اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے جمہوری افکار اور ان کی عصری معنویت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 26 January 2018

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے جمہوری افکار اور ان کی عصری معنویت!

تحریر: وصی اللہ سدھارتھ نگری
ــــــــــــــــــــــــ
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ
محبینِ وطن!
آج ہم اپنے اس عزیز ملک کا جشنِ یومِ جمہوریہ منارہے ہیں، جس کو ظالمانہ برطانوی ایکٹ سے نجات دلانے کے لیے ملک کے ہر طبقہ کے مجاہدینِ آزادی نےجب میدان میں قدم رکھا تو گنگا جمنی تہذیب کا خوش نما منظر پیش کیا، اور جب آزادی ملی تو اسی تہذیب کی بقاء کے لیے کوشاں رہے، آئیے آج 69ویں جشنِ یومِ جمہوریہ کے موقع پراس ملک میں جمہوریت کے قیام، اس کے بقاء واستحکام کیلئے انتھک جدوجہد کرنے والے ایک عظیم مجاہدِ آزادی کی جمہوری افکار پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر ان افکار کی عصری معنویت کا ایک اجمالی مطالعہ کرتے ہیں ، اُس عظیم سپوت کانام اِس ملک کی تاریخ میں، بطلِ حریت، جانشین شیخ الہند، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رح کے سنہرے الفاظ میں درج ہے.
ملک کے اس وفادار سپاہی نے جب حصولِ آزادی کے لیے میدان جنگ میں قدم رکھا تو ملک میں بسنے والے تمام طبقات کے مابین تشدد واختلاف اور تفریق وامتیاز کو ختم کرنے کا ارادہ کیا،تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمہوریت، اور اتحاد ویکجہتی کا درس دیا؛ اسی لئے تمام برادران وطن کے سامنے اپنی اس فکر کا اظہار بےدریغ ان الفاط میں کیا :
ہندوستان کبھی بھی سیاسی اور ملکی معاملات میں ہندومسلم تفریق وامتیاز کا قائل نہیں ہوا ہے، اس کی حکومتیں مسلم حکمرانوں کے زیرِ اثر رہی ہوں یا ہندو فرمانرواؤں کے زیرِ نگیں، کبھی بھی افتراق وامتیاز سے آشنا نہیں ہوسکیں
(شیخ الاسلام ایک سیاسی مطالعہ، ص/421، مؤلفہ :ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری)
آپ کی یہ جمہوری فکر یہیں پر تام نہیں ہوتی؛ بلکہ تحریک آزادی کی شبانہ روز جدوجہد کوجمہوری رنگ وروغن سے آشنا کرنے کے لیے 1945ء میں سہارنپور کی سرزمین سے تمام طبقات کو اخوت ومحبت اور جمہوریت کا درس ان الفاظ میں دیتے ہیں *:میرے محترم! وطن اور ابنائے وطن کی بربادی اور اس کے اسباب کسی خاص مذہب، کسی خاص برادری، کسی خاص شخص تک محدود نہیں ہوسکتے، وطن اور ملک کی بربادی جملہ ساکنینِ ملک کو برباد کرے گی اور کررہی ہے، ناؤ ڈوبتی ہے تو تمام اس کے سوار ڈوبتے ہیں، گاؤں میں آگ لگتی ہے تو سبھی گھر جلتے ہیں، اسی طرح یہ غلامی ومحکومیت جملہ اہلِ وطن کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے، کیا اس میں فقط ہندو مرے، یا فقط مسلمان مرے؟ نہیں، سبھوں کی بربادی ہوئی، ایسے وقت میں ہر ادنی سمجھ والا بھی اپنے داخلی وخارجی جھگڑوں کو چھوڑکر ضروری سمجھتا ہے کہ مصیبتِ عامہ کو سب سے پہلے زائل کردینا چاہیے، اس وقت تک چین نہ لینا چاہیے اور نہ اپنے داخلی وخارجی جزئی جھگڑوں کو چھیڑنا چاہیے، جب تک یہ مصیبت نہ ٹل جائے.
حضرت شیخ الاسلام کے سوانحی اوراق میں موجود یکجہتی اور جمہوری فکر کی بابت آپ کا یہ لطیف استدلال آج بھی ہمارے لیے خضرِ طریق کی حیثیت رکھتا ہے کہ::وأعدوا لم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون به عدو الله وعدوکم" یہ آیت صاف صاف بتلارہی ہے کہ مسلمانانِ ہند کے لیے اتحاد ضروری ہے؛ کیونکہ وہ فوج جس کے ذریعہ ہم دشمن کو لڑاسکتے ہیں اور اس کے پتھریلے دماغ کو پگھلاسکتے ہیں، وہ اہلِ ہند کے لیے ظاہری حیثیت سے اتحادِ ہند ومسلم اور صرف اتحادِ ہند ومسلم ہے؛ اس لیے یہ اتحاد اور قومی یکجہتی مذہبی حیثیت سے جائز ہی نہیں؛ بلکہ ضروری بھی ہوگا.
(حیاتِ شیخ الاسلام، ص/117، مؤلفہ :حضرت مولانا محمد میاں رح)

جمہوری ملک کے جمہوری باشندوں!
 نفرت کی دکانیں عصرِ حاضر کا خاصہ نہیں، ماضی میں بھی مفادپرستوں نے یہ دکانیں کھولی ہیں اور مقصد برآری کے لیے جمہوریت کو فنا کرکے ملک وقوم کو تباہ کرنا چاہا ہے؛ چنانچہ جب اس ملک کی آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کے جذبات پیدا کرنا چاہا، ان کے آپسی بھائی چارگی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، کسی کو بھڑکایا، کسی کو آمادہ پیکار کیا، تو ایسے نازک وقت میں بھی حضرت شیخ الاسلام رح نے ہندواورمسلم کو ان کا کھویا ہوا وقار یاددلایا، نفرت کو پیارومحبت سے اور کانٹوں کو پھول سے تبدیل کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ *:ہمارے ملک کے ہندو اگرچہ مذہب میں ہم سے جدا ہیں اور اگرچہ رجعت پسند انگریزوں کی انسانیت کش پالیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو" نے ان میں جذبہ ہائے نفرت پیدا کر دیے ہیں مگر باوجود اس کے ہندوؤں کا اور ہمارا خون ایک ہے ہمارے اور ان کے قدیم رشتے ناطے ہیں، ہمارے ان کے تعلقات ہیں، ہمارا اور ان کا رنگ ایک ہے ہماری اور ان کے بودوباش کے طریقے اور بہت سی اشیاء مشترک ہیں، ہماری اور ان کی زندگیوں میں اکثر ایک کو دوسرے کی حاجت ہے.
اسی طرح الجمعیتہ شیخ الاسلام نمبر صفحہ /120 کے مطابق آپ نے تمام برادران وطن کے دلوں سے فرقہ وارانہ جذبات وخیالات کو ختم کرتے اور ان میں جمہوری روح پھونکتے ہوئے فرمایا *:فرقہ وارانہ جذبات اور پرانی دشمنیوں، مختلف عقائد سیاسیہ ومذہبیہ کو اس وقت بھلادینا اور سب کو خواہ دیہاتی ہوں، قصبات کے باشندے ہوں یا شہری ہوں منظم ہوجانا لازم ہے، اس پروگرام کو اس وقت چلانا اور اس کی تلقین کرنا لازم قرار دیا گیا ہے اور میں چند مہینوں سے یہی کام کررہا ہوں.
برادران وطن!
        حضرت مدنی رح کے ان جمہوری افکار کو بار بار پڑھیے، بغور ان کا مطالعہ کیجیے، اگر منصف ہیں تو ان کی خلوصِ نیت کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ یقین ہے کہ عصرِ حاضر میں ان جمہوری افکار کی اشد ضرورت کا احساس کریں گے؛ لیکن آج کے حالات اس کے بالکل برعکس ہیں، آپ خوف نہ کریں اقتدار پر متمکن افراد اور جماعت کی غیر جمہوری پالیسیوں کو چھیڑ کر خوشی کے اس موقع پرآج آپ کا ذہن مکدر نہیں کروں گا، کیونکہ عملی طور پر آپ کو ہروقت ان کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہوگا، ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ یادرکھیے آج اگر آپ یومِ جمہوریہ کا جشن منارہے ہیں تو یہ جشن اس وقت تک ناقص ونامکمل ہی رہے گا جب تک آپ وطن اور قوم وملت کے حق کی بات نہ کریں، ملک وقوم کو ایک ہی درخت کے سایے میں آرام کرتا ہوا نہ دیکھ لیں، جب تک آپ کی نگاہوں کے سامنے وہ وقت نہ آجائے کہ نہ تو صبح کے وقت کسی کے دل میں کوئی کدورت اور حسدوکینہ ہو اور نہ ہی شام کے وقت، کیونکہ یہ چیزیں ایک جمہوری ملک کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہیں، اس کے بغیر نہ تو ملک کا ڈھانچہ برقرار رہ سکتا ہے، نہ باشندگانِ وطن کی ہڈیاں اور بوٹیاں.
لیکن اس مقصد میں کامیابی کے لیے آپ کو حضرت شیخ الاسلام کے مندرجہ بالا افکار کو عملی معنویت کا مفہوم پہنانا ہوگا کہ آپ کا عملی کردار کسی کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھنے کی اجازت نہ دیتا ہو، خود غرضی نے آپ کی بُو بھی نہ سونگھی ہو؛ کیونکہ ملک کے تمام طبقات کو آپسی خانہ جنگی کا شکار ہونے اور ایک دوسرے کی مخالفت سے بچانے کے یہی ایک شکل ہے اور ملک کے مجودہ حالات کا فتوی بھی کچھ ایسا ہی ہے.
لہذا جشن یومِ جمہوریہ کے اس موقع پر ہم سب پیارومحبت کی فضا کو عام کرنے اور نفرت کو اس ملک کی زمینی اور فضائی سرحدوں سے دور بھگانے کا عہد کرتے ہوئے یہ عزم کریں کہ :

پھولوں کا کنج دلکش بھارت میں اک بنائیں
حبِ وطن کے پودے اس میں نئے لگائیں

مرغانِ باغ بن کر اڑتے پھریں ہوا میں
نغمے ہوں روح افزا اور دل ربا صدائیں

حبِ وطن کے لب پر ہوں جانفزا ترانے
شاخوں پہ گیت گائیں، پھولوں پہ چہچہائیں

بلبل کو ہو چمن میں، صیاد کا نہ کھٹکا
خوش خوش ہو شاخِ گل پر، غم ہو نہ آشیاں کا

حبِ وطن کا مل کر سب ایک راگ گائیں
لہجہ جدا ہو گرچہ مرغانِ نغمہ خواں کا

ایک ایک لفظ میں ہو تاثیر بوئے الفت
انداز دل نشیں ہوں ایک ایک داستاں کا

موسم ہو جوشِ گل کا اور دن بہار کے ہوں
عالم عجیب دلکش ہو اپنے گلستاں کا

مل مل کے ہم ترانے حبِ وطن کے گائیں
بلبل ہیں جس چمن کے، گیت اس چمن کے گائیں