اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: January 2018

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 31 January 2018

حسن اخلاق کی اہمیت و فضیلت!

تحریر: شمس الہدی قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــ
حسن اخلاق کی قرآن و حدیث میں بڑی اہمیت و فضیلت وارد ہوئی ہے۔ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ بروز قیامت ترازو میں سب سے زیادہ وزنی بہتر اخلاق ہوگا۔ اچھے اخلاق کے حاملین کے لئے بشارت بھی ہے۔ اچھا اخلاق ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے انسان لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرسکتاہے۔ آپ ﷺ نے پورے دین کی خدمت اپنے اسی اخلاق کریمانہ سے کی ہے۔ آپﷺ پرظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، پتھر مار کرسر سے پاؤ ں تک لہو لہان کردیاگیا ، گلے میں رسی ڈال مارنے کی کوشش کی گئی لیکن آپ ﷺ نے اخلاق فاضلہ کا دامن نہیں چھوڑا۔
 آپ ﷺ جس طرح امام الانبیاء و امام الرسل تھے، اسی طرح آپ ﷺ اخلاق وکردار کے سب سے افضل اور بلند معیار پر فائز تھے۔ آپ نے اپنے اخلاق کریمانہ کے ذریعہ پوری دنیا کو فتح کیا۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے بتایاکہ نبی کریم ﷺ کا اخلاق قرآن تھا۔ خادم رسول انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے بنی کریم ﷺ کی10برسوں تک خدمت کی آپ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا، اور نہ میرے کسی کام کے بارے میں کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہیں کیا اس کے بارے میں کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے یہ کیوں نہیں کیا؟ عبداللہ بن عمروبن عاصؓکا بیان ہے کہ آپ نہ تو فحش گوئی کرنے والے تھے اور نہ فحش گوئی کو پسند کرتے تھے۔آپ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ شریفانہ اخلاق سے پیش آتے تھے اور نہایت بلند مقام ومرتبہ کے باوجود تواضع اور بردباری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب کسی سے ملتے تو خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے ملتے، بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت فرماتے، یتیموں اور غریبوں کے ساتھ مل کر بیٹھتے، گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے اور لوگوں کے ساتھ رحم دلی اور جود وسخا کا معاملہ فرماتے تھے۔

مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر میں دو بسوں کا اضافہ، دعاء کیساتھ ہوا افتتاح!

رپورٹ: ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31/جنوری 2018) مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کی علاقائی مقبولیت ومحبوبیت کی وجہ سے طلبہ کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ کے پیش نظر حضرت اقدس مولانا ومفتی شاہ محمد عبداللہ صاحب پھولپوری نوراللہ مرقدہ کی زندگی میں شعبہ پرائمری کے لئے گاڑیوں کے اضافہ کی درخواست کی تھی، چنانچہ حضرت نے طلبہ کی تعداد بڑھتی دیکھتے ہوئے ایک اور عمارت کو مختص کردیا تھا، لیکن گاڑی کے اضافہ سے قبل حضرت کی اچانک روح پرواز کرگئی، جس کی تکمیل حضرت اقدس مولانا ومفتی شاہ محمد احمداللہ صاحب پھولپوری دامت برکاتہم العالیہ ناظم اعلیٰ و شیخ الحدیث مدرسہ ھذا نے نئی دو بسوں کا اضافہ کرکے حضرت نوراللہ مرقدہ کی دلی خواہش کی تکمیل کردی۔
ان نئی بسوں کا افتتاح حضرت اقدس مولانا ومفتی شاہ محمد اجوداللہ صاحب پھولپوری ومولانا جمال انور صاحب قاسمی نائب ناظم مدرسہ ہٰذا کے بدست ہوا، اور ناظم اعلیٰ صاحب نے خیر و برکت کی دعا کی، جس میں مولانا نسیم احمد صاحب ناظم تعلیمات مدرسہ ہٰذا، مولانا نبی حسن صاحب صدر شعبہ پرائمری، مولانا فیضان احمد صاحب نائب صدر شعبہ حفظ، مفتی محمد کاشف صاحب اعظمی اور دیگر ذمہ داران مدرسہ شریک رہے، جس کی وجہ سے عوام میں خوشی کا ماحول ہے۔واضح ہو کہ اس سے قبل مدرسہ ہٰذا کی آٹھ بسیں مختلف رخ پر جارہی تھیں، پھولپور، ٹیونگا، دھنی پور، گہنی، مرزاپور، سنجرپور، کھنڈواری، کھٹہنہ، کجیاری، پھریہا، سرھی، چکیا، مغلن سکرور، بکھرا وغیرہ، اور نئی بسوں کا رخ جلد ہی طے کرکے اطلاع دی جائے گی۔
بقول حضرت نوراللہ مرقدہ اچھے پرائمری اسکول بچوں کو صحیح رخ دیتے ہیں اور تعلیم کی بنیاد پر بچوں کے اندر قائدانہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے، ہم اپنے بچوں کے لئے اچھے اسکول اور اساتذہ منتخب کرنے میں ہرگز کوتاہی نہ کریں، نیز فرماتے تھے کہ انگریزی اسکولوں اور کانونٹوں کی مخالفت نہ کرکے بلکہ بہتر بدل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔اچھی تعلیم وتربیت، خوراک وپوشاک سے بھی اہم ہے، اکثر و بیشتر دیہاتوں میں مکاتب پر عدم توجہی اور اختلافات کی وجہ سے تعلیم موقوف ہے، ان نزاکتوں کے پیش نظر شعبہ پرائمری کو مزید ترقی دی گئی، یہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کا بھی نظم ہے، یہاں کی تعلیم وتربیت سے علاقہ کے لوگ کافی متاثر ہیں، الحمدللہ شعبہ ہذا میں اساتذہ و ملازمین کی تعداد ٦٢ اور ١٣٠٠ سے زائد طلباء زیرتعلیم ہیں ۔شعبہ ہذاکی ترقی حضرت مولانا ومفتی محمد اجوداللہ صاحب پھولپوری نائب ناظم مدرسہ ہٰذا اور صدر شعبہ پرائمری مولانا نبی حسن صاحب کی مشترکہ کاوش و محنت کا نتیجہ ہے.
اللہ باغ پھولپوری کو نظر بد سے بچائے اور ترقی کی راہ پر گامزن فرمائے۔آمیـــن

امیٹھی کے جگدیش پور میں دو فریق کے درمیان چلی گولیاں، ایک کی موت، کئی زخمی!

رپورٹ: عالم شیخ
ــــــــــــــــــــــــــ
جگدیش پور/امیٹھی(آئی این اے نیوز 31/جنوری 2018) امیٹھی کے جگدیش پور علاقہ میں دو فریق کے درمیان گولی چلنے سے ایک شخص کی موت ہوگئی ہے، ساتھ ہی کئی افراد زخمی بھی ہوگئے، جس کے چلتے اس علاقہ میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے تاکہ کشیدگی نہ بڑھے، اور حالات قابو میں رہیں، قصبہ بازار کی طرف سے جانے والی سبھی گاڑیوں کے راستے بھی تبدیل کر دیئے گئے، دو کمیونٹی کے درمیان فائرنگ کے نتیجے میں دہشت سے تاجروں نے اپنی دکانوں کو بند کر دیا. پولیس کپتان نے فوری طور پر تھانہ سربراہ جے پی پانڈے کو لائن حاضر کیا، پولیس صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے فلیگ مارچ کر رہی ہے.
خبر لکھے جانے تک دونوں فریق کے درمیان کس معاملہ کو لیکر تنازع ہوا تھا واضح نا ہوسکا.

جمعیة علماء کے قومی سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی اور ریاستی صدر مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کا دوره کاسگنج!

کاسگنج کا فساد منظم سازش کا نتیجہ، انتظامیہ نے شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دی اور مظلوموں کی حفاظت کرنے کی بجائے فسادیوں کا تعاؤن کرتی رہی، مسلمانوں کی املاک کو زبردست نقصان، مرنے والے کے ساتھ اظہار ہمدردی اور تحقیق کے ذریعے اصل قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ، بے قصور گرفتار شدگان کو رہا کرنے اور متاثرین کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ، متأثرین کی مالی و قانونی مدد کیلئے جمعیت ریلیف کمیٹی قائم!
ـــــــــــــــــــــــ
کاسگنج(آئی این اے نیوز 31/جنوری 2018) 26 جنوری کے موقع پر کچھ شر پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کے قومی پرچم کشائی پروگرام میں دخل اندازی کرنے اور ترنگا کی بجائے بھگوا جھنڈا پھہرانے کی ضد کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی کشیدگی کے بعد شہر میں گرما گرمی کا ماحول بنا ہوا ہے، متعدد لوگوں کے مکانات اور دوکانیں نذرآتش کی جاچکی ہیں، مسجد تک میں آگ لگانے کی کوشش کی گئی ہے، اب بھی آئے روز فرقہ پرستوں کی جانب سے نعرہ بازی اور آگ زنی کی کوششیں جاری ہیں، پورے شہر میں پولیس کا ذبردست پہرہ موجود ہے، اسی حساس اور کشیدہ ماحول کے درمیان ملت اسلامیہ کی ہرنازک موڑ پر رہنمائی کرنے والی مسلمانان ہند کی سب سے قدیم متحرک اور فعال تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے ریاستی صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی اور جمعیۃ کے کل ہند سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے جمعیۃ علماء فرخ آباد کے صدر مفتی ظفر احمد قاسمی سمیت ایک وفد کے ہمراہ فساد زدہ علاقے کا دورہ کیا اور شہر کے علماء و دانشوران کے ساتھ میٹنگ کی۔وفد نے سابق چیئرمین چودھری نورالحسن، حاجی نواب حسن، مولانا محمود حسن، سمیت کئی ذمہ داران سے ملاقات کر کے حالات کی صحیح صورتحال کا جائزہ لینے کی کوشش کی، لوگوں نے بتایا کہ مقامی انتظامیہ اعلی افسران سمیت پوری طرح ایم ایل اے اور ایم پی کے زیر اثر رہتے ہوئے کھلے عام فسادیوں کی حفاظت اور تعاؤن کرتے رہے، چالیس فی صد سے زائد مسلم آبادی والے شہر کاسگنج میں ان دنوں یوپی کے سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ کے بیٹے راج بیر سنگھ ممبر آف پارلیمنٹ ہیں، شرپسندوں نے مین مارکیٹ میں اہم مسلم تاجروں کی دوکانوں کو خاص نشانہ بنایا اسی کے ساتھ تاجر افراد ہی کے نام اقدام قتل کی نامزد ایف آئی آر بھی درج کرائی ہے۔
مولانا متین الحق اسامہ اور مولانا حکیم الدین قاسمی نے اخباری نمائندے سے بات کرتے ہوئے مشترکہ طور پر اس انتشار کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور جن لوگوں کا بھی جانی و مالی نقصان ہوا، بلاتفریق مذہب اس پر افسوس کا اظہار کیا۔
مولانا اسامہ نے کہا کہ جو حالات ہوئے وہ بہت افسوسناک ہیں، خاص طور پہ 26 جنوری کے دن جب پورا ملک 69 ویں یوم جمہوریہ کا جشن منارہا تھا اور متاثرہ علاقے کے مسلمان بھی جشن منانے اور اپنے ملک کی پرچم کشائی کیلئے جمع ہوئے تھے، ABVP اور بجرنگ دل کے شرپسندوں نے ترنگا کشائی کی تقریب میں دخل اندازی کی، ترنگے کو ہٹاکر بھگوا جھنڈا لگانے کی بات کہی اور منافرت انگیز نعرے لگائے جس سے پورا علاقہ کشیدگی کا شکار ہوگیا، اس کشیدگی کے نتیجہ میں جہاں ایک بچہ کی موت ہوئی اور ایک شخص کی ایک آنکھ کی بینائی چلی گئی وہیں نہ جانے کتنے لوگوں کے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچا، نہ جانے کتنوں کی دوکان اور مکان کو آگ لگادی گئی، بہت سے اور لوگ زخمی ہوئے۔
مولانا نے بتلایا کہ جمعیۃ علماء ہند کے قومی جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی صاحب کی ہدایت پر جمعیۃ کی جانب سے ایک ریلیف کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے ذریعہ وہ فساد متأثرین جن کے دوکان و مکان کو نقصان پہنچا اور جن کا ذریعہ معاش ختم ہوگیا، ان کی ہرممکن مدد کرکے ان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی اور پولیس کی یکطرفہ کارروائی میں جو بےقصور گرفتار کئے گئے ہیں، لیگل سیل قائم کرکے ٹاپ کے وکلاء کی خدمات حاصل کرکے ان بےقصوروں کی ہر طرح کی قانونی مدد کی جائے گی۔
اسی کے ساتھ مولانا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جن لوگوں کا بھی جس قسم کا نقصان ہوا ہے اس کا بھرپور معاوضہ دیا جائے، بےقصوروں کی گرفتاریاں بند کی جائیں اور جو حقیقی قصوروار ہیں، جنہوں نے اچھے بھلے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی، ملک کے ترنگے کو ہٹاکر بھگوا جھنڈا لگانے کی ضد کی جس کے نتیجے میں حالات کشیدہ ہوگئے اور اب بھی لوگ جگہ جگہ آگ زنی کررہے ہیں ان کو گرفتار کیا جائے اور سخت سے سخت کارروائی کی جائے، ساتھ ہی مولانا نے مطالبہ کیا فساد کے اصل اسباب کی تحقیق اور مقتول چندن کے حقیقی قاتل کی شناخت کیلئے جوڈیشیل انکوائری بیٹھائی جائے اور جو قاتل ہو اس کو گرفتار کرکے اس پر کڑی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔
مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند کاسگنج پہنچتے ہی سبھی متأثرہ علاقوں خصوصا ویر عبدالحمید چوک کا جائزہ لیا، شہر کے مختلف ذمہ داران سے ملاقات کی، جو لوگ اس حادثہ کا شکار ہوئے ان کو تسلی دی اور جمعیۃ کی جانب سے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، مولانا نے بتلایا کہ لوگ کافی ڈرے سہمے ہوئے ہیں، ان کی دادرسی، مدد اور ماحول کو پرامن بنانے کی سخت ضرورت ہے اور ہم لوگ آج اسی لئے یہاں آئے ہیں۔
مولانا اسامہ و مولانا حکیم  الدین نے مشترکہ پور کاسگنج شہر کے تمام نوجوانوں خصوصا مسلمانوں سے اپیل کی کہ نہ مایوس ہوں اور نہ ہی مشتعل ہوں، ہر قسم کے لڑائی جھگڑے سے دور رہیں اور قانون اپنے ہاتھ میں قطعی نہ لیں، ان حضرات نے واضح طور پر کہا کہ یہ ہندو مسلم لڑائی نہیں ہے، مٹھی بھر شر پسندوں نے اتنے اہم دن میں ماحول خراب کیا، شرپسندانہ نعرے لگائے، یہ لوگ صرف شہر ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں آگ لگانے کی کوشش کررہے ہیں، انہوں نے بلاتفریق مذہب سبھی لوگوں سے اپیل کی کہ چند شرپسندوں کی وجہ سے آپسی بھائی چارہ کو نقصان نہ پہنچائیں، لوگ افواہ پھیلاکر ماحول خراب کرنا چاہ رہے ہیں، ان سے ہوشیار رہیں، جھوٹی افواہوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
ان حضرات نے حکومت اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ ناانصافی سے بچیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں، یکطرفہ کرروائی سے گریز کریں اور حقیقی مجرموں کو گرفتار کرکے سخت سے سخت کرروائی کریں- اب بھی جو لوگ جگہ جگہ آگ زنی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان پر نگاہ رکھ کر شہر کا ماحول کنٹرول کیا جائے۔
جمعیۃ ریلیف کمیٹی میں جن حضرات کو شامل کیا گیا ان میں شہر کے بزرگ عالم اور مدرسہ روضۃ العلوم کے صدر مدرس مولانا انعام احمد قاسمی، جمعیۃ علماء ضلع فرخ آباد کے صدر مفتی ظفر احمد قاسمی، مولانا محمد خبیب قاسمی کاسگنج، حافظ اکرام احمد کاسگنج، جناب اقتدار احمد بدایوں، حکیم سید مصبر حسن کاسگنج اور جناب اکرم علی کاسگنج شامل ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے وفد میں جمعیۃ علماء وسطی یوپی کے نائب صدر مولانا نورالدین احمد قاسمی، جمعیۃ علماء ضلع فرخ آباد کے صدر مولانا مفتی ظفر احمد قاسمی، جمعیۃ علماء ہند کے آرگنائزر مولانا شفیق احمد قاسمی، جمعیۃ علماء یوپی کے سکریٹری قاری عبدالمعید چودھری، جمعیۃ علماء شہر کانپور کے رکن منتظمہ مفتی اظہار مکرم قاسمی اور مولانا امین الحق عبداللہ شامل تھے، واپسی پر مولانا حکیم الدین قاسمی نے علی گڈھ کے میڈیکل اسپتال میں پہنچ کر دونوں زخمیوں اکرم اور نوشاد کی مزاج پرسی کرتے ہوئے دعا صحت کیا اس موقع پر علی گڑھ جمعیۃ کے صدر جناب محمد احمد شیون وغیرہ بھی شامل رہے۔

Tuesday 30 January 2018

موجودہ حکومت اور سرکاری میڈیا کی گندی پالیسیوں کو کون سمجھے، پڑھیئے شہباز رشادی کی فیسبک وال سے لی گئی ایک پوسٹ!

رپورٹ: ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
شہباز رشادی
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/جنوری 2018) موجودہ حکومت اور سرکاری میڈیا کی گندی پالیسیوں کو کون سمجھے کہ آخر کس طرح سے عوام کی ضروریات اور ترقیات سے ہٹا کر مذہب کے مسائل کی طرف دھکیل رہی ہے.
 اب معاملہ خود ہی دیکھیں:
حج ہاؤس پر بھگوا رنگ لگانا، سپریم کورٹ کے 4 ججوں کا بیان "جمہوریت خطرے میں ہے"،  پھر اس کے بعد شمبھو ناتھ سے اپنے بہن کا جسمانی تعلقات ہونا، اس کے بعد حج سبسڈی، پروین توگڑیا کو انكاؤنٹر والا بیان، اس کے بعد پدماوتی کے لئے فساد، پھر اپدیش رانا کی لائیو سوسائڈ کا ڈھونگ اور اب كاسگنج فسادات جیسے معاملات میں ہی ملک کے عوام الجھی ہوئی.
عوام پٹرول، ڈیزل مہنگائی، بےروزگاری، کام، اپنی خود کی ضرورتوں کو بھول کر مذہبی لڑائی میں ملوث ہے.
جس طرح انگریزوں  نے ہمارے ملک پر راج کے لئے فوٹ ڈالو راز کرو کہ پالیسی اپنائی تھی، ٹھیک اسی طرح سے بی جے پی حکومت بھی مذہب کے نام پر آپس میں لڑا کر راز کر رہی ہے.
مذکورہ سب باتیں راشٹریہ علماء کونسل کے یوا نیتا شہباز رشادی نے اپنے فیسبک وال پر پوسٹ کر عوام کو بیدار کرنے کا کام کیا ہے.

اعظم گڑھ: خاتون ٹیچر کی پرنسپل اور بیٹے نے کی پٹائی، اسپتال میں داخل!

رپورٹ: سلمان اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
ٹھیکما/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/جنوری 2018) اعظم گڑھ کے ٹھیکما بلاک کے نروے گاؤں کی خاتون ٹیچر کی اسی کے پرنسپل اور بیٹے نے پٹائی کر دی، اور جب عورت نے مخالفت کی کہ پرنسپل کے بیٹے نے کنپٹی پر ریوالور رکھ دیا.
اطلاع ملنے پر JYSS کی ٹیم ضلع ہسپتال پہنچی اور متاثرہ خاتون سے پوری معلومات لی، اور خاتون کی ہر ممکن مدد کی، اور سخت کارروائی کی یقین دہانی  کی، وہیں عورت نے بھی یہ کہا ہے کہ جب تک مجرموں کو سزا نہیں دی جائے گی ہم چپ نہیں بیٹھیں گے.
  مزید خاتون نے یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنے JYSS کی ٹیم کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ جائیں گے.

Monday 29 January 2018

یوم جمہوریہ اور ہماری ذمہ داری!

ازقلم: نبیل احمد سیدھا سلطان پور
ــــــــــــــــــــــــــ
قارئین کرام!
   گرچہ ہندوستان 15 اگست 1947 کو برطانوی تسلط سے آزاد ہوگیا تھا لیکن 26 جنوری کو ہندوستانی تاریخ میں سب سے زیادہ اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ اس دن ہندوستان کے آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان  ایک خود مختار ملک اور ایک مکمل طور پر رپبلکن یونٹ بن گیا جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا، لاکھوں علماء نے اپنے خون جگر سے اس گلستاں کی آبیاری کی تھی اور ملک آزاد کرانے کیلۓ جد و جہد کی سنگلاخ وادیوں میں آبلہ پائ کی تھی، اور اپنے ملک کی خود مختاری کی خاطر جام شہادت بھی نوش کیا ۔
اور ان کی پیہم جدو جہد سے ملک غلامی کی زنجیر سے آزاد ہوگیا، جیسا کہ اوپر یہ بات آچکی ہے کہ اس دن آئنی نفاذ ہوا چنانچہ آئینی نفاذ کے دن کے طور پر 26 جنوری کو بطور یاد گار منانے کیلئے طے کیا گیا، یہ دن آزاد اور جمہوریہ ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے، لہذا اس دن کو ہمارا ملک ایک جمہوریہ ہونے کے لحاظ سے اسے بطور تقریب مناتا ہے ۔
آج سے 67 سال پہلے اس دن برطانوی ایکٹ کو منسوخ کیا گیا جو 1935 سے نافذ تھا اور اس کی جگہ خود ہندوستانیوں کا بنایا ہوا دستور نافذ ہوا۔
ہندوستان کے آئین کی بنیاد انصاف اور مساوات پر قائم ہے ۔اس کے ابتدائیہ میں کہا گیا ہے کہ اس آئین کی رو سے ہندوستان خود کو آزاد اور جمہوری ملک قرار دیتا ہے ۔ اس کے ذریعہ تمام شہریوں کے لیے معاشی سیاسی اور تعلیمی وغیرہ انصاف کو بروۓ کار لایا جاۓ گا ۔
اظہار خیال کی آزادی، عقیدہ مذہب اور عبادت کی آزادی دی جاۓ گی اور ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو برقرار رکھا جاۓ گا۔
اگر ہمیں ایسا لگ رہا کہ ہم بہت دبے کچلے ہیں تو ہمیں ذرا اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور اگر ہماری ذہن میں یہ بات پیوست ہوگئ کہ ہم پر ظلم کیا جارہا ہے تو ہمیں اپنی کمی کوتاہی پر نظر دوڑانی ہوگی ۔
ہماری یہ حالت ہوگئی ہے اور تعلیم سے اس قدر دوری ہوگئی کہ ہمارا اپنا کوئی وکیل نہیں ہے جو ہماری صحیح طور پر ترجمانی کرے، صحیح  بات یہ ہے کہ ہم تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور اس کی تلافی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ہم لہو و لعب اور دنیاوی زیب زینت کو بالاۓ طاق نہ رکھ دیں۔
 ایسے وقت میں  ہماری یہ ذمہ داری ہےکہ ہم تعلیمی میدان کے خلاء کو پر کریں آج ہم تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں ہم میں جو پڑھنے والے ہیں اکثر وہ غریب خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں  جس کی وجہ سے وہ چاہتے ہوۓ بھی تعلیم نہیں حاصل کر پاتے لہذا انھیں بہتر تعلیم دلانے کی ہماری ذمہ داری ہس اور وہ بچے جو امیر گھرانے کے ہوتے ہیں وہ آورہ گردی اور ہوٹل بازی میں مصروف ہیں انھیں راہ راست پر لانے کیلئے ایک تحریک چلائی جاۓ، اگر ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک کی جمہوریت برقرار رہے اور ملک میں امن و امان بحال رہے تو ہمیں اپنے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دلانا ہوگا دوسرے. یہ کہ باہم اتحاد و اتفاق رکھا جاۓ  اور خاص طور پر غیر مسلم بھائیوں سے تعلقات  کو مضبوط کیا جاۓ اور ان کے ساتھ انصاف، صلہ رحمی اور حسن سلوک روا رکھا جاۓ جیسا کہ قرآن نے حکم دیا ہے۔
             ـــــــــــعـــــــــ
دل سے نکلے گی نہ مرکر بھی وطن کی الفت
میری  مٹی سے بھی خوشبوۓ  وفا آئے گی

جمہوریت کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت: مولانا مشتاق ضمیر احمد نعمانی

رپورٹ: یاسین صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
کاسگنج(آئی این اے نیوز 29/جنوری 2018) مولانا مشتاق ضمیر احمد نعمانی (سکریٹری) آل انڈیا تحریک عوام ہند نے کاسگنج فساد کی پرزور مذمت کی ملک میں عدم  تحفظ اور فرقہ پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحانات جمہوریت کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، فرقہ پرست طاقتیں ہر موقع پر اس بات کا اظہار کرنے میں مصروف ہے یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے کسی اور کو اس پر اپنا حق جتانے کا کوئی حق نہیں اسی سلسلے کی ایک کڑی یوم جمہوریہ کے موقعے پر کاسگنج شہر میں ہے ہونے والا فرقہ وارانہ فساد ہے جس کی تفصیل یہ سامنے آئی ہےکہ ویر عبدالحمید تراہے پر علاقے کے مسلمانوں نے جمعہ کے بعد یوم جمھوریہ سے متعلق ایک پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، پر کرسیاں ڈال دی گئی جس کو فرقہ پرست طاقتوں برداشت نہ کرسکیں اور نوجوان کا ایک جھنڈ بھگوا جھنڈے اورترنگیں  لیے ہوئے وہاں پہنچ گیا اور جلسہ گاہ کو نقصان پہنچایا اور کرسیاں ادھر ادھر پھینک دی، جس پر انکی مسلمانوں سے نوک جھوک ہوئی اور فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھا، مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی گئی ان کے مذہب کو برا بھلا کہا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو زخمی کیا گیا، جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا اور فرقہ پرست لوگ اس بات کا اظہار کرنے میں کامیاب ہوگئے کی ملک صرف ہندوؤں کا ہے مسلمانوں کااسمیں کوئی حصہ نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں سب سے زیادہ خون مسلمانوں نے بہایا ہے، اور اپنے خون سے ملک کو سینچا ہے.
 آل انڈیا تحریک عوام ہند کے سکریٹری مولانا مشتاق ضمیر احمد نے کہاکہ کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو پھانسی کے پھندوں پر چڑھایا گیا، نہ جانے کتنے مسلمانوں کو ہاتھی کے پیروں نیچے روندا گیا، کتنے مسلمانوں کو آگ کی بھٹی میں جھونکا گیا اور بس یہی نہیں انگریز کے خلاف سب سے پہلا جو فتویٰ دیا تھا وہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے دیا تھا، اور آج فرقہ پرست طاقتیں اس ملک سے ہمارا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں یہ ان کی بھول ہے. مولانا مشتاق ضمیر احمد نعمانی  نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے ہمارے آباؤاجداد نے اسے خون سے سینچا ہے ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے اور اس ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیں گے مولانا موصوف نے کہاں ہیں ہم حکومت سے مطالبہ کرتےہیں جمہوریت کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے اگر یہ محفوظ نہ رہا تو ملک کھوکھلا ہو جائے گا اور اس چمن کو بڑا نقصان پہنچے گا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جمہوریت کے تحفظ کے بقا کے لئے ہر ممکن کوشش کرے اس ملک کو كھو کھلا ہونے سے بچائیں اور جوفرقہ پرست لوگ ہیں ان پر سخت کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ فرقہ پرست لوگ ملک کو نقصان نہ پہنچائے اور ہمارا یہ پیارا وطن جس میں صدیوں سے ہندو مسلم سکھ عیسائی بھائی بھائی کی طرح رہتے ہوئے اسی طرح رہتے رہے مولانا موصوف نے کہاں کہ تحریک عوام جلد از جلد وزیر اعلی کو ایک میمورنڈم بھی دے گی.

مبارکپور کے نوجوان نے ممبئی دوڑ میں بنایا نیا ریکارڈ، مبارکبادی کا سلسلہ جاری!

رپورٹ: ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جنوری 2018) مبارکپور قصبہ رہائشی ابوشیبہ انصاری نے امریکہ، کینڈا، ایتھوپیا، تھائی لینڈ، چین سمیت دس ملکوں سے آئے 8 ہزار شرکاء کو پچھاڑتے ہوئے گزشتہ 21 جنوری کو ممبئی میں منعقد انتڑنیشنل ٹاٹا ممبئی میراتھن میں 42.195 کلو میٹر کی دوڑ صرف 4 گھٹا 25 منٹ 36  میں پورا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے اور آئندہ انٹرنیشنل میراتھن جو بنگلور کے لئے کوالیفائی کر ملک، پردیش میں ہی نہیں بل پوری دنیا میں اپنا نام روشن کیا ہے.
اس موقع پر ابو شیبہ انصاری واقعی مبارکباد کے قابل ہیں، جس نے خود محنت و لگن سے یہ مقام حاصل کیا ہے، اس کی خبر پاکر ممبئی میں مقیم علاقائی لوگوں نے مبارکبادی دی ہے.

Sunday 28 January 2018

مدرسہ مصباح العلوم ہرپوروا عالم نگر سیتامڑھی میں جوش وخروش سے منایا گیا 60واں یوم جمہوریہ!

رپورٹ: محمد صدرعالم نعمانی
ـــــــــــــــــــــــــ
سیتامڑھی(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2018) یوم جمہوریہ کے موقع پر مدرسہ مصباح العلوم ہرپوروا عالم نگر باجپٹی سیتامڑھی بہار میں مدرسہ کے مہتمم مولانا محمد صدر عالم نعمانی صدر جمعیۃ علماء سیتامڑھی نے پرچم کشائی کی، اس موقع پر طلبہ و طالبات اور مقامی لوگ کثیر تعداد میں شریک ہوئے، بنام جشن جمہوریت تقریب کا اعنقاد کیا گیا، جس میں طلبہ نے اپنی تقریروں، مکالموں کے ذریعہ نہایت ہی اچھے انداز میں مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس ملک کیلئے مسلمانوں بالخصوص  علماء کرام نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں، تب جاکر یہ ملک آزاد ہوا، آزادی کے تین سال بعد اس ملک کا دستور بنا، اور 26؍جنوری 1950ء کو اس ملک کو دستور کی رو سے جمہوری قرار دیا گیا.
س موقع پر اپنے  مختصرخطاب میں مولانا محمد صدرعالم نعمانی نے کہاکہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے بےشمار قربانیاں پیش کی ہیں، لاکھوں جانوں کو مادر وطن پر نچھاور کیا ہے، تاریخی اوراق مسلمانوں کی قربانیوں سے بھرے پڑے ہیں، آزادی کی تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں کے بغیر نامکمل ہے، انہوں نے کہا اس ملک کی آزادی کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں ہمارے علماء نے دی تھی، اور انہیں کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس ملک کوآزادی نصیب ہوئی، جمہوریت ہماری سب سے بڑی طاقت ہے، اور زمینی سطح پر اس کا نفاز بھی ضروری ہے، تبھی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب برقراررہ سکتی ہے۔
پروگرام میں شرکت کرنے والوں میں محمد بشیر،  محمد نظام الدین، محمد عبید، محمد سرفراز، محمد علی، امام محمد، ضمیر محمد لعل بابو وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کی فضیلت!

تحریر: فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
ــــــــــــــــــــــــ
نبی سے محبت ایمان کا تقاضہ ہے، اس روئے زمین پر بھلا وہ کونسا مسلمان ہوگا جسے نبی سے محبت نہ ہو، نبی سے محبت ایمان کی شرط اولین ہے، شرک و کفر کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کو آقائے نامدار سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن کیا، حب نبی کے اظہار کے بہت سے طرق اور راستہ ہیں، جن کے ذریعہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار ایک مسلمان کرتا ہے، نبی کا سچا عاشق وہی ہے جس کی صرف زبان سے دعوی عشق نبوی ہی نہیں بلکہ عمل سے بھی عشق نبوی کا اظہار ہو، آقا نامدار سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کا کثرت سے نظرانہ پیش کرنا یہ نبی سے کامل محبت کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں جو آقا پر کثرت سے درود بھیجتا ہے اسے قیامت کے دن سب سے زیادہ قریب قرار دیا، یعنی قیامت کے دن نبی کے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہونگے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ درود بھیجتے ہیں، اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے مرقات المفاتیح میں فرمایا کہ نبی پر کثرت سے درود بھیجنا نبی کی تعظیم کی خبر دیتا ہے، اور نبی کی تعظیم کرنا اس بات پر دال ہے کہ وہ نبی کی پیروی کرتا ہے اور نبی کی پیروی نبی کامل محبت کی بناء پر پیدا ہوئی ہے، اور اسی کامل محبت پر ہی اللہ کی محبت مرتب ہوتی ہے، یعنی نبی پر کثرت سے درود بھیجنے والا شخص اللہ کے فرمان قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی کی وجہ سے نبی سے کامل محبت کرتا ہے، اور یہ حب کمال نبوی اللہ کی محبت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، لہٰذا جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے کامل درجہ کی محبت رکھے، وہ شخص قیامت کے دن نبی کے زیادہ قریب ہوگا.
علامہ ابن حبان کا قول ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقات میں نقل کیا ہے کہ محدثین قیامت کے دن نبی سے سب سے زیادہ قریب ہونگے، کیونکہ محدثین ہی نبی پر سب سے زیادہ درود بھیجتے ہیں، قولا اور عملا دونوں طرح درود بھیجتے ہیں.
کتب احادیث میں درود شریف کے بیشمار فضائل وارد ہوئے ہیں، درود شریف کی سب سے بڑی سی بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اللہ کے دربار میں کبھی رد نہیں  ہوتا، تمام اعمال میں تو یہ احتمال رہتا ہے کہ اللہ کے دربار میں قبول ہوا کہ نہیں، لیکن درود شریف ایک ایسا عمل ہے جو ہر حال میں بارگاہ ایزدی میں مقبول ہوتا ہے، نسائی شریف کی روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس مرتبہ درود بھیجتے ہیں، اور اس کے دس گناہوں کو معاف کیا جاتا ہے، اور اس کے دس درجات کو بلند کیا جاتا ہے.
اس حدیث پاک سے درود شریف کی فضیلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امتی نبی پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالی دس مرتبہ اس پر درود بھیجتے ہیں.
علامہ نسفی رحمہ اللہ نے مدارک التنزیل میں مجمع الزوائد کی حدیث نقل کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے دو فرشتوں کو مقرر کیا ہے جب کوئی شخص میرا تذکرہ کرتا ہے اور مجھ پر درود بھیجتاہے، تو فرشتے کہتے ہیں غفراللہ لک، اللہ تجھ کو بخش دے، تو اس کے جواب میں اللہ اور فرشتے آمین کھتے ہیں، جس کی بخشش کے لئے اللہ اور اس کے فرشتے آمین کہیں تو یقینا اس کا بیڑا پار ہے.
نسائی شریف کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کی طرف کچھ فرشتے مقرر ہیں جو زمین پر چکر لگاتے ہیں، اور امتیوں میں سے جو شخص نبی پر سلام بھیجتا ہے اسے نبی تک پہنچاتے ہیں اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس  کاجواب بھی دیتے ہیں.
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ملا علی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا اس حدیث سے پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں، اور حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی مسلمان نبی کے روضہ اطہر پر سلام کرتا ہے تو اس کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود دیتے ہیں، اسی لئے اوپر کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے محدثین نے مقید کیا ہے جب روضہ نبی سے کوئی سلام پڑھتا ہے تو اسے فرشتے نبی تک پہنچاتے ہیں اور روضہ اطہر کے قریب سلام کو خود نبی سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں، نیز اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہوتے تو امتیوں کے سلام کو خود  سن لیتے روئے زمین میں سے کہیں سے بھی سلام بھیجتا لیکن اللہ کا سلام کی تبلیغ کے لئے فرشتوں کو مقرر کرنا اس بات کی بین دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر نہیں.
اور حدیث مذکورہ سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ اللہ کے دربار میں نبی پر سلام رد نہیں ہوتا، نبی کا جواب دینا اس بات کا بین ثبوت ہیے کہ ہمارا سلام قبول ہوگیا.
مذکورہ تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے بیشمار فضائل ہیں، اللہ اس قدر ہم پر مہربان ہیے تھوڑے سے عمل بے پناہ ثواب دے رہا ہے، یہ ہماری بدبختی اور بدنصیبی ہوگی کہ ہم ان ثواب سے محروم رہیں، ہم اپنی زندگی میں کثرت سے درود شریف پڑھنے کی عادت بنائیں، تاکہ ہماری دنیوی اور اخروی زندگی سنورے، اللہ تعالی نبی سے سچی محبت کرنے والا بنائے آمیـــن

جہیز ایک سماجی لعنت!

تحریر: مفتی فہیم الدین رحمانی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فرمائی ہے قرآن و حدیث نےاساسی اور رہنما اصول بیان فرمادیئے ہیں پھر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا طرزِ عمل ہمارے سامنے ہیں بعد میں ہمارے ائمہِ مجتہدین اور فقہائے عظام نےکوئی ایسا مسئلہ نہیں چھوڑا جس کی قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلات نہ بتا دی ہوں حتٰی کہ متوقع اور فرضی پیش آمدہ مسائل کے بھی حل بتا دیئے ہیں مسائل اور ضروریات انسانی میں نکاح اور شادی انسان کی طبعی اور فطری اور بنیادی ضرورت ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسلام ایک فطری دین ہے اس سلسلے میں اپنے ماننے والوں کی رہنمائی نہ فرمائی ہو، انسانی نسل اور زندگی کو قائم رکھنے کے لئے نکاح چونکہ ایک لابدی چیز تھی اس لئے شریعت اسلامیہ نے اسے کماحقہٗ اہمیت دی، نکاح اور ازدواجی زندگی کا کوئی ایسا لازمی اور ضروری پہلو نظر نہیں آتا جس میں شریعت نے واضح ہدایات نہ دی ہو، جہیز اور تلک جس کے ذریعہ گویا مہذّب طریقہ سے انسان کی خرید و فروخت ہوتی ہے جس طرح جانوروں کے میلوں میں بائع و مشتر ی کے مابین خرید و فروخت کا معاملہ طے پاتا ہے بیچنے والا اپنے دلالوں کے ذریعہ خریدار سے زیادہ سے زیادہ روپئے مختلف طریقہ سے اصول کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور خریدنے والے کی بد نصیبی یہ ہوتی ہے کہ قیمت کی زیادتی کی وجہ سے اپنے من پسند جانور خریدنے سے قاصر رہتا ہے، اسی سے مشابہ موجودہ دور کی شادیاں ہیں، شادی بیاہ کی منڈی میں لڑکے والے زیادہ تلک اور کثیر ساز و سامان کے لالچ و حرص میں دین دار تعلیم یافتہ اور امورِ خانہ داری سے واقف لڑکی کو نظر انداز کردیتے ہیں، فرمائشی تلک و جہیز کی وجہ سے لڑکی والے لڑکی کے مناسب حال لڑکے کا انتخاب نہیں کر پاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ انتشار و خلفشار اور مختلف قسم کی برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، یہ ایک ایسی انسانیت سوز رسم ہے جس کے مہلک اثرات کی وضاحت کے لئے الفاظ ملنے مشکل ہیں، اس کی غیرت وخوداری اس وقت کہاں دفن ہوجاتی ہے جب اپنے ہونے والے خسر سے تلک اور سامانِ جھیز کا مطالبہ کرتا ہے یا اپنے والد کے مطالبے کی حمایت وتائید کرتا ہے، اس رسم بد کا اسلام سے تو کوئی تعلق ہی نہیں، جہیز سماج میں ایک سنگین ترین صورت اختیار کئے ہوئے ہیں اور روز بروز یہ ایک لاعلاج ناسور بنتا جارہا ہے، ہزاروں معصوم دوشیزائیں اس کی سنگینی سے متاثر ہیں لڑکےکی طرف سے مطالبہ ہوتا ہےکہ شادی میں ماروتی کار، رنگین ٹی وی، زیورات، فرنیچر، فریج، کولر وغيرہ قیمتی اشیاء اور نقد رقم بطور جہیز پیش کئے جائیں، لڑکی کا باپ معاصی اور مالی کمزوری اور غربت و افلاس کی بناء پر اور مجبورکن حالات کی وجہ سے بےبس ہوکر رہ جاتا ہے، اور غریب لڑکی زندگی کے قیمتی ایام اسی طرح گزارکر عمر کی اس منزل تک پہونچ جاتی ہے، جس میں کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں رہتا، نہ اس کو مناسب رشتہ مل سکتا ہے، اور نہ ہی زندگی کا ساتھی مل سکتا ہے، اس طرح ایک بےگناہ انسان کے ارمان کا خون ہو جاتا ہے اور اس کی خوشیاں کافور ہوجاتی ہے، اور اس کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں ایک طرف لڑکی حسرت اورناامیدی کے عالم میں زندگی گزارتی ہےتو دوسری طرف نفس کی جھوٹی تسلی کے لئے غیرشرعی غیر اخلاقی طور طریق اختیار کرنے لگتی ہے، اور غیرمردوں سے دل لگانے لگتی ہے یہاں تک کی ناجائز محبت کا سلسلہ اور ناجائز تعلقات تک کی نوبت آجاتی ہے بعض دفعہ غیرشرعی، غیراخلاقی اور غیرقانونی اولاد کی صورت میں یہ محبت رنگ لانے لگتی ہے اور اس طرح انسان حدودِ انسانیت سے نکل کر حدود حیوانیت میں داخل ہوجاتا ہے، اور یہ سب کچھ جہیز کی بدولت ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں چند افراد کی خانگی اور نجی زندگی ہی نہیں بلکہ پورا سماج فساد کی نذر ہوجاتا ہے اور اس کے تباہ کن اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، اس کے تمام تر ذمہ دار جہیز کا مطالبہ کرنے والے ہی ہوتے ہیں.

جامعہ عربیہ دارالقرآن رفیق آباد میں تقریب یوم جمہوریہ کا انعقاد!

رپورٹ: محمد سلمان دہلوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
رفیق آباد(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2018) جامعہ عربیہ دارالقرآن رفیق آباد میں یوم جمہوریہ کا پروگرام بہت ہی شاندار اور پر جوش انداز میں منایا گیا، پرگروام جامعہ کے مہتمم جناب قاری محمد ناصر محمود صاحب قاسمی کی زیر سرپرستی میں رہا، جامعہ کے طلباء نے پرجوش اور خلوص محبت کے ساتھ پروگرام میں تلاوت کلام پاک، نعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا، اور ترانہ ہندی علام اقبال علیہ الرحمہ( سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا) پڑھ کر ترنگے کو سلامی پیش کی، ترنگا لہرانے کے بعد طلباء عزیز سے علماء دیوبند اور مجاہدین آزادی کی داستاں کو بیان کیا گیا، اور  مجاہدین آزادی و دانشواران قوم آزادی کی قربانیوں کو یاد کرکے ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا، معصوم بچوں نے اپنے اس شاندار پروگرام میں بڑھ چڑھ حصہ لیکر یہ ثابت کردیا کہ ہندوستان ہم کو ہماری جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ہم اس ملک کی بقاء وتحفظ کی خاطر اپنے آباء واجداد کے نقش قدم پر چل کر ملک کی سلامیت کو ہر حال میں باقی رکھیں گے، اس ملک کو غیروں ہاتھ نہیں جانے دیں گے اور نہ ہی دوبارہ ہندوستان کو غلامی کی زنجیر میں بندھنے دیں گے، چھوٹے چھوٹے بچوں نے اپنے اس پروگرام کے ذریعہ امن و شانتی اور اتفاق واتحاد کا بہترین درس دیا ہے.
 اس پروگرام میں خاص طور پر شرکت کرکے طلباء کی حوصلہ افزائی اور ترنگا کو سلامی پیش کرنے میں جامعہ مہتمم جناب قاری ناصر محمود صاحب قاسمی، حافظ سمیع الدین صاحب، ایڈوکیٹ جناب نظام الدین صاحب، قاری جنید صاحب استاذ جامعہ ھذا، جناب ڈاکٹر حامد صاحب، جناب رفیع الدین صاحب، جناب زبیر صاحب، قاری محسن صاحب قاسمی شریک رہے.

جُھرّی زدہ برستی آنکھیں!

تحریر: محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
ــــــــــــــــــــــــــــ
وہ واقعی صبح کا سہانا بانکا سجیلا موسم تھا مزید برآں نسیم سحر سمندر  کے اطراف خود رو جنگلی درختوں کے وجودسے ٹکراتی بل کھاتی جب ہمارے کرتے کے اوپری بٹن کو پھلانگ کے سینے تک رسائ حاصل کرتی تو دل و دماغ کو تروتازہ کردیتی، طلوع شمس کا آغاز ہونے والا تھا کیونکہ چشم زدن قبل رات اپنی تاریک چادر کو آہستہ آہستہ سمیٹ کے نگاہوں سے اوجھل ہوئی تھی یعنی سورج کی شعائیں جلوہ افروز ہونے کے لیے بے قرار تھیں کچھ خدا کے فرماں بردار بندے چشمِ بیدار لئے ذکر الہی میں ہمہ تن مشغول ہو کر اپنے رزق کی تلاش میں نکلنے کے پروگرام مرتب کر رہے تھے، اور کچھ نافرمان  شیطان کے دام تزویر میں پھنس کر اپنی عاقبت سے بے خبر ابھی تک سو رہے تھے-
گو کہ وقت سرکتے سرکتے آگے بڑھ رہا تھا ہواؤں میں ابھی بھی خنکی باقی تھی، سورج کی ارغوانی روشنی ہر چہار جانب پھیل چکی تھی،بعد نماز فجر راقم الحروف مدرسہ کے سامنے بیٹھ کر دھوپ سے لطف اندوز ہو رہا تھا-
 کہ سامنے ایک شناسا شخص کو اپنی جانب آتے دیکھا ضعیف العمر، لاغر ناتواں، خمیدہ کمر، ان کو دیکھنے والا یہی محسوس کرے گا کہ، موسم خزاں کا ماتم کنندہ درخت، سورج کی تپش سے خاکستر ہونے والا سرسبز و شاداب کوہ، سنگلاخ وادیوں کا دہقان جسے بود و باش، خورد و نوش کی قلت نے  ہڈیوں کا ڈھانچہ بنادیا تھا، قریب پہنچے علیک سلیک کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا، بڑے میاں آج کچھ زیادہ ہی اداس تھے بار بار انکھیں ساون بھادوں بن جاتی تھیں،بسا اوقات پتلی کے سرخ ڈورے بھی حلقئہ چشم میں تیرتے دکھائی دے رہے تھے ایسا محسوس ہوا کہ بڑے میاں شب بیداری کرکے آئے ہیں، اثناء گفتگو کوشسِ بسیار کے باوجود مچلتے اشک اب موتی کی شکل میں رخسار سے ہوتے ہوئے ریش مبارک کو تر کر نے لگے تھے- کپکپاتے لبوں میں جنبش کا ہلکورا قدرے بلند ہوا تو تھکی تھکی اواز میں غیر مربوط جملوں پہ مشتمل اپنی داستان کچھ اس طرح بیان کیے
 کہ قاری صاحب!
 اسّی سال کی عمر ہو گئی، اب تو پٹھوں کی طاقت بھی جواب دے رہی ہے، بڑے مشکل سے قدم گھسیٹ کے چلتا ہوں، اللہ نے اس لاغر ناتواں کے کندھے پر دو بیٹیوں کا بار گراں ڈال رکھا ہے، آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک بیٹی کی شادی خانہ آبادی کے لئے میں نے کتنے لوگوں کے سامنے دست دراز کیا تھا پھر بھی وہ  گئے وقت کی بات تھی کہ اس داماد نے مال و دولت کی کوئی فرمائش نہیں کی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے چھوٹی بیٹی کی شادی کے لیے بڑا فکر مند رہتا ہوں اسی لیے راتوں کو نید نہیں آتی ہے -
کسی نے درست کہا ہے کہ غریبی کا آٹا بھی گیلا ہوتا ہے، ادھر اہلیہ کی طبیعت برسوں سے ناساز رہنے لگی ہے، بھنگار چن کر لاتا ہوں، تو بمشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ھے کبھی کبھار کوئی ترس ورس کھا کر کچھ پیسے دے دیتا ہے تو سمجھ لو خود کی بھی دوا لے لیتا ہوں- ہائے رے دیا!!
اب تو قدموں میں اتنی طاقت بھی نہیں رہی کہ بھنگار چننے کے لیے جاؤں، مجبوراً بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے دست دراز کرتا رہتا ہوں، اپ کہہ سکتے ہیں کہ بڑی جفاکشی میں شب و روز گزر رہے ہیں-
 میرا کون ہے اس دنیا میں، کون میری چھوٹی بیٹی کی شادی کرائے گا، کیسے اس کی رخصتی ہوگی، میرے قدم قبر میں لٹک رہے ہیں، نا معلوم کب موت کا پروانہ لیکر فرشتہ حاضر ہو جائے اور میری روح اس قفس عنصری سے پرواز کر جائے،ان افکار و اوھام کی دنیا میں جب  پہنچ جاتا ہوں تو سرد راتوں تک کی نیند حرام ہو جاتی ہے، بے اختیار آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں، خیال آتا ہے کہ غریب لڑکیاں بھی کتنی بدقسمت ہوتی ہیں، جن کے شادی کے جذبات آنسوؤں میں بہتے رہتے ہیں، غربت کی چھاؤں میں بیٹھی بیٹیاں اس دن کا انتظار کرتی ہیں کہ کب وہ خوشی کا دن آئے گا اور میں شادی کے پیرہن زیب تن کر کے اپنی دنیا کی جنت میں سیر کروں گی- لیکن یہ صرف ان کے خواب ہوتے ہیں جو شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے مال و دولت اور غربت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، جہیز، بارات جیسی ہندوانہ رسم و رواج نے مسلمانوں کے معاشرے پر کاری ضرب لگائی ہے، جس میں اکثر مسلمان ملوث نظر آتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ غریبوں کی بیٹیوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں، شادی کی عمر ڈھل جاتی ہے، ہاتھوں میں مہندی رچانے کے ارمان دل میں مچل کر رہ جاتے ہیں، آنسوؤں میں شب و روز گزر جاتے ہیں، ان کی بدنصیبی کا باعث یہی پرا گندہ معاشرہ ہے،  ارے غور کرو خدا کی شاہکار تخلیق میں یہ لڑکیاں بھی ہیں، مزید ان لڑکیوں پر ستم کے پہاڑ ٹوٹٹے ہیں جب غربت کے ساتھ ان کا رنگ سانولا ہو، سانولی رنگ کی لڑکیوں کو کون پسند کرتا ہے، ہر کسی کو گوری لڑکی ہی چاہیے، بڑی جدوجہد کے بعد کوئی رشتہ مل بھی جائے تو جب عورتیں دیکھنے کے لیے آتی ہیں تو لڑکی کو دیکھ کر یہی پیغام چھوڑ جاتی ہیں کہ گھر جا کر مشورہ کرکے بتائیں گی، وہاں سے جواب آتا ہے کہ ہمارا فرزند کہتا ہے کہ مجھے سفید چٹی دوشیزہ چاہیے،بڑے میاں  غمزدہ لہجے میں مخاطب تھے، کہ معاشرے میں برائی اس قدر پھیل گئی ہے کہ اب تو رہبر بھی اصلاح معاشرہ سے یاس بر دوش اور ہراساں نظر آتے ہیں، میری بات آپ کو تلخ ضرور لگے گی  جس کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں ، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے حضرات بھی جہیز، بارات جیسی ہندوانہ رسم و رواج میں برابر کے شریک ہیں، زمانہ جاہلیت کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے، غریب کے یہاں لڑکیوں کی پیدائش پر کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ شادی کے وقت آپ جیسے لوگ بھی شریعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسم و رواج کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں-
بڑے میاں کہنے لگے!
 مجھے شکوہ آپ حضرات سے ہے، آپ لوگ بھی جہیز میں گاڑی کے طلب گار ہوتے ہیں بارات بھی لے جاتے ہیں، اگر آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہو تو ایسے رشتے کو جوتے کی نوک سے ٹھکڑا دیتے ہیں، ایک طویل گفتگو بڑے میاں میرے ساتھ کر کے آگے کو چل دئیے اور میں ششدر رہ گیا،بڑے میاں کی اشک بار آنکھوں اور غمزدہ دل کو دیکھ کر مجھے بے حد تکلیف ہوئی، اور میں باغِ تخیلات کی وادیوں میں کھو گیا، سوچتا رہا کہ صرف ایک بڑے میاں کی حقیقی داستان ہے یا اس مصیبت میں اور لوگ بھی مبتلا ہیں -
کاش کہ وارثین انبیاء اس جانب توجہ فرمائیں-

ہندوستان کی جنگ آزادی میں اگر علماءکرام حصہ نہ لیتے تو ہندوستان آزاد نہ ہوتا: مفتی فہیم الدین قاسمی

رپورٹ: یاسین صدیقی
ـــــــــــــــــــــــــ
لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2018) لونی کے معروف مدرسہ جامعہ منبع العلوم پوجا کالونی میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ جشن یوم جمہوریہ کا انعقاد کیا گیا، جسمیں تمام  طلبہ واساتذہ سمیت دیگر برادران وطن نے بھی شرکت  کی، جلسہ  کا آغاز قاری اکرام صدیقی متعلم دارالعلوم دیوبند کی  تلاوت کلام  پاک اور مولانا عارف سراج  نعمانی کی نعت پاک سے ہوا، پرچم کشائی نین الاقوامی شہرت یافتہ قاری جناب حضرت قاری محمودالحسن اصالت پوری نے کی.
 تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قاری موصوف نے کہا کہ آج ان علماء ہند کے کارناموں اور ان کی قربانیوں کو ہم نے فراموش کردیا ہے جن کی بدولت یہ ہندوستان آزاد ہوا، مجھے بیحد خوشی ہورہی ہے کہ آج میں ایسی تقریب میں شریک ہوکر مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کررہا ہوں.
مہمان  خصوصی حضرت مولانا مفتی فہیم الدین قاسمی نائب  صدر جمعیت علماء ہند شہر لونی نے کہاکہ جنگ آزادی میں اگر علماءکرام حصہ نہ لیتے تو آج ہندوستان آزاد نہ ہوتا، چنانچہ جس شخص نے سب سے پہلے علم بغاوت بلند کیا اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا وہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ کی ذات ہے، جس نے یہ کہا تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر شہری کے اوپر واجب ہیکہ انگریزوں کے خلاف میدان میں آئے چنانچہ دو لاکھ مسلمانوں نے حصہ لیا جسمیں اکیاون ہزار علماء کرام تھے، اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے جب تک کہ اپنے پیارے وطن کو آزاد نہیں کرا لیا.
آل انڈیا تحریک عوام ہند کے جنرل سیکریٹری وناظم تعلیمات مولانا یاسین صدیقی قاسمی نے اپنے مختصر خطاب میں کہاکہ جب ہندوستان کی سرزمین پر انگریزوں کا ناپاک سایہ پڑا اور اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالو سے یہاں کے مالک بن بیٹھیں اور باشندگان ہند پر ظلم و زیادتی کرنے لگے تو اس وقت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ نے ان کے خلاف فتوی دیا اور سرپر کفن باندھ کر میدان میں کود پڑیں، القصہ مختصر علماء کرام کی بدولت یہ آزادی ہمیں نصیب ہوئی، مگر افسوس کے آج چند فرقہ پرست طاقتیں ملک کے سیکولر ڈھانچے کو بدل کر یہاں کی پرامن فضاء کو مکدر کرنے کی سعی کررہے ہیں جسے ان شاءاللہ ہم کامیاب ہونے نہیں دیں گے.
اس موقع پر جامعہ کے طلبہ وطالبات نے حب الوطنی/قومی ترانہ پیش کیا اور جامعہ کی طرف سے ایک پریڈ ریلی کا بھی اہتمام کیا گیا جو جامعہ سے شروع ہوکر ھما پبلک اسکول شنی بازار و اسماعیل مسجد سے ہوتے ہوئے ٹرونیکا سیٹی کے پاس آکر ختم ہوا.
اس تقریب کی نظامت مولانا نوید مظاہری نے بحسن خوبی انجام دی، اس موقع پرمولانا  مشتاق  ضمیر  احمدنعمانی سکریٹری  آل انڈیا تحریک عوام ہند ماسٹر امید قاری معراج قاری عمران قاری اکرام صدیقی قاسمی، مولانا تمیزالدین قاسمی، قاری نسیم  الدین، بھائی ریوا، بھائی نانک سنگھ، مہندر پرتاب کے علاوہ کثیر تعداد میں علماء کرام اور برادران وطن شریک تھے.
اخیر میں جامعہ کے  بانی  ومہتمم مولانا نظام الدین قاسمی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا.

حافظ شجاعت فیض عام چیریٹیبل ٹرسٹ کی جانب سے نئے انداز میں منایا یوم جمہوریہ!

رپورٹ: عبیدالرحمٰن الحسینی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
آنندنگر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2018) پورے ملک میں 26/ جنوری کو 69 واں یوم جمہوریہ کے طور پر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا، حافظ شجاعت فیض عام چیریٹیبل ٹرسٹ کی جانب سے بھی یوم جمہوریہ تقریب رکھی گئی، جس میں سرکاری عہدیدار شرم پرورتن اروند پانڈے اور انکی اہلیہ اکچھے پانڈے سمیت دیگر مہمان خصوصی شریک رہے.
تقریب اپنے مقررہ وقت پر صبح ساڑھے نو بجے شروع ہوئی، جس میں سب سے پہلے حسب راویت جھنڈے کو سلامی دی گئی اور اسکے بعد ملک کو آزادی دلانے والے ان شہداء کو یاد کیا گیا، جنکی بے لوث قربانیوں کی بدولت آج پورا ملک فخر محسوس کر رہا ہے.
واضح رہے کہ ٹرسٹ کے سکریٹری و سماجی کارکن  حافظ شمس الہدی قاسمی اور صدر شمس الضحی خان نے ٹرسٹ کے جملہ کارکنان کے ساتھ مختلف ہاسپیٹل کا دورہ کیا اور وہاں زیر علاج مریضوں سے حال دریافت کیا اور انکے درمیان بڑے پیمانے پر فوڈ کٹ تقیسم کیا اور انکی صحتیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا، ہاسپیٹل کے  منتظمین سے بھی ملاقات کی اور ان سے مریض پر پوری توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی تاکہ کسی قسم کی مریض کو کوئی پریشانی نہ ہو.

Friday 26 January 2018

دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر!

ازقلم: مفتی محمد عظیم فیض آباد استاذ  دارالعلوم النصرہ دیوبند
ــــــــــــــــ
ہندوستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں آئین ہر قوم و مذہب کو اپنے تہذیبی شناخت اور اپنے اپنے مذہبی رسوم و رواج کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ، آپسی بھائی چارہ پیار محبت اور مذہبی ہم آہنگی اس کی خوبصورتی کی اصل وجہ ہے ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے مذاہب پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ اپس مین شیر وشکر رہتے ہیں آئے ہیں انسانیت کے پیکر بن کر ہندو مسم سکھ عیسائی سب ایک دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں ، بلکہ یہ کہنا زیادہ موضوع ہوگا کہ ہماری جمہوریت ہی ہندو مسلم سکھ عیسائی کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہے،  اس لئے ہندوستان کی طرف سے جب بھی کوئی قومی، ملی، اورتعمیری کام ہو تو اس میں چہرےاورتصویریں  سب کے نظر آنے چاہئے اور اس میں حصہ سب کا ہونا چاہئے
 اس وقت مجھے ایک افسانہ یاد آتاہے کہ
  " آج کے ستر70 سال  پہلے جو حادثہ برصغیر میں پیش آیا جو انگریزوں کی دین تھا ایک ضعیف معمر بزرگ تقسیم وطن کے موقع پر اپنے نحیف وکمزور کندھوں پراپنے بچے کچے سرمائے کی گٹھری اٹھائے وطن عزیز ہندوستان چھوڑکر جارہے تھے کہ دلی پہنچے تو جامع مسجد دہلی کی فصیل سے مولانا ابو الکلام آزاد کی تقریر سنی "کہ یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پراختیار کر رکھی ہے اس پر غور کرو ، اپنے ارادوں کو مضبوط بناؤ ،اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالوپھر دیکھو کہ تمھارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں آخر کہاں جارہے ہو؟ اور کیوں جارہے ہو؟  ابھی کل کی بات  ہے کہجمنا کے کنارے تمھارےقافلوں نے وضوکیا تھا جامع مسجد کے مینار تمھیں پکار رہے ہیں "
اس ضعیف شخص نے سوچا کہ کہ یہ بوڑھا شخص اپنی عمر کے آخری پڑاؤمیں بڑی خوبصورت ودلنشیں باتیں کررہاہے مگر ان باتوں پر عمل شاید نہ کرسکے اپنا سفرجاری رکھاآگے بڑھے تو مہاتماگاندھی اپنی لاٹھی لئے کھڑےملے گاندھی جی نے کہا" ایسور اللہ تیرے نام سب کو سنمت دے بھگوان "
کہاں جارہے ہو رکو یہیں رہو،  اس ضعیف نےپھرکہا کہ جب تم اکیلے نہیں کھڑے ہو سکتے تو پھر میری حفاظت کیسے کروگے ؟
  ضعیف اپنے نحیف کاندھوں پر اپنی گٹھری لئے اگے بڑھے تو آگے جواہر لال نہرو بھارت کا آئین لئے ہوئے کھڑے تھے انھوں نے بھی کہا بابا کہاں جارہے ہو ضعیف نے بڑی افسردگی کے ساتھ وطن عزیز سے پیار کاجذبہ لئے کہا کہ اب یہاں نہیں رہ سکتے حالات بہت خراب ہیں نہرو جی نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا یہ آئین یہ قانون تمھاری حفاطت کرے گا تمھارادین ومذہب بھی محفوظ رہے گا تمھاری جان ومال عزت وآبرو کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہ ہوگا ، ضعیف نے پوچھا اس آئین میں کیا لکھا ہے نہرو جی نے کہا سیکولرزم، سوشلزم، ڈیمو کریسی آپ کو حیرت ہو گی ضعیف نے وہیں اپنی گٹھری رکھ دی اور واپسی کا ارادہ کرلیا، جب تک آئین کی بالادستی قائم رہے گی جب تک جمہوریت کا بول بالارہےگا جب تک اس وطن عزیز میں سیکولرزم اور ڈیموکریسی برقرار رہےگی ہندوستان کی ترقی کوکوئی چاہ کربھی نہیں روک سکتا آپسی بھائی چارگی پیار ومحبت اسکی فضاؤں میں شامل رہے گا  اسکی گنگاجمنی تہذیب کے دشمن آپسی ہم آہنگی کے د شمن وحشت وبربریت کا ننگاناچ ناچنے والےاپنے ناپاک ارادوں میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے
جمہوریت وگنگاجمنی تہذیب ہی اس ملک کی خوبصورتی اور اسکا حسن ہے اتنی قومیں ، اتنے مذاہب اور اس قدر تہذیبوں کا امتزاج کسی اور ملک کا حصہ نہیں ،جس طرح کسی گلستاں کا حسن اسکے مختلف، رنگارنگ اور متعددخوشبوؤں کے حامل پھول ہی ہوسکتے ہیں جو گلستاں کو مشک باربناسکتے ہیں اگر ایک ہی رنگ ونسل کے پھول ہوں تو اسکی خوبصورتی ختم ہوجاتی ہے بالکل اسی طرح وطن عزیزہندوستان ہے کہ اس گلستان رنگ وبو میں مختلف رنگ ونسل کی قومیں متعدد مذاہب وتہذیبوں کے حاملین آئین میں دیئے گئے حقوق کے مطابق آزادیکے ساتھ ملک کی تعمیر وترقی میں مختلف طرحکی خوشبوؤیں بکھیر رہی ہیں اور اسکے حسن مین چار چاند لگارہی ہیں
    اسی کی منظر کشی کرتے ہوئے اقبال سہیل نے ایک وقت کہاتھاکہ
مل جل کے برنگ شیر وشکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر  دریاؤں کے سنگم سےبڑھ کر تہذ یبو ں کا سنگم ہو تا ہے

ہندوستان تہذیبوں کے سنگم کی سرزمین ہےاور یہ اسوقت تک رہے گا جب تک کہ فسطائی طاقتیں اور انگرزوں کی غلامی ووفاداری کادم بھرنے والی قوتیں طاقت کے غرور میں
   جمہوریت وآئین کو طاق نسیان نہ بنادیں گے
    اب اسوقت اگر وطن عزیز میں گذشتہ چند برسوں کے حالات واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا مشکل نہیں ہوگا کہ اب اس ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہیں رہ گئی یا صرف دکھاوے کی رہ گئی ہے جمہوریتبکا تانابانا کمزور کرکے ہندو راسٹرک. بھگواکرن کیا جارہاہے حتی کہ مسلمان اب اپنے مذہبی آزادی پر خوف محسوس کرنے لگا
  ادھر چند برسوں مین کبھی گھر واپسی کے نام پر، تو کبھی گؤ رکھشاکے نام پر ،کبھی وندے ماتم کو لازمی کرکے، تو کبھی یوگا کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے پر جبر کیا جاتاہے ،خورد ونوش کے تعلق سے بھی آزادی پر پٹہ لگایاجاتا ہے
  کبھی دادری کےاخلاق کو، کبھی الور کے عمر خان و پہلو خان کہین ہریانہ کے حافظ جنید کو اور کبھی راجستھان مین بنگال کے افراز الحق کو کبھی حیدرآباد کے روہت ویمولا کو موت کے گھاٹ اتار کراور کبھی جے این یو کے طالب علم نجیب کومارکر  جمہوریت وآئین کا مزاق اڑایا جاتاہے
  کبھی مک کی تاریخ وتہذیب کا حصہ رہنے والی ٹتاریخی عمارتوں ور دیگر آثار قدیمہ کو مٹانے، کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کی تہذیبی شناخت رکھنے والے قدیم شہروں کے نام تبدیل کرکے ایک مخصوص مذہبی نمائندگی کرنے والے نام رکھے جاتے ہیں
 آئین میں دی گئی آزادی کو بلائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے دین وایمان، اسکے مخصوص دینی امور کو جبرا تبدیل کیا جاتاہے کبھی طلاق،  تو کبھی بغیر محرم کے حج کرانے کی تجویز پاس کرکے مسلم پرسنلا کو ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے، کبھی مدرسوں کی ازادی پر قدغن اور کوئی اس کے نصاب ونظام تعلیم ردو بدل کی وکالت کرتاہے حتی کہ اتراکھنڈ کے مدرسوں میں مودی جی کی تصویر لگانے تک کافرمان جاری کردیاجاتاہے
  یہی نہیں بلکہ دلتوں ، مظلوموں ،کسانوں کے حق کی لڑائی لڑنے والے ان کے حقوق کی آواز بلند کرنےوالے ملک کے ابھرتے ہوئے  نوجوان دلت رہنماؤں کو ڈرادھمکاکر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے گجرات کے جگنیش میوانی، جے این یو کے کنہیاکمار اسکی تازمثال ہیں
  پریس و میڈیا کی آزادی کاحال بھی اس سے کچھ مختف نہیں، میڈیا کسی بھی ملک کی جمہوریت کے لئے ایک ستون ہے ملک کی تعمیر وترقی میں اس کا اہم رول ہوتاہے ملک کے مفاد کے خلاف ہونے والے ہرکام ہر فیصلے پر آواز اٹھانا اس کا فرض ہوتا ہے لیکن اب میڈکی ازادی بھی خطرے میں ہے اب میڈیا وصحافی صرف حکومت کی منشاء کے مطابق بولتے ہیں ملک کا مفاد ان کے پیش نظر نہیں
  چند گنتی کے میڈیا اہل کار اور صحافی ہیں
 جو
 چپ رہنا ہے ظلم کی تائیدمیں شامل
حق بات کہو جراءت ایمان نہ بیچو

 کے حقیقی مصداق ہیں جو جراءت وہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری آزادی کے ساتھ بولتے ہیں تو انھیں طرح طرح کی دھمکیوں کا سامناکرنا پڑتاہے
  حتی کہ اب جب پانی سر سے اوپر آگیا تواور عدلیہ بھی آئینی و جمہوری اصولوں سے منحرف ہونے لگا تو سپریم کے کورٹ کے چار محترم ججو ں کو پریس کانفرنس کرکے ملک کی عوام کو آگاہ کرنا پڑا کہ اب عدلیہ بھی محفوظ نہیں تاکہ 20 سال بعد ملک کا دانشور طبقہ یہ نہ کہے کہ ہم نے اپنے ضمیر کو بیچ دیا تھا ،گویا اب جمہوریت کے مندر سے بھی خطرے کی گھنٹہ بج گیا اور اسطرح اب ملک کے ہر باشندے اور ہر سیکولر طبقہ کو آگاہی ہو گئی کہ ہندوستانی عدلیہ کی تاریخ کو اب تک کے سب سےسنگین چیلنج و بحران کا سامناہے
 بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے ججوں کے ذریعہ کی گئی کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے بے باکی سےکہا کہ " عدالتی نظام میں مرکزی حکومت کی مداخلت کہ وجہ سےعدالتی جمہوریت خطرے میں پڑگئی ہے "
   اور بی جے پی کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر یسونت سنہا نے کہا کہ "پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ٹھیک سے کام نہیں کررہاہے کا سیدھامطلب ہے کہ ملک میں جمہوریت خطرے میں ہے "
  سیوسینا سربراہ اودھوٹھاکرے نے یہ بھی کہا کہ "انصاف کے دیوتاکو گونگا بہرہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے "
12 جنوری 2018 بروز جمعہ کو سابق چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر نے لال بہادر ساستری کی برسی کے موقع پر یادگاری خطبہ دیتے ہوئے تو صاف کہا ہے کہ "اس ملک میں مذہب کے نام پر جو کچھ ہورہاہے وہ ٹھیک نہیں ہے، ہندوتو کی سیاست ملک کے عالمی طاقت بننے کی راہ میں حائل ہے فرقہ پرستی کا راستہ اپناکر پوری دنیا میں اپنا لوہا نہیں منواسکتے اس کے لئے سیکولر بنناہوگا ملک کے قائدین نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی ملک کو سیکولر راہ پر ڈالا تھا "
سال گذشتہ سابق امریکی صدر براق اباما نے اپنے ہندوستان دورے کے آخر میں ہندوستان میں عیسائیوں چرچوں و اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی طرف اشارہ کوتے ہوئے کہ گئے تھے. کہ ملک میں اقلیتیں محفوظ نہیں،اور  نائب صدرجمہوریہ اپنے الوداعی خطاب میں بھی اس خدشے کابرملا اظہار کیا تھا
 سیاسی، سماجی ،عدالتی نظام کے حاملین کی آراصرف اس لئے قلمبند کردیئے گئے تاکہ ملک کا ہر باسندہ خطرے سے آگاہ ہو کر اس کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس کے لئے تگ و دوکرے
 اور سوچے کہ
ہردم آپس کا یہ جھگڑا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کل کیاہوگاملک کا نقشہ ..

میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
 ترمیم کی معذرت کے ساتھ

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے جمہوری افکار اور ان کی عصری معنویت!

تحریر: وصی اللہ سدھارتھ نگری
ــــــــــــــــــــــــ
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
محبینِ وطن!
آج ہم اپنے اس عزیز ملک کا جشنِ یومِ جمہوریہ منارہے ہیں، جس کو ظالمانہ برطانوی ایکٹ سے نجات دلانے کے لیے ملک کے ہر طبقہ کے مجاہدینِ آزادی نےجب میدان میں قدم رکھا تو گنگا جمنی تہذیب کا خوش نما منظر پیش کیا، اور جب آزادی ملی تو اسی تہذیب کی بقاء کے لیے کوشاں رہے، آئیے آج 69ویں جشنِ یومِ جمہوریہ کے موقع پراس ملک میں جمہوریت کے قیام، اس کے بقاء واستحکام کیلئے انتھک جدوجہد کرنے والے ایک عظیم مجاہدِ آزادی کی جمہوری افکار پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر ان افکار کی عصری معنویت کا ایک اجمالی مطالعہ کرتے ہیں ، اُس عظیم سپوت کانام اِس ملک کی تاریخ میں، بطلِ حریت، جانشین شیخ الہند، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح کے سنہرے الفاظ میں درج ہے.
ملک کے اس وفادار سپاہی نے جب حصولِ آزادی کے لیے میدان جنگ میں قدم رکھا تو ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے مابین تشدد واختلاف اور تفریق وامتیاز کو ختم کرنے کا ارادہ کیا،تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمہوریت، اور اتحاد ویکجہتی کا درس دیا؛ اسی لئے تمام برادران وطن کے سامنے اپنی اس فکر کا اظہار بےدریغ ان الفاط میں کیا :
ہندوستان کبھی بھی سیاسی اور ملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں ہوا ہے، اس کی حکومتیں مسلم حکمرانوں کے زیرِ اثر رہی ہوں یا ہندو فرمانرواؤں کے زیرِ نگیں، کبھی بھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوسکیں
(شیخ الاسلام ایک سیاسی مطالعہ، ص/421، مؤلفہ :ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری)
آپ کی یہ جمہوری فکر یہیں پر تام نہیں ہوتی؛ بلکہ تحریک آزادی کی شبانہ روز جدوجہد کوجمہوری رنگ وروغن سے آشنا کرنے کے لیے 1945ء میں سہارنپور کی سرزمین سے تمام طبقات کو اخوت ومحبت اور جمہوریت کا درس ان الفاظ میں دیتے ہیں *:میرے محترم! وطن اور ابنائے وطن کی بربادی اور اس کے اسباب کسی خاص مذہب، کسی خاص برادری، کسی خاص شخص تک محدود نہیں ہوسکتے، وطن اور ملک کی بربادی جملہ ساکنینِ ملک کو برباد کرے گی اور کررہی ہے، ناؤ ڈوبتی ہے تو تمام اس کے سوار ڈوبتے ہیں، گاؤں میں آگ لگتی ہے تو سبھی گھر جلتے ہیں، اسی طرح یہ غلامی ومحکومیت جملہ اہلِ وطن کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے، کیا اس میں فقط ہندو مرے، یا فقط مسلمان مرے؟ نہیں، سبھوں کی بربادی ہوئی، ایسے وقت میں ہر ادنی سمجھ والا بھی اپنے داخلی وخارجی جھگڑوں کو چھوڑکر ضروری سمجھتا ہے کہ مصیبتِ عامہ کو سب سے پہلے زائل کردینا چاہیے، اس وقت تک چین نہ لینا چاہیے اور نہ اپنے داخلی وخارجی جزئی جھگڑوں کو چھیڑنا چاہیے، جب تک یہ مصیبت نہ ٹل جائے.
حضرت شیخ الاسلام کے سوانحی اوراق میں موجود یکجہتی اور جمہوری فکر کی بابت آپ کا یہ لطیف استدلال آج بھی ہمارے لیے خضرِ طریق کی حیثیت رکھتا ہے کہ::وأعدوا لم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون به عدو الله وعدوکم" یہ آیت صاف صاف بتلارہی ہے کہ مسلمانانِ ہند کے لیے اتحاد ضروری ہے؛ کیونکہ وہ فوج جس کے ذریعہ ہم دشمن کو لڑاسکتے ہیں اور اس کے پتھریلے دماغ کو پگھلاسکتے ہیں، وہ اہلِ ہند کے لیے ظاہری حیثیت سے اتحادِ ہند ومسلم اور صرف اتحادِ ہند ومسلم ہے؛ اس لیے یہ اتحاد اور قومی یکجہتی مذہبی حیثیت سے جائز ہی نہیں؛ بلکہ ضروری بھی ہوگا.
(حیاتِ شیخ الاسلام، ص/117، مؤلفہ :حضرت مولانا محمد میاں رح)

جمہوری ملک کے جمہوری باشندوں!
 نفرت کی دکانیں عصرِ حاضر کا خاصہ نہیں، ماضی میں بھی مفادپرستوں نے یہ دکانیں کھولی ہیں اور مقصد برآری کے لیے جمہوریت کو فنا کرکے ملک وقوم کو تباہ کرنا چاہا ہے؛ چنانچہ جب اس ملک کی آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کے جذبات پیدا کرنا چاہا، ان کے آپسی بھائی چارگی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، کسی کو بھڑکایا، کسی کو آمادہ پیکار کیا، تو ایسے نازک وقت میں بھی حضرت شیخ الاسلام رح نے ہندواورمسلم کو ان کا کھویا ہوا وقار یاددلایا، نفرت کو پیارومحبت سے اور کانٹوں کو پھول سے تبدیل کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ *:ہمارے ملک کے ہندو اگرچہ مذہب میں ہم سے جدا ہیں اور اگرچہ رجعت پسند انگریزوں کی انسانیت کش پالیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو" نے ان میں جذبہ ہائے نفرت پیدا کر دیے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کا اور ہمارا خون ایک ہے ہمارے اور ان کے قدیم رشتے ناطے ہیں، ہمارے ان کے تعلقات ہیں، ہمارا اور ان کا رنگ ایک ہے ہماری اور ان کے بودوباش کے طریقے اور بہت سی اشیاء مشترک ہیں، ہماری اور ان کی زندگیوں میں اکثر ایک کو دوسرے کی حاجت ہے.
اسی طرح الجمعیتہ شیخ الاسلام نمبر صفحہ /120 کے مطابق آپ نے تمام برادران وطن کے دلوں سے فرقہ وارانہ جذبات وخیالات کو ختم کرتے اور ان میں جمہوری روح پھونکتے ہوئے فرمایا *:فرقہ وارانہ جذبات اور پرانی دشمنیوں، مختلف عقائد سیاسیہ ومذہبیہ کو اس وقت بھلادینا اور سب کو خواہ دیہاتی ہوں، قصبات کے باشندے ہوں یا شہری ہوں منظم ہوجانا لازم ہے، اس پروگرام کو اس وقت چلانا اور اس کی تلقین کرنا لازم قرار دیا گیا ہے اور میں چند مہینوں سے یہی کام کررہا ہوں.
برادران وطن!
        حضرت مدنی رح کے ان جمہوری افکار کو بار بار پڑھیے، بغور ان کا مطالعہ کیجیے، اگر منصف ہیں تو ان کی خلوصِ نیت کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ یقین ہے کہ عصرِ حاضر میں ان جمہوری افکار کی اشد ضرورت کا احساس کریں گے؛ لیکن آج کے حالات اس کے بالکل برعکس ہیں، آپ خوف نہ کریں اقتدار پر متمکن افراد اور جماعت کی غیر جمہوری پالیسیوں کو چھیڑ کر خوشی کے اس موقع پرآج آپ کا ذہن مکدر نہیں کروں گا، کیونکہ عملی طور پر آپ کو ہروقت ان کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہوگا، ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ یادرکھیے آج اگر آپ یومِ جمہوریہ کا جشن منارہے ہیں تو یہ جشن اس وقت تک ناقص ونامکمل ہی رہے گا جب تک آپ وطن اور قوم وملت کے حق کی بات نہ کریں، ملک وقوم کو ایک ہی درخت کے سایے میں آرام کرتا ہوا نہ دیکھ لیں، جب تک آپ کی نگاہوں کے سامنے وہ وقت نہ آجائے کہ نہ تو صبح کے وقت کسی کے دل میں کوئی کدورت اور حسدوکینہ ہو اور نہ ہی شام کے وقت، کیونکہ یہ چیزیں ایک جمہوری ملک کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہیں، اس کے بغیر نہ تو ملک کا ڈھانچہ برقرار رہ سکتا ہے، نہ باشندگانِ وطن کی ہڈیاں اور بوٹیاں.
لیکن اس مقصد میں کامیابی کے لیے آپ کو حضرت شیخ الاسلام کے مندرجہ بالا افکار کو عملی معنویت کا مفہوم پہنانا ہوگا کہ آپ کا عملی کردار کسی کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنے کی اجازت نہ دیتا ہو، خود غرضی نے آپ کی بُو بھی نہ سونگھی ہو؛ کیونکہ ملک کے تمام طبقات کو آپسی خانہ جنگی کا شکار ہونے اور ایک دوسرے کی مخالفت سے بچانے کے یہی ایک شکل ہے اور ملک کے مجودہ حالات کا فتوی بھی کچھ ایسا ہی ہے.
لہذا جشن یومِ جمہوریہ کے اس موقع پر ہم سب پیارومحبت کی فضا کو عام کرنے اور نفرت کو اس ملک کی زمینی اور فضائی سرحدوں سے دور بھگانے کا عہد کرتے ہوئے یہ عزم کریں کہ :

پھولوں کا کنج دلکش بھارت میں اک بنائیں
حبِ وطن کے پودے اس میں نئے لگائیں

مرغانِ باغ بن کر اڑتے پھریں ہوا میں
نغمے ہوں روح افزا اور دل ربا صدائیں

حبِ وطن کے لب پر ہوں جانفزا ترانے
شاخوں پہ گیت گائیں، پھولوں پہ چہچہائیں

بلبل کو ہو چمن میں، صیاد کا نہ کھٹکا
خوش خوش ہو شاخِ گل پر، غم ہو نہ آشیاں کا

حبِ وطن کا مل کر سب ایک راگ گائیں
لہجہ جدا ہو گرچہ مرغانِ نغمہ خواں کا

ایک ایک لفظ میں ہو تاثیر بوئے الفت
انداز دل نشیں ہوں ایک ایک داستاں کا

موسم ہو جوشِ گل کا اور دن بہار کے ہوں
عالم عجیب دلکش ہو اپنے گلستاں کا

مل مل کے ہم ترانے حبِ وطن کے گائیں
بلبل ہیں جس چمن کے، گیت اس چمن کے گائیں

بلریاگنج: گھر میں لگی آگ، سلائی مشین سمیت لاکھوں کا سامان جل کر راکھ!

رپورٹ: ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/جنوری 2018) بلریاگنج تھانہ علاقہ کے بھگت پور گاؤں میں مکان میں آگ لگنے سے سلائی مشین سمیت لاکھوں کا سامان جل کر خاک ہو گیا.
موصولہ خبر کے مطابق علاؤالدین بیٹے مبین کی بھگت پور گاؤں میں ہی سلائی کی دکان ہے، جس میں علاؤالدین کپڑے اور راشن سمیت ضروری کاغزات رکھا ہوا تھا، جس میں منگل کی رات اچانک آواز سنائی دی لوگوں نے باہر دیکھا تو گھر میں آگ لگی ہوئی تھی، پڑوسیوں نے فائر بریگیڈ کو فون کیا، لیکن موقع پر کوئی نہیں پہنچا، گاؤں والوں نے بالٹی وغیرہ سے پانی پھینک پھینک کسی طرح آگ پر قابو پایا، اس میں علاؤالدین کا تقریباً لاکھوں کا نقصان ہوگیا.

سوشل میڈیا پر غیر قانونی اسلحے کے ساتھ فوٹو وائرل کرنا پڑا مہنگا، پولیس نے کیا گرفتار!

رپورٹ: محمد عامر
ــــــــــــــــــــــــ
مئو(آئی این اے نیوز 26/جنوری 2018) غیر قانونی اسلحے کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل کرنا ایک نوجوان کو مہنگا پڑ گیا، وہ کناڈا جانا چاہتا تھا، لیکن جیل پہنچ گیا.
بتا دیں کہ تھانہ سرائے لكھنسی رہائشی غیر قانونی اسلحے کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصویر وائرل کرنے والا گرفتار کر لیا گیا، کھلنایک فلم کے ہیرو کے رول سے متاثر تھا.
واضح ہو کہ گزشتہ 24 جنوری کو غیر قانونی اسلحے کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصویر وائرل کرنے  والا ملزم دھرمیندر بیٹے منئی رہائشی كاجھا خرد موڑ تھانہ سرائے لكھنسی مئو سے ایس او سندیپ یادو نے گرفتار کیا، تفتیش میں مذکورہ ملزم کی طرف سے بتایا گیا کہ شادی کی تقریب میں اپنے چچا زاد بھائی رام كمار بیٹے هری گووند رہائشی كاجھا خرد تھانہ سرائے لكھنسی شوقیہ طور پر تصویر کھینچ سوشل میڈیا پر ڈال دیا تھا، اس سلسلے میں سرائے لكھنسی  تھانے میں پریس کانفرنس کر ایڈیشنل ایس پی شیواجی نے میڈیا کو بتایا.

Thursday 25 January 2018

ھنــــدوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے!

تحریر: سلمان کبیرنگری ایڈیٹر نئی روشنی برینیاں سنت کبیر نگر یوپی
salmanahmed2771991@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی!
     اس ملک نے ہمیں جینے کا سلیقہ دیا، ہنر دئیے زندگی دی. ہم یہیں پر پیدا ہوئے اور یہیں پر دفن ہوں گے وہ الگ بات ہے کہ اسی ملک میں ہمیں کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر ان سب باتوں سے ہٹ کر اپنے ملک ہندوستان کے لئے ہمیشہ قربانی کا جذبہ رکھنا چاہئے علم وہنر کے میدان جتنا ہوسکے اتنا حصہ لینا چاہئیے حالانکہ تعلیمی میدان میں ہندوستان نے بے حد ترقی کی ہے بڑے بڑے ریاضی داں، سائنس داں ہندوستانی رہے ہمیں بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ تعلیم کے میدان میں خوب نام کمایا جائےاس ملک سونے کی چڑیا کہلانے کا مرتبہ بھی حاصل ہو،کیونکہ کہ ہندوستان وہ واحد ملک ہے جہاں پر تمام مزاہب کے لوگ مل جل کررہتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر تہوار مناتے ہیں اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل سنوارنے اور اس کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے یوم جمہوریہ مناتے وقت ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلانے میں کن کن رہنماؤں نے صعوبتیں برداشت کیں ذہنی جسمانی اذیت اٹھانے کے بعد انہوں نے آزادی کی تحریک چھیڑی اور انگریزوں کو اس ملک سے بھگانے پر مجبور کیا، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، گاندھی جی، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، اور ایسے کئی لیڈران ہیں جن فہرست بہت ہی لمبی ہے جن کے بارے میں آپ نے یقیناً تاریخ کی کتابوں میں پڑھے ہوں گے، جنہوں نے بڑی جرات مندی اور بہادری سے انگریزوں کے بے پناہ ظلم و ستم کا ڈٹ کر مقابلہ کیاہے تکلیفیں جھیلیں اور ہمیں آزادی دلائی اور انہیں رہنماؤں کی قربانیوں کے اعتراف میں ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں اور کیوں نہ منائیں یہ ہمارا قومی حق ہے اور یہی وجہ ہے کہ 26جنوری صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ جہاں جہاں ہندوستانی شہری رہتے ایک باوقار تقریب منعقد کیا جاتا ہے اپنی آبادی کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے.

26جنوری "یوم جمہوریہ" کا تاریخی پس منظر!

ازقلم: محمد صدرعالم نعمانی صدر جمعیت علماء سیتامڑھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ایک 15/اگست جس میں ملک انگریزوں کی غلامی سےآزاد ہوا، دوسرا 26/جنوری جس میں ملک جمہوری ہوا.
یعنی اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون لاگو ہوا، آزاد ہندوستان کا اپنا دستور بنانے کیلئے ڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29/اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جسکو ملک کا موجوده دستور مرتب کرنے میں 2سال 11ماه اور 18 دن لگے، دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہراک شق پر کهلی بحث ہوئی، پھر 26/نومبر1949کو اسے قبول کر لیا گیا، اور 24/جنوری 1950 کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیا.
مولانا صدرِ عالم نعمانی
   البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے دستور کے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکها کہ "یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اور توسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا"بہرحال 26/جنوری 1950 کو اس نئے قانون کو لاگو کر کے پہلا "یوم جمہوریہ" منایا گیا، اس طرح ہرسال 26/جنوری "یوم جمہوریہ"کے دن کے طور پر پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا.
اور 15/اگست 1947 کی طرح یہ تاریخ بهی ملک کا قومی اور یادگاری دن بن گئی.
26/جنوری کو جشن کے طور پہ کیوں مناتے ہیں، توآئیے تاریخ کے اوراق کا مشاہدہ کرتے چلیں:
 جشن کا یہ دن ہندوستانیوں کو یوں ہی نہیں ملا، اس کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑی، لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑے، تب جاکر 26/جنوری کو جشن منانے کا یہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہوا، انگریزوں کا پہلا قافلہ1601 میں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیا تها، اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947میں 346 سال بعد ہوا، اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی  جسکا ہر صفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے، جذبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان سب سے پیش پیش تھے، جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی، آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹها کہ ملک کا دستور کیساہو، مذهبی ہو یا لامذہبی، اقلیت و اکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں،
آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہند کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جمعیت علماءہند کے ناظم عمومی مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کو مراعات دلانے میں اہم کردار ادا کیا، چنانچہ آئین هند کے ابتدائی حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہےکہ
ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتےہیں کہ
" ہندوستان ایک آزاد, سماجوادی , جمہوری, ہندوستان, کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی, معاشی, سیاسی, انصاف, آزادئ خیال, آزادئ اظہار راے, آزادئ عقیدہ ومذهب وعبادات, انفرادی تشخص, اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا,اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکها جائیگا"
1971میں اندرا گاندهی نے دستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ "سیکولر" کا اضافہ کیا تھا، ہنوستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب وتمدن کے لوگ بستے ہیں، اور یہی رنگا رنگی یہاں کی پہچان ہے، 26/جنوری کو اسی مساوی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیرالمذاهب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لئے "جشن جمہوریت " منا کر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین و مرتبین اور ملک کی آذادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے.  
 انگریز"ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ساتھ 1601 میں تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا، اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاه کی حکومت تهی  (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تها، اس کا اصل نام سلیم نورالدین اور لقب جہانگیر تها) اس نےانگریزوں کا خیر مقدم کیا لیکن انگریزوں کو باقاعده تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاه خرم  (شاہجہاں) نے دی، رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑ میں فوجیوں کو انگلستان سے بلانا شروع کر دیا) مگر دہلی میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تهی کہ انگریزوں کو خاطر خواه کامیابی نہیں ملی، شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی، اٹهارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی انگریزوں کے عروج کا دورشروع ہوگیا، عیار اور شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضےکا پلان بنا لیا، ہندوستانیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنےکا منصوبہ طے کر لیا، انکے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بهانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی میں جس مرد مجاهد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور 1757 میں جام شہادت نوش کیا وه شیر بنگال نواب سراج الدولہ تها، پھر 1799میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور ٹیپو سلطان نے ملک پر جان نچھاور کردی، جسکی شہادت پر انگریز فاتح لارڈ ہارس نے فخر و مسرت کے ساتھ یہ اعلان کیا تها کہ
 " آج سے ہندوستان ہمارا ہے"
1803میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت "شاه عالم ثانی "سےجبرا ایک معاہده لکھوایا کہ
"خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت، کا اور حکم کمپنی بہادر کا"
یہ بات اس قدر عام ہوگئی کہ لوگ کہنے لگے
"حکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم"
یہ معاہده گویا اس بات کا اعلان تها کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکا ہے، وحشت و بربریت، ظلم وستم کی گهنگهور گهٹائیں پوری فضا کو گهیر چکی ہیں، وطنی آزادی اور مذهبی تشخص ان کے رحم و کرم پر ہوگی، ایسے بهیانک ماحول اور پرفتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے شاه عبدالعزیز دہلوی نے پوری جرأت و بیباکی کے ساتھ فتوی جاری کیاکہ
"ہندوستان دارالحرب ہے"
یعنی اب ملک غلام ہو چکا ہے، لہذا بلاتفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے، ان کےفتوی کی روشنی میں علماء کهڑے ہوئے، سید احمد شہید اور شاه اسماعیل شہید رحمهما الله آگے بڑهے، پورے ملک کا دوره کرکے قوم کو جگایا اور ان میں حریت کا جزبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگادی، اور 1831کو بالاکوٹ کی پہاڑی پر لڑ کر جام شہادت نوش کیا، دهیرے دهیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنےلگی، 1857 میں علماء نے پھر جہاد کا فتوی دیا جسکی وجہ سے انگیزوں کے خلاف معرکہ کا زار ایک بار پهر گرم ہوگیا، دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تهیں اور ہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بےشمار عیسائی مبلغین  (پادری ) کو بھی میدان میں اتار دیا تها، جسے انگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تهی، جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے، اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت نے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لئے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کیلئے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا براده ملا دیا ہے، کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوا دیا ہے، ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک ایسی آگ لگادی جس کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازمت کر رہے ہندوم  مسلم سب نے زبردست احتجاج کیا، کلکتہ سے احتجاج کی جو یہ چنگاری اٹهی تھی وہ دھیرے دھیرے انبالہ, لکھنئو, میرٹھ, مراداباد, اور سنمبھل وغیرہ تک پہنچتے پہنچتے شعلہ جوالہ بن گئی, احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور انکے ساتھیوں کو پھانسی  دے دی گئی، اور جہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت سے سخت کاروائی کی گئیں، احتجاجیوں کی بندوقیں چهین لی گئیں،  وردیاں پهاڑ دی گئیں، 1857 میں شاملی کے میدان  میں مرشد علماء حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، اور حافظ ضامن شہید رحمھم اللہ وغیرھم نے انگریزوں سے مردانہ وار مقابلہ، وہی بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر آزادی کے دیوانوں نے دہلی کا رخ کیا اور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے، مگر انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئی، اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857 کو لال قلعہ پر باقاعده قبضہ کرلیا، اور سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادرشاه ظفر کو گرفتار کر کے رنگون (برما) جلا وطن کردیا گیا، ستاون کی جنگ جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیاتها، اس جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم  وستم کی ایسی بجلیاں گرائی کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلم اور علماء تهے، اس لئے بدلہ بهی چن چن کر سب سےزیادہ انہیں سے لیا گیا، دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاش لٹکی ہوئی نہیں تھی،  چالیس ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کے
پھندے پر لٹکا دیاگیا تھا.
30/مئی 1866 کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور انکے ساتھیوں نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگےچل کر "دارالعلوم دیوبند"کے نام سے مشہور ہوا.
1878میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی جو آگے چل کر"شیخ الهند"کے لقب سے مشہور ہوئے.
"تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الهند" بزبان حکومت برٹش "ریشمی خطوط سازش کیس " انہیں کی پالیسی کاحصہ تهی،
" ثمرة التربیت " کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی جسکا مقصد انقلابی مجاهدين تیار کرنا تها، اور1911میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کلکتہ سے الهلال اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پهونکا تھا.
1915میں ریشمی رومال کی تحریک چلی، 1916میں ہندو مسلم اتحاد کی تحریک چلی، 1917 میں مہاتما گاندھی جی نے چمپارن میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہ آگرہ تحریک چلائی اور 1919میں "جمعیۃالانصار" کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جسکے پہلے ناظم  مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے.
وہی1919میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی اجلاس میں باضابطہ "جمعیت علماء هند" کی تشکیل ہوئی  جسکے پہلے صدر مفتی محمد کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے.
1919میں ہی امرتسر کے جلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے بے شمار ہندوستانی شہید ہوئے.
1920میں حضرت شیخ الهند نےترک موالات کا فتوی دیا جسے مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کر کےجمعیت کی طرف سے شائع کیا، 1921میں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیاکہ "گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے"
1922میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے شدهی اور سنگهٹن تحریکیں شروع کیں جسکی وجہ سے بڑے پیمانہ پر ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پهوٹ پڑے،
1926میں کلکتہ میں جمعیت کے اجلاس میں جسکی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی نے کی مکمل آزادی کی قرار داد منظور ہوئی،
1935میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایا گیا 1942 میں انگریزوں ہندوستان چھوڑوں تحریک چلی, باالاخر برٹس سرکار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی، اور 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوگیا، لیکن آزادی کی صبح اپنےساتھ تقسیم وطن کاایک ناقابل فراموش سانحہ بھی ساتھ لائ ,
آج بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہےکہ جنکاجنگ آزادی میں کوئی رول نہیں, وطن کی تعمیرمیں کوئی کردارنہیں, بلکہ جنکے ہاتھ بابائےقوم مہاتما گاندھی جی کےقتل کے خون سے رنگا ہو, جسکی پیشانی پرمذہبی تقدس کوپامال کرنےکاکلنک لگاہواہو, اورجسکےسروں پرہزاروں فسا دات,لاکهوں بےقصورانسانوں کے قتل, اوراربوں کھربوں کے املا ک کونقصان پہونچانےکامعاملہ ہو, جسکےزبان سے صرف نفرت کی آگ برستی ہو , وہی مسلما نوں سے محب وطن ہونے کا ثبوت مانگ رہا ہے ,  مدارس اسلامیہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہےکہ وہ 26جنوری اور 15اگست کو قومی پرچم لہراکرمحب وطن ہونےکاثبوت پیش نہیں کرتے,سچائ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں15اگست 1947 سےہی بڑے ہی تزک واحتشام کےساتھ پرچم کشائ کی جاتی ہے اوراس باربھی 26جنوری کو ملک بهر کے مدارس میں پورے  جوش وخروش کےساته 67واں جشن جمہوریت منایا جائیگا,
یہ جشن جمہوریت ہم اس لئے  مناتے ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس ملک کو آزاد کرانے میں سب سےزیادہ ہماری ہی قربانیاں ہیں,
کاش کے26جنوری"یوم  جمہوریہ "کے جشن زریں کے موقع پرحکمرانوں کے ذریعہ آیئن کےتحفظ اور جمہوری اقدار کی بقاکومقدم رکھنے کاحلف لیاجاتااور اس پر عمل کیاجا تا,نفرت بھرے ماحول کو امن بھائ چارے سے بدلنےکی بات کی جاتی , مساویانہ آئینی حقوق کویقینی بنایاجاتا, ملک دشمن عناصر کوکیفر کردار تک پہونچانےمیں امتیازنہیں برتا جاتا,گنگاجمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی , اقلیتوں خصولا مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پر لگام لگایا جاتا,گئورکچھاکےنام پربےقصور مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتارنےوالےکوطوق سلاسل پہنایاجاتا,لوجہاداورگھرواپسی  کےنام پرآتنک کاراج قائم کرنےوالوں کو تختئہ دار تک پہونچایا جاتا,سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کے نعرہ کو سب کیلئے عملی جامہ پہنایا جاتا تو "یوم جمہوریہ" کے معماروں کوسچی خراج عقیدت ہوتی.
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کایہ شعر ملا حظہ ہو:
                ـــــــــــعــــــــ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں  ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں  بیر رکھنا
ہندی ہے ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

مئو کی بیٹی "دلشــاد افروز" کو گورنر کے ہاتھوں ملا اعزاز!

رپورٹ: محمد عامر
ــــــــــــــــــــــــــ
مئو(آئی این اے نیوز 25/جنوری 2018) بنکر نگری مئو کی بیٹیاں تعلیم کے میدان میں اب تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں، اور تعلیمی آسمان چھونے کا خواب دیکھ ہی نہیں بلکہ پورا کر رہی ہیں، اسی کڑی میں مئو رہائشی دلشاد افروز کو پوروانچل یونیورسٹی میں گورنر کے ہاتھوں اعزاز سے نوازا گیا.
 معلومات کے مطابق تعلیم الدین انٹر کالج کے مینیجر انوارالحق نیشنل کی بیٹی دلشاد افروز کو ایم اے تاریخ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر گورنر رام نائک کی طرف سے پوروانچل یونیورسٹی میں گولڈ میڈل دے کر نوازا گیا.
اس موقع پر پوروانچل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر راجارام یادو، پروفیسر مسٹر کرشنا جوشی وغیرہ موجود تھے.
 واضح رہے کہ دلشاد افروز تعلیم الدين نسواں ڈگری کالج میں ترجمان ہیں، اس سے قبل بھی انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایجوکیشن میں گولڈ میڈل مل چکا ہے، انکی اس کامیابی پر تعلین الدين نسواں ڈگری کالج پرنسپل رفعت پروین، تعلیم الدین انٹر کالج کے پرنسپل ماسٹر مظہر، مولانا عبدالعلیم، ہریدوار رائے ایڈوکیٹ، ونود پانڈے ایڈووکیٹ، مولانا رفیق احمد، مولوی شاہنواز، اسعد نعمانی، چھایا ترپاٹھی، شگفتہ نسرین، سلطانہ پروین، فیروز احمد، حماد اعظمی، محمد افضل وغیرہ نے مبارکباد دی.

Wednesday 24 January 2018

عوام کا مزاج سیکولر اور جمہوری ہوگا تو نفرت کی سیاست کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے: مفتی اشفاق احمد اعظمی

رپورٹ: محمد انظر اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/جنوری 2018) قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ سراۓ میر کا یوم جمہوریہ کے موقع پر بیداری پروگرام بعنوان "یوم جمہوریہ اور ہماری ذمہ داری" دن میں ایک بجے محمد فیصل اعظمی کی صدارت میں منعقد ہوا، اس پروگرام میں کل 25 طلبہ 15اردو 8 انگلش 2ہندی مضمون پیش کیا طلبہ نے اپنے مضمون میں اس بات پر زور دیا کہ 26 جنوری یوم جمہوریہ یہ ہمارا قومی دن ہے اس دن جمہوریت کو یاد کرنا چاہۓ اس پروگرام میں مہمان خصوصی کے طور پر تشریف فرما مولانا انیس احمد اصلاحی نے کہاکہ سب سے پہلے میں انظر اعظمی اور پروگرام میں شرکت کرنے والے طلبہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس ملک کے آٸین اور تحفظ کی بقاء کے لئے ہم سب کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے اس کو اپنے مضمون میں پیش کیا اور لوگوں کو بیدار کیا.
اس موقع پر وصی صدیقی نے طلبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوۓ کہا کہ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ طلبہ نے یوم جمہوریہ بیداری پروگرام سراۓ میر کی سرزمین سے شروع کیا ہے انشاء اللہ ان کی یہ آواز ملک کے گوشے گوشے میں جاۓ گی، اس موقع پر سراۓ میر کے سابق چیٸرمین عبیدالرحمن صاحب نے کہا کہ آپکا یہ مختصر پروگرام سن کر بھت خوشی ہوئی آپ نے لوگوں کو یوم جمہوریہ پر بیدار کرنے کی جو پہل کی ہے وہ قابل مبارکباد ہے.
 پروگرام کے آخیر میں مفتی اشفاق احمد اعظمی نے کہا کہ قاسمی کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ جمہوریت کے تعلق سے پر مغز بہترین پروگرام پیش کیا اور مناسب موقع جمہوریت بیداری کے انتخاب پر ڈائرکٹر محمد انظر اعظمی کی ستائش کی طلبہ نے آئین اور جمہوریت کی تشکیل کے تعلق جو مضامین اردو اور انگلش میں پیش کیا فنی اور تحقیقی تھے، طلبہ سے درخواست ہے کہ آپ اپنا مزاج تحقیق اور مطالعہ کا بنائیں آپ کے اندر صلاحتیں بے پناہ ہیں آپ کو انسٹی ٹیوٹ کا اچھا میدان ملا ہے اس سے فاٸدہ اٹھاٸیں اور اپنے مستقبل کو تابناک بناٸیں آپ کے مستقبل سے پوری قوم کی امیدیں وابسطہ ہیں انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لۓ آزادی اور جمہوریت بھترین سرمایہ ہے اس کی نگھبانی ملک کے ہر شھری کی ذمہ داری بنتی ہے انہوں نے کہا ہمارا مزاج انسانیت نواز اور جمہوریت نواز ہونا چاہیئے ہم عوام میں اگر بیداری کے لئے کام کریں گے اور عوام کا مزاج سیکولر اور جمہوری ہوگا تو نفرت کی سیاست کرنے والے اپنےناپاک عزاٸم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے.
اخیر میں ڈائرکٹر انظر اعظمی نے آئے ہوۓ تمام لوگوں کا اپنی طرف اور طلبہ کی طرف طرف سے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آج کا ہمارا یہ پروگرام یوم جمہوریہ بیداری کا تھا ہم اس کو اب شوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعہ لوگوں تک پہونچانے کی کوشش کریں گے
 اس پروگرام میں ڈاکٹر اختر حنفی، مولانا افضل قاسمی، حافظ محمد عارف، حاجی جمشید اسلم سبھاسد محمد شاہد سبھا سد محمد صادق پترکار ہندوستان مفتی محمد اعظم اعظمی کے علاوہ طلبہ اور علاقے کے لوگ موجود تھے.

26 جنوری یوم جمہوریہ تاریخ کے آئینے میں!

تحریر: عاصم طاہر اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریت کا لفظ جمہور سے بنا ہے جو اکثر کا معنی دیتا ہے اور جمہوریت سے اکثریتی رائے مراد لی جاتی ہے جمہوری حکومت میں بھی کہیں نہ کہیں یہ معنی پنہاں ہیں یعنی اس کی تشکیل میں بھی اکثریتی رائے کا اعتبار کیا جاتا ہے،
26 جنوری یوم جمہوریہ بھارت کی ایک قومی تعطیل ہے جسے ملک بھر میں بڑے ہی شان و شوکت سے منایا جاتا ہے بھارت کی سرکاری تعطیلات تین ہے ایک یوم جمہوریہ دیگر دو تعطیلات یوم آزادی بھارت اور گاندھی جینتی ہے،
اگرچہ ہندوستان، 15 اگست 1947کو برطانوی تسلط سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن 26 جنوری 1950 کو ہندوستانی تاریخ میں  اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ اس دن ہندوستان کے آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ایک خود مختار ملک اور ایک مکمل طور پر رپبلکن یونٹ بن گیا، جس کاخواب ہمارے رہنمائوں نے دیکھا تھا، اپنے خون جگرسے گلستاں کی آبیاری کی تھی اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لیے جام شہادت بھی نوش کیاتھا۔ چنانچہ آئینی نفاذ کے دن کے طور پر 26 جنوری کوبطور یاد گار منانے کے لیے طے کیا گیا۔ یہ دن، آزاد اور جمہوریۂ ہند کی حقیقی روح کی نمائندگی کرتا ہے، لہٰذا اس دن ہمارا ملک ’’ایک جمہوریہ‘‘ ہونے کے ناطے اسے بطورتقریب مناتے ہیں،
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز 1857ء سے ہوا، یہ ایک غلط مفروضہ ہے جو جان بوجھ کر عام کیا گیا، تاکہ 1857ء سے سو برس پہلے جس تحریک کا آغاز ہوا تھا جس کے نتیجے میں بنگال کے سراج الدولہ نے 1757ء میں حیدر علی نے 1767ء میں مجنوں شاہ نے 1776ء سے 1780ء تک اور ٹیپو سلطان 1791ء میں مولوی شریعت اللہ اپنے بیٹے کے ہمراہ 1812ء میں اور سید احمد شہید 1831ء میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑیں تھیں وہ سب تاریخ کے غبار میں دب جائیں، اور اہل وطن یہ نہ جان سکیں،
یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے جشن کے حوالہ سے مدارس کے خلاف ایک بے اصل بیان کے ذریعہ مسلسل ایک طوفان برپا کرنے کی کوشش کی جا تی رہی ہے۔ حالانکہ تاریخ کا ادنی سے ادنی طالب علم بھی واقف ہے کہ جنگ آزادی میں مدارس کا کردار ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے آرایس ایس اور اس کی ہمنوا سیاسی پارٹی نے ان مدارس کے خلاف انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے دیکر ایک سوالیہ نشان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یوم جمہوریہ اور یوم آزادی کے موقع پر مدارس میں ترنگا نہیں لہرایا جاتا اور نہ ہی جشن منایا جا تا ہے۔ جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ان مدارس میں ان دونوں دنوں میں چھٹی بھی رہتی ہے, وطن عزیز کی آزادی میں مسلمانوں کردار کسی سے مخفی نہیں ہے خاص طور پر علماء کرام کا، اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہم پر شک کرنا ہمیں مشکوک قرار دینا انتہائی شرمناک اور بے ہودہ حرکت ہے.

شروع کی جس نے آزادی کی لڑائی وہ مسلمان ہی تھا،
دیا ہند کو تاج محل جس نے وہ شخص مسلمان ہی تھا،
جہاں لہراتا ہے ترنگا آج بھی بڑی شان سے ، کیا تعمیر جس نے لال قلعہ وہ شخص مسلمان ہی تھا،
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں  ہمارا" لکھا جس نے ترانۂ ہند وہ اقبال مسلمان ہی تھا.
خدائے عظیم ہمارے اس ملک کو دشمنوں کے شرو فساد سے محفوظ رکھے ہمارے وطن عزیز کو امن و آشتی کا گہوارہ بنادے ،اور اسے مزید ترقیوں سے نواز تاکہ وہ ہر میدان میں بلند مقام پر فائز ہو، آمین ثم آمیــــن

ہم چوں ڈنگرے نیست!

تحریر: محمد ساجد اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
عوام کی نگاہ میں ہم ایک عالم دین ہیں اور ان کے درمیان ہم عالم دین کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر بھی کرتے ہیں، وہ ہماری باتوں کو بغور سنتے بھی ہیں اور بطور سند لوگوں کے درمیان بیان بھی کرتے ہیں، انکا نظریہ ہے کہ مولوی صاحب نے کہا ہے یا بتایا ہے تو صحیح ہی ہوگا لیکن ان بے چاروں کو کیا خبر کہ ہم بھی بہت سی باتوں کو بغیر تحقیق و تفتیش کے پھیلانے اور اشاعت کرنے میں لگ جاتے ہیں.
لہذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی بھی بات کو آگے پہنچانے سے قبل اس کی چھان بین کر لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ نعوذ باللہ ہم بھی "بحسب المرء من الکذب ان یحدث بکل ما سمع (مسلم)" کے زمرے میں داخل ہوجائیں اور اس کے نتیجہ میں ہونے والے فتنہ و فساد کےذریعہ و سبب بن جائیں.
مذہب اسلام نے تو ہمیں اس بات کہ تعلیم دی ہے کہ کسی بھی خبر پر یقین کرنے سے پہلے اس کی جانچ پڑتال کر لو قرآن کہتا ہے
"(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ)
[Surat Al-Hujurat 6]
لیکن موجودہ زمانے میں اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، کچھ تو ہماری ناقص العلمی اور کچھ تو قلت مطالعہ مزید اس پر رنگ چڑھ گیا ہے سوشل میڈیا کا کہ ہمارے پاس کوئی خبر آئی نہیں کہ ہم فورا اسے پھیلانے میں لگ جاتے ہیں ہم میں سے کچھ تو اس تشہیر کو اپنا فرض منصبی سمجھ بیٹھتے ہیں، ہمیں اتنی بھی توفیق میسر نہیں ہوتی کہ اس خبر کی تحقیق کرلیں، آیا یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟
لیکن ہمیں اتنی فرصت کہاں کہ اسکی تلاش و جستجو میں لگیں! ہم اگر اس کی تحقیق و تفتیش میں لگے تو دوسرا بازی مار لے جائے گا اور اس دوڑ کے میدان میں اول مشتہر کا سہرا کسی اور کے سر باندھ دیا جائے گا اور اسی کو سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ متحرک و فعال تسلیم کر لیا جائے گا.
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہماری ایک غلط خبر سے لوگوں میں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا ہوجائے گا، خود ہمارے مدارس اس کا نشانہ بن سکتے ہیں،  نہیں! بھلا ہم کیوں سوچیں؟ ہمیں تو اول آنا ہے مسلمانوں میں اضطراب و بے چینی پھیلتی ہے تو پھیلنے دو، ہمیں کیا غرض، ہمارے نام کا شہرت کا ڈنکا تو پیٹا ہی جا رہا ہے، پوری اسلامی برادری میں ثابت کر دینا ہے کہ میں بھی کسی سے کم نہیں، تم ایک خبر بھیجو گے تو میں پانچ بھیجونگا بھلے ہی وہ غلط کیوں نہ ہوں، لیکن بھیجونگا ضرور...

بچوں کی تعلیم پر خصوصی دھیان دیں ادریسی سماج کے لوگ: طیب پالکی

رپورٹ: محمد عامر
ــــــــــــــــــــــــــ
جہانگیرآباد/مئو(آئی این اے نیوز 24/جنوری 2018)  مئو ضلع کے جہانگيرآباد میں ادريسی سماج کے سالانہ تقریب کا انعقاد کیا گیا، اس موقع پر لوگوں نے اپنے اپنے خیالات رکھا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  چیئرمین طیب پالکی نے کہا کہ ویر عبد الحمید کو مثالی ماننے والے ادريسی سماج کے لوگ بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیں.
 اس موقع پر قومی صدر نصیر ادريسی، مہمان خصوصی میونسپلٹی صدر طیب پالکی، شکیل احمد ادريسی، سکریٹری فہیم اختر ادريسی، نائب صدر فیروز احمد ادريسی، سابق صدر دلشاد احمد ادريسی، خزانچی نوشاد احمد ادريسی، سرپرست ڈاکٹر صدیق ادريسی، سرپرست شفعت اللہ ادريسی سمیت ادريسی سماج کے کافی تعداد میں لوگ موجود رہے.

راشٹریہ علماء کونسل کے ریاستی صدر ٹھاکر انیل سنگھ اور راشٹریہ ترجمان طلحہ رشادی نے ضلع "بریلی" کا کیا دورہ!

رپورٹ: ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/جنوری 2018) راشٹریہ علماء کونسل کے نیشنل ترجمان طلحہ رشادی اور ریاستی صدر ٹھاکر انیل سنگھ نے بریلی ضلع کا دورہ کیا اور لوگوں سے ملاقات کی، سیٹلائٹ کراس ٹاؤن کے قریب علی احمد خان کے رہائش گاہ میں ایک اجلاس میں ریاستی صدر انیل سنگھ نے پارٹی کا تعارف کرایا اور کہا کہ راشٹریہ علماء کونسل نے معاشرے کے مظلوموں غریبوں، ظلم کے خلاف مضبوط آواز اٹھا رہی ہے، پارٹی کا پہلے دن سے یہ نعرہ تھا "ایکتا کا راج چلے گا، مسلم ہندو ساتھ چلے گا". آج سماج کا ہر طبقہ پارٹی سے معتبر طور پر منسلک ہے.
راشٹریہ علماء کونسل کے ترجمان طلحہ رشادی نے کہا کہ یو پی اے کی حکومت تمام محاذوں میں ناکام رہی ہے اور عوام میں حکومت کے خلاف زبردست غصہ ہے، ایک سال میں کسانوں کا قرض معافی، بجلی، سڑک اور روزگار کا وعدہ  جس سے بی جے پی اقتدار میں آئی تھی، ان  میں سے کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا، پورے ریاست کی سیاست صرف فضول عاملے پر ہے.
واضح ہو کہ راشٹریہ علماء کونسل ریاست بھر میں لوگوں کے درمیان عوامی مسائل کو اٹھا رہی ہے اور آنے والے 2019 انتخابات کے لئے تیاری کر رہی ہے، اسی سلسلے میں ہم بریلی میں پارٹی کو توسیع اور مضبوط بنانے کیلئے دورہ کر رہے ہیں اور عوام کو آگاہ کر رہے ہیں.
اس موقع پر پی علی خان، فیصل، بلال، محمد زبیر، وغیرہ خاص طور پر موجود تھے.