اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مذاکرہ بعنوان "بابری مسجد کا سبق "کا انعقاد!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday 29 November 2018

مذاکرہ بعنوان "بابری مسجد کا سبق "کا انعقاد!

کیرانہ(آئی این اے نیوز 29/نومبر 2018) القرآن اکیڈمی کیرانہ میں ایک مذاکرہ بعنوان "بابری مسجد کا سبق" منعقد کیا گیا، مذاکرہ میں اکیڈمی کے طلبہ نے شرکت کی، مذاکرہ کا آغاز زیر بحث موضوع کے اجتماعی مطالعہ سے ہوا، اجتماعی مطالعہ کے بعد مفتی اطھر شمسی ڈائرکٹر القرآن اکیڈمی کیرانہ نے متعلقہ موضوع کا تعارف کرایا، جس میں بابری  مسجد کے ایشو پر ہندو تنظیموں کی جانب سے 1984-1992 کے درمیان اٹھائی جانے والی رام مندر تحریک اور اس پر مسلمانوں کے رد عمل کا ایک تاریخی مطالعہ پیش کیا گیا، نیز اس خطاب میں حال ہی میں ایودھیا میں ہندو تنظیموں کی جانب سے  پیش آنے والے چیلنجز اور اس پر ہندوستانی مسلمانوں کے رد عمل کا جائزہ لیا گیا.
بعدہ شہزاد خطیب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 1984 - 1992 کے دوران ہندو تنظیموں کی جانب سے پیش آمدہ چیلنج کا جواب مسلمانوں کی جانب سے نہایت جذباتی انداز میں دیا گیا، نتیجہ یہ
ہوا کہ ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں بیش قیمتی جائیداد یں برباد ہوئیں اور مسلمانوں کی ترقی ایک طرفہ طور پر رک گئی، اس طرح دشمن اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا، گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے خالد بن سعود نے کہا کہ حال ہی میں  کچھ ہندو تنظیمیں رام مندر ایشو کو لیکر ایک بار پھر ایودھیا میں اکٹھا ہوئیں، انہوں نے ملک کے ماحول کو گرمانے کی کوشش کی، لیکن اس بار مسلمانوں نے آن کی بے معنی حرکتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا، نتیجہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جان و مال، آبرو اور ملک کا امن و امان محفوظ رہا.
 محمد عیسی نے کہا کہ دو واقعات کے اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہترین پالیسی وہ ہے جو ہندوستانی مسلمانوں نے اس بار اختیار کی.
اس موقع پر کاظم احمد نے بابری مسجد کی مختصر تاریخ بیان کی، ریحان مسرور نے کہا کہ میں مسلمانوں کو رویہ کی اس تبدیلی پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، خاور صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رویہ کی اس تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں میں بڑھتا ہوا تعلیمی شعور ہے، اکیڈمی کے تمام طلبہ غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پر پہنچے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا باوقار وجود ان کی منصوبہ بند خاموشی میں مضمر ہے نہ کہ ردعمل کی جذباتی ہنگامہ آرائی میں.