اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *فتح سمرقند پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تاریخی عدل!* ازقلم: انس بجنوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 May 2020

*فتح سمرقند پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تاریخی عدل!* ازقلم: انس بجنوری

*فتح سمرقند پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کا تاریخی عدل!*

ازقلم: انس بجنوری

اسلامی تاریخ کا بے مثال حکمراں،عادل و نیک طینت خلیفہ، اموی باشندہ حضرت عمر بن عبدالعزیز مادرگیتی کے سینے پر عدالت کا ہمہ گیر استعارہ،تاریخ کا عظیم شہہ پارہ اور افق پر جلوہ افروز عدل سے بھرپور حکومت کا روشن ستارہ ہے،عمر بن عبد العزیز کا عدل و انصاف تاریخ کی کھلی شہادت ہے،وہ تاج و تخت کے سامنے آکر خدا کی حاکمیت کو نہیں بھولا،رب کے قرآن سے سرتابی نہیں کی،ہمیشہ عدل کے گیت گاتا رہا،عدل کے نغمے سناتا رہا،خلفاء راشدین کے زریں دور کو دہراتا رہا۔۔۔۔موقع کی مناسبت سے "قصص من التاریخ" نامی کتاب سے ایک عبرت انگیز واقعہ رقم کرتا ہوں جسے پڑھ کر قلب مضطرب جھوم اٹھتا ہے،حساس انسان وجد میں چلا جا ہے،قلب مسلم اسلام کی حقانیت کے گیت گاتا ہے۔۔انسانی تاریخیں عدل  کے قصوں سے بھری پڑی ہیں۔۔واقعہ تھوڑا طویل ہے؛لیکن موقع کی مناسبت سے انتہائی ضروری بھی اس لیے مکمل پڑھیں اور دوسرے لوگوں تک پہونچانے میں ہماری مدد کریں۔۔۔۔

جہاد کا اصول یہ تھا کہ حملے سے پہلے جزیہ یا قبول اسلام کی شرط کے ساتھ تین دن کی مہلت دی جاتی.... اگر دعوت اسلام قبول کرلی جاتی یا یا جزیہ پر رضامندی ہوتی تو مخالفین پر چڑھائی نہ کی جاتی،صلح سے کام چلایا جاتا ... سمر قند ایک خوبصورت سرسبز و شاداب شہر تھا...  جہاد کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سمرقند کو فتح کر لیا گیا۔۔  امیر  لشکر قتیبہ بن مسلم کی طرف سے بے اصولی کی گئی تھی ...

سمرقند کا پادری مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر امیر لشکر کے خلاف شکایت لکھ کر خلیفہء وقت(عمر بن عبد العزیز) کے پاس دمشق بھیجتا ہے... قاصد دمشق پہنچتا ہے ... بازار میں ایک شخص سے کہتا ہے میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکار ہوں،ایک ایلچی کے طور پر دمشق آیا ہوں۔خلیفہ کے گھر کا راستہ بتادو .... قاصد کو راستہ بتایاجاتا ہے....

قاصد بتائے گئے گھر پہنچتا ہے ،تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے.... یہ دیکھ کر قاصد پھر سے راستہ بتانے والے شخص کے پاس آتا ہے... غصے سے کہتا ہے:  میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتا پوچھا تھا ناں کہ مفلوک الحال شخص کا، جس کے گھر کی چھت تک ٹوٹی ہوئی ہے... وہ شخص کہتا ہے .. میں نے تجھے پتا ٹھیک ہی بتایا تھا....  وہی حاکم کا گھر ہے....


 قاصد بے دلی سے دوبارہ اسی گھر پر جا کر دستک دیتا ہے...  جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا... وہی اندر سے نمودار ہوتا ہے... قاصد تعارف کراتا ہے .. میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا قاصد ہوں ۔ " اور خط خلیفہ کو دے دیتا ہے... خلیفہ وقت خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھتا ہے...

" عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے امیر لشکر  قتبہ بن مسلم کے نام...
جیسے ہی خط ملے ایک قاضی کا فوری طور پر تقرر کرو ، جو پادری کی شکایت سنے۔ " اور مہر لگا کر خط واپس قاصد کو دے دیتا ہے...

قاصد سمر قند پہنچتا ہے...خط پادری کو تھماتا ہے... مگر پادری مطمئن نہیں ...  خط تو اسی کے نام لکھا ہوا تھا، جس سے انھیں شکایت تھی... اسے یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اپنے آپ سے باتیں کرتے پادری مجبوراً خط لیکر کر اس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچتا ہے .. جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے...

حاکم خط پڑھتے ہی فوراً ایک جمیع نامی شخص کو  قاضی مقرر کرتا ہے... موقع پر ہی عدالت لگتی ہے... اور عدالت سمر قندیوں کی شکایت سننے کے لیے تیار ہے...

 ایک چوب دار  قتیبہ کا نام کسی لقب و منصب کے بغیر پکارتا ہے...  قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے...

قاضی سمرقندی سے پوچھتا ہے...
" کیا دعویٰ ہے تمھارا ؟ "
پادری کہتا ہے....
" قتیبہ نے کسی پیشگی اطلاع کے بغیر  پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔ "

 قاضی قتیبہ کی طرف متوجہ ہوکر پوچھتا ہے...
"  کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟ "
قتبہ کہتا ہے...
" قاضی صاحب .... جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکا ہے...  سمرقند ایک عظیم ملک تھا... اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے..  بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی...  سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور ہیں...  ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا... "

قاضی قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوتا ہے:
" قتیبہ.... میری بات کا جواب دو.... تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت... جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟ "

قتیبہ کہتا ہے:
" نہیں قاضی صاحب میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ "

قاضی پھر وہ فیصلہ سناتا ہے جو سمرقند کی تاریخ کے سینے پر درج ہے،جسے مورخ نے آب زر سے لکھا ہے

"  میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو...  اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا...
قتیبہ ! اللہ تعالیٰ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکا دہی اور موقع پرستی سے....

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران مع اپنے بیوی بچوں کے... اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے... اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو...  تو کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے بغیر  تین دن کی اورسوچ و بچار کی مہلت دیے بغیر نہ آیا جائے... "


پادری حیران و ششدر کیا منظر دیکھتا ہے کہ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا ہے...

چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے... جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے... لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی...

اُس دن جب سورج ڈوبا ...  تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں....  انھیں ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے انھیں اور ان کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا...

تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے... پادری سمیت  لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور انھیں واپس لے آئے....پھر ایک طویل مدت تک اندلس مسلم قوم کا درالخلافہ بنارہا۔۔۔