اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ایک ایسی شخصیت جسے زمانہ یاد رکھے گا...

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 14 January 2017

ایک ایسی شخصیت جسے زمانہ یاد رکھے گا...


تحرير: محمد عاصم اعظمی
متعلم حجتہ الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف ديوبند
 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ملئے اس شخص سے جو عدم ہو وے
ناز جس کو اپنے کمال پر بہت کم ہووے
ہوکلمہ سخن تو دراز یک خلق
خاموش ہو وے تو ایک عالم بولے
                                         میر تقی میر

اس دار فانی میں انسان وجود پذیر ہوتا ہے اور متعینہ وقت گزار کر داربقا کی طرف رحلت کر جاتا ہے مگر ان میں کچھ شخصیات وأفراد ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو زمانہ یاد کیے بغیر نہیں رہ سکتا وہ اپنے افکار ونظرات، اوصاف وکمالات،تواضع وانکساری، علم و عمل،زہد وتقوی، خلوص و للہیت، کی بنا پر ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ وتابندہ رہتے ہیں وہ اپنے اوصاف حمیدہ اور صفات جمیلہ کی بنا پر یاد گار زمانہ اور تقلید ہم اور آپ ہوتے ہیں انہیں ضرب الامثال شخصیات میں ایک نام محدث دارالعلوم معروف بہ شیخ ثانی شیخ عبدالحق اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہےجنکی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ہرہر زاویہ لائق عمل اور قابل تقلید معلوم ہوتا ہے
شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت آپ کے وطن مالوف مسکن معہود مردم خیز سر زمین ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ پھولپور کے قریب جگدیش پور گاؤں میں 6/رجب بروز دوشنبہ 1345ھجری بمطابق 1928 عیسوی کو ہوئی اور جب اپنی عمر کے چھٹے سال میں قدم رکھا تو والد گرامی کا دست شفقت سر سے اٹھ چکا تھا والد کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے بعد آپ کی کفالت وپرورش جس کو عبقری زمانہ یگانہ روزگار حضرت مولانا محمد مسلم صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ جن کی آپ کے گاؤں میں سسرال تھی اپنے سر لیا.
تعلیم و تعلم
آپ نے ابتدائی سے متوسط درجہ تک کی تعلیم اپنے آبائی وطن کے معروف ومشہور ادارہ مدرسہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ سے حاصل کی بعد ازاں دارالعلوم مئو میں داخل ہو کر(محدث جلیل یکتائے زمانہ ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ) اور وقت کے ممتاز اور مایہ ناز علما کرام سے اپنی علمی تشنگی کو بجھایا اور درجہ موقوف علیہ کو پورا کیا پھر امت مسلمہ ھند کے محور قلب و نظر ازہر ھند دارالعلوم دیوبند کے لیے رخت سفر کو باندھا داخلہ ہو جانے کے بعد دورہ حدیث شریف کی دو اہم ترین کتاب بخاری دونوں جلد اور ترمذی شریف جلد اول شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد فیض آبادی ثم مدنی نوراللہ مرقدہ سے پڑھی اور ترمذی نصف ثانی شمائل سنن ابی داؤد جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاوی نوراللہ مرقدہ سے پڑھی. ترمذی شریف جلد ثانی اور شمائل ترمذی شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہی سے سنن نسائی طحاوی اور مؤطا امام مالک فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی سے ابن ماجہ حضرت مولانا ظہور حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ اور مؤطا امام محمد مولانا جلیل احمد رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھی سند فراغت 1368ھجری میں حاصل کیا اور آپ کو لگ بھگ ہندوستان کے سبھی محدثین اور کبار علماء سے اجازت حدیث حاصل تھی بالخصوص عبقری زمانہ اسیر مالٹا شیخ الاسلام حسین احمد مدنی اور حکیم السلام قاری محمد طیب قاسمی اور شیخ الحدیث شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہم سے اجازت حاصل تھی.
تدریسی دور کا آغاز:
فراغت کے فوراً بعد آ پ نے بحیثیتِ مدرس مدرسہ مطلع العلوم (بنارس) میں حدیث شریف کا درس دینا شروع کر دیا پھر اس کے بعد مدرسہ حسینہ گریڈیہ میں 9/ماہ تک درس دیا اس کے بعد دارالعلوم مئو میں بحیثیت مدرس حدیث شریف کا درس دیا اور آپ بیک وقت سولہ سولہ کتابوں کا درس دیا کرتے تھے پھر 1402 ہجری مطابق 1982 کو ازہر ھند دارالعلوم دیوبند میں بطور محدث بلائے گئے تا وفات حدیث کے درس میں مشغول رہے یوں تو آپ کی تدریسی خدمات تقریباً 67 سال کو محیط ہے جس میں نصف عرصہ دارالعلوم میں گذارا کرشمہ یہ کہ تدریس کے اول ہی دن سے آپ بخاری شریف کا درس دیتے رہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خالق دو عالم نے آپ کو خدمت حدیث ہی کے لیے وجود بخشا تھا
بیعت وارشاد میں آپ کا تعلق:
یوں تو آپ بچپن ہی سے نیک طبیعت، پاک طینت عمدہ خصلت تھے مگر آپ نے اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کی خاطر اپنے استاذ خاص شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا اور انکے انتقال کے بعد قطب وقت شیخ الحدیث حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور بیعت وخلافت بھی حاصل کی
دعاء مستجاب کے واقعات:
حضرت شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی امتیازات و خصوصیات میں ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ آپ مستجاب الدعوات تھے بارہا یہ دیکھنے کا موقع میسر آیا کہ جب کوئی کٹھن گھڑی یا سنگین مسئلہ درپیش ہوتا تو دعا کے لیے سب کی نظریں آپ کی جانب مرکوز ہوتی اور کثرت مشاہدات سے یہ تجربہ بھی حاصل ہوا کہ آپ جب دعا فرماتے تو وہ قبول ہوجاتی آپ کے انتقال سے چند سال پہلے ایسا ہوا کہ دیوبند میں بارش نہیں ہو رہی تھی عوام و خواص سب کے سب یکساں طور پر پریشان تھے کئی بار صلوٰۃ الاستسقاء بھی پڑھی گئی باوجود اس کے آسمان کی حرارت اپنے حال پر باقی رہی اور آسمان پر ابر کا نام ونشان نہ تھا کہ حضرت شیخ ثانی صاحب نے ختم بخاری کرائی اور انتہائی عاجزی وانکساری ندامت وشرمندگی کے ساتھ دعا کرائی ابھی حضرت درس گاہ ہی میں تھے کہ اچانک آسمان پر بادل چھا گیا بارش کی بوندیں شروع ہوئیں دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی اسی طرح ایک مرتبہ آپ کے گاؤں میں زبردست آگ لگی تھی اور عوام الناس کی ایک کثیر تعداد آگ بجھانے میں ناکام رہی اتفاقاً حضرت کا گزر وہاں سے ہورہا تھا تبھی حضرت شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مٹھی کنکری اٹھائی اور اور دعا پڑھ کر اس کی طرف پھینکا تو اس کے بعد آگ سرد پڑنی شروع ہوگئی ایسے ہی کئی اور واقعات ہیں جن سے آپ کے مستجاب الدعوات ہونے کا ثبوت ملتا ہے.
آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر غیروں کا ایمان لانا:
آپ انتہائی خلیق اور ہمدرد انسان تھے آپ کی عادات و اطوار سے ہزاروں لوگ متاثر تھے کیا مسلم اور غیر مسلم آپ سے ملنے والا ہر شخص آپ سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتا تھا اس کا واضح اور بین ثبوت یہ ہے کہ تقریباً 32غیر مسلموں کو اللہ نے آپ کے دست مبارک پر ھدایت نصیب فرمائی اور دیوبند کے باشندگان میں ایک شخص اپنے تمام اہل و عیال کے آپ کے ہاتھ پر مشرف باایمان ہوئے.
حضرت شیخ ثانی کے پسماندگان میں:
آپ نے اپنی زندگی تین شادیاں کیں پہلی شادی اپنے گاؤں(جگدیش پور) کے قریب بیساں گاؤں میں کی جن سے دو صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے عبدالحکیم ہیں اور دوسری شادی ضلع اعظم گڑھ ہی کے ایک گاؤں ننداؤں میں کی جن سے صرف ایک صاحبزادی ہیں بالترتيب ان دونوں کے انتقال کے بعد بنارس میں کی جن سے چھ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں ہیں جن میں سے تین صاحبزادے اور دونوں صاحبزادیاں کی شادی ہوچکی ہیں آپ کے صاحبزادے میں آپ کے علمی وارث وامین آپ کے لائق وفائق فرزند ارجمند حضرت مولانا عبدالبر صاحب قاسمی دامت برکاتہم استاذ حدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ ہیں اللہ آپ کو حقیقی طور پر حضرت کا جانشین بنائے.
بیت اللہ کی زیارت:
حضرت والا کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سر زمین سے انتہائی عقیدت و محبت تھی یوں بھی بیت اللہ اور بیت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لیے دل وجان سے عزیز ہوا کرتا ہے چناں چہ بیت اللہ اور بیت الرسول کے عشق سے سرشار ہو کر حضرت نے 1977 میں میرے مرحوم دادا جان کے ہمراہ بذریعہ پانی جہاز جس کا نام نور جہاں تھا بیت اللہ کی زیارت کے غرض سے روانہ ہوئے اور یہ آپ کی زندگی کا پہلا حج تھا اس کے علاوہ تقریباً 9حج اور کیے
میری حضرت شیخ ثانی سے شناسائی:
کئی وجوہات کی بنا پر میرا حضرت سے والہانہ اور عقیدت مندانہ تعلق تھا اول یہ کہ میرے والد گرامی کے استاذ خاص تھے دوسرے یہ کہ میرے چچا محترم کے خسر ابا تھے تیسرے یہ کہ آپ میرے مرحوم نانا جان کے خاص رفیقوں میں سے تھے ان وجوہات کی بناء پر آپ مجھ پر بہت زیادہ شفقت وعنایت فرماتے اور یہی عقیدت و محبت میری عقیدت مندی کا سبب بنتا گیا اور پچھلے چار سالوں سے حضرت کے درس مسلسلات اور ختم بخاری میں بیٹھنے کا موقع میسر آیا اس موقعے پر حضرت کا چہرہ اتنا پرنور ہوتا کہ میں کتاب کم اور حضرت کا چہرہ زیادہ دیکھتا اور میری دیوبند کی 6سالہ زندگی میں کبھی کوئی ایسا ہفتہ نہیں گزرا کہ حضرت شیخ صاحب دیوبند میں ہوں اور میری حضرت شیخ صاحب سے ملاقات نہ ہوئی ہو اور اکثر ملاقات کے درمیان یہ قصہ کہتے کہ "ابے عاصم تمہارے نانا مرحوم میرے بچپن کے بہت ہی خاص دوستوں میں سے تھے بچپن میں جب میں بیت العلوم میں پڑھتا تھا تو وہ میرے درسی ساتھی تھے بارہا میں تمہارے ننہال جایا کرتا تھا وہ بہت نشانے باز تھے میری ان سے بہت بے تکلفی تھی"
شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے آخری ملاقات:
ششماہی امتحان کا دور چل رہا تھا بعد المغرب میں اپنے ساتھی کے ہمراہ مسجد چھتہ کے قریب سے گزر رہا تھا ساتھی نے کہا کہ حضرت شیخ صاحب سے ملتے چلیں تو بغرض ملاقات حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے سلام بجا لائے پھر اندر داخل ہوئے تو حضرت نے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
 ابے عاصم کھانے میں کیا بنائے ہو؟ میں کہا کہ حضرت وہی جو مدرسے (دارالعلوم وقف ديوبند) میں ملتا ہے کہا کہ کیا ملتا ہے تو میں نے کہا کہ شام میں روزانہ گوشت رہتا ہے پر آج جمعہ ہے کابلی چنا ملا ہے تو حضرت نے جوابا ارشاد فرمایا کہ یہ میری پسندیدہ چیزوں میں ہے جاؤ جلدی لے آؤ تکمیل حکم میں جلدی سے کابلی چنا لے کر حاضر خدمت ہوا تو حضرت نے کھایا اور کہا کہ بہت اچھا ہے اور دعائیں دیں پھر کس کو معلوم تھا کہ یہ گوہر نایاب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا پھر ہمیشہ کے لیے محو خواب ہو جائیگا اور یہی میری زندگی کی آخری ملاقات ثابت ہوگئی اللہ تعالٰی حضرت کو جنت الفردوس میں اعلٰی علیین مقام کریم عطا فرمائے آمین.
حضرت شیخ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے آخری ایام:
یوں تو ایک زمانے سے مختلف امراض میں مبتلا تھے جن بیماریوں نے آپ کو روز بروز نحیف وناتواں کر دیا، مگر آپ تھے کہ ان بیماریوں کو دبا اپنے فرض منصبی کا خیال کرتے اور طالبان علوم نبوی کو اپنی امانت سمجھتے ہوئےاور درس کی پابندی کو لازم سمجھتے اور سال رواں بھی ششماہی نصاب کو پورا کیا مگر آخری چند ایام میں پیٹ اور سانس کی تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا وفات سے ایک دن قبل(جمعرات) کو بہت زیادہ قے ہوئی اور جمعہ کو بعد نماز جمعہ دیوبند کے مشہور ڈاکٹر کیلاش چند ڈی کے جین کے اسپتال میں داخل کرایا گیا علاج و معالجہ سے طبیعت میں کچھ بحالی پیدا ہوئی اور وہاں موجود افراد سے آپ نے کچھ دیر گفتگو بھی کی اسکے تھوڑی دیر بعد آپ کے خادم خاص(ابوبکر) نے سورہ یسین کی تلاوت کی درمیان میں غلطی پر آپ نے نشاندہی بھی فرمائی اس کے چند لمحے بعد وقت موعود آن پڑا اور قرآنی فیصلہ(کل نفس ذائقة الموت ) حق اور سچ ثابت ہوگیا اور علم و عمل کا یہ سورج اپنی عمر کے 89 سال پورا کر کے 30 دسمبر 2016 سات بج کر دس منٹ پر اپنی زندگی کے وقت مقررہ پر غروب ہوگیا (انا للہ و انا الیہ راجعون) اللہ تعالٰی حضرت کو اپنی جوار رحمت میں خاص مقام عطا فرمائے اور آپ کی لحد مبارک کو نور سے منور فرمائے آمین ثم آمین.