اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: November 2018

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 30 November 2018

وقت ایک عظیم سرمایہ ہے!

ریان داؤد ابن حافظ عبدالمنان داؤد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہمارے معاشرے میں سب سے بے وقعت چیز وقت ہے اس کو جس طرح چاہا جیسے چاہا برباد کر دیا کوئی قدر ہی نہیں، دن ہفتے مہینے بے فائدہ اور بے مقصد کاموں میں گزر رہے ہیں، جس میں نہ تو دنیا کا کوئی فائدہ اور نہ ہی دین کا کوئی فائدہ، اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ ہماری کتنی قیمتی متاع ضائع ہورہی ہے، آج ہمارے نوجوان وقت کو فضول کاموں اور لغو باتوں میں گزرانے کے عادی ہوگئے ہیں، اپنی تعلیم اور دیگر امور ضروریہ کو چھوڑ کر بازاروں، ہوٹلوں، اور سینماہالوں میں بیٹھ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے نظر آتے ہیں، انہیں اتنا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہمارا یہ قیمتی سرمایہ لایعنی کاموں میں صرف ہورہا ہے،
آج لوگوں نے اپنے آپ کو غفلت اور بے فکری میں مبتلا کر رکھا ہے، چوبیس گھنٹے کی غور و خوض میں انہیں آخرت کی فکر اور آخرت کا خیال بہت کم آتا ہے، غفلت میں بڑھتے چلے جارہے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، صحت کو بیماری سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، مالداری کو مفلسی سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے، اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کی روشنی میں ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہم اپنے اس قیمتی سرمائے کو کیسے ضائع کرتے ہیں، ہمارا کتنا وقت منشاء تخلیق کو پورا کرنے میں گزرتا ہے اور کتنے لمحات لہو و لعب کے نذر ہو جاتے ہیں، غیروں کو تو چھوڑیے آج کل ہمارے مسلم معاشرے میں مغربی تہذیب کی ایک ملعون وباء پھیلی ہوئی ہے کہ جب عمر کا ایک سال گزر جاتا ہے تو سال گرہ مناتے ہیں اسمیں بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری عمر کا ایک سال پورا ہوگیا، اپنے دوست احباب کو مدعو کرتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں، اس کے پیچھے ہزاروں روپئے خرچ کر ڈالتے ہیں اور طرح طرح کے لغویات میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ تو رنج و افسوس کا موقع ہے کہ ہماری عمر کا ایک سال لہو و لعب میں گزر گیا.
قرآن کریم فرماتا ہے جب بندہ اللہ کے دربار میں حاضر ہوگا تو باری تعالی سے عرض کرے گا اے اللہ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ ہم کچھ اعمال صالحہ کرلیں، اس وقت اللہ تبارک و تعالی کہے گا "اولم نعمركم ما يتذكر فيه من تذكر وجاءكم النذير" کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ تم چاہتے تو نیک عمل کر لیتے صرف یہی نہیں کی تم کو عمر دیکر چھوڑ دیا تھا بلکہ اس کے ساتھ  ڈرانے والا اور دھمکانے والا بھی بھیجا تھا.
اللہ تعالی ہم سب کو اپنے اس عظیم سرمائے کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

صوبائی جمعیة علماء کی "پانی بچاؤ" مہم کو کامیاب بنانے کے لیے میٹنگ کا انعقاد!

بانیان جمعیة کے کارناموں پر سیمینار کے سلسلے میں بھی باہمی مشورہ.

پانی پت(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2018) جمعیة علماء ہند مختلف مواقع پر مسلسل متعدد دینی، سماجی معاشی اور معاشرتی معاملات میں مسلمانان اور دیگر برادران وطن کی رہنمائی کرتی رہی ہے، کچھ ماہ پہلے پورے ملک میں تعلیمی بیداری مہم چلائی گئی، جس سے بڑے مثبت نتائج سامنے آئے اور بیت الخلاء کی تعمیرات میں حکومت کی تحریک کو بڑی قوت بخشی اور ہریانہ میں جمعیة علماء ہند کے بینر تلے غیر قانونی بجلی کے استعمال پر روک لگانے کے لئے 37 ہزار بجلی میٹر مہیا کرائے گئے تھے، اور اب جمعیة علماء ہند نے اپنے کامیاب سفر کو جاری رکھتے ہوئے اہم ترین تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے یعنی "پانی بچاؤ تحریک"، اس سلسلے میں جمعیة علماء ہریانہ پنجاب و ہماچل پردیش اور چنڈی گڑھ کے صدر مولانا محمد یحییٰ کریمی کی زیر صدارت گاؤں بھادس کی جامع مسجد میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں فیصلہ لیا گیا کہ پلول اور پنگواں کے حلقوں کے علاؤہ دوسرے مقامات پر بھی پانی بچاؤ بیداری مہم چلانے کے لئے میٹنگز منعقد کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ جمعیة علماء ہند نے اپنے  صد سالہ سفر کو انتہائی تابناکی اور کامیابی کے ساتھ پورا کرلیا ہے، اس مناسبت پر جمعیة علماء ہند نے آئندہ ماہ دیگر پروگرام اور مجالس کے علاؤہ جمعیة علماء ہند کے بانیان اور معماران کی حیات و خدمات پر سیمینار کرنے کے فیصلہ کیا ہے، اس سلسلے میں بھی جمعیة علماء کے ذمہ داران نے باہمی مشورہ کیا اور جمعیتہ علماء ہند کے سفر کو مزید کامیاب اور ملک و ملت اسلامیہ کے مسائل کے حل میں زیادہ مؤثر بنانے کے لئے مزید تگ و دو کے ساتھ کام کرنے کا عزم بھی کیا، اور میٹنگ میں جمعیة علماء کے  مختلف ذمہ داران اور عہدہ داران نے شرکت کی جن میں سے قاری محمد اسلم صاحب، مفتی سلیم ساکرس، مولانا دین محمد  پنگواں، مفتی سلیم گڑگاواں، مولانا ہاشم نوح، مولانا طیب کنسالی، مولانا ظفر الدین فروز پور نمک، مولانا عثمان سونکھ، مفتی عطاءالرحمٰن مہوں، مولانا توفیق پھوسیتہ، مولانا ساجد راجپورہ، حافظ شبیر سرولی، مولانا جمیل راجپورہ، مولانا عمر گورالتا، قاری مبین اٹاور ، مولانا حسن ساکرس، مولانا جمشید صاحب نول گڑھ ، حافظ محمد یحییٰ نول گڑھ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
 حافظ محمد اسرائیل صاحب کی دعا پر مجلس اختتام پذیر ہوئی مولانا زکریا صاحب بھادس نے اس میٹنگ میں شرکاء کی پر خلوص میزبانی فرمائی۔

دارالعلوم دیوبند کے خلاف گری راج سنگھ کی زہرافشانی شرمناک، ممبر پارلیمنٹ مولانا اسرار الحق قاسمی نے وزیر مملکت سے معافی مانگنے کا کیا مطالبہ!

نئی دہلی(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2018) دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا اڈہ بتانے والے وزیر مملکت گری راج سنگھ کے بیان پر معروف عالم دین، ایم پی و رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند مولانا اسرارالحق قاسمی نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس بیان کی سخت مذمت کی ہے اور گری راج سنگھ کو ذہنی دیوالیہ پن کا شکار بتاتے ہوئے بیان کو واپس لینے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مسٹر مودی ایسے بدزبان وزیروں پر لگام لگائیں، ملک کا مسلمان اس قسم کے بیہودہ و بے بنیاد بیانات کو قطعی طور پر برداشت نہیں کرے گا، انہوں نے کہا کہ ایک وفاقی وزیر کی جانب سے اس قسم کے سطحی بیان کا آنا افسوسناک ہے، شاید موصوف دارالعلوم دیوبند کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں، انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ جب آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا جیسی تنظیمیں انگریزوں کی چاپلوسی میں مصروف تھیں اور ملک کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کی پلاننگ کررہی تھیں، اس وقت دیوبند ہی تھا جس نے اس ملک کی آزادی میں ہر قسم کی قربانی دی اور یہاں سے غیر ملکی تسلط کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا، دیوبند اور علمائے دیوبند ہمیشہ وطن دوستی کے علمبردار رہے ہیں اور انہوں کسی بھی قسم کے خوف و لالچ سے بے پرواہ ہوکر اس ملک کو سنوارنے اور بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے.
مولانا قاسمی نے کہاکہ دارالعلوم دیوبند اور وہاں سے فارغ ہونے والے علماء و فضلاء ہر دور میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں اور آج بھی ہندوستان بھر میں اور بیرونِ ہند بھی ہزاروں فضلائے دیوبند ہیں جو وطن عزیز کا نام روشن کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ گری راجن سنگھ کا بیان سراسر سیاسی اسٹنٹ ہے اور جوں جوں عام انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں بی جے پی اور اس کے لیڈران اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے ساتھ باہر نکل رہے اور عوام کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں.
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں وزیر مملکت گری راج سنگھ ایک پروگرام میں شرکت کے لئے دیوبند گئے تھے جہاں انہوں نے مقامی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ کسی گروکل سے کوئی دہشت گرد نہیں نکلتا مگر بغدادی اور حافظ سعید جیسے دہشت گرد مدارس اور دارالعلوم دیوبند جیسے اداروں سے نکلتے ہیں، انہوں نے دارالعلوم کو دہشت گردی کا اڈہ بھی قرار دیا تھا۔

پسماندہ دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا نوجوان شاعر بیرون ممالک دبئی میں بکھیرہ جلوہ!

سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2018)
یہ کبیرہ کی زمیں ہے، روح میں ایمان بستا ہے
کہیں پر رام بستا ہے کہیں رحمان بستا ہے
شاعری ایک ایسا فن ہے جو قدیم زمانے سے ہی اپنا اہم مقام حاصل کئے ہوئے ہے، اس کے ذریعے تہذیبی اور حب الوطنی کا پیغام شاعر ایک لائن ہی میں جس قدر پیش کر دیتا ہے وہ اپنے آپ میں نمایاں خوبی ہے، دھنگھٹا تحصیل حلقہ کے موضع "بسیاجوت" میں  پیدا ہوا شاعر "اسد مہتاب" ایک ایسا نام ہے جو اپنی شاعری کے ذریعہ اپنے علاقے کا ہی نہیں بلکہ پورے ملک ہندوستان کا نام روشن کر رہا ہے،
حال ہی ٢٣ نومبر٢٠١٨ء کو دبئی کے شارجہ میں منعقدہ مشاعرے میں یہ نوجوان شرکت کر علاقے کا نام روشن کیا ہے، جو ہم لوگوں کے لئے باعث فخر کی بات ہے.
میں امن کا پھول ہوں محبت میری زباں
اردو ہے میرا جسم تو ہندی ہے میری جاں
جیسے اشعار قومی یکجہتی کا پیغام دیتی ہیں، گاؤں کی مٹی میں پلا بڑھا یہ نوجوان اپنی لگن اور محنت کے ذریعہ اپنے دل میں حب الوطنی کا جذبہ لئے ہوئے ملک کی سرحد پار  کر اب بیرون ملک میں بھی ہندوستان کی تہذیب و قومی یکجہتی، امن وسلامتی کا پیغام اپنے شاعری کے ذریعہ دینے چل پڑا ہے، اسد مہتاب کے شعروں نے خوب واہ واہی بٹوری ہے، ان کی اس کامیابی پر علاقے کا ہر نوجوان وبزرگ انہیں مبارک باد پیش کرنے آیا۔
علاقے کی معزز و معروف شخصیت منشی محمد حسین صدیقی نے مبارک باد پیش کرتے ہو  کہا کہ اسد مہتاب جس طرح سے شاعری کے ذریعہ ملک میں اتحاد قائم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے وہ قابل ستائش ہے، آنے  والے دنوں میں اس کی یہ کوشش ضرور کامیاب ہوگی.
اس موقع پر مولانا محمد مسلم خان، محمد شاہد، مولانا عبدلاحد چتوڑی، حافظ عبدالرشید، جسونت یادو، شمبھو ورما و دیگر حضرات موجود رہے۔

پاسبان علم و ادب کا پہلا زمینی عظیم الشان پروگرام اختتام پزیر!

شیخ محمد خالد اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لال گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2018) یہ اطلاع دیتے ہوئے انتہائی مسرت محسوس ہورہی ہے کہ پاسبان علم و ادب کا پہلا زمینی پروگرام بیحد پرکشش اور دلکش تھا، توقع سے زیادہ کامیاب تھا، ڈاکٹر ارشد صاحب  کی ٹیم ورک نے نہایت جانفشانی کیساتھ پروگرام کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا.
ڈاکٹر ارشد صاحب نے انتہائی محتاط انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے تلاوت قرآن کریم اور نعت پاک کے بعد بندہ کو ہاس پاسبان کے تعارف کیلئے آواز دی، بندہ نے مقررہ دس منٹ میں پاسبان کا تعارف کرایا اس کے بعد پاسبان کی موقر شخصیات مفتی عاصم کمال صاحب، مفتی شاکر صاحب، مولانا محبوب عالم صاحب، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی صاحب، شیخ ریاض احمد صاحب، مفتی عبداللہ شمیم صاحب اور مولانا شجاع کو بالترتیب دعوت سخن دی ان حضرات نے مقررہ وقت میں متعینہ موضوع پر اپنے قیمتی بیانات سے سامعین کو مستفید فرمایا اور آخر میں پاسبان کے روح رواں مولانا شفیق احمد قاسمی صاحب کو بندہ نے دعوت سخن دی موصوف نے تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی پرسوز دعاؤں پر پروگرام کا اختتام کیا.
مولانا شفیق صاحب سے پہلے ماموں جان کو نعت کیلئے دعوت دی گئی انہوں نے اپنی منفرد اور پرکشش آوز میں محفل کو گرمادیا آور پوری محفل کو لوٹ لیا.
پروگرام کا آغاز ڈاکٹر نثار احمد صاحب ممبر پاسبان کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا، بعدہ حافظ حبیب سلمہ بسہی اقبال پور نے بارگاہ رسالت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، سامعین حضرات نے پروگرام کو بہت سراہا، اللہ کی ذات سے امید ہے اس پروگرام کے دور تک اثرات مرتب ہوں گے، اور پاسبان کے پلیٹ فارم سے زمینی سطح رفاہی خدمات انجام پائیں گی ان شاءاللہ.
پروگرام کی کامیابی کیلئے میں ایڈمن اعلی و ڈاکٹر ارشد صاحب سمیت تمام پاسبانی شرکاء پروگرام کا دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں.

امبیڈکرنگر: مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی کی والدہ محترمہ کا انتقال، نماز جنازہ آج بعد نماز جمعہ!

محمد اجوداللہ پھولپوری 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امبیڈکرنگر(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2018) انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ اطلاع دیجاتی ہیکہ مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر کے مایہ ناز و مؤقر استاد حدیث مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی کی والدہ محترمہ ۹۰ سال کی بابرکت عمر گزار کے اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کرگئیں ہیں،
انا للہ وانا الیہ راجعون، غم کی اس گھڑی میں مدرسہ بیت العلوم کی انتظامیہ یہاں کے اساتذہ و طلبہ مولانا کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اور اپنے تمام محبت کرنے والوں کو مرحومہ کیلئے ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کی زحمت دیتے ہیں، دعاء فرمائیں کہ اللہ تعالی مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے، پہلی منزل قبر کو آسان بنائے اور جنت الفردوس میں اپنی شایان شان مقام نصیب فرمائے، نیز اھل خانہ خصوصا مولانا محبوب عالم صاحب کو صبر جمیل وفیر نصیب فرمائے اور اس صبر پر مولانا کو اپنا خاص قرب نصیب فرمائے، آمین یا رب العالمین
نوٹ: نماز جنازہ ان شاءاللہ مولانا کے مسکن معہود عینواں امبیڈکر نگر میں آج بروز جمعہ بتاریخ ۳۰ نومبر بعد نماز جمعہ متصلا  اداء کی جائے گی، خطبہ جمعہ ایک بجے ہوگا.

Thursday 29 November 2018

ڈاکٹر مناظرالدین کے انتقال پر مدرسہ اسلامیہ چہرا کلاں میں تعزیتی نشست!

عبدالرحیم برہولیاوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
حاجی پور/مظفرپور(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2018) پروفیسر جگن ناتھ مشرا کالج و سنٹرل پبلک اسکول سعد پورہ مظفر پور کے ڈائرکٹر جناب ڈاکٹر محمد مناظر الدین کے انتقال کی خبر سن کر ایک تعزیتی نشست رکھی گئی، اور ان کے انتقال کے پر دکھ کا اظہار کیا گیا، مرحوم تیندا ویشالی کے ہی رہنے والے تھے، بہت ملنسار، قوم و ملت کے ہمدرد اور سچے خادم تھے، مسلمانوں کی زبوں حالی اور پستی کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا، اور انہوں نے سمجھا کہ پستی کی وجہ عصری تعلیم میں بچھڑنا ہی ہے، چنانچہ اس پستی کو دور کرنے کے لئے انہوں نے مظفر پور سعد پورہ میں سینڑل پبلک ہائی اسکول کی بنیاد رکھی اور اس کو پروان چڑھانے میں اپنی پوری زندگی صرف کردی، انہیں کی محنت اور جانفشانی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ اسکول مظفرپور میں اپنی ایک پہچان بنالیا ہے، اور ہزاروں تشنہ گان علوم فیضیاب ہوکر ملک و ملت کی خدمت کر رہے ہیں،
آج وہ ہمارے درمیان نہیں رہے جس کا بہت رنج ہے، اور ان کی غیر موجودگی علاقہ و قرب و جوار کے لئے بہت دکھ کا باعث ہے، لیکن موت تو ایک دن سب کو آنی ہے اس سے انکار ممکن نہیں، بس صبر ہی ایک واحد راستہ ہے جس سے غم کو دور کیا جاسکتا ہے، مرحوم نے اپنے پسماندگان میں دو لڑکا اور دو لڑکی چھوڑا، اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہے کہ ان کے آل و اولاد اور متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے، آمین
نشت کا آغاز مدرسہ کے طالب علم عزیزم محمد سہیل کی تلاوت قرآن سے  ہوا، اس مجلس میں جملہ اساتذہ کرام جناب ماسٹر محمد شمیم الہدی،ٰ قاری احمد حسین، مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی، ماسٹر محمد آصف الدین، ماسٹر محمد افضل رضا، چہرا کلاں ویشالی کے امام و خطیب جملہ طلبہ کرام شریک رہے مدرسہ ھذا کے صدر مدرس مفتی توقیر عالم قاسی کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔

اعظم گڑھ: "بوہرہ عقائد اور تاریخ" کتاب کا اجراء!

بوہرہ عقائد اور تاریخ (اسمٰعیلی شیعوں کی جماعت بوہرہ کا ایک تعارف)۔
عربی مصنف: مولانا رحت اللہ اثری فلاحی مدنی
اردو مترجم: مولانا ذکی الرحمن غازی فلاحی ندوی۔(استاد جامعة الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ۔)

تحریر: مولانا طاہر مدنی
ــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ (آئی این اے نیوز 29/نومبر 2018) جامعة الفلاح کے مولانا ابواللیث ھال میں ایک کتاب کا اجراء عمل میں آیا، یہ کتاب اسماعیلی شیعہ کی ایک جماعت؛ بوہرہ؛ کے بارے میں ہے، شیعوں کے بہت سارے فرقے اور جماعتیں ہیں، البتہ ان کا بنیادی نظریہ وصیت و امامت پر منحصر ہے، یعنی یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کیلئے وصیت کردی تھی لیکن اسے نظر انداز کردیا گیا اور خلافت انہیں سپرد نہیں کی گئی، یہ حضرات خلافت کو ائمہ اہل بیت میں محصور مانتے ہیں اور اپنے ائمہ کی عصمت کے بھی قائل ہیں، شیعیت کا آغاز خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اٹھنے والے فتنہ سے ہوا، جس کا سرخیل یہودی النسل عبد اللہ بن سبا تھا، رفتہ رفتہ ان میں بہت سارے فرقے پیدا ہوگئے، ان میں ایک بوہرہ ہیں جن کا مرکز ممبئی میں ہے،
مہاراشٹر اور گجرات میں ان کی خاصی تعداد ہے، خلیجی ممالک میں بھی ان کے مراکز ہیں، تجارت میں یہ بہت مضبوط ہیں اور باہمی اشتراک سے کام کرتے ہیں، عام طور سے یہ اپنے عقائد و نظریات کو مخفی رکھتے ہیں، اس لیے ان کے بارے میں میں معلومات حاصل کرنا دشوار امر ہے، استاذ محترم اور ناظم جامعہ مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی مدنی حفظہ اللہ شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے تقریباً 35 برس قبل انتہائی جانفشانی اور دقت نظری سے مدینہ یونیورسٹی میں ماجستير کیلئے اپنی جو تحقیقی تھیسس پیش کی وہ بوہرہ جماعت کی تاریخ اور عقائد و نظریات سے متعلق تھی، بعد میں کتابی شکل میں یہ علمی کام منظر عام پر آیا اور عربی داں طبقے کیلئے مرجع و ماخذ بنا.
اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ اس علمی کتاب کا اردو ترجمہ منظر عام پر آئے، چنانچہ یہ بیڑا نوجوان صاحب قلم مولانا ذکی الرحمن غازی فلاحی ندوی مدنی، استاذ جامعہ نے اٹھایا اور بحسن خوبی اس کام کو انجام دیا، تعارف نامہ اور ضمیمہ جات کے ذریعے اس میں قابل قدر اضافہ بھی کیا، مکتبہ الفھیم مئو نے بڑے اہتمام سے اسے شائع کیا، مختصر مدت میں فاضل مترجم کے قلم سے 22 تصنیفات اور 6 ترجمے منظر عام پر آ چکے ہیں، اللہ نے بڑا ستھرا علمی ذوق اور سیال قلم انہیں عطا فرمایا ہے، اللہ کرے قبولیت حاصل ہو اور اہل علم استفادہ کریں. آمین
اس کتاب کا تعارف مولانا ولی مجید قاسمی صاحب شیخ الحدیث جامعة الفلاح نے کرایا اور محترم مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی مدنی حفظہ اللہ نے کتاب کی تیاری کے پس منظر اور مراحل سے واقف کرایا اور فاضل مترجم و ناشر کا شکریہ ادا کیا، محترم مولانا ابوالبقاء ندوی حفظہ اللہ معتمد مال کے اختتامی کلمات اور دعا پر نشست کا اختتام ہوا.
کتاب طلبہ کیلئے انتہائی رعایتی قیمت پر صرف 250 روپیہ میں دستیاب ہے جبکہ قیمت اصلی 560 روپیہ ہے، کتاب 636 صفحات پر مشتمل ہے، یہ ایک بیش قیمت علمی تحفہ ہے، جس سے اہل علم ضرور استفادہ کریں گے اور عام لوگوں کو بھی بوہروں کے بارے میں واقفیت ہوگی. ان شاء اللہ

مدرسہ عربیہ ہدایت العلوم موضع چکیا، دھسوا میں ششماھی امتحان میں شہزادی، بریرہ، صادقہ، رہیں اول!

حافظ عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2018) بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے تو بڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا، اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، مذکورہ خیالات کا اظہار مدرسہ عربیہ ہدایت العلوم موضع چکیا، دھسوا کے بانی مولانا محمد سعید قاسمی نے اپنے آبائی گاؤں میں ہورہے ششماہی امتحان کے دوران طلباء وطالبات سے اپنے خطاب میں کہا، انھوں نے کہاکہ طلباء وطالبات اپنے آپ کو بوجھ کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور ثابت کرنے کا ایک وسیلہ سمجھتے ہیں.
 اس دوران مولانا سعید قاسمی نے علماء کے ایک وفد جس میں مولانا علی احمد قاسمی مولانا رئیس احمد سمیت نصف درجن حفاظ کرام نے  طلباء وطالبات کا باریکی سے تعلیمی جائزہ لیا، اس پر مدرسہ کے بانی نے تعلیم تدریس میں مصروف صدرالمدرسین حافظ محمد قاسم کے ذریعہ ہورہی بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دعاؤں سے نوازا.
مذکورہ بالا مدرسہ میں ہوئے امتحان میں درجہ پنجم کی طالبہ   شہزادی، بریرہ، صادقہ اول رہیں، تو وہیں درجہ چہارم میں دوسری پوزیشن، شاداب، ناصرین ثناء، اور تیسری پوزیشن سلمان، ریحان، محمد آصف، حمزہ، نے اچھے نمبروں سے نمایا کامیابی حاصل کی.

عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ: مولانا محمد مستقیم قاسمی، بلرام پوری،

حافظ عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
مہولی/سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2018) نکاح کرنا بہت ہی اہم سنت اور اہم عبادت ہے اور نکاح کے اہم مقاصد میں پاک دامنی اور صالح اولاد کی طلب اور نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت ہے، آدمی کو انہیں بنیادی چیزوں کو سامنے رکھ کر نکاح کرنا چاہیے، مذکورہ خیالات کا اظہار تحصیل دھن گھٹا حلقہ کے قصبہ مہولی انصار محلہ میں واقع ضیاء الرحمن ابن حفیظ اللہ سابق پردھان مرحوم کے تعاون سے منعقد جلسہ میں بطور مہمان مقرر خصوصی مولانا محمد مستقیم قاسمی بلرامپوری ناظم مدرسہ معراج العلوم چھتہی پوکھرہ نے کہا، انھوں نے کہا کہ اللہ نے نکاح میں انسان کے لیے بہت سے دینی و دنیاوی فائدے رکھے ہیں، مثلاً معاشرتی، خاندانی، اخلاقی، سماجی، نفسیاتی غرضیکہ فائدوں اور خوبیوں کا دوسرا نام نکاح ہے.
 مولانا بلرام پوری نے عوام سے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اور مرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے، لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے، اگر انسان نکاح سے جو انسانی فطری ضرورت ہے منھ موڑنے کی کوشش کرتا ہے تو انسان کو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نکاح کے بغیر سارا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے نکاح ایک اہم سنت ہے اور اسے سنت کے طریقہ پر ادا کرنا باعث سعادت ہے.
جلسہ کو مولانا حسان احمد قاسمی نے بھی خطاب کیا نعت و منقبت کا نذرانہ مولانا عبدالغفار امام مسجد فاران مہولی ایاز خلیل آبادی وثیق کبیر نگری نے پیش کیا، نظامت کے فرائض ڈاکٹر اطہر حسین رحمانی نے انجام دیا.
 اس موقع پر سعید اللہ، عبد الرحمن، ماسٹر عارف، جنید احمد، ڈاکٹر نور الامین، اسرائیل سیٹھ، اصطفاء حسین، گڈو عبد الکریم، مسیح اللہ وغیرہ موجود رہے.

تعارف مدرسہ صوفیہ اسلامیہ کرمینی اعظم گڈھ!

مولانا عبد الباسط مفتاحی مہتمم مدرسہ ہذا
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ بات ہر مسلمان پر واضح ہے کہ مذہب اسلام کی بقا اور تحفظ کامدار بالخصوص ہمارے ملک ہندوستان میں دینی مدارس اور قرآنی مکاتب کے وجود پر منحصر ہے، یہیں سے علماء کرام علم دین کی دولت سے مالا مال ہو کر نکلتے ہیں اور جہاں تک ہوسکتا ہے اس دولت کو عام کرتے ہیں، یہیں سے قارئ قرآن تیار ہوتے ہیں، جو قرآن کو عمدہ سے عمدہ طریقے پر پڑھ کر لوگوں کے دلوں میں کتاب اللہ کی محبوبیت پیدا کرتے ہیں، یہیں سے حفاظ قرآن اپنے اپنے سینوں میں قرآن کریم کی آیات محفوظ کرکے رمضان میں مساجد کو تراویح کے نور سے منور کرتے ہیں، یہیں سے ناظرہ خواں تیار ہو کر نکلتے ہیں جو اپنے اپنے گھروں میں قرآن کی تلاوت کا معمول رکھتے ہیں۔
بہت ضروری ہے کہ مدارس بالخصوص قرآنی مکاتب ہر ہر گاؤں میں ہوں اور ان میں قرآن کریم کی صحیح تعلیم ہو، جدائی دینیات بچوں کو پڑھائی جائیں اسی کے ساتھ بقدر ضرورت ہندی انگریزی اور سائنس اور جغرافیہ کے علوم کی ابتدائی چیزوں سے بچوں کو واقف کرایا جائے؛ تاکہ مسلمان بچے اپنی بنیادی دینی و قرآنی تعلیم سے بہرہ ور ہوکر پھر کسی اور میدان کی طرف رخ کرنا چاہیں تو انہیں سہولت بھی ہو اور دین کی بنیادی تعلیم و تربیت کی وجہ سے اپنے مذہب سے وابستگی بھی برقرار رہے اور یہ کہ انہیں میں ایسے جواں مرد بھی تیار ہوں، جو دینی و عربی تعلیم کا کورس مکمل کر کے اپنی زندگی کو دین کی حفاظت کے لئے وقف بھی کرسکیں، چنانچہ مدرسہ صوفیہ اسلامیہ کرمینی رونا پار اسی احساس اور اسی مقصد سے قائم کیا گیا ہے۔ مدرسہ صوفیہ اسلامیہ کرمینی اعظم گڈھ
زیر سرپرستی: مولانا فرقان بدر قاسمی اعظمی
ناظم: مولانا محمد راشد ندوی

مذاکرہ بعنوان "بابری مسجد کا سبق "کا انعقاد!

کیرانہ(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2018) القرآن اکیڈمی کیرانہ میں ایک مذاکرہ بعنوان "بابری مسجد کا سبق" منعقد کیا گیا، مذاکرہ میں اکیڈمی کے طلبہ نے شرکت کی، مذاکرہ کا آغاز زیر بحث موضوع کے اجتماعی مطالعہ سے ہوا، اجتماعی مطالعہ کے بعد مفتی اطھر شمسی ڈائرکٹر القرآن اکیڈمی کیرانہ نے متعلقہ موضوع کا تعارف کرایا، جس میں بابری  مسجد کے ایشو پر ہندو تنظیموں کی جانب سے 1984-1992 کے درمیان اٹھائی جانے والی رام مندر تحریک اور اس پر مسلمانوں کے رد عمل کا ایک تاریخی مطالعہ پیش کیا گیا، نیز اس خطاب میں حال ہی میں ایودھیا میں ہندو تنظیموں کی جانب سے  پیش آنے والے چیلنجز اور اس پر ہندوستانی مسلمانوں کے رد عمل کا جائزہ لیا گیا.
بعدہ شہزاد خطیب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1984 - 1992 کے دوران ہندو تنظیموں کی جانب سے پیش آمدہ چیلنج کا جواب مسلمانوں کی جانب سے نہایت جذباتی انداز میں دیا گیا، نتیجہ یہ
ہوا کہ ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں بیش قیمتی جائیداد یں برباد ہوئیں اور مسلمانوں کی ترقی ایک طرفہ طور پر رک گئی، اس طرح دشمن اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے خالد بن سعود نے کہا کہ حال ہی میں  کچھ ہندو تنظیمیں رام مندر ایشو کو لیکر ایک بار پھر ایودھیا میں اکٹھا ہوئیں، انہوں نے ملک کے ماحول کو گرمانے کی کوشش کی، لیکن اس بار مسلمانوں نے آن کی بے معنی حرکتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا، نتیجہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جان و مال، آبرو اور ملک کا امن و امان محفوظ رہا.
 محمد عیسی نے کہا کہ دو واقعات کے اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہترین پالیسی وہ ہے جو ہندوستانی مسلمانوں نے اس بار اختیار کی.
اس موقع پر کاظم احمد نے بابری مسجد کی مختصر تاریخ بیان کی، ریحان مسرور نے کہا کہ میں مسلمانوں کو رویہ کی اس تبدیلی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، خاور صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رویہ کی اس تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں بڑھتا ہوا تعلیمی شعور ہے، اکیڈمی کے تمام طلبہ غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پر پہنچے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا باوقار وجود ان کی منصوبہ بند خاموشی میں مضمر ہے نہ کہ ردعمل کی جذباتی ہنگامہ آرائی میں.

Wednesday 28 November 2018

سب سے بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے، موضع ناون خرد میں منعقدہ اجلاس "اصلاح معاشرہ" سے مفتی حفیظ اللہ کا خطاب!

حافظ عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نیتواپور/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2018) عورتوں کی تمام خرابیوں کی اصل جڑ اور بنیاد کا ایک ہی امر ہے اگر اس کی اصلاح ہوجائے تو سب باتوں کی اصلاح ہوجائے، وہ یہ کہ آج کل بے فکری ہوگئی ہے اگر ہر کام میں دین کا خیال رکھا جائے کہ یہ کام جو ہم کرتے ہیں دین کے موافق ہے یا نہیں تو ان شاء اﷲ تعالیٰ چند روز میں اصلاح ہو جائے گی، مذکورہ خیالات کا اظہار تحصیل دھن گھٹا حلقہ واقع موضع ناون خرد سنت کبیر نگر چھوٹی پورب والی مسجد میں ایک روزہ منعقدہ اصلاح معاشرہ کے عنوان سے مفتی حفیظ اللہ قاسمی ناظم تعلیمات مدرسہ سراج العلوم بھیونڈی، بھگوتی پور، نے اپنے خطاب میں کہا، انھوں نے کہا اگر ہم میں سے ہر شخص صرف اپنی ذات کو بہتر بنانے میں لگ جائے تو ہمارا سارا معاشرہ بہتر ہوجائے گا، فرمان باری تعالیٰ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ، پہلے خود کو بچانے کا حکم دیا گیا اس کے بعد دوسروں کو بچانے کیلیے کہا گیا.
 مفتی حفیظ اللہ قاسمی نے سماج میں بڑھ رہی برائیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہو مزید کہاکہ اصلاح معاشرہ کے لیے بھی ہمیں رسول پاک کی  اتباع کرنی ہوگی اور آپ ہی کے بتائے ہوئے راہ پر چلنا ہوگا اور آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا، انھوں نے عوام کو زور دیتے ہوئے کہا کہ جن معاشروں نے زبان سے اقرار نہیں کیا لیکن عملاً تمام فطری قوانین کو جو عین اسلام بھی ہیں، اپنا لیا، آج وہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.
مفتی صاحب نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم کیوں ضروری ہے، عورت اور مرد معاشرے کے اہم ستون ہیں اور معاشرے کی بقاء کیلئے دونوں کا کردار بہت اہم ہے، کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے تعلیم لازمی ہے، اسلام نے عورت کو معاشرے میں عزت کا مقام دیا ہے اور عورتوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول پر زور دیتا ہے، اس کے باوجود  ہمارے اپنے ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر عورت کو تعلیم کے  حق سے محروم رکھا جاتا ہے انھوں نے یہ بھی کہا کہ آج بھی ہمارے ملک میں ایسے علاقے موجود ہیں، جہاں پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت کا  علم حاصل کرنا ضروری نہیں ہے، تعلیم تو ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اور انسان کو روشنی عطا کرتی ہے تاکہ وہ درست سمت کی تعیین کر سکے، کوئی معاشرہ تعلیم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے.
ناظم تعلیمات بھیونڈی نے اپنے پرمغز خطاب میں بچیوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم نسواں  پر توجہ مرکوز کرکے کسی ملک بھی ملک میں معاشی واقتصادی ترقی لائی جاسکتی ہے، لوگ اکثر کہتے ہیں لڑکی کو تعلیم کیوں دلوائیں اور اس پر اتنا خرچا کیوں کریں جب اس نے آگے جا کر ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے اور گھر سنبھالنا ہے، ایسے  لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت کے دم سے یہ معاشرہ قائم ہے، جو اپنی گود میں نسلوں کو پروان چڑھاتی ہے، اب جس نے نئی نسل کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے چل کر اس معاشرے کو سنبھال سکے جب وہ خود کسی قابل ہوگی تو ہی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھ پائے گی، سب سے بہترین درسگاہ ماں کی گود ہے، تاریخ گواہ ہے کہ ہر ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اسی طرح تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی بہتر انداز میں پرورش کر سکتی ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی ڈھال بن سکتی ہے، ہمارے ہاں تو عورتوں کی بڑی تعداد بنیادی تعلیم تک سے محروم ہیں، ہمارے ملک میں لڑکیوں اور خواتین کیلئے اسکولوں کی کمی کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع بھی کم ہیں، ایک تعلیم یافتہ ماں اپنی اولاد کی بہتر تربیت کر سکتی ہے اور وقت پڑنے پر اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے، تعلیم عورت کو خوداعتمادی عطا کرتی ہے اور اسے خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے، انیسوی صدی کے شروع تک عورتیں اور بچیاں صرف گھریلو غیر رسمی تعلیم تک محدود تھیں مگر اب معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی آئی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی بچیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہیں، اسلامی زندگی کے سفر میں نام نہاد مغربی تعلیم وتہذیب کے دھوکہ دینے والے چراغ کافی نہیں ہیں؛ بلکہ اس سفر کی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے اسلامی تعلیمیات کے روشن ستاروں سے نسبت رکھنا بے حد ضروری ہے.
اس موقع پر مولانا زبیر احمد، مولانا محمد حسین، مولانا محمد اسرائیل، مولانا عبدالمنان قاسمی، حافظ علی احمد قاسمی سمیت کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی.

Tuesday 27 November 2018

سنت کبیرنگر: ٹوائلٹ کے نام پر ذمہ داروں کا کھیل!

سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2018) ٹوائلٹ کے نام پر کھیل ہو رہا ہے، سرکاری اسکیموں میں اہم اسکیم ہے"سوکش بھارت مشن" ہے جس کا مقصد ہے ہر گھر ٹوائلٹ سے منسلک ہو، اس کے لئے اعلی افسران اپنے ماتحتوں کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ ہر حال میں اہل لوگوں کو ٹوائلٹ مہیا کیا جائے، تاکہ جلد ازجلد ضلع سنت کبیر نگر کو مکمل طور پر "او ڈی ایف " قرار دیا جا سکے.
ناتھ نگر حلقہ کے تمام گاؤں پنچایتیں ٹوائلٹ تقسیم میں پردھان اور سکریٹری  کے ساتھ ملکر کھیل کھیلے ہیں، گاؤں پنچایت مڑہا راجہ کے ارشد خان نے الزام لگایا کہ انھوں نے سکریٹری یوگیندر کمار گونڈ کو تین  ماہ پہلے دو اہل لوگوں کا نام اور آدھار کارڈ کی فوٹو کاپی دے چکے ہیں، لیکن سکریٹری کے ذریعے کبھی نام لسٹ میں درج ہو گیا ہے کبھی درج کرلیا جاۓ گا کی بات کہکر گمراہ کیا جا رہا ہے، اس سے ایک ذمہ دار آفیسر کی شبیہ پر شک پیدہ ہو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سکریٹری اور پردھان کے ذریعہ تقسیم شدہ ٹوائلٹوں کی از سِرنو اعلی افسران جانچ کریں، اور لاپرواہ سکریٹری کے خلاف مناسب قانونی ایکشن لیں، جس سے حکومت کے من موافق اہل لوگ اس اسکیم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔

مولانا علی حسن مظاہری کی تعلیمی خدمات اور انکی سماجی ومعاشرتی سرگرمیاں لائق تعریف وستائش: مفتی محمد ثاقب قاسمی

یمنانگر/مالیر کوٹلہ پنجاب (آئی این اے نیوز 27/نومبر 2018) دار العلوم امدادیہ گڑھی، یمنانگر ہریانہ کا ایک معیاری ادارہ ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلباء حفظ وناظرہ اور عربی درجات کی تعلیم حاصل کررہے ہیں، مولانا علی حسن مظاہری مدرسہ ہذا کے بانی و مہتمم اور جمعیة علماء ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش، چنڈی گڑھ کے جنرل سیکریٹری نے انتہائی پسماندہ اور دور دراز علاقے میں مدرسہ قائم کرکے قوم کے نونہالوں کو تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں، یہ امت مسلمہ کیلئے ایک عظیم نعمت ہے، اور قوم کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے، مدرسہ ہذا کا تعلیمی وتربیتی نظام بہت منظم ہے
اور مولانا کی جدوجہد اور تعلیمی خدمات بے شمار ہیں، ہر دم بچوں کی تعلیم اور انکی تربیت کی فکر میں رہتے ہیں مولانا کے ماتحت ہریانہ وپنجاب میں تقریبا ساٹھ مکاتب بھی چل رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار جامعہ عربیہ حفظ القرآن مالیر کوٹلہ پنجاب کے استاذ حدیث وتفسیر مفتی محمد ثاقب قاسمی نے کیا، انہوں نے کہا کہ مولانا علی حسن مظاہری ایک متحرک وفعال شخصیت ہیں، اور ایسی شخصیات کی ملت وملک کو اشد ضرورت ہے جو قوم کے بچوں کو اچھی اور معیاری تعلیم سے روشناس کرائیں اور غریب و نادار بچوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرکے قوم کو خواندہ اور تعلیم یافتہ بنائیں، جامعہ ہذا کے ماتحت لڑکیوں کا بھی ایک عظیم ادراہ ہے جو مولانا موصوف کی ہی سرپرستی میں ہے، جہاں پرسکون ماحول میں قوم کی بچیوں کو بھی دینی وعصری تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے، مولانا کے اخلاق اتنے اچھے ہیں کہ اگر کوئی پہلی مرتبہ بھی ان سے ملاقات کرتا ہے ان سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ پاتا، ان کی شیریں گفتگو، عمدہ اکرام اور شاندار مہمان نوازی سے لوگ کافی اچھا تاثر لے کر جاتے ہیں، گذشتہ کل جب مفتی محمد ثاقب قاسمی مدرسہ ہذا کے تعلیمی بیداری کانفرس میں مدعو کئے گئے جہاں پنجاب اور ہریانہ کے علمائے کرام کے علاوہ جنوبی افریقہ سے بھی مولانا محمد فرحان اور مولانا محمد عرف بھائی جان  تشریف لائے ہوئے تھے، پروگرام کافی پرمغز تھا مولانا محترم کے صاحبزادہ نے انگلش میں استقبالیہ پیش کیا، جس کی مولانا عبد اللہ خالد مظاہری نے اردو زبان میں تلخیص کی، جس میں مدرسہ کے قائم کرنے کا سبب، مولانا کا سفر حج پر مرحوم شیخ محمد یونس سے ملاقات اور انکا ادارہ کھولنے کا مشورہ، اور افریقہ سے آئے مہمان عظام کا تعارف وغیرہ کو بیان کیا.
بعدہ مولانا علی حسن مظاہری نے تعلیم کی اہمیت وافادیت اور قرآن کریم کی تعلیم کی ترویج کے متعلق بڑا اہم بیان فرمایا، آخر میں افریقہ سے آئے مہمان معظم کی دعا سے مجلس کا اختتام ہوا.

مسلم بیداری کارواں کو عام آدمی پارٹی کی حمایت!

محمد سالم آزاد
ـــــــــــــــــــــــــ
پٹنہ(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2018) عام آدمی پارٹی نے گزشتہ دنوں سیتامڑھی میں ہوئے دنگا فساد اور اس میں 82؍سالہ زین الانصاری کے بہیمانہ قتل کے خلاف 29؍نومبر 2018 کو پٹنہ اسمبلی کے سامنے ہونے والے دھرنا اور احتجاجی مارچ کی حمایت کا اعلان کیا ہے، اقلیتی سیل عام آدمی پارٹی (بہار) کے صوبائی سکریٹری نواز شریف ندوی نے اس کی اطلاع دی اور کہا
کہ ہمارا ملک جمہوری ہے، کثرت میں وحدت، رواداری، میل جول، آپسی محبت و بھائی چارگی اس ملک کی پہچان ہے، گنگا جمنی تہذیب ہماری مشترکہ وراثت ہے، لیکن افسوس ہے کہ کچھ شرپسند لوگ ملک کی فضا کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، نواز شریف نے کہا کہ سیتامڑھی میں پچھلے دنوں جو فساد ہوا وہ ملک کی تاریخ پر بدنما دھبہ ہے، عام آدمی پارٹی اس طرح کی کسی بھی فرقہ واریت اور شدت پسند گروہ کے خلاف ہے، اور اسی وجہ سے جمہوری قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی نے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے دھرنا و احتجاجی مارچ کی حمایت کا اعلان کیا ہے، نواز شریف نے سابق صدر جمہوریہ ہند پرنب مکھرجی کے ایک بیان کا حوالہ دیا، جس میں بھرے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر جمہوریہ نے کہا کہ "ملک کو ایک ایسے پارلیمنٹ کی ضرورت ہے جو بحث کرے اور فیصلے کرے، نہ کہ رکاوٹ ڈالے، ایک ایسے عدلیہ کی ضرورت ہے جو بغیر تاخیر کے فیصلے اور انصاف فراہم کرے، ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کے تئیں وقف ہو اور ان اقدار کی ضرورت ہے جو ہمیں ایک عظیم تہذیب یافتہ بنائیں“.
مسٹر ندوی نے کہا کہ سابق صدر جمہوریہ کا یہ بیان ملک کی موجودہ تشویشناک صورت حال کو ظاہر کرتا ہے، لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ملک میں امن و امان اور سلامتی کی خاطر اس احتجاج کو کامیاب بنائیں.

Monday 26 November 2018

نبی ﷺ کی اتباع کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور نا ممکن ہے: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

آقائے دوعالم ﷺ سے محبت کرنے والے ان کی سنتوں سے بھی محبت کرتے ہیں.

محمد فرقان
ـــــــــــــــــــــ
بیدر(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2018) اللہ تبارک وتعالی کی ہم پر بے شمار نعمتیں ہیں ان نعمتوں کو اگر کوئی شمار کرنا چاہے تو زندگیاں تو ختم ہو سکتی ہیں لیکن نعمتوں کو کوئی گن نہیں سکتا، ان میں عظیم الشان نعمت دین واسلام، کلمہ و ایمان اور حضوراکرم ﷺ کی بعثت کی نعمت ہے سورہ آل عمران میں اللہ تعالی نے فرمایا بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں ان کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے یقینا یہ سب پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے، حضرات انبیاءکرام علیہم الصلاة والسلام ،ائمہ دین، بزرگان سلف کی یادگاروں کا جو اصل مقصد ہے اسوہ حسنہ کی اتباع اور نیکی اور صداقت کے
عملی نمونہ کی پیروی اور اعمال صالحہ کی حقیقی عملی یادگار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ سے محبت کے پاکیزہ جذبات آپ کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کا ذکر خیر ایک مومن کی زندگی کے لئے سب سے قیمتی متاع اور بہترین شغل ہے، مگر جب اس کی روشنی میں اپنی زندگی ڈھالنا مقصود ہو، پوری امت ہر وقت نبی ﷺ کی اتباع کی محتاج ہے، اس کے بغیر اسلامی زندگی کا تصور نا ممکن ہے۔ غےروں کی طرح وقتی ،موسمی، رسمی عقیدت کے پھول، جلسے، جلوسوں کے ذریعہ نچھاور کرنے کا نام عشق رسول نہیں ہے، مذکورہ خیالات کا اظہار جامع مسجد، دوبلگنڈی، بیدر میں ہزاروں فرزندان توحید سے خطاب کرتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ سے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے نبیﷺ کا مقام ومرتبہ ہمیشہ ہمیش کیلئے بلند وبالا کردیا ہے، کسی کے نام نہاد عشق ومحبت سے نہ آپ کے مقام میں بڑھوتری آنے والی ہے نہ خاک چاٹنے والوں کے خاکوں سے آپکا مرتبہ کچھ گھٹنے والا ہے، ہمارے نبی ﷺ کی ذات گرامی اتنی بلند وبالاہے کہ عرش والا کبھی مزمل کبھی مدثرکبھی یاسین کبھی طٰہٰ سے خطاب کرتا ہے ۔مولانا نے فرمایا کہ بڑے بڑے اولو العزم کی بڑائییوں کو اور عظمتوں کی یاد گار زندہ رکھنے کیلئے اسکا تذکرہ محض مجلس آرائی یا عود و لوبان کی دھونی دینے سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ ان کی زندگیوں میں جو اعمال حسنہ اور اخلاق کریمانہ پائے جاتے ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کی ایسی سعی کی جائے کہ آنے والی نسلیںاعمال صالحہ کے نمونوں اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں، کیونکہ آئیندہ نسلوں کی صحیح تعمیر وتربیت میں عملی حیثیت سے یہی کامل زندگیاں اسوہ اور نمونہ بننے کے قابل ہیں ۔
مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ کون بد نصیب مسلمان ہوگا جسمیں محبت رسول ﷺ نہیں ہوگی لیکن کیا محبت رسول ﷺ رسموں تہواروں، جلسے جلوس ،میلوں ٹھیلوں، کے بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جانے کا نام ہے ؟ جسکی زندگی نماز، روزے اور سنتوں سے خالی ہو، اغیار کو اپنا آیڈیل اور نمونہ بناتے ہوں، جنکی تہذیب وتمدن کو دیکھ کر دشمنان اسلام کی یاد تازہ ہوتی ہو، کیا ایسے لوگ عاشقان رسول ﷺ کہلانے کے لائق ہیں؟جبکہ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے "باب حب رسول اللہ ﷺ من الایمان" جس کے تحت حدیث شریف لائے ہیں، مولانا نے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاﺅں، کیا اس معیار پر ہمارا عشق رسول ﷺ اترتا ہے؟ہمیں خود غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

29؍نومبر کو سیتامڑھی فساد پر پٹنہ میں اسمبلی کے سامنے ہونے والے احتجاج کی تیاری شباب پر!

مسلم بیداری کارواں کی تمام ملی، فلاحی اور سماجی تنظیموں سے حمایت کی اپیل.

محمد سالم آزاد
ــــــــــــــــــــــــ
پٹنہ(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2018) آل انڈیا بیداری کارواں نے آئندہ 29؍نومبر 2018 کو سیتامڑھی میں برپا دنگا اور اس میں 82؍سالہ زین الانصاری کے بہیمانہ قتل کے خلاف اسمبلی کے سامنے دھرنا اور احتجاجی مارچ کا فیصلہ کیا ہے، یہ دھرنا اور احتجاج سیتامڑھی کے ان فساد متاثرین کی حمایت اور ہمدردی میں کیا جارہا ہے جو اب تک انصاف سے محروم ہیں، یہ سچ ہے کہ حالیہ فساد میں لٹے پٹے خاندان حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے انصاف اور معاوضہ سے
اب تک محروم ہیں اور ان کے مسائل پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے، علاوہ ازیں قتل اور غارت گری کرنے والے شرپسند عناصر ہر طرح کی دار و گیر سے آزاد ہیں اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی تک نہیں ہوسکی ہے، اس کے برعکس محض شبہ کی بنیاد پر درجنوں بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل میں ٹھونس دیا گیا ہے، فساد زدہ علاقہ کا مسلم بیداری کارواں کی جانچ ٹیم نے دورہ کیا تھا اور متاثرین سے ملاقات کرکے حقیقت پر مبنی تفصیلی رپورٹ تیار کی تھی، فساد میں نقصانات اور متاثرین کے مطالبات سے حکومت کو واقف کرایا گیا تھا، لیکن اب تک اس پر بھی کوئی کاروائی نہیں ہوسکی ہے، ان حالات میں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں نے 29؍نومبر کو اسمبلی کے سامنے ۱۱؍بجے دن میں دھرنا اور احتجاجی مارچ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، کارواں کا ماننا ہے کہ سیتامڑھی مظلومین کی حمایت میں تمام ملی، فلاحی اور سماجی تنظیموں کو شریک ہونا چاہیے، مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظر عالم نے پریس بیان میں کہا ہے۔
 انہوں نے آگے کہا کہ ملک میں کثیر تعداد میں ملی، فلاحی اور سماجی تنظیمیں ہیں جو ہر موڑ پر قوم و ملت کے حق میں آواز بلند کرتی رہتی ہے، اس لئے تمام تنظیموں اور اُن کے ذمہ داروں سے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں توقع کرتی ہے کہ وہ اپنی اپنی تنظیم/ادارہ کے بینر تلے اس دھرنا کی حمایت کرے گی اور مظلومین کا ساتھ دے گی، انہوں نے بتایا کہ 29 نومبر کے دھرنا اور احتجاجی مارچ کی تیاری شباب پر ہے، بہت ساری تنظیموں کی حمایت مل رہی ہے کچھ ملک کی بڑی تنظیموں کی حمایت کے لئے تنظیموں کے سربراہان کو لیٹر کے ذریعہ بیداری کارواں نے حمایت کی اپیل کے لئے لکھا ہے جن کے جواب کا انتظار ہے۔

سنت کبیرنگر: مدسہ عربیہ مصباح العلوم روضہ میں تکمیل حفظ قرآن پاک کی مجلس کا انعقاد!

قرآن کریم لوگوں کے لئے سراپا ہدایت ہے: مفتی حفیظ الله قاسمی

حافظ عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
مھولی/سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 26/ نومبر 2018) قرآن مقدس اللہ تبارک وتعالیٰ کی وہ واحد کتاب ہے جس میں آج تک کسی بھی طرح کی کوئی تحریف نہیں ہوئی، نہ زبر، نہ زیر، نہ پیش کی، اسی طرح پوری دنیا نے تبدیلی کرنے کی بارہاں کوشش کی لیکن ناکامی ورسوائی کے سواء کچھ حاصل نہیں ہوا، قرآن مجید تمام ہی لوگوں کے لیے سراپا ہدیت کامیابی و کامرانی کے راہ ہموار کرتا ہے، اللہ پاک نے خود قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا ہے کہ "انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون" قرآن کو اللہ نے نازل کیا وہی اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے، لیکن کس طرح اللہ قرآن کی حفاظت کر رہا ہے اس کا یہی طریقہ ہے کہ ان معصوم بچوں کے سینوں میں قرآن کو محفوظ کرتا ہے،
پھر یہ ننھے بچے اپنے سینوں میں قرآن کو بسائے رکھتے ہیں، کل میدان محشر میں جن کا جہنم میں جانے کا اللہ کی جانب سے اعلان ہوگیا ہوگا ان کی یہ حافظ قرآن سفارش کرے گا، مذکورہ خیالات کا اظہار تحصیل دھن گھٹا حلقہ میں واقع مدرسہ عربیہ مصباح العلوم روضہ مہولی سنت کبیر نگر میں منعقد تکمیل حفظ قرآن کی مجلس میں مفتی حفیظ اللہ قاسمی ناظم تعلیمات مدرسہ سراج العلوم بھیونڈی (ناون خرد) نے کہا، انہوں نے کہا کہ ان معصوم بچوں کو جو اپنے سینوں میں خدا کا قرآن بسا رکھا ہے اللہ کی جانب سے اجازت ملی گی اور فرمان الہی جاری ہوگا کہ جاؤ اور اپنے خاندان والوں میں سے دس ایسے افراد کو جنت میں لے جاؤ جن پر ہم نے جہنم واجب کردی تھی، لیکن میرا قرآن تمہارے سینے میں ہے تو میں کیسے آپ کے خاندان والوں کو جہنم میں داخل کروں، چنانچہ یہ بچہ ان دس افراد کو جنت میں لیکر جائےگا، اور ان کے والدین کو قیامت کے دن میدان محشر میں ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا جو چاند و سورج سے بھی دیادہ روشن و تابناک ہوگا.
حضرت مفتی صاحب نے مزید کہا کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں جس کا کوئی حافظ ہو سواۓ کلام پاک کے، یہ اللہ کی طرف سے معجزہ ہی ہے کہ ہمارے ننھے ننھے بچے باآسانی قرآن مجید کو اپنے سینے میں محفوظ کر لے رہے ہیں، ہمیں قرآن کریم کی قدر کی اشد ضرورت ہے، انھوں نے حفاظ کرام سے شب و روز ٣ پارے تلاوت کرنے کی تلقین فرمائی، قرآن پاک ناقدری کی وجہ سے ہی ہمارے سینوں سے تیزی سے نکل جاتا ہے، اور ہمیں احساس تک نہیں ہو پاتا، دشمنان اسلام ماضی سے ہی اسے مٹانے کی تمام تر کوششیں کرتے رہے، لیکن ان کی ایک بھی حکمت کام نہ آسکی، کیوں کہ اللہ نے اسکی حفاظت کا ذمہ خود ہی لے رکھا ہے، دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے مٹا ہی نہیں سکتی، نہ ہی اس میں کسی طرح کا انحراف آج تک کیا جا سکا ہے، دنیا کی سب سے بہترین کتاب کا نام "قرآن مجید" ہے، جب ہم قرآن کے بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے تو ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی، بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ہم اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے لئے زیادہ زور دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہم سے دین اسلام کافی دور ہو رہا ہے، اور ہر طرف سے ہم پر پریشانی کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، قرآن کریم میں ہمیں زندگی گزارنے کے بہترین نمونے بتائے گئے ہیں، جس پر عمل کرکے ہم دنیا اور آخرت کو تابناک و کامیاب بنا سکتے ہیں، اخیر میں حضرت والا نے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم کو اولین ترجیح دینی ہوگی، انھوں نے کہا کہ قرآن کو ترتیل و تجوید کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔
 اس موقع پر مدرسے کے مہتمم الحاج حضرت مولانا مقبول احمد جونپوری، مولانا عزیز اللہ پرنسپل، حافظ حبیب اللہ، حافظ محمد سلیم درانی، ندیم عباسی، حافظ نسیم، حافظ عطاء اللہ، مولانا محمد وسیم قاسمی ندوی، قاری عبدالوہاب، قاری منعیم، قاری سلمان ماسٹر طفیل احمد مھولی شریف، ماسٹر صلا ح الدین، محمد اسجد، منصور احمد و دیگر اساتذہ کرام و طلباء موجود رہے.

Sunday 25 November 2018

مبارکپور: گولیوں کی تابڑ توڑ فائرنگ میں تین افراد زخمی!

مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/نومبر 2018) ریشم نگری مبارکپور علاقہ کے محلہ نوادہ میں آدھی رات کو اچانک گولیوں کی تابڑ توڑ فائرنگ ہونے لگی جس میں تین افراد سنگین طور ہر زخمی ہوگئے، فائرنگ کرنے والوں کو عوام نے دبوچا اور جم کر ہاتھ صاف کر زخمی کردیا.
موصولہ خبر کے مطابق مبارکپور کے محلہ نوادہ املو روڈ پر قبرستان کے قریب  رات تقریباً دو بجے فائرنگ ہونے سے ہڑکمپ مچ گیا، گولی مار کر بھاگ رہے شخص کی اینٹ پتھر سے پٹائی ہوگئی، خبر پاکر  سی او صدر محمد اکمل خان اور مبارک پور تھانہ انچارج منجے سنگھ فوراً موقع پر پہنچے اور حملہ آور سمیت سبھی زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا، جس میں دو افراد کی حالت نازک بتائی جارہی ہے، وہیں پولیس حملہ آوروں سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے.

ماہ ربیع الاول بابرکت ماہ ہے: مخمور نبی خان

سلمان کبیرنگری
ــــــــــــــــــــــــــ
بلوا سینگر/سنت کبیر نگر (آئی این اے نیوز 25/نومبر 2018) سماجی کارکن اور سماج وادی لیڈر اکرام نبی گرلس ڈگری کالج کے نائب منیجر مخمور نبی خاں نے کہا کہ ماہ ربیع الاول کا مہینہ بہت ہی بابرکت ہے،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے بڑھ کر آج تک کوئی خوشی نہیں آئی، یہی وجہ ہے کہ مومن کا دل حب رسول صلعم کے چراغ سے سدا روشن رہتا ہے، امت محمدیہ کا حد درجہ خطا کار بھی آپ صلعم پر ہردم قربان ہونا چاہتا ہے، اس کے قلب و ذہن میں ہی نہیں خون کی روانی میں ہی رچی بسی رہتی ہے، لیکن ہم لوگ آپ صلعم کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، تمام لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے.

Saturday 24 November 2018

اجودھیا سے گراؤنڈ رپورٹ!

یہ قیامت بھی گزر جائے گی.

مہدی حسن عینی
ـــــــــــــــــــــــــ
اجودھیا(آئی این اے نیوز 24/نومبر 2018) رات کے گیارہ بجے میں اجودھیا پہونچ چکا ہوں، شہر کو دولہن کی طرح سے سجایا گیا ہے، رام بھکتوں کے استقبال اور مبارکباد کے بینرز کے ساتھ ساتھ رام کی مندر ہم بنائیں گے، یہیں بنائیں گے جیسے نعرے ہر اور چسپاں نظر آرہے ہیں، چاروں اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور خصوصی فورس تعینات ہے، ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں کی بھیڑ ہے ان میں کچھ کارتک پوجا سے واپس جارہے ہیں، کچھ نقل مکانی کررہے ہیں تو سیکڑوں لوگ 25 نومبر کے پروگرم کے لئے آرہے ہیں، خاص بات یہ ھیکہ شہر چھوڑ کر جانے والوں میں کچھ ہندو بھی ہیں جو حالات معمول میں آنے تک اپنے رشتہ داروں کے یہاں جارہے ہیں، سخت چیکنگ کی جارہی ہے، کہیں سماجی کارکن تو کہیں صحافی بننا پڑ رہا ہے،
شاید شہر میں زیادہ اندر تک انٹری نا ہوسکے، سیکوریٹی فورس اور خفیہ دستے الرٹ ہیں جواب دینا مشکل ہوگیا ہے.
کوشش یہ ھیکہ مسلم اکثریتی علاقوں تک پہونچ سکوں ابھی تک جن مسلم بھائیوں سے ملاقات ہوئی ہے وہ ظاہری طور پر بہت مضبوط نظر آرہے ہیں، لیکن اندر سے سہمے ہوئے، البتہ میڈیا نے حد سے زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہوا ہے.
ایک بات یہ نوٹ کرنے کی ہے کہ ہندوؤں کے چہرے اور باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے انہوں نے اجودھیا کو فتح کرلیا ہو اور رام مندر بناہی لیا ہو، کہیں کہیں جتھے کے جتھے نعرے بھی لگارہے ہیں، آج تک اور زی.نیوز کے رپورٹر ہر اور مائک لے کر گھوم رہے ہیں، میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہوں.
پہلی ٹرین کی آمد:
رات ساڑھے گیارہ بجے کے آس پاس شیوسینکوں سے بھری اسپیشل ٹرین ممبئی سے اجودھیا ریلوے اسٹیشن پہونچی ہے، ہزاروں شیو سینک ہاتھوں میں ڈنڈے اور بینر لئے ہوئے، اسٹیشن سے ہی فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے باہر نکلے، ان کے آنے کے بعد سے ماحول اور کشیدہ ہوگیا ہے،
سیکوریٹی اہلکار ہاتھوں میں ٹارچ اور میٹل ڈیڈیکٹر لئے ہوئے یہاں وہاں دوڑ رہے ہیں، پورا ماحول بھگوا ہوگیا ہے، ابھی پان کی دکان پر ایک پجاری ملے مجھے یہاں دیکھ کر بہت حیران ہوئے، کہنے لگے آپ یہاں کیسے؟ شور مچاتے کہ میں نے کہا بابا میں یہیں کا ہوں، کہنے لگے میاں میں نے آپ کو یہاں کبھی دیکھا نہیں، یہاں سے نکل لو یہ شیو سینا والے کہیں تم کو کوئی نقصان نا پہونچا دیں.
حکومتی انتظامات کا جائزہ:
متنازع مقام تک پہونچنے کے کئی راستے ہیں جنہیں حکومت نے سیل کردیا ہے، صرف ایک راستہ دشرتھ محل کے سامنے سے ہنومان گڑھی ہوتے ہوئے رام للا کے درشن کا ہے جس پر چاروں اور ڈرون کیمرے لگائے گئے ہیں، CRPF،RF,UP POLICE.P.A.C کے اہلکار ہر ایک آدمی کی چیکنگ کررہے ہیں، ایک شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہے جس کے پاس وہ ہوگا اسی کو اس راستہ سے جانے دیا جائے گا بار بار اس کا اعلان کیا جارہا ہے، یہاں پر مجھے ایک صحافی مل گئے جو یہاں دو روز سے حالات کور کررہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اب تک 20 ہزار سے زائد سیکوریٹی اہلکار یہاں آچکے ہیں جن میں سی.آر.پی.ایف اور پی.اے.سی کی 13 کمپنیاں ہیں، نیز اے.ڈی.جے ٹیکنیکل آسوتوش پانڈے اور جھانسی رینج کے ڈی.آئی.جی سبھاش سنگھ بگھیل کو خاص طور تعینات کیا گیا ہے، اور اجودھیا کو دو زون میں تقسیم کیا گیا ہے،ایک ریڈ زون جس میں وشو ہندو پریشد کے پروگرام ہونے ہیں، دوسرا بلو زون جس میں شیو سینا کے پروگرام ہونے ہیں، ان دونوں افسروں کے کاندھوں پر متنازع مقام کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، رام للا کے درشن کے لئے  100 میٹر پہلے بیریکیڈنگ کیا گیا ہے، وہیں سے درشن کیا جاسکتا ہے، پورے شہر و اطراف میں دفعہ 144 نافذ ہے، ہمیں دشرتھ محل کی اور جانے والے راستہ سے کافی پہلے روک دیا گیا ہے، سخت چیکنگ کے بعد موبائل ضبط کرنے کی کوشش کی گئی، جو صحافتی کارڈ اور دو چار حوالے دینے سے اس شرط پر واپس کیا گیا ہے کہ ہم فوراً یہاں سے واپس جائیں گے.
ملت کے خدشات اور موقع کے حالات:
اجودھیا میں مسلم آبادی تین جگہوں پر رہتی ہے، اس میں سب سے زیادہ حساس مقام  بابری مسجد سے بالکل متصل رہنے والے مسلمانوں کا ہے، اجودھیا میں تقریباً آٹھ ہزار مسلمان رہتے ہیں، میری ملاقات اسلم پان والے سے ہوئی ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ چار ہزار سے زائد مسلم فیض آباد، بارہ بنکی اور لکھنؤ وغیرہ اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے یہاں جاچکے ہیں، بہت سارے امن پسند ہندو بھی اجودھیا سے جاچکے ہیں، جو ہندو مسلمان ہیں تو وہ غلہ و سامان اکٹھا کرکے اپنے گھروں میں دبک گئے ہیں، اسلم نے بتایا کہ ابھی تک تو سب ٹھیک چل رہا ہے پر کل ادھو ٹھاکرے کے آنے بعد کیا ہوگا خدا ہی جانتا ہے، اسلم نے مجھے بابری مسجد فسادات میں اپنا گھر گنوانے والے سیف القادری کے بیٹے فیصل سے ملنے کا مشورہ دیا، لیکن میرے آس پاس خفیہ دستے کے لوگ مستقل منڈلا رہے تھے اس لئے میں نے کسی کو پریشانی میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا، رات کے تین بج چکے ہیں میں نے سوچا کہ لگے ہاتھوں دو چار اور لوگوں سے ملاقات کرتا چلوں، ایک چائے کی دکان پر پہونچا، اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ بولنے سے کتراتا رہا، دو چائے آرڈر کئے اور اس سے دکانداری کا پوچھا تو کہنے گا جناب آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا بہت غلط کیا آپ نے، ہم تو اس طرح کے حالات جھیلنے کے عادی ہیں، میں نے کہا کہ میں تو یوں ہی آپ لوگوں کے احوال جاننے کی غرض سے آگیا تھا ابھی جارہا ہوں، میرے اتنا کہتے ہی اس نے اندر کا غبار نکالنا شروع کیا
بے ترتیب انداز میں اس نے بہت کچھ بتایا، اخیر میں اس نے اپنا نام حبیب بتایا اس کے دو بھائی شفیق اور کلیم اپنے رشتہ داروں کے یہاں جاچکے ہیں، حبیب بھی کل شام تک شاید چلا جائے یا رہے گا، ابھی شش و پنج میں ہے، چار بج چکے ہیں شور ہے کہ ممبئی سے دوسری ٹرین بھی پہونچنے والی ہے.
موجودہ حالات پر میرا نظریہ:
شیوسینا چونکہ بھیڑ جمع کرکے حکومت اور عدلیہ پر دباؤ بنانا چاہتی ہے، تاکہ رام مندر کی تعمیر کے لئے دسمبر پارلیمانی سیشن میں حکومت خصوصی  آرڈینینس لائے یا سپریم کورٹ جلد فیصلہ کرے، تو دوسری طرف بی.جے.پی کی کوشـش یہ ھیکہ رام مندر کا مدعا پورے زور و شور سے اچھلے اور الیکشن تک گرم رہے لیکن سہرا شیوسینا کے سر پر نا بندھے، بلکہ بی.جے.پی ہی اس کا دولہا بنے اسی لئے وہ وشو ہندو پریشد کو سپورٹ کررہی ہے، اس کے پروگرام کے لئے اجازت بھی دی گئے ہے، میڈیا کے ذریعہ زبردست  پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے، پچاس ہزار کی بھیڑ کو پانچ لاکھ بتایا جارہا ہے، میڈیا اور فرقہ پرست لیڈر اجودھیا آنے والی بھیڑ کو اکسا رہے ہیں، فساد مچانے پر راغب کررہے ہیں، سیکوریٹی دستے ابھی تک پوری طرح سے الرٹ نظر آرہے ہیں پر اگلے چار دنوں میں حالات کیا ہونگے ابھی اس پر نظریہ قائم کرنا مشکل ہے.
ہم کیا کریں؟
ایسے میں جمعیۃ علماء ھند، مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی ھند سمیت سبھی ملی جماعتوں کو چاہئے کہ ایک مشترکہ وفد لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کریں، وزیر داخلہ ھند اور صدر جمہوریہ ھند سے ملاقات کریں اور ان پر اس کا دباؤ بنائیں کہ ہنگامی حالات میں فیض آباد ڈویژن میں ہائی الرٹ جاری کرکے ہر ایک باشندے کی حفاظت کی ذمہ داری خود ہوم منسٹر لیں اور اس کے لئے سپریم کورٹ فوری آرڈر جاری کرے.
نیز ملت کو افواہوں سے بچتے ہوئے خصوصی دعا کا اہتمام کرنا ہوگا اور اپنے اپنے علاقوں میں حالات پر پینی نظر رکھنی ہوگی لاء اینڈ آرڈر کی بحالی کے لئے ایک ذمہ دار شہری اور ایک کامل مؤمن کا فریضہ انجام دینا ہوگا.
خصوصی شکریہ
اجودھیا کے اس سفر کے لئے اس گمنام صحافی کا شکر گزار ہوں جس نے یہاں آنے کی تحریک دی، تنظیم ابناء مدارس ویلفیئر ایجوکیشنل ٹرسٹ کےذمہ داران و کارکنان کے علاوہ عزیز دوست  محمد کا دل سے شکریہ،
جن کے بغیر میری کوئی بساط نہیں، جمعیۃ علماء سلطانپور کے جنرل سکریٹری مولانا سراج ہاشمی کا دلی شکرگزار ہوں جنہوں نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی.
صبح کے پانچ بج چکے ہیں یہاں رکنا اب میرے لئے بالکل مناسب نہیں اور نا ہی وقت ہے شیوسینکوں کی آمد کے سلسلہ میں اب اضافہ ہوگیا ہے، بابری مسجد کی  زیارت، شہداء کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے اور اقبال انصاری سے ملاقات کی تمنا دل میں لئے ہوئے اور اجودھیا کے مسلمانوں بلکہ یہاں کے سبھی باشندوں کے لئے امن و آمان کی دعا کرتے ہوئے میں کلکتہ کے سفر کے لئے روانہ ہورہا ہوں.

شان سے بولو کہ ہم اعظمی ہیں!

از قلم: محمد واصل اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــ
فخر سے کہو کہ ہم اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے ہیں، ارے  ہاں سر تان کر گردن اٹھا کر بولو کہ ہمارا ضلع اعظم گڑھ ہے، نمایاں کیوں نہیں ہوگی یہ اعظم گڑھ کی مٹی ہے، ویسے تو یہ جگ ظاہر بات ہے کہ ہمارا پیارا ضلع اعظم گڑھ بہت ساری خوبیوں کا حامل ہے، یہاں کا فرد کسی ملک کا وزیراعظم بنتا ہے تو کسی ملک میں جا کر صدارت کے عہدے پر فائز ہوتا ہے، اگر بزنس کرنے میں فرینک اسلام بنتا ہے تو سیاست میں ابو عاصم بنتا ہے، کرکٹ میں جہاں سرفراز خان بنتا ہے تو والی بال میں طارق منگراوی بنتا ہے، غرض یہ کہ ہمارے ضلع میں ہر طرح کی خوبیوں کے حامل لوگ موجود ہیں۔
لیکن ساری خوبیوں میں سب سے نمایاں جو خوبی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ضلع اعظم گڑھ میں ایک سے بڑھ کر ایک علماء و صلحاء نے جنم لیا، جنھوں نے اپنے علوم و فنون سے عالم اسلام کو تازگی بخشی، اگر فن تفسیر میں دیکھا جائے تو علامہ حمید الدین اعظمی علیہ الرحمہ کی خدمات دیکھو، فن تاریخ کو پڑھنا ہو تو علامہ شبلی نعمانی اعظمی علیہ الرحمہ کو پڑھو اور قاضی اطہر مبارک پوری علیہ الرحمہ کو پڑھو، فن شاعری سیکھنا ہوتو علامہ اقبال سہیل اعظمی علیہ الرحمہ سے استفادہ کرو، تصوف کو سمجھنا ہو تو ماضی قریب کے مفتی عبداللہ پھولپوری علیہ الرحمہ کی زندگی پر نظر ڈالو، اگر بدعت و خرافات کا قلع قمع کرنا ہوتو مولانا اعجاز اعظمی علیہ الرحمہ کی عملی زندگی کھنگالو، اگر حدیث میں مہارت حاصل کرنا ہو تو شیخ عبدالحق علیہ الرحمہ و محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی علیہ الرحمہ کو خدمات حدیث کو سامنے رکھو، اگر فن مناظرہ میں ملکہ و قوت حاصل کرنا ہوتو مناظر اسلام فاتح اسلام حضرت مولانا مفتی محمد راشد صاحب اعظمی دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی صحبت اختیار کرو۔
غرض یہ کہ دین اسلام کے ہر میدان میں اعظمی سپوتوں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں اور دنیائے اسلام میں اپنی اپنی صلاحیتوں و خوبیوں کا ڈنکا بجوایا ہے، اللہ کا فضل و کرم ہے کہ یہ مبارک سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے، آج بھی سر زمین اعظم گڑھ میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو دین و اسلام کی خدمات میں دل و جان سے لگے ہوئے ہیں، اب بھی ایسے لوگ زندہ ہیں جن کے علم کا ڈنکا چاروں طرف بج رہا ہے۔
   تو  آئیے ہم آپ کی ملاقات اسی مبارک سلسلہ کی ایک کڑی جو اپنے بزرگان دین کے نقش قدم پر گامزن ہے اور دین کی خدمات میں ایک عرصہ دراز سے کارہائے نمایاں انجام دے رہا ہے ایک ایسے شخص سے کرواتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہے، یعنی سرزمین اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے  لاکھوں کروڑوں طلباء علماء کے دلوں کی دھڑکن  دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ حدیث محقق مدقق ابن حجر ثانی حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہ العالی سے ۔
حضرت والا کو تو اللہ نے بہت ہی اونچے مقام سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود حضرت والا کی سادگی دیکھتے  ہی بنتی ہے کہ کھجور خریدنے کے لئے خود ہی ایک منزلہ سے اتر کر بڑھاپے کے باوجود جاتے ہیں اور خود سے خریداری کرتے ہیں، اس سادگی پہ کون نا مر جائے اے خدا، دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت والا کا سایہ تا دیر قائم دائم رکھے آمین.

کی محمد سے وفا، تو نے تو ہم تیرے ہیں!

ازقلم: شہباز نعمانی
ــــــــــــــــــــــــــــ
آؤ شہباز آخر تم آہی گئے، لیکن آنے میں بڑی تاخیر کی، بہت انتظار کرایا، صدیاں گزار کر آئے، لیکن مجھے امید تھی تم آؤ گے، میں تمہارے آنے سے کبھی نا امید نہیں ہوئی، کبھی مجھ پر مایوسی کے بادل نہیں چھائے، لیکن معاف کرنا میں تمہاری خاطر تواضع نہیں کر پاؤں گی، میں تو اپنے معصوم بچوں کے لئے دودھ کا انتظام نہیں کرپاتی، بعض اوقات میرے جوان بیٹوں کو کئی کئی دن فاقہ کشی میں گزارنے پڑتے ہیں، اور نہ جانے کتنے تو بھوک کی شدت سے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئے، لیکن ہاں میں تمہارے آنے کے مقصد سے خوب واقف ہوں،
اور اس مقصد کی تکمیل میں تمہارا پورا ساتھ دونگی، صدیوں کے اوراق پہ پھیلی میری اجڑی داستان ہے، میں نے مرور زمانہ کے ساتھ بھت کچھ دیکھا، اور آج بھی دیکھ رہی ہوں، میں قوموں کے عروج و زوال کے راز سے باخوبی آشنا ہوں، میں جانتی ہوں کہ کیسے کوئی قوم اوج سریہ پہ کمندیں ڈالٹی ہے، اور کیسے تحت الثراء کی گہرائیوں میں جا گرتی ہے،آج سے صدیوں قبل میں نے ایک حاکم کو دیکھا تھا، جسکی حکومت تقریباً 22 لاکھ مربع میل کے علاقے پہ پھیلی ہوئی تھی،میں ہمیشہ سے اسکے قصے سنتی آئی تھی، اس کے دشمنوں کے دلوں میں اس کے رعب اور ہیبت کی داستانیں سنی تھیں، دل میں اسے دیکھنے کی تمنا اور آرزو مجھے ہما وقت بے چین و بے قرار کئے رہتی، میں بارگاہِ الٰہی میں شب و روز اس کے دیدار کے لئے دعا کرتی، لیکن ساتھ ہی اس کے دیدار سے محرومی کا غم بھی ستاتا رہتا،آخر میری دعا بارگاہِ الٰہی میں شرفِ قبولیت کو پہنچ گئی، اچانک ایک دن میں نے اسکی آمد کا شور سنا، اور دیکھا فارس روم کے تمام لوگ اس کو دیکھنے کے لئے آ پہونچے ہیں، لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، لوگ جوگ در جوگ آتے ہی چلے جارہے تھے، اور ہر ایک ٹکٹکی باندھے اس کے دیدار کا شوق دل میں لئے دیوانہ وار اس کی راہ تک رہا تھا، کہ یکایک دو شخص پہاڑی کی اونٹ سے نمودار ہوئے، ایک اونٹ پر سوار تھا، تو دوسرا سواری کی مہار تھامے پیدل چل رہا تھا،اور اسی حال میں دونوں میری دہلیز تک آئے، اچانک لوگ استقبال کے لئے سوار شخص کی طرف بڑھے، تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی،جب میں نے سوار شخص کو کہتے سنا، امیر المومنین میں نہیں یہ ہیں،میں حیرت و تعجب میں محو اس کو دیکھتی رہی. تاریخ اسلام کا عظیم ہیرو اور فاتح جسکا نام سنکر روم و ایران کے بادشاہوں کے دل دہل جایا کرتے تھے، میرے پاس اس حال میں آیا کہ اسکے کپڑوں میں چودہ پیوند لگے تھے اور غلام کو سواری پر بٹھائے خود لگام پکڑ کر پیدل چل رہا تھا، شاید تم سمجھ گئے، ہاں وہ ابن خطاب تھا، بادشاہت میں بھی اقلیم زہد و فقر کا بے تاج فرماں روا، محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کا سچا عاشق اور جانثار غلام، جسکی غلامی نے اسے فاروق اعظم کا خطاب دلوا دیا،
       ــــــــــعـــــــ
 کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں،
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں.

ہاں جب تک عبداللہ کے یتیم سے وفا کا ثبوت دیا، تو آسمانوں کی بلندی پر کمندیں ڈالدئں، اور بلند پروازی سے فرشتوں کو حیران کردیا، روم و ایران مشرق و مغرب میں اسلام کا جھنڈا لہرا دیا ، لیکن ہائے افسوس جب سے محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ سے بغاوت کی،نوجوان گانے بجانے کے عادی ہوگئے، پیشانی کو سجدے کے چھومر سے سجانے کے بجائے سر پر بغاوت کا تاج رکھ لیا، عشق الہی اور محبت رسول کی چنگاری دل میں جلانے کے بجائے، ناچ گانوں پہ تھرکنا شروع کردیا، مصلے پر رونے والیوں نے پیر میں گھنگھرو باندھ لئے، قرآن کو پس پشت ڈال دیا، تو پھر مائیں دوسرا عمر نہ جن سکیں، صلاح الدین نہ دے سکیں، جو پھر سے میرے معصوم بچوں پہ ہورہے مظالم کو روکتا اور مسجد اقصٰی میں اللہ اکبر کی صدا لگاتا، ہائے امت کی مائیں بانجھ ہوگئیں،
    ـــــــــــعـــــــ
آ تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر سناں اول، طاؤس و رباب آخر

نعتوں اور غزلوں کا حسین مجموعہ بنام "آئینہ" میرے مطالعہ کی روشنی میں!

عبد الرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیاوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی میرے سامنے مداح رسول مقبول عام و خاص منفرد کمالات کے مالک میرے محترم محب صوفی حافظ قاری جمشید جوہر صاحب کی نعتوں، نظموں، غزلوں منظوم کلاموں کا حسین گلدستہ یعنی ان کا شعری مجموعہ آئینہ ہے، یہ مجموعہ ٢٤٧صفحات پر مشتمل ہے، کمپوزنگ کا کام محمد سراج صاحب نے کیا ہے، اسے آپ بھی محض ١١٠روپیہ دے کر مصنف موصوف سے اور مدرسہ تعلیم الدین برونی بیگوسراۓ، علی نگر بائی پاس روڈ دھنباد سے حاصل کرسکتے ہیں، کتاب کا انتساب شاعر موصوف نے والدین اور پیرو مرشد کے نام کیا ہے جو بڑی سعادت کی بات ہے، کلمات تبریک حضرت الحاج سید شاہ احمد نصر صاحب بنارسی نے لکھا ہے، جو تین صفحات پر مشتمل ہے۔
شیخ کی برکت سے کیسے در کھلے
واہ جمشید اب ترے جوہر کھلے
امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ جناب جمشید جوہر صاحب کا یہ مجموعہ قبولیت عامہ حاصل کر لے گا، اور جناب جوہر صاحب کے لئے ذخیرہ آخرت بھی بنے گا، اس کے بعد محمود احمد دانا اعظم پوری صاحب نے بھی صفحہ نمبر ٩پر اپنے تاثرات آئینہ کے لکھے ہیں، اس کے بعد صفحہ ١١پر منظوم تاثرات محمود احمد دانا صاحب نے پیش کیا ہے، جو بہت ‌خوب ہے، پھر قاری جمشید جوہر صاحب نے"حرف تمنا" کے عنوان سے دو صفحہ لکھا ہے وہ بھی بہت خوب ہے، اس کے بعد حمد پاک ہے جن کی تعداد ١٥ہیں جو صفحہ ١٥ تا ٢٥ تک ہیں۔
       ــــــــــــعــــــــــ
زباں سے میری ان کا ذکر جو ہر آن ہوجائے
الہی مغفرت کا بس یہی سامان ہوجائے
یہی اب آخری جو جوہر کا ارمان ہے مولانا
شریعت اور سنت پر یہ جان قربان ہوجائے

اس کے بعد نعت پاک ہے جس کی تعداد ٩٤ہے، صفحہ نمبر ٢٧تا ١٢٠ تک ہے، کچھ نعت کے اشعار پیش خدمت ہے، صفحہ نمبر ٣٠ پر ہے۔
        ــــــــــعـــــــــ
جو نعت نبی سننے کو تیار نہیں ہے
در اصل وہ جنت کا طلبگار نہیں ہے
وہ شہر مدینہ بھی عجیب شہر ہے جوہر
اس شہر میں بیمار بھی بیمار نہیں ہے

صفحہ نمبر ٥٥پر آپ کی ایک مشہور نعت ہے۔

آج اشکوں سے دامن بھگو لینے دو
ان کی یاد آئی ہے مجھ کو رو لینے دو
ان کی مدح سرائی کروں بعد میں
پہلے اشکوں سے دل اپنا دھو لینے دو
میری نعتوں میں جوہر اثر دیکھنا
پہلے طیبہ کی گلیوں سے ہو لینے دو

صفحہ نمبر ٨٤پر ایک ںعت کے چند اشعار۔

دیکھا ہے کسی نے نہیں آئینہ
آپ کی زندگی ساحسیں آئینہ
نقش پا آیئنہ ہےجس میں آئینہ
پڑ گیا نقش پاان جوہر جہاں
وہ جگہ آیئنہ وہ زمیں آئینہ

اس کے نعتیہ، یورپی گیت ہی جس کی تعداد بھی چھ ہے جو صفحہ نمبر ١٢٢سے ١٢٧تک ہے، اس کے بعد قطعات ہیں جو تین صفحات پر ہیں، جن کی تعداد ١٦ہیں، نمونہ کے طور پر ایک قطعات پیش خدمت ہے۔
      ــــــــعــــــ
اسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
شراب عشق احمد کو جسے پینا نہیں آتا
بھلا وہ نعت گوئی کیا کرے گا دربار سرور میں

اس کے بعد اصلاحی منظومات ہیں، جن کی تعداد ٤١ ہے اور صفحہ ١٣٥تا ١٧٤ تک ہے اس کے بعد حاملین قرآن، عظمت قرآن، اور مدارس اسلامیہ کے لئے کہی گئی"نظم"١٠ کی تعداد میں ہے، اس کے بعد عرفان عشق کے تحت ١٩٤ صفحہ تک ایک سالک کا شکریہ نامہ بنام سرپرست و کامل دو صفحہ پر ہے، شیخ طریقت کا نام بھی ایک صفحہ منظوم کلام قاری صاحب نے لکھ دیا ہے، اس کے بعد غزلیات کا باب شروع ہوتا ہے، جس کی تعداد ١٩ ہے، اور غزل موقع بہ موقع اپنے کی ہے،٢١٣صفحہ تک ہے، ایک غزل کے چند شعر:
              ـــــــعـــــ
اپنی غزلوں کو بھلا ہم گنگنانا چھوڑ دیں؟
کیا کسی کے ڈر سے ہم بھی مسکرانا چھوڑ دیں؟
جو ہمارے واسطے مرنے کو بھی تیار ہے
سوچیۓ کہ اس کے گھر میں آنا جانا چھوڑ دیں
موت تو آنی ہے جوہر آہی جائیگی کبھی
کیا اس کے ڈر سے ہم میداں میں آنا چھوڑ دیں؟

اس کے بعد اتحاد ملت اور قومی یکچہتی کے لئے کہی گئی نظم دو صفحہ پر ہے، ٢٢٥ صفحہ سے خراج عقیدت جس شخصیات کو پیش کیا گیا ہے، اپنے بھائی جان کے نام ٢٢٧ صفحہ پر لکھا ہے، ٣٣٠ پر غلام ربانی قاصر بھاگلپوری مرحوم کے انتقال پر پورا ایک صفحہ لکھ دیا، اس سے پہلے بھی نغمات جوہر، جذبات جوہر، سوغات جوہر منظر عام پر آکر مقبول ہوچکی ہے، قاری صاحب کے پڑھنے کا اپنا ایک الگ ہی انداز ہے، کلام میں گہرائی اور گیرائی ہے۔
جہاں تک میرا علمی شعور کام کر رہا ہے اور بصیرت ساتھ دے رہی ہے میں یہ کہنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ یہ ترنم یہ انداز یہ کلام یہ بالیدگی ان کا خود کا مجاہدہ اور پیرو مرشد حضرت مولانا احمد نصر بنارسی کی توجہ، کامل عنایت اور اللہ جل جلالہ کی طرف سے خاص انعام الہی ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملا کرتا، خدا سے دعا گو ہوں کہ مداح رسول قاری جمشید جوہر کی صحت، عمر میں برکت عطا فرمائے، اور اس مجموعہ کو خاص و عام کے درمیان مقبولیت عطا فرمائے آمین۔

جامعہ فیض عام کا جلسۂ دستار بندی بحسن وخوبی اختتام پذیر!

عبدالرحیم صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــ
دیوگاؤں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/نومبر 2018) سات گاؤں علاقہ کا مشہور و معروف ادارہ جامعہ فیض عام دیوگاؤں میں بروز پنج شنبہ بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان اجلاس ہوا، جامعہ ھٰذا کا یہ اجلاس اپنی حیثیت کا بہت انقلابی جلسہ تھا، دینی واصلاحی جلسوں کی وضعی ترتیب کے مطابق ناظم جلسہ مولانا عبداللہ قاسمی صاحب نے افتتاح کے لئے ادارہ کی ایک خوش الحان شخصیت قاری شمیم احمد کو دعوت اسٹیج دی، پھر بارگاہ رسالت میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مولانا عامر اعظمی (استاد مدرسہ ہذا) حاضر ہوئے.
بعد ازاں آمدم برسر مطلب کے حسب تقاضہ خطابت کے میدان کے ایک معتبر نام اور مشہور و مقبول دینی مرکز دارالعلوم دیوبند کی نمایاں شخصیت اور مقبول ومحبوب استاد گرامئ قدر حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری حفظہ اللہ لائے، اور خطابت کے وہ جوہر دکھلائے کہ اس کے اثرات سامعین کے دلوں اور جذبات تک اترتے چلے گئے، بعدہ مدرسہ ریاض العلوم گورینی کے ناظم مولانا عبد الرحیم کو دعوت خطابت  دی گئی، اور پھر دو طالب علم محمد صادق اور محمد علقمہ نے ترانۂ جامعہ پیش کیا، اور ناظم جامعہ مولانا حبیب الرحمن نے بیان کیا.
بعدہ خانوادۂ قاسمیت کے چشم و چراغ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے پوتے، مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے اپنے پراثر بیان سے حاضرین کو انسانیت کا درس دیا، ان کو موجودہ حالات کی نزاکت کا احساس دلاکر ان سے نبرد آزما ہونے کی ترکیبیں پیش کیں، تاآں کہ دستار حفظ کا سلسلہ شروع ہوا، اور بحمد اللہ بہت ہی مختصر وقت میں مبارک ہستیوں کے ہاتھوں تقریبا ۱۱۵ طلبہ کو دستار عطا کی گئی.
واضح ہو کہ حضرت مولانا سلمان صاحب، حضرت مولانا سفیان صاحب، مولانا عبدالرحیم صاحب، مولانا حبیب الرحمن اور مفتی عاصم کمال نے ان حفاظ طلبہ کی دستار باندھ کر اعزاز بخشا.

Friday 23 November 2018

مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد ویشالی میں دعائیہ نشست کا انعقاد!

ویشالی(آئی این اے نیوز 23/نومبر 2018) ضلع ویشالی کے مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد میں تین بچوں کے تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر دعائیہ نشست کا انعقاد کیا گیا، نشست کا آغاز محمد اکرام متعلم مدرسہ ھذا کی تلاوت سے ہوا، اس کے بعد نعت نبی محمد آفتاب عالم، محمد ساجد حسین نے پڑھا.
نشست کے کی صدارت کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد مظاہر عالم صاحب سجادہ نشین خانقاہ شمسیہ چک اولیاء ویشالی نے اپنے خطاب میں حافظ قرآن کے متعلق فرمایا، حافظ قرآن کو اللہ انعام دے گا ایسے دس لوگوں کی سفارش کرے گا جس پر جہنم واجب ہوچکی ہوگی، اللہ تعالیٰ اس کی سفارش کو قبول فرمائے گا.
مفتی عبد السلام قاسمی مدرس مدرسہ اسلامیہ اماموری نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسرے کو سیکھائے، ہم قرآن کو چھوڑ کر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے، ہم اپنے بچوں کو ضرور حافظ بنائیں.
پروگرام کی نظامت مولانا قمر عالم ندوی ناظم مدرسہ ھذا استاد مدرسہ احمد یہ ابا بکر پور نے کی، محمد عبد اللہ مظفرپور محمد عالمگیر  محمد سمیر الدین اماموری نے بہت ہی کم وقت میں تکمیل قرآن کی جس سے مدرسہ کے تعلیمی معیار کے بہتر ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.
اس موقع پر مولانا عبد القیوم شمسی، الحاج قاری عرفانی، محمد کلام صاحب، حسن اختر، ماسٹر نسیم احمد، حافظ اشتیاق صاحب کے علاوہ درجنوں لوگوں نے شرکت فرماکر پروگرام کو کامیاب بنایا.
اخیر مولانا مظاہرعالم صاحب کی خصوصی دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا۔

اعظم گڑھ: مولانا عبدالبر صاحب کے دروازے سے بائک چوری، نہیں ملا سراغ!

جگدیش پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 23/نومبر 2018) گزشتہ بتاریخ 21نومبر 2018 بروز بدھ دیر شام ایک پیشن پرو بائک چوری ہوگئی ہے،
جس کا سراغ اب تک نہ چل سکا، اطلاع کے مطابق گزشتہ شام مولانا عبدالبر بن حضرت مولانا عبدالحق صاحب نوراللہ مرقدہ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اپنے گھر باہری حصے میں گاڑی کھڑی کیا، اور اس کو لاک بھی کیا، اور معمول کے مطابق وہاں گاڑی کھڑی کرتے تھے، لیکن جب صبح اٹھے تو اچانک بائک ندارد، فورا گاؤں وغیرہ میں کافی تلاش کیا لیکن اس کا کچھ بھی پتہ نہ چل سکا، تو فورا ایک تحریر تھانہ پھولپور دی اور مزید چند اخبار کے نمائندے کو بھی اطلاع دی، موصوف مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کے استاذ حدیث ہیں،چور کی چوری ان شاءاللہ ضرور پکڑی جائے گی.
لہٰذا آپ حضرات سے درخواست ہے کہ اس گاڑی نمبر کو دیکھ لیں اگر کہیں بھی کسی کو اس کاپتہ چلے تو فوراً اطلاع کرے، اس کو ان شاءاللہ انعام سے نوازا جائے گا.

ہمیں تو اپنوں کی حالت پہ اف آتا ہے!

ازقلم : عبداللّٰہ شیرازی
موبائل:9873998015
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک زمانے سے ہم یہ سنتے آ رہے تھے کہ بارہ ربیع الاول کے موقع پر ایک مخصوص طبقے کے حضرات شرم و حیا، انسانیت، اور شریعت مطہرہ کی ساری حدوں کو توڑ دیتے ہیں، محض اتنی بات بعث تشویش نہیں تھی لیکن یہ چیز ضرور کھٹکتی تھی کہ یہ لوگ ان اخلاق سوز کرتوتوں کو راست اور عین شریعت کا جز سمجھ کر کرتے ہیں، اتفاق سے گزشتہ روز ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں غیر شرعی عید موسوم بہ عید میلادالنبی پر ہونے والے خرافاتی مناظر کو قید کرلیا گیا تھا، یقین جانیے وہ لوگ ایسی شنیع حرکتیں کرتے ہوئے دیکھے گئے کہ بس خدا کی پناہ، مجھ پر تھوڑی دیر کے لئے سکتہ سا طاری  ہوگیا تھاکہ آخر یہ کر کیا رہے ہیں کیا اسی سب کے لیے نبی کی ولادت کو ایک گھٹیا اور پرلے درجے کا بہانہ تراشا گیا؟
 ایسے موقعوں پر اگر آپ بھی ان کا  موازنہ غیروں سے کریں گے تو آپ کو صاف محسوس ہوگا کہ بریلوی مسلک کے متبعین اپنے اس خرافاتی عمل میں غیروں سے زیادہ غالب ہیں، ابھی حال ہی میں دیوالی کا تہوار روایتی انداز میں مکمل ہوا، 7/8نومبر کے اخبارات پر نظر دوڑائیں گے تو  ظاہر ہو جایے گا کہ غیروں کا یہ تہوار (دیوالی) اتنا نمایاں نہیں ہوا جتنا کہ آج کے اخبارات کی سرخیاں میلاد النبی منانے والوں کی تصویر کشی کر رہی ہیں۔
وہ تو غیر تھے ہمیں ان سے کوئی  بیر نہیں
ہمیں تو اپنوں کی حالت پہ اف اتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

 میلاد نبی اور دیوالی منانے والوں کا تقابل:
غیر مسلموں نے دیوالی کے موقع پر مختلف قسم کے پٹاخوں سے ماحول کو مسموم کیا۔
میلاد منانے والوں نے بھی کوئی کسر باقی نہ رکھی اور  آتش بازی کا مظاہرہ کیا ۔
غیروں نے مندروں اور مکانات کو موم بتیوں اور برقی چراغوں سے سجایا ۔
 میلاد منانے والوں نے بھی گھروں، مسجدوں اور  چوراہوں کو بھر پور انداز میں چراغاں کیا اور تزئین کاری کے بعد دیگر رسومات ادا گئے ۔
غیروں نے اجتماعی محفلیں لگائیں
میلاد والوں نے جلوس اور جلسوں کا اہتمام کیا۔
غیروں نے اپنی عبادت گاہوں پر جشن دیوالی منائی
میلاد والوں نے قبروں کو میلے ٹھیلے کی جگہ بنائی ۔
غیروں نے ناچ گانے کو لازم سمجھا ۔
میلاد والوں نے بھی نعرے کو لازم پکڑا اور خوب اچھل کود کرتے رہے تا آنکہ مرد وعورت کا باہمی اختلاط بھی خوب ہوا اور اوباشوں نے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا.
اپ ان حرکتوں کو کیا نام دیں گے، کیا یہ واقعی نبی کی ولادت پر خوشیاں منا رہے ہیں یا پھر پس  پردہ شریعت سے انحراف اور بے حیائی و عریانیت کو فروغ دے رہے ہیں اور کہیں نہ کہیں توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں.
میں صاف طور پر یہ کہتا ہوں کہ یہ  لوگ عید میلادالنبی کے نام پر ایسے بدعات و رسومات کو فروغ دے رہے ہیں  جن کا اس دین حنیف  سے کوئی واسطہ نہیں۔
یہ بدعات و منکرات نہ کبھی دین کا حصہ تھے  اور نہ کبھی مستقبل میں ہو سکتے ہیں، یاد رکھنا چائیے ان لوگوں کو جو ان چیزوں کو دین کا حصہ سمجھ کر رہے ہیں کہ وہ لوگ کھلی ہوئی گمرہی میں ہیں۔
علماء لکھتے ہیں کہ بدعتی کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور وہ اپنے سابقہ حالت میں ہی دنیا کو خیر آباد کہہ دیتا ہے، وجہ یہ کہ ایک عام آدمی کوئی گناہ کرتا ہے تو ذاتی طور پر وہ مطمئن نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا کسی لمحے قرار پاتا ہے اسے ہر دم نہیں تو کم از کم  یہ احساس ضرور ہوتا کہ ہم غلطی پر ہیں ان کا یہی خیال اور احساس توبہ سے ہم کنار کراتا ہے، لیکن بدعتی اپنے عمل کو عین سنت اور صحیح مان کر رزیل اور بیہودہ افعال کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی  یہ غلط فہمی اسے توبہ سے ہمیشہ دور رکھتی ہے کیوں کہ بزعم خویش خود کو برحق جانتا ہے۔
لہٰذا ایسی محفلوں، جلسہ گاہوں اور میلادوں میں جانے سے بچیں جس  میں بدعات و خرافات ہی رواج پا رہے ہوں، اس لیے کہ یہ ہمارے دین کا حصہ نہیں ہے، اللہ ہمارا حامی اور مدد گار ہو۔

مدھوبنی: جشن عید میلاد النبی دھوم دھام سے منایا گیا!

محمد سالم آزاد
ـــــــــــــــــــــــ
بھوارہ/مدھوبنی(آئی این اے نیوز 23/نومبر 2018) شہر مدھوبنی میں تاریخی علمی ادبی رفاہی شعبہ کے زیر اہتمام ہر سال کی طرح امسال بھی ادب و احترام، عقیدت و محبت کے ساتھ محسن انسانیت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی یوم پیدائش 12 ربیع الاول کے حسین موقع پر جلوس محمدی پرسکون ماحول میں نکالا گیا، جلوس محمدی بینر جھنڈا کے ساتھ دوران گشت بڑا بازار سوری ہائی اسکول اسٹیشن روڈ تھانہ چوک بھوارہ کوتوالی چوک وغیرہ کے اہم مقامات پر عوامی جم غفیر سے روشناس کرایا گیا، جلوس کی قیادت امان اللہ خان قادری، مولانا صابرالقادری نے کیا.
اس موقع پر انجمن ملت کارواں کے اہم کارکنان میں سمت اللہ خان، ماسٹر شہاب الدین، مولانا عبدالشکور، کوثر جمالی، مولانا عبدالسلام، مولانا جہانگیر، مولانا امانت اللہ، محمد صدام، صلاح الدین، واجد، آزاد، اسرائیل، نداف وغیرہ موجود تھے.

جامعہ فرقانیہ غوثیہ اسکول میں ششماہی امتحان مکمل!

محمد ارشادالحق مفتاحی
ــــــــــــــــــــــــ
پانی پت/ہریانہ (آئی این اے نیوز 23/نومبر 2018) پانی پت کے محلہ غوث علی شاہ کے جامعہ فرقانیہ غوثیہ اسکول میں ششماہی امتحان منعقد کرائے گئے، جس کی سربراہی حضرت مولانا عبد الحميد صاحب مہتمم مدرسہ فیض القرآن نے فرمائی، جس میں ممتحن کی حیثیت سے مولانا محمد اسرائیل صاحب مدرس مدرسہ فیض القرآن، مفتی محمد ارشاد الحق امام و خطیب مسجد فخرالدین شاہ، مفتی محمد ناظم امام و خطیب چاند مسجد، قاری عبد الواجد امام و خطیب مسجد نور جہاں نے شرکت فرمائی.
ممتحن حضرات نے طلباء و طالبات کا جائزہ لے کر ادارے کے تعلیمی و تربیتی نظام پر تسلی و خوشی کا اظہار کیا،
اور ناظم اعلی قاری محمد رئیس صاحب جامعہ ھذا کی محنتوں کو سراہا، انہوں نے کہا آگے چل کر ان شاءاللہ یہ ادارہ علاقے اور ملک کے لیے بہت ہی لائق مند رجال سازی کے لئے کارآمد ثابت ہو گا، اخیر میں مولانا عبدالحمید صاحب کی دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا.
 اس موقع پر حافظ محمد شاہ دین، قاری محمد افضال، مفتی محمد دلشاد، مفتی محمد ناظم، مولانا مہدی حسن و دیگر جامعہ ھذا کے اساتذہ اور اہل بستی کے معزز افراد موجود رہے.

محبت رسولؐ کا مطلب اتباع رسولؐ ہے: قاضی حبیب اللہ قاسمی

آصف امام مدھوبنی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
مدھوبنی(این آئی اے نیوز 23/نومبر 2018) دنیا میں نبی ﷺ کی آمد باعث رحمت، آپ کی بعثت باعث تسکین و راحت اور آپ کی رسالت و نبوت باعث نجات و کامیابی ہے، ہمیں آپ کی ولادت مبارکہ پہ بیحد فرحت وانبساط ہے، ہم آپ ﷺ سے بیحد محبت کرتے ہیں، کائنات کی ہرچیز سے زیادہ بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ آپ سے محبت کرتے ہیں، اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ سے محبت ایمان کا حصہ اور ہمارے اوپر محبت رسول ﷺ فرض و واجب ہے، اس فرض میں کوتاہی کرنے والا ایمان کی حلاوت سے محروم اور محبت رسول ﷺ کی چاشنی سے کوسوں دور ہے،
وہ آدمی مومن نہیں ہوسکتا جب تک دنیا کی ہرچیز سے زیادہ نبی ﷺ سے محبت نہ کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے "کوئی شخص اس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے بال بچے، والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں"(صحيح مسلم:44)
 اور حدیث رسول سے بھی پتہ چلتا ہے کہ محبت نبی ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ سنت رسول سے  سے محبت اور اس کی اتباع کی جائے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے "جس نے میری سنت سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا" (مشکوۃ)
 خلاصہ یہ ہے کہ محبت رسول ﷺ کا حقیقی معیار اطاعت رسول اور اتباع رسول ہے جو بغیر اطاعت رسول کے محبت کا دعوی کرتا ہے وہ اپنے دعوی میں جھوٹا ہے، اس کا نقشہ ایک عربی شعر میں بہترین انداز میں کھینچا گیا ہے:
لوکان حبک صادقا لاطعته
 ان المحب لمن یحب مطیع
 شعر کا ترجمہ: اگر تمہاری محبت سچی ہوتی توتم محبوب کی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہوتا ہے۔
مذکورہ باتیں قاضی شریعت حضرت مولانا محمد حبیب اللہ قاسمی نے مجلس الوعی الاسلامی بھوارہ کے زیر اہتمام، مدنی روڈ گواپوکھر بھوارہ میں منعقدہ  ”ایک حسین شام سیرت النبیؐ کے نام“ پروگرام میں اپنے صدارتی خطاب میں کہا.
مجلس کے تحت یہ پروگرام دونشست میں ہوا، پہلی نشست میں مدرسہ فلاح المسلمین گواپوکھر بھوارہ کی طالبات نے خواتین اسلام کے سامنے اپنا تعلیمی و ثقافتی پروگرام بہت موثر انداز میں پیش کیا، جس میں خواتین اسلام نے بڑی تعداد میں شرکت کی.
 پروگرام کی نظامت مفتی مسیح احمد قاسمی نے کیا، اس خصوصی نشست کے اختتامیہ میں مفتی محمد امداداللہ قاسمی نے اسلام میں عورت کی عظمت و رفعت بتاکر انہیں ان کی ذمہ داری بھی بتائی، انہوں نے کہا کہ تاریخ کے اوراق اس بات پر گواہ ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، انہوں نے ایک انگریزی کہاوت کا بھی حوالہ دیا:
"A woman with true education is the best instrument to change society"
کہ اگر سماج کو بدلنا ہے تو اپنی بچیوں کو بہتر تعلیم سے آراستہ کیا جائے اور اسکول و کالج کا رخ کرانے سے پہلے انہیں دین کی بنیادی تعلیم و تربیت دی جائے تاکہ بچیاں اسکول و کالج میں اپنے دین و ایمان اور عزت و عصمت کی حفاظت کر سکے.
دوسری عمومی نشست بعد نماز عشاء تا ١٢ بجے شب منعقد ہوئی، جس میں سیرت پاک کے مختلف اہم پہلوؤں پر علماء کرام کے ایمان افروز خطاب ہوئے.
اس نشست میں جناب مولانا محمد رضوان اللہ صاحب قاسمی، جناب مولانا سیف اللہ صاحب نعمانی، جناب مولانا قدرت اللہ صاحب نعمانی، جناب مولانا صادق صاحب قاسمی، جناب مولانا نصیرالدین صاحب قاسمی، جناب قاری ضیاء التوفیق صاحب، جناب مولانا اظہار الہدی صاحب قاسمی اور جناب مفتی محمد امداداللہ صاحب قاسمی نے اپنے قیمتی خطابات عوام کے سامنے پیش کئے، علماء نے زور دیا کہ سیرت پاک کے پیغامات اور نبوی تعلیمات کو برادران  وطن تک پہنچانے کی ذمہ داری ہماری ہے، ١٢ ربیع الاول کے موقع پر جھنڈوں اور خرافات میں پیسے برباد کرنے کے بجائے نبی رحمتؐ کے پیغاماتِ رحمت کے بینرز اور پوسٹرز تمام عوامی مقامات پر لگائیں کہ یہ بھی سیرت پاک کو دوسروں تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے، اخیر میں مفتی محمد امداداللہ صاحب کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا.

Thursday 22 November 2018

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی ہم بہتر معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں: احمدریحان فلاحی

منگراواں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 22/نومبر 2018) الامین نیشنل اسکول منگراواں اعظم گڑھ میں ایک سیرت کوئز مقابلہ کا انعقاد کیا گیا، جس میں موجود طلبہ و طالبات سے اسکول کے ڈائریکٹر احمد ریحان فلاحی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کا سرا آپ کی ذریں تعلیمات سے نہ ملتا ہو، آپ کے مبارک وجود ہی سے جہالت کا خاتمہ ہوا، یتیموں کے حقوق اور عورتوں کو عزت و وقار ملا ۔آپ کی پوری زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے،
آپ کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی ہم بہتر معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالٰی جنہیں بڑا مرتبہ دینا چاہتے ہیں ان کا بچپن بھی بڑا پاک وصاف رکھتے ہیں، آپ کا بچپن بھی بڑا پاک وصاف تھا جس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک لڑکے نے آپ کو بتایا کہ شہر میں کھیل تماشہ کی محفلیں لگی ہوئی ہیں، آپ کے دل میں بھی خیال آیا کہ ہم بھی جاگ کر کھیل تماشہ دیکھیں، مگر رب کائنات کو یہ منظور نہیں تھا آپ راستے میں کسی کام کی  غرض سے کہیں رک گئے اور پھر نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا، وہاں نہیں پہونچ پائے، اس لئے ہمیں اپنا آئیڈیل دوسروں کو نہیں آپ کو بنانا چاہیے، اس مقابلے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ابھی سے بچے اپنی زندگی کو آپ کے بتائے ہوئے طریقے پر ڈھالیں۔
مہمان خاص جامعہ اسلامیہ مظفر پور کے استاد مولانا رافع ندوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو پوری دنیا روشن ہو گئی، اندھیروں کا خاتمہ ہوگیا، آپ کی والدہ ماجدہ خود کہہتی ہیں کہ ولادت کے بعد پورے کمرے میں نور پھیل گیا تھا۔چودہ ساڑھے سو سال کے بعد بھی اسی روشنی سے اجالا مل رہا ہے، مولانا ندوی نے بچوں سے مزید کہا کہ قرآن مجید نے صاف طور پر کہا ہیکہ اکر ہمیں کچھ بننا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بنیں، آپ بچپن ہی سے سچے، وعدہ کو پورا کرنے والے اور امانت دار تھے یہاں تک کہ مخالفین بھی اس بات کی گوہی دیتے تھے، امانت کے طور پر اپنا سامان آپ کے پاس رکھتے تھے، رشتے داروں دوست واحباب کا بہت ہی خیال رکھتے تھے، رضائی والدہ اور رضائی بھائیوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے تھے، یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ بھی ہمیشہ اچھا برتاو کرتے تھے، عزیز بچوں اللہ کے رسول ہی ہمارے لئے نمونہ ہیں ہم ان کی تعلیمات پر عمل کر کے ہی دنیا آخرت میں کامیابی پا سکتے ہیں، انہوں نے ادارہ کے اس قدم کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے مقابلوں سے آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے بچوں کو روشناس کرایا جا سکتا ہے، اور ذمے داران کی فکر کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح کی پود تیار کرنا چاہتے ہیں۔
قبل اس کے پروگرام کا آغاز نبیل امین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور نظامت کے فرائض ریان نواز نے انجام دیا، سدرہ، عائشہ، حفصہ اور فاطمہ نے بارگاہ رسالت میں نعت پاک کا نذرانہ پیش کیا ۔
اس موقع پر محمد خالد، عبداللہ، ابوعامر، نعیم، عبدالعظیم، عبدالماجد سمیت اساتذہ و طلبہ موجود تھے۔

"تاریخ اشرف العلوم" میرے مطالعہ کی روشنی میں!

قاری مطیع الرحمن صدیقی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
ابھی میرے سامنے شمالی بہار کا مشہور و معروف ادارہ الجامعة العربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتا مڑھی بہار کی سو سالہ خدمات شخصیات کا سوانحی خاکہ پس منظر حالات پر مشتمل تاریخ اشرف العلوم ہے،کمپوزنگ کا کام شاہد انور قاسمی ںے کیا ہے ترتیب دینے کا کام جامعہ کے مؤقر استاذ مولانا نسیم احمد قاسمی صاحب نے بہت سلیقہ سے کیا ہے، ۷۶۸صفحات پر مشتمل ہے یہ کتاب،اسے آپ الجامعتہ العربیہ اشرف العلوم کنہواں سے ۴۰۰روپۓ میں حاصل کر سکتے ہیں،
سب سے پہلے فہرست مضامین ہے، جو ۱۶صفحات تک مشتمل ہے،اس کے بعد پیش لفظ ہے جو حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند نے ۸صفحہ میں لکھا ہے۔
حضرت مولانا اخیر میں لکھتے ہیں خدا کریم سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو بے پناہ مقبولیت سے نوازے اور اس کے مصنف،اساتذہ کرام اور مدرسہ کی ظاہری و اخلاقی مدد کرنے والے سارے سارے مخلصین حضرات کو اپنی بے پناہ رحمتوں سے نوازے،اورعزت و عظمت سے سرفراز فرمایے آمین.
اس کے بعد صفحہ ۲۷تا۲۸پر ممتاز عالم دین صاحب قلم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈنے لکھا ہے،حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ شمالی بہار میں جو مدارس کام کر رہے ہیں ان میں جامعہ عربیہ اشرف العلوم کو یہ امتیاز حاصل ہے  کہ اسے ہر دور میں اللہ رب العزت نے اہل اللہ کی سر پرستی عطا فرمائی ہے کہ بانیان اور تدریسی عملہ ہر دور میں تسلسل کے ساتھ ایسے باکمال اہل دل رہے ہیں جنھوں نے پڑھایا بھی سکھایا بھی سنتوں پر عمل کرایا بھی اور آج بھی زندگی کو صحیح اسلامی رخ پر ڈالنے کے لئے ایسی تربیت  دیتے ہیں کہ وادررین و صادرین برجستہ کہہ اٹھتے ہیں کہ
"در مدرسہ خانقاہ دیدم".
اس کے بعد تأثر اتی کلمات فقیہ العصر شیخ وقت عالم باعمل حضرت مولانا قاسم صاحب نے لکھا ہے ،وہ ایک جگہ لکھتے ہیں بہت خوشی کا مقام ہے وکہ جامعہ نے جشن صد سالہ کے موقع پر اس عظیم ادارہ کی روشن تاریخ کو مرتب کرنے کا ارادہ اس ادارہ کے نوجوان عالم دین مولانا نسیم احمد قاسمی نے کیا ہے،مولانا موصوف کو اللہ تعالیٰ علم ماتعلم کی نعمت سے نوازا ہے انہوں نے پوری عرق ریزی اور جانفشانی سے جامعہ کی تاریخ مرتب کی ہے۔
"کلمات عالیہ"کے عنوان سے حضرت مولانا زبیر احمد قاسمی نے لکھا ہے جو جامعہ کے ناظم ہیں۔حضرت کی تحریر صفحہ ٣٠اور ٣١پر ہے ۔
"کلماتِ بابرکت"حضرت مولانا اظہار الحق المظاہری نےلکھا ہے ہے جو تین صفحہ پر محیط ہے،اس کے بعد جامعہ کا ترانہ جس کو ترتیب مولانا اویس قاسمی صاحب نوراللہ مرقدہ سابق صدر مدرس جامعہ ھذا نے لکھا ہے۔صفحہ ۳۵تا۳۶ پر درج ہے،اس کے مقدمہ مرتب نے لکھا ہے، جو صفحہ نمبر ۳۷پروہے،مرتب نے بہت سلیقہ سے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے جامعہ کے ابتداء سے لیکر آج تک کے حالات تمام سابق استاذ ،مشہور و غیر مشہور شخصیات جن لوگوں کی بھی خدمات ادارہ کو حاصل رہی ہے موصوف نے شامل کیا ہے۔
صفحہ ۵۱پر شیخ واعظ الدین گماشتہ علامہ کا تزکرہ ہے جو راقم کے پردادہ ہیں،ادارہ کی ابتداء میں آپ کی بہت قربانی رہی ہے،صفحہ ۵۱تا ۶۰ تک کنہواں اور اس کے اطراف کی مشہور شخصیات کا تذکرہ ھے،ادارہ کے ناظم ،نائب ناظم صدر مدرس ،مدرس تمام ملازمین کا تزکرہ اسی کتاب میں موجود جو بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، راقم الحروف کے والد ماجد مفتی حبیب الرحمن صاحب مرحوم جو جامعہ میں محاسب کے منصب پر فائز تھے، آپ کا بھی تزکرہ صفحہ ۵۴۲تا ۵۴۳ پر درج ہے ،حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مرحوم کابھی تزکرہ ۴۸۲تا۴۸۳پر درج ہے.
راقم کے استاذ محترم قاری بدر عالم طیبی مرحوم کی بھی خدمات ادارہ کو حاصل ہے،آپ کا خوبصورت تزکرہ ۵۶۸ پر درج ہے.
مولانا نسیم احمد قاسمی صاحب نے سمندر کو کوزے میں سمونے جیسا بڑا کام کیا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ مولانا کی صحت میں عمر میں برکت عطا فرماکر آپ کی اس کاوش کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔آمیـن