اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: November 2016

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 30 November 2016

امارت شرعیہ ہند کا اعلان !

آج ربیع الاول کا چاند نظر نہیں آیا !
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 30/نومبر2016) آج بعد نماز مغرب رؤیت ہلال کمیٹی امارت شرعیہ ہند کی میٹنگ زیر صدارت مولانا حکیم الدین قاسمی مرکزی دفتر امارت شرعیہ ہند بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں منعقد ہوئی جس میں چاند دیکھنے کا اہتمام کیا گیا مطلع صاف نہیں تھا چاند نظر نہیں آیا ملک کے مختلف مقامات سے رابطہ قائم کیا گیا کسی جگہ سے رؤیت کی اطلاع نہیں ملی اس کے پیش نظر کمیٹی نے 30 کی رؤیت کا اعتبار کر کے اعلان کیا کہ بتاریخ 2؍دسمبر 2016ء بروز جمعہ ماہ ربیع الاول1438ھ کی پہلی تاریخ ہوگی۔

ایک اور نیا فرمان جاری...

ازقلم: حبیب اللہ قاسمی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ نوٹ بندی کو لیکر حزب اختلاف نے حزب اقتدار کا جینا دوبھر کردیا ہے حزب اختلاف نے نوٹ بندی اور بی جے پی لیڈران کے خلاف اتنے ثبوت اکٹھا کرلیے ہیں کہ اگر ان ثبوتوں کو بنیاد بناکر حکومت لگام کسنا چاہے تو اس زمرے میں شامل تمام افراد آہینی سلاخوں کے پیچھے ہونگے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ حکومت اپنی ہی کھیتی کو اپنے ہی پیروں سے کچلنے کا کام کیسے کرسکتی ہے. جب حزب اختلاف نے حزب اقتدار پارٹی اور اس کے بااثر لیڈران کے خلاف نوٹ بندی کے تعلق سے اکثر ثبوت جمع کرکے انہیں ثبوتوں کی بنیاد پر اس گناہ کے مرتکب افراد پر کارروائی کیلئے دباؤ بنانے لگییں اور پالیمنٹ میں وزیراعظم کو گھیرنے لگیں تو اس انتہائی حساس مسئلے میں لوگوں کو الجھانے اور صاف طور پر اس سے بچ نکلنے کیلئے شاہ وقت کیطرف سے ایک اور کڑک دار فیصلہ صادر ہوا فیصلہ میں ہدایت دی گئی ہے کہ ۸ نومبر سے ۳۱ دسمبر تک بی جے پی کے تمام لیڈران اپنے بینک اکاؤنٹس کی تمام تفصیلات یکم جنوری ۲۰۱۷ تک امت شاہ کے پاس فوری جمع کرائیں تمام تفصیلات کے موصول ہوجانے کے بعد حکومت ہرفرد کے اکاؤنٹ کی بڑی باریک بینی کے ساتھ جائزہ لےگی اس دوران جتنے بھی لیڈران کے اکاؤنٹ میں غیرقانونی طریقے سے لین دین کی نشاندہی ہوگی ان کے خلاف سرکار ضرور ٹھوس اقدام کرےگی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ بھی ایک جملہ ہے لیکن اگر تھوڑی دیر کیلئے یہ فرض کرلیا جائے کہ واقعی ہمارا دیش بدل رہا ہے غیرقانونی لین دین کرنے والوں اور کالے دھن کے رکھوالوں کی خیر نہیں ہے مودی جی اپنا وعدہ وفا کرنے پر تل گئے ہیں تب بھی ان کا یہ فیصلہ مشکوک دائرے میں ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے کیونکہ آپ نے غور کیا ہوگا تو محسوس بھی کیے ہونگے کہ بی جے پی لیڈران کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع ہونی ہے امت شاہ کے پاس اور خود امت شاہ نے پچھلے چھ سات مہینوں کے اندر بہار کے مختلف ضلعوں میں تقریباً تین کروڑ کی زمینیں اپنے نام کی ہیں ان کے علاوہ بھی بی جے پی کے دیگر لیڈران کے نام بھی اس فہرست میں آرہے ہیں جنہوں نے ملک کے دیگر حصوں میں جائیدادیں اپنے نام کی ہیں اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اب کون سا نیا ڈرامہ ہونے والا ہے. مگــــــــر جس کی نیت درست نہ ہو اس کی زبان کب تک کنٹرول کرسکے گی بالآخر نیت کا اثر زبان پر بھی ظاہر ہوہی جاتا ہے اگر ایمانداری اور عوام کی اتنی ہی فکر دامن گیر ہے اور واقعی سچائی اور حقائق کا سامنا کرنا ہے تو پچھلے چھ سات مہینوں کی مکمل تفصیلات طلب کیجئے اور ملک وقوم کے ان حقیقی غداروں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچایئے بہت ساری دعائیں ملیں گی لیکن ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے کیونکہ عوام الناس کی اکثریت نے آپ کی فطرت کو بہت ہی باریک بینی سے پڑھ کر سمجھ لیا ہے اس لیے آپ کے اس جملے کی چکر میں لوگوں کے پھنس جانے کی امید جیسی آپ اور آپ کے بھکت کررہے ہونگے ویسی نہیں ہے اور ہوبھی کیونکر.....؟ یہ تو محض ایک سازش اور نیا سیاسی کھیل ہے تاکہ اگلے شوشہ کے چھوڑے جانے تک اب عوام اس کھیل میں مست رہیں اور سرکار اپنے کھیل میں نوٹ بندی کے تین ہفتے گزر جانے کے بعد بھی عام انسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اب تو حالات فاقہ کشی تک پہنچ گئے ہیں ابھی تک تو اس نوٹ بندی کی چکر میں لوگ کسی بڑے صدمے سے موت کی آغوش میں پہنچ جارہے تھے جیسی خبریں موصول ہورہی ہیں ان کے مطابق اب اموات کا سلسلہ فاقہ کشی کیوجہ سے نہ شروع ہوجائے اس کا خوف ستانے لگا ہے مگر حکومت خواب خرگوش میں مست ہے جہاں تک اس نئے شاہی فرمان کی بات کریِں تو یہ عام جنتا کے ساتھ انتہائی بھونڈا مذاق ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں حکومت کو عوام کے مسائل برق رفتاری کیساتھ سلجھانے کی شدید ضرورت ہے نہ کہ نت نئے مسائل کھڑا کرکے اس میں الجھانے کی

اعظم گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ چین سے بیڈ منٹن ٹورنامنٹ میں گولڈ میڈل جیت کر پہنچے اعظم گڑھ، ہوا شاندار استقبال!

ثاقب اعظمی ــــــــــــــــــــــــ اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2016) چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقد پیرا بیڈمنٹن چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل جیت کر ملک اور ضلع کا نام روشن کرنے والے ضلع مجسٹریٹ سہاس ایل وائی صاحب آج اعظم گڑھ ضلع کی سرحد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا بلیساں منڈی سے شروع ہوکر ان کا روڈ شو پورے شہر سے ہوتے ہوئے گزرا اس دوران شہر کے کھلاڑیوں و عوام نے بھی ان کا استقبال کیا جناب سہاس ایل وائی صاحب کا صبح 09:00 بجے بلیساں منڈی سے شروع روڈ شو چلڈرن کالج، سینٹرل پبلک اسکول، سکھدیو پہلوان مورتی، ترنگا پارک نرولی، چرچ چوراہا، سول لائنس، نگر پالیکا تراہا، پرانی کوتوالی، تکیا ہوتے ہوئے پہاڑ پور تراہے سے شبلی نیشنل کالج کے راستے سکھدیو پہلوان اسپورٹس اسٹیڈیم پہنچے شبلی نیشنل پی جی کالج کے طلبہ و دیگر اسکول کے بچوں سمیت اعظم گڑھ شہر کے تمام لوگوں سمیت دیہات سے آکر بھی لوگوں نے روڈ کے کنارے لمبی لمبی لائنیں لگار کر ان کا استقبال کیا. واضح رہے کہ اس روڈ شو کے دوران فورس کا کافی انتظام رہا ضلع مجسٹریٹ سہاس ایل وائی کے کارکنان نے متعلقہ حکام کو تیاریوں کے سلسلے میں ہدایات دی تھی.

12/ربیع الاول کو جشن منانا اسلام میں نہیں ہے: محمد انظر اعظمی

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہونے والا ہے اس مہینے کی 12/تاریخ کو کچھ لوگ عید مناتے ہیں اور اس دن کو عید میلاد النبی کہتے ہیں حالانکہ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں تیسری عید کا کوئی ثبوت نہیں اگر اسلام میں یہ عید ہوتی تو باقی دو عیدوں کی طرح اس کی نماز بہی اور اس کی فضیلت بہی حدیث میں پائی جاتی لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں اسلام مسلمانوں کے عمل کا نام نہیں اسلام قرآن اور حدیث کا نام ہے صحابہ تابعین کے بعد کسی امام اور محدث نے بھی یہ عید نہیں منائیں عید میلاد النبی ایک فضول رسم اور بدعت ہے مسلمانوں کو اس سے دور رہنا چاہئے اللہ تعالٰی ہم سب کو قرآن وحدیث کے ساتھ دین اسلام پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے. آمیـــــن

نوٹ بندی سے دارالعلوم دیوبند و دیگر بڑے ادارے کے ذمہ داران شدید مسائل سے دوچار !

محمد عاصم اعظمی ـــــــــــــــــــــــــــــــــ دیوبند(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2016) وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ 500 اور 1000 کے نوٹوں کو بند کئے جانے سے ملک میں پیدا ہوئے معاشی بحران میں بیس دن بعد بھی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی ہے اور حالات سے ایسا اندازہ لگا یا جارہاہے کہ جلد ی معمولات پٹری پر لوٹ بھی نہیں پائینگے نوٹ بندی سے جہاں، عام آدمی، تجارتی مراکز اور چھوٹی بڑی صنعتیں مکمل طورپر تنزلی کی طرف چلی گئی وہیں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام الحمداللہ معمولات کے مطابق جاری وساری ہے لیکن وقتی پریشانیوں اور بینک اہلکاروں کے ناروا سلوک سے یہ الہامی ادارہ بھی پوری طرح متاثرہے ادارہ نے جہاں موجودہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام تعمیراتی کاموں کو بند کردیاہے وہیں ملک بھر سے تمام سفراء کو بھی واپس بلالیا گیاہے گزشتہ 8؍ نومبر کو 500 اور 1000 کے نوٹوں کی بندی کے بعد پورے ملک میں اقتصادی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی، جس کا اثر یقینی طور پر ازہر ہند دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے اداروں بر بھی پڑا دارالعلوم دیوبند کے محاسبی اور تنظیم و ترقی محکمہ کے کارکنان مسلسل بینکوں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن انہیں بھی وہی رقومات فراہم کرائی جارہی ہیں جس کی ہدایت آر بی آئی کی طرف ایک عام آدمی کے لئے ہے، یعنی ایک اکاؤنٹ سے ہفتہ بھر میں محض چوبیس ہزار روپیہ ہی دیئے جارہے ہیں، کئی بینکوں کا عالم تو یہ ہے کہ وہ ادارے کے کارکنان کے ساتھ بدسلوکی تک کررہے ہیں، جس سے عوام میں سخت غم وغصہ ہے اطلاع کے مطابق دارالعلوم دیوبند جیسے کروڑوں کے بجٹ والے ادارے کو گزشتہ بیس یوم میں اپنے بینک اکاؤنٹ سے محض تین لاکھ روپیہ کی ہی آمد ہوئی ہے دارالعلوم دیوبند میں بشمول تنخواہیں نو سے دس لاکھ روپیہ تک کے یومیہ اخراجات ہیں لیکن بینک اکاؤنٹ سے ملنے والی حکومت کی جانب سے مختص کردہ رقم اس ضخیم بجٹ کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے، باوجود اس کے الحمد اللہ ادارے میں تمام علمی سرگرمیاں اور مطبخ کا نظام معمول کے مطابق جاری ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ادارے کے ذمہ داران شدید مشکلات سے گذر رہے ہیں اور ان کے سامنے مسائل کا انبار ہے، جہاں ادارے میں ڈیلی بیسز(اجیران) کو ان کا محنتانہ دینے میں دقتیں ہورہی ہیں وہیں تقریباً پانچ سو سے زائد ملازمین و کارکنان کی تنخواہیں دینے کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا، حالانکہ انتظامیہ نے پہلی فرصت میں دانشمندانہ قدم اٹھاتے ہوئے سرکولر جاری کرکے تمام اساتذہ اورکارکنان کے سیلری اکاؤنٹ ایچ ڈی ایف سی بینک میں کھلوا دیئے ہیں اور وظیفہ حاصل کرنے والے طلباء کو بینکوں میں کھاتے کھلوانے کی ہدایت دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر سے تمام سفراء کو واپس بلا لیا گیا ہے اور نوٹ بندی کے بعد ادارہ کے دفتر تنظیم و ترقی کی آمدنی نہ کے برابر ہوگئی ہے حالانکہ تعمیرات پر اس وقت مکمل طریقہ سے روک لگا دی گئی ہے لیکن ضروری اخراجات بشمول مہمانوں کی آمدورفت، مطبخ اور طلباء و کارکنان کی بنیادی ضروریات کو تکمیل میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم مولانا عبدالخالق سنبھلی کے مطابق دارالعلوم دیوبند کی تمام ضروریات اللہ کی رحمت اور خیر خواہان کے تعاون سے پوری ہوتی ہیں اور انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی کے سبب وقتی پریشانیاں آرہی ہیں، جس کے سبب ادارہ اپنے ہی اکاؤنٹ سے ضرورت کے مطابق رقم نہیں نکال پارہا ہے، لیکن انتظامیہ مسلسل بینکوں کے رابطہ میں ہے تاکہ اکاؤنٹ سے ضرورت کے مطابق رقم حاصل ہوسکے ،انہوں نے کہا کہ بہر حال وقتی طور پر ادارے کے سامنے بڑے مسائل ضرور پیدا ہوگئے ہیں لیکن امید ہے کہ اللہ تعالیٰ غائبانہ طور پر ادارے کے تمام مسائل حل فرمائینگے۔ ادھر دارالعلوم وقف دیوبند ، مظاہر علوم سہارنپور، دارلعلوم زکریا دیوبند، جامعہ امام محمد انور شاہ، جامعۃ الشیخ جیسے اداروں کاحال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم تمام خیر خواہان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس نازک گھڑی میں دارالعلوم دیوبند جیسے اداروں کی بڑھ چڑھ کر معاونت کریں۔

Tuesday 29 November 2016

نوٹ بندی کو لیکر انجانشہید بازار میں پریشان ہو کر عوام نے لگایا جام !

عبید اعظمی ـــــــــــــــــــــــ سگڑی/ اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2016) جین پور تھانہ علاقہ کے تحت انجانشہید بازار میں عوام نے آج اعظم گڑھ گورکھپور مین روڈ کو جام کر دیا گزشتہ 20 دنوں سے نوٹ بندی کو لیکر ہورہی پریشانیوں سے عوام اکتا چکی ہے بینکوں و اے ٹی ایم میں لائن لگا لگا کر لوگ تھک چکے ہیں. واضح رہے کہ انجانشہید بازار میں گرامڑ بینک میں نقد نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی دقتیں بڑھ گئی ہیں آج تقریباً پانچ دنوں سے لوگ اس بینک کا چکر کاٹ رہے ہیں لیکن ابھی تک بینک میں نقد نہ ہونے سےلوگوں نے اعظم گڑھ گورکھپور مین روڈ کو جام کیا کئی گھنٹوں تک روڈ جام ہونے کی وجہ سے دو کلو میٹر تک گاڑیوں کی لمبی لائن لگ گئی اطلاع پا کر جین پور تھانہ انچارج اپنی ٹیم کے ساتھ آ پہنچے اور کافی دیر کے بعد عوام کو سمجھا بجھا کر دقتوں کو دور کرنے کا بھروسہ دلاکر جام ختم کرایا.

اعظم گڑھ کے ایک صحافی کا شکایتی خط!

خدمت میں ــــــــــــــــــــــــــ محترم شکایت افسر صاحب ! بینکنگ لوکپال ریزرو بینک آف انڈیا موضوع: شاخ مبارکپور یونین بینک اہلکاروں کی طرف سے بے حیائی اور لوگوں کو پریشان کرنے کے سلسلے میں میں جاوید حسن انصاری ولد نوشاد احمد ساکن محلہ پورہ صوفی مبارکپور اعظم گڑھ (یو پی) پیشے سے صحافی ہے اور "دینک سندیش ٹائمز وارانسی ایڈیشن ہندی کا مبارکپور کے علاقے سے باقاعدہ نمائندہ ہے. اس کے علاوہ اور بھی آن لائن ویب نیوز "اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS" و "اعظم گڑھ لائیو" کے لئے خبریں لکھتا ہے. یونین بینک آف انڈيا شاخ مبارکپور میں بینک افسران و ملازمین سمیت بینک میں دلالوں کی ملی بھگت سے شہر کی دولت مند لوگوں کے 500 اور 1000 کے پرانے نوٹ بھاری كمشين لے کر تبدیل کر رہے ہیں اور عوام کو طرح طرح سے پریشان کر ان کو واپس لوٹا دیتے ہیں. مزدوروں، بنکروں، رکشہ چالاكوں وغیرہ سے دو ہزار کے لین دین پر بھی پین کارڈ مانگتے ہیں. جس کے بارے میں نیوز میں شائع کیا، جس پر بینک کے افسر اور ملازم مجھ سے دشمنی لے رہے ہیں. تاریخ 25/11/2016 کو میں بینک گیا. وہاں پر موجود بینک اہلکار نے میرے کیمرے لے کر اس میں موجود تمام فوٹو ہی نہیں سارا نظام ڈیلیٹ کر دیا اور دھمکی دینے کے ساتھ ہی میرے ساتھ بے حیائی کی. موقع پر مبارکپور تھانے کی پولیس و شہر چوکی انچارج انیرودھ کمار سنگھ پہنچ کر درمیان دفاع کیا. بینک اہلکار گاہکوں سے اکثر گالی گلوج کرتے رہتے ہیں اور وقت سے ان کا کام نہیں کرتے، جس سے بینک کی شبیہ خراب ہو رہی ہے. لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ معاملے کو نوٹس میں لیتے ہوئے اچھے طریقہ سے اانچ کروا کر مجرم افسر و ملازمین کے خلاف مناسب کارروائی کریں تاکہ بینک سے عوام کی ضروریات پوری ہو سکے ہو رہی اور مجرم بینک حکام و ملازمین پر نکیل کسی جا سکے. 🔷شکریہ🔷 تاریخ: 29/11/2016 جاوید حسن انصاری ولد نوشاد احمد ساکن محلہ 1 پورہ صوفی مبارکپور اعظم گڑھ(یو پی) 📞08737074199

شہرت یافتہ شاعر اسعد بستوی صاحب کی آبائی وطن رونا کلاں بستی میں آمد!

شعیب اختر بستوی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ بستی(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2016) اسعد بستوی مقیم ممبئی آج انشاءاللہ 29 نومبر 2016 کو اپنے آبائی وطن رونا کلاں ضلع بستی تشریف لا رہے ہیں. اپنے سہ روزہ قیام میں اسعد صاحب بستی اور سنت کبیر نگر کے کئی علمی ادبی سیاسی و سماجی شخصیات سے ملاقات کریں گے اور قوم و ملت پر ہو رہی نا انصافی پر تبادلہ خیال بھی کریں گے. واضح رہے کہ اسعد بستوی بہار، جھار کھنڈ، کرناٹک، حیدر آباد، اترپردیش، مدھیہ پردیش مہاراشٹر و دیگر ریاستوں میں منعقد ہونے والے عالمی و آل انڈیا مشاعروں و جلسوں میں اپنے ضلع کی زبردست نمائندگی کی ہے اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے اپنے گھر سہ روزہ قیام کے بعد پھر اسعد صاحب 4/ دسمبر 2016 کو کٹرہ مظفر پور صوبہ بہار میں ہونے والے مشاعرے کے لئے روانہ ہو جائیں گے اسعد بستوی کی گاؤں آنے سے بستی کے ادبی حلقوں میں کافی جوش و خروش پایا جا رہا ہے.

Monday 28 November 2016

مبارکپور یونین بینک اہلکاروں کی بے حیائی کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ مینیجر آ پہنچے، بینک اہلکاروں میں مچی کھلبلی !

جاوید حسن انصاری ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2016) مبارکپور یونین بینک میں کچھ بینک اہلکاروں و دلالوں کی ملی بھگت سے امیروں کے بلیک منی کو سفید کرنے کے لئے اور بھولی بھالی غریب بنکر و کسان سے پین کارڈ اور بینک کی کاغذی خانہ پوری کر دو ہزار کے لین دین پر پین کارڈ کا مطالبہ کر نئی مصیبت لا کھڑی کر دی ہے اور یہ بینک اہلکاروں کی دادا گیری اب یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک صحافی سے بینک کے اہلکاروں نے قوانین کی معلومات لینے کے سلسلے میں کہا سنی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ مبارکپور قصبہ میں سرخیوں میں آنے کے بعد بینک کے اعلیٰ اہلکاروں کے کانوں تک خبر جب ہوئی تو آناً فاناً ایک ٹیم تشکیل دے کر مبارکپور قصبہ میں آ پہنچے جس کی بات چیت سے بازار گرم ہے مذکورہ معاملہ بلیک منی کو سفید کرنے سے منسلک ہونے پر بینک اہلکار کسی بھی طرح کے بینک کے تئیں کوئی بھی خطرے اٹھانا مناسب نہیں سمجھ رہے ہیں. غور طلب ہے کہ گورکھ دھندہ کی بات چیت سے یونین بینک کا ماحول گرم ہونے پر طرح طرح کی بات سننے پر "آئی این اے نیوز " و دیگر پورٹل اور اخباروں میں شائع ہونے پر ایک سوال پوچھنے پر صحافی سے بے حیائی کے ساتھ پیش آنے پر بینک کی خیر خبر لینے اعلیٰ مینیجر بینک کے اہلکاروں اور پالتو دلالوں میں کھلبلی مچ گئی اور اعلیٰ افسر اتوار کو چھٹی کا دن ہونے کے باوجود بھی ضلع کے کئی بینک افسر مبارکپور میں ڈیرہ ڈال رکھا اور صحافی سے صلح معاہدے کے لئے جگاڑ میں دلالوں کے کہنے پر ادھر ادھر دوڑتے رہے جس میں شہر کے ایک سماجی کارکن ببلو مشرا کے دخل پر افسر ساڑھے 9 بجے تک بینک کی ناقص کاموں کو معافی و ثبوت قائم کرنے کے لئے پہل ہوتی رہی جس پر الزام تراشی کا دور چلا لیکن صحافی کے ساتھ ہوئے بے حیائی کی بات آکر بینک کے اعلیٰ افسر کے درمیان کوئی ثبوت ٹھوس نہیں نکلا لیکن افسر کی طرف سے یہ صاف کر دیا گیا کہ جانچ کرانے کے بعد مجرم بینک اہلکاروں کو بخشا نہیں جائے گا چاہے شراب پی کر بینک میں ملازم یا کوئی دلال ہی کیوں نہ ہو اسے چھوڑا نہیں جائے گا. اس سلسلے میں تحقیقات کرنے آئے مبارکپور میں آر او راجیش یادو کا کہنا ہیکہ تحقیق ہم خود کر رہیں ہے جو بھی بینک اہلکار شراب کے نشے میں کام کیا اور بے حیائی کیا اس کے خلاف کارروائی طے ہے. واضح ہو کہ یونین بینک مبارکپور تمام بینکوں سے خراب سروس دے رہا ہے صرف بڑے لوگوں کے ساتھ ہی رحمت ہے اور تو اور عام لوگوں سے تعلق انتہائی خراب ہے چھوٹے لوگوں سے پین کارڈ مطالبہ کر ان کی پریشانی بڑھا دی ہے جس سے یونین بینک کے تئیں لوگوں کا غصہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کسی بھی وقت مشتعل ہو سکتا ہے جس کے قصوروار بینک کے ذمہ دار ہوں گے لوگوں نے ضلع مجسٹریٹ سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے.

نوٹ کی چوٹ !!!

ازقلم: حبیب اللہ قاسمی ـــــــــــــــــــــــــــــــ آج تقریباً بیس دنوں سے وطن عزیز کے عام باشندوں کی زندگی نوٹ بندی کی چکی میں بری طرح سے پس رہی ہے اور ملک کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ہمارے اس فیصلے سے عام لوگ کافی خوشحال نظر آرہے ہیں حالانکہ ان کی بات میں کتنی سچائی ہے اس سے ہر خاص وعام واقف ہے حکومت کے اچانک اس فیصلے کو لیکر جہاں ملک کے گوشے گوشے سے اس فیصلے کی حمایت کی جارہی ہے  وہیں ملک کے دیگر بہت سارے علاقوں سے لوگ اس کی مخالفت پر بھی اتر آئے ہیں. حمایت دینے والوں کے پاس اس کی کوئی بھی واضح دلیل نہیں ہے کہ اس فیصلہ کے ذریعے  مستقبل میں کالے دھن پر مکمل پابندی لگائی جاسکےگی یا نہیں. مگر مخالف رائے رکھنے والوں کے پاس پختہ ثبوت ہیں. کیونکہ نوٹ بندی کا اثر جو اب تک ہم لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے دلوں کو دہلادینے والا ہے لیکن جن کے پاس درد دل ہی نہ ہو بھلا ان کا دل کیسے دہلےگا؟ آئے دن ملک میں کہیں نہ کہیں کسی کے مرنے کی خبر موصول ہورہی ہے تو کسی کی شادی ٹوٹ جانے کی. حکومت کے اس احمقانہ فیصلے نے کتنے گھروں کو تباہ وبرباد کرڈالا کتنے ہی بچے یتیم ہوگئے بہت ساری عورتوں نے اپنے شوہروں کو کھودیا  ان سب کا ذمہ دار کون ہے...؟ مگر نوٹ بندی کا فرمان جاری کرنے سے پہلے اس فیصلہ سے برآمد ہونے والے نتائج پر بھی سنجیدگی سے غوروفکر کیا گیا ہوتا تو حکومت کی اس قدر تذلیل اور عوام الناس کو اتنی تکلیف نہ ہوتی.

بہوجن سماج پارٹی کو متحد ہو کر مضبوط بنائیں: ایم ایل سی محمود

سفیان فلاحی ــــــــــــــــــــــــــــــ سہارنپور(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2016) قصبہ چھٹملپور میں بہوجن سماج پارٹی کے ایم ایل سی محمود ایم ڈی صاحب و خادم قوم و ملت حاجی اقبال احمد صاحب سابق ایم ایل سی سہارنپور منڈل کے چھٹملپور کا دورہ کیا جس میں ایم ایل سی صاحب نے تمامی لوگوں سے اپیل کی کہ آپس میں بھائی چارے کو فروغ دیں ہندو، مسلم، دلت سب متحد ہوکر بسپا کو مضبوط کریں، حاجی اقبال ایم ایل سی نے عوام کی پریشانیاں سنی اور انکو ایک ہفتہ کے اندر حل کرانے کا وعدہ کیا اس فورہ میں سماجی کارجن سمیت عوام نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی علاقہ کی معزز شخصیت ڈاکٹر راؤ شاہد بدر عالم نے ترتیب دیا اور تقریباً نصف گھنٹہ رکے اور عوام کی پریشناں سنی پروگرام کا آغاز نوجوان شاعر نور رسولپوری نے کیا اس موقع پر بھائی شہزاد، راؤ لئیق، سفیان فلاحی، ببلو کمار، مولانا سرور عالم ، قاری عابد کاشفی، راؤ قاری انعام، رضوان احمد، ڈاکٹر رضوان وغیرہ نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور بھٹ ودھان سبھا کے بسپا امیدوار محمود ایم ایل سی کو ایک طرفہ جتانے کا وعدہ کیا.

مبارکپور میں جشن عید میلاد النبی کی تیاری میں میٹنگ منعقد!

جاوید حسن انصاری ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2016) اعظم گڑھ کے ریشم نگری قصبہ مبارکپور میں جشن عید میلادالنبی کی تیاری کے سلسلے میں مرکزی انجمن اہل سنت و اشرفی دارالعلوم مطالعہ کے کارکنان نے گذشتہ رات ماہ نامہ اشرفیہ میں ہنگامی میٹنگ کی جس کی صدارت الجامعة الاشرفیہ عربی یونیورسٹی مبارکپور کے پرنسپل مفتی محمد نظام الدین صاحب رضوی نے کی اجلاس میں مرکزی انجمنوں سے متعلق 21 انجمنوں کے ذمہ داروں نے حصہ لیا جس میں آئندہ عید میلاد النبی کی تیاری سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا مرکزی انجمن کے جنرل سکریٹری حاجی محمد مظہر انصاری نے کہا کہ 11 ربیع الاول کو بعد نماز ظہر ماہ نامہ دفتر میں میں موئے مبارک کی زیارت کرائی جائے گی، اسی دن رات 9 بجے سبزی منڈی میں جلسہ عید میلادالنبی ہوگا اور 12 ربیع الاول کو صبح سات بجے دارالعلوم گیٹ سے ایک بڑا جلوس نکالا جائے گا جو پورے شہر میں دورہ کر شام کو لال چوک کے قریب نعتیہ پرگرام میں تبدیلی ہو جائے گا اس اجلاس میں بنیادی طور پر جامعہ اشرفیہ کے ناظم اعلیٰ مینیجر حاجی سرفراز احمد انصاری، نائب صدر حاجی صوفی نظام الدین، حاجی محمد مظہر انصاری، حاجی محمود اختر نعمانی، محمدسلیمان انصاری، حاجی اسرار الحسن انصاری، حاجی عطاء اللہ انصاری، مختار احمد عليگ وغیرہ موجود رہے آخر میں مفتی محمد نظام الدین صاحب نے جشن عید میلاد النبی پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کے بتائے راستے پر چلنے کا اعلان کیا.

Sunday 27 November 2016

نگر پالیکا مبارکپور کے کیشیئر راغب مسعود کی اپیل الہ آباد کورٹ سے مسترد، نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا !

بغیر ضابطہ کے دی گئی نوکری مہنگی پڑ گئی ـ
جاوید حسن انصاری ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2016)نگر پالیکا مبارکپور کے کیشیئر راغب مسعود کے ذریعے کی گئی ہیرہ پھیری اس وقت مہنگی پڑ گئی جب 18 سال کے بعد ہائی کورٹ الہ آباد نے ان کی تقرری کو غلط مانتے ہوئے ان کی اپیل ہی خارج کر دیا جس سے ملازم کا مستقبل خطرے میں منڈلا رہا ہے اور نوکری سے چھوٹنا طے ہے. جس ملازم کی قسمت کا فیصلہ 26 نومبر کو ہائی کورٹ میں ہوا ہے اس کا نام راغب مسعود محلہ پورہ رانی مبارکپور باشندہ ہے جو نگرا پالیکا میں کیشیئر کے عہدے پر رہتے ہوئے اور نپا صدر کا اخص الخاص و سارے تعمیراتی کاموں کی ذمہ داری کے ساتھ ہی بتایا جاتا ہے کہ ٹھیکیداروں سے کھلم کھلا 3 فیصد کمیشن لے کر ہی کام کرتا رہا جو ٹھیکیدار بھی ناقص تعمیر کرتے رہے ہیں اور یہ ملازم ایک طرح سے سفید و سیاہ کا مالک تھا. غور طلب ہے کہ سن 1998 میں نگر پالیکا کے کیشیئر گووند چندر ریٹائر ہو گئے تھے اس وجہ سے سیٹ سپریم کورٹ کے لئے محفوظ تھی اس لئے یہ عہدہ مبارکپور کی موضع پاہیں کے وجے کمار اپنی درخواست نگرپالیکا میں پیش کی مگر ان کی درخواست کو نظر انداز کرتے ہوئے نپا میں اردو بابو کے عہدے پر تعینات راغب مسعود کو ترقی دے کر کیشیئر کی کرسی پر رشوت لے کر بیٹھا دیا گیا جس کے خلاف وجے کمار نے اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ رویندر ناتھ ترپاٹھی سے فرياد کیا پھر تقریبا ایک سال کے بعد سن 2000 میں ضلع مجسٹریٹ نے راغب مسعود کی تقرری کو غلط مانتے ہوئے ان کی تنخواہ پر روک لگا دی اس حکم کے خلاف راغب مسعود نے ہائی کورٹ الہ آباد سے فرياد کیا کہ جس نگر پالیکا کے چیئرمین ای او اور ضلع مجسٹریٹ کو فریق بنایا گیا بعد میں وجے کمار ایک درخواست دے کر چوتھا فریق بن گیا قريب 16 سال تک یہ معاملہ عدالت میں زیر غور رہا اور تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی لیکن 26 نومبر کو ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کی عدالت نمبر 59 کے جج ابھمنن اپادھیائے نے اس معاملے کو کافی سنجیدگی سے لیا اور مدعی کی طرف سے مسلسل ٹال مٹول اور ان کے وکیل کی غیر حاضر سے تنگ آکر ان کے ذریعے سے پیش شدہ ثبوت کو ناکافی قرار دیتے ہوئے ان کی اپیل مسترد کر دی اس طرح سے 18 سال سے کیشیئر کے عہدے پر رہ کر ملائی کھانے والے راغب مسعود کی نگر پالیکا سے چھٹی ہو گئی جس سے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی. واضح ہو کہ اس کیشیئر نے شرائط و قانون کو طاق پر رکھ کر سارے کام اپنی من مانی سے کرتا رہا بات چیت کی مانے تو نپا صدر کا بے حد قریبی ہونے کی وجہ سے کسی کی ہمت نہیں پڑتی تھی اس کے خلاف کچھ بولے اور ٹھیکیداروں سے 3 فیصد کھلا رشوت لے کر ہی ٹھیکہ دیتا رہا جس نپا کے تمام ذمہ داروں کا حصہ بنتا تھا یہ کیشیئر زیادہ سے زیادہ نگرپالیکا سے غائب اور اپنے گھر میں دفتر کھول کر اپنی خود کی حکومت چلاتا رہا جس سے لے کر خوب بحث بنی رہی. اور تو اور ایک خاتون اہلکار کی دوستی بھی خوب بحث نگرپالیکا دفتر میں ہوتی رہی. اور 18 سالوں میں بتایا جاتا ہے کئی کروڑ کی ملکیت حاصل کیا ہے اور گھوٹالے کا بھی الزام ہے لوگوں نے ضلع مجسٹریٹ سے اس کیشیئر کی جانچ کرانے کا مطالبہ کسی بڑے افسر سے کیا ہے.

آئی این اے نیوز اپنے تمام ممبران سمیت سہاس ایل وائی صاحب کو اس جیت کی مبارکباد پیش کرتا ہے!

اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2016) تاریخی ضلع/ شہر اعظم گڈھ کے موجودہ ضلع کلکٹر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ آئی ایس اے آفیسر جناب سہاس ایل وائی صاحب چین میں منعقد بیڈ منٹن میچ جیت کر سونے کا تمغہ جیت لیئے ہیں بہت بہت مبارک ہو. موصوف ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب ایک اچھے اور انصاف پرست سیکولر مائنڈیڈ آئی ایس اے آفیسر ہیں اور ہم اعظم گڈھ والوں کی خوش نصیبی ہے کہ ایک انسانیت پرست ضلعی سطح کا سب سے بڑا آفیسر ہمیں ملا ہے. ہم تمام ممبران سمیت اہل اعظم گڈھ انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ انہیں صحت و تندرسی کے ساتھ مزید عزم و حوصلہ عطاء کر کے منصفانہ صفت میں مزید ترقی عطا کرے. آمیــــن

بلاک بلہر کے موضع برینیاں میں تعزیتی نشست کا انعقاد!

سلمان کبیرنگری ــــــــــــــــــــــــــــــــ بلواسینگر،سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2016) ترقیاتی بلاک بلہر کے موضع برینیاں میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں نئی روشنی مجلہ کے ایڈیٹر سلمان کبیر نگری کے خسر اطیع اللہ اور امتیاز احمد ندوی کے سانحہ ارتحال پر رنج و غم کااظہار کیا گیا جس کی صدارت ابوبکر مظاہری صاحب نے کی جبکہ نظامت صوفی سعید صاحب نے کی ابوبکر مظاہری صاحب نے کہا کہ مرحوم اطیع اللہ بڑے نیک سیرت پابند صوم وصلوۃ غریب پرور مہمان نواز ، خدا تر س اور بلند اخلاق کے حامل تھے محمد زاہد قاسمی نے کہا مرحوم امتیاز احمد ندوی نے تپہ اجیار میں ایک اقامتی درسگاہ قائم کر کے اس علاقہ پر بہت احسان کیا اور ان کو پروان چڑھانے کے لئے بہت جد و جہد کی اللہ تعالٰی ان حضرات کو جنت الفردوس میں بہترین جگہ عنایت فرمائے اور حضرات کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے طلبہ واساتذہ نے قرآن خوانی کر کے ایصال ثواب کیا نشست میں عدنان احمد، حافظ محمد حسین، ماسٹر صابر علی، حافظ عابد علی، سفیان قمر، وغیرہ موجود رہے.

دال ہی پوری کالی ہے !

ازقلم: سلیم صدیقی پورنوی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ آج کل ہندوستان میں بی جے پی سرکار اک پاکستانی اسکالر کی خوب آؤ بھگت کررہی ہےـ آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے لوگوں نے اسے سر پہ چڑھا رکھا ہے ـ اس کو مکمل تحفظ پہونچانے کی خاطر خاص سیکیورٹی گارڈز کو متعین کیا گیا ہے ـ اس کو اعزازی مہمان بنا کر عیش و عشرت کی تمام چیزیں مہیا کی گئی ہیں ـ اس سے بات کرلینا ملاقات کرلینا یا صرف اس کا دور سے ہی نظارہ کرلینا بھکت لوگ خوش نصیبی سمجھ رہے ہیں ـ بھگوائی میڈیا و ٹی وی اینکروں کا تو کچھ پوچھنا ہی نہیں وہ سارے مدعوں کو چھوڑ کر اس کی ہر بات کو ہر ہندوستانی تک پہونچانا اپنا صحافتی فرض سمجھ رہے ہیں ـ جانتے ہیں کیوں!!!! اس لیے کہ وہ کھلے عام اسلام کا مذاق اڑاتا ہےـ اسلامی احکام کے خلاف کھل کر ہفوات بکتا ہے ـ دینداروں کو گالی دیتا ہے ـ عوام کو علماء سے برگشتہ کرکے انہیں دور رہنے کی نصیحت کرتا ہےـ اسلامی نام سے چڑھتا ہے اس پر اپنے مرحوم باپ کو بھی کوستا ہے کہ میرا نام امت، اجئے، مودی اور وجیے کیوں نہیں رکھا؟ میرا نام فاتح اندلس کے نام پر کیوں رکھا؟ مکہ مدینہ کا شدید ترین مخالف ہے ـ ہندوستانی مسلمانوں کو دیش دروہ اور پاکستانی مسلمانوں کو دہشت گرد کہتا ہے ـ اسے پاکستان سے اتنا ہی چڑھ ہے جتنا کہ کسی مسلمان کو شرک و بت پرستی سے ـ اور وہ اپنے دہریہ ہونے کا اظہار بھی کرچکا ہےـ صلاح الدین ایوبی و اسلامی سلاطین کو سخت زبان میں گالی دیتا ہےـ امریکہ کی تعریف میں زمین و آسمان کو ایک کرنا اپنی عقلمندی سمجھتا ہے ـ اپنی بیٹیوں کو کرشچن سے شادی کرواکر وہ اتنا ہی خوش ہے جتنا کوئی مسلمان حج کرکے ہوتا ہےـ وہ کہتا ہے ہندوستان کو ویسا ہی جمہوری ملک بننا چاہیے جیسا کہ فرانس ہے وہاں کوئی دھرم نہیں ہےـ آپ میری باتوں کو جھوٹ تو نہیں سمجھ رہے ہیں؟! یقین نہ ہو تو بھکتوں سے طارق فتح کا نام پوچھ لیجیے وہ اس کا نام بعد میں بتائیں گے آپ کی زبان پہلے چومیں گے ـ بی جے پی اورکٹرپنتھی ہندؤوں کو جو میر صادق و میر جعفر کی تلاش تھی شاید وہ مکمل ہوتی نظر آرہی ہے ـ مختار عباس، شاہنواز حسین، سلیم خان اور ایم جے اکبر سے وہ کام نہیں ہو سک رہا تھاـ اس لیے اسلام کے خلاف سازش میں اس کی بھرپور مدد لی جا رہی ہے ـ اس سے اسلام کے خلاف بولوائی جارہی ہےـ اور سب سے بڑی بات یہ ہے وہ مودی کا تلوا چاٹتا ہے س وقت ہندوستان کی سب سے بڑی دیش بھکتی یہی ہے کہ مودی کی جتنی ہوسکے تعریف کی جائے اور یہ کام طارق فتح کر رہا ہے ـ آپ سے اک سوال ہے؟ جو بی جے پی اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے ـ جو مسلمانوں کو گرفتار کرکے زدو کوب کرتی ہےـ انکاؤنٹر کے نام پر بے مسلمانوں کو موت کی نیند سلاکر شرمندہ نہیں ہوتی ـ جو پاکستان کا نام سنتے ہی جل کر کویلا ہوجاتی ہےـ جس پارٹی کے لوگ اپنے باپ کو غرض کے تحت بیچ سکتے ہیں ـ وہ لوگ اگر کسی مسلمان کی عزت کررہےہیں ـ جو لوگ اپنی بیٹیوں کو اپنے مطلب کیلیے استعمال کر سکتے ہیں وہ لوگ اسلامی مفکر کو سیکورٹی فراہم کرتے ہیں ـ جو شخص اپنی ۹۷سالہ ضعیفہ ماں کو بھی تجارت کی منڈی میں بے آبرو کرتا ہے وہ شخص اگر کسی مسلمان کو پلکوں پر بٹھاتا ہے اور اسے اعزازی مہمان بناتا ہے ... ......تو لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ دال ہی پوری کالی ہے.

اسلام میں خدمتِ خلق !

ازقلم: مفتی محمد ثاقب قاسمی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اسلام میں جتنی اہمیت حقوق اللہ کی ہے اتنی ہی بلکہ بعض معنوں میں اس سے بھی زیادہ اہمیت حقوق العباد کی ہے، بندوں کے حقوق کا اسلام میں بہت لحاظ رکھا گیا ہے، مخلوقِ خدا کی خدمت کرنا، ان کے کام آنا، انکی مدد کرنا، مصائب وپریشانی کے وقت اس کا ساتھ دینا، ان کے دکھ درد کو بانٹنا ان کے ساتھ ہمدردی، غم خواری اور شفقت کرنا انکے حقوق میں داخل ہیں دین سراپا خیر خواہی کا نام ہے اگر کوئی بھائی کسی چیز کے متعلق مشورہ طلب کرے تو اسکو اچھا اور عمدہ مشورہ دے، اسی طرح اگر کوئی شخص مصیبت میں پھنس جائے اور اسکو مالی ضرورت ہو تو اسکی مالی مدد کا بھی انتظام کرے. ایک مشہور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بھلائی کے ساتھ چھ حقوق ہیں. (1) ملاقات کے وقت سلام کرے. (2) اسکی دعوت قبول کرے. (3) اسکی چھینک کا جواب دے. (4) بیماری کے وقت اسکی عیادت کرے. (5) جب اسکی وفات ہو تو اسکے جنازے میں شریک ہو. (6) جو کچھ آدمی اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے دوسرے بھائی کے لئے بھی پسند کرے. اس حدیث شریف میں جن چھ چیزوں پر عمل کرنے کا حکم دیا جارہا ہے اگر ان حقوق کی ادائیگی کا ہم سب اہتمام کرنے لگیں تو معاشرے میں ایک خوشگوار انقلاب برپا ہوسکتا ہے اور باہمی ہم آہنگی اور اخوت کی مثال قائم ہوسکتی ہے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ عصرِ حاضر میں ہم نے صرف نماز، روزہ، حج اور زکوة کو ہی عبادت سمجھ لیا ہے اور عملی طور پر اخلاقیات، معاملات اور معاشرت کو دین کے دائرے سے تقریبا نکال رکھا ہے، حالانکہ یہ سب چیزیں بھی دین کا ایک اہم حصہ ہیں لہذا ہمیں اسلامی تعلیمات کے اس پہلو پر بھی عمل پیرا ہونا چاہیئے اور انسانی خیر خواہی اور انکی فلاح وبہبودی کے اعمال کو عبادت اور تقرب الہی سمجھ کر ادا کرنا چاہیئے.

عزت مآب چیف جسٹس کی خدمت میں...

ازقلم: ایم ودود ساجد نئی دلّی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ زیر نظر سطور دراصل چیف جسٹس آف انڈیاکے نام ایک دردمندانہ اپیل ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب تیرتھ سنگھ ٹھاکراردو زبان کے نہ صرف شیدائی ہیں بلکہ خود بھی بہت اچھی اردو لکھتے اور بولتے ہیں۔ان سے پہلے بھی کچھ چیف جسٹس ایسے ہوئے ہیں جو اردو جانتے تھے لیکن جس انداز سے جسٹس ٹھاکر نے اپنی عدالت میں جاری مقدموں اورعوامی تقریروں کے دوران اردو کی پزیرائی کی ہے شاید کسی اور نے نہیں کی ۔لہذا آج عدالت کے انصاف پرور حاکم سے ہندوستان کے ان سینکڑوں خاندانوں کی طرف سے ‘جن کے پیاروں نے حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب اپنی جانیں گنوادی ہیں‘ انصاف کی اپیل کرنی ہے۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر‘اپنے وقت کے اردو صحافی‘بے داغ سیاستداں اور ممتاز ماہر قانون ڈی ڈی ٹھاکر کے صاحبزادے ہیں۔موخرالذکر نے جموں سے ’حال ہند‘نامی رسالہ بھی شروع کیا تھا۔جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلی مرحوم شیخ عبداللہ سے بھی ان کے گہرے روابط تھے۔وہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔بعد میں انہوں نے جموں وکشمیر کے نائب وزیر اعلی اور پھر آسام کے گورنر کی حیثیت سے بھی ملک کی خدمات انجام دیں۔اس تفصیل سے یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ خود چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کس تہذیب وتمدن کے پروردہ ہیں۔انہوں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے 3دسمبر2015کو عہدہ سنبھالا تھا۔ 4جنوری2016کو وہ اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوجائیں گے۔جسٹس ٹھاکربیحدصاف گو انسان ہیں۔وہ حق بات کہتے ہوئے کسی سے خوف نہیں کھاتے۔لہذا انہوں نے کئی مواقع پر موجودہ حکومت کو گھٹنوں پر آنے پر مجبور کردیا۔وہ ریٹائرہونے کے بعد حکومت سے کسی سیاسی عہدہ کے خواہش مند بھی نہیں ہیں۔لہذاوہ عوامی بہبودکے معاملہ میں حکومت سے کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کرسکتے۔ایک موقعہ پر انہوں نے خود کہا بھی تھا کہ خدا نے مجھے جہاں پہنچا دیا ہے اب اس سے آگے جانے کی میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ حال ہی میں معذوروں کو راحت پہنچانے سے متعلق ایک پی آئی ایل پر سماعت کرتے ہوئے جس طرح جسٹس ٹھاکر نے حکومت کے وکیل سے جرح کی اور متعلقہ فائل کو دباکر بیٹھ جانے والے وزیر کانام باربارپوچھااس سے بھی واضح ہوگیا کہ حکمراں کتنے ہی متکبر ومغرورکیوں نہ ہوں اگر عادل جج صاحبان ان کی ناک میں نکیل ڈالنا چاہیں تو ان کے ہاتھ بہت مضبوط ہیں۔جسٹس ٹھاکر نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ’’یہ حکومت ہے یا کوئی پنچایت؟‘‘اس تمہید سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آگئی ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیاکو چونکہ ریٹائرہونے کے بعد کسی سیاسی عہدہ کی خواہش نہیں ہے اس لئے وہ ارباب اقتدارکی کوئی رورعایت بھی نہیں کریں گے۔گزشتہ 15اگست کو جب وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کی تھی تو جسٹس ٹھاکر نے ہی اس پر گرفت کرتے ہوئے ججوں کی کمی اور تقرری میں تاخیر پر حکومت پر تنقید کی تھی۔اس وقت انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا تھا: گل پھینکے ہے اورروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری اوراین جے اے سی کے معاملہ پربھی انہوں نے حکومت سے سوال کیا تھا کہ کیا ’آپ عدل وانصاف کے پہیہ کو بالکل روک دینا چاہتے ہیں؟‘پھر خود ہی جواب دیا تھا کہ ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے نوٹ بندی کے سوال پربھی کوئی نرمی نہیں دکھائی۔حالانکہ اس سلسلہ میں ملک بھر کی سات ہائی کورٹوں میں رٹ دائر ہوچکی ہیں۔کلکتہ ہائی کورٹ اس پر سخت رخ دکھا چکی ہے۔اسی طرح کی ایک رٹ جب سپریم کورٹ میں دائر ہوئی اور حکومت نے چیف جسٹس کی بنچ سے کہا کہ وہ یا تو ملک کی تمام ہائی کورٹوں کو نوٹ بندی کے تعلق سے کوئی بھی رٹ لینے سے روک دیں یا ایسی تمام رٹوں کو کسی ایک ہائی کورٹ کو منتقل کردیں تو سپریم کورٹ نے سخت رویہ اختیارکرتے ہوئے اس درخواست کو مستردکردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم ہائی کورٹوں کو روک دیں گے تو ہمیں معاملات کا اور ان کی سنگینی کا کیسے علم ہوگا؟اور کیسے لوگوں کو انصاف کی فراہمی ہوسکے گی؟یہی نہیں حکومت پر طنز کرتے ہوئے عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی صورت حال بنادی گئی ہے کہ گلی گلی میں فسادات ہوسکتے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب! ہمیں یقین ہے کہ آپ کے سینہ میں ایک درمنددل دھڑکتا ہے۔آپ ایسی تہذیب کے پروردہ ہیں کہ جہاں انسانوں کی قدروقیمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔آپ سے ان لاکھوں دکھی انسانوں کا دردبیان کرنا ہے جن کی ایک طرف توپوری زندگی کی کمائی پل بھر میں خاک میں مل گئی ہے اور دوسری طرف خودان کی زندگی ہی داؤ پر لگ گئی ہے۔اخبارات کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ 8نومبر 2016کی نیم شب سے آج یہ سطور لکھے جانے تک 100سے زیادہ اموات اس نوٹ بندی کی وجہ سے ہوچکی ہیں۔ان میں پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے کی جانے والی خود کشی کے معاملات بھی شامل ہیں اورلائن میں لگے لگے ہونے والے ’ہارٹ اٹیک‘کے بھی۔یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا ابھی کہاں کہاں اور کتنی اموات ہوں گی۔عزت مآب !سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر ہم نوٹ بندی سے ہونے والی مشکلات ومصائب کا ذکر کرتے ہیں توہمیں ’کالے دھن‘کا حامی گردان لیا جاتا ہے۔اور آج کل تو ہر طرح کے اظہار خیال کو دیش بھکتی سے جوڑ دیا گیا ہے۔اگر ہم حکومت کے اقدامات کے حامی ہیں تو ہم دیش بھکت ہیں۔اور اگر ہم اس کی پالیسیوں اور اس کے غلط اقدامات کوغلط بتاتے ہیں تو ہمیں دیش دروہی قرار دے دیا جاتا ہے۔قومی میڈیا کے 80فیصد حصہ پر پیسہ والوں کا تصرف ہوگیا ہے۔باقی 20فیصدکوبند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔اس لئے ملک بھر میں جو افراتفری مچی ہے اس کے نتیجہ میں آنے والی تباہی وبربادی کے بہت سے پہلو تو آج بھی کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب!اس صورت حال پر مشہورنغمہ نگارجاوید اختر نے پورے ملک کی ترجمانی ایک آزاد نظم کے ذریعہ کی ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ آپ سے ایک حتمی درخواست کرنے سے پہلے اسے آپ کے سامنے دوہرا دوں: کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے؟ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں‘ حفاظت ان کی کرناہے ضروری اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن‘یہ سب ہی جانتے ہیں کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں ذرا یہ سرکشی کم کرلیں‘اپنی حد میں ٹھہریں ابھرنا پھر بکھرنااور ابھر کر پھر بکھرنا‘غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت‘بغاوت کی علامت بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی اگرلہروں کو ہے دریا میں رہنا تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا‘کتنا ہلکا‘یہ افسر طے کریں گے کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے کبھی ہوہی نہیں سکتے کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں جنہوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے ان کو ذرا دیکھو کہ اک رنگ میں جب سو رنگ ظاہر ہوگئے تو وہ اب کتنے پریشاں ہیں کتنے تنگ رہتے ہیں کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں قید خانوں میں نہیں رکتیں یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا جتنا بھی ہو پر سکوں بے تاب ہوتا ہے اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے عزت مآب !ہم اس سے زیادہ آپ کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے۔اس ملک کے کروڑوں بے حال لوگوں کو آپ سے بہت امیدیں ہیں۔آپ کی عدالت میں چند ہی دنوں بعد پھرسماعت ہونی ہے۔حکومت نے ایک پر اسرار فرمان کے ذریعہ بربادی کی ایک تاریخ لکھ ڈالی ہے۔لیکن آپ سے التجا ہے کہ آپ آبادی کی ایک تاریخ لکھ دیجئے۔کانگریس کے منیش تیواری بتاچکے ہیں کہ آر بی آئی کے ایکٹ کے مطابق حکومت نے غیر قانونی کام کیا ہے۔مگر ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔ہم تو آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ایسا کچھ کیجئے کہ جس سے کروڑوں انسان وہ قدم اٹھانے سے رک جائیں جومذکورہ 100مرنے والوں میں سے بہت سوں نے اٹھالیا ہے۔ایسا کچھ کیجئے کہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن رکنے کی بجائے معمول پر آجائے۔کہ اس وقت سرکاروں کو بچانے سے زیادہ ضروری انسانوں کو اور خاص طورپر بے بس انسانوں کو بچانا ہے۔آپ کے انصاف پسند قلم کی ایک جنبش سے ایک طرف جہاں ان 100سے زیادہ اموات کی ذمہ دار حکومت کو انصاف کے آستانہ پر لایا جاسکے گا وہیں دوسری طرف بربادی کے دہانے پر کھڑے ہوئے کروڑوں انسانوں کو بھی زندگی جینے کا بہانہ مل جائے گا۔اس سلسلہ میں آپ کو دوسرے پریشان حال لوگوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے 20کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی بھی دعائیں ملیں گی جواپنے ان پریشان حال برادران وطن کے لئے بھی دست بدعا ہیں جن کی بیٹیوں کی شادیاں حکومت کے ایک فیصلہ سے چھن سے ٹوٹ گئی ہیں۔

Saturday 26 November 2016

مبارکپور یونین بینک آف انڈیا کے مینیجر سمیت اہلکار رشوت لے کر کالے دھن کو سفید کررہے ہیں، عوام نے کیا پولس سے کاروائی کا مطالبہ!

جاوید حسن انصاری ــــــــــــــــــــــــــــــــــ مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2016) 1000 اور 500 کے نوٹ بند ہونے سے مبارکپور میں بنکر اپنا تانا بانا چھوڑ بینکوں کی لائن کے قطار میں لگ جارہا ہے جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہیں مل پاتی ہے تو وہ بینکوں کے چکر لگاتے لگاتے مکمل دن کا وقت برباد کر رہیں ہے اور یونین بینک کے اے ٹی ایم سے مانگو پیسہ تو پھیکتی ہے پرچی لیکن بینک اہلکار شراب پی کر دھت ہو جا رہے ہیں 24 نومبر سے پہلے بنکر ایک ہزار اور 500 کے نوٹ تبدیل کرا رہا تھا جس کی آڑ میں برانچ یونین بینک کے مینیجر ایس پی سنہا اور کچھ اہلکاروں کی ملی بھگت سے مبارکپور غریبوں کے شناختی وغیرہ کاغذی فارمیلٹی کا حوالہ دکھا کر امیر سرمایہ داروں کی دولت کو سفید کرنے کے لئے 20 سے 25 فیصد تک دلال اور دیگر اپنے دلالوں کے ذریعے سے لوٹ کھسوٹ کا فن دھن کو سفید کرنے کا کام خوب پھل پھول رہا ہے جس پر بینک میں عوام جانے سے کترا رہی ہے حد تو تب ہو گئی جب بھوکا پیاسا بنکر اور کسان ہزار دو ہزار روپے اگر جمع کرنے اور نکالنے جا رہا ہے تو ان غریب بنکروں، کسانوں سے پین کارڈ مانگ کر ان کے سامنے ایک مصیبت اور کھڑا کر دے رہیں ہیں اس سلسلے میں بہت سے اخبار کی شہ سرخیوں میں بینک کا سیاہ چٹھا اخبارات میں شائع ہونے کے بعد بھی ان کے اوپر کوئی کارروائی نہ ہونے سے ان کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے ہیں کہ اگر کوئی صحافی اور عوام ان بینک اہلکاروں سے کسی بھی طرح کے سوال جواب کرتا ہے تو بینک کے کام دھندہ چھوڑ کر عوام پر مار پیٹ کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جس پر پولیس کو مداخلت کرنا پڑتا ہے اسی ترتیب میں جمعہ کو مذکورہ بینک میں صارفین کی طرف سے بینک اہلکار نشے کی حالت میں الجھ گیا اسی دوران خبر پاکر آئی این اے نیوز نمائندہ بھی معلومات لینے پہنچ گیا تو مذکورہ نشے میں دھت اہلکار صارفین کو چھوڑ کر صحافی سے الجھ گیا اور موبائل چھن کر پورہ نظام ڈيليٹ کر دیا اور معاملہ اتنا آگے بڑھ گیا کہ دونوں لوگوں میں کہا سنی کے ساتھ لڑائی تک کی نوبت آن پڑی جس کی اطلاع پاکر نگر پولیس چوکی انچارج انیرودھ کمار سنگھ نے اپنے پورے عملے کے ساتھ موقع پر جا پہنچے اور بینک کے اہلکاروں کے تئیں ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ عوام کا عہدہ چھوڑ کر مار جھگڑا پر آمادہ نہ ہوں جس پر گھنٹوں بعد پولیس کی مداخلت سے بینک اہلکار اپنے کاموں پر لگے. اس ناقص رویّے سے پورے قصبہ میں دن بھر بحث ہوتی رہی وہی عوام کا كہنا ہے کہ حکومت اور دیگر بینک 50 ہزار سے کم پر پین کارڈ مفت رکھا ہے لیکن مندرجہ بالا بینک سارے قوانین کو طاق پر رکھ کر غریب آدمی کو مارنے اور غریبی کا ناجائز فائدہ بینک اہلکار اپنے ذاتی پالتو دلالوں کو رشوت خوری پر ابھار رہے ہیں اور رات کے سناٹوں میں دیر رات تک اور چھٹی کے دنوں میں اپنی گوٹی بٹھانے کے لئے شہروں میں اپنا جال بچھا رکھا ہے. اس سلسلے میں شفیع الزماں انصاری، اظہر الدین انصاری، منا شکاری، منا جیسوال، راجا ورما، دنیش اور غلام غوث نے ضلع افسر سمیت بینک کے اعلی حکام سے کاروائی کا مطالبہ کیا ہے.

کرکٹ کیا بلا ہے ؟

ازقلم: سلیم صدیقی پورنوی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تاریخ کی ورق گردانی سے اندازه هوتاهے که کرکٹ کی تاریخ کوئی زیاده پرانی نهیں هے, بس اس کے آغاز کو چار پانچ سو سال هوئے هیں ,مگر اس کھیل نے جتنی ترقی کی هے اتنی کسی کھیل نے نهیں کی ,فٹ بال اور باسکیٹ بال کی بھی تاریخ بهت پرانی هے ,مگر اس کو وه مقام و درجہ نه مل سکا جو کرکٹ کو ملا ہے , لیکن یه بھی حقیقت هے که نوجوانوں کو جتنا برباد کرکٹ نے کیا ہے اتنا کسی کھیل نے نه کیا هے اور نه هی کرسکتا , اس کھیل کے آغاز کے سلسه میں مختلف اقوال ملتے هیں گوگل اختلاف تاریخ سے بھری هوئی هے , ان میں سے ایک قول 1250ع کا بھی هے اور یه حضرت صلاح الدین ایوبی رح کی وفات کے ساٹھ سال بعد شروع هوا,اور اس کا مقصد حضرت صلاح الدین ایوبی سے هار کا بدله لینا تھا , اسی لیے بعض مؤرخین نے اس کے آغاز کی وجه اسلام دشمنی بتائی هے اس کو اسطرح بیان کیا هے ۔.جب بیت المقدس کی لڑائی میں عیسائی هار گیے تو انهوں نے اس کا بدله لینے کیلیے اس کھیل کو شروع کیا جس میں تین لکڑیاں اپنے عقیده تثلیث کے مطابق حضرت عیسی حضرت مر یم اور الله کے مجموعه کو بنام اسٹمپ گاڑا اور ایک لکڑی کو اپنے پوپ کے تصورسے اور گیند صلاح الدین ایوبی کے تصور سے رکھا اور پھر اس کھیل کا آغاز کیا اب سمجھنے اور غور کرنے کی بات یه هے که انهوں نے ایسا کیوں کیا? انهوں نے ایسا اس لیے کیا تاکه فاتح بیت المقدس سے هار کا بدله لے سکیں . اب اسٹامپ ,بلا اور گیند کامطلب یه هوا .تینوں الله هماری مدد کیلیے کھڑے هیں اور همارے پوپ صلاح الدین کی پٹائی کررهے هیں . اور بعض لوگوں کا یه بھی کهنا هے اس کھیل کا آغاز یهودیوں نے کیا اور اس کے پیچھے ان کی سازش یه تھی که مسلم نوجوانوں کے هاتھ میں بلا اور گیند پکڑادو یه اس میں مگن ہوجائیں گے۔ اور اپنے ہاتھوں سے تلوار چھوڑدیں گے۔ اس طرح وہ بزدل بن کر رہ جائیں گے۔ اور یہ بات حقیقت سے کچھ ملتی جلتی بھی لگتی هے جب سے نوجوانوں کے هاتھ میں بیٹ بال آئے تب سے هی مسلم نوجوانوں میں بزدلی آئی هے, یهی دیکھ لیجیے عا لمی میڈیا افغانستان کے عوام کو جزباتی ,بنیاد پرست ,ٹیررزم اور فنڈا منٹلزم کهتے هوئے نهیں تھک رها تھا اور خود هندوستانی میڈیا کو دیکھ لیجیے جنهیں افغانی عوام خونخوار نظر أرهے تھے, یهاں کے هر حملے میں افغانی طالبان کے هاتھ هونے کا الهام هوتا تھا ,اور حمله مکمل بھی نهیں هوپاتا که طالبان اور پاکستان کے ہاتھ ہونے کا الزام لگا دیتے تھے,جیسے هی افغان ٹیم ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں اتری تب سے افغان مسلمان ترقی کی راه پر گامزن نظر آرهے هیں جن کا کام صرف افغانستان کے عوام کی تحقیر کرنا تھا اب ان کا کام افغان ٹیم کی چھوٹی چھوٹی خبروں کو کوریج کرنا هوگیاہے، ان باتوں سے اندازه لگایا جاسکتا هے که هماری بربادی میں اس کھیل کا کتنا اهم رول رها هے ,اور پھر یه بھی سوچنے کی بات هے اس کو جتنی دلچسپی سے مسلم ممالک کھیل اور دیکھ رهے هیں اتنی دلچسپی سےانگریزی ممالک نہ کھیلتے ہیں نہ دیکھتے ہیں خیر اس کھیل کے آغاز کا جو بھی مقصد رها هو مگر نتیجه اس کا نقصاندہ ہی هی رها هے ۔ کسی کا نقصان هو نه هو ایشیائی ممالک اور مسلم نوجوانوں کا نقصان تو هوا هی هے۔ جن کے هاتھوں میں قرآن هونا چاهیے تھا ان کے هاتھوں میں گیندیں تھمادی گئیں, جن هاتھوں میں دشمنوں سے نپٹنے کا هتیار هونا چاهیے تھا ان هاتھوں کو بیٹ دے کر دشمنوں کے مقابله میں آنے سے معذور کردیا گیا۔ ترقی کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو جن ممالک میں کرکٹ کا زور و شور زیاده هے وه معیشتی طور پر اپنے هم مقابل ملک سے بهت زیاده پیچھے هیں خود هندوستان کی حالت دگر گوں هے اور جن ترقی ممالک میں کرکٹ کھیلا بھی جاتا هے تو وهاں کے لوگ اس قدر اس کے دیوانے نہیں ہیں ، اور نہ ہی وہاں اتنا اس کا شور و غل نهیں هوتاہے،اور نه هی وهاں کے لوگوں میں اس سے اتنی دلچسپی هے۔ سال گزشته سے پیوستہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ورلڈ کپ هوا مگر وهاں کے عوام خال خال هی میدان میں نظر آئے۔ لیکن هندوستان پاکستان سری لنکا اور بنگله دیش کے عوام بہت زیادہ سیلفش هورهے تھے ۔ هم نے اپنے گرد و پیش میں ایسے ایسے لوگوں کو لاکھ لاکھ کا سٹه لگاتے هوئے دیکھا هے جو اپنے بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نهیں دے سکتے, سٹے بازوں کا کیا حشر هوا هوگا وهی جانتے هونگے۔ مگر ان تکلیف دہ خبر سن کر ہمارے دل و دماغ میں بے چینی و کرب کا گہرا سایہ ضرور پڑتا ہے۔ اب آپ هی فیصله کرلیں هم کیسے ترقی کرسکتے هیں؟, افسوس صد افسوس! اب تو لوگ اسے مذهب اور حب الوطنی سے جوڑنے لگے هیں اسے حماقت کے سوا اور کیا کہا جاسکتا هے زرا غور کریں پوری دنیا کا بوس اور سپر پاور کهلانے والا ملک امریکه میں کرکٹ کو کیا مقام حاصل هے اور امریکه کے پاؤں چاٹنے والے هندوستان اور پاکستان میں اسے کیا رتبه حاصل هے ؟؟ اس سلسله میں بهت پهلے کسی کتاب میں ایک واقعه بھی نظر سے گزراتھا کہ جب کرکٹ ترقی کرتے هوئے جرمن تک پہونچا تو لوگ دھیرے دھیرے کافی اس کے دیوانے هونے لگے تو هٹلر( وهاں کا وزیر اعظم ) کو پته چلا تو اسے بھی یہ کھیل دیکھنے کا شوق هوا چناں چہ وه بھی دیکھنے کی غرض سے کرکٹ اسٹیڈیم پہونچ گیا اور دن بھر میچ دیکھتا رہا ۔جب شام هوئی تو معلوم کیا کس نے جیتا تو لوگوں نے جواب دیا اس کا فیصله چار دن کے بعد هوگا یه سنتے هی وه آگ بگوله هوگیا جناچه اسی وقت اپنے ملک میں اس کھیل پر پابندی لگادی چنانچہ! آج تک وهاں یه کھیل دوباره پنپ نهیں سکا ہے اور هاں یه بھی معلوم هونا چاهیے که سبرت رائے اور وجیے مالیا کی بربادی میں کرکٹ کا بڑا دخل هے اور نه جانے ایسے کتنوں لوگوں کو کرکٹ نے تباه کیا هوگا ؟ جب که اس کھیل میں سوائے کمپنیوں کے کسی کو کوئی فائده نهیں هوتا .... جس کھیل سے صرف پندره لوگوں کا فائده هو اور پچاس کروڑ لوگوں کا نقصان هو ایسے کھیل کے پیچھے اپنا تن من دھن سب قربان کرنا کهاں کی عقلمندی هے ؟

کھریواں موڑ سرائے میر اعظم گڑھ میں اجلاس عام 1/ دسمبر کو !

محمد عاصم اعظمی ــــــــــــــــــــــــــــــــ سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2016) سر زمین کھریواں میں ایک عظیم الشان اجلاس عام کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں وقت کے مشہور و معروف علماء کرام شرکت کریں گے یہ اجلاس مولانا محمد شاہد القاسمی جنرل سیکرٹری جمیعة علماء ضلع اعظم گڑھ کی سرپرستی میں منعقد ہوگا اجلاس کی صدارت حضرت مولانا عبیداللہ صاحب قاسمی شیخ الحدیث مدرستہ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ فرمائیں گے اور نظامت کے فرائض مولانا انور داؤدی صاحب قاسمی استاذ مدرسہ دارِ ارقم شیرواں انجام دیں گے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے مقررین حضرت مولانا عبدالرب صاحب قاسمی صدر جمیعة علماء ضلع سلطان پور حضرت مولانا محبوب عالم صاحب قاسمی استاذ مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ حضرت مولانا وسیم صاحب شیروانی استاد جامعہ حسینہ لال دروازہ جون پور حضرت مولانا محمد افضل صاحب قاسمی نائب مہتمم جامعہ شرعیہ فیض العلوم شیرواں. جن کی کاوشوں کی وجہ سے یہ اجلاس عام منعقد ہو رہا ہے ان میں مولوی محمد ناصر قاسمی حافظ محمد مسعود اعظمی حافظ محمد اشرف اعظمی محمد شاکر اعظمی محمد طاہر اعظمی(سماجی کارکن) کے نام قابل ذکر ہیں آپ حضرات سے شرکت کی درخواست ہے.

Friday 25 November 2016

اعظم گڑھ گورکھپور مین روڈ پر واقع بنکٹ بازار میں لگایا جام !

ثاقب اعظمی ـــــــــــــــــــــــ بنکٹ/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 25/نومبر 2016) اعظم گڑھ گورکھپور مین روڈ پر مبارکپور تھانہ علاقے کے تحت بنكٹ بازار میں کاشی گومتی بینک میں نقد نہ ہونے کی وجہ سے جمعرات کو صارفین ساڑھے دس بجے کے قریب بینک کے سامنے جام لگا دیئے جو ساڑھے بارہ بجے تک چلا اس کی وجہ سے اعظم گڑھ جين پور راستے پر لمبی لمبی گاڑیوں کی لائن لگ گئی اطلاع پاکر تھانہ انچارج سنتلال یادو موقع پر پہنچے اور عوام کو سمجھایا بجھایا تب جاکر جام ختم ہوا. غور طلب ہے کہ مودی سرکار کے 500 اور 1000 کی نوت پر پابندی لگانے کے بعد روزانہ دقتیں بڑھتی جا رہی ہے کہیں موت ہو رہی ہے تو کہیں جام لگ جا رہا ہے لیکن مودی سرکار ابھی تک عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے میں ہمیشہ ناکام ہورہی ہے.

یوا سنگھرس سمیتی نے بینک میں صبح سے لمبی قطاروں میں لگے بھوکے پیاسے پریشان حال عوام کے خورد و نوش کا انتظام کیا !

شعیب اختر بستوی ــــــــــــــــــــــــــــــــــ سمریاواں/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 25/نومبر 2016) بینک میں صبح سے لمبی قطاروں میں لگے ہوئے پریشان حال عوام کا حال دریافت کرنے اور ان کی ہر ممکن امداد کے لئے یوا سنگھرس سمیتی کے کارکنان و عہدیداران سمریاواں واقع اسٹیٹ بینک آف انڈیا پر صبح سے ہی لمبی لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کر رہے لوگوں کے لیے بھوک اور پیاس کا سامنا کرتے ہوئے شام گزارنے پر مجبور عوام کی یوا سنگھرس سمیتی کے کنوینر رضوان منیر کی قیادت میں موجودہ لوگوں کے لیے اشیائے خورد و نوش فراہم کرکے عوام کی دعائیں حاصل کی اس موقع پر رضوان منیر نے کہا کہ لمبی لائن میں لگی پریشان حال عوام کو 2،000 اور مالداروں کو 5،0000 سے زائد دیا جا رہا ہے ایک طرف مزدور اپنی مزدوری،کسان اپنی کھیتی، خواتین اپنے بچوں کو چھوڑ کر صبح سے لمبی قطاروں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرتی ہے تو انہیں دو ہزار ملتا ہے، دوسری طرف سفید پوشاک لیڈران بغیر کسی لائن کے بینک منیجر کے زریعہ پچاس ہزار روپے حاصل کر لیتے ہیں اگر جلد از جلد اس نظام کو ختم کرکے ایک برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو ہماری تنظیم خاموش نہیں بیٹھی گی. اس موقع پر یوا سنگھرس سمیتی کے معاون کنوینر محمد سلمان عارف، ابوذر چودھری، شعیب اختر، انل سونی، خالد اختر، جمیل احمد، جمنا پرساد، پیوش گری، سریندر چودھری، شنتوش پرجاپتی، شمبھوناتھ پرساد، شیلیش کمار وغیرہ خاص طور سے موجود رہے.

Thursday 24 November 2016

راجو پور میں آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد!

سفیان فلاحی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ سہارنپور (آئی این اے نیوز 24/نومبر 2016) انجمن فدایان ادب کے زیر اہتمام آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت خادم ملت عالیجناب حسیب صدیقی صاحب نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مشہور ناظم مشاعرہ جناب اسماعیل نظر صاحب نے انجام دی اور وہیں ہندوستان کے مشہور شاعر الطاف ضیاء نے نعت پاک سے مشاعرہ کا خوبصورت آغاز فرمایا. اس مشاعرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کی کہ سامعین شروع سے لیکر اخیر تک اپنی جگہ بیٹھے رہے اور تمام شاعروں کو داد و تحسین سے نوازتے رہے صدر مشاعرہ حسیب صدیقی صاحب نے اپنے صدارتی خطبات میں تمام مکتبِ فکر کے لوگوں سے متحد رہنے کی اپیل کی اور مشاعرے کی کامیابی پر مشاعرہ کے کنوینر وسیم راجوپوری صاحب کو مبارکباد دی. قاری لیاقت کاشفی جنکے دست مبارک سے مشاعرہ کی رسم شمع روشن ہوئی جناب الطاف ضیاء کو اعزاز دیتے ہوئے کہا کہ جب جب ادبی تاریخی لکھی جائے گی تو راجوپور دیوبند کا نام سرِ فہرست ہوگا ماشاء اللہ مشاعرہ اپنی کامیابیوں کو طے کرتا ہوا رات 3 بجے اختتام تک پہونچا مشاعرے میں جن شعراء نے اپنے کلام سے سامعین کو اپنا کلام سنایا ان میں جناب الطاف ضیاء۔ سفیان فلاحی۔سکندر حیات گڑبڑ. جناب ضیاء ٹونکوی. جناب ارشد ضیاء. جہاز دیوبندی۔ علیم واجد قیوم بسمل.ساحل مادھوپوری۔التمش عباس.مسرور اجمل. کشش وارثی. فلک سلطانپوری۔ نکہت مراد آبادی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں. اخیر میں تمام شعراء کی جانب سے مشاعرہ کے کنوینر اور شاعر جناب وسیم راجوپوری نے گلہائے عقیدت پیش کیا قاری لیاقت کاشفی صاحب کے خوب صورت خطاب کے بعد مشاعرے کا اختتام ہوا.

بنکر لیڈر افتخار احمد منيب اور اہم سماجی کارکن عمار اديبی اپنے کارکن سمیت بنکروں و کسانوں کی پریشانی کو لیکر بھارت حکومت کے حکام سے کی ملاقات !

جاوید حسن انصاری ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/نومبر 2016) مبارکپور بنکروں کا ایک وفد دو لاکھ بنکر آبادی والا ریشم نگری مبارکپور کے بنکروں و کسانوں کی پریشانیوں کو لے کر نوڈل افسر بھارت حکومت کے محکمہ ارون کمار سنگھل سے ملا جس میں بنکروں و کسانوں کی مفادات سے متعلق بہت سے تجویز کی مانگ رکھ کر بنکروں و کسانوں کے مفاد میں کام کرنے کے لئے مناسب ذریعہ فراہم کرے. تواضح رہے کہ حکومت کی طرف سے 500 اور 1000 نوٹ بند کرنے کے بعد بنکر اور کسان اپنا ہتھکرگا و پاور لوم اور کسان اپنی کھیتی باری چھوڑ کر آٹھ بجے رات سے اگلے دن چار بجے تک بینکوں کے چکر لگا رہا ہے اور جب لائن میں نمبر آتا ہے تو بینک کے کیش ہی ختم ہو جاتے ہیں جس میں بنکر اور کسان بینکوں اور مودی حکومت کو لعن تعن کرتے ہوئے اپنے ہاتھ مسل کر گھر چلے جاتے ہیں اور رات کو بھوکے پیاسے سونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ایک طرف آنے والی روزی جارہی ہے تو دوسری طرف آمدنی کا ذریعہ ختم ہو رہا ہے ایک طرف اے ٹی ایم دھوکہ دے رہا ہے تو دوسری طرف بینک پین کارڈ اور شناختی کارڈ کی بنیاد پر بینکوں کے تمام شرائط و حوالہ دے کر بینکوں سے واپس جانے کو مجبور کر ہونا پڑ رہا ہے مبارکپور میں 12 اے ٹی ایم ہونے کے بعد بھی ایک بھی اے ٹی ایم آسانی سے کام نہیں کر رہا ہے یہ سارے نکات کو لے کر مبارکپور بنکر لیڈر افتخار احمد انصاری منيب، قصبہ کے اہم سماجی کارکن ایس پی لیڈر محمد عمار اديبی انصاری وغیرہ بنکروں نے اعظم گڑھ میں نوڈل افسر بھارت حکومت شعبہ صحت ارون کمار سنگھل سے کسانوں کی طرز پر بنکروں کو بھی 25 ہزار روپے اور کچے دھاگے اشیائے خوردنی پر شامل صحت خاندان محکمہ کی طرف سے کارڈ کے ذریعے علاج کرنے کی مناسب انتظام کا مطالبہ اٹھائے جس پر افسر نے بھروسہ دلایا کہ ان نکات پر غور کیا جائے گا اور بنکروں کی سہولت کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گا. وفد میں مبارکپور بنکر لیڈر اور سابق ڈائریکٹر افتخارر احمد انصاری منيب، معروف سماجی کارکن ایس پی لیڈر محمد عمار اديبی انصاری، وسیم احمد انصاری اور احمد ضیاءانصاری وغیرہ شامل تھے.

تین پارٹیوں کے اتحاد کے ساتھ کرلا ویسٹ سے ممبئی یونیورسٹی کالینا تک کیا احتجاج!

عبید اعظمی ــــــــــــــــــــــ کرلا/مہاراشٹرا(آئی این اے نیوز 24/نومبر 2016) آج صبح دس بجے کرلا ویسٹ مرکز مسجد کے پاس سے ممبئی یونیورسٹی کالینا تک تین پارٹیوں نے مل کر احتجاج کیا مودی سرکار اور دہلی پولس کے خلاف جم کر نعرہ بازی کی. غور طلب ہے کہ جے این یو کا طالب علم نجیب احمد گزشتہ 39 دنوں سے لاپتہ ہے اور ابھی تک اس کا کوئی سرغ دہلی پولس و مودی سرکار نہیں لگا پائی اس کو لیکر جہاں ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں وہیں آج کرلا ویسٹ مرکز مسجد سے ممبئی یونیورسٹی کالینا تک مختلف پارٹیوں نے مل کر احتجاج و مظاہرہ کیا اس مظاہرہ میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AiMiM) ، جے ہو فاؤنڈیشن(JHF) اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر و کارکنان سمیت ہزاروں کی تعداد میں مومبئی کے مرد وخواتین مل کر جے این یو کے طالب علم نجیب احمد کی ماں کو انصاف کی مانگ کی.

معاشرے میں عورت کا کردار!

ازقلم:سلیم صدیقی پورنوی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اقوامِ عالم کا تاریخی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آفتابِ نصف النہار کی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی عورت کا کردار معاشرے کیلیے انتہائی اہم رہا ہےـ حضرت ابراہیم کی ماں سے لے کر حضرت عیسی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ تک عورت ذات اپنے کردار میں مجلّی و مصفّٰی نظر آتی ہےـ مگر یہ بھی مسلَّم الثبوت ہے کہ عورت کو کسی طبقے نے قدر کی نظر سے نہیں دیکھا، اور اس کے کردار کو کسی دھرم نے نہیں سراہاـ ہر طبقے میں عورت کو حقارت سے دیکھا گیا ، ہر سماج میں ذاتِ عورت کو سامان ِ تضحیک و اسبابِ عیش و عشرت سمجھا گیا، اسے جو مقام ملنا تھا وہ کبھی نہیں دیاگیا بلکہ اس کے بدلے میں ہر جگہ اسے ذلیل و رسوا کیا گیاـ دنیائے فلسفے کا امام افلاطون بھی عورت کے تئیں غلط فہمی سے باہر نہ نکل سکا الغرض... کسی سوسائٹی نے عورتوں کو مکمل حقوق نہیں دییے، کسی سوسائٹی میں انہیں برابری کے درجے سے کبھی نوازا نہیں گیا، حتیٰ کہ انہیں آزادی کے ساتھ جینے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ـ اہل ہنود جنہیں اپنے تمدن پر بڑا ناز ہے ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے تو حیرت ہوگی کہ ان کے یہاں عورت ذات کو کس درجہ منحوس سمجھا جاتا تھا ـ خود ہندو مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہندو لڑکی کی آج شادی ہوئی اور اتفاق سے آج ہی اس کا شوہر مرگیا تو ہندو سماج اس عورت کو منحوس کہ کر شوہر کی چتا پر جلاکر بھسم کردیتاـ اور یہ بھی ہندو دھرم ہی کی تاریخ ہے کہ اگر کسی گھر میں لڑکی پیدا ہوجاتی تو سماج والے اس گھر والے کا جینا دوبھر کردیتے ، انہیں بدبخت کہتے ـ بالآخر گھر والے اس لڑکی کو کسی مندر میں ڈال آتے،اب اس کا گزارا مندر کے دان پرساد پر ہوتا ـ اور جب وہ جوان ہوجاتی اسے ناچنے گانے اور عصمت فروشی کیلیے کسی کوٹھے پر بھیج دیتے جب تک جوانی رہتی کوٹھے پر گزارا ہوتا اور جب اس کے ناچنے گانے کی عمر ختم ہوجاتی تو اسے بھیک کا کٹورا پکڑا دیا جاتا چنانچہ !! وہ بھیک مانگ مانگ کر اپنی زندگی بسر کرتی اور اسی حالت میں دنیا سے چلی بھی جاتی مگر اسے بہو بنا کر سسرال نہیں بھیجا جاتا تھا " یعنی اس لڑکی کا دنیا میں پیدا ہونا اس کا اپنا جرم تھا ،لہٰذا ہندو سماج اس کی سزا یہ طئے کرتا تھا کہ وہ دربدری کی زندگی کاٹےـ یہ حال ہے اس قوم کا جو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے متمدن قوم کہتی ہے ـ بہر کیف......ہر جگہ عورت کی حیثیت غلامانہ رہی، اسے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا میسر نہ تھی ـ آج سے تین سو سال پہلے پوری دنیائے عیسائیت کے اہل علم و دانش پادریوں کو یوروپ میں جمع ہوکر عورت کے بارے میں غور و فکر کی گئی تھی جس میں یہ فیصلہ سنایا گیا تھا کہ "عورت ایک ناپاک حیوان ہے جو شیطان کا جال ہے اسی کی ذریعے سے فحاشی و عیاشی پھیلائی جاتی ہے، اس لیے عورت کی منھ پر پٹی باندھ دی جائے تاکہ وہ مردوں سے بات تک نہ کر سکے" ـ اور تو اور دنیا کے جانے مانے محقق شکسپئیر نے بھی لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ عورت سے دور رہا جائے ـ یعنی ہر سماج نے عورت ذات کو ضعیف الفطرت ناقص العقل فحش کی جڑ ہونے کا الزم لگایا ـ.ــــ.ـ مگر تاریخ کو دوسری جہت سے وہاں کھڑے ہوکر دیکھیں جہاں سے اسلام کی تعلیم اور عورتوں کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر صحیح تصویر کے ساتھ دیکھ سکیں گے تو عورت ذات انتہائی مقدس نظر آتی ہے اس کا کردار انتہائی محترم دکھائی دیتا ہے ـ یہ عورت کا ہی کردار اور دوڑ دھوپ ہے کہ اسلام نے قیامت کیلیے صفا مروہ کی دوڑ دھوپ کو حج کا رکن قرار دیا ـ جس سے قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ عورت کے وجود کو تسلیم کیے بغیر مرد ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتےـ اور عورت کے کردار کو آج کی بددین بدباطن ماڈلس پر قیاس نہ کیا جائے ـ بلکہ حسن بصری کے زمانے کی رابعہ بصری ـ اور دورِ نبوت میں شہادت کا مقام پانے والی خوش نصیب سمیہ و آسیہ ، غار ثور میں نبی کی مدد کرنے والے معصوم اسماء اور مرد کی خدمت کرتے کرتے ہاتھ کو زخم کرنے والی بی بی فاطمہ اور وحی کے بوجھ سے گھبرا کر تھر تھراتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیکر ڈھارس بندھا نے والی خدیجہ کو دیکھ کر عورت کا کردار متعین کیا جائے تو عورت ذات قدرت کا حسین انعام لگتی ہے اس پر خدا کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہی ہےـــ عورت کا کردار تعلیمی میدان میں بھی لائق ستائش ہے چنانچہ! محدث حافظ ابن عساکر فرماتے ہیں کہ ہمارے اساتذہ میں ۸۰ خواتین ہیں ـ جس وقت ہندوستان میں عورت کو چتا پر جلایا جاتا تھا اور یوروپ میں شیطان کا ایجینڈا کہ کر اس سے دور رہنے کی نصیحت کی جاتی تھی اس وقت غرناطہ میں اسلام کی ۸۰ عورتیں ایسی تھیں جو ساٹھ علوم پر یدِ طولی رکھتی تھیں اس لیے بلا جھجک یہ تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ عورت کا کردار معاشرہ کیلیے ایسا ہی ہے جیسا کہ بدن کیلیے ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے ـ

Wednesday 23 November 2016

مبارکپور تھانہ انچارج سنتلال یادو کا لاکھوں کا مال و دولت اور انتھک کوششیں بھی دلشاد کی جان نہ بچا پائی!

جاوید حسن انصاری ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 23/ نومبر 2016) مبارکپور تھانہ انچارج انسپکٹر سنتلال یادو کا لاکھوں روپے وہ کوششوں کا کام نہ آیا اور زندگی اور موت سے دو چار تھانے پر تعینات کانسٹیبل دلشاد احمد 40 کا جان نہ بچنے پر اس گہری افسوسناک بھری واقعہ سے گھنٹوں گزر جانے کے بعد بھی ایس او مبارکپور و تھانہ سمیت تمام پولیس اہلکار نکل نہ پائے. واضح رہے کہ غازی پور ضلع میں سماجوادی پارٹی کی ریلی تعیناتی میں جانے کے دوران منگل کو نامعلوم گاڑی سے دھکا کھاکر درخت سے ٹکرا جانے کے بعد بہادر پولیس جوان دلشاد احمد ولد حاجی اخلاق ضلع چندولی نے اپنے ساتھ واقعہ کی تھانے پر تعینات محمد عمران انصاری اور اپنی بیوی روبی کو اپنا درد بھلا کر کچھ یوں انداز میں کہہ کر مطلع کیا کہ گویا اس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں یہ ہنسی بھرا لفظ وہ زندگی کے پڑاؤ کا آخری تھا کیا معلوم تھا کہ زندگی کے یہ بیوی کے ساتھ موبائل پر زندگی کے آخری الفاظ تھے. اس دوبارہ افسوسناک مطلع کرنے کے بعد ایس او کو افسوسناک بھری معلومات ہونے کے بعد پاو تلے زمین کھسک گئی جو جدھر تھا وہ ادھر سے ہی ہسپتالوں کی طرف کوچ کر گئے اور ایس او تمام سپاہیوں کو چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف دوڑ پڑے اور لاکھوں کی گڈی لے کر دوسرے گاڑی سے واقعہ کی طرف دوبارہ دوڑ پڑے اور اپنے ضلع کے ذاتی اور سرکاری ہسپتالوں کے سامنے علاج کے لئے ایڑی سے چوٹی تک اپنی جان لگا کر علاج کرایا لیکن پھر بھی جان نہ بچا سکے ایس او کی زبانی پتہ چلا کہ دلشاد احمد کے پاس خوردہ پیسے نہ ہونے کا حوالہ دے کر باپ کے مانند ایس او سے پیسے درکار کی جس پر انچارج تھانہ نے پانچ سو کے روپے خوردہ دے کر ایس پی ریلی غازی پور کی طرف تعیناتی کے لئے بھیجا اور مجھے کیا پتہ کہ خدا ہم لوگوں کو اتنے بڑے غم میں ڈال دے گا اور یہ زندگی ہی ختم ہو جائے گی وہیں تھانہ اسٹاپ کا کہنا ہیکہ اتنا خوشگوار دوست ہم لوگوں کے درمیان نہ ہونے سے جو تھانہ اسٹاپ کو کمی ہوئی ہے اس کی تلافی کرنا مشکل ہے وہیں دوسرے دن بھی غم سبھا میں خدا سے دعا کیا گیا کہ اس افسوسناک گھڑی میں ان کے خاندان کو خدا طاقت فراہم کرے. اس موقع پر نائب ایس ایچ او مسٹر آفتاب عالم، انیرودھ کمار سنگھ، راجیو کمار یادو، وریندر سنگھ، هریندر سنگھ، ایس ایس پال، رام ملن تیواری سمیت پولیس اہلکاروں دنیش کمار یادو، اعجازالدين، نوشاد احمد، محمد عمران انصاری، سنجے موریہ ، امر ناتھ پانڈے، شکیل احمد خان، دھرمیندر یادو، راجندر یادو، محمد شاہد، وسیم احمد، بھوپندر، شیلیندر یادو، سبھاش یادو، وغیرہ پولیس اہلکار موجود رہے.

Tuesday 22 November 2016

بینا پارہ میں دو روزہ والی بال ٹورنا منٹ میں مرکی کی ٹیم کا رہا قبضہ!

محمد عاصم اعظمی ــــــــــــــــــــــــــــــــ سرائے میر/ اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 22/ نومبر 2016) بینا پارہ اعظم گڑھ میں دو روزہ والی بال ٹورنا منٹ کا انعقاد ہوا جس میں مرکی اور بینا پارہ کے درمیان کھیلے گئے فائنل میچ میں مرکی نے پہلا سیٹ 15.8 سے دوسرا 15.6 سے جیت کر ٹورنا منٹ کا خطاب جیتا. پہلا سیمی فائنل میچ طوی اور مرکی کے بیچ کھیلا گیا جس میں مرکی کو جیت حاصل ہوئی دوسرا سیمی فائنل میچ بیناپارہ اور راجہ پور سکرور کے درمیان کھیلا گیا 5 سیٹ کے اس مقابلے میں پہلا سیٹ 15.8 سے راجہ پور سکرور نے جیتا جب کہ بیناپارہ نے دوسرا 15.10 سے ، تیسرا 15.12 سے اور چوتھا 15.9سے جیت کر فائنل میچ میں اپنی جگہ بنائی. فرسٹ اور سیکنڈ آنے والی ٹیم کے ہر کھلاڑی کو انعام کے طور شال اور میڈل دیا گیا مین آف دی سیرز محمد علی مرکی اور مین آف دی میچ راجا مرکی کو دیا گیا۔ ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کا انعام وقار احمد بینا پارہ کو ملا اس کے علاوہ ٹورنامنٹ کے ہر میچ میں مین آف دی میچ بھی دیا گیا. واضح رہے کہ اس دو روزہ ڈے نائٹ والی بال ٹورنامنٹ میں پہلے دن علاقے کی 16ٹیموں نے حصہ لیا ۔ دوسرے دن 8 بڑی ٹیمیں بمہور ،طوی ،مرکی ،منجیر پٹی، بینا پارہ اور راجہ پور سکرور وغیرہ شریک ہوئیں۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ضلع صدر ارشاد عالم نے اپنے حامیوں سمیت نجیب کی گمشدگی کو لیکر کیا احتجاج!

عبید اعظمی ــــــــــــــــــــــــ خلیل آباد/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 22/نومبر 2016) آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ضلع صدر جناب ارشاد عالم نے آج اپنے حامیوں کے ساتھ خلیل آباد چوک سے ایس ڈی ایم دفتر تک پیدل احتجاج کرتے ہوئے ایس ڈی ایم کو میمورنڈم سونپا. غور طلب ہے کہ جے این یو کے طالب علم نجیب احمد کو غائب ہوئے آج 38 دن ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اس طالب علم کا کوئی سراغ نہیں لگا اور نہ ہی پولس اور حکومت کو اس کی فکر ہے ایم آئی ایم کے کارکنا جناب حاجی تفسیر خان نے آئی این اے نیوز نمائندہ سے گفتگو کے درمیان کہا کہ آج نجیب احمد کو غائب ہوئے 38 دن ہو چکے ہیں لیکن مودی سرکار ابھی تک اس کا پتہ نہیں لگا پائی یہ مودی سرکار کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے لئے ذلت کی بات ہے یہاں صرف منتریوں اور وزیروں کے کام کے لئے پولس ہے اس احتجاج میں سنت کبیر نگر کے ہزاروں کے تعداد میں لوگوں نے خلیل آباد چوک سے ایس ڈی ایم دفتر تک پیدل مارچ نکالا.

نجیب کی ماں کو انصاف دلانے کے لئے شبلی کالج کے طلبہ نے کیفیات ایکسپریس کو بنایا انصاف ایکسپریس!

ثاقب اعظمی ــــــــــــــــــــــــــــ اعظم گڑھ (آئی این اے نیوز 22/نومبر 2016) جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کے لئے جہاں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں وہیں اعظم گڑھ کے شبلی کالج کے طبہ بهى مسلسل نجیب کی رہائی کی مانگ کو لے کر آواز بلند کر رہے ہیں جے این یو کے طالب علم نجیب کو انصاف دلانے کے لئے شبلی نیشنل کالج کے طالب علم سابق جنرل سکریٹری نورالهدىٰ کی قیادت میں آج طلبہ دہلی روانہ ہوئے اس سلسلے میں شبلی کالج کے ریڈنگ روم میں دوشنبه کو طلبه کی میٹنگ ہوئی تهى. سابق جنرل سکریٹری نورالهدىٰ نے کہا کہ جے این یو کے طالب علم نجیب کو غائب ہوئے تقریبا 38 دن ہو گئے لیکن نجیب کا کوئ پتہ نہیں ہے دہلی میں مختلف تنظیموں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور دہلی پولیس و مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ نجیب کو زندہ یا مردہ ان کے خاندان کے حوالے کر دیا جائے لیکن مرکزی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے. اس لئے شبلی کالج کے طلبہ نے فیصلہ کیا کہ ہم لوگ دہلی جا کر نجیب کی ماں کو انصاف دلائیں گے تو آج اسی کو لیکر سینکڑوں طلبہ نے کیفیات ایکسپریس سے دہلی روانہ ہوئے.

Monday 21 November 2016

محاسبہ نفس وقت کی ضرورت!

ازقلم: حماد غزالی ـــــــــــــــــــــــــــــــ خلق خدا اور امت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت انسان بہت سی خوبیوں کی مالک ہے اور بےشمارخرابیوں اورخامیوں کوبھی اپنےاندرسموئےہوئی ہے ؛ بلکہ بعض مرتبہ خوبیاں توبرائےنام رہتی ہے؛ لیکن خامیوں کامقدربن جاتی ہے، اس کی سب بڑی وجہ خود کوآئینہ کی طرح صاف سمجھنا اور دیگرامم کو غلطیوں، گناہوں، کاپلندہ خیال کرناہے اورخود احتسابی و محاسبہ ءنفس یعنی اپنےاندرکی کمی کوتا ہی کی نوٹس نہیں لینا ہے؛بلکہ اس خیال میں گم رہناکہ" ہم چنی دیگرے نیست "اور اگرکسی مخلص نےبطور مخلصانہ مشورے کےکسی کمی کااحساس دلانےکی کوشش کی تواسےبجائے قلب کی عمیق گہرائیوں سےاستقبال کرنےکے اسےدھتکاردیاجاتاہے ، پھٹکارلگاتا ہے اور لعنت بھیج کرآیندہ قطع تعلق کی راہ ہموار کرلی جاتی ہے، حالانکہ دوست ہوکہ دشمن کسی نےبھی کچھ ایسی چیزوں کی طرف اشارہ کیاہو توایک عاقل شخص کی دانائی اور فہم یہ ہے کہ فورا اس طرف توجہ دے ـ اگروہ خرابی قطعی طور پرموجودہوتو اسےدور کرے، اگر نہ ہوتو یہ بھی سبق آموز واقعہ،لوگوں کوپرکھنے اور اخلاص ومنافقت کوتولنے کا ایک قیمتی آلہ ثابت ہوگا، آج کےاس پرآشوب اور پرآزمائش و دور میں ہم کسی طرح جیےجا رہےہیں؛ لیکن سلیقہ وارفگتی سےکوسوں دور جاچکے ہیں، تعلیمات اسلام سے بےتوجہی خاص الخاص مشغلہ بن گیاہے، دن بہ دن روبہ زوال ہیں، ترقیوں کےبجائے تنزلی مقدربن چکی ہے، پھربھی خواحتسابی وخودشناسی کو اپنی زندگی میں نہیں لاتے ہیں، آخرایساکیوں؟اس کی وجہِ خاص انسانیت جیسی طاقت ور شےسےمحرومی اور شیطانیت کواپنےدل میں جگہ دیناہے؛ حالانکہ انسانیت زیادہ طاقت ور ہےبہ مقابلہ شیطانیت کےـ انسانیت انسان کوجگائےرکھتی ہے ،اس کی تجدید کرتی رہتی ہےـ اوریہ چیزیں ختم ہوجاےتو شیطانیت انسانیت کی جگہ اختیارکرلیتی ہے پھرانسان اپنےبس میں نہیں رہتا ـ اب جوجی میں آئےکرنےلگتا ہے، حدیث شریف کامفہوم ہےکہ جب حیاساتھ چھوڑدے تو جوچاہے کرے، اور یقیناایسادیکھنےکوملتاہےـ مثلا آج کےہمارے معاشرے میں کسی کی ترقی سےخوش نہ ہونا، زوال کی تمناکرنا، کسی کی خوش لباسی ،آسودگی کی وجہ سےاپنےکو اس کی غیبت اور اس کوگرانےکےلیے ہرممکن کوشش کرنا، اسی طرح آج ہمارے کچھ دینی اداروں، سرپرستوں، مالکوں، اور دین کےٹھیکہ داروں کا ہے وہ ظاہری جبہ، قبہ ،دستارمیں مبلوس ومگن رہتےہیں اور تصور بےاماں میں کہتےرہتےہیں "ہم چنی ڈنگرے نیست "اکابر واسلاف، فقیہ اور اویس قرنی کےروپ میں ڈاکؤوں سےزیادہ بدترین کرادر اداکررہےہیں، وہ صرف انہیں کومخلص ومشفق گردانتےہیں، جوان کی جوتیاں سیدھی کرے،ان کےفرمائے ہوے جملہ احکامات وکلمات کو لاریب کہہ کرسرنگوں ہوجائے، ان کےساتھ عیاری، مکاری، دجل وفریب میں ان کاہم سایہ رہے،بطور خاص کچھ مدارس دینیہ بھی بدقسمتی سےاس کاشکارہیں جوکسی غیرمخلص، منافق، عبداللہ بن ابی اور دیگراسلام مخالف بنام نمونہ ءاسلاف جیسی ظاہری صفات کواپنی جھولیوں کےلیےرجسٹرڈ کراچکے ہیں، آج کل کےکچھ بزرگ نماڈاکوعوام کی جیب کترنےکےلیے ایسےہتکھنڈے اپناتےہیں، ان کی اولاد خوب پرتعیش زندگی گزاررہی ہے ایسالگتاہے کہ شاہ وقت کےصاحبزادے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کسی اسٹیج پربراجمان ہوتےہیں توایسی ہمدردی ظاہرتےہیں جیسےان کےبعد یہ صفت ناپید ہوکر رہ جائےگی ـ عوام سےمخاطب ہوتےہیں ہوتےہیں تویہ کلمہ زبان پرضرور لاتےہیں کہ علماکااحترام کرو، انہیں گالیاں مت دو یہ تمہارے لیے رحمت ہے، برکت ہے، انہیں خوش رکھاکرو، اپنےاماموں کو ذلیل ورسوا نہ کرو، ان سے غلامانہ خدمت نہ لو اگرتم نےایساکیاتو خداکاعتاب نازل ہوگا، تم مجرم ہوگے خداکی عدالت میں ، عوام میں سیاسی لیڈروں کوکوستےہوے انہیں حضرت اورنگ زیب، حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرز زندگی کواپنانےکی ترغیب دیتےہیں ـ جب یہ ان سیاسی آقاؤں کےدرمیان جاتےہیں، توکرسی، ظاہری عزت اور ایساایوارڈ لینےکی خاطر ان کی تمام غلطیوں کوان کےصحیح کارنامےکےطورپر ان کےسامنےبیان کرتے ہیں، جس ایوارڈ کےلینےوالےعلماء کےسلسلہ میں بہت سی وعیدیں آئیں ہیں ـ یہی وہ لوگ جواپنے اساتذہ، ملازمین، مدرسین اور دیگر عمال کےساتھ ایساسلوک کرتےہیں گویاوہ انسان نہیں،ان سےجانوروں سےزیادہ بدترین سلوک کرتے ہیں، جب وہ عوامی عدالت میں مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم، غریب اقوام اوردیگررفاہی کاموں کےنام پرڈکیتی کرتےہیں تودیکھیے کس قدرمگرمچھ کےآنسو بہاتےہیں،؛ لیکن ان کی حالت دیکھیں توعوام سےدگرگوں رہتی ہیں، قوم سے توکہتےہیں کہ ہم طالبان علونبوت کو ان کی مکمل ضروریات، عمدہ قیام وطعا اور علاج ومعالجہ کے اسباب بھی فراہم کرتےہیں ؛ لیکن یہ سب صد فی صد کذب بیانی پرمشتمل پروپیگنڈہ ہوتاہے جوآج کل کےکچھ شہرت پسند قائدین اپنی بےہودہ اولاد، نکمےوارثین کےلیے جہنم میں انگارے جمع کرتے ہیں، بہت سی جگہوں پرتو دال میں نمک اور سبزیوں میں سبزہ بھی نظرنہیں آتا، ٹھنڈیوں میں لحاف اور کمبل کی تقسیم کاڈھونگ رچتےہیں، اخبارات میں سرخیاں بٹور نےکی خاطرمذکورہ حیلہ اپنایاجاتاہےـ اور تحقیق کی جاتی ہےتو دس بیس لوگوں میں ایسےلحاف تقسیم کیے گئےہوتےہیں جوایک چادراور ایک سواٹر کےبرابر بھی ٹھنڈ دور کرنےمیں ناکام رہتےہیں، یہ توہوئی طلبہ کےساتھ ہوئی بےپروائی اور استحصال ـ آگے پڑھیے ملازمین و مدرسین کےساتھ ہوے ظلم وزیادتی کہ فلسطین کا"نتین یاہو" بھی شرماجائے، ملازمین ومدرسین سے ۲۴/چوبیس گھنٹے کام لیےجاتےہیں، ان سےہلکی سی چوک کی وجہ سےسخت حسابات لیے جاتےہیں؛ لیکن ان کی تنخواہوں کامعاملہ دیکھ کلیجہ منہ کوآتا ہے کہ، کیا اسلاف ایسے بھی ہوتےہیں؟ان کو اویس قرنی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت اورنگ، ا حضرت عمربن عبدالعزیز نہیں بننا چاہیے؟ آج اکابرین کی طرف سےاصاغرین اور متأخرین پرجوظلم وستم ہورہاہے اس سےاللہ ہی بچائےـ مراکزدینیہ میں جوعملی،علمی خیانت کی بدترین مثال پیش کی جارہی ہے یہ بھی ایک المیہ ہےکہ جو ہرطرح کی خیانت سےبچنےاور امانت ودیانت کےاوصاف کواپنی زندگی میں ڈھالنےکی بات کرتےپھرتےہیں، جنہیں اندھےعقیدت مند اورنگ زیب ثانی سمجھتےہیں انہیں پیشواؤں کی طرف سے ایساگھناؤناکھیل کھیلا جارہاہے جوہرگزمناسب نہیں ہےـ کیا یہ ادارے کے ذمہ دار، خانقاہوں کے ولی، مدرسوں کےمہتمم،دینی، ملی اور سیاسی جماعتوں کے امرا کواس دنیاکی کا "فنا"انکار ہے؟یاپھروہ یہ خیال رکھتےہیں کہ انہیں مرنا نہیں ہے، اگرمرنابھی ہےتوحساب وکتا نہیں ہوگا؟یہ سب بدترین حالات جوملک وملت کےلیے مسائل طورپر پیش آرہےہیں صرف اورصرف محاسبہ نہ کرنےکی وجہ سے، اگر خود احتسابی اپنےاندر پیداکرلیے تو کوئی مسلمان چوری نہیں کرے گا، کوئی جعلی رسید نہیں چھپوائے گا، طلبہ کےذمہ داران یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کےبجائےمدارس اسلامیہ، خانقاہیں اور دیگر اصلاحی اداروں کارخ کریں گے، پھرسڑکوپراترنانہیں پڑےگا، کوئی نجیب کسی ادارےسے غائب نہیں ہوگا، کوئی ماں اس قدر بلکےگی نہیں، کوئی بہن تڑپےگی نہیں، کوئی ملازم اپنےآقاکی روگردانی نہیں کرےگا، مدرسین مدرسے سے عاجزہوکر بھاگیں گے نہیں، قوم علماسےبےجاسوالات نہیں کرےگی، پھرکوئی باپ بےسہارا نہیں ہوگا، کوبیٹا باغی نہیں ہوگا، پھرجہیزکی خاطر کوئی اپنی دلہن کوجلائےگا نہیں، اولاد والدین کےلیےسہارا ہوں گی اور مرنےکےبعد کارخیرکاسامان ثابت ہوگی، پھر کسی عالم کو کوئی ناخواندہ شخص مفاد پرست، خودغرض اور چندہ خور نہیں کہے گا اس کااستقبال صرف مسجدوں، مدرسوں میں نہیں؛ بلکہ جملہ امورمیں اسے اپناسردارا وراہنماسمجھیں گے،پھرکسی مہتمم یاادارہ کےدیگر ذمہ داروں کو طلبہ کی تشکیل کےلیے ملک کےمختلف دینی مراکز کےچکرکاٹنےکی نوبت نہیں آئے گی ، نہ ہی مخلص و محنتی وباذوق اساتذہ تلاش کے لیےایمرجنسی لائٹ کےذریعہ ملک کےکونےکونے، گلیوں، اورشاہ راہوں پربھٹکنےکی حاجت نہیں ہوگی،پھرکسی شیخ کو خلافت واجازت کی لالچ دینےکی ضرورت نہیں پڑےگی، مجلس ذکرمنعقد کرنےکےلیے خانقاہوں میں دلی دربار، ممبئی کامعروف ترین قدیم ترین ہوٹل شالیمار کےکھانے کابہانہ بناکر عوام کومجلس میں اکٹھاکرنے والی پریشانیا نہیں آئیں گی ـ اساتذہ، عمال ودیگرملازمین اخلاص وعمل کاپیکر بن جائیں توذمہ داران کےبےجاعتاب کی پروانہ ہوگی،دینی اورسیاسی جلسوں میں عوامی سیلاب کےلیےپیسوں، بسوں، کاروں اور ٹرینوں کو فری کرانےکاعمل بد انجام دینانہیں پڑےگا، اخلاص پیداہوجائے تو عوام ہی خود حبیب الامت، خطیب الامت، حکیم الامت، مرشدالامت، راہنمائے امت،ملک و ملت ومسلک کےتحفظ کاعلمبردار جیسے خطابات والقابات سےنوازےگی، اس کےلیے تلقین وترغیب کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئے گی، نہ خود رپورٹ لکھ کرپریس کودیناپڑےگا؛ بلکہ رپوٹر، اخبارات کےنمائندے،صحافی وقلم کار وتبصرہ نگار برادران خودہی آپ کے صفات حسنہ کواپنے قلم کےذریعہ آشکارا کریں گے، اخبارات میں جگہ کےلیے بطور رشوت ناشتہ، کلکتہ بریانی اور چکن کےبہترین قسم کے آئٹمس کھلانے، تاج ہوٹل کی چائے، کافی نوشی جیسی مصیبت نہیں درآئےگی،خودہی وہ آپ پرامانت ودیانت والاقلم استعمال کرنااولین فریضہ تصور کریں گے، اس عمل پروہ اپنےاندر خوشی و مسرت محسوس کریں گے ـ متقدمین اکابرین واسلاف کاتو یہ طرہ رہاہے کہ وہ ایک کپڑا،روزانہ کی مزدوری سے زندگی گزارتےتھے؛ چنانچہ ایک واقعہ ہے سادگی دیکھیے !وقت کےامام، نباض ،متحفظ اسلام حضرت امام قاسم النانوتوی نوراللہ مرقدہ کا کہ ایک شخص حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضری کے بعدمشہورزمانہ عالم وحاکم مولاناقاسم نانوتوی رح کےپاس پہنچا حضرت نے خیریت دریافت کرنےکےبعد معلوم کیاکہ کب تک قیام ہے؟ اس نےکہاکہ رات تک توحضرت نےعرض کیاکہ دوپہرکودال روٹی میرے ساتھ کھائیے؛ جب دسترخوان لگاتو بالکل وہی چیزیں تھیں ـ صرف چٹنی کااضافہ تھاـ فرمایاکہ آپ کی وجہ سےچٹنی کااضافہ کرلیاگیا ہے "یہ تھے اکابر جن کےطرزواسلوب کواپنی زندگی میں اتارناچاہیےاور متبع بنناچاہیے؛ لیکن آج کل کےاکابرین اس کےبرعکس نظرآتےہیں ـ دور کاسفر جہاز سے کم پر نہیں منظورنہیں ، لوکل سفر اےنوا سےکم پرنہیں، کھانا شالیمار اور دلی دربارکےعلاوہ کانہیں چلے گا، قیام ہو وائٹ ہاؤس جیسی جگہ میں ،بیت الخلا سیدھا سادہ نہیں انگریزی ہوناجزولاینفک ہے، اگر آپ نےایساانتظام وانصرام نہیں کیاتوفیوض وبرکات سےمحروم رہیں گے اور ملامت کےلیے بھی تیاررہیےـ اگرہمارے راہنما،قائدین، مصلحین، مربیان کرام واقعی مخلص ہوجائیں ـ وہ خودمتقدمین اسلاف کی راہ چلیں تو معاشرہ کاماحول خوشگوار اور پرلطف ہوگا ـ؛ لیکن ایسااس وقت ہوگا ؛جبکہ وہ محاسبہ ءنفس کو اپنی زندگی کااہم ترین شعبہ قراردیں، اس پرعامل بھی ہوجائیں ، جب لوگ یہ قربانی دیں گے توپھرہم ایک ایسےمعاشرے میں سانس لیں گے جس کی آب وہوا بارود کی نہیں؛ بلکہ خوشیوں اور بہاروں کی خوشبو ہوگی، جوہماری سانسو کوایسے مہکائےگی جیسے کسی مچھلی کےلیےپانی یاجیسے تتلی کےلیے پھول ـ حق جل مجدہ توفیق بخشے ـ

ہندوســــــتان ہٹلر کا جابرانہ فیصلہ !

ازقلم: سلیم صدیقی پورنوی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ہندوستان کے سیلکولر عوام پر خطرات کا بادل اسی دن منڈلانے لگاتھا جس دن دوہزار انسانوں کے قتل کے مجرم مودی اور ان کے ہم نوا مسند اقتدار پر متمکن ہوئے تھے ـ پھر اس ابرِ خطرات امن و امان کی بوندیں گاہے گاہے برستی رہیں، کبھی گائے کے گوشت کے نام پرـ تو کبھی جے این یو کے عمر خالد اور کنہیا کے نام پر، کبھی نکسل وادی کے نام پر تو کبھی دہشت گردی کے نام پر، کبھی پٹھان کوٹ تو کبھی کشمیر کے نام پر ـ بھوپال پر تو یہ بجلی کا کڑکا ثابت ہوا جس نے عوام کے دلوں پر خوف و ہراس کا پہاڑ گرادیا ـ اس خوف و ہراس سے ابھی ہندوستان کے سیکولر عوام مکمل طور پر باہر نہیں ہوئے تھے کہ ۸ نومبر کو غریب عوام پر خطرات کی موسلا دھار بارش ہوگئی جس کی تاب نہ لا کر اب تک پچپن سے زائد اموات ہوگئیں ہیں ـ اور نہ جانے کتنی جانیں جائیں گی؟ ـ قبل از وقت اس کے بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا ـ مگر مودی جی کا جابرانہ و احمقانہ فیصلہ ٹس سے مس نہیں ہوا ـ اور ہوتا بھی کیسے؟ جب مودی کے چیلے حق بات بولنے والے کے منھ پر زبردستی ہاتھ رکھ کر بولنے نہیں دے رہے ـ اور مودی کی آنکھ میں ہٹلر پنی کا پردہ ہےـ جب ہندوستان کے لوگ لائنوں میں کھڑے کھڑے موت کے کڑوے گھونٹ پی رہے تھے مودی جی بڑی بے شرمی کا ننگا ناچ رہے تھے ـ جاپان صدر کے ساتھ میوزک بجارہے تھےـ جیسے لگتا تھا مودی جی کا ہندوستان جاپان کی طرح خوش حال ملک ہے ـ مودی جی کے بارے میں وہاں کے وزیر اعظم کو شاید پتہ نہیں تھا کہ وہ جن کا استقبال اور عزت کررہے ہیں وہ بڑے گھوٹالے باز ہیں پچیس کڑور کا گھوٹالہ پکڑاجا چکا ہے اور دسیوں گھوٹالے میں ان کا نام آرہا ہے ـ اورجب روش کمار جی نے بھارت کی صحیح تصویر پیش کی تو مودی بھکتوں کے دماغوں کو زل کیڑے کاٹنے لگےـ اسلیے روش جی کو دھمکاکر خاموش کرنے میں راحت سمجھی ـ مگر روش جی بھی دھن کے پکے ہیں انہوں نے بلا خوف و خطر بینکوں کی لائنوں میں کھڑے ہوکر عوام کے تاثرات، کرب، پریشانی ، بے چینی کو دنیا کے سامنے لایا ـ اور آج بھی لارہے ہیں ، اس لیے مودی بھکت ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ان کے خلاف ہرزہ سرائی کررہے ہیں ـ کیجریوال اور ممتا بنر جی نے تو مودی اور ان کے بھکت میڈیا کو دن میں تارے دکھادیئےـ دو دن قبل کیجریوال نے بی بی سی نیوز رپورٹر کو ایسی کھری سنائی کہ اگر اس کے اندر ذرہ برابر بھی غیرت رہی ہوگی تو گھٹیا نیوز رپورٹنگ سے باز آگیا ہوگا، اور اگر بے ضمیر رہا ہوگا تو زیادہ چاپلوس بن گیا ہوگاــ بہر کیف ..... خطرات کا یہ سلسلہ ابھی بند نہیں ہواچالو ہے ـ روینہ ٹن ٹن، انوپم کھیر اور عامر کی وجہ سے مزید چلتا رہے گا ـ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مودی جی ہندوستان کے پہلا وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اپنی ماں تک کو سیاست کی منڈی میں بے آبرو کیا ـ ۹۷سالہ ضعیفہ کو گھنٹوں لائن میں کھڑا کرکے اپنی سیاسی دوکان کو کامیاب بنانے کا کھیل کھیلا ـ ورنہ اب تک سیاست دوسری وجہوں سے بدنام تھی مگر ماں کا احترام کبھی پامال نہیں کیا گیا تھا ـ مودی جی نے اپنی ماں کے ذریعے اس کمی کو بھی پورا کردیا ـ اس سے وقتی طور پر مودی کے تلوے چاٹنے والا سدھیر اور سمیت پاترا جیسے بے ضمیر ٹی وی اینکرز عوام کو بے وقوف بنانے میں کچھ نہ کچھ کامیاب بھی ہوگیے کہ مودی جی کی دیش پریمی کو دیکھو کہ وہ ماں تک کو بھی بینک کے لائن میں کھڑا کردیا ـ مگر عقلمند عوام نے بلا کسی جھجک کے مودی سرکارکی نیت سے واقف ہوگیے، کہ ۹۷ سالہ کمزور ضعیفہ کو لائن میں کیوں کھڑا کیا گیا؟ کیاان کے سارے بیٹے مرگیے جن میں ۵۶ انچ کے سینہ والے مودی بھی تھے ـ یا کوئی ڈائن ان کے سارے بچوں کو کھا گئیں؟ کہ ان کو اس عمر میں لائن لگنا پڑا؟ اگر مودی جی کو دیش پریمی کا ناٹک ہی کرنا تھا تو خود لائن میں کھڑے ہوتے تاکہ سیدھے سادھے عوام کو تسلی ہوجاتی کہ وزیر اعظم اپنی حماقت کی سزا ماں کو دینے کے بجائے خود کو دے رہے ہیں ـ مودی جی کے اس بے وقوفانہ فیصلے سے خود مودی بھکت پریشان ہیں مگر کیا کریں "ان کی حالت بواسیر کے مریضوں کی طرح ہے درد تو ہوتا ہے مگر کسی کو بتا نہیں سکتے " یہ فیصلہ عوام کے فائدہ کیلیے نہیں بلکہ بھوپال انکاؤنٹر اور جے این یو کے حادثات بھلانے کیلیے ہےـ تاکہ عوام جو بے چین ہو گیے تھے، سڑکوں پر اترنے لگے تھے ، ریلیاں ہونے لگی تھیں ـ اس سے چھٹکارا پانے کیلیے دیش کی ترقی کے نام پر مودی نے ماسٹر پلان کیا کہ ان کو اتنا مجبور کردو کہ وہ ریلیاں نہ نکال سکیں ـ دھرنے پر نہ بیٹھ سکیں ـ اور لوگ نوٹ کی فکر میں پڑکر بھوپال انکاؤنٹر اور نجیب و منہاج کے حادثے کو بھول جائیں ـ چناں چہ اس میں کافی حدتک کامیاب بھی ہوگیے ـ چوں کہ ہندوسان کے لوگ انتہائی کند ذہن ہیں ایک حادثے کی فکر لاحق ہوتی ہے تو اپنے دوسرے پرانے حادثوں کو پس پشت ڈال کر اس میں غرق ہوجاتے ہیں ـ اور پھر درمیان میں کوئی الیکشن آتا ہے وہ سارے یادوں کو بھلا کر چلا جاتا ہےـ اب بھی یہی ہوگا لوگ بھوپال منہاج اخلاق اور نجیب کو بھول گیے مہینہ ڈیڑھ مہینے کے بعد اس حادثہ کو بھی بھول جائیں گے ـ ہاں اگر یہ حادثہ یاد رہے گا تو صرف ان بیٹیوں کو جن کے والد ان کی شادی کے عین موقعے پر بینک کی لائنوں میں ہارٹ اٹیک کرکے مرگیےـ ہاں ان ماؤں کو یاد رہے گا جن کے جوان بیٹے بھوک کی شدت اور لائنوں کی پریشانیوں کو تاب نہ لاکر ہمت ہار بیٹھے اور خود کشیاں کرلیں ، ان کی آہیں ضرور لگیں گی ـ اس سے پہلے ہٹلر نے بھی ظلم و ستم کے پہاڑ عوام پر توڑے تھے مگر انجام کیا ہوا ؟ اک دن خودکشی کرکے مرگیا کہنے کو ایک بات ہے کہ وقت کا سب سے بڑا ظالم لوگوں کی جان لیتے لیتے اپنی ہی جان گنوا بیٹھا مگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو اسے زندگی میں لوگوں کی آہیں روز روز ماررہی تھیں اس لیے اس نے خود مرجانے میں عافیت سمجھی ـ ڈرہے کہیں مودی ہٹلر کا انجام بھی یہی نہ ہوجائے

عوام کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے مولانا محمد فضل اعظمی 100 اور 50 کی نوٹ جمع کرنے پہنچے بینک!

محمد انظر اعظمی ــــــــــــــــــــــــــــــــ سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز21/نومبر 2016) عام لوگوں کی سہولت کے لئے مشہور تاجر مولانا محمد افضل اعظمی نے اس حالات میں بھی جمع کیا 100 اور 50 کی نوٹ. بینک کی لائنوں میں لگے ہوئے عام لوگ جو بینک کی لائنوں میں کافی پریشان تھے تبھی قصبہ سرائے میر کے مشہور تاجر محمد افضل قاسمی نے اپنے بینک اکاؤنٹ جو کی سرائے میر میں ننداوں موڑ پر اورینٹل بینک میں تھا کافی تعداد ایک سو اور پچاس کی نوٹ لے کر جمع کرنے پہونچے جس کو دیکھ کر بینک منیجر کے ساتھ ساتھ لائنوں میں کھڑے عام لوگوں کے بھی چہرے کھل اٹھے اور بینک منیجر اور لوگوں نے ان کا شکریہ ادا کیا.

میمن سادات میں آل انڈیا منقبتی مشاعرہ 25/نومبر کو !

سفیان فلاحی ـــــــــــــــــــــــــ نجیب آباد(آئی این اے نیوز 21/نومبر 2016) سر زمین سادات میں پہلی بار بشان مبارک خلفاء راشدین آل انڈیا منقبتی مشاعرہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں ہندوستان کے مشہور و معروف شعراء کرام شرکت کریں گے مشاعرہ کنوینر مولانا کلیم الزماں صاحب آئی این اے نیوز نمائندہ سے گفتگو کے درمیان بتایا کہ بتاریخ 25/ نومبر (2016) کو بعد نماز عشاءسر زمین بھنیڑہ میمن سادات میں خلفاء راشدین کی شان میں ایک آل انڈیا منقنتی مشاعرہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں دل خیرآبادی، تابش ریحان، وارث وارثی، شرف نانپاروی، طارق جمیل، مہیندر اشک، کفیل سہسپوری، سعد امروہوی، جگر نوگانوی، زبیر سیفی، نواب خالد، ڈاکٹر آفتاب نعمانی، سفیان فلاحی، مہتاب خالد، محمد اکرم قاسمی، شعیب نفیس، امتیاز اطہر، ندیم بجنوری، وغیرہ شرکت کریں گے انہوں نے برادران اساام سے شرکت کی درخواست کی.

Sunday 20 November 2016

مشہور تاجر اِکّا بیڑی کے مالک اشتیاق احمد کا انتقال!

عاطف اعظمی ــــــــــــــــــــــــــ سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 20/نومبر 2016) سرائے میر میں اِکّا بیڑی کے مالک کا آج شام کو علی گڑھ میں انتقال ہو گیا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون وہ مشہور اِکّا بیڑی کے مالک اور کامیاب تاجر تھے تجارت کے ساتھ ساتھ وہ پوری زندگی ادبی، سماجی و تعلیمی سر گرمیوں سے جڑے رہے، وہ مشہور سائنسداں ڈاکٹر اسرار احمد اعظمی اور معروف شاعر انور اعظمی مرحوم کے بھائی تھے. مدرسۃ الاصلاح سرائے میر کی مجلس انتظامیہ کے سرگرم رکن اور تعمیراتی شعبے کے ذمہ دار تھے، مدرسة الاصلاح کے ممبرہونے کی وجہ سے آپ مدرسہ کے کام کاج میں کافی دلچسپی لیتے تھے تدفین کل 21 نومبر بروز پیر شام چار بجے آبائی وطن مہوارہ اعظم گڈھ میں ہوگی. اللہ رب العزت انھیں غریق رحمت کرے اور جنت میں اعلیٰ مقام دے. آمین

ایک شام گوونڈی ادبی خدمات کے نام عظیم الشان اعزازی مشاعرہ کا انعقاد!

شعیب اختر بستوی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ مہاراشٹرا(آئی این اے نیوز 20/نومبر 2016) سماج وادی پارٹی گوونڈی مہاراشٹرا کے زیر اہتمام اعزازی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت خادم ملت عالیجناب ابو عاصم اعظمی صاحب(صدر سماج وادی پارٹی مہاراشٹرا )نے کی جبکہ نظامت کے فرائض مشہور ناظم مشاعرہ جناب نظر بجنوری صاحب نے انجام دی اور وہیں ہندوستان کے مشہور شاعر اسعد بستوی صاحب و عالم نظامی صاحب اپنے کلام سے موجود سامعین کا دل جیت لیا اس مشاعرے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کی کہ سامعین شروع سے لیکر اخیر تک اپنی جگہ بیٹھے رہے اور تمام شاعروں کو داد و تحسین سے نوازتے رہے صدرِ مشاعرہ ابو عاصم اعظمی نے اپنے صدارتی خطبات میں قوم و ملت پر ہونے والی پریشانیوں کا منہ توڑ جواب دیا اور تمام مکتبِ فکر کے لوگوں سے متحد رہنے کی اپیل کی اور مشاعرے کی کامیابی پر نظر بجنوری صاحب کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ جس کے مشیر نظر بجنوری جیسے دانشور اور دور اندیش لوگ ہوں انھیں دنیا کے کسی بھی کام کرنے کے لیے پریشان ہونے کہ ضرورت نہیں ہے انھوں نے گوونڈی کے شاعروں کو اعزاز دیتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹرا کی جب جب ادبی تاریخی لکھی جائے گی تو گوونڈی کا نام سرِ فہرست ہوگا انشاءاللہ مشاعرہ اپنی کامیابیوں کو طے کرتا ہوا رات 12 اختتام تک پہونچا مشاعرے میں جن شعراء نے اپنے کلام سے سامعین کو اپنا کلام سنایا اور جنھیں اعزاز سے نوازا گیا ان میں ڈاکٹر شعور اعظمی، منظور اعظمی، ڈاکٹر قاسم امام، ڈاکٹر قمر صدیقی، اسعد بستوی، عالم نظامی، عرفان شاہنوازی، عمران گونڈوی، سکون جونپوری، شریف منظر، جسیم اختر نعمانی، وسیم بستوی، اختر آلہ آبادی، رفعت جمال. کلثوم کشفی شاعرہ رفعت جمال، کلثوم کشفی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں . اخیر میں تمام شعراء کی جناب سے ناظمِ مشاعرہ نظر بجنوری نے ابو عاصم اعظمی سمیت تمام شعراء کی جانب سے گلہائے عقیدت پیش کیا اس اعزازی مشاعرے میں خصوصی طور پر شاہنواز خان صاحب غیاث الدین شیخ صاحب، مستقیم خان صاحب، رخسانہ صدیقی صاحبہ کی شرکت ہوئی نظر بجنوری صاحب کے شکریہ کے ساتھ مشاعرے کا اختتام ہوا.

بِکاؤ میڈیا اور موجودہ حکومت !

مفتی محمد ثاقب قاسمی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ آج کی صورت حال یہ ہے کہ بازار میں کچھ ہورہا ہے اور میڈیا کچھ اور دکھا رہا ہے، کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ، مظلوم کو ظالم، مقتول کو قاتل، بناکر دکھانا میڈیا کے لئے بہت آسان ہوگیا ہے وہ نیوز اینکرز جن کا کام عوام کے مسائل کو اجاکر کرنا اور کرپشن، غربت اور فسادات پر سوال کھڑے کرنا تھا وہ آج ملک کے بڑے لیڈروں سے موٹی رقمیں وصول کرنے کے بعد سیاہ کو سفید کرکے دکھانے میں مصروف ہیں, آخر کیا وجہ ہے کہ ایک بے قصور انسان کو گاؤں کے شر پسند افراد مل کر —صرف اس شبہ پر کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت ہے— قتل کر ڈالتے ہیں اور میڈیا اس مقتول اور اس کے اہل خانہ کو ہی مجرم بناکر پیش کرتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ انسان کی جانوں کے دشمنوں کو "جانور سیوک" کا نام دے کر سراہا جارہا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ جے.این.یو کے بے قصور طلبہ پر— صرف اس لیے کہ انہوں نے ملک میں جاری عدم رواداری کے خلاف آواز اٹھائی— دیش دروہی کا الزام لگادیا جاتا ہے؟ آخر کس لیے فلمی اداکار عامر خان کے ایک چھوٹے سے جملے کو— جو حقیقت میں حکمرانوں کی کارکردگی سے بے اطمینانی کا اظہار تھا— بتنگڑ بنا کر اس کو ملک کا غدار تک کہہ دیا جاتا ہے؟ آخر کس لیے ملک میں غنڈہ راج کے خلاف آواز اٹھانے اور غریبوں و مظلوموں کے لیے لڑنے والے لوگوں کو مجرم بناکر کھڑا کردیا جاتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ملک میں حق کی آواز اٹھانے والوں کو میڈیا برداشت کرنے پر راضی نہیں؟ یہ سب دلائل و شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کا اسّی فیصد میڈیا اور نوے فیصد نیوز اینکرز دل، دماغ اور زبان و قلم سمیت فروخت ہوچکے ہیں. آج حکومت کے سامنے عوامی سطح پر سیکڑوں چیلنجز ہیں الیکشن سے پہلے کیے گئے بی.جے.پی. کے تمام وعدے ہوا ہوچکے ہیں بلکہ ملک میں پہلے سے زیادہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں، غربت میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے، مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، کاروبار ٹھپ پڑ چکے ہیں، بی، جے، پی لیڈران ملک میں نفرت کی فضا پیدا کرنے میں مصروف ہیں، اقلیتی طبقوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جارہی ہے، کشمیری عوام آزاد ملک میں محبوس ہوکر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں کل کے چونّی چھاپ لوگ آج پارلیمنٹ کی کرسیوں پر بیٹھ کر مودی بھکتی کے نعرے لگا کر اپنی بے سر و پا کی تقریروں میں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک کا نظام بہت اچھا چل رہا ہے اور موجودہ سرکار پہلے سے بہتر کام کر رہی ہے؛ لیکن سچ عوام کے سامنے ہے کہ بی.جے.پی. نے جب سے تختۂ حکومت پر قدم جمائے ہیں ملک اور عوام کے حق میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا بلکہ ملک کا عام باشندہ مسلسل پریشان ہے ہر محکمہ ترقی کے بجائے تنزل کی طرف گامزن ہے.