اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: بس اللہ نے بچا لیا! __________ عبدالغفار سلفی، بنارس

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 November 2019

بس اللہ نے بچا لیا! __________ عبدالغفار سلفی، بنارس


بس اللہ نے بچا لیا!
__________

عبدالغفار سلفی، بنارس

( 30 نومبر 2019)

 زندگی میں رونما ہونے والے حادثات ہمیں بہت کچھ سکھاتے ہیں. یہ حوادث کبھی ہمارے ایمان اور توکل کے لیے آزمائش ہوتے ہیں، کبھی ہمیں سنبھلنے اور سدھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کبھی ہمارے گناہوں کی بخشش اور رفع درجات کا سبب بھی بنتے ہیں. یہ حادثے بتاتے ہیں کہ ہم اپنے تمام تر علم و صلاحیت اور اسباب و وسائل کے باوجود قادر مطلق کی قدرت کے آگے کتنے بے مایہ اور بے حیثیت ہیں. کل میرے ساتھ روڈ ایکسیڈنٹ کی شکل میں ایک بڑا حادثہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر کرم اور اس کی عنایت رہی کہ اس حادثے میں کسی بھی قسم کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا، میں اور میرے ساتھ کے تمام لوگ بالکل محفوظ رہے الحمد للہ.

دراصل کل میں ایک دینی پروگرام میں شرکت کے لیے بنارس سے تقریباً چار سو کلومیٹر دور بہرائچ ضلع میں ایک قصبہ قیصر گنج گیا ہوا تھا. بنارس سے میں نواب گنج اسٹیشن تک ٹرین سے گیا اور وہاں سے ہمارے دوست ظفر بھائی نے (جو بسکھاری امبیڈکر نگر کے رہنے والے ہیں) اپنی بولیرو گاڑی سے ہمیں ریسیو کیا، ہم لوگ تقریباً دس بجے رات کو قیصر گنج پہنچے. ایک گھنٹہ خطاب کرنے کے بعد ہم لوگ کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپسی کے لیے روانہ ہو گئے. وہاں سے مجھے ٹانڈہ امبیڈکر نگر آنا تھا جہاں آج میرا خطبہ جمعہ ہونا تھا. تقریباً دو  گھنٹہ کا سفر طے کرنے کے بعد جب ہم لوگوں کی گاڑی نواب گنج سے قریب ایک مقام ترب گنج (Tarabganj) پہنچی تو ایک جگہ خطرناک موڑ تھا جو دور سے نظر نہیں آتا تھا، ہماری گاڑی بلا شبہ سو سے کم اسپیڈ میں نہیں تھی، گاڑی ظفر بھائی ہی ڈرائیو کر رہے تھے، وہ محسوس نہیں کر سکے کہ آگے موڑ  ہے، اتنی تیز اسپیڈ میں اچانک اسٹیرنگ کو گھمانا بہت مشکل تھا، انہوں نے پوری قوت سے بریک ماری لیکن تب تک گاڑی مین روڈ سے بیس پچیس فٹ گھسٹتی ہوئی تقریباً سات آٹھ فٹ نیچے کھائی میں جا چکی تھی، چند لمحوں کے لیے تو ایسا لگا کہ ہم لوگ موت کے منھ میں پہنچ گئے، ہوش و حواس قابو سے باہر تھے، گاڑی کھائی میں گری ضرور تھی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ نہ تو گاڑی کو کوئی گزند پہنچی نہ ہم سب کو کوئی کھرونچ پہنچی، کھائی میں آگے پانی اور شاید دلدل بھی تھا، گاڑی وہیں جا کر رک گئی. ہم سب بلا تاخیر گاڑی سے نکل کر کھائی سے چڑھ کر اوپر سڑک پر آ گئے. سب کے چہرے پر بدحواسی چھائی ہوئی تھی. جب ہوش و حواس کچھ ٹھکانے لگے تو اندازہ ہوا کہ ایک بہت بڑے حادثے سے اللہ تعالیٰ نےہم سب کو بچا لیا. اب مسئلہ تھا گاڑی کو واپس کھائی میں سے نکالنے کا. ظفر بھائی نے گاڑی اسٹارٹ کر کے بیک کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی کا ایک پہیہ بری طرح پھنسا ہوا تھا جس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ اب بغیر سہارے کے گاڑی اوپر نہیں آ سکتی.

سنسناتی ہوئی سرد ہوائیں جسم کے اندر گھسی جا رہی تھیں، رات کے تقریباً دو بج رہے تھے، ہم لوگوں نے آنے جانے والی کئی گاڑیوں کو مدد کے لیے روکنے کی کوشش کی، ٹارچ جلا کر کھائی میں گری گاڑی دکھائی بھی، مگر کوئی بھی گاڑی یا ٹرک والا اتنی رات کو ہماری مدد کرنا تو دور گاڑی روکنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوا. ایک بار ذہن میں یہ بھی آیا کہ سو نمبر ڈائل کر کے پولیس کی مدد لی جائے، پھر محسوس ہوا کہ کرتا پاجامہ میں ملبوس داڑھی والے چند "ملّوں" کی مدد تو پولیس شاید ہی کرے لیکن دنیا بھر کی پوچھ تاچھ اور انکوائری ضرور  کرے گی.

آس پاس کچھ خاص آبادی بھی نہیں تھی، دور کہیں ایک گاؤں نظر آ رہا تھا، ہم میں سے دو لوگ گاڑی کے پاس رک گئے اور ظفر بھائی ایک ساتھی کو لے کر اس گاؤں میں پہنچے. وہاں پہنچ کر کسی کو اپنی بپتا سنائی تو اس نے گاؤں کے پردھان کے گھر کا پتہ بتایا اور کہا کہ اس وقت آپ لوگوں کو وہیں مدد مل سکتی ہے، ان کے پاس ٹریکٹر ہے جس کی مدد سے آپ کی گاڑی بآسانی نکل جائے گی. پردھان ایک غیر مسلم  لیکن نیک انسان تھا، اس نے بتایا کہ اس موڑ پر پہلے بھی کئی حادثے ہو چکے ہیں، اس نے کہا آپ لوگ اوپر والے کا شکر ادا کریں کہ سب لوگ محفوظ ہیں ورنہ یہاں کئی لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں. پردھان نے اپنے ڈرائیور کو کال کیا اور وہ بیچارہ ڈھائی بجے رات کو ٹریکٹر لے کر تھوڑی ہی دیر میں جائے حادثہ پر پہنچ بھی گیا. رسی کی مدد سے گاڑی کو نکالا گیا، چونکہ گاڑی اسٹارٹ ہو رہی تھی اس لیے بآسانی اوپر آ گئی. ہم لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس طرح فوری امداد کا راستہ بھی مل گیا ورنہ ہم لوگوں کو شاید صبح تک وہیں روڈ پر سردی میں ٹھٹرنا پڑتا.

ہم لوگ ایک نیک کام سے گئے تھے، کتاب و سنت کی دعوت پہنچانے گئے تھے، شاید اس کام کی برکت تھی یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے ان اذکار اور دعاؤں کی برکت تھی جنہیں سواری پر بیٹھتے ہوئے ہم لوگوں نے پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطرناک حادثے سے ہم لوگوں کو بالکل صاف بچا لیا. چار پانچ سال قبل ممبئی سے قریب کوکن کے ایک سفر سے لوٹتے ہوئے (جس میں ہمارے ساتھ شیخ ظفر الحسن مدنی حفظہ اللہ بھی تھے) بھی اسی قسم کا ایک حادثہ پیش آیا تھا اور اس حادثے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہم دونوں لوگوں کو صاف صاف بچایا تھا. اس ارحم الراحمين کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.

الہی! ہم جیسے گناہ گار بندوں کے ساتھ تو یوں ہی عفو و کرم کا معاملہ فرما، ہماری ٹوٹی پھوٹی کاوشوں کو اپنے کرم سے قبول فرما، دعوتِ دین کے میدان میں کام کرنے والے تمام علماء ودعاۃ کی حفاظت فرما. آمین