اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جہیز ایک سماجی لعنت!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 28 January 2018

جہیز ایک سماجی لعنت!

تحریر: مفتی فہیم الدین رحمانی
ــــــــــــــــــــــــــــــ
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی فرمائی ہے قرآن و حدیث نےاساسی اور رہنما اصول بیان فرمادیئے ہیں پھر نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا طرزِ عمل ہمارے سامنے ہیں بعد میں ہمارے ائمہِ مجتہدین اور فقہائے عظام نےکوئی ایسا مسئلہ نہیں چھوڑا جس کی قرآن وحدیث کی روشنی میں تفصیلات نہ بتا دی ہوں حتٰی کہ متوقع اور فرضی پیش آمدہ مسائل کے بھی حل بتا دیئے ہیں مسائل اور ضروریات انسانی میں نکاح اور شادی انسان کی طبعی اور فطری اور بنیادی ضرورت ہے کوئی وجہ نہیں کہ اسلام ایک فطری دین ہے اس سلسلے میں اپنے ماننے والوں کی رہنمائی نہ فرمائی ہو، انسانی نسل اور زندگی کو قائم رکھنے کے لئے نکاح چونکہ ایک لابدی چیز تھی اس لئے شریعت اسلامیہ نے اسے کماحقہٗ اہمیت دی، نکاح اور ازدواجی زندگی کا کوئی ایسا لازمی اور ضروری پہلو نظر نہیں آتا جس میں شریعت نے واضح ہدایات نہ دی ہو، جہیز اور تلک جس کے ذریعہ گویا مہذّب طریقہ سے انسان کی خرید و فروخت ہوتی ہے جس طرح جانوروں کے میلوں میں بائع و مشتر ی کے مابین خرید و فروخت کا معاملہ طے پاتا ہے بیچنے والا اپنے دلالوں کے ذریعہ خریدار سے زیادہ سے زیادہ روپئے مختلف طریقہ سے اصول کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور خریدنے والے کی بد نصیبی یہ ہوتی ہے کہ قیمت کی زیادتی کی وجہ سے اپنے من پسند جانور خریدنے سے قاصر رہتا ہے، اسی سے مشابہ موجودہ دور کی شادیاں ہیں، شادی بیاہ کی منڈی میں لڑکے والے زیادہ تلک اور کثیر ساز و سامان کے لالچ و حرص میں دین دار تعلیم یافتہ اور امورِ خانہ داری سے واقف لڑکی کو نظر انداز کردیتے ہیں، فرمائشی تلک و جہیز کی وجہ سے لڑکی والے لڑکی کے مناسب حال لڑکے کا انتخاب نہیں کر پاتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ انتشار و خلفشار اور مختلف قسم کی برائیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے، یہ ایک ایسی انسانیت سوز رسم ہے جس کے مہلک اثرات کی وضاحت کے لئے الفاظ ملنے مشکل ہیں، اس کی غیرت وخوداری اس وقت کہاں دفن ہوجاتی ہے جب اپنے ہونے والے خسر سے تلک اور سامانِ جھیز کا مطالبہ کرتا ہے یا اپنے والد کے مطالبے کی حمایت وتائید کرتا ہے، اس رسم بد کا اسلام سے تو کوئی تعلق ہی نہیں، جہیز سماج میں ایک سنگین ترین صورت اختیار کئے ہوئے ہیں اور روز بروز یہ ایک لاعلاج ناسور بنتا جارہا ہے، ہزاروں معصوم دوشیزائیں اس کی سنگینی سے متاثر ہیں لڑکےکی طرف سے مطالبہ ہوتا ہےکہ شادی میں ماروتی کار، رنگین ٹی وی، زیورات، فرنیچر، فریج، کولر وغيرہ قیمتی اشیاء اور نقد رقم بطور جہیز پیش کئے جائیں، لڑکی کا باپ معاصی اور مالی کمزوری اور غربت و افلاس کی بناء پر اور مجبورکن حالات کی وجہ سے بےبس ہوکر رہ جاتا ہے، اور غریب لڑکی زندگی کے قیمتی ایام اسی طرح گزارکر عمر کی اس منزل تک پہونچ جاتی ہے، جس میں کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں رہتا، نہ اس کو مناسب رشتہ مل سکتا ہے، اور نہ ہی زندگی کا ساتھی مل سکتا ہے، اس طرح ایک بےگناہ انسان کے ارمان کا خون ہو جاتا ہے اور اس کی خوشیاں کافور ہوجاتی ہے، اور اس کے جذبات سرد پڑجاتے ہیں ایک طرف لڑکی حسرت اورناامیدی کے عالم میں زندگی گزارتی ہےتو دوسری طرف نفس کی جھوٹی تسلی کے لئے غیرشرعی غیر اخلاقی طور طریق اختیار کرنے لگتی ہے، اور غیرمردوں سے دل لگانے لگتی ہے یہاں تک کی ناجائز محبت کا سلسلہ اور ناجائز تعلقات تک کی نوبت آجاتی ہے بعض دفعہ غیرشرعی، غیراخلاقی اور غیرقانونی اولاد کی صورت میں یہ محبت رنگ لانے لگتی ہے اور اس طرح انسان حدودِ انسانیت سے نکل کر حدود حیوانیت میں داخل ہوجاتا ہے، اور یہ سب کچھ جہیز کی بدولت ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں چند افراد کی خانگی اور نجی زندگی ہی نہیں بلکہ پورا سماج فساد کی نذر ہوجاتا ہے اور اس کے تباہ کن اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، اس کے تمام تر ذمہ دار جہیز کا مطالبہ کرنے والے ہی ہوتے ہیں.