اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مصیبتوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار کون؟ کیا مسلمان اور علماء؟؟ 🖋مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 May 2020

مصیبتوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار کون؟ کیا مسلمان اور علماء؟؟ 🖋مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی

مصیبتوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار کون؟ کیا مسلمان اور علماء؟؟

🖋مفتی محمدعطاءاللہ سمیعی

“مصیبتوں کا ذمہ دار اہل باطل مسلمانوں کو ٹھیراتے ہیں اور دین بیزار ولبرل طبقہ علماء کو ذمہ دار ٹھیراتا ہے”

اہل باطل پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں اسکے ذمہ دار مسلمان ہیں اور جب کوئی نعمت انکے ہاتھ لگتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اسی کے حقدار ہیں،  یہی طرز عمل مسلمانوں میں سے لبرل طبقہ اور علماء سے اور دین سے بیزار طبقہ اپناتا ہے،
اس طرز عمل کی تاریخ بہت پرانی ہے جو ابھی تک جاری ہے، چنانچہ فرعون کی قوم کے اس طرز عمل اور قول کو قرآن نے اسطرح بیان فرمایا “ فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ”
ترجمہ: جب انکے پاس کوئی نعمت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اسی کے مستحق تھے اور جب انکو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ موسی اور اسکے ساتھیوں کی نحوست ہے،
جب ان ظالموں کی سرکشی حد سے بڑھی تو اللہ تعالی نے ان پر مختلف قسم كے  عذاب بھیجے
“فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ”
ترجمہ: پھر ہم نے ان پر طوفان ، ٹڈی جوؤں ، مینڈک اور خون کے  عذاب بھیجے، انھوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی،
یہی سب کچھ آج ہورہا ہے دنیا میں خاص طور سے ہندوستان میں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے یا لڑائی و جنگ ہوتی ہے تو اسکا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھیرایا جاتا ہے، اسکا کنکشن مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے پھر چاہے وہ مقامی مسلمانوں کا نام لیکر ہو یا کسی مسلم ملک کا نام لیکر، ہندوستان میں کرونا پھیلنے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھیرایا گیا، پھر مسلمانوں میں سے جو لبرل طبقہ اور علماء بیزار مخنچوں طبقہ ہے وہ ہر ناکامی اور ہر پریشانی کا ذمہ دار مذہبی طقبے (علماء) اور مدارس کو ٹھیراتا ہے، حالانکہ یہ مصیبتیں متکبرین کے تکبر مجرموں کے جرائم ظالموں کے مظالم ، شیاطین کی سرکشی، منافقوں کی منافقت، مداہنوں کی مداہنت کی وجہ سے ہیں،  کیا نہیں معلوم شام میں بے گناہوں کا خون بہایا جارہاہے؟ کیا فلسطین میں مظلوموں پر ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے جارہے ہیں؟ کیا کشمیر میں معصوموں کو جیلوں میں نہیں ٹھونسا جارہاہے؟ کئی دہائیوں سے وہاں خون کی ہولی نہیں کھیلی جارہی؟ کیا ہندوستان سے  مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقے کو بے دخل کرنیکی کوششیں نہیں چل رہی ہیں؟ کیا لاک ڈاؤن میں مردان حر کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری نہیں ہے؟
ورلڈٹریڈ سینٹر کا بہانہ بناکر کیا افغانستان پر بموں کی بارش نہیں کی گئی؟ کیا یمن میں وہاں کے باشندوں کا جینا دوبھر نہیں کیا گیا؟ چیچنیا میں لیبیا میں عراق میں برما میں خون کے پیاسے کون تھے؟ کیا وہ مسلمان تھے؟ شیطان تم بنے ہوئے ہو اور الزام مسلمانوں اور معصوموں کو دیتے ہو جب یہ سب ہوگا تو کیا اللہ کا عذاب نہیں آئیگا؟ آج سارے گروگھنٹال بزبان حال “فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین” کا نمونہ پیش کررہے ہیں جب انکا حال فرعون جیسا ہے تو عذاب بھی نمرود اور فرعون جیسے آرہے ہیں نمرود کی فوج پر مچھروں کا عذاب آیا، فرعون اور اسکی قوم پر ٹڈیوں اور طوفان کے عذاب آئے، اسیطرح آج کے نمرود وفرعونوں پر کبھی وائرس کا حملہ (چاہے مصنوعی ہو یا قدرتی) کبھی طوفان کے حملے اور کبھی ٹڈیوں کا حملہ کبھی معاشی بحران کا مسئلہ،
اب سوال یہ ہوگا کہ اسکا شکار تو مسلم بھی ہیں تو جواب یہ ہے معاف فرمائیے مسلمانوں کے اعمال واخلاق ویسے نہیں رہے جیسے ہونے چاہئیں آج ہمارے معاملات اتنے بیکار ہوگئے ہیں کہ کوئی ہماری دوکان پر چڑھنے کو تیار نہیں، بات کرنیکا سلیقہ ہمیں نہیں، ایک دوسرے کا مذاق ہم اڑاتے ہیں، مذہبی طبقے (علماء) کا تمسخر ہم کرتے ہیں، ایک امام ایک مولوی کو ہم اتنی بھی تنخواہ نہیں دیتے جتنی ایک دہاڑی مردوز کو دیتے ہیں، مولوی کی عزت ہمارے دلوں میں فقط مسائل معلوم کرنے اور نماز پڑھانے تک ہی محدود ہے، شادی بیاہ پر لاکھوں خرچ کرنیوالی قوم نکاح کے موقع پر نکاح پڑھانیوالے کو ہزار پانچسو سے زیادہ ہدیہ دینے کو بوجھ سمجھتی ہے، ایک امام کو ایک عالم کو لوگ ایک مزدور کیطرح سمجھتے ہیں، مسجد کے امام اور مؤذن کو کچھ بھی کہنے کا حق ہر شخص رکھتا ہے، امام اور مؤذن کو اچھی حالت میں دیکھنا ہم مسلمانوں کر برداشت نہیں، (سبق حاصل کیجئے یہودی اور عیسائیوں کے اپنے علماء کے ساتھ برتاؤ سے) اس لاک ڈاؤن میں دیکھئے کتنے ہی امام تنخواہوں سے محروم کردئے گئے، ہمارے موانہ کے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں ، کئی مسجدوں کے ائمہ کی تنخواہیں نہیں دی گئی یو آناکانی کی گئی، کورونا کو بہانہ بناکر مؤذن کو کھانا دینے سے انکار کردیاگیا، ایک شخص جو ماشاءاللہ تبلیغی جماعت میں بھی سرگرم ہیں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ امام کو تنخواہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ جب چارپانچ لوگ ہی نماز پڑھ رہے ہیں مسجد میں ؟ رمضان میں بھی ہدیہ دینے کی ضرورت نہیں ؟ جبکہ انکا خود کا کاروبار ایسا ہے کہ مہینے میں لاکھوں کماتے ہیں، یہ ہے علماء سے محبت ہم مسلمانوں کی، بہت سے لوگ دین کا لیبل لگاکر علماء بیزاری کی مہم میں پیش پیش ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلم عوام اپنے علماء سے کٹ کر دین بیزار ہوجائیگی اور حال وہ ہوگا جو اسپین ورشیا کا ہوا، ایسے برے حالات میں تو آدمی بغیر تنخواہ کی نیت کے ویسے ہی امداد کردیتا ہے، کتنے ہی لوگ راشن تقسیم کررہے ہیں بلکہ راشن تقسیم کرنیوالوں میں یہ علماء ہی پیش پیش ہیں، کتنے مدرسین بے یارومددگار ہوگئے، مدارس کو چندہ دینا بند کردیا گیا، بہت سے لوگ تو یہانتک کہہ رہے ہیں کہ مدارس کو بند کردو مدارس میں اپنا مال نہ دو، جب مسلمانوں کے معاملات ،اخلاق زیروہیں ،دین سے دوری عروج پر ہے اور مذہبی طبقے سے محبت نہ کے درجے میں ہے، علماء سے عوام کو کاٹنے کا کام خود مسلم کررہے ہیں تو پھر حالات ویسے ہونگے جیسے ہمارے اعمال ہونگے،
“وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ”
ترجمہ: اور جوکوئی مصیبت تمکو پہنچتی ہے وہ تمارے ہاتھوں کی کرتوت ہوتی ہے اور بہت سے گناہوں کو تو اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں،
 ہمیں سب کو بشمول مسلمین وکفار سب کو اپنا محاسبہ کرنیکی ضرورت ہے کیا ہم اپنے خالق کے احکامات کے مطابق عمل کررہے ہیں؟ ہمارے معاملات، اخلاق،عادات، معاشرت کیا ایسے ہیں جس سے دوسروں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے؟ کیا ہمارے اندر اخلاص ہے؟ کیا ہمارے اندر للہیت ہے؟ یا منافقت اور مداہنت ہے؟
اور یقین جانئے کامیابی اور نجات صرف ان ہی لوگوں کو ملیگی جو کامل ایمان والے دین پر مکمل طور پر عمل کرنیوالے ، دین اسلام کے پاسبان، مذہب اور اہل علم سے محبت کرنیوالے ہونگے، باقی اہل باطل اور لبرل، علماء سے اور دین سے  بیزار طبقہ ، علماء سے کاٹنے والا طبقہ اپنے من پسند لوگوں کے ساتھ کردیا جائیگا، یہ فتنوں کا اور کانٹ چھانٹ کا وقت ہے، مکھن ایک طرف رہیگا اور چھاچھ (مَٹَّھا) الگ کردیا جائیگا، اب ہمیں طے کرنا ہے  ہمیں کس گروہ میں رہنا ہے؟
“وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین”
اللہ ہمیں عقل سلیم اور فہم صحیح عطاء فرمائے
آمین