اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ: بحیثیت فقیہ

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 22 February 2019

محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ: بحیثیت فقیہ

محمد سالم سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ’’محدث کبیر‘‘؛ بل کہ اپنے زمانہ کے ’’محدث اعظم‘‘ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی نور اللہ مرقدہ کی ذات کسی تعارف وتبصرہ کی محتاج نہیں، آپ نے اس دنیائے فانی میں طویل عمر پائی، نو(9)دہائی سے زیادہ زندہ رہے، لیکن اس زندگی کو تعلیم وتربیت اور علمی ودینی کاموں میں ایسا مشغول رکھا کہ ان کارناموں کو دیکھتے ہوئے آپ کی عمر بہت کم معلوم ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ خالق کائنات نے آپ کو جن اعلی وارفع صفات وخصوصیات سے نوازا تھا اس کی نظیر دورِ حاضر میں ملنی نا ممکن معلوم ہوتی ہے، آپ نے طویل عمر سے خوب فائدہ اٹھایا اور اس زندگی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو تنہا ایک فرد سے نا ممکن الوقوع معلوم ہوتے ہیں، اس اعتبار سے آپ کی ذات ’’من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘ [رواہ الترمذي] کی مصداق تھی، آپ نے فن حدیث میں جو زریں وروشن خدمات انجام دی ہیں ان سے کوئی بھی محدث وفقیہ بے نیاز نہیں رہ سکتا ہے اور فن حدیث میں آپ کی جو تابناک وروشن خدمات ہیں وہ نصف دوپہر کے سورج کی طرح ظاہر وباہر ہیں۔ ذیل میں ہم آپ کی زندگی کے ایک دوسرے پہلو پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں جو آپ کی زندگی کا دوسرا نمایاں وجلی چہرہ ہے،
جس کو ہم ’’فقیہانہ شان‘‘ کا نام دے سکتے ہیں، اس تحریر میں اگرچہ ہم نے اس حوالہ سے حق ادا نہیں کیا ہے، لیکن کوشش کی ہے کہ اختصار کے ساتھ اس پہلو سے کچھ باتیں قارئین کے سامنے آجائیں۔
 حضرت محدث اعظمیؒ جیسے اپنے زمانہ کے فن حدیث کے امام تھے ویسے ہی آپ فقہ وفتاوی کے بھی امام وپیشوا تھے، اسی لیے اس وقت کے علماء راسخین آپ پر کلی اعتماد کرتے تھے، آپ کی ذات کو اہم ومہتم بالشان مسائل میں مرجع سمجھا جاتا تھا، بل کہ اس وقت کے اکابر اہم مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرنے کو ضروری سمجھتے تھے، جیسا کہ اس امر کا اظہار اپنے مواقع پر اکابر علمائے دیوبندؒ نے فرمایا ہے، اور آپ کی ’’فقیہانہ شان‘‘ تو کتابوں ومقالات ومضامین سے بالکل عیاں وظاہر ہے، آپ نے فقہ میں جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کردیا، اور اس کو اس انداز سے ترتیب دیا کہ اس سے بہتر کی امید نہیں کی جاسکتی تھی۔
 ۱۹۴۵ء میں جمعیۃ علمائے ہند کا سالانہ اجلاس سہارن پور میں منعقد ہوا، جس میں دوسرے مسائل کے ساتھ جمعیۃ کے ماتحت ’’امارت شرعیہ‘‘ کے قیام کا مسئلہ بھی پیش ہوا، اس پر اجلاس میں غور وخوض ہوا، اور مجلس عاملہ کا ایک مسئلہ پر اتفاق بھی ہوگیا تھالیکن دوسرے علماء کے اختلاف کی وجہ سے اس کا فیصلہ نہ ہوسکا تو مولانا حسین احمد مدنیؒ نے جو اس مجلس کی صدارت فرمارہے تھے اس کا حل یہ نکالا کہ مجلس کے اس اتفاق کو منسوخ کردیا اور کسی بھی مسئلہ میں فیصلہ کرنے سے پہلے ’’استصواب‘‘ کے لیے محدث اعظمیؒ کا نام پیش کیا، جس کو حاضرین نے باتفاق رائے منظور کیا، اس سے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ محدث اعظمیؒ کی شخصیت کتنی اعلی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا اسیر ادروی صاحب لکھتے ہیں: ’’صدر نے اپنے اختیارات خصوصی سے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دے کر آئندہ کے لیے ملتوی کرنے کا حکم دیا اور یہ تجویز منظور کرائی کہ جمعیۃ علماء کی ورکنگ کمیٹی کے سامنے جب بھی کوئی فقہی مسئلہ درپیش ہو تو محدث جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی سے استصواب کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ تجویز پوری مجلس عاملہ نے متفقہ طور پر منظور کی، جب کہ مولانا اعظمی اس اجلاس میں موجود بھی نہیں تھے۔ یہ مولانا اعظمی کی فقہی بصیرت پر کلی اعتماد اور ان کے فضل وکمال کا اعتراف کئی درجن عظیم المرتبت علماء ومشائخ کی مجلس میں کیا جارہا ہے اور کسی کو مجالِ اختلاف نہیں تھا‘‘۔ (بحوالہ حیات ابو المآثر:۱۹۸)
 اس کے علاوہ دار العلوم دیوبند سے آپ کو باقاعدہ منصب افتاء کی صدارت کی پیش کش بھی ہوئی تھی، جس کو شوری نے طے کیا تھا، اس کے لیے مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا قاری محمد طیبؒ کو مئو بھی بھیجا گیا تاکہ وہ آپ کو کسی طرح آمادہ کرکے دار العلوم لائیں، ان کے پیہم اصرار کے بعد مولانا نے پیش کش تو قبول فرمالی تھی، لیکن مدرسہ مفتاح العلوم کے ذمہ داروں کی وجہ سے وہاں سے علاحدہ ہوکر دیوبند نہ جاسکے۔ اس سے بھی اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ پر اکابر علماء دیوبند کا کتنا اعتماد تھا، اور وہ کس طرح آپ بھروسہ کرتے تھے۔
 جہاں تک آپ کی فقہی تصنیفات وتالیفات ہیں تو وہ بذات خود آپ کی ’’فقیہانہ شان‘‘کی دو ٹوک لفظوں میں گواہی دیتی ہیں، اس ضمن میں کچھ تو ایسی تحریریں ہیں جو دفاع حنفیت اور فرق باطلہ کے تعاقب میں لکھی گئی ہیں اور آپ نے ان میں فقیہانہ شان سے قلم کو حرکت دی ہے اور حق ادا کردیا ہے، جب کہ آپ نے بعض تحریریں خالص فقہی نقطۂ نظر سے لکھی ہیں، ان کتابوں کو پڑھنے سے اس اقرار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو فقہ وفتاوی میں جو خصوصی تعمق عطا فرمایا تھا، اس کی زمانۂ حال میں کوئی مثال نہیں ملتی، بہت سے ایسے فقہی مسائل جن میں اہل علم وافتاء کی آراء میں اختلاف پایا جاتا تھا آپ نے ان کو اپنے قلم گہر بار سے حل فرمایا اور قرآن وحدیث، نیز عبارات فقہاء کی روشنی میں ان کا شاندار حل پیش کیا، ایسی تحریروں میں بطور خاص ’’مسئلۂ رویت ہلال‘‘، ’’زراعت وجاگیری‘‘، ’’انساب وکفاء ت کی شرعی حیثیت‘‘، ’’اسلامی پرسنل لا میں باب کفو‘‘، ’’تحقیق دعوت نکاح‘‘، ’’بیمہ اور اس کی شرعی حیثیت‘‘ اور ’’دار الاسلام اور دار الحرب‘‘ شامل ہیں، ان کتابوں میں آپ نے خوب دادِ تحقیق دی ہے اور نہایت ہی اہتمام سے اور دلائل وبراہین کی روشنی میں اختلافی مسائل میں محاکمہ فرمایا ہے اور اپنی رائے دی ہے، اور اگر کسی باب میں غلط فہمیاں پائی گئی ہیں تو ان کو بھی ثبوت وشواہد کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کی ہے۔اگر کوئی اس کو کما حقہ جاننا چاہے تو آپ کی تحریروں کی طرف رجوع کرے اور بنظر غائر ان کا مطالعہ کرے۔
 یہ چند سطریں ہیں جن سے محدث اعظمیؒ کی شان فقاہت کی ہلکی سی جھلک محسوس کی جاسکتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ذات ان چند الفاظ وتعبیرات سے کہیں زیادہ اعلی وارفع ہے، آپ کی ذات کو اس حوالہ سے اُسی وقت مکمل طریقہ سے جانا جاسکتا ہے جب آپ کی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوؤں پر نظر ہو اور آپ کی جملہ تحریروں کا بغور مطالعہ کیا گیا ہو۔
 خدائے بزرگ وبرتر سے دعا ہے کہ وہ محدث اعظمیؒ کے درجات کو بلند فرمائے، ان کی لغزشوں سے در گزر فرمائے اور ہم سب کو ان کے باقیات سے مستفید ہونے کی توفیق سے نوازے۔ (آمین)