اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جیسی کرنی ویسی بھرنی...!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 26 April 2019

جیسی کرنی ویسی بھرنی...!

از قلم -: اجوداللہ پھولپوری
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج انسان جن پریشانیوں سے گزر رھا ھے وہ روز روشن کی طرح عیاں ھیں سب اپنی پریشانیوں میں الجھے ھوئے اپنے اپنے طریقہ سے سکون حاصل کرنے اور پریشانیوں کا حل ڈھونڈھنے میں خود کو لگائے بیٹھے ھیں کسی کو عزت و عظمت کی شکل میں سکون کی تلاش ھے تو کسی کو جاہ و مرتبہ کی صورت میں، کوئی سکون کی تلاش میں اعزہ و اقارب سے نالاں ھے تو کوئی امارت و حکومت کیلئے کوشاں غرضیکہ سب اپنے اپنے طور پر از خود مرض کی تشخیص کر اسکی دوا اور سکون تلاشنے میں سرگرداں ھیں کسی کو لگتا ھیکہ اصل سکون تو منصب یا عہدہ میں ھے لیکن جب وھی منصب کا حامل ھوجاتا ھے تو احساس کرتا ھیکہ یہ تو سکون سے خالی ھے بلکہ منصب کے چھن جانے کا خوف سکون کو اور غارت کرجاتا ھے .
کسی کو لگتا ھیکہ دولت کی ریل پیل ھی سکون کا اصل خزانہ ھے پر جب مالداروں کی زندگی کو قریب سے دیکھتا ھے تو احساس کرتا ھیکہ انکی زندگی تو تفکرات اور اندیشوں کی بحر بیکراں ھے ھل من مزید کی حرص اور مال موجودہ میں نقصان کے اندیشوں نے انکے چین و سکون کو غارت کر رکھا ھے الا ماشاءاللہ کسی نے دائمی نقصان کو گلے لگاکر رقص و سرور اور منشیات میں عارضی سکون تلاشنے کی کوشش کی پر سب اکارت غرضیکہ سب نے سکون کی منزل پانے کیلئے اپنی من چاھی سمت میں گھوڑ سواری کی پر سکون کی منزل ان سے کوسوں دور رھی اور کیونکر نہ ھو.؟
شریعت و سنت سے ھٹ کر سکون کی تلاش اور اسکا پالینا کسی بھی صورت ممکن نہیں سکون کا حصول اور مصیبتوں و پریشانیوں سے نجات کا واحد راستہ صرف اور صرف یہی ھیکہ بندہ اپنے آپ کو شریعت و سنت کے حوالہ کردے اور خود کو خطاوار و گنہگار سمجھتے ھوئے دربار الہی میں پیش کردے معصیتوں و گناھوں کو ترک کرتے ھوئے سابقہ غلطیوں پر ندامت کا اظہار کر اپنے رب کو راضی کرلے جائے بس یہی ایک راستہ ھے جو سکون کی منزل تک پہونچا سکتا ھے کیونکہ سکون و راحت تو رب کی ملکیت ھے جب وہ راضی ھوجائیگا تو اپنی ملکیت میں آپکی حصہ داری لگا دیگا
ھر صاحب علم و عقل اس بات سے اچھی طرح واقف ھے کہ کوئی بھی عمل خواہ وہ اچھا ھو یا برا اپنے اندر ایک اثر رکھتا ھے اور وہ اثر انسانی زندگیوں میں کافی دخیل ھوتا ھے پیش آنے والے حالات اچھے یا برے عمل کے رد عمل کو اپنے ساتھ سمیٹے ھوئے ھوتے ھیں آج ھر انسان پیش آمدہ واقعات کو صرف ظاھری سبب سے جوڑکر دیکھتا ھے جسکی وجہ سے وہ اسکا حل بھی ظاھری چیزوں میں تلاش کر رہ جاتا ھے بلا شبہ ظاھری اسباب پر غور و فکر کرکے پیش آمدہ واقعات سے خود کو بچانا ھم سب کی ذمہ داری ھے پر بحیثیت مسلمان ھمیں اس سے آگے بھی سوچنے سمجھنے کی ضرورت ھے اور اس یقین کو آگے لانے کی ضرورت ھے جو ھمیں بتلاتا ھیکہ دنیا کا کوئی پتہ بھی بغیر حکم الہی اور اذن خداوندی کے جنبش نہیں کرسکتا وحی الہی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احکام کو یاد کرنے کی ضرورت ھے جو ھمیں یقین دلاتا ھے کہ دنیا کا کوئی بھی خوبصورت واقعہ اور بدترین حادثہ بغیر رب کی مرضی کے واقع نہیں ھوسکتا...!
رب کریم کا حالات و واقعات کو انسانی احوال سے جوڑنا مصلحت ھی نہیں بلکہ دنیاء انسانی پر عظیم احسان بھی ھے اسلئے کہ خوشی و غمی فقیری و تونگری صحت و بیماری ایسی کیفیت ھوتی ھے جو انسان کو متنبہ کرتی ھے اور رجوع الی اللہ و خود محاسبی کی دعوت دیتی ھے
ماضی میں مختلف قوموں پر پیش آمدہ واقعات کا حاصل اور نچوڑ نکالا جائے تو حاصل نچوڑ پوری قوت سے اس بات کو واضح کرتا ھیکہ مالک الملک کی نافرمانی ھی وہ واحد عمل ھے جس نے قوموں کے لئے عذاب کو دعوت دی، قوموں کی صورتوں کا مسخ کیا جانا انہیں دریا و زمین برد کیا جانا یہ سب نافرمانیوں کا ھی نتیجہ ھے جسکی زبان حال سے شھادت دینے کو آج بھی موجودہ کھنڈرات موجود ھیں خود شریعت کاملہ نے بارھا انسانوں کو انکی بدعملیوں کے برے نتائج سے آگاہ کرتے ھوئے باز رھنے کی تلقین کی ھے مگر افسوس سکون کا متلاشی انسان اپنی حرکتوں سے باز آنے کو تیار نہیں جب کہ قرآن کا واضح اعلان ھے
”وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْمیٰ“․ (طہ:۱۲۴)

ترجمہ:”اور جو شخص میری نصیحت سے صرف نظر کرے گا تو اس کے لیے (دنیا و آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔“
آیت کا مطلب صاف اور واضح ھے جسکی زندگی نافرمانیوں کا محور اسکی دنیا بھی تنگ اور آخرت بھی، بھلے ھی اسکا ظاھر مال و دولت عزت و منصب سے ھی کیوں نہ سجا ھو اگر نافرمانی ھے تو وہ پریشانی کاسبب بنے گی فرمانبرداری اور اطاعت کو اپنی زندگی میں جگہ دو اور سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے چلے جاؤ

”وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)

ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں سے حاصل شدہ کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) کو تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“
آیت قرآنی صاف اشارہ کرتی ھیکہ مصیبت و پریشانی کی جڑ اور آفات و بلیات کے آنے کا سبب کچھ اور نہیں بلکہ ھمارے اپنے ھاتھوں سے کئے گئے اعمال کا ثمرہ ھے اگر برے اعمال نہ ھوں تو مصائب و آلام کا ھماری زندگی میں گزر بھی نہ ھو مصائب و آلام اپنی کسی بھی شکل میں ظاھر ھوسکتا ھے چاھے وہ عائلی جدل ھو یا بیماریوں کا حملہ سیاسی قیادت کا بحران ھو یا سیاست دانوں کی مار سب کا وجود نافرمانیوں کی رھین منت ھے
قرآن کریم نے جہاں غیر سکونی اور پریشانی کا سبب بیان کیا ھے وھیں اسنے اسکے حل کی طرف بھی رھنمائی کرتے ھوئے مشکل آسان فرمائی ھے قرآن کہتا ھے
”وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّةً إِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاََتتََوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ“․(ہود:۵۲)

ترجمہ:”اور اے میری قوم! تم اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ اور اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم پر خوب بارش برسائے گا او رتم کو قوّت دے کر تمہاری قوّت میں زیادتی کرے گا اور مجرم رہ کر اعراض مت کرو“۔

سوچ لیں آپکی پریشانیاں آپ پر ھویدا ھیں قرآن کریم کا دکھلایا نجات و سکون والا راستہ بھی آپکے سامنے ھے رمضان کریم جیسا برکتوں رحمتوں اور مغفرتوں کا مہینہ بھی آپکی دسترس میں ھے آنسؤں کا سیلاب آپکی پریشانیوں کو بہاکر آپ سے دور کرسکتا ھے اگر آپ کی آنکھیں سیلاب سے خالی ھیں تو بھی مسئلہ نہیں رب کے دربار میں ندامت کے چند قطرہ بھی سیل رواں کی مانند گناھوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لیجا سکتے ھیں چند قطرہ بھی نہ ھوں تو رونی صورت بنالیں بڑے مالک کا دربار ھے خالی واپس لوٹاکر مایوس نہیں کرینگے بس دامن پھیلانے کا سلیقہ سیکھ لیں گناھوں کے چھوڑنے کا ارادہ بنالیں اللہ تعالی ھم سبکو معاف کرے اور ھمیں دنیا و آخرت میں عزت والی زندگی نصیب فرمائے اور امت کی کھوئی ھوئی بہار رفتہ کو واپس لوٹائے ظالم حکمرانوں کو راہ ھدایت سے آشنا فرمائے اور انصاف پسندوں کو حکمرانی عطاء فرماکر ملک کو شاد و آباد رکھے
ایں دعاء از من و از جملہ جہاں آمین باد.!