اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: November 2019

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 November 2019

سڑک پر موت کا رقص ______ سلیمان سعود رشیدی

سڑک پر موت کا رقص
سلیمان سعود رشیدی

کسی بھی شہر کے ٹریفک نظام کو دیکھ کر اس قوم کے تہذیب وتمدن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،مہذب معاشرے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ٹریفک کا نظام بھی نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے، گزشتہ چند عشروں کے دوران تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے، سڑکوں پر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر پچیسویں سیکنڈ میں دنیا کے کسی کونے میں ایک شخص سڑک کے حادثہ میں ہلاک ہوجاتا ہے، ٹریفک حادثات دنیا میں اموات کی نویں بڑی وجہ ہیں جن کی وجہ سے ہر سال تیرہ لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور تقریباً تین کروڑ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔مجموعی طور پر ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر سال دنیا کو 518 بلین ڈالرز کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جو معاشی زوال کی بڑی وجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے سڑک حادثات میں ہونے والی اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کو اس کی روک تھام کے لیےاجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بیماریوں سے زیادہ لوگ سڑک حادثات میں مر رہے ہیں۔

حادثات کیوں ہوتے ہیں:
مختلف سڑک حادثات میں درجنوں افراد لقمہ اجل اور سینکڑوں زخمی ہو جا تے ہیں جن میں سے بعض تو عمر بھر کیلئے اپاہج بن کر اپنے گھر والوں پر بوجھ بن جاتے ہیں ، ہندستان میں حادثات کی جو بڑی وجوہات نوٹ کی گئیں ان میں تیزی رفتاری، سڑکوں کی خستہ حالی، ڈرائیوروں کی غفلت، اوورلوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، موبائل فون کا استعمال، وغیرہ شامل ہے ۔ ہندستان میں ڈرائیوروں کی بڑی تعداد بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ لائسنس کا اجراء بھی باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کے بعد عمل میں نہیں لایا جاتا بلکہ اناڑی لوگوں کو صرف تعلقات اور پیسے کی بنیاد پر لائسنس جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لیے ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ تعلیم اور شعور کے فقدان کی وجہ سے ڈرائیورز حضرات افیون، چرس اور شراب کے نشہ میں دھت ہوکر گاڑی چلاتے ہیں جو کئی مسائل کو جنم دیتا ہے،
رپورٹ کے مطابق:
حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف ریاست تلگانہ میں ہر روز اوسطاً چار اموات ہورہی ہیں ،۲۰۱۹ سے  اب تک ۱۶۳۵ لوگوں کی سڑک حادثات میں موت ہوئی چکی ہے ، جبکہ ۲۰۱۸ ء میں ۱۶۶۱ اموات ہوئی تھیں ، جہاں اس سال غیر محفوظ اسٹریچس اور ناقص ڈرائیونگ کے باعث ۷۸۳ہلاکتیں ہوئیں ، صرف اس ماہ اس ریجن میں ۶۳ اموات ہوئیں ، اس سال سڑک حادثات کی تعداد میں تقریباً آٹھ فیصد کی کمی ہوئی لیکن ہیلمٹ کے بغیر ڈرائیونگ کرنے ، تیز رفتاری اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کے باعث اموات میں اضافہ ہوا ‘‘ ۔ سائبرآباد ٹریفک پولیس کے ڈی سی پی وجئے کمار نے یہ بات کہی ، 2018 ء میں سائبرآباد ٹریفک پولیس حدود میں 662 اموات ہوئیں اور 3097 لوگ زخمی ہوئے جبکہ اس سال کرسپانڈنگ فیگرس باالترتیب 783 اور 2704 ہیں ۔ رچہ کنڈہ پولیس حدود سڑک حادثات کی زیادہ تعداد کیلئے دوسرے مقام پر ہے جہاں اس سال (اکٹوبر تک ) 610 افراد ہلاک اور 2526 لوگ سڑک حادثات میں زخمی ہوئے ۔ 2018 ء میں اس ریجن میں سڑک حادثات میں 719 لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی ۔ اس دوران حیدرآباد ٹریفک پولیس حدود میں ، جو نسبتاً اور چھوٹا ہے اور اس میں اسٹیٹ اور نیشنل ہائی ویز کم ہیں ، اس سال 242 اموات ہوئیں جبکہ گزشتہ سال 280 اموات ہوئی تھیں ۔ عہدیداروں نے کہا کہ سڑک حادثات میں زیادہ لوگوں کی اموات کی اصل وجہ فالٹی ہیلمٹس یا ہیلمٹس کا استعمال نہ کرنا اور تیز رفتار ڈرائیونگ ہے ۔
میڈیا کی ذمہ داری:
الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے عام آدمی میں شعور اجاگر کرنے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ اہل اقتدار کو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس اور رپورٹ طلب کرنے کے بجائے اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ہم اس جیسے خطرناک حدثات  سے بچ سکے۔
ترقی یافتہ ممالک قانون سازی، قانون پر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بناکر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لاچکے ہیں۔ ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اس لیے ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکام کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے ٹریفک پولیس کے افراد کی بہترین اور جدید دور کے مطابق تربیت کرتے ہوئے ان کے مانیٹرنگ کے نظام کو سخت کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی نا انصافی کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔بہتر نتائج کے لیے ضروری ہے کہ عوام اور ٹریفک پولیس میں کمیونکیشن گیپ دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
آر ٹی او کی ذمداری:
ڈرائیونگ سکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ادارے قائم کیے جائیں جہاں تربیت یافتہ اسٹاف خواہش مند افراد کو ڈرائیونگ کی بہترین تربیت دے سکے۔ ہر ڈرائیور کے لیے بنیادی طبی امداد کا کورس لازمی قرار دیا جائے تاکہ ممکنہ حادثات سے نمٹنے کے لیے اسے تیار کیا جاسکے۔ ڈرائیونگ لائسنس باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کے بعدجار ی کیا جائے اور اس کے حصول کو باضابطہ اور سخت بنایا جائے۔ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں رکھی جائیں اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔۔ ٹریفک کے متعلق شعورکی بیداری کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کیے جائیں تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے تیار کیا جاسکے۔
بلدیہ کی ذمداری:
پرانی سڑکوں کی فوری مرمت کی جائے اور تمام شہروں میں ضروری جگہوں پر ٹریفک سگنلز لگا ئے جائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی کرکے سڑک پر ذاتی گاڑیوں کے ہجوم پر قابو پایا جاسکتا ہے، ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
 آخری بات :
شہر حیدرآباد میں ایک طرف بڑھتے ہوئے ٹرانسپورٹ کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس کی جاتی ہے، یہ عجب صورت حال ہے شہر حیدرآبادکی سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ کا تصور ختم ہوکر رہ گیا ہے جو پیدل چلنے والوں کا حق ہوا کرتا تھا اب فٹ پاتھ کے بدلے تجاوزات نے جگہ لے لی ہے اور یہ تجاوزات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب یہ سڑکوں کو بھی اپنے گھیرے میں لیے ہوئے نظر آتے ہیں جو بسا اوقات حادثات کا بھی سبب بن جاتے ہیں،تجاوزات کے خلاف مہم  تو نہ کہ برابرچلائی جاتی ہے یہ تجاوزات مفت میں نہیں لگائے جاتے اس کے لیے باقاعدہ مختلف اداروں اور گروپوں کی مٹھی گرم کی جاتی ہے ، بہرحال لوگ پریشان ہیں، پیدل چلنے کے لیے فٹ پاتھ نہیں، سڑک کے کنارے چلو تو حادثے کا خطرہ ہے، روڈ پار کرنے کے لیے جو آہنی پل تعمیر کیے گئے ہیں ان پر لوگ چڑھنا گوارہ نہیں کرتے اور وہ چلتی ٹریفک میں سڑک کے دوسرے کنارے کو اس طرح پار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے خودکشی پر آمادہ ہو، بچ گیا اس کی خوش قسمتی، کسی گاڑی کے نیچے آگیا تو اس کی بد نصیبی والی بات ہے۔حیدرآبادگاڑیوں کا جنگل ہے ہی ایسے  جنگل میں ٹریفک قوانین کا تصور کیونکر ممکن ہو؟ ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے جو افراد بھرتی کیے گئے تھے وہ صرف مخصوص ایام میں سڑکوں پر نظر آتے ہیں باقی دنوں میں کہاں ڈیوٹی دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
محکمہ ٹریفک پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً ٹریفک حادثات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف آگاہی مہم چلائی جاتی رہی ہیں تاکہ ٹریفک حادثات کو کم سے کم کیا جاسکے ،جب تک محکمہ ٹریفک پولیس ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قانون کی حکمرانی کا بول بالا نہیں کرتا اور لوگ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کریں گے، یہ حادثات ہوتے رہیں گے۔

ہندوستان کی بہت دل کش تصویر محی الدین غازی

ہندوستان کی بہت دل کش تصویر

محی الدین غازی

خطبہ نکاح کے بعد مولانا نے کہا، میں نے نیک اور صالح نوجوان سعادت حسین کا نکاح ستیش جی کی پیاری بچی شامولی سے کیا، قبول ہے؟ سعادت نے کہا قبول ہے، اور دھیمی دھیمی مبارک بادیوں سے مسجد گونج اٹھی، ستیش جی کا چہرہ خوشی اور اطمینان سے کھل اٹھا۔ وہ اٹھے اور بڑے تپاک کے ساتھ مولانا سے گلے ملے۔

یہ واقعہ دہلی کی مسجد اشاعت الاسلام کا ہے، جو مرکز جماعت اسلامی ہند میں واقع ہے۔ جے این یو کی طالبہ شامولی نے ایک ڈیڑھ سال قبل اسلامی لٹریچر سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، وہ نوئیڈا میں مقیم ایک غیرمسلم خاندان کی اکلوتی بیٹی ہیں، ان کے گھر والوں نے بہت ایجابی رویہ اختیار کیا، اور ان پر کسی قسم کی سختی یا پابندی کے بجائے ان کے اس بنیادی حق کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ اور ان کے ساتھ محبت اور اپنائیت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔

شامولی نے اپنی دینی آگہی بڑھانے کے ساتھ دینی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا شروع کیا۔ وہیں جے این یو میں ایس آئی او کے ایک سرگرم طالب علم سعادت حسین (منگلور) نے انہیں رشتے کا پیغام بھیجا، جو انہوں نے قبول کرلیا۔ سعادت کے اہل خانہ منگلور سے دہلی آئے، اور 29  نومبر کو بعد نماز مغرب مسجد میں نکاح ہونا طے پایا۔

نکاح کی تقریب میں شرکت کے لئے شامولی کے دادا دادی، ان کے والدین، اور خاندان کے دوسرے بہت سے مرد وخواتین بھی تشریف لائے۔ مسجد کے مرکزی حصے میں ایک طرف خواتین بیٹھ گئیں، اور ایک طرف مرد حضرات بیٹھ گئے، اور مولانا عنایت اللہ سبحانی نے تقریر فرمائی، تقریر کا ایک ایک لفظ دعوتی جذبے سے سرشار تھا، مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کی تعلیمات شادی کے ذریعے دو افراد اور دو خاندانوں کو سچی محبت اور الفت میں پرودیتی ہیں۔ اللہ سے محبت کرکے اور اللہ کو راضی کرنے کی فکر کرکے زندگی خوشیوں اور برکتوں سے مالا مال ہوجاتی ہے۔ مولانا نے اسلام کی بہت سی خوبیوں کو بڑے دلنشین انداز میں بیان کیا، اور خطبہ نکاح کے بعد دولہا دلہن اور دونوں کے خاندانوں کے لئے دل کو چھولینے والی دعائیں کیں۔

نکاح کی تقریب بڑی سادگی سے انجام پائی، نکاح کے بعد چھوہارے تقسیم ہوئے، مہر بھی بڑا دلچسپ رکھا گیا، پچیس ہزار روپے اور امام رازی کی تفسیر کا انگریزی ترجمہ۔ مجلس نکاح کی سادگی اپنے آپ میں ایک دل پذیر دعوتی پیغام تھی۔

نکاح کی تقریب کے بعد شامولی کے گھر کے تمام مرد بڑے تپاک سے مسلم حاضرین سے گلے ملے، اس کے گھر کی خواتین مسلم خواتین سے گلے ملیں، اور سب نے ایک دوسرے پر محبت اور خیرخواہی کے پھول نچھاور کئے۔

مسجد کے عام حصے میں خواتین کی نشست، غیر مسلم مرد وخواتین کی بڑی تعداد میں حاضری، نکاح کی مجلس میں نومسلم لڑکی کے گھر والوں کی موجودگی، دعوتی پیغام سے بھرپور خطبہ نکاح، سب کچھ انوکھا انوکھا لگ رہا تھا، لیکن سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس میں مستقبل کے ایک خوبصورت سماج کی امید افزا جھلک نظر آرہی تھی۔

کیا ملک کی سیاست کو دہشت گردوں سے پاک کیا جائے گا؟


شہاب مرزا
مالیگاؤں بم بلاسٹ کے کلیدی ملزم اور بھوپال سے بی جے پی کے رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکرمہاتما گاندھی کے قاتل اور آزاد ہندوستان کے اولین دہشت گرد نتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت کہہ کر پھنس گئ تھی جس کے بعد اپوزیشن کے ہنگامے کی وجہ سے اسے معافی مانگنی پڑی اور اسی کے ساتھ ساورکر کے بعد معافی مانگنے کا ریکارڈ پرگیہ ٹھاکر کے نام ہوا لیکن ملک کی سب سے بڑے ایوان میں دہشت گرد اور دہشت گردوں کی تائید کرنا کس حد تک مناسب ہے؟
سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سناتنی دہشت گرد جو 2008 میں مالیگاؤں بم بلاسٹ کی کلیدی ملزم ہے گزشتہ سال ATS نے ضمانت پر رہا کر دیا اس ضمانتی کارروائی میں بی جے پی کے لیڈر مادھو بھنڈاری پیش پیش رہے جنہوں نے پر گیہ ٹھاکر کو وکیل فراہم کیا تھا۔معاملہ صرف سادھوی پرگیہ سنگھ کا نہیں ہے سناتن سنستھا، وشو ہندو پریشد، ہندومہاسبھا، اور ان کی مادر تنظیم ار ایس ایس اور آر ایس ایس کی سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی گاندھی جی کو مہاتما مانتی ہے اور نتھو رام گوڈسے کو محب وطن سمجھتے ہیں۔
اگر بی جے پی گوڈسے کو دہشتگرد سمجھتی تو گوڈ سے پرست ، دہشت گرد اور بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے والی سادھوی پرگیہ سنگھ کو بی جے پی سے نہ امیدواری دیتی، نہ وکیل فراہم کرتی اور نہ ہی پارلیمنٹری کمیٹی کی رکنیت سے نوازتی۔
دہشتگردوں اور زانیوں کو انعامات کے طور پر امیدواری اور وزارت دے کر بی جے پی ملک کی سالمیت بھائی چارہ مساوات کا گلا گھوٹ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں کے لیے منہ میں رام اور مسلمانوں کے لئے بغل میں زہریلی چھری لیے آر ایس ایس اور بی جے پی نے اس ملک سے آزادی مساوات بھائی چارہ پر مبنی دستور کو دفن کر ملک بھر میں منوسمرتی جیسے عدم مساوات کے قانون کو تھوکنے کی کوشش کی ہے۔
جس کی وجہ سے پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت، اسیمانند اور دیگر سناتنی دہشتگرد آج آزاد ہے اور بی جے پی انہیں ہر طرح کی پناہ دینے کوشاں ہے جو جتنا بڑا منواد ظلم کریگا اس اتنی بڑا انعام دیکر نوازا جائیگا بھارتیہ جنتا پارٹی نے سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال سے امیدواری دیی یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ وہ دہشت گرد ہے اور ضمانت پر باہر ہیں اس سے پہلے بھی وہ گوڈسے کی جئے جئے کار کر چکی ہے پھر بھی اسے پارلیمنٹری کمیٹی کا رکن بنایا
وزیراعظم نے پرگیہ ٹھاکر کے تعلق سے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا تھا کہ میں سادھوی کو کبھی معاف نہیں کروں گا وزیراعظم نے بالکل درست کہا تھا معاف نہیں کروں گا اور انعام میں پارلیمنٹری کمیٹی کی دیدی جو بعد میں منسوخ کر دی گئی لیکن دنیا جانتی ہے کہ معاف کرنے یا نہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ جب بی جے پی کا ایجنڈا ہندو راشٹر اور منو اسمرتی کو رائج کرنا ہے پارلیمنٹری کمیٹی سے سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو نکالنے سے اس پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا اگر حقیقت میں کارروائی کرنا ہے تو سادھوی پرگیہ سنگھ کی پارلیمانی رکنیت منسوخ کر دینا چاہیے۔
بغل میں چھپائی گئی مسلم دشمنی کی زہریلی چھری سے گجرات مظلومین کے چھینٹے صاف نہیں کیے جا سکتے لہذا بی جے پی کا یہ نفاق ساری دنیا جانتی ہے اور مسلم دشمنی پر پردہ ڈالنے کی غرض سے بی جے پی اور ار ایس ایس جتنی بھی چکنی چپڑی باتیں کرے حقیقت چھپ نہیں سکتی آخرکار جب وزیراعظم نے پرگیہ ٹھاکر جیسے بے قصور مانتے ہے وکیل فراہم کروایا جو بے نقاب ہوکر رہ گئی۔

آئین مخالف بل کے خلاف اُٹھنا ضروری

آئین مخالف بل کے خلاف اُٹھنا ضروری
اتواریہ: شکیل رشید
بار بار’شہریت‘ ثابت کرنے کا مطلب کیا ہے؟
یہ سوال  یوں تو پہلے بھی اہم تھا پر اب اس لیے مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ مرکزی حکومت بالخصوص مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ پورے  ملک میں این آر سی کا نفاذ کرناچاہتے ہیں۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک ’شہریت ترمیمی بل‘ پیش کرکے اسے قانون بنانے کےلیے ہاتھ پیر چلانا شروع بھی کردیئے ہیں۔ پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ ’شہریت ترمیمی بل‘ اس ملک کے آئین پر ایک طرح کا حملہ ہے، وہ  یوں کہ آئین نے تمام ہندوستانیوں کو بلالحاظ مذہب، ذات پات جو حقوق دئیے ہیں، یہ بل ان میں سے کئی حقوق کو چھین لینے کی ایک کوشش ہے۔  یہ مذہب کی سیاست کو بڑھاوا دینے کا بھی ایک مذموم عمل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید بات واضح ہوجائے کہ یہ بل مذہبی تعصب پر مبنی ہے، یہ بیرونی ملکوں سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کو درست قرار دیتا ہے لیکن باہر سے ’مہاجر‘ کی صورت میں آنے والے مسلمانوں کوشہریت دینا درست نہیں سمجھتا۔ باالفاظ دیگر یہ کہ اس بل کے ذریعے بی جے پی اور اس کے کرتا دھرتا ہندوستانیوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کا کھیل کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کا واحد مقصد سیاسی فائدہ اُٹھانا ہے۔
اگریہ بل منظور ہوکر قانون بن جاتا ہے تو ان مسلمانوں کی، جن کے اجداد کئی نسل پہلے اس سرزمین پر آگئے ہوں گے ’شہریت‘ مشکوک قرار دی جاسکتی ہے اور ا نہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیاجاسکتا ہے۔ این آر سی کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان افراد کی شناخت کی جاسکے جو غیر قانونی طو رپر اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ جب آسام میں این آر سی کے نتائج سامنے آئے تو پتہ چلا کہ مسلمانوں سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں غیر مسلم ہیں جو غیر قانونی طو رپر آسام میں رہ رہے ہیں۔ بی جے پی کےلیے یہ جھٹکا تھا، اور اس کے نتیجے میں اسے مغربی بنگال کے تین ضمنی انتخابات میں ہار کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔ بی جے پی کو خوب اندازہ ہے کہ اگر این آر سی میں ہندوئوں کے نام بھی غیر ملکیوں کی فہرست میں شامل ہوگئے تو اس کی سیاست دھری کی دھری رہ جائے گی، اس لیے وہ ’شہریت ترمیمی بل‘ لاکر سارے غیر قانونی رہائش پذیر ہندئوں کو’شہریت‘ دینے اور ایسے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلیے سرگرم ہوگئی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعد این آر سی کا ناجائز استعمال بڑھ جائے گا اور ہندوستان کے ان مسلمانوں کو بھی جو قانوناً یہاں کے باشندے ہیں نشانہ بنایاجائے گا۔ اس لیے اس بل کی بھی اور این آر سی کی بھی مخالفت میں کھڑے ہونا ضروری ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیوں ہندوستانی شہری بار بار اپنی ’شہریت ‘ ثابت کریں؟  برتھ سرٹیفکیٹ، اسکول سرٹیفکیٹ، راشن کارڈ، پاسپورٹ، الیکشن کارڈ، آدھار کارڈ، کیا یہ ’شہریت‘ ثابت کرنے کےلیے کافی نہیں ہیں کہ این آرسی کے عفریت کو آزاد کیاجارہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان کے کسی بھی شہری سے ، چاہے وہ کسی بھی مذہب اور ذات پات کا ہو ’شہریت‘ کا ثبوت مانگنا اس کی بھی اور ملک کی بھی بے عزتی ہے۔ لوگ اٹھیںاو رکہیں کہ یہ بے عزتی برداشت نہیں ہے۔

جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات: بی جے پی کو روکو ،لیکن کانگریس دودھ کی دھلی نہیں ہے اسدالدین اویسی نے مہاراشٹرکے بہانے سیکولرزم کودھویا،اپنی قیادت پربھروسہ کی اپیل کی

جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات: بی جے پی کو روکو ،لیکن کانگریس دودھ کی دھلی نہیں ہے
 اسدالدین اویسی نے مہاراشٹرکے بہانے سیکولرزم کودھویا،اپنی قیادت پربھروسہ کی اپیل کی
جمشیدپور۔۳۰؍نومبر:  جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں انتخابی مہم چلانے والے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے تمام اپوزیشن جماعتوں پر شدید حملہ کیا۔ جمشید پور کے مینگو میدان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس کے سیکولرازم کے فریب میں کبھی نہیں پھنس سکتے۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی کو روکیں ، لیکن کانگریس بھی دودھ سے نہیں دھلی ہے۔اویسی ، جو امیدوار ریاض شریف کے حق میں انتخابی مہم چلانے آئے تھے ، نے کہا کہ بی جے پی نے ہندوؤں کو بھی دھوکہ دیا ہے اور اب وہ بھی مسلمانوں کی حمایت چاہتی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر نریندر مودی اور امیت شاہ ہندوتوا اور مندر کے بارے میں بات کرسکتے ہیں ، پھر جب میں مسجد اور مسلمان کی بات کرتا ہوں تو پھر یہ غلط کیسے ہوا؟اویسی نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسٹر مودی کے ٹرپل طلاق کو قانون نہیں مانیں گے۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ کانگریس ،جے ایم ایم اور آر جے ڈی کا اتحاد غلط ہے۔اویسی نے کہا کہ بی جے پی ملک کو کھوکھلا بنا رہی ہے اور اگر اس سے اجتناب کرنا ہے تو اے آئی ایم ایم کو انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ انہوں نے اقلیتوں کو خصوصی طور پر کہا کہ انہیں اپنی سیاسی طاقت کو پہچاننا چاہیے اور ایسی جماعتوں سے دور رہناچاہیے ، جو مسلمانوں کے ووٹ لے کرمسلمانوں کی بھلائی نہیں کرسکتے۔اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ نے کہا کہ کانگریس نے مہاراشٹرا میں شیوسینا کے ساتھ معاہدہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اویسی نے مہاراشٹرا میں شیوسینا-این سی پی-کانگریس کی مخلوط حکومت پر بھی حملہ کیا۔اس دوران انہوں نے مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کو بھی نشانہ بنایا۔ اویسی نے کہا کہ میں اللہ سے دعا گو ہوں کہ جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ رگھوور داس الیکشن ہارجائیں۔ رگھوور داس جمشید پور کی مشرقی اسمبلی سے انتخابی میدان میں ہیں۔ تاہم ، یہاں سے اویسی کی پارٹی کا کوئی امیدوار انتخابی میدان میں نہیں ہے۔

بس اللہ نے بچا لیا! __________ عبدالغفار سلفی، بنارس


بس اللہ نے بچا لیا!
__________

عبدالغفار سلفی، بنارس

( 30 نومبر 2019)

 زندگی میں رونما ہونے والے حادثات ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں. یہ حوادث کبھی ہمارے ایمان اور توکل کے لیے آزمائش ہوتے ہیں، کبھی ہمیں سنبھلنے اور سدھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کبھی ہمارے گناہوں کی بخشش اور رفع درجات کا سبب بھی بنتے ہیں. یہ حادثے بتاتے ہیں کہ ہم اپنے تمام تر علم و صلاحیت اور اسباب و وسائل کے باوجود قادر مطلق کی قدرت کے آگے کتنے بے مایہ اور بے حیثیت ہیں. کل میرے ساتھ روڈ ایکسیڈنٹ کی شکل میں ایک بڑا حادثہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر کرم اور اس کی عنایت رہی کہ اس حادثے میں کسی بھی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، میں اور میرے ساتھ کے تمام لوگ بالکل محفوظ رہے الحمد للہ.

دراصل کل میں ایک دینی پروگرام میں شرکت کے لیے بنارس سے تقریباً چار سو کلومیٹر دور بہرائچ ضلع میں ایک قصبہ قیصر گنج گیا ہوا تھا. بنارس سے میں نواب گنج اسٹیشن تک ٹرین سے گیا اور وہاں سے ہمارے دوست ظفر بھائی نے (جو بسکھاری امبیڈکر نگر کے رہنے والے ہیں) اپنی بولیرو گاڑی سے ہمیں ریسیو کیا، ہم لوگ تقریباً دس بجے رات کو قیصر گنج پہنچے. ایک گھنٹہ خطاب کرنے کے بعد ہم لوگ کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپسی کے لیے روانہ ہو گئے. وہاں سے مجھے ٹانڈہ امبیڈکر نگر آنا تھا جہاں آج میرا خطبہ جمعہ ہونا تھا. تقریباً دو  گھنٹہ کا سفر طے کرنے کے بعد جب ہم لوگوں کی گاڑی نواب گنج سے قریب ایک مقام ترب گنج (Tarabganj) پہنچی تو ایک جگہ خطرناک موڑ تھا جو دور سے نظر نہیں آتا تھا، ہماری گاڑی بلا شبہ سو سے کم اسپیڈ میں نہیں تھی، گاڑی ظفر بھائی ہی ڈرائیو کر رہے تھے، وہ محسوس نہیں کر سکے کہ آگے موڑ  ہے، اتنی تیز اسپیڈ میں اچانک اسٹیرنگ کو گھمانا بہت مشکل تھا، انہوں نے پوری قوت سے بریک ماری لیکن تب تک گاڑی مین روڈ سے بیس پچیس فٹ گھسٹتی ہوئی تقریباً سات آٹھ فٹ نیچے کھائی میں جا چکی تھی، چند لمحوں کے لیے تو ایسا لگا کہ ہم لوگ موت کے منھ میں پہنچ گئے، ہوش و حواس قابو سے باہر تھے، گاڑی کھائی میں گری ضرور تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ نہ تو گاڑی کو کوئی گزند پہنچی نہ ہم سب کو کوئی کھرونچ پہنچی، کھائی میں آگے پانی اور شاید دلدل بھی تھا، گاڑی وہیں جا کر رک گئی. ہم سب بلا تاخیر گاڑی سے نکل کر کھائی سے چڑھ کر اوپر سڑک پر آ گئے. سب کے چہرے پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی. جب ہوش و حواس کچھ ٹھکانے لگے تو اندازہ ہوا کہ ایک بہت بڑے حادثے سے اللہ تعالیٰ نےہم سب کو بچا لیا. اب مسئلہ تھا گاڑی کو واپس کھائی میں سے نکالنے کا. ظفر بھائی نے گاڑی اسٹارٹ کر کے بیک کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی کا ایک پہیہ بری طرح پھنسا ہوا تھا جس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ اب بغیر سہارے کے گاڑی اوپر نہیں آ سکتی.

سنسناتی ہوئی سرد ہوائیں جسم کے اندر گھسی جا رہی تھیں، رات کے تقریباً دو بج رہے تھے، ہم لوگوں نے آنے جانے والی کئی گاڑیوں کو مدد کے لیے روکنے کی کوشش کی، ٹارچ جلا کر کھائی میں گری گاڑی دکھائی بھی، مگر کوئی بھی گاڑی یا ٹرک والا اتنی رات کو ہماری مدد کرنا تو دور گاڑی روکنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوا. ایک بار ذہن میں یہ بھی آیا کہ سو نمبر ڈائل کر کے پولیس کی مدد لی جائے، پھر محسوس ہوا کہ کرتا پاجامہ میں ملبوس داڑھی والے چند "ملّوں" کی مدد تو پولیس شاید ہی کرے لیکن دنیا بھر کی پوچھ تاچھ اور انکوائری ضرور  کرے گی.

آس پاس کچھ خاص آبادی بھی نہیں تھی، دور کہیں ایک گاؤں نظر آ رہا تھا، ہم میں سے دو لوگ گاڑی کے پاس رک گئے اور ظفر بھائی ایک ساتھی کو لے کر اس گاؤں میں پہنچے. وہاں پہنچ کر کسی کو اپنی بپتا سنائی تو اس نے گاؤں کے پردھان کے گھر کا پتہ بتایا اور کہا کہ اس وقت آپ لوگوں کو وہیں مدد مل سکتی ہے، ان کے پاس ٹریکٹر ہے جس کی مدد سے آپ کی گاڑی بآسانی نکل جائے گی. پردھان ایک غیر مسلم  لیکن نیک انسان تھا، اس نے بتایا کہ اس موڑ پر پہلے بھی کئی حادثے ہو چکے ہیں، اس نے کہا آپ لوگ اوپر والے کا شکر ادا کریں کہ سب لوگ محفوظ ہیں ورنہ یہاں کئی لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں. پردھان نے اپنے ڈرائیور کو کال کیا اور وہ بیچارہ ڈھائی بجے رات کو ٹریکٹر لے کر تھوڑی ہی دیر میں جائے حادثہ پر پہنچ بھی گیا. رسی کی مدد سے گاڑی کو نکالا گیا، چونکہ گاڑی اسٹارٹ ہو رہی تھی اس لیے بآسانی اوپر آ گئی. ہم لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس طرح فوری امداد کا راستہ بھی مل گیا ورنہ ہم لوگوں کو شاید صبح تک وہیں روڈ پر سردی میں ٹھٹرنا پڑتا.

ہم لوگ ایک نیک کام سے گئے تھے، کتاب و سنت کی دعوت پہنچانے گئے تھے، شاید اس کام کی برکت تھی یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے ان اذکار اور دعاؤں کی برکت تھی جنہیں سواری پر بیٹھتے ہوئے ہم لوگوں نے پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطرناک حادثے سے ہم لوگوں کو بالکل صاف بچا لیا. چار پانچ سال قبل ممبئی سے قریب کوکن کے ایک سفر سے لوٹتے ہوئے (جس میں ہمارے ساتھ شیخ ظفر الحسن مدنی حفظہ اللہ بھی تھے) بھی اسی قسم کا ایک حادثہ پیش آیا تھا اور اس حادثے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں لوگوں کو صاف صاف بچایا تھا. اس ارحم الراحمين کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.

الہی! ہم جیسے گناہ گار بندوں کے ساتھ تو یوں ہی عفو و کرم کا معاملہ فرما، ہماری ٹوٹی پھوٹی کاوشوں کو اپنے کرم سے قبول فرما، دعوتِ دین کے میدان میں کام کرنے والے تمام علماء ودعاۃ کی حفاظت فرما. آمین

اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت کی مولانا ارشد مدنی سے ملاقات

اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت کی مولانا ارشد مدنی سے ملاقات۔


اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے یہاں مدنی منزل پہنچ کر جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی سے خاص ملاقات کی ،ہریش راوت نے بتایاکہ ان کی مولانا سے ملاقات آپسی بھائی چارہ کو مضبوط کرنے کے لئے تھی۔ گزشتہ دیر شام اچانک اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ و کانگریس کے سینئر لیڈر ہریش راوت نے مدنی منزل پہنچ کر جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی سے ملاقات کی ۔ تقریباً نصف گھنٹے تک دونوں رہنماؤں کی بند کمرہ میں ملاقات ہوئی۔ بعد ازیں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہریش راوت نے کہاکہ مولانا مدنی سے ان کی ملاقات خیرسگالی تھی، ہریش راوت نے بتایاکہ مولانا مدنی سے گفتگو کے دوران کہاگیا کہ اجودھیا معاملہ کا اتنا بڑا فیصلہ آنے کے موقع پر ملک کے تمام طبقات نے آپسی بھائی چارہ اور پیار و محبت کا ثبوت دیا جو اس ہندوستان کی پہچان ہے ۔ انہوں نے کہاکہ مولانا ارشد مدنی کا آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ملاقات کا قدم میری نظر میںبہتر قدم تھا، اس طرح کی ملاقاتوں سے مذہب کے نام پر کھڑی کی گئی نفرتوںکی دیواریں ختم ہوتی ہیں اور ملک میںآپسی بھائی چارہ مضبوط ہوتا و امن وشانتی کاماحول پیدا ہوتاہے۔ ایک سوال کے جواب میں ہریش راوت نے کہاکہ ایودھیا تنازعہ پر اگر مولانا مدنی ریویو پیٹیشن کے لئے جارہے ہیں تو یہ انکا حق ہے جو آئین نے انہیں دیاہے، انہوں نے کہاکہ ریو یو پیٹیشن کو ایشو نہیں بنانا چاہئے بلکہ سپریم کورٹ میں اگر کوئی شخص نظرثانی کی عرضی لیکر جارہاہے تواس کامطلب یہ ہے کہ ملک عدلیہ پر اس کا بھروسہ بہت مضبوط ہے۔ ہریش راوت نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ گاندھی خاندان کی ایس پی جی ختم کرنے کا بی جے پی کا قدم بہت غلط ہے کیونکہ ایسی غلطی ہم نرسمہا راؤکے وقت میں کرچکے ہیں جب ہم نے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو کھویا تھا، اگر اس وقت ایسا نہ کیاجاتا تو آج راجیو گاندھی ملک کی قیادت کررہے ہوتے۔ 
سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے بیان پر ہریش راوت نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مہاتماگاندھی کے قاتلوں کو دیش بھکت بنانے والوں کو بی جے پی تقویت فراہم کررہی ہے، انہوںنے کہاکہ باپو کے اس دیش میں ایسے لوگ بھی کھڑے ہوگئے ہیں جو گوڈسے کی پوجا کرتے ہیں اور اس کامندر بنانے کی بات کرتے ہیں جوملک کے لئے شرم کی بات ہے۔ مہاراشٹر کے سیاسی حالات پر انہوںنے کہاکہ مہاراشٹر میں جمہوریت جیت گئی ہے، جس کے لئے سونیاگاندھی،شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے مبارکباد کے مستحق ہیں، انہوں نے کہاکہ کچھ لوگوںنے راتوںرات مہاراشٹر میں جمہوریت کو ختم کرنے کی سازش رچی تھی جو ناکام کردی گئی ۔اس دوران دیگر کانگریسی موجودرہے۔۔

عمر دابا سے فون پر گفتگو یاسر ندیم الواجدی

عمر دابا سے فون پر گفتگو
یاسر ندیم الواجدی

ناروے میں مقیم شامی مہاجر اور عالم اسلام کے ہردلعزیز ہیرو عمر دابا سے فون پر گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کروڑوں لوگوں کے ہیرو بن چکے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ یہ پانچ دوستوں کا کارنامہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس نوجوان کا فوٹو مشہور ہوا، وہ ان کا دوست قُصَی ہے، جب کہ ان کا نام اس فوٹو کے ساتھ چل رہا ہے۔ نیچے دیا گیا مشہور فوٹو قصی کا ہے، جب کہ دوسرا عمر کا ہے۔ 

کیس کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ وہ سب رہا ہوچکے ہیں اور انھیں سترہ سو یورو بطور جرمانہ ادا کرنے ہیں، جب کہ قرآن جلانے والے شخص پر قائم ہونے والا مقدمہ زیادہ سخت نوعیت کا ہے۔ اگر تحقیقات میں ثابت ہوگیا کہ وہ ملعون نفرت پھیلانے کے لیے اس حرکت کو انجام دے رہا تھا (ظاہر ہے یہی مقصد تھا)، تو اس کو تین سال کی قید ہوسکتی ہے۔

عمر دابا بہت متواضع شخص ہیں، ان کا اپنے چاروں دوستوں کو اپنی کامیابی میں شامل کرنا اور خود ہی بتانا کہ میں نے یہ کام اکیلے نہیں کیا ہے، ایک اچھے انسان ہونے کی علامت ہے۔ ناروے کی حکومت کی بھی پذیرائی ہونی چاہیے کہ اس نے ماضی میں امریکہ یا ڈنمارک کی طرح آزادی اظہار رائے کی دہائی دے کر مجرم کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ اس پر سنگین مقدمہ قائم کردیا اور فوری طور پر قرآن یا کسی بھی مذہبی علامت کی توہین کرنے کو جرم قرار دے دیا۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ازقلم:حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ
ازقلم:حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ پر مشتمل برصغیر کی علمی، دینی، سیاسی، تحریکی اور فکری جدوجہد کے دو عظیم نام ہیں۔ جن کے تذکرہ کے بغیر اس خطہ کے کسی ملی شعبہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، اور خاص طور پر دینی و سیاسی تحریکات کا کوئی بھی راہ نما یا کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ سے ہو ان سے راہ نمائی لیے بغیر آزادی کی عظیم جدوجہد کے خد و خال سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ دارالعلوم دیوبند کے اولین طالب علم تھے جو اپنی خداداد صلاحیتوں اور توفیق سے اسی مادر علمی کے سب سے بڑے علمی منصب صدر المدرسین تک پہنچے۔ وہ تعلیمی اور روحانی محاذوں کے سرخیل تھے لیکن ان کی نظر ہمیشہ قومی جدوجہد اور ملی اہداف و مقاصد پر رہی۔ حتیٰ کہ ان کا راتوں کا سوز و گداز اور مسند تدریس کی علمی و فنی موشگافیاں بھی ان کے لیے ہدف سے غافل کرنے کی بجائے اسی منزل کی جانب سفر میں مہمیز ثابت ہوئیں۔ اور بالآخر انہوں نے خود کو برطانوی استعمار کے تسلط سے ملک و قوم کی آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔
ان کی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔ مگر ہم ان کی تگ و دو کو دو تین حوالوں سے واضح کرنا چاہیں گے۔ معروف ہندو مؤرخ ماسٹر تارا چند کا کہنا ہے کہ:
’’1888ء میں شیخ الہندؒ کو دارالعلوم دیوبند کے سربراہ ہونے کا ارفع درجہ حاصل ہوا۔ اپنی زندگی کے اوائل سے ہی انہوں نے اپنے مشن کا فیصلہ کر لیا تھا، جس کے لیے وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک جدوجہد کرتے رہے۔ ان کا مشن ہندوستان کو آزاد کرانا تھا۔ 1905ء میں انہوں نے اپنے پلان کی نشوونما شروع کر دی اور دو محاذوں پر اپنا کام شروع کیا۔ ایک ملک کے اندر اور دوسرا ملک کے باہر۔ دونوں کو ایک ساتھ اور ایک وقت میں مسلح بغاوت کے لیے کھڑا ہونا اور انگریزوں کو ملک سے باہر کھڈیر دینا تھا۔ ہندوستان میں اس مشن کا ہیڈ کوارٹر دیوبند تھا، اس کی شاخیں دہلی، دیناج پور، امروٹ، کراچی، کھیدار اور چکوال میں تھیں۔ بیرون ہند یاغستان جہاں سید احمد شہیدؒ اور مولوی عنایت علیؒ و شرافت علیؒ کے پیرو اب تک انگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھے ہوئے تھے، انہوں نے فوجی انتظام مہیا کیا اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ ان کے لیڈر مقرر کیے گئے۔ قریب رہنے والے قبیلوں اور ہندوستان سے آدمیوں اور رضا کاروں کی شرکت کی توقع تھی۔ یہ بھی امید تھی کہ افغانستانی حمایت کریں گے۔ یہ مسلح بغاوت صرف مسلمانوں کا مسئلہ قرار نہیں دی گئی تھی، بلکہ پنجاب سے سکھوں اور بنگال سے ہندو انقلابی پارٹی کے ممبران کو بھی تعاون کی دعوت دی گئی تھی۔‘‘
مولانا غلام رسول مہرؒ نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:
’’ہندوستان میں گرفتاریاں شروع ہوئیں تو مولانا محمود حسنؒ کو تشویش ہوئی کہ بیٹھے بٹھائے گرفتار نہ ہو جائیں۔ ان کے نزدیک کام کا سازگار زمانہ آگیا تھا۔ اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ہر قدم کے لیے آزاد رہیں، چنانچہ انہوں نے مجھے (ابوالکلام آزادؒ ) کوبلا بھیجا۔ دہلی میں ملاقات ہوئی، دیر تک معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی۔ میری قطعی رائے تھی کہ باہر نہ جانا چاہیے اور یہیں رہ کر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ اس اثنا میں گرفتاری کی منزل آجائے تو اسے قبول کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ باہر جا کرکچھ نہ ہو سکے گا اور دوسرے ملک کی بجائے اپنے ملک میں معطل بیٹھنا زیادہ بہتر تھا۔ لیکن مولانا محمود حسنؒ نے یہی مناسب سمجھا کہ پہلے حجاز جائیں، پھر ترکوں سے ربط ضبط پیدا کر کے ایران و افغانستان کے راستہ یاغستان پہنچ جائیں جسے وہ آزادی کے لیے تمام سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتے تھے۔‘‘
چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ روانہ ہوگئے اور جن مراحل سے گزر کر وہ مالٹا کے جزیرے میں نظر بندی تک پہنچے وہ ایک مستقل تذکرہ کی متقاضی ہیں۔ لیکن جب وہ مالٹا کی اسارت سے رہائی کے بعد وطن واپس تشریف لائے تو آزادیٔ وطن کے لیے ان کا مقصد اور ہدف تو وہی تھا لیکن طریق کار کے حوالہ سے ان کا رخ تبدیل ہو چکا تھا۔ اور وہ مسلح بغاوت کی بجائے پر امن اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی اور تحریکی جدوجہد کو اپنا نصب العین قرار دے چکے تھے، جسے دارالعلوم دیوبند کے استاذ الحدیث مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے ایک مضمون میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’اسارت مالٹا سے رہائی کے بعد اگرچہ پیرانہ سالی اور مالٹا کی مرطوب و نا موافق آب و ہوا کی بنا پر عوارض و امراض کی کثرت نے آپ کو جسمانی طور پر بالکل نڈھال کر دیا تھا، لیکن جہد و عمل کا جذبہ اب بھی جوان تھا اور حریت وطن کا شوق فراواں اسی طرح شباب پر تھا۔ مالٹا سے واپسی پر ممبئی میں خلافت کمیٹی ارکان اور مہاتما گاندھی آپ سے مل چکے تھے۔ آپ نے وہیں سے دوسری جنگ چھیڑنے کا عزم کر لیا جس کے لیے حسب ذیل اصول مرتب کیے:
1۔ آزادیٔ وطن کے لیے پر امن جدوجہد
2۔ مسلم و غیر مسلم پر مشتمل مشترکہ محاذ کی تشکیل
3۔ قدیم و جدید علوم کے اداروں اور ان سے وابستہ افراد میں اشتراک عمل و یگانگت
4۔ ملکی و سیاسی امور کی قیادت کے لیے جمہوریت کی پاسداری
5۔ مسلکی تعصبات اور تفرقہ انگریزی سے اجتناب اور
6۔ قوم مسلم کے لیے سنت نبویؐ اور اسوۂ حسنہ کی پیروی اور تعلیم دین اور تبلیغ اسلام۔
چنانچہ انہی اصول ششگانہ کے تحت خلافت کمیٹی کے لیے ترک موالات کے فتویٰ سے نئی جہد و جنگ کا آغاز کر دیا۔ بعد میں اس فتویٰ کو جمعیۃ علماء ہند کے متفقہ فیصلے کی حیثیت سے 500 علماء کے دستخطوں کے ساتھ شائع کیا گیا۔ ہمیں اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہے کہ خلافت کمیٹی ہو یا جمعیۃ علماء ہند، ان دونوں نے حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک حریت کی کوکھ سے جنم لیا اور خود انڈین نیشنل کانگریس نے آزادی اور مکمل خود مختاری کا سبق اس تحریک سے سیکھا۔‘‘
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ تو اپنی تحریک کو اس مرحلہ تک پہنچا کر دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ان کے بعد جس شخصیت نے اس مشن کو سنبھالا اور انتہائی جانگسل اور صبر آزما جدوجہد کے ساتھ منزل تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا، انہیں دنیا شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اور اپنے عظیم استاذ کی طرح ان کی جدوجہد اور تگ و تاز بھی تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہے جس سے واقف ہونا ہر با شعور مسلمان بالخصوص ہر شعوری دیوبندی کے لیے ضروری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ دہلی سے شائع ہونے والے ’’آل انڈیا تنظیم علماء حق‘‘ کے ترجمان جریدہ ’’فکر انقلاب‘‘ نے حضرت مولانا غلام محمد وستانوی کی سرپرستی اور مولانا محمد اعجاز قاسمی کی نگرانی میں ان دو عظیم شخصیتوں کے حوالہ سے دو ضخیم معلوماتی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جس پر مدیر محترم جناب احسن مہتاب اور ان کی ٹیم کے ارکان شکریہ اور مبارک باد کے مستحق ہیں۔
شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے بارے میں خصوصی اشاعت مارچ 2014ء میں شائع ہوئی ہے ، جبکہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی حیات و خدمات پر خصوصی اشاعت ایک سال قبل فروری 2013ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ حضرت مدنیؒ پر خصوصی اشاعت سوا آٹھ سو صفحات اور حضرت شیخ الہندؒ والی اشاعت پونے آٹھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اور ان میں بیسیوں ممتاز ارباب قلم کی وقیع نگارشات کے ذریعہ استاذ اور شاگرد کی حیات و خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو کم وبیش سبھی ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ بلکہ بعض تحریروں کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہ وتا ہے کہ وہ خود ان واقعات کا مشاہدہ کر رہا ہے اور ان میں شریک ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ اور حضرت شیخ الاسلامؒ کے بارے میں ان دو ضخیم خصوصی نمبروں کی اشاعت ہمارے تحریکی اور تاریخی لٹریچر میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ اور ہماری رائے ہے کہ انہیں ہر دینی جماعت اور ہر دارالعلوم کی لائبریری کی زینت ہونا چاہیے تاکہ علماء، طلبہ اور دینی کارکن اپنے ان بزرگوں کے حالات زندگی، خدمات، جدوجہد اور اسلوب و ذوق سے آگاہی حاصل کر کے انہیں سرمۂ چشم بصیرت بنا سکیں۔
ہمیں یہ خصوصی اشاعتیں برادرم شبیر احمد میواتی (فون 03314894305) کے ذریعہ میسر آئی ہیں، اس لیے باذوق دوست ان کے حصول کے لیے انہی سے رجوع کر سکتے ہیں۔
(روزنامہ اسلام، ۲۷ اکتوبر ۲۰۱۴ء)

......کیوں کہ میرا ایک غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے

......کیوں کہ میرا ایک غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے



طٰہٰ جون پوری


Jaunpuri786@gmail.com

2 ربیع الثانی 1441
30 نومبر 2019



        یہ کسی کہانی کا ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت تھی، جس نے ہمارے وجود کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ گذشتہ 6/ اکتوبر 2019 کو ہم چند احباب،  ’’مرکز المعارف  ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی‘‘ کی جانب سے منعقدہ ’’سلور جبلی‘‘ میں شرکت کرکے اب،  واپس اپنی منزل کی طرف  قدم اٹھا چکے تھے۔ بعد نماز مغرب ہم  ’’دہلی‘‘ کے  ’’آئی ٹی او‘‘ میٹرو اسٹیشن سے،  ’’کشمیری گیٹ‘‘ کی طرف  چل نکلے۔ گاڑی کو چلے ہوئے ابھی چند لمحے گذرے تھے، کہ ایسا محسوس ہوا ، کہ دو غیر مسلم نوجوان عمرا اندازا 20/22 سال،  (دہلی کی ایک مشہور یونیورسٹی کے طالب علم، جس کا علم تعار ف کے بعد ہوا) ہمارے بارے میں کچھ گفتگو کر رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ ہماری طرف دیکھتے اور پھر باتوں میں مشغول ہوجاتے۔ یہ سلسلہ جاری تھا، کہ ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا: کہ شاید آپ ہم سب کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان کا جواب اثبات میں تھا۔  ہم نے پھر ان سے کہا: آپ کیا  گفتگو کررہے تھے؟ انھوں نے کہا: آپ لوگ اسلامی اسکالر معلوم ہورہے ہیں، ایک چیز معلوم کرنا تھا؟ ہم نے کہا۔ بلا ججھک معلوم کریں۔ اس کا سوال  یہ تھا: کیا کوئی مسلم لڑکی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرسکتی ہے؟ اس سوال کو سن کر ہمارے حواس اڑ گئے، اگر چہ اس موقع پر  محسوس نہیں ہونے دیا۔ ہم نے اس کا جواب تو بعد میں دیا ، لیکن اس سےہم نے یہ پوچھا؛ آخر آ پ نے یہی سوال کیوں پوچھا؟ آپ تو ہم سے اور بھی کچھ پوچھ سکتے تھے؟ اب اس پر جو اس نے بات کہی؛  یقینا ایک فکر کا پہلوتھا۔ اس نے کہا: کہ ایک میرا غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ اور وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس کو الحمد للہ اطمینان بخش  جواب دیا، لیکن میں تب سے آکر یہی سوچتا رہا ، آخر ہماری بہنیں کہاں جارہی ہیں؟

یہ ایک کوئی ایک واقعہ نہیں ہے،  اس طرح کے نامعلوم کتنے واقعات ہیں؟  ’’مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی‘‘ کی جانب سے منعقدہ ’’سلور جبلی‘‘ کے پروگرام میں، دوسرے دن بعد نماز
 ’’مغرب‘‘ ’’مرکز المعارف‘‘ کے چیئر مین،  ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے موقر رکن شوری، ’’آل انڈیایونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ‘‘ کے قومی صدر
’’مولانا بدرالدین اجمل قاسمی دامت برکاتہم‘‘  نے اسی درد کا اظہار کیا تھا، اور باقاعدہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا، کہ تقریبا چالیس ہزار مسلم لڑکیا ں اس طرح شکار ہیں۔ اور یہی بات مولانا نے، آخری پروگرام میں بھی کہی تھی، جو ’’کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا‘‘ کے ’’مولنکر ہال‘‘ ہوا تھا۔ مولانانے وہاں بھی اس موضوع پر گفتگو تھی  اور ذمہ داری کا احسا س دلایا تھا۔

        اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ،کہ ہماری بہنیں، بہت تیزی سے  ارتداد کا شکار ہورہی ہیں۔ گاؤں وغیرہ کی زندگی تو ابھی قدرے غنیمت ہے، لیکن شہروں کا ماحول حد درجہ تعفن زدہ اور خراب ہے۔  اور  اس  کا مظاہرہ کہیں بھی کیا  جاسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے دوری ہے۔ ان کے اندر ایمان کی پختگی ہوتی نہیں، کہ انھیں تین سال کی عمر سے،  پلے گروپ ( Play Group)  یعنی  کھیلنے والی جماعت میں داخل کرادیا جاتا ہے، پھر اس کے زہریلے اثرات دھیرے دھیرے دکھائی پڑتے ہیں۔ چناں چہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ وہ ہاتھ سے تو دور، ایمان سے نکل جاتی ہیں۔

        اب سوال یہ رہ جاتا ہے، کہ آخر اس کاحل کیاہے؟ اور ان کو اس سے کیسے بچایا جائے؟  ہمارے بڑوں نے اس کے کچھ حل بتائے ہیں۔ مثلا: سب سے پہلے تو ان کو دینی تعلیم دلائی جائے اور جو دینی تعلیم سے دور ہیں، ان تک رسائی حاصل کی جائے، اور انھیں ایمان کی اہمیت سے واقف کرایا جائے اور انھیں یہ بتایا جائے، کہ جنت و جہنم کا دارو مدار اسی  ایمان پر ہے۔ اسی لیے کسی بھی حالت  میں اس سے کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے، کہ آخر ان تک کیسے رسائی ہوگی؟ اس کا جواب یہی ہے، کہ جو لوگ اب اہل زبان اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ ان  اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا رخ کریں، اور ان سے رابطہ کریں۔ مواقع پیدا نہیں ہوتے ہیں، بلکہ مواقع بنانے پڑتے ہیں۔ اپنے ادارے خود قائم کریں اور وہاں ان  کی تربیت کریں۔  الحمد للہ کچھ لوگ اس خدمت کو اپنی استطاعت کے بقدر انجام دے رہے ہیں۔ اللہ ان کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور مغٖفرت کا ذریعہ بنائے۔ اور ہم سب کو بھی اس عظیم خدمت کے لیے قبول فرمائے۔


آمین ثم آمین
یا رب العالمین

آمین یا رب العالمین

 اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے

بجلی محکمہ کے جے -ای- کے ذریعہ رشوت لینے کی بات چیت کا ویڈیو ہوا وایٔرل" اعلیٰ افسران کریں کاروائی":-ق

بجلی محکمہ کے جے -ای- کے ذریعہ رشوت لینے کی بات چیت کا ویڈیو ہوا وایٔرل" اعلیٰ افسران کریں کاروائی":-
دھن گھٹا/سنت کبیر نگر /نومبر 30.
ضلع سنت کبیر نگر کے بجلی محکمہ میں پھیلی بدعنوانی کم نہیں ہو رہی ہے۔
چاہے ایکس ۔ای۔ این۔ سنجے سنگھ کا بجلی بل میں گھپلہ کا کارنامہ رہا ہو یا پھر جے.ای.سنجے یادو کے ذریعے کی جانے والی رشوت کی مانگ۔
کوئی کسی سے کم نہیں ہے۔
ان بدعنوان لوگوں کے ذریعہ بجلی صارفین کو طرح طرح سے پریشان کیا جا رہا ہے۔
نہ تو انکی بل کو صحیح بھیجا جا رہا نہ ہی میٹر سے   بلینگ کا کوئی ریٹ مقرر ہے۔
ان بدعنوان افسران نے بجلی صارفین کو پریشان کرنے کانیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ھے۔
اسی طرح کا معاملہ دھن گھٹا تحصیل حلقہ کے بجلی سب اسٹیشن ہریہر پور پر تعنیعات جے۔ای۔ سنجے یادو کے ذریعے گذشتہ جمعہ کے روز تحصیل حلقہ کے مانپور گاؤں کے ایک مرغی فارم پر چھاپے ماری کی گئی۔
مرغی فارم چلانے والے کو انکے ذریعہ بتایا گیا کہ دو کلو واٹ کا کنیکشن نہ ہونے کی وجہ سے آپ پر بجلی چوری کا مقدمہ درج کرایا جائے گا۔
موصولہ خبروں کے مطابق مذکورہ جے۔ای۔ کے ذریعہ ویڈو میں مرغی فارم چلانے والے کو بیچ کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
جسمیں مرغی فارم چلانے والے کو پچاس ہزار روپے کے انتظام کی بات کہی جاتی ہے۔
ورنہ لاکھوں کا جرمانہ لگاۓ جانے کی بات بھی جے۔ای۔کے ذریعہ کہی جاتی ہے۔
دیکھنا یہ ہے کی جے۔ای۔سنچے یادو کی کالی کرتوت پر بجلی محکمہ کیا کاروائی کرتا ہے۔

صدر جمعیۃ علماء ہند کی مبارک پور آمد کے تعلق سے ایک اہم میٹنگ کا انعقاد

صدر جمعیۃ علماء ہند کی مبارک پور آمد کے تعلق سے ایک اہم میٹنگ کا انعقاد

 30 / نومبر 2019ء کل جمعہ بعد نماز جمعہ جمعیۃ علماء مبارک پور کے اراکین منتظمہ ومدعوئین خصوصی کی ایک اہم ہنگامی میٹنگ دفتر جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور (قدیم عمارت) میں منعقد ہوئی، میٹنگ کی صدارت حاجی محمد وصی صاحب مبارک پوری نے فرمائی، میٹنگ کا باقاعدہ آغاز قاری محمد قاسم صاحب کی تلاوت سے ہوا، اس کے بعد جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء مبارک پور مفتی احمد الراشد صاحب قاسمی نے سابقہ میٹنگ کی کاروائی کو پڑھ کر سنایا، جس میں مختلف امور کے تعلق سے جو سابقہ میٹنگ میں پاس ہوئے تھے بات چیت ہوئی، جیسے ماہانہ اصلاحی پروگرام، مختلف مساجد میں درس قرآن اور جمعیۃ علماء مبارک پور کے لیے ایک مستقل دفتر کا حصول، بعض امور پر شریک حضرات نے اطمینان کا اظہار کیا، جب کہ بعض کو فوری طور پر پورا کرنے کی بات کہی گئی۔
اس کے بعد آنے والے 12/ دسمبر کو مولانا ارشد مدنی صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند کی آمد کے تعلق سے کافی طویل بات چیت ہوئی، جس میں پروگرام کے انعقاد اور اس کے لوازمات پر گفتگو ہوئی اور بہت سے اہم امور طے ہوئے، اور ساتھ ہی بارہ افراد کا ایک بورڈ منتخب کیا گیا جو مختلف امور کے لیے رائے مشورہ کرکے امور کو طے کریں گے اور تمام امور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
واضح ہو کہ سابقہ میٹنگ میں یہ طے ہوچکا تھا کہ مذکورہ پروگرام محلہ پورہ دلہن میں منعقد ہوگا، جس کا مطالبہ خود وہاں کے ذمہ داروں کی طرف سے کیا گیا تھا، اس کو آج کی میٹنگ میں برقرار رکھا گیا، اس کے علاوہ یہ طے ہوا کہ یہ مذکورہ پروگرام صبح 9/ بجے سے شروع ہو۔
اس میٹنگ میں صدر جمعیۃ علماء ضلع اعظم گڑھ مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی، مولانا صدیق احمد صاحب قاسمی صدر جمعیۃ علماء مبارک پور اور مفتی احمد الراشد صاحب قاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء مبارک پور کے علاوہ اراکین منتظمہ کے ساتھ مدعوئین خصوصی کی ایک بڑی تعداد شریک تھی، یہ میٹنگ عصر کی اذان تک چلی۔
آپ حضرات سے درخواست ہے کہ ہونے والے پروگرام کے لیے خصوصی طور پر دعا فرمائیں اور ہر اعتبار سے اپنا قیمتی تعاون پیش فرمائیں۔

Friday 29 November 2019

دیوبند کوتوالی میں ہوا عاشق جوڑے کانکاح کوتوال نے شہر سے قاضی بلاکر باقاعدہ نکاح پڑھایا اورچھوارے بھی تقسیم کیے

دیوبند کوتوالی میں ہوا عاشق جوڑے کانکاح
کوتوال نے شہر سے قاضی بلاکر باقاعدہ نکاح پڑھایا اورچھوارے بھی تقسیم کیے
دیوبند۔30 ؍ نومبر(ایس۔ چودھری)اترپردیش پولیس آج کل عاشق جوڑوں کی شادیاںکرانے کے لئے بھی چرچا میں ہے، ایسا ہی ایک معاملہ مذہبی شہر دیوبند میں سامنے آیاہے، جہاں پر اختلافات کولیکر کوتوالی پہنچے عاشق جوڑے کا پولیس نے اہل خانہ کے سامنے باقاعدہ قاضی بلاکر نکاح کرادیا،جس کے بعد نیا شادی شدہ جوڑا خوشی خوشی اپنے گھر کو لوٹ گیا۔ہوا یوں کہ شہر کے محلہ پٹھانپورہ کی باشندہ ایک لڑکی کا اپنی بہن کی سسرال تھانہ مرزاپور کے گاؤں گنڈیوڑ کے باشندہ ایک نوجوان کے ساتھ گزشتہ ایک سال سے معاشقہ چل رہاتھا، نوجوان لڑکی کو شادی کے حسین خواب دکھا رہاتھا،لیکن اسے عملی جامہ پہنانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہاتھا، اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ دنوں سے نوجوان نے لڑکی سے بات تک کرنا چھوڑ دیاتھا، جس کے سبب لڑکی عاشق سے شادی کی ضد کو لیکر دیوبند کوتوالی پہنچ گئی اور پولیس کے سامنے اپنا سارا قصہ بیان کیا۔ پورے معاملہ کو سمجھنے کے بعد کوتوالی انچارج یگ دت شرما نے جمعہ کے روز نوجوان او راس کے اہل خانہ کو دیوبند کوتوالی بلایا، جہاں لڑکی اور اس کے اہل خانہ موجود تھے، دونوں فریق کو آمنے سامنے بٹھاکر بات کرانے کے بعد انچارج انسپکٹر نے عاشق جوڑا کا نکاح باقاعدہ قاضی بلاکر  کوتوالی میں ہی کرایا۔ اس دوران سماجی کارکن سلیم قریشی اور عبدالواحد قریشی سمیت دیگر لوگ اس نیک کام کے گواہ بنے اور کوتوالی احاطہ میں قاضی سید اطہر حسین نے خوش نصب ولد عبدالمالک کے ساتھ لڑکی کانکاح پڑھایا۔ جس کے بعد انچارج انسپکٹر نے نئے شادی شدہ جوڑے کو مبارکباد پیش کی، اس کے بعد پولیس کی کاغذی کارروائی کے بعد نیا شادی شدہ جوڑا خوشی خوشی اپنے گھر کو لوٹ گیا۔ دیوبند کوتوالی میں آج ہوئے عاشق جوڑے کے نکاح کے بعد 11؍ ہزار روپیہ مہر طے ہوا اور اس کے بعد قاضی نے نکاح پڑھایا،جس کے بعد کوتوالی میں چھوارے تقسیم کئے گئے۔

اعظم گڑھ کے لوگوں کی سلطان پور میں لنچنگ,دو افراد شدید زخمی راشٹریہ علماء کونسل اور الفلاح فرنٹ کے وفد کی متاثرین سے ملاقات

اعظم گڑھ کے لوگوں کی سلطان پور میں لنچنگ,دو افراد شدید زخمی
راشٹریہ علماء کونسل اور الفلاح فرنٹ کے وفد کی متاثرین سے ملاقات

اعظم گڑھ,30نومبر(نامہ نگار)اعظم گڑھ سے ایک ماب لنچنگ کا تاذہ معاملہ روشنی میں آیا ہے۔گزشتہ 21نومبر کو اعظم گڑھ کے تحصیل نظام آباد کے موضع روواں کے باشندے محمد سبیل ولدریاض احمد,ابو شحمہ عرف بیچئ ولد ابوالویس اور ابو عبید ولد ابو زید ایک پک اپ گاڑی سے بھینس فروخت کرنے کیلئے جا رہے تھے۔سلطان پور ,سوراپور تھانہ قادی پور کے پاس سیکڑوں شر پسند غنڈوں نے اینٹ,پتھر اور اسلحہ لیکر مذکورہ افراد پر جانور چوری کا الزام لگا کر خطرناک طریقے سے جان لیوا حملہ کر دیا۔ابو عبید ولد ابو زید نے کسی طرح سے بھاگ کر اپنی جان بچائ جبکہ محمد سبیل اور ابو شحمہ عرف بیچئ شر پسند غنڈوں کی ذد میں آگئے۔بے لگام غنڈوں نے دونوں افراد پر شدت سے تشدد کرنے کے بعد مرا ہوا سمجھ کر سڑک کے کنارے جھاڑی میں پھینک دیا۔ایک صحافی نے کسی طرح سے دونوں افراد کو اسپتال تک پہنچایا۔اس معاملے کے بعد سے اعظم گڑھ کے لوگوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔گزشتہ دنوں آر یوسی کے قومی جنرل سیکریٹری مولانا طاہر مدنی کی قیادت میں راشٹریہ علماء کونسل کے ایک وفد نے متاثرین سے ملاقات کی۔وفد میں طلحہ رشادی,نورالہدی,شکیل احمد وغیرہ شامل تھے۔جبکہ دوسری جانب الفلاح فرنٹ صدر ذاکر حسین نے آج روواں گائوں جاکر محمد سبیل اور ابو شحمہ عرف بیچئ سے ملاقات کر ہ اپنی جانب سے ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔اس موقع پر ذاکر حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ ماب لنچنگ کے خلاف سخت قانون بننا چاہئے۔ذاکر حسین نے مزید کہا کہ اس طرح کی مذموم حرکت انجام دینے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔روواں گائوں کے باشندہ محمد شاداب نے خاطیوں کے خلاف سخت کارروائی کی مانگ کی ہے۔

انڈیا ٹو ڈے میں شاٸع معروف ایڈوکیٹ راجیو دھون کے انٹرویو کا اردو ترجمہ ,/مترجم۔۔اسامہ طیب

انڈیا ٹو ڈے میں شاٸع معروف ایڈوکیٹ راجیو دھون کے انٹرویو کا اردو ترجمہ

/مترجم۔۔اسامہ طیب۔

ہمارے بہت سے برادران وطن کن مصائب و مشکلات سے گھر کر اس ملک میں مظلوم اقلیتوں کیلئے سینہ سپر ہیں ۔شاید یہ تحریر مسلم فرقہ پرستی کی 
قلعی کھولنے کیلئے کافی ہو

_________________________________
انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے راجیو دھون نے بتایا کہ مقدمہ کی دوران سنگھ نے مجھے قتل کی دھمکیاں دیں، مجھ پر لعنتیں برسائی گئیں، گالیوں سے بھرے تقریبا دو ہزار خطوط مجھے بھیجے گئے اور میرے گھر کے باہر مجھ پر غلاظت پھینکی گئی.
انہوں نے مزید کہا کہ اس ملک میں مسلمان کبھی بھی تشویشناک اور پریشان کن صورت حال کے ذمہ دار نہیں رہے ہیں بلکہ اس کے ذمہ دار ہندو ہیں. اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہندو سے مراد ہندو کمیونٹی نہیں بلکہ صرف سنگھ پریوار ہے. میرا تعلق اس قوم سے ہے جو اس طرح کے تشدد پر یقین نہیں رکھتی.
میں عدالت میں صرف مسلمانوں کے لئے حاضر نہیں ہوا تھا بلکہ میں ہندوں کے اس بڑے طبقہ کے لئے عدالت میں حاضر ہوا تھا جو سیکولرزم پر یقین رکھتا ہے. 
یہ ہندو بمقابلہ مسلم کا مقدمہ نہیں تھا بلکہ یہ کانسٹیٹیوشن کی بنیادوں کو بچانے کا مقدمہ تھا جو داؤ پر لگا ہوا ہے.
راجیو دھون نے یہ بھی کہا کہ جب مقدمہ کورٹ میں چل رہا ہوتا ہے تو کوئی بھی شخص متوقع فیصلہ کے بارے میں بات نہیں کرسکتا کیونکہ یہ Contempt of court ہے، اور جب کوئی یہ کہتا ہے کہ "مندر وہی بنے گا" تو یہ بھی contempt of court ہے. 
بی جے پی کا مینیفیسٹو کوئی مقدس کتاب نہیں ہے جس میں رام مندر بنانے کی بات کی گئی ہے اور یہ Contempt of Court ہے. 
رویو پیٹیش کے بارے میں راجیو دھون نے کہا کہ یہ ایک اختیار ہے. اور میں صرف ایک وجہ سے رویو کا مشورہ دوں گا کیونکہ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا. اور اب تک مسلم پارٹیوں نے یہ بیان نہیں کیا ہے کہ اس فیصلہ میں وہ کیا اعتراضات درج کرائیں گے. اور ان اعتراضات کو ریکارڈ میں رکھنے کا واحد راستہ رویو ہے.

سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نےمانگی معافی۔۔ گوڈسےکودیش بھکت کہنےپرآج لوک سبھامیں سادھوی پرگیہ ٹھاکرنےمعافی مانگ لی ہے

نئی دہلی :29 نومبر /2019 آئی این اے نیوز /ذرائع 

گوڈسےکودیش بھکت کہنےپرآج لوک سبھامیں سادھوی پرگیہ ٹھاکرنےمعافی مانگ لی ہے۔اپنے بیان پرصفائی دیتے ہوئے سادھوینے کہاکہ انکےبیان کوتوڑمروڑکرپیش کیاگیاہے
سادھوی نےپارلیمنٹ میں کہاکہ وہ گاندھی جی کارناموں کااحترام کرتی ہیں۔بی جے پی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے مہاتما گاندھی کے قاتل نتھوورام گوڈسے کو محب وطن کہاتھاجس کے بعد گذشتہ دو دن سے انکے اس بیان پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہے۔ ایوان میں پرگیہ سنگھ ٹھاکراپنے بیان پرمعذرت کرتے ہوئے، پرگیہ ٹھاکر نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کوتنقید کا نشانہ بنایاہے۔ انہوں نے کہا ، 'ایوان کے ایک معزز لیڈر نے مجھے دہشت گرد کہا۔ مجھ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، لیکن ایسی بات کہنا عورت،راہب اورایک ممبرپارلیمنٹ کی توہین ہے۔
ہم آپ کوبتادیں کہ راہول گاندھی نے پرگیہ ٹھاکر کے بیان کے جواب میں ٹویٹ کیا تھا- 'دہشت گرد پرگیہ نے دہشت گرد گوڈسے کو محب وطن قراردیا، یہ ہندوستان کی پارلیمنٹ کی تاریخ کا افسوسناک دن ہے'۔ تاہم ، آج ایوان میں پرگیہ ٹھاکرکے اعتراض پر ، راہول گاندھی نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ نیوز18 سے بات کرتے ہوئے کیرالہ کے واناڈ سے رکن پارلیمنٹ راہول گاندھی نے کہا ، "میں نے جو کہا ہے وہ ٹھیک ہے اور میں اپنے بیان پر قاٸم ہوں۔

مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام کے طلباء و اساتذہ کا وفد علماء کرام و مدارس اسلامیہ کی زیارت کے روانہ

مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام کے طلباء و اساتذہ کا وفد علماء کرام و مدارس اسلامیہ کی زیارت کے روانہ
رپورٹ محمد دلشاد قاسمی
روشن گڑھ/ باغپت (29 نومبر 2019 اٰئی این اے نیوز)
ضلع باغپت کے موضع روشن گڑھ کے مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام میں ششماہی امتحان کے ختم ہوجانے کے بعد ایک ہفتہ کی رخصت ڈال دی گئی ہے،جب کہ ایک وفد جس میں تقریباً 22 افراد شامل ہیں ان اساتذہ و طلباء شریک ہیں اٰج بعد نمازِ جمعہ علماء کرام و مدارس اسلامیہ کی زیارت کے لئے روانہ ہوگئے ہیں جس کی واپسی کل یا پرسوں ممکن ہوگی
مدرسہ کے ناظم مفتی محمد دلشاد قاسمی نے میڈیا کو اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ششماہی امتحان کی رخصت کے موقع پر گزشتہ سال کی طرح امسال بھی طلباء و اساتذہ کا ایک وفد اٰج بعد نمازِ جمعہ روانہ کیا گیا جس میں تین اساتذہ اور 19 طلباء شامل ہیں جس میں امیر سفر حافظ عبد القیوم مدرس مدرسہ ھٰذا،اور ترجمان حافظ محمد دلشاد صاحب ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ وفد پھلت،باغوں والی،ہوتے ہوئے دارالعلوم دیوبند پہونچے گا،جہاں دارالعلوم دیوبند اور وقف دارالعلوم و دیگر مدارس میں جائیں گے اور مہتمم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب اور حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مہتمم دارالعلوم وقف ودیگر اکابرین سے ملاقات کریں گے،اس کے بعد کل صبح مظاہر علوم سہارنپور پہونچے گیں اور اس کے بعد گنگوہ،جلال اٰباد، خانقاہ اشرفیہ تھانہ بھون،اور میدان شاملی شہر شاملی ،ہوتے ہوئے یہ وفد واپس روشن گڑھ پہونچے گا
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سفر کا مقصد علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کی زیارت کرانا سے اصل مقصد یہ ہے کہ طلباء میں علمی شوق و ذوق پیدا ہو،اور یہ اٰگے چل کر بہترین عالم بن سکے،اور امتحانات کی وجہ سے جو ذہنی دباؤ دماغ پر سوار رہتا ہے وہ سفر کی وجہ سے ختم ہو جائے باری تعالیٰ اس سفر کو قبول فرمائیں،قارئین سے بھی دعا کی درخواست ہے

شیخ الہند دل کو دوڑ مقابلہ منعقد

شیخ الہند دل کا دوڑ مقابلہ منعقد
رپورٹ محمد دلشاد قاسمی
(29 نومبر 2019 آئی این اے نیوز)
مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام روشن گڑھ باغپت کے زیر اہتمام جاری"شیخ الہند دل" کے اسکاؤٹ اور روورس نے اٰج 800 میٹر اور 1600 میٹر دوڑ میں حصہ لیا،جس میں اسکاؤٹ میں محمد عاقل بن محمد غیور،محمد ثمیر بن محمد علی حسن ،محمد صدام حسین،اٰگے رہے
اور روورس میں محمد سالم بن محمد طیب،اور محمد عثمان بن محمد اختر اٰگے رہ کر کامیابی کا پر چم لہرایا
اس موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد دلشاد قاسمی ناظم مدرسہ اسلامیہ انوار الاسلام روشن گڑھ نے تمام شرکاء سے کہا کہ ہم اسی طرح ہر میدان کے مہارتی بنیں اور اٰگے بڑھنے کی کوشش کریں اور یہ حقیقت ہے کہ جو کوشش کرتا ہے اس کو کامیابی مل ہی جاتی ہے
اس موقع فوجی فرمان نے ہری جھنڈی دکھا کر دوڑ مقابلہ کا افتتاح کیا،اور اس موقع پر ماسٹر امجد ماسٹر شعیب، حافظ عبد القیوم اور گاؤں کے ذمہ داران موجود رہے

ہندوستانی مسلمان، امن کے علمبردار ________محمد یونس نئی دہلی

ہندوستانی مسلمان,امن کے علمبردار

مکرمی:وطن عزیز کے مسلمانوں کی ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہیکہ انہوں تین طلاق اور بابری مسجد پر بھی اطمینان سے کام لیا۔مودی حکومت نے تین طلاق کو ختم کیااور زیادہ تر مسلمانوں نے اسے بے ہچک مان لیا۔یہ بھی دیکھا گیا ہندو شدت پسندوں کے بھڑکانے کے باوجود مسلمانوں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور امن بنائے رکھا,اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہیکہ مسلمانوں  میں سیاسی سمجھداری بڑھی ہے اور انہوں نے خود کو ہندوستان کا ایک ضروری حصہ مانا ہے۔یہاں تک کہ ہندو شدت پسندوں نے بیف کا مسئلہ اٹھایا تب بھی مسلمانوں نے اس کی مخالفت نہیں کی۔بابری مسجد معاملے پر بھی مسلمانوں نے سمجھداری دکھائ۔حالانکہ اس معاملے کو لیکر خاص طور سے 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندو مسلمانوں میں دوریاں بڑھیں۔یہ بھی غور طلب ہیکہ 40فیصد ہندو اور مسلمان دونوں مانتے ہیں کہ مسجد بہت ضروری ہے۔جبکہ 35 فیصد ہندو اور 32 فیصد مسلمان ہیں کہ یہ بہت زیادہ اہم نہیں ہے۔6 دسمبر1992کو جب سولہویں صدی میں ہندئووں کےمذہبی شہر ایودھیا میں بنائ گئ ہندو شدت پسندوں نے شہید کیا تو ملک کا ماحول خراب ہو گیا تھا۔جس کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں فسادات ہوئےلیکن ںعد میں دونوں مذہب کے لوگوں نے ہندوستانی تہذیب کو اوپر رکھتے ہوئے دھیرے دھیرے ساتھ رہنا مناسب سمجھا۔آج جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کے مسلمانوں نے ایسا کوئ قدم نہیں اٹھایا جو ملک کی جمہوریت کے خلاف ہو۔ایک خاص بات یہ بھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے کشمیر پرپاکستان کی سیاست اور اس کی دہشت گردی سے خود کو دور رکھا ہے۔1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں جب مسلمانوں کو سیپریٹ الیکٹوریٹ کا حق ملا تب بھی مسلمانوں نے مسلم لیگ کا ساتھ تو دیا مگر کانگریس کا دامن نہیں چھوڑا۔لیکن مسلم لیگ اور اس کے حکمرانوں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں کو علیحدہ جگہ دے سکیں اور نیشنلسٹ ہندو ایسا کہہ سکیں کہ ملک کی تقسیم مسلمانوں کی وجہ سے ہوئ۔یہ بات قابل غور ہیکہ سارے مسلمان پاکستان نہیں گئے اور ہندوستان کو ہی اپنا گھر مانا ۔ہندوستان کی پانچ ہزار پرانی تہذیب نے لوگوں کو ملانا سکھایا ہے۔پچھلے ستر سالوں سے ملک کے مسلمان یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ ملک برابری سے ان کا ہے۔اس طرح سے ملک کے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں نے  مذہبی شدت پسندی کو خارج کیا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگوں بالخصوص ہندوئوں کے ساتھ مل کر رہتے ہوئے ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا مناسب سمجھا ہے۔

محمد یونس
نئ دہلی

*ادھوٹھاکرے بنے مہاراشٹر کے18ویں وزیراعلی وزیراعظم مودی نے دی مبارکباد*



*ادھوٹھاکرے بنے مہاراشٹر کے18ویں وزیراعلی وزیراعظم مودی نے دی مبارکباد*
مہاراشٹر :29/نومبر 2019 آئی این اے نیوز 
6:44منٹ پر شیواجی پارک میں شیوسینا کے چیف ادھو ٹھاکرے نے مہاراشٹر کے18ویں وزیر اعلی کا حلف لیا ان کو مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیار نے عہدہ اور رازداری کا حلف دلایاجس کے بعد وزیراعظم مودی سمیت کئی لوگوں نے انہیں مبارکباد دی مودی نے ادھو ٹھاکرے کو ٹیوٹر پر مبارکباد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مجھے یقین ہے کی آپ پوری ایمانداری سے مہاراشٹر کےروشن مستقبل کیلئے کام کریں گے ادھو ٹھاکرے کے ساتھ6دیگر وزراء نے بھی عہدہ اور رازداری کا حلف لیا جن میں سے2شیوشینا،2این سی پی اور2کانگریس کے وزراء شامل ہیں.

Thursday 28 November 2019

*آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آفیشیل ٹویٹر ہینڈل کا ’ویری فائیڈ‘ ہونا مسلمانان ہند کے لیے ایک خوش کن خبر:* *_مسلمان بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک سے جڑ کر اسلام کی اشاعت کا فریضہ انجام دیں:_* ✍️ مہدی حسن عینی قاسمی

*آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے آفیشیل ٹویٹر ہینڈل کا ’ویری فائیڈ‘ ہونا مسلمانان ہند کے لیے ایک خوش کن خبر:*

*_مسلمان بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک سے جڑ کر اسلام کی اشاعت کا فریضہ انجام دیں:_*
✍️ مہدی حسن عینی قاسمی

(دیوبند28 نومبر)
 گزشتہ رات مسلمانوں کی وفاقی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو ذرائع ابلاغ کے سب سے معتبر پلیٹ فارم ٹویٹر کی جانب سے ویری فائیڈ کردیا گیا ہے،اور اسے بلیوٹک مل گئی ہے، جو ملک بھر کے مسلمانوں کے لئے انتہائی مسرت کا مقام ہے، اس ابلاغی دور میں جبکہ تمام سیاسی و سماجی شخصیات کے ٹویٹ کو ہی ان کا آفیشیل بیان سمجھا جاتا ہے،اور میڈیا سمیت سبھی ادارے ٹویٹر ہینڈل پر لکھے گئے چند الفاظ کو گھنٹوں کے دورانیہ پر مشتمل پریس کانفرنس سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ایسے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی وفاقی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ٹویٹر ہینڈل کا ویری فائی ہوجانا دراصل اللہ تعالی کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کی آواز کو مضبوطی کے ساتھ اٹھانے کا بہترین موقع ہے، ان خیالات کا اظہار تنظیم ابنائے مدارس الہند کے بانی مولانا مہدی حسن عینی قاسمی نے اپنے اخباری بیان میں کیا، انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ٹویٹر ہینڈل کے ویری فائیڈ ہونے پر بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک کے تمام کارکنان و احباب جنہوں ویریفکیشن کے لیے کوشش کی ہے شکریہ و مبارکباد کے مستحق ہیں.
ہم تنظیم ابنائے مدارس الہند کی جانب سے ان سبھی کی خدمت میں ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہیں،

*انہوں نے ملک بھر کے مسلمانوں سے بطور خاص سوشل میڈیا پر سرگرم نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک سے جڑیں، ٹویٹر اکاؤنٹ اور فیس بک پیج کو فالو کریں، تاکہ قومی و ملی مسائل پر اس وفاقی ادارے کا اسٹینڈ،علماء و صلحاء کے بیانات،مسلم پرسنل لاء کا تعارف، اصلاح معاشرہ کمیٹی، تفہیم شریعت کمیٹی،دارالقضاء کمیٹی،خاتون ونگ اور سوشل میڈیا ڈیسک کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل ہوسکے، اور اسلام کا صحیح و معتدل پیغام ملک کے تمام باشندوں تک پہنچایا جاسکے۔*
*انہوں نے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک سے وابستہ ہوکر اسلام کے عائلی قوانین کے تعلق سے اسلام دشمن عناصر کے پروپیگنڈوں کو جانیں،سمجھیں، اسلام کے دفاع اور نشر اشاعت کا فریضہ انجام دیں.*
مولانا قاسمی نے بتایا کہ بورڈ کے سوشل میڈیا ڈیسک سے جڑنے کے لئے اس واٹس ایپ نمبر پر 98343 97200 رابطہ کیا جاسکتا ہے.

*_ٹویٹر ہینڈل سے جڑنے کے لئے اس👇 لنک کو کلک کریں:_*
Take a look at All India Muslim Personal Law Board (@AIMPLB_Official):

https://twitter.com/AIMPLB_Official?s=08

*🎁 سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ*

روایت شکن اُدھو سے اُمیدیں۰۰۰ شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

روایت شکن اُدھو سے اُمیدیں۰۰۰
شکیل رشید
 (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
 ادھوٹھاکرے کو روایت شکن کہاجاسکتا ہے۔
انہوں نے اپنے اور اپنی پارٹی شیوسینا کے تعلق سے، پھیلائی جانے والی دو روائتوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ادھوٹھاکرے نرم مزاج کے ایک ایسے انسان ہیں ، سیاست جن کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایسا سمجھنے والوں میںبی جے پی بھی شامل تھی اور یہ بی جے پی ہی تھی جو یہ بھی سمجھتی تھی کہ اپنے والد بال ٹھاکرے کے مقابلے چونکہ ادھو نرم مزاج ہیں اس لیے ان پر آسانی سے قابو رکھاجاسکتا ہے۔ لیکن این سی پی اور کانگریس کی مدد سے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کی کرسی حاصل کرنے کےلیے ادھو ٹھاکرے نے جس طرح سے ’مذاکرات‘ کیے اور جس مہارت سے اپنے پتّے استعمال کیے اس سے مذکورہ دونوں ہی روائتیں پاش پاش ہوگئیں اور ادھو ٹھاکرے کی وہ شکل سامنے آئی جو صرف بی جے پی ہی کےلیے نہیں اس ریاست کے لوگوں کےلیے بھی اور دیگر سیاست دانوں کے لیے بھی حیرت کا باعث تھی۔ لیکن ادھو ٹھاکرے حقیقی معنوں میں روایت شکن اس وقت ہی کہلائیں گے جب وہ ان مسائل کو، جن سے ریاست کے عوام برسہا برس سے جوجھ رہے ہیں، حل کرنے میں کامیاب ثابت ہوں گے۔ ادھو ٹھاکرے نے ایک تاریخ رقم کی ہے اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔ وہ ٹھاکرے خاندان سے وزیراعلیٰ کی گدی پر متمکن ہونے والے پہلے فرد بن گئے ہیں۔ آج سے پہلے ٹھاکرے خاندان کا کوئی بھی فرد حکومت میں کسی عہدے پر نہیں تھا، ہاں ان کی پارٹی کی جب بھی سرکار رہی، یہ خاندان ہی اصلاً حکمراں رہا۔ وزیراعلیٰ کی گدی اپنے ساتھ بہت ساری ذمہ داریاں لے کر آتی ہے، ایسی ذمہ داریاں جن سے اگر سنجیدگی اور  خلوص کے ساتھ عہدہ برآہوا تو نیک نامی بھی ملتی ہے اور حکمرانی طویل ہونے کی امید بھی بڑھتی ہے۔ اس لیےکہ عوام مطمئن رہتے ہیں ۔ بی جے پی نے حکومت سے ہاتھ تو دھو لیا ہے لیکن اپنے پیچھے کئی ایسے ’منصوبے‘ چھوڑ گئی ہے جو اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کےلیے باعث تشویش ہوں گے۔ خود شیوسینا کا ماضی مسلمانوں کےلیے خوشگوار نہیں رہا لیکن ملک اور ریاست کی بھلائی کےلیے مسلمان کانگریس او راین سی پی کے اتحاد کے ساتھ بنائی گئی شیوسینا کی اس حکومت کا استقبال کریں گے، اگر یہ حکومت مسلمانوں کے معاملات سلجھاتی ہے۔ اہم مسئلہ این آر سی کا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ فڈنویس کے دور میں ریاست میں زرکثیر سے ان کے لیے جنہیں بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاریں ’غیر ملکی‘ قرار دیناچاہتی ہیں ’حراستی  مراکز‘ بنائے گئے، مسلم اقلیت کا یہ سمجھنا کہ یہ ’حراستی مراکز‘ ان کےلیے ہیں غلط نہیںہے کیوںکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ بار بار اپنے بیانات سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو ’گھس پیٹھیے‘ سمجھتے ہیں او رانہیں این آر سی کے ذریعے غیر ملکی قرار دیناچاہتے ہیں۔ امید ہے کہ ادھو نے جس روایت شکنی کا آغاز کیا ہے اس کے تحت وہ اس ریاست میں ’این آر سی‘ کے بہانے بی جے پی کو نہ مسلمانوں کو اور نہ دیگر  اقلیت کو ہراساں کرنے کی چھوٹ دیں گے۔ ادھو کو  مزید ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم اقلیت کو ا پنے سے قریب کرنا ہوگا، اور ان سے اس کی امید بھی ہے، کیوں کہ انہوں نے ایک مسلمان کو شیوسینا کے ٹکٹ پر ایم ایل اے بنوایا بھی ہے۔ یہ بی جے پی کی ڈگر سے ہٹ کر اپنی خود کی راہ ہے، بی جے پی تو کسی مسلمان کو کسی بھی الیکشن میں جتوانا تو دور ٹکٹ تک نہ دینے کا اعلان کرچکی ہے۔ امید ہے کہ ادھو اردو اسکولوں ، اردو زبانوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی روزی وروزگار اور بے روزگاری کے مسائل کو سرفہرست رکھیں گے۔ مسلمان، بالخصوص جو پچھڑے ہیں ان کےلیے پانچ فیصد کوٹے پر بھی مثبت غور کریں گے۔ ادھوٹھاکرے کےلیے یہ مراٹھوں کے ہی نہیں تمام اقلیتوں کے دلوں کو جیتنے کا، ایک سنہری موقع ہے ، اگر اس موقع سے انہوں نے فائدہ اُٹھایا تو مہاراشٹر مثالی ریاست بن سکتی ہے۔ گر ایسا ہوا توشیوسینا کانگریس اور این سی پی کے اس گٹھ جوڑ کےلیے یہ ترقی او ربی جے پی کے لیے زوال کی شروعات ہوگی۔

بچوں کی تربیت میں والدین کا کلیدی کردار ہوتا ہے: سید سعید احمد

الامین نیشنل اسکول امین باغ ،منگراواں میں یوم سرپرست تقریب کا انعقاد۔
منگراواں/اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 28/نومبر2019) علم ایک مشعل ہے،علم کے بغیر کسی کا چارہ کار نہیں،علم وہ شئ ہے جس سے گلشن حیات قائم ودائم ہے،علم وہ منبع رشد وہدایت ہے جسے لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تاریخ شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال اسکی علمی زندگی پر منحصر ہے اس دور میں مسلمانوں کی پستی کا ایک سبب علم سے دوری بھی ہے انھیں تمام چیزوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے الامین نیشنل اسکول امین باغ، منگراواں میں آج یوم سرپرست کے موقع پر ایک تقریب منعقد کی گئ جسکی صدارت جناب  مفتی شاہد مسعود قاسمی نے کی پروگرام کا آغاز محمد عثمان کی تلاوت سے ہوا بعد ازیں نعت پاک کیلئے
حفصہ نسیم آئیں اور انھوں نے بڑے ہی دلکش انداز میں بارگاہ نبوی میں نذرانہ عقیدت پیش کی اسکے بعد ترانہ الامین حفصہ نسیم اور انکی ساتھیوں نے پیش کیا اس موقع پر سید سعید احمد نے بطور مہمان خصوصی  خطاب کرتے ہوئے فر مایا والدین بچہ کی پہلی تربیت گاہ ہیں بچوں کی تعلیم وتربیت میں والدین کلیدی رول ادا کرتے ہیں اساتذہ تو صرف ان ہیروں کو تراشنے کا کام ان پر ضربیں لگا کر کرتے ہیں بچوں کے متعلق والدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اس میں خود اعتمادی پیدا کی جائے کہ تم سب کچھ کر سکتے ہو ساتھ ہی بچوں کیساتھ والدین کو دوستانہ تعلق رکھنا چاہئیے اور انکی دلی کیفیات سے واقفیت رکھنا اور انکو وقت بھی  دینا  چاہئے انھوں  نے کہا کہ بچوں کی تربیت پر ماحول کا خاصہ اثر پڑتا ہے تربیت کیلئے صرف گھر میں مثبت ماحول کی ضرورت ہے ماہرین کے مطابق بچہ تین سال کے اندر سب کچھ سیکھ لیتا ہے یہیں سے وہ سنورتا اور بگڑتا ہے بچوں کے ٹرینر بننے کیلئے دماغ دل جسم روح کی طاقت نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں انھوں نے کہا لوگوں کو ہر روز ایک گھنٹہ تزکیہ نفس کیلئے دینا چاہیئے جسکی انھوں نے عملی مثال بھی دی انھوں نے اخیر میں والدین سے بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کی پرزور  درخوست کی اس سے پہلے اسکول کے ڈائریکٹر  احمد ریحان فلاحی نے ٹرینر سید سعید احمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج والدین بچوں کے متعلق اپنے فرائض کو بھول چکے ہیں اور وہ تعلیم کو پیسہ سے خریدنا چاھتے ہیں انھوں نے مزید کہا کہ اس پروگرام کا مقصد والدین کو  بچوں کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہے تاکہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور انکے نونہالوں کا مستقبل تابناک و روشن ہو مفتی شاہد  مسعود  قاسمی نے صدارتی خطاب  میں کہا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں اسکے لئے ہمیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخروی تعلیم بھی حاصل کرنی ہوگی اس سے قبل  طاہر جمال نے عظمت گروپ آف انسٹی ٹیوشن  کے مقاصد اور اسکے عزائم پر روشنی ڈالی۔اقرا پبلک اسکول سرائمیر کے ڈائریکٹر  محمد عارف اصلاحی نے ان پروگراموں کے مقصد سے واقف کرایا اخیر میں 40 دنوں تک پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے والے طلبہ و طالبات کو انعامات سے نوازا گیا۔ اس موقع پر ھدی پبلک اسکول کے مینیجر احمد نیاز قاسمی،حافظ مفید، حاجی اخلاق، عبداللہ، طارق، نعیم، شہنواز، ڈاکٹر ضیاءالدین ، ماسٹر انصار، ڈاکٹر وسیم عبیداللہ، خالد، اشرف فلاحی، محمد سلیم   نبراس امین سمیت  اساتذہ وطلباء اور انکے سرپرست موجود تھے-

مہاراشٹر: حلف برداری سے قبل مشترکہ پروگرام جاری، اولین ترجیح کسان، بڑی راحت کا اعلان ادھو ٹھاکرے کی حلف برداری سے قبل کانگریس-این سی پی-شیوسینا اتحاد نے ’کامن منیمم پروگرام‘ جاری کر دیا، جس میں کسانوں کو اولیں ترجیح دیتے ہوئے فوری طور پر قرض معافی اور معاوضے کا اعلان کیا گیا ہے

مہاراشٹر :28 /نومبر 2019 
ممبئی کے شیواجی پارک میں ادھو ٹھاکرے کی سربراہی میں ’مہا وکاس اگھاڑی‘ اتحاد کی حکومت کے حلف اٹھا کر تاریخ رقم کرنے سے قبل اتحاد میں شامل تین جماعتوں کی جانب سے مہاراشٹر میں حکومت کو بخوبی چلانے کے لئے ایک کامن منیمم پروگرام جاری کر دیا گیا۔ کانگریس، این سی پی اور شیوسینا کے رہنماؤں کے ذریعہ جاری کردہ اس مشترکہ پروگرام میں آئندہ 5 سال کے لئے مخلوط حکومت کی ترجیحات کا اعلان کیا گیا ہے۔
مشترکہ پروگرام میں حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی کسانوں اور کاشتکاری کو ترجیح دیتے ہوئے فوری طور پر قرض معافی اور معاوضے کا اعلان کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، بیروزگاری کو دور کرنے اور خواتین کی حفاظت کے ساتھ تعلیم کے شعبہ پر بھی توجہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی پریشانیوں پر سنجیدگی ظاہر کرتے ہوئے پروگرام میں متعدد اہم اقدامات کرنے کی بات کہی گئی ہے، جس میں ملازمتوں میں مقامی نوجوانوں کو 80 فیصد ریزرویشن اور بے روزگار نوجوانوں کو فیلوشپ فراہم کرنا شامل ہے۔ نیز، لوگوں کو ایک روپیہ میں علاج معالجہ کرنے کا منصوبہ بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
تینوں پارٹیوں کے مشترکہ پروگرام کو جاری کرتے ہوئے شیوسینا کے رہنما ایکناتھ شندے نے کہا کہ سونیا گاندھی، شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی ہدایت پر اتحاد کا مشترکہ پروگرام تیار کیا گیا ہے۔ این سی پی رہنماؤں کے ساتھ مشترکہ پروگرام جاری کرتے ہوئے شندے نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے کی زیر قیادت مخلوط حکومت ’ملک سب سے پہلے‘ کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ نیز، اس بات کا بھی خیال رکھا جائے گا کہ معاشرے کا کوئی طبقہ خوف زدہ نہ رہے۔ حکومت تمام مذاہب کو ساتھ لے کر ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ شندے نے کہا کہ یہ حکومت مرکز میں آئین کے بنیادی عناصر کے ساتھ تمام زبان اور ریاستوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھے گی۔ نیز عوام کے ساتھ کسی بھی طرح کے امتیاز کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

کامن منیمم پروگرام کی اہم باتیں

  • بارش اور سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو فوری امداد دی جائے گی
  • کسانوں کے قرضے فوری طور پر معاف کر دیئے جائیں گے
  • جن کسانوں کی فصلیں ضائع ہو گئی ہیں انہیں فوری طور پر معاوضہ دینے کے لئے فصل بیمہ اسکیم میں ترمیم کی جائے گی
  • خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کے لئے پانی کی فراہمی کے مستقل نظام بنایا جائے گا
  • ریاستی حکومت میں تمام خالی آسامیوں کو پُر کرنے کا عمل فوری طور پر شروع کردیا جائے گا
  • تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوانوں کے لئے فیلوشپ مہیا کی جائے گی
  • مقامی نوجوانوں کو ملازمتوں میں 80 فیصد ریزرویشن یقینی بنانے کے لئے ایک قانون بنایا جائے گا

*قرآنی اوراق کی حفاظت اور اسکااحترام کیجئے،توہین سے بچئے!!!!* ---------------------------------------- ✍*سرفراز احمد ملی القاسی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد*

*قرآنی اوراق کی حفاظت  اور اسکااحترام کیجئے،توہین سے بچئے!!!!*


----------------------------------------
✍*سرفراز احمد ملی القاسی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک، حیدرآباد*
----------------------------------------
قرآن کریم دنیا کی ایک ایسی واحد کتاب ہے جسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے،اور اسکی حفاظت کاوعدہ فرمایا ہے،ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ"بلاشبہ اس قرآن کو ہم نے ہی نازل کیاہے اورہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں"(سورہ حجر)اس آیت کے ضمن میں علماء نے لکھاہے کہ 'تمام اہل علم اس پرمتفق ہیں کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآنی کانام ہے اورنہ صرف معانی قرآن کابلکہ دونوں کے مجموعے کو قرآن کہاجاتا ہے،وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے اوراسلامی تصانیف میں تو عموماً مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں،مگر انکو قرآن نہیں کہاجاتا،کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں،اسی طرح اگرکوئی شخص قرآن کریم کے متفرق الفاظ یاجملے لیکرایک مقالہ یارسالہ لکھ دے اسکو بھی کوئی قرآن نہیں کہے گا،اگرچہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن سے باہرکانہ ہواس سے معلوم ہواکہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کانام ہے،جسکے الفاظ ومعانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں"(معارف القرآن)علماء نے یہ بھی لکھاہے کہ حفاظت قرآن کے وعدے میں حدیث بھی داخل ہے،یعنی جسطرح اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے اسی طرح حدیث کی بھی حفاظت ہوتی رہےگی،جسطرح قرآن خلط ملط اورکمی وزیادتی سے محفوظ رہےگا ٹھیک اسی طرح حدیث بھی صحیح سالم رہےگی اوراس میں کسی بھی حذف واضافہ کو قبول نہیں کیا جائے گا،اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ قرآن کریم کا یہ وعدہ آج تک بالکل درست ثابت ہوا،زمانہ نزول سے لیکر تقریباً ساڑھے چودہ سوسال گذرجانے کے بعداب بھی محفوظ ہے،اوراس میں کسی زیروزبر کابھی فرق نہیں آیا،جسطرح الفاظ قرآنی کاوعدہ اورذمہ داری ہےاسی طرح معانی ومضامین قرآن کی حفاظت اورمعنوی تحریف سے اسکے محفوظ رکھنے کی بھی ذمہ داری اللہ تعالیٰ ہی نے لی ہے،مفتی محمد شفیع ععثمانی  صاحبؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں کہ
"جولوگ آج کل دنیا کو اس مغالطہ میں ڈالنا چاہتے ہیں کہ احادیث کاذخیرہ جو مستند کتب میں موجود ہے وہ اسلئے قابل اعتبار نہیں کہ وہ زمانہ رسول ﷺ سے بہت بعدمیں مدون کیاگیاہے،اول تو انکا یہ کہنا ہی صحیح  نہیں،کیونکہ حدیث کی حفاظت و کتابت خود عہد رسالت میں شروع ہوچکی تھی،بعدمیں اسکی تکمیل ہوئی،اسکے علاوہ حدیث رسول  ﷺدرحقیقت تفسیر قرآن اور معانی قرآن ہیں،انکی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے،پھر یہ کیسے ہوسکتاہے کہ قرآن  کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں اورمعانی یعنی احادیث ضائع ہو جائیں؟"(معارف القرآن)گذشتہ دنوں ایک یورپین ملک سے یہ خبر موصول ہوئی کہ 16نومبر کو وہاں کی ایک شدت پسند تنظیم جسکانام(اسٹاپ اسلامائیزیشن آف ناروے،سیان)نے کرسٹئین سینڈ میں مظاہرہ کیا اوراس مظاہرے کے دوران انھوں نے قرآن پاک کے نسخے نذرآتش کرنے کی کوشش کی،سوشل میڈیا پرگردش کررہی اس سانحہ کی ویڈیو میں یہ دکھایا گیاکہ جب سیان کے رہنمالارس تھورسن،نام کا ایک یہودی شخص جب قرآن کو نذرآتش کرنےکی کوشش کررہاتھاتبھی ناروے میں مقیم فلسطینی نوجوان اقصی راشد نے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بڑی ہمت وحوصلے کے ساتھ اس بدبخت پر جھپٹ پڑے اورپھرلات گھونسوں سے اس پرحملہ کیا،تاہم پولیس نے مداخلت کرکے راشد سمیت اس یہودی شدت پسند کو بھی حراست میں لے لیا،راشد کا جذبہ یقیناً قابل تعریف ہے اور قرآن کےتئیں انکی محبت واقعی قابل رشک ہے، اس فلسطینی نوجوان کا یہ قدم  ظاہر ہے کسی لالچ اورکسی دوسرے مقصد کےلئے ہرگزنہیں ہوسکتا،اللہ اس نوجوان راشد کو سلامت رکھے جنھوں نے قرآن کی حفاظت کےلئے اپنے جان کی بازی  لگادی،اس واقعے کے بعد ناروے کی عیسائی بڑے پیمانے پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کررہی ہیں،وہاں کے حکمران بھی افسوس کااظہار کررہے ہیں، جوایک خوش آئند خبرہے،خبریہ بھی ہے کہ اس واقعے کے بعد مسلمانوں کو ناروے کے عوام کی حمایت حاصل ہونے لگی ہے،اس واقے کو سامنے رکھکر اگراپنے معاشرے کا ایک سرسری جائزہ لیاجائے تو یہ معلوم ہو گاکہ آج ہمارے مسائل جس تیز رفتاری سے بڑھتے جارہےہیں اسکی اہم وجہ مال ودولت کی بےجا حرص اور قرآن کریم سے بڑھتی ہوئی دوری ہے،یہ وہ چیزیں جس نے مسلمانوں سے ایمان ویقین کی دولت کو سلب کرلیاہے،اکثر مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ انکے پاس"تسیلمی ایمان"ہے"تکوینی ایمان"نہیں،یعنی مسلمان اس بات کو تسلیم توکرتے ہیں کہ نمازپڑھنا چاہئے،روزہ رکھنا چاہئے،صدقہ خیرات کرناچاہئے،اوربس لیکن ایمان کاتقاضہ کیاہے؟ اسلام ہم سے کیامطالبہ کرتاہے ؟قرآن ہم سے کیاچاہتاہے؟وقت اور حالات کاتقاضہ کیاہے، شریعت ہم سے کن چیزوں کامطالبہ کرتی ہے؟ان جیسے سوالات پر غور وفکر کرنے کی نہ کسی کے پاس وقت ہے اورنہ اسکی کوئی اہمیت،بیشتر مسلمان یہ تو سمجھتے ہیں اللہ موجود ہے،مگر یہ یقین کہ وہ ایک پل میں حالات کو تبدیل بھی کرسکتا ہے،کوئی چیزاسکے اشارے کے بغیر ہل بھی نہیں سکتی،یہ یقین اوراعتماد ہم میں نا کہ برابر ہے،زیادہ تر لوگوں  کااعتقاد یہ ہوگیا ہے کہ پیسہ اور دولت ہی انسان کی تقدیر بنااور بگاڑسکتاہے،حالانکہ قرآن کریم نے جگہ جگہ انسان کی رہنمائی فرمائی ہے،ایک جگہ ارشادہے"اے انسان تم کو کس چیز نے تمہارے مہربان رب سے دھوکہ میں ڈال رکھاہے"(سورہ انفطار)ایک دوسری جگہ دنیوی زیب وزینت کو بیان کرکےیوں توجہ دلائی گئی ہےکہ"لوگوں کو انکی خواہش کی چیزیں،یعنی عورتیں، بچے اورسونے چاندی کے بڑے بڑے ڈھیراور نشان لگے ہوئے گھوڑے، مویشی اورکھیتی بڑی زینت کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں مگر یہ سب دنیوی زندگی کے سامان ہیں اوراللہ تعالیٰ کے پاس بڑااچھاٹھکانہ ہے"(سورہ عمران)ایک اہم افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ آج ہم خود قرآن کی بے حرمتی اوربے احترامی میں مبتلا ہیں،بے حرمتی کاعالم یہ ہے اب قرآن صرف سجانے کے واسطے اپنے گھروں اورمسجدوں کی الماریوں میں رکھی جانے لگی،قرآن پڑھنے اورپڑھانے والے دینی مدارس کے طلبہ اور علماء سے نفرت کی جانے لگی،اور افسوس کامقام تو یہ ہے کہ اب قرآنی آیات کو جلسے اورعرس کے پوسٹروں کی زینت بناکر اسکی بے حرمتی کی جارہی ہے،پوسٹروغیرہ پر قرآنی آیات لکھ کر دیواروں پر چپکا دیاجاتاہے،راستہ چلنے والے بعض شرپسند اور شریر لوگ ان پوسٹروں کوپھاڑکر روڈ پر پھینک دیتےہیں،جسکوراستہ چلنے والے مسافر معمولی کاغذ سمجھ کر روندتے چلے جاتے ہہیں،بعض اردواخبارات بھی بڑے اہتمام کے ساتھ قرآنی آیات اوراحادیث چھاپتے ہیں، جسکانتیجہ یہ ہے وہ اخبارات یاتو اسکراپ اورردی کی ٹوکری میں جاتے ہیں اور وہاں سے پھر مختلف ہوٹلوں اوردکانوں کو جاتےہیں اورپھرہوٹل اوردکان والے اس اخبار کو جس میں قرآنی آیات یااحادیث لکھی ہوتی ہیں اپنے گراہک اورکسٹمروں سامان وغیرہ اسی میں پیک کرکے دیتے ہیں،کیایہ قرآن کی بے حرمتی اور بے احترامی نہیں ہے؟ آخرکون ہے اسکاذمہ دار؟میں نے خود شہر کے بعض مسلم ہوٹل میں جب یہ دیکھاتوکاؤنٹر پر بیٹھے شخص کو توجہ دلائی تواسکاکہناتھاکہ"ہم کچھ نہیں کرسکتے مالک کاحکم ہے ہم تو کام کرنے والے لوگ ہیں"ایک فیشن آجکل یہ بھی چل پڑاہے کہ اب تو لوگ قرآنی آیات کو گاڑی کے شیشے اورگھروں کے دروازے اوردیواروں پر بڑے شوق اوراہتمام سے لکھواتے ہیں،پھرجب وہ دیوار توڑی جاتی ہے یاگاڑی کاشیشہ پھوٹ جاتا ہے تواسکی حفاظت کاکوئی اہتمام نہیں کیاجاتا نہ اس پرکوئی توجہ دی جاتی ہے،ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ گاڑے کے وہ ٹوٹے ہوئے شیشے جس پرآیات قرآنی لکھی ہوئی تھی اسکو ایسی جگہ ڈال دیاگیاتھا جہاں لوگ پیشاب وغیرہ کرتے ہیں نعوذباللہ،ایسا کرتے وقت کسی کو خیال تک نہیں آتاکہ اس میں قرآنی آیات لکھی ہیں،بعض اردو اخبارات جس میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوتی ہے اسکوتو کچرے دان میں دیکھکر طبیعت مضمحل ہوگئ،اور یہ سوچنے لگاکہ آخراسطرح کی حرکت کرنے والے کون لوگ ہوسکتےہیں؟جبکہ حقیقت یہ ہےکہ ایساکرنے والے لوگ غیرنہیں بلکہ مسلمان ہی ہوتے ہیں جو جانے انجانے میں قرآن کی بے حرمتی اوربے احترامی کامظاہرہ کررہے ہیں،اس سلسلے میں معاشرے میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے،جبتک مسلمان خود قرآن کی توہین کرتےرہیں گے یہ یقینی ہے کہ ہمارے حالات درست نہیں ہوسکتے،اسلئے ضرورت ہے کہ مسلمان قرآن کی بے حرمتی اوراسکی توہیں سے بچیں،جہاں کہیں قرآنی آیات اور قرآنی اوراقِ کی بے حرمتی ہوفوری اس پر روک لگائی جائے،اسکاسدباب کیاجائے،اوراسکےلئے باضابطہ تحریک چلائی جائےجووقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے اورمذہبی ذمہ داری بھی، قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جسکے ذریعے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کےمقام ومرتبے کوبلند کرتاہے،اونچااٹھاتاہےاورآخرت میں بھی ایسے لوگوں کو سرخروئی نصیب ہوگی،اوراسی قرآن کی بے حرمتی اورتو ہین کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بعض قوموں کو ذلیل ورسوااورنیچاکرتاہے،اورآخرت میں بھی ایسے لوگوں کاانجام بخیرنہیں ہوگا،سوشل میڈیا اوردیگر ذرائع سے قرآن کی تعظیم و تکریم اوراسکا احترام کرنے کی جانب توجہ دلائی جائے،اردو اخبارات کوبھی اس میں حصہ لیناچاہئےاور شعور بیداری کی مہم چلانی چاہیے،شہرکے بعض اخبارات اس سلسلے میں بھی کام کررہے ہیں جولائق تحسین ہے،اللہ تعالیٰ ایسے اخبارات کوترقی عطافرمائے،اوراسکے ذمہ داروں کوسلامت رکھے،یہ چندسطریں اسی امید سے لکھی گئی ہیں خداکرے یہ تحریر،اردواخبارات کےذمہ داران اوردیگران افراد تک پہونچے جوسماج اورمعاشرے کے مسائل کےحل کےکوششیں کررہےہیں،اللہ تعالیٰ ہم سبکو قرآن کی تعظیم وتکریم اوراسکے احترام کی توفیق عطافرمائے،اوراسکی بے احترامی وتوہین سے حفاظت فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔


برائے رابطہ 8801920100
ای میل sarfarazahmedqasmi@gmail.com