اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تحفظِِ تبلیغ کیلئے ہوش مندی ناگزیر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 18 January 2017

تحفظِِ تبلیغ کیلئے ہوش مندی ناگزیر!


ازقلم: عبدالرّحمٰن الخبیر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مولانا سعد بنگلہ دیش کیسے گئے یہ اصل بحث کی بات نہیں ہے ، بلکہ بنیادی سوال ہے کہ آخر حکومت بنگلہ دیش نے کس بنیاد پر مولانا سعد کو روکا اور اس کے پیچھے اسباب کیا کارفرما تھے ۔یہ بات تو پہلے ذہن سے نکال دیجئے کہ دین بیزار بنگلہ دیش کی حکومت نے دیوبند کے فتوے کی وجہ سے ان کو روکا ، کیوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔تو پھر سوال یہ ہے کہ ان کو روکا کیوں گیا ؟اگر تھوڑا دور جائیں اور بات کو وسیع تناظر میں دیکھیں اور پرکھیں تو بنگلہ دیش میں اسلام پسند جماعتوں پر پابندی ، مشہور مبلغ ذاکر نائیک کے سلسلے میں بنگلہ دیش کی ہی ایجنسی کے ذریعہ ایک غیر ثابت شدہ بات کو پھیلا کر ان کے لیے دائر ہ تنگ کرنے وغیرہ وغیرہ کے پس منظر میں اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔اگر بنگلہ دیش جانے سے مولانا سعد کو روکنے میں کامیابی مل جاتی تو عالمی میڈیا خاص طور سے ہندستان کی میڈیا مولانا سعد کو دہشت گردوں کا سرپرست اور نہ جانے تبلیغی جماعت کے مرکز کو کیا کیا کہتا ۔یہ سب محض اندیشے کی بات نہیں ہے، بلکہ اس کے کئی وجوہات ہیں، اگر شعوروفہم ساتھ ہو تو ہر کوئی تنہائی میں اس خطرے کا اندازہ کرسکتا ہے ۔
اس میں کسی کو شبہ نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ کے لیے جماعت تبلیغ کانظام ایک بہت بڑا اثاثہ ہے ، جس نے ایک صدی سے دین حق کی خدمت کا ایک بڑا اور کامیاب نظام سے دنیا کو روشنا س کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکابرعلماء دیوبنداور جمعیت علماء ہند نے ہمیشہ اور ہر موڑ پر تبلیغی جماعت کے نظام اور اس سے جڑے لوگوں کی ہر طرح سے حمایت کی ہے ۔آج سے چار سال قبل میوات میں جب سری لنکا کی جماعت کو قید کرلیا گیا تھا تو جیسے ہی مولانا سید محمو مدنی صاحب دامت برکاتہم کو اطلاع ملی تو فوری طور سے اس وقت کے وزیر داخلہ پی حدمبرم کو خط لکھا اور وہ خط ا سی وقت رات گیارہ بجے وزیر داخلہ کو دیا گیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو فوری سے رہائی ملی ۔
درحقیقت میوات میں تبلیغی جماعت کو قید کرنا ایک کانٹا چبھنے کی طرح تھا ، لیکن اس رات مولانا سعد پر روک لگانا تبلیغی جماعت پر تلوار چلانے کی طرح تھا۔ نہ یہ بات ہمیں معلوم ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کہ اس تلوار سے کئے گئے وار کو کس نے بچایا، مگر جو لوگ سچائی سے منہ موڑ رہے ہیں اور جو اس آنے والے خطرات کو سمجھ نہیں پارہے ہیں، اگر وہ سمجھ جاتے تو تمنا کرتے کہ کاش اس عظیم کام کوانجام دینے میں ان کا بھی کردار ہو تا۔ سوئی چبھونے کا بھی کا م کرتی ہے اور سوئی شگاف پڑی ہوئی چیزو ں کو جوڑنے کا کا بھی کام کرتی ہے ۔ اب ان لوگوں کو سامنے رکھئے جنھوں نے مولانا سعد کو روکوایا اور اس کو جس نے اپنی کوشش کرکے ان کی مدد کی ۔اس نے درحقیقت ملت اسلامیہ کی مدد کی، اس اثاثے کی مدد کی جو  جس کے بکھرنے کا سخت اندیشہ تھا ۔اس نے اسے بچالیا ، ہمیں بنگلہ دیش کی اعلی قیادت کا بھی شکر گزار ہو ناچاہیے کہ اس نے ہوش کے ناخن لیا ، کاش ہم بھی ہوش کے ناخن لیں ۔
ہمیں یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ ذاکر نائیک کے مرکز دعوت و تبلیغ پر کیسے پابندی لگی ، اور اگر یہی حال رہا تو تبلیغی جماعت کے ساتھ کیا ہو گا ۔مولانا سعد جب تک مرکزمیں ہیں اور اس کے ذمہ دار ہیں، آپ ان کو اور مرکز کو الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ، اگر وہ مجرم ہوتے ہیں تو مرکز کا نظا م بچ جائے نہ ایسا ہوتا ہے اور نہ ہی ایسا ہمارے دشمنوں کے نزدیک معقول ہے ۔
دیوبند کا فتوی ایک تنبیہ ہے ، ایک ہدایت ہے ، اخراج نہیں ہے ، یہ بات وہ لوگ بخوبی سجھ پائیں گے جنھوں نے دارالعلوم دیوبند میں کبھی تعلیم حاصل کی ہے ،ہمیں اس تنبیہ اور ہدایت سے انکار نہیں ہے ۔مگر تنبیہ کے دا من کو پھیلا کر اس کے سایے میں اپنے دشمنو ں کو جگہ دینے کی غلطی سے ہمیں باز آنا ہو گا، بنگلہ دیش کی ایجنسی کی جانب سے پابندی پر ہماری خوشی ایسی ہی غلطی ہے۔مختلف ذرائع ابلاغ سے ہم اپنی مبالغہ آرائی کے ذریعے ہم اپنے دشمنوں کو نہ صرف چارہ فراہم کررہے ہیں بلکہ دینی اداروں ، جماعتوں اور جمعتیوں کے خلاف عالمی سازش کا حصہ بن رہے ہیں ۔ہمیں اس نادانی سے خود کو واپس آنا ہو گااور یہ واپسی اختلاف میں اعتدال کی زمین پر اتر ے بغیر ممکن نہیں ہے، رہ گئی بات عالمی شوری نظام کا تو یہ مرکز کا داخلی معاملہ ہے ، یہ سوال وہی کرسکتے ہیں جو مرکز کی شوری یا اس کے نظام کا بنیادی حصہ ہیں، ہم تو بنیا د بچانے کی بات کررہے ہیں،دن کے اجالے سے زیادہ اہم سورج کے بقاء کا مسئلہ ہے ۔