اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: 26جنوری "یوم جمہوریہ" کا تاریخی پس منظر!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 25 January 2018

26جنوری "یوم جمہوریہ" کا تاریخی پس منظر!

ازقلم: محمد صدرعالم نعمانی صدر جمعیت علماء سیتامڑھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ایک 15/اگست جس میں ملک انگریزوں کی غلامی سےآزاد ہوا، دوسرا 26/جنوری جس میں ملک جمہوری ہوا.
یعنی اپنے ملک میں اپنے لوگوں پر اپنا قانون لاگو ہوا، آزاد ہندوستان کا اپنا دستور بنانے کیلئے ڈاکٹر بهیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29/اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جسکو ملک کا موجوده دستور مرتب کرنے میں 2سال 11ماه اور 18 دن لگے، دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہراک شق پر کهلی بحث ہوئی، پھر 26/نومبر1949کو اسے قبول کر لیا گیا، اور 24/جنوری 1950 کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیا.
مولانا صدرِ عالم نعمانی
   البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے دستور کے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکها کہ "یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اور توسیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا"بہرحال 26/جنوری 1950 کو اس نئے قانون کو لاگو کر کے پہلا "یوم جمہوریہ" منایا گیا، اس طرح ہرسال 26/جنوری "یوم جمہوریہ"کے دن کے طور پر پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا.
اور 15/اگست 1947 کی طرح یہ تاریخ بهی ملک کا قومی اور یادگاری دن بن گئی.
26/جنوری کو جشن کے طور پہ کیوں مناتے ہیں، توآئیے تاریخ کے اوراق کا مشاہدہ کرتے چلیں:
 جشن کا یہ دن ہندوستانیوں کو یوں ہی نہیں ملا، اس کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑی، لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑے، تب جاکر 26/جنوری کو جشن منانے کا یہ زریں موقع ہندوستانیوں کو نصیب ہوا، انگریزوں کا پہلا قافلہ1601 میں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیا تها، اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947میں 346 سال بعد ہوا، اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی  جسکا ہر صفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے، جذبہ آزادی سے سرشار اور سر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان سب سے پیش پیش تھے، جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی، آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹها کہ ملک کا دستور کیساہو، مذهبی ہو یا لامذہبی، اقلیت و اکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں،
آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہند کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جمعیت علماءہند کے ناظم عمومی مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کو مراعات دلانے میں اہم کردار ادا کیا، چنانچہ آئین هند کے ابتدائی حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہےکہ
ہم ہندوستانی عوام تجویز کرتےہیں کہ
" ہندوستان ایک آزاد, سماجوادی , جمہوری, ہندوستان, کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی, معاشی, سیاسی, انصاف, آزادئ خیال, آزادئ اظہار راے, آزادئ عقیدہ ومذهب وعبادات, انفرادی تشخص, اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا,اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم و دائم رکها جائیگا"
1971میں اندرا گاندهی نے دستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ "سیکولر" کا اضافہ کیا تھا، ہنوستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے، اس میں مختلف افکار و خیالات اور تہذیب وتمدن کے لوگ بستے ہیں، اور یہی رنگا رنگی یہاں کی پہچان ہے، 26/جنوری کو اسی مساوی دستور و آئین کی تائید میں اور کثیرالمذاهب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پر ناز کرنے کے لئے "جشن جمہوریت " منا کر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین و مرتبین اور ملک کی آذادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے.  
 انگریز"ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ساتھ 1601 میں تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا، اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاه کی حکومت تهی  (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تها، اس کا اصل نام سلیم نورالدین اور لقب جہانگیر تها) اس نےانگریزوں کا خیر مقدم کیا لیکن انگریزوں کو باقاعده تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاه خرم  (شاہجہاں) نے دی، رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کیا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑ میں فوجیوں کو انگلستان سے بلانا شروع کر دیا) مگر دہلی میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تهی کہ انگریزوں کو خاطر خواه کامیابی نہیں ملی، شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی، اٹهارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی انگریزوں کے عروج کا دورشروع ہوگیا، عیار اور شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضےکا پلان بنا لیا، ہندوستانیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنےکا منصوبہ طے کر لیا، انکے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بهانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی میں جس مرد مجاهد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا اور 1757 میں جام شہادت نوش کیا وه شیر بنگال نواب سراج الدولہ تها، پھر 1799میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے شیر میسور ٹیپو سلطان نے ملک پر جان نچھاور کردی، جسکی شہادت پر انگریز فاتح لارڈ ہارس نے فخر و مسرت کے ساتھ یہ اعلان کیا تها کہ
 " آج سے ہندوستان ہمارا ہے"
1803میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئی اور بادشاہ وقت "شاه عالم ثانی "سےجبرا ایک معاہده لکھوایا کہ
"خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت، کا اور حکم کمپنی بہادر کا"
یہ بات اس قدر عام ہوگئی کہ لوگ کہنے لگے
"حکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم"
یہ معاہده گویا اس بات کا اعلان تها کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکا ہے، وحشت و بربریت، ظلم وستم کی گهنگهور گهٹائیں پوری فضا کو گهیر چکی ہیں، وطنی آزادی اور مذهبی تشخص ان کے رحم و کرم پر ہوگی، ایسے بهیانک ماحول اور پرفتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے شاه عبدالعزیز دہلوی نے پوری جرأت و بیباکی کے ساتھ فتوی جاری کیاکہ
"ہندوستان دارالحرب ہے"
یعنی اب ملک غلام ہو چکا ہے، لہذا بلاتفریق مذہب و ملت ہر ہندوستانی پر انگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے، ان کےفتوی کی روشنی میں علماء کهڑے ہوئے، سید احمد شہید اور شاه اسماعیل شہید رحمهما الله آگے بڑهے، پورے ملک کا دوره کرکے قوم کو جگایا اور ان میں حریت کا جزبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگادی، اور 1831کو بالاکوٹ کی پہاڑی پر لڑ کر جام شہادت نوش کیا، دهیرے دهیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنےلگی، 1857 میں علماء نے پھر جہاد کا فتوی دیا جسکی وجہ سے انگیزوں کے خلاف معرکہ کا زار ایک بار پهر گرم ہوگیا، دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تهیں اور ہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بےشمار عیسائی مبلغین  (پادری ) کو بھی میدان میں اتار دیا تها، جسے انگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تهی، جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچار کرتے، اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکومت نے ہندو مسلم کا مذہب خراب کرنے کے لئے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کیلئے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈی کا براده ملا دیا ہے، کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوا دیا ہے، ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک ایسی آگ لگادی جس کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازمت کر رہے ہندوم  مسلم سب نے زبردست احتجاج کیا، کلکتہ سے احتجاج کی جو یہ چنگاری اٹهی تھی وہ دھیرے دھیرے انبالہ, لکھنئو, میرٹھ, مراداباد, اور سنمبھل وغیرہ تک پہنچتے پہنچتے شعلہ جوالہ بن گئی, احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور انکے ساتھیوں کو پھانسی  دے دی گئی، اور جہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت سے سخت کاروائی کی گئیں، احتجاجیوں کی بندوقیں چهین لی گئیں،  وردیاں پهاڑ دی گئیں، 1857 میں شاملی کے میدان  میں مرشد علماء حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی قیادت میں بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، اور حافظ ضامن شہید رحمھم اللہ وغیرھم نے انگریزوں سے مردانہ وار مقابلہ، وہی بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر آزادی کے دیوانوں نے دہلی کا رخ کیا اور پورے عزم و حوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اور مغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے، مگر انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئی، اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857 کو لال قلعہ پر باقاعده قبضہ کرلیا، اور سلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادرشاه ظفر کو گرفتار کر کے رنگون (برما) جلا وطن کردیا گیا، ستاون کی جنگ جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیاتها، اس جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم  وستم کی ایسی بجلیاں گرائی کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے، جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلم اور علماء تهے، اس لئے بدلہ بهی چن چن کر سب سےزیادہ انہیں سے لیا گیا، دہلی سے لاہور تک کوئی درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاش لٹکی ہوئی نہیں تھی،  چالیس ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کے
پھندے پر لٹکا دیاگیا تھا.
30/مئی 1866 کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور انکے ساتھیوں نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگےچل کر "دارالعلوم دیوبند"کے نام سے مشہور ہوا.
1878میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی جو آگے چل کر"شیخ الهند"کے لقب سے مشہور ہوئے.
"تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الهند" بزبان حکومت برٹش "ریشمی خطوط سازش کیس " انہیں کی پالیسی کاحصہ تهی،
" ثمرة التربیت " کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی جسکا مقصد انقلابی مجاهدين تیار کرنا تها، اور1911میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کلکتہ سے الهلال اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پهونکا تھا.
1915میں ریشمی رومال کی تحریک چلی، 1916میں ہندو مسلم اتحاد کی تحریک چلی، 1917 میں مہاتما گاندھی جی نے چمپارن میں ڈانڈی مارچ اور نمک ستیہ آگرہ تحریک چلائی اور 1919میں "جمعیۃالانصار" کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جسکے پہلے ناظم  مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے.
وہی1919میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی اجلاس میں باضابطہ "جمعیت علماء هند" کی تشکیل ہوئی  جسکے پہلے صدر مفتی محمد کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے.
1919میں ہی امرتسر کے جلیاں والا باغ کے ایک جلسے میں انگریزوں کی فائرنگ سے بے شمار ہندوستانی شہید ہوئے.
1920میں حضرت شیخ الهند نےترک موالات کا فتوی دیا جسے مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کر کےجمعیت کی طرف سے شائع کیا، 1921میں مولانا حسین احمد مدنی نے کراچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیاکہ "گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اور ملازمت حرام ہے"
1922میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے شدهی اور سنگهٹن تحریکیں شروع کیں جسکی وجہ سے بڑے پیمانہ پر ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پهوٹ پڑے،
1926میں کلکتہ میں جمعیت کے اجلاس میں جسکی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی نے کی مکمل آزادی کی قرار داد منظور ہوئی،
1935میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایا گیا 1942 میں انگریزوں ہندوستان چھوڑوں تحریک چلی, باالاخر برٹس سرکار گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی، اور 15 اگست 1947 کو ملک آزاد ہوگیا، لیکن آزادی کی صبح اپنےساتھ تقسیم وطن کاایک ناقابل فراموش سانحہ بھی ساتھ لائ ,
آج بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہےکہ جنکاجنگ آزادی میں کوئی رول نہیں, وطن کی تعمیرمیں کوئی کردارنہیں, بلکہ جنکے ہاتھ بابائےقوم مہاتما گاندھی جی کےقتل کے خون سے رنگا ہو, جسکی پیشانی پرمذہبی تقدس کوپامال کرنےکاکلنک لگاہواہو, اورجسکےسروں پرہزاروں فسا دات,لاکهوں بےقصورانسانوں کے قتل, اوراربوں کھربوں کے املا ک کونقصان پہونچانےکامعاملہ ہو, جسکےزبان سے صرف نفرت کی آگ برستی ہو , وہی مسلما نوں سے محب وطن ہونے کا ثبوت مانگ رہا ہے ,  مدارس اسلامیہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہےکہ وہ 26جنوری اور 15اگست کو قومی پرچم لہراکرمحب وطن ہونےکاثبوت پیش نہیں کرتے,سچائ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں15اگست 1947 سےہی بڑے ہی تزک واحتشام کےساتھ پرچم کشائ کی جاتی ہے اوراس باربھی 26جنوری کو ملک بهر کے مدارس میں پورے  جوش وخروش کےساته 67واں جشن جمہوریت منایا جائیگا,
یہ جشن جمہوریت ہم اس لئے  مناتے ہیں کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس ملک کو آزاد کرانے میں سب سےزیادہ ہماری ہی قربانیاں ہیں,
کاش کے26جنوری"یوم  جمہوریہ "کے جشن زریں کے موقع پرحکمرانوں کے ذریعہ آیئن کےتحفظ اور جمہوری اقدار کی بقاکومقدم رکھنے کاحلف لیاجاتااور اس پر عمل کیاجا تا,نفرت بھرے ماحول کو امن بھائ چارے سے بدلنےکی بات کی جاتی , مساویانہ آئینی حقوق کویقینی بنایاجاتا, ملک دشمن عناصر کوکیفر کردار تک پہونچانےمیں امتیازنہیں برتا جاتا,گنگاجمنی تہذیب کی لاج رکھی جاتی , اقلیتوں خصولا مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے والی زبانوں پر لگام لگایا جاتا,گئورکچھاکےنام پربےقصور مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتارنےوالےکوطوق سلاسل پہنایاجاتا,لوجہاداورگھرواپسی  کےنام پرآتنک کاراج قائم کرنےوالوں کو تختئہ دار تک پہونچایا جاتا,سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کے نعرہ کو سب کیلئے عملی جامہ پہنایا جاتا تو "یوم جمہوریہ" کے معماروں کوسچی خراج عقیدت ہوتی.
شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کایہ شعر ملا حظہ ہو:
                ـــــــــــعــــــــ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں  ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں  بیر رکھنا
ہندی ہے ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا