اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *علامہ اقبال رح اپنی مشہور نظم "طلوع اسلام" کے آئینے میں!* ✒انس بجنوری

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 27 May 2020

*علامہ اقبال رح اپنی مشہور نظم "طلوع اسلام" کے آئینے میں!* ✒انس بجنوری

*علامہ اقبال رح اپنی مشہور نظم "طلوع اسلام" کے آئینے میں!*
✒انس بجنوری

جس پائے کی شاعری اقبال نے کی وہ برصغیر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔اقبال کا جوہر تھا کہ ادھر ان کے قلم سے اشعار نکلتے اور ادھر رستاخیز کی فضا پیدا ہوجاتی۔نیام سے تلوریں نکل آتیں۔گھوڑوں کی ٹاپیں گونجتیں۔انھوں نے چمنستان اردو کو سدا بہار بنایا اور دلوں کو اسلامی قمقموں سے روشن کردیا۔وہ فقط شاعر اسلام نہ تھے؛بل کہ مفکر اسلام تھے۔۔
اقبال سے قبل برصغیر میں شیخ احمد سرہندی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،احمد شاہ ابدالی،سید احمد شہید،حضرت نانوتوی اور علامہ شبلی جیسے مفکرین و مصلحین گذر چکے تھے،علامہ نے ان اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انقلابی افکار کی پرورش کی۔اقبال مغربی ماحول کے پروردہ؛مگر مشرقی تہذیب کے دلداہ تھے،علامہ اقبال نے امام غزالی کے بعد مشرقی تہذیب کے نشاہ ثانیہ کے لیے جتنی کد و کاوش کی ہے اس اعتبار سے اس سیالکوٹی مفکر کے قد اور پایے کا دوسرا مفکر تاریخ اسلام میں بہ مشکل نظر آتا ہے۔۔

شاعر مشرق علامہ اقبال کی شہرت یافتہ طویل نظم "طلوع اسلام" ایک دور اندیش مفکر کے قلم سے نکلا ہوا انقلابی شاہ کار ہے۔طلوع اسلام اپنی تراکیب و استعارات کی انفرادیت، اصطلاحات و موضوعات اور اسلوب بیان کی ندرت کے اعتبار سے بے نظیر کلام ہے۔"طلوع اسلام" میں اسلامی افکار اور انقلابی تاریخ کی بھرپور عکاسی ہے۔انفرادی اور اجتماعی ہرحیثیت سے علامہ نے خوابیدہ قوم کو بیدار کرنے کی سعی کی ہے،وہ فلسفہء خودی کو انفرادی شخصیت کا جوہر قرار دیتے ہیں۔۔۔

مرد درویش اقبال نے ہمارے قومی تشخص کو نمایاں کیا ہے،ہم یوروپی افکار کے سامنے سجدہ ریز تھے،رنگ و خون کے بت ہمارے خدا تھے،ایرانی اور افغانی کی تفریق عروج پر تھی،شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی اور نطق اعرابی سے ہم ناآشنا تھے،رسم اذاں تھی ؛ لیکن روح بلالی کا نام و نشان نہ تھا،واعظ قوم کی پختہ خیالی،برق طبعی اور شعلہ مقالی ختم ہوچکی تھی،اسی لیے وہ کبھی صداقت،عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھاتے نظر آتے ہیں تو کبھی چرخ نیلی فام سے آگے مسلمانوں کی منزل کا پتہ بتاتے ہیں۔۔۔

وہ عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹنے سے خوفزدگی کے عالم میں نہیں بل کہ امید کی کرنیں دکھاتے نظر آتے ہیں وہ خون صد ہزار انجم سے سحر کی نوید پیش کرتے ہیں۔وہ کبھی کلیساؤں میں اذان کی آواز سناتے ہیں تو کبھی دشت و بیایان میں شیر پر سواری کرتے نظر آتے ہیں،وہ کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرا میں سجدہ ریز ہوتے ہیں تو کبھی دریاؤں میں گھوڑے دوڑانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔وہ کبھی عروق مردہء مشرق میں خون زندگی دوڑاتےہیں،تو کبھی نگاہ مومن سے تقدیریں بدل جانے کے نغمے سناتے ہیں ۔وہ مغرب سے اٹھنے والے طوفان کو مسلم امہ کے حق میں درست خیال کرتے ہیں کہ اس چوٹ سے خوابیدہ ضمیر بیدار ہوگا،تلاطم ہائے دریا سے گوہر سیراب ہوگا۔وہ کبھی ضمیر لالہ میں چراغ آرزو روشن کرتے ہیں تو کبھی چمن کے ذرہ ذرہ کو شہید جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔

ان کے نزدیک مسلم امہ کی آنکھ سے ٹپکتا لہو نیساں کا اثر پیدا کرلیتا ہے جس سے دریائے براہیمی میں گوہر پیدا ہونگے۔وہ مستقبل کے تئیں پریشان نہیں بل کہ مستقبل کو اسلام کی تابناکی کا دور خیال کرتے ہیں۔وہ مستقبل کے تئیں کتاب ملت بیضا کی شیرازہ بندی کا عندیہ پیش کرتے ہیں۔وہ شاخ ہاشمی سے برگ و بر پیدا کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ان کے نزدیک ہندوستان کا مستقبل اسلامی عروج کا دور بہار ہے۔وہ بلبل کو خطاب کے لیے آمادہ کرکے شاہیں کا جگر پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ نوجوان کو خدا کا دست قدرت اور زبان ہوش مند قرار دیتے ہیں۔وہ غافلوں کے درمیان تیقن کا صور پھونکتے ہیں ۔۔نوجوان کو براہیمی نسبت کا واسطہ دیکر اس سے معمار جہاں ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔علامہ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کو مقصود فطرت اور رمز مسلمانی قرار دیتے ہیں۔۔ان کے نزدیک زور حیدر،فقر بوذر اور صدق سلمانی قیصر و کسرائی استبداد کے خاتمے کی کلید ہے۔۔۔!

الغرض علامہ کی فکر ایشیائی مسلمانوں کے اضطراب کا عکس اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے التہاب کی پکار ہے۔وہ یورپ کے ذہنی غلام کبھی نہیں بنے اور نہ اپنی قوم کے غلام بننے پر آمادہ ہوئے۔انھوں نے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن وطن پرست بن کر نہیں۔اقبال نے ایک باطل کے مقابلے میں دوسرے باطل کی طرف داری سے انکار کیا۔انھوں نے ہمیں بتان رنگ و خوں اور وطنیت و قومیت کے نظریوں سے نجات دلاکر محبت فاتح عالم کا درس دیا اور ملت کی فکری رہنمائی کی۔۔۔

علامہ کی شاہکار تخلیق"طلوع اسلام" ایک طویل نظم ہے،افادہء عام کی غرض سے چند منتخب اشعار نذر قارئین کرتا ہوں:

دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دور گراں خوابی
عروق مردہء مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا وفارابی
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونےوالا ہے
شکوہ ترکمانی ذہن ہندی نطق اعرابی

سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کااثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھرگہر پیدا
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ وبر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیاغم
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہےسحر پیدا
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرےترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کاجگر پیدا


خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی مکیں فانی ازل تیرا ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے

یہی مقصود فطرت ہے یہی رمزمسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
گماں آباد ہستی میں یقیں مردمسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا زور حیدر فقر بوذر صدق سلمانی

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سےہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہےتصویریں
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

عقابی شان سے جھپٹے تھے جو بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے
ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو بن کرگہر نکلے
حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشیدجیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبےادھر نکلے


تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرزندگانی
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہوجا!