اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: November 2017

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 30 November 2017

مفتی عبداللہ پھولپوری کا سانحۂ ارتحال مسلمانوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان!

مولانا اسرارالحق قاسمی نے بزرگ عالم اور بیت العلوم سرائے میر کے سرپرست کے انتقال پرتعزیت کا اظہار کیا.

رپورٹ: یاسین صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نئی دہلی(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2017) معروف عالم دین ،عارف باللہ مفتی عبداللہ پھولپوری کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے ممبرپارلیمنٹ اور بزرگ عالم دین مولانا اسرارالحق قاسمی نے کہا کہ ان کی وفات سے ہندوستان کے مسلمانوں کا علمی خسارہ ہی نہیں ہوا بلکہ معرفت و سلوک کے طالبین کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے، انہوں نے کہا کہ مفتی صاحب ہندوستان کے ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جو ایک عرصے سے علم و فضل اور تصوف و سلوک کے حوالے سے اپنی امتیازی پہچان رکھتا ہے، ان کے دادا حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری حکیم الامت حضرت تھانوی کے اجل خلفاء میں سے تھے اور انہوں نے مشرقی یوپی میں علم دین کی اشاعت اور لوگوں کے قلوب کی اصلاح کے لئے اہم کارنامے انجام دیئے۔
مولانا نے کہا کہ مفتی عبداللہ پھولپوری نے جہاں مدرسہ بیت العلوم سرائے میر میں ایک موقر استاذ اور مدیر و منتظم کی حیثیت سے قابل قدر خدمات انجام دیں وہیں ان کے ذریعے سے ہزاروں لوگوں نے سلوک و معرفت کی منزلیں بھی طے کیں، وہ اپنے وقت کے اکابر اور اولیاء اللہ کے مقرب رہے، ان کی صحبت سے فیض حاصل کیا اور پھر ان بزرگوں کے فیضان کو آنے والی نسلوں تک پہنچایا۔
مولانا قاسمی نے کہا کہ مجھ سے موصوف کے نہایت مخلصانہ تعلقات تھے اور مختلف مواقع پر بارہا ملاقات کا ملا، وہ نہایت مخلصانہ معاملہ فرماتے اور مختلف ملی و دینی مسائل پر وقیع گفتگو فرماتے۔
واضح رہے کہ مفتی عبداللہ پھولپوری ان دنوں سفر عمرہ پر تھے، جہاں اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی، فوری طور پر انہیں ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا مگر جانبر نہ ہوسکے اور وہیں وفات ہوگئی، مولانا اسرارالحق قاسمی نے خبر ملتے ہی ان کے پسماندگان سے رابطہ کرکے اظہار تعزیت بھی کیا اور مرحوم کے لئے مغفرت و بلندیِ درجات کی دعاء کی۔

آیا نہ کوئی رحمت عالم بن کر!

تحریر: مفتی فہیم الدین رحمانی چیئرمین شیخ الھند ٹرسٹ آف انڈیا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جن دنوں معاشرہ انسانی پرائیوں کی آماجگاہ تھا انسانیت خوف و حزن کی آتش خاموش میں چل رہی تھی انسان مضطرب و بے قرار تھا زندگی جمود و تعطل کا شکار ہو چکی تھی، عدل و احسان کا فقدان تھا ظلم و جہل کی گرم بازاری تھی، معاشرہ امن و سلامتی کو اور انسا نیت طمانیت وسکون کوترس رہی تھی، اور ظلم و استبداد کی اندھی اور بہری قوتیں انسانیت کے وجود سے تہذیب و اخلاق کے پیر اہن نوچ رہی تھیں، ادھر معاشرہ بدامنی اور انارکی کا شکار ہو چکا تھا ایسے نازک اور سلگتے ماحول میں اللّٰہ رب العزت نے سید الکونین فخر رسل ھادئ سبل معلم انسانیت
اور رحمت عالم بنا کر مبعوث فرمایا اور آپﷺ نے اپنی تعلیم و تربیت سے دشمنوں کو جاں نثار بنایا، دوستوں کو کردار کی حلاوت سے موہ لیا اور دنیا کویہ درس عبرت دیا کہ ,,تیر و تلوار ,, کی طاقت سے تو صرف زمین چھینی جاسکتی ہے مگر کسی کا دل نہیں جیتا جاسکتا, آپﷺ کی سیرتِ پاک اور زندگی کی داستان عشقِ الہیٰ اور محبتِ انسانی کی حسین ترین داستانِ رحمت ہے آپﷺ کےدن محبتِ انسانی میں گزرتے تھے توراتیں عشقِ الہٰی کے جلو میں کٹتی تھیں کبھی آپﷺ فلاح انسانی میں شہر کی گلیوں اور بازاروں میں تو کبھی شہر سے باہر مضافاتی بستیوں کاروانوں خانہ بدوش لوگوں سے ملتے جلتے اور انہیں راہِ حق کی دعوت دیتے آپﷺ انہیں کبھی قرآن کریم سناتے تو کبھی دنیوی واخروی کامیابیوں کامژدہ دیتے اور عقوبات و سزاؤں سے باخبر کرتے آپﷺ کی زندگی کا اہم پہلو یہ تھا کہ دوسروں کو زندگی عطا کر نے سے زندگی ملتی ہے اور دوسروں کی زندگی چھیننے سے اپنی زندگی چھن جاتی ہے، آپﷺ نے کبھی کسی شخص کے لئے ڈانٹ ڈپٹ روا نہ رکھا آپﷺ کاارشاد گرامی ھے: جس شخص کو نرمی وسعادت سے محروم کیا جاتا ہے اسے نیکی اور بھلائی سے محروم کردیا جاتاہے ایک بارکسی شخص نے آپﷺ سے عرض کیا مجھے نصیحت فرمایئے آپﷺ نے فرمایا ,,لاتغضب ,, یعنی غصہ نہ کر اس نے کئی مرتبہ یہی بات کہی اور ہردفعہ آپﷺ نے یہی فرمایا غصہ نہ کر۔ ایک دیہاتی حاضرِ خدمت ہوا اور آپﷺ کی چادر مبارک زور سے کھینچی جس کی وجہ سے آپؐ کی گردن میں نشان پڑ گیا, پھربولا محمد! یہ میرے دواونٹ ہیں ان کی لاد کاسامان مجھے دیدو کیوں کہ جومال تیرے پاس ہے وہ نہ تیرا ہے اور نہ تیرے باپ کا محسن اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا مال تو اللّٰہ کاہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔ پھر دیہاتی سے دریافت فرمایا : جو برتاؤ تم نے مجھ سے کیااس پر تم ڈرتے نہیں وہ بولا نہیں  آپﷺ نے وجہ پوچھی تواس نےکہا مجھے معلوم ہے کہ تم برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے آپؐ یہ سن کر ہنس پڑے اور اس کی طلب پوری فرمانے کی ہدایت فرمائی ۔
            ــــــــــــعـــــــــــ
آئے  بہت پاک و مکرم بن کر
 آیا نہ کوئی رحمت عالم بن کر

مئو آئمہ آل اسٹوڈنٹس کے صدر نازش قریشی کی مدرسہ نعمانیہ میں آمد!

رپورٹ: عبد اللہ انصاری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مئو آئمہ/الہ آباد(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2017) الہ آباد ضلع کا مسلم اکثریتی قصبہ مئو آئمہ جھاں تقریبا ۲۵ہزار آبادی ہے، پورے ملک میں ایک خاص مقام رکھتا ہے، کسی تعارف کا محتاج نہیں، اس قصبہ کی شہرت صرف اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ہے، مئوآئمہ میں تعلیم وتعلم کا اچھا خاصہ ماحول ہے، مئوآئمہ طلباء یونین کی جانب سے تعلیم کے اندر بیداری، ان کے لئے ترقی کی راہ ہموار کرنے اور ان کو بلندیوں تک پہنچانے کی غرض سے نوجوان کی کوشش اور جد و جہد کے نتیجہ میں مئوآئمہ آل اسٹوڈنٹ تنظیم کا قیام عمل میں آیا، کل بعد نماز مغرب تنظیم کے صدر محمد نازش قریشی الہ آباد شہر میں واقع مدرسہ نعمانیہ کٹرہ تشریف لائے، جہاں انہوں نے نوجوان عالم دین مفتی فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی سے خصوصی ملاقات کی، اور مئوآئمہ میں تعلیم بیداری اور اپنی تنظیم کے دائرہ کار کو مضبوطی کے ساتھ وسیع کرنے پر غور و خوض کیا.
اس موقع پر مفتی فضل الرحمان الہ آبادی نے کہا کہ نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ لوگوں کو قلم اور زبان کی طاقت کو پہچاننا چاہیئے، اور ان کو صحیح جگہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا زبان اور قلم کے صحیح استعمال کے ذریعہ قوم و ملت کی عظیم خدمات انجام دی جاسکتی ہے، مفتی قاسمی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہماری نئی نسل اردو زبان سے بالکل ناآشنا ہوچکی ہے، انہاں نے کہا حالات ایسے آگئے ہیں کہ اب ہماری شرعی اصطلاحات سے ہمارا مسلم سماج بالکل ناواقف ہوگیا، موجودہ زمانے میں اردو عربی زبان کے ساتھ ساتھ ہندی اور انگریزی زبان کی اہم معلومات طلباء مدارس کو ضرور ہونی چاھیئے، ورنہ نئی نسل کو مسئلہ بتانے اور تبلیغ دین پر کامل طور پر قدرت نہیں رکھ پائے گا.
غور طلب ہوکہ مئو آئمہ آل اسٹوڈنٹ کے صدر نازش قریشی مرکزی الہ آباد یونیورسٹی کے ایم اے کے طالب علم ہیں، اور الہ آباد ضلع کے سب  سے بڑے مسلم اکثریتی قصبہ میں تعلیم بیداری اور روشن مستقبل کے لئے کام کررہے ہیں، کل انہوں نے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان شاءاللہ آگے مزید جد و جہد، نئے حوصلہ کے ساتھ اپنی تنظیم کے لئے محنت کریں گے، اور نسل نو میں تعلیم کی قندیلیں روشن کریں گے.

مفتی عبداللہ پھولپوری کا مکہ مکرمہ میں انتقال، علاقہ میں غم کا ماحول!


رپورٹ: عبدالرحمٰن قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2017)بڑے افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ ملک کی مایہ ناز شخصیت، بزرگ عالم دین حضرت مفتی عبداللہ پھولپوری صاحب حفظہ اللہ ناظم مدرسہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ کا آج مکہ المکرمہ میں انتقال ہوگیا ہے، اناللہ واناالیہ راجعون
اچانک یہ خبر سن کر علاقہ میں غم کا ماحول چھا گیا، اللہ تعالی حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے، پسماندگان اور ہزاروں عقیدت مندوں و شاگردوں کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمیــــن
تجہیز و تکفین کی اطلاع ابھی نہیں ملی ہے، ان شاء اللہ خبر ملتے ہی اطلاع کر دی جائے گی.

بارہ بنکی: ووٹروں پر پولیس نے کیا لاٹھی چارج، پولیس اہلکار پر بی جے پی کے لئے کام کرنے کا الزام!

رپورٹ: وسیم شیخ
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بارہ بنکی(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2017) بلدیاتی انتخابات کے دوران بارہ بنکی کے کوتوالی شہر کے تحت پیرو ٹاون محلے میں پولیس نے ووٹروں پر لاٹھی چارج کیا، ووٹروں کو پیٹنے کا الزام ہے.
لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں الیکشن انتظامیہ بی جے پی کے حق میں کام کر رہا ہے، لوگوں نے پولیس اور انتظامیہ کے خلاف جم کر نعرہ بازی کی، معاملہ شہر کوتوالی کے پیرو ٹاون کے وارڈ نمبر 26 کا ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ اقتدار کے حق میں پولیس کام کر رہی ہے، لوگوں نے مقامی میونسپل کونسل کے بی جے پی کے امیدوار رنجیت بہادر شریواستو کے خلاف سنگین الزامات لگائے ہیں.
 معلوم ہو کہ بارہ بنکی میں ہی انتخابی پرچار کے دوران کچھ دن پہلے ہی بی جے پی کے بڑے لیڈر نے کہا تھا اگر لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں کیا تو انجام برا ہوگا، دراصل لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ دھمکی مسلم کمیونٹی کو دی گئی تھی.
 واضح ہو کہ پردیش میں تیسرے مرحلے کی ووٹنگ چل رہی ہے، کل بھی کئی جگی سے EVM میں خرابی اور ووٹر لسٹ میں ووٹر کے نام نہ ہونے کی بڑی پیمانے پر شكايتیں ملی ہے.
بریلی میں نصف درجن EVM میں خرابی کی خبر آئی ہے، وہاں پر خواتین نے EVM میں خرابی سے ووٹنگ میں تاخیر پر ہنگامہ بھی کیا، گزشتہ کل آخری مرحلے میں 26 اضلاع میں ووٹنگ ہوئی، 1 دسمبر کو ووٹ کی گنتی کی جائے گی.

مبارکپور: اہل بیت کی شان میں گستاخی کرنے والے روہت سردانا کے خلاف ہزاروں مسلمانوں نے پتلا جلا کر کیا احتجاج!

روہت سردانا پر کارروائی نہیں ہوئی تو مبارکپور بند کر احتجاج کریں گے.

رپورٹ: جاوید حسن انصاری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 30/نومبر 2017) ریشم نگری مبارکپور میں آج تک ٹی وی اینکر روہت سردانا کے خلاف لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، ہفتوں سے جگہ جگہ پتلا جلا کر اور مخالفت کر مسلم کمیونٹی کے لوگ اپنی سخت ناراضگی جتا کر حکومت سے سخت کاروائی مطالبہ کیا ہے.
اسی کڑی میں بدھ کی صبح 10 بجے مبارکپور کے املو بازار میں ناراض مسلمانوں نے بڑی مخالفت کر پتلا پھونک کر جم کر نعرے بازی کی.
واضح ہو کہ آج تک ٹی وی چینل کے اینکر روہت سردانا کی طرف سے  پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اور امام حضرت علی کی بیوی کی شان میں گستاخی کی، جس کی سخت مذمت کر مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے حکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا.
اس موقع پر مولانا ناظم علی خیرآبادی، مولانا انصار حسین ترابی، املو کے مہاپردھان محمد ضیاء اللہ انصاری، حاجی عبدالمقتدر انصاری عرف پلو انصاری، مبارکپور ریشمی کپڑا بياپار منڈل کے صدر حاجی اعجاز حیدر پوہ خواجہ، محمد سلیم، مولانا ابن حسن املو، مولانا فاروق عبداللہ، مولانا انصار حسین ترابی، ماسٹر قیصر صاحب املو، سلیمان انصاری، محمد راشد انصاری ایڈوکیٹ املو، سمیت بڑی تعداد میں مسلم کمیونٹی کے تمام جماعت کے لوگ موجود رہے.
آخر میں مبارکپور پولیس چوکی انچارج کوشل کمار قاری کے ہاتھوں ایک میمورنڈم سونپ کر حکومت سے سخت کاروائی کا مطالبہ کیا.
سخت ناراضگی کو دیکھتے ہوئے سیکورٹی انتظام پولیس کی طرف سے کیا گیا، سینکڑوں لوگوں نے اینکر روہت سردانا کا پتلا پھوكر احتجاج کیا.
مسلم کمیونٹی کے ذمہ داروں نے کہاکہ پیغمبر حضرت محمد صلعم نے انسانیت زندہ رکھنے کے لئے ہمیشہ لڑے وہ ہمیشہ پوری دنیا کے لئے اچھا پیغام دیا، اور آج ان پر اور اہل بیت پر پورے بھارت میں زہر نامناسب الفاظ استعمال کیئے جارہے ہیں جو قابل مذمت ہے، اور نا قابال برداشت ہے، حضرت محمد صلعم یا اہل بیت کی شان میں گستاخی کوئی بھی مسلمان برداشت کسی بھی قیمت پر نہیں کرے گا، اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئے آج تک ٹی وی اینکر روہت سردانا نے گستاخی کر پورے مسلمانوں کے دلوں کو ٹھینس پہنچائی ہے جو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا، لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اگر جلد گرفتار نہیں کیا گیا تو پورا مبارکپور بند کر بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جائے گا.

Wednesday 29 November 2017

جمیعت علماء ھند حلقہ بہٹہ حاجی پور کے زیر اہتمام جلسہ بعنوان اصلاح معاشرہ کا آٹھواں پروگرام بلال مسجد باڈر میں منعقد!

رپورٹ: محمد طیب قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2017) جمیعت علماء ہند حلقہ بہٹہ حاجی ہور کے زیر اہتمام جاری دس روزہ پروگرامس بعنوان اصلاح معاشرہ کی آٹھویں اصلاحی مجلس بلال مسجد باڈر میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ گزشتہ 28نومبر کو بعد نماز عشاء منعقد ہوئی، مجلس کا آغاز حسبِ روایت قاری عبدالقیوم کی پرسوز تلاوت قرآن کریم اور مشہور نعت خواں بلبل باغ مدینہ جناب قاری محمد ارشاد صاحب کی
خوبصورت نعت پاک سے کیا گیا، بعدہ ٹانڈہ باغپت سے تشریف لائے مہمان مقرر جناب حضرت مولانا محمد عباس صاحب مفتاحی نے "والدین کے حقوق" مذکورہ موضوع پر کتاب وسنت کی روشنی میں سمجھاتے ہوئے کہا کہ والدین ہمارے لیے وہ قیمتی سرمایہ اور انمول تحفہ ہے جس کی حفاظت ہماری ذمےداری ہے اگر ہم نے غفلت میں اس عظیم دولت کو گنواں دیا تو یہ ہمارے لیے بہت بڑا خسارہ ہوگا نیک اورصالح اولاد کے لیے والدین جیسی عظیم نعمت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں ہوا کرتی، اس لیے پیارے بچوں اور نوجوانوں جن کے والدین بقید حیات ہیں توان کو چاہیے کہ اس طرح والدین کی اپنے ماں باپ کی خدمت کریں کہ وہ ہمیشہ آپ سے خوش وخرم رہیں اور دل سے آپ کی کامیاب زندگی کی دعائیں کریں، اس لیے سب سے پہلے والدین کے حق کو مقدم رکھیں۔
مزید گفتگو کرتے ہوئے بطور تمثیل کئی واقعات جس میں حضرتِ اُویس قرنیؒ اور صحابئ رسولؐ حضرتِ علقمہؓ کے بارے میں بتایا اور کہا کہ  حضرت عبداللہ ابن عمر کا قول ہے کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سے معلوم کیا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو کندھے پر بٹھایا اور بیت اللہ لے گیا کندھے پر بٹھا کر ہی حج کے تمام مناسک تمام ارکان ادا کرائے تو کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟؟؟
حضرت نے فرمایا نہیں نہیں ہرگز نہیں یہ تو اس کے برابر بھی نہیں جو ماں نے زچگی کی حالت میں صحن میں ایک چکر لگایا تھا، اللہ اکبر کتنا بڑا مقام ہے ماں کا اسی لیے مالک حقیقی کو رب حقیقی اور والدین کو رب مجازی کہا گیا ہے اس لیے میرے بھائیوں جن کے والدین ابھی زندہ ہیں انہیں چاہیے کہ ماں باپ کی خوب خوب خدمت کریں اور انہیں کسی طرح تکلیف اور پریشانی میں مبتلا نہ کریں ۔
پروگرام کی نظامت محمد طیب قاسمی نے کی بحیثیت مہمان خصوصی حضرت مولانا محمد مشتاق صاحب قاسمی صدرجمیعت علماء حلقہ بہٹہ حاجی پور، قاری عبدالجبارصاحب امام وخطیب عباسؓ مسجدو سکریٹری جمیعت حلقہ بہٹہ حاجی پور، حضرت مولانا مفتی فخرالزماں اظہرقاسمی، حضرت مولانا مفتی محمد انس قاسمی، مولانا محمد تنویرصاحب مفتاحی، مولانا محمد صیاد مظاھری لونی، قاری عبدالسبحان صاحب، جناب سلیم پہلوان جی اور اس کے علاوہ کثیر تعداد میں سامعین نے شرکت کی.
اخیر میں مہمان محترم حضرت مولانا مفتی محمد فہیم قاسمی کی دعا پر مجلس اپنے اختتام کو پہنچی، بعدہ مسجد کے امام وخطیب مولانا محمد شاہنواز حسین مفتاحی نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔

ماہ ربیع الاول کا پیغام اور عشق نبی کا دعویٰ!

از قلم: مفتی محمد ثاقب قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بارہ ربیع الاول کا یہ دن پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے بہت اہم ہے، اسلئے کہ اسی دن تاجدار مدینہ، سید الکونین، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی، 20 اپریل 571 عیسوی بروز پیر بوقت صبح آپ مکہ میں پیدا ہوئے، گمراہ اور شرک و بدعت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کے لئے فلاح کی راہ دکھانے والا دستورِ زندگی لے کر آپ تشریف لائے، جو ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کے لئے ضابطہ حیات ہے، اس دستورِ حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا، نہ بادشاہ و فقیر کا، کرئہ زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے، اور اسی دن آپ اس دنیا سے
دار بقا کی طرف کوچ کرگئے تھے، یہ دن ہمارے لئے یوم احتساب ہے، اور اپنے اعمال کا محاسبہ اور جائزہ لینے کا دن ہے، آج کی یہ تاریخ ہمیں اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ ہم سب اپنی زندگی کا، اتباع رسول اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوی کا جائزہ لیں، غور و فکر کریں، کہ کیا واقعی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہیں، اور تعلیمات نبوی پر عمل کررہے ہیں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جس راستے پر ہمیں گامزن کیا تھا اس پر برقرار ہیں؟ امت مسلمہ کو جن چیزوں سے روکا گیا تھا اب بھی ہم اس سے رکے ہوئے ہیں یا نہیں؟
آج ہم اس مہنیہ کی آمد پر اپنے گھروں، محلوں، بستیوں اور شہروں کو مجلسوں سے آباد تو کر لیتے ہیں لیکن اپنے دل کی تاریکیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن تعلیمات سے منور نہیں کرتے، عطر و خوشبو سے تو اپنے آپ کو اور اپنے گھروں کو تو معطر کرلیتے ہیں، مگر اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے معمور نہیں کرتے، ہماری راتیں گھومنا پھرنا اور عمدہ کھانا کھانے میں تو گزر جاتی ہیں پر ہم اسے اعمال حسنہ سے منور نہیں کرتے.
محسنِ کائنات  ﷺ نے انسانوں کے لئے جو دستورِ حیات دیا اور جو نظام زندگی دیا اسکے بارے فرمایا کہ جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے وہ مصطفی ﷺ کی سیرت میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارےـ
رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لئے زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرے گی اور آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا اور تمہارے لئے رسول کی زندگی ہی نمونہ عمل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پوری انسانیت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں، دنیا کے نامور اور انصا ف پرور مورخین نے بھی انہیں سب سے عظیم انسان قرار دیا ہے، آپ نے اس دنیا کو ضلالت و گمراہی سے نکال کر ہدایت کی راہ پر گامزن کیا، آپ کی بعثت سے قبل ہر طرف ظلم و زیادتی کا دور دورہ تھا، جہالت عام تھی، لوگ ذات پات، رنگ ونسل، قبیلوں اور علاقوں کی بنیاد پر لڑ جھگڑ رہے تھے، انکی آپس کی لڑائیاں سالہا سال چلا کرتی ہے، عورتوں کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی انکی پیدائش کو عیب سمجھا جاتا تھا، انہیں زندہ در گور کردیا جاتا تھا، ایسے حالات میں آپ نے لوگوں کو گھٹا ٹوپ تاریکیوں سے نکال کر کامیابی اور ہدایت کے شاہ راہ پر گامزن کیا اور پوری دنیا کو تاقیامت عظیم نسخہ کیمیا فراہم کیا جس پر چل کر دنیا کی کوئی بھی قوم کامیاب بن سکتی ہے.
لیکن المیہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ اپنے نبی کے عظیم فرمان کو فراموش کرچکی ہے، اسوہ رسول کو اپنی زندگی سے نکال چکی ہے، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کے باب میں تعلیمات نبوی سے بہت دور ہوچکی ہے، اپنا کلچر، تہذیب وثقافت کو چھوڑ کر غیروں کی تہذیب کو اپنا نے لگی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم قوم ذلت ورسوائی سے دوچار ہے، ہر میدان میں پچھڑتی نظر آرہی ہے.
آج کے مسلمانوں کا المیہ دیکھیئے کہ ماه ربیع الاول کی آمد پر طرح طرح کی خرافات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عاشقان رسول ہیں، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیک کاٹا جارہا ہے اور سب لوگ ہیپی برتھ ڈے ٹو یا رسول اللہ کے نعرے لگاتے ہیں، بے عمل اوباش قسم کے نوجوان فلمی گانوں پر ناچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عاشقان رسول ہیں (نعوذ باللہ) کیا یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے؟
کیا یہی آپ کی تعلیمات ہیں؟
افسوس صد افسوس
کیا تم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہو؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا مہینہ اس خیر جماعت کے عہد میں بارہا آیا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دو بار، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں دس بار، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد میں بارہ بار، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں چار بار آیا، مگر کوئی بھی شخص اس دور کے متعلق ایک بھی ایسی روایت دکھا سکتا ہے؟ جس میں میلاد کے جشن و جلوس کا تذکرہ ہو.
 ہرگز نہیں ہرگز نہیں دکھا سکتا، کیوں کہ کبھی میلاد النبی منا ہی نہیں گیا.
عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اس طرح سے شور شرابا اور خرافات کو کوئی باشعور مسلمان جائز نہیں کہہ سکتا ہے.
بارہ ربیع الاول کی مناسبت سے ہمیں چاہیئے کہ ہم سیرت کے عنوان پر جگہ جگہ جلسے کریں، ہم زیادہ سے زیادہ سیرت کے پیغام کو عام کریں، دنیا کو تعلیمات نبوی سے آگاہ کرانا وقت کا اہم تقاضا ہے.
اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور پوری دنیا ہر طرح کی سہولتوں اور ترقیات کے باوجود جن پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے، ظلم و زیادتی کا دور دورہ ہے ہر طرف ایک دوسرے کے حقوق کو مارتا ہوا نظر آتا ہے، ہر ایک کو دوسرے سے شکایت ہے ہر طرف خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اس کا علاج اگر کہیں ملتا ہے تو وہ پیغام محمدی کے دستور حیات میں ملتا ہے، دنیا کی ہر طرح کی پریشانیوں کا حل آپ کا بتایا ہوا نظام حیات ہے.
 ہندوستان سمیت دنیا بھر میں مختلف موضوعات پر پروگرام کا انعقاد کیا جاتاہے لیکن سیرت نبوی کے عنوان سے کوئی خاص اہتمام نہیں کیا جاتاہے، ہندوستان اور ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ایسے پروگرام منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے، جہاں غیر مسلموں کو مدعو کیا جائے انہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور آپکی حیات طیبہ کے بارے میں بتلایا جائے، اس طرح کے پروگراموں کا بہت بڑا فائدہ ہوگا لوگوں کے دلوں میں حضور پاک صلی اللہ علیہ کی عظمت اور آپ کو پڑھنے کا جذبہ و شوق بیدار ہوگا اور وہ شوق و رغبت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کریں گے، محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے انمول حیات وکردار سے آگاہ کیاجائے اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاجائے کہ آپ نے دنیا کو کیا کیا دیا ہے، آپ کی بعثت سے پہلے دنیا کس قدر ظلمت وتاریکی کی دلدل میں پھنسی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ کے آنے کے بعد کیسا انقلاب برپا ہوا.

دارالعلوم دیوبند کیا ہے؟

ناقل: محمد خالد اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      دارالعلوم دیوبند ایک الہامی مدرسہ ہے ،جس کا منہاج تعلیم عین تعلیمات نبوی کے مطابق ہےجس کو وقت کے  چند اہل اللہ نے تعمیر کیا ،جس کا سرمایہ(توکل علی اللہ )ہے جس کی بنیاد اخلاص وللہیت پر ہے اور جو انگریزوں کی حکومت میں اسلامی اور دینی تعلیمات کو ہندوستان میں خصوصا اور پوری دنیا میں عموماباقی رکھنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
         دارالعلوم دیوبند ان افکار کا دریا ہے جو سینہءنبوت سے بہکر صحابہ کرام سے ہوتا ہوا ہندوستان میں(شاہ ولی اللہ) کے واسطے سے مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولانا یعقوب صاحب (رحہم اللہ) کے ذریعے دیوبند منتقل ہوا، جس کی لہریں ہند و پاک کی سرحد سے نکل کر اقطاع عالم میں پھیل گئیں اور عالم اسلام کے تشنگان علوم نبوت بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔
     دارالعلوم دیوبند اس علم صحیح کا نام ہے جو برزگان دین نے پیٹ پر پتھر باندھ کر ہم تک پہونچایا ہے ۔
    دارالعلوم دیوبند قرآن و سنت کی اس تعبیر کا نام ہے جو صحابہ کرام تابعین عظام اور سلف امت کے ذریعے ہم تک پہونچی ہے ۔
     دارالعلوم دیوبند سیرت و کردار کی اس خوشبو کا نام ہے جو صحابہ کرام تابعین عظام کی سیرت سے پھوٹی ہے ۔
    دارالعلوم دیوبند اس جہد و عمل کا نام ہے، جس کا سہرا بدر واحد تک پہونچتا ہے ۔
      دارالعلوم دیوبند اس اخلاص وللہیت،تواضع، انکساری،تقوی وطہارت حق گوئی و بے باکی کا نام ہے جو تاریخ اسلام کے ہر دور میں علماء حق کا طرہ امتیاز رہی ہے ۔

مدرسہ قائم کرنا مستحب ہے لیکن مکاتب قائم کرنا فرض ہے: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ہم اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ڈھالیں گے، گھر کا ماحول اسلامی نہیں ہوگا تو دنیا کا کوئی قانون اور دنیا کی کوئی طاقت آپ کے شرعی قوانین کی حفاظت نہیں کرسکتا: مولانا عتیق احمد بستوی

رپورٹ: نافع عارفی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
ممبئی(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2017) اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سہ روزہ بین الاقوامی سیمینار کے اختتام پر گزشتہ دن وائی ایم سی اے گرائونڈ ممبئی میں ایک جلسہ عام منعقد ہوا، تحفظ قرآن و سنت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری وترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا کہ اس ملک میں امت مسلمہ بڑے نازک دور سے گزر رہی ہے، تعلیم ، یوگا اور ورزش کے نام پر شرک و کفر کی دعوت دی جارہی ہے،
اسکولوں میں خواہ وہ پرائیویٹ ہی کیوں نہ ہوں اور مسلم منیجمنٹ کے زیر انتظام ہی کیوں نہ ہو، حکومت وندے ماترم اور سوریہ نمسکار جیسی مشرکانہ افعال واعمال کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حکومت ایسے قانون لانے کی کوشش کررہی ہے کہ ہر اسکول کو لازمی کرانا ہوگا، اسلام شرک کے شبہ کو بھی گوارہ نہیں کرسکتا ایک مسلمان کے لیے اپنی جان دے دینا آسان ہے لیکن شرکیہ عمل کرنا اس کے لیے ممکن نہیں، ٹیکنالوجی، ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلامی تہذیب وثقافت اور عقائد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، گیتا کو ایک سائنسی کتاب اور ہندوتوا کی دیومالائی کہانیوں کو سائنسی زبان میں پیش کرکے معصوم نونہالوں کے ذہن و دماغ میں کفر و شرک کو رچانے اور بسانے کی کوشش پوری قوت سے کی جارہی ہے۔
 مولانا رحمانی نے مزید فرمایا کہ ہندو ازم ایک ایسی تہذیب ہے جس نے بہت ساری تہذیبوں کو اور بہت سارے مذہبوں کو نگل لیا ہے، جین مذہب، ہندو مذہب کے مقابلے میں کھڑا ہوا لیکن آج جینی ہندوانہ رسم ورواج کے تابع ہیں، انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت ہندوتوا کو ایک مذہب کے طور پر نہیں بلکہ ایک تہذیب کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندو توا ہندوستانی کلچر ہے نہ کہ ہندو مذہب ہے، انہوں نے فرمایا کہ اگر اس دور میں مسلمانوں نے اپنے نونہالوں کی دستگیری نہیں کی تو پوری نئی نسل شرک کے دلدل میں دھنس جائے گی اس لیے ضرورت ہے کہ ہر آبادی میں ہر محلے محلے مکاتب کا نظام قائم کیاجائے، آپ نے فرمایا کہ مدرسہ قائم کرنا مستحب ہے لیکن مکاتب قائم کرنا فرض ہے، اگر جس طرح نماز اور روزے کے چھوڑنے پر ہمیں اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا اسی طرح مکاتب سے چشم پوشی کے لیے بھی ہم اللہ کے حضور مجرم ٹھہرائے جائیں گے، انہوں نے ممبئی کے رہنے والے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی ایک شہر نہیں بلکہ پورا ہندوستان ہے، یہاں ہندوستان کے ہر خطے سے لوگ آکر آباد ہیں اس لیے میرا یہ پیغام اپنے گاؤں گاؤں پہنچائیں اور وہاں مکاتب کے نظام میں تعاون کیجیئے اور اگریہ نظام نہ ہوتو قائم کیجئے۔
اس موقع پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری اور ندوۃ العلماء کے استاذ حدیث وفقہ حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے فرمایا اگر آپ خود اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ڈھالیں گے اور آپ کے گھر کا ماحول اسلامی نہیں ہوگا تو دنیا کا کوئی قانونی اور دنیا کی کوئی طاقت آپ کے شرعی قوانی کی حفاظت نہیں کرسکتا اس لیے ضرورت ہے کہ ہر فرد اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کی سیرت کے آئینے میں ڈھال لے اور اپنا اخلاق وکردار اسلامی بنائے ۔یہ اجلاس مولانا رابع صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا اور نظام مفتی سعید الرحمن قاسمی نے کی۔
 اس اجلاس سے شاہ عالم گورکھپوری اور بحرینی عالم دین حبیب نابلتی، مولانا عبیداللہ اسعدی اور مولانا قاسم مظفرپوری نے خطاب کیا، اس جلسہ کا انتظام ادارہ دعوۃ السنہ کے صدر اور ممبئی کے مشہور عالم مولانا شاہد الناصری الحنفی اور ان کے رفقاء کے ذریعہ انجام پایا۔

ماہ ربیع الاول اور اس میں ہونے والی برائیاں!

تحریر: محمد سلمان دہلوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہر سال ماہ ربیع الاول کو میں جس قدر بدعات و رسومات ادا کئے جاتے ہیں شاید کسی میں ادا کیا جاتے ہوں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سمجھتے ہوئے جبکہ مؤرخین نے بیان کیا ہے آپ کی وفات تو بارہ ربیع الاول ہی کی ہے البتہ ولادت میں اختلاف ہے بعض نے دو روبیع الاول اور بعض نے آٹھ ربیع الاول کہا ہے ‘ اب تو بارہ ربیع الاول نے ایک عید اور خوشی کا دن شمار کیا جانے لگا ہے اور ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی جشن یوم ولادت اور ہر طرح کی خرافات (جن کو خود آقا مدنی علیہ السلام نے منع کیا ) شروع ہوجاتے ہیں ‘
ہاں یہ بات یقینی ہے اور چونکہ ہر مسلمان کے لیے لازم اور فرض ہیکہ آقا علیہ السلام کا تذکرہ کریں لیکن محض ربیع الاول کے مہینہ میں اور خاص طور پر بارہ ربیع الاول کو ہی مختص کر لیا گیا ہے‘ اور ماہ ربیع الاول شروع ہوتے ہی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریبات و انتظامات شروع کردیا جاتا ہے‘ اب تو اس کو عید ثالث سے بھی موسوم کیا جانے لگا ہے ‘ اس تیسرے تہوار میں وہ خرافات اور برائی ہوتی ہیں جو عید الفطر و عید الضحیٰ میں دیکھنے کو بھی نہیں ملتی، مساجدوں کو مندروں اور گرجا گھروں کی طرح سجانا، رات بھر جاگنا، ڈھول‘تاشا‘ گانا‘ بجانا‘ اور طرح طرح کی برائیوں میں گزارنا، اور اس کا نام میلاد النبی دینا بلکل عقل و شعور کے خلاف ہے کیونکہ جس نبی علیہ السلام نے اس دنیا سے اپنی(63 )سالہ مختصر زندگی میں گانا بجانا ڈھول تاشا وغیرہ جیسے کھیلوں اور بدعات کو ختم کیا تھا اس کو ہم نے دوبارہ اپنا لیا جو سراسر غلط اور جھنم کا راستہ ہے اس سے تمام مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیے اور جو طریقہ نبی اکرم علیہ السلام امت کو دے گئے ہیں اس کو اپنانا چاہیے اسی میں کامیابی و کامرانی ہے ‘جبکہ یہ عید خود نبی اکرم علیہ السلام نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی نہی منائی اور نہ آپ کے بعد خلفاء راشدین نے منائی نہ ہی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے منائی ‘ اور نہ ہی ان کے بعد آنے والے تابعی و سلف صالحین نے منائی ‘

تو اب ہم کیوں منارہے ہیں؟
              ـــــــــعـــــــ
مسجدیں ویران کر کے وہ بازار سجا رہے ہیں
اس قوم کے  نوجوان سنت بھلا  رہے  ہیں
جس نبی ﷺ کو نا پسند تھے یہ شور شرابے
اسی ذات کا ڈھول کے ساتھ جشن منا رہے ہیں
کب صحابہ نے لگائے تھے بازاروں میں ڈیرے
جشن نبی ﷺ کی آڑ میں بدعت پھیلا رہے ہیں
وقت نزاع میں بھی تھی نبی ﷺ کو نماز کی فکر
آج وہ لوگ نماز گنوا کر جشن منا رہے ہیں
کتاب و سنت کا دامن چھوڑ کر کیوں لوگ
 ثواب کی آڑ میں گناہ  کما رہے  ہیں

نمازوں سے ہم کو کوئی سروکار نہیں جبکہ میرے آقا علیہ السلام نے اپنی آخری دم تک نمازیں ادا کی، اور فرمایا "جس شخص نے نماز کو جان بوجھ کر ترک کیا گویا اس نے کفر کیا" اس کے باجود ہم نمازوں کو ترک کر کے رات بھر جشن عید میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) مناتے ہیں اور فجر کے وقت خواب غفلت میں سوجاتے ہیں جوکہ ہمارے اوپر فرض تھی اس کو ہم نے ترک کردی اور میلاد النبی جیسی بدعات ورسومات میں لگ کر دین کا بیڑا غرق کردیا.
حضرت تھانوی ان دونوں قسموں کے درمیان عجیب وغریب فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں”پہلی قسم کی تجویز کرنے والے خواص یعنی علماء ہوتے ہیں اور اس میں عوام تصرف نہیں کرتے اور دوسری قسم کی تجویز کرنے والے عوام ہوتے ہیں اور وہی ہمیشہ اس میں تصرف کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ میلاد شریف کی مجلس کو ایک بادشاہ نے ایجاد کیا ہے اس کا شمار بھی عوام ہی میں سے ہے اور عوام ہی اب تک اس میں تصرف کررہے ہیں، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر نبی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں عید میلاد النبی کا انعقاد کیا جانا دراصل ایک بادشاہ کا ایجاد کردہ ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد ہے۔ شرعا اس کی اصل اور بنیاد کیوں کر ہوسکتی ہے‘ کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ میں صرف دو عیدوں کی اصل ملتی ہے؛ ایک عید الفطر، دوسری عید الاضحی.
چنانچہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بدلے میں تمہیں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں، عیدقرباں کا اور عید فطر کا دن" اب اگر شریعت اسلامیہ میں کسی تیسری عید کا اضافہ کرکے اس کو بھی منایا جائے اور اس کو دین و شریعت ہی کی عید سمجھی جائے اور اس تیسری عید کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ بھی عید الفطر اور عید الاضحی کی طرح ایک عید ہے، جس کو بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اچھا خاصا معارضہ ہوجائے گا اور شریعت محمدیہ میں تبدیلی کرنا لازم آئے گا، جس کے ناجائز ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
   بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر عید میلاد النبی کے غیرشرعی ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ شرعاً عید ہوتی تو مذہبی عید ہوتی اور مذہبی خوشی ہوتی نہ کہ دنیوی، اور مذہبی عید کے ثبوت کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ عید الفطر، اور عید الاضحی کے لیے اور اس طرح کی کوئی وحی ہے نہیں، جس سے بارہ ربیع الاوّل کی عید میلاد النبی ثابت ہو، اگر اس طرح کی کوئی وحی ہوتی جس سے اس عید مُحْدَث کا ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے خود صاحبِ وحی آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر جشن میلاد منعقد کرتے، پھر صحابہ بھی مناتے، ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین؛ آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر مناتی، جس طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ نے اور تابعین، تبع تابعین نے منایا اور آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر منارہی ہے اور قیامت تک منائے گی، انشاء اللہ۔
                          واللہ اعلم

سرزمین دیوبند!

ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی دارلعلوم النصرہ دیوبند
      9358163428
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس میں شک نہیں کہ دیوبند ایک دینی علمی ادبی اور ایک تاریخی سرزمین ہے اور دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے لئے نہ صرف یہ کہ ایک دینی ومذہبی تاریخی ادبی مرکز ہے بلکہ اسے برصغیر و ایشیاء میں دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کا سب سے بڑا مرکز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، غالباً اس طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے کہا تھا:
                ــــــــــــعــــــــــــ
اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
ہندوستاں کے سر پہ ہے احسان مصطفیٰ

حکومت ہند بھی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو حکومت ہند دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہے کہ پوری دینا میں اس وقت دین اسلام کی اشاعت و ترویح اور مذہبی خدمات کا سہرا اگر کسی کے سر بندھ سکتا ہے تووہ سرزمین ہند ہی ہے لیکن افسوس کہ حکومت کو بھی نہ جانے دیوبند کے نام سے کونسی چڑھ ہے اور دیوبند کو اپنے لئے باعث افتخار  سمجھنے کے بجائے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک دیوبند کو ہندوستان میں جو مقام ملنا چاہیئے تھا نہ مل سکا.
دیوبند اور دارالعلوم دیوبند اگرچہ مذہب اسلام کا پیروکار ہے مگر دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کی قدر کرتا ہے اور ہر مذہب کے پیروکار
کا اپنی سرزمین پر پرتپاک استقبال بھی کرتا ہے.
اور یہاں کے اکابرین سے ملنے یہاں کے نظام کو دیکھنے جاننے اور اسکے لیل و نہار کا جائزہ لینے کی ہر کسی کو ہر کسی وقت اجازت ہے جیسا کہ آئے دن یہاں ہندوستان کے دیگر شہروں اور دیگر ممالک کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور دارالعلوم اپنے آنے والے مہمانوں کی میزبانی کے لئے دل کھول دیتا ہے.
 جیسا کہ ابھی حال ہی میں جرمن سفارت خانہ کا ایک وفد دارالعلوم دیوبند کی زیارت کرنے آیا، جس میں فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے ڈپٹی چیف مشن ومعاشی وعالمی امور کے صدر ڈاکٹر جاسپرویک (DR.Jasper Wieck ) اور ہیڈ ایمبیسڈر آف اینیٹ بیسلر (BaesslerAnnet) شامل تھے، وفد کے ارکان نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبہ جات کا معائنہ کرنے کے بعد اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی مقبولیت وشہرت نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کردیا، مزید انہوں نے اس کے نظام تعلیم وتربیت سے متاثر ہو کر یہ بھی کہا کہ خواندگی مشن کو فروغ دینے کے لئے ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے.
یہی نہیں ماضی میں بھی ہرطرح شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اپنے اپنے زمانے میں دارالعلوم دیوبند کا دیدار کر اپنی حسرت پوری کرتے رہے.
مصر کے صدر جمہوریہ. انور السادات
صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر رسجند پرساد1957 اور فخر الدین علی احمد صدر جمہوریہ ہند 1976
کیرالہ کے گورنر اجیت پرسادجین 1965 اور اترپردیش کے 1969کے گورنر بی گوپالاریڈی بھی قدم رنجہ فرماچکے ہیں.
 1963 کے الہ اباد ہائیکورٹ کے جسٹس جگدیش دی سہائے بھی یہاں اکر اپنی خوشی اور اس کے نظم و نسق پر اپنے اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں.
کیا ہندو کیا مسلمان کیا سکھ کیا عیسائی ہر قوم ومذہب کا پیروکار ڈی ایم. ایس ڈی ایم سے لے کر صدر جمہوریہ تک. اخبارات ورسائل کے اڈیٹران بھی وزراء و حکام بھی قانون داں بھی لیڈران بھی ڈاکٹر بھی انجینیر بھی یورپین بھی عرب بھی چینی افریقی بھی اور ملک کے مختلف گوشوں سے بھی غرض ہر شعبہ وہر مزہب وقوم سے تعلق رکھنے والے خاص وعام تشریف لاکر اس کی اہمیت و افادیت اور اپنے تاثرات کا اظہار کرچکے ہیں.
حال ہی میں جرمن سفارت کار کی اس رائےکہ (خواندگی مشن کو فروغ دینے کے لئے ایسے ادارے ضروری) کو خاطر میں لاکر  حکومت ہند یہاں کی سندوں اور یہاں پڑھنے  والوں کو تعلیم یافتہ تسلیم کرلے تو ہندوستان کا گراف بھی کچھ بڑھ جائے گا.
    افسوس کہ سرزمین دیوبند ظاہری ومعنوی اعتبار سے اپنے جائز مقام کے حصول کے لئے آج تک شاکی ہے ہاہر سے آنے والے وفود کا استقبال ٹوٹی سڑکوں. تنگ گلیوں اور بدبو دار نالیوں اورکوڑوں  کے انبار سے ہی ہوتا ہے دور دراز سے آنے والا مہمان جن عقیدتوں محبتوں کے ساتھ یہاں آتا ہے گلیوں سڑکوں نالیوں کے دیدار سے اس کی عقیدتوں کا سارا بھرم ٹوٹ جاتا ہے اور اس عظیم دینی وتاریخی شہر سے حکومت کی بےتوجہی کا گلہ کرکے رخصت ہوجاتا ہے کاش حکومت اس کو اس کا جائز حق ادا کر دے.

مفتی عبدالرحیم شیرازی جونپوری الجمعیت الانصار جونپور کے صدر مقرر، اراکین میں خوشی کا ماحول!

رپورٹ: فضل الرحمان قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 جونپور(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2017) ملک کی متحرک و فعال جماعت جس کا قیام پسماندہ اقوام میں تعلیم کی قندیلیں روشن کرنا، اور عصبیت، ذات وبراردی کے نام نفرت کو ختم کرنا ہے، بہت ہی کم مدت میں اس جماعت نے اپنا دائرہ کار وسیع تر بنا لیا، نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس جماعت سے منسلک ہورہی ہے، اور پسماندہ اقوام تک علم کے چراغ کو عام کرنے میں مصروف ہے،
مشرقی یوپی میں اس تنظیم کادائرہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے، اسی کڑی میں جونپور کی مشہور ومعروف شخصیت مفتی عبدالرحیم شیرازی جونپوری کو الجمعیت الانصار جونپور کا صدر مقرر کیا گیا، الجمعیت الانصار کے صدر مولانا ارشد قاسمی پرتاپگڑھی نے اس کا اعلان کیا.
صدر الجمعیت نے کہا، ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کا نوجوان صحیح العقیدہ مسلمان ہونے کے بعد تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے، انہوں نے کہا موجودہ عصری درسگاہوں کی تعلیم انتہائی ضروری ہے، انہوں نے اس بات پرزور دیا کہ پہلے ہم اپنے بچوں کے عقائد کی حفاظت کریں، پھر عصری تعلیم سے آراستہ پیراستہ کریں، انہوں نے کہا شریعت کے حدود میں رہ کر ہر زبان کو سیکھا جا سکتا ہے، اسلام کسی زبان کے سیکھنے سے منع نہیں کرتا.
ملا ٹولہ جونپور کے مفتی عبدالرحیم قاسمی جونپوری کو الجمعیت الانصار جونپور کا صدر بنائے جانے پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا ہم اپنے مشن میں تبھی کامیاب ہونگے جب زیادہ سے زیادہ نوجوان طبقہ ہماری تنظیم سے وابستہ ہوگا، ہماری کوشش یہی ہے ہم کالج کے نوجوانوں کو اہم ضروری دینی تعلیمات کے ساتھ عصری درسگاہوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کریں.
الجمعیت الانصار الہ آباد کے نومنتخب صدر مفتی عبدالرحیم شیرازی جونپوری  نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ وقت میں مسلم نوجوانوں کو تعلیم کے میدان میں آگے آناچاہیئے، ہماری قوم ترقی کی راہوں پرتبھی گامزن ہوگی جب قوم کا نوجوان تعلیم یافتہ ہوگا، انہوں نے صدر موصوف کا شکریہ ادا کیا، اور یہ وعدہ کیا ان شاءاللہ الجمعیت الانصار کے پلیٹ فارم سے پوری ایمانداری کے ساتھ قوم کی خدمت کروں گا، اور الجمعیت الانصار کے دائرہ کو جونپور اور اطراف میں وسیع کرنے کا عزم کیا، حال ہی میں سیف انصاری کو الہ آباد کا صدر مقرر کیا گیا تھا، جلد ہی دوسرے اضلاع کے صدور کا اعلان کیا جائے گا.

Tuesday 28 November 2017

شیخ الھـند ٹرسٹ کا رفاہی کام جاری، 100 لوگوں کے درمیان کمبل تقسیم کرنے کا منصوبہ!

رپورٹ: یاسین صدیقی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2017) شیخ الھند ٹرسٹ ایک معروف ومشہور ملی سماجی رفاہی اور فلاحی تنظیم ہے جو مختلف موقعوں پر غریبوں بیواؤں اور ضرورت مندوں کےدرمیان کام کرتا ہے، قدرتی مصائب کے موقع پر بھی راحت بچاؤ کام کرتا ہے اور ضرورت مندوں کی مالی و اخلاقی امداد بھی،
بیواؤں اور یتیموں اور غریبوں میں مفت یعنی فری آنکھ جانچ کیمپ اور چشمہ فری تقسیم کئے جاتے ہیں، اور موسم سرما میں کمبل بھی شیخ الھند ٹرسٹ کی جانب سے تقسیم کیا جاتاہے اور اب تک بہار، یوپی، این سی آر اور دھلی سمیت ملک کے مختلف صوبوں میں رفاہی وسماجی اور فلاحی کاموں کے درمیان شیخ الھند ٹرسٹ لاکھوں روپے خرچ کرچکا ہے.
 یہ اطلاع ایک پریس ریلیز کے ذریعے شیخ الھند ٹرسٹ کے چیئرمین مفتی فہیم الدین رحمانی صاحب نے دی ہے، انہوں نے مزید کہا ہے کہ شہر لونی کی مختلف کالونیوں میں سو سے زائد ضرورت مندوں کے درمیان کمبل تقسیم کیا جا چکا ہے اور تقریباً ایک سو حاجت مندوں کے درمیان لحاف و کمبل تقسیم کرنے کا منصوبہ ہے، جس کا بجٹ تقریباً 50000 سے 60000 روپے کا ہے.
مفتی موصوف نے اس موقع پر اہلِ خیر اور صاحب ثروت حضرات سے مالی تعاون کی پرزور اپیل کی ہے کہ مالی تعاون فرماکر سعادت دارین حاصل کریں ۔

ہادیہ! تیرے حوصلے کو سلام

تحریر: محمد رضی الاسلام ندوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہادیہ کو سپریم کورٹ نے اس کے ماں باپ سے آزادی دلا دی، اس طرح سپریم کورٹ کی لاج رہ گئی۔
ہادیہ کیرلا کی 24 سالہ نومسلم دوشیزہ ہے، اس نے طب کا ایک کورس BHMSS کیا ہے، دورانِ تعلیم اسے اسلام کا فہم حاصل ہوا، چنانچہ وہ مشرّف بہ اسلام ہوگئی، اس کے بعد اس نے ایک مسلم نوجوان سے نکاح کرلیا۔
 ہادیہ کے ماں باپ نے اس کے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا، چنانچہ انھوں نے اسے ‘لَو جہاد’ کا کیس بنا دیا اور اس کے ڈانڈے بین الاقوامی دہشت گردی سے ملا دیئے، انھوں نے ہادیہ کو گھر میں قید کردیا اور اسے انٹرن شپ کرنے سے روک دیا، ہادیہ کے شوہر نے کیرلا ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا، لیکن کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کے نکاح کو تسلیم نہیں کیا ۔
ہادیہ 11 ماہ سے اپنے والدین کے گھر قید میں تھی، اس نے سپریم کورٹ میں صاف الفاظ میں کہا : “مجھے آزادی چاہیے ۔” اس کی تعلیم منقطع ہوگئی تھی، سپریم کورٹ نے دریافت کیا کہ کیا وہ سرکاری خرچ پر تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا چاہتی ہے ؟ ہادیہ نے جواب دیا :” ہاں، میں انٹرن شپ کرنا چاہتی ہوں، لیکن مجھے سرکاری امداد نہیں چاہیے، میرا شوہر میرا خرچ اٹھانے کے لیے کافی ہے۔ ” جج نے دریافت کیا : ” کیا وہ کسی کی گارجین شپ چاہتی ہے؟” ہادیہ نے جواب دیا : ” میرا شوہر میرا گارجین ہے۔” بالآخر کورٹ نے فیصلہ کیا کہ ہادیہ نے جس کالج سے بی ایچ ایم ایس کیا ہے وہاں اسے داخلہ دیا جائے اور ہاسٹل میں اس کے لیے رہائش کا نظم کیا جائے، اس طرح ہادیہ کو کچھ راحت ملی ہے کہ اب اس کے کیس کی اگلی سماعت جنوری 2018 کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔
 ہادیہ نے بڑی جرأت و ہمت کا ثبوت دیا ہے، اس نے کوچین ایئر پورٹ پر چیخ چیخ کر کہا کہ اس نے اپنی مرضی سے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے اور بغیر کسی دباؤ کے ایک مسلمان سے نکاح کیا ہے اور اسی کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، سپریم کورٹ میں بھی اس نے پوری بے باکی سے اپنا موقف رکھا۔ اللہ تعالی اسے ثابت قدم رکھے اور اس کے جذبوں کو توانائی بخشے۔
 کہاں گئے عورت کے حقوق کی دُہائی دینے والے؟ جنھوں نے کئی ماہ سے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا ، جنھیں مسلمان عورت بہت مظلوم نظر آرہی تھی ، جو اسے آزادی دلانے کے لیے پیش پیش تھے _ اب وہ ہادیہ کی حمایت میں کیوں نہیں سامنے آتے؟ اس کے حقوق کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟
 کتنے بے شرم ہیں وہ لوگ جو اسے ‘ لَو جہاد ‘کا ایشو بتاتے ہیں؟ انھیں کیا معلوم کہ اسلام جب کسی دل میں گھر کرجاتا ہے تو انسان ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔
 کیسی ناقابلِ اعتماد ہیں ملک کی وہ تحقیقاتی ایجنسیاں ، جو ایک سادہ سے کیس میں بین الاقوامی’ آتنک واد ‘ کو ڈھونڈ نکالتی ہیں، جب کہ پولیس اپنی تحقیق میں کلین چٹ دے چکی ہوتی ہے ؟
 ہادیہ کا کیس ابھی حل نہیں ہوا ہے ، اسے تھوڑی سی راحت ملی ہے۔ سپریم کورٹ تحقیقاتی ایجنسی NIA کی مبسوط رپورٹ دیکھ کر اور کیس کی دیگر تفصیلات کی روشنی میں فائنل فیصلہ سنایے گی۔ امید ہے کہ فیصلہ ہادیہ کے حق میں آئے گا۔ اللہ تعالٰی کی ذات سے ہمیں اسی کی امید رکھنی چاہیے۔

بھتیجے کے ساتھ دوا لینے نکلے ادھیڑ شخص کی لاش ریلوے پٹری کے پاس سے برآمد!

رپورٹ: وسیم شیخ
ــــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2017)  سرائے میر قصبہ کے قریب خانقاہ گاؤں کے پاس ریلوے پٹری پر ایک 50 سالہ شخص کی لاش ملنے سے علاقہ میں کھلبلی مچ گئی، لاش ملنے کی اطلاع پاکر موقع پر پہنچی پولیس نے لاش کی شناخت خاندان والوں سے بمشکل کر پائی، میت عہدپور گاؤں رہائشی تھا، پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے بھیج دیا ہے.
سرائے میر علاقے کے عہد پور گاؤں کے 50 سالہ اوم کار داس بیٹے بھانو داس ان دنوں ان کی ذہنی حالت اچھی نہیں تھی، اتوار کو11 بجے دن میں وہ سرائے میر بازار میں اپنے بھتیجے شیتل پرساد کے ساتھ دوا لینے  کے لئے آیا تھا، دوا دلانے کے بعد بھتیجہ شیتل پرساد بازار میں ایک جگہ ان کو بیٹھا کر کچھ کام نپٹانے بازار میں گیا، کام کرنے کے بعد جب شیتل واپس آیا تو وہ غائب ہوگئے، شیتل پرساد خاموش ہوگیا یہ سوچ کر کہ چاچا گاؤں کے کسی شخص کے ساتھ گھر چلے گئے ہوں گے.
اس کے بعد وہ دوسرے کام کرنا شروع کر دیا، علاقے کے دوسری جانب اوم کار کی ٹرین کی زد میں آکر موت ہوگئی، شام کے تقریبا 05:00 بجے  چرواہوں نے ریل کی پٹری پر لاش کو دیکھا، اس کی اطلاع انہوں نے پولیس کو دی، موقع پر پولیس اور میت کے اہل خانہ پہنچ کر لاش کی شناخت کی، اس کے بعد پولیس نے لاش کو قبضہ میں لیکر پوسٹ مارٹم کیلئے بھیج دیا.

مختار انصاری کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری کی للکار، کہا بی جے پی کو نہیں ہونے دیں گے کامیاب!

رپورٹ: محمد عامر
ــــــــــــــــــــــــــــــ
مئو(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2017) مئو میں کل انتخابی پرچار کے آخری دن مختار انصاری کے چھوٹے بیٹے عمر انصاری نے استوپورہ میدان میں امڑی بھیڑ کے درمیان بی ایس پی امیدوار طیب پالکی کی حمایت میں انتخابی ریلی سے خطاب کیا،  انہوں نے بی جے پی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ملک میں نفرت کی سیاست کر رہی ہے ہندو مسلمان کے نام پر دو بھائیوں کو لڑاكر اپنی سیاست کی روٹی سینک رہی ہے لیکن یہاں کی عوام ان کے منصوبوں کو كامياب نہیں ہونے دے گی وہ ہندو راشٹر کی بات کرتے ہے، نہ ہم ہندو راشٹر چاہتے ہے نا ہم مسلمان راشٹر چاہتے ہیں،
ہم تو وہ راشٹر چاہتے ہیں جو گاندھی جی چاہتے تھے ہم وہ راشٹر چاہتے ہے جو مرحوم ڈاکٹر مختار احمد انصاری چاہتے تھے، ہم وہ راشٹر چاہتے ہے جو مانيور کانشی رام جی چاہتے تھے.
کارکنوں میں جوش بھرتے ہوئے کہا کہ شکست اور ہار تب نہیں ہوتی جب آپ گر جاتے ہیں شکست اس وقت ہوتی ہے جب آپ اٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں اس لئے وقت آ گیا ہے تمام سیکولر لوگوں کو ایک ہوکر کے فرقہ پرست طاقتوں کو ہرانا ہوگا، انہو نے کہا کہ ہم نفرت کی سیاست نہیں کرتے ہیں.
انصاری نے ایک شعر کے ذریعے مودی اور یوگی پر طنز کسا:
تجھے غرور ہے اے سرفرے طوفان
تو ہماری بھی ضد ہے کہ دریا پار کر جانا ہے.
عمر انصاری نے بڑی بھیڑ سے ہاتھ اٹھاکر بی ایس پی کے امیدواروں کو ووٹ دیکر جتانے کی اپیل کی.
اس پروگرام میں جناب عباس انصاری، ڈاکٹر مدن رام، كرونا كانت موریا، راجیو کمار، طیب پالكی، مجاہد بھائی، برجیش جیسوال، میٹھائی لال گوتم اور سنجے ساگر نے بھی خطاب کیا.

جين پور میں ملی نوزائیدہ بچی کی لاش، مچی ہلچل!

رپورٹ: ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/نومبر 2017) جین پور کوتوالی علاقے کے بیل بازار کے قریب سڑک کے کنارے کوڑے کے ڈھیر کے پاس جوتے کے ڈبے میں نوزائیدہ بچی ملنے سے علاقے میں کھلبلی مچ گئی، اطلاع پاکر پہنچی جين پور پولیس تحقیقات میں مصروف ہوگئی، اس واقعہ سے علاقے میں طرح طرح کی بحث شروع ہو گئی ہے.
ذرائع کے مطابق نوزائیدہ بچی کو جانور نوچنے کی کوشش کر رہے تھے کہ تب تک راہگيروں کی نظر پڑی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑا ہجوم اكٹھا ہو گیا، موقع پر پہنچی جین پور پولیس چھان بین میں مصروف ہوگئی، خبر لکھے جانے تک نوزائیدہ بچی کو جين پور کوتوالی پولیس نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا.

Monday 27 November 2017

الہ آباد میں صرف 30 فیصد ووٹنگ، شہریوں کی بے رخی سے سارے سیاسی اندازے فیل!

رپورٹ: فضل الرحمان الہ آبادی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الٰہ آباد(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2017) بلدیاتی الیکشن کا کل دوسرا مرحلہ تھا، کل الہ آباد ضلع میں بھی الیکشن تھا، یوں تو الہ آباد ضلع میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد 86 فیصد ہے، ملک کا پہلا وزیر اعظم اور ہندوستان کو سب سے زیادہ وزیراعظم دینے کا شرف اسی شہر الہ آباد کو حاصل ہے، لیکن جمہوریت کی  اپنی سب سے بڑی ذمہ داری یعنی ووٹنگ کے لئے بیداری نہیں، الہ آباد ضلع میں صرف 30 فیصد ووٹ پڑے،
شہریوں کے اس قدر بے رخی سے تمام سیاسی اندازے فیل ہوگئے ہیں، ہار جیت کا اندازہ لگانا ایک پھیلی کے مترادف ہے، شہری علاقوں میں نگرنگم میں محض 34.20 فیصد ہی ووٹ پڑے، جبکہ دیہی علاقوں میں ضلع کے 9 نگر پنچایت میں 61.76 فیصد ووٹ پڑے، سب سے زیادہ کوراوں میں 75.42 فیصد ووٹ پڑے، اس کے بعد سرسا نگرپنچایت 65.09 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا، ھنڈیا نگر پنچایت میں 64.17 فیصد ووٹ ڈالے گئے، نگر پنچایت مئو آئمہ بھی پیچھے نہی رہا یہاں بھی الیکشن کو لیکر کافی جوش وخروش نظر آیا، مسلم اکثریت قصبہ مئوآئمہ میں 64.12 فیصد ووٹ پڑے.
واضح ہو کہ یکم دسمبر کو کاؤنٹگ ہوگی.

کیا یہ انسانیت ہے؟

رپورٹ: یاسین قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دہلی(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2017)جمعیت علماء ہند کا ایک وفد گزشتہ 26نومبر 2017 بروز اتوار صبح گیارہ بجے شیو پوری دہلی میں کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزار رہے مہاجرین مظلومین روہنگیائیوں کے لیے سردی کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کے حال احوال دریافت کرنے کے لیے ان کے کیمپس کے پاس پہنچا، لیکن حیرت کی انتہا ہوگئی کہ وفد کو دیکھتے ہی ان لوگوں نے کیمپس کا دروازہ بند کردیا،
گیٹ پر کھڑے ہو کر جب بات کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ لوگ انتہائی خوف زدہ نظر آئے، حقیقت حال جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ عیسائی مشنری کے دباؤ میں ہیں اور انھیں ان کی طرف سے سخت ہدایت ہے کہ آپ لوگ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتے کہیں آ جا نہیں سکتے، کسی کو کچھ بتا نہیں سکتے.
واضح رہے کہ وفد محض انسانیت کی بنیاد پر تمام مظلومین کی طرح ان کے لیے بھی ضروریات معلوم کرنے کے لیے گیا تھا، اور کوئی مقصد پیش نظر نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ لوگ ملنے اور اپنی ضرورت بتانے کی ہمت نہیں جٹا پائے.
ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی کے لیے انسانیت کی بنیاد پر کچھ سہارا دیا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور لائق ستائش ہے لیکن اس کے عوض میں انہیں قیدی بنا کر خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور طرح طرح کی پابندی عائد کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟
واضح رہے کہ یہ لوگ برما سے ایمان ہی بچانے کی خاطر بھاگے تھے لیکن یہاں ان کی یہی بیش بہا خزانہ چھین کر ان کی زندگی سے سودا کرلیا گیا ہے اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ کسی سے ملنے جلنے پر بھی پابندی لگا دی ہے، کیا خدمت انسانیت کا یہی وطیرہ ہوتا ہے.
یہاں 30 خاندان پر مشتمل 140 افراد مقیم ہیں.

اپنے وطن کی سرزمین!

تحریر: فضیل احمد ناصری
 fuzailahmadnasiri@gmail.com
Mob: 8881347125
ــــــــــــــــــــــــــــــ
• مولانا غفران ساجد صاحب کی پیش بندیاں
برادرم مولانا غفران ساجد صاحب میرے قدیم ترین دوست ہیں، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں دو تین سالہ رفاقت رہی، وہ مجھ سے ایک سال بعد فارغ ہوے، ان کا گاؤں میرے گاؤں سے بے حد قریب ہے، بمشکل تین کلومیٹر کے فاصلے پر۔ طالب علمی کے بعد بھی برقی اور شفاہی ملاقاتوں کی کوئی نہ کوئی تقریب بفضلہ تعالیٰ بن ہی آتی ہے۔ ڈھائی ماہ قبل ان کا فون آیا کہ نومبر کے مہینے میں مدرسہ چشمہ فیض ململ میں ایک مسابقے میں آپ کو شرکت کرنا ہے، حتمی تاریخیں طے پاتے ہی میں آپ کو اطلاع دے دوں گا، چناں چہ کچھ ہی دنوں کے بعد انہوں نے 14، 15 کی تاریخیں طے ہونے کی اطلاع دی اور اس محبت آمیز گزارش کے ساتھ کہ کوئی حیلہ حوالہ نہیں چلے گا، میں نے سالانہ تعطیلات پر مشتمل جامعہ کی فہرست دیکھی تو شش ماہی امتحانات ایک ہفتہ بعد پڑ رہے تھے، میں نے بے تکلف ہامی بھرلی۔
• مسابقے میں شرکت کے لیے دیوبند سے روانگی
دن گزرتے رہے اور وقت کا رخش سرپٹ دوڑتا رہا، ایک دن مولانا کا پھر فون آیا،علیک سلیک۔ خیر خیریت۔ پھر باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ اگرچہ شفاہی دعوت آپ کو بہت پہلے مل چکی ہے، مگر مولانا فاتح اقبال ندوی صاحب باقاعدہ دعوت نامہ لے کر آپ کے پاس پہونچ رہے ہیں، کل صبح کے اوقات میں کسی وقت آپ سے ملیں گے۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ چناں چہ وہ آے، دعوت نامہ پیش کیا، تفصیلات بتائیں اور پھر روانہ ہو گئے۔
 اجلاس کے ایام قریب آ ہی گئے تھے کہ ہمارے جامعہ میں نئے اعلامیے کے مطابق شش ماہی امتحانات کو مقدم کر دیا گیا، دورانِ امتحان نگرانی کے پیشِ نظر سفر ممکن نہیں ہے، مولانا غفران ساجد صاحب کے فون آتے رہے، میں نے کہا کہ شرکت کا امکان اندھیرے میں چلا گیا ہے، امتحانات اور جلسے کی تاریخیں ٹکرا گئی ہیں، تاہم شرکت کی کوشش اپنی طرف سے جاری رہے گی، میں نے درخواست لکھی جو منظور ہوئی، دریں اثنا ٹکٹ بھی بن چکا تھا، تاریخِ سفر آئی تو حسبِ وعدہ 13 ویں نومبر کو دیوبند سے نکلا۔ غازی آباد سے چند میل کا فاصلہ رہا ہوگا کہ گھریلو ذرائعِ ابلاغ {سوشل میڈیا} پر دارالعلوم وقف کے صدرالمدرسین حضرت مولانا اسلم قاسمی صاحب کے انتقال کی خبر تیزی سے گردش کرتی دکھائی دی۔ سوچا کہ واپس ہو جاؤں، پھر خیال آیا کہ ڈھائی ماہ پہلے کی دی ہوئی زبان واپس لینا مناسب نہیں۔ استرجاع کیا اور آگے بڑھا۔ ٹرین قدیم دہلی جا رہی تھی اور مجھے نئی دہلی پہونچنا تھا۔ دو تین احباب اور بھی ساتھ تھے۔ مشورہ ہوا کہ غازی آباد اتر کر نئی دہلی کے لیے نئی گاڑی لی جاے، چناں چہ یہی ہوا۔ غازی آباد سے دہلی پہونچتے پہونچتے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ بہار کی ٹرین کا وقت سوا پانچ بجے تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک آدھ گھنٹے کا وقت نبی کریم میں لگا لیا جاے۔ نبی کریم پہونچا۔ یہاں میرے ایک دوست مولانا عمر فرید چشتی رہتے ہیں۔ ان سے ملا۔ یہ درجہ حفظ سے عربی دوم تک میرے رفیقِ درس رہے۔ بلا کے ذہین۔ درجہ حفظ میں کئی امتحانات سے پہلی پوزیشن پر یہی قابض تھے۔ میں پہونچا تو ششماہی میں گرچہ وہی نمایاں ترین رہے، مگر سالانہ میں بازی برابری پر ختم ہوئی۔ پہلی پوزیشن پر انہوں نے قبضہ جمایا تو میں نے بھی اسی مقام پر دھاوا بولا۔ بڑے خوش اخلاق اور متواضع۔ بے تکلف اور قیدِ احترام سے آزاد۔ بڑا دل لگا۔ ساڑھے چار بجے عصر پڑھ کر واپس نکلا اور اسٹیشن پہونچ گیا۔
• مولانا وقار الدین لطیفی ندوی کی معیت میں سفر
پلیٹ فارم پر پہونچا تو گاڑی لگی ہوئی تھی۔ یہ راجدھانی تھی۔ دہلی سے پٹنہ۔ وقت بھی تقریباﹰ ہو چلا تھا۔ میں اپنی مطلوبہ نشست پر پہونچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک چالیس بیالیس سالہ مولانا پہلے سے ہی تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے میرا نام پوچھا۔ پھر اپنا بتایا۔ مجھے معلوم تھا کہ سفر ان کے ساتھ ہی ہوگا۔ میں نے سامان رکھا۔ بیٹھا اور باتیں ہونے لگیں۔ مولانا کا نام پہلے بھی بارہا سن چکا تھا، مگر ان کے اخلاق و عادات سے آشنا نہیں تھا۔ مولانا غفران ساجد صاحب نے سفر سے ایک دو روز پیش تر ان کے احوال بتا دیے تھے۔ ان سے باتیں ہوئیں تو جیسا مولانا نے بتایا تھا، ویسا ہی پایا۔ بے حد کھلے ہوے۔ ظریف و نظیف۔ تکلفات سے پاک۔ رنج و غم سے آزاد۔ ادائیں دلبرانہ۔ نوائیں بلبلانہ۔ یہ کوئی اور نہیں، بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آفس سکریٹری تھے۔ فاضلِ ندوہ۔ میانہ قد۔ ندوی لباس۔ بیضوی چہرہ۔ سر کے بال بیشتر سفید۔ داڑھی کی سفیدی بھی سیاہی کو مات دیتی ہوئی۔ سفر شروع ہوا۔ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلد گھل جائیں گے۔ پتہ چلا کہ بہار ہی سے تعلق ہے۔ وطن کھگڑیا ہے۔ زبان بھی بہاریت سے لبریز۔ کہنے لگے کہ اپنے ہم وطن سے مل کر اسی زبان میں بات کرنا پسند کرتا ہوں۔ اپنی زبان بڑی شیریں ہے۔ اس میں رچاؤ ہے۔ پیار ہے۔ اخلاص ہے۔ میں بھی تکلف بر طرف ہو چکا تھا۔ ان کی بہاری زبان سے لطف اندوز ہوتا رہا، بلکہ سچ کہیے کہ آزاد ہو کر میں نے بھی اسی زبان کو ذریعہ اظہار بنا لیا تھا۔ واقعی بہاری بول چال کی بات ہی کچھ اور ہے۔ بڑا مزہ آیا۔ سفر حرف و حکایات میں لمحوں میں طے ہو گیا۔ گاڑی صبح چھ بجے پٹنہ پہونچ گئی۔
• امارتِ شرعیہ پھلواری شریف میں
اسٹیشن سے باہر نکلے تو میزبان چار پہیے لے کر تیار کھڑے تھے۔ ملاقات ہوئی۔ خیال ہوا کہ وطن کی چاے پی کر تھکاوٹ اتاری جاے۔ چاے پی گئی۔ میزبان نے بتایا کہ پٹنہ ہوائی اڈے سے ایک مہمان کو لینا ہے۔ وہ بھی اجلاس کے لیے دہلی سے آ رہے ہیں۔ انہیں بھی اسی گاڑی سے چلنا ہے۔ جہاز آٹھ بجے فروکش ہوگا۔ مولانا ندوی نے مجھ سے کہا کہ اب دو گھنٹے کہاں لگائیں? میں نے کہا کہ امارت چلتے ہیں۔ حضرت مفتی ثناء الہدیٰ صاحب ودیگر سے ملاقات ہو جاے گی۔ اس راے سے وہ بڑے خوش ہوے۔ مفتی صاحب کو فون لگایا۔ پتہ چلا کہ وہ یہیں تشریف رکھتے ہیں۔ ہم لوگ چلے۔ چلتے رہے اور بیس منٹ میں امارت کی فلک بوس عمارتیں ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔
• حضرت مفتی ثناء الہدیٰ و دیگر سے ملاقات
امارت کے مہمان خانے میں داخل ہوے تو دیکھا کہ مفتی صاحب دو تین علما کے ساتھ موجود ہیں۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ بڑے ہشاش بشاش۔ گرم جوشی سے ملے۔ مفتی صاحب ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل۔ اپنے وقت کے نمایاں ترین طلبہ میں۔ بسیارنویس۔ زود نویسی اور خوب نویسی میں ضرب المثل۔ کئی درجن کتابوں کے مصنف۔ ان کی سوانحِ حیات بھی کسی عاشق نے لکھ دی ہے۔ اب تو ان پر تخصص کا طویل مقالہ بھی لکھا جا رہا ہے۔ روزنامہ انقلاب کے مستقل مضمون نگار۔ کئی برسوں سے امارت شرعیہ کے نائب ناظم ہیں اور ہفت روزہ نقیب کے کرتا دھرتا۔
میں اس قابل تو ہرگز نہیں کہ مجھ سے محبت کی جاے، مگر مفتی صاحب تعارف کے بعد سے ہی ہمیشہ مہربان رہتے ہیں۔ وجہ ایک خاندانی نسبت ہے۔ وہ میرے عمِ محترم حضرت مولانا حسین احمد ناصری زیدمجدہم کے تربیت یافتہ ہیں، بلکہ منہ بولے بیٹے بھی۔ ان کے بچپن کے چند سال میری دادھیال میں بھی گزرے ہیں۔ اب تو خیر یہ تعلق رشتے داری میں بھی بدل چکا ہے۔ ان کی صاحب زادی میرے پھوپھیرے بھائی کے نکاح میں ہے۔
مختلف سلگتے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ہم رخصت ہونے لگے تو اپنی تازہ ترین کتاب "یادوں کے چراغ"ہدیۃً پیش کی۔ امارت میں ہی میرے ایک پرانے دوست کا حال ہی میں تقرر ہوا تھا۔ انہیں میری آمد کی اطلاع دی گئی تو وہ بھی آگئے۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ پھر مختصر تبادلہ خیال۔ یہ مولانا شبلی قاسمی تھے۔ امارتِ شرعیہ کے نئے نائب ناظم۔ دارالعلوم حسینیہ پروہی پتونا (مدھوبنی) میں جن دنوں حفظِ قرآن کا متعلم تھا، یہ اسی ادارے کے درجاتِ عربیہ میں متدرس تھے۔ نہایت متحرک۔ چاق و چوبند۔ بوٹی بوٹی سے تیزی ابھرتی ہوئی۔
• پٹنہ ہوائی اڈے پر
سب کو سلامِ وداع کیا۔ سیدھے ایئرپورٹ کی راہ لی۔ پندرہ بیس منٹ میں ہم لوگ وہاں موجود تھے۔ پتہ چلا کہ اسی اجلاس میں شرکت کے لیے مدرسہ اشاعتِ اسلام اکل کوا کے مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی زیدمجدہم بھی اسی جہاز سے آ رہے ہیں، جس سے ہمارے اگلے رفیقِ سفر کو آنا ہے۔ جہاز کافی مؤخر تھا۔ طویل انتظار کی اذیت سے ہم سبھوں کو گزرنا پڑا۔ پٹنہ کالج کے پروفیسر مولانا شکیل قاسمی بھی اجلاس کے لیے تشریف لا چکے تھے۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ دو گھنٹے کے بعد جہاز اترا۔رفقا کے ہمراہ مولانا وستانوی صاحب باہر آے۔ ملاقات ہوئی۔ ان کی گاڑی دوسری تھی۔ گاڑی پر بیٹھے اور چل دیے۔ دیکھا کہ ہمارے منتظَر مہمان ندارد ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ ان کا جہاز ہی چھوٹ گیا تھا۔ اب کیا کرتے۔ ہم نے بھی سفر کا اگلا مرحلہ شروع کر دیا۔
• فقیہ الاسلام حضرت قاضی مجاھد الاسلامؒ کے مزار پر
دیر تو ہو ہی چکی تھی۔ مولانا ندوی کی خواہش تھی کہ فقیہ الاسلام قاضی مجاھدالاسلام صاحبؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہوے آگے بڑھا جاے۔ وہ میرے والد حضرت مولانا علاءالدین ندویؒ کے رفیقِ درس اور بے تکلف دوست تھے۔ مجھ پر بھی بڑے شفیق و کرم گستر۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آفس میں انہوں نے ہی میرا تقرر کیا تھا۔ بدقسمتی سے ان کے مزار پر آج تک نہ جا سکا ہوں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میری بھی یہی خواہش ہے۔ گاڑی دربھنگہ ہو کر گزرے گی۔ چلے چلتے ہیں۔ گاڑی شیطان کی رفتار سے دوڑتی رہی۔راہ میں ہی قاضی مرحومؒ کے برادرِ نسبتی جناب صفی اختر صاحب کو فون کیا گیا۔ وہ گھر پر موجود تھے۔ ہمارے ارادے سے بہت مسرور۔ صفی صاحب قاضی مرحوم کے سب سے چھوٹے برادرِ نسبتی ہیں۔ انہیں کے پروردہ اور سایہ عاطفت میں بسر کیے ہوے۔ دہلی میں آل انڈیا ملی کونسل کی آفس کے ذمے دار ہیں۔ لکھنے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں۔ سنجیدہ اور خلیق۔ شرافت و نجابت کے گلِ رعنا۔ دربھنگہ شہر کے مہدولی میں ان کا گھر ہے۔ یہ رشتے میں میرے چچا بھی ہیں۔
ہم مسلسل جادہ پیما رہے۔ راستے میں ایک عجیب موڑ آیا۔ گاڑی کو دیکھا کہ پیہم ٹیڑھی دوڑ رہی ہے۔ اپنا توازن سنبھالنا سب کے لیے دشوار۔ مولانا ندوی کی حسِ ظرافت حسبِ عادت پھر پھڑک اٹھی۔ کہنے لگے کہ مولانا! یہ جلیبیا موڑ ہے۔ جلیبی کی طرح گول اور الجھا ہوا۔ مجھے بڑی ہنسی آئی۔ خدا خدا کر کے دربھنگہ پہونچے۔ مہدولی میں متعدد بار جا چکا تھا، مگر اب دیکھا تو راستہ بھولا ہوا۔ ڈرائیور بھی مہدولی ندیدہ تھا۔ نتیجۃً پاس کی منزل بھی بعید ثابت ہوئی اور راستہ شیطان کی آنت کی طرح پرپیچ۔ خیر لشتم پشتم ٹھکانے پر پہونچا تو دیکھا کہ صفی چچا استقبال میں کھڑے ہیں۔ پرتپاک ملاقات ہوئی۔ قاضی صاحبؒ کا مزار گھر کے احاطے میں بالکل سامنے تھا۔ ہم نے ان کے لیے کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا۔ ندوی صاحب زیادہ جذباتی ہو رہے تھے۔ دیر تک کتبے اور مزار کو دیکھتے رہے۔ عجیب حال ان پر طاری تھا۔ماضی کی یاد میں گم سم۔ پھر اٹھے۔ دسترخوان لگ چکا تھا۔ کھانا کھایا۔ قیلولہ کیا اور تھوڑی دیر بعد واپسی کی اجازت چاہی۔ چچا نے بڑی مشکل سے اجازت دی اور نم آنکھوں سے ہمیں رخصت کیا۔
•ململ کو روانگی
مہدولی سے نکلے تو حضرت قاضی مرحوم کی شخصیت دیر تک ذہن میں گردش کرتی رہی۔ مولانا وقار ندوی صاحب کی طبیعت خوشی و غمی کا سنگم تھی۔ خوشی اس بات کی کہ انہیں انتقال کے بعد قاضی صاحب کے مقبرے پر حاضری کی سعادت پہلی بار نصیب ہوئی تھی۔ غمی اس پر کہ پندرہ برسوں کا داغِ فرقت صرف چند لمحوں کے لیے ہی مٹایا جا سکا۔ ندوی صاحب کو اس راہ پر لگانے والے قاضی صاحب ہی تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آفس میں وہی لے کر آے۔ ندوی صاحب نے اپنے تعلقات کی پرتیں ہٹانی شروع کیں اور ان کی حیات کے پوشیدہ اوراق الٹتے پلٹتے رہے۔ ادھر میرا دل بھی بوجھل۔ قاضی صاحب میرے لیے کیا نہ تھے۔ میرے دادا تلمیذِ کشمیری مولانا محمود احمد ناصریؒ کے شاگردِ رشید۔ میرے والد کے رشتے کے چچا۔ ایک رشتے سے بہنوئی بھی۔ میں انہیں دادا کہتا۔ ان سے میری باقاعدہ ملاقات اسی مہدولی میں ان کے قائم کردہ کالج میں ہوئی تھی۔ میں اس وقت دارالعلوم میں مشکوۃ پڑھ رہا تھا۔ میرے بڑے بہنوئی جناب سہیل احمد ناصری صاحب کی نانیہال مہدولی میں ہی ہے۔ قاضی صاحبؒ کے خسر جناب منظر صاحبؒ ان کے چچیرے ماموں تھے۔ وہ وہاں جاتے ہی رہتے تھے۔ ایک بار مجھے بھی لے گئے۔ منظر صاحبؒ سے بھی ملاقات ہوئی۔ قاضی صاحب بھی یہیں مقیم تھے۔ جس وقت ہم پہونچے، وہ اکیلے تھے۔ میرے بہنوئی نے علیک سلیک کے بعد میرا تعارف کراتے ہوے کہا کہ یہ میرا سالا ہے۔ مولانا جمیل احمد ناصری کا بیٹا۔ قاضی صاحبؒ بھڑک گئے۔ کہنے لگے: تم نے سالا سے کیوں تعارف کرایا? سیدھے کہتے کہ یہ آپ کا پوتا ہے۔ مصافحہ کے ساتھ معانقہ ہوا۔ باتیں ہوئیں۔ ان سے مل کر میں خود کو بڑا سعید سمجھ رہا تھا۔ آج انہیں کے مزار سے ہو کر آیا ہوں تو دل بڑا اداس ہے۔ کتنا بڑا انسان موت کے چادر اوڑھے پڑا ہے۔ بہار کی سرزمین سے ہزاروں لالہ و گل اٹھے۔ لاتعداد شگوفے کھلے، مگر قاضی صاحبؒ اس دور میں اپنی نظیر آپ تھے۔ فقہی بصیرت، علمی تعمق، مجتہدانہ شان اور قلم و خطابت کا ایسا حسین امتزاج یہاں عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ اب تو دور دور تک سناٹا ہے۔
گاڑی پیچ و تاب کھاتے بھاگتی رہی۔ مغرب کا وقت ہونے جا رہا تھا۔ اب ہم ململ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ قاضی صاحبؒ کے ذکرِ خیر کے بعد دوسرے موضوعات چل رہے تھے۔ اچانک دیکھا کہ راستے سے دھول اڑنے لگی۔ دہلی کی فضا کا رنگ۔ میں نے شیشے چڑھا لیے۔ ندوی صاحب حسبِ سابق پرمزاح لہجے میں بول پڑے: مولانا! یہ دیسی پاؤڈر ہے۔ اسے لگنے دیجیے۔ اپنے وطن کا غبار چہرے کو مس کرتا ہے تو کرنے دیجیے۔ میں نے شیشے اتاردیے۔ ان کی گفتگو کے بعد اس دھول سے مجھے بھی محبت ہونے لگی تھی۔
•ململ ایک نظر میں
کچھ منٹوں کے بعد ہم ململ میں تھے۔ میں نے آگے دیکھا تو ایک کار جا رہی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ مولانا وستانوی صاحب کی کار تھی۔ طلبہ اور عوام دو رویہ کھڑے "خادم القرآن: زندہ باد" کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے بے چین و بے قرار۔ ان کی گاڑی چیونٹی کی چال چل رہی تھی۔ نتیجتاً ہم بھی پھنسے ہوے۔ خدا خدا کر کے قیام گاہ پہونچے۔ دو چار منٹ آرام کیا۔ نماز ادا کی اور محبین سے ملاقات کا دور شروع۔
بہت سے گاؤں کا تعارف وہاں کے قائم مدارس سے ہوا کرتا ہے۔ ململ کا نام میری سماعت سے اول اول مدرسہ چشمہ فیض کی وجہ سے ہی ٹکرایا۔ یہ ایک کثیر آبادی والا مسلم گاؤں ہے۔ کم و بیش دو ہزار گھروں پر مشتمل۔ سکّان چھ ہزار سے زیادہ۔ سارے کے سارے مسلمان۔ علم و عرفان سے ہر گھر آشنا۔ سب کے سب دیوبندی المسلک۔ حفاظ اور علما بڑی تعداد میں۔ بعض علما بین الاقوامی شہرت یافتہ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مؤقر استاذ، ادیبِ شہیر حضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی زیدمجدہم یہیں کی وطنیت رکھتے ہیں۔جماعتِ اسلامی بہار اکائی کے سابق امیر جناب قمرالہدیٰ صاحب کا وطن بھی یہی ہے۔ ان کے علاوہ کئی مستند فضلا ملک و بیرونِ ملک میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ حافظات و عالمات کی بھی بہار در بہار۔ مبالغۃً کہا جاتا ہے کہ یہاں کی مرغیاں بھی پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔ شعر و سخن سے وابستہ شخصیات بھی یہاں ہر دور میں موجود رہیں۔ قابلِ رشک آبادی ہے۔ بڑی قدیم تاریخ کا حامل۔ پانچ سو برس پہلے ململی خان نے اس گاؤں کے ایک محلے میں قیام کیا۔ نتیجتاً پورا گاؤں ہی ململ کہلا گیا۔ یوپی کے جون پور سے ایک بندہ خدا کا اس گاؤں سے گزر ہوا۔ یہ 1863 تھا۔ اس نے یہاں چشمہ فیض کے نام سے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی۔ بندہ خدا کا نام مولانا عبدالباری سلفی مچھلی شہری تھا۔ ان کا یہ نام اور کام اتنا چلا کہ انہیں کے دور میں اس کا شہرہ دور دور تک پہونچا۔ اب تو گاؤں کا شاید ہی کوئی بندہ ہو جو اس کا فیض یافتہ نہ ہو۔ علاقے اور صوبے سے گزر کر ملک بھر میں اس کے جاننے اور فیض پانے والوں کی کمی نہیں۔
•اہلِ ململ کی مہماں نوازی
ہم جوں ہی اپنی قیام گاہ میں پہونچے، رضا کاروں کی ایک جماعت ٹوٹ پڑی۔ ہر شخص مہماں نوازی میں سبقت لے جانے کی کوشش میں۔ مولانا وقار ندوی صاحب کے قدیم شناسا زیادہ تھے، اس لیے جو آتا، اولاً انہیں سے لپٹتا۔ محبت میں میرے ساتھ بھی کوئی کمی نہیں۔ ہر ایک کے لب مسکراہٹوں سے سجے ہوے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت میں ان کا آنا جانے کی تمہید اور جانا آنے کا ابتدائیہ۔ ان میں سے اکثر ندوی تھے۔ جناب خطیب ندوی صاحب کا مسکراتا چہرہ ابھی تک تازہ ہے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ خوشی سے جھومے جا رہے ہیں۔ یہ نجیب الحسن ندوی صاحب ہیں۔ مہمانوں کی خاطر داری میں پیش پیش۔ سنجیدگی کے ساتھ ہجومِ مسرت بھی پیشانی کی لکیروں سے نمایاں۔ یہ جناب نجم الہدیٰ ثانی صاحب ہیں۔ ان کا نام بہت سنا تھا۔ سوشل میڈیا پر ان کے افکار و خیالات سے تقریباﹰ روز ہی مستفید۔ آج وہ ملے اور انہوں نے تعارف کرایا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ بھی اظہارِ خوشی میں تیز رَو۔ مولانا فاتح اقبال ندوی بھی پرسشِ احوال کو پہونچ چکے تھے۔ جوانی سے پلّہ جھاڑنے کے قریب۔ تبسم بر لبِ اوست کا مجسمہ۔ اجلاس انہیں کے والد کے مدرسے کا تھا۔ خود بھی جامعۃ فاطمۃ الزھراء کے مدیرِ محترم ہیں۔ نگاہیں ہماری طرف تھیں اور ذہن انتظامات میں الجھا ہوا۔ کس کس کا نام لیجیے۔ یہاں کا ہر ذرہ خلیق اور ہر تنکا عزت افزائی میں مگن تھا۔
•ایک قلندر سے ملاقات
میزبانوں کی انہیں اداؤں کے بیچ اسی کمرے میں ایک بوڑھا شخص آتا ہوا نظر آیا۔ پست قامت۔ مرقعِ دہقانیت۔ عجیب و غریب ہیئت۔ میں نے ہلکا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو قاضی القضاۃ حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری ہیں۔ وہ تخت پر پاؤں لٹکاے ابھی بیٹھے ہی تھے کہ میں ان سے ملاقات کو لپکا۔ میں نے جوں ہی اپنا نام بتایا، بڑھ کر مصافحہ کیا۔ گلے بھی لگایا، پھر کہنے لگے: اگر آپ کو میری ایک بات اور معلوم ہو جاے تو آپ کی انسیت مزید بڑھ جاے گی۔ میں نے کہا: حضرت! مجھے معلوم ہے۔ آپ میرے والد کے کئی سال رفیقِ درس رہے۔ آپ میرے دادا کے شاگرد ہیں۔ وہ مسکرانے لگے اور اپنا وہ زمانہ یاد کرنے لگے۔ مسابقہ کے سرپرست یہی تھے۔
میں نے پورا ہندوستان دیکھ لیا۔ مختلف علاقوں میں گھوما۔ اپنے ہوش کے دور سے تقریباﹰ ہر نامور عالم کو دیکھا، مگر ایسی علمی شخصیت میری نظر سے نہیں گزری۔ عمر 85 کے آس پاس ہے، مگر استحضار بے پناہ۔ فقہی عبارتیں کثرت سے زبان پر۔ فقاہت میں یدِ طولیٰ۔آیات کا برمحل استعمال۔ احادیث پر گہری نظر۔ خطابت میں علم ہی علم۔ کوئی بات زائد نہیں۔ تقریریں تکرار سے پاک۔ گویا انگ انگ علوم و معارف کی جوے سلسبیل۔ مگر بایں ہمہ سادگی کا عظیم پیکر۔ سر پر دوپلی ٹوپی ‌۔ آڑی اور ٹیڑھی۔ پوشاک معمولی۔ نیل زدہ، مگر پریس ندیدہ۔ پاجامہ بھی اسی رنگ کا۔ تکلفات و تصنعات انہیں چھو کر نہیں گزرے۔ کبر و ریا سے منزہ۔ علم کا ایسا پہاڑ اور سادگی کا پیکر میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔ جی چاہتا تھا کہ جان وار دوں۔ کئی دن ہو چکے، مگر ان کی شخصیت کا یہ تاثر ابھی بھی جوان ہے۔ وہ چاہتے تو پورا عالم ان کے زیرِ نگیں ہوتا، لیکن یہ درویشِ خدا مست دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ عالمِ گندم و جو کی شہنائیوں سے نا آشنا۔ دنیا کی رنگینیوں سے بے خبر۔ ایک زمانے سے بہار کے قاضی ہیں۔ ان کی خدمات صوبہ بھر میں جاری۔ اب تو ملک بھر میں ان کا بلاوا ہونے لگا ہے۔ اگر یہ بندہ بہار سے باہر مقیم ہوتا تو اس کی خدمات کے اعتراف میں کیا کیا نہ ہوا ہوتا، مگر یہ بہار ہے۔ ظرف کا بہت بڑا۔ حوصلے کا دہ در دہ۔ اعترافِ عظمت کے لیے یہاں زبانیں بمشکل ہی کھلتی ہیں۔ اللہ اکبر!

ہادیہ کو آزادی کیوں نہیں؟

تحریر: محمد رضی الاسلام ندوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
           آج کل آزادی کا خوب چرچا ہے، اسے بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے، بین الاقوامی چارٹر میں اسے مرکزی حیثیت دی گئی ہے اور ہندوستان کے دستور میں بھی اسے شامل کیا گیا ہے، اس کے مطابق یہاں رہنے والے ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ جو فکر و خیال چاہے اختیار کرے، جس مذہب کو چاہے اپنائے.
      ایک بالغ اور تعلیم یافتہ لڑکی جو پہلے ہندو تھی، سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا، اس نے اپنا نام 'ہادیہ' رکھا، ایک مسلم نوجوان سے نکاح کیا.
کیا محض اس لیے کہ اس کے سرپرست اس کے قبولِ اسلام اور ایک مسلمان سے نکاح پر تیار نہیں ہیں، اسے اس کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا جائے گا؟
وہ بالغ ہے.
اسے حق ہے کہ وہ کوئی بھی مذہب اختیار کرے.
اسے حق ہے کہ وہ کسی سے بھی نکاح کرے.
ہادیہ علی الاعلان کہہ رہی ہے " میں مسلمان ہوں، میں نے ایک مسلمان سے شادی کی ہے، میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں".
 پھر اس کی آواز کیوں نہیں سنی جاتی؟
معلوم ہوا ہے کہ کل ہادیہ کی سپریم کورٹ میں پیشی ہے.
اس کا کیس سپریم کورٹ تک کیوں پہنچا؟
اور کورٹ نے اس کے بنیادی حقوق کی ضمانت کیوں نہیں فراہم کی؟
اس کے قبولِ اسلام اور اپنی مرضی سے نکاح کے حقوق کو کیوں نہیں تسلیم کیا؟
ہمیں امید ہے کہ ہادیہ کے جو حقوق اب تک تسلیم نہیں کیے گئے، انھیں سپریم کورٹ کے ذریعے ضرور تحفظ ملے گا.
بہن ہادیہ ! تمھاری عظمت کو سلام.
جمی رہو، اللہ تمھاری مدد کرے گا.

مئو نگر پالیکا چناؤ میں صدر عہدہ کے امیدواروں میں سب سے کم عمر کے امیدوار ہیں پردیپ!

رپورٹ: محمد عامر
ـــــــــــــــــــــــــــــ
مئو(آئی این اے نیوز 27/نومبر 2017) مئو نگر پالیکا انتخاب میں صدر کے عہدے کے لئے مجموعی طور پر 10 امیدوار میدان میں ہیں، امیدواروں کی طرف سے کاغذات نامزدگی میں درج معلومات کے مطابق سب سے کم عمر کے امیدوار آزاد کے طور پر پردیپ بیٹے رام درش کی عمر 32 سال ہے، جبکہ سب سے زیادہ عمر کے آزاد امیدوار حسام الدین بیٹے وصی اللہ کی عمر 79 سال ہے، وہیں بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار محمد طیب پالکی بیٹے محمد یوسف کی عمر 56 سال ہے. سماجوی پارٹی سے امیدوار ارشد جمال بیٹے بشیر احمد 51 سال کے ہیں، اور بھارتی قومی کانگریس کے امیدوار ابوبکر انصاری بیٹے مصطفی 55 سال کے ہیں، جبکہ پیس پارٹی کے امیدوار منور علی بیٹے اسرار احمد 36 سال کے ہیں، اور بھارتی جنتا پارٹی سے امیدوار سنجیو جیسوال بیٹے اوم پرکاش جیسوال 44 سالہ ہیں، جبکہ آزاد امیدوار شیو جی ورما بیٹے پربھو ورما 71 سال، اجمل صغیر بیٹے مصطفی 57 سال اور سہیلدیو بھارتیہ سماج پارٹی کے امیدوار دلیپ بیٹے رگھوناتھ پرساد 46 سال کے ہیں.

Sunday 26 November 2017

مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی جامعۃ الفلاح بلریاگنج کے ناظم منتخب!

رپورٹ: سلمان اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2017) اعظم گڑھ کے قصبہ بلریاگنج میں واقع مشہور  دینی درسگاہ جامعۃ الفلاح میں نئی میقات کے لئے مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی کو ناظم منتخب کیا گیا ہے۔
اطلاع کے مطابق اتوار کو جامعۃ الفلاح کی شوریٰ نے نئی میقات کے لئے مولانا پر یہ ذمہ داری سونپی ہے۔
آپ کو بتادیں کہ مولانا اثری جامعۃ الفلاح کے ایک سینئر استاذ کے علاوہ اپنے علمی اور تعلیمی کارناموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، واضح رہے کہ جامعۃ الفلاح میں ناظم کا انتخاب ہر تین سال پر ہوتا ہے۔
اس سے قبل مولانا طاہر مدنی مسلسل تین میقات تک جامعۃ الفلاح کے ناظم کی حیثیت سے یہ ذمہ داری ادا کرتے رہے ہیں۔

جمیعت علماء ہند حلقہ بہٹہ حاجی پور کے زیراہتمام بعنوان اصلاح معاشرہ کا پانچواں پروگرام مسجد علیؓ میں منعقد!

رپورٹ: یاسین صدیقی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لونی/غازی آباد(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2017) گزشتہ شب 25 نومبر بروز ہفتہ بعد نماز عشاء متصلاً جمیعت علماء حلقہ بہٹہ حاجی پور کے زیر اہتمام پانچویں اصلاحی مجلس مسجد علیؓ میں منعقد کی گئی۔
مجلس کا آغاز قاری عبدالقیوم کی تلاوت اور جناب قاری محمد ارشاد عالم کی نعت پاک سے ہوا، بعدہٗ دہلی دلشاد گارڈن سے تشریف لائے مہمان مقرر اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد اویس رئیس صاحب قاسمی امام وخطیب ابوبکرؓ مسجد نے"اولاد کی تربیت ایک اہم ذمےداری" موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت حالات بہت سنگین ہیں اور یہ فتنوں کا دور ہے اور اس فتنوں کے دور میں والدین کی یہ ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مناسب تربیت کریں، اگر بر وقت بچوں کی تربیت ڈھنگ سے نہ کی تو آگے چل کر پھر وہ بچے والدین کے لیے جہنم بن جاتے ہیں، جھوٹ بولنے کے عادی بن جاتے ہیں، برے لوگوں کی صحبت اختیار کر لیتے ہیں، تو نشہ جیسی عادتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں، چوری جیسے افعال اختیار کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے والدین اور خاندان کا نام بدنام ہوجاتا ہے۔
مزید گفتگو کرتے ہوئےفرمایا کہ بچوں کو اپنے بہت قریب رکھا جائے اگر کوئی غلط کام کر رہے ہیں تو بہت زیادہ ڈانٹ اور ڈپٹ نہ کی جائے بلکہ بہت آہستہ اور سنجیدگی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی جائے مزید یہ کہ ان (بچوں) کو حضرات صحابہِ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین و صحابیاتؓ کے واقعات سنائے جائیں تو یہ ان کی زندگی میں بہتر انقلاب برپا کرسکتےہیں۔
پروگرام کی نظامت فاضل نوجواں مولانا محمد طیب قاسمی نے کی، مہمان خصوصی کے طور پر تشریف لائے مولانا محمد مشتاق صاحب قاسمی صدر جمیعت علماءحلقہ بہٹہ حاجی پور، حضرت قاری عبدالجبارصاحب امام وخطیب عباس مسجد و جنرل سکریٹری حلقہ بہٹہ حاجی پور، مولانا قاری فیض الدین عارف لونی، مولانا مفتی انس صاحب قاسمی امام وخطیب ایک مینارہ مسجد، مولانا محمد تنویر صاحب مفتاحی، مولانا محمد شاہنواز مفتاحی، قاری اویس عالم صاحب، قاری عبدالسبحان صاحب کے علاوہ کثیر تعداد میں حاضرین نے شرکت کرکے پروگرام کو بیحد کامیاب بنایا.
 مجلس کااختتام مہمان محترم حضرت مولانا محمد اویس رئیس صاحب کی پرخلوص دعاپر ہوا، اخیر میں بحیثیت میزبان کے علی مسجد کے امام وخطیب حضرت مولانا محمد اسلم صاحب نے تمام سامعین اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کر کے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

درد ناک سانحہ: گاؤں کے گندے تالاب اور ہماری ذمہ داریاں!

تحریر: عزیز احمد اسرولی اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیرواں 23 نومبر سے لا پتہ ڈھائی سالہ معصوم بچے کی خبر سن کر دل بڑا اداس تھا دعاء گو تھا  کہ اے اللہ معصوم کو سلامتی کے ساتھ  ماں باپ سے ملا دے لیکن جب دو دن بعد جب اس معصوم کی لاش کو تالاب کے کیچڑ میں دبا ہوا دیکھا تو دل رو پڑا اپنے بیٹے کا خیال ذہن میں لایا تو تڑپ اٹھا اس ماں باپ پر کیا گزری ہوگی یہ سوچ کر جیسے کلیجہ پھٹ گیا، دنیا میں بیٹے کی موت سے بڑا کوئی غم نہیں اس دکھ سے بڑا کوئی دکھ نہیں، ہمارے لئے تو یہ صرف پل بھر کا افسوس ہے، لیکن اس ماں باپ کے لئے پوری زندگی کا صدمہ، بحیثیت مومن ہمارا یقین کامل ہے کہ موت تو حتمی ہے نہ ایک پل آگے نہ ایک پل پیچھے لیکن افسوس اس بات کا ضرور ہے کہ اگر آج تالاب صاف ہوتا تو معصوم کا نازک پھول جیسا بدن اس طرح دو دن سے اس گندے، بدبودار تالاب میں اوندھے منھ نہ پڑا ہوتا، اگر ہم تالاب کو کوڑا دان نہ بناتے تو
آج معصوم کی موت اس طرح نہ ہوتی، لیکن ہم سفید پوش ماڑی دار کرتا پہننے والے لوگ اپنے گھروں کے کوڑے کچرے کو بڑی نزاکت سے پلاسٹک کی تھیلی میں بھر کر تالاب میں پھینک جاتے ہیں، اس بات کو سوچے بغیر کہ اسکے نقصانات کیا ہیں، اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ اس تالاب کے آس پاس رہنے والے لوگوں کے بچوں کی زندگی پر اسکے کیا اثرات ہونگے، اس بات سے بے پرواہ کی میری طرف سے پھینکی جانے والی گندگی انسانی صحت کے لئے کس قدر مضر اور جان لیوا ہے، اس میں پھینگی گئی ناپاک گندگی سڑنے کے بعد فضا کو کس قدر آلودہ بنائے گی، اس گندگی سے پیدا ہونے والے مکھی مچھر، حشرات کیسی کیسی بیماریوں کو جنم دینگے، گندگی سے بھرے تالاب میں خدا نخواستہ کوئی معصوم بچہ لال، ییلی پلاسٹک کو کھلونا سمجھ کر تالاب کے کنارے جائے اور اپنی زنگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، اگرچہ ہم ان تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، نظر انداز کرتے ہوئے اپنے گھر کی گندگی، کوڑے کچرے کو ایک مجبوری کے تحت تالاب میں ڈال بھی دیتے ہیں کہ گاؤں میں کوڑا ڈالنے کی کوئی اور جگہ نہیں، کوئی معقول انتظام نہیں تو پھر کہاں لے جائیں، تو کیا آپ نے کبھی اسکی صفائی کے بارے میں بھی سوچا، اس سے اٹھنے والی جان لیوا بیماری اور فضائی آلودگی کے بارے میں سوچا، اس گندگی میں گرنے کے بعد موت سے پہلا نکلنا ناممکن ہوگا اسکے بارے میں بھی کبھی سوچا، اس سے اٹھنے والی ناقابل برداشت بدبو کے بارے میں  کبھی خیال آیا، آپکے گھر کا کوڑے دان بھر جائے اور کوڑا پھیکنے والی ایک ہفتہ نہ آئے تو کیا آپ  اپنے گھر کے کوڑے کی بدبو ایک دن بھی برداشت کر سکتے ہیں، تو سالوں سال سے اس تالاب میں ڈالی جانے والی گندگی سے اٹھنے والی بدبو کو اسکے آس پاس رہنے والے ہر دن کیسے برداشت  کرتے ہیں، کبھی اسکے بارے میں سوچا جس تالاب کے پاس سے آپ گزرنا گوارا نہیں کرتے 365 دن روز اسی راستے سے آنے جانے والوں کے بارے کبھی آپ نے سوچا اگر ابتک نہیں سوچا ہے تو براہ کرم انسانیت کی خاطر، اپنے بچوں کی صحت کی خاطر، غریبوں کے بچوں کی زندگی کی خاطر کہ کوئی اور معصوم نہ اپنی جان گنوا بیٹھے، کسی اور ماں کی گود نہ اجڑ جائے اس ہمدردی اور محبت کی خاطر اپنے اپنے گاؤں کے تالابوں کی صفائی کے بارے میں ضرور سوچئے، یہ صرف شیرواں، اسرولی نہیں بلکہ ہر گاؤں کا مسئلہ ہے ۔
بیشک یہ کام حکومت کا ہے لیکن اگر حکومت صرف فوٹو کھینچانے کو ہی صفائی ابھیان سمجھتی تو ہم تمام جملوں کی طرح اس کو بھی ایک جملہ سمجھ کر بھول جائیں، اپنے بچوں کی صحت اور انکی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ لیں اور اگر ہم گاؤں کی صفائی اور ستھرائی کے بارے تھوڑا سنجیدہ ہو جائیں تو یہ کام کرکٹ میچ کرانے سے بھی زیادہ آسان اور کم خرچ کا ہے.
کرکٹ والی بال کے میچ کی خاطر ہم ایک دن میں لاکھوں روپئے اکٹھا کر لیتے ہیں تو اس سماجی کام کے لئے چند ہزار کیونکہ نہیں، سیاسی اور سماجی شخصیات مشاعرے اور ادگھاٹن کرنے میں ہزاروں روپئے چندہ دے سکتی ہیں تو اس صحت مند کام کے لئے کیوں نہیں.
نوجوان ہزاروں روپئے ڈھابے کے کھانے میں خرچ کر سکتے ہین تو اپنے گاؤں کی کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے کیوں نہیں، ہاں ہاں  بالکل کر سکتے ہیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں ہمارے نوجوانوں میں بے انتہا جذبہ، حوصلہ، ہمت اور صلاحیت ہے بس ضرورت ہے کہ ہر گاؤں کی مؤثر اور ذمہ دار شخصیت آگے آئیں اپنی توجہ دے دیں اپنا کردار پیش کردیں، ان نوجوانوں کو حوصلہ دے دیں، با خدا گاؤں صاف ستھرا اور محفوظ ہو جائے گا.
مجھے نوجوانوں سے  امید ہے کہ وہ اپنے معصوم بچوں کی بہترین صحت انکی حفاظت کے لئے بلا تفریق سیاست سے بالا تر ہوکر اس بہترین کام کے لئے آگے آئیں گے اور گاؤں کو صاف ستھرا بنائیں گے.

جین پور: ایس پی کے ضلع صدر حولدار یادو نے ریسٹورینٹ کا کیا افتتاح!

رپورٹ: عبدالکافی چشتی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2017) اعظم گڑھ کے جين پور مارکیٹ میں واقع ایم ایس حقہ پارلر اور ریسٹورینٹ کا افتتاح ہفتہ کو ایس پی کے ضلع صدر جناب حولدار یادو نے کیا، اس موقع پر حولدار یاد نے کہا کہ اس علاقہ میں اس طرح کا یہ پہلا اور واحد ریسٹورینٹ  ہے جس سے لوگوں کو اچھا انتظام بھی ملے گا، ساھ ہی کچھ لوگوں کو روزگار بھی مل جائے گا، جدید طریقے سے بنایا گیا یہ ریسٹورینٹ بیرون ملک کی طرز پر ہے جسكے تعمیر میں کافی تکنیکی کا استعمال کیا گیا ہے، ریسٹورینٹ میں فاسٹ فوڈ ڈرنک کے علاوہ حقہ بھی ملے گا جسمیں مختلف فلیور کے حقے ہوں گے.
ریسٹورینٹ کے پروپرائٹر محمد نے بتایا کہ ہم نے بیرون ملک میں دیکھا کہ لوگ حقہ استعمال کر اپنے پیٹ کو درست رکھتے ہیں، اس عمل ہاضمہ صحیح رہتا ہے اور پیٹ کے ساتھ کئی بیماریاں دور ہوتی ہیں جس سے ہم ریسٹورینٹ میں کھانے کے بعد لوگوں کو حقہ پیش کرنے کا ایک مختلف طریقہ استعمال کیا ہے، جس میں تقریبا 10 قسم کے فلیور پائے جائیں گے، پھاسٹ فوڈ اور دیگر کا انتظام کیا گیا ہے.
اس موقع پر ہرے رام یادو، رضوان، بدر عالم، حبیب اللہ، شاہد، صادق سمیت سیکڑوں لوگ موجود رہے.

وہ ھــــند میں سرمایہٴ ملّت کا نگہبان!

تحریر: مولانا ندیم الواجدی
nadimulwajidi@gmail.com
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
خبر ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی کے خلاف آسام کے تین شہروں میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے لوگ پورے صوبے میں ان کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں اور ان کے پتلے نذر آتش کررہے ہیں، در اصل مولانا نے چند روز قبل دہلی میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ حکومت آسام کو میانمار بنانا چاہتی ہے، انھوں نے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ اگر اس نے آسام کے ستر اسّی لاکھ مسلمانوں کو جن کو بنگلہ دیشی کہا جارہا ہے ملک سے باہر نکالنے کی کوشش کی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے، پورے ملک میں آگ لگ جائے گی، لوگ مرجائیں گے لیکن ملک نہیں چھوڑیں گے، مولانا نے یہ
جرأتمندانہ بیان آل آسام ایکشن کمیٹی کی طرف سے منعقد ہونے والی ایک کانفرنس میں دیا تھا جو خاص آسامی مسلمانوں کی شہریت کے مسئلے پر دہلی کے کانسی ٹیوشن کلب میں منعقد کی گئی تھی، اس بیان کا ردّ عمل انتہائی شدید ہوا ہے، کیوں کہ پہلی مرتبہ کسی نے حکومت کے خفیہ عزائم کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ کانفرنس منعقد کی تھی انھوں نے مولانا ارشد مدنی کے اس بیان سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا ہے، ان میں سے ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مولانا کو اس کانفرنس میں مدعو ہی نہیں کیا گیا تھا، وہ از خود تشریف لائے اور تقریر کرکے چلے گئے، لیکن یہ ایک احمقانہ بات ہے، مولانا نے اپنے انٹرویو میں واضح کردیا ہے وہ بغیر بلائے کہیں نہیں جاتے اور نہ انہیں اتنی فرصت ہے، ان کے پاس اس کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موجود ہے، سب سے زیادہ حیرت انگیز بیان یونایٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کے قومی صدر مولانا بدر الدین اجمل کا ہے جنہوں نے مولانا ارشد مدنی کے بیان کو نامناسب بتلایا ہے، خبر تو یہ بھی آئی تھی کہ انھوں نے مولانا کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن اپنی ایک ویڈیو کلپ میں انھوں نے اس طرح کے کسی مطالبے کی تردید کی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم اس طرح کے جذباتی بیانات کے حق میں نہیں ہیں، خاص طور پر ایسے موقع پر جب کہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر غور ہے اور دسمبر میں فیصلہ آنے والا ہے۔
اس تمہید کے بعد ہم یہ عرض کریں گے کہ ملّت اسلامیہ کی تاریخ حق گو، بے باک،جری اور باحوصلہ کرداروں سے بھری پڑی ہے، اس امت پر کوئی دور بھی ایسا نہیں گزرا کہ حق کی زبانیں چُپ ہوگئی ہوں، اور بہادر کرداروں نے منہ چھپا لیا ہو، اس طرح کے کرداروں کے ایمان افروز واقعات کتابوں میں آج بھی موجود ہیں، مجھے یاد آتا ہے کہ خلیفہ منصور نے حضرت امام ابوحنیفہؒ کو بلا کر عہدہئ قضا کی پیش کش کی تھی امام ابوحنیفہؒ یہ سمجھتے تھے کہ منصور نے لوگوں سے جبراً اپنی خلافت پر بیعت لی ہے، حقیقت میں محمد نفس زکیہ اور اس کا بھائی ابراہیم خلافت کے حق دار ہیں، اس دور کے بڑے بڑے علماء جن میں امام مالکؒ بھی شامل ہیں منصور کے خلاف فتوی دے چکے تھے، امام ابوحنیفہؒ نے عہدہئ قضا قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتے، منصور نے برہم ہوکر کہا کہ تم جھوٹے ہو، امام صاحب نے فرمایا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرا یہ دعوی ضرور سچّا ہے کہ میں عہدہئ قضا کا اہل نہیں ہوں کیوں کہ جھوٹا شخص اس منصب پر نہیں بٹھلایا جاسکتا، منصور نے ناراض ہوکر امام صاحب کو قید کرادیا، علامہ شبلی نعمانی ؒنے سیرۃ النعمان میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ بڑے حق گو اور جرأت مند انسان تھے، حق گوئی کی پاداش میں قید خانے میں ڈالے گئے، چار برس وہاں رہے، ان حالات میں بھی انھوں نے درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا، منصور امام صاحب کی اس مقبولیت سے ہر وقت خوف زدہ رہتا تھا، اس نے ان سے چھٹکارا پانے کی یہ تدبیر کی کہ قید خانے میں ہی میں زہر کو دے کر ان کو مرواڈالا، اسی طرح کا ایک خوب صورت کردار امام احمد ابن حنبلؒ کا بھی ہے جنھوں نے خلق قرآن کے مسئلے پر خلیفہ مامون رشید کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کردیا، گرفتار کئے گئے، ان کو پابہ جولاں خلیفہ مامون کے پاس رقہ لے جایا جارہا تھا کہ مامون کے انتقال کی خبر آگئی، مامون کی جگہ خلیفہ معتصم باللہ نے لی، اس نے بھی اپنے پیش رو کا موقف اختیار کیا، اور امام احمد ابن حنبلؒ کے سامنے یہ دو باتیں رکھیں، قید خانہ یا اپنی غلطی کا اعتراف، امام صاحبؒ نے باطل پر حق کو ترجیح دی، تیس ماہ قید میں گزارے، دن بھر زنجیروں سے بندھے رہتے تھے، کوڑے بھی کھائے لیکن حق بات سے ایک لمحے کے لئے بھی اعراض نہیں کیا۔
ہندوستان کی تاریخ بھی ایسے جیالوں سے خالی نہیں رہی، حضرت مجدد الف ثانیؒ اس تاریخ کا ایک روشن کردار ہیں، جنھوں نے مغل بادشاہ اکبر کے من گھڑت دین کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، اپنے مشن کی تکمیل کے لئے انہیں آزمائش اور ابتلاء کے دور سے بھی گزرنا پڑا، گوالیار کے قلعے میں قید ہوئے، لیکن انھوں نے حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا نہ چھوڑا، حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ بھی ایسے ہی حق پرستوں کے قافلے میں شامل ہیں، انھوں نے ظالم انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دے کر حق پسندی اور حق گوئی کی ایک مثال قائم کی، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے مالٹا کی اسارت میں رہنا قبول کرلیا، لیکن انگریزوں کی غلامی قبول نہیں کی، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے مقدمہئ کراچی ۱۲۹۱ء میں مجسٹریٹ کے سامنے جو بیان دیا تھا وہ آج بھی ہماری تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا ہوا ہے، سولہ صفحات پر مشتمل اس بیان کی ایک ایک سطر افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر کی بہترین مثال ہے، مجھے کہنے دیجئے کہ مولانا ارشد مدنی ایسے ہی حق پرستوں اور ایسے ہی حق پسندوں کی معنوی اور حقیقی اولاد ہیں، جو ہمیشہ حق بات کہتے ہیں، کوئی لالچ یا خوف انہیں حق بات کہنے سے نہیں روکتا، وہ جو بات کہتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں، کہہ کر پیچھے نہیں ہٹتے اور نہ اس کی کوئی تاویل وتوجیہ کرتے ہیں، آزادی کے بعد کی تاریخ میں ایسے جیالے کم ہی ہوئے ہیں، اور اب تو ان کا وجود ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔
آسام ہمارے ملک کا وہ صوبہ ہے جہاں کے مسلمانوں کو ہر دور میں مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، آزادی کے بعد سے اب تک کئی بار وہاں بھیانک فسادات ہوچکے ہیں جن کے نتیجے میں مسلمانوں کو سخت جانی ومالی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں، سب سے زیادہ سنگین مسئلہ آسام میں مسلمانوں کی شہریت کا ہے اور یہ اس وقت سے زیر بحث ہے جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کی صورت میں پاکستان کا حصہ تھا اس زمانے میں باربار پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر بھی یہ سوال اٹھتا رہا کہ آسام کے سرحدی اضلاع میں جو مسلمان رہ رہے ہیں ان کی بڑی تعداد مشرقی پاکستان سے آکر یہاں بس گئی ہے، کئی بار ان کو غیر ملکی شہری کہہ کر نکالنے کی کوشش کی گئی، ان کی املاک پر قبضہ کرنے کی سازشیں بھی کی گئیں لیکن ہر بار جمعیۃ علماء ہند نے مداخلت کی اور ان کو بے گھر ہونے سے بچایا، ۹۷۹۱ء میں جمعیۃ علماء کے قومی صدر مولانا اسعد مدنیؒ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ“غیر ملکی دراندازی کا بہانہ بنا کر آسام کے جائز قانونی شہریوں کو ووٹ کے آئینی حق سے محروم کردینے اور انہیں اپنے وطن عزیز سے نکال دینے کی جو خوفناک تحریک آسام جن سنگرام پریشد اور چھاتر پریشد کے ذریعے چلائی جارہی ہے اس کے درپردہ آر ایس ایس کی وہ ناپاک سازش کار فرما ہے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہاں سے غیر آسامی شہریوں، خاص طور پر مسلمانوں کو آبادیوں سے نکل واکر خواہ مخواہ انہیں غیر ملکی قرار دے کر پہلے انہیں کیمپ کی زندگی کزارنے پر مجبور کردیا جائے اور پھر انہیں آہستہ آہستہ اپنے وطن عزیز سے باہردھکیل دیا جائے“، آر ایس ایس کی سازشوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے، اسی کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند بھی آسام کے مظلوم مسلمانوں کے حق کی لڑائی اپنی پوری طاقت اور توانائی کے ساتھ لڑ رہی ہے، پہلے مولانا اسعد مدنیؒ اور اب ان کے بھائی مولانا ارشد مدنی لاکھوں آسامی مسلمانوں کے درد کا درماں اور ان کے زخموں کا مرہم بنے ہوئے ہیں، حکومتوں کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں، مولانا ارشد مدنیؒ کا یہ کہنا بالکل حق بہ جانب ہے کہ وہاں کی حکومت مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا چاہتی ہے، اور ان کو ملک کی سرحدوں سے باہر نکال کر میانمار کی کہانی دہرانا چاہتی ہے، میانمار میں بھی تو برسوں سے یہی ہورہا ہے، حالیہ دنوں میں کچھ اور شدت پیدا ہوئی ہے، میانمار کی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر لاکھوں لوگ سمندری راستوں سے بنگلہ دیش پہنچ کر پناہ گزیں ہوچکے ہیں، مولانا ارشد مدنی کی حق پسندی اور حق گوئی کو ہزاروں بار سلام کہ انھوں نے اپنے ایک بیان سے پوری دنیا کو آسام کے مظلوم مسلمانوں کی طرف متوجہ کردیا، رہی بات احتجاجی مظاہروں اور پتلے نذر آتش کرنے کی، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، جمہوریت میں سب کچھ چلتا ہے، ہر شخص کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے، مولانا ارشد مدنی کو بھی حق ہے کہ ان کی دور بیں نگاہیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں وہ اس سے قوم کو آگاہ کریں اور اس پر اپنی تشویش کا اظہار کریں، مقدمے قائم کرنے سے ان کی زبان پر تالے نہیں لگائے جاسکتے اور نہ ان کو مظلوم مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑنے سے باز رکھا جاسکتا ہے، وہ حق پسندوں اور حق کہنے والوں کے جس قافلے سے تعلق رکھتے ہیں اس نے کبھی حالات کا دباؤ قبول نہیں کیا، ہمیں امید ہی نہیں پورا یقین ہے کہ ان مظاہروں سے اور مقدموں سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئے گی اور حق بولنے والی اُن کی زبان میں کبھی لرزش پیدا نہیں ہوگی۔

اعظم گڑھ کے شیرواں گاؤں سے دو دن سے لاپتہ دو سالہ بچہ کی لاش گھر کے سامنے ہی تالاب میں ملی، مچا کہرام!

رپورٹ: شہاب الدین
ــــــــــــــــــــــــــــــ
سرائےمیر/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/نومبر 2017) اعظم گڑھ کے سرائے میر علاقہ میں واقع شیرواں گاؤں میں دو دن سے لاپتہ دو سالہ بچہ کی لاش گھر کے سامنے ہی واقع تالاب میں ملی، خبر سنتے ہی گھر میں کہرام مچ گیا.
موصولہ خبر کے مطابق شیرواں گاؤں رہائشی جاوید احمد بن پرویز احمد کا دو سالہ لڑکا محمد حبیب 23 نومبر کو تقریبا دو بجے کھیلتے کھیلتے اچانک غائب ہوگیا تھا، جس کی رپورٹ سرائے میر تھانہ میں بھی درج کرائی گئی تھی، گھر کے سامنے ہی واقع تالاب میں گاؤں والوں کو کچھ شک ہوا تو انہوں نے تالاب میں ڈھونڈھنا شروع کیا، لہذا تالاب کا پانی نکالنے لگے تو گزشتہ 25 نومبر بروز ہفتہ کو تقریبا 11 بجے بچہ کی لاش ملی، جس کی وجہ سے گھر میں کہرام مچ گیا، موقع ہر پہنچی پولیس نے کاغذی کارروائی کر لاش کو اہل خانہ کے حوالے کر دیا.