اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: February 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 28 February 2019

کیا جنگ مسئلہ کا حل ہے؟

ذیشان الہی منیر تیمی
مانو کالج اورنگ آباد مہاراشٹرا
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
14 فروری 2019  ء کو پلوامہ کے اندر جس طرح ہندوستان کے 48 ۱فواج کو شھید کیا گیا وہ یقینا دردناک اور افسوس ناک خبر تھی اور اس خبر کو سن کر صرف انڈیاں ہی نہیں بکلہ پوری انسانیت کی آنکھیں نم ہوگئیں ۔اس حملہ کے بعد ہندوستان کے افراد کا غصہ ہونا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بہت حد تک  ضروری بھی  تھا اس لئے لوگوں نے اخبارات و رسائل سے لیکر ٹی وی ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر  جہاں ایک طرف شھیدوں کے حوصلہ کو سلام کیا وہی دوسری طرف اس حملہ کے ذمہ دار (جیش محمد جنہوں نے ویڈیوں جاری کرکے اس حملہ کی ذمہ داری اپنے سر لی )کو کڑی سے کڑی سزا دینے کی مانگ کی اور یہ سلسلہ روز بروز چلتا ہی رہا
ریلیاں ہوتی رہیں اور وزیر اعظم نے لوگوں کو یہ یقین دلائی کہ اس مرتبہ سب  کا حساب ہوگا اور حساب پورا ہوگا ۔حکومت کے ساتھ  اپوزیشن پارٹیاں  بھی کھڑی ہوئی  نظر آئیں اور ان لوگوں نے بھی افواج کے قاتلوں کو کھڑی کھوٹی خوب سنائی ۔آخر کار یہ سلسلہ چلتا رہا ویڈیوں ،ریلیاں ،ریڈیوں، نیوز اور روڈ شو ہوتے رہے اور قاتلوں سے پورا پورا بدلہ لینے کی بات اور زور  پکڑتی گئیں پھر ہندوستانی میڈیاں کے مطابق 26 فروری کا وہ وقت بھی آیا جب  ہندوستانی افواج نے لگ بھگ تین بجے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائک کیا اور جیش محمد کی آتنکی کیمپوں پر بمباری کرکے اسے نیست و نابود کردیا اس میں لگ بھگ 300 یا 350 کے قریب جو لوگ آتنک وادی  گروپ سے جڑے ہوئے تھے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جن میں مسعود اظہر کے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے ۔جب کہ پاکستانی میڈیا کے مطابق 26 فروری کو ہندوستانی افواج پاکستان تو آئے تھے لیکن پاکستانی افواج کی مخالفت کی وجہ کر وہ فورا بھاگ گئے اور جاتے جاتے جنگلوں میں درختوں پر بمباری اور بارود گرا کر گئے  ان دونوں باتوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے اور کہاں کی میڈیا جھوٹ اور کہاں کی میڈیا سچ بول رہی ہیں یہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے ۔
   خیر اس حملہ کے بعد جوابی کاروائی میں پاکستان نے ایل او سی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہونے کی کوشش کی پھر ہمارے انڈین افوج کی مخالفت کے بعد وہ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن ان سب کے بیچ کچھ ہندوستان اور کچھ پاکستان کے طیارے ہلاک ہوگئے اور ہندوستان کے دو جانباز فوج کو پاکستان نے پکڑ لیا ان کی ویڈیوں اور تصاویر بھی آچکی ہیں اور خبروں کی تحقیقی بھی ہوگئی ہیں  ۔
     ابھی ہندوستان اور پاکستان کا جو ماحول ہے اس کی وجہ کر ایسا لگتا ہے کہ دونوں ملک آپس میں ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لئے مکمل تیار ہیں ۔لکین ان تمام کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگ مسئلہ کا حل ہے ؟ کیا جنگوں میں دونوں طرف کےمعصوم  لوگ نہیں مارے جائنگے ؟کیا اس جنگ کی وجہ سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا ؟ کیا جنگ کی وجہ سے اس خطے میں چین اور سکون بحال ہو جائے گا ؟  کیا اس کی وجہ کر دونوں ملکوں کی معیشت خراب نہیں ہوگی ؟ کیا اس جنگ کی وجہ سے لوگوں کے چین و سکون باقی رہیں گے  ؟ کیا اس جنگ کی وجہ سے ہمارے شہیدوں کی روح کو شانتی ملے گی؟ یہ اور اس جیسے بہت سارے سوالات ہیں جو اس وقت ایک ذمہ دار انسان ہونے کے اعتبار سے  ہم سے پوچھ رہا ہے لیکن ان تمام سوالوں کے جواب  میں ہمے بے چینی ،بے قراری ، قتل و خون ریزی اور بربادی نظر آتی ہے ۔اس لئے ہماری حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسی حکمت علمی کا استعمال کرے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے کیونکہ تاریخ ہمے بتاتی ہے کہ جنگ کی وجہ کر فیصلہ نہیں ہوتے بلکہ بربادی اور خونریزی ہوتی ہے لاشیں گڑتی ہیں اور معیشت تباہ و برباد ہو جاتی ہے ۔اس لئے جنگ کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے جیسا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم ہمے بتاتی ہے اس لئے بات چیت کرکے دونوں ممالک کو مسئلے کے حل تک پہنچنا چاہئے اور اس جانب عمران خان نے بھی اپنی ویڈیوں میں لوگوں کی اور ہندوستانی حکومت کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ وہ بات کرنے اور ثبوت کی بنیاد پر قاتلوں کو سزا دینے کے لئے تیار ہے اس لئے ہماری حکومت کی یہ ذہ داری ہے کہ وہ بات چیت کرے اور انہیں ثبوت فراہم کرے اور اپنے فوجی جو پاکسان کے قبضے میں ہیں اسے بچائے کیونکہ اسی میں عافیت ہے اور راحت ورنہ جنگ کی وجہ کر کوئی کسی کو اپنا گرویدہ کبھی نہیں بنا سکتا بلکہ اس سے تو بدلے کی آگ تیز ہوتی ہے اس لئے دونوں ممالک کے حکمراں کو چاہئے کہ وہ بات چیت کرکے حکمت کا استعمال کرکے بہتر فیصلہ لینے کی کوشش کرے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کرے جس میں الفت ہو ،محبت ہو ،شفقت ہو ،نرمی ہو اگر دونوں ممالک نے ایسا کیا تو یقینا ہندوستان اور پاکستان دونوں کے لئے بہتر ہوگا  ۔

بیت الخلاء جانچ میں ملی خامیاں، سکریٹری کو لگائی پھٹکار!

ارشد خان
ــــــــــــــــ
مہولی/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 28/فروری2019) ترقیاتی بلاک ناتھ نگر  حلقہ کے تحت  گاؤں پنچایت جھنگھورا پار میں سیکریٹری یوگیندرا کمار گوڑ اور گاؤں پردھان کے ذریعہ تمام غیر مستحق  سرکاری نوکری اور زیادہ کھیتی والوں کو بیت الخلاء تقسیم کر دیے گئے ہیں، جس کی جانچ گزشتہ27فروری کو ضلع سوکش بھارت پریرک نینا پردھان نے خود ہرایک گھر جاکر  کی جانچ میں بھاری خامیاں دیکھنے کو ملی،
تمام غیر مستحق لوگوں کے کھاتے میں بیت الخلاء تعمیر کی رقم بیھج دینے سے سکریٹری اور پردھان کو کڑی پھٹکار لگائیں، اس کے علاوہ تمام نامکمل پڑے بیت الخلاء کو جلد مکمل کرنے کی ضروری ہدایات بھی سکریٹری اور پردھان کو دیں.
پریرک نینا پردھان نے بتایا کہ سکریٹری یوگیندر کمار گوڑ اور پردھان کے ذریعہ بیت الخلاء تعمیر کی رقم کے ساتھ کی گئی دھاندھلی کی وجہ سے ان کے خلاف ضرور قانونی کارروائی کی جائے گی۔

انجمن نادیۃالاتحاد طلبہ اعظم گڑھ کا اختتامی پروگرام چہارم اولی ثانویہ میں آج بعد نماز عشاء ہوگا منعقد!

رپورٹ: عبدالعلیم بن عبدالعظیم اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 28/فروری 2019) آپ تمام قارئین کرام کو یہ اطلاع دیتے ہوئے انتہائی فرحت و شاد مانی اور خوشی ومسرت محسوس ہورہی ہے دل باغ باغ  ہور ہاہے دل بے قرار کو قرار آرہاہے کہ ہماری اور آپ کی محبوب انجمن، خطہ اعظم گڑھ کی صحافت وخطابت کی ترجمان، علامہ شبلی رح کی یادگار، دارالعلوم دیوبند کی انجمنوں میں سے ایک ممتاز انجمن، "انجمن نادیۃ الاتحاد طلبہ ضلع اعظم گڑھ" کا اختتامی پروگرام بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ 28فروری بروز جمعرات بعد نماز عشاء چہارم اولی ثانویہ دارالعلوم دیوبند میں منعقد ہورہا ہے یہ عظیم الشان
پروگرام استاذالاساتذہ، فن اسماء الرجال کے امام، ترجمان دارالعلوم دیوبند کے ایڈیٹر، حافظ ابن حجر ثانی  استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اطال اللہ عمرہ ویعم ارشادہ، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی زیر سرپرستی ہوگا، جب کہ یہ عظیم الشان پروگرام جس عظیم المرتبت شخصیت اور مایہ ناز عالم دین کی زیر نگرانی ہو رہا وہ دارالعلوم دیوبند کے استاذ۔علم تفسیر کے ماہر۔شعبئہ تحفظ سنت کے نگراں فاتح آسام قاطع بدعت حضرت الاستاذ حضرت مولانا ومفتی محمد راشد صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی ذات گرامی ہے وہی دوسری جانب اس بزم کی صدارت کا سہرا جس شخصیت کو باندہ گیا ہے وہ دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز استاذ امام منطق وفلسفہ استاذ محترم حضرت مولانا افضل بستوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی ذات اقدس ہے، اس بزم سے خصوصی خطاب فرمائیں گے استاذ محترم حضرت مولانا محمد مزمل صاحب بدایونی استاذ دارالعلوم دیوبند، جب کہ بزم ھذا کے اس اختتامی پروگرام میں مہمان خصوصی کے حیثیت سے مختلف شخصیتیں شرکت کریں گی، جن میں سے چند نام قابل ذکر ہیں، حضرت مولانا محمد ارشد معروفی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا کوکب صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا نیاز کاتب اصلاحی صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا اشتیاق صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا علقمہ صاحب معین مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا رضی آزاد صاحب جون پوری.
  اس عظیم الشان پروگرام میں نظامت کے فرائض محمد طاھر اعظمی متعلم دورہ حدیث شریف سر انجام دیں گے، جب کہ تلاوت قرآن پاک قاری عبدالاحد اعظمی متعلم قرأت کریں گے، دوسری جانب محفل کو نعت نبی سے سکتہ طاری کرنے اور رحمت للعالمین سرکار مدینہ احمد مجتبی محبوب
رب العالمین امام الانبیاء خاتم النبیین و المرسلین شاہ جن وبشر صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں خراج تحسین محمد کامل متعلم عربی ہفتم پیش کریں گے، وہیں انتخاب صدارت کی تحریک محمد اشرف اعظمی  متعلم تکمیل تفسیر چلائیں گے، تائید صدارت محمد ندیم اعظمی متعلم عربی ہفتم کریں گے،جب کہ محفل کو تقریر وخطابت کی وادی سے سیر کرانے کے لے بزم ھذا نے دو انتہائی اہم عنوان  پر تقریریں رکھی ہیں، تقریر اول عطی اللہ اعظمی  متعلم عربی پنجم پیش کریں گے جن کی تقریر کا عنوان رہے گا شہید بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں اور تقریر ثانی محمد سلطان عربی ہفتم پیش کریں گے جن کی تقریر کا موضوع ہے فرقہ مودودیت کا تعارف اور ان کے باطل عقائد و افکا ر قرآن و حدیث کی روشنی میں جب کہ  عوام کی تشریف آوری کے شکریہ  اور مہمانان کرام کی تشریف آوری پر تشکر وامتنان کا ھدیہ اور ان کی تشریف آوری کے شکریہ کے لے خطبہ استقبالیہ محمد عمران اعظمی متعلم دورہ حدیث شریف پیش کرینگے۔ جب کی محفل کو شعرو شاعری کی زلفوں سے سجانے کے لے اردو ادب کو نظم کے ذریعے پیش کرنے کے لے بزم ھذا نے بیت بازی کا بھی انعقاد بھی کیا ہے جس میں اچھے اچھے معیاری اشعار شاعرانہ طرز و انداز ولب ولہجہ میں پیش کرینگے اس بیت بازی کے دو گروپ ہیں پہلا بزم شبلی جس ترجمان محمد اشرف متعلم تکمیل تفسیر اور شرکاء کے نام درج ذیل ہیں شاعر بیباک رفیق محترم محمد احمد اعظمی متعلم عربی ہفتم محمد اسجد اعظمی محمد حماد اعظمی محمد طاھر اعظمی متعلم دورہ حدیث شریف محمد ذکی محمد ندیم متعلم عربی ہفتم۔۔۔ جب دوسرا گروپ بزم سہیل ہے جس  کے ترجمان شاعر مشرق اقبال سہیل ثانی مقرر بے باک  محمد عمران اعظمی متعلم دورہ حدیث شریف شرکاء درج ذیل ہیں عبدالعلیم اعظمی محمد آصف اعظمی محمد تابش اعظمی شاعر مشرق ومغرب عمدہ لب ولہجہ کے مالک رفیق درس و صدیق محترم ابو عاصم اعظمی متعلم دورہ حدیث شریف  محمد سلطان اعظمی متعلم عربی ہفتم محمد واصل اعظمی موجودہ ناظم انجمن و سابق نائب صدر انجمن نادئۃالاتحاد ضلع اعظم گڑھ متعلم تکمیل علوم، جب کہ بزم کو قہقہوں کی زد میں دینے کے لے اور اور پردے کے پیچھے سے عوام کو ایک پیغام دینے کے لے ایک اپنی طرز منفرد مکالمہ رکھا گیا ہے جس کے اندر جہاں ایک طرف آپ اپنی ہسی پر قابو  نہیں پائیں گے وہیں دوسری طرف اس کے ذریعے آپ کو انتہائی اہم دینی معلومات ملیں گی جس عنوان ہے وٹر اور لیڈر اور اس مکالمے کی اہمیت وافادیت اس وقت عیاں و بیاں اور اظہر من الشمس ہوجاتی جب کی آنے والے تین چار مہینوں پورے ملک میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں مکالمہ پیش کرینگے محمد عبدالرحمن محمد عمیر محمد کامل متعلم عربی ہفتم محمد عبدالعلیم محمد احمد محمد عمران محمد تابش محمد طاہر  آصف متعلم دورہ حدیث شریف عبدالرحیم متعلم عربی ششم محمد نورالدین متعلم کمپیوٹر  وغیرہ۔۔وہی دوسری جانب سامعین کے مطالعہ کی وسعت کو پرکھنے کے لے دو اہم عنوان پر کوئز رکھی گی ہے اور بزم ھذا کے علاوہ کوی بھی جواب دینے کا مستحق ہوگا اور صحیح جواب دینے والے کو تقریبا ڈیڑھ سو کا انعام کتابی شکل میں دیا جاے گا ۔۔اور کوئز کا عنوان ہے بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں اور دوسرا عنوان ہے تدوین حدیث ہے۔۔۔۔ جب کی ہماری محبوب انجمن کے محبوب ترانے کو ہم سب کے محبوب محمد اسامہ متعلم دورہ حدیث شریف محمد کامل نورالدین اعظمی پیش کریں گے.
آپ تمام حضرات انتہائی والہانہ عاجزانہ درخواست ہے کی آپ تمام حضرات پروگرام میں شرکت کرکے ہم اراکین انجمن نا دیا الاتحاد طلبہ ضلع اعظم گڑھ کی حوصلہ افزائی فرماے اور پروگرام کو مکمل طور پر کامیاب فرمائے اور اللہ تعالی سے دعا فرمائے کہ پروگرام مکمل طور پر کامیاب ہو، آپ بزم ھذا کے اس پروگرام میں شرکت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں.

Wednesday 27 February 2019

شاہ گنج ریلی کیلیے جاتے وقت راشٹریہ علماء کونسل کے قافلے پر حملہ!

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/فروری2019) شاہ گنج میں علماء کونسل کے پروگرام میں شرکت کے لیے جارہے مولانا عامر رشادی صاحب کے قافلے پر امباری میں حملہ کردیا گیا، معاملہ ایک گاڑی کے پاسنگ کو لیکر کونسل اور بجرنگ دل کے کارکنوں آپس میں بھڑ گئے، وہیں جب کونسل کے کچھ لوگوں نے
اتر کر معاملے کو سلجھانے کی کوشش کی تو امباری کے بجرنگ دل کے شرپسندوں نے گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیا، جس سے گاڑی میں کافی نقصان ہوا ہے، وہیں بجرنگ دل کے شرپسندوں کا ٹارگیٹ مولانا عامر رشادی صاحب ہی تھے، مولانا کی گاڑیوں پر بھی کافی  پتھراؤ ہوا، جس سے گاڑیوں کا شیشہ ٹوٹ گیا، کچھ لوگوں کے سر پیر میں بھی کافی چوٹیں آئیں۔
وہیں راشٹریہ علماء کونسل کے قومی ترجمان طلحہ رشادی نے اپنے فیسبک وال پر کارکنوں سے امن و شانتی بنائے رکھنے کی اپیل کی ہے.
خبر لکھے جانے تک حالات قابو میں ہیں.


کارکنان کے سامنے میٹنگ کے دوران رو پڑے سابق ممبر پارلیمنٹ بھال چند یادو!

رپورٹ: عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 27/فروری2019) اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ مظلوموں اور دبے کچلے لوگوں کا ساتھ دینے والے سماجوادی پارٹی کے قدآور لیڈر سابق ممبر پارلیمنٹ بھال چند یادو آج اپنے آبائی وطن موضع بھگتا میں اپنے حامیوں اور  سماج وادی پارٹی کارکنان کی ایک ہنگامی میٹنگ کر ہرممکن آنے والے پارلیمانی الیکشن لڑنے کی یقین دہانی کی، سابق ممبر پارلیمنٹ بھال چند یادو کے ہزاروں چاہنے والے کارکنان نے الیکشن میں ان کی ہر طرح مدد کرنے کی بات کہا.
مسٹر یادو نے اپنا درد بیان کرتے ہوۓ کہا کہ سماج وادی پارٹی کے صوبائی صدر اکھلیش یادو نے میرے پیٹھ میں تین بار چھرا گھونپنے کا کام کیا ہے، اتنا کہتے ہی پتھر  دل سابق ممبر پارلیمنٹ بھالچند یادو کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی، سابق ممبر پارلیمنٹ بھال چند کےآنکھوں میں آنسو دیکھر ہزاروں کی تعداد میں  موجود حامی بھی پھپھک پھپھک کر رو پڑے، جیسے ہی بھالچند یادو نے لوگوں کے سامنے اپنی بات کہنا شروع کیا، انکے حامیوں میں ایک نیا جذبہ نمایاں ہو گیا۔
لوگوں نے اپنے لیڈر کے زندآباد کے نعرے لگانا شروع کر دیئے، انکی دعوت پر اجیار تپہ سے لیکر آعلیٰ پور اسمبلی حلقہ کی عوام نے اپنی حمایت کا ثبوت دیتے ہوئے ان کے آبائی وطن پہنچے، حامیوں نے اپنے لیڈر کو کسی بھی پارٹی کے بینر تلے الیکشن لڑنے کے لئے اپنی رائے پیش کی۔
سابق ممبر پارلیمنٹ بھال چند یادو نے اپنے بیٹے پرمود یادو اور سبودھ یادو کو اپنے قریب میں لاکر عوام سے ان کے ساتھ کی گئی غداری کی وجہ پوچھا، اس پر عوام نے سماجوادی لیڈر کے اعلی کمان کو کوسنا شروع کر دیا، سابق ایم پی بھال چند یادو نے اپنے کارکنان کو یقین دلایا کہ جلد ہی ضلع ہیڈکوارٹر پر ایک بڑی ریلی کر اپنی سیاسی حیثیت کی طاقت کا احساس دلایا جائے گا۔

مدرسہ دارالعلوم اشرفیہ شاجہاں پور میں تکمیل حفظ قرآن کریم کے موقع دعائیہ مجلس منعقد!

رپورٹ: محمد دلشاد قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شاجہاں پور/باغپت(آئی این اے نیوز27/فروری 2019) بنولی بلاک کے موضع شاجہاں پور کے مدرسہ دارالعلوم اشرفیہ میں تکمیل حفظ قرآن کریم کے موقع پر ایک دعائیہ مجلس منعقد کی گئی، جس میں ایک نو عمر طالب علم جس کی عمر تقریبا 12 سال ہے، حفظ کلام مکمل کیا، پروگرام کی صدارت مرشد الملت حضرت مولانا مفتی محمد عباس صاحب مہتمم مدرسہ اصلاح المسلمین بجرول و صدر جمعیت علماء ضلع باغپت نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض مدرسہ ھذا کے مہتمم مولانا محمد خالد سیف اللہ صاحب انجام دئے.
مجلس کا آغاز محمد سعد متعلم مدرسہ ھٰذا کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا، جب کہ ھدیہ نعت مجیب الرحمان سلمہ نے پیش کیا.
حضرت صدر محترم جناب مولانا مفتی محمد عباس صاحب نے مدارس اسلامیہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ مدارس اسلامیہ دین کے قلعے ہیں، ہم ان مدارس کی قدر کریں اور ان کی آبیاری و ترقی کے لیے کوئی بہتر لائحہ عمل سوچیں، تاکہ ان مدارس اسلامیہ کو وجود مل سکے، اور خوب پھل پھول سکے، آج امت مسلمہ میں جو دینی تشخص باقی ہے وہ انہی مدارس کی دین ہے.
قاری محمد تحسین صاحب نے حفظ قرآن کریم پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ بہت بڑی دولت ہے جس کو مل جائے وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے اس لیے کہ حافظ قرآن دس ایسے لوگوں کی سفارش کرائے گا، جو جہنم کے حقدار ہوچکے ہوں گے، اس لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے اپنے بچوں کو ہر حال میں حافظ بنائے.
اس موقع پر مولانا محمد ارشد صاحب، مولانا عابد مفتی محمد سہیل صاحب، قاری انصاف علی، قاری محمد صابر صاحب صدر جمعیت علماء ھند تحصیل بڑوت موجود رہے، اور اسی طرح گاؤں کے معزز افراد اور ائمہ کرام موجود رہے.
صدر صاحب کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا، مولانا محمد خالد نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا.

اعظم گڑھ: کھاتے میں آیا اور واپس ہوگیا پردھان منتری کسان یوجنا کا پیسہ!

سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/فروری 2019) یونین بینک آف انڈیا کے پھریہاں برانچ میں 600 کسانوں کے کھاتے میں پردھان منتری کسان یوجنا کی پہلی قسط کے طور پر دو ہزار روپے آئے، لیکن تعجب ہوا اس وقت جب پانچ سے چھ کسانوں کے پیسے واپس لوٹ گئے، راجارم پانڈے کے کھاتہ نمبر، 72890201252559 میں اتوار کے روز دوپہر میں پردھان منتری کسان یوجنا کے دو ہزار روپے آئے، جس کا میسیج
موبائل پر آیا تھا لیکن سوموار کو جب وہ بینک اپنی معلومات حاصل کرنے کے لیے پہنچے، تو یہ معلوم ہوا کہ اس کی رقم کچھ وجوہات سے واپس چلی گئی، سوموار کو اس قسم کے مسئلے کے بارے میں بینک پر بہت سے اکاؤنٹ ہولڈرز جمع ہوگئے تھے، وہیں بینک کارکنان پیسے کے واپس لوٹ جانے کی وجہ بتانے سے قاصر تھے، کیونکہ وہ خود نہیں جانتے کہ یہ کیسے ہوا ہے، پورے دن بینک میں موجود رہنے بعد مایوس ہوکر اکاؤنٹ ہولڈر کسان گھر واپس آ گئے.
برانچ مینیجر انکت کمار سکسینا نے کہا کہ بینک میں کچھ اکاؤنٹس موجود ہیں جن کے کھاتے میں پیسہ آنے کے بعد واپس ہوگئے ہیں، ہمیں اس کی وجہ نہیں معلوم ہے، اس کی شکایت محکمہ حکام کو دے دی گئی ہے.

Tuesday 26 February 2019

آل انڈیا مشاعرہ و کوی سمیلن نیا بازار جہانگیر گنج میں 12مارچ کو!

رپورٹ: عقیل احمد خان
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جہانگیر گنج/امبیڈکرنگر(آئی این اے نیوز 26/فروری 2019) جہانگیر گنج تھانہ حلقہ کے تحت نیا بازار جہانگیر گنج ضلع امبیڈکر نگر میں آئندہ 12مارچ بروز منگل بوقت 8بجے شب ایک روزہ آل انڈیا مشاعرہ و کوی سمیلن کا انعقاد کیا گیا ہے، جس میں مشاعرے کی صدارت اشتیاق احمد اور نظامت کے فرائض کنور ندیم مبارکپوری انجام دیں گے۔
آل انڈیا مشاعرہ کے کنوینر کمیل اشرف نے نمائندہ کو بتایا کہ مذکورہ مشاعرے میں دل خیرآبادی، ہاشم فیروز آبادی، علی بارہ بنکوی، فاروق دلکش، ہلچل ٹانڈوی، دانش اکبر پوری، پوجا جس فیض آبادی، وکاس بوکھل، ہلال رانا، سمیع احمد کچھوچھوی، چاندنی شبنم جلال پوری، مقدر کچھوچھوی، شمشیر جہاناگنجوی، شاہد گوہر مئو، جاوید اعظمی، گیتا ترپاٹھی کی شرکت متوقع ہے۔

راشٹریہ علماء کونسل کی شاہ گنج میں 27/فروری کو احتجاجی ریلی، علاقہ میں کارکنان کا دورہ!

شاہ گنج/جونپور(آئی این اے نیوز 26/فروری 2019) راشٹریہ علماء کونسل کی شاہ گنج میں 27 فروری کو ہونے والے پروگرام کی تیاری کے سلسلے میں حلقہ شاہ گنج و کھیتا سرائے کے مختلف گاؤں کا کارکنان نے طوفانی دورہ کیا، جس میں جمدہاں، مانی، جیگہاں، بڑگِن، لکھماپور، صبرحد، کھیتاسرائے شامل ہیں.
دورے کے دوران مولانا مطیع الدین صاحب نے کہاکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہے، صرف لوگ آپ کے ووٹ لینے تک آپ کے ساتھی ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کے درمیان سے کچھ لوگوں کو ساتھ لیکر آپ کی ہمدردی جتائیں گے اور ہماری قوم کے لوگ اسی میں مست ہوجاتے ہیں اور ووٹ جیسی سیاسی طاقت کا غلط استمال کر جاتے ہیں، اور پھر پورے پانچ سال حیرانی خرید لیتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے سربراہ کی مان کر اپنا جھنڈا اور اپنا ڈنڈا پہچان لیں اور اسی کو آگے بڑھائیں، آج ضرورت ہے کی ہم سب مل کر اپنے رہنما مولانا عامر رشادی مدنی کے ہاتھوں کو مضبوط کریں اور آر یو سی کے مشن کو گھر گھر لے جائیں، انہوں نے 27فروری کو شاہ گنج میں ہونے والی ریلی میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہچنے کی اپیل کی.
اس موقع پر یوتھ کے صوبائی نائب صدر شہاب الدین، محمد عارف خان جمدہاں، محمد نسیم، شاہ عالم، ارشد دادا، حافظ ایاز، محمد فرحان، صدام دادا، فیضی نعمانی سمیت کافی تعداد میں کارکنان موجود تھے.

Monday 25 February 2019

بلریاگنج: حافظ فیصل کلاتھ اسٹور کا شاندار افتتاح!

بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/فروری 2019) اعظم گڑھ قصبہ بلریاگنج میں حسن پور روڈ پر واقع موتی بابو کمپلیکس میں حافظ فیصل کلاتھ اسٹور کا آج شاندار افتتاح بدست مولانا طاہر مدنی صاحب کے فیتہ کاٹ کر ہوا، اس دوران مولانا مدنی
تجارت کو سنت طریقے سے کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ بہترین تجارت وہ ہے جو کذب و دھوکہ دہی سے پاک ہو، جب جب تجارت میں جھوٹ نہیں ہوگا،  اور تجارت دھوکہ دہی سے پاک ہوگی تبھی تجارت میں ترقی اور کامیابی ہوگی.
حافظ فیصل کلاتھ اسٹور کے پروپرائٹر نے بتایا کہ اس اسٹور پر کپڑے سے متعلق سبھی اشیاء موجود ہیں، شادی بیاہ کے بہترین کپڑے مناسب قیمت پر دستیاب ہیں، ایک بار خدمت کا موقع ضرور دیں.
اس موقع پر مولانا طاہر مدنی صاحب، وریندر وشوکرما موجودہ چیئرمین بلریاگنج اور بلریاگنج کے وارڈ ممبران سمیت کافی تعداد میں لوگ موجود رہے.

کشی نگر سے چوری کیا گیا ٹریکٹر تھانہ دھن گھٹا حلقہ میں برآمد، ملزم گرفتار!

رپورٹ: عقیل احمد خان
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 25/فروری2019) پولیس کپتان آکاش تومر کے حکم اور ایڈیشنل ایس پی کی نگرانی میں ضلع سنت کبیر نگر میں  جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف چلائی جا رہی مہم اور آنے والے پارلیمانی الیکشن کو کسی طرح کے  بےخوف خطر رکھنے کے لئے گزشتہ دنوں مخبر کے ذریعے ملی اطلاع کے مطابق کشی نگر ضلع تھانہ ہاٹا سے چوری ہوا مہیندرا ٹریکٹر ارجن 605DI-1 چیچس نمبر اور انجن نمبر N8MA08367 لال رنگ دھن گھٹا تھانہ
حلقہ کے بڑگو گاؤں کے پاس موجود ہے، جسے یہ لوگ آج دوبارہ فروخت کرنے کے لئے خلیل آباد لے جانے والے ہیں، اس کی خبر ملتے ہی سرکل آفسر آنند کمار پانڈے کے حکم پر تھانہ انچارج دھن گھٹا رڑدھیر کمار مشرا اور ہمراہی ہیڈ کانسٹیبل ارجن پرساد، سندیپ یادو بسواری گاؤں چوکی انچارج ہریش تیواری بیڑہر گھاٹ راجا رام یادو کے ذریعہ موضع بڑگو جوکھن راۓ کے باغیچے میں ٹریکٹر کے لئے گھیرا بندی کی گئی، موقع پر کرشن گوپال شکلا ولد مارکنڈے شکلا موضع  ایکڈنگہ تھانہ سکری گنج ضلع گورکھپور ٹریکٹر کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا، جبکہ دھرمیندر راۓ ولد جوکھن راۓ موقع سے فرار ہو گیا۔
تھانہ انچارج نے بتایا کہ پوچھ تاچھ میں کرشن گوپال شکلا نے ٹریکٹر چوری کرنے کی بات اعتراف کرلیا ہے، کرشن گوپال شکلا نے یہ بھی بتایا کہ گروہ کا سرغنہ جیتندر شرما ولد پارس شرما ساکن لالہ چھپرہ تھانہ رام کولہ ضلع کشی نگر نے گزشتہ 28/دسمبر 2018 کو ہاٹا بازار سے ڈرائیور کو نشیلی دوا پلاکر چوری کرلیا تھا، ٹریکٹر کے مالک اشوک کمار راۓ ولد راج کشور موضع  پچپیڑوا تھانہ کبیرستھان ضلع کشی نگر نے آکر اپنے ٹریکٹر کی پہچان کر لی ہے۔
وہیں ملزمان کے خلاف دفعہ 85/2019، 41/411،414/417 ،420/423، 498 آئی پی سی کے تحت مقدمہ رجسٹرڈ کر لیا گیا ہے۔
اس موقع پر تھانہ انچارج دھن گھٹا رڑدھیر کمار مشرا، ایس آئی ہریش تیواری چوکی انچارج بسواری گاؤں، ایس آئی راجا رام یادو چوکی انچارج بیڑہر گھاٹ، ہیڈ کانسٹیبل ارجن پرساد، ہیڈ کانسٹیبل سندیپ یادو ٹیم میں شامل تھے.

جمعیہ علماء کاسگنج اور علی گڑھ کی مشترکہ میٹنگ میں دہشت گردی کی مذمت، مولانا سید ارشد مدنی کے لیے دعائے صحت!

علیگڑھ(آئی این اے نیوز 25/فروری 2019) جمعیۃ علماء ضلع کاسگنج و ضلع علی گڑھ کی ایک مشترکہ میٹنگ آج احد ریزیڈینسی، دودھ پور علی گڑھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت نے کی اور نظامت کے فرائض نے انجام دیے۔میٹنگ کا آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت پاک سے ہوا۔
میٹنگ میں جمعیۃ علماء کے سبھی عہدیداران و کارکنان نے ایک آواز میں دہشت گردی اور پلوامہ میں ہوئے بزدلانہ حملے کی مذمت کی۔ساتھ ہی اس حملے میں شہید ہوئے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔اس موقع پر مولانا فرید شروانی (شہر صدر کاسگنج) نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو بے دریغ قتل کر رہے ہیں، یہ کیسی انسانیت ہے؟ نہایت افسوس کی بات ہے اور ہم جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ایسی گھناؤنی حرکت کرنے والے ہر گز ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے تو سلامتی کا پیغام دیا ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد امن ہی امن ہے۔ مگر کچھ لوگ اسلام کے نام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
ضلع علی گڑھ کے صدر مولانا شان محمد قاسمی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے بڑے بڑے اجلاس کیے ہیں اور کسی بھی طرح کی دہشت گردی کو کنڈم کیا۔ انہو ں کہا کہ آج مسئلہ کشمیر کو حکومت سلجھانے کے بجائے الجھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا حل نیک نیتی سے نکالے، انہوں نے پاکستان کو انتباہ دیا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان امن و امان قائم کرنے کے لیے قدم بڑھائے۔ ہندوستان کی جانب سے کئی مرتبہ امن کی کوششیں ہو چکی ہیں اب پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھی نیک نیت کے ساتھ اس معاملے کو سجھائے اور دونوں ملک باہمی اتفاق و اتحاد سے رہیں، ورنہ دشمن طاقتیں ہمارے درمیان بڑھ رہی خلش کا فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکیں گی۔اور یہی وہ چاہتے ہیں۔
جنرل سکریٹری کاسگنج قاری سید کلیم حسن نے حضرت مولانا سید ارشد مدنی قومی صدر جمعیۃ علماء ہند کی علالت پر نہایت رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت کئی دنوں سے بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ اللہ ان کو جلد سے جلد شفائے کاملے عاجلہ عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔ انہوں نے کہاکہ حضرت والا کی عالمی شخصیت کے مالک ہیں، ان کی اس وقت اُمت کو سخت ضرورت ہے، انہوں نے ببانگ دہل حکومتوں کے سامنے اپنے مطالبات رکھے اور دہشت گردی کو کنڈم کیا ہے۔ ساتھ ہی عرصہ دراسز سے جیلوں میں بندبے قصور نوجوانوں کا مقدمہ لڑکر رہا کرایا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے لاتعداد مسائل جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے مولانا سید ارشد مدنی نے حل کرائے ہیں۔ ہم ان کی صحت کے لیے دل سے دعا کرتے ہیں۔
میٹنگ میں تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کی گئی، اور ان کے اہل خانہ سے اظہار ہمدردی کیا گیا۔ ساتھ ہی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ان سبھی کو شہید کا درجہ دیا جائے، اور ان کے اہل خانہ کو بھرپور معاوضہ دیا جائے۔ ساتھ ہی پلوامہ میں حملہ کرنے والوں کے خلاف جلد سے جلد سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی خفیہ ایجنسیوں کو مزید فعال کیا جائے کیونکہ اگر ہماری خفیہ ایجنسی مستعد رہتی تو اتنا بڑا حادثہ نہ ہوتا۔ لہٰذا ذمہ داری عائد کی جائے اور لاپرواہی برتنے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
قاری محمد راشد حسین صدر جمعیۃ علماء ضلع کاسگنج نے پلوامہ حملے کے بعد پورے ملک میں رونما ہوئے نفرت کے حالات پر پیدا کرنے پر نہایت افسوس کا اظہار کیا۔ ملک کے بہت سے مقامات پر کشمیری طلبہ و طالبات اور کشمیری باشندوں کو حراساں کیا گیا، ان کئی جگہ مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کیا گیا اور ہندو مسلم ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ارباب جمعیۃ نے کہا کہ ایک طرف تو دشمن طاقتیں ہمارے اوپر حملہ آور ہیں اور دوسری جانب وطن عزیز کے اندر بھی کچھ فرقہ پرست طاقتیں خلفشار پیدا کردینا چاہتی ہیں۔ ہم سبھی ہندو مسلمان بھائیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ جیسے صدیوں سے ہم دونوں ایک ساتھ پیار و محبت سے رہتے آئے ہیں ویسے ہی رہیں۔ اس ملک کو آگ میں جھونکنے سے پہلے سوچیں کہ اس میں نقصان ایک طبقہ کا نہیں بلکہ دونوں کا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ملک کی سالمیت کو بھی بیرونی طاقتوں سے بھی خطرہ ہے۔
میٹنگ میں مولانا فرید شروانی، مولانا شان محمد قاسمی، قاری سید کلیم حسن، مفتی ناصر اقبال، کلیم تیاگی، مولانا صلاح الدین شیخ، حکیم محمد انتظار راؤ، حافظ صغیر احمد، ماسٹر محمد افضال، ڈاکٹر واجد کے علاوہ متعدد کارکنان جمعیۃ موجود رہے۔

مسلکی اور نظریاتی اختلاف کے باوجود مسلمان متحد ہوں، اگر مسلمان متحد ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں بگاڑ نہیں سکتی:شاہ ملت مولانا سید انظر شاہ قاسمی

محمد فرقان
ــــــــــــــــــ
بنگلور(آئی این اے نیوز 25/فروری 2019) امت مسلمہ میں کئی فرقے موجود ہیں۔ جس کی بنیاد پر آپس میں مسلکی اور نظریاتی اختلافات ہونا طے ہے۔لیکن آپسی اختلافات کے باوجود مسلمانوں کا متحد ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج کچھ لوگ اپنے مسلک کا نام لیکر، ایک دوسرے کو نیچا دیکھا کر امت میں پھوٹ ڈال رہے ہیں اور امت کو آپس میں لڑا رہے ہیں۔ جس کا فائدہ براہ راست دشمنانِ اسلام کو پہنچ رہا ہے۔ دشمن مسلک اور نظریاتی اختلافات کو نہیں جانتے۔ اگر اسے کچھ معلوم ہے تو وہ صرف یہ ہیکہ یہ مسلمان ہے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مسجد معمور، گوری پالیہ، بنگلور میں ہزاروں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے شیر کرناٹک، شاہ ملت حضرت مولانا سید انظر شاہ قاسمی مدظلہ نے کیا۔
شاہ ملت نے فرمایا کہ آج دشمن یہ پوچھ کر نہیں مار رہا ہے کہ تم دیوبندی ہو یا بریلوی، تم اہل حدیث ہو یا جماعت اسلامی، تم چلہ والے ہو یا چہلم والے، تم قاسمی ہو یا ندوی بلکہ دشمن کلمہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو مار رہا ہے۔ اسے مسلک سے کچھ لینا دینا نہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ آج کے اس پر فتن دور میں اگر کوئی مسلک کے نام پر آپس میں لڑا رہا ہو تو سمجھ لو کہ وہ غدار ہے۔ آج مسلمان کی عزت و آبرو، جان و مال، دین و شریعت داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن آج کے نام نہاد لوگوں کو مسلکی اور نظریاتی اختلافات سے فرصت ہی نہیں۔ مولانا نے کہا کہ کس دور میں اختلاف نہیں ہوا لیکن کیا اختلاف کی وجہ سے آپس میں لڑنا صحیح ہے ؟مولانا نے فرمایا کہ ہمارا خدا ایک، نبی ایک، کتاب ایک، قبلہ ایک تو کیا ہم ایک ہوکر اغیار کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مولانا شاہ قاسمی نے دوٹوک فرمایا کہ مسلمان کلمہ کی بنیاد پر ایک ہوجائیں۔ نیز فرمایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم غفلت سے نکلیں اور ہم میں بیداری پیدا ہو، عزم وحوصلے کے ساتھ شعور وسمجھداری آئے اور اتحاد دل کی گہرائیوں سے ہمارے اندر آجائے۔ تمام مسلکوں کا احترام پیدا ہو اور ان مسلکوں پر چلنے والوں میں اخوت ومحبت کاتعلق بڑھتا چلا جائے۔ مولانا سید انظر شاہ قاسمی نے ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جس دن مسلمان متحد ہوجائیں گے انشاء اللہ اغیار کا نام و نشان خود بہ خود مٹ جائے گا۔ قابل ذکر ہیکہ اس موقع پر شاہ ملت نے اپنے استاذ محترم، جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ کی صحت یابی کیلئے امت مسلمہ سے دعا کی اپیل کی۔  

اپنے ملک سے محبت، وطن پرستی ایمان کا نصف حصہ ہے!

فیضان احمد اعظمی نصیرپور اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــ
جس ملک میں رہو اس ملک سے محبت کرو وطن پرستی وطن عزیز سے محبت نصف ایمان ہے (محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم )، ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس عظیم ملک کو ہندوستان کہتے ہیں جس کا ذکر ہمارے آخری پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے، بہشت عالم اگر ہندوستان کو کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا، ہمارے ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہزاروں سال اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے درد سے کراہتے ہوئے گزرنا پڑا، پہلے راجا مہاراجا اس کے بعد مغلیہ سلطنت اور پھر انگریزی حکومت کے رحم وکرم پر رہنا پڑا ۔
لیکن وطن پرستی کا جذبہ ہم ہندوستانیوں کے اندر اتنا بھرا ہوا تھا کہ آزادی وطن کے لیے مسلسل کوششیں اور قربانیاں دیتے رہے، لاکھوں کروڑوں نے وطن کی آزادی کے لئے اپنی جان قربان کر دی، اس جنگ آزادی میں نہ کوئی ہندو نہ مسلمان نہ سکھ نہ عیسائی بلکہ ایک مضبوط ہندوستانی تھا، ذات پارٹی کا بھی کوئی مطلب نہیں تھا، اور بالآخر 15 اگست 1947 رمضان المبارک کا 27واں روزہ جمعہ کے دن ہمارا عزیز ملک ہندوستان آزاد ہو گیا، لیکن اب صورتحال مختلف ہے ہندوستان کے تین ٹکڑے ہوئے ۔
1۔ہندوستان
2۔پاکستان
3۔بنگلہ دیش
جنگ آزادی کے سپاہیوں میں ایک نام تھا محمد علی جناح، شاید انہیں آزادی سے زیادہ ملک کا وزیراعظم بننے کی جلدی تھی، لیکن انہیں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا تو انہیں نے ایک نیا ملک بنانے کی بات کی، وہ بھی اکثریت مسلم ملک کی جو بالآخر عمل میں آیا، آج جسے ہم پاکستان کے نام سے جانتے ہیں، خیر جنہیں پاکستان جانا تھا وہ چلے گئے اور جاتے جاتے یہاں پر رکنے والے مسلمانوں کے لئے آپ بقا چھوڑ گئے، جسکا درد ہم آج تک سہہ رہے ہیں.
محمد علی جناح کی وجہ سے آزادی سے لیکر آج تک ہندوستانی مسلمان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور باقاعدہ مسلمانوں کو حراساں کیا جاتا ہے، مسلمانوں سے وطن پرستی کا ثبوت مانگا جاتا ہے، ہر طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے، بات بات پر پاکستان بھیجا جاتا ہے، آخر کیوں ان کا استحصال کیا جاتا ہے کیا مسلمان ہندوستانی باشندہ نہیں ہیں، ہندوستان پر ان کا حق نہیں ہے، کیوں مسلسل پریشان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی ترنگا کبھی وندے ماترم، کبھی دہشت گردی جیسے سنگین الزامات عائد کئے جاتے ہیں اور ملک کا مسلمان صفائی پہ صفائی دیتا رہتا ہے، وفاداری کا ثبوت دیتا ہے، چوراہے پر چیخ چیخ کر ہندوستان زندہ آباد کے نعرے لگاتا ہے بارہا بار پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتا ہے، پھر بھی کچھ شر پسند عناصر کو مسلمان ہی غدار نظر آتا ہے، آئے دن لاکھوں میں ڈال دیا جاتا ہے، چونکہ ہندوستان ایک بہت خوبصورت اور منظم ملک ہے جہاں ہر ذات اور مذہب کے لوگ آپس میں مل کر رہتے ہیں.
میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہر قوم کے لوگ وفادار ہیں ویسے ہی مسلمان بھی ہیں، وطن پرستی رگوں میں لہو کی طرح رہتی ہے، ایک درخواست میں مسلم سماج کے لوگوں سے کرنا چاہوں گا کہ بہتر نظام اور سماج کے آپسی اور باہمی اتحاد بنائیں رکھیں، ملک کی سلامتی کے لئے پروردگار سے دعائیں کرتے رہیئے، اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے ملک کو اپنے امن و امان میں رکھے آمین

خشک آنکھوں میں سیلاب نہیں دیکھا تم نے
سرد راتوں میں مہتاب نہیں دیکھا تم نے
تھک گئے ہم اپنی وفا کا ثبوت دیتے دیتے
سر کٹا سجدوں میں مصلات نہیں دیکھا تم نے

اخوت کا بیاں ہوجا....

از قلم: اجوداللہ پھولپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ھیکہ کامیابی اور کامرانی انہیں کا مقدر ہوا کرتی ہیں جو آپسی اختلاف سے دور باہمی اتحاد سے قریب اور مصیبتوں و مشکلوں میں سینہ سپر بغض و حسد سے ناآشنا ہوتے ہیں ایسے لوگ ہمیشہ اپنے مخالفین پہ غالب دشمنوں پہ فاتح اور نصرت خداوندی کے حقدار ہوتے ہیں عزت و سربلندی انکی دہلیز پر لونڈی بن کے کھڑی ہوتی ہے عظمت و عروج انکے زیر نگیں ہوتے ہیں اسکے برعکس آپسی نااتفاقی اور باہمی انتشار تباہی و بربادی ذلت و رسوائی کا سبب اور قوموں کیلئے کیفیت مرگ سے لطف اندوزی کا زریعہ بن جایا کرتی ہیں
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
افسوس اس بات کا ہے کہ جو قوم خود کو محسن انسانیت کا پیروکار بتلاتی ہے وہ خود ہی باہم دست و گریباں اور ایک دوسرے کیلئے باعث ننگ و عار ہے جو قرآن کریم جیسی راہ ہدایت دکھلانے اور آپسی اتحاد کا اعلان کرنے والی کتاب رکھتی ہے وہ انتشار و افتراق کا شکار ہے جبکہ قرآن کریم کا صاف اور واضح اعلان ہے
واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا (سورہ عمران)
تم سب اللہ کی رسی (دین شریعت) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ کرو ( انتشار و افتراق سے بچو)
دوسری جگہ سورہ انفال میں قرآن فرمان ہدایت جاری کرتے ہوئے کہتا ہے
واطیعو اللہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم واصبروا ان اللہ مع الصابرین
یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا و اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائیگی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائیگی، صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.
آج ہماری زندگی کا ہر شعبہ کمزوریوں سے بھرا پڑا ہے ہر میدان ہماری ہزیمت کا گواہ ہے جسکی وجہ اطیع اللہ و اطیع الرسول کا فقدان ہے فتفشلوا وتذھب ریحکم کی معنویت اور سچائی ہمارے حال پر صادق آتی ہے ہمارا وجود صبر کے مادہ سے خالی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے رب کی معیت و رحمت سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں.
ماضی کے جھروکوں میں دیکھئے تو تاریخ کے صفحات پر یہ بات جلی حروف میں لکھی نظر آئیگی کہ ہمارے اسلاف میں جب اخوت و بھائی چارگی کی صفات پائی جاتی تھی تو مٹھی بھر ہونے کے باوجود نصف صدی کے اندر اندر آدھی دنیا کو اپنے زیر نگیں کرلیا آپسی اتحاد و اتفاق کی ہی برکت تھی کہ انہوں نے بیک وقت کئی محاذوں پہ فتح حاصل کر لی ایک طرف جہاں روم فارس جیسے سپر پاور کو زیر دست کیا وہیں سندھ و ھند کے دروازہ کو بھی اپنی دستک سے لرزہ براندام کردیا یہی نہیں کہ افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں کی خاک چھانی بلکہ اندلس و اسپین کی سرزمین کو روندتے ہوئے فرانس کی سرحد کو بھی اپنی سرحد میں داخل کرگئے اللھم اجعلنا منھم.
آج مسلمانوں کے حال و احوال پہ نگاہ ڈالی جائے تو دور دور تک اس بات کو جگہ نہیں ملتی کہ یہ قوم ایسا شاندار و جاندار ماضی رکھتی تھی آج ملت اسلامیہ جن مسائل سے جوجھ رہی ہے وہ ناقابل بیان ہے ہمارا ہر شعبہ خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی خاندانی ہو یا ملی سیاسی ہو یا معاشرتی سب پر نااتفاقی و اختلاف کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے حتی کہ ہماری جماعتیں اور جمعیتیں بھی اسکا شکار ہوکر قوم کو مثبت پیغام دینے سے قاصر ہیں، والد ماجد محسن الامت نوراللہ مرقدہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر قومی مسائل کو سلجھانا ہو تو سب سے پہلے عائلی مسائل کو سمیٹنا ہوگا وہ قوم کبھی بھی ترقی کے راستہ پہ نہیں دوڑ سکتی جن کے آپسی مسائل الجھے ہوئے ہوں آج ہم نے اپنے مسائل کو اس قدر الجھا دیا ھیکہ دینی و دنیاوی مسلکی و مشربی سب ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہو کے رہ گئے ہیں.
زندگی کے اہم شعبوں میں سے ایک شعبہ سیاست بھی خود ہماری سیاست کا شکار ہوچکا ہے ملت آج اپنا سیاسی وزن کھو چکی ہے، ہماری قیادت زنگ آلود ہوکے رہ گئی ہے عظیم اتحاد ملت کی نمائندگی سے خالی ہے ہر سیاسی تنظیم ہمیں شجر ممنوعہ سمجھنے لگی ہے پھر بھی ہم اختلاف سے باز نہیں آنا چاھتے، دوسری سیاسی تنظیموں کے دامن کو بغیر کسی قومی و ملی نفع کے تھامے ہوئے خود کو ذلیل و رسوا کر رہے ہیں ہمیں سیکولرزم کی قلی گیری سے باز آنا ہوگا اور نئی حکمت عملی کے ساتھ خود کو عظیم اتحاد کا حصہ دار ثابت کرنا ہوگا ہماری قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر آپسی اتحاد کا ثبوت دینا ہوگا اگر ہماری قیادت انفرادی جنگ لڑنا بھی چاہے تو من حیث القوم انہیں سیاسی خود کشی سے روکنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے، ہر علاقہ کے بااثر افراد کو ایک ہوکر ملی قیادت کے اجتماع کو یقینی بنانا ہوگا انہیں یہ بات سمجھانی ہوگی کہ ہمارے ووٹ کے حقدار تبھی ہونگے جب وہ متحد ہونگے اگر ایسا ہوا تو یقینا اسکے خوش آئند اور مثبت نتیجے سامنے آسکتے ہیں بغیر تفریق مذہب و ملت فاشسٹ طاقتوں کو حکومت سے دور رکھنا یقینا ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن اسکے لئے اپنے وجود کو بربادی کی چتا پہ لٹانا کہیں سے بھی عقلمندی کا کام نہیں عظیم اتحاد سے دوری سیاسی بھول ہوگی لیکن اس میں شمولیت بطور حصہ دار کے ہو نہ کہ کرایہ دار کے یہ بات مختلف سیاسی تنظیموں سے جڑے ملت کے افراد کو بھی سمجھنی ہوگی کہ انکی اہمیت تبھی تک ہے جب تک قوم وزن دار ہے اور قوم کی وزن داری اتحاد و اتفاق میں ہے نہ کہ اختلاف و انتشار میں..
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا ہوتا ہے

صاحب عقل و دانش وہی ہے جو وقت رہتے سنبھل جائے سرخ روئی اور کامیابی اسی کا مقدر ہوتی ہے جو باد مخالف میں بھی پرواز کا حوصلہ رکھے ابھی بھی عظمت رفتہ دور نہیں اسے حاصل کرنے کا پورا پورا موقع ہے بس خدائی فرمان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اخوت و بھائی چارگی کو اپنانے کی ضرورت ہے اگر موجودہ حالت میں اس پر بھی عمل پیرا نہ ہوسکے تو ذلت و رسوائی ہم سب کا مقدر ہوگی
 اِنَّ اللّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نا ہو جسکو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

درجنوں ساتھیوں کے ساتھ بیٹی کے سسرال میں مچایا ہنگامہ، دو خواتین سمیت چار زخمی!

مہولی/ سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 25/فروری2019) مہولی تھانہ حلقہ کے تحت واقع موضع نگوا کے بنجریا عرف دیوریا میں اتوار کے روز ایک اہل خانہ بیوی کے مائکے والوں کے غصے کا شکار ہو گیا، اتوار کے روز بیٹی کو اس کے سسرال لاکر تقریباً ڈیڑھ درجن لوگوں نے خوب ہنگامہ اور مارپیٹ کیا، مخالفت کرنے پر اہل خانہ کے لوگوں کو لاٹھی ڈنڈے سے مارپیٹ کر زخمی کر دیا گیا، اس واقعہ میں دو عورتوں سمیت چار لوگ شدید زخمی ہوگئے۔
اطلاع پاکر سنیچرا پولیس چوکی انچارج موقع پر پہنچ گئے، مارپیٹ کرنے والے لوگ موقع کی نزاکت سمجھتے  ہوۓ فرار ہونے میں کامیاب رہے، مقامی پولیس بہو کو تھانے لے آئی، اس واردات سے گاؤں والوں میں کافی غصہ دیکھنے کو ملا.
 خبروں کے مطابق مقامی تھانہ حلقہ کے بنجریا عرف دیوریا کے باشندہ پون کمار تیواری کی شادی بستی ضلع کے تھانہ منڈیروا حلقہ کے موضع جوگیا کے راج منگل کی بیٹی کے ساتھ سال 2009 میں ہوئی تھی، کچھ ہی عرصہ بعد سے میاں بیوی میں ان بن شروع ہوگئی، پچھلے سال پون کمار کی بیوی نے اپنے شوہر سمیت ان کے گھر والوں کے خلاف جہیز ایکٹ کے تحت کیس درج کرا دیا ہے تھا، لڑکی کے مائکے والوں کا کہنا ہے  کہ تبھی سے ان کی بیٹی اپنے مائکے جوگیا گاؤں میں رہنے لگی، پون کمار کے گھر والوں کا الزام ہے کہ اتوار کے روز ان کے سالے کلدیپ اور ساکیت، اپنے ڈیڑھ درجن نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ دوپہیا اور چار پہیا گاڑیوں سے میرے گھر پہنچ گئے، اور دوسرے گھر کے تالے کو توڑکر زبردستی اس کی بیوی کو گھر میں داخل کرانے لگے، اس کی مخالفت کرنے پر گھر کی عورتیں سمیت گھر کے لوگوں کی لاٹھی ڈنڈا سے پیٹائی شروع کر دیئے، جس سے رام چندر تیواری شدید زخمی ہو گئے، ان کے علاوہ انگراج ولد ہردے نرائن تیواری، سشیلا دیوی زوجہ رام چندر اور سرسوتی دیوی زوجہ وششٹ تیواری زخمی ہو گئے۔
اہل خانہ کے لوگوں کا الزام ہے کہ سشیلا کے زیورات کو بھی چھین لیا گیا، رام چندر تیواری نے پولیس کو تحریر دے کر قانونی کارروائی کا پرزور مطالبہ کیا ہے اس سلسلے میں مہولی تھانہ انچارج شیلندر راۓ نے بتایا کہ تحریر ملی ہے معاملے کی جانچ کر کارروائی کی جارہی ہے.

قرآن کتاب ہدایت ہے ہر دل میں قرآن اور حافظ قرآن کی عظمت ہونی چاہیے: مولانا آفتاب عالم خیرآبادی ندوی

مدرسہ انوارالعلوم رائشان پور جلسہ تکمیل حفظ۔قرآنی تعلیمات اپنانے پر زور.

فتحپور/بارہ بنکی(آئی این اے نیوز 25/فروری 2019) قرآن ساری انسانیت کے لئے کتاب ہدایت اور رحمت ہے، قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جو اپنے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دلاتے ہیں، حفظ القرآن ایک عظیم سعادت ہے بروز محشر  اللہ رب العزت حافظ کو تاج پہنائے گا، مذکورہ خیالات کا اظہار مولانا آفتاب عالم ندوی خیرآبادی مبلغ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو نے کیا وہ وہ مدرسہ انوارالعلوم رائشان پور لال پور میں جلسہ تکمیل حفظ قرآن سے خصوصی خطاب کر رہے تھے، مولانا آفتاب عالم ندوی نے حافظ قرآن و ان کے والدین  کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ قرآن عظیم کتاب ہے جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہیے تو اپنے مسائل کا حل قرآن میں تلاش کریں اور قرآنی تعلیمات پر عمل کو اپنا نصب العین بنائیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیاب و بامراد ہو سکیں.
مولانا ندوی نے کہاکہ آج ضرورت اس بات کی ہے ہم  کہ مدارس اسلامیہ کا ہر ممکن تعاون کریں اور انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی مدد کریں اس سے معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم ہو گی اور خوش گوار معاشرہ وجود میں آئے گا  انہوں نے تعلیم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ  نمازوں کے اہتمام کے ساتھ یتیموں بیواؤں مسکینوں مظلوموں کی مدد کریں اور اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں اس سے اللہ خوش ہو گا۔
 سرپرست جلسہ مولانا مطیع الرحمان عوف ندوی نے کہاکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کو اپنا معمول بنائیں اور قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ دارین میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں.
صدر جلسہ  مولانا محمد فاروق رشیدی نے کہا کہ مدارس اسلامیہ دین اسلام کے مضبوظ قلعے ہیں جہاں دین کے داعی اور سپاہی تیار ہوتے ہیں، ضرورت ھیکہ ہم اپنے بچوں کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ کریں ۔
مفتی محمد عزیر صورت گنج نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامی نقطہ نظر سے ہی معاشرے کی اصلاح ممکن ہے قرآن حکیم صرف مسلمانوں کیلئے نہیں ہے بلکہ ساری نوع انسانی کی فلاح و بہبود کیلئے ہے  قرآن کے پیغام کو بلا لحاظ مذہب و فرقہ عام کرنے کی ضرورت ہے مولانا عبد الحفیظ قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ  قرآن حق و باطل کے درمیان ایک کسوٹی ہے۔
جلسے کا آغاز قاری صغیر احمد نے تلاوت قرآن پاک سے کیا، نعت و منقبت کا نذرانہ ڈاکٹر شمیم رامپوری، اسد بہادرگنجوی، حافظ شرافت بسوانی نے پیش کیا، نظامت قاری سراج احمد نے کی۔
اس موقع پر چار طلباء نے قرآن کریم کی آخری سورتوں کی تلاوت کرکے تکمیل حفظ کیا۔
جلسے میں مفتی نیاز اختر ندوی، مولانا انوار احمد ندوی، مولانا نور الدین ندوی، مولانا محمد بلال ندوی، مولانا رئیس الدین، حافظ محمد مقبول، مولانا زبیر، قاری محمد ہارون، قاری ظہیر الاسلام بہادر گنجوی، حافظ عبد الرحمان سابق امام بڑی مسجد دیوی شریف، حافظ محمد طفیل، صحافی عظمت علی قاری عطاء الرحمن بلھروی، حافظ محمد نعمان، حمد علاؤ الدین، مولانا محمد فیاض، محمد دانش صورت گنج سمیت قرب و جوار کے کافی تعداد میں لوگ موجود تھے نیز خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی.
آخر میں مدرسہ ہٰذا کے مہتمم مولانا محمد عمر نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور تعلیمی رپورٹ پیش کی ۔

Sunday 24 February 2019

ڈی ایس انگلش بورڈنگ اسکول پپرا سپول کےڈائریکٹر "محمد ولی" کی عزت افزائی!

سپول(آئی این اے نیوز 24/فروری 2019) تعلیم ترقی کا زینہ ہے، تعلیم روشنی ہے جیسے بجلی  اور بلب سے گھر روشن ہوتا ہے ایسے ہی تعلیم و ہنر سے سماج روشن ہوتا ہے، یہ بڑی بات ہے کہ آدمی اپنے قوم، سماج اور ملک کی تعمیر وترقی کی فکر کرے یہ باتیں نوجوان فاضل مولانا ابوالفضل قاسمی نے ڈی ایس انگلش بورڈنگ اسکول پپرا کے
ڈائریکٹر ایم ولی کو سابق وزیر حکومت ہند سید شاہ نواز حسین کے ذریعہ عزت افزائی پر مبار کباد پیش کرتے ہوئے کہا، انہوں نے کہا کہ ایم ولی جس کی فکر بلند ہے عزائم منصوبے اونچے ہیں بہت کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور انہوں نے سیمانچل میں تعلیمی میدان میں جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں وہ بھلایا نہیں جاسکتا ہے، یہی وجہ آج پھر ان کی خدمات کو سراہا گیا اور اعزاز سے نوزا گیا.
واضح رہے کہ کہ اس موقع پر شمائل اختر صدر آل انڈیا پرائیویٹ چلڈرن ایسوایشن بھی موجود تھے.
ڈائریکٹر محمد ولی کو اعزاز سےنوازے جانے پر ابو حمیرا قاسمی مظفر پور، مولانا آصف الکلام قاسمی جنرل سیکرٹری، مولانا آزاد لائبریری برا دربھنگہ، ایم کشورٹھاکر ضلع صدر پرائیویٹ چلڈرن ایسوایشن، مسٹر تھیرنگ منیجر ڈی ایس انگلش بورڈنگ اسکول، محمد ضیاء الرحمن سپول، پرشانت یادو، نوین کمار ورما وغیرہ نے مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہاکہ حوصلہ افزائی دراصل انسان کے جذبہ کو بڑھاتا ہے.

جے ہند ...

شاداب راہی (محمدی)
ــــــــــــــــــــــــــــ
آنسوؤں میں خون، درد میں جوش، تکلیف ہے کہ رکنے کا نام نہ لے، خوشی لاپتہ ہے، دل میں غصہ، آنکھوں میں انتظار اور حاصل کچھ بھی نہیں ہے.
اس بھیڑ میں ایک عاشق اپنی معشوقہ کو تلاش رہا ہے، ایک باپ اپنے بیٹے کے واپسی کا منتظر ہے، ماں کہ رہی ہے بیٹا بڑے دن ہوئے آ  کیوں نہیں جاتے اور بیوی ہے کہ سر تاج کی راہ میں تن من بچھائے بیٹھی ہے.
آہ........
جو آیا نہیں اس کی امید باقی ہے اور جو آیا تو ایسے آیا کہ سب کچھ توڑ آیا اور ترنگا لئے سب کو چھوڑ جانے کا وعدہ کرنے آیا ہے.
بھائی درد تو درد ہے، میں نے سنا اور پڑھا تھا  دہشت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا پر ایک چیز اور ہے جس کا کوئی دھرم اور مذہب نہیں وہ درد ہے.
دیکھئے نا یہ درد بھی کیا درد ہے سالوں سے اس درد میں اخلاق کی بیوہ ہے، نجیب کی ماں کا دامن تو یہ درد چھوڑ ہی نہیں رہا، پہلو خان کا اہل خانہ کو اس درد نے بڑا پریشان کیا ہے، ہائے آصفہ کی امی کیسے آپ یہ درد برداشت کرتی ہیں۔
درد صرف درد ہے.
پہلےپڑھا تھا اب دیکھ رہا ہوں ہمتِ سرکار مددِ دہشت گرد!
ارے صاحب! دردِ شوہر سونیا گاندھی،اخلاق کی بیوہ،کشمیری خاتون، اڑی اور پلوامہ کی بیواؤں سے پوچھئے، درد ِبیٹا راہل گاندھی، اخلاق کی اولاد نجیب کی ماں سے پوچھئے، بھائی جن کے ”آگے ناتھ نا پیچھے پَگہا وہ کیا جانے درد کا ہے“.
درد وہ بلا ہے جس کا کوئی مذہب اور فرقہ نہیں، درد وہ زخم ہے جسکا کوئی علاج نہیں، درد وہ درد ہے جو آج تک گجرات، مظفرنگر، کاسگنج اور اہل کشمیر چینخ چینخ کر بتلانے پر مجبور ہیں.
یہ حقیقت ہے کہ ایک باپ کیلئے بیٹا کے لاش کو کاندھا دینا کتنا مشکل ہے اور اس سے بڑا مشکل کام کچھ بھی نہیں.
پلوامہ ہو یا اڑی، گجرات ہو مظفرنگر، کاسگنج ہو یا دادری مجرم کو قطعی نہ بخشا جائے اگر ثابت ہو کہ یہ کام پاکستان نے کیا تو ایک بار نہیں ہزار بار پاکستان مردہ باد پاکستان مردہ باد.
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا:
اور جو ثابت ہے اسکا کیا کریں گے صاحبان قدردان عزت مآب سنئے سرکار کیا اخلاق کو پاکستان نے مارا؟ آصفہ کو روندنے والا جیش محمد کے آتنکی تو نہیں؟ پہلو خان کا کیا صاحب؟ بنگالی مزدور کو کب انصاف ملے گا اور نجیب کہاں ہے؟؟؟؟
درد صرف درد ہے خواہ آپکا ہو یا ہمارا مسلم کا ہو یا ہندو سکھ عیسائ یا کسی اور کا...
ہر آنکھ آنسو، ہر دل میں غصہ بھرپائی کیجئے ورنہ کل یا پرسو کے انجام کو تیار رہیں.
اس بات پہ اپنی بات ختم کروں کہ ایک تین سال کا بچہ اب تصویر کو پاپا کہ رہا ہے، اسکی ماں کی آنکھوں میں آنسو کی جگہ خون بہ رہا ہے
بھائی کی کلائی کہاں کھوگئی بہن کا کانپتا ہاتھ کہہ رہا ہے، جس کندھے پر بیٹھا کر میلا گھمایا کرتے تھےاس کندھے پر آج ارتھی، سوچو اس باپ کا درد کتنا گہرا ہے.
پر اس حالات میں بھی جو نوجوان سیما پہ کھڑا ہے
گھبرائیں مت آپ کے ساتھ پورا ہندوستان کھڑا ہے۔

کیا مولانا رشادی مدنی صاحب کا بیٹا ہونا گناہ ہے؟؟؟

محمد طاھر مدنی، جنرل سکریٹری راشٹریہ علماء کونسل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی ادارے یا تنظیم کے ذمہ دار کا قریبی رشتہ دار اگر اسی میں کوئی ذمہ داری ادا کرتا ہے تو فورا اقربا پروری کا الزام لگا دیا جاتا ہے اور مطعون کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے. حالانکہ اگر وہ باصلاحیت اور اھل ہے تو اسے اقربا پروری نہیں کہا جاسکتا، ہاں اگر وہ بے صلاحیت اور نااہل ہو، اس کے باوجود اسے اہم ذمہ داری دی جائے تو یہ اقربا پروری ہے.
راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی مدنی صاحب کے ہونہار صاحبزادے طلحہ عامر اس وقت کونسل کے قومی ترجمان کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں اور کونسل کی آواز مختلف ذرائع و وسائل کو استعمال کرتے ہوئے، پورے ملک میں پہونچا رہے ہیں. کچھ لوگوں کو یہ بہت ناگوار خاطر ہے اور شوشل میڈیا پر اقربا پروری کا الزام لگا کر مولانا کو بدنام کرنے کے کار خیر میں ایسے لوگ لگے ہوئے ہیں.
طلحہ عامر کون ہیں؟
کونسل کی تشکیل کے بعد پہلی بڑی قربانی دینے والے نوجوان کا نام طلحہ عامر ہے. اکتوبر 2008 میں کونسل بنی اور دسمبر 2008 میں حیدرآباد جاتے ہوئے ناگپور ریلوے اسٹیشن سے اے ٹی ایس کے لوگوں نے انہیں اٹھا لیا، صرف اس وجہ سے کہ ان کے والد محترم ایجنسیوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے. ٹارچر کیا گیا اور کہا گیا کہ اپنے والد سے کہدو کہ خاموش رہیں. ان پر آرمس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا. اگرچہ ضمانت ہوئی لیکن آج تک مقدمہ چل رہا ہے اور ہر تاریخ پر ناگپور جانا پڑتا ہے. مقدمہ کے بارے میں کرم فرما یہ نہیں پوچھنے والے ہیں کہ مولانا کیسے مقدمہ لڑ رہے ہیں، البتہ طنز و تعریض کے نشتر چلانے کیلئے بڑا وقت ہے.
طلحہ عامر اس وقت وپرو میں اچھی سروس کر رہے تھے اس سے بھی ہاتھ دھونا پڑا. دس سال سے کونسل کیلئے سرگرم عمل اور ہر طرح کی قربانی دینے والے باصلاحیت نوجوان سے اگر کونسل خدمت لے رہی ہے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟
تعلیمی لحاظ سے ایم بی اے اور ایل ایل بی، انگریزی پر کمانڈ، ہندی اور اردو پر دسترس، بہترین اسپیکر، اچھا موٹیویٹر اور کامیاب ڈیبیٹر.... کیا ایسے باصلاحیت نوجوان کو اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ وہ قومی صدر کا بیٹا ہے؟ کیا اسے اقربا پروری کہیں گے؟ اقربا پروری اس وقت ہوتی، جب نااہلی کے باوجود صرف صاحب زدگی کی وجہ سے ذمہ داری دی جاتی.
طلحہ عامر جیسے نوجوان ملت کا سرمایہ ہیں، ایسے ہونہار و ں کو ہر تنظیم میں آگے بڑھانا چاہیے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کیا مولانا رشادی مدنی صاحب کا بیٹا ہونا گناہ ہے؟ جس کی وجہ سے صلاحیت کے باوجود درکنار کردیا جائے؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے جس وقت طلحہ کی گرفتاری ہوئی تھی اور طرح طرح کے اندیشے تھے، کچھ بھی ہوسکتا تھا، جامعة الرشاد کے احاطے میں میڈیا کے ایک نمائندہ نے مولانا کے چھوٹے بیٹے " حذیفہ عامر سکریٹری AMU " سے  بھائی کی گرفتاری پر ردعمل جاننا چاہا تو اس نے برملا کہا کہ ابو کی آواز دبانے کیلئے میرے بھائی کو اٹھایا گیا ہے، ہم لوگ ابھی تین بھائی باہر ہیں، ابو سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم سب اٹھا لیے جائیں، پھر بھی ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز اٹھاتے رہیے گا. یہ جواب سن کر وہ نمائندہ دنگ رہ گیا. یاد رکھیے یہ محترم مولانا مجیب اللہ ندوی رحمہ اللہ کا خون ہے جو جرات و ہمت اور عزم و استقلال کے پیکر تھے. تحریک بازیابی مسجد بابری کے دوران انہوں نے سنت یوسفی بھی ادا کی تھی اور تاحیات ملک و ملت کی قیادت ہمت و شجاعت کے ساتھ کرتے رہے. ہماری ملت کے افراد کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ کسی سے خوش ہوتے ہیں تو اس کے عیب بھی ہنر نظر آتے ہیں اور تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور جب ناراض ہوجاتے ہیں تو اس میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آتی. آدمی کو انصاف پسند ہونا چاہیے اوراعتدال کا دامن ہر حال میں تھامے رہنا چاہیے.
مولانا عامر رشادی مدنی صاحب بھی ایک انسان ہیں، فرشتہ نہیں ہیں کہ غلطی کا صدور ہی نہ ہو، تنقید کا حق مسلم ہے مگر خوبیوں کا اعتراف کرنا چاہیے. ان کی سب سے بڑی خوبی وہ جرات و ہمت ہے جو کسی تحریک کو چلانے کیلئے ضروری ہے. نازک حالات میں کونسل کو لے کر آگے بڑھنا آسان کام نہیں ہے. درجنوں مقدمات ان پر ہیں، ان میں کچھ اپنوں کی کرم فرمائی کا نتیجہ بھی ہیں ، اس کے باوجود استقلال اور استقامت کے ساتھ وسائل کی کمی کے ہوتے ہوئے، تحریک کی قیادت کرنا، بڑا کام ہے. ملت کو ایسے محسنوں کی قدر کرنی چاہیے، ان کیلئے دعا کرنی چاہیے اور حتی المقدور ساتھ دینا چاہیے.
یہ دور ملت اسلامیہ ہند کیلئے بہت نازک اور آزمائشوں سے پر ہے. حالات مشکل تر ہوتے جارہے ہیں، باہمت اور جرات مند قائدین خال خال ہی نظر آتے ہیں، ان کے شانہ بشانہ کام کی ضرورت ہے، تنقید ضرور ہو مگر تعمیری اور مخلصانہ...
وطن کی فکر کر ناداں! قیامت آنے والی ہے
تری بربادیوں کا تذکرہ ہے آسمانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے اے ہندی مسلمانو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی، داستانوں میں

"اردو دوہا کا آغاز اور صنفِ دوہا کے مختلف شعراء کا نمونہء کلام "

محمد عباس دھالیوال، مالیر کوٹلہ ،پنجاب
abbasdhaliwal72@gmail.com
contact. 9855259650
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی  بھی  زبان کی نظم و نثر دو آنکھیں ہوا کرتی ہیں. جن کی مدد سے ہم کسی زبان کے ادب کے دل میں کیا چھپا ہے اس کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں.  ادبی تاریخ کو جب ہم مطالع میں لاتے ہیں تو تقریباً ہمیں ہر زبان کے مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ادب میں پہلے پہل نظم  وجود میں آئی اس کے بعد  نثر کا آغاز وارتقاء ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے.
 زندہ زبانوں کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ جہاں اپنے ارد گرد کی دوسری زبانوں  کے الفاظ سے استفادہ کر تے ہوئے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرتی رہتی ہیں وہیں دوسری زبانوں کی مقبول ترین اصناف کو بھی اپنانے سے  قطعاً گریز نہیں کرتیں .
اس سلسلے میں اردو زبان کا دل بھی بے حد کشادہ ہے.  اردو نے جہاں اپنے گرد و نواح کی مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپناتے ہوئے اپنے آپ کو عام فہم بناتے ہوئے خود کو دوسری زبانوں کے مختلف الفاظ سے مالا مال کیا ہے وہیں  دوسری زبانوں کے ادب میں رائج مختلف اصناف کو اپناتے ہوئے ان پر خوب طبع آزمائی کی ہے.
جیسے کہ ہم  جانتے ہی ہیں کہ دوہا ہندی زبان کی ایک معروف شعری صنف ہے جسے اردو شعراء نے دل سے اپنایا ہے . جس کے نتیجے میں آج دوہا صنف شاعر اردو شاعری میں  ایک منفرد و ممتاز حیثیت اختیار کر گئی ہے. یوں تو دوہا کا آغاز زمانہ قدیم یعنی ساتویں صدی اور آٹھویں صدی سے ہوا مانا جارہا ہے۔ دوہا گنگا جمنی تہذیب کی  ایک مقبول ترین صنف ہے جو کہ عوام میں بے حد مقبول و ہر دلعزیر خیال کی جاتی ہے .
قابل ذکر ہے کہ پہلے پہل دوہے کی صنف پر دکن کے صوفی شعراء نے طبع آزمائی کی اس کے بعد لمبے عرصے تک اردو شعراء اس صنف  سے ایک طرح سے لاتعلق سے ہو گئے. دراصل اپ بھرنش میں قافیہ کا رواج دوہے سے شروع ہوا ہے. ورنہ اس سے قبل سنسکرت اور پراکرت میں قافیہ کا رواج نہیں تھا۔ دوہا، دو مصرعوں کی اپنی مختصر ترین ہیہت کی وجہ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے ۔ ہندی کا دوہا اردو  غزل کے مطلع کی طرح ہوتا ہے دوہا میں ردیف کی قید نہیں ہوتی لیکن قافیہ ضرور ہوتا ہے۔ یعنی ایک آزاد شعر کو دوہا کہہ سکتے ہیں۔ ہندی دوہا کے شعراء میں کبیر، تلسی داس، عبدالرحیم خان خانہ کے نام بے حد مشہور ہیں  وہیں، کیونکہ دوہا فوک سونگ یا لوک گیتوں کی طر ح ایک عوامی صنف ہے اس لیے اس صنف میں بہت سے گم نام شعراء کرام کا کلام بھی ملتا ہے. جہاں تک اردو کے پہلے دوہا کہنے والے شاعر کا تعلق ہے تو اس میں میرا جی  شمس العشاق کو اردو زبان بانی شاعر ہونے کا شرف حاصل ہے. ان کی کتاب "خوش نامہ" میں بہت سارے دوہے ملتے ہیں. اس صنف کو مزید فروغ دینے میں امیر خسرو، شیخ شرف الدین یحییٰ نوری بو علی شاہ قلندر وغیرہ نے اپنا نمایاں رول ادا کیا.
موجودہ عہد میں اس کے  میں دوہا صنف کو پروان چڑھانے میں جمیل الدین عالی، ناصر شہزاد، عابد پشاوری، پرتو روہیلہ، بھگوان داس اعجاز، ظفر گورکھپوری، ندا فاضلی وغیرہ شعراء کے نام کو سر فہرست شامل کیا جا سکتا ہے .
جب ہم دوہا کے تکنیکی پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس شعری صنف یعنی دوہا کو دوہرا اور دو پد کے نام سے بھی جانا جاتا رہا ہے ۔ دوہے کے دونوں مصرعے مقفیٰ ہوتے ہیں ۔ ہر دوہا دو ہم قافیہ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر مصرعے میں 24 ماترائیں ہوتی ہیں۔ ہر مصرعے کے دوحصے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک حصے میں 13 اور دوسرے میں 11 ماترائیں ہوتی ہیں. اس کا وزن.....

فعلن فعلن فاعلن          فعلن فعلن فع/ فاع

پر مشتمل ہوتا ہے. دوہا کے دونوں مصرعے معنوی اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل ہوتے ہیں. دراصل دوہا غزل کے مطلع کی مانند ہوتا ہے بس دوہا میں ردیف کی قید سے آزاد ہوتا ہے  ہاں قافیہ کی پابندی ضرور ہوتی ہے. اس کے مصرعوں کے درمیان ہلکا سا  وقفہ ضرور ہوتا ہے۔
دوہا میں کسی بھی بڑے سے بڑے مضمون و خیال کو چند الفاظ میں پیش کیا جا سکتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ
 دوہا میں ایک طرح سے ساگر کو گاگر میں بند کیا جاتا آپ  یہاں چند کبیر کے  دوہے دیکھیں کہ کس طرح سے انھوں نے بڑے سے بڑے خیال کو چند الفاظ میں پرو کر ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہتے ہیں کہ
دنیا کیسی باوری پتھر پوجن جائے
گھر کی چکھی کوئی نہ پوچھے جس کا پیسا کھائے

کبیرا کھڑا بجار میں مانگے سب کی کھیر
نہ کوہو سے دوستی نہ کوہو سے بیر
اردو زبان میں دوہا صنف کے بانی سمجھے جانیوالے
میرا جی شمس العشاق کے دوہا کا رنگ دیکھیں انسانی مسافرانہ  زندگی کا نقشہ کس خوبصورت و عام فہم انداز میں پیش کیا ہے کہ

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

جمیل الدین عالی کے دوہوں کا رنگ بھی دیکھیں کہ انسانی زندگی سے وابستہ مختلف حقیقی مسائل کو کس بے باک انداز میں ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ
اردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں

دھیرے دھیرے کمر کی سختی کرسی نے لی چاٹ
چپکے چپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ

نا کوئی اس سے بھاگ سکے اور نا کوئی اس کو پائے
آپ ہی گھاؤ لگائے سمے اور آپ ہی بھرنے آئے

روٹی جس کی بھینی خوشبو ہے ہزاروں راگ
نہیں ملے تو تن جل جائے ملے تو جیون آگ

سورؔ کبیرؔ بہاریؔ میراؔ ؔرحمنؔ تلسیؔ داس
سب کی سیوا کی پر عالؔی گئی نہ من کی پیاس

نیند کو روکنا مشکل تھا پر جاگ کے کاٹی رات
سوتے میں آ جاتے وہ تو نیچی ہوتی بات

عالؔی اب کے کٹھن پڑا دیوالی کا تیوہار
ہم تو گئے تھے چھیلا بن کر بھیا کہہ گئی نار

ہر اک بات میں ڈالے ہے ہندو مسلم کی بات
یہ نا جانے الھڑ گوری پریم ہے خود اک ذات

عمر گنوا کر پیت میں اتنی ہوئی پہچان
چڑھی ندی اور اتر گئی گھر ہو گئے ویران
معروف دوہا  شاعر عبد الرحیم خان جاناں کے کلام کا رنگ بھی دیکھیں کہ

رحیمن دھاگا پریم کا مت توڑو چٹکائے
ٹوٹے سے پھر نہ جڑے جڑے گانٹھ پڑ جائے

بھگوان داس اعجاز کے دوہے بھی ملاحظہ فرمائیں کہ

آج مجھی پر کھل گیا میرے دل کا راز
آئی ہے ہنستے سمے رونے کی آواز

بھیتر کیا کیا ہو رہا اے دل کچھ تو بول
ایک آنکھ روئے بہت ایک ہنسے جی کھول

سینے کے بل رینگ کر سیمائیں کیں پار
میں بونوں کے گاؤں سے گزرا پہلی بار

ہم جگ میں کیسے رہے ذرا دیجئے دھیان
رات گزاری جس طرح دشمن گھر مہمان

ہوگی اک دن گھر مرے پھولوں کی برسات
میں پگلا اس آس میں ہنستا ہوں دن رات

 ندا فاضلی نے دوہا صنف میں اپنا ایک الگ و منفرد مقام بنا یا ہے ندا نے اپنی تخیلاتی اڑان کو اپنے دوہوں میں اس قدر دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قارئین ان کا مطالعہ کرتے وقت ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. ندا فاضلی کے چند دوہے بھی آپ یہاں پر دیکھیں کہ .
چڑیا نے اڑ کر کہا میرا ہے آکاش
بولا شکرا ڈال سے  یونہی ہوتا آکاش

اس جیسا تو دوسرا ملنا تھا دشوار
لیکن اس کی کھوج میں پھیل گیا سنسار

بولا بچہ دیکھ کے مسجد عالیشان
اللہ تیرے ایک کا اتنا بڑا مکان

پوجا گھر میں مورتی، میرا کے سنگ شیام
جس کی جتنی چاکری، اتنے اس کے دام

سیتا، راون، رام کا، کریں وبھاجن لوگ
ایک ہی تن میں دیکھیے، تینوں کا سنجوگ

مٹی سے ماٹی ملے، کھو کے سبھی نشاں
کس میں کتنا کون ہے، کیسے ہو پہچان

ساتوں دن بھگوان کے، کیا منگل کیا پیر
جس دن سوئے دیر تک، بھوکا رہے فقیر

اچھی سنگت بیٹھ کر سنگی بدلے روپ
جیسے مل کر آم سے میٹھی ہو گئی دھوپ

سپنا جھرنا نیند کا، جاگی آنکھیں پیاس
پانا، کھونا، کھوجنا، جیون کا اتہاس

چاہے گیتا واچیے، یا پڑھیے قرآن
میرا تیرا پیار ہی ہر پستک کا گیان

اردو زبان کے ایک اور معروف دوہا نگار
مشتاق عاجز کے دوہوں کا رنگ بھی دیکھیں کہ.

تن پرتھوی کا، پران  پَرَبھُو کے، اپنا دیس نہ دھام
پَرَدھن پر پردھان بنا ہے ’’لالہ گولک رام‘‘

سونا رُوپا مال سمیٹا ریشم لیا لپیٹ
ہیرے کھائے، موتی چابے بھرا نہ پاپی پیٹ

تکڑی تولی لالچ کی اور جھوٹ کے رکھّے باٹ
لالہ جی پرلوک سدھارے تالا لاگا ہاٹ

مول سے تول برابر کر لے، کر سچّا بیوپار
شام ڈھلے ہی اٹھ جائے گا دنیا کا بازار

روکھی سوکھی کھائے نردھن اور کرے آرام
جس نے مال پرایا کھایا اس کی نیند حرام

ایک دوہا ڈاکٹر نریش کا بھی آپ یہاں دیکھیں کہ

آئے مٹھی بند لیے چل دیے ہاتھ پسار
وہ کیا تھا جو لٹ گیا دیکھو سوچ بچار

نادک حمزہ پوری کے  دوہا کا رنگ بھی دیکھیں کہ

آگے پیچھے رکھ نظر ظاہر باطن بھانپ
غافل پا کر ڈس نہ لے آستین کا سانپ
ایک اور دوہا صنف کے نمائندہ شاعر
سلیم انصاری کا دوہا بھی ملاحظہ فرمائیں کہ

آنگن کے اک پیڑ کی ٹھنڈی میٹھی چھاؤں
شہر میں جیسے آ گیا چل کر میرا گاؤں
ایک اور شاعر
کشور ناہید کے بھی دوہا کا رنگ ملاحظہ فرمائیں کہ

آنکھ کی پتلی سب کچھ دیکھے دیکھے نہ اپنی ذات
اجلا دھاگا میلا ہووے لگیں جو میلے ہات

مشہور دوہا شاعر فاروق انجنیئر کا بھی  دوہا ملاحظہ فرمائیں کہ

آنکھوں کو یوں بھا گیا اس کا روپ انوپ
سردی میں اچھی لگے جیسے کچی دھوپ

معروف شاعر شمش فرخ آبادی کے دوہا کو بھی ملاحظہ فرمائیں کہ

آنکھیں دھوکا دے گئیں پاؤں چھوڑ گئے ساتھ
سبھی سہارے دور ہیں کس کا پکڑیں ہاتھ

دوہا صنف کے ضمن میں  اختتام میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس صنف کو اہلِ ادب کی نظر میں کبھی بھی انشاءاللہ زوال نہیں ہو سکتا یعنی جب تک  دنیا قائم ہے انشاءاللہ دوہا کو قارئین اسی طرح پڑھتے رہیں گے اور اس کے ان میں سموئے افکار و خیالات سے لطف اندوز  ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں پوشیدہ پیغامِ ہدایت سے سیدھ حاصل کرتے رہیں گے.

سابق گورنر عزیز قریشی نے ہاردک پٹیل اور عمیق جامعی کو ٹکٹ دینے کی دیا اکھلیش یادو کو مشورہ!

اجود قاسمی
ــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 24/فروری 2019) سابق گورنر اترپردیش و اتراکھنڈ عزیز قریشی نے کہا کہ وہ اکھلیش میں ایک بہت ہونہار لیڈر دیکھتے ہیں وہ ان کے طریقہ کار سے بھی مطمئن ہیں وہ سماج وادی پارٹی کو کافی آگے لے جائیں گے، بی ایس پی سے اتحاد کا پورا کریڈٹ انہوں نے اکھیلیش کو دیتے ہوئے کہا کہ بس اک چوک ہوگی کہ کانگریس کو کنارے کردیا گیا، اتحاد میں شامل کرنا چاہیے تھا۔
عزیز قریشی نے بتایا کہ انہوں نے اکھلیش سے حالیہ ملاقات میں یہ مشورہ دیا ہے کہ ہاردک پٹیل اور عمیق جامعی جیسے تیز طرار اور ہونہار نوجوانوں کو ٹکٹ دیں ان میں الیکشن جیتنے اور عوام کو بہتر نمائندگی کی پوری صلاحیت ہے، جب ان سے پوچھا کہ اکھلیش نے اس کا کیا جواب دیا تھا تو انہوں نے کہا کہ جواب مثبت میں تھا اور مجھے امید ہے کہ وہ میرے مشورے کا خیال رکھیں گے انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ مذکورہ لوگوں کے لیے کسی خاص سیٹ کی بات کی ہے بس اتنا کہا ہے کہ انہیں پارلیمانی الیکشن لڑائے۔

Saturday 23 February 2019

پلوامہ دہشت گردی حملے کے خلاف زبردست احتجاج!

اس دہشت گردانہ وبزدلانہ حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں: پروفیسر کاظم علی مظاہری
 یہ حملہ ملک کی غیرت کو چیلنیج ہے: مرتضی حسن قاسمی  
 ہم مودی حکومت سے انتقامی کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں: سہیل آزاد

ابوافہم عبادصدیقی کی رپورٹ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مدھوبنی(آئی این اے نیوز 23/فروری 2019) 22فروری جمعہ کی نماز کے بعد تقریبا دوبجے کے قریب چھوراہی پنچایت کے مسلم اور ہندو نے مشترکہ طور پہ پلوامہ دہشت گرد حملے کے خلاف زبردست احتجتاج کیا، گزشتہ 14فروری جمعرات کے دن صبح کے وقت ہندوستانی فوجی دستہ جموں کشمیر سے سری نگر کی طرف جارہا تھا جس میں بہتر گاڑیوں پہ پانج سو کے قریب سی آر پی ایف کے جوان فوجی سوار تھے، پلوامہ شاہراہ پہ اچانک ایک گاڑی بارود سے بھری فوجی کے ٹرک کو  ٹکر ماردیتی ہے، جس سے گاڑی میں سوار 42 فوجی جوان جاں بحق ہوجاتے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہیں،
  اس سانحے سے ملک سوگوار ہے، ہندوستان کی ریاست بہار کے شمالی خطے میں ضلع  مدہوبنی کی معروف بستی جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اس بستی میں اس دہشت گرادانہ حملے کے خلاف ہندو اور مسلم مل جل کر غم وغصے اور سخت ناراضگی کا  اظہار کئے، اور جنوب محلہ اسلامیہ چوک سے ایک احتجاجی جلوس نکلا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں جوان، بوڑھے اور بچے شامل تھے، جس کی سربراہی بستی کے موقر عالم دین اور سماجی کارکن پروفیسر کاظم علی مظاہری، سرپنچ منشی بشیراحمد اور سماجی کارکن معروف دانشور جناب سہیل آزاد فرمارہے تھے.
اس احتجاجی جلوس میں شریک محبان وطن ہندوستان زندہ آباد شہیدان وطن امر رہو اور مودی جی ہوش میں آؤ پینتالیس کے بدلے پانچ ہزار لاؤ کے نعرے لگارہے تھے، ساتھ ساتھ پاکستان مردہ باد کے نعرے بھی لگ رہے تھے.
اس موقع سے گاؤں کے سماجی کارکنان دانشواران میں ماسٹر مجیب الرحمن، ڈاکٹر شمیم احمد ہاشمی، ڈاکٹر دھنیشر پرساد سنگھ، مولانا محمد موسی نعمانی، سابق مکھیا گرام پنچایت، مولانا مرتضی حسن قاسمی، مولانا شکیل احمد ندوی، شری پولکت یادو، ماسٹر نسیم احمد، ماسٹر عابد حسین، ماسٹر عثمان غنی، ڈاکٹر جاوید اقبال، مولانا محمداطہر نقاد، مفتی وصی احمد قاسمی، شری رام نارائن یادو، قمرعالم، شاہد کامران، موجودہ گرام پنجایت مکھیا انل کمارراوت، ماسٹر ابوالکلام، ماسٹر منظر عالم، ماسٹر شمسی، نوشاد احمد مبائل، کلام احمد موجود تھے، سب کے شہیدان وطن کو خراج عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس حملے کی پرزور مذمت کی.

مولانا آزاد کی زبان دانی؛ چند جهلکیاں

تحریر: شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مولانا ابوالکلام آزاد کی ذات اپنی جگہ ایک انجمن تهی، علم وفضل کی وہ کون سی بلندی ہے جس کو مولانا کے ذهن رسانے نہ پایا ھو، ان کی جادو بیانی کا کوئی ثانی نہیں تها وه حسن انشا میں یگانہ تهے، فکر کی تابانی، یقین کی روشنی اور عمل کی گرمی نے ان کی شخصیت میں ایک دل آویزی ودلکشی پیدا کردی تهی،
فضل وکمال کی رنگا رنگی، مطالعہ کی وسعت،عالمانہ رکه رکهاؤ،پاکیزه جمالیاتی ذوق ان سب کا اتنا دلکش اور حسین امتزاج مولانا کے اندر پایا جاتا تها کہ ہم ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے.گویا وہ ایک ایسا"گل"تهے جس کے ارد گرد مختلف'اجزا'گردش میں ہوں،شعر وادب،مذهب واخلاق،زبان وبیان،حکمت وفلسفہ،سیاست وصحافت ہر جگہ اور ہر کہیں مولانا کی اپنی انفرادیت،ان کا ذهنی کمال اور فکری عمق اپنی مثال آپ ہے.قدرت نے انهیں وہ ذهنی صلاحیتیں ودیعت کی تهیں کہ جس فن پر بهی انہوں نے توجہ دی اسے بام عروج تک پہنچا دیا اور دیکهنے والوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ شاید اسی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.شعر وادب پر گفتگو کی تو عرفی ونظیری،متنبی اور بدیع الزماں ہمدانی کی صف میں کهڑے نظر آئے،حکمت وفلسفہ کی بات کی تو ابن رشد اور ابن طفیل کی مسند سنبهالی،رشد وهدایت،دعوت وعزیمت اور مذهبی اصلاح وانقلاب کو اپنا شعار بنایا تو وقت کے ابن تیمیہ اور ابن قیم ثابت ہوئے.حقیقت یہ ہے کہ مولانا آزاد جیسی علمی فضیلت،ذهانت وعبقریت اور اسلامی علوم وفنون پر گہری نظر رکهنے والی شخصیت اس وقت کی اسلامی دنیا میں کوئ اور نظر نہیں آتی.
مولانا ابوالکلام آزاد کی زبان دانی کے سلسلے میں بانئ جامعہ امام ابن تیمیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب"کاروان حیات" کے اندر رقمطراز ہیں مولانا آزاد کی کتب بینی کا یہ نتیجہ نکلا کہ باره سے تیره سال کی عمر ہوتے ہوتے تمام مروجہ علوم میں مہارت حاصل کرلی،اور عربی وفارسی میں بڑی بڑی ضخیم و دقیق کتابوں کو گوشہ ہائے حافظہ میں بند کر لیا،اور درس نظامی کا دس سالہ کورس بہت ہی کم سنی میں مکمل کر لیا، ولادت کے بعد دس سال تک مکہ مکرمہ میں رہنے کے سبب عربی ان کی مادری زبان تھی.علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی مولانا کی انگریزی کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے لکهتے ہیں:
آپ نے انگریزی زبان خود پڑه کر سیکه لی تهی،اور اس قدر سیکه لی کہ مشکل سے مشکل ترین کتابوں کا مطالعہ کرنے لگے،اور ان میں زبان وادب کے نقائص وعیوب نکال کر ان کے مصنفین کو دکهانے لگے.لیکن برا ہو حسد ومعاصرت کا کہ آپ کے حاسدین آپ کے انگریزی نہ جاننے سے متعلق بے بنیاد روایتیں اور بے سروپا قصے گهڑ کر خوب آپ کا گوشت کهاتے رہے.(کاروان حیات،ص-599-600)
مولانا کتابوں کی صحبت اور علمی مشاغل کو بہت پسند کرتے تهے.ان کے تعلق سے یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ علم اللسان میں اپنی نظیر نہیں رکهتے.مولانا آزاد رحمہ اللہ بہت بڑے مشتشرق ہیں.عربی اور فارسی میں تو کوئ بهی ان کا حریف نہیں ہے مگر جب گفتگو کرتے ہیں تو ایسی آسان،شگفتہ اور رواں دواں اردو بولتے ہیں کہ ہر کوئ اسے سمجه سکتا ہے. بے شک مولانا کی یہی زبان "ہندوستانی زبان" ہے.
اگر چہ آپ انگریزی کم بولتے تهے،مگر آپ کی لائبریری انگریزی اور فرانسیسی کتابوں سے بهری ہوئ ہوتی تهی.آپ نے کئ انگریزی شعراء شیکسپیئر،ورڈز ورته،شیلے اور بائرن کا مطالعہ کیا ہے.گوئٹے،سپونوزا،روہو،مارکس،ہیولاک ریلس،ڈیوماز،ہیوگو،ٹالسٹانی اور سکن کو ایک بار نہیں بار بار پڑها ہے.(سوانح افکار مولانا ابوالکلام آزاد،ص- 32)
ترکی زبان کی تحصیل: ترکی زبان سیکهنے کا موقع تو ہمیں ملا لیکن افسوس کہ اس کی تکمیل نہ کرسکا،ایک بہت قابل ترک"طاہر بک" حسن اتفاق سے کلکتہ پہونچے.یہ ایک بہت ہی قابل زبان داں سیاح شخص تهے.ابتداء میں یمن وشام کے مخلتف سرکاری عہدوں پر بهی ره چکے تهے اور اس کے بعد کچه دنوں تک "ترجمان حقیقت"قسطنطنیہ"کے ایڈیٹر بهی ره چکے تهے.فرنچ بہت عمده جانتے تهے.فارسی اور عربی بڑی بے تکلفی کے ساته بولتے تهے نہیں معلوم کیا مصائب پیش آئے. سخت بدحالی کے عالم میں کلکتہ پہنچے.ایک دن میں مسجد سے نکل رہا تها اتنے میں مجهے ایک شخص نظر آیا جو ٹخنوں تک کا کرتا اور چهوٹا سا کوٹ پہنے اور سر پر چهوٹا سا عربی عمامہ لپیٹے ہوئے،شامی یا عراقی عربوں کی طرح سیڑهیوں پر چڑه رہا تها.میں نہ چاهتے ہوئے بهی اس کی طرف متوجہ ہوگیا.میں نے عرب سمجه کر ان سےعربی میں کچه پوچها، جس کا جواب انہوں نے ایسے لہجے میں دیا کہ جس سے معلوم ہواکہ یہ عربی لب ولہجہ نہ تها.میں انہیں اپنے ساته لے آیا اور جب کچه باتیں ہوئیں تو اقرار کیا کہ میں ترک ہوں.معلوم ہوا کہ اس بے چارے نے یہ سنا تها کہ ہندوستان میں عربی کی زیاده قدر ہوتی ہے.پریشانی کی وجہ سے چونکہ طالب اعانت تها اس لئے اپنے تئیں ایک ایسی مشتبہ حالت میں چهوڑ دیا تها.دو چار دن ہی میں اس کی واقفیت اوراس کی قابلیت ظاہر ہوگئ اور میں نے والد مرحوم سے اجازت لیکر اپنے یہاں اس کے قیام کا بندو بست کر دیا، سات آٹھ مہینے تک یہ وہیں رہے اور اسکے بعد قسطنطنیہ چلے گئے.
ان کی صحبت سے بهی مجهے بہت سے تعلیمی فوائد حاصل ہوئے، عربی کی بهی بہت اچهی استعداد تهی، تحریر بہت ہی اچهی تهی، معلومات عامہ خاص طور پر تهیں، میں اور میرے بهائ مرحوم کے ساته ساته چند لوگوں نے بهی ان سے ترکی زبان سیکهنا شروع کر دیا، بهائی مرحوم زیاده مستعدی سے پڑهتے رہے لیکن میں اسے جاری نہ رکھ سکا.
انکے خیالات بالکل فلسفیانہ تهے، اور مجهے حیرت ہوتی تهی کہ تمام مذهبی مباحث میں بجنسہ وہی خیالات رکهتے تهے.اور ان کے اثبات کے لئے بعینہ وہی دلائل استعمال کرتے تهے، جو نئے خیال کے اصلاح پسند،ہندوستان میں ظاہر کرچکے ہیں، یہ اس امر کا ثبوت تها کہ ایک ہی حالات میں ایک ہی طرح کے خیالات کا پیدا ہونا،ایک قدر مشترک ہے.جو تمام ملکوں اور قوموں میں یکساں طور پر ظہور میں آتا ہے.
اس زمانے میں چونکہ خود بهی سرسید مرحوم کے رنگ میں رنگ چکا تها،اس لئے ان سے مجهے بہت دلچسپی ہوگئ اور میں انکی بہت قدر کرنے لگا.ترکوں کے حالات ترکی لٹریچر،ترکی شاعری،اس کے قدیم وجدید مختلف دور، مشاہیر ادبائے ترک، نئی پولیٹیکل جماعتیں اور بہت سی مفید باتیں اس زمانے میں انہی سے معلوم ہوئیں اور آگے چل کر بہت کام آئیں.نامق کمال بک،یوسف ادیب،احمد جودت کا کلام بڑے ذوق وشوق اور ترنم کے ساته سنایا کرتا تها، اس کی آواز بهی بہت پیاری تهی.اور ترکی گانے بهی نہایت عمده ہوا کرتے تهے. لہذا میں خود ترکی اشعار سناتا اور ان کا ترجمہ کرتا تها.
الغرض مولانا آزاد رحمہ اللہ بیک وقت عربی، فارسی، ہندی، اردو، انگریزی، فرنچ، ترکی اور بنگلہ زبانوں دسترس رکهتے تهے یہی وجہ ہے کہ آج بهی ان کا نام علمی دنیا میں قدر سے لیا جاتا ہے اور قیامت کی صبح تک لیا جاتا رہے گا.

سیاست اور مسلم قیادت!

فیضان احمد اعظمی نصیر پور اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــ
آج کے دور سیاست میں مسلمانوں کی نظر اندازی بہت افسوس ناک اور حیرت انگیز ہے، تمام سیاسی پارٹیاں صرف مسلمانوں کا استعمال ووٹ بینک کیلئے کرتی ہیں، اور آج کا مسلمان نام نہاد پارٹیوں کے لئے اپنا وقت، پیسہ سب کچھ نثار کرنے کو تیار ہے، مگر اپنا قائد بنانے کو تیار نہیں ہے، اگر کوئی مسلم لیڈر اتحاد کی بات کرتا ہے تو لوگ اسے کسی پارٹی کا دلال یا ووٹ کٹوا کہنے لگتے ہیں، آج کا مسلمان آپسی انتشار کا شکار ہے ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں ہے باہمی اختلافات میں الجھا ہوا ہے،
جسکا فائدہ تمام سیکولر پارٹیاں بخوبی اٹھاتی ہیں اور ہم سیکولیزم کے نام پر اپنے آپ کو رسوا کراتے رہتے ہیں ۔
ہندوستان ایک بہت خوبصورت ملک ہے جہاں ہر ذات اور مذہب کے لوگ آپس میں ملکر رہتے ہیں اور ہر ہندوستانی کو اپنا قائد اپنا لیڈر اور پارٹی چننے کا حق ہے لیکن مسلمان اگر اپنی پارٹی یا لیڈر چنے تو تمام سیاسی پارٹیوں اور کچھ مسلم رہنماؤں کے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے بےچینی ہونے لگتی ہے، کہیں مسلمان اپنے عقل و شعور کا ثبوت نہ پیش کر دے.
خیر ایسے کم لوگ ہی ہیں جو اپنے آنے والے سیاسی مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں یا بات کرتے ہیں ورنہ اکثریت تو سیکولیزم، مشاعرہ، بریانی یا جھنڈا لہرانے تک ہی محدود ہیں اور ہمارے مذہبی، سیاسی رہنما ہمیں اپنے ہاتھوں کی کٹھپتلی کی طرح استعمال کرتے ہیں، جس طرح آج کل ذاتی سیاست کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان آپس میں ہاتھ ملا رہے ہیں وہ دن دور نہیں جب اپنے ہی گھر، ملک میں ہم ایک گمنام قوم بن کے رہ جائیں گے۔
مسلمانان ہند سے میری بس یہی التجا، درخواست، منت ہے کہ اپنا ایک سیاسی مقام پیدا کریں، اپنی ایک پہچان بنائیں، ایک مضبوط لیڈر جو نیڈر، ایمان والا، ایماندار، صادق، بے باکی سے مسلمانوں کی آواز بلند کرنے والا اور بلند حوصلوں والا ہو تاکہ دوسری سیاسی پارٹیاں آپ کو کھانے میں تیز پتہ کی طرح نہیں بلکہ ذائقہ کی طرح استعمال کریں
اور ایسا ذائقہ کہ وہ کبھی آپ کو بھول نہ پائیں۔
ہماری آج کی سیاسی طاقت آنے والی نسلوں کے لیے میل کا پتھر ثابت ہوگی۔ ان شاءاللہ 
       ـــــــــــــعــــــــــ
سمجھ گیا جو سیاسی زندگانی کو
پہنچ گیا وہ مقام کامرانی کو

مئو: پلوامہ دہشت گردانہ حملے میں شہید ہوئے جوانوں کا تعزیتی اجلاس اختتام پذیر!

مؤناتھ بھنجن (آئی این اے نیوز 23/فروری 2019) گذشتہ دنوں جموں وکشمیر کے پلوامہ ضلع میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں شہید جوانوں کو ملک کے مختلف گوشوں سے سے خراج عقیدت پیش کرنے اور دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اسی سلسلہ کے تحت مؤ شہر کے شاہی کٹرہ میدان میں مؤ ناگرک منچ کے زیر اہتمام قاری مسیح الرحمن قاسمی امام و خطیب جامع مسجد شاہی کی صدارت میں اختتام پذیر ہوا، پروگرام کا آغاز قاری جمیل احمد نے تلاوت کلام اللہ سے کیابعد ازاں سلمان ضمیری اور سلمان گھوسوی نے ملک سے وفاداری سے متعلق
نظمیں پیش کیں اور نظامت کے فرائض مولانا افتخار احمد مفتاحی استاذ جامعہ مفتاح العلوم مؤ نے انجام دیئے ۔مذکورہ تعزیتی اجلاس میں شہرکے سبھی سیاسی ، سماجی ، ملی اور تاجر تنظیموں کے اراکین و معززین شہر نے کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہوئے پلوامہ کے شہداء کوخراج عقیدت پیش کی اور ان کے کنبہ کے تئیں اظہار رنج و غم کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کو سرکاری نوکری دینے نیز انھیں ہر طرح کا تعاون کرنے کی حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا ۔مقررین نے دہشت گردانہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ ملک کے سبھی عوام ملک کے تحفظ کیلئے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔انہوں نے مسلم نوجوان بچوں کی ذہن سازی پر بھی خصوصی زور دیا ۔تعزیتی میٹنگ کوخطاب کرتے ہوئے سابق راجیہ سبھا ایم پی محمد سالم انصاری نے کہا کہ پلوامہ میں دہشت گردوں نے جو ہمارے جوانوں کے ساتھ کیا ہے وہ نہایت ہی بزدلانہ ہے اور اس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں لیکن دہشت گردی کی آڑ میں آج کچھ لوگ جو ملک کے اندر نفرت پھیلا نے کااور معصوم کشمیریوں کے ساتھ تشدد کرنے کا واقعہ رونما کررہے ہیں وہ بھی قابل مذمت ہے، آج ملک کے اندر کشمیریوں کا کالجوں سے اخراج کیا جارہا ہے ان کے ساتھ ناانصافیاں کی جارہی ہیں یہ بھی دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے اور اس کی بھی سخت الفاظ میں مذمت ہونی چاہیے، انہوں نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حکومت چوکیداری سے نہیں بلکہ ذمہ دار ی سے چلائی جاتی ہے لیکن یہاں حکومت چلانے میں مودی ناکام ثابت ہوئے ہیں ،آخر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں باربار دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے اس پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے جب جموں و کشمیر کے گورنر نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردانہ حملہ سے متعلق ایک ہفتہ قبل ہی انٹی لیجنس ایجنسیوں سے آگاہ کردیا تھا تو پھر کیسے اتنی بڑی مقدار میں دہشت گرد آر ڈی ایکس لیکر کشمیر کے اندر گھنسے میں کامیاب ہوگئے اس کی جانچ ہونی چاہیے کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اندر ہی جے چند اور میرجعفر ہوں جو ہماری طاقت کو کمزور کرنے میں مسلسل کوشاں ہیں ۔سابق ایم ایل اے کامریڈ امتیاز احمد نے کہاکہ ہم ان تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جو دن رات ایک کرتے ہوئے ہماری سرحدوں کی نگہبانی کرتے ہیں لیکن حکومت سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اتنا بڑا دہشت گردانہ حملہ ہوا کیسے ؟کیا بی جے پی اس کیلئے ذمہ دار نہیں ہے ؟انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی واستہ نہیں ہے اسلام نے پوری دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے لیکن آج کچھ فرقہ پرست جماعتیں اسلام کو بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم دہشت گردی کی ہر سطح پر مذمت کرتے ہیں، آج کچھ لوگوں کے ذریعہ دہشت گردی مخالف مظاہروں کے ذریعہ مسلم آبادیوں میں گھس کر اس طرح کے نازیبا نعرے بازی کی جارہی ہے جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم آپسی خیر سگالی کیلئے بہت ہی خطرناک ہے ۔آج حکومت دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے بجائے دہشت گردوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اگر ایسا کریں گے تو ہم سجھتے ہیں کہ ہمارا اصل مقصد چھوٹ جائے گا، انہوں نے کہاکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوئی ہے ہر اس جگہ پر امن مذاکرات کے ذریعہ ہی قائم کئے گئے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم کشمیریوں سے بات نہیں کرنا چاہتے یہ طالبان سے تو بات کرنے کیلئے اپنے سفیر بھیجتے ہیں لیکن کشمیریوں کے مسئلہ پر سننے کو روادار نہیں ہیں انھیں حکومت کی ناکامی کیلئے ذمہ داری لینی ہی پڑے گی، انہوں نے مزید کہاکہ ملک سے دہشت گردی کاخاتمہ مذہنی منافرت کی بنیاد پر کبھی بھی ختم نہیں کیاجاسکتا، سبھی مذاہب کے لوگوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا پڑیگا، انہوں نے کہاکہ آج کچھ لوگوں کے ذریعہ بیان بازیاں کی جارہی ہیں کہ حکومت کو کاروائی کرنی چاہئے لیکن انھیں یہ سمجھنا پڑیگا کہ یہ ملک جمہوری ملک ہے یہاں کوئی راج شاہی نہیں ہے کہ جو چاہا وہ کرلیا ،اس پورے سانحہ کی پہلے جانچ ہونی چاہیے اور اس کے بعد ہی یہ طے ہوگا کہ کیاکرنا چاہئے ۔ڈاکٹر اجے کمار مشرا اور ونود پانڈے ایڈوکیٹ نے بھی سانحہ کی مذمت کرتے ہوئے سبھی شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا، قاری مسیح الرحمن قاسمی کی دعاء پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
اس اجلاس کو خاص طورسے دار العلوم مؤ کے شیخ الحدیث مفتی انور علی، مولانا خورشید احمد مفتاحی ، مولانا عزیز الرحمن پرنسپل مدرسہ بحرالعلوم مؤ، مولانا محمد اعظم مفتاحی ناظم جامعہ مفتاح العلوم مؤ، مولانا احمد اللہ قاسمی ، کانگریس پارٹی کے سابق ضلع صدر راشٹرکنور سنگھ ،بنکر فلاحی کونسل کے صدر وصحافی نوشاد احمد انصاری ، سپا ضلع صدر دھرم پرکاش یادو ،چیئرمین محمد طیب پالکی ، سابق چیئرمین ارشد جمال ، مولانا ابو سفیان مفتاحی ، ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ کے ضلع جنرل سکریٹری مولانا عبد الحمید فیضی ، مولانا مظہر اعظمی ، ایم اے اے فاؤنڈیشن کے چیئرمین جمال اختر ارپن ، مولانا عبید اللہ مفتاحی ، عبد السلام شامیانہ ،مولانا شاہد کلیم ، مولانا ابصار الحق قاسمی مہتمم مدرسہ المعہد الاسلامی ،ہری دوار رائے ایڈوکیٹ ، کانگریس پارٹی کے شہر صدر خالد انصاری، ڈاکٹر ایم اے خان ، مولانا محمد صالح نعمانی وغیرہ نے خطاب کیا، اس دوران کثیر تعداد میں سماجی، سیاسی، ملی اور تاجر تنظیموں کے علاوہ دیگر حضرات موجود تھے ۔

Friday 22 February 2019

متحد ہوں تو بدل سکتا ہے زمانے کا نظام: عامر رشادی

راشٹریہ علماء کونسل کی مدد سے دیوبند سے گرفتار نوجوان ہوئے رہا.

اشرف اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــ
دیوبند(آئی این اے نیوز 22/فروری 2019) کل رات کے اندھیرے میں خفیہ ایجنسیوں سمیت پولیس نے دیوبند سے 9 لوگوں کو اٹھا لیا تھا اور الزام تھا کہ نوجوان دہشتگردی جیسے سنگین معاملے سے منسلک ہیں، اہل دیوبند میں ایک ڈر و خوف کا ماحول پیدا ہوگیا تھا اور اس بات پر زیادہ ڈر تھا کہ کسی کو بھی ان نوجوانوں کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ کہاں پر رکھے گئے ہیں، اسی اثناء دیوبند سے تعلق رکھنے والے مولانا مہدی حسن عینی و عاصم طاہر نے راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی سمیت دیگر لیڈران سے رابطہ کیا اور انہیں معاملہ سے باخبر کر مدد کرنے کی درخواست کی، کونسل کے قومی
صدر مولانا عامر رشادی مدنی کے حکم پر قومی ترجمان طلحہ رشادی و محمد نسیم صاحب فورا حرکت میں آگئے اور ضلع انتظامیہ سے لیکر لکھنؤ میں بیٹھے اعلی افسران سے رابطہ کر انہیں غلط کاروائی نہ کرنے سمیت بےقصور بچوں کو رہا کرنے کا دباو بنایا،  افسران نے کونسل لیڈران کو بتایا کہ شک کی بنیاد پر سب کو گرفتار کیا گیا ہے، اور بے قصوروں پر کوئی کاروائی نہیں ہوگی، وہیں لیڈران کے ایک سوال پر ضلع انتظامیہ نے بتایا کہ ڈرنے کے بات نہیں ہے سبھی نوجوان سہارنپور میں ضلع ہیڈکوارٹر پر موجود ہیں اور ان سے تفتیش کی جارہی ہے اور بےقصوروں پر کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔
  کونسل نے اعلی افسران سے سخت لہجہ میں کہا کہ 2008 والا معاملہ دہرانے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ کونسل جس طرح اعظم گڑھ سے لیکر دلی اور لکھنؤ تک احتجاج کیا تھا، ایک بار پھر خفیہ ایجنسیوں کو سکون سے جینے نہیں دے گی، آخر شام تک 9 میں سے 7 نوجوان کو پولیس نے رہا کردیا، جبکہ تفتیش میں کچھ سراغ ملنے کی بنا پر 2 کشمیری نوجوان کو پولیس نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔
قومی صدر مولانا عامر رشادی نے اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ہی اس معاملے میں محنت کرنے والے سبھی حضرات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے، ہر طرف مسلمانوں کو ہراساں کرنے، مسلم ہندو کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے اور ان کے بنیادی حق چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہوں اور اپنی قیادت و اپنی سیاست کو مضبوط کر دشمنوں کا منہ توڑ جواب دیں تاکہ آئندہ کوئی ہماری طرف آنکھ اٹھانے کی کوشش نہ کر سکے.

سعودی عرب میں اعظم گڑھ کے مقتول تینوں آدمی نم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک، جنازے میں ہزاروں سوگواروں نے کی شرکت!

رپورٹ: حافظ ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ/ریاض(آئی این اے نیوز 22/فروری 2019) اعظم گرھ کے تین آدمیوں کیساتھ گزشتہ دنوں سعودی عرب میں ہوئے قتل کے واقعات نے اعظم گڑھ و طراف کے لوگوں کا دل دہلا دیا تھا، جس کی ابھی تک تفتیش جاری تھی، لاش کی تفتیش کے بعد سفارت ھند نے تینوں مقتولین کی لاش کو کل جمعرت کو سعودی عرب میں موجود اہل خانہ کے حوالے کر دیا،  جس کے بعد آج بعد نماز جمعہ تدفین کا وقت متعین کیا گیا تھا، جنازے کا اعلان سنتے ہی سعودی عرب کے شہر ریاض سمیت قرب و جوار سے ہزاروں کی تعداد میں افراد جنازے میں شرکت کرنے پہنچے، تینوں مرحومین کا جنازہ ریاض شہر کی "جامع مسجد الراجحی" میں ادا کیا گیا، بعدہ قبرستان "النسیم" میں تدفین عمل میں آئی.
واضح ہو کہ گزشتہ 10 جنوری کو دو سگے بھائی سمیت تین آدمی (شفقت ولد شمس الضحیٰ، شمیم ولد شمس الضحیٰ رہائشی زمین  رسولپور اعظم گڑھ، فیاض احمد ولد مسعود مرحوم باسوپار اعظم گڑھ) کے گمشدہ ہونے کی رپورٹ سعودی عرب کے ریاض شہر میں درج کی گئی تھی، جس کو سعودی پولیس ڈھونڈھنے میں مصروف تھی، پانچ دن بعد یعنی 15/ جنوری کو پولیس نے تینوں آدمیوں کی لاش القصیم روڈ پر واقع صحراء سے برآمد کیا تھا، اس معاملے میں پولیس نے تین آدمیوں کو ملزم ہونے کا خلاصہ کیا تھا جس میں دو سعودی شہری اور ایک اماراتی (دبئی) شامل ہیں، فی الحال پولیس کی حراست میں دو سعودی شہری ہیں.
سعودی عرب میں موجود ان کے بھائی "سلو بھائی" سے نمائندہ نے ملاقات کر تعزیت مسنونہ پیش کیا، اور مجرمین کے بارے میں گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ مجرمین کے سلسلے میں ابھی پولیس نے کوئی رپورٹ نہیں دی ہے، انہوں نے کہا کہ پولیس اور سفارت ھند نے بھروسہ دلایا کہ تفتیش جاری ہے ان شاء اللہ جلد ہی رپورٹ جاری کر دی جائے گی.
اس موقع پر خاص طور سے ڈاکٹر انعام اللہ فلاحی، عامر اعظمی، ڈاکٹر سرفراز، انتخاب فلاحی، عبدالقدوس فلاحی، نیاز خان، سیفی اعظمی، نفیس علیگ، حافظ ثاقب اعظمی، محمد ساجد، سلمان، عمر، انظر فلاحی سمیت کافی تعداد میں سوگوار موجود رہے.

محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ: بحیثیت فقیہ

محمد سالم سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ’’محدث کبیر‘‘؛ بل کہ اپنے زمانہ کے ’’محدث اعظم‘‘ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ کی ذات کسی تعارف وتبصرہ کی محتاج نہیں، آپ نے اس دنیائے فانی میں طویل عمر پائی، نو(9)دہائی سے زیادہ زندہ رہے، لیکن اس زندگی کو تعلیم وتربیت اور علمی ودینی کاموں میں ایسا مشغول رکھا کہ ان کارناموں کو دیکھتے ہوئے آپ کی عمر بہت کم معلوم ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ خالق کائنات نے آپ کو جن اعلی وارفع صفات وخصوصیات سے نوازا تھا اس کی نظیر دورِ حاضر میں ملنی نا ممکن معلوم ہوتی ہے، آپ نے طویل عمر سے خوب فائدہ اٹھایا اور اس زندگی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو تنہا ایک فرد سے نا ممکن الوقوع معلوم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے آپ کی ذات ’’من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘ [رواہ الترمذي] کی مصداق تھی، آپ نے فن حدیث میں جو زریں وروشن خدمات انجام دی ہیں ان سے کوئی بھی محدث وفقیہ بے نیاز نہیں رہ سکتا ہے اور فن حدیث میں آپ کی جو تابناک وروشن خدمات ہیں وہ نصف دوپہر کے سورج کی طرح ظاہر وباہر ہیں۔ ذیل میں ہم آپ کی زندگی کے ایک دوسرے پہلو پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں جو آپ کی زندگی کا دوسرا نمایاں وجلی چہرہ ہے،
جس کو ہم ’’فقیہانہ شان‘‘ کا نام دے سکتے ہیں، اس تحریر میں اگرچہ ہم نے اس حوالہ سے حق ادا نہیں کیا ہے، لیکن کوشش کی ہے کہ اختصار کے ساتھ اس پہلو سے کچھ باتیں قارئین کے سامنے آجائیں۔
 حضرت محدث اعظمیؒ جیسے اپنے زمانہ کے فن حدیث کے امام تھے ویسے ہی آپ فقہ وفتاوی کے بھی امام وپیشوا تھے، اسی لیے اس وقت کے علماء راسخین آپ پر کلی اعتماد کرتے تھے، آپ کی ذات کو اہم ومہتم بالشان مسائل میں مرجع سمجھا جاتا تھا، بل کہ اس وقت کے اکابر اہم مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرنے کو ضروری سمجھتے تھے، جیسا کہ اس امر کا اظہار اپنے مواقع پر اکابر علمائے دیوبندؒ نے فرمایا ہے، اور آپ کی ’’فقیہانہ شان‘‘ تو کتابوں ومقالات ومضامین سے بالکل عیاں وظاہر ہے، آپ نے فقہ میں جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا، اور اس کو اس انداز سے ترتیب دیا کہ اس سے بہتر کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔
 ۱۹۴۵ء میں جمعیۃ علمائے ہند کا سالانہ اجلاس سہارن پور میں منعقد ہوا، جس میں دوسرے مسائل کے ساتھ جمعیۃ کے ماتحت ’’امارت شرعیہ‘‘ کے قیام کا مسئلہ بھی پیش ہوا، اس پر اجلاس میں غور وخوض ہوا، اور مجلس عاملہ کا ایک مسئلہ پر اتفاق بھی ہوگیا تھالیکن دوسرے علماء کے اختلاف کی وجہ سے اس کا فیصلہ نہ ہوسکا تو مولانا حسین احمد مدنیؒ نے جو اس مجلس کی صدارت فرمارہے تھے اس کا حل یہ نکالا کہ مجلس کے اس اتفاق کو منسوخ کردیا اور کسی بھی مسئلہ میں فیصلہ کرنے سے پہلے ’’استصواب‘‘ کے لیے محدث اعظمیؒ کا نام پیش کیا، جس کو حاضرین نے باتفاق رائے منظور کیا، اس سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ محدث اعظمیؒ کی شخصیت کتنی اعلی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا اسیر ادروی صاحب لکھتے ہیں: ’’صدر نے اپنے اختیارات خصوصی سے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر آئندہ کے لیے ملتوی کرنے کا حکم دیا اور یہ تجویز منظور کرائی کہ جمعیۃ علماء کی ورکنگ کمیٹی کے سامنے جب بھی کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہو تو محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی سے استصواب کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ تجویز پوری مجلس عاملہ نے متفقہ طور پر منظور کی، جب کہ مولانا اعظمی اس اجلاس میں موجود بھی نہیں تھے۔ یہ مولانا اعظمی کی فقہی بصیرت پر کلی اعتماد اور ان کے فضل وکمال کا اعتراف کئی درجن عظیم المرتبت علماء ومشائخ کی مجلس میں کیا جارہا ہے اور کسی کو مجالِ اختلاف نہیں تھا‘‘۔ (بحوالہ حیات ابو المآثر:۱۹۸)
 اس کے علاوہ دار العلوم دیوبند سے آپ کو باقاعدہ منصب افتاء کی صدارت کی پیش کش بھی ہوئی تھی، جس کو شوری نے طے کیا تھا، اس کے لیے مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا قاری محمد طیبؒ کو مئو بھی بھیجا گیا تاکہ وہ آپ کو کسی طرح آمادہ کرکے دار العلوم لائیں، ان کے پیہم اصرار کے بعد مولانا نے پیش کش تو قبول فرمالی تھی، لیکن مدرسہ مفتاح العلوم کے ذمہ داروں کی وجہ سے وہاں سے علاحدہ ہوکر دیوبند نہ جاسکے۔ اس سے بھی اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ پر اکابر علماء دیوبند کا کتنا اعتماد تھا، اور وہ کس طرح آپ بھروسہ کرتے تھے۔
 جہاں تک آپ کی فقہی تصنیفات وتالیفات ہیں تو وہ بذات خود آپ کی ’’فقیہانہ شان‘‘کی دو ٹوک لفظوں میں گواہی دیتی ہیں، اس ضمن میں کچھ تو ایسی تحریریں ہیں جو دفاع حنفیت اور فرق باطلہ کے تعاقب میں لکھی گئی ہیں اور آپ نے ان میں فقیہانہ شان سے قلم کو حرکت دی ہے اور حق ادا کردیا ہے، جب کہ آپ نے بعض تحریریں خالص فقہی نقطۂ نظر سے لکھی ہیں، ان کتابوں کو پڑھنے سے اس اقرار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو فقہ وفتاوی میں جو خصوصی تعمق عطا فرمایا تھا، اس کی زمانۂ حال میں کوئی مثال نہیں ملتی، بہت سے ایسے فقہی مسائل جن میں اہل علم وافتاء کی آراء میں اختلاف پایا جاتا تھا آپ نے ان کو اپنے قلم گہر بار سے حل فرمایا اور قرآن وحدیث، نیز عبارات فقہاء کی روشنی میں ان کا شاندار حل پیش کیا، ایسی تحریروں میں بطور خاص ’’مسئلۂ رویت ہلال‘‘، ’’زراعت وجاگیری‘‘، ’’انساب وکفاء ت کی شرعی حیثیت‘‘، ’’اسلامی پرسنل لا میں باب کفو‘‘، ’’تحقیق دعوت نکاح‘‘، ’’بیمہ اور اس کی شرعی حیثیت‘‘ اور ’’دار الاسلام اور دار الحرب‘‘ شامل ہیں، ان کتابوں میں آپ نے خوب دادِ تحقیق دی ہے اور نہایت ہی اہتمام سے اور دلائل وبراہین کی روشنی میں اختلافی مسائل میں محاکمہ فرمایا ہے اور اپنی رائے دی ہے، اور اگر کسی باب میں غلط فہمیاں پائی گئی ہیں تو ان کو بھی ثبوت وشواہد کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔اگر کوئی اس کو کما حقہ جاننا چاہے تو آپ کی تحریروں کی طرف رجوع کرے اور بنظر غائر ان کا مطالعہ کرے۔
 یہ چند سطریں ہیں جن سے محدث اعظمیؒ کی شان فقاہت کی ہلکی سی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ذات ان چند الفاظ وتعبیرات سے کہیں زیادہ اعلی وارفع ہے، آپ کی ذات کو اس حوالہ سے اُسی وقت مکمل طریقہ سے جانا جاسکتا ہے جب آپ کی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوؤں پر نظر ہو اور آپ کی جملہ تحریروں کا بغور مطالعہ کیا گیا ہو۔
 خدائے بزرگ وبرتر سے دعا ہے کہ وہ محدث اعظمیؒ کے درجات کو بلند فرمائے، ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے اور ہم سب کو ان کے باقیات سے مستفید ہونے کی توفیق سے نوازے۔ (آمین)