اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: عزت مآب چیف جسٹس کی خدمت میں...

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 27 November 2016

عزت مآب چیف جسٹس کی خدمت میں...

ازقلم: ایم ودود ساجد نئی دلّی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ زیر نظر سطور دراصل چیف جسٹس آف انڈیاکے نام ایک دردمندانہ اپیل ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب تیرتھ سنگھ ٹھاکراردو زبان کے نہ صرف شیدائی ہیں بلکہ خود بھی بہت اچھی اردو لکھتے اور بولتے ہیں۔ان سے پہلے بھی کچھ چیف جسٹس ایسے ہوئے ہیں جو اردو جانتے تھے لیکن جس انداز سے جسٹس ٹھاکر نے اپنی عدالت میں جاری مقدموں اورعوامی تقریروں کے دوران اردو کی پزیرائی کی ہے شاید کسی اور نے نہیں کی ۔لہذا آج عدالت کے انصاف پرور حاکم سے ہندوستان کے ان سینکڑوں خاندانوں کی طرف سے ‘جن کے پیاروں نے حکومت کی غلط پالیسیوں کے سبب اپنی جانیں گنوادی ہیں‘ انصاف کی اپیل کرنی ہے۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر‘اپنے وقت کے اردو صحافی‘بے داغ سیاستداں اور ممتاز ماہر قانون ڈی ڈی ٹھاکر کے صاحبزادے ہیں۔موخرالذکر نے جموں سے ’حال ہند‘نامی رسالہ بھی شروع کیا تھا۔جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلی مرحوم شیخ عبداللہ سے بھی ان کے گہرے روابط تھے۔وہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے جج بھی رہے۔بعد میں انہوں نے جموں وکشمیر کے نائب وزیر اعلی اور پھر آسام کے گورنر کی حیثیت سے بھی ملک کی خدمات انجام دیں۔اس تفصیل سے یہ سمجھنا آسان ہوگیا کہ خود چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کس تہذیب وتمدن کے پروردہ ہیں۔انہوں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے 3دسمبر2015کو عہدہ سنبھالا تھا۔ 4جنوری2016کو وہ اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوجائیں گے۔جسٹس ٹھاکربیحدصاف گو انسان ہیں۔وہ حق بات کہتے ہوئے کسی سے خوف نہیں کھاتے۔لہذا انہوں نے کئی مواقع پر موجودہ حکومت کو گھٹنوں پر آنے پر مجبور کردیا۔وہ ریٹائرہونے کے بعد حکومت سے کسی سیاسی عہدہ کے خواہش مند بھی نہیں ہیں۔لہذاوہ عوامی بہبودکے معاملہ میں حکومت سے کوئی سمجھوتہ بھی نہیں کرسکتے۔ایک موقعہ پر انہوں نے خود کہا بھی تھا کہ خدا نے مجھے جہاں پہنچا دیا ہے اب اس سے آگے جانے کی میری کوئی خواہش نہیں ہے۔ حال ہی میں معذوروں کو راحت پہنچانے سے متعلق ایک پی آئی ایل پر سماعت کرتے ہوئے جس طرح جسٹس ٹھاکر نے حکومت کے وکیل سے جرح کی اور متعلقہ فائل کو دباکر بیٹھ جانے والے وزیر کانام باربارپوچھااس سے بھی واضح ہوگیا کہ حکمراں کتنے ہی متکبر ومغرورکیوں نہ ہوں اگر عادل جج صاحبان ان کی ناک میں نکیل ڈالنا چاہیں تو ان کے ہاتھ بہت مضبوط ہیں۔جسٹس ٹھاکر نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ’’یہ حکومت ہے یا کوئی پنچایت؟‘‘اس تمہید سے یہ بات بآسانی سمجھ میں آگئی ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیاکو چونکہ ریٹائرہونے کے بعد کسی سیاسی عہدہ کی خواہش نہیں ہے اس لئے وہ ارباب اقتدارکی کوئی رورعایت بھی نہیں کریں گے۔گزشتہ 15اگست کو جب وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کی تھی تو جسٹس ٹھاکر نے ہی اس پر گرفت کرتے ہوئے ججوں کی کمی اور تقرری میں تاخیر پر حکومت پر تنقید کی تھی۔اس وقت انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا تھا: گل پھینکے ہے اورروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری اوراین جے اے سی کے معاملہ پربھی انہوں نے حکومت سے سوال کیا تھا کہ کیا ’آپ عدل وانصاف کے پہیہ کو بالکل روک دینا چاہتے ہیں؟‘پھر خود ہی جواب دیا تھا کہ ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے نوٹ بندی کے سوال پربھی کوئی نرمی نہیں دکھائی۔حالانکہ اس سلسلہ میں ملک بھر کی سات ہائی کورٹوں میں رٹ دائر ہوچکی ہیں۔کلکتہ ہائی کورٹ اس پر سخت رخ دکھا چکی ہے۔اسی طرح کی ایک رٹ جب سپریم کورٹ میں دائر ہوئی اور حکومت نے چیف جسٹس کی بنچ سے کہا کہ وہ یا تو ملک کی تمام ہائی کورٹوں کو نوٹ بندی کے تعلق سے کوئی بھی رٹ لینے سے روک دیں یا ایسی تمام رٹوں کو کسی ایک ہائی کورٹ کو منتقل کردیں تو سپریم کورٹ نے سخت رویہ اختیارکرتے ہوئے اس درخواست کو مستردکردیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم ہائی کورٹوں کو روک دیں گے تو ہمیں معاملات کا اور ان کی سنگینی کا کیسے علم ہوگا؟اور کیسے لوگوں کو انصاف کی فراہمی ہوسکے گی؟یہی نہیں حکومت پر طنز کرتے ہوئے عدالت نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی صورت حال بنادی گئی ہے کہ گلی گلی میں فسادات ہوسکتے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب! ہمیں یقین ہے کہ آپ کے سینہ میں ایک درمنددل دھڑکتا ہے۔آپ ایسی تہذیب کے پروردہ ہیں کہ جہاں انسانوں کی قدروقیمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔آپ سے ان لاکھوں دکھی انسانوں کا دردبیان کرنا ہے جن کی ایک طرف توپوری زندگی کی کمائی پل بھر میں خاک میں مل گئی ہے اور دوسری طرف خودان کی زندگی ہی داؤ پر لگ گئی ہے۔اخبارات کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ 8نومبر 2016کی نیم شب سے آج یہ سطور لکھے جانے تک 100سے زیادہ اموات اس نوٹ بندی کی وجہ سے ہوچکی ہیں۔ان میں پیسہ نہ ملنے کی وجہ سے کی جانے والی خود کشی کے معاملات بھی شامل ہیں اورلائن میں لگے لگے ہونے والے ’ہارٹ اٹیک‘کے بھی۔یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔کچھ نہیں کہا جاسکتا ابھی کہاں کہاں اور کتنی اموات ہوں گی۔عزت مآب !سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر ہم نوٹ بندی سے ہونے والی مشکلات ومصائب کا ذکر کرتے ہیں توہمیں ’کالے دھن‘کا حامی گردان لیا جاتا ہے۔اور آج کل تو ہر طرح کے اظہار خیال کو دیش بھکتی سے جوڑ دیا گیا ہے۔اگر ہم حکومت کے اقدامات کے حامی ہیں تو ہم دیش بھکت ہیں۔اور اگر ہم اس کی پالیسیوں اور اس کے غلط اقدامات کوغلط بتاتے ہیں تو ہمیں دیش دروہی قرار دے دیا جاتا ہے۔قومی میڈیا کے 80فیصد حصہ پر پیسہ والوں کا تصرف ہوگیا ہے۔باقی 20فیصدکوبند کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔اس لئے ملک بھر میں جو افراتفری مچی ہے اس کے نتیجہ میں آنے والی تباہی وبربادی کے بہت سے پہلو تو آج بھی کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں۔ عزت مآب چیف جسٹس صاحب!اس صورت حال پر مشہورنغمہ نگارجاوید اختر نے پورے ملک کی ترجمانی ایک آزاد نظم کے ذریعہ کی ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ آپ سے ایک حتمی درخواست کرنے سے پہلے اسے آپ کے سامنے دوہرا دوں: کسی کا حکم ہے ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں کہ ان کی سمت کیا ہے؟ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں‘ حفاظت ان کی کرناہے ضروری اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن‘یہ سب ہی جانتے ہیں کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں ذرا یہ سرکشی کم کرلیں‘اپنی حد میں ٹھہریں ابھرنا پھر بکھرنااور ابھر کر پھر بکھرنا‘غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت‘بغاوت کی علامت بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی اگرلہروں کو ہے دریا میں رہنا تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا یقیناً پھول یک رنگی تو ہوں گے مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا‘کتنا ہلکا‘یہ افسر طے کریں گے کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے کبھی ہوہی نہیں سکتے کہ ہر اک رنگ میں چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں جنہوں نے باغ یک رنگی بنانا چاہے تھے ان کو ذرا دیکھو کہ اک رنگ میں جب سو رنگ ظاہر ہوگئے تو وہ اب کتنے پریشاں ہیں کتنے تنگ رہتے ہیں کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں قید خانوں میں نہیں رکتیں یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا جتنا بھی ہو پر سکوں بے تاب ہوتا ہے اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے عزت مآب !ہم اس سے زیادہ آپ کے سامنے کچھ نہیں کہہ سکتے۔اس ملک کے کروڑوں بے حال لوگوں کو آپ سے بہت امیدیں ہیں۔آپ کی عدالت میں چند ہی دنوں بعد پھرسماعت ہونی ہے۔حکومت نے ایک پر اسرار فرمان کے ذریعہ بربادی کی ایک تاریخ لکھ ڈالی ہے۔لیکن آپ سے التجا ہے کہ آپ آبادی کی ایک تاریخ لکھ دیجئے۔کانگریس کے منیش تیواری بتاچکے ہیں کہ آر بی آئی کے ایکٹ کے مطابق حکومت نے غیر قانونی کام کیا ہے۔مگر ہم اس بحث میں نہیں جاتے۔ہم تو آپ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ایسا کچھ کیجئے کہ جس سے کروڑوں انسان وہ قدم اٹھانے سے رک جائیں جومذکورہ 100مرنے والوں میں سے بہت سوں نے اٹھالیا ہے۔ایسا کچھ کیجئے کہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن رکنے کی بجائے معمول پر آجائے۔کہ اس وقت سرکاروں کو بچانے سے زیادہ ضروری انسانوں کو اور خاص طورپر بے بس انسانوں کو بچانا ہے۔آپ کے انصاف پسند قلم کی ایک جنبش سے ایک طرف جہاں ان 100سے زیادہ اموات کی ذمہ دار حکومت کو انصاف کے آستانہ پر لایا جاسکے گا وہیں دوسری طرف بربادی کے دہانے پر کھڑے ہوئے کروڑوں انسانوں کو بھی زندگی جینے کا بہانہ مل جائے گا۔اس سلسلہ میں آپ کو دوسرے پریشان حال لوگوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے 20کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی بھی دعائیں ملیں گی جواپنے ان پریشان حال برادران وطن کے لئے بھی دست بدعا ہیں جن کی بیٹیوں کی شادیاں حکومت کے ایک فیصلہ سے چھن سے ٹوٹ گئی ہیں۔