اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ماہ ربیع الاول اور اس میں ہونے والی برائیاں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 29 November 2017

ماہ ربیع الاول اور اس میں ہونے والی برائیاں!

تحریر: محمد سلمان دہلوی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہر سال ماہ ربیع الاول کو میں جس قدر بدعات و رسومات ادا کئے جاتے ہیں شاید کسی میں ادا کیا جاتے ہوں اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سمجھتے ہوئے جبکہ مؤرخین نے بیان کیا ہے آپ کی وفات تو بارہ ربیع الاول ہی کی ہے البتہ ولادت میں اختلاف ہے بعض نے دو روبیع الاول اور بعض نے آٹھ ربیع الاول کہا ہے ‘ اب تو بارہ ربیع الاول نے ایک عید اور خوشی کا دن شمار کیا جانے لگا ہے اور ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی جشن یوم ولادت اور ہر طرح کی خرافات (جن کو خود آقا مدنی علیہ السلام نے منع کیا ) شروع ہوجاتے ہیں ‘
ہاں یہ بات یقینی ہے اور چونکہ ہر مسلمان کے لیے لازم اور فرض ہیکہ آقا علیہ السلام کا تذکرہ کریں لیکن محض ربیع الاول کے مہینہ میں اور خاص طور پر بارہ ربیع الاول کو ہی مختص کر لیا گیا ہے‘ اور ماہ ربیع الاول شروع ہوتے ہی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریبات و انتظامات شروع کردیا جاتا ہے‘ اب تو اس کو عید ثالث سے بھی موسوم کیا جانے لگا ہے ‘ اس تیسرے تہوار میں وہ خرافات اور برائی ہوتی ہیں جو عید الفطر و عید الضحیٰ میں دیکھنے کو بھی نہیں ملتی، مساجدوں کو مندروں اور گرجا گھروں کی طرح سجانا، رات بھر جاگنا، ڈھول‘تاشا‘ گانا‘ بجانا‘ اور طرح طرح کی برائیوں میں گزارنا، اور اس کا نام میلاد النبی دینا بلکل عقل و شعور کے خلاف ہے کیونکہ جس نبی علیہ السلام نے اس دنیا سے اپنی(63 )سالہ مختصر زندگی میں گانا بجانا ڈھول تاشا وغیرہ جیسے کھیلوں اور بدعات کو ختم کیا تھا اس کو ہم نے دوبارہ اپنا لیا جو سراسر غلط اور جھنم کا راستہ ہے اس سے تمام مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیے اور جو طریقہ نبی اکرم علیہ السلام امت کو دے گئے ہیں اس کو اپنانا چاہیے اسی میں کامیابی و کامرانی ہے ‘جبکہ یہ عید خود نبی اکرم علیہ السلام نے اپنی حیات طیبہ میں کبھی نہی منائی اور نہ آپ کے بعد خلفاء راشدین نے منائی نہ ہی صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے منائی ‘ اور نہ ہی ان کے بعد آنے والے تابعی و سلف صالحین نے منائی ‘

تو اب ہم کیوں منارہے ہیں؟
              ـــــــــعـــــــ
مسجدیں ویران کر کے وہ بازار سجا رہے ہیں
اس قوم کے  نوجوان سنت بھلا  رہے  ہیں
جس نبی ﷺ کو نا پسند تھے یہ شور شرابے
اسی ذات کا ڈھول کے ساتھ جشن منا رہے ہیں
کب صحابہ نے لگائے تھے بازاروں میں ڈیرے
جشن نبی ﷺ کی آڑ میں بدعت پھیلا رہے ہیں
وقت نزاع میں بھی تھی نبی ﷺ کو نماز کی فکر
آج وہ لوگ نماز گنوا کر جشن منا رہے ہیں
کتاب و سنت کا دامن چھوڑ کر کیوں لوگ
 ثواب کی آڑ میں گناہ  کما رہے  ہیں

نمازوں سے ہم کو کوئی سروکار نہیں جبکہ میرے آقا علیہ السلام نے اپنی آخری دم تک نمازیں ادا کی، اور فرمایا "جس شخص نے نماز کو جان بوجھ کر ترک کیا گویا اس نے کفر کیا" اس کے باجود ہم نمازوں کو ترک کر کے رات بھر جشن عید میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) مناتے ہیں اور فجر کے وقت خواب غفلت میں سوجاتے ہیں جوکہ ہمارے اوپر فرض تھی اس کو ہم نے ترک کردی اور میلاد النبی جیسی بدعات ورسومات میں لگ کر دین کا بیڑا غرق کردیا.
حضرت تھانوی ان دونوں قسموں کے درمیان عجیب وغریب فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں”پہلی قسم کی تجویز کرنے والے خواص یعنی علماء ہوتے ہیں اور اس میں عوام تصرف نہیں کرتے اور دوسری قسم کی تجویز کرنے والے عوام ہوتے ہیں اور وہی ہمیشہ اس میں تصرف کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ میلاد شریف کی مجلس کو ایک بادشاہ نے ایجاد کیا ہے اس کا شمار بھی عوام ہی میں سے ہے اور عوام ہی اب تک اس میں تصرف کررہے ہیں، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر نبی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں عید میلاد النبی کا انعقاد کیا جانا دراصل ایک بادشاہ کا ایجاد کردہ ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد ہے۔ شرعا اس کی اصل اور بنیاد کیوں کر ہوسکتی ہے‘ کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ میں صرف دو عیدوں کی اصل ملتی ہے؛ ایک عید الفطر، دوسری عید الاضحی.
چنانچہ آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بدلے میں تمہیں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں، عیدقرباں کا اور عید فطر کا دن" اب اگر شریعت اسلامیہ میں کسی تیسری عید کا اضافہ کرکے اس کو بھی منایا جائے اور اس کو دین و شریعت ہی کی عید سمجھی جائے اور اس تیسری عید کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ بھی عید الفطر اور عید الاضحی کی طرح ایک عید ہے، جس کو بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اچھا خاصا معارضہ ہوجائے گا اور شریعت محمدیہ میں تبدیلی کرنا لازم آئے گا، جس کے ناجائز ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
   بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر عید میلاد النبی کے غیرشرعی ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ شرعاً عید ہوتی تو مذہبی عید ہوتی اور مذہبی خوشی ہوتی نہ کہ دنیوی، اور مذہبی عید کے ثبوت کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ عید الفطر، اور عید الاضحی کے لیے اور اس طرح کی کوئی وحی ہے نہیں، جس سے بارہ ربیع الاوّل کی عید میلاد النبی ثابت ہو، اگر اس طرح کی کوئی وحی ہوتی جس سے اس عید مُحْدَث کا ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے خود صاحبِ وحی آقا مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر جشن میلاد منعقد کرتے، پھر صحابہ بھی مناتے، ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین؛ آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر مناتی، جس طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ نے اور تابعین، تبع تابعین نے منایا اور آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر منارہی ہے اور قیامت تک منائے گی، انشاء اللہ۔
                          واللہ اعلم