے زندگی گزارتے ہیں.
 بعدہ ایک پروگرام "تاریخ کا سفر آواز کی شاھراہ پر" ہوا، جس میں آزادی پر مختصر دلچسپ معلوماتی پروگرام پیش کیا، آخری پروگرام جمہوریت اور جنرل نالج سے متعلق کون دیگا جواب ہوا، جس میں کل چار ٹیم تھی اس پروگرام میں QCI King نے فتح حاصل کی، جس میں سیف الاسلام اعظمی، محمد افضل اعظمی، سمیع اللہ اعظمی تھے.
مولانا انیس احمد اصلاحی اور مولانا افضل قاسمی نے طلبہ کو مبارکباد پیش کی اور کہا تاریخی پروگرام دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ مختصر وقت میں پوری تاریخ سمیٹنے کی کوشش کی گٸی ہے، خاص طور اشعار وغیرہ کے بھی ذریعے،  پروگرام کی نظامت سیف الاسلام اعظمی نے کی آخر میں قاسمی کمپیوٹر انسٹی کے ڈائریکٹر مولانا محمد انظر اعظمی نے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.
پروگرام میں مولانا اظفر اعظمی، مولانا اشھر اعظمی، مولانا عبید الرحمن قاسمی، دانش اعظمی کے علاوہ تمام طلبہ اور علاقے کے لوگوں نے شرکت کی.

Friday 25 January 2019

26 جنوری یومِ جمہوریہ کے ضمن میں ایک خصوصی پیشکش!

محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ ،پنجاب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
"عظیم قومی تہوار ہے یومِ جمہوریہ"

عظیم قومی تہوار ہے یومِ جمہوریہ
تاریخ کا اہم باب ہے یومِ جمہوریہ
بچپن کے دن جو یاد کراتا ہے ہر سال 
دل کا سکوں قرار ہے یومِ جمہوریہ
 یکسانیت کا سبق پڑھاتا ہے ملک کو 
حقوق کا پاسدار ہے یومِ جمہوریہ
ہدایات پہ جس کی دیش چل رہا تمام  
 ایسی رہنمائے کتاب ہے یومِ جمہوریہ 
اونچ، نیچ کا فرق مٹاتا ہے جو تمام 
رہا ووٹ کا دے ادھیکار ہے یومِ جمہوریہ
اہل وطن کو ایک لڑی میں پروئے جو  
وہ خوبصورت نظام ہے یومِ جمہوریہ
نفرت کا زہر گھلتا دیکھ ملک میں عباس 
بے حد ہی شرمشار ہے یومِ جمہوریہ