اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: خدا مست مجاھد میں سے حضرت مولانا عبدالحئی چشتی نوراللہ مرقدہ بھی تھے ...

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 14 January 2017

خدا مست مجاھد میں سے حضرت مولانا عبدالحئی چشتی نوراللہ مرقدہ بھی تھے ...


تحریر: عبدالوہاب چشتی قاسمی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ کے افق پر بے شمار اھل علم اور اھل اللہ نمودار ہوئے جنکے چھوڑے ہوئے نقوش ہر دور میں ارباب فکر ونظر کی نکتہ شناس نگاہوں کو خیرہ کئے رہتے ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے، ع
         اس خطہ اعظم گڑھ پر مگر فیضان تجلی ہے اکثر
         جو ذرہ  یہاں سے اٹھتا ہے وہ  نیر اعظم ہوتا ہے
انھیں اھل اللہ اور اھل علم حضرات میں سے حضرت مولانا عبدالحئی چشتی نوراللہ مرقدہ بھی ہیں جو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کے سب سے محبوب اور کم سن خلیفہ تھے ،آپکی پیدائش ١٣٤٥ ھ مطابق 1926 ء میں اعظم گڑھ کے مردم خیز گاؤں انجان شہید میں ہوئی،ابتدائی تعلیم موضع خالص پور اعظم گڑھ کے اسلامیہ اسکول میں حاصل کی ،جہاں آپ کے والد ماجد مولوی رفیع احمد صاحب ھیڈ مدرس کی حیثیت سے تعلیمی خدمات انجام دے رہے تھے اور وہیں سےء ١٣٥٧ھ مطابق 1938 ء پرائمری درجہ پنجم کا امتحان پاس کیا ،چونکہ وہاں اسوقت اس سے زیادہ تعلیم کا نظم وہاں نہیں تھا اس لئے قصبہ جین پور کے مڈل اسکول میں داخلہ لے لیا ،جو انجان شہید سے تقریبا پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،مولانا چشتی رحمۃاللہ علیہ چونکہ طبعا بہت ذھین واقع ہوئے تھے اس لئے تمام اساتذہ نے ان پر خصوصی توجہ دی ،دو سال بعد وہاں سے اپنے نانیہال قصبہ بلریاگنج کے مڈل اسکول میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے مڈل کا اسکول پاس کیا ،اب مولانا چشتی رحمۃاللہ علیہ کے پاس دو راستے تھے ،عربی کی تعلیم حاصل کریں یا انگریزی کی تعلیم میں زور آزمائی کریں ،چونکہ حضرت کے والد ماجد ایک ماہر اور تجربہ کار مدرس تھے اس لئے مولانا چشتی رحمۃاللہ علیہ کی مرضی معلوم کرنا بہتر سمجھا ،کیونکہ تعلیم کے حصول میں قلبی میلان کا بہت ہی دخل ہوتا ہے ،عام طور پر ایسا علم جس کی طرف دل مائل نہ ہو نفع بخش نہیں ہوتا-
جب والد ماجد نے انکا نظر یہ معلوم کیا تو انھوں نے عربی تعلیم حاصل کرنے کا شوق ظاہر کیا ،آپ کے والد نے جو کہ خود شب زندہ دار بزرگ اور اخلاص و للہیت کے پیکر تھے انکی خواہش کے مطابق ١٤٦١ھ مطابق 1942 ء میں جامع العلوم جین پور میں داخل کرادیا ،اسوقت وہاں مولانا افضال الحق صاحب قاسمی ،مولانا کامل انجان شہیدی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ،عربی تعلیم چونکہ مولانا کے رجحان کے عین موافق تھی اس لئے بڑی جانفشانی سے تعلیم کی تحصیل میں منہمک ہو گئے ،
نحو ،صرف ،فقہ کی ابتدائی تعلیم یہیں سے حاصل کی متوسطات کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مولانا ابوالوفاء شاہ جہاں پوری رحمۃاللہ کے کہنے پر مدرسہ شاہی مراد آباد میں داخل ہو گئے ،اسوقت یہ مدرسہ مولانا عبد الحق مدنی نوراللہ مرقدہ اور مولانا سید محمد میاں صاحب رحمۃاللہ کی علمی سرگرمیوں کی وجہ سے مینارہ نور بنا ہوا تھا ،مولانا چشتی رحمۃاللہ کو شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ سے یک گونہ تعلق تھا ،مولانا عبد الحق مدنی نوراللہ مرقدہ کی صحبت نے جو کہ خود بھی حضرت شیخ الاسلام رحمۃاللہ کے عاشق تھے ان کے تعلق کو عشق میں تبدیل کر دیا ،
اور عین ھنگامہ آزادی میں جب کہ ٹرینوں کا لوٹنا اور مسافروں کو قتل کرنا معمول کھیل تھا،دیوبند کے لئے رخت سفر باندھا ،اور ١٣٦٧ھ مطابق 1947 ء میں داخلہ لیکر تعلیم شروع کردی ،اور ١٣٧٠ ھ مطابق 1950 ء میں فراغت حاصل کی -
     آپ بلند پایہ کے خطیب اور مقرر بھی تھے لیکن عام طور پر تقریر وغیرہ سے دور ہی رہا کرتے تھے اگر کبھی تقریر کی نوبت آتی تو بڑی مدلل اور مفصل گفتگو کرتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس موضوع پر آپنے ہفتوں تیاری کی ہے ،آپ کی تحریر بھی بڑی عمدہ اور دلکش تھی ،ان خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر دارالعلوم میں بہت جلد مقبول ہو گئے ،اور جمیعۃ الطلبۃ کے صدر منتخب ہو گئے ،پھر وہ تاریخی واقعہ پیش آیا جس نے حضرت چشتی رحمۃاللہ کے دل میں ھلچل پیدا کردی ،ہوا یوں کہ مدنی لائبریری جو کہ طلباء یوپی کے لئے خاص تھی آپ اپنے وسعت ظرف کی بناء پر یہ چاھتے تھے کہ تمام طلبہ اس سے فائدہ حاصل کریں ،اسی وجہ سے یوپی کے طلبہ آپ کی مخالفت کرنے لگے ، آپ بھی اصابت رائے کی بناء پر بضد ہو گئے ،لڑکوں کا یہ اختلاف طول پکڑنے لگا ،اور سنگین صورت اختیار کرگیا ،تو اسکی خبر شیخ الاسلام  رحمۃاللہ علیہ کو دی گئی جو کہ اسوقت ناظم تعلیمات تھے ،حضرت مدنی رحمۃاللہ علیہ نے دارالحدیث میں آتے ہی یہ اعلان کیا کہ کون ہے عبدالحئی کھڑا ہوجائے ،چنانچہ آپ کھڑے ہو گئے اور تمام مسئلے سے حضرت کو آگاہ کیا ،جب آپ کو تنازع کی حقیقت معلوم ہو گئی تو حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کو سخت زجرو توبیخ کی اور ان پر اک نظرعمیق ڈالی جس کے بارے میں صوفیا کا کہنا ہیکہ
        ع      یہ وہ مے ہے جو نظروں سے پلائی جاتی ہے
    میری آنکھوں میں چشم مست ساقی کا وہ عالم ہے
        نظر بھر کر جسےبھی دیکھ لوں میخوار ہوجائے
خدا جانے اس نظر میں کیا تاثیر تھی کہ حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کی زندگی میں انقلاب آگیا اور فی الفور طلبہ کی سیاست سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا ،شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ کی چوکھٹ پر حاضر ہوئے اور معافی چاہی حضرت نے بڑی بشاشت سے انھیں معاف کیا اور پندونصائح سے نوازا اور اپنا متبرک لباس بھی عطا کیا  اور اس واقعہ کے بعد حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ نے اتنا سخت مجاھد کیا کہ صرف دو سال کی قلیل مدت میں اسی تاریخی دارالحدیث میں جہاں دو سال قبل حضرت شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ نے سخت زجرو توبیخ کی تھی ١٣٥٢ھ مطابق 1952 ء میں ختم بخاری شریف کے موقع پر خلافت کا اعلان کیا ،
جن حضرات کو شیخ الاسلام رحمۃاللہ علیہ کا معمول معلوم تھا کہ وہ سخت مجاھدہ وریاضت کے بعد خلافت عطا کرتے ہیں انھیں بڑا تعجب ہوا
 یہ اللہ تعالی کا بڑا فضل اور حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کی کاوشوں اور انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انکو خلافت اتنی کم مدت میں تفویض کی گئی آپ چونکہ فطرۃ بڑے ہی ذھین تھے اس لئے منطق،فلسفہ وغیرہ سے بڑا زبردست لگاؤ تھا -
فراغت کے ایک سال بعد آپ نے دارالعلوم ہی سے معقولات میں تخصص کیا ،حضرت علامہ ابراھیم رحمۃاللہ علیہ جو کہ معقولات کے بڑے امام تھے آپ انکے بڑے شیدائی تھے اور ہر وقت انکی تعریف میں رطب اللسان رہا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اپنے اساتذہ کے علوم ومشرب کی تشریح جتنے عمدہ طریقے سے آپ کر سکتے تھے دوسرا نہیں کر سکتا تھا ،
علوم ظاہرہ وباطنہ سے فراغت کے بعد آپ نے تدریسی خدمت شروع کردی -
١٣٧٤ ھ مطابق 1954 ء میں دارالعلوم اشرفیہ راندیر میں استاذ حدیث مقرر ہوئے ،ایک سال کے بعد یہاں سے مدرسہ عربیہ وساڑا( سوراسٹر )چلے گئے، پھر وہاں سے علاحدہ ہوکر ١٣٧٦ھ مطابق 1956 ء دارالعلوم معینیہ اجمیر چلے گئے، اور وہاں تدریس کے ساتھ مثنوی مولانا روم کا عوامی درس بھی شروع کیا جو بہت مقبول ہوا ،تین سال وہاں رہ کر١٤٧٨ھ مطابق 1958ء میں پنڈوا ضلع ھگلی میں صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہو گئے ،اس مدرسے میں حضرت کا قیام ہر جگہ سے طویل رہا ،١٤٧٥ھ مطابق 1965 ء میں ھگلی اور اسکے اطراف میں زبردست فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے گھر لوٹ آئے ،اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے ،پھر ١٤٨٨ھ مطابق 1968 ء میں حضرت مولانا سید اسعد مدنی نوراللہ مرقدہ کے ایماء پر مدرسہ قرآنیہ گونڈہ میں بحیثت مہتمم تشریف لے گئے اور دو سال کی قلیل مدت میں اپنے حسن انتظام سے اس مدرسے کو ترقی کی شاہراہ پر کھڑا کردیا ،اسکے بعد شیراز ھند جونپور میں ایک مدرسہ کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حضرت مولانا مسلم صاحب بمہوری ،جناب عین الحق صاحب ،اور محمود حسن جونپوری کے مشورے سے جامعہ حسینیہ کے نام سے شھر جونپور کی ایک قدیم شاہی مسجد لال دروازہ میں مدرسے کی بنیاد رکھی اور آخری عمر تک اس کے مہتمم بھی رہے فی الحال یہ مدرسہ حضرت مولانا توفیق صاحب قاسمی دامت برکاتھم کی زیر نگرانی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ،اس کے علاوہ آپ نے اپنے شیخ کے حکم سے موضع انجان شہید میں ایک مدرسہ کی بنیاد بھی ڈالی ،بقول حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کے والد بزرگوار یعنی میرے پردادا مولانا محمد رفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ع
        بحکم شیخ جب تو نے مدرسہ کی بناء ٹھانی
            کہا لبیک  اکثر  نے ، مگر اکثر نے نہ مانی
     رکاوٹ سے کسی کے بھی تیرے ھاتھوں نہ بل آیا
      تکا دل میں نہ پہونچی نہ ارادوں میں خلل آیا
       تیرے پختہ ارادے سب کے سب زیر عمل آئے          
تیری نیت کی سچائی سے سب میں پھول وپھل آئے

اپنے شیخ کے نام پر اس جگہ کا نام حسین آباد رکھا دارالعلوم حسین آباد انجان شہید انھیں کا لگایا ہوا پودا ہے جس کے برگ وبار آج پورے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں ،
ایک مرتبہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کی میرے قدم حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کی نششت گاہ کی طرف اٹھ گئے ٹھوڑی دیر مجلس کی جگہ بیٹھا رہا اور اس وقت دل پر جو گزری وہ لفظ وبیاں کے ذریعہ ممكن نہیں ،میں سوچ رہا تھا کہ جس جگہ پر ایک مدت گزرجانے کے بعد سکینت و طمانیت،و انوار وبرکات کا یہ عالم ہے وہاں اس وقت کیا عالم ہوگا جب یہ مجلس زندہ و تابندہ تھی ،ان پرخاروادیوں کی حقیقت کو مجھ جیسے طالب علم کیا جانے ان سے تو وہیں لوگ آشنا ہونگے جو کہ دریاے حقیقت کے غواض اور ہوں اور عملی تجربات کے مواج ہوں ،اور ایک عینی مشاھد کی طرح پوری خود اعتمادی کے ساتھ یہ بیان کرے کہ    ع
    ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ
                                          ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
       لیکن چونکہ دادا پوتے کا ایک قلبی رشتہ ہوتا ہے اس رشتے کی بنیاد پر کم علم ہونے کے باوجود میں نے کچھ سپرد قرطاس کرنے کی کوشش کی ہے
اگر یہ رشتہ نہ ہوتا تب بھی ایک خدا مست مجاھد ،ایک مقدس شخصیت کے متعلق لکھنا باعث ثواب اور قابل فخر سمجھتا ،اور انگلی کٹواکر شہیدوں میں نام لکھوانے والی کہاوت پر عمل کرتا ،اس لئے کے ہم ان کے پیروں کے گرد کے برابر بھی نہیں ہیں اور جو کچھ بھی ہیں ان ہی بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہیں ،حضرت چشتی رحمۃاللہ علیہ کے انتقال کے موقع پر حضرت مولانا افضال الحق صاحب قاسمی نے ایک جملہ کہا تھا کہ میں نے سوچا تھا کہ میرا یہ شاگرد میرے انتقال کے بعد میرے لئے بخشش ورفع درجات کی دعا کریگا لیکن وہ تو مجھ سے پہلے ہی داعی اجل کو لبیک کہ بیٹھا ،
                من احب لقاء الله احب الله لقاءه
جو لوگ اللہ تبارک و تعالی سے جلدی ملنا پسند کرتے ہیں اللہ تعالی بھی اس سے جلدی ملنا پسند کرتے ہیں کہ میرا محبوب بندہ جلد سے جلد میرے پاس آجا ئے ،
ان بزرگوں نے ہمارے لئے اخلاص وللہیت ،تقوی و طہارت ،علم وعمل کی اتنی شاندار اور تابناک مثالیں چھوڑی ہیں کہ انکا تصور کرنے کے لئے آنکھیں بند کرنی پڑتی ہے اور دماغ پر زور دے کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ع
         ہاں دکھادے اے تصور پھر وہ صبح وشام تو
         لوٹ  پیچھے  کی طرف  اے گردش ایام تو
٢٣ذیقعدہ مطابق 28 نومبر کو جامعہ حسینیہ لال دروازہ جونپور تشریف لے گئے ،٢٧ذیقعدہ مطابق 2 دسمبر کو اپنی ذاتی ضرورت کی بناء پر بنارس تشریف لے گئے ،مولانا منہاج صاحب جمیعۃ علماء یوپی کے یہاں قیام تھا ،شام کو بخار آیا ،ڈاکٹر شمیم صاحب نے دوا دی رو بصحت ہو گئے ،تیسرے دن بھی طبیعت مزید بہتر ہو گئی ،اگلے دن جمعہ کو ضعف ونقاہت کا غیر معمولی اثر رہا ،شام کو یکایک طبیعت دگرگوں ہو گئی ،١ذولحجۃ ١٣۹۵ھ مطابق 5 دسمبر 1975 ء کو داعی اجل کو لبیک کہ گئے
                       🔷انا لله وانا الیہ راجعون 🔷
اللہ پاک لحد مبارک کو نور سے منور کرے آمیــــن