اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: سڑک پر موت کا رقص ______ سلیمان سعود رشیدی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday 30 November 2019

سڑک پر موت کا رقص ______ سلیمان سعود رشیدی

سڑک پر موت کا رقص
سلیمان سعود رشیدی

کسی بھی شہر کے ٹریفک نظام کو دیکھ کر اس قوم کے تہذیب وتمدن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،مہذب معاشرے میں زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ٹریفک کا نظام بھی نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے، گزشتہ چند عشروں کے دوران تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے، سڑکوں پر رش زیادہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق ہر پچیسویں سیکنڈ میں دنیا کے کسی کونے میں ایک شخص سڑک کے حادثہ میں ہلاک ہوجاتا ہے، ٹریفک حادثات دنیا میں اموات کی نویں بڑی وجہ ہیں جن کی وجہ سے ہر سال تیرہ لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور تقریباً تین کروڑ لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔مجموعی طور پر ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہر سال دنیا کو 518 بلین ڈالرز کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے جو معاشی زوال کی بڑی وجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے سڑک حادثات میں ہونے والی اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کو اس کی روک تھام کے لیےاجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بیماریوں سے زیادہ لوگ سڑک حادثات میں مر رہے ہیں۔

حادثات کیوں ہوتے ہیں:
مختلف سڑک حادثات میں درجنوں افراد لقمہ اجل اور سینکڑوں زخمی ہو جا تے ہیں جن میں سے بعض تو عمر بھر کیلئے اپاہج بن کر اپنے گھر والوں پر بوجھ بن جاتے ہیں ، ہندستان میں حادثات کی جو بڑی وجوہات نوٹ کی گئیں ان میں تیزی رفتاری، سڑکوں کی خستہ حالی، ڈرائیوروں کی غفلت، اوورلوڈنگ، ون وے کی خلاف وزری، اورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، موبائل فون کا استعمال، وغیرہ شامل ہے ۔ ہندستان میں ڈرائیوروں کی بڑی تعداد بغیر لائسنس کے گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ لائسنس کا اجراء بھی باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کے بعد عمل میں نہیں لایا جاتا بلکہ اناڑی لوگوں کو صرف تعلقات اور پیسے کی بنیاد پر لائسنس جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لیے ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں۔ تعلیم اور شعور کے فقدان کی وجہ سے ڈرائیورز حضرات افیون، چرس اور شراب کے نشہ میں دھت ہوکر گاڑی چلاتے ہیں جو کئی مسائل کو جنم دیتا ہے،
رپورٹ کے مطابق:
حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف ریاست تلگانہ میں ہر روز اوسطاً چار اموات ہورہی ہیں ،۲۰۱۹ سے  اب تک ۱۶۳۵ لوگوں کی سڑک حادثات میں موت ہوئی چکی ہے ، جبکہ ۲۰۱۸ ء میں ۱۶۶۱ اموات ہوئی تھیں ، جہاں اس سال غیر محفوظ اسٹریچس اور ناقص ڈرائیونگ کے باعث ۷۸۳ہلاکتیں ہوئیں ، صرف اس ماہ اس ریجن میں ۶۳ اموات ہوئیں ، اس سال سڑک حادثات کی تعداد میں تقریباً آٹھ فیصد کی کمی ہوئی لیکن ہیلمٹ کے بغیر ڈرائیونگ کرنے ، تیز رفتاری اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کے باعث اموات میں اضافہ ہوا ‘‘ ۔ سائبرآباد ٹریفک پولیس کے ڈی سی پی وجئے کمار نے یہ بات کہی ، 2018 ء میں سائبرآباد ٹریفک پولیس حدود میں 662 اموات ہوئیں اور 3097 لوگ زخمی ہوئے جبکہ اس سال کرسپانڈنگ فیگرس باالترتیب 783 اور 2704 ہیں ۔ رچہ کنڈہ پولیس حدود سڑک حادثات کی زیادہ تعداد کیلئے دوسرے مقام پر ہے جہاں اس سال (اکٹوبر تک ) 610 افراد ہلاک اور 2526 لوگ سڑک حادثات میں زخمی ہوئے ۔ 2018 ء میں اس ریجن میں سڑک حادثات میں 719 لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی ۔ اس دوران حیدرآباد ٹریفک پولیس حدود میں ، جو نسبتاً اور چھوٹا ہے اور اس میں اسٹیٹ اور نیشنل ہائی ویز کم ہیں ، اس سال 242 اموات ہوئیں جبکہ گزشتہ سال 280 اموات ہوئی تھیں ۔ عہدیداروں نے کہا کہ سڑک حادثات میں زیادہ لوگوں کی اموات کی اصل وجہ فالٹی ہیلمٹس یا ہیلمٹس کا استعمال نہ کرنا اور تیز رفتار ڈرائیونگ ہے ۔
میڈیا کی ذمہ داری:
الیکٹرانک میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے عام آدمی میں شعور اجاگر کرنے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ اہل اقتدار کو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس اور رپورٹ طلب کرنے کے بجائے اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ہم اس جیسے خطرناک حدثات  سے بچ سکے۔
ترقی یافتہ ممالک قانون سازی، قانون پر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بناکر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لاچکے ہیں۔ ہندوستان میں روڈ سیفٹی کے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر سختی سے عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے اس لیے ٹریفک پولیس اور متعلقہ حکام کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے ٹریفک پولیس کے افراد کی بہترین اور جدید دور کے مطابق تربیت کرتے ہوئے ان کے مانیٹرنگ کے نظام کو سخت کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی نا انصافی کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔بہتر نتائج کے لیے ضروری ہے کہ عوام اور ٹریفک پولیس میں کمیونکیشن گیپ دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
آر ٹی او کی ذمداری:
ڈرائیونگ سکھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ادارے قائم کیے جائیں جہاں تربیت یافتہ اسٹاف خواہش مند افراد کو ڈرائیونگ کی بہترین تربیت دے سکے۔ ہر ڈرائیور کے لیے بنیادی طبی امداد کا کورس لازمی قرار دیا جائے تاکہ ممکنہ حادثات سے نمٹنے کے لیے اسے تیار کیا جاسکے۔ ڈرائیونگ لائسنس باقاعدہ تربیت اور ٹیسٹ کے بعدجار ی کیا جائے اور اس کے حصول کو باضابطہ اور سخت بنایا جائے۔ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں رکھی جائیں اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جائے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔۔ ٹریفک کے متعلق شعورکی بیداری کے لئے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کیے جائیں تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے تیار کیا جاسکے۔
بلدیہ کی ذمداری:
پرانی سڑکوں کی فوری مرمت کی جائے اور تمام شہروں میں ضروری جگہوں پر ٹریفک سگنلز لگا ئے جائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی کرکے سڑک پر ذاتی گاڑیوں کے ہجوم پر قابو پایا جاسکتا ہے، ٹریفک حادثات سے بچاؤ کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
 آخری بات :
شہر حیدرآباد میں ایک طرف بڑھتے ہوئے ٹرانسپورٹ کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو دوسری طرف شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی محسوس کی جاتی ہے، یہ عجب صورت حال ہے شہر حیدرآبادکی سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ کا تصور ختم ہوکر رہ گیا ہے جو پیدل چلنے والوں کا حق ہوا کرتا تھا اب فٹ پاتھ کے بدلے تجاوزات نے جگہ لے لی ہے اور یہ تجاوزات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب یہ سڑکوں کو بھی اپنے گھیرے میں لیے ہوئے نظر آتے ہیں جو بسا اوقات حادثات کا بھی سبب بن جاتے ہیں،تجاوزات کے خلاف مہم  تو نہ کہ برابرچلائی جاتی ہے یہ تجاوزات مفت میں نہیں لگائے جاتے اس کے لیے باقاعدہ مختلف اداروں اور گروپوں کی مٹھی گرم کی جاتی ہے ، بہرحال لوگ پریشان ہیں، پیدل چلنے کے لیے فٹ پاتھ نہیں، سڑک کے کنارے چلو تو حادثے کا خطرہ ہے، روڈ پار کرنے کے لیے جو آہنی پل تعمیر کیے گئے ہیں ان پر لوگ چڑھنا گوارہ نہیں کرتے اور وہ چلتی ٹریفک میں سڑک کے دوسرے کنارے کو اس طرح پار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے خودکشی پر آمادہ ہو، بچ گیا اس کی خوش قسمتی، کسی گاڑی کے نیچے آگیا تو اس کی بد نصیبی والی بات ہے۔حیدرآبادگاڑیوں کا جنگل ہے ہی ایسے  جنگل میں ٹریفک قوانین کا تصور کیونکر ممکن ہو؟ ٹریفک نظام کی بہتری کے لیے جو افراد بھرتی کیے گئے تھے وہ صرف مخصوص ایام میں سڑکوں پر نظر آتے ہیں باقی دنوں میں کہاں ڈیوٹی دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔
محکمہ ٹریفک پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً ٹریفک حادثات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف آگاہی مہم چلائی جاتی رہی ہیں تاکہ ٹریفک حادثات کو کم سے کم کیا جاسکے ،جب تک محکمہ ٹریفک پولیس ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قانون کی حکمرانی کا بول بالا نہیں کرتا اور لوگ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کریں گے، یہ حادثات ہوتے رہیں گے۔