اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: سرزمین دیوبند!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday 29 November 2017

سرزمین دیوبند!

ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی دارلعلوم النصرہ دیوبند
      9358163428
ـــــــــــــــــــــــــــــ
اس میں شک نہیں کہ دیوبند ایک دینی علمی ادبی اور ایک تاریخی سرزمین ہے اور دارالعلوم دیوبند ہندوستان کے لئے نہ صرف یہ کہ ایک دینی ومذہبی تاریخی ادبی مرکز ہے بلکہ اسے برصغیر و ایشیاء میں دینی تعلیم کی نشر و اشاعت کا سب سے بڑا مرکز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، غالباً اس طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر نے کہا تھا:
                ــــــــــــعــــــــــــ
اس میں نہیں کلام کہ دیوبند کا وجود
ہندوستاں کے سر پہ ہے احسان مصطفیٰ

حکومت ہند بھی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو حکومت ہند دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتی ہے کہ پوری دینا میں اس وقت دین اسلام کی اشاعت و ترویح اور مذہبی خدمات کا سہرا اگر کسی کے سر بندھ سکتا ہے تووہ سرزمین ہند ہی ہے لیکن افسوس کہ حکومت کو بھی نہ جانے دیوبند کے نام سے کونسی چڑھ ہے اور دیوبند کو اپنے لئے باعث افتخار  سمجھنے کے بجائے اسے مشکوک نظروں سے دیکھتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک دیوبند کو ہندوستان میں جو مقام ملنا چاہیئے تھا نہ مل سکا.
دیوبند اور دارالعلوم دیوبند اگرچہ مذہب اسلام کا پیروکار ہے مگر دیگر تمام مذاہب کے ماننے والوں کی قدر کرتا ہے اور ہر مذہب کے پیروکار
کا اپنی سرزمین پر پرتپاک استقبال بھی کرتا ہے.
اور یہاں کے اکابرین سے ملنے یہاں کے نظام کو دیکھنے جاننے اور اسکے لیل و نہار کا جائزہ لینے کی ہر کسی کو ہر کسی وقت اجازت ہے جیسا کہ آئے دن یہاں ہندوستان کے دیگر شہروں اور دیگر ممالک کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور دارالعلوم اپنے آنے والے مہمانوں کی میزبانی کے لئے دل کھول دیتا ہے.
 جیسا کہ ابھی حال ہی میں جرمن سفارت خانہ کا ایک وفد دارالعلوم دیوبند کی زیارت کرنے آیا، جس میں فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے ڈپٹی چیف مشن ومعاشی وعالمی امور کے صدر ڈاکٹر جاسپرویک (DR.Jasper Wieck ) اور ہیڈ ایمبیسڈر آف اینیٹ بیسلر (BaesslerAnnet) شامل تھے، وفد کے ارکان نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبہ جات کا معائنہ کرنے کے بعد اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کی مقبولیت وشہرت نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کردیا، مزید انہوں نے اس کے نظام تعلیم وتربیت سے متاثر ہو کر یہ بھی کہا کہ خواندگی مشن کو فروغ دینے کے لئے ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے.
یہی نہیں ماضی میں بھی ہرطرح شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات اپنے اپنے زمانے میں دارالعلوم دیوبند کا دیدار کر اپنی حسرت پوری کرتے رہے.
مصر کے صدر جمہوریہ. انور السادات
صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر رسجند پرساد1957 اور فخر الدین علی احمد صدر جمہوریہ ہند 1976
کیرالہ کے گورنر اجیت پرسادجین 1965 اور اترپردیش کے 1969کے گورنر بی گوپالاریڈی بھی قدم رنجہ فرماچکے ہیں.
 1963 کے الہ اباد ہائیکورٹ کے جسٹس جگدیش دی سہائے بھی یہاں اکر اپنی خوشی اور اس کے نظم و نسق پر اپنے اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں.
کیا ہندو کیا مسلمان کیا سکھ کیا عیسائی ہر قوم ومذہب کا پیروکار ڈی ایم. ایس ڈی ایم سے لے کر صدر جمہوریہ تک. اخبارات ورسائل کے اڈیٹران بھی وزراء و حکام بھی قانون داں بھی لیڈران بھی ڈاکٹر بھی انجینیر بھی یورپین بھی عرب بھی چینی افریقی بھی اور ملک کے مختلف گوشوں سے بھی غرض ہر شعبہ وہر مزہب وقوم سے تعلق رکھنے والے خاص وعام تشریف لاکر اس کی اہمیت و افادیت اور اپنے تاثرات کا اظہار کرچکے ہیں.
حال ہی میں جرمن سفارت کار کی اس رائےکہ (خواندگی مشن کو فروغ دینے کے لئے ایسے ادارے ضروری) کو خاطر میں لاکر  حکومت ہند یہاں کی سندوں اور یہاں پڑھنے  والوں کو تعلیم یافتہ تسلیم کرلے تو ہندوستان کا گراف بھی کچھ بڑھ جائے گا.
    افسوس کہ سرزمین دیوبند ظاہری ومعنوی اعتبار سے اپنے جائز مقام کے حصول کے لئے آج تک شاکی ہے ہاہر سے آنے والے وفود کا استقبال ٹوٹی سڑکوں. تنگ گلیوں اور بدبو دار نالیوں اورکوڑوں  کے انبار سے ہی ہوتا ہے دور دراز سے آنے والا مہمان جن عقیدتوں محبتوں کے ساتھ یہاں آتا ہے گلیوں سڑکوں نالیوں کے دیدار سے اس کی عقیدتوں کا سارا بھرم ٹوٹ جاتا ہے اور اس عظیم دینی وتاریخی شہر سے حکومت کی بےتوجہی کا گلہ کرکے رخصت ہوجاتا ہے کاش حکومت اس کو اس کا جائز حق ادا کر دے.