اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: ووٹنگ فیصد میں اضافہ این ڈی اے کیلئے خطرے کی گھنٹی!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 25 April 2019

ووٹنگ فیصد میں اضافہ این ڈی اے کیلئے خطرے کی گھنٹی!

حکیم نازش احتشام اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گزشتہ دومراحل میں ناقابل توقع حدتک ووٹنگ فیصد میں اضافے نے اس امید مزید تقویت بخشی ہے کہ آئندہ جتنے بھی مراحل بچے ہیں ان میں عوام الناس کا جوش وجذبہ برقرار رہے اور گزشتہ دونوں فیز کے مقابلے ووٹنگ فیصد میں مزید اضافہ ہوگا۔ووٹنگ فیصد میں ہونے والا یہ اضافہ اگر کسی کو سب سے زیادہ پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کررہا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے اتحاد میں شامل جماعتیں۔ بی جے پی اور این ڈی اے میں شامل جماعتیں اس کوشش میں تھیں کہ کسی طرح بھی ووٹنگ فیصد میں اضافہ نہ ہونے پائے ، اس کا مقصد یہ تھاکہ زعفرانی جماعت کا کیڈر ووٹ انتخاب میں ضرور حصہ لے گا جو اٹھائیس سے تیس فیصد کے درمیان ہے، جبکہ باقیماندہ 70فیصد رائے دہندگان اگر پولنگ بوتھوں پر کم تعداد میں پہنچتے ہیں تو اس سے اترپردیش میں سماجوادی اور بی ایس پی اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔ ایک تو بی جے پی کیڈر ووٹ بہر حال اس ملے گا ،
جبکہ باقیماندہ ووٹ کم پڑنے اور کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے ازخود بے معنی ہوکر رہ جائیں گے اور اسی کے نتیجے میں این ڈی اے اتحاد بالخصوص بی جے پی کو زبردست فائدہ پہنچے گا۔کم ووٹ پرسینٹ کے فاصلے سے ہی سہی مگر جیتنے والوں میں ان کے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوگی۔
یہ سارے سیاسی ہتکھنڈے اس لئے استعمال کئے جارہے تھے کہ بی جے پی گزشتہ عام انتخابات 2014 میں جن وعدوں اور عہدو پیمان کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ،اس میں سے آٹے میں نمک برابر وعدے بھی وفا نہیں ہوسکے۔ کہاں ملک بھر میں وزیر اعظم چیخ چیخ کر سالانہ دوکروڑ نوکریاں دینے اور سوئس بینکوں سے بلیک منی واپس لاکر ملک غریبوں کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے اور کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے کے وعدے کررہے تھے۔ اپنے ان پر فریب وعدوں کو ملک کے ایک ایک شہری کے کانوں تک پہنچانے کیلئے میڈیا کو خریدا گیا۔ جو بکے وہ مالا مال ہوگئے مثال میں آج ہم روبینہ لیاقت، انجنااوم کشیپ، سدھیر چودھری اور چترا تریپاٹھی کے املاک کی معلومات حاصل کرلیجئے، زی کے میڈیا کے مالک چندرا کو راجیہ سبھا میں ملی کرسی پر نگاہ ڈالئے ۔ وزیر اعظم کے انتہائی قریبی اور ان کی ریاست کے معروف کاروباری دنیابھرکے دولتیوں کی فہرست میں نمایا ں مکیش امبانی کے ذریعہ ای ٹی وی گروپ کو خریداجانا ،علاوہ ازیں گوتم اڈانی کے ہوائی جہاز سے ملک کے گوشے گوشے کا سفر کرنا ۔کیا یہ واقعات اس بات کی غمازی نہیں کرتے کہ گزشتہ عام انتخابات میں این ڈی اے کو اقتدار میں لانے اور نریندر دامودرداس مودی کو وزیر اعظم بنانے میں عوام سے زیادہ گجراتی ساہوکاروں اورصنعت کاروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔کیا کوئی ناقص العقل ہندوستانی بھی اس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ گجراتی بنیے اپنے ذاتی مفادات اور کاروباری فائدے کے وعدے کے بغیر نریندرمودی کو وزیر اعظم بنانے میں اس قدر دل چسپی کا مظاہرہ کرسکتے تھے؟
اس بار یہ بات بھی این ڈی اے کیخلاف جارہی ہے کہ ملک کے متوسط اور چھوٹے کاروباری حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے سخت مشکلات سے نبرد آزما ہیں اور بڑے صنعت کارو ں کوبخوبی اس کا احساس ہے کہ ان کے کاروبار کی چمک اور ترقی میں منجھولے درجے کے کاروباریوں اور تجارت پیشہ لوگوں کا کردار سب سے زیادہ ہے ، لہذا بڑے صنعت کار مثلاً ٹاٹا،بڑلا، ایسار، ریلائنس جیسے صنعتی اداروں کے ذمے داران یہ قطعی گوارا نہیں کرسکتے کہ بچولئے کاروباریوں کے مفادات کو نظر انداز کرکے وہ اپنی صنعتی ترقی کی رفتار کو برقراررکھ پائیں گے۔ یہی وجہ ہے گزشتہ عام انتخابات کے مقابلے اس بارصنعتی اور کارپوریٹ گھرانے انتخابی سرگرمیوں سے بہ ظاہر دوری بنائے ہوئے ہیں ،یہ صورت حال بی جے پی کیلئے مہیب خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔
انتخابات میں عام لوگوں کی دل چسپی اور ووٹنگ فیصد حیرت انگیز اضافہ این ڈی اے کیلئے نیک فال نہیں ہے۔بلکہ اب تو انتخابی سیاست کے ماہرین یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ آئندہ مراحل میں جن نشستوں انتخابات ہونے ہیں وہاں ووٹنگ کا فیصدسابقہ دونوں مرحلوں سے زیادہ ہوگااور ووٹنگ فیصد میں اضافہ ہی بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے ہمیں گزشتہ 2014میں ہونے والے عام انتخابات میں سامنے آنے ووٹنگ فیصد پر غور کرنا ہوگا۔ جن نشستوں پر بی جے پی جیت کا پرچم لہرا یا تھا وہاں امسال کے مقابلے پندرہ فیصد کم ووٹنگ ہوئی تھی ۔ساتھ مخالف جماعتیں متعددٹکڑوں بنٹی ہوئی تھیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ 29فیصد سالڈ ووٹ بی جے پی اور اس حلیف جماعتوں کو ملے، جب کہ باقیماندہ 71فیصد میں ووٹ دینے کی تعداد کم تھی اور وہ بھی کئی خانوں میں بنٹے ہوئے تھے۔نتیجہ کار اس کا بھرپور فائدہ این ڈی اے کو ملا اور بی جے پی تن تنہا 223سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی ، جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں ملا لیں تو مجموعی 357سیٹیں این ڈی اے کے حصے میں آئی تھیں، مگر اس وقت کے ووٹنگ فیصد اور اب کے ووٹنگ فیصد میں زمین آسمان کا فرق ہے اس مخالف سیکولر رائے دہندگان کثرت تعداد کے باوجود بد دل تھے اور ان کی بہت تھوڑی تعداد پولنگ بوتھوں تک پہنچ سکی تھی۔مگر اس بار ووٹنگ کا بڑھتا ہوا فیصد صاف اشارہ کررہا ہے کہ سیکولر رائے دہندگان کا پلڑا بھاری رہے گا اور وہ گزشتہ انتخابات کی طرح ٹکڑوں میں تقسیم بھی نہیں ہورہے ہیں۔گزشتہ 2014کے عام انتخابات میں جن سیٹوں پر بی جے پی بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی وہاں کے ووٹنگ فیصد پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہاں اس بار کے مقابلے کافی کم ووٹ پڑے تھے۔ووٹنگ کا بڑھتا ہوا فیصد اور مخالف دھڑے میں مضبوط اتحاد بھی بی جے پی کو ابھی سے ستانے لگاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ ترقی اور عوامی فلاح کے مدعوں پر کوئی بات نہیں کررہی ہے ، بلکہ ایک بار پھر اس نے دھرم کا چولہ پہن لیا ہے اور پولرائزیشن کی راہ پر چل نکلی ہے۔موجودہ حالات یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ عوام کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے این ڈی اے کے پاس اب کوئی قابل ذکر ایجنڈا بچاہی نہیں ہے۔ایم کے وینو نے بجا کہا ہے کہ موجودہ لوک سبھا انتخاب میں ایک چیز تیزی سے واضح ہوتی جا رہی ہے کہ یہ انتخاب ریاستی انتخابات کا گٹھ جوڑ بنتا جا رہا ہے، جہاں مقامی مدعے مؤثر ہیں۔ کسی طرح کا قومی مدعا اہم رول میں نہیں ہے، جس میں ہندو مسلم اور مندر،مسجد وغیرہ جیسے ایشوز بھی عوام کو متوجہ کرنے ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ انتخاب میں ایسی کوئی لہر یا مدعا نہیں ہے جو تمام 29 ریاستوں اور سات یونین ٹیریٹری ریاستوں میں مؤثر ہو۔2014 میں بڑی تعداد میں ریاستوں میں مودی کی حمایت اور کانگریس مخالف لہر دیکھی گئی تھی، جس وجہ سے بی جے پی نے لوک سبھا کی اوسطاً تقریباً 90 فیصدی سیٹیں جیتی تھی۔ ان ریاستوں میں اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، دہلی، اتراکھنڈ اور گجرات ہیں۔ بی جے پی نے اکیلے ان 11 ریاستوں میں 216 سیٹیں جیتی تھی،لیکن بی جے پی کی اس زبردست جیت کا اعادہ 2019 میں نہیں ہوگا، کیونکہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، جھارکھنڈ، بہار اور دہلی جیسی ریاستوں میں بی جے پی اپنی بنیاد کھو چکی ہے۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ بی جے پی ان گیارہ ریاستوں میں اوسطاً 50 سے 60 فیصدی سیٹیں بچانے میں کامیاب رہے گی تو پارٹی کو پھر بھی تقریباً 90 سے 100 سیٹوں کا نقصان ہوگا۔جبکہ اس کے برخلاف کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتوں کا پلڑا بھاری رہے گا۔