اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اپنے وطن کی سرزمین!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 27 November 2017

اپنے وطن کی سرزمین!

تحریر: فضیل احمد ناصری
 fuzailahmadnasiri@gmail.com
Mob: 8881347125
ــــــــــــــــــــــــــــــ
• مولانا غفران ساجد صاحب کی پیش بندیاں
برادرم مولانا غفران ساجد صاحب میرے قدیم ترین دوست ہیں، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں دو تین سالہ رفاقت رہی، وہ مجھ سے ایک سال بعد فارغ ہوے، ان کا گاؤں میرے گاؤں سے بے حد قریب ہے، بمشکل تین کلومیٹر کے فاصلے پر۔ طالب علمی کے بعد بھی برقی اور شفاہی ملاقاتوں کی کوئی نہ کوئی تقریب بفضلہ تعالیٰ بن ہی آتی ہے۔ ڈھائی ماہ قبل ان کا فون آیا کہ نومبر کے مہینے میں مدرسہ چشمہ فیض ململ میں ایک مسابقے میں آپ کو شرکت کرنا ہے، حتمی تاریخیں طے پاتے ہی میں آپ کو اطلاع دے دوں گا، چناں چہ کچھ ہی دنوں کے بعد انہوں نے 14، 15 کی تاریخیں طے ہونے کی اطلاع دی اور اس محبت آمیز گزارش کے ساتھ کہ کوئی حیلہ حوالہ نہیں چلے گا، میں نے سالانہ تعطیلات پر مشتمل جامعہ کی فہرست دیکھی تو شش ماہی امتحانات ایک ہفتہ بعد پڑ رہے تھے، میں نے بے تکلف ہامی بھرلی۔
• مسابقے میں شرکت کے لیے دیوبند سے روانگی
دن گزرتے رہے اور وقت کا رخش سرپٹ دوڑتا رہا، ایک دن مولانا کا پھر فون آیا،علیک سلیک۔ خیر خیریت۔ پھر باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ اگرچہ شفاہی دعوت آپ کو بہت پہلے مل چکی ہے، مگر مولانا فاتح اقبال ندوی صاحب باقاعدہ دعوت نامہ لے کر آپ کے پاس پہونچ رہے ہیں، کل صبح کے اوقات میں کسی وقت آپ سے ملیں گے۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ چناں چہ وہ آے، دعوت نامہ پیش کیا، تفصیلات بتائیں اور پھر روانہ ہو گئے۔
 اجلاس کے ایام قریب آ ہی گئے تھے کہ ہمارے جامعہ میں نئے اعلامیے کے مطابق شش ماہی امتحانات کو مقدم کر دیا گیا، دورانِ امتحان نگرانی کے پیشِ نظر سفر ممکن نہیں ہے، مولانا غفران ساجد صاحب کے فون آتے رہے، میں نے کہا کہ شرکت کا امکان اندھیرے میں چلا گیا ہے، امتحانات اور جلسے کی تاریخیں ٹکرا گئی ہیں، تاہم شرکت کی کوشش اپنی طرف سے جاری رہے گی، میں نے درخواست لکھی جو منظور ہوئی، دریں اثنا ٹکٹ بھی بن چکا تھا، تاریخِ سفر آئی تو حسبِ وعدہ 13 ویں نومبر کو دیوبند سے نکلا۔ غازی آباد سے چند میل کا فاصلہ رہا ہوگا کہ گھریلو ذرائعِ ابلاغ {سوشل میڈیا} پر دارالعلوم وقف کے صدرالمدرسین حضرت مولانا اسلم قاسمی صاحب کے انتقال کی خبر تیزی سے گردش کرتی دکھائی دی۔ سوچا کہ واپس ہو جاؤں، پھر خیال آیا کہ ڈھائی ماہ پہلے کی دی ہوئی زبان واپس لینا مناسب نہیں۔ استرجاع کیا اور آگے بڑھا۔ ٹرین قدیم دہلی جا رہی تھی اور مجھے نئی دہلی پہونچنا تھا۔ دو تین احباب اور بھی ساتھ تھے۔ مشورہ ہوا کہ غازی آباد اتر کر نئی دہلی کے لیے نئی گاڑی لی جاے، چناں چہ یہی ہوا۔ غازی آباد سے دہلی پہونچتے پہونچتے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ بہار کی ٹرین کا وقت سوا پانچ بجے تھا۔ میں نے سوچا کہ ایک آدھ گھنٹے کا وقت نبی کریم میں لگا لیا جاے۔ نبی کریم پہونچا۔ یہاں میرے ایک دوست مولانا عمر فرید چشتی رہتے ہیں۔ ان سے ملا۔ یہ درجہ حفظ سے عربی دوم تک میرے رفیقِ درس رہے۔ بلا کے ذہین۔ درجہ حفظ میں کئی امتحانات سے پہلی پوزیشن پر یہی قابض تھے۔ میں پہونچا تو ششماہی میں گرچہ وہی نمایاں ترین رہے، مگر سالانہ میں بازی برابری پر ختم ہوئی۔ پہلی پوزیشن پر انہوں نے قبضہ جمایا تو میں نے بھی اسی مقام پر دھاوا بولا۔ بڑے خوش اخلاق اور متواضع۔ بے تکلف اور قیدِ احترام سے آزاد۔ بڑا دل لگا۔ ساڑھے چار بجے عصر پڑھ کر واپس نکلا اور اسٹیشن پہونچ گیا۔
• مولانا وقار الدین لطیفی ندوی کی معیت میں سفر
پلیٹ فارم پر پہونچا تو گاڑی لگی ہوئی تھی۔ یہ راجدھانی تھی۔ دہلی سے پٹنہ۔ وقت بھی تقریباﹰ ہو چلا تھا۔ میں اپنی مطلوبہ نشست پر پہونچا تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک چالیس بیالیس سالہ مولانا پہلے سے ہی تشریف فرما ہیں۔ انہوں نے میرا نام پوچھا۔ پھر اپنا بتایا۔ مجھے معلوم تھا کہ سفر ان کے ساتھ ہی ہوگا۔ میں نے سامان رکھا۔ بیٹھا اور باتیں ہونے لگیں۔ مولانا کا نام پہلے بھی بارہا سن چکا تھا، مگر ان کے اخلاق و عادات سے آشنا نہیں تھا۔ مولانا غفران ساجد صاحب نے سفر سے ایک دو روز پیش تر ان کے احوال بتا دیے تھے۔ ان سے باتیں ہوئیں تو جیسا مولانا نے بتایا تھا، ویسا ہی پایا۔ بے حد کھلے ہوے۔ ظریف و نظیف۔ تکلفات سے پاک۔ رنج و غم سے آزاد۔ ادائیں دلبرانہ۔ نوائیں بلبلانہ۔ یہ کوئی اور نہیں، بلکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے آفس سکریٹری تھے۔ فاضلِ ندوہ۔ میانہ قد۔ ندوی لباس۔ بیضوی چہرہ۔ سر کے بال بیشتر سفید۔ داڑھی کی سفیدی بھی سیاہی کو مات دیتی ہوئی۔ سفر شروع ہوا۔ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلد گھل جائیں گے۔ پتہ چلا کہ بہار ہی سے تعلق ہے۔ وطن کھگڑیا ہے۔ زبان بھی بہاریت سے لبریز۔ کہنے لگے کہ اپنے ہم وطن سے مل کر اسی زبان میں بات کرنا پسند کرتا ہوں۔ اپنی زبان بڑی شیریں ہے۔ اس میں رچاؤ ہے۔ پیار ہے۔ اخلاص ہے۔ میں بھی تکلف بر طرف ہو چکا تھا۔ ان کی بہاری زبان سے لطف اندوز ہوتا رہا، بلکہ سچ کہیے کہ آزاد ہو کر میں نے بھی اسی زبان کو ذریعہ اظہار بنا لیا تھا۔ واقعی بہاری بول چال کی بات ہی کچھ اور ہے۔ بڑا مزہ آیا۔ سفر حرف و حکایات میں لمحوں میں طے ہو گیا۔ گاڑی صبح چھ بجے پٹنہ پہونچ گئی۔
• امارتِ شرعیہ پھلواری شریف میں
اسٹیشن سے باہر نکلے تو میزبان چار پہیے لے کر تیار کھڑے تھے۔ ملاقات ہوئی۔ خیال ہوا کہ وطن کی چاے پی کر تھکاوٹ اتاری جاے۔ چاے پی گئی۔ میزبان نے بتایا کہ پٹنہ ہوائی اڈے سے ایک مہمان کو لینا ہے۔ وہ بھی اجلاس کے لیے دہلی سے آ رہے ہیں۔ انہیں بھی اسی گاڑی سے چلنا ہے۔ جہاز آٹھ بجے فروکش ہوگا۔ مولانا ندوی نے مجھ سے کہا کہ اب دو گھنٹے کہاں لگائیں? میں نے کہا کہ امارت چلتے ہیں۔ حضرت مفتی ثناء الہدیٰ صاحب ودیگر سے ملاقات ہو جاے گی۔ اس راے سے وہ بڑے خوش ہوے۔ مفتی صاحب کو فون لگایا۔ پتہ چلا کہ وہ یہیں تشریف رکھتے ہیں۔ ہم لوگ چلے۔ چلتے رہے اور بیس منٹ میں امارت کی فلک بوس عمارتیں ہمارے سامنے کھڑی تھیں۔
• حضرت مفتی ثناء الہدیٰ و دیگر سے ملاقات
امارت کے مہمان خانے میں داخل ہوے تو دیکھا کہ مفتی صاحب دو تین علما کے ساتھ موجود ہیں۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ بڑے ہشاش بشاش۔ گرم جوشی سے ملے۔ مفتی صاحب ضلع ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فاضل۔ اپنے وقت کے نمایاں ترین طلبہ میں۔ بسیارنویس۔ زود نویسی اور خوب نویسی میں ضرب المثل۔ کئی درجن کتابوں کے مصنف۔ ان کی سوانحِ حیات بھی کسی عاشق نے لکھ دی ہے۔ اب تو ان پر تخصص کا طویل مقالہ بھی لکھا جا رہا ہے۔ روزنامہ انقلاب کے مستقل مضمون نگار۔ کئی برسوں سے امارت شرعیہ کے نائب ناظم ہیں اور ہفت روزہ نقیب کے کرتا دھرتا۔
میں اس قابل تو ہرگز نہیں کہ مجھ سے محبت کی جاے، مگر مفتی صاحب تعارف کے بعد سے ہی ہمیشہ مہربان رہتے ہیں۔ وجہ ایک خاندانی نسبت ہے۔ وہ میرے عمِ محترم حضرت مولانا حسین احمد ناصری زیدمجدہم کے تربیت یافتہ ہیں، بلکہ منہ بولے بیٹے بھی۔ ان کے بچپن کے چند سال میری دادھیال میں بھی گزرے ہیں۔ اب تو خیر یہ تعلق رشتے داری میں بھی بدل چکا ہے۔ ان کی صاحب زادی میرے پھوپھیرے بھائی کے نکاح میں ہے۔
مختلف سلگتے موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ہم رخصت ہونے لگے تو اپنی تازہ ترین کتاب "یادوں کے چراغ"ہدیۃً پیش کی۔ امارت میں ہی میرے ایک پرانے دوست کا حال ہی میں تقرر ہوا تھا۔ انہیں میری آمد کی اطلاع دی گئی تو وہ بھی آگئے۔ مصافحہ معانقہ ہوا۔ پھر مختصر تبادلہ خیال۔ یہ مولانا شبلی قاسمی تھے۔ امارتِ شرعیہ کے نئے نائب ناظم۔ دارالعلوم حسینیہ پروہی پتونا (مدھوبنی) میں جن دنوں حفظِ قرآن کا متعلم تھا، یہ اسی ادارے کے درجاتِ عربیہ میں متدرس تھے۔ نہایت متحرک۔ چاق و چوبند۔ بوٹی بوٹی سے تیزی ابھرتی ہوئی۔
• پٹنہ ہوائی اڈے پر
سب کو سلامِ وداع کیا۔ سیدھے ایئرپورٹ کی راہ لی۔ پندرہ بیس منٹ میں ہم لوگ وہاں موجود تھے۔ پتہ چلا کہ اسی اجلاس میں شرکت کے لیے مدرسہ اشاعتِ اسلام اکل کوا کے مہتمم مولانا غلام محمد وستانوی زیدمجدہم بھی اسی جہاز سے آ رہے ہیں، جس سے ہمارے اگلے رفیقِ سفر کو آنا ہے۔ جہاز کافی مؤخر تھا۔ طویل انتظار کی اذیت سے ہم سبھوں کو گزرنا پڑا۔ پٹنہ کالج کے پروفیسر مولانا شکیل قاسمی بھی اجلاس کے لیے تشریف لا چکے تھے۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ دو گھنٹے کے بعد جہاز اترا۔رفقا کے ہمراہ مولانا وستانوی صاحب باہر آے۔ ملاقات ہوئی۔ ان کی گاڑی دوسری تھی۔ گاڑی پر بیٹھے اور چل دیے۔ دیکھا کہ ہمارے منتظَر مہمان ندارد ہیں۔ پھر معلوم ہوا کہ ان کا جہاز ہی چھوٹ گیا تھا۔ اب کیا کرتے۔ ہم نے بھی سفر کا اگلا مرحلہ شروع کر دیا۔
• فقیہ الاسلام حضرت قاضی مجاھد الاسلامؒ کے مزار پر
دیر تو ہو ہی چکی تھی۔ مولانا ندوی کی خواہش تھی کہ فقیہ الاسلام قاضی مجاھدالاسلام صاحبؒ کے مزار پر حاضری دیتے ہوے آگے بڑھا جاے۔ وہ میرے والد حضرت مولانا علاءالدین ندویؒ کے رفیقِ درس اور بے تکلف دوست تھے۔ مجھ پر بھی بڑے شفیق و کرم گستر۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آفس میں انہوں نے ہی میرا تقرر کیا تھا۔ بدقسمتی سے ان کے مزار پر آج تک نہ جا سکا ہوں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ میری بھی یہی خواہش ہے۔ گاڑی دربھنگہ ہو کر گزرے گی۔ چلے چلتے ہیں۔ گاڑی شیطان کی رفتار سے دوڑتی رہی۔راہ میں ہی قاضی مرحومؒ کے برادرِ نسبتی جناب صفی اختر صاحب کو فون کیا گیا۔ وہ گھر پر موجود تھے۔ ہمارے ارادے سے بہت مسرور۔ صفی صاحب قاضی مرحوم کے سب سے چھوٹے برادرِ نسبتی ہیں۔ انہیں کے پروردہ اور سایہ عاطفت میں بسر کیے ہوے۔ دہلی میں آل انڈیا ملی کونسل کی آفس کے ذمے دار ہیں۔ لکھنے کا خوب سلیقہ رکھتے ہیں۔ سنجیدہ اور خلیق۔ شرافت و نجابت کے گلِ رعنا۔ دربھنگہ شہر کے مہدولی میں ان کا گھر ہے۔ یہ رشتے میں میرے چچا بھی ہیں۔
ہم مسلسل جادہ پیما رہے۔ راستے میں ایک عجیب موڑ آیا۔ گاڑی کو دیکھا کہ پیہم ٹیڑھی دوڑ رہی ہے۔ اپنا توازن سنبھالنا سب کے لیے دشوار۔ مولانا ندوی کی حسِ ظرافت حسبِ عادت پھر پھڑک اٹھی۔ کہنے لگے کہ مولانا! یہ جلیبیا موڑ ہے۔ جلیبی کی طرح گول اور الجھا ہوا۔ مجھے بڑی ہنسی آئی۔ خدا خدا کر کے دربھنگہ پہونچے۔ مہدولی میں متعدد بار جا چکا تھا، مگر اب دیکھا تو راستہ بھولا ہوا۔ ڈرائیور بھی مہدولی ندیدہ تھا۔ نتیجۃً پاس کی منزل بھی بعید ثابت ہوئی اور راستہ شیطان کی آنت کی طرح پرپیچ۔ خیر لشتم پشتم ٹھکانے پر پہونچا تو دیکھا کہ صفی چچا استقبال میں کھڑے ہیں۔ پرتپاک ملاقات ہوئی۔ قاضی صاحبؒ کا مزار گھر کے احاطے میں بالکل سامنے تھا۔ ہم نے ان کے لیے کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا۔ ندوی صاحب زیادہ جذباتی ہو رہے تھے۔ دیر تک کتبے اور مزار کو دیکھتے رہے۔ عجیب حال ان پر طاری تھا۔ماضی کی یاد میں گم سم۔ پھر اٹھے۔ دسترخوان لگ چکا تھا۔ کھانا کھایا۔ قیلولہ کیا اور تھوڑی دیر بعد واپسی کی اجازت چاہی۔ چچا نے بڑی مشکل سے اجازت دی اور نم آنکھوں سے ہمیں رخصت کیا۔
•ململ کو روانگی
مہدولی سے نکلے تو حضرت قاضی مرحوم کی شخصیت دیر تک ذہن میں گردش کرتی رہی۔ مولانا وقار ندوی صاحب کی طبیعت خوشی و غمی کا سنگم تھی۔ خوشی اس بات کی کہ انہیں انتقال کے بعد قاضی صاحب کے مقبرے پر حاضری کی سعادت پہلی بار نصیب ہوئی تھی۔ غمی اس پر کہ پندرہ برسوں کا داغِ فرقت صرف چند لمحوں کے لیے ہی مٹایا جا سکا۔ ندوی صاحب کو اس راہ پر لگانے والے قاضی صاحب ہی تھے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کی آفس میں وہی لے کر آے۔ ندوی صاحب نے اپنے تعلقات کی پرتیں ہٹانی شروع کیں اور ان کی حیات کے پوشیدہ اوراق الٹتے پلٹتے رہے۔ ادھر میرا دل بھی بوجھل۔ قاضی صاحب میرے لیے کیا نہ تھے۔ میرے دادا تلمیذِ کشمیری مولانا محمود احمد ناصریؒ کے شاگردِ رشید۔ میرے والد کے رشتے کے چچا۔ ایک رشتے سے بہنوئی بھی۔ میں انہیں دادا کہتا۔ ان سے میری باقاعدہ ملاقات اسی مہدولی میں ان کے قائم کردہ کالج میں ہوئی تھی۔ میں اس وقت دارالعلوم میں مشکوۃ پڑھ رہا تھا۔ میرے بڑے بہنوئی جناب سہیل احمد ناصری صاحب کی نانیہال مہدولی میں ہی ہے۔ قاضی صاحبؒ کے خسر جناب منظر صاحبؒ ان کے چچیرے ماموں تھے۔ وہ وہاں جاتے ہی رہتے تھے۔ ایک بار مجھے بھی لے گئے۔ منظر صاحبؒ سے بھی ملاقات ہوئی۔ قاضی صاحب بھی یہیں مقیم تھے۔ جس وقت ہم پہونچے، وہ اکیلے تھے۔ میرے بہنوئی نے علیک سلیک کے بعد میرا تعارف کراتے ہوے کہا کہ یہ میرا سالا ہے۔ مولانا جمیل احمد ناصری کا بیٹا۔ قاضی صاحبؒ بھڑک گئے۔ کہنے لگے: تم نے سالا سے کیوں تعارف کرایا? سیدھے کہتے کہ یہ آپ کا پوتا ہے۔ مصافحہ کے ساتھ معانقہ ہوا۔ باتیں ہوئیں۔ ان سے مل کر میں خود کو بڑا سعید سمجھ رہا تھا۔ آج انہیں کے مزار سے ہو کر آیا ہوں تو دل بڑا اداس ہے۔ کتنا بڑا انسان موت کے چادر اوڑھے پڑا ہے۔ بہار کی سرزمین سے ہزاروں لالہ و گل اٹھے۔ لاتعداد شگوفے کھلے، مگر قاضی صاحبؒ اس دور میں اپنی نظیر آپ تھے۔ فقہی بصیرت، علمی تعمق، مجتہدانہ شان اور قلم و خطابت کا ایسا حسین امتزاج یہاں عرصے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ اب تو دور دور تک سناٹا ہے۔
گاڑی پیچ و تاب کھاتے بھاگتی رہی۔ مغرب کا وقت ہونے جا رہا تھا۔ اب ہم ململ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ قاضی صاحبؒ کے ذکرِ خیر کے بعد دوسرے موضوعات چل رہے تھے۔ اچانک دیکھا کہ راستے سے دھول اڑنے لگی۔ دہلی کی فضا کا رنگ۔ میں نے شیشے چڑھا لیے۔ ندوی صاحب حسبِ سابق پرمزاح لہجے میں بول پڑے: مولانا! یہ دیسی پاؤڈر ہے۔ اسے لگنے دیجیے۔ اپنے وطن کا غبار چہرے کو مس کرتا ہے تو کرنے دیجیے۔ میں نے شیشے اتاردیے۔ ان کی گفتگو کے بعد اس دھول سے مجھے بھی محبت ہونے لگی تھی۔
•ململ ایک نظر میں
کچھ منٹوں کے بعد ہم ململ میں تھے۔ میں نے آگے دیکھا تو ایک کار جا رہی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ مولانا وستانوی صاحب کی کار تھی۔ طلبہ اور عوام دو رویہ کھڑے "خادم القرآن: زندہ باد" کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ ان کی ایک جھلک پانے کے لیے بے چین و بے قرار۔ ان کی گاڑی چیونٹی کی چال چل رہی تھی۔ نتیجتاً ہم بھی پھنسے ہوے۔ خدا خدا کر کے قیام گاہ پہونچے۔ دو چار منٹ آرام کیا۔ نماز ادا کی اور محبین سے ملاقات کا دور شروع۔
بہت سے گاؤں کا تعارف وہاں کے قائم مدارس سے ہوا کرتا ہے۔ ململ کا نام میری سماعت سے اول اول مدرسہ چشمہ فیض کی وجہ سے ہی ٹکرایا۔ یہ ایک کثیر آبادی والا مسلم گاؤں ہے۔ کم و بیش دو ہزار گھروں پر مشتمل۔ سکّان چھ ہزار سے زیادہ۔ سارے کے سارے مسلمان۔ علم و عرفان سے ہر گھر آشنا۔ سب کے سب دیوبندی المسلک۔ حفاظ اور علما بڑی تعداد میں۔ بعض علما بین الاقوامی شہرت یافتہ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے مؤقر استاذ، ادیبِ شہیر حضرت مولانا نذرالحفیظ ندوی زیدمجدہم یہیں کی وطنیت رکھتے ہیں۔جماعتِ اسلامی بہار اکائی کے سابق امیر جناب قمرالہدیٰ صاحب کا وطن بھی یہی ہے۔ ان کے علاوہ کئی مستند فضلا ملک و بیرونِ ملک میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔ حافظات و عالمات کی بھی بہار در بہار۔ مبالغۃً کہا جاتا ہے کہ یہاں کی مرغیاں بھی پڑھی لکھی ہوتی ہیں۔ شعر و سخن سے وابستہ شخصیات بھی یہاں ہر دور میں موجود رہیں۔ قابلِ رشک آبادی ہے۔ بڑی قدیم تاریخ کا حامل۔ پانچ سو برس پہلے ململی خان نے اس گاؤں کے ایک محلے میں قیام کیا۔ نتیجتاً پورا گاؤں ہی ململ کہلا گیا۔ یوپی کے جون پور سے ایک بندہ خدا کا اس گاؤں سے گزر ہوا۔ یہ 1863 تھا۔ اس نے یہاں چشمہ فیض کے نام سے ایک ادارے کی داغ بیل ڈالی۔ بندہ خدا کا نام مولانا عبدالباری سلفی مچھلی شہری تھا۔ ان کا یہ نام اور کام اتنا چلا کہ انہیں کے دور میں اس کا شہرہ دور دور تک پہونچا۔ اب تو گاؤں کا شاید ہی کوئی بندہ ہو جو اس کا فیض یافتہ نہ ہو۔ علاقے اور صوبے سے گزر کر ملک بھر میں اس کے جاننے اور فیض پانے والوں کی کمی نہیں۔
•اہلِ ململ کی مہماں نوازی
ہم جوں ہی اپنی قیام گاہ میں پہونچے، رضا کاروں کی ایک جماعت ٹوٹ پڑی۔ ہر شخص مہماں نوازی میں سبقت لے جانے کی کوشش میں۔ مولانا وقار ندوی صاحب کے قدیم شناسا زیادہ تھے، اس لیے جو آتا، اولاً انہیں سے لپٹتا۔ محبت میں میرے ساتھ بھی کوئی کمی نہیں۔ ہر ایک کے لب مسکراہٹوں سے سجے ہوے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت میں ان کا آنا جانے کی تمہید اور جانا آنے کا ابتدائیہ۔ ان میں سے اکثر ندوی تھے۔ جناب خطیب ندوی صاحب کا مسکراتا چہرہ ابھی تک تازہ ہے۔ معلوم ہو رہا تھا کہ خوشی سے جھومے جا رہے ہیں۔ یہ نجیب الحسن ندوی صاحب ہیں۔ مہمانوں کی خاطر داری میں پیش پیش۔ سنجیدگی کے ساتھ ہجومِ مسرت بھی پیشانی کی لکیروں سے نمایاں۔ یہ جناب نجم الہدیٰ ثانی صاحب ہیں۔ ان کا نام بہت سنا تھا۔ سوشل میڈیا پر ان کے افکار و خیالات سے تقریباﹰ روز ہی مستفید۔ آج وہ ملے اور انہوں نے تعارف کرایا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ بھی اظہارِ خوشی میں تیز رَو۔ مولانا فاتح اقبال ندوی بھی پرسشِ احوال کو پہونچ چکے تھے۔ جوانی سے پلّہ جھاڑنے کے قریب۔ تبسم بر لبِ اوست کا مجسمہ۔ اجلاس انہیں کے والد کے مدرسے کا تھا۔ خود بھی جامعۃ فاطمۃ الزھراء کے مدیرِ محترم ہیں۔ نگاہیں ہماری طرف تھیں اور ذہن انتظامات میں الجھا ہوا۔ کس کس کا نام لیجیے۔ یہاں کا ہر ذرہ خلیق اور ہر تنکا عزت افزائی میں مگن تھا۔
•ایک قلندر سے ملاقات
میزبانوں کی انہیں اداؤں کے بیچ اسی کمرے میں ایک بوڑھا شخص آتا ہوا نظر آیا۔ پست قامت۔ مرقعِ دہقانیت۔ عجیب و غریب ہیئت۔ میں نے ہلکا غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو قاضی القضاۃ حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری ہیں۔ وہ تخت پر پاؤں لٹکاے ابھی بیٹھے ہی تھے کہ میں ان سے ملاقات کو لپکا۔ میں نے جوں ہی اپنا نام بتایا، بڑھ کر مصافحہ کیا۔ گلے بھی لگایا، پھر کہنے لگے: اگر آپ کو میری ایک بات اور معلوم ہو جاے تو آپ کی انسیت مزید بڑھ جاے گی۔ میں نے کہا: حضرت! مجھے معلوم ہے۔ آپ میرے والد کے کئی سال رفیقِ درس رہے۔ آپ میرے دادا کے شاگرد ہیں۔ وہ مسکرانے لگے اور اپنا وہ زمانہ یاد کرنے لگے۔ مسابقہ کے سرپرست یہی تھے۔
میں نے پورا ہندوستان دیکھ لیا۔ مختلف علاقوں میں گھوما۔ اپنے ہوش کے دور سے تقریباﹰ ہر نامور عالم کو دیکھا، مگر ایسی علمی شخصیت میری نظر سے نہیں گزری۔ عمر 85 کے آس پاس ہے، مگر استحضار بے پناہ۔ فقہی عبارتیں کثرت سے زبان پر۔ فقاہت میں یدِ طولیٰ۔آیات کا برمحل استعمال۔ احادیث پر گہری نظر۔ خطابت میں علم ہی علم۔ کوئی بات زائد نہیں۔ تقریریں تکرار سے پاک۔ گویا انگ انگ علوم و معارف کی جوے سلسبیل۔ مگر بایں ہمہ سادگی کا عظیم پیکر۔ سر پر دوپلی ٹوپی ‌۔ آڑی اور ٹیڑھی۔ پوشاک معمولی۔ نیل زدہ، مگر پریس ندیدہ۔ پاجامہ بھی اسی رنگ کا۔ تکلفات و تصنعات انہیں چھو کر نہیں گزرے۔ کبر و ریا سے منزہ۔ علم کا ایسا پہاڑ اور سادگی کا پیکر میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔ جی چاہتا تھا کہ جان وار دوں۔ کئی دن ہو چکے، مگر ان کی شخصیت کا یہ تاثر ابھی بھی جوان ہے۔ وہ چاہتے تو پورا عالم ان کے زیرِ نگیں ہوتا، لیکن یہ درویشِ خدا مست دنیا و ما فیہا سے بے خبر۔ عالمِ گندم و جو کی شہنائیوں سے نا آشنا۔ دنیا کی رنگینیوں سے بے خبر۔ ایک زمانے سے بہار کے قاضی ہیں۔ ان کی خدمات صوبہ بھر میں جاری۔ اب تو ملک بھر میں ان کا بلاوا ہونے لگا ہے۔ اگر یہ بندہ بہار سے باہر مقیم ہوتا تو اس کی خدمات کے اعتراف میں کیا کیا نہ ہوا ہوتا، مگر یہ بہار ہے۔ ظرف کا بہت بڑا۔ حوصلے کا دہ در دہ۔ اعترافِ عظمت کے لیے یہاں زبانیں بمشکل ہی کھلتی ہیں۔ اللہ اکبر!