اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: January 2017

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday 31 January 2017

سماج وادی پارٹی کے سابق ممبر اسمبلی نے دیا پارٹی سے استعفیٰ!


® سلمان اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز  31/جنوری 2017)  ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر پارٹی کی مخالفت تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے پارٹی پر غفلت کا الزام لگاتے ہوئے اس وقت کے سرائے میر اسمبلی کے سابق ایس پی ممبر اسمبلی بھولا پاسوان نے ایس پی سے استعفیٰ دے دیا ایس پی کے دفتر پر ان کے حامیوں نے پارٹی مخالف نعرے لگائے تو سابق ممبر اسمبلی نے کسی دوسری پارٹی میں جانے کی بات پر کہا کہ اپنے حامیوں کے ساتھ ملاقات کر آگے کی حکمت عملی بنائیں گے.
پارٹی کے قومی صدر اور ضلع صدر کے نام استعفیٰ میں 2007 میں سرائے مير اسمبلی سیٹ سے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی رہے بھولا پاسوان نے کہا کہ جس مقام پر اس شخص اور اس کے کلاس اور معاشرے کے احترام اور خود داری کی توہین ہو، فروغ کی جگہ کشی ہو، خود داری کی جگہ توہین کی جائے تو ایک دن صبر کی حد ٹوٹ جاتی ہے. ٹکٹ کی دعویداری کے سوال پر سابق رکن اسمبلی نے کہا کہ 2012 کے اسمبلی انتخابات میں مینہ نگر اسمبلی کے كھرہانی  سے سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو نے عوام کو وعدہ کیا تھا کہ تمام لوگ مل کر مینہ نگر کی سیٹ پر جیت دلائیں. بھولا پاسوان اور عوام کے جذبات کا احترام کروں گا لیکن احترام کو کون کہے توہین کیا گیا. کہا کہ آج عزت اور خود داری سے بڑا کوئی لفظ نہیں ہے. اس لئے خود داری کو گرا کر ایس پی میں بنے رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے.

Monday 30 January 2017

ترقیاتی بلاک سمریاواں کے مدرسہ دینیہ مونڑاڈیہہ بیگ میں یوم جمہوریہ کے موقعے پر رنگارنگ پروگرام منعقد!



® سلمان کبیرنگری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سمریاواں/ سنت کبیرنگر(آئی این اے نیوز 30/جنوری 2017) ترقیاتی بلاک سمریاواں کے مدرسہ دینیہ مونڑاڈیہہ بیگ میں یوم جمہوریہ کے موقع پر رنگارنگ پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت بشیر احمد قاسمی سابق صدر جمعیتہ علماء سنت کبیر نگر نے کی اور نظامت کے فرائض محمد سلمان عارف ندوی مدیر تحریر ادبی میگزین نئی روشنی وکارگزار صدر یوا سنگھرش سمیتی سنت کبیر نگر نے انجام دیئے اپنے خصوصی خطاب میں مفتی محمد رضوان قاسمی قنوجی نے یوم جمہوریہ وجنگ آزادی پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "ہمارے ملک کی آزادی کی تحریک میں علماء کرام کی ناقابل فراموش قربانیاں رہی ہیں اگر جنگ آزادی میں ہمارے علماء نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہوتا تو ہمارا ملک آزاد نہ ہوا ہوتا اور آج ہم جمہوریت کا یہ جشن نہ منا رہے ہوتے" انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے ملک پر انگریزوں نے اپنی شاطرانہ چال پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی پر چلتے ہوئے قبضہ کر لیا اور ہندوستانی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ نے لگے اور طرح طرح کی سزائیں دینے لگے تو ملک میں بغاوت پھیل گئی اور ہر طرف سے ہندوستان چھوڑو تحریک کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئیں انگریزوں نے اس آواز کو دبانے میں اپنا پورا زور لگادیا کتنوں کو پھانسی پر لٹکایا زندہ جلوایا گولیوں سے بھون دیا، کالے پانی میں قید کردیا، جن میں اکثریت ہمارے علماء کرام کی رہی آخر کار مجبور ہوکر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور یوں پندرہ اگست 1947 کو بھارت دیش آزاد ہوگیا ملک کی آزادی کے بعد ہمارے اسلاف نے غوروفکر کیا کہ ملک پر ایک ایسا قانون نافذ کیا جائے جو کہ ہر مذہب کے حقوق کی رعایت کرے جس کے لئے دستور ساز کمیٹی نے ایک جمہوری قانون پاس کیا جس کو آج ہی کے دن یعنی 26 جنوری 1950 کو نافذ کیا گیا جس کی خوشی میں آج کے جشن منایا جاتا ہے.
مدرسہ ہذا کے طلبہ و طالبات نے تحریک آزادی پر مبنی انگریزی، ہندی و اردو زبانوں میں تقاریر و مکالمات پیش کیا محمد صادق، محمد ریحان، محمد سعد، محمد شعبان وغیرہ نے مکالمے پیش کئے جبکہ دیگر طلبہ نے مختلف زبانوں میں تقریریں، ترانے اور مقالات پیش کرکے سامعین کے دل موہ لئے، انگریزی تقریر شمع پروین، ہندی تقریر عائشہ خاتون، اردو تقریر محمد اشرف، محمد آصف، محمد اسعد، علیم النساء وغیرہ نے پیش کئے.
اس موقع پر عبداللہ قاسمی، حفظ الرحمن ندوی، فدا حسین قاسمی، مشتاق احمد پردھان، حافظ انعام اللہ، حافظ محمد سعد، ماسٹر بدر عالم، قاری طاہر حسین وغیرہ خاص طور پر موجود رہے.

بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر عالم نظامی تین روزہ دورے پر اترپردیش روانہ!


خصوصی رپورٹ: شعیب اختر بستوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ممبئی(آئی این اے نیوز 30/جنوری 2017) عروس البلاد ممبئی کے مشہور و معروف شاعر محترم عالم نظامی صاحب آج اپنے تین روزہ دورے پر اتر پردیش روانہ ہوگئے ہیں نظامی صاحب یکم فروری اترولہ ضلع بلرام پور یوپی کے نعتیہ مشاعرے میں شرکت کرکے 2 فروری کو جلال پور ٹانڈہ یوپی کے آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کریں گے اور 3 فروری کو شام کی فلائٹ سے ممبئی آجائینگے واضح رہے کہ عالم نظامی صاحب اس اس وقت نئی نسل کے شعراء کی نمائندگی کر رہے ہیں ممبئی میں عالم نظامی صاحب نے دبستانِ اردو ممبئی کے سکریٹری کی حیثیت سے بے پناہ ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں ان کی ادبی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں مہاراشٹرا اسٹیٹ اردو اکادمی نے ایوارڈ سے بھی نوازا ہے
عالم نظامی صاحب ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ایک زبردست ادیب اور خوش اخلاق انسان ہیں اتر پردیش میں ان کی آمد سے ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے.
یوپی میں ان سے رابطہ کرنے کے لئے اس نمبر پر رابطہ کریں 9702766269

Sunday 29 January 2017

چوروں نے چھٹکایا دکان کا تالا، ہزاروں کے مال پر کیا ہاتھ صاف!


® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
بلرياگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 29/جنوری 2017) بلریاگنج تھانہ علاقے کے وجے پار گاؤں میں دکان کا تالا توڑ کر چوروں نے سات ہزار کی جائیداد سمیٹ لے گئے ترک پڑری گرام رہائشی رام اودھ پاسوان خاندان کی روزی روٹی چلانے کے لئے وجے پار گاؤں کے قریب پان کا کاروبار کرتا ہے ہفتہ کی رات تقریباً 8:00 بجے اپنی دکان بند کر گھر چلا گیا رات میں کسی وقت چور اس کی دکان کا تالا توڑ اس میں رکھا گٹکھا، سگریٹ اور نقد سمیت تقریباً سات ہزار کی جائیداد سمیٹ لے گئے واقعہ کی معلومات دکاندار کو اتوار کی صبح دکان پہنچنے پر ہوئی. پھر دکاندار نے واقعہ کے بابت نامعلوم کے خلاف مقامی تھانے میں تحریر دی ہے.

Saturday 28 January 2017

کرنٹ لگنے سے نوجوان زخمی، حالت نازک!


® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/جنوری 2017) برده قصبہ میں جمعرات کی دیر شام قریب سات بجے ویلڈنگ کی دکان میں کام کرتے وقت نوجوان کرنٹ کی زد میں آنے سے بری طرح جھلس گیا مقامی قصبہ رہائشی ستیش بیٹے رامدھنی وشوکرما جمعرات کی شام ویلڈنگ کا کام کرتے وقت کرنٹ کی زد میں آ گیا. لواحقین آناً فاناً اسے جونپور ضلع ہسپتال لے گئے جہاں اس کی حالت نازک بنی ہوئی ہے.

Friday 27 January 2017

مدرسہ پیام حق دونا جہت مند پور میں منایا گیا جشن یوم جمہوریہ!


® محمد عاطف اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لال گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2017) مدرسہ پیام حق  میں صبح 8:00 بجے جشن یوم جمہوریہ منایا گیا جس میں طلبہ و طالبات حصہ لیکر اپنے اپنے کام انجام دیئے اس کے بعد مفتی شجاع الرحمٰن صاحب، مولانا حسان صاحب اور ڈاکٹر ارشد قاسمی صاحب یوم جمہوریہ  کے موضوع پر بیان فرمایا.
پردھان ضیاء الدین، منصور احمد پردھان، ہاشم اسرار نے پرچم لہرایا اور طلبہ نے ترانہ پیش کیا اس موقع پر گاؤں کے لوگوں سمیت علاقہ کے لوگ بھی شریک رہے.

مدرسہ اسلاميہ (مكتب) سيہی پور اعظم گڈھ میں يوم جمہوريہ کے موقع پر پروگرام کا انعقاد!



® ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 27/جنوری 2017) مدرسہ اسلاميہ (مكتب) سيہی پور اعظم گڈھ میں يوم جمہوريہ کے موقع پر پروگرام کا انعقاد کیا گيا اس موقع پر مكتب كے طلبہ و طالبات نے پوری دلچسپی سے حصہ ليا اس پروگرام ميں رضوان داؤد نے خطاب كرتے ہوے کہا کہ ہمارا ملک گنگا جمنی تہذیب دیتا ہیں انہوں کہا کہ آج ہمارے کسی بھی پروگرام پر حكومت كی نگاه رہتی ہے اور اس پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے عدنان داؤد اعظمی نے کہا کہ ہمیشہ ہندوستان میں مسلمانوں کے معاملات میں جمہوریت کا مزاق اڑایا گیا نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری تاریخ كو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہیں پروگرام کی صدارت ریان داؤد اعظمی نے کی، پروگرام سے مدرسہ کے طلبہ و اساتذہ سمیت گاؤں کے لوگوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی.

Thursday 26 January 2017

مدرسہ رحمة للعالمین میں یوم جمہوریہ کے پروگرام کا انعقاد اور مفتی محمد ثاقب قاسمی کا شاندار استقبال!


® محمد عاصم اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالیر کوٹلہ، پنجاب (آئی این اے نیوز 26 جنوری 2017) ہندوستان کا شمار دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے، 26 جنوری 1950 میں ہندوستان نے اپنے لئے جو دستور طے کیا اس کے آغاز میں ایک بہت خوبصورت جملہ لکھا گیا ہے "ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتے ہیں کہ انڈیا ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی انصاف، آزادئ خیال، اظہار رائے، آزادئ عقیدہ ومذہب وعبادات، مواقع اور معیار کی برابری، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا" آج یوم جمہوریہ ہے، آج کے دن ملک بھر میں ہر جگہ سرکاری چھٹی رہتی ہے اور لوگ یوم جمہوریہ کا پروگرام منعقد کرتے ہیں، ترانے پڑھے جاتے ہیں، راشٹری گیت گایا جاتا ہے، سیکولرازم کے عنوان سے بیانات ہوتے ہیں، اسی طرح مدرسہ رحمة للعالمین، گاؤں متوئی، نزد روڈیوال، تحصیل مالیر کوٹلہ میں 26 جنوری یوم جمہوریہ کا جشن بڑے جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا سب سے پہلے مدرسہ ہذا کے ایک طالب علم نے ترانہ ہند کو سریلی اور دل کش آواز میں پڑھا اسکے بعد مدرسہ عربیہ حفظ القرآن کے نوجوان اور مایہ ناز استاذ مفتی محمد ثاقب قاسمی اور راجو کلب پردھان نے ترنگا لہرانے کی رسم ادا کی، موسم کے خراب ہونے اور مسلسل موسلادھار بارش کی وجہ سے مفتی محمد ثاقب قاسمی کا پر مغز بیان تو نہ ہوسکا البتہ مفتی صاحب کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا، نیز مفتی صاحب نے ہندوستان میں جمہوریت کی بقا، ہر ہندوستانی کو ہندوستان کا ایک شہری ہونے کے ناطے جو سہولیات ملنی چاہیئے اسکا حصول، اقلیتوں کے ساتھ انصاف، ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور ہندوستان کے دوسرے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا آپس میں اتحاد واتفاق اور اخوت بھائی چارگی، ملک کی ہر شرور وفتن سے حفاظت اور دیش کی ترقی کے متعلق دعا کرائی، دعا کے بعد مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، واضح رہے کہ اس جشن میں مدرسہ ہذا کے مہتمم قاری محمد اکرم، قاری و مولانا زبیر احمد، حافظ لقمان، قاری محمد انس، حافظ احمد، تاج محمد اور مدرسہ کے تمام طلبہ موجود تھے.

مدرسہ مرقاة العلوم بھاواپور میں طلبہ نے جلوس نکال کر منایا جشن یوم جمہوریہ!


® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 26/جنوری 2017) مدرسہ مرقاة العلوم بھاواپور میں آج جشن یوم جمہوریہ منایا گیا جس میں طلبہ و طالبات سمیت گاؤں کے تمام لوگوں نے جلوس نکال پورے گاؤں کا دورہ کیا صبح 9:00 بجے مدرسہ میں تمام طلبہ و طالبات نے پہلے ترنگا لہرا کر ترانہ پیش کیا اس کے بعد تمام لوگوں نے جھنڈا لے کر حافظ منظور صاحب استاد مدرسہ ھٰذا کی نگرانی میں جلوس نکالا جلوس کی ابتداء مدرسہ سے ہوئی لیکن یہ جلوس جامع مسجد کے راستہ سے ہوتے ہوئے شمش الدین پبلک اسکول کے راستہ سے مدرسہ پہنچا اس جلوس میں مولوی علیم اللہ، مولوی اسعد، محمد کازم، ابوعزیر، رحمت اللہ، محمد آصف، محمد عاطف، محمد شمشیر و مدرسہ کے تمام ممبران سمیت گاؤں کے سیکڑوں لوگوں نے حصہ لیکر ہندوستانی ہونے پر فخر کیا.

Wednesday 25 January 2017

رحمت کالونی شیرواں بازار میں عظیم الشان تحفظ سنت کانفرنس 23 فروری کو ہوگا منعقد!



® محمد عاصم اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سرائے میر/اعظم گڑھ(ائی این اے نیوز  25/جنوری 2017) رحمت کالونی شیرواں بازار اعظم گڑھ میں بتاریخ 23/فروری 2017  بروز جمعرات بعد نماز عشاء عظیم الشان تحفظ سنت کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے جس میں وکیل احناف فاتح آسام حضرت اقدس مولانا مفتی محمد راشد صاحب اعظمی دامت برکاتہم (أستاذ جامعہ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند) تشریف لارہے ہیں جس کی سرپرستی حضرت مولانا شاھدالقاسمی جنرل سیکرٹری جمیعة العلماء ضلع اعظم گڑھ اور صدارت فقیہ عصر محدث دوراں شیخ طریقت حضرت اقدس مولانا عبدالرشید صاحب مظاہری دامت برکاتہم العالیہ أستاذ حدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر فرمائیں گے مقررین میں جامع المعقولات والمنقولات حضرت مولانا وسیم احمد صاحب شیروانی استاد حدیث و فلسفہ جامعہ حسینیہ لال دروازہ جونپور، مولانا محمد افضل صاحب اعظمی ناظم اعلی جامعہ شرعیہ فیض العلوم اور مولانا محمد انور صاحب داؤدی ناظم تعلیمات مدرسہ اسلامیہ دار ارقم شیرواں سرائےمیر تشریف لائیں گے.
کانفرنس کا آغاز جناب قاری حسین احمد صاحب استاد تجوید مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر کے تلاوت سے یوگا اور نعت خوانی مداح خیرالانام جناب قاری محمود عالم صاحب بلیاوی استاد تجوید جامعہ حسینیہ لال دروازہ جونپور فرمائیں گے.
جبکہ نظامت کے فرائض مولوی محمد مستقیم شیروانی استاد مدرسہ اسلامیہ دارارقم شیرواں انجام دیں گے.
امت مسلمہ سے درخواست ہے کہ اس عظیم الشان کانفرنس کی ظاہری و باطنی کامیابی کے لئے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں اور اس کانفرنس میں مع احباب شرکت کریں استقبالیہ کمیٹی کے ذمہ دار  محمد امجد اور حافظ محمد یوسف رحمت کالونی شیرواں بازار موجود رہیں گے

Tuesday 24 January 2017

سماجی تنظیم فیوچر آف انڈیا کے زیر اھتمام میٹنگ کا انعقاد!


®سلمان کبیرنگری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
بلواسینگر/سنت کبیر نگر(آئی این اے نیوز 24/جنوری 2017) سماجی تنظیم فیوچر آف انڈیا کے بانی وصدر مظہر آزاد نے سانتھا بلاک ہیڈ کوارٹر پر تنظیم سے وابستہ عہدیداران وکارکنان کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور انتخابی کمیشن سے مطالبہ کیا انتخابی منشور میں کئے جانے والے وعدے کو پورا کرانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کے قائدین سے بیان حلفی لی جائے انتخاب کے بعد اقتدار میں آنے والی پارٹی اگر صد فیصد اپنے وعدے پرعمل نہیں کرتی تو پارٹی کا نام اور انتخابی نشان ضبط کر لیا جائے. مکتوب میں سوال کیا گیا کہ رائے دہندگان سے جھوٹے وعدے کرنا کیا انتخابی اخلاق قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے جھوٹے وعدے کرکے عوام کاقیمتی ووٹ لینا کیا جرم کی کٹیگری میں نہیں آتا.؟ مکتوب میں کہا گیا کہ جھوٹ مکرو فریب کے ذریعہ عوام کے ووٹ کو ہتھیا لینا جرم ہے  توبھی سیاسی پارٹیاں جوجھوٹے وعدے کرتی ہیں ان پر کاروائی ہونی چاہیئے.

ملائم کے اعظم گڑھ میں سماج وادی پارٹی میں بغاوت، سڑک پر اترے کارکن، کیا اکھلیش کے فیصلے کی مخالفت!


 ® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/جنوری 2017) کانگریس کے ساتھ اتحاد کے بھروسے دوبارہ اقتدار سکھ جھیلنے کی تیاری میں لگے سی ایم اکھلیش کی مصیبتیں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں اکھلیش کی طرف سے امیدواروں کی فہرست جاری کرنے کے اگلے دن ہی کارکنان ملائم سنگھ یادو کے پارلیمانی حلقہ میں بغاوت کر دی ہے گوپال پور اور سگڑی میں امیدوار کے خلاف سپا کارکنان سڑک پر نظر آئے. اس دوران لوگوں نے امیدواروں کا پتلا پھونکا اور اکھلیش یادو سے فوری طور پر امیدوار تبدیل کرنے کی مانگ کی. مانگ پوری نہ ہونے پر عہدیداروں نے استعفی دینے کی دھمکی دی.
بتا دیں کہ پیر کو سی ایم اکھلیش یادو کی طرف سے اعظم گڑھ کی تمام دس سیٹوں کے لئے امیدواروں کی فہرست جاری کی گئی. اکھلیش یادو نے ملائم سنگھ کے دو قریبی لوگوں مبارکپور سے رامدرشن یادو اور گوپال پور سے وزیر مملکت وسیم احمد کا ٹکٹ کاٹ دیا سی ایم نے مبارکپور سے اکھلیش یادو اور گوپال پور سے وزیر مملکت درجہ حاصل نفیس احمد کو امیدوار بنایا ہے وہیں مینہ نگر سیٹ پر بی جے پی سے آئے سابق ممبر اسمبلی كلپناتھ پاسوان کو ٹکٹ دیا گیا ہے باقی سیٹوں پر اکھلیش نے ممبران اسمبلی کو میدان میں اتارا ہے.
وسیم احمد کا ٹکٹ کٹنے کے بعد ان کے حامی مشتعل ہو اٹھے اور منگل کی صبح نفیس احمد اور سی ایم اکھلیش کے خلاف مظاہرہ شروع کر دیا. اس دوران جہاں لوگوں نے امیدوار کا پتلا پھونکا وہیں وزیر اعلی سے سوال کیا کہ جسے ممبر اسمبلی کو تین تین محکموں کا وزیر مملکت بنایا گیا اور جسے ویسٹ ممبر اسمبلی کا درجہ دیا گیا وہ اچانک کس طرح اتنا برا ہو گیا کہ اس کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا. کارکنوں نے كندھراپور میں پتلا پھونکنے کے بعد فیصلہ نہ بدلنے پر استعفی دینے کی دھمکی دی.
اس ترتیب میں سگڑی ممبر اسمبلی ابھے نارائن پٹیل کو ٹکٹ ملنے سے یہاں کے کارکن ناراض ہے. لوگوں نے چنہوا میں احتجاج کیا اور وزیر اعلی سے امیدوار تبدیل کرنے کی مانگ کی. یہ آگ دیر شام تک مبارکپور اور مینہ نگر تک پہنچنے کا امکان ہے. اگر ایسا ہوا تو ایس پی کی مصیبت بڑھنی طے ہے
وہیں ایس پی ضلع سیکرٹری ستين اس اپوزیشن جماعتوں کی سازش قرار دے رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ سماج وادی پارٹی کے تمام کارکن وزیر اعلی کے فیصلے کے ساتھ ہے. کہیں کوئی مخالفت نہیں ہے. اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی.

اعظم گڑھ میں آمنے سامنے ٹکرائے ٹرک، ایک کے ڈرائیور کی موت!


® سلمان اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
گمبھیرپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 24/جنوری 2017)  گمبھيرپور تھانہ علاقے کے اتر گاواں گرام سبھا میں واقع كونولی گاؤں کے قریب پیر کی صبح میں دو ٹرک کی آمنے سامنے ہوئی ٹکراؤ میں ایک ٹرک ڈرائیور کی موت ہو گئی حادثے کے بعد دوسرا ٹرک ڈرائیور گاڑی چھوڑ کر موقع سے فرار ہو گیا دونوں گاڑیوں کو قبضے میں لیتے ہوئے پولیس نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا ہے.
کانپور شہر سے میور برانڈ گھی لاد کر اعظم گڑھ ضلع کے لئے روانہ ہوئے دو ٹرک جمعرات کی صبح میں گمبھيرپور علاقے سے گزر رہے تھے. علاقے کے كونولی گاؤں کے قریب پیر کی صبح میں تقریبا 3 بجے آگے چل رہے پودوں لدے ٹرک کی مخالف سمت سے آ رہے ایک ٹرک سے ٹکراؤ ہو گیا اس حادثے میں دونوں گاڑیوں کو بری طرح نقصان پہنچا جبکہ پودوں لدے ٹرک کے ڈرائیور موقع پر ہی موت ہو گئی. ڈرائیور کے لائسنس کی بنیاد پر میت کی شناخت رام سنگھ (34) بیٹے جگ ناتھ رہائشی بھونتی کھیڑا کانپور شہر کے طور پر کی گئی اس معاملے میں میت ٹرک ڈرائیور کے ساتھ چل رہے دوسرے ٹرک ڈرائیور براؤن پال کی تحریر پر گمبھيرپور تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے میت ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا باپ تھا. حادثے کی معلومات میت کے اہل خانہ کو دے دی گئی ہے. پوسٹ مارٹم ہاؤس پر اہل خانہ کے آنے کا انتظار کیا جا رہا ہے.

Monday 23 January 2017

بی جے پی سے ناراض سابق رکن پارلیمنٹ اعظم گڑھ کی تین سیٹوں پر اتاریں گے آزاد امیدوار !


® وسیم شیخ
ــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز23/جنوری2017) اطلاعات کے مطابق بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ رماکانت یادو نے پارٹی سے مطلوبہ سیٹوں پر بی جے پی کا ٹکٹ نہ ملنے سے تین سیٹوں پر آزاد امیدوار اتارنے کا فیصلہ لیا ہے
اطلاع کے مطابق پھولپور پوئی سیٹ سے رماکانت یادو اپنے صاحبزادے سابق رکن اسمبلی ارن یادو، دیدارگنج سیٹ سے اپنی بہو بلاک پرمکھ ارچنا یادو و نظام آباد سے اپنی اہلیہ کا ٹکٹ پارٹی سے مانگا تھا مگر پارٹی سے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت پر مذکورہ تینوں سیٹوں پر تینوں امیدواروں کو آزاد اتاریں گے رماکانت کے اس فیصلہ سے ضلع میں بی جے پی کو زبردست جھٹکا لگ سکتا ہے کیونکہ رماکانت یادو ضلع میں بی جے پی کے لئے آکسین فراہم کرنے کا کام کرتے تھے ان کے آزاد امیدوار اتارنے سے جہاں بی جے پی کو زبردست نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو وہیں سماجوادی پارٹی کو بھی کچھ نا کچھ نقصان پہنچے گا رماکانت یادو کے اس فیصلے سے ضلع بھر میں ایک سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے خاص طور سے بی جے پی کارکنان و حامیوں میں زبردست بے چینی دکھ رہی ہے کیونکہ رماکانت یادو کے بی جے پی میں شمولیت سے پہلے ضلع میں پارٹی کی حالت کانگریس سے بھی بدتر تھی.

چھیڑخوانی اور دھمکی کے معاملے میں تین نامزد!


®سلمان اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
مہراج گنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 23/جنوری 2017) مہراج گنج تھانے کی پولیس نے چھیڑخوانی اور دھمکی دینے کے الزام میں ہفتہ کو تین لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے.
علاقے کے كڑھئی گرام رہائشی پریم چندر ساہنی کا الزام ہے کہ گزشتہ جمعرات کی شام گاؤں کے سنیل شرما بیٹے ہری سمیت تین لوگوں نے اس کی بیٹی کے ساتھ چھیڑخوانج کی مخالفت کرنے پر متاثرہ فریق کو جان سے مارنے کی دھمکی دی اس معاملے میں پولیس نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر واقعہ کی چھان بین شروع کر دی ہے.

اعظم گڑھ کے محمد پور میں راشٹریہ علماء کونسل کی پول کھول ریلی میں عوام کا امڑا سیلاب!



®ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
محمد پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 23/جنوری 2017) ترقی کا نعرہ دینے والی سماجوادی سرکار گزشتہ پانچ سالوں سے صرف بربادی کی سیاست کر رہی ہے وکاس اور کام بولتا ہے جیسے بہکانے والے نعرے سے اب ان کی حقیقت کی چھپنے والی نہیں ہے سماجوادی حکومت میں صرف غنڈوں ، زمین مافیاؤں،ٹھکیداروں اور سرکار میں موجود نیتاؤں کا فائدہ ہوا ہے 500 سے اوپر فرقہ وارانہ فساد، ہزاروں عصمت دری ،سینکڑوں قتل اور انگنت دیگر جرائم سے صرف عوام اور صوبے کی بربادی ہوئی ہے ان خیالات کا اظہار راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی نے راشٹریہ علماء کونسل اعظم گڑھ یونٹ کی جانب سے منعقدہ ’پول کھول ریلی ‘ سے خطاب کے دوران کیا مولانا آج ایک عظیم الشان ریلی کو خطا ب کر رہے تھے مولانا عامررشادی نے مزید کہا کہ اگر سماجوادی پارٹی نے صوبے میں ترقیاتی کام کرواتی تو آج اسے ’فیملی ڈرامے ‘ کی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہی اسے کانگریس کی بیساکھی کی ضرورت پیش آتی.
سماجوادی پارٹی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اپنے انتخابی منشورمیں مسلمانوں سے 16وعدے کئے تھے ۔جن میں اٹھارہ فیصد ریزرویشن، بے گناہوں کی رہائی جیسے وعدے سر فہرست تھے  مولانا عامر رشادی مدنی نے سماجوادی پارٹی پر الزام لگاتے ہوئے کہاریزرویشن کے نام پر سپا سرکار نے نہ صرف صوبے کے مسلمانوں کوبیوقوف بنایا ہے ،بلکہ سپا نے صوبے کے ہندؤں کو بھی ریزرویشن کے نام پر بیوقوف بنایا ہے ۔17پچھڑی برادریوں کوشیڈول کاسٹ میں شامل کرنے کی بات(پرستاؤ) ان برادریوں کو صرف بیوقوف بنانے کیلئے ایک شوشہ ہے اس پرستاؤ کی کوئی قانونی حیثیت ہے ہی نہیں، کیونکہ یہ پرستاؤ غیر قانونی ہے بڑے افسوس کی بات تو یہ ہیکہ ان 17پچھڑی برادریوں میں سپا سرکار سے ایک بھی مسلم پچھڑی برادری کا نام نہیں جوڑا جاسکا۔سپا سرکار کے اس عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہیکہ سماجوادی پارٹی کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی وقعت نہیں ہے مولانا عامر رشادی نے جوش سے لبریز پارٹی کارکنان سے خطاب میں مزید کہا کہ سپا سربراہ کے گڑھ میں بھاجپا کے اتر پردیش صدر کیشو پرساد موریہ کہتے ہیں کہ اعظم گڑھ آتنک واد کا مرکز ہے بھاجپا لیڈرنے اعظم گڑھ کو آتنک کا گڑھ کہہ کر پورے اعظم گڑھ کے باشندوں کو دہشت گرد بتا دیا لیکن افسوس سماجوادی پارٹی کا کیشو پرساد موریہ کے خلاف نہ تو کوئی بیان آتا ہے اور نہ ہی ان کیخلاف کوئی کاروائی کرتی ہے، جبکہ علماء کونسل کیشو پرساد موریہ کے خلاف شدیدردعمل پیش کرتی ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرواتی ہے علماء کونسل کے قومی صدر نے سماجوای پارٹی کے علاوہ بی ایس پی ، بے جے پی اور کانگریس پر جم کر حملہ بولا انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے نوٹ بندی کر کے غریب اور عام عوام کی کے پیٹ پر لات ماری ہے وہیں بسپا کو نشانہ بناتے ہوئے عامر رشادی نے کہا کہ بسپا صوبے میں اپوزیشن میں ہے لیکن اس نے عوام کے حق کیلئے ایک بار بھی آواز بلند نہیں کی ۔جبکہ کانگریس ابھی تک متبادل کی تلاش میں بھٹک رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس ہوکرصوبے کے عوام راشٹریہ علماء کونسل کی جانب ایک امید بھری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔انہوں نے خطاب کے دروان یوپی الیکشن میں یکساں نظریات والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی جانب بھی اشارہ کیا عظیم الشان ’پول کھول ریلی ‘ سے را شٹریہ علماء کونسل جنرل سیکرٹری مولانا طاہر مدنی ، پردیش صدر ٹھاکر انل سنگھ ،مولانا شہاب اختر، شکیل احمد، نورالھدیٰ، طلحہ رشادی، ظفر عالم نے بھی ریلی سے خطاب کیا اس موقع پر سیکڑوں لوگوں نے دوسری پارٹیوں کو چھوڑ کر راشٹریہ علماء کونسل کی رکنیت حاصل کی ۔جن میں لئیق احمد ،محمد شاہ عالم ،مرز ا مسعود بیگ،شاہ زماں خان(نیر) کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

Sunday 22 January 2017

گینگ ریپ کے خلاف کیا احتجاج، ہزاروں لوگ آئے سڑک پر!


® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 22/جنوری 2017) شہر کے سدھاری تھانہ علاقے میں بدھ کی رات ہوئی گینگ ریپ کے واقعہ کے خلاف عام لوگوں کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے لوگوں میں اس واقعہ کے تئیں ابال ہے ملزمان کی گرفتاری کو لے کر ہفتہ کو بھی لوگ سڑک پر اترے. واقعہ کی مخالفت کر رہے ایڈوکیٹ اور طلباء و طالبات کے ساتھ تمام تنظیمیں بھی سامنے آنے لگے ہیں ضلع کو شرمسار کرنے والی اس واقعہ کی مخالفت کے لئے لوگ ہفتہ کو انچارج پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملے اور ملزمان کے گرفتاری کا مطالبہ کیا ہفتہ کو دن میں شبلی و ڈی اے وی کالج کے طلبہ و طالبات جلوس کی شکل میں شہر کی سڑکوں پر اترے اور واقعہ کی پرزور مخالفت کی. مشتعل نوجوان ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر کا بھی گھیراؤ کیا اور انچارج پولیس سپرنٹنڈنٹ شکیل احمد سے مذاکرات کی ایس پی نے نوجوانوں کی بات سنتے ہوئے واقعہ میں شریک ملزمان کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی طالبات نے اس سلسلے میں چار نکاتی مطالبات کی یادداشت بھی ایس پی کو سونپا ان مطالبات میں ملزمان کی جلد گرفتاری اور چھ ماہ کے اندر اندر عدالتی عمل مکمل کرنے کے ساتھ ہی ضلع میں سواری ڈھونے والے گاڑی ڈرائیوروں کے سلسلے میں مکمل معلومات متعلقہ تھانوں میں درج کئے جانے جیسی مطالبات شامل رہے.
وہیں گینگ ریپ کے واقعہ کے خلاف وکالت کا وفد ہفتہ کو انچارج ایس پی سے ملا اور واقعہ کے فوری پردہ فاش کر ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا. ایڈوکیٹ وفد میں نوينچندر استھانہ، منوج کمار سنگھ، شردچندر تیواری، نیرج، شواشری رائے، مہندر یادو، عمر جاوید خان، سبھاش چندر یادو، كرشنا كانت بھاسکر، پون اپادھیائے وغیرہ شامل رہے.

Friday 20 January 2017

ہماری شان ...



ازقلم: آصف امام بھوارہ مدہوبنی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہم انسان کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا اور ہمیں ارضی بادشاہ بنایا اور اپنی نیابت عطاء کی اور ہم انسان کو زمین کاخلیفہ بنایا اورحکم دیا اے بنی آدم ہم نے انسان اور جنّات کو محض اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا.
اور ہم نے تمہیں ارضی خلافت سےسرفراز کیا تاکہ تمہارا آپس کاجینا آسانی کے ساتھ ہو ایک نظام کےساتھ ہو ایک قاعدہ کےتحت ہو تہمارے پیدا کرنے کا مقصد فوت نہ ہوجائے تمہارے پیدا کرنے کا مقصد صرف دنیا میں زندگی گزارنا نہیں ہے بلکہ عبادت مقصود ہے، لیکن ہم انسان دنیامیں  آکر صرف اور صرف بادشاہت اور حکومت میں لگے ہیں حالاںکہ ارضی بادشاہت اور خلافت تواسلئے دی گئی تھی کی ہمارادنیاوی زندگی ایک نظام اور ایک دستور کے مطابق چلے دنیا میں  راہنماہ ہماری ہر وقت اور ہر لمحہ اور ہر معاملہ میں وہ ہماری راہنمائی کرے ،ایک ہےآڈیل جس کے  طوروطریقہ کو اپنانا اور اپنی  زندگی میں اسےلانا اور اس پرعمل پیرا ہونا وہ ہیں انبیاء کرام علیہ السلام، انبیاءکرام کے خلافت کے بعد عام انسانوں کے خلافت کا دور آیا انبیاء کرام علیہم السلام اور بعض عام انسانوں نے جنہیں ارضی خلافت سے سرفراز کیا انہوں نے کماحقہ اس کاحق اداکیا، لیکن بہت سےظالم وجابر انسان ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں خالق کائنات نے ارضی بادشاہت عطاء کی لیکن اس ظالم نے اس دیناءفانی کوہی دنیاءجاودانی سمجھ کراپنےکوآقااورعام انسان کوغلام جان کراس پرغلامی کی زنجیریں کستارہااور عام انسان کوراحت رسانی کے بجائے زحمت رسانی کا کام کرنے لگا ایک دن ایسابھی آیا کے وہ بھی خاک میں مل کررہ گیا ان ظالم و جابر بادشاہ وخلیفہ میں سے دو تین کا نام درج کررہاہوں ،نمرود ،فرعون، حجاج ابن یوسف، ہامان ،قارون انکے واقعات آپ تاریخ  کی کتابوں میں پڑھے ہوں گے ان میں سے صرف ایک کی ظالمیت کا مختصر ذکر کر رہا ہوں حجاج ابن یوسف یہ بھی اپنے وقت کا بادشاہ گزرے ہیں جہاں انکی ظالمیت کا ذکر ہوتا ہے وہیں انکی اچھائیاں بھی شمار کی جاتی مجھے صرف  ظالمیت کے متعلق بتانا ہے انکے بارے کہاجاتا ہے کہ انہوں نے بے شمار صحابہ کرام اور تابعی کاقتل کیاہےجس شام کسی صحابی یاکسی تابعی کاقتل نہ کرتے اس شام اسے نیند نہیں آتی...بعینہ یہی حال آج ہمارے ملک ہندوستان کاہے اورجوآج ہماراحاکم ہے کچھ اسی طرح کی ہمہ وقت سوچتا رہتا ہے اور گاہے بہ گاہے انجام بھی دیتا رہتا ہے کبھی گجرات کی شکل میں تو کبھی آسام کی شکل میں تو کبھی  بابری مسجد کو مسمار کر کے کبھی مظفرنگر میں فساد کرا کے تو کبھی اخلاق کاخون بہا کے کبھی نجیب کو اغواء کرا کے تو کبھی اسلامی شعار پر روک لگا کر تو کبھی نوٹ پر پابندی لگا کر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن ظالم وجابر بادشاہ اور اِنمیں کوئی فرق نہیں ہے دونوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے،،آخراسکا سبب کیا ہے تواس کا سبب اے بنی آدم ہم خود ہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے انسانوں نے آپ کی باتوں کو مانااور آپ کو آڈیل اور راہنما مانا اور اللہ رب العزت کے حکموں کو بجا لایا تو خالق کائنات نے دنیاہی میں کہدیا میں ان سے راضی اور وہ مجھ سے راضی، آج ہم انسان جو اپنے آڈیل حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کےطوروطریقہ اور خالق حقیقی کے احکام کو بھلابیٹھے تو ہماری حالت ایسی ہی ہوگئی جیساکہ آقاءنامدار حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے حدیث وقدسی ہے جب انسان اپنے خالق کے احکام کو بھلاکر ناشکری اورظلمت و گمراہی کی حدپارکرجاتےہیں تو اللہ پاک اس پر مسلط کئےگئےبادشاہ کے دلوں کوبدل دیتے ہیں اور اسکےدلوں میں نفرت وعداوت بھر دیتے ہیں اور وہ حاکم اوربادشاہ اس پرطرح طرح کے مظالم ڈھاہتے ہیں تو ہم انسان کہتے ہیں یہ آج ہم پر ظلم کررہاہےیہ کیساحاکم ہے لیکن ہم انسانوں نے  کبھی اس پر تفکربھری نظروں سے نہیں دیکھا کہ یہ تو ہمارے کرتوتوں کاپھل ہے اےانسان ہم نے اپنی شان اپنےہی ہاتھوں کھو دیا اللہ پاک نےہمیں کس شان کے ساتھ پیداکیا اور ہم کس شان کے ہوگئے
اللہ پاک ہیمں صحیح سمجھ بوجھ عطاءکرے اور صراط مستقیم پرچلنےکی توفیق مرحمت فرمائے.   آمین یارب العالمین

Thursday 19 January 2017

جنگ آزادی اور مسلمانوں کی قربانیاں !


تحریر: عبداللہ اعظمی بمہوری
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا
 ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی ایک عظیم الشان نعمت حاصل ہوئی جس کے لئے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جان ومال کی قربانیاں دیں پھانسی کے پھندے کو بخوشی قبول کئے اور حصول آزادی کی خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے.
                        شعر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی  داستانوں میں
انگریزوں نے اپنے اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں اختیار کیں فرقہ وارانہ اختلافات پیدا کئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا آپس میں غلط فہمیاں پھیلائیں تاریخ کو منسوخ کیا رشوتیں دیں مگر ان کے ظلم و ستم کو روکنے کیلئے بہادر مجاہدین آزادی نے ان کا مقابلہ کیا اور ملک کو آزاد کرکے ہی اطمینان کی سانس لی ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کا حصہ قدرتی طور پر بہت ہی ممتاز اور نمایاں رہا ہے.
جنگ آزادی میں حیدرعلی (م 1782ء)اور ان کے صاحبزادے ٹیپو سلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہو گی جو مستقبل انگریزوں کے لئے چیلنج بنے رہے حیدرعلی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار 4 جنگیں کیں ٹیپو سلطان (1782ء) میں حکمراں ہوئے اور (1783ء) میں انگریزوں سے ٹیپو سلطان کی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کو شکست ہوئی یہ جنگ (1784ء)میں ختم ہوئی اور یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے انگریز اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے بے چین تھے چنانچہ (1792ء) میں انگریزوں اپنی شکست کا انتقام لیتے ہوئے حملہ کیا مگر اپنے بعض وزراء اور افسران کے بیوفائی اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے ٹیپو سلطان کو بطور تاوان تین کروڑ روپے اور نصف علاقہ اور دو شہزادوں کو بطور یرغمال انگریزوں کو دینا پڑا.
ٹیپو سلطان کی شہادت نیز ہزاروں افراد کے قتل کے بعد ملک میں برطانوی اثرات بڑھتے چلے گئے اس زمانے میں دینی مدارس بڑی تعداد میں تباہ کئے گئے ان کوششوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی جن کے بانی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ (م1762ء)تھے ان کی وفات کے بعد ان صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ (م1824ء) نے اپنے والد کی تحریک کو بڑھایا وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے انہوں نے (1803ء) میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا جس میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا گیا.
( 1857 ء)میں شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ اسحاق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شاگردوں کی محنت رنگ لائی اور (1857ء) میں علماء کرام کی ایک جماعت تیار ہوئی ان میں احمداللہ شاہ مدراسی رحمت اللہ علیہ اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی مولانا فضل حق خیر آبادی مولانا سرفراز حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مولانا رشید احمد گنگوہی مولانا قاسم نانوتوی حافظ ضامن شہید مولانا منیر نانوتوی رحمهم الله خاص طور پر قابل زکر ہیں.
( 1857ء )میں شاملی ضلع مظفر نگر کے میدان میں علماء دیوبند نے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی جس کے امیر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمت اللہ علیہ مقرر ہوئے اور اس کی قیادت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمت اللہ علیہ اور مولانا قاسم نانوتوی اور منیر نانوتوی رحمهم الله کررہے تھے اس جنگ میں حافظ ضامن شہید ہوئے اور مولانا قاسم نانوتوی انگریزوں کی گولی سے زخمی ہوئے انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا لیکن گرفتار نہ ہوسکے (1880ء) وفات پائی دیوبند کے قاسمی قبرستان میں آسودہ خواب ہیں.
یہاں آج جو بھی رہتا ہے وہ برابر کا حصہ دار ہے ہر فرقہ نے آزادی کی لڑائی لڑی ہے اور ملک کو آزاد کرایا ہے اور خصوصاً مسلمانوں نے انگریزی سامراج کے خلاف جو جنگ لڑی وہ ایک پیش رو کی حیثیت رکھتی ہے مسلمانوں نے ہی جنگ آزادی کا بگل بجایا اور آخر تک ہمت کے ساتھ لڑتے رہے یہاں تک کہ ملک آزاد ہوگیا تاریخ کے اوراق کو حرکت دینے سے ہمیں علم ہوگا کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں نے کس قدر قربانیاں دیں.
 ایک پیغام!
آئیے ہم عہد کریں کہ دوسرا یوم جمہوریہ اس حال میں آئے کہ ہم پوری طرح سے آزاد ہوں اور ہمارا ملک لمحہ بلمحہ ترقی کررہا ہو ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا لحاظ کرکے اپنے ملک کی روایات واقدار کو برقرار رکھ کر فخر کے ساتھ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں.

شاداب صدیقی کی شارٹ فلم (Where is Najeeb)ـ 26جنوری کو ہوگی ریلیز!


®وسیم شیخ
ــــــــــــــــــــــــ
دہلی(آئی این اے نیوز 19/جنوری 2017) تین ماہ سے لاپتہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم نجیب احمد کو لے کر ایک شارٹ فلم 26 جنوری کو ریلیز ہوگی اس فلم ڈائرکٹر شاداب صدیقی ہیں.
شاداب صدیقی اس سے پہلے بھی ایک شارٹ فلم "فكر سے کہو ہم مسلمان ہیں" بنا چکے ہیں اب نجیب احمد کو لے کر "Where is najeeb" لے کر آرہے ہیں. اس کی ریلیز ہونے کی تاریخ 26 جنوری رکھی گئی ہے.
اس فلم کے بارے میں ڈائریکٹر شاداب صدیقی نے بتایا کہ ایک طالب علم جو گزشتہ تین ماہ سے لاپتہ ہے. نہ پولیس اسے تلاش کر رہی ہے. نہ حکومت اس کو تلاش کرنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھا رہی ہے.
دہلی پولیس نے تو تمام آوازوں کو ان سنا کرکے اس کے ساتھ مارپیٹ کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی سخت كاروائی نہیں کی ہے.
جب سے نجیب لاپتہ ہوا ہے. اس کی ماں کا رو رو کر برا حال ہے. اسی ماں کی آواز بلند کرنے کے مقصد سے نجیب پر فلم بنانے کا پلان بنایا ہے. جو جلد ہی لوگوں کے سامنے ہوگی.
آپ کو بتا دیں کہ، 15 اکتوبر 2016 سے جے این یو طالب علم نجیب احمد لاپتہ ہے. اس کے لئے پورے ہندوستان میں جگہ جگہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں.

ملائم سنگھ کے گڑھ اعظم گڑھ میں انعامی بدمعاش گرفتار!


® سلمان اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 19/جنوری 2017) ضلع کی کرائم برانچ اور سرائے مير تھانے کی پولیس کی مشترکہ کوشش سے بدھ کی دوپہر علاقے کے شاہ پور موڑ کے پاس پولیس نے تصادم کے دوران 12 ہزار کے انعامی بدمعاش لٹیرے کو دھر دبوچا اس کے پاس سے نائن ایم ایم پستول، 2000 روپئے اور موٹر سائیکل برآمد کی گئی ہے.
ضلع کے کرائم برانچ کے ٹیم انچارج اروند سونکر اور مقامی تھانہ انچارج گنیشور مشرا بدھ کی دوپہر قریب 2:30 بجے علاقے کے شاہ پور موڑ کے پاس گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے تھے. اسی دوران ٹیم نے سرائے مير کی طرف سے آ رہے موٹر سائیکل سوار نوجوان کو روکا. پولیس تلاش کر دیکھ اس نے موٹر سائیکل موڑ کر بھاگنے کی کوشش کی. پولیس جب اسے پکڑنے کے لئے لپکی تو اس نے پستول سے پولیس پر فائر کرنا شروع کر دیا. گھیرا بندی کر پولیس نے اسے دبوچ لیا.
تلاشی کے دوران اس کے قبضے سے پستول اور دو ہزار نقد و موٹر سائیکل برآمد کی گئی. گرفتار مجرم دھرمیندر پاسی بیٹے پرمہس پاسی روناپار تھانہ علاقے کے اراجی دیوارا نےنينی جور كولوا گاؤں کا رہائشی بتایا گیا ہے. پولیس کے مطابق گرفتار مجرم دھرمیندر پاسی کے اوپر 12000 کا انعام کا اعلان ہے. ضلع کے مختلف تھانوں میں اس کے اوپر درجن بھر لوٹ کے جرم رجسٹرڈ ہیں. اس سلسلے میں سرائے مير ایس او گنیشور مشرا نے بتایا کہ پکڑے گئے بدمعاش لٹیرے نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزشتہ 1 دسمبر کو گنبھيرپور علاقے کے اناؤبھار واقع پٹرول پمپ اہلکار کو اسلحے کے زور پر لوٹ لیا تھا. اس کامیابی پر پولیس سپرنٹنڈنٹ نے مبارکبادی پیش کی.

Wednesday 18 January 2017

نم آنکھوں کے ساتھ مولانا عبدالمجید اصلاحی جیراجپور سپرد خاک!


® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 18/جنوری 2017) بلریاگنج علاقہ کے جیراجپور گاؤں کے مشہور عالم دین مولانا عبد المجید اصلاحی کا انتقال ہو گیا "انا للہ وانا الیہ راجعون" وفات کی خبر سنتے ہی علاقہ کے اہل علم میں غم کا ماحول ہوگیا.
مولانا عبد المجید نے مدرسۃ الاصلاح سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کی تھی، اس کے بعد تکمیل الطب کالج لکھنؤ سے طب کی تعلیم پائی تھی اس طرح وہ عربی زبان میں بھی مہارت رکھتے تھے اور طب میں بھی یہ ان کی ایسی خوبی تھی جو انھیں بہت سے لوگوں میں ممتاز کرتی تھی وہ اپنی دینی و علمی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے.
موجود دور میں بہت سے اطبا ہیں جو اپنے فن میں ماہر ہیں، لیکن عربی زبان سے نابلد ہیں اسی طرح بہت سے لوگ ہیں جو عربی زبان میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں لیکن طب ان کا میدان نہیں ایسے لوگ خال خال ہیں جو دونوں میدانوں میں مہارت رکھتے ہوں حکیم عبد المجيد اصلاحی ان میں سے ایک تھے.
مرکزی کونسل برائے تحقیقات طب یونانی (CCRUM) نئی دہلی، وزارت صحت و خاندانی بہبود، حکومت ہند کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے  اس کے شعبہ 'لٹریری ریسرچ یونٹ' کے تحت طب کے عربی مصادر کے ترجمے کا منصوبہ بنایا گیا تو ذمے داروں کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی چنانچہ انھوں نے کونسل کی متعدد کتابوں کا ترجمہ کیا  ان میں مورخ طب ابن ابی اصیبعہ کی کتاب 'عیون الأنباء فی طبقات الأطباء' (2جلدیں) اور مشہور طبیب ابو بکر محمد بن زکریا رازی کی شہرہ آفاق تصنیف 'الحاوی الکبیر فی الطب' (23جلدیں) کی ابتدائی 7 جلدوں کا ترجمہ خصوصیت سے قابل ذکر ہے  ممکن ہے اور بھی طبی کتابوں کا ترجمہ کیا ہو، لیکن CCRUM کی کتابوں میں مترجم کا نام شائع نہ ہونے کی وجہ سے اس کا سراغ نہ لگ سکا اس کے علاوہ انھوں نے علامہ ابن قیم کی کتاب 'زاد المعاد' (5جلدیں)کا بھی ترجمہ کیا تھا، جس کی چوتھی جلد 'طب نبوی' پر ہے.
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، انھیں اجر سے نوازے، انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمیـــــن

تحفظِِ تبلیغ کیلئے ہوش مندی ناگزیر!


ازقلم: عبدالرّحمٰن الخبیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مولانا سعد بنگلہ دیش کیسے گئے یہ اصل بحث کی بات نہیں ہے ، بلکہ بنیادی سوال ہے کہ آخر حکومت بنگلہ دیش نے کس بنیاد پر مولانا سعد کو روکا اور اس کے پیچھے اسباب کیا کارفرما تھے ۔یہ بات تو پہلے ذہن سے نکال دیجئے کہ دین بیزار بنگلہ دیش کی حکومت نے دیوبند کے فتوے کی وجہ سے ان کو روکا ، کیوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کو روکا کیوں گیا ؟اگر تھوڑا دور جائیں اور بات کو وسیع تناظر میں دیکھیں اور پرکھیں تو بنگلہ دیش میں اسلام پسند جماعتوں پر پابندی ، مشہور مبلغ ذاکر نائیک کے سلسلے میں بنگلہ دیش کی ہی ایجنسی کے ذریعہ ایک غیر ثابت شدہ بات کو پھیلا کر ان کے لیے دائر ہ تنگ کرنے وغیرہ وغیرہ کے پس منظر میں اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔اگر بنگلہ دیش جانے سے مولانا سعد کو روکنے میں کامیابی مل جاتی تو عالمی میڈیا خاص طور سے ہندستان کی میڈیا مولانا سعد کو دہشت گردوں کا سرپرست اور نہ جانے تبلیغی جماعت کے مرکز کو کیا کیا کہتا ۔یہ سب محض اندیشے کی بات نہیں ہے، بلکہ اس کے کئی وجوہات ہیں، اگر شعوروفہم ساتھ ہو تو ہر کوئی تنہائی میں اس خطرے کا اندازہ کرسکتا ہے ۔
اس میں کسی کو شبہ نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ کے لیے جماعت تبلیغ کانظام ایک بہت بڑا اثاثہ ہے ، جس نے ایک صدی سے دین حق کی خدمت کا ایک بڑا اور کامیاب نظام سے دنیا کو روشنا س کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکابرعلماء دیوبنداور جمعیت علماء ہند نے ہمیشہ اور ہر موڑ پر تبلیغی جماعت کے نظام اور اس سے جڑے لوگوں کی ہر طرح سے حمایت کی ہے ۔آج سے چار سال قبل میوات میں جب سری لنکا کی جماعت کو قید کرلیا گیا تھا تو جیسے ہی مولانا سید محمو مدنی صاحب دامت برکاتہم کو اطلاع ملی تو فوری طور سے اس وقت کے وزیر داخلہ پی حدمبرم کو خط لکھا اور وہ خط ا سی وقت رات گیارہ بجے وزیر داخلہ کو دیا گیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو فوری سے رہائی ملی ۔
درحقیقت میوات میں تبلیغی جماعت کو قید کرنا ایک کانٹا چبھنے کی طرح تھا ، لیکن اس رات مولانا سعد پر روک لگانا تبلیغی جماعت پر تلوار چلانے کی طرح تھا۔ نہ یہ بات ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کہ اس تلوار سے کئے گئے وار کو کس نے بچایا، مگر جو لوگ سچائی سے منہ موڑ رہے ہیں اور جو اس آنے والے خطرات کو سمجھ نہیں پارہے ہیں، اگر وہ سمجھ جاتے تو تمنا کرتے کہ کاش اس عظیم کام کوانجام دینے میں ان کا بھی کردار ہو تا۔ سوئی چبھونے کا بھی کا م کرتی ہے اور سوئی شگاف پڑی ہوئی چیزو ں کو جوڑنے کا کا بھی کام کرتی ہے ۔ اب ان لوگوں کو سامنے رکھئے جنھوں نے مولانا سعد کو روکوایا اور اس کو جس نے اپنی کوشش کرکے ان کی مدد کی ۔اس نے درحقیقت ملت اسلامیہ کی مدد کی، اس اثاثے کی مدد کی جو  جس کے بکھرنے کا سخت اندیشہ تھا ۔اس نے اسے بچالیا ، ہمیں بنگلہ دیش کی اعلی قیادت کا بھی شکر گزار ہو ناچاہیے کہ اس نے ہوش کے ناخن لیا ، کاش ہم بھی ہوش کے ناخن لیں ۔
ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ ذاکر نائیک کے مرکز دعوت و تبلیغ پر کیسے پابندی لگی ، اور اگر یہی حال رہا تو تبلیغی جماعت کے ساتھ کیا ہو گا ۔مولانا سعد جب تک مرکزمیں ہیں اور اس کے ذمہ دار ہیں، آپ ان کو اور مرکز کو الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ، اگر وہ مجرم ہوتے ہیں تو مرکز کا نظا م بچ جائے نہ ایسا ہوتا ہے اور نہ ہی ایسا ہمارے دشمنوں کے نزدیک معقول ہے ۔
دیوبند کا فتوی ایک تنبیہ ہے ، ایک ہدایت ہے ، اخراج نہیں ہے ، یہ بات وہ لوگ بخوبی سجھ پائیں گے جنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں کبھی تعلیم حاصل کی ہے ،ہمیں اس تنبیہ اور ہدایت سے انکار نہیں ہے ۔مگر تنبیہ کے دا من کو پھیلا کر اس کے سایے میں اپنے دشمنو ں کو جگہ دینے کی غلطی سے ہمیں باز آنا ہو گا، بنگلہ دیش کی ایجنسی کی جانب سے پابندی پر ہماری خوشی ایسی ہی غلطی ہے۔مختلف ذرائع ابلاغ سے ہم اپنی مبالغہ آرائی کے ذریعے ہم اپنے دشمنوں کو نہ صرف چارہ فراہم کررہے ہیں بلکہ دینی اداروں ، جماعتوں اور جمعتیوں کے خلاف عالمی سازش کا حصہ بن رہے ہیں ۔ہمیں اس نادانی سے خود کو واپس آنا ہو گااور یہ واپسی اختلاف میں اعتدال کی زمین پر اتر ے بغیر ممکن نہیں ہے، رہ گئی بات عالمی شوری نظام کا تو یہ مرکز کا داخلی معاملہ ہے ، یہ سوال وہی کرسکتے ہیں جو مرکز کی شوری یا اس کے نظام کا بنیادی حصہ ہیں، ہم تو بنیا د بچانے کی بات کررہے ہیں،دن کے اجالے سے زیادہ اہم سورج کے بقاء کا مسئلہ ہے ۔

مسلم رائے دہندگان اپنا ووٹ ضائع نا کریں!


تحریر: سلمان کبیر نگری
ایڈیٹر نئی روشنی برینیاں سنت کبیر نگر یوپی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مکرمی!
 یوپی اسمبلی الیکشن قریب آچکاہے تمام سیاسی پارٹیوں کی نظریں مسلم ووٹوں پر ٹکی ہوئی ہیں. میراتعلق اتر پردیش سے ہے اس لئے میں اترپردیش کی گرماتی وچیچہاتی سیاست کی بات کررہا ہوں. جب سیاسی پارٹیوں کامقصد پورا ہوجاتا ہے تو وہ لوگ مسلمانوں کو فراموش کردیتے ہیں وہ مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر سمجھتے ہیں اور اس سے آگے ان کوکچھ نہیں سمجھتے ہیں. اگر بہار کی طرح اتر پردیش میں کانگریس. سماج وادی پارٹی. بہوجن سماج پارٹی. پیس پارٹی. مجلس اتحاد المسلمین پارٹی متحد ہو کر ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے میدان میں آتی ہیں تو یہ ایک اچھی بات ہوگی. فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوں گے اور ریاست میں بھائی چارگی کاماحول قائم ہوگا اگر سبھی چھوٹی بڑی پارٹیاں الگ الگ میدان میں اتریں گی تو سبھی پارٹیوں کا نقصان ہوگا. اب مسلم رائے دہندگان کو چاہیے کہ اپناقیمتی ووٹ ضائع ہونے سے بچائیں.

آزادئ ہند میں علماء کرام کے کردار اور مسلمانوں کے موجودہ حالات!


تحریر: عزیزالرحمن حنفی امبیڈکرنگر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ایک وقت تھا کہ ہندوستان کو لوگ سونے کی چڑیا کے نام سے جانتے تھے یہ ملک ایک الگ ہی شان رکھتا تھا ایک امتیازی شکل میں پوری دنیا میں رونما تھا ہر ملک والوں کی نظر ہندوستان پر آکر ٹک جاتی تھی ہر ملک اس پر اپنا سامراج کھڑا کرنا چاہتا تھا ہر کوئ  اس ملک کا طلبگار تھا.
انگریزوں کی ناپاک سازش  اور  غداری دھوکہ دھڑی کی وجہ سے   یہ ملک انگریزوں کی ہوس کا شکار ہو گیا  انگریز اس ملک پر اپنا سامراج کھڑا کرنے میں حد درجہ کامیاب رہے تاریخ کی گہرائ میں نہ جا کر اصل بات سے روشناس کراتا ہوں جب یہ ملک مسلمانوں کے اقتدار سے نکل گیا مسلمان حاکمیت کے بجائے محکومیت کی زندگی گزارنےلگے جہاں مسلمانوں نے سالہا سال حکومت کی اسی ملک پر ناپاک انگریز کا قبضہ، اس بات نے مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑا اور انگریز سے جنگ کرنے  پر آمادہ کر دیا.

جب ٹوٹنے لگے حوصلے تو بس یہ یاد رکھنا
بنا محنت کے حاصل تخت وتاج نہیں ہوتا

 بالآخر پہلی جنگ انگریزوں سے باقاعدہ منظم طور سے نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان نے 1754ء میں لڑی اور انگریزوں کو اس جنگ میں زبردست شکست ہوئ .
پھر جب سراج الدولہ حاکم وقت ہوئے تو انہیں انگریزوں کے ملک پر حاوی ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو انگریزوں کے نکالنے پر انکے حوصلے اور ہمت نے انکا بھر پور ساتھ دیا.
لیکن کہتے ہیں نہ کہ بادشاہ کی زندگی سے بہتر ایک غریب کی زندگی  ہوتی ہے بادشاہ کے ارد گرد ہمیشہ سازشیں گھومتی رہتی ہیں سراج الدولہ کا دیوان سازشوں کا اڈہ بن گیا انہیں سازشوں کی وجہ سے اسے شکست سے دو چار ہونا پڑا 1757ء میں انکے دارالسلطنت مرشدآباد میں انہیں شہید کر دیا گیا.
تاریخ کے اوراق میں 1757ء اور 1764ء کی جنگ بھی موجود ہے اور یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پر ختم ہوئ  اس کے بعد انگریز ہندوستان کے مشرقی شہر پر قابض ہونے میں کامیاب رہے.
ٹیپو سلطان کے ذکر کے بغیر آزادئ ہند کی تاریخ ادھوری رہے گی تاریخ کے اوراق کے صفحات مکمل نہیں ہونگے  جو ہمیشہ انگریزوں کے لئے چیلینج بنے رہے.
سلطان 1782ء میں میسور کے حاکم مقرر کئے گئے  1783ء میں انکی انگریزوں سے پہلی جنگ ہوئ اور انگریزوں کو شکست ہوئ یہ جنگ 1784 ء تک چلی  انگریز شکست کھانے کے بعد انتقام لینے کے لئے بے چین ہوگئے  چنانچہ انگریز انتقام لینے کے لئے 1792ء میں حملہ کیا لیکن اپنے ہی امراء وزراء کے بے وفائ اور غداری سے سلطان انگریزوں سے معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے اور معاہدہ کر بیٹھے .
لیکن ٹیپو سلطان کہاں خاموش بیٹھنے والے.
ایک بار پھر ٹیپو نے جنگ کی ٹھان لی اور ہندوستان کے راجا مہاراجہ نوابوں کو اکٹھا کیا اور جنگ کے لئے تیار ہوئے اور گھمسان جنگ ہوئ  قریب تھا کہ یہ جنگ سلطان کے قدموں میں جھکتی  لیکن انگریزوں نے جنوبی ہند کے امراء سے معاہدہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا اب انگریزوں کی طاقت میں اضافہ ہوا    آخر کار اس مجاہد نے 4 مئی 1799ء کو سرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہید ہوکر سرخروئ حاصل کی.
سلطان نے انگریزوں کی غلامی اور اسیری رحم وکرم پر زندہ رہنے پر موت کو تر جیح دی.
انہیں کا مشہور تاریخی مقولہ ہے "گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی زیادہ بہتر ہے" اس کے بعد بھی بہت جنگیں مسلمانوں اور انگریزوں کے بیچ ہوئ لیکن نتیجہ کوئ بھی ظاہر نہیں ہوا.
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی انگریز کے سخت مخالف تھے  اور انکے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز  نے تو انگریزوں کے خلاف 1803ء کو جہاد کا فتوی دیا جس میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دے دیا.
اس جنگ آزادی میں علماء کا بہت بڑا کردار رہا ہے  بالخصوص علماء دیوبند کا کردار شاملی کے میدان میں علماء دیوبند نے انگریزوں سے جنگ لڑی جس کے قائد امداداللہ مہاجر مکی تھے اس جنگ میں شہید ہونے والے علماء کی تعداد بے شمار تھی شاملی کا پورا میدان علماء کے خون سے لبریز تھا ہر درخت پر علماء کی گردنیں لٹکی ہوئ تھیں  انگریزوں نے علماء کے خلاف وارنٹ بھی جاری کر دیا بہت سارے علماء کو کالا پانی بھیج دیا گیا جس میں شیخ الہند ایک نمایاں شخصیت تھی.
شیخ الہند نے بھی انگریزوں کے خلاف فتویٰ دے دیا انگریزوں نے بہت مجبور کیا آپ فتوی واپس لے لیں لیکن؛ نہیں؛ حضرت نے مرنا پسند کیا لیکن فتویٰ واپس نہیں لیا.
بات کو سمیٹتے ہوئے آخرکار ہندوستان 1947ء کو آزاد ہوا
تاریخ تو ہمیں بہت کچھ بتاتی ہیکہ آزادئ ہند میں مسلمانوں کا کتنا خون بہا دہلی سے شاملی مظفر نگر ہر جگہ علماء کی لاشیں بچھی ہوئیں تھیں ہندوستان کو مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا.
لیکن آج کی حکومت اور جمہوریت ہمیں کیا حقوق دیتی ہے ہم تو پورے طور پر اپنے مذہب پر عمل نہیں کر سکتے یہ کون سی جمہوریت ہے آزادئ ہند کے وقت کیا ہم سے یہی وعدہ کیا گیا تھا نہیں بالکل نہیں.

پانچ دن کی حکومت پر اتنا نشہ
تھا حکوت کا  فرعون کو بھی نشہ
ظلم پہ ظلم وہ خلقت پہ کرتا رہا
جب سمندر میں ڈوبا تو کہنے لگا
اس حکومت کے حاصل سے کیا فائدہ
شعر
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے گردن ہماری کٹی
اب تو کہتے ہیں ہم سے یہ اہل وطن
یہ وطن ہے ہمارا تمہارا نہیں

Tuesday 17 January 2017

یوپی انتخاب مسلمانوں کے لیے ایک امتحان !


از قلم: مفتی محمد ساجد قاسمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــ
ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابی عمل کا اعلان ہو چکا ہے آنے والا ہر دن سیاسی لیڈروں کی دھڑکن تیز کر رہاہے سبھی جماعتیں کمر بستہ ہو کر میدان عمل میں کود چکی ہیں اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے  بے تاب نظر آرہی ہیں ان تمام ریاستوں میں سب اہم یوپی کا الیکشن ہے جہاں ۱۱فروری سے ۸مارچ کے درمیان سات مرحلوں میں 403سیٹوں پر ووٹنگ ہوگی جبکہ امیدوارں کے قسمت کا فیصلہ ۱۱مارچ کو ہوگا سبھی پارٹیاں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہاں فتح کا پرچم لہرانا کتنا معنی رکھتا ہے کیونکہ یوپی ہی وہ سرزمین ہے جہاں سے دہلی کے تخت وتاج کا راستہ نکلتا ہے  جو جماعت اس الیکشن میں کامیاب ہوگی اسکے لیے اگلا لوک سبھا الیکشن آسان ہو جاے گااسی لیے  سبھی جماعتیں اس الیکشن کو لے کر زیادہ فکر مند ہیں عوام کو لبھانے کے لے نیے نیے وعدے کر رہے ہیں اور ہر ایک اپنی سرکار بنانے کا دعوی کر رہا ہے لیکن ان دعوں کا کیا؟
یہ تو آنے والا وقت ہی بتاے گا کہ عوام کس کو اقتدار سونپتی ہے-

سپا  ترقی اور وکاس کے نام پر دوبارہ سرکار بنانے کا دعوی کر رہی ہے تو مایا وتی مسلم اور دلت کے ووٹ کے سہارے ستا میں آنے کی کوشش کر رہی ہے ، بسپا نے ۶۹ مسلم امید واروں کو ٹکٹ دے کر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش ر رہی ہے، بی جے پی کاماننا ہے کہ یوپی کی فتح ۹۱۰۲ کے لوک سبھا الیکشن کی راہ ہموار کرے گی اسی لیے بی جے پی نے مودی جی کے دم خم پر یوپی چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے مودی جی اپنی زور بیانی اور چرب زبانی کے ذریعہ عوام کو نیے نیے خواب دکھا کر ووٹ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں لیکن اس بار عوام مودی کے وعدوں پر یقین نہی کرے گی اور میکنگ انڈیا،ڈجیٹل انڈیاکے بہکاوے میں نہی آے گی،  کیونکہ عوام کو دکھاے گے سنہرے خواب اب تک پورے نہی ہوے ہیں،
عوام ابھی نوٹ بندی کا تازہ زخم  بھلا نہی پائ ہے وہ اس کے کرب کو اب بھی محسوس کر رہی ہے ،دو مہینے گزرنے کے بعد بھی سرکار عوام کی اس تکلیف کا مکمل طور پر تصفیہ نہی کر پائ ہے مودی جی کے  نوٹ بندی کے غلط   فیصلے نے ہندوستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی توڑدی اور تاجروں کو کافی نقصان پہنچایا ہےجس کا خمیازہ بی جے پی  کویوپی الیکشن میں بھگتناپڑے گا  اور بی جی پی کے  اقتدار کا خواب چکنا چور ہو جاے گا، بھاجپا اس الیکشن کو لے کر بہت ہیچین ہے، کیونکہ نہ تو مودی جی کا جادو چل رہا ہے اور  نہ ہی عوام  جھوٹے وعدوں سے فریب کھا رہی ہے، بھاجپا کا ماننا ہے کہ اگر اس بار نتائج اچھے نہی رہے تو ۹۱۰۲ میں لوک سبھاالیکشن آسان نہی ہوگا -
وہیں راہل گاندھی کے تیخے تیور نے بی جے پی کے ہوش اڑا دیےہیں کانگریس نے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے یوپی الیکشن کی لگام غلام نبی آزاد کو تھما دی ہے -

 یوپی کا فاتح کون ہوگا یہ تو وقت ہی بتاے گا لیکن اگر سپا کانگریس سے اور بسپا ایم آی ایم سے اتحاد کرلیتی ہے تو بی جے پی کے لیے یہ الیکشن آسان نہی ہوگا
اس موقعہ پر سیکولر پارٹیوں کا اتحاد مسلم ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا سکتا ہے اگر یہ جماعتیں تنہا الیکشن لڑیں گی تو متحدہ محاذ قائم نہی ہو پاے گا اور مسلم ووٹ تقسیم ہو جاے گا،
جسکا سیدھا فائدہ بی جےپی کو ہوگا اس انتخاب میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکشت دینے کے لیے صوبای جماعتوں کا اتحاد نا گزیر ہے اور یہ اتحاد فرقہ پرست طاقتوں کے طوفان کےسامنے  سیسہ پلای ہوئ دیوار ثابت ہوگا، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرکے اپنی عاقبت اندیشی کا ثبوت دیں یوپی الیکشن مسلمانوں اور سکولیرزم کے علم برداروں کے لیے ایک سخت امتحان ہے،  بطور نتیجہ یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے اور قیاس آراٰئ کی جا رہی ہے کہ راہل گاندھی کا نیا جوش اور اکھلیش یادو کا چہرہ یوپی میں  سب پر بھاری پڑے گا
لیکن یہ سیاسی  جنگ ہے یہاں کچھ بھی ہو  سکتا
ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یوپی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور عوام کس کو اپنا مسیحا بناتی ہے؟؟؟

اب بھی نہ جاگے تو...


از: مفتی محمد ثاقب قاسمی
جنرل سیکریٹری مجلس صدائے حق پنجاب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالیر کوٹلہ، پنجاب (آئی این اے نیوز 17/جنوری 2017)ہندوستان کی سرحدی ریاست پنجاب میں انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے، الیکشن کے موقع پر ہر پارٹی دعوٰی اور وعدوں کی سوغات لئے ووٹروں کو رجھانے میں لگ گئی ہے، ہر پارٹی اپنے داغدار دامن کو چھپا کر عوام کی ہمدردی جتانے میں مصروف نظر آرہی ہے، تمام سیاسی پارٹیاں عوام کو اپنی طرف مائل کرنے میں مصروف ہیں اور انہیں اپنے کارناموں سے متعارف کرارہی ہیں، ہر پارٹی کے افراد بنگلوں سے سڑکوں کی طرف کوچ کررہے ہیں، ریلیاں نکالی جارہی ہیں، پروگرام منعقد ہورہے ہیں، بستی بستی، قریہ قریہ لوگوں سے ملاقاتیں کی جارہی ہیں، تمام پارٹیوں نے انتخابات جیتنے کیلئے اپنی ساری طاقتیں جھونک دی ہیں، صوبہ پنجاب کے علاوہ مزید چار صوبوں میں الیکشن ہونے ہیں ہمارے صوبہ پنجاب خاص کر مالیر کوٹلہ شہر کے چھوٹے بڑے سبھی اس بات کو لیکر پریشان ہیں کہ ہمارے صوبہ کی باگ ڈور کون سنبھالے گا، ہمارے مالیر کوٹلہ شہر کا ایم ایل اے کون بنے گا.
صوبہ کا کوئی بھی دانشمند باشندہ یہ نہیں چاہتا کہ صوبہ پنجاب کا قائد کوئی ظالم وجابر یا تعصب پرست بنے،
بلکہ سب کی یہی خواہش ہے کہ ہمارے صوبہ کا رہنما کوئی منصف، عادل اور امانت دار بنے، اسی طرح ہمارے مالیر کوٹلہ شہر کا ایم ایل اے کوئی نیک اور شریف انسان بنے.
اسلئے میں تمام حضرات سے گزارش کرتا ہوں کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کیلئے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے کسی صاف شفاف اور دیانتدار کردار کے حامل کو اپنا رہبر منتخب کریں.

نشہ چھڑاؤ پنجاب بچاؤ، پنجاب کا سب سے بڑا مسئلہ شراب اور منشیات کا خاتمہ ہے!


تحریر: مفتی محمد ثاقب قاسمی
جنرل سیکریٹری مجلس صدائے حق پنجاب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مالیر کوٹلہ، پنجاب (آئی این اے نیوز 17/ جنوری 2017) مجلس صدائے حق پنجاب کے جنرل سیکریٹری مفتی محمد ثاقب قاسمی نے پنجاب کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں روز بروز نت نئے نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں، اگر ہم صوبہ پنجاب کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پنجاب بے شمار مسائل سے دوچار ہے جنہیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت ملک کا شہری نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال ہے جس نے ریاست کے ہر گھر کو متاثر کیا ہوا ہے، دوسرا مسئلہ کرپشن کا ہے جس نے ریاست کی جڑیں ہر سطح پر کھوکلی کی ہوئی ہیں، تیسرا بے روزگاری ہے، وہیں بڑھتی مہنگائی، کسانوں کے قرضے، کھیتی باڑی کے مسائل، ستلج کا پانی اوراس کا حق، تعلیمی پس ماندگی، خواتین کے حقوق سے کھلواڑ بھی قابل ذکر ہیں، دونوں ہی سیاسی جماعتیں ایک عرصہ سے عوام کا استحصال کرتی آئی ہیں اور مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ شراب نوشی اور منشیات جس سے ہر گھر متاثر ہے، اس کے ٹھیکہ بھی وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن پر ذمہ داری ہے کہ وہ اُس کے نقصانات سے بچائیں. اور چونکہ ریاست میں ایک بڑی رقم منشیات اور شراب کے فروغ سے حاصل ہو رہی ہے، اس لیے اس کے خاتمہ کے لئے برسراقتدار موجودہ یا سابقہ حکومتوں کا رویہ تشویشناک ہے. باوجود اس کے شراب نوشی اور منشیات کے بے انتہا استعمال سے ریاست میں نوجوان اور بڑی عمر کے افراد ہر لحاظ سے پریشانیوں میں مبتلا ہیں، بے انتہا شراب نوشی اور منشیات کی لت نے صلاحیتوں کو ضائع کردیا ہے، وہیں دولت ایک ایسی اشیاء کے حصول میں خرچ کی جارہی ہے جس سے کچھ حاصل ہونے کی بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے، منشیات کی لت نے صحت عامہ کے مسائل میں اضافہ کیا ہے، سماجی برائیاں عام ہورہی ہیں، خاندانی نظام درہم برہم ہو رہے ہیں، عفت و عصمت تار تار ہو رہی ہے، ساتھ ہی منشیات کی لت نے نوجوانوں کو بے روزگاری میں بھی مبتلا کیا ہے، غنڈہ گردی میں اضافہ ہوا ہے وہیں نظم و نسق کمزور ہوا ہے. اس پورے پس منظر میں ریاست میں شراب نوشی و منشیات کا خاتمہ سب سے بڑا ایشو بنا ہوا ہے.
میں پنجاب کی سرکار سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ پنجاب میں شراب اور منشیات کے روکنے کیلئے جو بھی ذرائع میسر ہوں ان کا استعمال کرکے اسکو روکیں، شراب اور منشیات کا بالکلیہ خاتمہ کریں.

اعظم گڑھ میں گاڑی حادثے کے بعد مچی مچھلی کی لوٹ!


® محمد عاصم اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بندرا بازار/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 17/جنوری 2017) اعظم گڑھ ضلع کے بندرا بازار میں ایک کھڑی بس میں لال گنج کی طرف سے آ رہے پک اپ گاڑی نے ٹکر مار دی پک اپ میں بڑی مقدار میں مچھلیاں لدی تھیں ظاہر ہے کہ ٹکر کے بعد کچھ نہ کچھ ہونا تھا لہٰذا مچھلیاں سڑک پر پھیل گئیں اس کے بعد تو وہاں لوٹ مچ گئی اس لوٹ میں شامل تمام لوگوں نے یہ دیکھنے کی کوئی دلچسپی ہی نہیں لی کہ حادثے میں کسے اور کتنا نقصان ہوا ہے سب کے سب شامل ہو گئے مچھلیوں کی لوٹ میں. اس کے بعد بچی رہ گئیں کچھ گنی چنی ہی مچھلیاں جبکہ زخمی حادثہ کے شکار ہوئے لوگ یہ ماجرا دیکھ کر خود ایک کلینک میں چلے گئے جہاں ان کا علاج ہو رہا ہے.

Monday 16 January 2017

پردھان کی کوشش سے اسکول میں ملا ٹیبل اور بینچ، زمین پر بیٹھ کر پڑھنے سے ملی راحت!



® سلمان اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــــ
جین پور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 16/جنوری 2017) ہریا بلاک کے سہن پور اسکول میں پردھان ارون کمار پٹیل کی طرف سے 250 بچوں کے لئے ٹیبل اور بیچ پیش کیا گیا پردھان جی نے بچوںکو زمین پر بیٹھ کر پڑھتے دیکھ یہ قدم اٹھایا اسکول کے ہیڈ ماسٹر بیدھی چند یادو نے بتایا کہ جناب پردھان جی نے تقریباً 70 ہزار روپیہ خرچ کر بچوں کو پریشانیوں سے نجات دلایا اس سے ہم تمام ماسٹر ان کے شکرگزار ہیں گاؤں کے نصف درجن لوگوں نے بھی ردھان جی کے اس کام پر مبارکبادی پیش کی.
مبارکباد پیش کرنے والوں کے نام  راجو سنگھ، وریندر کمار، درگا پرساد، سنیل شیو کمار، سنجو سنگھ، نہرو، اروند، سمرجیت اور امیش کے نام واضح ہیں.

بھاواپور میں ایم ایم یو کلب کے زیر اہتمام حاجی مشتاق مرحوم میموریل ڈے انڈرم کرکٹ کا پہلا ٹورنامنٹ 22 جنوری سے شروع!


® ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 16/جنوری 2017) بلریاگنج تھانہ علاقہ کے بھاواپور میں 22/جنوری 2017 کو ڈے انڈرم کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس کا افتتاح جناب محمد اعظم پردھان کے مبارک ہاتھوں سے ہوگا اس ٹورنامنٹ کے مہمان خصوصی فیضان احمد، نوشاد احمد، محمد حازم عرف مراد، شاہ عالم، محمد اصغر ہوں گے.
اطلاع کے مطابق یہ میچ نو کھلاڑیوں کا ہوگا، ہر میچ میں مین آف دی میچ دیا جائے گا، مین آف دی سریج میں کولر دیا جائے گا.
بلریاگنج و اطراف کی تمام ٹیموں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ کمیٹی سے رابطہ کر کے اپنے ٹیم کا نام درج کرالیں.
7317345080. 9125918021
پر رابطہ کر معلومات حاصل کر سکتے ہیں.
میچ کے کرکنان محمد شعیب، محمد راشد، محمد ادیب، محمد تراب، محمد توقیر، محمد عزیر، عادل، اشہد، اکرم، کیف، مدثر وغیرہ ہوں گے.

Sunday 15 January 2017

انتہائی افسوس ناک خبر

آئی این اے نیوز 15/جنوری 2017
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب بانی و مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا انتقال ہو گیا ہے.
                                 🔷انا للہ واناالیہ راجعون🔷
اللہ پاک حضرت کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے.                                                                                                                    آمیـــــــن
خبر لکھے جانے تک جنازہ کا اعلان نہیں ہوا ہے

بی ایس پی رکن اسمبلی شاہ عالم گڈو جمالی کی قیادت میں بی ایس پی سربراہ مایاوتی کا 61ویں سالگرہ منایا گیا!



®جاوید حسن انصاری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مبارکپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 15/جنوری 2017) اسمبلی مباركپور کارکن کی طرف سے مبارکپور اسمبلی کے سٹھياؤں بلاک کے مہوا بازار کے اننپورتا اسکول میں بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ اترپردیش بہن کماری مایاوتی جی کا 61واں سالگرہ بہت دھوم دھام سے منایا گیا پروگرام کے مہمان خصوصی ممبر اسمبلی مباركپور مسٹر شاہ عالم (گڈو جمالی) نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ہماری پارٹی کی سربراہ بہن کماری مایاوتی جی کی سالگرہ کے موقع پر ہم سب ان کی لمبی عمر کی خواہش کرتے ہیں اور یہ قرار داد لیتے ہیں کہ فرقہ واریت، فرقہ پرست اور بدعنوانی کے خاتمے کے لئے آئندہ اسمبلی کے انتخابات میں بہن جی کو اس پردیش کا پانچویں بار وزیر اعلیٰ بنا کر اس ریاست کو ایک نئی روشنی کے طرف لے جائیں.
ممبر اسمبلی مباركپور نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس الیکشن میں ایس پی، بی جے پی، کانگریس کے کے لوگ متحد ہوکر بہن جی کو ہرانے میں لگے ہے لیکن سماج کے لوگ ان کی ناپاک کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور بہن کماری مایاوتی جی کو 2017 میں پانچویں بار اس پردیش کا وزیر اعلیٰ بنائیں گے انہوں نے مودی کے نوٹ بندی کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صرف چند سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے کیلئے یہ ہوا ہے اس نوٹ بندی سے صرف چھوٹا طبقہ تباہ و پریشان ہوا ہے بینکوں کی لائن میں کوئی بھی دولت مند نہیں لگے تھے صرف چھوٹا ہی طبقہ تھا ممبر اسمبلی شاہ عالم گڈو جمالی بھاری بھیڑ دیکھ کافی خوش تھے بھیڑ کا عالم یہ تھا کہ پورہ میدان بھرا رہا خواتین کی بھی بھاری بھیڑ رہی ہے نوجوان بھی پیچھے نہیں رہے
آج سینکڑوں لوگوں نے بی جے پی، ایس پی اور مساوات ٹیم چھوڑ کر بہوجن سماج پارٹی کی رکنیت حاصل کئے اشوک راج بھر، وریندر موريا، دھرمیندر راج بھر، انگد چوہان، دیانند یادو، موہن لال چوہان، وغیرہ سینکڑوں لوگوں نے کی.
اس موقع پر مبارکپور شہر کے نوجوان بی ایس پی لیڈر اور سربراہ سماجی کارکن زیور محل کے مالک حاجی سلیمان اختر انصاری شمشی نے کہا کہ محض ایک پارٹی بی ایس پی ہی ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ کسی کے بہکاوے میں نہ آئے اور آنے والے انتخابات میں گڈو جمالی کو دوبارہ بھاری ووٹوں سے کامیاب بنائیں تاکہ علاقہ ترقی کی جانب گامزن ہو سکے.
بنیادی طور سے لوگ موجود رہے جس میں نوجوان بی ایس پی لیڈر عبداللہ، علاء الدین، مرزا وسیم بیگ، ڈاکٹر عثمان غنی، مبارکپور کے نوجوان بی ایس پی لیڈر جمشید عالم انصاری گڈو، سلمان پردھان، مہاپردھان شيام دیو چوہان، جھبلو پانڈے، سابق پردھان وجےبہادر، شکیل انصاری، اشتیاق عزیزی،  امرجیت باغی، سومر رام، آزاد سنگھ مینیجر، چندن سنگھ، برهسپت سنگھ، ڈاکٹر ابرار، طارق نجن، حسین احمد، ناظر انصاری، غلام محمد، خالق ناظم، محمد ضیاءالرحمن انصاری وغیرہ موجود تھے.
آخر میں پروگرام کی صدارت کر رہے ایچ جی اسپتال چريا كورٹ کے ڈاکٹر سجيت سنگھ نے بھی خطاب کر لوگوں کا شکریہ ادا اور بی ایس پی حکومت لانے کی اپیل کی.

جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام اجتماع میں مولانا طاہر مدنی صاحب کی شرکت!


® ثاقب اعظمی
ـــــــــــــــــــــــــــ
نظام آباد/حیدرآباد(آئی این اے نیوز 15/جنوری 2017) حیدرآباد سے 170 کلومیٹر کے فاصلے پر شھر نظام آباد میں جماعت اسلامی ہند کے زیر اھتمام اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس کا مرکزی عنوان 'ادخلوا فی السلم کافة" تھا منتظمین نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کو مدعو کیا اور برادران ملت کو شرکت کی دعوت دی مولانا سعود عالم قاسمی کا خطاب امت مسلمہ کے نصب العین پر اور مولانا احمد سراج عمری قاسمی کا اسلام کے عائلی نظام پر ہوا مولانا طاہر مدنی  نے سلف صالحین کے تجدیدی کارنامے پر اظہار خیال کیا.
مجموعی طور سے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل کا حل دعوتی فریضے کی ادائیگی ہی ہے. اس کیلئے قولی و قلمی دعوت کے ساتھ عملی دعوت کی اہمیت غیر معمولی ہے. ہماری زندگی اسلامی تعلیمات کا نمونہ ہو ہمارے اخلاق میں  سیرت محمدی  کی جھلک ہو، ہمارا خاندان مثالی ہو اور ہمارا سماج اخوت و محبت کی تصویر ہو. اس ملک میں ہماری پہچان خدمت خلق اور انسانیت کی خیر خواہی کے حوالے سے ہونی چاھئے.
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے دعوتی کام سے غفلت برتی ہے اور آج بھی اسلام ہمارے وطنی بھائیوں کیلئے اجنبی ہے. کیا وقت نہیں آگیا ہے کہ ہم فروعی اختلافات سے اوپر اٹھ کر دعوتی مشن کیلئے اکٹھا ہوجائیں اور اپنی توانائیاں اس کام کیلئے یکسو ہوکر لگادیں؟ ھمارے أصحاب خیر اس ملک میں خدمت خلق کیلئے اپنا سرمایہ دل کھول کر خرچ کریں  ہمارے نوجوان اپنی جوانیاں اشاعت اسلام کیلئے وقف کردیں.
اگر ہم نے اس فریضے کی ادائیگی سے غفلت جاری رکھی تو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے ہمیں کون بچا سکے گا؟

Saturday 14 January 2017

سرحد پر اترپردیش کے شھید فوجیوں کے لئے شاعر عمران پرتاب گڑھی نے کیا 50.50 ہزار کا اعلان!



 رپورٹ: قاری کلام الدین
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لکھنؤ(آئی این اے نیوز 14/جنوری 2017) ایک والد اپنے بیٹے کو بڑی محنت ومشقت سے پالتا ھے تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں کیا کچھ تکلیف ھوتی ھے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے وہ ایک باپ ھی جانتا ھے ایک والد اپنے لڑکے کے لئے ھر طرح کی قربانی دیتا ھے اس امید سے کہ یہ میرا لال کل بوڑھاپے کا میرا سھارا بنے گا  لیکن اتر پردیش کے پرتاب گڑھ ضلع کے دو والدین کو شدید صدمہ ھوا اور سخت تکلیف کا شکار ھونا پڑا  اور ھر طرف انھیں اندھیرا ھی اندھیرا نظر آنے لگا جب انکے لال سلمان اور ارشاد محب الوطنی اور خودداری کا ثبوت پیش  کرتے ھوئے سرحد پر ایک دھشت گردانہ حملے میں جان بحق ھو گئے ان والدین کے لئے وھی سھارا  تھے انکی شھادت سے انکی تمنائیں اور آرزوئیں توٹ  گئیں تمام تر خواب ادھورے رہ گئے والدین کا رو رو کر برا حال ھے اب درد بیان کر یں تو کس سے؟  ایسے نازک  ترین حالات میں جب دونوں  شھیدوں کے والدین کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرھا تھا ایک نوجوان شاعر نے ان کے سروں پر ھاتھ رکھا، وہ شاعر کوئی اور نھی بلکہ اپنے سینے میں ملت کا درد سمیٹے ھوئے ، اپنے اشعار کے ذریعہ مظولوموں کے حق کی لڑائی لڑنے والا اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لئے بیتاب، عمران پرتاپگڑھی ھے عمران پرتاپگڑھی نے ان دونوں شھیدوں کے لئے 50.50 ہزار کا اعلان کیا اس نوجوان شاعر نے جسے یش بھارتی کا ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جاچکا ھے اس سے پھلے بھی جھارکھنڈ کے منھاج انصاری کی بیٹی کے لئے جب تک تعلیم حاصل کرے تو ۲ھزار  انعام کا اعلان کیا تھا، اور نجیب کی روتی ھوئی ماں کے درد کو اپنی شاعری کے ذریعہ حکومت اور عوام تک  پھونچایا وھیں دادری میں مقتول اخلاق کے مسلہ  کو زور شور سے اٹھایا، واقعی عمران پرتاپگڑھی ایک ایسا نام ھے جسے ملت کا درد ھے اپنی شاعری کے ذریعہ مظلوم لوگوں کے درد عوام تک اور حکومت تک پھونچانے کی کوشش کر رھے ھیں اللہ انھیں انکے مشن میں بھرپور کامیاب کرے اور دوسرے شعراء سے بڑی عاجزانہ درخواست ھے کہ قوم وملت کے مسائل کو عمران پرتاپگڑھی سے سبق لیتے ھوئے اپنی شاعری میں بیان کریں، اور میں شوشل اور اخبارات کے ذریعہ میری آواز جھاں  تک پھونچ رھی ھے  ان  سے عاجزانہ درخواست ھے کہ وطن عزیز کے حفاظت کرنے والے اور وطن کے لئے شھادت پیش کرنے والے ان دونوں خاندانوں کی آپ بھی دل کھول کر مدد کریں اللہ تعالی دونوں شھیدوں کی مغفرت فرمائے اور  والدین کو صبر جمیل نصیب فرمائےآمین

خدا مست مجاھد میں سے حضرت مولانا عبدالحئی چشتی نوراللہ مرقدہ بھی تھے ...


تحریر: عبدالوہاب چشتی قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ کے افق پر بے شمار اھل علم اور اھل اللہ نمودار ہوئے جنکے چھوڑے ہوئے نقوش ہر دور میں ارباب فکر ونظر کی نکتہ شناس نگاہوں کو خیرہ کئے رہتے ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، ع
         اس خطہ اعظم گڑھ پر مگر فیضان تجلی ہے اکثر
         جو ذرہ  یہاں سے اٹھتا ہے وہ  نیر اعظم ہوتا ہے
انھیں اھل اللہ اور اھل علم حضرات میں سے حضرت مولانا عبدالحئی چشتی نوراللہ مرقدہ بھی ہیں جو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کے سب سے محبوب اور کم سن خلیفہ تھے ،آپکی پیدائش ١٣٤٥ ھ مطابق 1926 ء میں اعظم گڑھ کے مردم خیز گاؤں انجان شہید میں ہوئی،ابتدائی تعلیم موضع خالص پور اعظم گڑھ کے اسلامیہ اسکول میں حاصل کی ،جہاں آپ کے والد ماجد مولوی رفیع احمد صاحب ھیڈ مدرس کی حیثیت سے تعلیمی خدمات انجام دے رہے تھے اور وہیں سےء ١٣٥٧ھ مطابق 1938 ء پرائمری درجہ پنجم کا امتحان پاس کیا ،چونکہ وہاں اسوقت اس سے زیادہ تعلیم کا نظم وہاں نہیں تھا اس لئے قصبہ جین پور کے مڈل اسکول میں داخلہ لے لیا ،جو انجان شہید سے تقریبا پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،مولانا چشتی رحمۃاللہ علیہ چونکہ طبعا بہت ذھین واقع ہوئے تھے اس لئے تمام اساتذہ نے ان پر خصوصی توجہ دی ،دو سال بعد وہاں سے اپنے نانیہال قصبہ بلریاگنج کے مڈل اسکول میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے مڈل کا اسکول پاس کیا ،اب مولانا چشتی رحمۃاللہ علیہ کے پاس دو راستے تھے ،عربی کی تعلیم حاصل کریں یا انگریزی کی تعلیم میں زور آزمائی کریں ،چونکہ حضرت کے والد ماجد ایک ماہر اور تجربہ کار مدرس تھے اس لئے مولانا چشتی رحمۃاللہ علیہ کی مرضی معلوم کرنا بہتر سمجھا ،کیونکہ تعلیم کے حصول میں قلبی میلان کا بہت ہی دخل ہوتا ہے ،عام طور پر ایسا علم جس کی طرف دل مائل نہ ہو نفع بخش نہیں ہوتا-
جب والد ماجد نے انکا نظر یہ معلوم کیا تو انھوں نے عربی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ظاہر کیا ،آپ کے والد نے جو کہ خود شب زندہ دار بزرگ اور اخلاص و للہیت کے پیکر تھے انکی خواہش کے مطابق ١٤٦١ھ مطابق 1942 ء میں جامع العلوم جین پور میں داخل کرادیا ،اسوقت وہاں مولانا افضال الحق صاحب قاسمی ،مولانا کامل انجان شہیدی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ،عربی تعلیم چونکہ مولانا کے رجحان کے عین موافق تھی اس لئے بڑی جانفشانی سے تعلیم کی تحصیل میں منہمک ہو گئے ،
نحو ،صرف ،فقہ کی ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی متوسطات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری رحمۃاللہ کے کہنے پر مدرسہ شاہی مراد آباد میں داخل ہو گئے ،اسوقت یہ مدرسہ مولانا عبد الحق مدنی نوراللہ مرقدہ اور مولانا سید محمد میاں صاحب رحمۃاللہ کی علمی سرگرمیوں کی وجہ سے مینارہ نور بنا ہوا تھا ،مولانا چشتی رحمۃاللہ کو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ سے یک گونہ تعلق تھا ،مولانا عبد الحق مدنی نوراللہ مرقدہ کی صحبت نے جو کہ خود بھی حضرت شیخ الاسلام رحمۃاللہ کے عاشق تھے ان کے تعلق کو عشق میں تبدیل کر دیا ،
اور عین ھنگامہ آزادی میں جب کہ ٹرینوں کا لوٹنا اور مسافروں کو قتل کرنا معمول کھیل تھا،دیوبند کے لئے رخت سفر باندھا ،اور ١٣٦٧ھ مطابق 1947 ء میں داخلہ لیکر تعلیم شروع کردی ،اور ١٣٧٠ ھ مطابق 1950 ء میں فراغت حاصل کی -
     آپ بلند پایہ کے خطیب اور مقرر بھی تھے لیکن عام طور پر تقریر وغیرہ سے دور ہی رہا کرتے تھے اگر کبھی تقریر کی نوبت آتی تو بڑی مدلل اور مفصل گفتگو کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس موضوع پر آپنے ہفتوں تیاری کی ہے ،آپ کی تحریر بھی بڑی عمدہ اور دلکش تھی ،ان خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر دارالعلوم میں بہت جلد مقبول ہو گئے ،اور جمیعۃ الطلبۃ کے صدر منتخب ہو گئے ،پھر وہ تاریخی واقعہ پیش آیا جس نے حضرت چشتی رحمۃاللہ کے دل میں ھلچل پیدا کردی ،ہوا یوں کہ مدنی لائبریری جو کہ طلباء یوپی کے لئے خاص تھی آپ اپنے وسعت ظرف کی بناء پر یہ چاھتے تھے کہ تمام طلبہ اس سے فائدہ حاصل کریں ،اسی وجہ سے یوپی کے طلبہ آپ کی مخالفت کرنے لگے ، آپ بھی اصابت رائے کی بناء پر بضد ہو گئے ،لڑکوں کا یہ اختلاف طول پکڑنے لگا ،اور سنگین صورت اختیار کرگیا ،تو اسکی خبر شیخ الاسلام  رحمۃاللہ علیہ کو دی گئی جو کہ اسوقت ناظم تعلیمات تھے ،حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ نے دارالحدیث میں آتے ہی یہ اعلان کیا کہ کون ہے عبدالحئی کھڑا ہوجائے ،چنانچہ آپ کھڑے ہو گئے اور تمام مسئلے سے حضرت کو آگاہ کیا ،جب آپ کو تنازع کی حقیقت معلوم ہو گئی تو حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کو سخت زجرو توبیخ کی اور ان پر اک نظرعمیق ڈالی جس کے بارے میں صوفیا کا کہنا ہیکہ
        ع      یہ وہ مے ہے جو نظروں سے پلائی جاتی ہے
    میری آنکھوں میں چشم مست ساقی کا وہ عالم ہے
        نظر بھر کر جسےبھی دیکھ لوں میخوار ہوجائے
خدا جانے اس نظر میں کیا تاثیر تھی کہ حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کی زندگی میں انقلاب آگیا اور فی الفور طلبہ کی سیاست سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا ،شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ کی چوکھٹ پر حاضر ہوئے اور معافی چاہی حضرت نے بڑی بشاشت سے انھیں معاف کیا اور پندونصائح سے نوازا اور اپنا متبرک لباس بھی عطا کیا  اور اس واقعہ کے بعد حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ نے اتنا سخت مجاھد کیا کہ صرف دو سال کی قلیل مدت میں اسی تاریخی دارالحدیث میں جہاں دو سال قبل حضرت شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ نے سخت زجرو توبیخ کی تھی ١٣٥٢ھ مطابق 1952 ء میں ختم بخاری شریف کے موقع پر خلافت کا اعلان کیا ،
جن حضرات کو شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ کا معمول معلوم تھا کہ وہ سخت مجاھدہ وریاضت کے بعد خلافت عطا کرتے ہیں انھیں بڑا تعجب ہوا
 یہ اللہ تعالی کا بڑا فضل اور حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کی کاوشوں اور انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انکو خلافت اتنی کم مدت میں تفویض کی گئی آپ چونکہ فطرۃ بڑے ہی ذھین تھے اس لئے منطق،فلسفہ وغیرہ سے بڑا زبردست لگاؤ تھا -
فراغت کے ایک سال بعد آپ نے دارالعلوم ہی سے معقولات میں تخصص کیا ،حضرت علامہ ابراھیم رحمۃاللہ علیہ جو کہ معقولات کے بڑے امام تھے آپ انکے بڑے شیدائی تھے اور ہر وقت انکی تعریف میں رطب اللسان رہا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اپنے اساتذہ کے علوم ومشرب کی تشریح جتنے عمدہ طریقے سے آپ کر سکتے تھے دوسرا نہیں کر سکتا تھا ،
علوم ظاہرہ وباطنہ سے فراغت کے بعد آپ نے تدریسی خدمت شروع کردی -
١٣٧٤ ھ مطابق 1954 ء میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر میں استاذ حدیث مقرر ہوئے ،ایک سال کے بعد یہاں سے مدرسہ عربیہ وساڑا( سوراسٹر )چلے گئے، پھر وہاں سے علاحدہ ہوکر ١٣٧٦ھ مطابق 1956 ء دارالعلوم معینیہ اجمیر چلے گئے، اور وہاں تدریس کے ساتھ مثنوی مولانا روم کا عوامی درس بھی شروع کیا جو بہت مقبول ہوا ،تین سال وہاں رہ کر١٤٧٨ھ مطابق 1958ء میں پنڈوا ضلع ھگلی میں صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہو گئے ،اس مدرسے میں حضرت کا قیام ہر جگہ سے طویل رہا ،١٤٧٥ھ مطابق 1965 ء میں ھگلی اور اسکے اطراف میں زبردست فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے گھر لوٹ آئے ،اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے ،پھر ١٤٨٨ھ مطابق 1968 ء میں حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ کے ایماء پر مدرسہ قرآنیہ گونڈہ میں بحیثت مہتمم تشریف لے گئے اور دو سال کی قلیل مدت میں اپنے حسن انتظام سے اس مدرسے کو ترقی کی شاہراہ پر کھڑا کردیا ،اسکے بعد شیراز ھند جونپور میں ایک مدرسہ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حضرت مولانا مسلم صاحب بمہوری ،جناب عین الحق صاحب ،اور محمود حسن جونپوری کے مشورے سے جامعہ حسینیہ کے نام سے شھر جونپور کی ایک قدیم شاہی مسجد لال دروازہ میں مدرسے کی بنیاد رکھی اور آخری عمر تک اس کے مہتمم بھی رہے فی الحال یہ مدرسہ حضرت مولانا توفیق صاحب قاسمی دامت برکاتھم کی زیر نگرانی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ،اس کے علاوہ آپ نے اپنے شیخ کے حکم سے موضع انجان شہید میں ایک مدرسہ کی بنیاد بھی ڈالی ،بقول حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کے والد بزرگوار یعنی میرے پردادا مولانا محمد رفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ع
        بحکم شیخ جب تو نے مدرسہ کی بناء ٹھانی
            کہا لبیک  اکثر  نے ، مگر اکثر نے نہ مانی
     رکاوٹ سے کسی کے بھی تیرے ھاتھوں نہ بل آیا
      تکا دل میں نہ پہونچی نہ ارادوں میں خلل آیا
       تیرے پختہ ارادے سب کے سب زیر عمل آئے          
تیری نیت کی سچائی سے سب میں پھول وپھل آئے

اپنے شیخ کے نام پر اس جگہ کا نام حسین آباد رکھا دارالعلوم حسین آباد انجان شہید انھیں کا لگایا ہوا پودا ہے جس کے برگ وبار آج پورے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں ،
ایک مرتبہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کی میرے قدم حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کی نششت گاہ کی طرف اٹھ گئے ٹھوڑی دیر مجلس کی جگہ بیٹھا رہا اور اس وقت دل پر جو گزری وہ لفظ وبیاں کے ذریعہ ممكن نہیں ،میں سوچ رہا تھا کہ جس جگہ پر ایک مدت گزرجانے کے بعد سکینت و طمانیت،و انوار وبرکات کا یہ عالم ہے وہاں اس وقت کیا عالم ہوگا جب یہ مجلس زندہ و تابندہ تھی ،ان پرخاروادیوں کی حقیقت کو مجھ جیسے طالب علم کیا جانے ان سے تو وہیں لوگ آشنا ہونگے جو کہ دریاے حقیقت کے غواض اور ہوں اور عملی تجربات کے مواج ہوں ،اور ایک عینی مشاھد کی طرح پوری خود اعتمادی کے ساتھ یہ بیان کرے کہ    ع
    ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
                                          ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
       لیکن چونکہ دادا پوتے کا ایک قلبی رشتہ ہوتا ہے اس رشتے کی بنیاد پر کم علم ہونے کے باوجود میں نے کچھ سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی ہے
اگر یہ رشتہ نہ ہوتا تب بھی ایک خدا مست مجاھد ،ایک مقدس شخصیت کے متعلق لکھنا باعث ثواب اور قابل فخر سمجھتا ،اور انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام لکھوانے والی کہاوت پر عمل کرتا ،اس لئے کے ہم ان کے پیروں کے گرد کے برابر بھی نہیں ہیں اور جو کچھ بھی ہیں ان ہی بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہیں ،حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کے انتقال کے موقع پر حضرت مولانا افضال الحق صاحب قاسمی نے ایک جملہ کہا تھا کہ میں نے سوچا تھا کہ میرا یہ شاگرد میرے انتقال کے بعد میرے لئے بخشش ورفع درجات کی دعا کریگا لیکن وہ تو مجھ سے پہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہ بیٹھا ،
                من احب لقاء الله احب الله لقاءه
جو لوگ اللہ تبارک و تعالی سے جلدی ملنا پسند کرتے ہیں اللہ تعالی بھی اس سے جلدی ملنا پسند کرتے ہیں کہ میرا محبوب بندہ جلد سے جلد میرے پاس آجا ئے ،
ان بزرگوں نے ہمارے لئے اخلاص وللہیت ،تقوی و طہارت ،علم وعمل کی اتنی شاندار اور تابناک مثالیں چھوڑی ہیں کہ انکا تصور کرنے کے لئے آنکھیں بند کرنی پڑتی ہے اور دماغ پر زور دے کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ع
         ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو
         لوٹ  پیچھے  کی طرف  اے گردش ایام تو
٢٣ذیقعدہ مطابق 28 نومبر کو جامعہ حسینیہ لال دروازہ جونپور تشریف لے گئے ،٢٧ذیقعدہ مطابق 2 دسمبر کو اپنی ذاتی ضرورت کی بناء پر بنارس تشریف لے گئے ،مولانا منہاج صاحب جمیعۃ علماء یوپی کے یہاں قیام تھا ،شام کو بخار آیا ،ڈاکٹر شمیم صاحب نے دوا دی رو بصحت ہو گئے ،تیسرے دن بھی طبیعت مزید بہتر ہو گئی ،اگلے دن جمعہ کو ضعف ونقاہت کا غیر معمولی اثر رہا ،شام کو یکایک طبیعت دگرگوں ہو گئی ،١ذولحجۃ ١٣۹۵ھ مطابق 5 دسمبر 1975 ء کو داعی اجل کو لبیک کہ گئے
                       🔷انا لله وانا الیہ راجعون 🔷
اللہ پاک لحد مبارک کو نور سے منور کرے آمیــــن

ایک ایسی شخصیت جسے زمانہ یاد رکھے گا...


تحرير: محمد عاصم اعظمی
متعلم حجتہ الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف ديوبند
 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ملئے اس شخص سے جو عدم ہو وے
ناز جس کو اپنے کمال پر بہت کم ہووے
ہوکلمہ سخن تو دراز یک خلق
خاموش ہو وے تو ایک عالم بولے
                                         میر تقی میر

اس دار فانی میں انسان وجود پذیر ہوتا ہے اور متعینہ وقت گزار کر داربقا کی طرف رحلت کر جاتا ہے مگر ان میں کچھ شخصیات وأفراد ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو زمانہ یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا وہ اپنے افکار ونظرات، اوصاف وکمالات،تواضع وانکساری، علم و عمل،زہد وتقوی، خلوص و للہیت، کی بنا پر ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ وتابندہ رہتے ہیں وہ اپنے اوصاف حمیدہ اور صفات جمیلہ کی بنا پر یاد گار زمانہ اور تقلید ہم اور آپ ہوتے ہیں انہیں ضرب الامثال شخصیات میں ایک نام محدث دارالعلوم معروف بہ شیخ ثانی شیخ عبدالحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہےجنکی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ہرہر زاویہ لائق عمل اور قابل تقلید معلوم ہوتا ہے
شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت آپ کے وطن مالوف مسکن معہود مردم خیز سر زمین ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ پھولپور کے قریب جگدیش پور گاؤں میں 6/رجب بروز دوشنبہ 1345ھجری بمطابق 1928 عیسوی کو ہوئی اور جب اپنی عمر کے چھٹے سال میں قدم رکھا تو والد گرامی کا دست شفقت سر سے اٹھ چکا تھا والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد آپ کی کفالت وپرورش جس کو عبقری زمانہ یگانہ روزگار حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ جن کی آپ کے گاؤں میں سسرال تھی اپنے سر لیا.
تعلیم و تعلم
آپ نے ابتدائی سے متوسط درجہ تک کی تعلیم اپنے آبائی وطن کے معروف ومشہور ادارہ مدرسہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ سے حاصل کی بعد ازاں دارالعلوم مئو میں داخل ہو کر(محدث جلیل یکتائے زمانہ ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ) اور وقت کے ممتاز اور مایہ ناز علما کرام سے اپنی علمی تشنگی کو بجھایا اور درجہ موقوف علیہ کو پورا کیا پھر امت مسلمہ ھند کے محور قلب و نظر ازہر ھند دارالعلوم دیوبند کے لیے رخت سفر کو باندھا داخلہ ہو جانے کے بعد دورہ حدیث شریف کی دو اہم ترین کتاب بخاری دونوں جلد اور ترمذی شریف جلد اول شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد فیض آبادی ثم مدنی نوراللہ مرقدہ سے پڑھی اور ترمذی نصف ثانی شمائل سنن ابی داؤد جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاوی نوراللہ مرقدہ سے پڑھی. ترمذی شریف جلد ثانی اور شمائل ترمذی شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہی سے سنن نسائی طحاوی اور مؤطا امام مالک فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی سے ابن ماجہ حضرت مولانا ظہور حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ اور مؤطا امام محمد مولانا جلیل احمد رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھی سند فراغت 1368ھجری میں حاصل کیا اور آپ کو لگ بھگ ہندوستان کے سبھی محدثین اور کبار علماء سے اجازت حدیث حاصل تھی بالخصوص عبقری زمانہ اسیر مالٹا شیخ الاسلام حسین احمد مدنی اور حکیم السلام قاری محمد طیب قاسمی اور شیخ الحدیث شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہم سے اجازت حاصل تھی.
تدریسی دور کا آغاز:
فراغت کے فوراً بعد آ پ نے بحیثیتِ مدرس مدرسہ مطلع العلوم (بنارس) میں حدیث شریف کا درس دینا شروع کر دیا پھر اس کے بعد مدرسہ حسینہ گریڈیہ میں 9/ماہ تک درس دیا اس کے بعد دارالعلوم مئو میں بحیثیت مدرس حدیث شریف کا درس دیا اور آپ بیک وقت سولہ سولہ کتابوں کا درس دیا کرتے تھے پھر 1402 ہجری مطابق 1982 کو ازہر ھند دارالعلوم دیوبند میں بطور محدث بلائے گئے تا وفات حدیث کے درس میں مشغول رہے یوں تو آپ کی تدریسی خدمات تقریباً 67 سال کو محیط ہے جس میں نصف عرصہ دارالعلوم میں گذارا کرشمہ یہ کہ تدریس کے اول ہی دن سے آپ بخاری شریف کا درس دیتے رہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خالق دو عالم نے آپ کو خدمت حدیث ہی کے لیے وجود بخشا تھا
بیعت وارشاد میں آپ کا تعلق:
یوں تو آپ بچپن ہی سے نیک طبیعت، پاک طینت عمدہ خصلت تھے مگر آپ نے اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کی خاطر اپنے استاذ خاص شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا اور انکے انتقال کے بعد قطب وقت شیخ الحدیث حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور بیعت وخلافت بھی حاصل کی
دعاء مستجاب کے واقعات:
حضرت شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی امتیازات و خصوصیات میں ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ مستجاب الدعوات تھے بارہا یہ دیکھنے کا موقع میسر آیا کہ جب کوئی کٹھن گھڑی یا سنگین مسئلہ درپیش ہوتا تو دعا کے لیے سب کی نظریں آپ کی جانب مرکوز ہوتی اور کثرت مشاہدات سے یہ تجربہ بھی حاصل ہوا کہ آپ جب دعا فرماتے تو وہ قبول ہوجاتی آپ کے انتقال سے چند سال پہلے ایسا ہوا کہ دیوبند میں بارش نہیں ہو رہی تھی عوام و خواص سب کے سب یکساں طور پر پریشان تھے کئی بار صلوٰۃ الاستسقاء بھی پڑھی گئی باوجود اس کے آسمان کی حرارت اپنے حال پر باقی رہی اور آسمان پر ابر کا نام ونشان نہ تھا کہ حضرت شیخ ثانی صاحب نے ختم بخاری کرائی اور انتہائی عاجزی وانکساری ندامت وشرمندگی کے ساتھ دعا کرائی ابھی حضرت درس گاہ ہی میں تھے کہ اچانک آسمان پر بادل چھا گیا بارش کی بوندیں شروع ہوئیں دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی اسی طرح ایک مرتبہ آپ کے گاؤں میں زبردست آگ لگی تھی اور عوام الناس کی ایک کثیر تعداد آگ بجھانے میں ناکام رہی اتفاقاً حضرت کا گزر وہاں سے ہورہا تھا تبھی حضرت شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مٹھی کنکری اٹھائی اور اور دعا پڑھ کر اس کی طرف پھینکا تو اس کے بعد آگ سرد پڑنی شروع ہوگئی ایسے ہی کئی اور واقعات ہیں جن سے آپ کے مستجاب الدعوات ہونے کا ثبوت ملتا ہے.
آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر غیروں کا ایمان لانا:
آپ انتہائی خلیق اور ہمدرد انسان تھے آپ کی عادات و اطوار سے ہزاروں لوگ متاثر تھے کیا مسلم اور غیر مسلم آپ سے ملنے والا ہر شخص آپ سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتا تھا اس کا واضح اور بین ثبوت یہ ہے کہ تقریباً 32غیر مسلموں کو اللہ نے آپ کے دست مبارک پر ھدایت نصیب فرمائی اور دیوبند کے باشندگان میں ایک شخص اپنے تمام اہل و عیال کے آپ کے ہاتھ پر مشرف باایمان ہوئے.
حضرت شیخ ثانی کے پسماندگان میں:
آپ نے اپنی زندگی تین شادیاں کیں پہلی شادی اپنے گاؤں(جگدیش پور) کے قریب بیساں گاؤں میں کی جن سے دو صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے عبدالحکیم ہیں اور دوسری شادی ضلع اعظم گڑھ ہی کے ایک گاؤں ننداؤں میں کی جن سے صرف ایک صاحبزادی ہیں بالترتيب ان دونوں کے انتقال کے بعد بنارس میں کی جن سے چھ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں ہیں جن میں سے تین صاحبزادے اور دونوں صاحبزادیاں کی شادی ہوچکی ہیں آپ کے صاحبزادے میں آپ کے علمی وارث وامین آپ کے لائق وفائق فرزند ارجمند حضرت مولانا عبدالبر صاحب قاسمی دامت برکاتہم استاذ حدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ ہیں اللہ آپ کو حقیقی طور پر حضرت کا جانشین بنائے.
بیت اللہ کی زیارت:
حضرت والا کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سر زمین سے انتہائی عقیدت و محبت تھی یوں بھی بیت اللہ اور بیت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لیے دل وجان سے عزیز ہوا کرتا ہے چناں چہ بیت اللہ اور بیت الرسول کے عشق سے سرشار ہو کر حضرت نے 1977 میں میرے مرحوم دادا جان کے ہمراہ بذریعہ پانی جہاز جس کا نام نور جہاں تھا بیت اللہ کی زیارت کے غرض سے روانہ ہوئے اور یہ آپ کی زندگی کا پہلا حج تھا اس کے علاوہ تقریباً 9حج اور کیے
میری حضرت شیخ ثانی سے شناسائی:
کئی وجوہات کی بنا پر میرا حضرت سے والہانہ اور عقیدت مندانہ تعلق تھا اول یہ کہ میرے والد گرامی کے استاذ خاص تھے دوسرے یہ کہ میرے چچا محترم کے خسر ابا تھے تیسرے یہ کہ آپ میرے مرحوم نانا جان کے خاص رفیقوں میں سے تھے ان وجوہات کی بناء پر آپ مجھ پر بہت زیادہ شفقت وعنایت فرماتے اور یہی عقیدت و محبت میری عقیدت مندی کا سبب بنتا گیا اور پچھلے چار سالوں سے حضرت کے درس مسلسلات اور ختم بخاری میں بیٹھنے کا موقع میسر آیا اس موقعے پر حضرت کا چہرہ اتنا پرنور ہوتا کہ میں کتاب کم اور حضرت کا چہرہ زیادہ دیکھتا اور میری دیوبند کی 6سالہ زندگی میں کبھی کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرا کہ حضرت شیخ صاحب دیوبند میں ہوں اور میری حضرت شیخ صاحب سے ملاقات نہ ہوئی ہو اور اکثر ملاقات کے درمیان یہ قصہ کہتے کہ "ابے عاصم تمہارے نانا مرحوم میرے بچپن کے بہت ہی خاص دوستوں میں سے تھے بچپن میں جب میں بیت العلوم میں پڑھتا تھا تو وہ میرے درسی ساتھی تھے بارہا میں تمہارے ننہال جایا کرتا تھا وہ بہت نشانے باز تھے میری ان سے بہت بے تکلفی تھی"
شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے آخری ملاقات:
ششماہی امتحان کا دور چل رہا تھا بعد المغرب میں اپنے ساتھی کے ہمراہ مسجد چھتہ کے قریب سے گزر رہا تھا ساتھی نے کہا کہ حضرت شیخ صاحب سے ملتے چلیں تو بغرض ملاقات حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے سلام بجا لائے پھر اندر داخل ہوئے تو حضرت نے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
 ابے عاصم کھانے میں کیا بنائے ہو؟ میں کہا کہ حضرت وہی جو مدرسے (دارالعلوم وقف ديوبند) میں ملتا ہے کہا کہ کیا ملتا ہے تو میں نے کہا کہ شام میں روزانہ گوشت رہتا ہے پر آج جمعہ ہے کابلی چنا ملا ہے تو حضرت نے جوابا ارشاد فرمایا کہ یہ میری پسندیدہ چیزوں میں ہے جاؤ جلدی لے آؤ تکمیل حکم میں جلدی سے کابلی چنا لے کر حاضر خدمت ہوا تو حضرت نے کھایا اور کہا کہ بہت اچھا ہے اور دعائیں دیں پھر کس کو معلوم تھا کہ یہ گوہر نایاب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا پھر ہمیشہ کے لیے محو خواب ہو جائیگا اور یہی میری زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوگئی اللہ تعالٰی حضرت کو جنت الفردوس میں اعلٰی علیین مقام کریم عطا فرمائے آمین.
حضرت شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے آخری ایام:
یوں تو ایک زمانے سے مختلف امراض میں مبتلا تھے جن بیماریوں نے آپ کو روز بروز نحیف وناتواں کر دیا، مگر آپ تھے کہ ان بیماریوں کو دبا اپنے فرض منصبی کا خیال کرتے اور طالبان علوم نبوی کو اپنی امانت سمجھتے ہوئےاور درس کی پابندی کو لازم سمجھتے اور سال رواں بھی ششماہی نصاب کو پورا کیا مگر آخری چند ایام میں پیٹ اور سانس کی تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا وفات سے ایک دن قبل(جمعرات) کو بہت زیادہ قے ہوئی اور جمعہ کو بعد نماز جمعہ دیوبند کے مشہور ڈاکٹر کیلاش چند ڈی کے جین کے اسپتال میں داخل کرایا گیا علاج و معالجہ سے طبیعت میں کچھ بحالی پیدا ہوئی اور وہاں موجود افراد سے آپ نے کچھ دیر گفتگو بھی کی اسکے تھوڑی دیر بعد آپ کے خادم خاص(ابوبکر) نے سورہ یسین کی تلاوت کی درمیان میں غلطی پر آپ نے نشاندہی بھی فرمائی اس کے چند لمحے بعد وقت موعود آن پڑا اور قرآنی فیصلہ(کل نفس ذائقة الموت ) حق اور سچ ثابت ہوگیا اور علم و عمل کا یہ سورج اپنی عمر کے 89 سال پورا کر کے 30 دسمبر 2016 سات بج کر دس منٹ پر اپنی زندگی کے وقت مقررہ پر غروب ہوگیا (انا للہ و انا الیہ راجعون) اللہ تعالٰی حضرت کو اپنی جوار رحمت میں خاص مقام عطا فرمائے اور آپ کی لحد مبارک کو نور سے منور فرمائے آمین ثم آمین.