اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جُھرّی زدہ برستی آنکھیں!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday 28 January 2018

جُھرّی زدہ برستی آنکھیں!

تحریر: محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
ــــــــــــــــــــــــــــ
وہ واقعی صبح کا سہانا بانکا سجیلا موسم تھا مزید برآں نسیم سحر سمندر  کے اطراف خود رو جنگلی درختوں کے وجودسے ٹکراتی بل کھاتی جب ہمارے کرتے کے اوپری بٹن کو پھلانگ کے سینے تک رسائ حاصل کرتی تو دل و دماغ کو تروتازہ کردیتی، طلوع شمس کا آغاز ہونے والا تھا کیونکہ چشم زدن قبل رات اپنی تاریک چادر کو آہستہ آہستہ سمیٹ کے نگاہوں سے اوجھل ہوئی تھی یعنی سورج کی شعائیں جلوہ افروز ہونے کے لیے بے قرار تھیں کچھ خدا کے فرماں بردار بندے چشمِ بیدار لئے ذکر الہی میں ہمہ تن مشغول ہو کر اپنے رزق کی تلاش میں نکلنے کے پروگرام مرتب کر رہے تھے، اور کچھ نافرمان  شیطان کے دام تزویر میں پھنس کر اپنی عاقبت سے بے خبر ابھی تک سو رہے تھے-
گو کہ وقت سرکتے سرکتے آگے بڑھ رہا تھا ہواؤں میں ابھی بھی خنکی باقی تھی، سورج کی ارغوانی روشنی ہر چہار جانب پھیل چکی تھی،بعد نماز فجر راقم الحروف مدرسہ کے سامنے بیٹھ کر دھوپ سے لطف اندوز ہو رہا تھا-
 کہ سامنے ایک شناسا شخص کو اپنی جانب آتے دیکھا ضعیف العمر، لاغر ناتواں، خمیدہ کمر، ان کو دیکھنے والا یہی محسوس کرے گا کہ، موسم خزاں کا ماتم کنندہ درخت، سورج کی تپش سے خاکستر ہونے والا سرسبز و شاداب کوہ، سنگلاخ وادیوں کا دہقان جسے بود و باش، خورد و نوش کی قلت نے  ہڈیوں کا ڈھانچہ بنادیا تھا، قریب پہنچے علیک سلیک کے بعد گفتگو کا آغاز ہوا، بڑے میاں آج کچھ زیادہ ہی اداس تھے بار بار انکھیں ساون بھادوں بن جاتی تھیں،بسا اوقات پتلی کے سرخ ڈورے بھی حلقئہ چشم میں تیرتے دکھائی دے رہے تھے ایسا محسوس ہوا کہ بڑے میاں شب بیداری کرکے آئے ہیں، اثناء گفتگو کوشسِ بسیار کے باوجود مچلتے اشک اب موتی کی شکل میں رخسار سے ہوتے ہوئے ریش مبارک کو تر کر نے لگے تھے- کپکپاتے لبوں میں جنبش کا ہلکورا قدرے بلند ہوا تو تھکی تھکی اواز میں غیر مربوط جملوں پہ مشتمل اپنی داستان کچھ اس طرح بیان کیے
 کہ قاری صاحب!
 اسّی سال کی عمر ہو گئی، اب تو پٹھوں کی طاقت بھی جواب دے رہی ہے، بڑے مشکل سے قدم گھسیٹ کے چلتا ہوں، اللہ نے اس لاغر ناتواں کے کندھے پر دو بیٹیوں کا بار گراں ڈال رکھا ہے، آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک بیٹی کی شادی خانہ آبادی کے لئے میں نے کتنے لوگوں کے سامنے دست دراز کیا تھا پھر بھی وہ  گئے وقت کی بات تھی کہ اس داماد نے مال و دولت کی کوئی فرمائش نہیں کی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے چھوٹی بیٹی کی شادی کے لیے بڑا فکر مند رہتا ہوں اسی لیے راتوں کو نید نہیں آتی ہے -
کسی نے درست کہا ہے کہ غریبی کا آٹا بھی گیلا ہوتا ہے، ادھر اہلیہ کی طبیعت برسوں سے ناساز رہنے لگی ہے، بھنگار چن کر لاتا ہوں، تو بمشکل دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ھے کبھی کبھار کوئی ترس ورس کھا کر کچھ پیسے دے دیتا ہے تو سمجھ لو خود کی بھی دوا لے لیتا ہوں- ہائے رے دیا!!
اب تو قدموں میں اتنی طاقت بھی نہیں رہی کہ بھنگار چننے کے لیے جاؤں، مجبوراً بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے دست دراز کرتا رہتا ہوں، اپ کہہ سکتے ہیں کہ بڑی جفاکشی میں شب و روز گزر رہے ہیں-
 میرا کون ہے اس دنیا میں، کون میری چھوٹی بیٹی کی شادی کرائے گا، کیسے اس کی رخصتی ہوگی، میرے قدم قبر میں لٹک رہے ہیں، نا معلوم کب موت کا پروانہ لیکر فرشتہ حاضر ہو جائے اور میری روح اس قفس عنصری سے پرواز کر جائے،ان افکار و اوھام کی دنیا میں جب  پہنچ جاتا ہوں تو سرد راتوں تک کی نیند حرام ہو جاتی ہے، بے اختیار آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے ہیں، خیال آتا ہے کہ غریب لڑکیاں بھی کتنی بدقسمت ہوتی ہیں، جن کے شادی کے جذبات آنسوؤں میں بہتے رہتے ہیں، غربت کی چھاؤں میں بیٹھی بیٹیاں اس دن کا انتظار کرتی ہیں کہ کب وہ خوشی کا دن آئے گا اور میں شادی کے پیرہن زیب تن کر کے اپنی دنیا کی جنت میں سیر کروں گی- لیکن یہ صرف ان کے خواب ہوتے ہیں جو شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے مال و دولت اور غربت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، جہیز، بارات جیسی ہندوانہ رسم و رواج نے مسلمانوں کے معاشرے پر کاری ضرب لگائی ہے، جس میں اکثر مسلمان ملوث نظر آتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ غریبوں کی بیٹیوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں، شادی کی عمر ڈھل جاتی ہے، ہاتھوں میں مہندی رچانے کے ارمان دل میں مچل کر رہ جاتے ہیں، آنسوؤں میں شب و روز گزر جاتے ہیں، ان کی بدنصیبی کا باعث یہی پرا گندہ معاشرہ ہے،  ارے غور کرو خدا کی شاہکار تخلیق میں یہ لڑکیاں بھی ہیں، مزید ان لڑکیوں پر ستم کے پہاڑ ٹوٹٹے ہیں جب غربت کے ساتھ ان کا رنگ سانولا ہو، سانولی رنگ کی لڑکیوں کو کون پسند کرتا ہے، ہر کسی کو گوری لڑکی ہی چاہیے، بڑی جدوجہد کے بعد کوئی رشتہ مل بھی جائے تو جب عورتیں دیکھنے کے لیے آتی ہیں تو لڑکی کو دیکھ کر یہی پیغام چھوڑ جاتی ہیں کہ گھر جا کر مشورہ کرکے بتائیں گی، وہاں سے جواب آتا ہے کہ ہمارا فرزند کہتا ہے کہ مجھے سفید چٹی دوشیزہ چاہیے،بڑے میاں  غمزدہ لہجے میں مخاطب تھے، کہ معاشرے میں برائی اس قدر پھیل گئی ہے کہ اب تو رہبر بھی اصلاح معاشرہ سے یاس بر دوش اور ہراساں نظر آتے ہیں، میری بات آپ کو تلخ ضرور لگے گی  جس کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں ، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے حضرات بھی جہیز، بارات جیسی ہندوانہ رسم و رواج میں برابر کے شریک ہیں، زمانہ جاہلیت کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے، غریب کے یہاں لڑکیوں کی پیدائش پر کوئی خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ شادی کے وقت آپ جیسے لوگ بھی شریعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسم و رواج کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں-
بڑے میاں کہنے لگے!
 مجھے شکوہ آپ حضرات سے ہے، آپ لوگ بھی جہیز میں گاڑی کے طلب گار ہوتے ہیں بارات بھی لے جاتے ہیں، اگر آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہو تو ایسے رشتے کو جوتے کی نوک سے ٹھکڑا دیتے ہیں، ایک طویل گفتگو بڑے میاں میرے ساتھ کر کے آگے کو چل دئیے اور میں ششدر رہ گیا،بڑے میاں کی اشک بار آنکھوں اور غمزدہ دل کو دیکھ کر مجھے بے حد تکلیف ہوئی، اور میں باغِ تخیلات کی وادیوں میں کھو گیا، سوچتا رہا کہ صرف ایک بڑے میاں کی حقیقی داستان ہے یا اس مصیبت میں اور لوگ بھی مبتلا ہیں -
کاش کہ وارثین انبیاء اس جانب توجہ فرمائیں-