اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مزاحیہ ولطیفے، چناوی دنگل کے پیچ وخم(ایک مزاحیہ انشائیہ)

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 26 April 2019

مزاحیہ ولطیفے، چناوی دنگل کے پیچ وخم(ایک مزاحیہ انشائیہ)

حالاتِ حاضرہ کی عکاسی کرتا ایک مزاحیہ مضمونــ’’ چناوی دنگل کے پیچ وخمـ‘‘

 محمد عباس دھالیوال
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
فطرتاً ہم کافی شریف و جذباتی واقع ہوئے ہیں ۔ہماری اس شرافت کا اکثر لومڑی نما مشاق لوگ جم کر فائدہ اٹھا تے ہیں. یہاں تک کے ہماری حساس طبیعت کے چلتے اکثر لوگوں نے گھڑیالی آنسو بہا کر ہمیں نہ صرف الّوبلکہ کاٹھ کا الّوبنا کر، نہ معلوم اپنے کتنے ہی الّوکے پٹھوں کے، الو سیدھے کئے ہیں.
ایسے تو ہم کسی ایرہ غیرہ، نتھو، خیرہ کی باتوں میں بہت کم آتے ہیں. لیکن اکثر خوش آمدی لوگ جب اپنی باتوں کو مکھّن لگا کر پیش کرتے ہیں.توہم جیسے تو کیا بڑے بڑوں کی عقلیں غوطہ کھا جاتی ہیں اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی آدمی خود کو پھسلنے سے نہیں روک نہیں پاتا۔
ابھی حال ہی کی بات ہے کہ جیسے ہی چناوء کمیشن نے الیکشن کا بغل بجایا توکچھ خوش آمدی لوگ، جو صرف اور صرف، چناوء کے موسم میں ہی نظر آ تے ہیں، بالکل ان” پتنگوں” کی طرح جو برسات کے دنوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ایک گرمی کی شام جب ہم اپنے گھر پر ہم چچا غالب کی غزلیں سماعت فرما رہے تھے کہ اسی دوران دروازے پر دہڑا دہڑ دستک ہوئی بالکل ویسے ہی جیسے کہ کوئی قرضہ وصولی کرنے آیا ہو.!
اس سے پہلے کہ ہم باہر والوں کو اندر آنے کی دعوت دیتے وہ خود ہی ہمارے گھر میں اپنا مالکانہ حق سمجھ کر گھس آئے ۔ایسے میں ایک شریف آدمی بھلا کیا کر سکتا ہے۔
رسماًحال چال پوچھنے کے بعد ہم نے جیسے ہی آنے کی وجہ معلوم کی تو وہ بنا تمہیدباندھے سیدھے ہی بولے کہ . ” بس! اس بار فیصلہ ہو چکا ہے”.. ہم نے پوچھا بھائی کاہے کا.! وہ بولے” ہم نے آپ کو الیکشن لڑوانا ہے اور جیت دلا کر ہر حال میں پارلیمنٹ پہنچا نا ہے”. انکی اچانک ایسی غیر متوقع بات سن کر ہم یکدم حیران رہ گئے ۔کیوں کہ سیاست اور ہمارے درمیان نزدیک کا تو چھوڑئے…. دور.. دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے. یا یوں کہہ لیں کہ سیاست سے ہمیں اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ایک گدھے کو تعلیم سے یا ایک بھینس کو بین سے ہو تی ہے…!ہماری گزشتہ سات پشتو ں اور اس سے پہلے کی معلوم نہیں..! کتنی ہی سات پشتوں کا سیاست کے مابین کوئی تعلق رہا ہو..؟اس کا دھندلا سا بھی منظر، ہمیں اپنی بڑے نمبر والی عینک لگا کر بھی دکھائی نہیں دیتا..!
ہم نے ان بن بلائے دھکے شاہی مہمانوں کو سمجھا یا. بھائی ہمیں تو سیاست کی اے. بی. سی تک نہیں آتی اورآپ ہمیں سیدھا ایم.پی کا الیکشن لڑانے جا رہے ہو.ویسے بھی لیڈروں میں تو ڈھیر وں خوبیاں ہوتی ہیں’ بد قسمتی سے ہم میں تو ویسی ایک بھی نہیں.. جیسے لیڈر خود ہی میں ایک منفرد شخصیت ہوتا ہے. جواب میں انہوں نے کہا” جب طوطا..! ہنس اور گھگی..! جیسے پرندے، سیاست میں آ کر، اپنے کیرئیر کو بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں… تو آپ تو پھر بھی ماشااللہ، ”اشرف المخلوقات” کے زمرے میں آتے ہیں”.
ہم نے کہا پھر بھی ایک لیڈر رکا سنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے اور ہم ٹھہرے پیدائشی غیر سنجیدہ..! انہوں نے کہا ”جناب آپ کو شاید نہیں معلوم، آجکل عوام کا سیاسی مزاق بالکل بدل رہا ہے. لوگ اب سنجیدہ قسم کے’ مونی بابا ‘لیڈروں کو قطعاً پسند نہیں کرتے. آج عوام میں وہ لیڈر زیادہ ہر دل عزیز معروف ہو رہے ہیں جو لوگوں کو لطیفے سنا کر ان کا دل بہلاتے ہیں.
پارلیمنٹ کا نظارہ تو آپ آئے دن مختلف چینلز پر کرتے ہی رہتے ہیں. جہاں حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے ممبران کے درمیان جو دنگہ مشتی دکھائی دیتی ہے ایسے دلچسپ مناظر شاید ڈبلیو ڈبلیو کے رئیل رِنگ میں بھی آپ کو دیکھنے کو نہ ملیں۔کرسیاں ما ئیک جوتے اور آجکل تو چلی پاؤڈر کا بھی بلا تکلف استعمال ہونے لگا ہے جیسے پیار اور جنگ میں سب کچھ جائزہے اسی طرح اپنے سیاسی حریف کو ضرب پہنچا نے کی خاطر لیڈر کسی بھی حد تک جانا گویا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔
ہم نے کہا اگر خدانخواستہ ہم سے کوئی اسیکینْدلز سرجد ہو گیا تو میڈیا والے تو ہماری بینڈ بجادیںگے۔ اس کے جواب انھوں نے کہا کہ لیڈروں اور گھوٹالوں کا پہلے پہل سے ہی چولی دامن کا ساتھ چلا آرہاہے، یعنی دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے لازم و مظلوم بنے ہوئے ہیں. جیسے مچھلی جل کے بغیر نہیں رہ سکتی ویسے ہی ایک قد آور لیڈرشپ کا ہم اسکینڈلز کے بنا تصور نہیں کر سکتے اور ہاں ویسے بھی ایک لیڈر کا جب تک مختلف اسکینڈلز میں نام نہ آئے اسے میڈیا والے بھی گھاس نہیں ڈالتے۔اسکے ساتھ ہی ایک لیڈر کا فرقہ پرست ہونا بھی بے حد ضروری ہے تاریخ شاہد ہے جن لیڈروں پر فرقہ پرستی پھیلانے اور ہزاروں افراد کے قتل کے مقدمات چلے اور جن کو عدالت نے تڑیپار کیا ۔لیکن ہمارے ملک کے عوام کی سیاسی سوجھ بوجھ دیکھیں کہ جب انھوںنے جیل سے رہا ہوتے ہی سیاسی میدان میں کودے تو انکی نہ صرف عوام نے عزت کی بلکہ انھیں بھاری ووٹوں سے جتا کر پالیمنٹ میں بھی پہنچایا۔گویا پنجابی کی دو کہاوتیں ُُلچا سب سے اچا، اور لچا لنڈا چوہدری غنڈی رن(بیوی)پردھان، ہمارے عہد حاضر کے سیاسی پس منظر پر ایک دم صادق آتی ہیں. کیا خوب کہاہے.. ہمارے یہاں کی، سیاست کا حال مت پوچھو. گھری ہو ئی ہے، طوائف، تماش بینوں میں. پ
کے مصداق ٹچا سب سے اونچا یا لچا لنڈہ چودھری ٖغنڈی رن پردھان جب کہ ہماری سیاست کا ندافاضلی نے اپنے شاعرانہ انداز میں کچھ اس طرح سے بیان کیا ہے کہ:
ہمارے یہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
ہم نے کہا بھائی الیکشن کے لئے کچھ تعلیمی لیاقت بھی تو درکار ہوتی ہو گی. انھوں نے کہا بھائی ہم نے کون سا آپ کو کوئی آئی.اے. ایس یا یو پ۔پی۔ ایس۔سی کا امتحان دلا کر کوئی افسر لگاناہے بلکہ آپ حکمران بن جائیں تو ایسے اعلی تعلیم یافتہ افسر آپ کے جوتے کی نوک پر ہونگے ہم نے کہا پھر بھی سیاسی لیڈر کے لیے تعلیمی لیاقت کم از کم ایم. اے یا بی. اے تو ہو تی ہوگی. اسکے برعکس ہم تو صرف 2+پاس ہیں وہ بھی تیسرے درجہ میں. انہوں نے کہا” جناب اعلی تاریخ شاہد ہے سیاسی میدان میں ایسے لوگوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں ہیں جو پانچویں، آٹھویں فیل یا پھر بالکل انپڑھ ایک دم انپڑھ ہوں ابھی گزشتہ الیکشن کی ہی بات کریں تو ملک میں ایک بارھوی جماعت تک کی تعلیم رکھنے والے لیڈر کو دیش کا وزیر تعلیم بنا یا گیا اور یہاں تک کہ ایک آٹھویں فیل ممبر اسمبلی نے تو نائب وزیر اعلی کے عہدے تک کا حلف اٹھا یا جبکہ ایک جعلی ڈگری والے کو تو کابینہ میں وزیر قانون بنا کر عزت دی گئی. ویسے بھی آپ جب جیت کر حکمران بن جائیں تو جیسی ڈگری چاہیں حاصل کر لیں آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ویسے تو آجکل میڈیا کسی بھی بڑے لیڈر سے جعلی ڈگری کا سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کرتا ل کیونکہ یہ بات ہر ایک کے آجکل مشاہدہ میں آئی ہے کہ دیش کا بیشتر میڈیا بڑے لیڈروں اور بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے پاوئں کی جوتی بن کر رہ گیا ہے ہاں اگر کوئی باضمیر صحافی لیڈر سے سوال کرنے کی جرئت دکھاتا بھی ہے تو اسے ضمیر فروش ٹرولرز کے ذریعہ اس قدر غلیظ گالیوں اور دھمکیوں سے نوازہ جاتا ہے کہ وہ بیچارہ بے بس اور بے یار ومددگار سا نظر آتا ہے۔
ہم نے کہا ہمیں تو بات کرنے کا سلیقہ تک نہیں. ”بھاشن” کیسے دیں گے. انہوں نے کہا ”ہم نے اس میدان میں ایسے اناڑی بھی دیکھے ہیں گویا:
بات کرنا تک نہ آتی تھی انھیں
یہ ہمارے دیکھنے کی بات ہے
بھاشن دینا کوئی مشکل کام نہیں.بس آپ کو تھوڑا پروفیشنل بننا ہوگا یعنی آپ کو ایسی مارکیٹنگ کرنی آنی چاہئے،بالکل” گنجوں کو کنگھی” بیچنے جیسی. اسکے لیے آپ کو چناؤ سے ٹھیک پہلے ، سیاست کے کسی ماہر تھنک ٹینکرسے، چند چناوی جملے سیکھنے ہوں گے الیکشن کے بعد آپ چاہیں تو انہیں بے وفا محبوب کے وعدوں کی طرح یکسر بھول جائیںآپ سے کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔اگر کوئی پوچھنے کی حماقت بھی کرے تو اپنے ٹرولرز کی فوج اس کے پیچھے لگادو اور پھر ٹرولر اس کی ایسی دھلائی کریں گے کہ وہ بیچارہ آپ سے سوال کرنے کی بجائے خود کو بھی بھول جائے گا۔
ہم نے کہا بھائی خدا نخواستہ ہم جیت گئے تو ہم پر بہت ساری ذمہ داری عائد ہو جائیں گی انکو ہم کیسے نبھاپائیں گے. انہوں نے کہا آپ کو کس احمق نے کہا کہ ذمہ داریاں نبھاؤں بلکہ یہ سب تو چناوی وعدے ہوتے ہیں اور وعدے بھی ایسے جنھیں کبھی وفا نہیں ہو نا ہو تا.ہمارا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی فلموں کے گیتوں کو عملی جامہ پہنا ئیں.جیسے کہ :قسمیں وعدے، پیار، وفا سب… باتیں ہیں، باتوں کا،کیا..!
ویسے آپ نہیں جانتے کہ جن ممالک کے عوام” جذباتی” ہو ں ان ملکوں کے حکمرانوں کو حکومت کرنے میں ”مشکل”سے بھی کوئی مشکل پیش نہیں آتی. آپ جیت کے بعد عوام کو ذات، دھرم، علاقے اور زبان جیسے مسئلوں میں الجھا کر اپنے کسی بھی گھوٹالہ اور اسکینڈل سے لوگوں کا دھیان ہٹا سکتے ہیں. اور ہاں..! قوم کے مستقبل کو یعنی ً نوجوان نسل کو تو آپ نیٹ کا فری ڈیٹا مہیا کروا کر.بہ آسانی اپنے نیٹ کے جال میں الجھاسکتے ہیں یا پھر دو حریف ملکوں کے درمیان کوئی ٹونٹی ٹونٹی کروا کر یا کوئی سرجیکل اسٹرائیک کرواکر ان کا دھیان بہ آسانی اصل مدعوں سے ہٹا سکتے ہیں. ویسے بھی ملک کے مستقبل یعنی نوجوانوں کو تو آپ کوئی بھی دیش بھگتی کا فرضی نعرہ دیکر جب چاہیں بیوقوف بنا سکتے ہیں او ر ہاں اگر ان میں سے کوئی بھی نسخہ کارگر ثابت نہ ہو تو آپ مذہب کے نام پر فرقہ پرستی کا زہر پھیلا کر اپنے پچھلے تمام وعدوں کے ساتھ اپنے تمام گناہوں پہ بھی پردہ ڈال سکتے ہیں۔
ہم نے کہا بھائی ایک طاقتور لیڈر کے لیے ہٹّا کٹّااور لمبا تڑنگا ہونا تو اشد ضروری ہے کیونکہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک طاقتور جسم میں ہی ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے اور ہمارا قد تو آپ ماشائاللہ دیکھ ہی رہے ہو جو ساڈھے چار فٹ تک پہنچنے سے قبل ہی ختم ہو جاتا ہے. انھوں نے کہا” بھائی تاریخ شاہد ہے کہ کمزور و ناتواں قسم کے لیڈران نے اس میدان میں جو معرکے مارے ہیں وہ پہلوان قسم کے لیڈر نہیں مارپائے. مفلر باندھ کر، آج کوئی بھی سادھارن ومسکین سا دکھنے والا آدمی، عوام کی سچی ہمدردیاں حاصل کر نے میں نہ صرف کامیاب ہو سکتا ہے بلکہ سی. ایم. بھی بن سکتا ہے ویسے بھی گزشتہ مشاہدہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کبھی کبھی 56 انچ کے سینے پر 26انچ کی چھاتی بھی بھاری پڑ جاتی ہے. بالکل ویسے جیسے شکار پر گیا شیر، کبھی کبھی خود شکار بن جاتا ہے”.
ہم نے کہا بھئی پارٹی میںعمر رسیدہ دہاکوں پرانی لیڈر شپ کے سامنے ہم بھلا نو سیکھیئے کیسے ٹک پائیں گے تو انھوں کہا کہ اس کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ ان کو پارٹی کا مارگ درشن بناکر ہمیشہ کے لیے ایک سیاسی درشک بناڈالو۔
ہم نے کہا پھر بھی سیاست میں اینٹری مارنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک لیڈر کی شخصیت پوری طرح صاف و شفاف ہو اس کے دامن پر ایک بھی داغ نہ ہو. انہوں نے کہا کہ ”آج کل تو لیڈر ہی اسے تسلیم کیا جاتا ہے جس پر لوٹ مار قتل و غارت اور دھوکہ دہی کے درجنوں مقدمے چلتے ہوں ۔
اتنی واضح اور روشن دلیلیں سن لینے کے بعد گویا ہم نے اپنے تمام ” ہتھیار ” ان کے قدموں میں ڈال دیئے اوراس طرح آخر کارہم نے الیکشن لڑنے کاپختہ ارداہ کر لیا۔