اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: May 2020

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 31 May 2020

سوشل ڈسٹینسنگ کی شرائط کے ساتھ کھولے جائیں مذہبی مقامات ، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی کا انتظامیہ سے مطالبہ!

سمیر چودھری
_________
دیوبند(آئی این اے نیوز 31/جون 2020)حکومت و انتظامیہ کی جانب سے لاک ڈاؤ ن میں نرمی دیئے جانے کے بعد اب عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے انتظامیہ سے مطالبہ کیاہے کہ تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کو سوشل ڈسٹینسنگ کی انہیں شرائط کے ساتھ کھولنے کی اجازت دی جائے ،جس کے تحت بازارکھولنے اور شادی بیاہ کی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
آج دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی نے انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ جب لاک ڈا ؤن میں مختلف شرائط کے ساتھ بازار کھولے جاسکتے ہیں اور شادی بیاہ کی تقاریب ہوسکتی ہیں تو انہیں شرائط کے ساتھ تمام مذاہب کی عبادتگاہوں کو بھی کھولاجاسکتاہے۔

انہوںنے کہاکہ مسجد میں نماز ادا کرنے میں چند منٹ ہی لگتے ہیں اسلئے سوشل ڈسٹینسنگ کے ساتھ مساجد اور دیگر مذاہب کی عبادتگاہوں کو کھولنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔

انہوںنے کہاکہ گزشتہ دو ماہ سے تمام مذاہب کے لوگ اپنی اپنی عبادتگاہوں میں جاکر عبادت نہیں کرسکے ہیں۔ جبکہ اس دوران شب برأت،ماہ رمضان، الوداع جمعہ اور عید الفطر جیسے تہوار بھی آئے ہیں، مگرلوگوں نے ان مواقع پر بھی حکومت و انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں میں ہی عبادت کی۔

انہوںنے کہاکہ اب اگر انتظامیہ نے بازاروں کو کھولنے کی اجازت دی ہے تو انہیں شرائط اور سوشل ڈسٹینسنگ کے ساتھ مذہبی مقامات کو بھی کھولنے کی اجازت دینی چاہئے، تاکہ لوگ عبادتگاہوں میں جاکر عبادت کرسکیں۔

کرنے کے کام ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی

کرنے کے کام


ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی

بہت سارے لوگ سوال کرتے ہیں کہ برادران وطن میں دعوت کا کام کرنے کے لیے کچھ کتابوں کے نام بتائیے ۔ اس سلسلے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ دعوت دین کا کام پوری توجہ چاہتا ہے ۔یہ کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ آپ نے کھیت میں گیہوں کے بیج بکھیر دیا اور دو ماہ بعد کھیتی لہلہانے لگی ۔حالانکہ اس میں بھی وقت پر کھاد پانی اور نگرانی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دعوت کا کام قرآن اور کتابیں تقسیم کرکے نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا ۔ اس کی ضرورت بس ایک حد تک ہوا کرتی ہے تاکہ لوگ اس کام سے غافل نہ ہوں ۔ نومسملوں کے اسلام قبول کرنے کے واقعات پڑھیۓ ۔سینکڑوں نہیں ہزاروں میں چند افراد ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ میں فلاں کتاب یا قرآن پڑھ کر مسلمان ہوا ۔ وہ بھی ایک فیکٹر ہے ورنہ اکثر لوگ یہی کہتے ہوۓ ملیں گے کہ میں اپنے دوست کے برتاؤ سے , اس کے اخلاق سے , مصیبت کے وقت میں فلاں کے کام آنے سے متأثر ہوا اور پھر اسلام کی جانب متوجہ ہوا اور غور کرتے کرتے اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ہی دین حق ہے ۔
آپ کے سوال کے جواب میں میرا جو پچیس تیس سال کا تجربہ ہے وہ  شیئر کرنا چاہوں گا کہ
1۔عجلت میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے ۔
2۔ بیک وقت سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں پر کام نہ کیجیے کہ کہنے کو ہم نے دو ہزار اور پانچ ہزار لوگوں کو لٹریچر پہنچادیا اور دوچار سے بھی کوئی رابطہ اور تعارف نہیں ہے ۔
3۔ آپ سو پچاس افراد کے درمیان ہی رہیے اور اپنے قرب وجوار ہی میں رہیے ۔ ان کے ساتھ  اپنے حسن سلوک اور حسن اخلاق سے بہتر سے بہتر معاملہ کیجیے اور جوہرِ قابل کو تلاش کرتے رہیے ۔چند لوگوں سے خصوصی تعلق قائم کرکے ان کے سچے ہمدرد بن جائیے کہ وہ بھی آپ سے گھل مل جائیں ۔ اب موقع بموقع آپ کو حکیم کی طرح سے سلوک کرنا ہوگا ۔ کس وقت کیا برتاؤ کیا جاۓ ۔ اس سے امید ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ ان میں بھی مختلف مزاج اور صلاحیت کے لوگ ہوں گے جو اپنی صلاحیت کے اعتبار سے مختلف مرحلوں تک آپ کا ساتھ دیں گے اور یہی آپ کی کامیابی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ آپ کے معاون و مددگار بن جائیں ۔ہر کوئی مسلمان نہیں ہوجاۓگا ۔ یہ تو خالص اللہ کی توفیق پر ہے ۔ البتہ بڑی تعداد میں آپ کے حمایتی نہ سہی کم از کم مخالف نہ ہوں تو یہ اپنے آپ میں خود بہت بڑا اچیومنٹ ہے ۔
4۔ دعوت دین کے کام کے لیے کتابیں پڑھوانے کے بجاۓ اپنے وجود کا اپنے عمل کا مطالعہ کروانا چاہیے اور اس سے زیادہ مؤثر کوئی دوسری چیز نہیں ہے ۔
5۔ لہذا اپنی آبادی میں , اپنے آس پاس رہنے والے تمام انسانوں کے سامنے حسن عمل کے ذریعہ دعوت پیش کیجیے ۔ان کے کام آیۓ اور اپنے تمام امور کو اسلام کے حکم کے مطابق انجام دیجیے جس کو دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ مسلمانوں کا راستہ اختیار کرنے میں سکون اور راہ نجات ہے ۔
مثلا ہمارے سماج کا بہت بڑا مسئلہ اونچ نیچ چھوت چھات اور ذات برادری کی بنیاد پر ہمار ےبرتاؤ کا ہے ۔ ہندووں میں زیادہ ہے اور مسلمانوں میں کم ہے ۔ جب کہ اسلام کی تعلیمات میں بالکل نہیں ہے ۔ اب اگر مسلمان اپنے عمل سے اسلام کی تعلیمات کا نمونہ پیش کریں گے تو غیر مسلم لازماََ متأثر ہوں گے اور اگر آپ کا معاشرہ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے اور کتاب پر کتاب بانٹتا رہے تو یہ عمل منافقوں جیسا عمل ہوجاتا ہے ۔ لم تقولون مالا تفعلون
یا شادی بیاہ ہمارے سماج کا سنگین مسئلہ ہے ۔ غیر مسلم سماج کا بھی اور مسلم سماج کا بھی ۔ جب کہ دین اسلام اس کا آسان حل پیش کرتا ہے ۔ اب ہم تو اپنے عمل میں کوئی تبدیلی نہ لائیں اور لٹریچر بانٹتے پھریں کہ اسلام یہ کہتا ہے اور اسلام وہ کہتا ہے تو کتابوں میں تو دنیا کا ہر مذہب یہ اور وہ کہتا ہے ۔ اصل بات تو عمل کی ہے ۔ غیر مسلم دیکھتا ہے کہ غریب مسلمان نہایت سادگی کے ساتھ نکاح کرلیتا ہے مگر وہ اسلامی تعلیم کی اطاعت کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ غربت کی مجبوری کی وجہ سے کرتا ہے ۔ وہ یہ دیکھ کر کہتا ہے کہ ہمارے یہاں بھی بہت آسان ہے ۔آریہ سماج کے مندر میں جائیے دولہا دولہن ایک دوسرے کو برمالا پہنادیتے ہیں ۔ ہوگئی شادی ۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ مگر جو دولت مند ہیں تو جو خرافات ہندووں میں ہے وہی خرافات مسلمانوں میں ہے ۔ بڑے بڑے دین دار ہیں ۔اسلام کے علمبردار ہیں لیکن جب عمل کا وقت آیا تو یہ مجبوری , وہ مجبوری , یہ تاویل ,وہ تاویل اور صرف ڈیکوریشن پر بیس لاکھ اور پچاس لاکھ خرچ ہے تو ہندو کہتا ہے کہ یہی کام تو ہمارے سیٹھ لوگ کرتے ہیں وہی مسلمان سیٹھ کرتے ہیں تو آخر فرق کیا رہ جاتا ہے ۔ اب آپ وہاں خدا اور آخرت اور جنت جہنم کا فلسفہ پیش کرتے رہیے ۔ کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔
امیر ہوں کہ غریب صرف اور صرف اپنے عمل سے اسلام کا صاف ستھرا نمونہ پیش کیجیے ۔ اسی سے اسلام ماضی میں پھیلا ہے ۔ حال میں بھی جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں وہ عمل سے متأثر ہوکر ہی اسلام قبول کر رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا ۔
بصورت دیگر جو بدتر حال ہمارا ہے اس میں اضافہ ہی ہوگا ۔ ہم ہوں کہ آپ ہوں ۔ ناگوار خاطر نہ ہو ۔ بہت سارے داعیان اسلام کے سوالوں کے جواب میں یہ چند سطریں تحریر کردی ہیں ۔ بہت سارے داعیان اسلام کا حال یہ ہے کہ ایک تقریر کرنے کے لیے دو لاکھ چار لاکھ روپیے خرچ کرارہے ہیں ۔ ایسی گاڑی چاہیے ویسا لاؤڈ اسپیکر چاہیے ۔ یہ شرط وہ شرط وغیرہ ۔ ہر بات کو صاف صاف اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ اج کل داعی اسلام کا ٹائٹل لگانے کا بھی رواج ہوگیا ہے ۔
کس درجہ ہوۓ فقیہانِ حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں , قرآں کو بدل دیتے ہیں

ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی

قیام دارالعلوم دیوبند کی سرگذشت بموقع یوم تاسیس 31 مئی (ڈاکٹر )محمد اللہ خلیلی قاسمی

قیام دارالعلوم دیوبند کی سرگذشت
بموقع یوم تاسیس 31 مئی

(ڈاکٹر )محمد اللہ خلیلی قاسمی

۱۸۵۷ء کے خونیں انقلاب میں جب دہلی اجڑی اور اس کی سیاسی بساط الٹ گئی تو دہلی کی علمی مرکزیت بھی ختم ہوگئی اور علم و دانش کا کارواں وہاں سے رخت سفر باندھنے پر مجبور ہوگیا۔ اس وقت کے اہل اللہ اور خصوصیت سے ان بزرگوں کو، جو اس خونیں انقلاب سے خود بھی گزر چکے تھے ، یہ فکر و اضطراب لاحق ہوا کہ علم و معرفت کے اس کارواں کو کہاں ٹھکانہ دیا جائے اور ہندوستان میں بے سہارا مسلمانوں کے دین و ایمان کو سنبھالنے کے لیے کیا صورت اختیار کی جائے۔ خوش قسمتی سے اس وقت اس راہ عمل کے مذاکروں کا مرکزی مقام دیوبند کی مسجد چھتہ تھی۔ یہ وہی مسجد ہے جس میں حضرت حاجی عابد حسین صاحب اور حضرت مولانا رفیع الدین صاحب قیام پذیر تھے۔حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بھی ورود دیوبند کے موقع پر اسی مسجد میں قیام فرماتے تھے۔ حضرت نانوتوی کی سسرال اسی کے قریب محلہ دیوان میں واقع تھی، اس لیے اکثر یہاں تشریف آوری ہوتی رہتی تھی بلکہ اس وقت تک وہ دیوبند کو وطن ثانی بنا چکے تھے۔ اس طرح ان بزرگوں میں کمال درجہ کا ربط و ضبط قائم ہوگیا۔ علاوہ ازیں، دیوبند میں حضرت مولانا مہتاب علی صاحب، حضرت مولانا ذوالفقارصاحب اور حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب سے بھی مودت و محبت کا رشتہ قائم تھا۔
چناں چہ ان حضرات کے وقت کا اکثر حصہ مسلمانوں کی علمی و دینی ورثہ کی بقا و ترقی اور ملی تحفظ کی فکر میں صرف ہونے لگا۔ اس وقت بنیادی نقطہٴ نظر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی و علمی درس گاہ کا قیام ناگزیر ہے۔ اس مرکزی فکر کی روشنی میں ان حضرات نے یہ طے کیا کہ اب دہلی کے بجائے دیوبند میں یہ دینی درس گاہ قائم ہونی چاہیے۔ لیکن یہ مدرسہ قائم کیسے ہو اور اس کا طریقہ کار کیا ہو؟ برطانوی تسلط کے بعد اوقاف کی ضبطی اور امرا ء و نوابان کی بربادی کی وجہ سے کسی اسلامی تعلیم گاہ کو کس طرح چلایا جائے؟ یہ بات بھی شاید ان بزرگوں میں زیر بحث ہوگی۔ حضرت نانوتوی کے اصول ہشتگانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کو عوامی چندہ کی بنیاد پر چلائے جانے کا فیصلہ ہوا۔ (۱)
تحریک چندہ
سوانح محطوطہ کے حوالے سے سوانح قاسمی میں لکھا ہے کہ چندہ کی فراہمی کے سلسلے میں سب سے پہلے جس شخصیت نے عملی اقدام کیاوہ حضرت حاجی عابد حسین تھے۔ایک دن بوقت اشراق رومال کی جھولی بناکر آپ نے اس میں تین روپے ڈالے اور چھتہ مسجد سے تن تنہا مولانا مہتاب علی کے پاس تشریف لائے جنھوں نے چھ روپے عنایت کیے اور دعا کی۔ پھر بارہ روپے مولانا فضل الرحمن صاحب نے اور چھ روپے حاجی فضل حق صاحب نے دیئے۔ پھر وہاں سے اٹھ کر آپ مولانا ذوالفقار علی  کے پاس آئے اور انھوں نے فوراً بارہ روپے دیئے اور حسن اتفاق سے اس وقت سید ذوالفقار علی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے، ان کی طرف سے بھی بارہ روپے عنایت کیے۔ وہاں سے اٹھ کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابوالبرکات پہنچے، دو سوروپے جمع ہوگئے اور شام تک تین سو روپے۔یہ قصہ بروز جمعہ دوم ماہ ذوالقعدہ ۱۲۸۲ھ میں پیش آیا۔ (۲)
افتتاح مدرسہ
بالآخر ۱۵/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ بروز پنجشنبہ مطابق ا۳/مئی ۱۸۶۶ء (دیکھئے اس مضمون کا آخری عنوان) کو قصبہ دیوبند کی مسجد چھتہ کے کھلے صحن میں انار کے ایک چھوٹے سے درخت کے سائے میں نہایت سادگی کے ساتھ مدرسہ عربی کا افتتاح عمل میں آیا۔ تدریس کے لیے سب سے پہلے جس استاذ کو مقرر کیا گیا وہ حضرت مولانا ملا محمد محمود دیوبندی تھے اور اس مدرسہ کے پہلے طالب علم کا نام ’محمود حسن‘ تھا جو بعد میں شیخ الہند کے نام سے پوری دنیا میں جانا پہچانا گیا۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس درس گاہ کے سب سے پہلے استاذ اور شاگرد دونوں کا نام محمودتھا۔
اس بے سرو سامانی کے ساتھ اس مدرسہ کا افتتاح عمل میں آیا کہ نہ کوئی عمارت موجود تھی اور نہ طلبہ کی جماعت۔ اگر چہ بظاہر یہ ایک مدرسہ کا بہت ہی مختصر اور محدود پیمانے پر افتتاح تھا، مگر در حقیقت یہ ہندوستان میں دینی تعلیم اور اسلامی دعوت کی ایک عظیم تحریک کا آغاز تھا۔
اعلان چندہ
قیام مدرسہ کے چار دن بعد ۱۹/ محرم الحرام ۱۲۸۳ء بروز دوشنبہ حاجی سید فضل حق صاحب (سربراہ کار مدرسہ) کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا گیا جس میں قیام مدرسہ کا اعلان ، چندہ کی اپیل اور مدرسہ کے منصوبوں کا اظہار کیا گیا تھا ۔اشتہار کا متن یہ تھا:
’’اشتہار
الحمد للہ کہ مقام قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور میں اکثر اہل ہمت نے جمع ہوکر کسی قدر چندہ جمع کیا اور ایک مدرسہٴ عربی پندرہ تاریخ محرم الحرام ۱۲۸۳ ہجری سے جاری ہوا اور مولوی محمد محمود صاحب بالفعل بمشاہرہ ۱۵/ روپئے ماہوار مقرر ہوئے، چوں کہ لیاقت مولوی صاحب کی بہت کچھ ہے اور تنخواہ بسبب قلت چندہ کے کم، ارادہ مہتممان مدرسہ کا ہے کہ بشرط وصول زر چندہ قابل اطمینان جس کی امید کر رکھی ہے تنخواہ مولوی صاحب موصوف کی زیادہ کی جاوے اور ایک مدرس فارسی و ریاضی کا مقرر ہو۔ جملہ اہل ہمت و خیر خواہان ہند خصوصاً مسلمانان سکنائے دیوبند و قرب و جوار پر واضح ہو کہ جو لوگ اب تک شریک چندہ نہیں ہوئے بدل شریک ہوکر امداد کافی دیویں اور واضح ہو کہ چندہ مفصلہ فہرست ہذا کے کہ جس کی میزان کل ۴۰۱ روپئے ۸ آنے ہے دوسرا چندہ واسطے خوراک و مدد خرچ طلبہٴ بیرونجات کے جمع ہوا ہے اور سولہ طالب علموں کا صرف جمع ہوگیا ہے اور ان شاء اللہ روز بروز جمع ہوتا جاتا ہے اوس میں سے طلبہٴ بیرونجات کو کھانا پکا پکایا اور مکان رہنے کو ملے گا۔ کتابوں کو بندو بست بھی متعاقب ہوگا۔ نام مہتممان کے درج ذیل ہیں ، جن صاحبوں کو روپیہ چندہ بھیجنا منظور ہو تو بنام اون کے بذریعہ خط بیرنگ ارسال فرمادیں۔ رسید اوس کی بصیغہٴ پیڈ بھیجی جائے گی۔ فقط
حاجی عابد حسین صاحب، مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی، مولوی مہتاب علی صاحب، مولوی ذوالفقار علی صاحب، مولوی فضل الرحمن صاحب، منشی فضل حق، شیخ نہال احمد صاحب
العبدفضل حق ، سربراہ کار مدرسہٴ عربی و فارسی و ریاضی قصبہ دیوبند ضلع سہارنپور
تحریر بتاریخ ۱۹/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ روز دوشنبہ‘‘ (۳)
یہ اشتہار جہاں ایک طرف چندہ کی اپیل تھی، وہیں دوسری طرف اس میں مدرسہٴ عربی دیوبند کے منصوبوں کا اعلان تھا۔ قیام مدرسہ کے محض چار دنوں بعد شائع ہونے والے اس اشتہار میں مدرسین کے اضافہ، اساتذہ کی تنخواہوں میں معقول اضافہ، طلبہ کے لیے پکے پکائے کھانے کا نظم،دارالاقامہ کی سہولت اور کتب خانہ کی ضرورت کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان حضرات کے ذہن میں ایک بڑے مدرسہ کا خاکہ موجود تھا۔
اس تحریر کے بعد اُن ۵۴ حضرات کے اسمائے گرامی کی فہرست ہے جنھوں نے پہلے مرحلے میں قیام مدرسہ کے لیے تعاون میں حصہ لیا تھا۔
قیام دارالعلوم کی شمسی تاریخ
دارالعلوم کے قیام کی قمری تاریخ 15 محرم 1283 ہے ، کتابوں میں اس کی شمسی تطبیق 30 مئی 1866 مذکور ہے ، لیکن صحیح تاریخ 31 مئی ہے؛ کیوں کہ دارالعلوم کی 1283 کی روداد میں قیام دارالعلوم کے چار روز بعد 19 محرم بروز دوشنبہ کو بانیان دارالعلوم کی طرف سے اعلان کی اشاعت کا ذکر ہے اور اس میں یوم دوشنبہ کی تصریح ہے؛ اس لحاظ سے یوم تاسیس یعنی 15 محرم کا دن پنجشنبہ ہوتا ہے اور پرانی تحریروں میں پنجشنبہ کاذکر بھی ہے۔ لہٰذا، پنجشنبہ کے دن کے لحاظ سے شمسی تاریخ 31 مئی ہوتی ہے، 30 نہیں۔
ہماری پرانی کتابوں میں صرف ہجری سن ہی مذکور ہوتا ہے، ہجری اور عیسوی تطبیق بعد کے لوگوں نے انجام دی ہے، پہلے یہ تطبیق محض ذہنی حسابات کی روشنی میں انجام پاتی تھی جس میں تسامحات کے بہت امکانات تھے۔ الحمد للہ اب کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ کام بہت آسان ہوگیا ہے۔
دارالعلوم کا سن قیام دارالعلوم سے شائع شدہ بعض کتابوں میں 1867 بھی لکھا ہوا، یہ محض تطبیق کی غلطی ہے۔ 30 مئی 1866 کی تطبیق بھی ایک تسامح ہے کیوں کہ دارالعلوم کا یوم قیام جمعرات ہونا طے ہے جس دن ہندوستان میں 15 محرم کی تاریخ تھی۔ ہجری تاریخوں میں ایک دن کا فرق عام طور پر ہوسکتا ہے۔
انٹرنیٹ پر ڈیٹ کنورٹر استعمال کرتے ہوئے ایک بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ زیادہ تر سوفٹ ویئر عرب کی ہجری تقویم کے اعتبار سے بنتے ہیں، اس لیے ہندوستان والوں کے لیے اس میں ایک دن کے فرق کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

حوالہ جات:
(۱) تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول، ص ۱۴۸تا ۱۵۰؛ سوانح قاسمی،مولانا مناظر احسن گیلانی، جلد دوم ، ص ۲۳۰تا ۲۳۸
(۲) سوانح قاسمی، جلد دوم ، ص ۲۵۸ تا ۲۵۹
(۳) کیفیت مدرسہ عربی دیوبند، بابت ۱۲۸۳ھ ہجری ، ص۳ تا ۴

*کرونا اور لاک ڈاؤن کی زد میں ملک کا مزدور * تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکریونین) javedbharti508@gmail.com

*کرونا اور لاک ڈاؤن کی زد میں ملک کا مزدور *

تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکریونین)
javedbharti508@gmail.com
عجیب حال ہے آج ہمارے وطن عزیز کا ایک طرف بجلی، پانی، سڑک اور روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اور دوسری جانب غور کیا جائے تو ملک میں بے شمار لوگ ان سہولیات سے محروم نظر آتے ہیں جبکہ مذکورہ چیزوں کی تکمیل کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی یافتہ نہیں کہا جا سکتا اور حکومت وقت کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے صرف نعرہ بازی، جملہ بازی اور شعبدہ بازی سے بہت دنوں تک حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا، کسی باہری مہمان کی آمد پر غربت کو چھپانے کیلئے دیوار تعمیر کرکے غریبوں کا مزاق اُڑانے کے برابر ہے، جھوٹ اور مکاری کو فروغ دینے کے برابر ہے وقتی بھلے ہی جھوٹ سچائی پر فوقیت حاصل کرلے مگر ایک دن جھوٹ کا پردہ فاش ہونا ہے اور سچائی و حقیقت کو کھل کر سامنے آنا ہی آنا ہے اور آج وہی حال ہے چرب زبانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کردیا گیا کہ میرا خواب یہ ہے کہ جس کے پیروں میں ہوائی چپل ہے وہ ہوائی جہاز کا سفر کرنے کے قابل بن جائے، ملک کا ایک ایک فرد خود کفیل ہوجائے، ملک کا ایک ایک شہری اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے کاش اس نظرئیے پر کام کیا گیا ہوتا تو ملک کی کچھ اور ہی تصویر آج ہمارے سامنے ہوتی لیکن نہیں اس نظرئیے کو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کے سامنے پیش کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیروں میں ہوائی چپل پہننے والا شخص آج ہزار ہزار کلومیٹر تک پیدل سفر کررہا ہے کہیں جنگلی جانوروں کا سامنا کررہا ہے، کہیں پولیس کے ڈنڈے کھارہاہے، کہیں لو کے تھپیڑے کھارہاہے، کہیں بھوک اور پیاس سے نبرد آزما ہے، کہیں زندگی اور موت سے جنگ لڑ رہا ہے اور اس جنگ میں ہار کا سامنا کررہا ہے، گودیاں اجڑرہی ہیں، مانگوں کا سیندور مٹ رہا ہے، یتیموں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ کسی کی بھوک سے موت نہیں ہونی چاہیے اور دوسری جانب روانہ بھوک سے لوگ مررہے ہیں کہیں روڈ پر کوئی بھوکا مرتا ہے، کہیں ٹرک تصادم میں کوئی مرتا ہے، کہیں ٹرین پٹری پر گردن کٹ رہی ہے اور یہ ساری مصیبتوں کا سامنا ایسا طبقہ کررہا ہے جسے مزدور کہا جاتا ہے جس کے نام پر ہر سال یومِ مزدور منایا جاتا ہے، لمبا چوڑا اسٹیج بنایا جاتا ہے، بے شمار سبزباغ دکھایا جاتا ہے اور یومِ مزدور کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کیا جاتا ہے لیکن اس غریب مزدور کی فلاح اور بہبود کیلئے کچھ بھی نہیں کیاجاتا، اس کے روشن مستقبل کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا غرضیکہ انہیں مزدور سے مجبور بنادیا دیاگیا پوری دنیا اس سے باخبر ہے کہ جب بھی کوئی ناگہانی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کمزور طبقہ سب سے پہلے اس کی زد میں آتا ہے تو پھر اس کمزور طبقے کی خوشحالی کیلئے آخر کیوں کچھ بھی نہیں کیا جاتا اور جب کچھ نہیں کیا جاتا ہے تو کیوں غریبی کے خاتمے کی آواز بلند کی جاتی ہے اب تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت غریبی کو نہیں بلکہ غریبوں کو ختم کرنا چاہتی ہے،، آج ملک کے جو حالات ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں روزانہ لوگ منزل کے قریب پہنچ کر لٹ جارہے ہیں چار دن کی بھوکی پیاسی ماں دم توڑ دیتی ہے اور ڈیڑھ سال کا بچہ ماں کی چادر و اوڑھنی پکڑ کر کھینچتا اور کھیلتا ہے اس بچے کو یہ نہیں معلوم ہے کہ میری ماں کا آنچل اس وقت میری ماں کا کفن بن چکا ہے،، اب تو لگتا ہے کہ غریب ہونا جرم ہے، مزدور ہونا جرم، بے سہارا اور کمزور ہونا بہت بڑا قصور ہے اور ایسے بے سہارا و کمزور، غریب مزدور کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانا بہت بڑی چالاکی اور ہوشیاری ہے چاہے حکومت کی ناقص پالیسی ہو یا کوئی بھی موقع ہو گھوم پھر کر مار کمزور اور مزدور طبقے پر ہی پڑتی ہے،، بہت سا ایسا موقع بھی آتا ہے کہ زبردست فائدہ ہوتا ہے لیکن اس. موقع پر محروم رہنے والا طبقہ بھی مزدوروں کا ہی رہتا ہے آخر ایسا کیوں؟ آج جب کرونا وائرس کی وبا پھیلی تو اس کی مار بھی مزدوروں پر ہی پڑی حفاظتی و احتیاطی اقدامات کے طور پر ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ کیاگیا،، لاک ڈاؤن کی مخالفت نہیں ہے لیکن تیاری کے بغیر لاک ڈاؤن کیاگیا اس کی مخالفت ہورہی ہے لاک ڈاؤن سے پہلے چار پانچ دن کا وقت دیا گیا ہوتا اور اس دوران ٹرینیں چلا کر مزدوروں کو انکے گھر بھیجا گیاہوتا تو آج قدم قدم پر بھوک اور پیاس سے نڈھال غریب مزدوروں کی موت نہیں ہوتی اور مزدور طبقہ مایوس ہوکر پیدل ہی اپنی منزل کی طرف نہیں چلتا علاوہ ازیں جب لاک ڈاؤن کا نفاذ کردیا گیا اور جو جہاں ہے اسے وہیں رہنے کا حکم جاری کردیا گیا تو انکے لئے اور باالخصوص مزدوروں کیلئے ضروریات زندگی کی سہولیات کو فراہم کیوں نہیں کیاگیا ہر مقام پر مزدوروں کے تئیں حکومت کی لاپرواہی ظاہر ہورہی ہے غرضیکہ مزدوروں کا مستقبل آج بھی تاریک نظر آتا ہے اور جب کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو شراب خانے کو بھی کھول دیا گیا آخر اس کا کیا مقصد ہے اور نہیں تو کچھ فرقہ پرست آج کے پردرد و پرالم ماحول میں بھی اپنی عادت سے مجبور نظر آتے ہوئے مسلمانوں سے سخت نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور گودی میڈیا کا حال تو یہ ہے کہ قلم اور زبان و ضمیر بیچ کر چوتھے ستون کو مسمار کرنے پر عمل پیرا ہے، ملک کی فضا کو زہر آلود بنانے پر آمادہ ہے، کرونا وائرس کو مذہبی رنگ گودی میڈیا نے دیا، کرونا وائرس کو جماعتی نام گودی میڈیا نے دیا آخر کار گودی میڈیا نے زبان و قلم کے معیار کو خود اپنے ہی پیروں تلے روند دیا جس کی قیمت آج ملک کا غریب محنت کش مزدور چکا رہا ہے اور گودی میڈیا  مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے جبکہ اب تک کے لاک ڈاؤن میں مسلمانوں نے مساجد میں نماز جمعہ ترک کرکے بے مثال قربانی اور تعاون پیش کیا ہے اور راہ چلتے مسافروں کے لیے کھانے پینے کے سامان کا انتظام کرکے انسانیت کا عظیم الشان فریضہ انجام دیا ہے اور اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ مذہب اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بھوکوں کو کھلاتے وقت مذہبی تفریق نہ برتاجائے اور فرمان رسول ہے کہ مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردیا جائے اور ساتھ ہی داماد رسول کا قول ہے کہ کوئی چوری کرے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیاجائے لیکن کوئی روٹی چوری کرے تو بادشاہ کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور یاد رہے کہ ہم اسی رسول اور داماد رسول کو ماننے والوں میں سے ہیں -
javedbharti508@gmail.com
             - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - - -

دارالعلوم دیوبند...........ایک داستانِ عزیمت!!! از! سید احمد

دارالعلوم دیوبند...........ایک داستانِ عزیمت!!!
از! سید احمد
مغلیہ سلطنت فنا ہوچکی تھی! عثمانی خلافت آخری سانسیں لے رہی تھی! کرۂ ارض پر کوئی ایک قابل ذکر مسلم طاقت موجود نہیں تھی! برٹش ایمپائر مگرمچھ کی طرح تمام مقبوضات اسلامیہ کو یکے بعد دیگرے نگلتی جارہی تھی! برطانوی سامراج کا دنیا میں طوطی بول رہا تھا! کسی حکومت و طاقت کے اندر اس سے پنجہ آزمائی کا تصور نہ تھا!
 ایسے میں سرزمین ایشیا پر ایک بے وسیلہ، کمزور مولوی کہتا ہے، برٹش ایمپائر کے خلاف مسلح مزاحمت ہم پر فرض ہے اور کچھ لوگوں کی طرف وسائل و افراد کی قلت کے عذر کا جواب دیتا ہے کہ" کیا ہماری تعداد مجاہدین بدر سے بھی کم ہے"؟ مجلس پر سناٹا طاری ہو جاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں شہر شاملی کے میدان میں معرکۂ سن ستاون وجود میں آتا ہے جو اپنی ذات میں تاریخ کا ایک منفرد اور حیرت انگیز معرکہ ہے!
معرکہ کے کا فیصلہ خواہ کسی کے حق میں ہو مگر اتنا طے ہوجاتاہے کہ صدائے حق کے حقیقی علمبردار، غزوۂ بدر کے ذریعہ سکھلاگیا رسالت مآب صلی اللّٰه علیه وسلم کا سبق آج بھی نہیں بھولے ہیں، اور نبی کے سچے وارثین، وسائل و افراد سے بے نیاز ہوکر طواغیتِ زمانہ کی طاقت کے سامنے سرینڈر کرنے کے بجائے اس سے ٹکراکر دنیوی فتح مندی یا اخروی سرخ روئی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں!
بہر کیف!! مرکۂ شاملی میں بظاہر برٹش ایمپائر فتح مند ہوگیا اور بوریہ نشیں مادی کامیابی حاصل نہ کر سکے! مگر اس کے بعد بوریہ نشینوں کی اس جماعت کا شہ دماغ جس نے بدر کا واسطہ دےکر جنگ شاملی لڑنے کے لیے اپنے ہمنواؤں کو تیار کیا تھا، یعنی حجۃ الاسلام، آیة من آيت الله، مجدد زمانہ، الامام الاکبر محمد قاسم نانوتوی، جنگ ستاون کے مقاصد کے حصول کے لیے اور غزوۂ بدر کے عطاکردہ پیغام سے وفاداری کی تڑپ کے سبب ایک مرکز قائم کرتا ہے تاکہ وہاں سے ایسی جماعت اٹھے جو صدائے بدر پر لبیک کہنے والی بھی ہو اور معرکۂ ستاون کی تلافی کرنے والی بھی! جو ابتداء بر صغیر میں اور انتہاء پورے عالم پیغام محمدی کو غالب کردے اور ابلیس کے ہرکاروں کے سامنے ہر موڑ پر سد سکندری بن جائے اور اس کی مادی قربانیوں کو خاطر میں نہ لائے!
پھر دنیا دیکھتی ہے کہ اسی ادارے سے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی کی شکل میں قاسم نانوتوی کا سب سے سچا جانشیں اور مشن نبوی کا ایک عظیم وارث جنم لیتاہے، جس کی محیر العقول تحریکیں تاریخ عالم کی سب سے وسیع سلطنت، برٹش ایمپائر کے ایوانوں میں ہلچل برپا کردیتی ہیں، اور پھر اسی سچے جانشیں کی تربیت کے صدقے، عبید اللہ سندھی، اشرف علی تھانوی، انور شاہ کشمیری، حسین احمد مدنی، اور شبیر احمد عثمانی جیسی شخصیات جنم لیتی ہیں اور الگ الگ جہتوں اور میدانوں میں دین حنیف کی خاطر اپنے کو تج دیتی ہیں!

اب ہمارا ذمہ ہے کہ اپنا جائزہ لیں کہ اگر ہم قاسم و محمود اور ان کے اداروں کی جانب اپنی نسبت کو قابل فخر طور پر ذکر کرتے ہیں تو ہم ان کے مشن اور پیغام کے لیے کس قدر مخلص اور وفادار ہیں...................................؟؟؟
آیا وفادار و وارث ہیں بھی یا نہیں..............؟؟؟

سید احمد

#ThankYouDarulUloomDBD
#یوم_تاسیسِ_دارالعلوم_دیوبند، ٣١ مئی ١٩٦٦
١٥٤ برس مکمل
#اسلام_مکمل_دستور_حیات

امیر شام کی زندگی پر ایک نظر !


       (ذکر جمیل سیدنا امیر معاویہ)
محمد عفان بہرائچی
متعلم جامعہ حسینیہ لال دروازہ جونپور
___________
*نام ونسب:معاویہ بن ابوسفیان بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف*
*کنیت : عبد الرحمن, خال المسلمین*
 *ولادت:بعثت نبوی کے پانچ سال قبل*
 *قبول اسلام: 23 سال کی عمر میں صلح حدیبیہ کے موقع پر لیکن اعلانیہ طور پر فتح مکہ کے موقع پر یہی وجہ ہے کہ آپ جنگ بدر, احد, میں مشرکین کی طرف سے نہیں گئے جبکہ آپ کے والد ابو سفیان مشرکین مکہ کی کمانڈری کر رہے تھے

            🌹 *زندگی کے حالات* 🌹

   *حضرت امیر معاویہ* رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے  عزیمت و عظمت اور صفات حمیدہ کے پیکر تھےآپ کے چہرے سے ہی جاہ و جلال رعب و دبدبہ شان و شوکت اور سرداری نمایاں تھی اسی وجہ سے آقاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "معاویہ تیرا سر سرداروں والا معلوم ہوتا ہے آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپکے والد کی درخواست پر آقاء نے آپ کو کتابت وحی کے لئے چن لیا محدثین فرماتے ہیں کہ کتابت وحی کے سلسلے میں زید بن ثابت کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حاضر باش تھے چنانچہ آپ کا کاتب وحی ہونا ہی آپ کی دیانت و امانت فہم و فراست اور احساس ذمہ داری پر دال ہے
   
       🌺  *پیغمبر کی نظر میں* 🌺

اللہ کے نبی نے ایک موقع پر فرمایا !
 *اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا:*  اے اللہ معاویہ کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا
اسی طرح فرمایا!
 *اللھم علم معاویۃ الکتاب* والحساب وقہ العذاب :اے اللہ تو معاویہ کو حساب و کتاب سکھا :
اسی طرح فرمایا :
 *اللھم علمہ الکتاب ومکن لہ فی البلاد* :اے اللہ معاویہ کو کتاب سکھا اور اسکے لئے شہروں میں ٹھکانہ بنا
ایک مرتبہ اور حضرت امیر معاویہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرارہے تھے تو آپ نے فرمایا معاویہ اگر تجھے حکومت ملے تو تو اللہ سے ڈرتے رہنا حضرت معاویہ فرماتے ہیں مجھکو اسی دن یقین ہوگیا کہ مجھے حکومت ضرور ملے گی اس تمام باتوں سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں حضرت معاویہ کا کیا مقام و مرتبہ تھا

      ☀️ *خلفاء راشدین کی نظر میں* ☀️

دنیا جانتی ہےکہ حضرت عمر کفار کے بالمقابل کتنے سخت تھے اور گورنروں کی تقرری میں کس درجہ محتاط تھے مگر اس کے باوجود حضرت عمر کا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنانا ظاہر کرتا ہے کہ آپ پر حضرت عمر کو کتنا اعتماد تھا مزید یہ کہ سیدنا عثمان غنی نے نہ صرف یہ کہ آپ کو گورنری کے منصب پر فائز رکھا بلکہ بلکہ اردن, حمص, جیسے علاقے بھی آپ کے ماتحت کردئے چنانچہ حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کے بعد قصاص عثمان کے سلسلے میں آپ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوا اور جنگ بھی ہوئی مگر اسکے باوجود دونوں حضرات ایک دوسرے کے دینی مقام و مرتبہ, ذاتی خصائل اور اوصاف کے نہ صرف یہ کہ قائل تھے بلکہ گاہے بگاہے اظہار بھی فرماتے تھے
جنگ صفین سے لوٹنے کے بعد حضرت علی نے فرمایا :
 *یا ایھاالناس لا تکرھو امارۃ معاویۃ فانکم لو فقدتموہ رایتم الرؤوس تندر عن کاھلھا کانما الحنظل :*
اے لوگوں تم معاویہ کی امارت کو ناپسند مت کرو اگر تم نے انکو کھویا تو تم دیکھنا سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گرینگے جس طرح حنظل کا پھل

           🌽  *تابعین کی نظر میں* 🌽

 *عمر ثانی عمر بن عبدالعزیز* نے اپنے دور میں کسی کو کوڑے سے نہیں مارا مگر گستاخ معاویہ کو کوڑے لگانے کا حکم دیا
 *عبد اللہ بن مبارک* سے کسی نے پوچھا امیر معاویہ اور عمر بن عبدالعزیز میں کون بہتر ہے تو *عبد اللہ بن مبارک* نے غصے سے فرمایا :
 *تراب فی انف معاویۃ افضل من عمر بن عبدالعزیز* :
امیر معاویہ کے ناک کی خاک  بھی عمر بن عبدالعزیز سے افضل ہے
مشہور تابعی *حضرت احنف بن قیس* جو بردباری میں بہت مشہور تھے ان سے کسی نے پوچھا زیادہ بردبار کون ہے آپ یا حضرت معاویہ تو انہوں نے فرمایا :
بخدا میں نے تم سے بڑا جاہل نہیں دیکھا

     🍀 *دور حکومت اور فتوحات* 🍀

عہد فاروقی میں آپ 4 سال شام کے گورنر رہے اور بہت ساری فتوحات حاصل کیں
عہد عثمانی میں بھی آپ لگ بھگ 12 سال گورنر رہے اس عرصے میں بھی آپ اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر مصروف جہاد رہے
اسی درمیان حضرت عثمان کی اجازت سے ایک بحری بیڑہ بھی تیار کیا
 *87 ہجری میں آپ نے قبرص فتح کیا*
 *32 ہجری میں قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد کیا*
 *33 ہجری میں روم کے قلعے کو فتح کیا*
 *35 ہجری میں غزوۂ ذی خشب پیش آیا اس میں آپ بطور امیر تھے*
 *42 ہجری میں سندھ کے کچھ علاقے فتح کئے*
 *43 ہجری میں سوڈان پر آپ نے قبضہ جمایا*
 *44 ہجری میں کابل فتح کیا*
 *45 ہجری میں افریقہ پر حملہ کیا گیا اور بہت بڑا حصہ مسلمانوں کے ہاتھ آیا*
*46 ہجری میں صقلیہ پر پہلی بار حملہ کیا گیا*
 *47 ہجری میں افریقہ کے مزید علاقوں میں جہاد جاری رکھا*
 *51 ہجری میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا یہ اس پر پہلا حملہ تھا*
 *54 ہجری میں مسلمان بخارا تک جا پہنچے*
الغرض پوری دنیا کا جغرافیہ *ایک کروڑ بیس لاکھ* مربع میل میں سے آپ نے *64 لاکھ* مربع میل پر (جوکہ آدھی دنیا سے زیادہ ہے) آپ نے تن تنہا حکومت کی اور صرف روم سے 16 جنگیں لڑکر اہل یورپ کی نیند حرام کردی جیسا کہ ایک یہودی لکھتا ہے عالم اسلام کا سب سے برا آدمی میری نظر میں امیر معاویہ ہے اس لئے کہ یہودیوں کو سب سے زیادہ نقصان اسی نے پہنچایا اور آپکی آخری وصیت تھی روم کا گلا گھونٹ دو
 *وفات* :دمشق میں 22 رجب 60 ہجری 78یا 82 سال کی عمر میں
یہ تھے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مختصر سوانح اللہ اسکو قبول فرمائے اور حاسدین معاویہ سے اپنی زمین کو پاک فرمائے

          💞 *امین یا رب العالمین* 💞

 *31 مئی 2020*

*8933070879*

پھولپور: پورہ نورم گاؤں کی ایک دکان میں چوری، لاکھوں کا سامان غائب!

پھولپور/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 31مئی 2020) اعظم گڑھ ضلع کے پھولپور علاقے کے پورہ نورم گاؤں میں کیرانہ کی دکان میں بیتی رات چوروں نے ہاتھ صاف کیا، جس کی جانکاری لوگوں نے پولیس کو دی،
موقع پر پولیس نے پہنچ کر چھان بین شروع کی، لیکن چوروں کا کچھ پتہ نہ لگ سکا، پولیس چوروں کی تلاش میں مصروف ہے.
بتایا جاتا ہے دکان سے تقریباً لاکھوں روپیے کا سامان غائب ہے.

Saturday 30 May 2020

مصیبتوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار کون؟ کیا مسلمان اور علماء؟؟ 🖋مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی

مصیبتوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار کون؟ کیا مسلمان اور علماء؟؟

🖋مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی

“مصیبتوں کا ذمہ دار اہل باطل مسلمانوں کو ٹھیراتے ہیں اور دین بیزار ولبرل طبقہ علماء کو ذمہ دار ٹھیراتا ہے”

اہل باطل پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں اسکے ذمہ دار مسلمان ہیں اور جب کوئی نعمت انکے ہاتھ لگتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اسی کے حقدار ہیں،  یہی طرز عمل مسلمانوں میں سے لبرل طبقہ اور علماء سے اور دین سے بیزار طبقہ اپناتا ہے،
اس طرز عمل کی تاریخ بہت پرانی ہے جو ابھی تک جاری ہے، چنانچہ فرعون کی قوم کے اس طرز عمل اور قول کو قرآن نے اسطرح بیان فرمایا “ فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ”
ترجمہ: جب انکے پاس کوئی نعمت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اسی کے مستحق تھے اور جب انکو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ موسی اور اسکے ساتھیوں کی نحوست ہے،
جب ان ظالموں کی سرکشی حد سے بڑھی تو اللہ تعالی نے ان پر مختلف قسم كے  عذاب بھیجے
“فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ”
ترجمہ: پھر ہم نے ان پر طوفان ، ٹڈی جوؤں ، مینڈک اور خون کے  عذاب بھیجے، انھوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی،
یہی سب کچھ آج ہورہا ہے دنیا میں خاص طور سے ہندوستان میں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے یا لڑائی و جنگ ہوتی ہے تو اسکا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھیرایا جاتا ہے، اسکا کنکشن مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے پھر چاہے وہ مقامی مسلمانوں کا نام لیکر ہو یا کسی مسلم ملک کا نام لیکر، ہندوستان میں کرونا پھیلنے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھیرایا گیا، پھر مسلمانوں میں سے جو لبرل طبقہ اور علماء بیزار مخنچوں طبقہ ہے وہ ہر ناکامی اور ہر پریشانی کا ذمہ دار مذہبی طقبے (علماء) اور مدارس کو ٹھیراتا ہے، حالانکہ یہ مصیبتیں متکبرین کے تکبر مجرموں کے جرائم ظالموں کے مظالم ، شیاطین کی سرکشی، منافقوں کی منافقت، مداہنوں کی مداہنت کی وجہ سے ہیں،  کیا نہیں معلوم شام میں بے گناہوں کا خون بہایا جارہاہے؟ کیا فلسطین میں مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے جارہے ہیں؟ کیا کشمیر میں معصوموں کو جیلوں میں نہیں ٹھونسا جارہاہے؟ کئی دہائیوں سے وہاں خون کی ہولی نہیں کھیلی جارہی؟ کیا ہندوستان سے  مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقے کو بے دخل کرنیکی کوششیں نہیں چل رہی ہیں؟ کیا لاک ڈاؤن میں مردان حر کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری نہیں ہے؟
ورلڈٹریڈ سینٹر کا بہانہ بناکر کیا افغانستان پر بموں کی بارش نہیں کی گئی؟ کیا یمن میں وہاں کے باشندوں کا جینا دوبھر نہیں کیا گیا؟ چیچنیا میں لیبیا میں عراق میں برما میں خون کے پیاسے کون تھے؟ کیا وہ مسلمان تھے؟ شیطان تم بنے ہوئے ہو اور الزام مسلمانوں اور معصوموں کو دیتے ہو جب یہ سب ہوگا تو کیا اللہ کا عذاب نہیں آئیگا؟ آج سارے گروگھنٹال بزبان حال “فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین” کا نمونہ پیش کررہے ہیں جب انکا حال فرعون جیسا ہے تو عذاب بھی نمرود اور فرعون جیسے آرہے ہیں نمرود کی فوج پر مچھروں کا عذاب آیا، فرعون اور اسکی قوم پر ٹڈیوں اور طوفان کے عذاب آئے، اسیطرح آج کے نمرود وفرعونوں پر کبھی وائرس کا حملہ (چاہے مصنوعی ہو یا قدرتی) کبھی طوفان کے حملے اور کبھی ٹڈیوں کا حملہ کبھی معاشی بحران کا مسئلہ،
اب سوال یہ ہوگا کہ اسکا شکار تو مسلم بھی ہیں تو جواب یہ ہے معاف فرمائیے مسلمانوں کے اعمال واخلاق ویسے نہیں رہے جیسے ہونے چاہئیں آج ہمارے معاملات اتنے بیکار ہوگئے ہیں کہ کوئی ہماری دوکان پر چڑھنے کو تیار نہیں، بات کرنیکا سلیقہ ہمیں نہیں، ایک دوسرے کا مذاق ہم اڑاتے ہیں، مذہبی طبقے (علماء) کا تمسخر ہم کرتے ہیں، ایک امام ایک مولوی کو ہم اتنی بھی تنخواہ نہیں دیتے جتنی ایک دہاڑی مردوز کو دیتے ہیں، مولوی کی عزت ہمارے دلوں میں فقط مسائل معلوم کرنے اور نماز پڑھانے تک ہی محدود ہے، شادی بیاہ پر لاکھوں خرچ کرنیوالی قوم نکاح کے موقع پر نکاح پڑھانیوالے کو ہزار پانچسو سے زیادہ ہدیہ دینے کو بوجھ سمجھتی ہے، ایک امام کو ایک عالم کو لوگ ایک مزدور کیطرح سمجھتے ہیں، مسجد کے امام اور مؤذن کو کچھ بھی کہنے کا حق ہر شخص رکھتا ہے، امام اور مؤذن کو اچھی حالت میں دیکھنا ہم مسلمانوں کر برداشت نہیں، (سبق حاصل کیجئے یہودی اور عیسائیوں کے اپنے علماء کے ساتھ برتاؤ سے) اس لاک ڈاؤن میں دیکھئے کتنے ہی امام تنخواہوں سے محروم کردئے گئے، ہمارے موانہ کے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں ، کئی مسجدوں کے ائمہ کی تنخواہیں نہیں دی گئی یو آناکانی کی گئی، کورونا کو بہانہ بناکر مؤذن کو کھانا دینے سے انکار کردیاگیا، ایک شخص جو ماشاءاللہ تبلیغی جماعت میں بھی سرگرم ہیں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ امام کو تنخواہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ جب چارپانچ لوگ ہی نماز پڑھ رہے ہیں مسجد میں ؟ رمضان میں بھی ہدیہ دینے کی ضرورت نہیں ؟ جبکہ انکا خود کا کاروبار ایسا ہے کہ مہینے میں لاکھوں کماتے ہیں، یہ ہے علماء سے محبت ہم مسلمانوں کی، بہت سے لوگ دین کا لیبل لگاکر علماء بیزاری کی مہم میں پیش پیش ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلم عوام اپنے علماء سے کٹ کر دین بیزار ہوجائیگی اور حال وہ ہوگا جو اسپین ورشیا کا ہوا، ایسے برے حالات میں تو آدمی بغیر تنخواہ کی نیت کے ویسے ہی امداد کردیتا ہے، کتنے ہی لوگ راشن تقسیم کررہے ہیں بلکہ راشن تقسیم کرنیوالوں میں یہ علماء ہی پیش پیش ہیں، کتنے مدرسین بے یارومددگار ہوگئے، مدارس کو چندہ دینا بند کردیا گیا، بہت سے لوگ تو یہانتک کہہ رہے ہیں کہ مدارس کو بند کردو مدارس میں اپنا مال نہ دو، جب مسلمانوں کے معاملات ،اخلاق زیروہیں ،دین سے دوری عروج پر ہے اور مذہبی طبقے سے محبت نہ کے درجے میں ہے، علماء سے عوام کو کاٹنے کا کام خود مسلم کررہے ہیں تو پھر حالات ویسے ہونگے جیسے ہمارے اعمال ہونگے،
“وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ”
ترجمہ: اور جوکوئی مصیبت تمکو پہنچتی ہے وہ تمارے ہاتھوں کی کرتوت ہوتی ہے اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں،
 ہمیں سب کو بشمول مسلمین وکفار سب کو اپنا محاسبہ کرنیکی ضرورت ہے کیا ہم اپنے خالق کے احکامات کے مطابق عمل کررہے ہیں؟ ہمارے معاملات، اخلاق،عادات، معاشرت کیا ایسے ہیں جس سے دوسروں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے؟ کیا ہمارے اندر اخلاص ہے؟ کیا ہمارے اندر للہیت ہے؟ یا منافقت اور مداہنت ہے؟
اور یقین جانئے کامیابی اور نجات صرف ان ہی لوگوں کو ملیگی جو کامل ایمان والے دین پر مکمل طور پر عمل کرنیوالے ، دین اسلام کے پاسبان، مذہب اور اہل علم سے محبت کرنیوالے ہونگے، باقی اہل باطل اور لبرل، علماء سے اور دین سے  بیزار طبقہ ، علماء سے کاٹنے والا طبقہ اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ کردیا جائیگا، یہ فتنوں کا اور کانٹ چھانٹ کا وقت ہے، مکھن ایک طرف رہیگا اور چھاچھ (مَٹَّھا) الگ کردیا جائیگا، اب ہمیں طے کرنا ہے  ہمیں کس گروہ میں رہنا ہے؟
“وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین”
اللہ ہمیں عقل سلیم اور فہم صحیح عطاء فرمائے
آمین

*فتح سمرقند پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تاریخی عدل!* ازقلم: انس بجنوری

*فتح سمرقند پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تاریخی عدل!*

ازقلم: انس بجنوری

اسلامی تاریخ کا بے مثال حکمراں،عادل و نیک طینت خلیفہ، اموی باشندہ حضرت عمر بن عبدالعزیز مادرگیتی کے سینے پر عدالت کا ہمہ گیر استعارہ،تاریخ کا عظیم شہہ پارہ اور افق پر جلوہ افروز عدل سے بھرپور حکومت کا روشن ستارہ ہے،عمر بن عبد العزیز کا عدل و انصاف تاریخ کی کھلی شہادت ہے،وہ تاج و تخت کے سامنے آکر خدا کی حاکمیت کو نہیں بھولا،رب کے قرآن سے سرتابی نہیں کی،ہمیشہ عدل کے گیت گاتا رہا،عدل کے نغمے سناتا رہا،خلفاء راشدین کے زریں دور کو دہراتا رہا۔۔۔۔موقع کی مناسبت سے "قصص من التاریخ" نامی کتاب سے ایک عبرت انگیز واقعہ رقم کرتا ہوں جسے پڑھ کر قلب مضطرب جھوم اٹھتا ہے،حساس انسان وجد میں چلا جا ہے،قلب مسلم اسلام کی حقانیت کے گیت گاتا ہے۔۔انسانی تاریخیں عدل  کے قصوں سے بھری پڑی ہیں۔۔واقعہ تھوڑا طویل ہے؛لیکن موقع کی مناسبت سے انتہائی ضروری بھی اس لیے مکمل پڑھیں اور دوسرے لوگوں تک پہونچانے میں ہماری مدد کریں۔۔۔۔

جہاد کا اصول یہ تھا کہ حملے سے پہلے جزیہ یا قبول اسلام کی شرط کے ساتھ تین دن کی مہلت دی جاتی.... اگر دعوت اسلام قبول کرلی جاتی یا یا جزیہ پر رضامندی ہوتی تو مخالفین پر چڑھائی نہ کی جاتی،صلح سے کام چلایا جاتا ... سمر قند ایک خوبصورت سرسبز و شاداب شہر تھا...  جہاد کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سمرقند کو فتح کر لیا گیا۔۔  امیر  لشکر قتیبہ بن مسلم کی طرف سے بے اصولی کی گئی تھی ...

سمرقند کا پادری مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر امیر لشکر کے خلاف شکایت لکھ کر خلیفہء وقت(عمر بن عبد العزیز) کے پاس دمشق بھیجتا ہے... قاصد دمشق پہنچتا ہے ... بازار میں ایک شخص سے کہتا ہے میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکار ہوں،ایک ایلچی کے طور پر دمشق آیا ہوں۔خلیفہ کے گھر کا راستہ بتادو .... قاصد کو راستہ بتایاجاتا ہے....

قاصد بتائے گئے گھر پہنچتا ہے ،تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے.... یہ دیکھ کر قاصد پھر سے راستہ بتانے والے شخص کے پاس آتا ہے... غصے سے کہتا ہے:  میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتا پوچھا تھا ناں کہ مفلوک الحال شخص کا، جس کے گھر کی چھت تک ٹوٹی ہوئی ہے... وہ شخص کہتا ہے .. میں نے تجھے پتا ٹھیک ہی بتایا تھا....  وہی حاکم کا گھر ہے....


 قاصد بے دلی سے دوبارہ اسی گھر پر جا کر دستک دیتا ہے...  جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا... وہی اندر سے نمودار ہوتا ہے... قاصد تعارف کراتا ہے .. میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا قاصد ہوں ۔ " اور خط خلیفہ کو دے دیتا ہے... خلیفہ وقت خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھتا ہے...

" عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے امیر لشکر  قتبہ بن مسلم کے نام...
جیسے ہی خط ملے ایک قاضی کا فوری طور پر تقرر کرو ، جو پادری کی شکایت سنے۔ " اور مہر لگا کر خط واپس قاصد کو دے دیتا ہے...

قاصد سمر قند پہنچتا ہے...خط پادری کو تھماتا ہے... مگر پادری مطمئن نہیں ...  خط تو اسی کے نام لکھا ہوا تھا، جس سے انھیں شکایت تھی... اسے یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اپنے آپ سے باتیں کرتے پادری مجبوراً خط لیکر کر اس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچتا ہے .. جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے...

حاکم خط پڑھتے ہی فوراً ایک جمیع نامی شخص کو  قاضی مقرر کرتا ہے... موقع پر ہی عدالت لگتی ہے... اور عدالت سمر قندیوں کی شکایت سننے کے لیے تیار ہے...

 ایک چوب دار  قتیبہ کا نام کسی لقب و منصب کے بغیر پکارتا ہے...  قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے...

قاضی سمرقندی سے پوچھتا ہے...
" کیا دعویٰ ہے تمھارا ؟ "
پادری کہتا ہے....
" قتیبہ نے کسی پیشگی اطلاع کے بغیر  پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔ "

 قاضی قتیبہ کی طرف متوجہ ہوکر پوچھتا ہے...
"  کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟ "
قتبہ کہتا ہے...
" قاضی صاحب .... جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکا ہے...  سمرقند ایک عظیم ملک تھا... اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے..  بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی...  سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور ہیں...  ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا... "

قاضی قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوتا ہے:
" قتیبہ.... میری بات کا جواب دو.... تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت... جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟ "

قتیبہ کہتا ہے:
" نہیں قاضی صاحب میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ "

قاضی پھر وہ فیصلہ سناتا ہے جو سمرقند کی تاریخ کے سینے پر درج ہے،جسے مورخ نے آب زر سے لکھا ہے

"  میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو...  اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا...
قتیبہ ! اللہ تعالیٰ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکا دہی اور موقع پرستی سے....

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران مع اپنے بیوی بچوں کے... اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے... اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو...  تو کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے بغیر  تین دن کی اورسوچ و بچار کی مہلت دیے بغیر نہ آیا جائے... "


پادری حیران و ششدر کیا منظر دیکھتا ہے کہ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا ہے...

چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے... جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے... لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی...

اُس دن جب سورج ڈوبا ...  تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں....  انھیں ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے انھیں اور ان کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا...

تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے... پادری سمیت  لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور انھیں واپس لے آئے....پھر ایک طویل مدت تک اندلس مسلم قوم کا درالخلافہ بنارہا۔۔۔

*گستاخوں پر اللہ کی لعنت ہو* *✒️محمد عفان بہرائچی* *متعلم جامعہ حسینیہ لال دروازہ* *جونپور*

*گستاخوں پر اللہ کی لعنت ہو*

 *✒️محمد عفان بہرائچی*
 *متعلم جامعہ حسینیہ لال دروازہ* *جونپور*

 *افسوس!*

 آج اس مضمون کو سپرد قرطاس کرتے وقت آنکھیں نم ہیں, دل افسردہ ہے, کلیجہ منھ کو آرہا ہے ,قدم لرزیدہ ہے, بدن میں کپکپاہٹ ہے, گویاکہ بدن کا رواں رواں اشک بار ہے, ہزاروں ماؤں کو بے اولاد کرنے والا, ہزاروں بہنوں کے بھائیوں کو بے دردی سے شہید کرنے والا, ہزاروں بچوں کو یتیم کرنے والا, ہزاروں بیویوں کے سہاگ کو اجاڑنے والا ,انبیاء کی سرزمین شام کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے والا, یہودیوں کا ایجنٹ, ظالم ,سفاک, درندہ صفت, ناپاک باپ کی ناپاک اولاد, مردود لعنتی ,شامی صدر بشار الاسد کے پالتو کتوں نے کل رات آٹھویں اموی خلیفہ عمر ثانی خلفاء راشدین کا عکس عمر بن عبدالعزیز اور انکی اہلیہ محترمہ فاطمہ بنت عبدالملک بن مروان کی مزار اقدس کو اکھاڑ کر نذر آتش کردیا یہ خبر سننے کے بعد دل بے ساختہ بول پڑا کہ شیعہ کائنات کا بدترین غلیظ ترین ناپاک ترین کافر ہے کیونکہ جو کام اتنے سو سال سے دشمنان اسلام نہ کرسکے وہ ان کتوں نے کرڈالا

  وہ *عمر بن عبدالعزیز* جس نے 2 سال 5 ماہ کی مدت میں دنیا میں عدل و انصاف کا بول بالا قائم کردیا تھا جسکے دور حکومت میں بکری اور بھیڑیئے ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے جس نے خود کی خریدی ہوئی زمین کو اپنا مزار بنایا جس کے مزار اقدس میں آقا مدنی کے ناخن مبارک مدفون ہوں آج چودہ سو سال بعد اسکی لاش کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کیا گیا اسکی قبر کو اکھاڑ کر نذر آتش کر دیا گیا کاش زمین ان ظالموں کو نگل جاتی آسمان سے پتھروں کی بارش ہوجاتی فرشتے انکو آسمان پر لے جاکر الٹ دیتے پھر بھی یہ ناکافی تھا

 *مگر افسوس ہے !*

 *کہاں گئے مصلحت پسند* !
 *کہاں گئے اتحاد کا نعرہ دینے والے* !
 *کہاں گئے شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ دینے والے* !
 *کیا انکی زبانیں گنگ ہوگئیں* ؟
 *انکے منھ پر تالے لگ گئے* ؟
 *انکے ہاتھ شل ہوگئے ؟*
 *انکی قلم بک چکی ہے کیا ؟*
 *وہ بولتے کیوں نہیں وہ خاموش کیوں ہیں* ؟

 **ہائے عالم اسلام کے مسلمانو* !
 *ہندوپاک کے سنیوں! قوم فروش مولیو* !
 *حکومت کے تلوے چاٹنے والے سیاستدانو* !
 *لمبی لمبی نماز پڑھانے والے مولیو!**
 *اسٹیج پر دھاڑیں مارنے والے مقرروں! کہاں گئے ؟*

آج اگر تمہارے پیاروں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا پھر بھی تم خاموش رہتے تمہارے باپ کی قبر کو نذر آتش کیا جائے پھر بھی تم خاموش رہوگے تیری مرحوم اہلیہ کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جائے پھر بھی تمہاری زبانیں گنگ رہیں گی ہائے افسوس آج تمہارے پیاروں کے مقبرے لاوارث نہیں ہیں لیکن پیغمبر کا ایک سچا جانشین تابعی خدا ترس عاشق رسول دنیا میں عدل و انصاف کی مثال قائم کرنے والے عمر بن عبدالعزیز کے جسد اطہر کو ظالموں نے کھلونا بنادیا اور امت مسلمہ خاموش ہے لعنت ہے تیری جوانی پر تف ہے تیری زندگی پر کیا آج ہماری جنگ صرف *twitter* تک محدود ہے
یاد رکھو مسلمانوں اگر یہی چلتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب خدا اپنی زمین کو ہم پر تنگ کردیگا اور اگر  کل میدان محشر میں عمر بن عبدالعزیز نے ہمارا گریبان پکڑ لیا تو خدا ہمیں معاف نہیں فرمائیگا
دعاء گو ہوں اللہ امت میں کوئی *صلاح الدین ایوبی* اور *محمد بن قاسم* پیدا فرمادے اور ظالموں کو قصہ پارینہ بنادے

 *آمین یا رب العالمین*

 *8933070879*

اللہ کےانعامات کی قدر کرواللہ نوازے گا از شیخ المشائخ عارف باللہ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب المظاہری شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی

اللہ کےانعامات کی قدر کرواللہ نوازے گا
از شیخ المشائخ عارف باللہ حضرت مولانا عبد الرشید صاحب المظاہری شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کے دنیا کے بدلتے حالات نے ہمیں بتادیاکہ ہمارے لئے اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہونے کی کس قدر ضرورت ہے اور خداۓ تعالی کی ذات والاصفات سے غفلت وبے توجہی ہمارے لئے کس قدر مضر اور سخت نقصان دہ ہے ماہ مبارک کی آمد سے قبل  ہی سے روزوں اور تراویح وعبادات کی آسانی کیلئے دعائیں خوب ہوئیں اس کو ہر دعاء کرنے والا بھی خوب جانتاہے اپریل مئی کا موسم گرمی کی سختی کا بہت ہی سخت موسم ہے مولوی اسمعیل میرٹھی نے لکھاہے

مئی کا  آن  پہنچا  ہے مہینہ
بہاایڑی سےچوٹی تک پسینہ

پسینہ اوپر سے نیچے تک اتر تااور نزول کرتاہے مگر محترم نے مبالغہ کیلئے اس کے بر عکس سے تعبیر کیاہے
روزہ رمضان کس قدر سہل ہوا اس کو ہر روزہ دار جانتاہے اور تراویح کس قدر سہل ہوئ اس کو تراویح پڑھنے والے خوب جانتے ہیں ائمہ کرام اور مقتدی حضرات سب کو اس کا تجربہ ہوا اور الحمد للہ یہ موسم مختلف اور متعدد گرم صوبوں میں رہا اور ہم نے اس کا کتنا شکریہ اداکیا یہ ہم میں سے ہر ایک جانتاہے ہماری عادت ہی کچھ ایسی غفلت کی ہوگئی ہے نعمتوں پر شکریہ ادا کرنے کا جو حق ہم میں سے ادا ہوسکتاہے اس کو بھی نہیں کرتے یہ ہم کو خود اپنی ذات سےشکایت ہے اس موسم کی خوبی کا اندازہ اخیر کے ان ایام میں بہ خوبی ہوگیاجو چند قلیل ایام میں موسم گرم ہوا اور رمضان شریف کے گزرنے کے بعد اس میں اور بھی گرمی اور تپش آگئی
الحمد للہ میری اپنی کم فہمی کے اندازے سے امسال جہاں تک بندہ کا ناقص خیال پہنچتا ہے عبادت تلاوت ذکر خوب ہوا اور گھروں کی ذکر وعبادت سے خوب رونق بڑھی اگرچہ حالات دل کو پژمردہ کررہے تھے مگر ماہ مبارک کی برکت بھی خوب ظاہر ہوئ خوب دعائیں ہوئیں اللہ تعالی سے پختہ اور قوی امید ہیکہ ہماری دعائیں قبول ہوچکی ہیں ان شاء اللہ العزیز حالات پرسکون ہوں گےاور مرض اور وبادور ہوگی  البتہ سال بہ سال ماہ بہ ماہ یومافیوما زمانہ قیامت سے قریب ہوتاجارہاہے
اس لئے یکے بعد دیگرے حالات کا آنا بھی کوئ عجوبہ نہیں بس اللہ تعالی سے عافیت کی دعا کرتے رہیں اور کسی بھی حال میں نا امید نہ ہوں ایمان میں تزلزل نہ آۓ ایمان میں قوت پیدا کرنے کیلئے اور مضبوطی اور استقامت کیلئے علماء اہل تقوی واہل دل سے رابطہ رکھیں اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ کا ورد رکھیں ایمان ویقین میں کمزوری پیداکرنے والے مضامین اور لٹریچر اور افراد سے کلی اجتناب کریں
اگر ایمان کے ساتھ خاتمہ ہوگیا تو ان شاء اللہ آگے کی تمام منزلیں آسان ہوں گی اور کوشش برابر جاری رہے کہ کوئ کام خلاف سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلاف مرضی مولی نہ ہو
رمضان المبارک میں جو دعائیں اللہ تبارک وتعالی سے کیاہے اور جوعہد و پیمان کیا ہے رمضان کے بعد آخری سانس تک اس کا پاس ولحاظ کریں ہر وقت اللہ تعالی کی طرف توجہ  اور دھیان رہے جس کا ایک اثر یہ ہوناچاہئے کہ کوئ کام اس کی مرضی کے خلاف نہ ہو ہر وقت یہ تصور دل میں بساہواہو کہ ہمارا آقا ومولی ہمارے ظاہر کوبھی دیکھ رہاہے اور ہمارے باطن کو بھی دیکھ رہاہے وہ علیم و خبیر ہے سمیع و بصیر ہے اس سے چھپ کر ہم کوئ کام نہیں کرسکتے اللہ کی ذات وصفات پر ایمان کایہی اثر ہوناچاہئے کہ ہر دم چوکنے اور ہوشیار رہیں
جن طاعات  کو  رمضان میں کیاہے ان کا التزام رکھیں جن گناہوں سے توبہ کیا ہے ان سے اور تمام گناہوں سے بچتے رہیں لوگوں کے ساتھ احسان ، حسن سلوک ، غم خواری ، پڑوسیوں کے حقوق اور تمام اہل حقوق کے حقوق جان پہچان کر ادا کرتے رہیں
آج مصیبت آئی ہے کہ ایک دوسرے کی ملاقات ، مصافحہ ، معانقہ ایک ساتھ کھانا ، پینا ، دینی مجالس محافل مساجد میں اکٹھا ہونا درس وتدریس کا انقطاع ہوگیا ہے یہ ہمارےگناہوں کا نتیجہ ہے سامری نے ایک گناہ شرک کرنے کرانے کا کیا تو اسے ایک مرض لاحق ہوگیا تھا کوئ اس کے قریب جاتاتھا تو کہتا لامساس جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہاں ہاں! دور ہی رہنامجھ کو چھونا مت ، ہاتھ نہ لگانا آج ہمارے گناہوں کی وجہ سے سارے عالم میں یہ مرض ہوگیاہے اپنےدین کو بچانے کیلئے علم سیکھیں  اہل علم سے رابطہ رکھیں دینی کتابوں کامطالعہ کریں اپنے دل کی دنیا سنوارنے کے لئے ذکر دعا تلاوت نماز کا اہتمام کریں اصحاب کہف کا واقعہ قرآن کریم کی تفسیر کھول کر سورہ کہف پڑھ لیں ان لوگوں نے کس اندازے سے اپنے کو اللہ کی معصیت اور نافرمانی سے بچایا غلط عقیدہ اور مذھب سے بر طرف ہوۓ تو تین سونوسال سوتے رہے اللہ تعالی ان کی کروٹیں بدلواتے رھے مگر سب کے سب اتنے دنوں نہ کھانا نہ پینا تاہم سب زندہ رہےان کے ساتھ ایک کتا بھی آگیاتھا جو اپنی ٹانگیں پھیلاۓ بیٹھا رہا اسے اللہ تعالی نے جنت کاپروانہ عطا فرمایا ، تو اگر انسان صالحین کا ساتھ پکڑلے تو اللہ تعالی اسے جنت سے محروم کردیں گے کیا ؟ اللہ کی ذات بڑی غیور اور بڑی رحیم وکریم ہے
پھر اصحاف کہف کا دن لوٹا جس کی تفصیل قرآن کریم  اورتفسیر کی کتابوں میں مفصل موجود ہے جب بیدار ہوۓ اور کھانے کی حاجت ہوئ اپنے ایک آدمی کو بھیجا کہ پاکیزہ اور حلال کھانا لیکر آنا اتنے دنوں کے بے کھاۓ پئے رہنے کے باوجود رزق حلال و پاکیزہ ان کا مطلوب تھا
دوستو ! بہت بڑا عذاب پوری دنیا پر آیا آنکھیں کھولو دل میں بیداری پیداکرو آپسی بھائ چارہ پیدا کرو انسانیت کے حقوق پہچانو ! ظلم وبربریت کو چھوڑ دو حلال پاکیزہ مال جمع کرو اور حرام کے پاس نہ پھٹکو -سود ، رشوت ، لوگوں کے حقوق دبالینا مارلینا چھوڑدو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور اخوت پیداکرو اسلامی مقامات مسجدوں مدرسوں خانقاہوں قبرستانوں اور تمام مقامات مقدسہ کا تقدس باقی رکھو ان کو آباد رکھو عظمت وعزت رفتہ کو واپس لانے کی فکر اور دعائیں کرو  اللہ کی ہرنعمت کی قدر کرو عمر عزیز کو فضول کاموں میں ضائع نہ کروبلا ضرورت ان کی ان کی برائیاں کر کے اپنے اوقات کو ضائع نہ کرو عمر صحت توانائی خدا کی نعمت ہے اس کا حق پہچانو اللہ ہمیں اور آپ سب کو توفیق عطا فر ماۓ آمین

فقیہ النفس شیخ المشائخ  حضرت مولانا عبد الرشید صاحب شیخ الحدیث مدرسہ بیت العلوم سراۓ میر اعظم گڑھ یوپی
خلیفہ ومجاز فقیہ الامت عارف باللہ حضرت مفتی محمود الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق مفتی اعظم دار العلوم دیوبند

Friday 29 May 2020

*ہنگامہ ہے کیوں برپا* *جمعیۃ علمائے ھند پر سمیع الله خان کا مضمون* ✍️توقیر غازی

*ہنگامہ ہے کیوں برپا*
*جمعیۃ علمائے ھند پر سمیع الله خان کا مضمون*

✍️توقیر غازی

 جمعیۃ علمائے ھند محمود مدنی گروپ کی ضلع سہارنپور یونٹ پر کئی روز سے یہ الزام عائد تھا کے انہوں نے دیوبند کے طلباء مدارس کو لاک ڈاون کے دوران گھر پہنچانے کے لیے جو  انتظام کیا اس میں غبن کر کے طلباء سے پیسے لوٹ لیے. یہ الزام سوشل میڈیا پر اتنا وایرل ہوا کے چاروں طرف سے لوگ جمعیت علمائے ھند پر ٹوٹ پڑے چونکہ یہ بہت سنگین بات تھی اب تک یہی فضا تھی عموما کے جمعیت علما والوں نے لاک ڈاون جیسے نازک دور میں بھی طلباء کو لوٹ لیا

 اس کے بعد کل رات میں اچانک مشہور اور محترم صحافی سمیع الله خان نے ایک تحقیقاتی مضمون لکھ کر جمعیت علماء ھند پر لگے اس الزام کو بے بنیاد ثابت کیا اور ساتھ ہی جمعیت علما ضلع سہارنپور کی حمایت بھی کردی اور لاک ڈاون کے دوران جمعیت محمود مدنی کی سہارنپور یونٹ کی خدمات اور قربانیوں کو بھی پیش کردیا
 ظاہر ہے اس کی توقع کسی کو نہیں تھی کہ محترم سمیع الله خان صاحب جمعیت علماء کی ایسی حمایت کردیں گے لیکن ان کے اس حقیقت پسندانہ مضمون کے بعد اکثر لوگوں کا حال ایسا ہوگیا کہ کاٹو تو خون نہین

 کئی دن سے یکطرفہ سوشل میڈیا کے ذریعے ملک ہی نہیں برون ملک بھی جمعیت پر لگے اس الزام کی وجہ سے سارا غصہ اور نزلہ محمود مدنی صاحب اور ان کی جمعیت پر اُتر رہا تھا جمعیت کے مخالفین کو ہر آن انتظار تھا کہ سمیع الله صاحب اس موقع پر جمعیت کو پھر سے کٹہرے میں لے آئیں گے لیکن معاملہ ایسے پلٹ گیا کہ بالکل بازی ہی بدل گئی

 سمیع الله خان صاحب کے اس مضمون کے بعد جو عمومی تاثر جمعیت کے خلاف غبن کرنے کا چل رہا تھا وہ بدل گیا اور عام علماء و افراد نے بھی سمجھ لیا کہ یہ جمعیت پر محض الزام تھا

 لیکن کچھ لوگ ابھی بھی ہاے توبہ مچاے ہوے ہیں وہ دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو جمعیت کی مخالفت صرف جمعیت علماء کے نام کی ہی وجہ سے کرتے ہیں اور ہر آن موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب کوئ موقع ملے اور جمعیت پر ٹوٹ پڑے
دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے جمعیت پر یہ الزام لگایا تھا اور تنظیمی سیاست کر رہے تھے اور کچھ لوگ جو اس الزام کے ذریعے دیوبند اور طلباء کے درمیان ایک سیاست کھیل رہے تھے. اور اس سازشی سیاست کے ذریعے وہ پر امید بھی تھے کے ان کا مقصد کامیاب ہوجاے گا وہ سب سکتے میں ہے یا بوکھلا گئے کیونکہ سمیع الله صاحب کی اس مداخلت کے بعد ان کے مقصد اور ان کے بنے ہوے جال بکھر گئے جو سچائی سمیع الله صاحب نے پیش کردی ہے اس کے بعد اب کسی بھی اصول کے تحت یہ الزام کسی بھئ معیاری کمیٹی میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا
اور دوسری طرف اس الزام کی جو ہوا چلی ہوئی تھی وہ بھی اکھڑ گئ یہی دو قسم کے افراد ابھی بھی شور مچا رہے ہیں کیونکہ جمعیت کے خلاف ہاتھ آیا ہوا موقع ناکامی کے ساتھ نکل گیا
 ویسے یہ بات ہنوز معمہ ہے کہ جمعیت ضلع سہارنپور نے تو بے شمار لوگوں اور ھندوستان کے کئی صوبوں کے طلباء مدارس کو گھر بھیجا لیکن پیسہ کمانے اور غبن  کا یہ الزام صرف بہار والوں کی طرف سے ہی کیوں آر ہا ہے?

 جمعیت علمائے ھند سے ھمیں بھی بہت سارے سخت اختلاف ہیں خود سمیع الله صاحب نے کئ معاملات میں جمعیت کی مخالفت کی ہے لیکن کسی کی بھی آپسی سیاست اور چپقلش کا حصہ بننا یہ بہت سطحی حرکت ہے

 سمیع الله خان صاحب نے اپنے کشادہ دل اور حقیقت پسند ظرف کا ثبوت دیا اور جمعیت کی حمایت کی ھے کیونکہ کچھ وقت پہلے اسی جمعیت محمود مدنی گروپ کے میڈیا کے ذمہ دار عظیم الله قاسمی نے جمعیت سے اختلاف کرنے پر محترم سمیع الله خان کو کافر تک بنا دیا تھا اور کہا تھا کہ سمیع الله. شیام لال بھی ہوسکتا ہے
اس کے باوجود سمیع الله صاحب نے جب جمعیت کو برحق پایا تو ان کی کھل کر حمایت کی یہ ایک باضمیر اور بےخوف انسان کی پہچان ہے

 گروپ میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آج چونکہ سہارنپور جمعیت کا معاملہ ہے جس میں ذہین اور محمود نامی دو حضرات سمیع الله خان کے دوست ہیں اس لیے سمیع الله صاحب ان کی تائید کر رہے ہیں ان سے میرا سوال ہے کہ کچھ سال پہلے سمیع الله صاحب نے قاری عثمان منصورپوری اور محمود مدنی کی تائید کی تھی جب وہ نریندرمودی سے ملاقات کرنے گئے تھے اس وقت تو ہم سب ہی جمعیت کے مخالف تھے اس ملاقات پر لیکن سمیع الله خان نے اس موقع پر بھی جمعیت علمائے ھند کی حمایت کی تھی مودی سے ملاقات پر اس میں تو سہارنپور کی جمعیت کا کوئ رول نہیں تھا ب کیوں انہوں نے جمعیت محمود مدنی کی موافقت کردی تھی?
اور اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جاے کہ سمیع الله خان نے سہارنپور جمعیت کی تائید ذہین اور محمود الرحمن کی دوستی کی وجہ سے کی ھے تو یہ تو مزید خوبی کی بات ھے ایک ایسے وقت میں جب آپ کے قریبی  دوستوں پر غبن اور چوری جیسے گھٹیا ترین الزمات لگ رہے ہوں ایسے وقت میں تو اچھے اچھے دوست دامن بچاتے ہیں لیکن ان الزامات کے خلاف وہی شخص آپکی حمایت میں کھڑا ہوسکتا ہے جو دوستی میں سچا اور دلی تعلق بنا کر دوستی کرتا ہو آجکل کے مادی دور میں ایسی دوستی تو واقعی ایک مثالی دوستی ہے

 صحیح بات تو یہی ہے کہ میں ذہین بھائی اور محمود بھائی کو میں بہت قریب سے دیکھا ہوں ان کے ساتھ رہا ہوں اور کئی تنظیمی امور میں ان کے ساتھ کام  کابھی موقع ملا ہے۔ان پر یہ گھٹیا الزام محض الزام ہی ہے جسے  سمیع اللہ خان صاحب نے بھی ثابت کردیا ہے ۔یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کا ضمیر اپنے اصولوں پر چلتا ہے وہ حقیقت پسند اور ہر آن سچائی اور انصاف کے ساتھ کھڑے ہونے والے لوگوں میں سے ہیں
سمیع الله صاحب نے کئی موقع پر سلمان ندوی صاحب کی بھی مخالفت کی محمود مدنی اور. ارشد مدنی صاحب کی بھی مخالفت کی. اور کئی موقعوں پر انہی حضرات کی کھل کر حمایت بھی کی
ایسے لوگ وہ ہیں جو فکر و نظر اور معاملے کی گہرائی کو سمجھتے ہیں پھر جو ان کی تحقیق میں حق نظر آتا ہے اس کے ساتھ بلا خوف لومۃ لائم بے باکی سے کھڑے ہوجاتے ہیں چونکہ آج کے سوشل میڈیائ اور اصولی انحطاط کے دور میں یہ معیاری اور انصاف پسند رویہ ناپید ہے اس لیے ہمارے نوجوان افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ھیں. سمیع الله خان جیسے علمی فکری اور سماجی سطح پر دشمنوں کے خلاف قومی کاز پر متحرک رہنے والے نوجوان جب ایسے باضمیر اور اصول پسند بھی ہوں تو یہ ایسے غیر معیاری اور افراط و تفریط کے دور میں امت کا ایک سرمایہ ہیں ان کی قدر ہونا چاہیئے

 سمیع الله خان صاحب کی ایک باوقار اور معتبر شناخت ہے جو انہوں نے ہمیشہ سچائی کا ساتھ دے کر بنائ یے جو لکھتے ہیں وہ ہزاروں لوگوں تک پہنچتا ہے اور بہت بڑی تعداد ان کی بنیاد پر راے بھی بناتی ھے. ان کی مقبولیت مدارس یونیورسٹی اور عصری طبقہ دونوں میں ہے انہوں نے جمعیت سہارنپور کے متعلق اس غبن کے الزام کی حقیقت اور سچائ پیش کر کے نا صرف جمعیت سہارنپور کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا ھے بلکہ دارالعلوم دیوبند کا بھی ساتھ دیا کیونکہ غبن کے اس الزام میں آخرکار اساتذۂ دارالعلوم بھی زد میں آرہے تھے کیونکہ طلباء کا کرایہ طے کرانے میں دارالعلوم کے ذمہ داران بھی شریک تھے سمیع الله صاحب کے ذریعے اب حقیقت آشکار ہوچکی ہے مزید پروپیگنڈے اور سیاست اب کامیاب نہیں ہوسکتے۔

نیز طلبہ کی خدمت اور دیوبند و اطراف میں عوامی سپورٹ نے ہر شخص کی زبان پر ذہین بھائی کا نام چڑھا دیا تھا۔جسے  ان کے مخالفین کو پچانا مشکل ہوگیااور یہ گھٹیا الزام ان پر عائد کردیا گیا۔

اللہ تعالی فہم سلیم نصیب فرمائے۔آمین

*میں جو تھا وہی ہوں*

ایک اہم خط حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند،وصدر کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند، و صدور و نظماء جمعية علماء ہند، و ملکی و صوبائی و ضلع سطح کی تمام دینی و سماجی تنظیموں کے نام --------------------------------------- یکے از خاک پائے علماء و صلحاء:- محمد دلشاد قاسمی صحافی I.N.A News باغپت و شاملی

ایک اہم خط حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند،وصدر کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند، و صدور و نظماء جمعية علماء ہند، و ملکی و صوبائی و ضلع سطح کی تمام دینی و سماجی تنظیموں کے نام
---------------------------------------

یکے از خاک پائے علماء و صلحاء:- محمد دلشاد قاسمی
صحافی
I.N.A News
 باغپت و شاملی

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
امید کرتا ہوں کہ اٰنجناب کے مزاج عالی بخیر و عافیت سے ہوں گے
آج ملک ہندوستان کے ساتھ ساتھ پورے عالم کے اندر جو کروناوائرس کے نام پر ایک شازش رچ کر یہود و نصاریٰ و ہنود نے تمام طرح کی اٰمد و رفت کو مفلوج کردیا ہے،اور اسی کی اٰڑ میں تمام ہی مساجد و مدارس و مکاتب کو بھی بند کرادیا گیا، کہ بندہ گان خدا اس کے گھر میں نہ جاسکے،اور تمام طرح کی دینی تحریکوں کو ملتوی کیا جاسکے،
جب کہ اگر دیکھا جاسکے تو برائے نام چرچ مندر کو بند کیا گیا، اور صرف انہی کو بند کیا گیا، جن میں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، جب کہ اٰج کی رپورٹ کے مطابق چین کے ووہان شہر کے اندر تمام طرح کی اٰمد و رفت کو چالو کردیا گیا، حتی کہ رپورٹ کے مطابق اسکولوں کو بھی چالو کردیا گیا، جن میں تقریباً 57000 طلباء و طالبات کو پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے،
مگر اب ہم اپنے ملک کی بات کریں تو شراب خانوں کو کھول دیا گیا، اور جو شوشل ڈشٹینشگ کی بات کہی جارہی ہے، وہ بالکل نہ دارد نظر اٰرہی ہے، اب نہ اس سے کروناوائرس پھیل رہا ہے اور نہ کچھ بھی تباہی مچ رہی ہے، حتی کہ میٹنگوں میں چاہے وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری انمیں سرکار کی گائڈ لائن سے بھی زیادہ افراد شریک ہوتے ہیں تو کوئی کروناوائرس نہیں پھیلتا لیکن مسجد میں اگر پانچ افراد بھی مل کر نمازیں ادا کرے،تو کروناوائرس پھیل جاتا ہے، عجیب ہے، چلو خیر امت مسلمہ نے اٰپ حضرات کے فیصلے کو سر اٰنکھوں پر رکھ کر اس پر عمل کیا مگر اس میں بھی اکثر جگہوں پر امام و موذنین کے ساتھ بدسلوکی حتی کہ مارپیٹ تک کی شکاتیں موصول ہوئی،
اب حکومت نے لاک ڈاون 1 اور لاک ڈاون 2 اور لاک ڈاون3 کے اٰتے اٰتے آٓن لائن کلاسز چلوادی، یہ الگ بات ہے کہ اس بات سے نہ طلباء راضی ہیں اور نہ استاد، مگر ایک طرح کی قلبی تسلی کے لیے یہ سب کچھ کردیا گیا،
لیکن مدارس اسلامیہ کے لیے بڑی مصیبت کا وقت اٰ گیا ہے ،کیوں کہ امسال مدارس اسلامیہ چندہ کرنے سے تو محروم ہی رہے، اسی کے ساتھ ساتھ اکثر جگہوں پر سالانہ امتحانات نہیں ہوسکے، حتی کہ اب عید الفطر کے بعد اٰگے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کا کوئی امکان نظر نہیں اٰتا، چہ جائے کہ ام المدارس کے ساتھ ساتھ دیگر معیاری مدارس اسلامیہ عربیہ نے یہ اعلامیہ جاری کردیا کہ اب کی بار جدید داخلہ نہیں ہوں گے، اور باقی جو داخل طلباء ہیں ان کو ششماہی امتحان کی بنیاد پر ترقی دے دی جائے گی،
مگر یہاں پر مجھے چند اشکالات ہیں جن پر بے حد توجہ لازم ہے
١:- ٹھیک ہے ان طلباء کے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی جو پہلے سے داخل ہیں مگر جو طلباء ایسے مدارس میں داخل ہیں جہاں ان کے لیے اگلی جماعتیں موجود نہیں ہے یا وہ اس معیار کے ادارے نہیں ہے تو ان کو تعلیم جاری رکھنے کی کیا صورت ہوگی؟
٢:-وہ طلباء جو حفظ کررہے ہیں ان کے لیے تو بالکل ہی مشکل ہے ، کیوں کہ دیکھا یہ جاتا ہے جن مدارس میں پڑھنے والے طلباء درجہ حفظ کے جب وہ عید الفطر کے بعد مدارس میں حاضر ہوتے ہیں تو ان کے پچھلے پڑھے ہوئے پاروں کا دور کرانے میں بقرعید اٰجاتی ہے، اور اب تو یہ سلسلہ رمضان المبارک سے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے سے بند ہے ،اور اٰگے کا کچھ پتا ہی نہیں کہ کب مدارس میں تعلیم جاری رکھنے کی صورت نکلے تو نتیجہ یہ نکلے گا یا تو کچھ طلباء اپنی تعلیم ہی چھوڑ چکے ہوں گے، یا جو پڑھنے کے شوقین بھی ہوں گے، یا ان کے ماں باپ حافظ عالم ہو اور انہوں نے تعطیل کے ایام میں ان کا دور جاری رکھا اور تعلیم جاری رکھی وہ چاہے اٰگے تعلیم جاری رکھ سکے باقی کا تعلیم جاری رکھنا بہت ہی مشکل ہے، کیوں کہ تجربہ کی بات ہے اگر کوئی طالب علم تعلیم کے دوران ایک دو ہفتہ کی رخصت لے لے یا تعلیم سے دور رہ جائے تو اس کا دوبارہ تعلیم میں وہ من نہیں رہتا جو پہلے تھا اس لیے اس بات پر بھی توجہ دی جائے کہ کس طرح ان کی تعلیم جاری رہ سکے اور امت مسلمہ کے نونہالان کا بہت بڑا طبقہ اس دینی تعلیم دور ہونے سے بچ جائے؟
٣:- اٰج کے پرفتن دور میں انگلش میڈیم اور سرکاری اسکولج کے ذریعہ امت مسلمہ کے ایک بہت بڑے طبقہ کو تعلیمات اسلامیہ سے دور کیا جارہا ہے، کیوں کہ اسکول و کالج میں بچوں کو اتنا مشغول کردیا جاتا ہے کہ اب پھر اس کی طبیعت کرتی ہی نہیں کہ وہ مدارس یا مکاتب میں جاکر کچھ اور پڑھ لے،
میری اس میں یہ رائے ہیکہ ہر بستی و قریہ میں جو مدارس مکاتب قائم ہیں ان میں بحمداللہ دینی تعلیم تو جاری ہے ہی اور ان میں ابھی تو صرف وہ ہی پڑھتے ہیں جنہیں کچھ دین سے لگاو ہے ورنہ باقی امت مسلمہ کا ایک بہت بڑا طبقہ توجہ نہیں دیتا، جب کہ وہ ہی اپنے بچوں اچھی تعلیم دلانے کے انگلش میڈیم میں داخلے دلواتے جہاں مہنگی سے مہنگی فیس وصولی جاتی ہے، جس کے عوض میں انہیں جو دیا جاتا ہے وہ ہے بد عقیدگی اور جہالت اسلامیہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ، تو جیسا کہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند سے مربوط کو بھی یہ مشورہ دیا گیا، کہ وہ اپنے یہاں پرائمری سطح کی تعلیم حکومت سے منظور کراکر شروع کی جائے،
لیکن اس میں کئی ساری مشکلات ہیں، یا تو حکومت مدارس کو منظوری دیتی ہی نہیں پرائمری چلانے کی، اگر دیتی ہے تو اس کے لیے بڑے لمبے خرچ ہیں جن کو مدارس اسلامیہ عربیہ و مکاتیب دینیہ برداشت نہیں کرسکتے، الا ماشاءاللہ
تو اس میں میری رائے یہ ہے ایک مشتقل بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے، یا پھر رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند اپنے سے تمام مربوط و غیر مربوط مدارس و مکاتب کے لیے ایسی کوئی صورت نکالے کہ تمام مدارس اسلامیہ و مکاتب دینیہ میں پرائمری سطح کی عصری تعلیم بھی جاری ہوجائے اور امت مسلمہ کا جو بہت بڑا طبقہ اتداد کے دہانے پر کھڑا ہے اس کو مرتد ہونے سے بچایا جاسکے، کیوں کہ جب وہ مدارس میں ہی تمام طرح کی تعلیم حاصل کرے گا چاہے دینی ہو یا دنیاوی تو پھر کوئی اپنے بچوں کو انگلش میڈیم یا سرکاری پرائمری اسکولج میں نہیں داخل کرائے گا، بلکہ وہ سب مدارس اسلامیہ و مکاتب دینیہ کا ہی رخ کریں گے،
بھلے اس کے لیے ان پر کچھ معمولی فیس کو لازم کیا جائے، کیوں کہ جب تعلیم ملتی ہے صحیح سب پیسہ خرچ کرتے ہیں ، انگلش میڈیم میں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ کلاس میں داخل طالب علم کی سالانہ دس سے بارہ ہزار روپے والدین اٰج کے دور میں ادا کررہے ہیں اگر اس کا نصف یا چوتھائی حصہ ہی جمع کراکر اور مذکورہ بالا صورت کو ہر جگہ قیام عمل میں لایا جائے، تو پھر ہر ایک مسلم بچے کی ذہنیت اسلامی ہوگی، ورنہ اٰج کے دور میں غیر مسلم کم مسلمان زیادہ مذہب اسلام پر حملہ اٰور ہورہے ہیں،
امید کرتا ہوں کہ یہ چند تجاویز پر جلد از جلد عملی قدم اٹھایا جائے گا، اور امت مسلمہ کی صحیح راہنمائی کی جائے گی،
------------------------------------
رہی بات یہ کہ اتنے خرچ کہاں سے اٰئیں گے تو جتنی مسلم تنظیمیں و جماعتیں مسلم نوجوانوں کے مقدموں پر لگا رہی ہے، یا امت مسلمہ کے لیے بود و باش کا نظم کررہی ہے اگر اس کا نصف حصہ بھی ان تجاویز پر حقیقی طور پر لگادیا جائے، تو امت مسلمہ کی مفلسی و بے کسی و بے بسی کے مسائل تو اپنے اٰپ ہی حل ہوجائیں گے، اٰج ہمیں دیگر قومیں جو بیوقوف بنارہی ہے وہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہی بنارہی ہے، اگر وہ صحیح طور سے پڑھ لکھ لیں گے،(میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ پڑھ تو اب بھی رہے ہیں مگر ذہنی اعتبار سے تو اسلام سے دوری ہے، جب مدارس و مکاتب میں پڑھیں گے تو ذہنی اعتبار سے اسلامی ہوں گے چاہے پھر وہ مکمل عالم بنے یا ڈاکٹر انجینئر یا پروفیسر یا وکیل یا دیگر شعبہ جات میں جائے مگر اسلام دشمن نہیں ہوگا،بلکہ اسلام کا حمایتی ہوگا اب تو حال یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اکثر طبقہ کو روزہ نماز کے باقی اسلام کے ارکان و اسلام کی باتوں کا کوئی علم ہی نہیں ہے اسی لیے کسی کے بھی بہکاوے میں اٰکر مدارس کو بھی اور علماءکرام کو بھی برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں) تو پھر ان کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ہے انشاءاللہ العزیز
اس لیے بہت عاجزانہ گزارش ہے کہ اس مضمون کو کئی مرتبہ پڑھیں اور سوچیں کہ کیا یہ تجاویز قابل عمل ہے یا نہیں؟
مضمون چہ جائے کہ طویل ہوگیا ،مگر طویل کرنے کا ارادہ نہیں تھا،مگر یہ من گھڑت مضمون نہیں ہے بلکہ امت مسلمہ کی بیکسی و بے بسی کی حقیقی تصویر ہے اس طول کے لیے معذرت خواہ ہوں
ایک بار پھر امید ظاہر کرتا ہوں کہ میرا یہ پیغام اٰپ حضرات تک پہونچے گا اور اٰپ حضرات اس کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرکے امت مسلمہ کو روشناس کرائیں گے
------------------
یکے از خاک پائے علماء و صلحاء:- محمد دلشاد قاسمی
صحافی
I.N.A News
 باغپت و شاملی

حرف آگہی کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی


حرف آگہی
کسی دیوار نے سیل جنوں روکا نہیں اب تک
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انسانوں کی بستی میں انسانوں کا ایک طبقہ مزدور کہلاتا ہے ، وہ کھیت کھلیان میں کام کرتا ہے ، رکشہ چلاتا ہے ، گھر گھر اخبار پہونچاتا ہے، حصول معاش کے لئے فٹ پاتھ پر ٹھیلا لگاتا ہے، جھاڑو لگاتا ہے ، نالے صاف کرتا ہے ، کل کارخانوں میں خون پسینہ ایک کرتاہے ،کمپنیوں کو اپنی صلاحیت ، محنت اور جد و جہد سے ترقی دیتا ہے ،اس کی اس محنت کے نتیجہ میں غذائی اجناس ہم تک پہونچتے ہیں، ساگ سبزی ،میوے اور پھل ہمارے جسم و جان کو توانا ئی بخشتے ہیں،وہ صفائی کرکے ایسا ماحول بناتا ہے کہ ہم بیماریوں سے بچتے ہیں اور کام کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں، کل کارخانے اور کمپنیوں کی ساری پیداوار اور معاشی ترقیات کی ساری چکاچوند اسی کے دم قدم سے ہے، وہ اپنی توانائی لگا کر لوگوں کو امیر سے امیر تر بناتا رہتا ہے اور خود زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے اس کے پاس روپے نہیں ہوتے ،امراء نے ہردور میں اس کا استحصال کیا ہے ،یکم مئی یوم مزدوراں کے طورپر مناکر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا حق ادا کردیا؛ لیکن غلام ہندوستان سے لے کر آزاد ہندوستان تک مزدوروں کے استحصال کی لمبی داستان ہے ،یہ داستان انفرادی طور پرہم سنتے رہے تھے اورکبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتے تھے ،اس لئے ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت چرچا نہیں ہوتا تھااور ان پرکئے گئے ظلم و جبر اور ان کی چیخیں امیروں کے سکوں کی جھنکار میں دب جاتی تھیں یا دبادی جاتی تھیں ،ٹریڈ یونین کے لیڈروں کوکمپنی کے مالکان خرید لیا کرتے تھے اور مزدوروں کی سنوائی نہیں ہوپاتی تھی، امراء کے پاس ذرائع اور وسائل ہیں اس لئے وہ اپنے ظلم کو بھی انصاف کا نام دے دیتے ہیں ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دھنا سیٹھوں کے گن گان میں لگ جاتاہیں۔ مزدوروں کے لئے آزاد ہندوستان میں قانون بنائے گئے ،ان کے حقوق کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کیےگئے ،کچھ مراعات انہیں دی گئیں ؛لیکن ان سب سے بھی ان کی زندگی میں کوئی تغیر اور انقلاب نہیں آیا ۔
مزدوروں کی زندگی کی گاڑی بندھے ٹکے انداز میں چل رہی تھی کہ ٢٢/مارچ کو ہمارے وزیراعظم نےایک دن جنتا بند کا اعلان کیا، عوام سے بالکونی اور کھڑکیوں میں کھڑے ہوکر تالی اور تھالی پیٹنے کو کہا، عوام نے تالی اور تھالی پیٹنے کی بات یادرکھی؛ لیکن بالکونی اور کھڑکی کی بات لوگ بھول گئے اور سڑکوں ،پارکوں نیزعوامی جگہوں پر باہر نکل کر تالی اور تھالی پیٹنا شروع کر دیا،ایک جشن سا ماحول پیدا ہوگیا اور اس ماحول نے سماجی فاصلے (سوشل ڈسٹنسنگ) کی ایسی کی تیسی کردی ،پھر ایک روز کے بعد ہی صرف چار گھنٹہ کی مہلت دے کر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا، اس فیصلے میں ریاستی حکومتوں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ، کوئی منصوبہ بندی اور پلاننگ نہیں کی گئی اور پورا ملک بند ہوگیا ، آمد و رفت کے تمام وسائل بند، دوکانوں پر تالے پڑ گئے ،گھر سے نکلنا ممنوع ہوگیا ،نکلنے والوں پر پولس نے وہ ظلم ڈھائے کہ انگریزوں کی بربریت مات پڑ گئی، امیروں نے اپنی ضرورت کے سامان اسٹور کرلئے اور ان کا کام پہلے ہی کی طرح چلتا رہا، بچ گئے غریب، مزدور ،مفلس ،فقیر ،بھکاری وغیرہ تو ان کے لئے سرکارکے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا ،مزدور جو کل کارخانوں میں کام کرتے تھے ، ان کے مالکوں نے ان کی چھٹی کردی اور ان کی خبر گیری کا کوئی سامان نہیں کیا ، تالابندی کے مراحل بڑھتے ہی رہے ،پہلے اکیس دن ،پھر انیس دن ،پھر چودہ دن اور اب ۳۰/مئی تک، ایسے میں مزدورگھر سے باہر نکل آئے، آنند وہار دہلی ،گاندھی میدان غازی پور ،ممبئی کے مختلف اسٹیشنوں اور ملک کے مختلف مقامات پر لاکھوں کی تعداد میں مزدور جمع ہوگئے ،سوشل ڈسٹنسنگ کا لفظ ایک مزاق بن کر رہ گیا ، حالات ناگفتہ بہ ہوگئے تب حکومتوں کو ان مزدوروں کی سوجھی ،محدود پیمانے پر ان کے کھانے پینے کا نظم کیا گیا، اترپردیش سرکارنے بسوں کے ذریعہ اپنے مزدوروں کے لانے کا انتظام کیا ،بعد میں اسپیشل ٹرینیں چلائی گئیں؛جو راستہ بھٹکتی رہی؛ لیکن تب تک بہت دیر ہوچلی تھی، مزدوروں کے سامنے ایک راستہ بھوکےمرجانے کا تھا ،دوسرا راستہ جمع پونجی لیکر گھر کی طرف نکل جانے کا،مزدوروں نے بغیر سوچے سمجھے کہ بارہ سو، سترہ سو، کلو میٹر کیسے پیدل جایا جائے گا ،وہ بھی سامانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ، سڑکوں پر نکل آئے ،اوپر چلچلاتی دھوپ، نیچے تارکول کی تپتی سڑک، سرحدوں پر پولس کے ڈنڈے؛ لیکن مزدور چلتے رہے ،چپلیں ٹوٹ گئیں، پاؤں میں آبلے پڑ گئے ،ماں کی چھاتیوں کے دودھ خشک ہوگئے ،بچے بلبلا تے رہے ،کئی نے پولس کے قہر سے بچنے کے لئے ریلوے لائن کے ذریعہ چلنا شروع کیا اور گاڑی انہیں کچلتی ہوئی چلی گئی، ٹرین کی پٹریاں چیختی رہ گئیں، کتنوں نے چلتے چلتے جان دیدیا، کتنے ٹرک اور دوسری سواریوں پر سامان کی طرح لد گئے، اس لدنے کے انہیں کئی کئی ہزارروپے ٹرک ڈرائیور کو دینے پڑے اس موقع سے پہلی بار بیلوں کے ساتھ جانوروں کی طرح مزدور کو گاڑی کھینچتے دیکھا، میں نے ان حالات کا معائنہ دہلی سے بہار آنے کے دوران، سفر میں کیا ،آنکھیں بھگیں،دل رویا ، کہیں کہیں سماجی تنظیموں کے ذریعہ انہیں زندگی بچانے کے لئے تھوڑا پانی اور کھانا دیا جاتا رہا؛ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی، سماجی تنظیمیں گاؤں محلے میں کام کرتی رہیں ،یہ بھی ضروری تھا؛ لیکن اس سے زیادہ ضروری مزدوروں کی زندگی بچانے کے لئے سڑکوں کے کنارے اسٹال لگا کر ان کے راحت و آرام کا انتظام کرنا تھا ،حکومت کی نیند چوتھے لاک ڈاؤن میں پورے طور پر کھلی اور مختلف ذرائع سے انہیں اپنے گھر پہونچانے کا انتظام کیا گیا؛لیکن یہاں بھی غیر منصوبہ بندی کی جھلک صاف نظر آئی ، اسپیشل ٹرینیں چلائی گئیں،لیکن اسٹیشن تک پہونچنے کے لئے گاڑی، سواری کو چلنے کی اجازت نہیں دی گئی ،جہاں اجازت دی گئی وہاں بھی سماجی فاصلہ کے نام پر ایک گاڑی سے ایک یا دو آدمی کے ہی جانے کی صورت فراہم کرائی گئی ،ایسے میں مزدور پھر سڑکوں پر پیدل نکل آئے ، ریلوے اسٹیشن تک پہونچنے کے لئے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ۔یہ مزدور مختلف جگہوں سے آئے تھے پریشان حال تھے اس لئے سوشل ڈسٹنسنگ کے لفظ کی ان کے یہاں کوئی معنویت نہیں تھی ،بہت سارے مزدوران پابندیوں کاسامنا کرنے سے گھبرا رہے تھے ،جو سرکار کے ذریعہ جاری کی گئی تھیں، اس لئے انہوں نے پیدل چلنے میں ہی عافیت سمجھی اور اسپیشل ٹرینوں کے چلنے کے بعد بھی سڑکوں پر مزدوروں کا جمگھٹا لگا رہا، صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ تیرہ سال کی بچی جیوتی اپنے بیمار باپ کو ہریانہ سے سائیکل پر بیٹھا کر دربھنگہ لے آئی، آج عوامی اور سرکاری سطح پر اس کو انعام سے نوازا جارہاہے، نویں کلاس میں اس کا داخلہ اس کے گھر جاکر کرایا گیا، اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے جیوتی کی شادی کا خرچ اٹھانے اور مالی مدد کی بات کہی، یہ سب اپنی جگہ؛ لیکن ہمیں اس کرب کو محسوس کرنا چاہیے؛ جو ایک بچی نے سات دن جھیلا ،دوسری طرف ورنگل سے خبر آئی ہے کہ نو لوگوں نے حالات سے گھبرا کر کنویں میں کود کر خود کشی کرلی، بعض لوگ اسے قتل بھی قرار دے رہے ہیں ،ایک مزدور کی طبیعت خراب ہوئی تو اسے ٹرک سے اتار دیا گیا ،امیت نامی اس مزدور کی موت سڑک پر ہوگئی، اس کا دوست جو مسلمان تھا وہ بھی اس کے ساتھ ہی ٹرک سے اترا؛ لیکن اسے وہ بچا نہیں سکا، مزدوروں کے اس سیلاب کو بند سرحدیں نہ روک پائیں، نہ  پولس کے ڈنڈے اور نہ موسم کی سنگینی ان پر اثر انداز ہوئی، یہ ایک سیل جنوں تھا ؛جسے کسی دیوار کے ذریعہ روکنا ممکن نہیں ہوا۔
دوسری طرف ریاستی حکومتوں کے درمیان سیاست جاری رہی جس کی وجہ سے کانگریس پارٹی کے ذریعہ فراہم کردہ ایک ہزار سے زائد بسوں کا مزدوروں کی گھر واپسی کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکا۔ آپسی اختلاط بڑھا تو کورونا وائرس بھی تیزی سے پھیلنا شروع ہوا اور اس مضمون کےلکھتے وقت  کورونا مریضوں کی تعداد پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے ،چوتھے لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی جی نے مختلف طبقات کے لئے بیس لاکھ کروڑ کے راحتی پیکج کی خوشخبری سنائی چار دن تک وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے لمبی لمبی پریس کانفرنس کرکے اس کے حصہ بخرے کی اطلاع ملک کو دی ، باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی بتائی گئی تفصیلات اس اصول پر مبنی تھیں کہ " کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی " جو لوگ سمجھ سکے ان کا کہنا ہے کہ بیس لاکھ کڑوڑ کا بڑا حصہ امیروں کے حصہ میں چلا گیا، کسانوں اور مزدوروں کے حصہ میں قرض کی سہولت آئی اور بس۔
اب کئی سرکاریں ان کے لئے اپنی ریاست میں ہی روزگار فراہم کرنے کی سوچ رہی ہیں ،یہ ضروری ہے اس لئے کہ مریضوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس میں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ نارمل ہونے میں مہینوں لگ جائیں گے،تب تک نہ تو سرکار مفت میں راشن فراہم کرسکے گی اور ان کو نقد رقم بار بار فراہم کرانا ممکن نہیں ہوسکے گا ،بیروزگاری ملک میں پہلے بھی کم نہیں تھی ،پان پکوڑہ ،اور پنکجر کو روزگار ماننے کے بعد بھی یہاں لاکھوں ہاتھوں کو کام نہیں مل رہا تھا،مختلف صوبوں سے لوٹنے والے مزدوروں کے لئے روزگار کے نئے مواقع فراہم کرنا آسان نہیں ہے ،یہ صورت حال بہار اور اترپردیش میں زیادہ بھیانک ہے ،حکومت کو ایسی پلاننگ کرنی چاہیے کہ جب تک سب کچھ نارمل نہ ہوجائے ان کے زندگی گذارنے کے لئے کوئی بندوبست کیا جائے ،بہار سرکار اس سلسلے میں قابل قدر منصوبہ بنا رہی ہے ،ہندوستان بڑا ملک ہے ، یہاں دستوری طور پر پورے ملک میں جاکر کمانے کی سہولت ہے ،ایسے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ سارے مزدور اپنے ہی صوبے میں کام کریں ،یہ صندوق میں بند ہونے والے سامان نہیں ہیں کہ انہیں بند کرکے رکھ لیا جائے گا ، ایسا کرنے سے ملک کا وفاقی ڈھانچہ کمزور ہوگا اور مختلف ریاستوں کے باشندوں کے درمیان ذہنی فاصلہ بڑھے گا یہ ملک کے لئے اچھی علامت نہیں ہوگی ،جن صوبوں میں آنے والے مزدوروں کے لئے نئے مواقع فراہم کرنے کی بات کہی جارہی ہے ،وہاں بھی اس کا خاص طور پر دھیان رکھنا ہوگا کہ مزدوروں کا استحصال نہ ہو ،جس طرح یوگی سرکارنے ایک آرڈی نینس کے ذریعہ مزدوروں سے ان کے حقوق چھینے ہیں اور جس طرح کرناٹک اور ممبئی میں مزدوروں کو ان کے وطن جانے سے روکنے کی تدبیریں کی جارہی ہیں ،یہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، ایسا کرنے سے مزدورگھر پہونچنے کے بجائے احتجاج کے لئے سڑکوں پر اتر آئیں گے ،جس کی آواز اب سنائی بھی دینے لگی ہے، اس وبائی مرض کے دور میں یہ ملک کے لئے ایک نئی مصیبت ہوگی اور حکومتوں کے لئے اس کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا ایسے میں ضروری ہے کہ ہندوستان میں مزدوروں کے حقوق کے جو ضابطے ہیں انہیں پورے طور پر برتا جائے اور ہر" ہاتھ کو کام " کے فارمولے پر عمل کیا جائے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کے نائب ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر ہیں)

پریشان حال لوگوں کی مدد بڑا کار ثواب ہے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مظفر پور میں امارت شرعیہ کے ذریعہ راحت رسانی کا کام جاری مظفر پور :29/مئی 2020 آئی این اے نیوز رپورٹ! (عبدالرحیم برہولیا وی)

پریشان حال لوگوں کی مدد بڑا کار ثواب ہے
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مظفر پور میں امارت شرعیہ کے ذریعہ راحت رسانی کا کام جاری

مظفر پور :29/مئی 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! (عبدالرحیم برہولیا وی)
امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کی جانب سے حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کے حکم اور قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی کی رہنمائی میں بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کے مختلف اضلاع میں ضرورت مندوں میں غذائی اجناس اور دوسرے سامان کی تقسیم کا کام جاری ہے ،مظفر پور کی امارت شرعیہ کی مقامی کمیٹی بھی اس کام کو کئی ماہ سے مسلسل انجام دے رہی ہے ،ان دنوں جب مزدوراورمدارس کے طلبہ و اساتذہ کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تو مظفر پور جنکشن پر آنے والے پریشان حال لوگوں کی مدد کا کام شروع کیا گیا،آج ممبئ اور دہلی سے آنے والے ٹرینوں کے مسافر کے لئے ضرورت کے سامان فراہم کئے گئے ؛جن میں پکے ہوۓ کھانے ،بسکٹ اور پانی کی بوتلیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
یہ کام کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرین نمبر 01756 جو ممبئی سے چل کر کٹیہار جاتی ہے ،اس نے چھپرہ کچہری سے حاجی پور کا سفر سات گھنٹے میں مکمل کیا ،اور حاجی پور سے برونی کی راہ سے آگے بڑھ گئی ،اس کے وہ مسافر جو دربھنگہ ،مدھوبنی وغیرہ کے تھے ان کو تین گھنٹے مزید لگے اور پھر وہ مظفر پور پہونچ سکے ،مقامی کمیٹی کے ذمہ داران رات بھر جاگ کر ضرورت کے سامان مہیا کرکے منتظر رہے ،ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے کیا،جو خود بھی ان دنوں مظفر پور میں مقیم ہیں اور اس قسم کے موقع پر بنفس نفیس اسٹیشن حاضر رہتے ہیں ،آج کی اس امداد رسانی مہم میں امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور مقامی کمیٹی کے ذمہ داران جناب شاہد اقبال عرف منا راعین ،جناب محمد شعیب صاحب ،بابا فرید رحمانی،ماسٹر محمد صبغتہ اللہ رحمانی اور اسلام پور کے محمد نسیم پیش پیش رہے ،ٹرین میں رابطہ کے لئے بطور مسافر جناب محمد کلیم صاحب جو ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کے بھانجہ اور گڑھیاکے رہنے والے ہیں ، موجود تھے ، ممبئ سے آتے ہوئے سفر کی دشواریوں کا سن کر آنکھیں اشکبار ہو گئیں ،یہی حال دوسری اسپیشل ٹرینوں کا ہے ، ٹرینیں لیٹ چل رہی ہیں ،بلکہ وہ راستہ بھٹک بھی جاتی ہیں ،جس سے مسافروں کی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں ؛البتہ مظفر پور کے ڈسٹرکٹ ٹرانسپورٹ افسر کا بھر پور تعاون امارت شرعیہ کو حاصل ہے ،اس لئے ان کی تحریک پر ٹرینوں اور بسوں کی فراہمی میں کافی سہولت ہو جاتی ہے ،اس موقع سے حضرت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے اس نمائندہ کو بتایا کہ پریشان حال لوگوں کی مدد بڑا کار ثواب ہے ،اس سے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے ،اور رضاء الٰہی سے جنت کے دروازے کھلتے ہیں ،امارت شرعیہ کی مقامی کمیٹی کے حوصلے بلند ہیں ،اور ان کی کوشش ہے کہ ضرورت مندوں کی بھر پور مدد کی جائے ،اہل خیر کو اس کام کے لئے آگے آنا چاہیے۔

9 دنوں میں 900 کیلومیٹرکامشکل ترین سفر طے کرکے وارانسی سے ارریہ اپنے گھر پہنچا ارریہ کےاس حوصلہ مند 9سالہ تبارک کی تعلیمی ذمہ داری قبول کرنے کیلے میں تیار ہوں: شاہنوازبدرقاسمی

ارریہ کےاس معصوم نے اپنے بیمار والدین کو ٹھلیے پر بیٹھا کر 9 دنوں میں 900 کیلومیٹرکامشکل ترین سفر طے کرکے وارانسی سے ارریہ اپنے گھر پہنچا
ارریہ کےاس حوصلہ مند 9سالہ تبارک کی تعلیمی ذمہ داری قبول
کرنے کیلے میں تیار ہوں: شاہنوازبدرقاسمی
                      ____________________________
ارریہ کے اس 9سالہ حوصلہ مند تبارک کی اسٹوری سوشل میڈیا پر ان دنوں خوب وائرل ہورہاہے،اس معصوم نے اپنے بیمار والدین کو ٹھیلے پر بیٹھا کر 9 دنوں میں 900 کیلومیٹرکامشکل ترین سفر طے کرکے وارانسی سے ارریہ اپنے گہر پہنچ گیا جو اپنے آپ میں ایک مثال اور تاریخی کارنامہ ہے_
مجہے آج ای ٹی وی بھارت ارریہ کے بیورو چیف عارف اقبال نے اس واقعہ کی اطلاع دی، ہم نے فوری طور پر ان کے معرفت یہ پیغام بھیج دیا ہے کہ اس معصوم بچے کی فیملی اگر اس بات کیلے راضی  ہوجاے تو ہم اس ہونہار کی مکمل تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کیلے الحمدللہ تیار ہیں_
ارریہ کے اس 9سالہ حوصلہ مند تبارک کی اسٹوری سوشل میڈیا پر ان دنوں خوب وائرل ہورہاہے،اس معصوم نے اپنے بیمار والدین کو ٹھلیے پر بیٹھا کر 9 دنوں میں 900 کیلومیٹرکامشکل ترین سفر طے کرکے وارانسی سے ارریہ اپنے گہر پہنچ گیا جو اپنے آپ میں ایک مثال اور تاریخی کارنامہ ہے_
مجہے آج ای ٹی وی بھارت ارریہ کے بیورو چیف عارف اقبال نے اس واقعہ کی اطلاع دی، ہم نے فوری طور پر ان کے معرفت یہ پیغام بھیج دیا ہے کہ اس معصوم بچے کی فیملی اگر اس بات کیلے راضی  ہوجاے تو ہم اس ہونہار کی مکمل تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کیلے الحمدللہ تیار ہیں_

Thursday 28 May 2020

بلریاگنج: باہر سے آیا کورونا مریض، اور ایوب ہاسپیٹل پہنچا دوا لینے، ہاسپیٹل سیل!

بلریاگنج/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/مئی 2020) بلریاگنج کے ایوب ہاسپیٹل میں باہر سے آیا مزدور دوا لیکر جیسے ہی باہر  نکلا موقع پر پہنچی پولیس نے ہاسپیٹل کو سیل کر دیا.
بتا دیں کہ  مہاراشٹر سے مہراج گنج تھانہ علاقے میں ایک فرد آیا، جس کا ٹسٹ مہاراشٹر ہی میں ہوا تھا؟ اس کی رپورٹ مثبت آئی، مہراج گنج تھانہ کو اطلاع دی گئی تو اس فرد کی تلاش ہوئی، وہ شخص ایوب ہاسپٹل بلریا گنج آیا ہوا تھا۔ پولیس وہاں پہنچی تو وہ دوا لیکر روانہ ہوگیا تھا، راستہ میں پولیس نے اس کو اپنی تحویل میں لے لیا، اس کے بعد ایوب ہاسپٹل 48 گھنٹے کے لیے سیل کیا گیا ہے، سینیٹائز کرنے کے بعد کھولا جائے گا، وہاں کے تمام اسٹاف کو ہوم کورنٹائن رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

Wednesday 27 May 2020

رمضان المبارک کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

ازقلم: مفتی محمد نوراللہ قاسمی دربھنگوی
 ___________
    رمضان المبارک اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوا اوربڑی تیزی سے ہمارے درمیان سے رخصت بھی ہو گیا، یہ مہینہ ایک مسلمان کو ایمانی اور عملی طور پر عروج اور بلندی عطا کرتا ہے ،ان میں وہ یقین اور ایمان پیدا کرتا ہے جومسلمانوں کا عظیم سرمایہ ہے اور جو اسلام میں مطلوب اور مقصود ہے ۔عملی طور پر بھی ان میں وہ اسپرٹ پیدا کی جاتی ہے کہ اگر رمضان کے بعد بھی اسی رفتار سے سفر جاری رکھا جائے تو آخرت کی منزل آسان ہو جائیگی اور ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں وہ راحت نصیب ہوگی جس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتالیکن یہ ہمارا المیہ ہے کہ رمضان المبارک میں جو عمل کیا جاتا ہے اس کی رفتار بعد میں سست پڑ جاتی ہے ۔
مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں ،چٹائیاں لپیٹ کر رکھ دی جاتی ہیں ، اور اب پرانے نمازیوں کی وہی ایک دوصف باقی رہ جاتی ہے حالانکہ رمضان اس لئے دیا گیا تھا تاکہ اس میں مسلمانوں کی ایمانی وعملی لو تیز ہو سکے اور مسلمان رمضان کے بعد چلتا پھرتا قرآن نظر آئیں ،ان کی زندگی قرآنی تعلیمات کے سانچے میں اس طرح ڈھل جائے کہ ان کو دیکھ کر لوگ شریعتِ اسلامی کو سمجھ سکیں ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ کے ساتھ متصف ہونا بیان کیا ہے یعنی انسان کا دل‘سوچ ‘سمجھ‘انداز اور اخلاق وکردار سب کچھ اس طرح بدل جائیں کہ رمضان کے بعد ایک نئی اور صالح زندگی کا حامل بن جائے اور زندگی میں ایک طرح کا انقلاب برپا ہوجائے کہ اگر وہ رمضان سے قبل سودی معاملات کا کاروبار کرتا تھا تو اب وہ توبہ کرلے اور اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔خدا نخواستہ اگر وہ شراب نوشی میں ملوث تھا تو اب اس سے نفرت پیدا ہو جائے۔دھوکہ دہی ‘کذب بیانی ‘ظلم وزیادتی ‘حسد ‘غیبت اور دوسرے منکرات سے توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے آپ کو پاک و صاف کرلے اور دوبارہ ایسی معصیت کا ارتکاب ہرگز نہ کرے فرائض و نوافل کا ایسا خوگربن جائے کہ ان کے بغیر رات میں نیند آئے اور نہ دن میں چین و سکون کا احساس ہو ۔
اگر یہ کیفیات دل میں پیدا ہو گئیں اور زندگی میں ایسا تغیر رونما ہو گیا تو سمجھنا چاہئے کہ رمضان کا مقصد حاصل ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کو پالیا ورنہ بظاہر رمضان کا مہینہ ہم نے پایا اور کچھ اس سے حاصل کئے بغیر وہ ہم سے رخصت ہوگیا جو اہل ایمان کے لئے سب سے بڑی مایوسی کا ذریعہ اور محرومی کا سبب ہے ۔ رمضان المبارک میں ایک روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کے وجود کا احساس پختہ ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سخت دھوپ اور گرمی میں جبکہ پیاس سے زبان خشک ہوجاتی ہے اس وقت بھی تنہائی میں پانی پینے کی غلطی نہیں کرتا ۔عمل کے اعتبار سے جیسا بھی ہومگر روزہ کی حالت میں صبح سے شام تک بھوک اور پیاس کو بڑی بشاشت کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔
اگر میں نے تنہائی میں بھی کچھ کھا پی لیا تو اگرچہ انسان کی نظر سے بچا جاسکتا ہے مگر میں اپنے رب کی نظر سے نہیں بچ سکتا ۔یہی وہ احساس ہے جو اسے کھانے پینے سے روکتا ہے اور بھوک و پیاس برداشت کرنا اس کیلئے آسان ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک کا یہ پیغام ہے کہ جس طرح اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا احساس تھا اور چلتے پھرتے اُس کا ڈر دل میں بسا ہواتھا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کا احساس اور اس کی گرفت کا ڈر دل میں موجود ہوکہ روزہ در حقیقت اسی کیفیت کو پختہ کرنے کا ایک نصاب ہے ۔اگر یہ کیفیت دل میں پیدا ہوجائے تو حرام وحلال کی تمیز دل میں پیدا ہوگی ،کسی پر ظلم کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔شراب نوشی ‘زناکاری ‘دھوکہ دہی ‘کذب بیانی وغیرہ سے زندگی پاک و صاف ہوگی ۔سودی لین دین سے وہ آدمی توبہ کرلے گا اور کسی ایسے کام کی طرف اس کا ذہن نہیں جائے گا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے ۔ ہر وقت اس کے دل ودماغ میں اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کا احساس ہوگا جس سے وہ تمام منکرات سے محفوظ رہے گا جیسا کہ صحابۂ کرامؓ میں یہ احساس جاگزیں تھا ،اس کے سبب ان کا مقام اتنا بلند ہوا کہ پوری امت ان کی بلندیوں پر رشک کرتی ہے ۔رسول اکرم کی تمام محنتوں کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ ہر انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے ،وہ عرش کا مالک ہے اس کا کوئی ثانی اور نظیر نہیں ‘اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا ‘اس کی بندگی میں ہی دنیا وآخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے ۔رمضان المبارک کا بھی یہی مقصد قرآن نے سورہ البقرہ ،آیت 183میں بیان کیا ہے روزہ دار نے اگر اس مقصد کو پالیا تو گویا شریعت کے اصل مقصد کو اس نے پالیا اور اب وہ گمراہی سے محفوظ ہوگیا۔ ایک شخص روزے کی حالت میں اُن تمام چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے جن کو شریعت نے وقتی طور پر ممنوع قرار دیا ہے ۔
یہ در اصل اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ جس طرح رمضان میں ان چیزوں سے رکے رہے اور شریعت کی پابندی کی، ویسے ہی رمضان کے بعد ان تمام چیزوں سے رکے رہنا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے جن کو شریعت نے مستقل طور پر حرام قرار دیا ہے ۔اہل ایمان کو چاہئے کہ ممنوعات سے مکمل گریز کریں اور شریعت کا پاس و لحاظ رکھیں ۔وہ چیزیں جن پر صرف صبح سے شام تک پابندی تھی جب ان پر اس قدر سختی سے عمل کیا گیا اور پورا مہینہ اس پر مشق ہوتا رہا تو جن پر ہمیشہ ہمیش کے لئے بندش عائد کی گئی ہے ان پر کس قدر ہمیں سختی سے عمل کرنا چاہئے ۔
ایک مسلمان کو حرام اور ممنوع عمل کرتے ہوے فوراً اس بات کی طرف ذہن کو لے جانا چاہئے کہ رمضان میں جس طرح ممنوعات سے رکے رہے اسی طرح غیر رمضان میں بھی مجھے تمام نا جائزکاموں سے رکنا چاہئے ایسا تو نہیں ہوسکتاکہ رمضان میں ہی رکنا میرے لئے ضروری تھا اور بعد میں نہیں۔جب بھی مقصد اپنے رب کو راضی کرنا تھا اور اب بھی وہی مقصدہے ،پھر حرام اور ممنوع چیزیں غیر رمضان میں کیسے جائز ہوسکتی ہیں؟ اسی طرح رمضان المبارک کا ایک خاص تحفہ اور سوغات قرآن مجید کی تلاوت اور اس میں غور وتدبر کرناہے ۔قرآن مجید اسی مہینے میں لوح محفوظ سے سمائے دنیا پر ناز ل کیا گیا اسی لئے اس مہینے کو اللہ تعالیٰ نے بڑا شرف وعزت عطا کیا اور اس کو تمام مہینوں پر فضیلت دی گئی ۔اس طرح قرآن کریم کو اس مہینے سے خاص مناسبت حاصل ہے ،یہی وجہ ہے کہ رمضان کی ایک خاص عبادت تراویح کو قرار دیا گیا جس میں پورا قرآن سنا یا پڑھا جاتا ہے۔صحابۂ کرامؓ کا یہی معمول تھا اور قرن اول سے آج تک یہ معمول منتقل ہوتے ہوے آرہاہے ۔مسلمان بڑے ذوق و شوق سے قرآن پورا مہینہ سنتے ہیں اور اس کیلئے بڑا جتن کرتے ہیں ۔
اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ رمضان کے بعد بھی قرآن کریم کی تلاوت کو اپنا معمول بنالیں اور اس سے تعلق باقی رکھیں ،قرآن کریم کی تلاوت صرف رمضان کے لئے خاص نہیں بلکہ رمضان میں کثرت سے تلاوت در اصل اپنی طبیعت کو عادی بنانے کے لئے ہے تاکہ غیر رمضان میں بھی یہ عادت باقی رہے اور ہر صبح وشام قرآنی آیات کا ورد زبان پر جاری رہے یاکم سے کم فجر کی نماز کے بعد ایک خاص مقدار میں تلاوت قرآن کو اپنا معمول بنا لیا جائے پھر اس کے بعد اپنے کام کا آغاز کیا جائے۔ انشاء اللہ اس سے کام میں برکت پیدا ہوگی اور پورا دن مصائب ومشکلات سے محفوظ رہینگے۔
اسی طرح قرآن کریم کے معانی ومفہوم پر غوروتدبر کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے کیونکہ یہی دراصل قرآن کے نزول کا مقصد ہے ۔ بلا شبہ یہ کتاب اصولِ حیات اور تمام قوانین کا منبع اور سرچشمہ ہے اور جب تک اس کے ترجمہ اور معانی ومفہوم پر ہم غور نہ کریں اس وقت تک اس کے اصولِ حیات ہونے اور اس کی شا نِ رفعت کا علم نہیں ہوسکتا اس لئے موجودہ تراجم وتفاسیر کی مددسے اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ اپنے رب کے مقصود کو ہم پائیں اور اس پر عمل کرنے کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کریں ۔یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سے مسلمان رمضان کے بعد پورے سال قرآن پر ہاتھ بھی نہیں لگاتے بلکہ بہت سے لوگ قرآن پڑھنا بھی نہیں جانتے اور نہ اس کی کوشش کرتے ہیں، یہ قرآن سے بے اعتنائی اور مجرمانہ غفلت کی بات ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہمدردی وغمخواری کا بھی ہے ۔عام طور پر مسلمان اس میں محتاجوں ‘مسکینوں اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں ۔ان کو اپنے افطار وسحر میں شامل رکھتے ہیں ‘انکی دعوت کرتے ہیں اور حتی الامکان ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ ہمدردی کا یہ جذبہ رمضان کے بعد بھی باقی رہنا چاہئے ۔ایک مسلمان پاس پڑوس کے محتاجوں اور بیکسوں کی خبر گیری رکھے اوراس کی کوشش رہے کہ کوئی شخص پڑ و س میں بھوکا نہ سونے پائے ،اگر کوئی محتاج ہے تو اپنی بساط کے مطابق اس کی مدد کرے ‘اپنے کھانے میں سے کچھ حصہ اس کے پاس بھیج دے تاکہ وہ بھی اپنی یا اولاد کی بھوک مٹا سکے یہ بہت بڑا صدقہ اور خیر و بھلائی کا کام ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص بیمار ہے اور اس کے پاس دوا و علاج کے پیسے نہیں تو پڑوس اور دور کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کا دوا وعلاج کا انتظام کریں یا کم از کم علاج و معالجہ میں ہاتھ بٹائیں اور بقدر وسعت اس میں حصہ لیں ، آج کتنے لوگ ہیں جو  پارٹی میں بڑی شان و شوکت سے حصہ لیتے ہیں لیکن ان کے گھر کے پڑوس میں کوئی غریب بیمار ہے، اپاہج ہے جس کے پاس علاج جاری رکھنے کی طاقت نہیں وہ ایک ایک پیسے کا محتاج ہے مگر اس شخص کو اس کی خبر بھی نہیں ،اگر اس کے پاس کبھی اس کی اطلاع بھی آئی تو اس نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور نہ اس کے زخم پر مرہم رکھنے کی کو شش کی ،کیا یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان میں چند لوگوں کو افطار کرادینے سے ہمدردی کا حق ادا ہوجائے گااور دعوت افطار سے ان کے سارے گناہ دھل جائیں گے ؟اصل تو ان محتاجوں کے احتیاج کو دور کرنا ہے جو دوسروں تک نہیں پہنچ سکتے اور آپ کو ان کا علم ہے ‘ان بیکسوں کی بیکسی کو دور کرنا ہے جن کی نظریں آپ کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ خاموشی کے ساتھ ان افراد کی مدد کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی وغمخواری کا اظہار کریں۔بہت سے لوگ ناگہانی مصائب کے شکار ہوجاتے ہیں ان کو دیکھ کر دل میں غمخواری کے جذبات کا پیدا ہونا رمضان کا اہم پیغام ہے ،غرض رمضان گزر جانے کے بعد بھی خلق خدا پر شفقت ‘غرباء پر ترس اور پریشان حال لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی کو شش رہے اور یہ مزاج کبھی ختم نہ ہو۔
رمضان کے بعد آدمی فرائض و نوافل کا ایسا خوگربن جائے کہ ان کے بغیر رات میں نیند آئے نہ دن میں چین و سکون کا احساس ہو۔
یہ چند وہ اہم چیزیں ہیں جن کا رمضان کے بعد بھی اہتمام کرنا چاہئے درحقیقت یہی رمضان المبارک کی قدردانی اور اس کا پیغام ہے ۔

*علامہ اقبال رح اپنی مشہور نظم "طلوع اسلام" کے آئینے میں!* ✒انس بجنوری

*علامہ اقبال رح اپنی مشہور نظم "طلوع اسلام" کے آئینے میں!*
✒انس بجنوری

جس پائے کی شاعری اقبال نے کی وہ برصغیر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔اقبال کا جوہر تھا کہ ادھر ان کے قلم سے اشعار نکلتے اور ادھر رستاخیز کی فضا پیدا ہوجاتی۔نیام سے تلوریں نکل آتیں۔گھوڑوں کی ٹاپیں گونجتیں۔انھوں نے چمنستان اردو کو سدا بہار بنایا اور دلوں کو اسلامی قمقموں سے روشن کردیا۔وہ فقط شاعر اسلام نہ تھے؛بل کہ مفکر اسلام تھے۔۔
اقبال سے قبل برصغیر میں شیخ احمد سرہندی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،احمد شاہ ابدالی،سید احمد شہید،حضرت نانوتوی اور علامہ شبلی جیسے مفکرین و مصلحین گذر چکے تھے،علامہ نے ان اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انقلابی افکار کی پرورش کی۔اقبال مغربی ماحول کے پروردہ؛مگر مشرقی تہذیب کے دلداہ تھے،علامہ اقبال نے امام غزالی کے بعد مشرقی تہذیب کے نشاہ ثانیہ کے لیے جتنی کد و کاوش کی ہے اس اعتبار سے اس سیالکوٹی مفکر کے قد اور پایے کا دوسرا مفکر تاریخ اسلام میں بہ مشکل نظر آتا ہے۔۔

شاعر مشرق علامہ اقبال کی شہرت یافتہ طویل نظم "طلوع اسلام" ایک دور اندیش مفکر کے قلم سے نکلا ہوا انقلابی شاہ کار ہے۔طلوع اسلام اپنی تراکیب و استعارات کی انفرادیت، اصطلاحات و موضوعات اور اسلوب بیان کی ندرت کے اعتبار سے بے نظیر کلام ہے۔"طلوع اسلام" میں اسلامی افکار اور انقلابی تاریخ کی بھرپور عکاسی ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہرحیثیت سے علامہ نے خوابیدہ قوم کو بیدار کرنے کی سعی کی ہے،وہ فلسفہء خودی کو انفرادی شخصیت کا جوہر قرار دیتے ہیں۔۔۔

مرد درویش اقبال نے ہمارے قومی تشخص کو نمایاں کیا ہے،ہم یوروپی افکار کے سامنے سجدہ ریز تھے،رنگ و خون کے بت ہمارے خدا تھے،ایرانی اور افغانی کی تفریق عروج پر تھی،شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی اور نطق اعرابی سے ہم ناآشنا تھے،رسم اذاں تھی ؛ لیکن روح بلالی کا نام و نشان نہ تھا،واعظ قوم کی پختہ خیالی،برق طبعی اور شعلہ مقالی ختم ہوچکی تھی،اسی لیے وہ کبھی صداقت،عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھاتے نظر آتے ہیں تو کبھی چرخ نیلی فام سے آگے مسلمانوں کی منزل کا پتہ بتاتے ہیں۔۔۔

وہ عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹنے سے خوفزدگی کے عالم میں نہیں بل کہ امید کی کرنیں دکھاتے نظر آتے ہیں وہ خون صد ہزار انجم سے سحر کی نوید پیش کرتے ہیں۔وہ کبھی کلیساؤں میں اذان کی آواز سناتے ہیں تو کبھی دشت و بیایان میں شیر پر سواری کرتے نظر آتے ہیں،وہ کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرا میں سجدہ ریز ہوتے ہیں تو کبھی دریاؤں میں گھوڑے دوڑانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔وہ کبھی عروق مردہء مشرق میں خون زندگی دوڑاتےہیں،تو کبھی نگاہ مومن سے تقدیریں بدل جانے کے نغمے سناتے ہیں ۔وہ مغرب سے اٹھنے والے طوفان کو مسلم امہ کے حق میں درست خیال کرتے ہیں کہ اس چوٹ سے خوابیدہ ضمیر بیدار ہوگا،تلاطم ہائے دریا سے گوہر سیراب ہوگا۔وہ کبھی ضمیر لالہ میں چراغ آرزو روشن کرتے ہیں تو کبھی چمن کے ذرہ ذرہ کو شہید جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔

ان کے نزدیک مسلم امہ کی آنکھ سے ٹپکتا لہو نیساں کا اثر پیدا کرلیتا ہے جس سے دریائے براہیمی میں گوہر پیدا ہونگے۔وہ مستقبل کے تئیں پریشان نہیں بل کہ مستقبل کو اسلام کی تابناکی کا دور خیال کرتے ہیں۔وہ مستقبل کے تئیں کتاب ملت بیضا کی شیرازہ بندی کا عندیہ پیش کرتے ہیں۔وہ شاخ ہاشمی سے برگ و بر پیدا کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ان کے نزدیک ہندوستان کا مستقبل اسلامی عروج کا دور بہار ہے۔وہ بلبل کو خطاب کے لیے آمادہ کرکے شاہیں کا جگر پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ نوجوان کو خدا کا دست قدرت اور زبان ہوش مند قرار دیتے ہیں۔وہ غافلوں کے درمیان تیقن کا صور پھونکتے ہیں ۔۔نوجوان کو براہیمی نسبت کا واسطہ دیکر اس سے معمار جہاں ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔علامہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کو مقصود فطرت اور رمز مسلمانی قرار دیتے ہیں۔۔ان کے نزدیک زور حیدر،فقر بوذر اور صدق سلمانی قیصر و کسرائی استبداد کے خاتمے کی کلید ہے۔۔۔!

الغرض علامہ کی فکر ایشیائی مسلمانوں کے اضطراب کا عکس اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے التہاب کی پکار ہے۔وہ یورپ کے ذہنی غلام کبھی نہیں بنے اور نہ اپنی قوم کے غلام بننے پر آمادہ ہوئے۔انھوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن وطن پرست بن کر نہیں۔اقبال نے ایک باطل کے مقابلے میں دوسرے باطل کی طرف داری سے انکار کیا۔انھوں نے ہمیں بتان رنگ و خوں اور وطنیت و قومیت کے نظریوں سے نجات دلاکر محبت فاتح عالم کا درس دیا اور ملت کی فکری رہنمائی کی۔۔۔

علامہ کی شاہکار تخلیق"طلوع اسلام" ایک طویل نظم ہے،افادہء عام کی غرض سے چند منتخب اشعار نذر قارئین کرتا ہوں:

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردہء مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا وفارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونےوالا ہے
شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کااثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھرگہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ وبر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیاغم
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہےسحر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرےترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کاجگر پیدا


خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی مکیں فانی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمزمسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
گماں آباد ہستی میں یقیں مردمسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر فقر بوذر صدق سلمانی

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سےہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہےتصویریں
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کرگہر نکلے
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشیدجیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبےادھر نکلے


تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرزندگانی
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہوجا!