اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تکبر و بڑکپن کی کہانی دلائل کی زبانی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Friday 26 April 2019

تکبر و بڑکپن کی کہانی دلائل کی زبانی!

ذیشان الہی منیر تیمی مانو کالج اورنگ آباد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
      تکبر،کبر، غرور، بڑکپن، گھمنڈ اور دیکھاوا یہ اور اس جیسے بہت سارے  الفاظ لغت میں ہیں جو بدنام الفاظ کے نام سے جانے جاتے ہیں کیونکہ ان میں سے کوئی ایک لفظ بھی انسان کی فکر و شعور پر حاوی ہوگیا تو اس شخص کی زندگی اس درخت کے مانند ہوجاتی ہے جو بظاہر تو تناور درخت ہوتا لیکن اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے اور آندھی آکر اسے "کانہ اعجاز نخل خاویۃ "کی عملی تصویر بنا دیتی ہے ۔
         تکبر اور بڑکپن کی تاریخ ابلیس لعین سے شروع ہوتی ہے جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو بنایا اور ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا(فاسجد لآدم) تب ابلیس کے اندر برکپن اور تکبر نے جنم لیا اور اس کے بعد اس نے جو کام کیا اس کو قرآن یو بیان کرتا ہے "فابی واستکبر و کان من الکافرین "کہ اس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا اور وجہ انکار قرآنی برہان کے مطابق یہ تھی "خلقتنی من نار "کہ اے اللہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا۔تو چونکہ آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایا تھا اس لئے ابلیس اپنی شخصیت کو اعلی و بالا سمجھا اور سجدہ سے انکار کیا ۔چنانچہ اس تکبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی نے ان کے سارے اعمال صالحہ کو نیست و نابود کردیا ۔
     ابلیس کی شخصیت سے ابتدا ہونے والی یہ صفت رفتار زمانہ کے ساتھ چلتی رہی کبھی اس کی وجہ کر طوفان نوح آتا ہے اور نوح علیہ السلام کا خود کا بیٹا اس میں اس صفت کی وجہ کر غرق ہوجاتا ہے تو کبھی نمرود، فرعون، شداد، ہامان اور قارون جسے بڑے بڑے تکبر و برکپن والی سلطنت کی اللہ نے اینٹ سے اینٹ بجادی ۔کبھی فصاحت و بلاغت کے ٹھیکداروں کو اپنی عربی زبان دانی پر تکبر و غرور ہوا تو اللہ نے "فاتوا بسورۃ من مثلہ "کہہ کر چیلنز کیا کہ اگر تمہیں اتنی عربی آتی ہے اور تمہیں عربی لسان و زبان کے اندر مہارت تامہ حاصل ہے تو تم قرآن جیسی ایک سورت ہی بنا کر دیکھا تو لیکن ان سقراط اور بقراط کے جھوٹے رشتہ داروں نے اپنی پوری صلاحیت صرف کردی مگر ایک آیت نہ بنا سکے تب قرآن نے ان کی فصاحت و بلاغت اور جھوٹی زبان دانی کا پول کھولتے اعلان کیا "قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتوابمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ و لو کان بعضھم لبعض ظھیرا "کہ اگر پورے انسان اور جن اس بات پر متفق ہوجائے کہ وہ قرآن جیسی کوئی کتاب لے آینگے مگر وہ پھر بھی نہیں لا سکتے گرچہ وہ ایک دوسرے کے حامی و مددگار کیوں نہ بن جائے ۔توکبھی ابوجہل اور ابولہب کی دردناک موت اور 313 کے مقابلہ میں 1000 کو رسواء اور ذلیل ہونے کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تکبر اور برکپن دراصل اس کینسر کی مرض ہے جو انسان کو لگ جائے تو اس کا رام رام ستیہ ہوجاتا ہے ۔
       تکبر اور بڑکپن کی دردناک تاریخ کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے باوجود آج کل ہمارے سماج و معاشرے میں بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جن میں سے کوئی اپنی دولت پے فخر کرتا ہے تو کوئی اپنی سلطنت پے  ۔کوئی اپنے علم پے فخر کرتا ہے تو کوئی اپنی فصاحت و بلاغت والی جھوٹی زبان پر  لیکن انہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ سب چیزیں ایک چھاؤں کی مانند ہے جس نے کسی سے کبھی بھی وفا نہیں کی کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے لوگ سمندر کی بھنور سے پیدا ہونے والی اس چھاگ کے مانند ہے جسے اللہ رب العالمین جب چاہتا ہے اسی بھنور میں ڈبو دیتا ہے ۔
اس لئے میں اس مضمون کے مد نظر  تمام قارئین سے کہنا چاہونگا کہ آپ اپنے دل و دماغ سے تکبر اور برکپن کا وائرس نکال دے کیونکہ عزت، شہرت، دولت ، سلطنت اور علم یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا اسے عنایت کرتا ہے ۔اس لئے آپ کبھی بھی اپنے آپ کو زیادہ عزت دار، زیادہ شہرت کا مالک، زیادہ فصیح و بلیغ، زیادہ لسان و زبان پر کنٹرول، زیادہ قابلیت و صلاحیت کا مالک جیسے تکبرانہ بات کہہ کر دوسروں کو نیچا دیکھانے کی کوشش نہ کرے ۔اگر آپ کے پاس یہ ساری چیزیں ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرے کہ انہوں نے آپ کو ایسی حسین و جمیل چیزوں سے نوازا اور اس کے بعد امت ،سماج و معاشرہ اور ملک و قوم کی صلاح و فلاح کے لئے کام کریں ۔اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں اور جب مل جائے جائے تو پھلدار درخت کی مانند بن جائے کیونکہ صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے یپمانہ ۔