اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: فکری بحران!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 29 January 2019

فکری بحران!

از قلم -: اجوداللہ پھولپوری
مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڈھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کوئی بھی باشعور انسان مدارس دینیہ کی عظمت و اھمیت کا انکاری نہیں ھوسکتا اور ھر صاحب دانا و فھم جنکو اللہ تعالی نے عقل سلیم سے نوازا ھے وہ زندگی کے ھر لمحہ میں مدارس کی اھمیت کو اولیت دیتے ھیں اور مدارس کی عزت و قدر اور انکے وجود کو نعمت عظیمہ تصور کرتے ھیں تاریخ کے صفحات پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ مسلمہ حقیقت کھل کر واضح ھوگی کہ ان مدارس نے پوری دنیا اور خصوصا بر صغیر میں اسلام کی صیانت و حفاظت میں کلیدی کردار اداء کیا ھے اور اشاعت دین میں وہ کارھائے نمایا انجام دئے ھیں جسکی مثال نادر ھے اور زمانئہ موجودہ میں بھی دنیاوی ھنگاموں سے صرف نظر خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ امت کی خدمت اور صالح معاشرہ کیلئے جس انداز سے خود کو خدمت کیلئے وقف کررکھا ھے وہ قابل تحسین ھی نہیں لائق تقلید بھی ھے
سرد و گرم ماہ و سال اور تلخ و شیریں ایام و لیالی سے لڑتے جھگڑتے اور موجودہ زمانے کے نامساعد حالات سے گزرتے ھوئے انسانیت کی تعمیر اور دین شریعت کی تبلیغ اور انسان سازی کی انتھک کوششوں سے جوجھتے ھوئے مدارس نے امت کے واسطے جس طریقہ سے خود کو مصروف عمل کررکھا ھے وہ بیان سے پرے ھے
حقیقت یہ ھیکہ یہ دینی قلعے وہ فیکٹریاں ھیں جن میں انسانیت ڈھالی جاتی ھے مردم سازی کو وجود بخشا جاتا ھے انسانیت کی تعمیر کی جاتی ھے باطل سے ٹکرانے والے افراد تیار کئے جاتے ھیں مغربی تہذیب کو ٹھوکر مارنے والے رجال پیدا کئے جاتے ھیں امت کو فاسقانہ اور جاھلانہ طرز ذندگی اپنانے سے روکنے کیلئے خطباء و صلحا پیدا کئے جاتے ھیں اور انکے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کیلئے فقھاء و علماء تیار کئے جاتے ھیں پھر بھی چند روشن خیال اور کم عقل اسکے وجود کو امت کیلئے زحمت سمجھتے ھیں اسکی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ھیں فارغین مدرسہ کو دقیانوسی تصور کرتے ھیں جبکہ روشن خیالوں کو یہ ذھن نشین ھوناچاھئے کہ یہ مدارس کے فضلاء اپنی روشن ضمیری سے نہ یہ کہ شعائر اسلامی کی نگہبانی کرتے ھیں بلکہ امت محمدیہ کی خیرخواھی میں آسمان و زمین کو ایک کرتے ھوئے رب کی ناراض گی دور کرنے میں خون کے آنسو بہاتے ھیں آہ سحر گاھی سے صبح روشن کی تلاش میں سرگرداں ھوتے ھیں

امت میں پنپ رھی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے تگ و دو کرتے ھیں اور ساتھ ھی وسائل کی تنگ دامانی کی جنگ بھی تنہا انکے ذمہ آتی ھے کاموں کو صحیح طور سے انجام دینے کا چیلنج یوں ھی کچھ کم نہیں مزید برآں مالی انتظام اور پیش آمدہ بحران ارباب انتظام کی جان سکتہ میں ڈال جاتا ھے
جیسے ھر انسان کی ایک انفرادی زندگی اور انفرادی ضرورت ھے اسی طرح اسکی ایک اجتماعی زندگی اور اجتماعی ضرورت بھی ھے یہ بھی ظاھر ھیکہ انفرادی زندگی کا قلیل مصارف سے کام چل سکتا ھے بلکہ جو لوگ اپنی نجی زندگیوں پر کم خرچ کرتے ھیں وہ بہت آزاد اور بہت سی پریشانیوں سے محفوظ رھتے ھیں لیکن اجتماعی زندگی کثیر مصارف رکھتی ھے اور ھم سے پچھلے لوگوں کی اس جانب کثیر توجہ اور اسکے انتظام میں بڑی محنتیں رھی ھیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیا اسکی زندہ مثال ھیں فاقہ کے عادی، کم کھانا ،لباس فاخرہ سے بیزاری، انہیں وجوھات کے بناء پر انکا ذاتی خرچ بھی کم سے کمتر تھا وہ اپنی نجی زندگیوں سے کافی مطمئن تھے ھر فرد قومی ترقی پر زیادہ توجہ دیتا تھا اور اسکے لئے ھمہ وقت کوشاں رھتا تھا اپنی مصارف ضروریہ میں بھی کاٹ کپٹ کر ملک و ملت کی طرقی پر متوجہ تھا حتی کہ صرف صدقہ کرنے اور انفاق فی سبیل اللہ کیلئے وہ مزدوری کرتے اور بوجھ لادتے اتارتے تھے آج ھماری سوچ اسکے برعکس ھے ھم اپنی ذاتی زندگیوں پر خرچ کو حد سے تجاوز کرچکے ھیں شادیوں پر بے انتہا خرچ اور نام نمود کیلئے پیسوں کو پانی کی طرح بہانا ھمارا طرۂ امتیاز بن چکا ھے اسی وجہ سے ھمارا ھر قومی و ملی کام معطل ھوکے رہ گیا ھے ھزاروں مالداروں کے بیچ کی مسجد کا امام وقت پر تنخواہ پانے کا منتظر رہ جاتا ھے ھمارے مکاتب بے یار و مددگار خراب سے خراب تر ھورھے ھیں اساتذہ کی تنخواہ بوجھ بنکر رھگئی ھے بچیوں کی تعلیم کیلئے کسی معقول مدرسہ اور اسکول کا انتظام نہیں جبکہ اسکے بر عکس یہود نصاری اپنی اجتماعی زندگی میں ترقی کے بام عروج تک پہونچتے جارھے ھیں مشینریوں کا جال بچھتا نظر آرھا ھے کلیساؤں کے رنگ و روغن انکے اپنوں کے متوجہ ھونے کی داستانیں بیان کررھے ھیں پادریوں کا احترام و وقار انکی قوم کی مذھب پرستی کو اجاگر کررھا ھے یہود و نصاری اپنے مذھبی پیشواؤں اور مذھبی مقامات کو ترقی دینے کیلئے اپنا سب کچھ لٹانے کو تیار بیٹھے ھیں حاکمین زمانہ انکے سامنے جھکے جارھے ھیں خود ھمارے ملک ھندوستان میں بھی آرایس ایس جیسی مذھبی تنظیم سیاسی وجود کو مذھبی ڈھانچے میں ڈھالتی نظر آرھی ھے ملک عزیز کا وزیر اعظم بھی انکی منشاء کو چیلنج کرنے کی تاب نہیں رکھتا آج ھم سبکو آنکھیں کھولکر حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ھے مکاتب کے احیاء اور مدارس کو کمک پہونچانے کی فکر اوڑھنے کی ضرورت ھے آگے بڑھکر اسلامی قلعوں کو بچانے اور انکے وقار میں اضافہ کیلئے سر جوڑ کر سوچنے کی ضرورت ھے یاد رکھیں! اگر یہ ھمارے دینی شعائر اپنے خرچوں کے بوجھ تلے دب گئے تو ھم بھی سر اٹھاکر جینے کا حق کھو دینگے

ساتھ ھی ارباب مدارس کو بھی پیش آمدہ حالات اور اسکے وجوھات پر غور کرنے نیز خود کو امانت کے تقاضوں پر کھرا ثابت کرنے اور خیانت سے دور رکھنے کی ضرورت ھے خیانت صرف مالی خرد برد کا نام نہیں بلکہ کارکنین مدرسہ کو انکے مقررہ کاموں کا پابند نہ بنا پانا نیز اساتذہ کا طلباء کے مکمل حقوق خاص طور پر تعلیم و تربیت میں کمی کرنا بھی خیانت کے زمرہ میں آتا ھے اسپر خاص توجہ کی ضرورت ھے والد ماجد حضرت محسن الامت نوراللہ مرقدہ نے بارھا فرمایا کہ یہ کام اللہ کا ھے اور وہ اپنے خزانہ سے اسکی کفالت فرماتا رھیگا بس امانت و دیانت کا دامن نہ چھوڑنا خیانت پر خصوصی نگاہ رکھنا کسی بھی شعبہ میں امانت کا فقدن ساری ھریالی کو نگل جائیگا اللہ تعالی ھم سبکو اپنی پناہ میں رکھے اور تمام دینی شعائر کی حفاظت فرمائے ایک بات اور جو اھل مدارس کے لئے خاص توجہ کا مرکز ھونی چاھئے وہ یہ کہ ھمیں بھی قوم کو کچھ دینے کی فکر اوڑھنی چاھئے ھم انسے انکا مال (روپیہ) تو لے لیتے ھیں پر انہیں اپنا مال( دین) دینے کی فکر نہیں کرتے سال کے کچھ خاص دنوں میں اپنی غرض سے ملاقات تو کرتے ھیں پر اور دنوں میں انہیں سنبھالنے کی فکر نہیں کرتے ھمیں بھی امت کو دینے فکر کرنی چاھئے اگر ھم نے انکو دین سے جوڑدیا تو یقینا دینی ضرورتوں کو وہ خود آگے بڑھکر پوری کرنے کی فکر کرینگے اور ھر موقعہ پر ازخود بڑھ چڑھکر حصہ لینگے اللہ تعالی ھم سبکو امت کی فلاح و بہبود کی فکر اوڑھنے والا بنائے اور امت کے مخیر حضرات کے دلوں میں دینی شعائر کی اھمیت و محبت کو اجاگر فرمائے ........آمین