اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: September 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 30 September 2019

شاعر مشرق علامہ اقبال رح اور شری رام چندر جی، از مفتی توقیر بدر آزاد قاسمی

*علامہ اقبال رح اور شری رام چندر جی*

_*ت بدر آزاد*_

عنوان کے مطابق کل ایک مخلص دوست سے جو کچھ گفتگو ہوئی اسے یہاں رکھنا مناسب سمجھتے ہیں!

سوال:علامہ اقبال نے رام جی کو 'امام الہند' کب کہا؟کس پس منظر میں کہا؟
جواب:اسے ماہر اقبالیات سے سمجھا جایے تو بہتر ہوگا.

ان ہوں نے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:گزشتہ دنوں کی بات ہے. جب ٹی وی چینلز سے لے کر پرنٹ اخبار تک میں یہ خبر چلتی رہی کہ مولانا سلمان ندوی صاحب نے رام کو ایک پیغمبر تسلیم کر لیا ہے۔
اس وقت یہ بات بھی سامنے آیی تھی کہ"مولانا سلمان ندوی نے کمال خان کو جو انٹر ویو دیا ہے اس میں وہ رام جی کو پیغمبر کہتے نہیں دکھ رہے ہیں۔تاہم وہ اس بات پر زور دیتے نظر آئے کہ مسلمانوں کو بابری مسجد اراضی کی ملکیت کے دعوے سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور شرعا مسجد کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے"۔
آگے مزید انہوں نے کہا:
"میرے خیال سے سلمان ندوی صاحب ایک بڑے عالم دین ہیں اور اجتہاد ان کا حق ہے اگر وہ غلط اجتہاد بھی کرتے ہیں، یا کیے ہیں تو بھی وہ گنہگار نہیں ہوں گے"
"اب آج کل ایک ویڈیو جناب محمود صاحب کی وایرل ہے، جس میں انکو تعلیمات محمدی ص و پروچن رامچندری کے مساوات نیز احترام رام کے وجوب پر اصرار کرتے دیکھا جاسکتا ہے."ایک پروگرام میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس کو پھر سے دیکھنے سننے کی بات کہی ہے.یعنی ممکن ہے کہ سنجیدگی سے سمجھنے کے بعد وہ رجوع وغیرہ کرسکیں!"
کمال کی بات یہ ہے کہ ان جیسے موقع پر انکے مریدین و معتقدین اپنی بات منوانے کے لیے یہ کہتے اور سمجھاتے نظر آتے ہیں کہ علامہ اقبال نے بھی رام جی کو 'امام الہند' کہا ہے،میں تو حیران ہوں کہ آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے....

اس پر راقم نے انکی بات کاٹتے ہویے کہا:"حالانکہ ان مریدین کو یہ بھی تو معلوم ہونا چاہیے کہ علامہ کا یہ کہنا وہ بھی بحیثیت ایک ایسے شاعر،جسکی شاعری ماہرین کی نگاہ میں کیی ادوار پر مشتمل ہے،دلیل نہیں بن سکتا"

دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ معتقدین و مریدین دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اقبال کے تعلق سے لوگوں کو گمراہ کر نے کا ارتکاب الگ کرتے ہیں۔

بقول ماہرین اقبالیات اقبال کی فکری ارتقا کو کئی ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
سو اس حوالے سے اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اقبال نے نظم "رام" کب لکھی ہے؟

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ  اقبال  نے یہ نظم 1908 میں لکھی ہے۔یہ وہ دور تھا جب اقبال *پکے نیشنلسٹ* تھے اور متحدہ قومیت کے علم بردار یا مبلغ تھے۔اس زمانے میں ہی انہوں نے'سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا'لکھا تھا اور'نیا شوالہ' بھی اسی دور کی نظم ہے،جس میں وہ پنڈت اور مولوی کے جھگڑے سے تنگ آکر "دیر و حرم کو چھوڑنے  کی بات کر رہے تھے۔اسی زمانے میں انہوں نے نظم 'رام' لکھی اور انہیں امام الہند کا لقب دیا، لیکن اقبال کی فکر میں بعد میں جو تغیر آیا اس کے تناظر میں ترانہ ملی"چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا۔۔ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں  ہمارا
اور نظم "وطنیت" کہ 'ان تازہ خداوں میں بڑا سب سے وطن ہے ۔۔۔۔جو پیرہن ہے اس کا وہ ملت کا کفن ہے،۔۔۔ اور پھر خطبات الہ آباد والی دو قومی نظریہ والی فکر سامنے آتی ہے، اب ظاہر ہے ان افکار و خیالات کے بعد ان تخلیقات کےسامنے نظم رام اور امام الہند کی معنویت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
ایسے میں مذکورہ أشخاص کے مریدین و منتسبین کا یہ امام الہند والا راگ سماعت کو گراں گزرتا ہے۔
ان سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ بھی رہی ہے کہ گزشتہ دنوں وہ لوگ بھی اقبال کو quote کر تے دکھتے رہے ہیں جنہیں اقبال کا وجود تک کبھی گوار نہیں رہا۔
میری مراد سمبت پاترا سے ہے،جو اسٹوڈیو میں کہتے پھرتے رہے ہیں کہ اقبال نے رام کو امام الہند کہا ہے۔
کاش بیچارہ کبھی وہ یہ بھی کیمرے کے سامنے کہہ دیتا کہ اقبال نے یہ بھی کہا ہے کہ:

سچ کہہ دوں اے برہمن اگر تو برا نہ مانے!
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے!
آپس میں بیر رکھنا تونے بتوں سے سیکھا!
جنگ و جدَل سِکھایا واعظ کو بھی خدا نے!
________________
+919122381549
+918789554895

مانو کالج اورنگ آباد میں استقبالیہ تقریب، ذیشان الٰہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد

مانو کالج اورنگ آباد کی استقبالیہ تقریب   
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        اورنگ آباد کی سرزمین پر موجود مانو کالج اپنی سرگرمیوں  اور نشاطات کی وجہ سے صرف مہاراشٹرا ہی نہیں بلکہ پورے بھارت میں اپنی الگ پہچان اور شان رکھتا ہے  جو چیزیں دیگر اسکول اور کالج کے لئے قابل دید اور قابل تقلید بھی ہیں کیونکہ یہاں کے بچوں کو خالص اسلامی ماحول میں  سینچنے ،سنوارنے اور ایک اچھا شہری و انسان بنانے کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کو ایک خوشبودار پھول بنانے کی بھی  ہر ممکن سعی مسعود کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں وقت و حالات کے اعتبار سے کچھ ایسے پروگراموں  یا پھر نشاطات کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے جو دیگر ادارے یا پھر اسکول و کالج میں ناپید ہیں اور اس کی جیتی جاگتی ثبوت  30/09/2019 کی اسقبالیہ تقریب ہے ۔اس کی صدارت  ڈاکٹر عبدالرحیم سر (پرنسپل مانو ،سی، ٹی، ای، اورنگ آباد )کے ذمہ تھی جب کہ نظامت کا فریضہ شہاب الدین اور کاتب سطور(ذیشان الہی منیر تیمی) بی ایڈ  تھرڈ سمیسٹر نے انجام دی ۔
                اس پروم کی ابتداء  اس کتاب سے کی گئی جو کتاب اس دنیا کی سب سے سچی ،اچھی اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ،جو کتاب فصاحت و بلاغت ،بصیرت و دانائی کا  زینہ ہے جس پر چل کر ایک انسان ہدایت ،وحدت ،انسانیت ،الفت اور محبت جیسے خزینے سے اپنی زندگی کو مالا مال کرلیتا ہے ۔جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود رب کائنات نے لے رکھی ہے "انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون "والی آیت اس کی واضح برہان ہے ۔ قرآن کی تلاوت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گلہائے عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کے لئے نمرہ زینب تشریف لائی موصوفہ نے بہترین لب و لہجہ اور مسحور کن آواز میں نعتیہ اشعار گنگناکر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عقیدت و محبت کا ثبوت پیش کیا ۔
   قرآن کی تلاوت اور نعت کے بعد مانو کالج اورنگ آباد کی روایت حسنہ کو برقرار رکھتے ہوئے مانو ترانہ کو اس پروگرام میں بذریعہ آڈیو پیش کیا گیا یہ ترانہ مانو کی جو حقیقی پہچان ہے اس کو واضح کرتی ہے ۔
    ترانہ مانو کے بعد گل پوشی کا سلسلہ شروع ہو ا اور ڈاکٹر عبد الرحیم سر، ڈاکٹر پٹھان وسیم سر، ڈاکٹر خان شہناز بانو میم، ڈاکٹر بدر الاسلام سر، محترمہ عظمی صدیقی میم، ڈاکٹر شاہین پروین میم اور محترمہ سیدہ ہاجرہ نوشین میم کو گل پوشی کے مد نظر خراج تحسین پیش کیا گیا ۔پھر ابصار عالم نے اپنی خوبصورت آواز میں ایک استقبالیہ نظم پڑھی ۔ اس استقبالیہ نظم کے ذریعہ ہمارے بڑے بھائی یا پھر پرانے طلبہ اس کالج میں تشریف لائے ہوئے نئے طلبہ سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا ۔حالانکہ اسقبالیہ نظم  کا ہر ہر لفظ و جملہ ایک خوشبودار باغیچہ کے مانند تھا ۔جس سے الفت ،محبت ، چاہت اور عقیدت کی خوشبوں آرہی تھی اور جس کے مد نظر کالج میں تشریف لائے ہوئے نئے طلبہ و طالبات کا پرجوش اسقبال کیا جارہا تھا ۔یہ اشعار تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن دوسری طرف ہمارے اس اشعار کے مفہوم سے کہیں زیادہ الفت و محبت اور چاہت ہمارے قدیم بھائیوں کے دلوں میں نئے طلبہ و طالبات کے لئے ہیں ۔جس کو نئے طلبہ و طالبات نے یہاں  آکر دیکھا اور محسوس بھی کیا۔اس کے بعد محمد علی، معید انجم ،ملک رضا الباری اور خادم الاسلام وغیرہ نے مزاحیہ شاعری، غزل اور مزاح کے تحت اس مجلس کو خوبصورت بنانے کی پوری کوشش کی ۔
        اس استقبالیہ تقریب کی مناسبت سے نو وارد طلبہ و طالبات نے اپنا اپنا تعارف بھی پیش کیا جس کی وجہ سے نئے اور پرانے طلبہ و طالبات کو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے اور پہچاننے کا موقع ملا اس مناسبت سے کالج کے باالعموم  تمام  طلبہ و طالبات نے اپنا اپنا تعارف پیش کیا لیکن باالخوص میں فردوس ،نظام ،نظام الدین، صلاح الدین ،محمد علی تیمی ،مبشر ،عاشق ،شاداب ،شمیم ،دانش ،عارف ،تفضل ،ملک رضا الباری ،فردوس ،عامر ،سنجور،انور ،غلام ،چاند ،یزدانی ،شاکر ،جمیل ،عدنان ،نوشین ،عائشہ ،رقیہ اور صفیہ جیسے طلبہ و طالبات نے اپنا اپنا تعارف پیش کیا ۔
     اس استقبالیہ تقریب کی مناسبت سے کالج کے لگ بھگ تمام طلبہ و طالبات موجود تھے لیکن باالخصوص میں محمد علی ،شاہ رخ خان، محمد عمران، مستحسن، عبد القادر، معید انجم، ابو نصر، عاشق، افروز، احمد رضا، سلامل انصاری، قابل، سلمان، عبد السمیع، شمشاد، امتیاز، علی تیمی، نظام الدین، فردوس، جمیل، عاشق، شمیم، عبد المتین، تفضل، ملک عبد الباری، شاکر، خادم الاسلام سیماب، سائمہ، نمرہ، عمرانہ، ترنم، عائشہ، رقیہ، صفیہ اور نوشین جیسے طلبہ و طالبات موجود تھے ۔
      اس استقبالیہ تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ قدیم طلبہ و طالبات کی جانب سے کھانے پینے کا بھی خوب خوب انتظام تھا اس موقع سے تمام بچے  خوب بریانی اور حلوی کھائے ۔
    صدر پروگرام  پروفیسر عبد الرحیم سر   پروفیسر پٹھان وسیم سر اور پروفیسر بدر الاسلام سر حفظھم اللہ ،محترمہ خانم شہناز بانو،محترمہ عظمی صدیقی ،ڈاکٹر خان شاہین میم، سیدہ ہاجرہ نوشین میم حفظھن اللہ  کے ساتھ ساتھ تمام طلبہ و طالبات کی موجودگی نے اس پروگرام کو کامیاب اور مثالی بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا  ۔
  اخیر میں صدر محترم کا پر مغز خطاب ہوا  پھر اختتامی کلمات کے لئے محمد عمران تشریف لائے ۔موصوف کی زیر نگرانی ہی میں اس تقریب کا انعقاد ہوا تھا  انہوں نے تمام اساتذہ و معلمات اور طلبہ و طالبات کے شکریہ کے ساتھ اس تقریب کے اختتام کا اعلان کیا۔
          ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا

جامعہ اشاعت العلوم سمستی پور میں تعزیتی نشست!

کلیانپور/،سمستی پور(آئی این اے نیوز 30/ستمبر 2019) نرسرا بشن پور کے مشہور و معروف سماجی خدمات سے دلچسپی رکھنے والے نیز عالم دین حضرت مولانا فیروز عالم قاسمی صاحب کے والد محترم جناب حاجی منتظر صاحب کے انتقال کی خبر جیسے ہی جامعہ کو ملی ذمہ داران و اساتذہ اور طلبہ میں غم کی لہر دوڑ گئی کیونکہ مرحوم کے صاحب زادے مولانا فیروز عالم قاسمی صاحب کا تعلق جامعہ سے والہانہ تھا، موقع بموقع جانی و مالی ہر قسم کے تعاون سے جامعہ کو مستفیض کرتے رہتے ہیں اور اپنے
اعلی اخلاق کا مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں ـ اساتذہ وطلبہ نے تلاوت قرآن پاک کے بعد مرحوم کیلئے مغفرت اور وارثین و پسماندگان کیلئے صبرجمیل کی دعاء کی، اسی اثناء جامعہ کے بانی وناظم جناب قاری ممتاز احمد جامعی جنرل سکریٹری الامدادایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ نے تعزیتی پیغام میں کہا رنج و الم کی غم ناک گھڑی میں ھم سب اھل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں، مرحوم نیک سیرت و صوم صلٰوۃ کی پابند تھے، جامعہ کے نگران مولانا احسان قاسمی و نائب ناظم ماسٹر امتیاز صاحب اساتذہ مولانا سہیم الدین حافظ نسیم  صاحب قاری حیدر صاحب نے دعائے مغفرت کے بعد تعزیت پیش کی۔

حضرت مولانا حفی اللہ صاحب و مولانا واصف امین صاحب جیل سے رہا، علمی حلقہ میں دوڑی خوشی کی لہر

حضرت مولانا حفی اللہ خان صاحب اور مولانا واصف امین صاحب جیل سے رہا،علمی حلقہ میں دوڑی خوشی کی لہر
رپورٹ: محمد دلشاد قاسمی
جلال آباد / شاملی30ستمبر ٢٠١٩ آئی این اے نیوز)
ضلع شاملی کے قصبہ جلال اٰباد کی دو مشہور و معروف دینی درسگاہ مدرسہ مفتاح العلوم ،و مدرسہ دارالعلوم جلال اٰباد کے مہتمم حضرت مولانا حفی اللہ خان صاحب،و حضرت مولانا واصف امین صاحب ،آٓج صبح آٓٹھ بجے ضلع مظفرنگر جیل سے رہا ہوگئے ہیں،یہ خبر پاکر علمی حلقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی


استقبال کرتے ہوئے اساتذہ و طلبہ

واضح رہے اب سے تقریباً پونے دو ماہ قبل حضرت مولانا حفی
اللہ خان صاحب مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم جلال اٰباد ،و حضرت مولانا واصف امین صاحب مہتمم مدرسہ دارالعلوم جلال اٰباد ،و قاری محمد اشرف صاحب تھانہ بھون کی تھانہ بھون پولیس نے اپنے مدارس میں غیر ملکی طلباء بغیر پولیس کو اطلاع کیے پناہ دینے کے معاملے میں دفعہ ١٤ کے تحت گرفتاری کی گئی تھی،جس پر معاملہ کورٹ میں پہونچا،کیرانہ کورٹ سے معاملہ ہائی کورٹ الٰہ اٰباد منتقل کردیا گیا تھا جس پر سنوائی کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے گزشتہ جمعرات کو ضمانت دیدی تھی،اور آٓج صبح اٰٹھ بجے ضلع مظفرنگر جیل سے حضرت مولانا حفی اللہ خان صاحب ،و حضرت مولانا واصف امین صاحب کو رہا کردیا گیا،جیسے ہی رہائی کی اطلاع ملی تو سیکنڑوں کی تعداد میں طلباء و اساتذہ وعوام نے شہر سے باہر نکل کر پھول مالا پہناکر پرتپاک استقبال کیا،اور نعرے بلند کرتے ہوئے مدرسہ تک پہونچے،مدرسہ پہونچنے پر دارالعلوم جلال اٰباد کے مہتمم حضرت مولانا واصف امین صاحب نے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں جیت ہمیشہ سچ کی ہی ہوتی ھے اب آٓپ سبھی کو اپنے مقصد اصلی کی طرف متوجہ کر پابندی کے ساتھ علم کے حصول میں شب و روز محنت کرنی ھے اور خدا سے دعاء بھی کرتے رہنا ہے کہ خدا تعالی تمام علماء ومدارس کو اپنی حفاظت و امان میں رکھے،
اس موقع پر حضرت مولانا محمد یامین صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم جلال اٰباد ،حضرت مولانا محمد ارشد صاحب ،قاری شعیب صاحب ،مولانا رضوان،مولوی فیضان،مولانا محمد مدثر،منشی صاحب وغیرہ وغیرہ و کثیر تعداد میں طلباء و عوام کا جم غفیر موجود رہا

ایک تعارف کاتبین پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ،از قلم انظر الاسلام بن شبیر احمد

ایک تعارف کاتبینِ پیغمبرِ اعظم ﷺ
انظرالاسلام بن شبیراحمد
متعلم دارالعلوم وقف دیوبند


اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سر ہے، صحابہ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقا اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھیں کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابہٴ کرام سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دورہوں گے؛ ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہوگا۔

قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لایا، اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابہٴ کرامﷺ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا تھا، اسی میں تلاوت کیاکرتے تھے، بہت سے صحابہٴ کرام نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ بھی بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھا، کثرت سے آیات و احادیث یادکرنے اور لکھنے کی روایات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے اندر وحی اور دین کی حفاظت کا جذبہ کتنا زیادہ تھا، اُس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل آج کی طرح بہت وافر نہ تھے، پھر بھی انہوں نے بڑی دلچسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی، بعض صحابہٴ کرام کو دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت سکھانے کا حکم تھا، وہ اپنے فن کا مظاہر کرتے تھے، بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبوی میں رہ کر ”وحی الٰہی“ کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اُن میں بھی درجہ بندی تھی، بعض کی غیر موجودگی میں بعض کی نیابت متعین تھی، بعض کو احادیث لکھنے کی خصوصی اجازت بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، احکامِ زکوٰة و صدقات، فرامین ومعاہدات لکھنے کے لیے بھی صحابہٴ کرام کی اچھی خاصی تعداد دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود رہتی تھی، حیدرآباد کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمة اللہ علیہ نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں لکھے گئے دستاویزات جمع فرمائے ہیں، ہر دستاویز پر لکھنے والے صحابہٴ کرام کے نام بہ حیثیت کاتب درج ہیں، اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہٴ کرامکے درمیان لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔

خلاصہ یہ کہ صحابہٴ کرام نے جس طرح اپنے حافظہ کے ذریعہ دین کی حفاظت کی ہے، اسی طرح لکھ کر بھی پورے دین کو مکمل شکل میں انہوں نے محفوظ فرمایا ہے۔

راقم الحروف کوتاہ ہمت اب تک کی جد و جہد اور کاوش سے تاریخ و سیر کی کتابوں سے پچھتّر(۷۵) صحابہٴ کرام کے نام دریافت کرسکا ہے، جنہوں نے دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل کیا ہے، بعض نے وحی کی کتابت فرمائی، بعض نے احادیث لکھیں، بعض نے دستاویزات لکھے، بعض نے احکام زکوٰة اور فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابت کی، بعض نے قرآن مجید کی جمع وتدوین میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔

کتاب التراتیب ا لإداریہ (۱/۱۶ط مراکش) میں ایسے صحابہٴ کرام کی تعداد بیالیس ہے، ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں اڑتالیس صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں چھپن صحابہٴ کرام کا ذکر ہے، اسی کتاب سے حضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے ”کاتبینِ وحی“ میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد ”کاتبین “ صحابہٴ کرام کی تعداد پچہتر(۷۵) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (۴۹) صحابہٴ کرام ایسے ہیں، جن کے بارے میں راقم الحروف کو کاتب ہونے کی صراحت کتابوں میں مل گئی ، اور ایک نام عبداللہ بن خطل یا عبدالعزی بن خطل ہے، اس کے بارے میں ارتداد کی روایت ملتی ہے، کاتب ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ایک نامعلوم ”نصرانی انصاری“ کے کاتب ہونے کی روایت ملتی ہے؛ تا ہم یہ بھی لکھا ہے کہ ایمان سے پھر گیا تھا، جب دفن کیا گیا تو قبر نے اوپر پھینک دیا، اور ایک نام ”السجل“ ذکر کیا جاتا ہے، سورہ انبیاء (آیت ۱۰۴) میں مذکور ہے، راجح قول کے مطابق یہ کوئی کاتبِ وحی صحابی نہیں ہیں، اسی طرح مزید تئیس (۲۳) صحابہٴ کرام کے بارے میں صریح روایت تلاشنے سے راقم الحروف قاصر رہا؛ اس لیے اخیر میں ان کے ناموں کی ”الف بائی“ فہرست لکھ دی گئی ہے؛ تاکہ ان کے بارے میں صریح روایتوں کی تحقیق کی جا سکے، متعدد اہلِ علم نے کاتبینِ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ان کے اسمائے گرامی درج فرمائے ہیں، جن صحابہٴ کرام کے بارے میں تاریخی روایات موجود ہیں اُن کی ترتیب بھی ”الف بائی“ رکھی گئی ہے؛ تاکہ متعین نام تلاش کرنے میں سہولت ہو، ان کی ابتداء صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم: حضرت ابان بن سعید سے ہے اور یزید بن معاویہ پر یہ ترتیب مکمل ہوتی ہے۔

۱—حضرت ابان بن سعید: حضرت ابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت حضرت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: (المصباح المضئی ۱۸/أ، الہدایہ والنہایہ۵/ ۳۴۰، الاستیعاب۱/۵۱، التاریخ الکامل ۲/۳۱۳، عیون الاثر ۲/۳۱۵ العجالة السنیہ ۲۴۶، التنبیہ وا لإشراف ۳۴۶ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ص۱۳۵)

آپ کا سلسلہٴ نسب یہ ہے:

ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی، اموی رضی اللہ عنہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع سے حضرت عثمان بن عفان کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، تو ان کو حضرت ابان نے ہی پناہ دی تھی اور اپنے گھوڑے پر سوار کرکے نہایت ہی جرأت و بے باکی سے ارشاد فرمایا تھا:

اَقْبِلْ و أدْبِرْ وَلاَ تَخَفْ أَحَداً۔ (ترجمہ:) آپ آگے پیچھے جہاں تشریف لے جانا چاہیں، لے جائیں، اور کسی سے خوف زدہ نہ ہوں! (الاستیعاب ۱/۷۵)، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے تین ماہ کی درمیانی مدت میں ایمان لائے، (تاریخ خلیفہ بن خیاط ۵۰) سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علاء بن حضرمی کے بعد ان کو ”بحرین“ کا عامل مقرر فرما دیا تھا (الاستیعاب ۱/۷۵)، پورے عہدِ نبوی میں اس عہدہ پر فائز رہے اور صدیق اکبر کے زمانہٴ خلافت میں شام کے محاذِ جنگ پر گئے اور جامِ شہادت نوش کیا، بعض روایات میں ”جنادین“ ۱۳ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر ہے اور بعض موٴرخین نے جنگِ یرموک ۱۵ئھ میں آپ کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ (نقوش، رسول نمبر ج ۷ ص۱۳۵)

۲—حضرت ابو ایوب انصاری: میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کون واقف نہیں؟ آپ سابقین اولین میں سے ہیں، بیعت عقبہٴ ثانیہ میں موجود تھے، بدر و حنین اور خندق سمیت سارے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہے، عراقی، انصاری اور ابن سید الناس وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ ص۲۴۶ عیون الاثر ۲/۳۱۶، المصباح المضیئی ۲۱/أ بحوالہ نقوش رسول نمبر ج۷ ص۱۳۶)

حضرت علی رضی اللہ عنہ جب عراق جانے لگے تھے تو اس موقع سے حضرت ابو ایوب انصاری کو حُدیبیہ میں اپنا قائم مقام بنایا تھا، خوارج کی جنگ میں بھی حضرت علی کی طرف سے حصہ لیا، بالآخر قسطنطنیہ کی جنگ میں شہید ہوئے، وفات سے پہلے سپہ سالار نے آپ سے آخری خواہش پوچھی، تو آپ نے فرمایا کہ: جب میں مر جاؤں، تو میری لاش کو دشمن کی زمین میں آگے لے جا کر دفن کر دینا؛ چناں چہ جب انتقال ہوا، تو یزید بن معاویہ نے ایک دستہ تیار کیا، جس کی نگرانی میں آپ کو قسطنطنیہ کے قریب لے جاکر دفن کیا گیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سیرت ابن ہشام ۱/۴۹۸الاستیعاب ۱/۴۰۴، الاصابہ ۱/۴۰۵، اُسد الغابہ ۲/۸۱ وغیرہ)

۳ —حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ: خلفیہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابہٴ کرام میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”ثانیٴ اثنین اذ ہما في الغار“ (توبہ ۴۰) فرمایا ہے، آپ کی صحابیت قرآنِ پاک سے ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص بھی آپ کے صحابی ہونے کا انکار کرے گا وہ کافر ہو جائے گا، عام الفیل کے ڈھائی سال بعد، ہجرت سے پچاس سال پہلے پیدا ہوئے (الاصابہ ۲/۳۳۴، تذکرة الحفاظ ۱/۵) آپ کا نام عبداللہ ہے، یہ نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا تھا، پہلے نام ”عتیق“ تھا، کنیت ابوبکر اور لقب ”صدیق“ ہے، آپ کو بھی دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا شرف حاصل ہوا ہے، اس کی صراحت، ابن حجر، ابن کثیر، عمرو بن شبہ، ابن سید الناس، مزی، عراقی اور انصاری نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: فتح الباری ۹/۲۷، البدایہ والنہایہ ۳۵۱، تہذیب الکمال ۴/ب، الروض الأنف ۲/۲۳۰، عیون الاثر ۲/۳۱۵، شرح ألفیہ عراقی ۳۲۵ وغیرہ)

 یہ بات تو صحیح ہے کہ آپ نے کم لکھا ہے؛ لیکن یہ کہنا کہ آپ لکھنا جانتے ہی نہ تھے، جیسا کہ بعض عیسائی موٴرخین نے محض بغض و عناد میں لکھ دیا ہے، یہ بات بالکل درست نہیں ہے۔ امام بخاری کی روایت میں کئی مرتبہ حضرت انس کا یہ قول موجود ہے کہ: سیدنا صدیقِ اکبر نے آپ کو احکامِ زکوٰة جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمائے، لکھ کر دیے، اس طرح کی روایات کو بلا دلیل کیوں کرحقیقت سے پھیرا جا سکتا ہے؟ خود سُراقہ بن مالک والی روایت بھی حضرت صدیق اکبر کے لکھنے کی تصدیق کرتی ہے، ابن کثیر نے اس پر بڑی اچھی بحث کی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۵۱، الوثائق السیاسیة ص ۳۶، مسند احمد بن حنبل وغیرہ بحوالہ ”نقوش“ رسول نمبر ۷/۸ ۱۳)

۴—حضرت ابو خزیمہ بن أوس رضی اللہ عنہ: ان کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: ابو خزیمہ بن أوس بن زید بن اصرم بن ثعلبہ بن غنم بن مالک بن نجار، یہ انصاری خزرجی ہیں، غزوہٴ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔

ان کے بارے میں ابن شہاب نے عبید بن السباق سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ: میں نے ”سورہٴ توبہ کی آخری دو آیتیں“ ابو خزیمہ انصاری کے پاس پائی (اسد الغابہ ۵/ ۱۸۰ بحوالہ کاتبین وحی ص۷۰)

۵—حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ: آپ کا پورا نام صخر بن حرب تھا، عمر میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال بڑے تھے، فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے، اس سے پہلے اسلام کے سخت ترین دشمن تھے، فتحِ مکہ کے دن سرکارِ دوعالم ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہے، حنین، طائف اور یرموک وغیرہ میں شریک ہوئے، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ”نجران“ کا عامل مقرر فرمایا تھا، زمانہٴ جاہلیت سے ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، مشہور موٴرخ واقدی نے آپ کو زمانہٴ جاہلیت میں لکھنے والوں میں شمار کیا ہے۔

اسلام لانے کے بعد آپ کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لکھنے کا شرف حاصل ہوا، عراقی، ابن سید الناس، ابن مِسکویہ اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح ألفیہ عراقی ۳۴۶، عیون الأثر ۲/۳۱۶، تجارب الأمم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۲۵،۲۸/أ بحوالہ نقوش ۷/۱۳۹) حضرت ابو سفیان کی وفات تقریباً ۹۰ سال کی عمر میں ہوئی، یہ حضرت عثمان بن عفان کی خلافت کا زمانہ تھا، بعض نے ۳۰ھء، بعض نے ۳۱ھء اور بعض موٴرخین نے ۳۴ھء میں آپ کی وفات لکھی ہے۔

۶—حضرت ابو سلمہ عبداللہ بن عبدا لأسد رضی اللہ عنہ: آپ کا اسم گرامی عبداللہ بن عبدالأسد بن ہلال بن مخزوم ہے، (الاصابہ ۲/ ۳۳۵) آپ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے (اسد الغابہ ۳/۱۹۵) حضرت ابوبکر صدیق کی طرح عموماً آپ بھی کنیت ہی سے پہچانے جاتے ہیں۔ سابقین اولین میں شمار کے جاتے ہیں، ایک روایت کے مطابق آپ گیارہویں مسلمان ہیں۔ آپ کی شادی ام سلمہ سے ہوئی آپ کی وفات کے بعد حضرت ام سلمہ کو ام الموٴمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا، ایک روایت کے مطابق قیامت کے دن دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ وصول کرنے والوں میں آپ پہلے شخص ہوں گے۔ غزوہٴ احد میں ایسا کاری زخم لگا کہ وہی موت کا سبب بن گیا۔ (سیرہ ابن ہشام ۱/۲۵۲،الاصابہ ۲/۳۳۵،)

دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، اس کی صراحت ابن سید الناس، ابن مِسکویہ، ابو محمد دمیاطی، عراقی یعمری اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے ملاحظہ فرماےئے: عیون الاثر ۲/۳۱۶ تجارب الامم ۱/۲۹۱، المصباح المضئی ۳۴/ب، العجالة السنیہ شرح الفیہ عراقی ص ۳۴۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۰)

۷— حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ: حضرت ابی ابن کعب کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: اُبی بن کعب بن قیس بن زید بن معاویہ بن عمر و انصاری نجاری، کنیت ابوالمنذر اور ابوالطفل تھی، سارے غزوات میں شریک ہوئے، آپ فقہائے صحابہ میں بھی شمار ہوتے ہیں، اور بلا اختلاف سید القراء ہیں، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ تم کو قرآن سناؤں، حضرت ابی بن کعب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ، کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! یہ سن کر حضرت ابی بن کعب فرطِ مسرت سے رونے لگے، (صحیح بخاری تفسیر سورہ لم یکن)

آپ مشہور و معروف کاتبینِ وحی میں سے ہیں، دربارِ رسالت مآب ﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کرنے کی صراحت بہت سی کتابوں میں موجود ہے، (حوالے کے لیے دیکھیے: تاریخ طبری ۶/۱۷۹، المصباح المضئی ۸/ ب، تجارب الامم ۱/۲۹۱، تاریخ یعقوبی ۲/۸۰، الورزاء والکُتَّاب ۱۲، اسد الغابہ ۱/۵۰ شرح الفیہ عراقی ۲۴۵، تہذیب الکمال ۵/۲۴۰، البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۱)

ایک روایت میں ہے کہ: سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر (مدینہ منورہ) وحی لکھنے والوں میں آپ سب سے اول ہیں (البدایہ والنہایہ ۵/۲۴۰) عیون الاثر اور تاریخ ابن الاثیر میں بھی آپ کے سب سے پہلے کاتب ہونے کی صراحت موجود ہے (التارالکامل ۲/۱۳) تاریخ طبری میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت عثمان وحی کی کتابت فرماتے تھے، اور اگر وہ موجود نہ ہوتے، تو حضرت ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت وحی کی کتابت فرماتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں کئی ایسے مکاتیب ذکر کیے ہیں، جن میں کاتب کا نام ابی بن کعب درج ہے، مثال کے طور پر دیکھیے: وثیقہ نمبر ۶۳، ۶۴، ۷۶، ۱۲۰، ۱۲۱، ۱۲۴، ۱۶۳، ۱۷۴، ۲۰۶، ۲۴۴وغیرہ (الوثائق السیاسیہ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۲) آپ کی وفات علی اختلاف الاقوال ۱۹ھء یا ۲۰ھء یا ۲۲ھء یا ۳۰ھء میں ہوئی۔ (نقوش ۷/ ۱۴۲)

۸— حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہ: انھیں کے گھر میں حضرت عمر نے اسلام قبول کیا تھا، اس کے بعد ہی کھلم کھلا اسلام کی دعوت دی جانے لگی، یہ گھر کوہِ صفا کے دامن میں تھا، اسے دعوتِ اسلام کا پہلا خفیہ مرکز کہا جا سکتا ہے، حضرت ارقم ساتویں مسلمان تھے اور حضرت عمر چالیسویں مسلمان تھے۔

آپ نے تمام غزوات میں حصہ لیا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو صدقات جمع کرنے پر مامور فرمایا تھا، اور مدینہ طبیہ میں ایک حویلی بھی عنایت فرمائی تھی (الاصابہ ۱/ ۲۸۰، اسدالغابہ ۱/ ۶۰)

متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربارِ رسالت میں لکھا ہے، مثلاً ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۱/ ۶۰، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ ص ۲۴۷، المصباح المضئی ۱۸/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۲)

علامہ ابن کثیرنے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ: حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے سرکارِ دوعالم ﷺ کے حکم سے عظیم بن الحارث المحاربی کو ایک بہت بڑی جاگیر لکھ دی تھی (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۱)

ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی مشہور و معروف کتاب الوثائق السیاسیہ میں وثیقہ نمبر ۸۴، ۸۸، ۱۷۶، ۲۱ ۲ پر بحیثیت کاتب حضرت ارقم کے دستخط موجود ہیں۔

آپ کی عمر اسی سال سے زائد ہوئی، بعض نے حضرت صدیق اکبر کی وفات کے دن آپ کی وفات لکھی ہے اور بعض نے ۵۵ئھ بتائی ہے، وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے پڑھائی (اسد الغابہ ۱/ ۲۲۹ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

۹—حضرت بریدہ بن الحصیب رضی اللہ عنہ: حضرت بریدہ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت ایمان قبول کیا، اور غزوہٴ احد کے بعد مدینہ تشریف لائے، اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ غزوات میں شریک ہوئے (اسد الغابہ ۱/ ۱۷۵، الاصابہ ۱/ ۱۴۶) متعدد موٴرخین نے آپ کا نام کاتبینِ دربار رسالت میں شمار کیا ہے، مثلا: ابن سیدا لناس، عراقی اور انصاری وغیرہ (حوالے کے لیے دیکھیے: عیون الاثر ۲/ ۳۱۶ العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، المصباح المضئی ۷/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

حضرت بلال بن سراج بن مجاعہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو یمن میں ایک جاگیر عطا فرمائی تھی، جس کی تحریر حضرت بریدہ نے لکھی تھی، وہ درج ذیل ہیں:

”محمد رسول کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے جو بنی سلم سے ہے کہ: میں تم کو ایک سرحدی زمین دیتا ہوں جو کوئی تم سے اس معاملہ میں جھگڑا کرے اُسے چاہیے کہ میرے پاس آئے“۔ اس کو بریدہ نے لکھا۔ (المصباح المضئی ۱۸/ أبحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۳)

۱۰— حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب تھے جس طرح حضرتِ حسان بن ثابت کو آپ کے شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے (اسد الغابہ ۱/۲۲۹) جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو حضرت ثابت نے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم دشمنوں سے آپ کی اس طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنی جان اور اولاد کی حفاظت کرتے ہیں؛ لیکن اس کے بدلے ہمیں کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت! اس پر پورے مجمع نے خوشی کا اظہار کیا اور بیک زبان ہو کر سب بول پڑے کہ: ہم اس پر خوش ہیں (الاصابہ ۱/۱۹۵)

آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں ابن کثیر، ابن سعد، ابن سیدا لناس، مزّی، عراقی اور انصاری نے اس کی صراحت کی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۵/۳۴۱، طبقات بن سعد ۱/۸۲، عیون الاثر /۳۱۵، تہذیب الکمال ۴/ ب العجالة السنیہ شرح الفیہ ۲۴۵، المصباح المضئی ۱۹أ)

ڈاکٹر محمدمصطفی اعظمی لکھتے ہیں:

”ڈاکٹر حمیداللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں وثیقہ نمبر ۱۵۷ میں تحریر کنندہ کا نام قیس بن شماس الرویانی لکھا ہے؛ لیکن صحابہٴ کرام میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا، شاید یہ ثابت بن قیس بن شماس ہوگا“۔ (نقوش ۷/۱۴۴)

آپ کی شہادت جنگ یمامہ میں ۱۱ھء کو ہوئی (اسد الغابہ۱/۲۲۹، ۲۳۰، الاصابہ ۱/۱۹۵، الاستیعاب ۱/ ۱۹۵ بحوالہ نقوش)

۱۱— حضرت جعفر رضی اللہ عنہ: ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی رقم طراز ہیں: ”بیہقی کی ابن اسحاق والی روایت کے سوا میں نے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جعفر رضی اللہ عنہ کا نام کسی کو ذکر کرتے نہیں پایا (الاصابہ ۲/ ۲۳۹، ۲۹۹) مزید بر آں یہ کہ میرے نزدیک یہ شخصیت بھی غیر واضح ہے؛ کیوں کہ اس نام کے متعدد صحابہٴ کرام تھے، شاید یہ جعفر بن ابی طالب ہیں یا جعفر بن ابی سفیان۔

بیہقی میں ہے ﷺ جب کبھی حضرت زید اور عبداللہ بن أرقم وقت پر موجود نہ ہوتے اور کسی کماندار کو، کسی بادشاہ کو یا کسی دوسرے انسان کو کوئی چیز لکھ کر دینا ہوتی، تو حضرت جعفر سے لکھوا لیتے تھے الخ“ (السنن الکبریٰ للبیہقی ۱۰/ ۱۲۶ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۵)

۱۲— حضرت جہم بن سعد رضی اللہ عنہ: ابن حجر کی روایت ہے کہ حضرت جہم کو القفاعی نے کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں شمار کیا ہے، اور لکھا ہے کہ حضرت زبیر اور جہم اموالِ صدقہ لکھا کرتے تھے، اسی طرح مفسر قرطبی نے بھی اپنی تالیف ”مولد النبی ﷺ“ میں کاتبین میں آپ کا ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ عراقی اور انصاری نے بھی آپ کا شمار کاتبین کے ضمن میں کیا ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: الاصابہ ۱/ ۲۵۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶، المصباح المضئی ۱۹/ ب بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۵)

۱۳— حضرت جُہیم بن الصلت رضی اللہ عنہ: آپ کا سلسلہٴ نسب اس طرح ہے: جُہیم بن الصلت بن مخرمہ بن المطلب بن عبد مناف قرشی رضی اللہ عنہ۔

ابن الاثیر اور بن عبدالبر نے لکھا ہے کہ آپ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے، اور ابن سعد کی روایت ہے کہ آپ فتحِ مکہ کے بعد مسلمان ہوئے (الاستیعاب ۱/۲۴۷ ، اسد الغابہ ۱/ ۲۵۵) بلاذری نے لکھا ہے کہ جُہیم بن الصلت زمانہٴ جاہلیت سے لکھنا جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد بھی آپ نے لکھا، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بھی لکھا ہے (الاصابہ ۱/۲۵۵)اموالِ صدقہ کی تفصیلات لکھنے کی روایت بھی ملتی ہے (التنبیہ والاِشراف ۲۴۵)

حضرت جُہیم کے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب ہونے کی صراحت ابن شبہ، یعقوبی، ابن مسکویہ، ابن سید الناس، ابن حجر، عراقی، انصاری نے بھی کی ہے (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ب، تاریح یعقوبی ۲/ ۸۰، تجارب الامم ۱/ ۳۹۱، عیون الاثر، أنساب الاشراف ۱/ ۵۳۲ بحوالہ نقوش ۷/۱۴۶)

۱۴— حضرت حاطب بن عمر رضی اللہ عنہ:

سلسلہٴ نسب اس طرح ہے:

حضرت حاطب بن عمرو بن عبدالشمس بن عبد وَدّ قرشی عامری رضی اللہ عنہ ابتدائی دور میں ہی مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا، حبشہ کی طرف ہجرت کی، جنگِ بدر میں شریک ہوئے۔

دربارِ رسالت میں کتابت کا شرف حاصل کیا، ابن مسکویہ، ابن سیدالناس عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: تجارب الامم ۱/۲۹۱، عیون الاثر ۲/ ۳۱۶، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش رسول نمبر ۷/۱۴۶)

۱۵— حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے معتمد تھے، یمن کے رہنے والے تھے، حضرت عمر کے عہدِ خلافت میں جب کوئی وفات پا جاتا تو حضرت عمر فرماتے: اگر حذیفہ اس کے جنازہ میں شریک ہوں گے، تو ہی عمر شامل ہوگا، اگر وہ شامل نہ ہوں گے، تو میں بھی نہ ہوں گا (الاصابہ ۱/۳۳۱،۳۳۲)

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا: کوئی تمنا کرو! انہوں نے تمنا کی کہ اے کاش! ان کے وہ گھر جن میں وہ رہتے ہیں جواہرات اور دینار و درہم سے بھرا ہو اور وہ ان سب کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں! لیکن حضرت عمر نے فرمایا کہ: میری تمنا ہے کہ: میرے پاس ابو عبیدہ بن الجراح، معاذ بن جبل اور حذیفہ بن الیمان جیسے لوگ ہوں، جن کو میں اللہ کی اطاعت کے لیے عامل مقرر کروں۔ (اسد الغابہ ۱/۳۹، ۴۹۲)

آپ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین میں سے ہیں، اس کی صراحت قرطبی، ثعلبی، عراقی اور انصاری نے کی ہے، ان سب نے لکھا ہے کہ: ”حضرت حذیفہ کھجور کی چھال پر لکھاکرتے تھے، اور مسعودی نے لکھا ہے کہ: حضرت حذیفہ حجاز کی متوقع آمدنی کے گوشوارے مرتب فرمایا کرتے تھے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۲۱/ أ، العجالہٴ السنیہ شرح الفیہ ۲۴۶، التنبیہ والإشراف ۲۴۵، بحوالہ نقوش ۷/ ۱۴۸)

آپ کی وفات حضرت عثمان غنی کی شہادت کے بعد۳۶ھ میں ہوئی۔ (الاستیعاب ۱/۲۴۸)

۱۶— حضرت حصین بن نمیر رضی اللہ عنہ: الوزراء والکُتّاب میں ہے کہ: حضرت حصین بن نمیر اور حضرت مغیرہ بن شعبہ لوگوں کے معاملات لکھا کرتے تھے (الوزراء والکُتّاب ۱۲) اور انصاری نے لکھا ہے کہ آپ دونوں حضرات قرض اور معاملات تحریر فرماتے تھے، ابنِ مسکویہ نے بھی آپ کو کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شمار کیاہے اور لکھا ہے کہ مذکورہ بالا دونوں شخصیات عوام الناس کے معاملات بھی لکھا کرتے تھے اور حضرت خالد اور حضرت معاویہ کی عدم موجودگی میں ان کی نیابت میں کتابت فرماتے تھے (تجارب الامم۱/۲۹۰) آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت عراقی اور یعقوبی نے بھی کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: شرح الفیہ عراقی۲۴۷، تاریخ یعقوبی۲/۸۰ بحوالہ نقوش۷/۱۴۸)

۱۷— حضرت حنظلہ بن الربیع رضی اللہ عنہ: حضرت حنظلہ بن الربیع بن صیفی بن ریاح تمیمی رضی اللہ عنہ بڑے مشہور ومعروف جلیل القدر صحابی ہیں، ایک موقع سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: تم لوگ ان کی اوران جیسوں کی اقتداء کیا کرو! (اسد الغابہ۲/۵۸)

آپ مشہور کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہیں، اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے، الوزراء والکتاب نامی کتاب میں ہے کہ آپ تمام کاتبین کے نائب تھے، اور ہر ایک کے غیر حاضر ہونے کی صورت میں لکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ ”الکاتب“ سے جانے جاتے تھے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے آپ کو کاتب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کیا ہے (التاریخ الکبیر۲/۳۶)۔ اور امام مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے (الطبقات لمسلم بن حجاج۲۸۰/ب) اور طبقات ابن سعد میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (طبقات بن سعد۶/۳۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا مہر حضرت حنظلہ کے پاس رکھتے تھے، اور فرماتے تھے کہ: ہر تیسرے دن مجھے تمام لکھایاہوا یاد دلا دیا کرو! چنانچہ حضرت حنظلہ ہر تیسرے دن سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اموال اور طعام وغیرہ جو آپ کی تحریری تحویل میں ہوتایاددلادیاکرتے تھے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو سونے سے پہلے تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ (الوزراء والکتاب۱۳/۱۳)

آپ کے کاتبِ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی صراحت ابن حجر، ابن کثیر، ابن سید الناس، ابن الاثیر، ابن شبہ، یعقوبی، مزی، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاصابہ۱/۳۵۹، ۳۶۰، البدایہ والنہایہ۵/۲۴۲، عیون الاثیر۲/۳۱۵، اسد الغابہ۲/۵۸، المصباح المضئی۸/ب، تاریخ یعقوبی۲/۸۰، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، المصباح المضئی۲۰/أ، التنبیہ والإشراف۲۸۲ بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)

آپ نے حضرت امیر معاویہ کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ (الاصابہ۱/۳۶۰)

۱۸— حضرت حویطب بن عبد العزّیٰ رضی اللہ عنہ: آپ نے فتحِ مکہ کے سال آٹھ سال کی عمر میں ایمان قبول فرمایا، آپ کے کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونے کی صراحت ابن مسکویہ، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری نے کی ہے، (حوالہ کے لیے دیکھیے: الاستیعاب۱/۸۴، تجارب الامم۱/۲۹۱، عیون الاثر۲/۳۱۶، شرح الفیہ عراقی۲۴۶، المصباح المضئی۲۰/ب بحوالہ نقوش۷/۱۵۰)

۱۹— حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ: سابقین اولین میں سے ہیں، حضرت صدیق اکبر کے بعد ہی اسلام قبول فرمایا تھا، بعض روایات کے مطابق تیسرے چوتھے یا پانچویں مسلمان ہیں۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذحج اور صفاء الیمین کے صدقات کا عامل مقرر فرمایاتھا، رحلتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک آپ اس عہدہ پر فائز تھے۔ (الاستیعاب۱/۳۹۹، ۴۰۰)

حضرت خالد بن سعید سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تمام امور کی کتابت فرماتے تھے (التنبیہ والإشراف۲۴۵) اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے ”الوثائق السیاسیہ“ میں درج ذیل وثائق میں کاتب کی حیثیت سے آپ کا اسم گرامی رقم فرمایا ہے: (وثیقہ:۱۹،۲۰،۱۱۴، ۲۰۲، ۲۱۳، ۲۱۴، اور۲۲۳)

سب سے پہلے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ کی کتابت حضرت خالد بن سعید نے کی تھی (الاصابہ۱/۴۰۶) مکہ مکرمہ میں وحی کی کتابت سے بہرہ ور ہوئے، اور جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو بنیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں خطوط نویسی کا شرف حاصل ہوا، طبری کی صراحت کے مطابق حضرت خالد بن سعید کو خدمتِ نبوی میں بیٹھ کر ضروریات ومعاملات لکھنے کا شرف بھی حاصل ہے، بہت سے موٴرخین نے آپ کا ذکر کاتبینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا ہے، ان میں سرفہرست: ابن اسحاق، ابن سعد، ابن شبہ، طبری، جہشیاری، ابن الاثیر، ابن کثیر، مزی، عراقی، ابن سید الناس، ابن مسکویہ اورانصاری وغیرہ ہیں۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے: البدایہ والنہایہ۵/۳۵، طبقات ابن سعد۴/۶۹، المصباح المضئی۲۱/ب، تاریخ طبری۶/۱۷۹، الوزراء والکتاب۱۲، التاریخ الکامل۲/۳۱۳، تہذیب الکمال۴/ب، شرح الفیہ عراقی۲۴۵، عیون الاثر۲/۳۱۵، تجارب الامم۱/۲۹۱ وغیرہ بحوالہ نقوش۷/۱۵۲)

ایک قول کے مطابق حضرت خالد بن سعید کی شہادت ۱۴ھء میں ہوئی۔ (الاصابہ۱/۴۰۷)

۲۰— حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ: ہر مسلمان حضرت خالید بن ولید سے واقف ہے، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”سیف اللہ“ کا لقب دیا تھا، آپ کی کنیت ابو سلیمان تھی، ام الموٴمنین حضرت میمونہ بنت الحارث کے بھانجے تھے، ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے، زمانہٴ جاہلیت میں بھی جنگی مہارت و سیادت کے امتیازات آپ کے پاس رہتے تھے، آپ اکثر جنگلوں میں قائد ہوا کرتے تھے۔

جب آپ نے اسلام قبول کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اسلامی لشکروں کی قیادت مرحمت فرمائی، فتحِ مکہ میں بھی شریک رہے، اور عُزّی کا بت آپ نے ہی گرایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۶۴، الاستیعاب ۱/۴۰۷)

آپ کاتبینِ رسول اللہ ﷺ میں سے تھے، عمر بن شبہ، ابن کثیر، ابن سید الناس، عراقی اور انصاری وغیرہ نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔ (حوالے کے لیے دیکھیے: المصباح المضئی ۸/ ب، البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴، عیون الاثر ۲/ ۳۱۵، شرح الفیہ عراقی ۲۴۶ بحوالہ نقوش ۷/ ۱۵۴)

علامہ ابن کثیر نے ”البدایہ والنہایہ“ میں حضرت خالد بن ولید کا رقم کردہ ایک خط نقل کیا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:

”بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام مومنین کی طرف کہ: یہاں کوئی شکار نہ کرے، اور شکار کو نہ پکڑے، اور نہ ہی قتل کرے، اگر کوئی ایسا کرتا ہوا پایا گیا، تو اسے کوڑے مارے جائیں گے، اور اس کے کپڑے اتار دیے جائیں گے، اور اگر کوئی ان حدود کو توڑے گا تو وہ ماخوذ ہوگااور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو پیش کر دیا جائے گا“ اور یہ تحریر محمد رسول اللہ کی طرف سے ہے، اور اِسے خالد نے رسول اللہ کے حکم سے لکھا ہے“۔ اور کوئی انھیں پامال نہ کرے ورنہ وہ اپنے اوپرظلم کرنے والا ہوگا جیسا کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔ (البدایہ والنہایہ ۵/ ۳۴۴)

مولانا جمال احمد قاسمی کی والدہ کے انتقال پر اظہار تعزیت

مولانا جمال احمد قاسمی کی والد کے  انتقال پر اظہار تعزیت



آنند نگر مہراج گنج :30 ستمبر آئی این اے نیوز
حضرت مولانا جمال احمد صاحب قاسمی مقیم حال ریاض سعودی عرب کے والد محترم کے انتقال پر حافظ شجاعت فیض عام چیریٹیبل ٹرسٹ کے جنرل سپروائز حافظ عبید الرحمن الحسینی نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جمال احمد صاحب قاسمی کے والد محترم کا اچانک انتقال کی خبر سن کر دل پر ایک بجلی سی گرگئی، دل میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوگئ ابھی ٨/ ماہ قبل مولانا جمال احمد صاحب قاسمی کے چھوٹے بھائی مولانا علی احمد صاحب قاسمی کا القصیم سعودی عرب میں ایک حادثہ میں انتقال ہوا اس وقت میرے پاس ان کے فون سے کسی ہندوستانی شخص نے مجھے کال کیا کہ مولانا کہیں جارہے تھے گاڑی ایک حادثہ کا شکار ہوگئ جس کی وجہ سے مولانا کے سر میں کافی گہری چوٹ آئی ہے ان کو ایک ہاسپیٹل میں ایڈمیٹ کرایا گیا ہے لیکن چوٹ سر میں کافی گہری تھی جس کی وجہ سے مولانا کو ہوش نہیں آرہا تھا، کچھ ہی دن بعد خبر ملی کہ مولانا اللہ کو پیارے ہوگئے، مولانا علی احمد صاحب قاسمی سے میرا بہت قریبی تعلق تھا، وہ بہت نیک طبیعت، عمدہ اخلاق اور خندہ پیشانی سے ملنا ان کی عادت شریفہ تھی، ہر کسی کی خوشی و غم میں شریک ہوتے تھے، مولانا علماء کرام و ائمہ مساجد کی بہت عزت کرتے تھے اور ان کی خدمت کرنا اپنی اپنا ادبی فریضہ سمجھتے تھے، ان کے انتقال پر مجھے شدید صدمہ ہوا ہے، میں دعا گو ہوں کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔


اس وقت ان کے آبائی وطن بگہاں میں مولانا جمال احمد صاحب قاسمی کے صاحبزادے قاری خلیل الرحمان صاحب کے ساتھ ان کے اہل خانہ سے تعزیت کیلئے ہمارے ٹرسٹ کے ذمہ داروں کا ایک وفد ان کے گھر پر پہونچا تھا، اسی وقت ان کے والد محترم سے کافی دیر تک گفتگو ہوئی تھی، مولانا کے والد محترم کافی شریف، بہت نیک طبیعت سنجیدہ مزاج انسان تھے، چہرے سے نورانیت ٹپک رہی تھی، ان کا  گھرانہ علمی گھرانہ ہے، گھر میں کئ عالم حافظ ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔


انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ٹرسٹ کے تمام ممبران ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔

دارالعلوم دیوبند میں موجود عظیم کتب قیمتی اثاثہ ہے!

دارالعلوم دیوبند پہنچے دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس تلونت سنگھ کا اظہار خیال۔
رضوان سلمانی
__________
دیوبند(آئی این اے نیوز 30/ستمبر 2019) دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس تلونت سنگھ نے آج یہاں عظیم دینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند پہنچ کر ادارہ کے ذمہ داران سے ملاقات کی اور دارالعلوم دیوبند کی عظیم و تاریخی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے یہاں دی جانے والی تعلیمات ، لائبریری اور قیمتی کتب کو عظیم اثاثہ بتاتے ہوئے کہا کہ سماج کو اس طرح کے تعلیمی اداروں کو مزید ضرورت ہے ۔ جسٹس تلونت سنگھ آج اپنی اہلیہ کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں مہمان خانہ میں انہوں نے مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی اور نائب مہتمم حضرت مولانا عبدالخالق مدراسی صاحب سے ملاقات کی ۔ اس دوران انہوں نے
دارالعلوم دیوبند کی خدمات ، یہاں کی تعلیمات ، طلبہ اور انکے قیام و طعام کے علاوہ ملک و ملت کے لئے انجام دی جانے والی دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی ۔ اس دوران مہتمم دارالعلوم دیوبند نے بتایا کہ دارالعلوم دیوبند میں تقریباً پانچ ہزار طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں ، جن کے لئے قیام و طعام سمیت تمام بنیادی سہولیات کا انتظام دارالعلوم دیوبند کی جانب سے کیا جاتا ہے ، انہوں نے بتایا دارالعلوم دیوبند اور یہاں کے اکابرین کی ملک کی آزادی میں بے مثال قربانیاں ہیں ، آج بھی یہاں کے فضلاء ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں سرگرم عمل ہیں ۔ بعد ازیں جسٹس تلونت سنگھ نے دارالعلوم دیوبند کی قدیم و جدید عمارات ، یہاں کے انتظامات اور لائبریری وغیرہ کا نہایت باریکی سے معائنہ کرتے ہوئے دارالعلوم دیوبند آمد کو اپنی خوش بختی بتایا اور کہا کہ انہوں نے دارالعلوم دیوبند اور یہاں کے علماء کرام کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا تھا ، ان کی ہمیشہ یہاں آنے کی خواہش تھی جو آج مکمل ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دہرہ دون سے دہلی جارہے تھے اسی دوران دیوبند آنے کا پروگرام بنا ہے ، انہوں نے دارالعلوم دیوبند کی عظیم علمی خدمات اور یہاں کی لائبریری میں موجود زریں کتب اور مخطوطات کو قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو کتابیں میں نے یہاں کی لائبریری میں دیکھی ہیں مجھے لگتا ہے کہ وہ ملک میں کیا پوری دنیا میں بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہوں گی ۔ انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پانچ ہزار طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں جو اچھے شہری بن کر ملک کی خدمات کا اہم حصہ بنتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ادارے مزید قائم ہونے چاہئیں تاکہ مزید نوجوان اچھے شہری بن کر ملک اور پوری دنیا کو فائدہ پہنچاسکے ۔ اس دوران سول جج دیوبند میلو چودھری ، ایس ڈی ایم راکیش کمار ، تحسین خاں ایڈوکیٹ ، مولانا مرتضی ، مولانا اسجد ، مولانا شفیق الرحمن اور مولانا مقیم الدین وغیرہ موجود رہے ۔

Sunday 29 September 2019

حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی!

حضرت اورنگزیب ؒملک و ملت کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی
محمد فرقان
________
بنگلور(آئی این اے نیوز29/ستمبر2019) ماضی کے جن حکمرانوں پر خود تاریخ ناز کرتی ہے ایسے حکمرانوں میں حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ سرفہرست ہیں۔ حضرت اورنگزیب ؒنے جتنی وسیع و عریض سلطنت پر حکمرانی کی اتنی بڑی سلطنت پر ہند کے کسی بھی حکمران نے حکومت نہیں کی۔ انہوں نے ملک و ملت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ عدل و انصاف کے اس پیکر نے 54 /سال کی اس حکمرانی میں کبھی کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کی۔ سلطنت انکے قدموں میں ہونے کے باوجود تقویٰ و طہارت کا مجسمہ حضرت عالمگیر ؒنے کبھی سلطنت کے شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اپنی زندگی کا گزارا ٹوپی سل کر اور قرآن لکھ کر کیا کرتے تھے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔

شاہ ملت نے فرمایا کہ جس طرز عمل پر آقائے دوعالم ﷺاور حضرات خلفائے راشدین نے اسلامی حکومت چلائی۔ اسی طرز عمل پر حضرت اورنگزیب عالمگیر ؒنے حکومت چلانے کی کوشش کی اور امت کے سامنے خلافت راشدہ کا ایک نمونہ پیش کیا۔ وہ ان چند بادشاہوں میں شامل تھے جنہوں نے پورے برصغیر میں شرعی قانون اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کیا۔ وہ سنت وشریعت کے پابند اور اپنے دور کے صاحب نسبت بزرگ بھی تھے، انہوں نے مشہور فتویٰ کی کتاب ”فتویٰ عالمگیر“ بھی مرتب کی۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت اورنگزیبؒ نے ملک و ملت کی ترقی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انکا دور حکومت امن و امان کا گہوارہ تھا، وہ تمام مذاہب والوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے تھے۔ انکا تقویٰ و طہارت، عدل و انصاف اور بزرگیت کا مقابلہ تو دور انکے جوتوں کی دھول کو بھی آج کے بڑے بڑے حکمران و سیاستدان نہیں لگ سکتے۔ وہ ملک و ملت اور خصوصاً تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک کہا کہ آج جو لوگ انکی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انکی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ انکی شخصیت کا شیواجی یا کسی دوسرے حکمران سے مقابلے کرنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ خود اپنے آپ میں نمایاں اور انیک ہیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے فرمایا کہ ملک و ملت کے کئی مسائل الجھے ہوئے ہیں ہمیں ان مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے مقابلے میں کسی کو نمبر دینا یہ وقت کی ضرورت نہیں۔

#Press_Release
#News

حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی!

حضرت اورنگزیب ؒملک و ملت کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی
محمد فرقان
________
بنگلور(آئی این اے نیوز29/ستمبر2019) ماضی کے جن حکمرانوں پر خود تاریخ ناز کرتی ہے ایسے حکمرانوں میں حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ سرفہرست ہیں۔ حضرت اورنگزیب ؒنے جتنی وسیع و عریض سلطنت پر حکمرانی کی اتنی بڑی سلطنت پر ہند کے کسی بھی حکمران نے حکومت نہیں کی۔ انہوں نے ملک و ملت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ عدل و انصاف کے اس پیکر نے 54 /سال کی اس حکمرانی میں کبھی کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کی۔ سلطنت انکے قدموں میں ہونے کے باوجود تقویٰ و طہارت کا مجسمہ حضرت عالمگیر ؒنے کبھی سلطنت کے شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اپنی زندگی کا گزارا ٹوپی سل کر اور قرآن لکھ کر کیا کرتے تھے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔

شاہ ملت نے فرمایا کہ جس طرز عمل پر آقائے دوعالم ﷺاور حضرات خلفائے راشدین نے اسلامی حکومت چلائی۔ اسی طرز عمل پر حضرت اورنگزیب عالمگیر ؒنے حکومت چلانے کی کوشش کی اور امت کے سامنے خلافت راشدہ کا ایک نمونہ پیش کیا۔ وہ ان چند بادشاہوں میں شامل تھے جنہوں نے پورے برصغیر میں شرعی قانون اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کیا۔ وہ سنت وشریعت کے پابند اور اپنے دور کے صاحب نسبت بزرگ بھی تھے، انہوں نے مشہور فتویٰ کی کتاب ”فتویٰ عالمگیر“ بھی مرتب کی۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت اورنگزیبؒ نے ملک و ملت کی ترقی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انکا دور حکومت امن و امان کا گہوارہ تھا، وہ تمام مذاہب والوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے تھے۔ انکا تقویٰ و طہارت، عدل و انصاف اور بزرگیت کا مقابلہ تو دور انکے جوتوں کی دھول کو بھی آج کے بڑے بڑے حکمران و سیاستدان نہیں لگ سکتے۔ وہ ملک و ملت اور خصوصاً تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک کہا کہ آج جو لوگ انکی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انکی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ انکی شخصیت کا شیواجی یا کسی دوسرے حکمران سے مقابلے کرنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ خود اپنے آپ میں نمایاں اور انیک ہیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے فرمایا کہ ملک و ملت کے کئی مسائل الجھے ہوئے ہیں ہمیں ان مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے مقابلے میں کسی کو نمبر دینا یہ وقت کی ضرورت نہیں۔

#Press_Release
#News

حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی!

حضرت اورنگزیب ؒملک و ملت کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی
محمد فرقان
________
بنگلور(آئی این اے نیوز29/ستمبر2019) ماضی کے جن حکمرانوں پر خود تاریخ ناز کرتی ہے ایسے حکمرانوں میں حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ سرفہرست ہیں۔ حضرت اورنگزیب ؒنے جتنی وسیع و عریض سلطنت پر حکمرانی کی اتنی بڑی سلطنت پر ہند کے کسی بھی حکمران نے حکومت نہیں کی۔ انہوں نے ملک و ملت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ عدل و انصاف کے اس پیکر نے 54 /سال کی اس حکمرانی میں کبھی کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کی۔ سلطنت انکے قدموں میں ہونے کے باوجود تقویٰ و طہارت کا مجسمہ حضرت عالمگیر ؒنے کبھی سلطنت کے شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اپنی زندگی کا گزارا ٹوپی سل کر اور قرآن لکھ کر کیا کرتے تھے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔

شاہ ملت نے فرمایا کہ جس طرز عمل پر آقائے دوعالم ﷺاور حضرات خلفائے راشدین نے اسلامی حکومت چلائی۔ اسی طرز عمل پر حضرت اورنگزیب عالمگیر ؒنے حکومت چلانے کی کوشش کی اور امت کے سامنے خلافت راشدہ کا ایک نمونہ پیش کیا۔ وہ ان چند بادشاہوں میں شامل تھے جنہوں نے پورے برصغیر میں شرعی قانون اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کیا۔ وہ سنت وشریعت کے پابند اور اپنے دور کے صاحب نسبت بزرگ بھی تھے، انہوں نے مشہور فتویٰ کی کتاب ”فتویٰ عالمگیر“ بھی مرتب کی۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت اورنگزیبؒ نے ملک و ملت کی ترقی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انکا دور حکومت امن و امان کا گہوارہ تھا، وہ تمام مذاہب والوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے تھے۔ انکا تقویٰ و طہارت، عدل و انصاف اور بزرگیت کا مقابلہ تو دور انکے جوتوں کی دھول کو بھی آج کے بڑے بڑے حکمران و سیاستدان نہیں لگ سکتے۔ وہ ملک و ملت اور خصوصاً تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک کہا کہ آج جو لوگ انکی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انکی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ انکی شخصیت کا شیواجی یا کسی دوسرے حکمران سے مقابلے کرنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ خود اپنے آپ میں نمایاں اور انیک ہیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے فرمایا کہ ملک و ملت کے کئی مسائل الجھے ہوئے ہیں ہمیں ان مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے مقابلے میں کسی کو نمبر دینا یہ وقت کی ضرورت نہیں۔

#Press_Release
#News

حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی!

حضرت اورنگزیب ؒملک و ملت کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی
محمد فرقان
________
بنگلور(آئی این اے نیوز29/ستمبر2019) ماضی کے جن حکمرانوں پر خود تاریخ ناز کرتی ہے ایسے حکمرانوں میں حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ سرفہرست ہیں۔ حضرت اورنگزیب ؒنے جتنی وسیع و عریض سلطنت پر حکمرانی کی اتنی بڑی سلطنت پر ہند کے کسی بھی حکمران نے حکومت نہیں کی۔ انہوں نے ملک و ملت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ عدل و انصاف کے اس پیکر نے 54 /سال کی اس حکمرانی میں کبھی کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کی۔ سلطنت انکے قدموں میں ہونے کے باوجود تقویٰ و طہارت کا مجسمہ حضرت عالمگیر ؒنے کبھی سلطنت کے شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اپنی زندگی کا گزارا ٹوپی سل کر اور قرآن لکھ کر کیا کرتے تھے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔

شاہ ملت نے فرمایا کہ جس طرز عمل پر آقائے دوعالم ﷺاور حضرات خلفائے راشدین نے اسلامی حکومت چلائی۔ اسی طرز عمل پر حضرت اورنگزیب عالمگیر ؒنے حکومت چلانے کی کوشش کی اور امت کے سامنے خلافت راشدہ کا ایک نمونہ پیش کیا۔ وہ ان چند بادشاہوں میں شامل تھے جنہوں نے پورے برصغیر میں شرعی قانون اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کیا۔ وہ سنت وشریعت کے پابند اور اپنے دور کے صاحب نسبت بزرگ بھی تھے، انہوں نے مشہور فتویٰ کی کتاب ”فتویٰ عالمگیر“ بھی مرتب کی۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت اورنگزیبؒ نے ملک و ملت کی ترقی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انکا دور حکومت امن و امان کا گہوارہ تھا، وہ تمام مذاہب والوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے تھے۔ انکا تقویٰ و طہارت، عدل و انصاف اور بزرگیت کا مقابلہ تو دور انکے جوتوں کی دھول کو بھی آج کے بڑے بڑے حکمران و سیاستدان نہیں لگ سکتے۔ وہ ملک و ملت اور خصوصاً تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک کہا کہ آج جو لوگ انکی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انکی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ انکی شخصیت کا شیواجی یا کسی دوسرے حکمران سے مقابلے کرنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ خود اپنے آپ میں نمایاں اور انیک ہیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے فرمایا کہ ملک و ملت کے کئی مسائل الجھے ہوئے ہیں ہمیں ان مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے مقابلے میں کسی کو نمبر دینا یہ وقت کی ضرورت نہیں۔

#Press_Release
#News

حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ کی شخصیت کو مجروح کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی!

حضرت اورنگزیب ؒملک و ملت کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی
محمد فرقان
________
بنگلور(آئی این اے نیوز29/ستمبر2019) ماضی کے جن حکمرانوں پر خود تاریخ ناز کرتی ہے ایسے حکمرانوں میں حضرت اورنگزیب عالمگیرؒ سرفہرست ہیں۔ حضرت اورنگزیب ؒنے جتنی وسیع و عریض سلطنت پر حکمرانی کی اتنی بڑی سلطنت پر ہند کے کسی بھی حکمران نے حکومت نہیں کی۔ انہوں نے ملک و ملت کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی۔ عدل و انصاف کے اس پیکر نے 54 /سال کی اس حکمرانی میں کبھی کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کی۔ سلطنت انکے قدموں میں ہونے کے باوجود تقویٰ و طہارت کا مجسمہ حضرت عالمگیر ؒنے کبھی سلطنت کے شاہی خزانے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ اپنی زندگی کا گزارا ٹوپی سل کر اور قرآن لکھ کر کیا کرتے تھے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔

شاہ ملت نے فرمایا کہ جس طرز عمل پر آقائے دوعالم ﷺاور حضرات خلفائے راشدین نے اسلامی حکومت چلائی۔ اسی طرز عمل پر حضرت اورنگزیب عالمگیر ؒنے حکومت چلانے کی کوشش کی اور امت کے سامنے خلافت راشدہ کا ایک نمونہ پیش کیا۔ وہ ان چند بادشاہوں میں شامل تھے جنہوں نے پورے برصغیر میں شرعی قانون اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کیا۔ وہ سنت وشریعت کے پابند اور اپنے دور کے صاحب نسبت بزرگ بھی تھے، انہوں نے مشہور فتویٰ کی کتاب ”فتویٰ عالمگیر“ بھی مرتب کی۔ مولانا نے فرمایا کہ حضرت اورنگزیبؒ نے ملک و ملت کی ترقی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انکا دور حکومت امن و امان کا گہوارہ تھا، وہ تمام مذاہب والوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا کرتے تھے۔ انکا تقویٰ و طہارت، عدل و انصاف اور بزرگیت کا مقابلہ تو دور انکے جوتوں کی دھول کو بھی آج کے بڑے بڑے حکمران و سیاستدان نہیں لگ سکتے۔ وہ ملک و ملت اور خصوصاً تاریخ اسلام کی عہد ساز شخصیت ہیں۔ مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک کہا کہ آج جو لوگ انکی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انکی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ انکی شخصیت کا شیواجی یا کسی دوسرے حکمران سے مقابلے کرنے کی ضرورت ہی نہیں، وہ خود اپنے آپ میں نمایاں اور انیک ہیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے فرمایا کہ ملک و ملت کے کئی مسائل الجھے ہوئے ہیں ہمیں ان مسائل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی کے مقابلے میں کسی کو نمبر دینا یہ وقت کی ضرورت نہیں۔

#Press_Release
#News

غازیپور: بہادر گنج کی سابق چئیرپرسن محترمہ آمنہ بیگم کا مکان زمین دوز!

بہادر گنج/غازیپور(آئی این اے نیوز 29/ستمبر 2019)ریاست اتر پردیش کے پروانچل میں گذشتہ پانچ روز سے ہورہی زبردست بارش کی وجہ سے غازیپور ضلع کے قصبہ بہادر گنج کے محلہ چوک دوار وارڈ نمبر 7 کی رہنے والی سابق چیئرپرسن محترمہ آمینہ بیگم زوجہ عبد اللہ راعینی کا کچا کھپریل مکان سنیچر کی رات تقریباً 2 بجے بھربھرا کر زمین دوز ہوگیا سابق چیئر پرسن محترمہ آمینہ بیگم اور ان ان کے بچے معمولی طور سے زخمی ہوگئے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا،ورنہ آج کوئی بڑا سانحہ رونما ہوگیا ہوتا۔اب ان کے اور اہل خانہ کے سامنے زندگی بسر کرنے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگیا ہے۔غورطلب یہ ہے کہ آمینہ بیگم قصبہ بہادر گنج کی نگرپنچایت کی 1998 سے لیکر 2000 تک چیئرپرسن بھی رہ چکی ہیں باوجود اس کے وہ نہایت تنگ دستی اور غربت میں زندگی بسر کررہی ہیں جب اس سلسلہ میں روزنامہ اردو ”آگ“ کے صحافی نے ان کے خاوند عبد اللہ راعینی سے دریافت کیا کہ آپ کہ اہلیہ چیئرپرسن رہ چکی ہیں اور اب بھی آپ کی غربت نہیں ختم ہوئی آخر اس کا کیاسبب ہے جب کہ آج کے دور میں ایک معمولی سے معمولی ایک بار پردھان ہوجاتا ہے تو اس کے ساری زندگی کی غربت ختم ہوجاتی ہے تو انہوں نے ہم نے اپنے زمانہ میں کسی بھی ٹھیکہ دار سے ایک بھی پیسہ کمیشن نہیں لیا یہاں تک کہ ہم نے کہا کہ کام معیاری ہونا چاہئے بہت سے لوگوں نے رشوت دینے کی کوشش کی لیکن ہم نے کبھی بھی امانت میں خیانت نہیں کی اور پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے منصب فرائضی کو انجام دیا۔عبد اللہ راعینی کو دیکھ کر کچھ کیلئے ایسا احساس ہوتا ہے کہ آج کے اس دور میں بھی ایماندار لوگ زندہ ہیں جس کی وجہ سے آج دنیا میں چل رہی ہے ورنہ اس زمانے میں ہر کوئی کرپشن میں مبتلا ہے بس فرق اتنا ہے کہ جس کی جتنے وسعت ہے وہ اسی کے تناسب سے کرپشن کر بخوبی انجام دیتا ہے اور خود کو صاف و شفاف بتانے کی حتی الامکان کوشاں رہتا ہے۔آج عبد اللہ راعینی کے پاس رہنے کیلئے کوئی مکان نہیں ہے جب صحافی نے مکان کے تعلق سے دریافت کیاتو انہوں نے بتایا کہ اب تو ہمیں کرائے پر ہی زندگی بسر کرنی پڑیگی کیونکہ ہمارے پاس رہنے کیلئے کوئی دوسرا مکان نہیں ہے۔ہم نے وزیر اعظم شہری آواس اسکیم کے تحت 2018 میں درخواست بہادر گنج نگرپنچایت میں دی تھی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا اس کے باوجود دوبارہ ہم نے تین ماہ قبل فارم پرکرکے نگرپنچایت میں جمع کیا ہے ابھی تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے،جو لوگ حقیقت میں مستحق(پاتر) ہیں انھیں آواس نہیں ملتا اور جو لوگ غیر ضرورت مند ہیں انھیں بڑی آسانی کے ساتھ آواس مل جاتا ہے۔جب اس سلسلہ میں صحافی نے بہادر گنج چیئرمین ریاض احمد سے دریافت کیا تو انہوں نے کہاکہ ہماری جانب سے انھیں مستحق (پاتر) قرار کرکے فائل بھیج دی گئی ہے اب سارے معاملے لکھنؤ سے ہیں اب وہیں سے جو کچھ ہونا ہے ہوگا،اس کے بعد صحافی نے پی او ڈوڈا غازیپور سے بذریعہ موبائل رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی لیکن پی اوڈوڈا غازیپور نے موبائل ریسیو نہیں کیا۔اب ایسے میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غازیپور کے پی او ڈوڈا اپنے کام کے تئیں اتنے لاپرواہ ہیں تو وہ بھلا عام لوگوں کے مسائل کے تئیں کتنے سنجیدہ ہونگے اس لئے ضلع انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ فوری نوٹس لیتے ہوئے سابق چیئرپرسن محترمہ آمینہ بیگم کے رہنے کا فوری نظم کرے تاکہ لوگوں کا اعتماد ضلع انتظامیہ کے تئیں برقرار رہے ورنہ ہر شخص ضلع انتظامیہ پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیگا۔

دارالقرآن شیر کوٹ بجنور سے گرفتار ارریہ کے حافظ محمد صابر کو جمیعةعلمإ کی قانونی مدد سے ضمانت پر رہائی ملی، موصوف نے مولانا محمود مدنی کا شکریہ ادا کیا

*دارالقران شیرکوٹ بجنور سے گرفتار ارریہ کے حافظ محمد صابر کو جمعیت علماء کی قانونی مدد سے ضمانت پر آزادی ملی*
*موصوف نے مولانا محمود مدنی کا شکریہ ادا کیا*

10 جولائی 2019  کو  مدرسہ دارالقرآن حمیدیہ قصبہ شیر کورٹ ضلع بجنور سے سے گرفتار کیے گئے حافظ محمد صابر بن محمد اقبال ساکن کاکن تھانہ جو کی ہاٹ ضلع ارریہ بہار کو الحمدللہ جمعیت علماۓ ہند کی کوشش اور اس کے ذریعہ  قانونی پیروی کی وجہ سے ضمانت مل گئی ہے. حافظ محمد صابر گرفتاری سے صرف پانچ دن پہلے مذکورہ مدرسہ میں آئے تھے. ان کی تقرری نئی تھی. پولیس نے مذکورہ مدرسہ میں جاکر چھاپہ مارا تھا اور حاجی محمد صابر  کے رہایشی کمرے سے  پستول وغیرہ برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا.

 میڈیا پر یہ خبربڑی تیزی سے پھیلی تو ان کے اہل خانہ بہت زیادہ پریشان ہوئے. اہل خانہ نے پہلے جمعیت علماء ارریہ کے ناظم  مفتی اطہر قاسمی صاحب سے رابطہ کیا. مفتی اطہر نے جمعیت کی مرکزی قیادت کو اس سلسلے میں ان کے والد کی درخواست  بھیجی کہ جمعیت علمائے ہند ان کے لڑکے کو اس مصیبت سے  آزادی دلانےمیں مدد کرے. جمعیت علمائے ہند کی مرکزی قیادت حضرت مولانا محمود مدنی صاحب کی ہدایت پر مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب سکریٹری جمیت علمائے ہند اور جمعیت علماء بجنور کے صدر  مولانا ارشد محمود  صاحب نے اس سلسلے میں کوشش کی اور ہر طرح سے اب مدد باہم پہنچانے کے لئے وکلا سے رابطہ کیا. الحمدللہ آج وہ جمعیت کی کوشش سے آزاد ہوگیے ہیں.
 آج حافظ محمد صابر، جمعیت کے ضلع صدر بجنور کے گھر پہنچے اور انہوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب کو فون کرکے ان کا اور ان کے ذریعہ مولانا محمود  مدنی صاحب بھی شکریہ ادا کیا.

بلڈ ڈونیٹ گروپ بلا تفریق مذہب و ملت سب کی مدد کرے گا، الفلاح فرنٹ

''بلڈ ڈونیٹ گروپ بلا تفریق مذہب وملت سب کی مدد کرے گا''
رپورٹ! عادل اعظمی
 نئی دہلی 29 ستمبر آئی این اے نیوز 2019

اشرف اعظمی،احتشام اعظمی،تابش مرزا اور عبداللہ مقصود کی عوام سے بلڈ ڈونیٹ گروپ سے جڑنے کی اپیل

 الفلاح فرنٹ کی جانب سے گزشتہ روز شروع کئے گئے بلڈ ڈونیٹ گروپ سے ایک بڑی تعداد میں لوگ جڑ رہے ہیں اور عوام کی جانب سے بہت ہی مثبت تاثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔گروپ سے جڑے اشرف اعظمی،احتشام اعظمی،عبداللہ مقصود اور تابش مرزا نے عوام سے بلڈ ڈونیٹ گروپ سے جڑنے کی اپیل کی ہے۔مذکورہ افراد نے بلڈ ڈونیٹ گروپ کو وقت کی اہم ضرورت بتایا۔سماجی کارکن اشرف اعظمی نے بلڈ ڈونیٹ گروپ بنائے جانے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلا تفریق مذہب و ملت تمام لوگوں کو ضرورت پڑنے پر خون عطیہ کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔سماجی کارکن احتشام اعظمی نے بلڈ ڈونیٹ گروپ کی تشکیل کو ایک نیک اور خوش آئند قدم قرار دیتے ہوئے عوام سے اس مہم سے جڑنے کی اپیل کی۔سماجی کارکن اور الفلاح فرنٹ سے جڑے عبداللہ مقصود نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم آئے دن دیکھتے ہیں کہ مریض کو خون کی ضرورت ہے لیکن خون دستیاب نہیں ہے۔ایسی حالت میں اس طرح کے گروپ کی سخت ضرورت تھی۔ہم اس کام کی ستائش کرتے ہیں اور عوام سے اس گروپ سے جڑنے کی اپیل کرتے ہیں۔سماجی کارکن تابش مرزا نے کہا کہ بلڈ ڈونیٹ گروپ کے ذریعہ اب مریضوں کی مدد کرنا آسان ہوگا اور وقت پڑنے پر ہم سب مریض کو خون دینے کی پوری کوشش کریں گے۔تابش مرزا نے بھی بلڈ ڈونیٹ گروپ سے جڑنے کی اپیل کی۔اس موقع پر الفلاح فرنٹ کے صدد ذاکر حسین نے کہا کہ ہماری اس مہم سے مسلم۔ہندو اور تمام مکتبِ فکر کے لوگ تیزی کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب ضرورت اس بات کی ہیکہ اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انکو اپنا پوراتعاون دیا جائے۔

زندگی کی شام ہوگئی! تعزیتی پیغام بروفات شاعر ظفر شیرازی مرحوم، از قلم! عمران خان قاسمی جونپوری

زندگی کی شام ہوگئی

آج بتاریخ 26ستمبر 2019 بوقت صبح سات بجکر بیس منٹ پر  موضع پارہ کمال کے آسمان پر
چمکنے والا چاند ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔ لیکن ظفر شیرازی موضع پارہ کمال ضلع جون پور یوپی کا ایک بڑا نام چھوڑ گیا چونکہ وہ کئی طرح کی صفات کے مالک تھے اپنی بات رکھنے میں سخت مزاج نظر آتے مگر دوران گفتگو نرم دلی کا وہ حال تھا کہ آنکھیں آبدیدہ ہوجایا کرتی تھیں۔یہی خوبیوں کی وجہ سے ،

گزر تو جائیگی تیرے بغیر بھی لیکن ۔
بہت اداس بہت ہے قرار گزرےگی۔
ظفر شیرازی کئی عملیات کی آماجگاہ تھے۔اپنی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے کیا ملازمت کے سفینہ پر ہی رہ کر سیاست کی دنیا پر بھی عمیق نظر رکھتے تھے،سماجی میدان میں بھی بےلوث فکر انسانیت کی چادر اوڑھے ہر نکڑ پر کھڑے ملتے ،مسیحائی شفا خانوں کے بہترین رضاکار تھے جونپور سے لیکر بنارس و لکھنؤ وغیرہ تک جہاں بھی کسی مریض کو انکی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر مریض کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہرطرح سے ڈاکٹری امداد کو مہیا کراتے ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی کوشش کرتے کبھی ایسا ہوتا کہ تیماردار ڈاکٹری خدمات سے ایسا سیراب ہوتا کہ مزید خدمت لینے کے لئے پیچھے بھاگنے لگتا مگر بھاگنے نہ دیتے جب تک کی شفایاب نہ ہوجائے ،

وفا کادرس دیتے ہو ہمیں
وفاکا باب ہم نے ہی لکھا ہے
(ظفر شیرازی)

جو پارہ کمال کے نام میں صفات وخوبیاں مضمرہیں وہ ظفر شیرازی کے دل ودماغ کی زمین پر پھولوں کے گل دستہ کی طرح سجی سجائی تھیں  سرزمین پارہ کمال کی مٹی کا یہ کمال تھا کہ دور حاضر کے ایک بڑے اور بہترین استاد شاعر بھی تھے انکی شاعری بڑی بڑی شعری محفلوں کی زینت ہوا کرتی تھیں شعرائے کرام میں انکا بھی اپنا ایک منفرد مقام تھا چونکہ انکے اشعار پاکدامنی وپاکیزگی وشفافیت کا پیکر ہوا کرتے حمد ونعت کا مقام کیا کہنا وہ تو ثریا سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر ہوا کرتا تھا۔لطف کی بات یہ ہے کی غزل جیسی شاعری بھی دور حاضر کی آلائشوں سے پاک صاف ہوا کرتی تھی میری اپنی معلومات کے مطابق  انہوں نے اپنی غزل میں کبھی حرام و ناجائز اشیاء کو تمثیلا بھی ذکر نہیں لائے ۔واہ رے مومن صفت ظفر شیرازی ،تیری خوبیوں پر معاشرہ کی درودیوار نوحہ کناں ہیں۔
معاشرے میں مساوات یوں بھی آئے گی
زبر کو زیر نہ کر زیر کو زبر کردے( ظفر شیرازی)

دوستو! ازل سے ابدتک کا خدا نے ایک دستور بنادیا ۔کہ ایک ایمان والے کی موت ہوتے ہی اسکی ساری برائیاں دفن ہوجاتی ہیں  اور عوام الناس کی زبان پر اسکی نیکیاں اور خوبیوں کا ذکر شروع ہوجاتا ہے  یہ بھی میرے اللہ کا بڑا فضل وکرم واحسان ہے ۔اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین !

وہ عروج کیسا عروج تھا
یہ زوال کیسا زوال ہے
نا اُسی کی کوئی مثال تھی 
نا اسی کی کوئی مثال ہے
(ظفر شیرازی)
مرحوم نے حالات حاضرہ پر نگاہ رکھتے ہوئے ان لوگوں کو شرک کرنے سے منع کیا اپنے اس شعر کے ذریعہ ،

عزیز ارض وطن مادروطن ہے مگر
خدرا جوش میں پروردگار مت کہنا
(ظفر شیرازی)

بہت پہلے ہی انھوں نے آج کے دن کےلئے یہ شعر جلی قلم سے رقم کر رکھا تھا،

یوں تو کئی مقامات سے ہوکر گزر گیا
یہ کون سی جگہ ہے جہاں دل ٹہر گیا
(ظفر شیرازی)
 بہر کیف اشرف المخلوقات کی خوبیاں لکھی جائیں تو قلم کی سیاہی ختم ہوجائیں گی مگر اسکی لازوال خوبیاں ختم نہیں ہونگی ۔اور قلم کی روانی بند نہیں ہونگی !

ایسا بھلا جہاں میں زر دار کون ہے
فنکار کے قلم کا خریدار کون ہے 
(ظفر شیرازی)

مرحوم کے بڑے بھائی آفتاب عالم خان الحمداللہ باحیات ہیں جو اسوقت یتیم بچوں پر شفقت کا ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اللہ تعالی تمام لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین

عالم اسباب سے حاصل ہوا آخر کفن
چلتے چلتے آسماں سے  ہم بھی خلعت لے گئے
تیرہ بختی کے اثرنے شام سے گل کردیا
صبح کو کوئے اٹھا کر شمع تربت لے گئے
عمران احمد خان قاسمی
 جونپوری 29ستمبر 2019

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے معاملے میں غلط بیانی سے باز آجائیں :مولانا محمد علی نعیم رازی

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے معاملے میں غلط بیانی سے باز آجائے : مولانا محمد علی نعیم رازی
کشمیر اور کشمیری عوام دونوں ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور رہیگا
لکھنؤ : ٢٩ ستمبر آئی این اے نیوز
معروف ملی وسماجی رہنما مولانا محمد علی نعیم رازی نے پریس کو جاری ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں جو تقریر کی ہے وہ کشمیر کے معاملے میں دنیا کو گمراہ کرنے کی ایک ناپاک کوشش ہے جس کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے
مولانا محمد علی نعیم رازی نے کہا کہ عمران خان نے اپنی تقریر کے دوران بارہا ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے  دنیا کو یہ غلط پیغام دینے کی کوشش کی ہے ہندوستان کا ۱۸ کروڑ  مسلمان گھٹن محسوس کررہاہے جس کے نتیجے میں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے
مولانا رازی نے انتہائ سخت لھجے میں اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے دانستہ طور پر شرارتا یہ کذب بیانی کی ہے اور انکو اس جھوٹ پر اقوام عالم کے سامنے آکر ہندوستانی مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہئے اور اپنا بیان واپس لینا چاہئے
مولانا محمد علی نعیم رازی نے کہا کہ کشمیر کا معاملہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس میں کسی بھی بیرونی مداخلت کی قطعا ضرورت نہیں ہے
مولانا محمد علی نعیم رازی نے کہا کہ پاکستان کشمیر کے معاملے میں دنیا کو گمراہ کررہاہے
مولانا رازی نے سوال قائم کیا کہ اگر پاکستانی وزیر اعظم انسانی حقوق اور اسلامی اخوت کے علمبردار ہیں تو آخر وہ دنیا کے دیگر خطوں میں ہورہے مسلمانوں پر مظالم پر کیوں خاموش ہیں؟ خاص طور سے چین میں ہورہے سفاکانہ مظالم پر وہ خاموش  ہوجاتے ہیں تو یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟
مولانا محمد علی نعیم رازی نے کہا کہ کشمیر اور کشمیری عوام دونوں ہی ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں اور ملکی ترقی میں کشمیر اور اھل کشمیر کا بے پناہ رول ہے اور انشاءاللہ رہیگا
مولانا محمد علی نعیم رازی آخر میں ہندوستانی مسلم نوجوانوں سے درخواست کی کہ وہ جذبات میں آنیکے بجائے حکمت اور تحمل سے کام لیں اور اپنی تعلیمی و تعمیری ترقی کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے

12 سال کی عزیزہ احسانہ بدر ولید پوری نے تکمیلِ حفظ قرآن کیا


رپورٹ! حبیب الاعظمی
 29 ستمبر آئی این اے نیوز 2019
12/سال کی عزیزہ حافظہ احسانہ بدر ولیدپوری نے تکمیل حفظ قرآن کیا
قرآن کریم ساری دنیا کیلئے مشعل راہ ہے مولانا ارشاد احمد قاشمی مدنی شیخ الحدیث وصتیہ العلوم کو پاگنج مئو
(جامعۃالزاہدات اتراری خیرآباد) میں آج بتاریخ (20) محرم الحرام کو 11/بجے تکمیل حفظ قرآن کے موقع پر ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے جسکی صدارت حضرت مولانا انعام الحق صاحب سابق ڈائریکٹر ساؤتھ افریقہ نے فرمائی اس موقع پر حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب قاسمی مدنی کا ایک پر مغزبیان ہوا جسمیں مولانا نے خاص طور پر بچیوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ بچیاں خاص طور سے گھروں میں تلاوت کا اہتمام کریں کیونکہ جب بچیاں تلاوت کریں گی تو گھر کا ماحول بنے گا اور ایک اچھا معاشرہ وجود میں آۓ گا اور ایک دینی ماحول پیدا ہو گا اور حضرت نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ کم سے کم اپنے بچوں اور بچیوں کو خاص طور سے دینی مدارس میں ہی تعلیم دیں تاکہ بڑے ہونے کے بعد بھی انکاذھن نہ بگڑے اور دین پر قائم رہیں اس موقع پر حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب کریمی استاذ حدیث جامعۃالزاہدات اور دیگر اسا تذہ کرام موجود تھےپروگرام کا اختمام جامعہ ھذاکے مہتمم (مولانا ظہیرالحق )صاحب کی دعاء پر ھوا

Saturday 28 September 2019

یکسانیت پر زور دیجیے اختلاف بعد میں دیکھ لیں گے، از قلم ✏ علی اشہد اعظمی (دوحہ قطر) میڈیا انچارج آئی این اے نیوز

یکسانیت پر زور دیجئے اختلاف بعد میں دیکھ لیں گے

ملک کے موجودہ حالات مسلکی اختلاف رکھنے کی اجازت نہیں دیتا

از قلم : علی اشہد اعظمی (دوحہ قطر )
موبائل :(097466988675)

یکسانیت پر زور دیجئے اختلاف کو بعد میں دیکھ لیں گے جو باتیں سبھی مسالک میں یکساں ہیں اسی پر بحث کیجئے نوجوانوں کی اصلاح کیجئے انہیں دین کی طرف واپس لائیے انٹرنیٹ کے اس دور میں فحاشی بہت اعلی سطح پر پہنچ گئی ہے معاشرے میں بیداری مہم چلائیے اتنا نہیں کر سکتے تو کم سے کم اپنے گاؤں کے بچوں کی اصلاح کیجئے اتنا بھی وقت نہیں ہے تو محلے کے بچوں کی اصلاح کیجئیے اور اگر ااتنا بھی وقت نہیں ہے تو کم سے کم اپنے گھروں کے بچوں کی اصلاح کیجئے اگر سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے اصلاح شروع کریں تو پہلے آپ کا گھر پھر آپ کی خاندان پھر آپ کا گاؤں پھر آپ کا شہر اور اسی طرح پورا معاشرہ صحیح راستے پر آسکتا ہے لیکن آج کے دور میں ہم اور آپ اپنے اندر نہ جھانکتے ہوئے اپنے گھروں میں نہ دیکھتے ہوئے دوسرے فرقوں میں بیداری لانا شروع کر دیتے ہیں اور دوسرے مسلکوں و فرقوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپسی دشمنی شروع ہوجاتی ہے اور اس دشمنی کا فائدہ فرقہ پرست عناصر والے خوب اٹھاتے ہیں جب قرآن ایک ہے نبی ایک ہے اللہ ایک ہے تو آپس میں لڑتے کیوں ہیں ہاں دیں پر چلنے کے طریقہ کار تھوڑا بہت مختلف ہیں لیکن ان کا اعمال ان کے ساتھ جائے گا اگر آپ کے سامنے کوئی شرک کر رہا ہے یا بدعت کر رہے تو آپ اسے ایک بار سمجھا دیں لیکن کیسے سمجھائیں یہ بہت ہے اہم موضوع ہے سمجھانے کا طریقہ ہوتا ہے وہ سب بھی ہمارے مومن بھائی ہی ہیں نرم لہجہ نرم مزاجی کے ساتھ اپنی بات رکھیں قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی بات رکھیں آپ کو اپنی بات ایک بار رکھنی ہے تاکہ حشر کے میدان میں آپ سے سوال نہ کیا جائے کہ آپ کے سامنے شرک بدعت ہورہا تھا آپنے روکا کیوں نہیں اپنے انہیں صحیح اسلام کی تعلیمات کیوں نہیں دی تو ایک بار کہنے کا حق آپ کا ہے باقی اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے بندوں کو کب اور کہاں ہدایت دے دے یہ اس کے ہاتھ میں ہے لیکن ہم سب کو ملک کے اس نازک حالات کو دیکھتے ہوئے کم از کم مسلکی اعتبار سے نہیں لڑنا چاہئے ہمارے آپس میں لڑنے سے اسلام کے دشمنوں کو ہمیں اور لڑانے کا پورا موقع مل جاتا ہے، بقول بی جے پی کے معروف نیتا سبرمنیم سوامی کے کہ مسلمانوں کو اگر بکھیرنا ہے انہیں توڑنا ہے تو انہیں مسلکی اعتبار سے لڑا دو وہ خود بخود  بھکر جائیں گے
فلحال ملک کے حالت ایسے نہیں ہیں کہ ہم آپس میں لڑیں اس وقت ملک تاریخ کے نازک ترین اور خطرناک دور سے گذر رہا ہے ، ملک کی سا  لمیت ، اس کی تہذیب اور اس کی جمہوریت شدید بحران میں مبتلا ء ہے، مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا ننگا ناچ بر سر عام علی الاعلان ہو رہا ہے ایسے نازک حالات میں ملک ، عوام اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں اور دلتوں کے تعلق سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ، اس سنجیدہ اور حساس موضوع کا حل تلاش کرنے والی شخصیات کے سامنے چند بنیادی چیزیں سامنے آتی ہیں جن کے بغیر حالات قابو میں نہیں آسکتے  اپنی داخلی صفوں میں اتحاد کی راہیں تلاش کرنا ، تھوڑے تھوڑے عرصہ پر ملک کی مختلف نمائندہ تنظیموں اور رائج مسالک کے درمیان ملکی اور ملی مسائل کے حل کی تلاش کے لیے اجتماعات ، شریعت اسلامیہ سے امت مسلمہ کو قریب کرنے کی مسلسل کوششیں، نئی نسل کی اسلامی تربیت ، تعلیمی ، سیاسی اور اقتصادی میدان میں مسلمانوں کو صف اول میں لانے کی کوششیں وغیرہ اہم امورہیں
بردران وطن کے ایسے پروگراموں میں ضرور شریک ہونا چاہیے جن میں کوئی شرعی عذر نہ ہوں اور انہیں بھی اپنے پروگراموں ، اصلاحی جلسوں اور مدارس کے ذریعہ منعقد کیے جانے والے اجلاس میں شریک کرنے کی سعی کرنی ہوگی ۔ اشتعال سے گریز کرتے ہوئے ایسے بیانات سے سخت احتراز کیا جائے جس سے کسی کے مذہب اور عقیدے  و مسلک کی توہین ہوتی ہو، تاکہ فرقہ پرست عناصر اس کا فائدہ اٹھا کر غیر مسلم قوتوں کو متحد کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ، سبھی علماء ، ائمہ اور واعظین قوم وملت کو اپنے پندو نصائح اور بیانات میں مسلمانوں کو تسلسل کے ساتھ اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس امت کا امتیاز اور اس کی خوبی اس طرح بیان کی ہے ’’ تم بہترین امت ہو لوگوں کی خیر خواہی کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہو‘‘اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری خیر خواہی کا مورد تمام انسانوں کو قراردیا ہے
ملی قائدین اور رہنماؤں سے بدگمانی ایک بڑی کمزوری ہے جو ہمیں ایک جھنڈے تلے جمع ہونے سے روکتی ہے، ہمارے رہنما انسان ہی ہیں، غلطیاں ضرور کریں گے، کون سا ایسا انسان ہے جو غلطیوں سے مبرا ہے؟ کون ہے جس کا دامن بھول چوک سے پاک ہے؟ ہم خود اپنی ذات کا ایمانداری سے جائزہ لیں تو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اسی لیے بھول چوک اور غلطی کی وجہ سے بدگمانی سے بچیں اور غلطی کرنے والے کو کنارے پر لگانے کے بجائے اس کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا کریں۔
ہم بحیثیتِ مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داریاں ادا کریں اور اس بات کی کوشش کریں کہ ہمارے کسی بھی فعل سے اسلام اور مسلمانوں کے نام داغدار کرنے کا کوئی موقع فسطائی طاقتوں اور دشمن عناصر کے ہاتھ نہ لگے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم یکسانیت پر زور دیں جو باتیں ہمارے بیچ یکساں ہوں اس پر سبھی لوگ متحد ہو کر عمل کریں اور جہاں اختلاف  نظر آئے اسے نظر انداز کرکے آگے نکل جائیں یہی وقت کا تقاضہ ہے

مولانا مختار الحسن نعمانی :ایک مختصر تعارف، از قلم ✏ حبیب الاعظمی فاضل دیوبند

*مولانا مختارالحسن نعمانی : ایک مختصر تعارف*

✒حبیب الاعظمی فاضل دیوبند

مولانا مختار الحسن نعمانی صاحب سرزمین محمدآباد ضلع مٸو یوپی سے تعلق رکھتے ہیں اور تقریبا نو سال سے *بنات اسلام کی عظیم درسگاہ جامعة الزاھدات جامعہ نگر اتراری خیرآباد ضلع مٸو میں شیخ الحدیث کے اعلیٰ منصب پر فاٸز ہیں۔* درس وتدریس کے ساتھ دیگر دینی و علمی خدمات سے بھی وابستہ ہیں۔ اور اپنے محلہ فرید آباد کی مسجد میں امام وخطیب بھی ہیں۔ نیز ہر ہفتے جمعرات کو وہیں مولانا کا *درس قرآن* بھی کٸ سال سے پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ابھی گزشتہ جمعرات کو اسی سلسلہ کا ایک خصوصی پروگرام بھی ہوا تھا جس میں *مولانا ارشاد احمد* صاحب وصیة العلوم کوپاگنج تشریف لاۓ تھے۔
عطاۓ الہی سے مولانا کو تصنیفی ذوق بھی ہے۔ چناں چہ دوسال پہلے ہی آپ کی ایک اہم کتاب *خواتین اسلام کے لیے نبوی ہدایات* طبع ہوکر مقبولیت حاصل کرچکی ہے جس میں چہل احادیث کی روشنی میں خواتین کی بہترین رہ نماٸ کی گٸ ہے۔یہ کتاب *امیر ملت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی مدظلہ مہتمم دارالعلوم دیوبند* کی تاٸید وتقریظ سے آراستہ ہے۔نیز دیگر کتابوں کی تالیف کا کام بھی جاری ہے۔
مولانا مختار الحسن صاحب *مفتی ابوالقاسم صاحب* کے بنارس کے اہم تلامذہ میں سے ہیں اور مولانا کو حضرت مفتی صاحب سے بیعت و سلوک کا بھی شرف حاصل ہے۔
اپنی علمی خدمات اور تدریسی مشاغل کے ساتھ مولانا کو فن شاعری سے بھی دل چسپی ہے۔ چناں چہ بہت سی نعت و نظم اور ترانے مختلف اوقات میں مولانا کے ذہن و فکر کے ترجمان اور ان کے عشق نبویﷺ کے مظہر ہیں، اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا کی بہت سی نعتیں نامور شعراۓ کرام کے ذریعہ جلسوں میں بھی پڑھی سنی جاتی رہی ہیں اور طالبات *جامعة الزاھدات* بھی آپ کی تخلیق کردہ نعتوں کو اپنے جامعہ کے پروگراموں میں عام طور سے پڑھتی ہیں۔
*مولانا کی سادگی تواضع اور جامعة الزاھدات کے لیے ان کی بے لوثی ، ملت کے لیے ان کی فکر مندی ایسی باتیں ہیں جن کو ان کے جاننے والے ہی جانتے ہیں۔*
دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عنایت کرے اور مزید دینی وعلمی خدمات کی توفیق ارزانی نصیب فرماۓ۔
یہ چند تعارفی کلمات مولانا کی موجودہ نعت کے بعد لکھے ہیں۔

راقم السطور :
حبیب الاعظمی فاضل دیوبند
استاذ جامعة الزاھدات خیرآباد
25/محرم 1441ھ
25/ستمبر2019 بدھ

مدھوبنی میڈیکل کالج ڈاکٹر فیاض کی فیاضی کی اعلیٰ مثال، میڈیکل کالج و اسپتال ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز

*مدھوبنی میڈیکل کالج ڈاکٹر فیاض کے فیاضی کی اعلیٰ مثال: رپورٹ! نظر عالم آئی این اے نیوز 28 ستمبر *

*مدھوبنی میڈیکل کالج اینڈ اسپتال ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز*

تصویر................ کالج، ڈاکٹر فیاض احمد

مدھوبنی (محمد سالم آزاد) مدھوبنی میڈیکل کالج اینڈ اسپتال میں ایم بی بی ایس کی پڑھائی شروع ہوتے ہی اہالیان مدھوبنی سمیت تمام محبان تعلیم کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا ہے۔کالج کے بانی و منتظم ڈاکٹر فیاض احمد (رکن اسمبلی بسفی) کی اس بڑی حصولیابی سے جہا ں ڈاکٹر بننے کی چاہت رکھنے والے سینکڑوں طلباء کی مرادیں پوری ہوئیں ہیں وہیں کئی سطح پر محرومیوں کا شکار رہا مدھوبنی ضلع کا نام بھی روشن ہوا ہے۔ یقینا مدھوبنی ضلع ملک بھر میں اپنی مضبوط موجودگی درج کرانے میں کامیاب ہوگا۔محب تعلیم ڈاکٹر فیاض احمد کے اس دیرینہ خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے پر ہم انہیں دلی مبارک باد پیش کرتے ہوئے دعاء کرتے ہیں کہ خالق کائنات ان کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور دن دونی رات چوگنی ترقیات سے نوازیں۔ مذکورہ باتیں آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظر عالم نے مدھوبنی دورہ پر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مدھوبنی میڈیکل کالج 150طلباء کے چہل پہل سے گلزاررہنے لگا ہے۔ ڈاکٹر فیاض احمد نے اپنی فیاضی اور حسن انتظام کا ثبوت دیتے ہوئے وسیع و عریض رقبہ میں کثیر منزلہ خوبصورت عمارت، کشادہ احاطہ، جدید سہولیات سے آراستہ کلاس روم، آرام دہ اے سی ہاسٹل،ڈیجیٹل لائبریری اورجدید ترین تجربہ گاہ بنوایا ہے جوکہ ایم سی آئی کے معیار اور کسوٹی پرپوری طرح کھرے اترتے ہیں۔تمام طبی سہولیات سے آراستہ500بیڈ والا سوپر اسپیسلٹی اسپتال کا بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہاں مامور ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر، نرسیز، ٹیکنیشین اور طبی عملہ مریضوں کا بھر پور خیال رکھ رہے ہیں اور سنگین سے سنگین مریض کو بھی اب باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ مدھوبنی ہی نہیں پڑوس کے کئی اضلاع اورنیپال تک کے لوگ اپنا علاج کروانے یہاں پہنچ رہے ہیں اور مطمئن ہو کر جارہے ہیں۔ ٹریننگ کالج، اسکول، ڈگری کالج اور میڈیکل کالج قائم کرکے ڈاکٹر فیاض احمد نے جہاں اپنی دور اندیشی،فیاضی اور اعلیٰ دماغی کی مثال پیش کی ہے وہیں انہو ں نے ہر خاص و عام کے دل میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں ان کا یہ کارنامہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ 

اللہ تبارک و تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے، مولانا منصور صاحب کا آزاد نگر جامعہ اسلامیہ کی جامع مسجد سے خطاب

مدھوبنی آئی این اے نیوز 28 ستمبر
رپورٹ! محمد سالم آزاد
 اللہ تبارک وتعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات پیداکیا ہے انسان کی صداقت و حقانیت کے لئے صراط مستقیم پر چلنے کے لئے ایک مقدس کتاب نازل فرمایا ہے جو سرا پا ہدایت ورحمت ہے اللہ کی تقدیس وپا کی کو ظاہر کرنے والی کتاب ہے جس طرح احکام الہی پر عمل کرنے سے دونوں جہان کی سعادت وبرکت حاصل ہوتی ہے اسی طرح حسن اخلاق اور سیرت طیبہ نیک کردار کو اپنانے سے بلند مقام اور اونچا مرتبہ حاصل ہوتا ہے اسلام کے پاس نیک کردار بہت وسیع معنی رکھتا ہے عقائد صحیحہ اعمال صالہ توحید کامل حسن سیرت صداقت وعدالت امانت ودیانت راست بازی و حق گوئی مصائب وآلام پر صبر کرنا ہے دوسروں کے ساتھ اچھا برتاو کرنا اور حسن سلوک حق پسندی اور حق کی راہ پر چلنا ہے غرضیکہ زندگی کے تمام افعال واعمال میں خیر کے پہلو کو مد نظر رکھ کر چلنے کا نام نیک کردار اور حسن سیرت و اخلاق ہے اس کو اپنا کر ہی ہر انسان اعلی مقام پر فائز ہوسکتا ہے حسن اخلاق و حسن کردار ایک مومن کی علامت ہے ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا کبریائی اور غرور سے دور رہنا اور بدلہ اور انتقام نہ لینا  معاف کردینا نرمی تواضع و بردباری وغیرہ جیسے عادات کو اپنانے کا نام ہی حسن کردار ہے للہ کے ساتھ جو معاہدہ ہم نے کیا ہے یعنی اللہ پاک کے اوامر ونواہی کو کھلے دل سے قبول کرکے فرائض و واجبات پر عمل پیرا رہے ادمی کی اخروی نجات صرف نماز روزے حج وزکوہ پر مبنی نہیں بلکہ معاملے میں درستگی پر ہے سچی بات کہے انصاف پر قائم رہے حرام کمائی نہ کھائے دوسروں کو کھلائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومنوں میں سب سے مکمل ایمان والا وہ شخص ہے جس کی عادتیں اور طبیعتیں اچھی ہو ں مولانا ابوالکلام آزاد نگر بھوار مدرسہ اسلامیہ کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ سے قبل خطاب میں فرمایا کہ اج ساری دنیا برائیوں کا گہوارہ بنی ہوئی ہے خود مسلمانوں میں اس قدر برائیاں پھیل چکی ہیں کہ ان کی تفصیل کے لئے دفتروں کی ضرورت ہے کتنے مسلمان شرک و بدعات کے کام کررہے ہیں بے نمازی  مسلمانوں کی جماعت نمازیوں پر چھارہی ہے جوئے بازی شراب خوری سٹہ بازی عام ہورہی ہے  مظالم کا ایک طوفان ہے جو  غریبون اور کمزوروں کو چکی میں دانے کی طرح پیس رہا ہے ان حالات میں اپ کا اسلامی فریضہ ہے کہ شہر شہر قصبہ قصبہ گاوں گاوں محلہ محلہ کچھ اللہ کے محبوب نوجوانان اسلام کی تنظیم قائم کرو اور اپنی طاقت کے مطابق اپنے محلے میں اپنے خاندانوں میں برائیوں کو مٹانے کا عہد کرلو ہفتہ واری مجلسیں کرو جن میں لوگوں کو برائیوں سے روکنے کی تدابیر پر غور ہو سکے مگر سب سے بڑی سرط وہ ہے جو اللہ پاک نے حضرت موسی علیہ السلام کو بتلائی تھی جب ان فرعون کے دربار میں تبلیغ کے لئے بھیجا جا رہا تھا اے موسی فرعون کے ہاں جاکر نرمی سے بات کرنا کوئی سخت کلامی نہ کرنا شاید وہ نصیحت حاصل کرسکے یا اس کے دل میں کچھ اللہ کا خوف پیدا ہو سکے تبلیغ کے لئے نرم کلامی اور محبت پہلی  شرط ہے ہمارے بیشتر و اعظمین و علماء کرام الا ماشا ء اللہ اس صفت سے محروم ہیں اس لئے ان کی تبلیغ ناکام ہے اے رسول اگر تم سخت کلامی کرنے والے سخت دل والے ہوتے تو یہ اہل عرب آپ کے پاس سے نفرت کر کے بھاگ جاتے کبھی بھی آپ کے قریب نہ آتے لیکن آپ کی نرم دلی خوش اخلاقی کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ آپ کے گرویدہ بن رہے ہیں پس خوش خلقی نرم کلامی ہر مسلمان کے لئے  ضروری ہے اس طرح تبلیغ کی جائے گی تو وہ ضرور اثر کرے گی اللہ پاک ہر مسلمان کو اچھے اخلاق نصیب کرے اسوہ حسنہ پر عمل کی توفیق دے جنت میں داخل فرمائے آتش دوزخ سے بچائے آمین

Friday 27 September 2019

اعظم گڑھ سمیت اترپردیش کے کئی اضلاع اس وقت بارش سے بری طرح متاثر

اعظم گڈھ آئی این اے نیوز 27 ستمبر 2019
 اعظم گڑھ سمیت اترپردیش کے کٸ اضلاع اس وقت بارش سے بری طرح متاثر ہے ، مختلف اضلاع میں اب تک درجنوں اموات ہوچکی ہے ، بیچارے غریب جھوپڑیوں میں رہنے والے لوگوں کے کچے مکانات کی چھتیں اور دیواریں منہدم ہورہی ہے ، عام زندگی متاثر ہے،محکمہ موسمیات نے ابھی اگلے 48 گھنٹے تک بارش کا الرٹ جاری کیا ہے  اللہ تعالی خیر و عافیت کا معاملہ فرماۓ آمین

اعظم گڑھ کے کئی قلم کار اردو اکادمی ایوارڈ سے سرفراز

اعظم گڑھ کے کئی قلم کار اردو اکادمی ایوارڈ سے سرفراز


اعظم گڑھ آئی این اے نیوز 27 ستمبر
: اترپردیش اردو اکادمی نے امسال جب مختلف اصناف کے لئے ایوارڈ دینے کا اعلان کیا تو انعام پانے والوں کی فہرست میں اعظم گڑھ کے کئی قلمکار اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ اس فہرست میں جہاں مجموعی خدمات کے زمرہ میں معروف قلمکار محمد الیاس اعظمی کا نام شامل ہے وہیں مولانا آزاد یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس میں شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسر عمیر منظر کو بھی اکادمی نے ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ ع
میر منظر کی کتاب " باتیں سخن کی " کو ایوارڈ کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ اس درجہ میں شہاب ظفر اعظمی کی کتاب " مطالعات فکشن" کو بھی اکادمی کی طرف سے انعام کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انعام پانے والے اعظمی قلمکاروں میں پروفیسر سفیان اصلاحی کی کتاب " تصاویر علی گڑھ " بھی شامل ہے ۔حکیم شمیم ارشاد اعظمی کی کتاب "ادویہ مفردہ" کو بھی اتر پردیش اردو اکادمی نے انعام سے نوازنے کا اعلان کیا ہے۔

خان بہادر خان :ایک انتھک روہیلہ، از قلم :ذیشان احمد نئی دہلی

خان بہادر خان:ایک انتھک روہیلہ

مکرمی: روہیل کھنڈ کے حکمراں خان بہادر خان 1781میں اتر پردیش کے بریلی میں پیدا ہوئے۔وہ اپنی آخری سانس تک انگریزوں سے لڑتے رہے۔17سال کی عمر میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے بغاوت کرکے 31 مئ 1857 میں بریلی کو آزاد روہیل کھنڈ کا دارالحکومت بنایا۔خان بہادر خان کے اس فیصلے انگریز حیران و پریشان ہوکر انہیں باربار روکتے رہے۔خان بہادر خان کے ساتھ ہندو اور مسلمان کے درمیان باہمی اتفاق ،ہرا پرچم،آزادی کی علامت اور سوبھارام کے ساتھ انگریزوں کے خلاف مقابلہ آرائ کیلئے مختلف اقدامات کئےسوبھا رام وزیر اعظم اور بخت خان کمانڈر ان چیف بنائے گئے۔اس سے بھی ہندو مسلم یکجہتی کا پتہ چلتا ہے۔دونوں جماعتوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی انگریزوں نے بھاری نفری کے ساتھ روہیلہ کی فوج کو شکست دے دی۔چنانچہ خان بہادر خان 1858 میں فرار ہونے میں کامیاب رہے اور نیپال کے حکمراں کو اپنا حامی بنا لیا،جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے اپنی فرنٹ لائن سمیت 243لوگوں کو اس انقلاب کے حوالے کر دیا،جن کو پرانے دفتر کی عمارت میں ایک پرانے برگد سے لٹکا دیا گیا۔اس ارتقاء پسند،اٹل اور انتھک حکمراں کو 26مارچ 1860 کو ان کے ہم وطنوں کے ساتھ سر زمین ہند میں خاکستر کر دیا گیا۔

ذیشان احمد
نئ دہلی

الفلاح فرنٹ نے اعظم گڑھ کی عوام سے خون عطیہ کرنے کی اپیل پر نوجوانان اعظم گڑھ نے جوش و خروش سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

الفلاح فرنٹ نے عوام سے خون عطیہ کرنے کی اپیل کی

عادل اعظمی،بلال اعظمی،کاشف اعظمی،ارشاد عالم اور ابوبکر انسانیت اور اسلام پسند ہونے کا ثبوت پیش کیا

اعظم گڑھ آئی این اے نیوز 27 ستمبر
( رپورٹ عارض اصلاحی)
الفلاح فرنٹ نے آج اعظم گڑھ کے نوجوانوں کے ذریعہ ایک مریض کو خون دینے پر ان سب کا شکریہ ادا کیا ہے۔الفلاح فرنٹ کے صدر ذاکر حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ آج قوم و ملت کو عادل اعظمی(سراج پور،اعظم گڑھ)بلال اعظمی(شبلی کالج،اعظم گڑھ)کاشف اعظمی (اعظم گڑھ)ارشاد عالم(اعظم گڑھ) ابو بکر(اعظم گڑھ) جیسے نوجوانوں کی سخت ضرورت ہے۔ذاکر حسین نے مذکورہ نوجوانوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ایک اپیل پر اعظم گڑھ کے نوجوان بارش میں بھیگ کر اسپتال پہنچ کر مریض کو خون دیا،ان کے اس کام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ذاکر حسین نے مزید کہا کہ بلال اعظمی،کاشف اعظمی،عادل اعظمی،ارشاد عالم اور ابو بکر نے آج اپنا خون عطیہ کر اس بات کا ثبوت پیش کیا ہیکہ ابھی بھی مسلم نوجوانوں میں خدمت کا جذبہ ہے۔ذاکر حسین نے کہا کہ مذکورہ نوجوان ملت کے قیمتی سرمایہ ہیں اور ملت کے دیگر افرادکو بھی ان سے سبق لیتے ہوئے انسانیت کی خدمت کیلئے آگے آنا چاہیے۔اس موقع پر الفلاح فرنٹ نے مریض کی پوری فیملی کی جانب سے ابو بکر،ارشاد عالم،عادل اعظمی،بلال اعظمی اور کاشف اعظمی کا شکریہ ادا کیا۔واضح رہے کہ آج اعظم گڑھ کے ڈاکٹر امتیاز کے اسپتال میں ایک مریض کو خون کی ضرورت تھی۔اس کی خبر ملتے ہی مذکورہ نوجوانوں نے اسپتال پہنچ کر اپنا خون عطیہ کر خود کو اسلام پر عمل کرنے والا ثابت کیا۔

شہید اعظم بھگت سنگھ کی یومِ پیدائش 28 ستمبر کے ضمن میں ایک خصوصی پیشکش، از قلم! محمد عباس دھالیوال مالیر کوٹلہ پنجاب

شہید اعظم بھگت سنگھ کی یومِ پیدائش 28 ستمبر کے ضمن میں ایک خصوصی پیشکش.

محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ، پنجاب.
رابطہ 9855259650
abbasdhaliwal72@gmail.com


"انقلابی سوچ کے علمبردار شہیدِ اعظم بھگت سنگھ "

ہندوستان کی جدو جہدآزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کی جب بات چلتی ہے تو ٹیپو سلطان ، مولانا محمد باقر (مدیر دہلی اردو اخبار) کرتار سنگھ ،شہید اودھم سنگھ کا نام سر فہرست آتا ہے اسی ضمن میں ایک اور خصوصی نام جو ہمارے سامنے ابھر کر آتا ہے وہ ہے '' شہید اعظم بھگت سنگھ ''.

بھگت سنگھ جنکا جنم مورخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۰۷ کو گاؤں بنگا، چک نمبر ۱۰۵، ضلع لائیلپور موجودہ پاکستان میں ہوا۔ انکے والدکا نام سردارکرشن سنگھ اور والدہ ودیا وتی تھا ۔ بھگت سنگھ کے پریوار کا پوشتینی گاؤں کھٹکڑ کلاں مشرقی پنجاب میں ضلع نواں شہر میں واقع ہے۔
بھگت سنگھ نے جب آنکھ کھولی توہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ایک سنگھرش چل رہاتھا۔جلیانوالہ والے باغ کاخونی سانحہ،کرتار سنگھ سرابھا کو ا نگریزوں کی طرف سے پھانسی پہ لگایا جانا ،ایسے دل سوز و اقعات تھے جنھوں نے بچپن میں ہی نبھگت سنگھ کی زندگی پر گہرے زخم اور کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ۔
بھگت سنگھ کے چچا سردار اجیت سنگھ اپنے وقت کے ایک عظیم مجاہدین آزادی تھے۔اس طرح وطن کی محبت اور ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جزبہ بھگت سنگھ کو وراثت میں ہی ملا۔اسی طرح جب گاندھی جی نے سول نافرمانی تحریک چلائی تو بھگت سنگھ نے اپنے طالب علمی کے زمانہ اس تحریک خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔اس طرح مزکورہ ہندوستان کے نشیب و فراز والے حالات نے بھگت سنگھ کو پوری وطن کی محبت کے رنگ میں شرابور کر دیا۔
۱۹۲۱ میں اسکول کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد بھگت سنگھ نے نیشنل کا لج لاہور میں داخلہ لیا۔اسی بیچ گھر والوں نے اس کو شادی کر لیئے جب زور دیا تو اپنی بی۔ اے ۔ کی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر اور کالج کو الودع کہہ لاہور کو چھوڑ کر کانپور چلے آئے۔اصل میں وہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے وہ صرف اور صرف اپنے وطن عزیز ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔
یہاں کانپور میں آپ نے انقلابی تحریک سے وابستہ لوگوں کی مدد سے پرتاپ پریس میں ملازمت کی ، یہیں پر بڑے مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر ہندوستان ریپبلکن ایسوسیشن میں شامل ہوگئے جو کہ بعد میں سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسیشن کے نام سے جانی جانے لگی۔اسکے بعد پھر آپ واپس لا ہور آگئے ۔
انگریزوں کی طرف بھگت سنگھ کی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھی جا رہی تھی۔۱۹۲۷ میں لاہور میں دسہرہ بم کیس میں انہیں گرفتار کیا گیااور شاہی قلع لاہور میں رکھے گئے ضمانت کے بعد ہندوستان کی آزادی کیلئے نوجوان بھارت سبھا کا قیام عمل میں لائے اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہوگئے۔۸،اپریل ۱۹۲۸ کو نئی دہلی میں عین اس وقت جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا بھگت سنگھ اور بی کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکہ کی آواز پیدا کرنے والا بم پھینکا تانکہ گونگی بہری فرنگی حکومت کے کانوں تک اپنی آواز پہنچائی جاسکے،اس دھماکہ کے بعد دونوں گرفتار کر لیئے گئے عدالت نے عمر قید کی سزا دی ۔
۱۹۲۸ میں سائمن کمیشن کی آمدپر لاہور ریلویاسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائے زخمی ہو ئے اور دل کا دورہ پڑنے سے اس آنجہانی دنیا کو الودع کہہ گئے۔ چنانچہ بھگت سنگھ نے اپنے انقلابی ساتھیوں سمیت لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کی قسم کھائی ۔ایک دن مسٹر سانڈرس اے۔ایس ۔پی اپنی موٹر سائیکل پر سواردفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اسکے بعد حکومت نے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا او لاہور کی سینٹرل جیل کے ایک کمرہ میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔بھگت سنگھ اور بی کے دت اس سے پہلے اسمبلی بم کیس میں بھی سزا پاچکے تھے ۔ملزمان کی طرف سے لالہ امر داس وکیل تھے ۔مقدمہ تین سال چلاآخر ۷ ، اکتوبر ۱۹۳۰ کو ٹربیونل کا فیصلہ جیل میں پہنچا اس فیصلہ میں بھگت سنگھ ،سکھدیو ،اور راجگرو کو پھانسی، جبکہ کمل ناتھ ،شو ورما، گیا پرساد، جئے دیو کپور، کشوری لال اور مہاں ویر کو عمر قید، جبکہ کندن لال، کو سات سال اور پریم دت کو تین سال کی سزا قید بامشقت سنائی گئی۔
پھانسی سے پہلے بھگت سنگھ نے اپنے دوست شو شرما کو یہ الفاظ کہے؛''جب میں نے انقلاب کے راستے پر قدم بڑھایا،میں نے سوچا کہ اگر میں اپنی نچھاور کر ، 'انقلاب زندہ باد ، کانعرہ وطن کے کونے کونے میں پہنچاسکا تو میں سمجھونگا کہ میری زندگی کی قیمت پڑ گئی ۔آج جب میں پھانسی کی سزا کیلئے جیل کوٹھری کی سلاکھوں کے پیچھے ہوں،میں اپنے دیش کے کروڑوں لوگوں کی گرجتی ہوئی آواز میں نعرے سن سکتا ہوں۔۔۔ایک معمولی سی زندگی کی اس سے بڑی کیا قیمت پڑ سکتی ہے''!!

بھگت سنگھ کو اردو، پنجابی اور ہندی کے علاوہ انگریزی زبا ن بھی آتی تھی اس ساتھ ہی انھوں نے اپنے دوست بی ۔کے دت سے بنگلہ بھاشا بھی سیکھی تھی ۔بھگت سنگھ کی اردو قابل تعریف تھی ۔اس کا احساس ہمیں ان کے مختلف موقعوں پر کہے گئے اشعار سے ہو جاتا ہے ۔بھگت سنگھ نے اپنی پھانسی سے قبل۳ ،مارچ کو اپنے بھائی کلتار کو ایک خط لکھا جس کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ ایک سچے دیش بھگتی کا جزبہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر بھی تھے ان کے اس خط کا اقتباس قارئین آپ بھی دیکھیں۔
''اسے یہ فکر ہے کہ ہر دم طرز وفا کیا ہے
ہمیںیہ شک ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے

دہر(دنیا)سے کیوں خفا رہیں،چرخ(آسمان) سے کیوں گلہ کریں
سارا جہاں عدو سہی ، آؤ مقابلہ کریں۔۔۔''
۲۳مارچ۱۹۳۱ کو شام قریب سات بجکر ۳۳ منٹ پر بھگت سنگھ اورانکے دو ساتھیوں راج گورو اور سکھدیو کو پھانسی دے دی گئی۔
جبکہ پھانسی کے وقت ان کے لبوں پہ یہی نغمہ تھا کہ۔۔
دلوں سے نکلے گی نہیں ،مر کے بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی۔۔۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی نوجوان پیڑھی کو بھگت سنگھ جیسے کہ عظیم سپوتوں کی زندگی کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کروائیں ۔بھگت سنگھ نے جوہندوستان کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی وہ کسی خاص دھرم یا فرقہ کے لوگوں کے لیے نہیں لڑی ۔بلکہ ہندو مسلم اور سکھ سبھی دھرموں کے لوگوں کو انگریزی حکومت کے ظلم وتشدد اور غلامی سے آزادی دلانے کے لیے لڑی۔
آج ہم اہل وطن کا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ ہم بھگت سنگھ کی سوچ پہ پہرا دیتے ہوئے ،ہر اس طاقت کو مات دیں جو اپنے مفاد کی خاطر دیش کی صدیوں پرانی گنگا جنمی تہذیب کو ختم کرنے میں لگی ہوئی ہیں یعنی دیش کو کبھی مذہب کبھی ذات پات اور کبھی فرقوں کے نام تقسیم کرنے کی لگاتار کوششیں کررہی ہیں ۔ان حالات میں ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم مذہب، ذات پات اور فرقوں سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف دیش کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے کام کریں ۔
یقیناًبھگت سنگھ جیسے مہان شہداء کو ہم اہلِ وطن کی طرف سے یہ ایک سچی شردھانجلی و خراج عقیدت ہوگی۔