اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ......کیوں کہ میرا ایک غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 November 2019

......کیوں کہ میرا ایک غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے

......کیوں کہ میرا ایک غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے



طٰہٰ جون پوری


Jaunpuri786@gmail.com

2 ربیع الثانی 1441
30 نومبر 2019



        یہ کسی کہانی کا ایک جملہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت تھی، جس نے ہمارے وجود کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ گذشتہ 6/ اکتوبر 2019 کو ہم چند احباب،  ’’مرکز المعارف  ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی‘‘ کی جانب سے منعقدہ ’’سلور جبلی‘‘ میں شرکت کرکے اب،  واپس اپنی منزل کی طرف  قدم اٹھا چکے تھے۔ بعد نماز مغرب ہم  ’’دہلی‘‘ کے  ’’آئی ٹی او‘‘ میٹرو اسٹیشن سے،  ’’کشمیری گیٹ‘‘ کی طرف  چل نکلے۔ گاڑی کو چلے ہوئے ابھی چند لمحے گذرے تھے، کہ ایسا محسوس ہوا ، کہ دو غیر مسلم نوجوان عمرا اندازا 20/22 سال،  (دہلی کی ایک مشہور یونیورسٹی کے طالب علم، جس کا علم تعار ف کے بعد ہوا) ہمارے بارے میں کچھ گفتگو کر رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ ہماری طرف دیکھتے اور پھر باتوں میں مشغول ہوجاتے۔ یہ سلسلہ جاری تھا، کہ ہم نے ان سے پوچھ ہی لیا: کہ شاید آپ ہم سب کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان کا جواب اثبات میں تھا۔  ہم نے پھر ان سے کہا: آپ کیا  گفتگو کررہے تھے؟ انھوں نے کہا: آپ لوگ اسلامی اسکالر معلوم ہورہے ہیں، ایک چیز معلوم کرنا تھا؟ ہم نے کہا۔ بلا ججھک معلوم کریں۔ اس کا سوال  یہ تھا: کیا کوئی مسلم لڑکی غیر مسلم لڑکے سے شادی کرسکتی ہے؟ اس سوال کو سن کر ہمارے حواس اڑ گئے، اگر چہ اس موقع پر  محسوس نہیں ہونے دیا۔ ہم نے اس کا جواب تو بعد میں دیا ، لیکن اس سےہم نے یہ پوچھا؛ آخر آ پ نے یہی سوال کیوں پوچھا؟ آپ تو ہم سے اور بھی کچھ پوچھ سکتے تھے؟ اب اس پر جو اس نے بات کہی؛  یقینا ایک فکر کا پہلوتھا۔ اس نے کہا: کہ ایک میرا غیر مسلم دوست ایک مسلم لڑکی سے پیار کرتا ہے۔ اور وہ اسی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس کو الحمد للہ اطمینان بخش  جواب دیا، لیکن میں تب سے آکر یہی سوچتا رہا ، آخر ہماری بہنیں کہاں جارہی ہیں؟

یہ ایک کوئی ایک واقعہ نہیں ہے،  اس طرح کے نامعلوم کتنے واقعات ہیں؟  ’’مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی‘‘ کی جانب سے منعقدہ ’’سلور جبلی‘‘ کے پروگرام میں، دوسرے دن بعد نماز
 ’’مغرب‘‘ ’’مرکز المعارف‘‘ کے چیئر مین،  ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کے موقر رکن شوری، ’’آل انڈیایونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ‘‘ کے قومی صدر
’’مولانا بدرالدین اجمل قاسمی دامت برکاتہم‘‘  نے اسی درد کا اظہار کیا تھا، اور باقاعدہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا، کہ تقریبا چالیس ہزار مسلم لڑکیا ں اس طرح شکار ہیں۔ اور یہی بات مولانا نے، آخری پروگرام میں بھی کہی تھی، جو ’’کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا‘‘ کے ’’مولنکر ہال‘‘ ہوا تھا۔ مولانانے وہاں بھی اس موضوع پر گفتگو تھی  اور ذمہ داری کا احسا س دلایا تھا۔

        اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ،کہ ہماری بہنیں، بہت تیزی سے  ارتداد کا شکار ہورہی ہیں۔ گاؤں وغیرہ کی زندگی تو ابھی قدرے غنیمت ہے، لیکن شہروں کا ماحول حد درجہ تعفن زدہ اور خراب ہے۔  اور  اس  کا مظاہرہ کہیں بھی کیا  جاسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ دینی تعلیم سے دوری ہے۔ ان کے اندر ایمان کی پختگی ہوتی نہیں، کہ انھیں تین سال کی عمر سے،  پلے گروپ ( Play Group)  یعنی  کھیلنے والی جماعت میں داخل کرادیا جاتا ہے، پھر اس کے زہریلے اثرات دھیرے دھیرے دکھائی پڑتے ہیں۔ چناں چہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ وہ ہاتھ سے تو دور، ایمان سے نکل جاتی ہیں۔

        اب سوال یہ رہ جاتا ہے، کہ آخر اس کاحل کیاہے؟ اور ان کو اس سے کیسے بچایا جائے؟  ہمارے بڑوں نے اس کے کچھ حل بتائے ہیں۔ مثلا: سب سے پہلے تو ان کو دینی تعلیم دلائی جائے اور جو دینی تعلیم سے دور ہیں، ان تک رسائی حاصل کی جائے، اور انھیں ایمان کی اہمیت سے واقف کرایا جائے اور انھیں یہ بتایا جائے، کہ جنت و جہنم کا دارو مدار اسی  ایمان پر ہے۔ اسی لیے کسی بھی حالت  میں اس سے کوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے، کہ آخر ان تک کیسے رسائی ہوگی؟ اس کا جواب یہی ہے، کہ جو لوگ اب اہل زبان اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ ان  اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کا رخ کریں، اور ان سے رابطہ کریں۔ مواقع پیدا نہیں ہوتے ہیں، بلکہ مواقع بنانے پڑتے ہیں۔ اپنے ادارے خود قائم کریں اور وہاں ان  کی تربیت کریں۔  الحمد للہ کچھ لوگ اس خدمت کو اپنی استطاعت کے بقدر انجام دے رہے ہیں۔ اللہ ان کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور مغٖفرت کا ذریعہ بنائے۔ اور ہم سب کو بھی اس عظیم خدمت کے لیے قبول فرمائے۔


آمین ثم آمین
یا رب العالمین

آمین یا رب العالمین

 اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے