اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: April 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 30 April 2019

"بزم شبلی طلبہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ" کا سالانہ پروگرام اختتام پذیر!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/اپریل 2019) بزم شبلی طلبہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ واقع مین روڈ سرائے میر اعظم گڑھ کا سالانہ پروگرام مولانا مفتی محمد اشفاق صاحب کی صدارت میں بعد نماز مغرب فیضی ہال چوک سرائے میر میں منعقد ہوا، جس میں طلبہ نے مختلف طرح کے دلچسپ پروگرام آواز کا سفر تاریخ کی شاہراہ پر بعنوان وقت کی اہمیت عبدالرزاق اعظمی، محمد فرقان اعظمی، دلچسپ مکالمہ بعنوان فیملی ڈسپلین کا سوسائٹی پر اثر محمد عرشیل، محمد ارمان،سمیع اللہ اعظمی نے،لائٹ اینڈ ساؤنڈ بعنوان تاریخ اعظم گڑھ امان اللہ اصفہانی،عبدالعظیم اعظمی نے،پانچ کی آواز، علمی، ادبی بیت بازی پیش کئے.
پروگرام کے آخر میں دیگر علماء کرام اپنا تاثر پیش کرتے ہوئے مولانا انظر صاحب قاسمی اور انکی پوری ٹیم کو مبارکباد بھی دیا،
اس پروگرام میں مولانا ابوالخیر صاحب، مولانا شاہد القاسمی، مولانا انیس احمد اصلاحی، مولانا عتیق الرحمن اصلاحی، پروفیسر حکیم ارشاد صاحب، مولانا افضل قاسمی، مولانا انور داٶدی، آصف فاروقی صاحب و دیگر سماجی شخصیات نے بھی شرکت کی.
پروگرام کے بالکل آخیر میں اراکین اچھی بات سوشل میڈیا و دیگر مساہمین اور طلبہ بزم شبلی طلبہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کو مختلف طرح کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

باغپت: جامعہ بدرالھدیٰ اینڈ الھدیٰ پبلک اسکول میں تقسیم اسناد کی تقریب منعقد!

باغپت(آئی این اے نیوز 30/اپریل 2019) جامعہ بدرالھدیٰ اینڈ الھدیٰ میموریل پبلک اسکول زیر اھتمام الحیات اسلامک ایجوکیشن(ٹرسٹ) رجسٹرڈ ایکتا کالونی شہر باغپت یو پی میں تقسیم اسناد کے موقع پر طلبہ کا ایک پروگرام عمل میں آیا، جس کا آغاز جامعہ کی طالبہ نشاط بی کی کلام اللہ کی تلاوت سے ہوا، جامعہ میں امتیازی نمبرات سے پاس ہونے والے طلبہ کو سند امتیاز اور دیگر انعامات سے نوازا گیا۔
پروگرام کی سرپرستی حضرت مفتی محمد امجد مفتاحی امام و خطیب مسجد منڈی شہر باغپت نے فرمایا اور تعلیم کی اھمیت کو مفتی محمد اسجد قاسمی صاحب نے آئے ہوئے سامعین سے خطاب کیا، اس قبل بچوں کا مختصر پروگرام ہوا.
بعدہ ناظم جامعہ حکیم قاری محمد ارشد صاحب کا بچوں کے سرپرستوں سے خطاب ہوا، اخیر میں اصلاحی کلام اور دعا کا اہتمام
رئیس جامعہ حضرت مولانا محمد اقبال قاسمی صاحب پر ہوا.
واضح ہو کہ جامعہ میں علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ کا بھی معقول نظم ہے، تعلیمی نظام کچھ اس طرح ہے، لڑکوں کے لئے درجہ حفظ کے ساتھ پانچ کلاس مکمل اور لڑکیوں کےلئے پانچ کلاس تک دو سالہ عالمیت کا نظم ہے جو کہ اقامتی تعلیم سمجھی جاتی ہے.

لال گنج: یونق کڈس ویئر اینڈ کرتی پوائنٹ کا افتتاح!

عبدالرحیم صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــ
لال گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/اپریل 2019) لال گنج بازار میں ایس ڈیم کی رہائشگاہ کے سامنے یونق کڈس ویئر اینڈ کرتی پوائنٹ کا افتتاح حاجی محمد عرفان خان کے ہاتھوں فیتا کاٹ کر کیا گیا، اس دوران حاجی محمد عرفان خان نے کہا کہ لال گنج بازار میں اپنے آپ میں یہ ایک نرالی دکان ہے، جہاں ایک ہی چھت کے نیچے چھوٹے بچوں سمیت خواتین کا پورا سامان مناسب قیمت پر دستیاب ہے.
اس موقع پر حاجی محمد اختر عرف گوگا، ڈاکٹر محمد نعمان، نواز علی، فراز احمد، ڈاکٹر محمد جیلانی، ڈاکٹر غلام ربانی، ڈاکٹر ابوشحمہ، ڈاکٹر انور سنجری، ڈاکٹر ڈی بی سنگھ، ڈاکٹر محمد عرفان، شبھاش سنگھ، وقار احمد وغیرہ موجود رہے.

روزہ تقوی کا سرچشمہ اور تقوی کے حصول کا ذریعہ ہے: مفتی حفیظ اللہ قاسمی

محمد حسان ندوی
ــــــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز30/اپریل 2019) روزہ اسلام کی بنیادوں میں ایک اھم بنیاد ہے، چنانچہ روزہ یہ صرف امت محمدیہ ہی نہیں بلکہ پہلے کی امتوں پر روزہ فرض رہا ہے روزہ یہ تقوی کا سرچشمہ اور تقوی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے، مذکورہ خیالات کا اظہار جامعہ اسلامیہ سراج العلوم بھیونڈی کے ناظم تعلیمات وجمیعۃ العلماء مہاراشٹر کے منتظم مولانا ومفتی حفیظ اللہ قاسمی نے موضع بھگوتی پور میں منعقدہ اصلاح معاشرہ کے پروگرام سے اپنے خطاب میں عوام سے کیا، مولانا نے مزید کہا کہ روزہ کا حاصل یہ ہے کہ آدمی اپنی نفسانی خواہشات توڑے، شہوانی طاقتوں میں اعتدال پیدا کرے اور آدمی جب بھوکا اور پیاسا ہوتا ہے تو بھوک اور پیاس اس کے نفس کی تیزی کو توڑتی ہے، مولانا نے کہا روزہ اہل تقویٰ کے لئے ایک لگام ہے، نفس کے خلاف لڑنے کے لئے ڈھال ہے، ابرار وصالحین کی ریاضت ہے، روزہ رکھنے سے بہیمیت سے دور اور ملکوتیت سے قریب ہوتا ہے.
مبلغ دین مولانا عبد الصمد قاسمی نے خطاب کرتے ہوئے دین کی طرف اور دینی مجالس میں شرکت کی طرف زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہر خیر کی مجلس میں شامل اور ہر شر اور برائی والی مجلسوں سے دور رہنا چاہئے اور ہمیں علماء کرام کی قدر و ان کی باتوں پر عمل کرنا چاہیے.
مولانا محمد حسان ندوی ناظم مدرسہ عربیہ مصباح العلوم جامع مسجد مہولی نے خطاب کرتے ہوئے اصلاح معاشرہ اور موجودہ دور کی برائیوں کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی.
جلسہ اصلاح معاشرہ کی صدارت استاذ العلماء حافظ عبد الرشید فریدہ مارکیٹ مہولی ونظامت مولانا عبد الواحد قاسمی نے انجام دیا، پروگرام کا آغاز حافظ محمد اسجد نے تلاوت قرآن کریم سے کیا، بعدہ نعت و منقبت کا نذرانہ وثیق رہبر و محب العلماء ڈاکٹر اطہر حسین رحمانی نے پیش کیا.
اس موقعہ پر مولانا حبیب اللہ حلیمی، مولانا عبد العلیم قاسمی، مولانا وصی اختر، مولانا محمد ادریس قاسمی، عبدالصمد، طفیل احمد، حاجی علی اصغر، سلمان الواحد وغیرہ بطور خاص موجود رہے.

Monday 29 April 2019

… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!

محمد سالم سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 آج بعد نماز عصر پر نم آنکھوں، شکستہ دلوں اور لرزہ بر اندام زبانوں کے ساتھ ہم نے ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کی اور ایک نوجوان لڑکی کو منوں من مٹی میں دفن کردیا، کہنے کے لیے یہ عام معمول کی بات ہے، آئے دن موت واقع ہوتی رہتی ہے، لیکن آج میں جس جنازہ کا تذکرہ کررہا ہوں یہ عام اموات سے ہٹ کر ہے، یہ ایک ایسی موت ہے جس نے مجھے اور نہ جانے مجھ جیسے کتنے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس انداز سے اندر سے ہلا دیا کہ آنکھیں اشک بار ہوگئیں، زبان خاموش ہوگئی اور کلیجہ پھٹنے لگا ، یہ تو مجھ جیسے بے حس انسان کی کیفیت ہے جس کو صحیح معنوں میں الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا، گرچہ میں نے دل کی بات کی ترجمانی کے لیے اوپر چند گھسے پٹے الفاظ عاریت پر استعمال کرلیے ہیں، جب کہ یہ الفاظ حقیقت کی ترجمانی سے عاری ہیں، لیکن یہ واقعہ جس خاندان، باپ، ماں، بھائی، بہن اور شوہر کے ساتھ پیش آیا ہے ان کے دل کی ترجمانی ہر گز ہر گز میرے بس میں نہیں ہے، یہ میرے ذہن ودماغ کے بہت اوپر ہے، جس کی تہ اور حقیقت تک پہنچنا مجھ جیسے انسان سے نا ممکن لگ رہا ہے، بس میں نے اس کے ظاہر کی ترجمانی کے لیے عنوان میں ایک جملہ ’’… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!‘‘ کو استعمال کیا ہے، شاید اسی سے قارئین کچھ حقیقت کا ادراک کرسکیں۔
 مذکورہ دل خراش واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ ہمارے محلہ کی ایک نوجوان لڑکی جس کی شادی ابھی جلد ہی ضلع بھدوہی میں ہوئی تھی، وہ امید سے تھی اور اِدھر کچھ وقت سے اپنے میکہ ہی میں تھی، کل ولادت کا وقت قریب ہوا تو قریب ہی کے ایک ہاسپیٹل میں بھائی اور ماں لے کر گئے، بحمد اللہ نارمل ولادت ہوئی اور اللہ نے اپنے فضل سے ایک صحت مند بچی سے نوازا، ولادت کے بعد نوجوان لڑکی یعنی ماں کی حالت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں تھی، ضعف ونقاہت کا اثر غالب تھا، مذکورہ اسپتال میں افاقہ نہیں ہوا، بل کہ مزید اضافہ ہوگیا تو ایک دوسرے اسپتال میں جو کہ ’’جِیَّن پور‘‘ میں ہے،( جس کے نام کا مجھے علم نہیں ہے ، اور یہ اسپتال ہمارے مبارک پور کٹرہ ڈاکٹر کامران کے ایک لڑکے چلاتے ہیں) میں لے گئے، وہاں لے جانے کے بعد جو کچھ ہوا بادل نا خواستہ اور دل کو تھام کر لکھ رہا ہوں، لے جانے کے بعد ڈاکٹر (قصاب نما انسان) نے علاج کے لیے ایڈمٹ کرلیا، لیکن چوں کہ مریضہ کی حالت نازک تھی اس لیے بھائی نے ڈاکٹر سے کہا کہ خون کی جانچ کر لیجئے، مجھے لگتا ہے کہ خون کی کمی ہے، تو اس پر ڈاکٹر نے ان کو ڈانٹ دپٹ کر چپ کرادیا اور کہا کہ ڈاکٹر میں ہوں، آپ نہیں، بہر حال ڈاکٹر نے علاج شروع کیا، اور اپنی مرضی سے خون کی جانچ کی تو معلوم ہوا کہ خون کی مقدار بہت کم ہے، فوری طور پر خون کی ضرورت ہے، اس پر مریضہ کے بھائی نے کہا کہ آپ میرا خون لے لیجئے اور مریضہ کو چڑھا دیجئے، ڈاکٹر نے کہا ’’پہلے پیسہ جمع کیجئے، اس کے بعد ہی کچھ ہوگا‘‘ ادھر بھائی اور ماں وغیرہ بہت پریشان، اس لیے کہ مریضہ کی حالت بگڑتی چلی جارہی تھی، بھائی نے کئی بار درخواست کی میرا خون چڑھا دیجئے، پیسہ ہم ادا کردیں گے، لیکن ڈاکٹر تیار نہیں ہوا، مجبورا بھائی والدہ کو لے کر گھر گئے اور پیسوں کا انتظام کرکے کے دوبارہ اسپتال پہنچے، وہاں پہنچ کر ڈاکٹر نے جو خبر دی اس کو کیسے بھائی اور ماں وغیرہ نے برداشت کیا وہ ان کو اور اللہ کو معلوم ہے، ڈاکٹر نے کہا کہ ’’مریضہ اب اس دنیا میں نہیں رہی‘‘  یعنی خون کی کمی اور فوری طور پر خون نہ چڑھانے کی وجہ سے مریضہ اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف چل بسی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، ہم اس دکھ اور درد کی گھڑی میں مرحومہ کی مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کے طلب گار ہیں۔
 اس موقع پر رک کر قارئین خود ہی غور کرلیں کہ یہاں ’’خدمت خلق‘‘ کا جذبہ رکھنے والے ایک انسان نما حیوان نے کیا ’’خدمت‘‘ انجام دی؟ کیا ایسے مواقع پر مال کی قیمت زیادہ ہے؟ کیا ایک شخص کی جان کو چند روپیوں کے عوض بدلا جاسکتا ہے؟ کیا ’’خدمت خلق‘‘ کا فریضہ ادا کرنے والوں کے پاس ’’انسانیت‘‘ بھی نہیں ہے؟ کیا وہ حیوانات سے بھی گیا گزرا ہوگیا ہے؟ بس یہیں پر رک کر ایک بار پھر سے عنوان ’’… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!‘‘ کو دہرا لیں کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے اور آج ترقی یافتہ اکیسویں صدی کس موڑ اور راہ سے گزر ہی ہے؟
 اب تک تو ایسے واقعات بڑے اسپتالوں کے بارے میں سنے تھے، جہاں فوری امداد سے پہلے اتنی خانہ پری ضروری کہی جاتی ہے کہ علاج تک پہنچتے پہنچتے بہت سے انسان اس دنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، لیکن چھوٹے اسپتالوں کے بارے میں ایسے واقعات شاید ہی سننے میں آتے ہیں، وہ بھی ایک ایسا اسپتال جہاں پر بھائی خود بلڈ دے رہا ہے، ڈاکٹر بھی مسلمان اور مریضہ وغیرہ بھی مسلمان، اسی طرح علاقہ بھی ایک، لیکن ان سب سے بہت دور ایک گھٹیا ترین حرص ’’مال‘‘ نے ایک جیتی جاگتی لڑکی کی زندگی چھین لی اوراس کے ورے پورے خاندان بل کہ پورے علاقہ کو شرمندہ کردیا، اور اب یہ احساس ہونے  لگا کہ ’’… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!‘‘ ہے۔
 میں ایسے موقع پر ’’خدمت خلق‘‘ کے دعوے دار اطباء اور ڈاکٹرز سے کہوں گا کہ خدارا انسانیت کو چھوڑ کر بے جان مخلوقات کی فہرست میں مت جائیے، خدا کے لیے انسانیت کو دفن نہ کیجئے، بل کہ صحیح معنوں میں ایک انسان بن کر زندگی گزاریے، اور اس موقع اہل فکر ونظر، علم وعمل اور طاقت واثر سے لیس افراد سے بہت ہی عاجزی کے ساتھ درخواست کروں گا کہ وہ اس صورت حال سے نپٹنے کی کوئی صورت پیدا کریں، کم از کم انسانیت کو دفن ہونے سے بچالیں، ورنہ ہم کل قیامت کے دن خدائے جبار وقہار کو کیا منہ دکھائیں گے۔
 خدا سے دعا ہے کہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ (آمین)
(تحریر: 22/ شعبان 1440ھ مطابق 29/ اپریل 2019ء دوشنبہ بعد نماز عشاء)

وارانسی سے سماج وادی پارٹی نے تبدیل کیا امیدوار، شالنی یادو کی جگہ نریندر مودی کے مقابلے میں اب لڑیں گے تیج بہادر یادو!

وارانسی(آئی این اے نیوز 29/اپریل 2019) وزیر اعظم مودی کے خلاف سماج وادی پارٹی نے اپنا امیدوار تبدیل کردیا ہے، شالنی یادو کی جگہ بی ایس ایف کے معطل شدہ جوان تیج بہادر یادو اب ہونگے اتحاد کے مشترکہ امید وار، آج پرچہ نامزدگی کے آخری دن شالنی یادو اور تیج بہادر یادو دونوں نے اپنا ہرچہ نامزدگی داخل کیا تاہم پارٹی کا کہنا ہے کہ 2 مئی کو شالنی اپنا نام واپس لیں گی اور اتحاد کے امیدوار کی حیثیت سے تیج بہادر یادو کو پارٹی کا انتخابی نشان سائیکل الاٹ کر دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق تیج بہادر یادو نے پارٹی صدر اکھلیش یادو سے ملاقات کی اور مودی کے خلاف لڑنے کی دعویداری پیش کی، تیج بہادر یادو خود ایک سابق فوجی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہار جیت اپنی جگہ مگر ایک اصل بارڈر کے رکھوالے کا جھوٹے چوکیدار کو آئینہ دکھانے کا موقع ملے گا، انھوں نے کہا کہ تقریباً دس ہزار اصلی سابق فوجی جوان اور چوکیدار مودی کی قلعی کھولیں گے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق تیج بہادر کی امیدواری سے اب مودی کو واک ور مل گیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ کانگریس کی حالت کچھ مضبوط ہو جائے۔

سنت کبیرنگر: کانگریس پارٹی کے صوبائی صدر راج ببر کا پروگرام 30اپریل کو!

دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 29/اپریل 2019) خلیل آباد پارلیمانی الیکشن کے چناؤ پرچار میں جہاں دوسری پارٹی کے اسٹار پرچارکوں کی فہرست تیار ہو رہی ہے، وہیں کانگریس پارٹی کے صدر صوبہ اتر پردیش راج ببر سنگھ خلیل آباد پارلیمانی حلقہ کے قصبہ مہولی میں پارٹی کنڈیڈیٹ بھالچند یادو کے لئے عوام سے ووٹ کی سفارش کیلیے ایک عوامی جلسہ سے آئندہ 30اپریل بروز منگل کو خطاب کریں گے۔
سابق ممبر آف پارلیمنٹ بھالچند یادو  کے بیٹے سبودھ چند یادو نے ایک پریس ریلیز میں بتایا کہ راج ببر سنگھ مہولی قصبہ واقع ہنومان گڑھی سے عوامی جلسے سے خطاب کریں گے، انھوں نے بتایا کہ ہر ذات برادری کے لوگوں کا پیار و محبت کانگریس پارٹی کے امیدوار کو مل رہا ہے، جس سے مخالفین حیران ہوکر  پارٹی کے امیدوار پر طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگانا شروع کر دۓ ہیں، جو انکی شکست کی پہچان آنے والی 23مئی کو بنےگی۔
انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جلسے میں شریک ہوں ۔

لال گنج: بسہی اقبالپور میں بعنوان "رمضان المبارک کا اہتمام" پروگرام کا انعقاد!

عبد الرحیم صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
لال گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/اپریل 2019)  لالگنج ترقیاتی بلاک کے تحت موضع بسہی اقبال پور میں بچوں نے ایک پرگرام  بعنوان "رمضان المبارک کا اہتمام" کا انعقاد کیا گیا، پروگرام کا آغاز حافظ محمد آزاد کے تلاوت قرآن پاک سے ہوا، حافظ محمد حبیب نے نعت پاک پیش کیا، حافظ محمد واصب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح انسانی جسم میں قلب ہے اسی طرح قرآن کا قلب سورة یٰسین ہے اور مہینوں میں رمضان المبارک کو وہی اہمیت حاصل ہے، روزہ داروں کے لیے بہت نیکیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ روزے داروں کا اجر خود اپنے ہاتھوں سے دیں گے۔اس لئیے ہمیں اس کے اہتمام کی تیاروں پر لگ جانا چاہیے۔
حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ محمد واصب نے کہا کہ ایک دور تھا جب ہم اس ملک کے حکمران تھے، دنیا کے بیشتر حصوں میں ہماری حکومت تھی، ہم میں جوش ، ولولہ و ایمانی جذبہ تھا اور بقول علامہ اقبال کے۔
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا کا خلیفہ بناکر بھیجا ہے آج ہم کہاں کھڑے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اعمال کا محاسبہ کریں، اپنی آنے والی نسلوں کو دین اسلام پر چلنے والا بنائیں ورنہ اس یہودیت کے دور میں ہم بیدار نہیں ہوئے تو آنے والی نسلیں ہم کو بخشیں گی نہیں.
پروگرام میں رمضان المبارک کے تعلق سے ایک کویز مقابلہ کا بھی انعقاد ہوا، اس مقابلے میں محمد ناصر کا گروپ اول اور محمد ریحان کا گروپ دوسرے مقام پر رہا۔
اس موقع پر مفتی محمد عامر، مولانا محمد ادریس، محمد عاقب، محمد نعمان، محمد محسن، اظہار احمد، نور العین، سمیع اللہ، حافظ محمد ارقم سمیت عوام کی بڑی تعداد موجود رہی۔
پروگرام کی صدارت محمد خالد عرف پپو پردھان نے کی اور نظامت کے فرائض حافظ محمد انس نے انجام دیے۔

مبارکپور: سپا بسپا گٹھبندھن کی ابراہیم پور میں انتخابی میٹنگ!

مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/اپریل 2019) مبارکپور تھانہ علاقہ کے ابراہیم پور میں سپا بسپا گٹھبندھن کی چناوی میٹنگ منعقد کی گئی،جس میں رکن اسمبلی مبارکپور شاہ عالم عرف گڈو جمالی صاحب، سابق وزیر درگا پرساد یادو، شامل ہوئے، میٹنگ میں اعظم گڑھ لوک سبھا سیٹ سے امیدوار سماجوادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو جی کو ووٹ دینے کیلیے اپیل کی گئی.

شاہ عالم گڈو جمالی نے کہا کہ اس چناؤ میں سپا بسپا اور آر ایل ڈی کا ہے، اس میں اعظم گڑھ کی دونوں سیٹوں پر ہمیں ووٹ دیکر گٹھبندھن کو پورے یوپی میں کامیاب بنانا ہے، اس میں اعظم گڑھ سے اکھلیش یادو کو ایک تاریخی جیت دلانی ہے، سبھی ممبر اور کارکنان اس چناؤ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور پارٹی کو کامیاب بنانےکا کام کریں، انہوں نے کہا کہ یہ جیت ہماری ہی نہیں بلکہ دیش کے بنکر، کسان، مزدور اور مظلوم نوجوان کی جیت ہوگی، ہمیں ایک بھائی چارہ، امن و شانتی کا دیش بنانا ہے، جھوٹو، اور گھوٹالے بازوں والی سرکار کو اکھاڑ پھینکنا ہے.
درگا پرساد یادو جی نے کہا کہ اس ملک میں جب سے بی جے پی سرکار آئی ہے، بھارت کا ہر شخص پریشان ہے، کسان خودکشی کر رہا ہے، نوجوان ڈگریا لیکر بے روزگار ہے، یہ سرکار ذات برادری، اور دھرم، مذھب کی سیاسیت کر رہی ہے، لیکن اب یہ نہیں چلے گا، ہر بھارتی جاگ اٹھا ہے، اس سرکار کو گرانے کا کام شروع ہوگیا ہے، آنے والے چناؤ میں جنتا سبق سکھائے گی.

جین پور: پانچ کلومیٹر تک کی گیہوں کی فصل جل کر خاک!

جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/اپریل 2019) جین پور تھانہ جو کہ تحصیل سگڑی کے علاقہ میں واقع ہے، علاقہ کے زمین ہر کھوری گاؤں میں گیہوں کی فصل تقریباً 11 بجے صبح سے لگ بھگ تین گھنٹہ میں پانچ کلومیٹر میں واقع گیہوں کی فصل جل کر خاک ہوگئی، اس میں زمین ہر کھوری گاؤں سے لیکر چوکو، اما پار تک گیہوں کی فصل کاٹ کر کسانوں نے رکھا ہوا تھا، مشین کا انتظار تھا.
وہیں گاؤں کے لوگوں نے اس شدید آگ کو بڑی مشقت سے قابو کیا، فائر بریگیڈ کو اطلاع دی گئی لیکن وہ تین گھنٹہ بعد پہنچی، جب تک دیہی لوگوں نے آگ کو قابو کر لیا تھا، فائر بریگیڈ کی تاخیر سے پہنچنے پر لوگوں نے انتظامیہ سے ناراضگی کا اظہار کیا.

Sunday 28 April 2019

مسلم سیاسی پارٹی ملک کے مسلمانوں کے لئے مضر یا مفید؟

از قلم: محمد سالم ابوالکلام شکیل آزاد
ــــــــــــــــــــــــــ
الیکشن کا وقت آتے ہی برساتی مینڈکوں کی طرح سیاسی پارٹیاں سامنے آجاتی ہیں اور ہر قسم قسم کے ایشوز اٹھا کر مسلمانوں کے ووٹوں کو بکھیرنے کی بھر پور کوشش کرتی ہیں ملک کی آزادی کے بعد سے آج تک کے اس طویل عر صے میں مسلمانوں نے کیا کھویا کیا پایا اور انہوں نے جس قدر قربانیاں آزادی حاصل کرنے میں پیش کی تھیں اس کے عوض ان کو کیا کچھ ملا وہ بالکل ظاہر اور عیاں ہے نصف صدی سے زیادہ طویل مدت کے دوران تمام سیاسی پارٹیوں بلخصوص کانگریس نے مسلمانوں کو اپنی منافقانہ سازشوں کے تحت گمراہ کیا اور ہمیشہ عام انتخابات کے موقع پر ان کو بہلایا لیکن بر سر اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی اقتصادی اور مختلف پہلو وں پر توجہ دی وہ مسلمانوں کی موجودہ پسماندگی اور سیاسی بے وزنی سے ظاہر ہے یہ ہند وستان امن وآشتی کا گہوارہ  سمجھا جانے والا ملک ہند وستان دھیرےدھیرے سیاسی شعبدہ بازیوں میں پنھس کر جس انداز میں اپنے وقار و تخشص کو کھو رہا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ہر سطح پر لوگوں کے اپنے اپنے مفاد و دیمک کی طرح اس ملک کو چاٹ رہے ہیں آزادی کے بعد تو محض تعصب کی مسموم ہوائوں نے اسے کئی خانوں میں پہلے ہی منقسم کر دیا اب مزید اس میں دیوارے اٹھنے کے امکانات نظر آرہے ہیں،
انگریزوں کو بہلے ہی ہند د وستان سے مسلمانوں نے بھگا دیئے لیکن ان کا فارمولہ نفرت پھیلا ئو اور حکومت کرو بہت حد تک کامیاب نظر آرہاہے مستقبل کا مئورخ اس دور کے سورمائوں کو کیا لکھے گا یہ تو کہنا قبل از وقت ہوگا تا ہم آثار و قرائن بہت سارے حقائق واضح کر رہے ہیں کاش اس ملک کے با شعور لوگ ذات پات کی سیاست سے اوپر اٹھ کر خا لص اس وطن عزیز  کی بقاء اور تحفظ کی فکر کرتے  لیکن جس کسی کو دیکھئے اپنے اپنے اسٹیج  سے مفاد کی روٹی سینک رہے ہیں انسانیت کی زبان بولنے والا کوئی نظر نہیں آتا ہے تعصب ناگ بن کر ہر کسی کو ڈستا جائے گا قوموں کے انحتاط و زوال کی ایک بڑی وجہ انسا نیت کے تقاضہ کو یکسر فراموش کرنا بھی رہی ہے جب لوگ محض ذاتی منفعت کے حصوں کے لئے کوشاں ہوتے ہیں تو تباہی مقدر بن کر رہ جاتی ہے اور کامیابی اپنا دامن سمیٹ لیتی ہے اگر ہماری نمائندگی جب تک وسیع پیمانے پر پار لیمنٹ کے ایوانوں میں اور ریا ستی اسمبلیوں میں نہیں ہوگی ہم ایسے ہی ستائے جاتے رہیں گے.

اعظم گڑھ: آزاد امیدوار کا کوئی خاص وجود نہیں ہے پھر بھی آزاد امیدوار کی تعداد بڑھی!

حافظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/اپریل 2019) ضلع اعظم گڑھ کے دو لوک سبھا نشستیں اعظم گڑھ صدر و لال گنج محفوظ ہیں کبھی بھی کوئی خاص وجود آزاد امیدوار کا نہیں ہے، اس کے باوجود بھی گزشتہ چند سالوں میں آزاد امیدواروں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے، 2019 کے لئے دونوں نشستوں کے نامزد ہونے اور نامزد واپسی کے بعد، 2014 کے مقابلے میں آزاد امیدوار اس بار زیادہ ہیں.
اعظم گڑھ صدر لوک سبھا کے نشست کے لئے 2014 کے انتخابات میں پانچ امیدواروں نے آزاد امیدوار کے طور پر نامزد کیا تھا، جس میں ووٹوں کی تعداد کسی بھی امیدوار کی پانچ ہزار کو نہیں پہنچی، شمشاد احمد نے 2014 کے مقامی امیدواروں میں 4875 ووٹ حاصل کیے، پرمود سنگھ نے 3752، سنجے چوہان 3517، رام سنگھ چوہان 2507 اور سوگریو چوہان 1882 ووٹ حاصل کیے، اب 2019 کی لڑائی شروع ہوئی ہے، اس انتخاب میں چھ آزاد امیدواروں نے پرچہ نامزد کیا ہے، جن میں گورکھ رام نشاد، گورو سنگھ، بھدیرام، راجارام گونڑ، راجیو پانڈے اور راجیو تلوار شامل ہیں.
 لالگنج محفوظ سیٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یہ نشست بھی آزاد امیدواروں کیلیے کوئی خاص نہیں ہے، 2014 لوک سبھا کے انتخابات میں تین آزاد امیدواروں نے اس حلقے میں دعوی کیا ہے اور کوئی امیدوار 5000 تک ووٹ نہیں حاصل کرپایا، اچھے لال نے 4536 ووٹ حاصل کیا، جنگ بہادر نے 3307 ووٹ اور اودھیش نے 2129 ووٹ حاصل کیے.
اب 2019 کے انتخابات میں اس حلقے سے بھی آزاد امیدوار میدان میں ہیں، اس نشست پر بھی گزشتہ کے بنسبت ایک امیدوار زیادہ ہے، اس وقت اکھلیش، رامچندر، سنتوش اور سبھاش سرج کے نام شامل ہیں، جنہوں نے آزاد امیدواروں کے طور پر پرچہ نامزد کیا ہے.

Saturday 27 April 2019

شعبان المعظم استقبال رمضان المبارک کا مہینہ: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

رمضان المبارک اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم الشان نعمت ہے!
محمد فرقان
ـــــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 27/اپریل 2019) شعبان المعظم ہمارے سر پر سایہ فگن ہے، جو برکت والا مہینہ ہے۔ماہ شعبان درحقیقت استقبال رمضان کا مہینہ ہے۔آقا دوعالم ﷺ رمضان المبارک کا استقبال انتہائی شوق و محبت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔رمضان المبارک کو پانے کیلئے رجب المرجب سے ہی دعاؤں کا اہتمام اور شعبان آتے ہی کثرت سے روزوں کا اہتمام فرمایا کرتے۔لیکن افسوس کہ آج ہمارے دل و دماغ میں استقبال رمضان کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار معروف عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ جس طرح آقائے دوعالم ﷺ رمضان المبارک کا استقبال کیا کرتے تھے ہمیں بھی اسی طرح رمضان کا استقبال کرنا چاہئے۔کیونکہ رمضان کا مہینہ انتہائی عظیم مہینہ ہے۔اس کے آنے سے پہلے ہمیں اپنے ذہن و دماغ میں رمضان کی عظمت کو پیوست کرلینا چاہئے۔تاکہ جب رمضان میں داخل ہوں تو غفلت، سستی، بے اعتنائی، ناقدری، ناشکری، احسان فراموشی اور صیام و قیام سے بے رغبتی کے اوصاف رذیلہ پیدا نہ ہوں۔ رمضان المبارک جہاں اللہ کا مہمان ہے وہیں اس کی طرف سے ایک عظیم الشان نعمت بھی ہے، اس کی قدر کرنا ہمارا فرض ہے۔مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے معاشرے میں اعمال صالحہ کی فضا قائم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کریں، نماز و روزہ، ذکر و تلاوت اور دعاؤں کا اہتمام فرمائیں۔تاکہ رمضان المبارک آنے سے پہلے ہمارا ظاہر اور باطن پاک و صاف ہوجائے۔نیزفرمایا کہ رمضان سے پہلے رمضان المبارک کے مسائل مثلاً روزہ، تراویح، زکوٰۃ، اعتکاف، صدقۃ الفطراور دیگر احکامات ابھی سے سیکھیں۔اسی کے ساتھ اپنانظام الاوقات مرتب کریں۔ مولانا شاہ قاسمی نے فرمایا کہ رمضان المبارک میں اپنے تمام تر مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر صرف عبادت و ریاضت میں گزاریں۔کیونکہ رمضان المبارک رحمت،مغفرت، جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔ جس میں نفل کاثواب فرض کے برابر ملتا ہے اور فرض کا ثواب ستر گنا ملتا ہے۔مولانا نے ایک اہم مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عید کیلئے جو کچھ بھی خریداری کرنی ہو وہ رمضان سے پہلے کرلیں تاکہ رمضان المبارک کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔شا ہ ملت نے فرمایا کہ رمضان المبارک کی تیاریوں کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ سے رمضان المبارک کی روحانیت و برکات کے حصول کیلئے دعائیں مانگیں۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے کہا کہ ہر سال رمضان آتا ہے اور چلا جاتا لیکن کامیاب اور عقلمند شخص وہی ہے جسے رمضان المبارک جیسی عظیم نعمت ملی اور اس نے اپنی آخرت سنوارلی۔

بزم شبلی طلبہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کا سالانہ پروگرام و تقریب اعزاز اچھی بات سوشل میڈیا 29 اپریل کو ہوگا منعقد!

سراۓ میر/ اعظم گڈھ(آئی این  اے نیوز 27/اپریل 2019) مشہور ٹیکنکل ادارہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اور سوشل میڈیا میں اپنی منفرد حیثیت رکھنے والے اچھی بات سوشل میڈیا کا سالانہ پروگرام 29 اپریل بروز دوشنبہ بعد نماز مغرب متصلا مدرسة البنات فیض العلوم نزد رہاٸش گاہ مفتی اشفاق احمد اعظمی چوک سراۓ میر اعظم گڈھ میں منعقد ہورہا ہے .
اس پروگرام میں اچھی بات سوشل میڈیا کی طرف سے مختلف طرح کے آن لاٸن پروگرام میں شرکت کرنے اور اعلی کامیابی حاصل کرنے والے تمام شرکاء کو اعزاز دیا جاۓ گا اس کے علاوہ بزم شبلی کے طللبہ مختلف طرح کے پروگرام پیش کریں گے.
” تاریخ کا سفر“ بعنوان
وقت کی اہمیت
”مزاحیہ دلچسپ شاندار مکالمہ “ بعنوان
فیملی ڈسپلین کا سوساٸٹی پر اثر
” علمی ، ادبی بیت بازی “
”پانچ کی آواز “ بعنوان
الیکشن اور ہمارا ووٹ
” پراٸم ٹاٸم “ بعنوان
آج کا نوجوان مایوس کیوں ؟
اس کے علاوہ دو عمومی کوٸز
” عنوان اول “
آپ صلی اللہ کی  مکی زندگی
”عنوان ثانی “
اعظم گڈھ تاریخ کے آئینے میں
اس کے علاوہ پروگرام کے آخیر میں علماء کرام سیاسی و سماجی شخصیات کا خطاب بھی ہوگا، آپ سے شرکت کی پر خلوص درخواست ہے.

اعظم گڑھ: بیریڈیہہ گاؤں کے محمد یعقوب عرف پپو کو نامعلوم بائک سوار نے رات میں ماری گولی، موقع پر موت!

دیوگاؤں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/اپریل 2019) اعظم گڑھ کے دیوگاؤں تھانہ علاقہ کے بیریڈیہہ گاؤں رہائشی محمد یعقوب عرف پپو کے چچازاد بھائی محمد رضوان ولد ممتاز احمد سے گاؤں کی ہی ایک شخص سے کسی  بات کو لیکر کہا سنی ہوئی تھی، بروز جمعہ کو رات تقریباً نو بجے محمد یعقوب ولد امتیاز احمد گاؤں سے باہر
کہیں کسی کام سے گئے ہوئے تھے، واپس ہوتے وقت گھر سے تقریباً 50 میٹر کی دوری پر بائک سوار نامعلوم لوگوں نے گولی ماردی، جو اس کے پیٹ میں لگی، گولی کی آواز سن کر پڑوس کے لوگ پہنچے، زخمی حالت میں لوگوں نے اسپتال کا رخ کیا راستے میں ہی موت ہوگئے.
اطلاع پاکر پولیس پہنچی، لاش کو قبضہ میں لیکر پوسٹ مارٹم کیلیے بھیج دیا، اس واقعے سے گاؤں میں سناٹا چھا گیا، خبر لکھے جانے تک میت کے اہل خانہ کیطرف سے کوئی تحریر نہیں ملی تھی.

انتہائی مقبول درس!

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
درس کی مقبولیت کے چرچہ توخوب سنیں ہوگے، کہ فلاں کوافہام وتفہیم کاجادوئی ملکہ ہے، توفلاں مدرس دوران اس طرح مفید باتیں بیان کرتاہے، کہ طلباء پوری توجہ استاذ کی طرف رکھتے ہیں، ادھر ادھر تانک جھانک نہیں پایا جاتا، لیکن موجودہ زمانے میں گرتے تعلیمی معیار اور شوق ورغبت کے شدید فقدان، ایسے وقت میں اگر درس کاتذکرہ کیاجائے، کہ درس سے ۸ گھنٹہ پہلے ہی لوگ درس میں جگہ لینے کے لئے پوری کوشش کریں، ۸ یا۹ گھنٹہ پہلے ہی درس کے لئے آجائیں اور نششت کوحاصل کرنے میں ایک دوسرے میں سبقت کریں، ایسا موجودہ زمانے میں میں نہیں سمجھتا کسی کااتنا مقبول درس ہوگا، اور درس میں جگہ پانے کے لئے یہ کیفیت پائی جاتی ہو، ایشیا کی عظیم یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے کااتفاق ہوا، بہت سے اساتذہ کے درس کی مقبولیت توتھی، لیکن اس نوعیت کی مقبولیت تودیکھنے میں نظر نہیں آئی،
موجودہ زمانے کے طلباء کے لحاظ سے اتنا ہی کافی ہے، گھنٹہ کے وقت بچہ درسگاہیں چلے آئیں،جس اساتذہ کے درس میں زیادہ بچہ شریک ہوجائیں ان کامقبول سمجھاجاتا ہے، اکثر بچہ آپ کے درس میں پہنچیں اس کے لئے درس کاانداز افہام وتفہیم، اور تحقیق سے لبریز ان تمام چیزوں کااہم رول ہوتا ہے، یہ بات ہے ان اسباق کی جو بڑے بڑے مدارس میں ہوتے ہیں، کثرت طلباء کی وجہ سے حاضری وغیرہ وقتا فوقتا ہوتی ہے، مثلا دورہ حدیث شریف وغیرہ، اگر بات کی جائے ابتدائی درجات توان میں توشرکت تمام طلباء کی لازمی ہوتی ہے، وہ انوکھا درس جس کے درس میں ۸ یا ۹ پہلے سے ہی لوگ درس کے کے لئے آناشروع ہوجاتے تھے، اور اپنی نششتیں پانے کے لئے دوسرے سبقت کرتے تھے، عالم اسلام کے مایہ ناز عالم دین مؤرخ مفسر فقیہ محدث، علامہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کاتھا، علامہ رجب حنبلی رحمہ اللہ نے طبقات حنابلہ میں لکھا ہے کہ عصر کی نماز کے بعد ابن الجوزی درس دینے آتے تھے، تولوگ چاشت کے وقت سے آنا شروع ہوجاتے تھے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے،عرفہ کے روز باب بدر جگہ پر درس کاارادہ فرماتے توسحری کے وقت سے ساری جگہیں لوگوں سے بھرجاتی جب صبح صادق ہوتی توکسی کوراستہ نہ ملتا، جب درس سن کر آتے توہر طرف لوگوں کاہجوم ہوتا، کثیر مجمع ہوجاتا.
سبحان اللہ یہ ہے درس کی مقبولیت، علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ جیسا بڑا واعظ دنیا نے نہیں دیکھا، جب جوان تھے تبھی سے وعظ کہتے تھے، ان کے ہاتھوں پر ایک لاکھ لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ لوگوں نے توبہ کیا، ان کی وعظ کی مجلس میں 70, 70ہزار لوگ بیک وقت شریک ہوتے تھے، جس کادرس اتنا مقبول ہو کہ ۱۰ گھنٹہ پہلے ہی لوگ جگہ لینے کے حاضر ہوجائیں تویقینا وہ درس کیسا رہاہوگا کیاکیفیت رہی ہوگی، کس قدر تحقیقی رہا ہوگا، افہام وتفہیم کاکیاملکہ رہاہوگا، اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کوروحانی علم سے نوازے...آمین

نشے کی حالت میں تین نوجوان گرفتار!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/اپریل 2019) سرائے میر تھانہ علاقہ کے نکی پریس کے پاس سے بائک سوار تین نوجوان کو پولیس نے دبوچ لیا، تینوں نوجوان نشے میں چُور تھے، اور کسی واقعہ کو انجام دینے کے فراق میں تھے، پوچھ تاچھ سے معلوم ہوا کہ تینون کسی لٹیرے گروپ کے ممبر ہیں.
معلوم ہو کہ گزشتہ دن علاقے کی پولیس فورس وزیر اعلیٰ کی یوگی آدتیہ ناتھ جی کے پروگرام میں تعینات تھی، تھانے پر بس کمپیوٹر آپریٹر و کچھ خواتین سپاہی موجود تھی، تبھی کرول روم سے اطلاع ملی کہ تین لٹیرے پھولپور کی طرف سے سرائےمیر آنے والے ہیں، جو کسی بڑے واقعہ کو انجام دینے کے فراق میں ہی‍ں، اس اطلاع سے پولیس کے ہاتھ پیر پھول گئے، کیونکہ اس وقت تھانے کی پوری فورس وزیر اعلیٰ کے پروگرام میں تعینات تھی.
کنٹرول روم کی اس خبر سے پولیس نے قصبہ میں واقر سبھی صرافہ تاجر، بیوپاریوں، و بینک مجنیجروں کو خبر کر سخت سیکورٹی کی ھدایت دے دی، ادھر فورس پروگرام سے سرائے میر روانہ ہوگئی، قصبہ میں پہنچتے ہی کچھ سپاہیوں کو سادی وردی میں جگہ جگہ تعینات کردیا گیا، وہیں پراری گنج میں چیکنگ بھی شروع کر دی، تبھی اپاچی گاڑی سے تین نوجوان آتے ہوئے دکھائی دیے، پولیس ٹیم کو دیکھ انہوں نے گاڑی کی رفتار تیز کردی، پولیس نے پیچھا کر تینوں کو دبوچ لیا، تینوں نشے کی حالت میں تھے، پولیس نے تینوں کو تھانے لے آئی، اور پوچھ تاچھ میں لگ گئی.
پکڑے گئے تینوں افراد نے اپنا نام اروند بیٹے سنت لال، سندیپ بیٹے نند لال رہائشی لسڑا خرد تھانہ دیدار گنج او بٹو بیٹے پھولچند رہائشی گوٹھاؤں  تھانہ بردہ بتایا ہے.

Friday 26 April 2019

مسلمانوں کے حالات کیلئے حکومت اور مسلمان دونوں ذمہ دار!

تحریر شمش الدین نورالدین
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 بھارت میں انتخاب جارہی ہیں  اور ہر بار کی طرح اب بھی مسلم تنظیمیں اور خاص طور سے بھارت کے مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ ان کی بات کو سننے والا کوئی نہیں ہے اور انھیں صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے .
         ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ تقسیم ہند کے 70 برس بعد بھی کیا مسلمانوں کا کوئی لیڈر ایسا ہے جو ان کی نمائیدگی کرتا ہو اور جس کی شخصیت اور سیاسی تصویر بھارتی مسلمانوں کے حالات بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکیں .
   بھارت میں  بیشتر مسلمان نوجوانوں کا خیال ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی میں وہ اپنے آپ کو بہت پیچھے پاتے ہیں اور جوبھی حکومت آئی  اس نے ان کے اصل بنیادی مسائل کے حل کا صرف وعدہ کیا لیکن اس کو کبھی پورا نہیں کیا   وہ نہیں سمجھتے کوئی مذہبی تنظیم یا کوئی مسلم لیڈر ان کی نمائندگی کرسکتا ہے تو وہ ایسے رہنماکی تلاش ہے جوسیکولر ہو اور جو سبھی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی ملک کی ترقی کا حصہ بنائے .
      جمعیت علمائے ہند اور تمام مذہبی تنظیموں نے گزشتہ 70 / 75 برس میں مسلمانوں کی شناخت کو بچانے کا کام کیا ہے کسی بھی قوم کیلئے اس کے شناخت کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے .
         لیکن سوال یہ ہے کہ شناخت بچانا تو ایک بات ہوئی  لیکن مسلمانوں کے مسائل کا حل دوسری بات ہے .
     اس ملک میں تو ہندؤوں کا بھی کوئی ایک لیڈر نہیں  ہے اور مسلمانوں کے جو لیڈر تھے وہ بھی تو پاکستان چلے گئے تھے .
        2007 میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کی گئی سچرکمیٹی کی رپوٹ میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ بھارت کے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے سب سے پیچھے ہیں  اس رپوٹ کے آنے کے بعد بھی اس کی سفارشات پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ 
      ا س کیلئے حکومت اور مسلمان دونوں ہی ذمہ دار ہیں  مسلمان خود کچھ نہیں کرنا چاہتے  حکومت کا کام ہے مسلمانوں کی مدد کرنا لیکن مسلمان چاھتے ہیں سب کام حکومت ہی کرے کتنی قومیں ہیں جنھوں نے اپنے تعلیمی ادارئے بنائے  سیاست میں شامل ہوئی بغیر قوم کیلئے کچھ بھی نہیں کرسکتے اور سیاسی پارٹیاں انھیں صرف اپنے مفاد کیلئے استعمال کرتی ہیں .
     23 تاریخ کو بھارت کی نئی حکومت کا فیصلہ ہوجائےگا اور نئی حکومت کو ملک کے دیگر مسائل کے علاوہ مسلمانوں کے مسائل اور ان کے اعتمادکی بحالی کے چیلنج کا بھی سامنے ہوگا ایسے میں کیا توقعات وابستہ کی جائیں .
     اس وقت ملک کو سیکولر لیڈرشپ کی ضرورت ہے چاہئے وہ ہندو ہو یا مسلمان  اگر مسلم لیڈرشب سامنے آتی ہے تو اس سے خطرہ ہے کہ معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم شروع ہو جائے گی.

جیسی کرنی ویسی بھرنی...!

از قلم -: اجوداللہ پھولپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج انسان جن پریشانیوں سے گزر رھا ھے وہ روز روشن کی طرح عیاں ھیں سب اپنی پریشانیوں میں الجھے ھوئے اپنے اپنے طریقہ سے سکون حاصل کرنے اور پریشانیوں کا حل ڈھونڈھنے میں خود کو لگائے بیٹھے ھیں کسی کو عزت و عظمت کی شکل میں سکون کی تلاش ھے تو کسی کو جاہ و مرتبہ کی صورت میں، کوئی سکون کی تلاش میں اعزہ و اقارب سے نالاں ھے تو کوئی امارت و حکومت کیلئے کوشاں غرضیکہ سب اپنے اپنے طور پر از خود مرض کی تشخیص کر اسکی دوا اور سکون تلاشنے میں سرگرداں ھیں کسی کو لگتا ھیکہ اصل سکون تو منصب یا عہدہ میں ھے لیکن جب وھی منصب کا حامل ھوجاتا ھے تو احساس کرتا ھیکہ یہ تو سکون سے خالی ھے بلکہ منصب کے چھن جانے کا خوف سکون کو اور غارت کرجاتا ھے .
کسی کو لگتا ھیکہ دولت کی ریل پیل ھی سکون کا اصل خزانہ ھے پر جب مالداروں کی زندگی کو قریب سے دیکھتا ھے تو احساس کرتا ھیکہ انکی زندگی تو تفکرات اور اندیشوں کی بحر بیکراں ھے ھل من مزید کی حرص اور مال موجودہ میں نقصان کے اندیشوں نے انکے چین و سکون کو غارت کر رکھا ھے الا ماشاءاللہ کسی نے دائمی نقصان کو گلے لگاکر رقص و سرور اور منشیات میں عارضی سکون تلاشنے کی کوشش کی پر سب اکارت غرضیکہ سب نے سکون کی منزل پانے کیلئے اپنی من چاھی سمت میں گھوڑ سواری کی پر سکون کی منزل ان سے کوسوں دور رھی اور کیونکر نہ ھو.؟
شریعت و سنت سے ھٹ کر سکون کی تلاش اور اسکا پالینا کسی بھی صورت ممکن نہیں سکون کا حصول اور مصیبتوں و پریشانیوں سے نجات کا واحد راستہ صرف اور صرف یہی ھیکہ بندہ اپنے آپ کو شریعت و سنت کے حوالہ کردے اور خود کو خطاوار و گنہگار سمجھتے ھوئے دربار الہی میں پیش کردے معصیتوں و گناھوں کو ترک کرتے ھوئے سابقہ غلطیوں پر ندامت کا اظہار کر اپنے رب کو راضی کرلے جائے بس یہی ایک راستہ ھے جو سکون کی منزل تک پہونچا سکتا ھے کیونکہ سکون و راحت تو رب کی ملکیت ھے جب وہ راضی ھوجائیگا تو اپنی ملکیت میں آپکی حصہ داری لگا دیگا
ھر صاحب علم و عقل اس بات سے اچھی طرح واقف ھے کہ کوئی بھی عمل خواہ وہ اچھا ھو یا برا اپنے اندر ایک اثر رکھتا ھے اور وہ اثر انسانی زندگیوں میں کافی دخیل ھوتا ھے پیش آنے والے حالات اچھے یا برے عمل کے رد عمل کو اپنے ساتھ سمیٹے ھوئے ھوتے ھیں آج ھر انسان پیش آمدہ واقعات کو صرف ظاھری سبب سے جوڑکر دیکھتا ھے جسکی وجہ سے وہ اسکا حل بھی ظاھری چیزوں میں تلاش کر رہ جاتا ھے بلا شبہ ظاھری اسباب پر غور و فکر کرکے پیش آمدہ واقعات سے خود کو بچانا ھم سب کی ذمہ داری ھے پر بحیثیت مسلمان ھمیں اس سے آگے بھی سوچنے سمجھنے کی ضرورت ھے اور اس یقین کو آگے لانے کی ضرورت ھے جو ھمیں بتلاتا ھیکہ دنیا کا کوئی پتہ بھی بغیر حکم الہی اور اذن خداوندی کے جنبش نہیں کرسکتا وحی الہی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احکام کو یاد کرنے کی ضرورت ھے جو ھمیں یقین دلاتا ھے کہ دنیا کا کوئی بھی خوبصورت واقعہ اور بدترین حادثہ بغیر رب کی مرضی کے واقع نہیں ھوسکتا...!
رب کریم کا حالات و واقعات کو انسانی احوال سے جوڑنا مصلحت ھی نہیں بلکہ دنیاء انسانی پر عظیم احسان بھی ھے اسلئے کہ خوشی و غمی فقیری و تونگری صحت و بیماری ایسی کیفیت ھوتی ھے جو انسان کو متنبہ کرتی ھے اور رجوع الی اللہ و خود محاسبی کی دعوت دیتی ھے
ماضی میں مختلف قوموں پر پیش آمدہ واقعات کا حاصل اور نچوڑ نکالا جائے تو حاصل نچوڑ پوری قوت سے اس بات کو واضح کرتا ھیکہ مالک الملک کی نافرمانی ھی وہ واحد عمل ھے جس نے قوموں کے لئے عذاب کو دعوت دی، قوموں کی صورتوں کا مسخ کیا جانا انہیں دریا و زمین برد کیا جانا یہ سب نافرمانیوں کا ھی نتیجہ ھے جسکی زبان حال سے شھادت دینے کو آج بھی موجودہ کھنڈرات موجود ھیں خود شریعت کاملہ نے بارھا انسانوں کو انکی بدعملیوں کے برے نتائج سے آگاہ کرتے ھوئے باز رھنے کی تلقین کی ھے مگر افسوس سکون کا متلاشی انسان اپنی حرکتوں سے باز آنے کو تیار نہیں جب کہ قرآن کا واضح اعلان ھے
”وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْمیٰ“․ (طہ:۱۲۴)

ترجمہ:”اور جو شخص میری نصیحت سے صرف نظر کرے گا تو اس کے لیے (دنیا و آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔“
آیت کا مطلب صاف اور واضح ھے جسکی زندگی نافرمانیوں کا محور اسکی دنیا بھی تنگ اور آخرت بھی، بھلے ھی اسکا ظاھر مال و دولت عزت و منصب سے ھی کیوں نہ سجا ھو اگر نافرمانی ھے تو وہ پریشانی کاسبب بنے گی فرمانبرداری اور اطاعت کو اپنی زندگی میں جگہ دو اور سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے چلے جاؤ

”وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)

ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے حاصل شدہ کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) کو تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“
آیت قرآنی صاف اشارہ کرتی ھیکہ مصیبت و پریشانی کی جڑ اور آفات و بلیات کے آنے کا سبب کچھ اور نہیں بلکہ ھمارے اپنے ھاتھوں سے کئے گئے اعمال کا ثمرہ ھے اگر برے اعمال نہ ھوں تو مصائب و آلام کا ھماری زندگی میں گزر بھی نہ ھو مصائب و آلام اپنی کسی بھی شکل میں ظاھر ھوسکتا ھے چاھے وہ عائلی جدل ھو یا بیماریوں کا حملہ سیاسی قیادت کا بحران ھو یا سیاست دانوں کی مار سب کا وجود نافرمانیوں کی رھین منت ھے
قرآن کریم نے جہاں غیر سکونی اور پریشانی کا سبب بیان کیا ھے وھیں اسنے اسکے حل کی طرف بھی رھنمائی کرتے ھوئے مشکل آسان فرمائی ھے قرآن کہتا ھے
”وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ“․(ہود:۵۲)

ترجمہ:”اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو“۔

سوچ لیں آپکی پریشانیاں آپ پر ھویدا ھیں قرآن کریم کا دکھلایا نجات و سکون والا راستہ بھی آپکے سامنے ھے رمضان کریم جیسا برکتوں رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ بھی آپکی دسترس میں ھے آنسؤں کا سیلاب آپکی پریشانیوں کو بہاکر آپ سے دور کرسکتا ھے اگر آپ کی آنکھیں سیلاب سے خالی ھیں تو بھی مسئلہ نہیں رب کے دربار میں ندامت کے چند قطرہ بھی سیل رواں کی مانند گناھوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لیجا سکتے ھیں چند قطرہ بھی نہ ھوں تو رونی صورت بنالیں بڑے مالک کا دربار ھے خالی واپس لوٹاکر مایوس نہیں کرینگے بس دامن پھیلانے کا سلیقہ سیکھ لیں گناھوں کے چھوڑنے کا ارادہ بنالیں اللہ تعالی ھم سبکو معاف کرے اور ھمیں دنیا و آخرت میں عزت والی زندگی نصیب فرمائے اور امت کی کھوئی ھوئی بہار رفتہ کو واپس لوٹائے ظالم حکمرانوں کو راہ ھدایت سے آشنا فرمائے اور انصاف پسندوں کو حکمرانی عطاء فرماکر ملک کو شاد و آباد رکھے
ایں دعاء از من و از جملہ جہاں آمین باد.!

تکبر و بڑکپن کی کہانی دلائل کی زبانی!

ذیشان الہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      تکبر،کبر، غرور، بڑکپن، گھمنڈ اور دیکھاوا یہ اور اس جیسے بہت سارے  الفاظ لغت میں ہیں جو بدنام الفاظ کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی انسان کی فکر و شعور پر حاوی ہوگیا تو اس شخص کی زندگی اس درخت کے مانند ہوجاتی ہے جو بظاہر تو تناور درخت ہوتا لیکن اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے اور آندھی آکر اسے "کانہ اعجاز نخل خاویۃ "کی عملی تصویر بنا دیتی ہے ۔
         تکبر اور بڑکپن کی تاریخ ابلیس لعین سے شروع ہوتی ہے جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو بنایا اور ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا(فاسجد لآدم) تب ابلیس کے اندر برکپن اور تکبر نے جنم لیا اور اس کے بعد اس نے جو کام کیا اس کو قرآن یو بیان کرتا ہے "فابی واستکبر و کان من الکافرین "کہ اس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا اور وجہ انکار قرآنی برہان کے مطابق یہ تھی "خلقتنی من نار "کہ اے اللہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا۔تو چونکہ آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایا تھا اس لئے ابلیس اپنی شخصیت کو اعلی و بالا سمجھا اور سجدہ سے انکار کیا ۔چنانچہ اس تکبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی نے ان کے سارے اعمال صالحہ کو نیست و نابود کردیا ۔
     ابلیس کی شخصیت سے ابتدا ہونے والی یہ صفت رفتار زمانہ کے ساتھ چلتی رہی کبھی اس کی وجہ کر طوفان نوح آتا ہے اور نوح علیہ السلام کا خود کا بیٹا اس میں اس صفت کی وجہ کر غرق ہوجاتا ہے تو کبھی نمرود، فرعون، شداد، ہامان اور قارون جسے بڑے بڑے تکبر و برکپن والی سلطنت کی اللہ نے اینٹ سے اینٹ بجادی ۔کبھی فصاحت و بلاغت کے ٹھیکداروں کو اپنی عربی زبان دانی پر تکبر و غرور ہوا تو اللہ نے "فاتوا بسورۃ من مثلہ "کہہ کر چیلنز کیا کہ اگر تمہیں اتنی عربی آتی ہے اور تمہیں عربی لسان و زبان کے اندر مہارت تامہ حاصل ہے تو تم قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا کر دیکھا تو لیکن ان سقراط اور بقراط کے جھوٹے رشتہ داروں نے اپنی پوری صلاحیت صرف کردی مگر ایک آیت نہ بنا سکے تب قرآن نے ان کی فصاحت و بلاغت اور جھوٹی زبان دانی کا پول کھولتے اعلان کیا "قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتوابمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیرا "کہ اگر پورے انسان اور جن اس بات پر متفق ہوجائے کہ وہ قرآن جیسی کوئی کتاب لے آینگے مگر وہ پھر بھی نہیں لا سکتے گرچہ وہ ایک دوسرے کے حامی و مددگار کیوں نہ بن جائے ۔توکبھی ابوجہل اور ابولہب کی دردناک موت اور 313 کے مقابلہ میں 1000 کو رسواء اور ذلیل ہونے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تکبر اور برکپن دراصل اس کینسر کی مرض ہے جو انسان کو لگ جائے تو اس کا رام رام ستیہ ہوجاتا ہے ۔
       تکبر اور بڑکپن کی دردناک تاریخ کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے باوجود آج کل ہمارے سماج و معاشرے میں بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جن میں سے کوئی اپنی دولت پے فخر کرتا ہے تو کوئی اپنی سلطنت پے  ۔کوئی اپنے علم پے فخر کرتا ہے تو کوئی اپنی فصاحت و بلاغت والی جھوٹی زبان پر  لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سب چیزیں ایک چھاؤں کی مانند ہے جس نے کسی سے کبھی بھی وفا نہیں کی کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے لوگ سمندر کی بھنور سے پیدا ہونے والی اس چھاگ کے مانند ہے جسے اللہ رب العالمین جب چاہتا ہے اسی بھنور میں ڈبو دیتا ہے ۔
اس لئے میں اس مضمون کے مد نظر  تمام قارئین سے کہنا چاہونگا کہ آپ اپنے دل و دماغ سے تکبر اور برکپن کا وائرس نکال دے کیونکہ عزت، شہرت، دولت ، سلطنت اور علم یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا اسے عنایت کرتا ہے ۔اس لئے آپ کبھی بھی اپنے آپ کو زیادہ عزت دار، زیادہ شہرت کا مالک، زیادہ فصیح و بلیغ، زیادہ لسان و زبان پر کنٹرول، زیادہ قابلیت و صلاحیت کا مالک جیسے تکبرانہ بات کہہ کر دوسروں کو نیچا دیکھانے کی کوشش نہ کرے ۔اگر آپ کے پاس یہ ساری چیزیں ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرے کہ انہوں نے آپ کو ایسی حسین و جمیل چیزوں سے نوازا اور اس کے بعد امت ،سماج و معاشرہ اور ملک و قوم کی صلاح و فلاح کے لئے کام کریں ۔اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جب مل جائے جائے تو پھلدار درخت کی مانند بن جائے کیونکہ صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے یپمانہ ۔

عالمی شہرت یافتہ شاعر اسعد بستوی پکری آراضی کے دینی اجلاس میں!

بستی(آئی این اے نیوز 26/اپریل 2019) نوجوان کمیٹی و مدرسہ عربیہ پکری آراضی ضلع سنت کبیر نگر کے زیرِ اہتمام ہونے والے 27 اپریل کے تاریخی اجـلاسِ عام میں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اسعد بستوی کی شرکت سے علاقے میں کافی جوش و خروش پایا جارہا ہے  موصوف کی آمد پر علاقے کے علماء اور دانشور حضرات نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کے لئے اسعد بستوی نمونہ ہیں
ہمارے علاقے کے نوجوانوں کو ان سے سبق لینا چاہیے کہ کس طرح ایک معمولی سا بچہ اپنی محنت اور اپنی لگن سے ادبی دنیا میں اپنا ایک مقام بنایا ہے واضح رہے کی اسعد بستوی بنیادی طور پر بستی کے ہیں لیکن کاروباری مصروفیات کی وجہ سے عروس البلاد ممبئی میں مقیم ہیں مشاعروں اور جلسوں میں ان کی شرکت ہی پروگرام کے کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی ہے.

ماحولیات کو کثافت سے تحفظ کے پیش نظر پودے تقسیم!

مبارک پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/اپریل 2019) ماحولیات کو کثافت سے تحفظ کے پیش نظر انجینئر حاجی سلیمان اختر شمسی زیور محل اور تنظیم تعلیمی بیداری مبارک پور کے زیر اہتمام پودے تقسیم پروگرام کا انعقاد ہوا جس کے تحت مبارک کے مختلف مقدس مقامات کے لئے پودے پہنچوائے گئے .
اس موقع پر حاجی سلیمان اختر شمسی نے کہا کہ پیڑ پودے سے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک خوشنماں احساس بھی ہوتا ہے اسی احساسات کو عام کرنے کے پیش نظر اور ماحولیات کو شاف و شفاف بنانے کے لئے پودوں کی تقسیم کا یہ کام انجام دیا جارہا ہے، انھوں نے لوگوں سے شجر کاری کرکے ماحولیات کو کثافت سے پاک کرنے کی اپیل بھی کی. انھوں نے آگے یہ بھی کہا کہ عنقریب حلقہ کی عبادت گاہوں تعلیمی اداروں ہاسپٹل مدرسوں اور اسکول کالجز کے لئے گملے والے پودے بھجوائے  جانے کا منصوبہ ہے  ساتھ ہی عام لوگوں کو بھی تقسیم کیا جائے گا تاکہ لوگ مختلف مقامات پر شجر کاری کرکے ماحول کو صاف ستھرا بنائیں.
اس موقع پراسٹیٹ آٹوگیرج انچارج مسرور احمد انصاری، حاجی محمود اختر نعمانی، ڈاکٹر علیم انصاری، ابو ہاشم انصاری، شجاعت حسین، شکیل احمد، کامریڈ محمد یاسر، نصر الدین، ضمیر احمد، ظفر لائنس، شاہد کمنٹیٹر سمیت سماجی تنظیموں لائنس ہیلپ کلب واریئرس لوک سیوا سمیتی اور انڈین ہیلپ  پریوار کے افراد موجود تھے.

مزاحیہ ولطیفے، چناوی دنگل کے پیچ وخم(ایک مزاحیہ انشائیہ)

حالاتِ حاضرہ کی عکاسی کرتا ایک مزاحیہ مضمونــ’’ چناوی دنگل کے پیچ وخمـ‘‘

 محمد عباس دھالیوال
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
فطرتاً ہم کافی شریف و جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔ہماری اس شرافت کا اکثر لومڑی نما مشاق لوگ جم کر فائدہ اٹھا تے ہیں. یہاں تک کے ہماری حساس طبیعت کے چلتے اکثر لوگوں نے گھڑیالی آنسو بہا کر ہمیں نہ صرف الّوبلکہ کاٹھ کا الّوبنا کر، نہ معلوم اپنے کتنے ہی الّوکے پٹھوں کے، الو سیدھے کئے ہیں.
ایسے تو ہم کسی ایرہ غیرہ، نتھو، خیرہ کی باتوں میں بہت کم آتے ہیں. لیکن اکثر خوش آمدی لوگ جب اپنی باتوں کو مکھّن لگا کر پیش کرتے ہیں.توہم جیسے تو کیا بڑے بڑوں کی عقلیں غوطہ کھا جاتی ہیں اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی آدمی خود کو پھسلنے سے نہیں روک نہیں پاتا۔
ابھی حال ہی کی بات ہے کہ جیسے ہی چناوء کمیشن نے الیکشن کا بغل بجایا توکچھ خوش آمدی لوگ، جو صرف اور صرف، چناوء کے موسم میں ہی نظر آ تے ہیں، بالکل ان” پتنگوں” کی طرح جو برسات کے دنوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ایک گرمی کی شام جب ہم اپنے گھر پر ہم چچا غالب کی غزلیں سماعت فرما رہے تھے کہ اسی دوران دروازے پر دہڑا دہڑ دستک ہوئی بالکل ویسے ہی جیسے کہ کوئی قرضہ وصولی کرنے آیا ہو.!
اس سے پہلے کہ ہم باہر والوں کو اندر آنے کی دعوت دیتے وہ خود ہی ہمارے گھر میں اپنا مالکانہ حق سمجھ کر گھس آئے ۔ایسے میں ایک شریف آدمی بھلا کیا کر سکتا ہے۔
رسماًحال چال پوچھنے کے بعد ہم نے جیسے ہی آنے کی وجہ معلوم کی تو وہ بنا تمہیدباندھے سیدھے ہی بولے کہ . ” بس! اس بار فیصلہ ہو چکا ہے”.. ہم نے پوچھا بھائی کاہے کا.! وہ بولے” ہم نے آپ کو الیکشن لڑوانا ہے اور جیت دلا کر ہر حال میں پارلیمنٹ پہنچا نا ہے”. انکی اچانک ایسی غیر متوقع بات سن کر ہم یکدم حیران رہ گئے ۔کیوں کہ سیاست اور ہمارے درمیان نزدیک کا تو چھوڑئے…. دور.. دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے. یا یوں کہہ لیں کہ سیاست سے ہمیں اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ایک گدھے کو تعلیم سے یا ایک بھینس کو بین سے ہو تی ہے…!ہماری گزشتہ سات پشتو ں اور اس سے پہلے کی معلوم نہیں..! کتنی ہی سات پشتوں کا سیاست کے مابین کوئی تعلق رہا ہو..؟اس کا دھندلا سا بھی منظر، ہمیں اپنی بڑے نمبر والی عینک لگا کر بھی دکھائی نہیں دیتا..!
ہم نے ان بن بلائے دھکے شاہی مہمانوں کو سمجھا یا. بھائی ہمیں تو سیاست کی اے. بی. سی تک نہیں آتی اورآپ ہمیں سیدھا ایم.پی کا الیکشن لڑانے جا رہے ہو.ویسے بھی لیڈروں میں تو ڈھیر وں خوبیاں ہوتی ہیں’ بد قسمتی سے ہم میں تو ویسی ایک بھی نہیں.. جیسے لیڈر خود ہی میں ایک منفرد شخصیت ہوتا ہے. جواب میں انہوں نے کہا” جب طوطا..! ہنس اور گھگی..! جیسے پرندے، سیاست میں آ کر، اپنے کیرئیر کو بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں… تو آپ تو پھر بھی ماشااللہ، ”اشرف المخلوقات” کے زمرے میں آتے ہیں”.
ہم نے کہا پھر بھی ایک لیڈر رکا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے اور ہم ٹھہرے پیدائشی غیر سنجیدہ..! انہوں نے کہا ”جناب آپ کو شاید نہیں معلوم، آجکل عوام کا سیاسی مزاق بالکل بدل رہا ہے. لوگ اب سنجیدہ قسم کے’ مونی بابا ‘لیڈروں کو قطعاً پسند نہیں کرتے. آج عوام میں وہ لیڈر زیادہ ہر دل عزیز معروف ہو رہے ہیں جو لوگوں کو لطیفے سنا کر ان کا دل بہلاتے ہیں.
پارلیمنٹ کا نظارہ تو آپ آئے دن مختلف چینلز پر کرتے ہی رہتے ہیں. جہاں حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے ممبران کے درمیان جو دنگہ مشتی دکھائی دیتی ہے ایسے دلچسپ مناظر شاید ڈبلیو ڈبلیو کے رئیل رِنگ میں بھی آپ کو دیکھنے کو نہ ملیں۔کرسیاں ما ئیک جوتے اور آجکل تو چلی پاؤڈر کا بھی بلا تکلف استعمال ہونے لگا ہے جیسے پیار اور جنگ میں سب کچھ جائزہے اسی طرح اپنے سیاسی حریف کو ضرب پہنچا نے کی خاطر لیڈر کسی بھی حد تک جانا گویا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔
ہم نے کہا اگر خدانخواستہ ہم سے کوئی اسیکینْدلز سرجد ہو گیا تو میڈیا والے تو ہماری بینڈ بجادیںگے۔ اس کے جواب انھوں نے کہا کہ لیڈروں اور گھوٹالوں کا پہلے پہل سے ہی چولی دامن کا ساتھ چلا آرہاہے، یعنی دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و مظلوم بنے ہوئے ہیں. جیسے مچھلی جل کے بغیر نہیں رہ سکتی ویسے ہی ایک قد آور لیڈرشپ کا ہم اسکینڈلز کے بنا تصور نہیں کر سکتے اور ہاں ویسے بھی ایک لیڈر کا جب تک مختلف اسکینڈلز میں نام نہ آئے اسے میڈیا والے بھی گھاس نہیں ڈالتے۔اسکے ساتھ ہی ایک لیڈر کا فرقہ پرست ہونا بھی بے حد ضروری ہے تاریخ شاہد ہے جن لیڈروں پر فرقہ پرستی پھیلانے اور ہزاروں افراد کے قتل کے مقدمات چلے اور جن کو عدالت نے تڑیپار کیا ۔لیکن ہمارے ملک کے عوام کی سیاسی سوجھ بوجھ دیکھیں کہ جب انھوںنے جیل سے رہا ہوتے ہی سیاسی میدان میں کودے تو انکی نہ صرف عوام نے عزت کی بلکہ انھیں بھاری ووٹوں سے جتا کر پالیمنٹ میں بھی پہنچایا۔گویا پنجابی کی دو کہاوتیں ُُلچا سب سے اچا، اور لچا لنڈا چوہدری غنڈی رن(بیوی)پردھان، ہمارے عہد حاضر کے سیاسی پس منظر پر ایک دم صادق آتی ہیں. کیا خوب کہاہے.. ہمارے یہاں کی، سیاست کا حال مت پوچھو. گھری ہو ئی ہے، طوائف، تماش بینوں میں. پ
کے مصداق ٹچا سب سے اونچا یا لچا لنڈہ چودھری ٖغنڈی رن پردھان جب کہ ہماری سیاست کا ندافاضلی نے اپنے شاعرانہ انداز میں کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:
ہمارے یہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہم نے کہا بھائی الیکشن کے لئے کچھ تعلیمی لیاقت بھی تو درکار ہوتی ہو گی. انھوں نے کہا بھائی ہم نے کون سا آپ کو کوئی آئی.اے. ایس یا یو پ۔پی۔ ایس۔سی کا امتحان دلا کر کوئی افسر لگاناہے بلکہ آپ حکمران بن جائیں تو ایسے اعلی تعلیم یافتہ افسر آپ کے جوتے کی نوک پر ہونگے ہم نے کہا پھر بھی سیاسی لیڈر کے لیے تعلیمی لیاقت کم از کم ایم. اے یا بی. اے تو ہو تی ہوگی. اسکے برعکس ہم تو صرف 2+پاس ہیں وہ بھی تیسرے درجہ میں. انہوں نے کہا” جناب اعلی تاریخ شاہد ہے سیاسی میدان میں ایسے لوگوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ہیں جو پانچویں، آٹھویں فیل یا پھر بالکل انپڑھ ایک دم انپڑھ ہوں ابھی گزشتہ الیکشن کی ہی بات کریں تو ملک میں ایک بارھوی جماعت تک کی تعلیم رکھنے والے لیڈر کو دیش کا وزیر تعلیم بنا یا گیا اور یہاں تک کہ ایک آٹھویں فیل ممبر اسمبلی نے تو نائب وزیر اعلی کے عہدے تک کا حلف اٹھا یا جبکہ ایک جعلی ڈگری والے کو تو کابینہ میں وزیر قانون بنا کر عزت دی گئی. ویسے بھی آپ جب جیت کر حکمران بن جائیں تو جیسی ڈگری چاہیں حاصل کر لیں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ویسے تو آجکل میڈیا کسی بھی بڑے لیڈر سے جعلی ڈگری کا سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کرتا ل کیونکہ یہ بات ہر ایک کے آجکل مشاہدہ میں آئی ہے کہ دیش کا بیشتر میڈیا بڑے لیڈروں اور بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے پاوئں کی جوتی بن کر رہ گیا ہے ہاں اگر کوئی باضمیر صحافی لیڈر سے سوال کرنے کی جرئت دکھاتا بھی ہے تو اسے ضمیر فروش ٹرولرز کے ذریعہ اس قدر غلیظ گالیوں اور دھمکیوں سے نوازہ جاتا ہے کہ وہ بیچارہ بے بس اور بے یار ومددگار سا نظر آتا ہے۔
ہم نے کہا ہمیں تو بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں. ”بھاشن” کیسے دیں گے. انہوں نے کہا ”ہم نے اس میدان میں ایسے اناڑی بھی دیکھے ہیں گویا:
بات کرنا تک نہ آتی تھی انھیں
یہ ہمارے دیکھنے کی بات ہے
بھاشن دینا کوئی مشکل کام نہیں.بس آپ کو تھوڑا پروفیشنل بننا ہوگا یعنی آپ کو ایسی مارکیٹنگ کرنی آنی چاہئے،بالکل” گنجوں کو کنگھی” بیچنے جیسی. اسکے لیے آپ کو چناؤ سے ٹھیک پہلے ، سیاست کے کسی ماہر تھنک ٹینکرسے، چند چناوی جملے سیکھنے ہوں گے الیکشن کے بعد آپ چاہیں تو انہیں بے وفا محبوب کے وعدوں کی طرح یکسر بھول جائیںآپ سے کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔اگر کوئی پوچھنے کی حماقت بھی کرے تو اپنے ٹرولرز کی فوج اس کے پیچھے لگادو اور پھر ٹرولر اس کی ایسی دھلائی کریں گے کہ وہ بیچارہ آپ سے سوال کرنے کی بجائے خود کو بھی بھول جائے گا۔
ہم نے کہا بھائی خدا نخواستہ ہم جیت گئے تو ہم پر بہت ساری ذمہ داری عائد ہو جائیں گی انکو ہم کیسے نبھاپائیں گے. انہوں نے کہا آپ کو کس احمق نے کہا کہ ذمہ داریاں نبھاؤں بلکہ یہ سب تو چناوی وعدے ہوتے ہیں اور وعدے بھی ایسے جنھیں کبھی وفا نہیں ہو نا ہو تا.ہمارا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی فلموں کے گیتوں کو عملی جامہ پہنا ئیں.جیسے کہ :قسمیں وعدے، پیار، وفا سب… باتیں ہیں، باتوں کا،کیا..!
ویسے آپ نہیں جانتے کہ جن ممالک کے عوام” جذباتی” ہو ں ان ملکوں کے حکمرانوں کو حکومت کرنے میں ”مشکل”سے بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی. آپ جیت کے بعد عوام کو ذات، دھرم، علاقے اور زبان جیسے مسئلوں میں الجھا کر اپنے کسی بھی گھوٹالہ اور اسکینڈل سے لوگوں کا دھیان ہٹا سکتے ہیں. اور ہاں..! قوم کے مستقبل کو یعنی ً نوجوان نسل کو تو آپ نیٹ کا فری ڈیٹا مہیا کروا کر.بہ آسانی اپنے نیٹ کے جال میں الجھاسکتے ہیں یا پھر دو حریف ملکوں کے درمیان کوئی ٹونٹی ٹونٹی کروا کر یا کوئی سرجیکل اسٹرائیک کرواکر ان کا دھیان بہ آسانی اصل مدعوں سے ہٹا سکتے ہیں. ویسے بھی ملک کے مستقبل یعنی نوجوانوں کو تو آپ کوئی بھی دیش بھگتی کا فرضی نعرہ دیکر جب چاہیں بیوقوف بنا سکتے ہیں او ر ہاں اگر ان میں سے کوئی بھی نسخہ کارگر ثابت نہ ہو تو آپ مذہب کے نام پر فرقہ پرستی کا زہر پھیلا کر اپنے پچھلے تمام وعدوں کے ساتھ اپنے تمام گناہوں پہ بھی پردہ ڈال سکتے ہیں۔
ہم نے کہا بھائی ایک طاقتور لیڈر کے لیے ہٹّا کٹّااور لمبا تڑنگا ہونا تو اشد ضروری ہے کیونکہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک طاقتور جسم میں ہی ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے اور ہمارا قد تو آپ ماشائاللہ دیکھ ہی رہے ہو جو ساڈھے چار فٹ تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہو جاتا ہے. انھوں نے کہا” بھائی تاریخ شاہد ہے کہ کمزور و ناتواں قسم کے لیڈران نے اس میدان میں جو معرکے مارے ہیں وہ پہلوان قسم کے لیڈر نہیں مارپائے. مفلر باندھ کر، آج کوئی بھی سادھارن ومسکین سا دکھنے والا آدمی، عوام کی سچی ہمدردیاں حاصل کر نے میں نہ صرف کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ سی. ایم. بھی بن سکتا ہے ویسے بھی گزشتہ مشاہدہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کبھی کبھی 56 انچ کے سینے پر 26انچ کی چھاتی بھی بھاری پڑ جاتی ہے. بالکل ویسے جیسے شکار پر گیا شیر، کبھی کبھی خود شکار بن جاتا ہے”.
ہم نے کہا بھئی پارٹی میںعمر رسیدہ دہاکوں پرانی لیڈر شپ کے سامنے ہم بھلا نو سیکھیئے کیسے ٹک پائیں گے تو انھوں کہا کہ اس کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ ان کو پارٹی کا مارگ درشن بناکر ہمیشہ کے لیے ایک سیاسی درشک بناڈالو۔
ہم نے کہا پھر بھی سیاست میں اینٹری مارنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک لیڈر کی شخصیت پوری طرح صاف و شفاف ہو اس کے دامن پر ایک بھی داغ نہ ہو. انہوں نے کہا کہ ”آج کل تو لیڈر ہی اسے تسلیم کیا جاتا ہے جس پر لوٹ مار قتل و غارت اور دھوکہ دہی کے درجنوں مقدمے چلتے ہوں ۔
اتنی واضح اور روشن دلیلیں سن لینے کے بعد گویا ہم نے اپنے تمام ” ہتھیار ” ان کے قدموں میں ڈال دیئے اوراس طرح آخر کارہم نے الیکشن لڑنے کاپختہ ارداہ کر لیا۔

مدرسہ عربیہ معراج العلوم چھتہی میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد!

عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 26/اپریل 2019) تحصیل دھن گھٹا حلقہ میں واقع مسلم اکثریتی گاؤں چھتہی میں قدیم دینی درسگاہ مدرسہ عربیہ معراج العلوم چھتہی پوکھرا میں بچوں کے سالانہ امتحان کے نتائج کا اعلان کیا گیا، نیز ادارہ کے مہتمم ومقامی شاخ جمیعۃ العلماء ہند سنت کبیر نگر مہولی کے جنرل سکریٹری مفتی محبوب احمد قاسمی نے اپنی جانب سے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور انعامات سے نوزا، نیز مختصر خطاب بھی فرماتے ہوئے کہا کہ اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور یہ بچے ہمارے مستقبل ہیں چنانچہ ہمیں بچوں کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہنا چاہئے اور تمام طریقہ جو بچوں کے مستقبل کو تاریک بنادے اس سے ان کو بچانا چاہئے.
جلسہ کو مدرسہ کے ناظم مولانا محمد مستقیم قاسمی بلرامپوری نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ وہ والدین قابل مبارکباد ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو اس مدرسہ میں دین اسلام کی تعلیم  کے لئے بھیجا، لہذا والدین کی ذمہ داری یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ان کو ہمیشہ ان کی تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.
درجات عربی و فارسی میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے محمد افضل ابن محمد اطہر دوم محمد انس اور سوم پوزیشن محمد یوسف روپن نے حاصل کی اسی طرح درجات حفظ میں اول پوزیشن اسد اللہ ابن حافظ محمد نعمان عزیزی اور دوم محمد حذیفہ ابن مولانا محمد مستقیم قاسمی بلرامپوری اور سوم پوزیشن ثناء اللہ نے حاصل کی ، انکے علاوہ درجات حفظ کے مختلف درجات میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں محمد شاھد ابن شبیر احمد محمد ساجد ابن توفیق احمد عبد الباسط ابن حافظ شمشیر احمد عبد الکریم ابوحمزہ محمد اسعد عبد الکریم محمد أنس وغیرہ نے نمایاں کامیابی حاصل کی.
اس موقع پر قاری آس محمد، حافظ نثار احمد، مولانا محمد ساجد حلیمی، حافظ محمد رضا، حافظ عامر ابرار صدیقی، حافظ حبیب اللہ، ماسٹر اختر عالم، ماسٹر رمضان اور محمد حسان ندوی وغیرہ نے بچوں کو دعاؤں سے نوازا اور روشن مستقبل کی دعائیں دیں.

چودہ روزہ تربیتی کیمپ کا اختتامی جلسہ!

رپورٹ: معزالدین ندوی
ـــــــــــــــــــــ
رتناگیر(آئی این اے نیوز 26/اپریل 2019) دی ہرنئی ایجوکیشن سوسائیٹی کےتعاون سے پندرہ روزہ تربیتی کیمپ کا آغاز بارہ اپریل سے ہوا، تقریباً 55 بچے روزانہ پابندی سے کیمپ میں آتے رہے، ابتداء کے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں صرف قرآن پر محنت کی گئی حفظ عم پارہ اور تصحیح قرآن پر خصوصی توجہ دی گئی ۔
قرآن کے بعد اردو خوشخط اوراسکے پڑھنے پڑھانے پر زیادہ زور دیاگیا اور عملی کام لیا گیا ،پڑھانےکیےلئےجدید طرز تعلیم سے خوب استفادہ کیا گیا۔
اردو کے ساتھ اخلاقی تربیت پربھی خصوصی توجہ دیا گیا آداب زندگی حقوق و فرائض، اذکار نماز ،روزمرہ کی دعائیں ،اور نماز کی عملی مشق کرائی گئی ۔
اس تربیتی کیمپ میں بچوں پر  کافی محنت کی گئی، انہیں مستقل چار گھنٹے خوب مشغول رکھا گیا تاکہ بچے اپنے ساتھ کچھ  لیکر جائیں، جس کا اندازہ آج آخری دن کے الوداعی پروگرام سے ہوا، جس میں  بچوں نے حفظ سورہ نعت تقریر، کوئز مقابلے کے ساتھ بیت بازی کی شکل میں بہترین کار کردگی کا مظاہرہ کیا، 18 بچوں نے عم پارہ حفظ کیا جن کو ترجمہ قرآن اور بقیہ تمام طلبہ کو معری قرآن سے نوازہ گیا، شریک طلبہ نے  ثابت کیا کہ ان پر کی جانےوالی محنت رائیگاں نہیں گئی ہے  ۔
اختتامی پروگرام میں ہرنئی کے مخیر اور علم دوست حضرات نے  بڑی تعداد میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خوب بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی  بھی کی ۔
اس بہترین کیمپ کے انعقاد میں مولانا اخترسلطان اصلاحی صاحب کی کاوشوں کا بڑا دخل رہا، اس طرح جناب شرف الدین سر نے کافی دوڑ دھوپ کی اور اپنا وقت اس کار خیر کے لئے  وقف کیا ۔
چند کونسلر نے بھی اس میں بڑی محنت کی خصوصا مولانا ریاض الدین سلفی، طالب فلاحی ،نیاز احمد قاسمی اور معزالدین ندوی وغیرہم نے بچوں کو اچھی کار کردگی پرکافی انعامات سے نوازا گیا، اور دعاؤں کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا ۔

Thursday 25 April 2019

مسلمانوں اٹھو! رمضان المبارک رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا پروانہ لیکرآرہا ہے، رمضان آنے سے پہلے اسکی تیاری کرلو: شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ـــــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 25/اپریل 2019) سال کے گیارہ مہینے گھر کیلئے، بیوی بچوں کیلئے، کاروبار کیلئے اور صرف ایک ماہ اللہ کی عبادت کیلئے، اللہ کو راضی کرنے کیلئے۔مسلمانوں اٹھو رمضان آرہا ہے! اس سے پہلے کہ اللہ کے دربار سے رمضان ہمارا مہمان بن کر ہم تک پہنچے اسکے استقبال کیلئے تیار ہوجاؤ ۔اسکا استقبال عبادتوں سے اور گناہوں سے توبہ کرکے کیا جاتا ہے۔ جس نے اسکا استقبال صحیح طریقے سے کیا وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوگا اور جس نے نہیں کیا وہ مجرم ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز عالم دین، شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
 شاہ ملت نے فرمایا کہ رمضان المبارک ہمارے لئے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا پروانہ لیکر آرہا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ کتنی بد قسمتی ہوگی کہ ہمارے پاس اللہ کے یہاں سے مہمان آئے اور ہم اپنے کاموں میں مشغول رہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ رمضان المبارک آنے سے پہلے مسلمانوں کو ایک ترتیب بنانی چاہئے، جس سے وہ زیادہ وقت غیر ضروری کاموں میں برباد کئے بغیر اللہ کی عبادت میں گزارے،تلاوت قرآن پاک میں گزارے۔ مولانا نے فرمایا آج ہم لوگ رمضان میں صرف سحری اور افطاری کے تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں جبکہ نبی کریم ﷺ نے اکثر سحری اور افطاری صرف کھجور سے کیا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ سحری اور افطاری کرنا بھی روزہ میں شامل ہوتا ہے لیکن اتنا زیادہ بھی تناول نہیں کرنا چاہئے کہ فجر اور تراویح پڑھنے میں تکلیف ہو۔مولانا نے فرمایا کہ اکثر ہوٹل والے رمضان میں کھانے وغیرہ کی قیمت زیادہ کردیتے ہیں جو بلکل غلط ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ جہاں اچھے انداز میں قرآن پڑھا جاتا ہو، جہاں ہماری اصلاح ہوتی ہو وہاں تراویح پڑھیں اور آخری عشرے میں اعتکاف ضرور کریں۔

تعزیتی نشست!

سلمان کبیرنگری
ــــــــــــــــــــــــ
 بلواسینگر/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 25/اپریل 2019) ترقیاتی بلاک بلہر کے موضع برینیاں میں ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی جس میں ارسلان انٹر نیشنل اسکول کمھریا کے منیجر الیاس خان کے والد کے سانحہ ارتحال پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا، مرحوم بڑے نیک سیرت پابند صوم وصلوۃ غریب پرور مہمان نواز ، خدا تر س اور بلند اخلاق کے حامل تھے نئی روشنی میگزین کے ایڈیٹر سلمان کبیر نگری نے کہا مرحوم  نے اپنے علاقے کمھریا میں ایک اقامتی درسگاہ قائم کر کے اس علاقہ پر بہت احسان کیا اور ان کو پروان چڑھانے کے لئے بہت جد و جہد کی اللہ تعالٰی ان کو جنت الفردوس میں بہترین جگہ عنایت فرمائے اور حضرات کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے طلبہ واساتذہ نے قرآن خوانی کر کے ایصال ثواب کیا نشست میں عدنان احمد، حافظ محمد حسین، حافظ عابد علی، سفیان قمر، شمیم احمد بلال احمد، کلیم احمد، وغیرہ موجود رہے.

ووٹنگ فیصد میں اضافہ این ڈی اے کیلئے خطرے کی گھنٹی!

حکیم نازش احتشام اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گزشتہ دومراحل میں ناقابل توقع حدتک ووٹنگ فیصد میں اضافے نے اس امید مزید تقویت بخشی ہے کہ آئندہ جتنے بھی مراحل بچے ہیں ان میں عوام الناس کا جوش وجذبہ برقرار رہے اور گزشتہ دونوں فیز کے مقابلے ووٹنگ فیصد میں مزید اضافہ ہوگا۔ووٹنگ فیصد میں ہونے والا یہ اضافہ اگر کسی کو سب سے زیادہ پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کررہا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحاد میں شامل جماعتیں۔ بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل جماعتیں اس کوشش میں تھیں کہ کسی طرح بھی ووٹنگ فیصد میں اضافہ نہ ہونے پائے ، اس کا مقصد یہ تھاکہ زعفرانی جماعت کا کیڈر ووٹ انتخاب میں ضرور حصہ لے گا جو اٹھائیس سے تیس فیصد کے درمیان ہے، جبکہ باقیماندہ 70فیصد رائے دہندگان اگر پولنگ بوتھوں پر کم تعداد میں پہنچتے ہیں تو اس سے اترپردیش میں سماجوادی اور بی ایس پی اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ ایک تو بی جے پی کیڈر ووٹ بہر حال اس ملے گا ،
جبکہ باقیماندہ ووٹ کم پڑنے اور کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے ازخود بے معنی ہوکر رہ جائیں گے اور اسی کے نتیجے میں این ڈی اے اتحاد بالخصوص بی جے پی کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔کم ووٹ پرسینٹ کے فاصلے سے ہی سہی مگر جیتنے والوں میں ان کے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوگی۔
یہ سارے سیاسی ہتکھنڈے اس لئے استعمال کئے جارہے تھے کہ بی جے پی گزشتہ عام انتخابات 2014 میں جن وعدوں اور عہدو پیمان کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ،اس میں سے آٹے میں نمک برابر وعدے بھی وفا نہیں ہوسکے۔ کہاں ملک بھر میں وزیر اعظم چیخ چیخ کر سالانہ دوکروڑ نوکریاں دینے اور سوئس بینکوں سے بلیک منی واپس لاکر ملک غریبوں کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے اور کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے کے وعدے کررہے تھے۔ اپنے ان پر فریب وعدوں کو ملک کے ایک ایک شہری کے کانوں تک پہنچانے کیلئے میڈیا کو خریدا گیا۔ جو بکے وہ مالا مال ہوگئے مثال میں آج ہم روبینہ لیاقت، انجنااوم کشیپ، سدھیر چودھری اور چترا تریپاٹھی کے املاک کی معلومات حاصل کرلیجئے، زی کے میڈیا کے مالک چندرا کو راجیہ سبھا میں ملی کرسی پر نگاہ ڈالئے ۔ وزیر اعظم کے انتہائی قریبی اور ان کی ریاست کے معروف کاروباری دنیابھرکے دولتیوں کی فہرست میں نمایا ں مکیش امبانی کے ذریعہ ای ٹی وی گروپ کو خریداجانا ،علاوہ ازیں گوتم اڈانی کے ہوائی جہاز سے ملک کے گوشے گوشے کا سفر کرنا ۔کیا یہ واقعات اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ گزشتہ عام انتخابات میں این ڈی اے کو اقتدار میں لانے اور نریندر دامودرداس مودی کو وزیر اعظم بنانے میں عوام سے زیادہ گجراتی ساہوکاروں اورصنعت کاروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔کیا کوئی ناقص العقل ہندوستانی بھی اس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ گجراتی بنیے اپنے ذاتی مفادات اور کاروباری فائدے کے وعدے کے بغیر نریندرمودی کو وزیر اعظم بنانے میں اس قدر دل چسپی کا مظاہرہ کرسکتے تھے؟
اس بار یہ بات بھی این ڈی اے کیخلاف جارہی ہے کہ ملک کے متوسط اور چھوٹے کاروباری حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے سخت مشکلات سے نبرد آزما ہیں اور بڑے صنعت کارو ں کوبخوبی اس کا احساس ہے کہ ان کے کاروبار کی چمک اور ترقی میں منجھولے درجے کے کاروباریوں اور تجارت پیشہ لوگوں کا کردار سب سے زیادہ ہے ، لہذا بڑے صنعت کار مثلاً ٹاٹا،بڑلا، ایسار، ریلائنس جیسے صنعتی اداروں کے ذمے داران یہ قطعی گوارا نہیں کرسکتے کہ بچولئے کاروباریوں کے مفادات کو نظر انداز کرکے وہ اپنی صنعتی ترقی کی رفتار کو برقراررکھ پائیں گے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے اس بارصنعتی اور کارپوریٹ گھرانے انتخابی سرگرمیوں سے بہ ظاہر دوری بنائے ہوئے ہیں ،یہ صورت حال بی جے پی کیلئے مہیب خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔
انتخابات میں عام لوگوں کی دل چسپی اور ووٹنگ فیصد حیرت انگیز اضافہ این ڈی اے کیلئے نیک فال نہیں ہے۔بلکہ اب تو انتخابی سیاست کے ماہرین یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ آئندہ مراحل میں جن نشستوں انتخابات ہونے ہیں وہاں ووٹنگ کا فیصدسابقہ دونوں مرحلوں سے زیادہ ہوگااور ووٹنگ فیصد میں اضافہ ہی بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے ہمیں گزشتہ 2014میں ہونے والے عام انتخابات میں سامنے آنے ووٹنگ فیصد پر غور کرنا ہوگا۔ جن نشستوں پر بی جے پی جیت کا پرچم لہرا یا تھا وہاں امسال کے مقابلے پندرہ فیصد کم ووٹنگ ہوئی تھی ۔ساتھ مخالف جماعتیں متعددٹکڑوں بنٹی ہوئی تھیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ 29فیصد سالڈ ووٹ بی جے پی اور اس حلیف جماعتوں کو ملے، جب کہ باقیماندہ 71فیصد میں ووٹ دینے کی تعداد کم تھی اور وہ بھی کئی خانوں میں بنٹے ہوئے تھے۔نتیجہ کار اس کا بھرپور فائدہ این ڈی اے کو ملا اور بی جے پی تن تنہا 223سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی ، جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں ملا لیں تو مجموعی 357سیٹیں این ڈی اے کے حصے میں آئی تھیں، مگر اس وقت کے ووٹنگ فیصد اور اب کے ووٹنگ فیصد میں زمین آسمان کا فرق ہے اس مخالف سیکولر رائے دہندگان کثرت تعداد کے باوجود بد دل تھے اور ان کی بہت تھوڑی تعداد پولنگ بوتھوں تک پہنچ سکی تھی۔مگر اس بار ووٹنگ کا بڑھتا ہوا فیصد صاف اشارہ کررہا ہے کہ سیکولر رائے دہندگان کا پلڑا بھاری رہے گا اور وہ گزشتہ انتخابات کی طرح ٹکڑوں میں تقسیم بھی نہیں ہورہے ہیں۔گزشتہ 2014کے عام انتخابات میں جن سیٹوں پر بی جے پی بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی وہاں کے ووٹنگ فیصد پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہاں اس بار کے مقابلے کافی کم ووٹ پڑے تھے۔ووٹنگ کا بڑھتا ہوا فیصد اور مخالف دھڑے میں مضبوط اتحاد بھی بی جے پی کو ابھی سے ستانے لگاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ ترقی اور عوامی فلاح کے مدعوں پر کوئی بات نہیں کررہی ہے ، بلکہ ایک بار پھر اس نے دھرم کا چولہ پہن لیا ہے اور پولرائزیشن کی راہ پر چل نکلی ہے۔موجودہ حالات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے این ڈی اے کے پاس اب کوئی قابل ذکر ایجنڈا بچاہی نہیں ہے۔ایم کے وینو نے بجا کہا ہے کہ موجودہ لوک سبھا انتخاب میں ایک چیز تیزی سے واضح ہوتی جا رہی ہے کہ یہ انتخاب ریاستی انتخابات کا گٹھ جوڑ بنتا جا رہا ہے، جہاں مقامی مدعے مؤثر ہیں۔ کسی طرح کا قومی مدعا اہم رول میں نہیں ہے، جس میں ہندو مسلم اور مندر،مسجد وغیرہ جیسے ایشوز بھی عوام کو متوجہ کرنے ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ انتخاب میں ایسی کوئی لہر یا مدعا نہیں ہے جو تمام 29 ریاستوں اور سات یونین ٹیریٹری ریاستوں میں مؤثر ہو۔2014 میں بڑی تعداد میں ریاستوں میں مودی کی حمایت اور کانگریس مخالف لہر دیکھی گئی تھی، جس وجہ سے بی جے پی نے لوک سبھا کی اوسطاً تقریباً 90 فیصدی سیٹیں جیتی تھی۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، دہلی، اتراکھنڈ اور گجرات ہیں۔ بی جے پی نے اکیلے ان 11 ریاستوں میں 216 سیٹیں جیتی تھی،لیکن بی جے پی کی اس زبردست جیت کا اعادہ 2019 میں نہیں ہوگا، کیونکہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، جھارکھنڈ، بہار اور دہلی جیسی ریاستوں میں بی جے پی اپنی بنیاد کھو چکی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بی جے پی ان گیارہ ریاستوں میں اوسطاً 50 سے 60 فیصدی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہے گی تو پارٹی کو پھر بھی تقریباً 90 سے 100 سیٹوں کا نقصان ہوگا۔جبکہ اس کے برخلاف کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں کا پلڑا بھاری رہے گا۔

سابق ممبر پارلیمنٹ بھال چند یادو نے تھاما کانگریس کا ہاتھ!

عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 25/اپریل 2019) پارلیمانی حلقہ خلیل آباد کا الیکشن دلچسپ موڑ لے لیا ہے، پارلیمانی الیکشن میں جہاں بھارتی جنتا پارٹی کی طرف سے پروین نشاد اور بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی اتحاد کے امیدوار کی شکل میں سابق ممبر آف پارلیمنٹ کشل تیواری زور آزمائش کر رہے ہیں، وہیں ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے سماجوادی پارٹی سے ناراض چل رہے قدآور لیڈر سابق ممبر آف پارلیمنٹ
بھالچند یادو نے کانگریس پارٹی کی طرف سے اپنی قسمت آزمائیش  کر رہے ہیں، ایسا مانا جارہا ہے کہ کانگریس پارٹی ضلع سنت کبیر نگر میں اپنی کھوئی ہوئی زمین  بھالچند کو ٹکٹ دیکر واپس لوٹانا چاہ رہی ہے، بھالچند یادو دبے کچلے لوگوں  کے مسیحا مانے جاتے ہیں، بھالچند یادو دو بار ضلع سنت-کبیر نگر کی نمائندگی  بھی کر چکے ہیں، انکے الیکشن میں آجانے سے مخالف پارٹیوں میں کھبلی سسی مچ گئی ہے.
سابق ممبر پارلیمنٹ بھالچند یادو کے الیکشن میں آ جانے سے مقابلہ بڑا ہی دلچسپ ہو گیا ہے، کانگریس پارٹی کو بھی بھالچند یادو سے سنجیونی ملنے کی پوری امید بنی ہوئی ہے  ۔
بھالچند یادو کی سبھی ذات برادری کے لوگوں میں اچھی پکڑ ہے، دورانِ ممبر آف پارلیمنٹ بھالچند یادو نے ضلع کے لئے تمام فلاحی کام کئے۔
کئی پلوں کی تعمیر کرائی، جس سے عوام کو آنے جانے میں سہولت ہوئی ہے، بھالچند یادو کی ہر دبے کچلے، کسانوں  اور مظلوموں کی امداد ہی  انہیں عوام میں کافی مشہور کیا ہے۔
سیاسی جانکاروں کا ماننا ہے کہ بھالچند یادو کو علاقائی ہونے کا اس الیکشن میں دوسری پارٹیوں کے کنڈیڈ باہری ہونے کی وجہ سے سیاسی فائدہ مل سکتاہے۔
دیکھنا یہ ہے کیسے  کانگریس پارٹی کی بھالچند یادو کے ذریعہ کھوئی ہوئی شاخ واپس لوٹ سکتی ہے۔

Wednesday 24 April 2019

اعظم گڑھ کا نوجوان ممبئ کے گونڈی سے پر اسرار حالت میں غائب!

خان عثمان اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/اپریل 2019) اعظم گڑھ کے موضع سیدھا سلطان پور کا ایک نوجوان ممبئ کے گونڈی سے گزشتہ ایک ماہ قبل پر اسرار طریقے لاپتہ ھو گیا، تمام کوششوں کے باوجود ابھی تک اس کا سراغ نہیں لگ سکا ہے.
گمشدہ جمشید کی تصویر
موصول اطلاع کے مطابق اعظم گڑھ کے موضع سیدھا سلطان پور تحصیل نظام آباد کا رہنے والا جمشید (20)ممبئ کے کرلا میں انل نامی سیٹھ کے یہاں نوکری کرتا تھا۔گزشتہ ہولی کو وہ اپنی بہن سے ملنے گونڈی گیا ہوا تھا، بہن سے ملاقات کرنے کے بعد وہ واپس اپنی جگہ لوٹنے کیلئے نکلا لیکن اس کے بعد سے اس کا کوئ سراغ نہیں ملا ۔اس وقت سے اس کا موبائل نمبر بھی بند جا رہا ہے، چونکہ اہل خانہ کا  کوئی ذمہ دار  فرد ممبئ میں نہیں ہے اس لئے اس گمشدگی کی رپورٹ بھی درج نہیں ہوئی ہے اس لئے معاملا مزید تشویشناک ہو گیا ہے۔گمشدہ جمشید کی عمر بیس سال رنگ گیہواں قد 5 فٹ 7 انچ ہے۔جسم موٹا ہے اور شکل سے معصوم لگتا ہے، لڑکے کے اہل خانہ  نے ممبئ پولس سے گمشدہ لڑکے کو تلاش کرنے کی گذارش کی ہے۔

بیبی التمش سلام، ایک عظیم مجاہد آزادی!

محمد عثمان نئی دہلی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی!
وطن عزیز کی تاریخ میں بیبی التمش ایک معروف شخصیت گزری ہیں، بیبی التمش مہاتما گاندھی کی بہت عزیز تھیں یہاں تک یہ بھی کہا جا تا ہیکہ وہ گاندھی جی کی دختر جیسی تھیں، بیبی التمش کی پیدائش 1907 میں پٹیالا پنجاب میں ہوئی تھی، انہوں نے اپنے بڑے بھائ محمد عبدالراشد خان کا اپنا آئیڈیل مانا، عبدالراشد خان  خود بھی ایک بڑے مجاہدآزادی تھے، بیبی التمش گاندھی جی اہنسا والے نظریے سے پوری اتفاق رکھتی تھیں اور گاندھی کے کاموں سے بہت متاثر تھیں، لہذا انہوں نے بھی ملک کے لوگوں کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا اور کھادی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، 1931 میں انہوں نے گاندھی جی کے سیواگرام آشرم سے رجوع کیا اور وہاں کی مشکل زندگی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا، انہوں غریب طبقے کیلئے بہت خدمات انجام دیں۔بیبی التمش کو اپنی بیماری کے باوجود راشٹریہ آندولن میں شرکت کرنے کی وجہ سے 1932 میں گرفتار ہونا پڑا، اس کے بعد وہ سیوا گرام آشرم میں گاندھی جی کے پنجی سیکریٹری بن گئیں، آزادی کی لڑائی کے علاوہ قومی یکجہتی اور ہریجن کی ترقی اور خواتین کی مدد ان کی زندگی کے اہم حصہ رہے، وہ گاندھی جی کے ساتھ فساد میں جل رہے نواطالی گئیں اور بیس دن تک ستیہ گرہ کیا، آزادی کے بعد بیبی التمش سلام سرکاری عہدے کو ٹھوکر مار دیا اور خود کو مظلوموں کی خدمت میں مشغول کر دیا، 1962 میں چین کی جنگ اور 1965 کی پاکستان جنگ میں بیبی التمش سلام نے تمام مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے گور لئے ہوئےبیٹے سنیل کمار کے ساتھ جنگ کے میدان میں فوجیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں، انہوں اپنی پوری زندگی ملک کیلئے وقف کر دی، اس عظیم شخصیت نے اپنی زندگی کی آخری سانس 29 اکتوبر1975 میں لی۔

خواتین اپنے گھروں میں اسلامی ماحول بنانے کا عہد کریں، مولانا بلال حسنی ندوی کا ٹیونکلنگ اسٹارس اے پلے اسکول میں اجتماع خواتین سے خصوصی خطاب!

لکھنؤ(آئی این اے نیوز 24/اپریل 2019) دور حاضر میں ایمان کی حفاظت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے آج جو صورت حال ہے وہ بے حد تشویشناک ہے، اسلئے ہم سب کو اپنے ایمان کے بارے میں فکر مند رہنا چاہیے اور اپنے بچوں کے عقائد اور ایمان کی حفاظت کریں اور سب سے پہلے انکو دین کی بنیادی تعلیم دلائیں اور انکو  گندے ماحول سے نکال کر اچھا ماحول فراہم کریں یہ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے، مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا سید بلال عبد الحئی حسنی ندوی جنرل سکریٹری آل انڈیا پیام انسانیت فورم لکھنؤ نے کیا، وہ ٹیونکلنگ اسٹارس اے پلے اسکول باغ قاضی یحی گنج  میں اجتماع خواتین سے خصوصی خطاب کرتے رہے تھے.
انہوں نے مزید کہا کہ آج جو ہماری حالت ہے وہ ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے  اگر ہم نے اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کی دین کہ فکر نہ کی تو یہ بہت ہی خطرناک بات ہے، انہوں نے کہاکہ جب تک بچے کا شعور پختہ نہ ہو جائے اسکو موبائل ہرگز نہ دیں اسلئے کہ موبائل سے  دینی واخلاقی روحانی بلکہ انسانی قدروں کو زبردست نقصان پہنچ رہا ہے، میں اسکے فائدہ کا ہرگز منکر نہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔
مولانا بلال حسنی نے اجتماع کے انعقاد پر اسکول کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب بچے اور بچیاں دین کی تعلیمات سے آراستہ ہوں گی تو معاشرہ صالح بنے گا اور ہمارے گھر جنت کے نمونے بنیں گے، انھوں نے کہاکہ رمضان المبارک کی آمد  آمد ہے ہم اسکا استقبال کریں، جس طرح کوئی بڑا مہمان آتا ہے تو اسکے لئے تیاری کی جاتی ہے، اسلئے ہم رمضان کے استقبال کیلئے تیاری کا اہتمام کریں اور اس ماہ مبارک کی حفاظت کریں تمام برائیوں اور خرافات سے اجتناب کریں، یہ مہینہ مغفرت رحمت اور غمگساری کا مہینہ ہے، گھریلو کام کیساتھ اس میں قرآن کریم کی تلاوت کا  اہتمام کثرت سے کریں اور اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھیں اور غریبوں کی مدد کریں خاص طور پر جو اپنے رشتے دار ہوں، ایسا کرنے پر دو اجر ملتے ہیں ایک صدقہ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے.
قبل ازیں قاری عطاء الرحمن بلھروی امام جمعہ مسجد عثمانیہ احاطہ سنگی بیگ نخاس لکھنؤ نے مختصر خطاب میں کہا کہ خواتین اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو دین و شریعت کا پابند بنائیں جب وہ دیندار ہوں گی تو انکی اولادیں بھی نیک صالح ہوں گی اور شریعت کی حفاظت کریں گی، انھوں نے کہاکہ معاشرے کی اصلاح میں خواتین کا کلیدی کردار ہوتا ہے اسلئے وہ اپنا فریضہ کو انجام دیں اور سب سے پہلے اپنے بچوں کو دیندار بنائیں اور انکی ذہنی و فکری تربیت کریں.
قاری عطاء الرحمن نے اسکول  کے انچارج  شیرازالدین اور تمام ذمہ داروں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج وقت کا اہم تقاضا ہے کہ ایسے اسکول اور کالج قائم کئے جائیں جن میں اسلامی ماحول ہو اور انکی دینی تربیت کا بھی نظم ہو.
اس موقع پر اسکول کے انچارج شیرازالدین، مولانا قریش ندوی، مولانا محمد طاہر ندوی، قاری ظہیر الاسلام عرفانی امام مسجد نور و ناظم جامعہ اسلامیہ للبنات قصبہ بہادر گنج، محمد عمر، ماسٹر زین العابدین۔ محمد عامر، محمد یوسف، حافظ نصیر خیرآبادی، محمد طلحہ محمد معاذ سمیت دیگر لوگ موجود تھے، نیز بڑی تعداد میں خواتین اور خصوصاً کالج میں پڑھنے والی  بچیوں نے شرکت کی، آخر میں شیرازالدین نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

Tuesday 23 April 2019

اسلام کا تحفظ جمعیۃ علماء کا اولین مقصد، ملک کی آزادی جمعیۃ علماء کی مرہون منت ہے، جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور، بنشنکری کے اجلاس عام سے مولانا سید حبیب اللہ مدنی کا خطاب!

محمد فرقان
ــــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 23/اپریل 2019) جیسے جیسے قیامت قریب آرہی ہے مسلمانوں کا ہمت و حوصلے پست ہوتے جارہے ہیں، تعداد میں تو مسلمان پچھلے زمانے سے لاکھ گنا زیادہ ہیں لیکن طاقت کم ہوگئی ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے صرف نماز، روزہ اور دعا پر اعتماد کرلیا، ہم نے سوچھ لیا کہ بغیر کسی مجاہدے کہ صرف دعا سے ہمارے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔یاد رکھو جب تک ہم محنت و مشقت نہیں کریں گے تب تک ہمیں اسکا پھل نہیں مل سکتا۔مذکورہ خیالات کا اظہار مسجد نورانی، الیاس نگر میں جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور، بنشنکری کے زیر اہتمام منعقدہ اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے نبیرۂ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حبیب اللہ مدنی مدظلہ نے کیا۔
مولانا مدنی نے جمعیۃ علماء کا تعارف کراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب ہندوستان پر انگریز سامراج کا بادل چھایا ہوا تھا اور ہر طرف ظلم و ستم ڈھایا جارہا تھا۔تب دارالعلوم دیوبند جس کی بنیاد ہندوستان کی آزادی کیلئے رکھی گئی تھی۔وہاں سے حضرت شیخ الہندؒ کی قیادت میں ایک جماعت نکلی جسکا نام جمعیۃ علماء ہند تھا۔جمعیۃ علماء ہند نے ملک کی آزادی کیلئے اپنا جان و مال سب کچھ قربان کردیا۔اگر جمعیۃ علماء نہ ہوتی تو ہندوستان آزاد نہ ہوتا۔مولانا نے فرمایا کہ ملک کی آزادی جمعیۃ علماء کی مرہون منت ہے۔انہوں نے مسلمانوں کو دہشت گرد اور پاکستانی کہنے والوں کو منھ توڑ جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے خود دہشت گرد ہیں۔نیز فرمایا کہ جمعیۃ علماء روز اول سے قیام پاکستان کی مخالف تھی۔مولانا مدنی نے فرمایا کہ اس ملک پر جتنا حق دیگر شہریوں کا ہے اتنا ہی مسلمانوں کا بھی ہے۔ہم نے اس ملک کو آزادی دلائی ہے۔ہم یہیں پیدا ہوئے تھے اور یہیں مریں گے اور یہیں دفن ہونگے۔مولانا نے کہا ملک و ملت کی بقاء اور ترقی کیلئے جمعیۃ علماء نے ہمیشہ ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ہیں۔
مولانا حبیب اللہ مدنی نے فرمایا کہ اسلام کا تحفظ جمعیۃ علماء کا اولین مقصد ہے۔انہوں نے کہا جمعیۃ علماء کی وہ تاریخ ہے جسے کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے ملک ایک جمہوری ملک ہے یہاں مختلف مذاہب کو ماننے والے آپس میں پیار و محبت کے ساتھ بستے ہیں۔اگر کوئی انکے درمیان درار ڈالنے کی کوشش کرگا جمعیۃ علماء انہیں نہیں بخشے گی۔اگر ملک کے کسی شہری کو کوئی پریشانی ہو جمعیۃ علماء انکے ساتھ ہے۔قابل ذکر ہیکہ جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور، حلقہ بنشنکری کا یہ پہلا عظیم الشان اجلاس عام جمعیۃ علماء بنگلور کے نائب صدر حافظ آصف کی نگرانی میں منعقد ہوا تھا۔جس کی صدارت جمعیۃ علماء کرناٹک کے صدر مولانا عبد الرحیم رشیدی نے کی۔جبکہ نظامت کے فرائض جمعیۃ علماء بنگلور کے صدر مولانا صلاح الدین قاسمی نے ادا کئے۔اجلاس کا آغاز مولانا ریاض الدین قاسمی کی تلاوت، نعت اور حافظ عمران کی پیش کردہ ترانۂ جمعیۃ سے ہوئی۔جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور، بنشنکری کے صدر مولانا نظام الدین قاسمی نے استقبالیہ اور ناظم عمومی مفتی سلیم قاسمی نے ہدیۂ تشکر پیش کیا۔اس موقع پر مولانا عبد الرحیم رشیدی اور مولانا شمیم سالک مظاہری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔اجلاس میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان اسلام نے شرکت کی جس میں بطور خصوصی جمعیۃ علماء کرناٹک کے ناظم عمومی جناب محب اللہ امین، حافظ یل فاروق، وغیرہ شریک رہے۔اجلاس کے اختتام پر جمعیۃ علماء ساؤتھ بنگلور، بنشنکری کی جانب سے مولانا حبیب اللہ مدنی کی شال پوشی اور تہنیت نامہ کے ذریعہ اعزاز کیا گیا اور انہیں کی دعا سے مجلس کا اختتام ہوا۔  

جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات میں اجلاس عام برائے خواتین 25 اپریل کو!

دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 23/اپریل2019) جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات موضع گردھر پور سنت کبیر نگر میں نواں سالانہ اجلاس عام برائے خواتین کا انعقاد  25 اپریل 2019 بروز جمعرات کو صبح 8 بجےسے ہوگا، جس میں جامعہ کی طالبات قرآت، حمد ونعت، تقاریر اور دلچسپ اصلاحی مکالمے پیش کریں گیں.
 امسال جامعہ سے فارغ ہونے والی 6 طالبات کو سند فراغت وفنون دستکاری کی سند اور ردائے فضیلت سے نوازا جائے گا، واضح رہے کہ جامعہ للبنات معروف بزرگ شخصیت مولانا صابر علی قاسمی چترویدی کے زیر سرپرستی پروان چڑھ رہا ہے.
جامعہ کے ناظم مولانا عبد الحفیظ قاسمی نے خواتین اسلام سے شرکت کی درخواست کی ہے، انھوں نے کہا کہ صرف اور خواتین اور مستورات کے لئے اجلاس کا انعقاد کیا گیا ہے.

اعظم گڑھ:راشٹریہ علماء کونسل سے ٹھاکر انل سنگھ و رادھے شیام گوتم نے کیا پرچہ نامزدگی داخل!

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 23/اپریل 2019) ایک طرف جہاں بی جے پی اپنی کرسی کو دوبارہ بچانے کی کوشش میں ہے تو وہیں سپا بسپا نے گٹھبندھن کر اترپردیش میں اپنے وجود کو بنائے رکھنا چاہتی ہیں، مگر اس گٹھبندھن میں مسلم قیادتوں کو حصہ داری نہ دیئے جانے کے خلاف مسلم پارٹیاں بھی میدان میں اتر گئی ہیں، یہ پارٹیاں اپنے اپنے حلقہ میں گٹھبندھن کے لئے مصیبت بھی کھڑی کر سکتی ہیں، راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی نے پریس کانفرنس کر گٹھبندھن کو ٹھگبندھن قرار دیا تھا تو وہیں مختلف سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارنے کا اعلان کیا تھا، اسی کڑی میں گزشتہ کل اعظم گڑھ کے صدر سیٹ سے سپا امیدوار سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو کے خلاف راشٹریہ علماء کونسل سے ٹھاکر انل سنگھ اور لال گنج (محفوظ) سیٹ سے نیلم سونکر کے خلاف رادھے شیام گوتم نے پرچہ نامزدگی داخل کیا، پرچہ نامزدگی سے پہلے ایک لمبے قافلہ کے ساتھ شہر میں روڈ شو کر عوام سے ووٹ دینے کی اپیل کی۔
 آپ کو بتا دیں کہ ٹھاکر انل سنگھ پارٹی بننے سے پہلے کے قومی صدر کے ساتھی میں سے ہیں یعنی پہلے دن سے پارٹی کے ممبر ہیں تو وہیں لالگنج امیدوار رادھے شیام اس سے پہلے کونسل کے ٹکٹ پر ضلع پنچایتی کا چناو لڑچکے ہیں اور برابر وہ زمین پر لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہتے ہیں، قومی صدر مولانا عامر رشادی نے روڈ شو کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا جو جامعة الرشاد ہوتے ہوئے کوٹ محلہ، تکیہ، کوتوالی ہوتے ہوئے ضلع کلکٹریٹ پر پہنچ کر ختم ہوا ۔
   اس موقع پر قومی جنرل سکریٹری مولانا طاہر مدنی، قومی سکریٹری مفتی غفران قاسمی، قومی ترجمان طلحہ رشادی، یوتھ صوبائی صدر نورالہدی، ماسٹر طارق وغیرہ سمیت ہزاروں لوگ موجود رہے۔

Monday 22 April 2019

بی جے پی کا موبائل پرچارک !

ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی دارالعلوم النصرہ دیوبند
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
13اپریل بروز سنیچر جب میں دیوبند سے اپنے وطن مالوف ڈھکواں/ ہنسور/  امبیڈکر نگر پہنچا اور محلے وپاس پڑوس کے احباب کے ساتھ کچھ خال خیریت کے لئے بیٹھا تھا کہ ہمارے ایک رفیق جناب محمد اعجاز صاحب کے پاسـتھا کہ ایک اجنبی نمبر 7971493273 سے ایک فون آیا کال کرنے وللے نے فورا بی جے پی کے گن گانے لگا اور بی جے پی کی اہمیت اور اسے ووٹ دے کر ایک بار پھر مودی جی کو وزارت عظمہ کے عھدے پر براجمان کرنے کی درخوست کرنےلگا، ہمارے رفیق نے وہ فون فورا مجھے تھمادیا اولاتو مجھے تو یہ حیرت ہوئی کہ بی جے پی کے لوگ کس سطح پر پہنچ گئے ہیں کہ اب فون کرکے پھولی بھالی عوام کو اس طرح بےوقوف بناتے ہیں اور اس طرح گویا ایک ایک فرد تک پہنچ کر ووٹ مانگتے ہیں،
میں نے فورا اس موبائل پرچارک سے سوال کیا کہ ہم کیوں بی جے پی کو ووٹ کریں اور آپ کس بنیاد پر بی جے پی کے لئے ووٹ مانگتے ہیں اور اس کے لئے حمایت کی اپیل کرتے ہیں پھر میں نےبالترتیب تمام کالے کرتوتوں کا پٹارا کھول دیا اور تمام بدعنوانیوں اور سارے کریشن ایک ایک کرکے گنوانے شروع کردئے کا لے دھن، دہشت گردی کا خاتمہ رافیل پھر مہنگائی اور ملک عزیز کی سیاسی سماجی معاشی اور اقتصادی حالات اس کے سامنے رکھے، پھر پلوامہ ، اڑی اورمسلمانوں اور دلتوں کے ساتھ ہورہےمظالم کا جیوں ہی تذکرہ شروع کیا تو وہ موبائل پرچارک فون کاٹ کر بھاگ جانے میں ہی عافیت سمھجی پھر میں نے بہت کوشش کی کہ دوبارہ فون لگ جائے لیکن کامیابی نہ مل سکی، مجھے تو یہ معلوم نہین کہ اس طرح کسی کے پاس خفیہ فون کرکے کسی پارٹی کاپرچار کرنا اور اس کے لئے ووٹ مانگنا الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے ڈائرے میں آتاہے کہ نہیں لیکن موبائل پرچارک کے فون سے بی جے پی کی پریشانی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے اور اس سے یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ بی جے پی زمینی سطح پر چاروں شانے چت ہوچکی ہے اور اگر evm نے مہربانی نہ کی شکشت وفتح اگر عام کی رائےدہی پر ہی موقوف رہا تو بی جے پی کو شکشت وحزیمت سے کوئی روک نہیں سکتا، اور اس الیکشن میں بی جے پی کے لئے ایک بڑی پریشانی کے لئے یہ رہی کہ شاید تاریخ کا یہ پہلا الیکش ہو جس میں بی جے پی کچھ اس طرح گھر گئی ہے کہ چاہ کر بھی رام مندر کے موضوع کو زندہ نہ کرسکی.