اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: … اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday 29 April 2019

… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!

محمد سالم سریانوی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 آج بعد نماز عصر پر نم آنکھوں، شکستہ دلوں اور لرزہ بر اندام زبانوں کے ساتھ ہم نے ایک جنازہ کی نماز میں شرکت کی اور ایک نوجوان لڑکی کو منوں من مٹی میں دفن کردیا، کہنے کے لیے یہ عام معمول کی بات ہے، آئے دن موت واقع ہوتی رہتی ہے، لیکن آج میں جس جنازہ کا تذکرہ کررہا ہوں یہ عام اموات سے ہٹ کر ہے، یہ ایک ایسی موت ہے جس نے مجھے اور نہ جانے مجھ جیسے کتنے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس انداز سے اندر سے ہلا دیا کہ آنکھیں اشک بار ہوگئیں، زبان خاموش ہوگئی اور کلیجہ پھٹنے لگا ، یہ تو مجھ جیسے بے حس انسان کی کیفیت ہے جس کو صحیح معنوں میں الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا، گرچہ میں نے دل کی بات کی ترجمانی کے لیے اوپر چند گھسے پٹے الفاظ عاریت پر استعمال کرلیے ہیں، جب کہ یہ الفاظ حقیقت کی ترجمانی سے عاری ہیں، لیکن یہ واقعہ جس خاندان، باپ، ماں، بھائی، بہن اور شوہر کے ساتھ پیش آیا ہے ان کے دل کی ترجمانی ہر گز ہر گز میرے بس میں نہیں ہے، یہ میرے ذہن ودماغ کے بہت اوپر ہے، جس کی تہ اور حقیقت تک پہنچنا مجھ جیسے انسان سے نا ممکن لگ رہا ہے، بس میں نے اس کے ظاہر کی ترجمانی کے لیے عنوان میں ایک جملہ ’’… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!‘‘ کو استعمال کیا ہے، شاید اسی سے قارئین کچھ حقیقت کا ادراک کرسکیں۔
 مذکورہ دل خراش واقعہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ ہمارے محلہ کی ایک نوجوان لڑکی جس کی شادی ابھی جلد ہی ضلع بھدوہی میں ہوئی تھی، وہ امید سے تھی اور اِدھر کچھ وقت سے اپنے میکہ ہی میں تھی، کل ولادت کا وقت قریب ہوا تو قریب ہی کے ایک ہاسپیٹل میں بھائی اور ماں لے کر گئے، بحمد اللہ نارمل ولادت ہوئی اور اللہ نے اپنے فضل سے ایک صحت مند بچی سے نوازا، ولادت کے بعد نوجوان لڑکی یعنی ماں کی حالت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں تھی، ضعف ونقاہت کا اثر غالب تھا، مذکورہ اسپتال میں افاقہ نہیں ہوا، بل کہ مزید اضافہ ہوگیا تو ایک دوسرے اسپتال میں جو کہ ’’جِیَّن پور‘‘ میں ہے،( جس کے نام کا مجھے علم نہیں ہے ، اور یہ اسپتال ہمارے مبارک پور کٹرہ ڈاکٹر کامران کے ایک لڑکے چلاتے ہیں) میں لے گئے، وہاں لے جانے کے بعد جو کچھ ہوا بادل نا خواستہ اور دل کو تھام کر لکھ رہا ہوں، لے جانے کے بعد ڈاکٹر (قصاب نما انسان) نے علاج کے لیے ایڈمٹ کرلیا، لیکن چوں کہ مریضہ کی حالت نازک تھی اس لیے بھائی نے ڈاکٹر سے کہا کہ خون کی جانچ کر لیجئے، مجھے لگتا ہے کہ خون کی کمی ہے، تو اس پر ڈاکٹر نے ان کو ڈانٹ دپٹ کر چپ کرادیا اور کہا کہ ڈاکٹر میں ہوں، آپ نہیں، بہر حال ڈاکٹر نے علاج شروع کیا، اور اپنی مرضی سے خون کی جانچ کی تو معلوم ہوا کہ خون کی مقدار بہت کم ہے، فوری طور پر خون کی ضرورت ہے، اس پر مریضہ کے بھائی نے کہا کہ آپ میرا خون لے لیجئے اور مریضہ کو چڑھا دیجئے، ڈاکٹر نے کہا ’’پہلے پیسہ جمع کیجئے، اس کے بعد ہی کچھ ہوگا‘‘ ادھر بھائی اور ماں وغیرہ بہت پریشان، اس لیے کہ مریضہ کی حالت بگڑتی چلی جارہی تھی، بھائی نے کئی بار درخواست کی میرا خون چڑھا دیجئے، پیسہ ہم ادا کردیں گے، لیکن ڈاکٹر تیار نہیں ہوا، مجبورا بھائی والدہ کو لے کر گھر گئے اور پیسوں کا انتظام کرکے کے دوبارہ اسپتال پہنچے، وہاں پہنچ کر ڈاکٹر نے جو خبر دی اس کو کیسے بھائی اور ماں وغیرہ نے برداشت کیا وہ ان کو اور اللہ کو معلوم ہے، ڈاکٹر نے کہا کہ ’’مریضہ اب اس دنیا میں نہیں رہی‘‘  یعنی خون کی کمی اور فوری طور پر خون نہ چڑھانے کی وجہ سے مریضہ اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر دار باقی کی طرف چل بسی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، ہم اس دکھ اور درد کی گھڑی میں مرحومہ کی مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبر جمیل کے طلب گار ہیں۔
 اس موقع پر رک کر قارئین خود ہی غور کرلیں کہ یہاں ’’خدمت خلق‘‘ کا جذبہ رکھنے والے ایک انسان نما حیوان نے کیا ’’خدمت‘‘ انجام دی؟ کیا ایسے مواقع پر مال کی قیمت زیادہ ہے؟ کیا ایک شخص کی جان کو چند روپیوں کے عوض بدلا جاسکتا ہے؟ کیا ’’خدمت خلق‘‘ کا فریضہ ادا کرنے والوں کے پاس ’’انسانیت‘‘ بھی نہیں ہے؟ کیا وہ حیوانات سے بھی گیا گزرا ہوگیا ہے؟ بس یہیں پر رک کر ایک بار پھر سے عنوان ’’… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!‘‘ کو دہرا لیں کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے اور آج ترقی یافتہ اکیسویں صدی کس موڑ اور راہ سے گزر ہی ہے؟
 اب تک تو ایسے واقعات بڑے اسپتالوں کے بارے میں سنے تھے، جہاں فوری امداد سے پہلے اتنی خانہ پری ضروری کہی جاتی ہے کہ علاج تک پہنچتے پہنچتے بہت سے انسان اس دنیا کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، لیکن چھوٹے اسپتالوں کے بارے میں ایسے واقعات شاید ہی سننے میں آتے ہیں، وہ بھی ایک ایسا اسپتال جہاں پر بھائی خود بلڈ دے رہا ہے، ڈاکٹر بھی مسلمان اور مریضہ وغیرہ بھی مسلمان، اسی طرح علاقہ بھی ایک، لیکن ان سب سے بہت دور ایک گھٹیا ترین حرص ’’مال‘‘ نے ایک جیتی جاگتی لڑکی کی زندگی چھین لی اوراس کے ورے پورے خاندان بل کہ پورے علاقہ کو شرمندہ کردیا، اور اب یہ احساس ہونے  لگا کہ ’’… اور انسانیت بھی دفن ہوگئی!‘‘ ہے۔
 میں ایسے موقع پر ’’خدمت خلق‘‘ کے دعوے دار اطباء اور ڈاکٹرز سے کہوں گا کہ خدارا انسانیت کو چھوڑ کر بے جان مخلوقات کی فہرست میں مت جائیے، خدا کے لیے انسانیت کو دفن نہ کیجئے، بل کہ صحیح معنوں میں ایک انسان بن کر زندگی گزاریے، اور اس موقع اہل فکر ونظر، علم وعمل اور طاقت واثر سے لیس افراد سے بہت ہی عاجزی کے ساتھ درخواست کروں گا کہ وہ اس صورت حال سے نپٹنے کی کوئی صورت پیدا کریں، کم از کم انسانیت کو دفن ہونے سے بچالیں، ورنہ ہم کل قیامت کے دن خدائے جبار وقہار کو کیا منہ دکھائیں گے۔
 خدا سے دعا ہے کہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار میں جگہ عطا فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے۔ (آمین)
(تحریر: 22/ شعبان 1440ھ مطابق 29/ اپریل 2019ء دوشنبہ بعد نماز عشاء)